174. دیدار الٰہی کا بیان

【1】

دیدار الہٰی کا بیان

رؤیۃ اللہ یا دیدار الہٰی کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی یہ سعادت مومنین کو آخرت میں نصیب ہوگی جس کی تفصیل و وضاحت کے لئے یہ باب قائم کیا گیا اور اس موضوع سے متعلق احادیث اس میں نقل کی گئی ہیں۔ حق تعالیٰ کی رویت عقلا ناممکن نہیں اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ایک ایسی حقیقت ہے جس کا وجود عقلا بھی درست ہے اور اس دیدار کے لئے اللہ تعالیٰ کا کسی خاص جگہ (مقام پر اور کسی خاص سمت وجہت میں موجود وقائم ہونا نیز اس کی ذات کا اور دیکھنے والوں کا آمنے سامنے ہونا قطعی ضروری اور شرط کے درجہ کی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی ذات اور اپنے وجود کے اعتبار سے جو کچھ بھی ہے اسی حیثیت کے ساتھ اس کا دیکھا جانا ممکن ہے اگرچہ وہ جسم وجسمانیت سے مارواء اور مکان وجہت کی قید سے آزاد ہے۔ رہی یہ بات کہ چیز مرئی (یعنی کھلی آنکھوں سے نظر آنے والی چیز) کو دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ جسم ہو، کسی خاص جگہ ومقام پر موجود قائم ہو اور نگاہ کی سمت وجہت میں ہو تو دیکھنے میں ان چیزوں کا عمل دخل ہونا دراصل اس لئے ضروری ہے کہ قدرت نے اسی طرح کا نظام جاری فرمایا ہے اور انسانی نگاہ وبصر کو اپنا فعل انجام دینے کے لئے ان اسباب کا پابند بنادیا ہے، اگر قادر مطلق اس جاری نظام اور عادت کے برخلاف ان عوامل کے بغیر بھی کسی کو کوئی چیز دکھانا چاہے تو بیشک اس پر قادر ہے اور ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ پس اس میں کوئی خلاف عقل بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کل قیامت کے دن انسانی نگاہ میں بصیرت یعنی چشم قلب کی قوت رکھ دے کہ جس طرح آج دنیا میں اہل ایمان کو بصیرت سے پاتے اور دیکھتے ہیں کل کو آخرت میں بصر یعنی سر کی آنکھوں سے اس کو دیکھیں گے۔ رؤیت کا تعلق آخرت سے ہے تمام علماء امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حق تعالیٰ کا یہ دیدار تمام اہل ایمان کو آخرت میں نصیب ہوگا اس کا ثبوت وہ قرآنی آیات، احادیث صحیحہ، اجماع صحابہ وتابعین اور اقوال ائمہ جو اس ضمن میں مذکور و منقول ہیں تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق تعالیٰ کے اس دیدار کے منکر ہیں انہوں نے دیدار الہٰی سے متعلق قرآنی آیات و احادیث اور منقول دلیل کی جس طرح تاویل کی ہے، اس کی تفصیل اور علماء حق کی طرف سے ان کی تاویلات کے مضبوط جوابات مختلف تحقیقی کتابوں میں مذکور ہیں۔ عورتیں بھی روایت سے محروم نہ رہیں گی عورتوں کے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ ان کو دیدار ہوگا اور بعض انکار کرتے ہیں لیکن درست یہ ہے کہ عورتیں اس سعادت سے محروم نہ رہیں گی مردوں کی طرح ان کو بھی حق تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ ان (عورتوں) کو بعض خاص ایام میں جیسے جمعہ کے ایام میں یا عیدین کے دن ہی دیدار کی سعادت ملے گی جو عام بازیابی کے اوقات ہونگے۔ جو حضرات مطلقاً عورتوں کے دیدار کے منکر ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ عورتیں چونکہ خیموں میں پردہ نشین ہوں گی جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے حور مقصورات فی الخیام لہٰذا ان کو دیدار کیسے ہوسکتا ہے، یہ ایک ناقابل التفات بات ہے کیونکہ اول تو دیدار الہٰی کے بارے میں جو آیات و احادیث منقول ہیں ان میں کوئی خصوص مذکور نہیں ہے بلکہ وہ سب عموم پر محمول ہیں اور مردوں اور عورتوں سب کو شامل ہیں دوسرے یہ کہ عالم آخرت کو دنیا میں قیاس کرنا اور وہاں عورتوں کے خیمے میں رہنے کو دنیا کے پردہ پر منطبق کرنا بجائے خود غلط ہے کیونکہ جنت کے خیمے (کہ جن میں وہاں کی عورتیں رہیں گی) پردہ و حجاب کو مستلزم نہیں ہوں گے، علاوہ ازیں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ فاطمہ زہراء، خدیجہ کبری، عائشہ صدیقہ (رض) اور دوسری امہات المومنین نیز ان جیسی دیگر عظیم خواتین جو لاکھوں کروڑوں مردوں سے زیادہ عظمت و فضیلت رکھتی ہیں آخر کس طرح دیدار الہٰی کی سب سے بڑی سعادت سے محروم رہ سکتی ہیں۔ جنات اور ملائکہ کو بھی اللہ کی رویت حاصل ہوگی جنات اور ملائکہ کے بارے میں بھی اختلافی اقوال ہیں کہ آیا ان کو دیدار الہٰی نصیب ہوگا یا نہیں ؟ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے علاوہ دیگر فرشتوں کو اللہ کے دیدار کی سعادت حاصل نہیں ہوگی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) بھی اس سعادت سے ایک ہی بار مشرف ہوں گے اور اسی طرح جنات بھی دیدار الہٰی سے محروم رہیں گے لیکن اس سلسلہ میں صحیح و درست قول یہی ہے کہ دیدار الہٰی کی سعادت تمام اہل ایمان کے لئے ہے کیا انسان کیا فرشتے اور کیا جنات۔ دنیا میں اللہ کی رویت یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے کہ کیا اس دنیا میں بحالت بیداری کھلی آنکھوں سے اللہ کا دیدار ہوسکتا ہے ؟ اس سلسلہ میں ارباب تحقیق نے اس قول کو اختیار کیا ہے کہ حق تعالیٰ کا دیدار دنیا میں بھی ممکن تو ہے لیکن بالاتفاق غیر واقع ہے، رہی یہ بات کہ آنحضرت ﷺ کو شب معراج میں اللہ کا دیدار ہونا امر واقع ہے تو یہ استثنائی صورت ہے اگرچہ بعض حضرات نے اس سے اختلاف کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو شب معراج میں بچشم سر اللہ کا دیدار ہوا تھا یہ ایک بحث ہے جو آگے متعلقہ احادیث کی تشریح میں بیان ہوگی، بہر حال محدثین فقہاء متکلین اور مشائخ طریقت سب اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ نہ آج تک اس دنیا میں کسی کو بھی، خواہ وہ کوئی بڑے سے بڑا ولی ہی کیوں نہ ہو، اللہ کا دیدار حاصل ہوا ہے نہ اولیاء اللہ اور مشائخ میں سے کسی نے اس کا دعوی کیا ہے اور نہ آئندہ کسی کو حاصل ہوسکتا ہے، بلکہ مشائخ نے متفقہ طور پر یہاں تک کرتے ہیں) تو اس کی تکذیب کرنا اور اس کو گمراہ قرار دینا لازم ہے۔ فقہ شافعی کی مستند کتاب انوار میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ میں اس دنیا میں بچشم سر عیاناً خدا کو دیکھتا ہوں اور اللہ مجھ سے بالمشافہ گفتگو کرتا ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت ممکن ہے اور انسانی حاسہ بصر میں ایسا کوئی نقص بھی نہیں کہ کسی چیز کو دیکھنے میں رکاوٹ پیش آئے تو پھر حق تعالیٰ کے دیدار نہ ہونے کا سبب کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ دیکھنا اور نظر آنا دراصل نظام قدرت اور تخلیق الہٰی کا سبب ہے نہ کہ اس کی اصل علت اور حاسہ بصر ہے جو انسان اپنی آنکھوں میں لئے پھرتا ہے۔ حاسہ بصر تو صرف ایسا ظاہری سبب ہے جس کو حق تعالیٰ نے ایک خاص نظام اور معمول کے تحت ذریعہ بنادیا ہے اگر وہ کسی کو دیکھنا چاہے تو آنکھوں کی بنیائی کے بغیر بھی دکھا سکتا ہے اور اگر کسی کو نہ دکھانا چاہے تو وہ کھلی آنکھ اور مضبوط بنیائی رکھنے کے باوجود نہیں دیکھ سکتا مثلا ایک بڑا پہاڑ سامنے ہو اور اللہ کسی کی آنکھوں میں دیکھنے کی صفت پیدا نہ کرے تو وہ اس پہاڑ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتا اسی طرح اگر کوئی اندھا شخص دنیا کے مشرقی کنارے پر ہو اور دنیا کے مغربی کنارے پر ایک مچھر پڑا ہو اور اللہ تعالیٰ اس اندھے کو وہ مچھر دکھانا چاہے تو یہ یقینا دیکھ سکتا ہے پس واضع ہوا کہ دیکھنا یا دکھانا نظام قدرت کے تحت ہے آنکھ کا عمل یا غیر عمل بیشک ہے لیکن آنکھ کا وہ عمل یا اس عمل کی وہ طاقت جس سے انسان دیکھنے پر قادر ہوتا ہے غیر محدود اور خود مختار نہیں ہے بلکہ اس کی کارکردگی اس حدتک ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اس کو کارگر کیا ہے حق تعالیٰ کی مصلحت چونکہ یہی ہے کہ وہ انسان کو دنیا میں اپنا دیدار نہ کرائے اس لئے اس نے حاسہ بصر میں وہ توانائی ہی نہیں رکھی جس سے اللہ کو دیکھا جاسکے۔ اس بات کو دنیا کی عام چیزوں پر قیاس کرنا ذہن و قیاس کی مہمل تابعداری ہے۔ خواب کی حالت میں اللہ کی رویت کیا خواب کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوسکتا ہے اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ خواب کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ صرف ممکن امر واقع بھی ہے اور یہ از روئے عقل ونقل کچھ بعید بھی نہیں ہے ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ایک قلبی مشاہدہ ہے جس کا تعلق مثال سے ہوتا ہے نہ کہ مثل سے اور اللہ کا مثل نہیں ہے۔ بہرحال بحالت خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا اللہ رسیدہ لوگوں سے ثابت ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا ہے۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل (رح) سے بھی منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے، میں نے خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو دریافت کیا کہ وہ کون سا عمل ہے جو آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے ؟ فرمایا تلاوت قرآن کریم۔ پھر پوچھا کہ معانی ومطالب سمجھنے کے ساتھ یا اس کے بغیر ! فرمایا خواہ معانی سمجھنے کے ساتھ تلاوت کرے یا اس کے بغیر ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کی رویت ہوسکتی ہے۔

【2】

کھلی آنکھوں سے اللہ کا دیدار :

اور حضرت جریربن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ وقت آنے والا ہے جب (قیامت میں) تم اپنے پروردگار کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھو گے۔ ایک روایت میں ہے حضرت جریر (رض) نے یہ بیان کیا کہ (ایک دن) ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ ﷺ نے چودھویں شب کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا تم اپنے پروردگار کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اس (پروردگار کو دیکھنے میں تم کوئی رکاوٹ اور پریشانی محسوس نہیں کرو گے پس اگر تم سے ہو سکے تو تم اس نماز کو جو سورج نکلنے سے پہلے کی ہے (یعنی نماز فجر) اور اس نماز کو جو سورج ڈوبنے سے پہلے کی ہے (یعنی عصر) نہ چھوڑو تو یقینا ایسا کرو پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَسَبِّ حْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ ) 50 ۔ ق 39) اور اپنے پروردگار کی حمد وپا کی بیان کرو یعنی نماز پڑھو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے۔ (بخاری ومسلم) تشریح جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ یہ تشبیہ دیکھنے کی دیکھنے کے ساتھ ہے نہ کہ دیکھی جانے والی چیز کی دیکھی جانے والی چیز کے ساتھ اس جمال وابہام کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ تم اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح چاند کو دیکھ رہے ہو تو اس سے آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ تم جس طرح اس وقت چودھویں شب کے چاند کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور اس چاند کے نظر آنے میں تمہیں کوئی شک وشبہ نہیں یہ مراد ہرگز نہیں تھی کہ جس طرح یہ چاند تمہارے سامنے ہے اور ایک خاص جگہ پر اور ایک خاص سمت میں محدود وقائم نظر آرہا ہے اسی طرح تمہارے پروردگار کی ذات بھی تمہارے سامنے کسی خاص جگہ اور کسی خاص سمت میں محدود وقائم نظر آئے گی۔ لاتضامون فی رویۃ (اس کو دیکھنے میں تم کوئی رکاوٹ و پریشانی محسوس نہیں کروگے ) میں لفظ تضامون اس طرح بھی منقول ہے اور تضامون بھی نقل کیا گیا ہے لیکن زیادہ تضامون ہی نقل ہوا ہے اور اس صورت یہ لفظ ضم سے ہوگا جس کے معنی ضرر اور ظلم کے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پروردگار کے دیدار میں تم پر ظلم نہیں ہوگا کہ کوئی دیکھے اور کوئی محروم رہے یا اس کے دیدار میں تم آپس میں ایک دوسرے پر کوئی ظلم و زیادتی نہیں کروگے کہ ایک دوسرے کے دیکھنے کا انکار کرو اور کسی کو جھٹلاؤ۔ دوسری صورت میں یہ لفظ تضام سے ہوگا جس کے معنی ہیں آپس میں ایک دوسرے سے ملنا، اژدہام کرنے، دھکا پیل مچانے اور ایک دوسرے پر گرنے پڑنے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ ہر شخص اپنی اپنی جگہ رہ کر نہایت اطمینان و فراغت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھے گا جیسا کہ چودھویں شب میں چمکتے چاند کو دیکھنے کے لئے اس طرح کی زحمت و پریشانی اٹھانا نہیں پڑتی، بخلاف پہلی تاریخ کے چاند کے، وہ دھندلا اور باریک ہونے کی وجہ سے صاف نظر نہیں آتا اور اس کے دیکھنے کے لئے خاصا اہتمام اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ اگر تم سے ہو سکے کہ تم اس نماز کو…۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ فجر اور عصر کا وقت بہت بابرکت اور اس وقت کی نمازیں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اس لئے تم ان نمازوں کی پابندی کا زیادہ خیال رکھو اور مقدور بھر کوشش کرو کہ یہ نمازیں فوت نہ ہونے پائیں، نیز اس بات کو ذہن میں رکھو کہ نماز کی پابندی کرنے والا اس امر کا زیادہ لائق ہے کہ اس کو پروردگار کا دیدار نصیب ہو کیونکہ نماز کی پابندی ہی سے شہود ذات کا وصف ومل کہ میسر ہوتا ہے ! یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی جعلت قرۃ عینی فی الصلوۃ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے) میں اشارہ فرمایا ہے واضح رہے کہ یوں تو یہ اہمیت تمام نمازوں کی ہیں لیکن اس موقع پر فجر وعصر کی نماز کو اس لئے خاص کیا گیا ہے کہ ان دونوں وقتوں کی نمازیں باقی اوقات کی نمازوں پر فضیلت و برتری رکھتی ہیں اور اس فضیلت و برتری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ صبح کے وقت تو لوگ نیند واستراحت کے جال میں پھنسے رہتے ہیں اور عصر کا وقت دنیا کے کاروبار مثلاً بازار جانے وغیرہ کے چکر میں پھنسنے کا ہے، جو شخص ان دونوں اوقات میں سستی و کوتاہی کا شکار نہیں ہوگا اور روکاوٹوں کے باوجود ان دونوں نمازوں کا خیال رکھے گا وہ دوسرے اوقات کی نمازوں کا خیال بدرجہ اولیٰ رکھے گا جو نسبتا زیادہ سہل وآسان ہیں حدیث میں دونوں اوقات کی نمازوں کو خاص طور پر ذکر کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ دونوں وقت دوسرے اوقات کی بہ نسبت زیادہ فضیلت وشرف رکھتے ہیں اور یہ کہ آخرت میں پروردگار کا دیدار ان ہی اوقات میں ہوا کرے گا۔

【3】

دیدار الہٰی سب سے بڑی نعمت :

اور حضرت صہیب (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب تمام جنتی جنت میں (اپنی اپنی جگہ) پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ (جو کچھ تمہیں عطا کیا جا چکا ہے) اس سے زیادہ کچھ اور تم مجھ سے چاہتے ہو ؟ ، جنتی ( یہ سن کر) عرض کریں گے کہ (پروردگار) کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن ومنور نہیں کیا، کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا، کیا آپ نے ہمیں دوزخ کی آگ سے نجات نہیں دی (اتنی بڑی بڑی نعمتوں سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہوسکتی ہے جو ہم آپ سے مزید چاہیں ؟ ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا تب حجاب اٹھا دیا جائے گا اور جنتی ذات اقدس تعالیٰ کی طرف دیکھیں گے (جوصورت وجسم اور جہت ومقام کی قیودوشرائط سے پاک منزہ ہے) اور (اس وقت معلوم ہوگا کہ اہل جنت کو ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی جو پروردگار کی طرف ان کے دیکھنے سے زیادہ بہتر پسندیدہ ہو پھر آنحضرت ﷺ نے یہ آیت پڑھی (لِلَّذِيْنَ اَحْسَ نُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ) 10 ۔ یونس 26) تشریح تب حجاب اٹھا دیا جائے گا کے سلسلہ میں واضح رہے کہ حجاب کا اٹھنا اہل جنت کو حیرانی وتعجب سے نکالنے کے لئے ہوگا یعنی اس وقت جنتی اس حیرانی وتعجب میں ہوں گے کہ آخر اب کون سی نعمت رہ گئی ہے جو حق تعالیٰ ہمیں عطا کرنا چاہتا ہے تب حق تعالیٰ اپنے دیدار کے ذریعہ گویا یہ فرمائے گا کہ دیکھو یہ ہے وہ نعمت عظمی جو میں تمہیں عطا کرنا چاہتا تھا اور یہ نعمت تمہارے اصل بدلہ وجزاء سے زیادہ ہے حق تعالیٰ کی ذات حجاب وپردہ سے پاک ومنزہ ہے، ایسا نہیں ہے کہ (نعوذ باللہ) وہ پردے میں چھپا ہوا ہے اور جنتیوں کو دیدار کے وقت گویا اس کی نقاب کشائی ہوگی ظاہر ہے وہ محبوب ہے نہ کہ محجوب وہ غالب مطلق ہے نہ کہ زیر حجاب مغلوب، حجاب اٹھا دیا جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں سے وہ حجاب ہٹ جائے گا تو وہ اپنے پروردگار کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ اس کی تائید خود حدیث کے آگے کے جملہ اور جنتی ذات اقدس کی طرف دیکھیں گے سے ہوتی ہے۔ اور اہل جنت کو ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی۔۔۔۔ الخ۔ کے ذریعہ ایک ایسی حقیقت کا اظہار مقصود ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کیونکہ جس طرح اس دنیا میں حاصل ہونے والے تمام ذاتی و روحانی مراتب و درجات کی رفعت اور بلندیاں ذات باری تعالیٰ پر جا کر ختم ہوگئی ہیں اسی طرح آخرت میں حاصل ہونے والی تمام نعمتوں اور سعادتوں کا منتہا ذات اقدس تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔

【4】

اہل جنت کے مراتب

حضرت ابن عمر (رض) کہتے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنتیوں میں قدر و مرتبہ کے اعتبار سے ادنیٰ شخص وہ ہوگا جو اپنے باغات، اپنی عورتوں، اپنی نعمتوں اپنے خدمت گاروں اور اپنے (بیٹھنے واستراحت کرنے کے) تخت وکرسی پر نظر رکھے گا جو ایک ہزار برس کی مسافت کے بقدر رقبہ میں پھیلے ہوئے ہوں گے (یعنی جنت کی لامحدود وسعت میں وہ ادنیٰ مرتبہ کا شخص بھی اس قدر نوازا جائے گا کہ اس کی ملکیت و تسلط کی چیزیں ایک ہزار برس کی مسافت کے بقدر وسیع رقبہ میں پھیلی ہوئی ہوں گی اور وہ اپنی چیزوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہے گا) اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑے مرتبہ وقدر کا شخص وہ ہوگا جو صبح وشام اپنے پروردگار کی ذات اقدس کے دیدار کی سعادت و صحبت حاصل کرے گا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وُجُوْهٌ يَّوْمَى ِذٍ نَّاضِرَةٌ 22 اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ 23) 75 ۔ القیامۃ 23-22) (بہت سے چہرے اس دن اپنے پروردگار کے دیدار سے تروتازہ اور خوش وخرم ہوں گے۔ (ترمذی) تشریح جو صبح وشام اپنے پروردگار۔۔۔۔۔۔ الخ۔ سے واضح ہوا کہ جنت میں پروردگار کا دیدار صبح وشام کے وقت نصیب ہوا کرے گا، اسی لئے حکم دیا گیا ہے کہ فجر اور عصر کی نمازوں پر مداومت اختیار کرو اور پابندی کے ساتھ ان نمازوں کو پڑھا کرو تاکہ جنت میں ان اوقات میں پروردگار کے دیدار کی سعادت کے حقدار بن سکو۔ صبح وشام پروردگار کے دیدار کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑے مرتبہ وقدر کا شخص وہ ہوگا جو صبح وشام یعنی دن ورات میں ہر وقت پروردگار کی زیارت سے مشرف ہوتا رہے گا، لیکن یہ مطلب زیادہ صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اگر بلند مرتبہ جنتی ہر وقت پروردگار کے دیدار ہی میں رہیں تو پھر جنت وآخرت کی وہ تمام نعمتوں سے بہرہ مند ہونا ان کے لئے ممکن نہیں ہوگا حالانکہ وہ نعمتیں انہی جنتیوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں ! بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندے کی اصل بڑائی اور بلند ہمتی یہی ہے کہ نگاہ ودل کا اصل مرکز ماسوائے حق کے کسی اور چیز کو نہ بنائے، ساری توجہ اور نظر حق تعالیٰ ہی کی طرف رکھے، اس کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی توجہ والتفات رکھنا پست ہمتی کی دلیل ہے۔

【5】

دیدار الہٰی میں کسی طرح کی مزاحمت نہیں ہوگی :

حضرت ابورزین عقیلی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا (قیامت کے دن) ہم میں سے ہر شخص بلامزاحمت غیر تنہا اپنے پروردگار کو دیکھے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ابورزین کہتے ہیں کہ پھر میں نے پوچھا کہ کیا پروردگار کی دنیاوی مخلوق میں اس کی کوئی مثال ہے فرمایا ابورزین ! کیا تم میں سے ہر شخص چودھویں شب میں چاند کو بلامزاحمت غیر تنہا نہیں دیکھتا ! ؟ میں نے عرض کیا کہ بیشک دیکھتا ہے فرمایا ! چاند تو اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ پروردگار کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے اور پروردگار بہت بزرگ و برتر ہے یعنی جب چاند کو جو پروردگار کی ایک مخلوق ہے، ہر شخص بلامزاحمت و رکاوٹ دیکھ سکتا ہے تو جب بزرگ و برتر اپنا دیدار کرانا چاہے گا، اس کو ہر شخص بلا مزاحمت و رکاوٹ کیوں نہ دیکھ سکے گا۔ (ابوداؤد)

【6】

شب معراج میں آنحضرت ﷺ کو دیدار الہٰی :

حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ نے شب معراج میں) اپنے پروردگار کو دیکھا ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ! پروردگار تو ایک نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ (مسلم) تشریح پروردگار تو ایک نور ہے۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات، جسم ومکان کی قیود سے ماوراء ایسا نور عظیم ہے جس کی نورانیت کا کمال اور جس کے ظہور کی شدت نہ انسان کے ادراک میں آسکتی ہے اور نہ نگاہ وبصر کو اتنی تاب کہ اس کی خیرہ کردینے والی تجلیات کے سامنے ٹھہر سکے واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو خود قرآن کریم نور سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا ارشاد ہوا اللہ نور السموت والارض۔ (اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے) یعنی کائنات میں ہر طرف اسی تجلیات کا ظہور ہے اور جو چیز نظر آتی ہے اسی کی روشنی کی بدولت نظر آتی ہے نیز جو چیزیں زمین و آسمان کو روشنی بہم پہنچاتی ہیں جسے سورج، چاند اور ستارے وغیرہ وہ سب اسی کی روشن کی ہوئی ہیں یا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا نور ہدایت ہے اور زمین پر بسنے والوں اور آسمان میں رہنے والوں ہر ایک کو وہی ہدایت کرنے والا ہے اور اسی کا نور ہدایت بندوں کے دلوں و دماغ کو روشن کرنے والا ہے، نیز پروردگار کے ناموں میں سے ایک نام نور بھی ہے یعنی وہ خود بھی ظاہر و روشن ہے اور دوسروں کو ظاہر روشن کرنے والا ہے۔ نور انی اراہ میں لفظ انی کتاب کے اکثر نسخوں میں الف کے زبر اور نون کی تشدید کے ساتھ ہی منقول ہے اور اسی کے اعتبار سے یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ اللہ تو ایک نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ لیکن بعض نسخوں میں نور اور انی الگ الگ لفظ کے بجائے ایک ہی لفظ یعنی نور انی منقول ہے (جس میں ی مشدد نسبت کے لئے ہیں اور الف اور نون زائد مبالغہ کے لئے ہیں) اس صورت میں اراہ کا لفظ اظنہ کا مفہوم ادا کرے گا اور رویۃ بمعنی رائے سے مشتق سمجھا جائے گا اور قال نورانی اراہ کا یہ ترجمہ ہوگا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں اس (پروردگار کو نورانی گمان کرتا ہوں۔ پس لفظ اراہ کو اگر الف کے پیش کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی کے اعتبار سے زیادہ مناسب وموزوں ہوگا۔ ابن مالک نے اس حدیث کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھایا نہیں ؟ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو شب معراج میں کھلی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوا ہے اور جو حضرات اس کا انکار کرتے ہیں دونوں ہی فریق الفاظ روایت کے مذکورہ بالا اختلاف کے سبب اس حدیث کو اپنی اپنی دلیل قرار دیتے ہیں کیونکہ اگر نور انی اراہ کی روایت کو سامنے رکھا جائے تو اس جملہ کے، استفہام بطریق انکار کے اسلوب کے پیش نظر اس عبارت کا مطلب یہ ہوگا کہ پروردگار کی ذات چونکہ نور محض ہے اور کوئی انسانی آنکھ اس کی طرف نظر اٹھانے پر قادر ہی نہیں ہوسکتی اس لئے میں کہتا ہوں کہ میں نے معراج کی رات میں اپنے پروردگار کو نہیں دیکھا ہے لیکن اگر نورانی اراہ کی روایت کو دیکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے معراج کی رات میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے البتہ یہ کہا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ نے یہ بات کہنے کے لئے حکایت ماضی صیغہ حال کا اسلوب اختیار فرمایا۔

【7】

آنحضرت ﷺ کو دیدار الہٰی سے متعلق ایک آیت کی تفسیر

اور حضرت ابن عباس اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى 11 اَفَتُمٰرُوْنَه عَلٰي مَا يَرٰى 12 وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى 13) 53 ۔ النجم 13-12-11) (ترجمہ اور محمد ﷺ کے دل نے محمد ﷺ سے غلط نہیں کہا اس چیز کی بابت جو انہوں نے آنکھوں سے دیکھی یعنی ذات اقدس تعالیٰ کو اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پروردگار کو ایک مرتبہ اور دیکھا کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے پروردگار کو دل کی آنکھوں سے ہر مرتبہ دیکھا۔ (مسلم) اور ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے (مذکورہ آیت کی تفسیر میں) کہا محمد ﷺ نے اپنے پروردگار کو دیکھا۔ حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ (میں نے یہ سن کر اپنا اشکال ظاہر کیا اور) حضرت ابن عباس (رض) سے کہا کہ (قرآن کریم میں اپنی ذات کے بارے میں) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ لاتدر کہ الابصار وہو یدرک الابصار (پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ ) حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت عکرمہ (رض) کے اس اشکال کے جواب میں) کہا کہ تم پر افسوس ہے (کہ تم بات نہیں سمجھ سکے، حقیقت یہ کہ) یہ (مفہوم جو تم نے اس آیت کے ذریعہ پیش کیا ہے) اس وقت کے لئے ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص تجلی ظاہر فرمائے اور اپنے اس نور کے ساتھ ظاہر ہو جو اس کی ذات خاص کا نور ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے آپنے پروردگار کو دو مرتبہ دیکھا۔ تشریح اس روایت میں حضرت ابن عباس (رض) سے جن آیتوں کی تفسیر و وضاحت منقول ہے کہ سورت نجم کی ابتدائی آیتوں میں سے ہیں اور مفسریں کے ہاں ان آیتوں کے بارے میں خاص اختلاف ہے کہ ان کا مدلول ومحمول کیا ہے۔ صحابہ وتابعین اور آئمہ مفسرین میں سے ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ سورت نجم کی ان آیتوں میں درحقیقت اس بات کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے ایک مرتبہ تو نبوت کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مکہ میں اور دوسری شب معراج میں سدرۃ المنتہی کے پاس۔ اس کے برخلاف صحابہ وتابعین اور آئمہ مفسرین کی دوسری جماعت کا، جن میں حضرت ابن عباس کا نام نامی سرفہرست ہے، یہ کہنا ہم کہ ان آیات میں واقعہ معراج کا بیان اور آنحضرت ﷺ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر ہے۔ آنحضرت ﷺ نے پروردگار کو دل سے دو مرتبہ دیکھا۔ یعنی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے قلب میں میں بینائی کی بھی وہ طاقت ودیعت فرمائی جو آنکھ میں ہوتی ہے اور آپ ﷺ کی آنکھوں کو ادراک کی بھی وہ طاقت عطا فرمائی جو قلب میں ہوتی ہے، پس یہ کہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے پروردگار کو بچشم قلب دیکھا یا یہ کہ بچشم سر دیکھا، دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یہ مطلب اس لئے اختیار کیا گیا، تاکہ جو حضرات جیسے حضرت ابن عباس وغیرہ) یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں پروردگار کو بچشم سر دیکھا ہے اور حضرات یہ کہتے ہیں کہ بچشم قلب دیکھا ہے، ان دونوں کے اقوال کی رعایت ہوجائے جیسا کہ اوپر اجمالا ذکر کیا گیا پہلے اختلاف تو یہی ہے کہ سورت نجم کی ابتدائی آیتوں میں آنحضرت ﷺ کے کس کو دیکھنے کا ذکر ہے حق تعالیٰ کو یا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ؟ حضرت ابن عباس (رض) حق تعالیٰ کو دیکھنا مراد لیتے ہیں جمہور صحابہ ان کی تائید میں ہیں اور سلف میں جمہور مفسرین بھی اسی طرف گئے ہیں ان کے نزدیک دنی فتدلی قاب قوسین اوادنی کے الفاظ ( جوان آیات میں آئے ہیں) معراج کے موقعہ پر بارگاہ ربوبیت میں آنحضرت ﷺ کے قرب اور پروردگار کے مشاہدہ و زیارت کا بیان ہیں۔ پھر اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو بچشم سر دیکھا ہے یا بچشم قلب ؟ بعضوں نے تو یہ کہا ہے کہ آپ ﷺ نے سر ہی کی آنکھوں سے اپنے پروردگار کو دیکھا، امام نووی کی تحقیق کے مطابق اکثر علماء کے نزدیک ترجیحی قول یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو سر کی آنکھوں سے دیکھا۔ جو حضرات آیات مذکورہ میں آنحضرت ﷺ کا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا مراد لیتے ہیں ان میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) بھی شامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان آیات میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے اس قرب و مشاہدہ کا بیان وذکر ہے جو آنحضرت ﷺ کو جبرائیل امین کی اصل صورت کے ساتھ شب معراج میں اور اس سے پہلے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں حاصل ہوا تھا۔ یہ اس وقت کے لئے ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص تجلی ظاہر فرمائے الخ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات حق تعالیٰ کی مشیت وقدرت پر منحصر ہے اگر اس کی ذات خاص کی تجلی ظاہر ہو تو اس میں شبہ نہیں کہ کسی کی بھی نگاہ وبصر کی توانائی برداشت کرسکتی ہو تو یقینا نگاہ اس کی طرف اٹھ سکتی ہے اور آنکھیں دیدار اور زیارت کی تاب لاسکتی ہیں رہی اس آیت کی بات جس کا حوالہ حضرت عکرمہ نے دیا تو اس کے متعلق علماء لکھتے ہیں کہ اس آیت میں ادراک کا ذکر ہے جس کے لغوی معنی کسی چیز کا اس کے تمام اطراف و جوانب اور تمام سرحدوں کے ساتھ احاطہ کرنا ہیں اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کے لئے نہ کوئی حد و نہایت ہے اور نہ اس کے اطراف وجانب ہیں، اس کی ذات ان چیزوں سے ماوراء اور لامحدود ہے، اس معنی میں کوئی بھی نگاہ وبصر اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ لہٰذا اس آیت میں احاطہ کی نفی مراد ہے مطلق دیدار کی نفی مراد نہیں ہے جس سے یہ اشکال واقع ہو کہ آپ ﷺ کے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی بات اس آیت کے خلاف پڑتی ہے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت نے اپنے پروردگار کو دو مرتبہ دیکھا۔ میں دو مرتبہ کی وضاحت بعض محدثین نے یہ کی ہے کہ ایک مرتبہ سدرۃ المنتہی کے قریب اور ایک مرتبہ عرش پر اور ملا علی قاری نے اس جملہ کے تحت یہ لکھا ہے کہ دو مرتبہ دیکھا سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے دونوں مرتبہ دل کی آنکھوں سے دیکھا اور ایک مرتبہ سر کی آنکھوں سے یہ اختلاف مطالب اس لئے ہے کہ کسی بھی روایت میں وضاحت کے ساتھ منقول نہیں ہے (جیسا کہ اس روایت میں بھی نہیں، کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دو بار دیکھا۔

【8】

کیا آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا ؟

حضرت شعبی (رح) کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن میدان عرفات میں حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت کعب احبار سے ملاقات کی اور ان سے ایک سوال دریافت کیا کہ کیا دنیا میں حق تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے ؟ ) حضرت کعب (نے اس سوال کو اتنا عجیب و غریب سمجھا کہ فرط حیرت سے انہوں) نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور ان کے اس زور دار نعرے کی باز گشت سے پہاڑ گونج اٹھے حضرت ابن عباس (رض) نے کہا کہ ہم ہاشم کی اولاد ہیں ! حضرت کعب نے فرمایا کہ اچھا تمہارے سوال مقصد اب میری سمجھ میں آیا تو سنو اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار اور اپنے کلام کو محمد ﷺ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تقسیم کیا (یعنی ایک کو اپنے کلام سے مشرف فرمایا اور ایک کو اپنے دیدار کی سعادت عطاء فرمائی) چناچہ اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا۔ ایک مرتبہ تو وادی ایمن میں اور دوسری مرتبہ کوہ طور پر) اور محمد ﷺ نے شب معراج میں دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ حضرت مسروق (جو حدیث کے راوی ہیں اور جن سے حضرت شعبہ روایت نقل کرتے ہیں) کہتے ہیں کہ (میدان عرفات میں حضرت کعب اور حضرت عباس کے درمیان ہونے والی اس بات چیت کو سن کر میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ محمد ﷺ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے جواب دیا کہ (مسروق) تم نے ایسی بات پوچھی ہے جس سے میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں (یعنی میرا عتقاد یہ ہم کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک منزہ ہے کہ وہ کسی کو نظر آئے اس لئے میرے نزدیک دنیا میں اس کے دیدار کا واقع ہونا محال ہے اب تم نے یہ سوال پوچھا تو اس کی اس پاک ذات کی عظمت وخوف کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں نے عرض کیا کہ، ذرا توقف سے کام لیجئے (یعنی میرے اس سوال سے اتنا پریشان نہ ہوئے اور نہ اتنی جلد دیدار الہٰی کا انکار کیجئے میں چاہتا ہوں کہ آپ ذرا میری بات پوری طرح سن لیں، پھر میں نے دیدار الہٰی کے ثبوت میں یہ آیت پڑھی (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى) 53 ۔ النجم 18) ( گویا حضرت مسروق نے اس آیت کے ذریعہ یہ ظاہر کیا کہ میرے نزدیک آیت میں بڑی نشانی سے مراد آنحضرت ﷺ بچشم سریا بچشم قلب وہ دیدار الہٰی حاصل ہونا ہے جو پروردگار کی عظمت شان یا آنحضرت ﷺ کی تعظیم و تکریم پر دلالت کرتا ہے) حضرت عائشہ نے یہ سن کر فرمایا کہ (مسروق) یہ آیتیں تمہیں کہاں لے جارہی ہیں ؟ (یعنی تم درست نہیں سمجھ رہے ہو، ان آیتوں کا مطلب آنحضرت ﷺ کو دیدار الہٰی حاصل ہونا نہیں ہے بلکہ) بڑی نشانی سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں (جن کو آنحضرت نے ان کی اصل صورت میں دیکھا) جو شخص تم سے یہ کہ محمد ﷺ نے شب معراج میں اپنے پروردگار کو دیکھا ہے، یا یہ کہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان چیزوں میں سے کچھ چھپالیا ہے جن کے اظہار کا ان کو حکم دیا گیا تھا اور یا یہ کہے کہ آنحضرت ﷺ ان پانچ غیبی باتوں کا علم رکھتے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ) 31 ۔ لقمان 34) میں ارشاد فرمایا ہے تو بلاشبہ اس نے محمد ﷺ پر بہت بڑا بہتان باندھا (جہان تک اس آیت کا تعلق ہے جو تم نے پڑھی ہے تو) اس کی مراد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں آپ ﷺ نے ایک مرتبہ تو سدرۃ المنتہی کے نزدیک (جیسا کہ اس آیت (وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى 13 عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى 14) 53 ۔ النجم 14-13) میں فرمایا گیا ہے) اور ایک مرتبہ (مکہ کے نواح) اجیاد میں اور آنحضرت ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں اس طرح دیکھا کہ) ان کے چھ سو بازو تھے اور انہوں نے پورے افق کو گھیر رکھا تھا اس روایت کو ترمذی نے (انہی الفاظ میں) اور بخاری ومسلم نے کچھ مزید اور مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے نیز بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ مسروق نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے کہا کہ اگر آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا محمول و مصداق کیا ہے ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنیٰ حضرت عائشہ نے جواب دیا ان سب کی ضمیروں کا مرجع حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جو عام طور پر آنحضرت ﷺ کے پاس کسی انسان کی شکل و صورت میں (وہ بھی اکثر وبیشتر ایک صحابی حضرت دحیہ کلبی کی صورت میں) آتے تھے اور اس مرتبہ (مکہ کے انواح اجیاد میں) اپنی اس صورت میں آئے تو جو ان کی اصل صورت ہے اور انہوں نے پورے افق کو گھیر رکھا تھا۔ تشریح ہم ہاشم کی اولاد ہیں۔ یعنی ہم نہ صرف اس قبیلہ و خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو ویسے بھی علم و فضیلت، عقل و فراست اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس خاندان کے بارگاہ نبوت سے نسبت و قرابت رکھنے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں علوم وانوار سے اکتساب کرنے کے مواقع ہمیں زیادہ بہتر طریقہ پر میسر ہوا ہے اور اس سب سے بڑی خاندانی نسبت و امتیاز کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں علم و معرفت سے سرفراز فرمایا ہے لہذا مجھ سے یہ توقع نہ رکھئیے کہ میں کوئی ایسا سوال کروں گا جو علم وعقل سے بعید ہو، میں نے جو کچھ پوچھا ہے اس گہرائی میں پہنچنے کی کوشش کیجئے اور میرے سوال پر حیرت و غصہ کرنے کے بجائے غور وفکر کرکے جواب دیجئے کہ کیا دنیا میں حق تعالیٰ کا دیدار فی الجملہ ممکن ہے دراصل جب حضرت ابن عباس (رض) نے مذکورہ سوال کیا تو حضرت کعب (رض) یہ سمجھے کہ ابن عباس (رض) دنیا میں مطلق دیدار الہٰی کے بارے میں ذرا زور دار الفاظ کا اظہار کیا تو حضرت کعب احبار (رض) کو ان کے سوال میں غور وفکر کرنا پڑا اور تب وہ ان کی مراد سمجھے کہ ان کے سوال میں مطلق دیدار الہٰی مراد نہیں ہے بلکہ فی الجملہ دیدار الہٰی مراد ہے اس کے بعد انہوں نے جواب دیا کہ صرف آنحضرت ﷺ کے لئے دیدار الہٰی ممکن ہے جو آپ ﷺ کو شب معراج میں حاصل ہوا۔ یا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے ان چیزوں میں سے کچھ چھپالیا ہے۔۔۔۔۔ الخ۔ میں ان چیزوں سے مراد احکام وشرائع ہیں جن کا لوگوں تک پہنچانا آنحضرت ﷺ کے لئے ضروری قرار دیا گیا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ( یایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ) اے پیغمبر ﷺ جو کچھ احکام وشرائع اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں تک پہنچا دیجئے اور اگر ایسا نہ کیا تو آپ ﷺ اللہ کا پیغام پہنچانے میں قاصر رہے۔ اور چھپانے کا مفہوم عام ہے کہ خواہ تمام احکام وشرائع کو چھپانے کے بارے میں کہا جائے یا ان احکام وشرائع میں سے کچھ کو اس سے شیعہ لوگوں کی اس گمراہ کن بات کی تردید ہوجاتی ہے کہ کچھ احکام وشرائع ایسے ہیں جن کو آنحضرت ﷺ نے اپنے اہل بیعت کے لئے مخصوص رکھا ہے، ان کا دائرہ پوری امت تک وسیع نہیں کیا۔ تو پھر اللہ کے اس ارشاد کا محمول و مصداق کیا ہے کے ذریعہ حضرت مسروق نے سورت نجم کی ان تمام آیات کی طرف اشارہ کیا جن کے بارے میں صحابہ وتابعین اور ائمہ مفسرین کے اختلافی اقوال کا ذکر پیچھے بھی کیا جا چکا ہے وہ آیتیں یہ ہیں۔ (ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى۔ فَاَوْحٰى اِلٰى عَبْدِه مَا اَوْحٰى 10 مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى 11) 53 ۔ النجم 8 تا 11) وہ آپ ﷺ کے نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا تو دونوں کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ اور بھی کم پھر خدا نے اپنے بندے پر وحی نازل فرمائی جو کچھ کہ نازل فرمائی تھی جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا۔ پس بظاہر ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ دنی کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف پھرتی ہے اسی طرح تدلی اور فکان قاب قوسین میں کان کی ضمیریں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف راجع ہیں جس کا ایک ظاہری قرینہ فاوحی کی ضمیر ہے کہ اس کا مرجع یقینی طور پر اللہ تعالیٰ ہے اس بنیاد پر حضرت مسروق نے اشکال ظاہر کیا کہ اگر شب معراج میں آنحضرت ﷺ کو دیدار الہٰی حاصل نہیں ہوا تھا تو ان آیتوں کے کیا معنی ہوں گے ؟ اس اشکال کا جواب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے یہ دیا کہ ان افعال کی ضمیروں کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے ہی نہیں بلکہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں لہٰذا یہ سمجھنا کہ ان آیتوں سے آنحضرت ﷺ کا اللہ تعالیٰ کا دیکھنا ثابت ہوتا ہے غیر درست نتیجہ اخذ کرنا ہے پھر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے کان یاتیہ فی صورۃ الرجل الخ کے ذریعہ ایک اور اشکال کا جواب دیا کہ اگر یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو تو آنحضرت ﷺ برابر دیکھا ہی کرتے تھے پھر شب معراج میں ان کو دیکھنے کو اس اہتمام کے ساتھ بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو حضرت عائشہ نے گویا کہ اس اشکال کے دفیعہ کے لئے فرمایا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) عام طور پر آنحضرت ﷺ کے پاس انسانی شکل و صورت آیا کرتے تھے وہ آپ ﷺ کے سامنے اپنی اصل صورت کے ساتھ صرف دو مرتبہ آئے ہیں ایک دفعہ تو نبوت کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مکہ میں جب آنحضرت ﷺ نے ان کو اس طرح دیکھا تھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے اور پورا افق ان سے مامور تھا اور پھر اسی اصل صورت وہیبت کے ساتھ دوسری مرتبہ شب معراج میں سدرۃ المنتہی کے پاس آپ ﷺ کو نظر آئے تھے۔ حاصل یہ کہ حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت کعب احبار (رض) کے قول سے استدلال کرتے ہوئے اس کو اختیار کیا کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا ہے بایں احتمال کہ دونوں مرتبہ بصر (سر کی آنکھوں) سے دیکھا ہو یا بصیرت (دل کی آنکھوں) سے یا یہ کہ ایک مرتبہ تو بچشم سر دیکھا ہو اور ایک مرتبہ بچشم قلب اگرچہ اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو بچشم سر دو مرتبہ نہیں دیکھا ہے۔ ایک اور حضرت عائشہ اس سے انکار کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو ان کے اس انکار کو مطلق انکار پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے اور مقید انکار پر بھی مطلق انکار کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ سرے سے آنحضرت ﷺ کے دیدار الہٰی کے منکر ہیں خواہ بچشم قلب دیکھنا مراد لیا جائے یا بچشم سر اور مقید انکار کا مطلب یہ ہے کہ وہ بچشم سر دیکھنے کی منکر ہیں، بچشم قلب دیکھنے کی نہیں لیکن حضرت عائشہ کے اس ارشاد کو دیکھتے ہوئے زیادہ درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے انکار کو مطلق انکار پر محمول کیا جائے۔ اور حافظ ابن حجر یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے اثبات اور حضرت عائشہ کے انکار کے درمیان جو تضاد ہے اس کو دور کرنے کے لئے یہ تاویل کی جانی چاہے کہ حضرت عائشہ کا انکار بچشم سر دیکھنے پر اور حضرت ابن عباس کا اثبات بچشم قلب دیکھنے پر محمول ہے، لیکن بچشم قلب دیکھنے کا مطلب مجرد علم نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم وعرفان تو حضور کو ہر وقت ہی حاصل رہتا تھا، اس کو شب معراج کے ساتھ مخصوص کرکے بیان کرنے کے کوئی معنی نہیں ہوں گے، لہٰذا بچشم قلب دیکھنے کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ اس خاص موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے قلب میں وہ بنیائی پیدا فرمادی تھی جو آنکھوں میں ہوتی ہے اور اس طرح آنحضرت ﷺ نے قلب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا وہ دیدار حاصل کیا جو کوئی شخص آنکھوں کے ذریعہ دوسری چیزوں کا حاصل کرتا ہے۔

【9】

حضرت ابن مسعود کی تفسیر وتحقیق :

اور حضرت ابن مسعود (رض) اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (فکان قاب قوسین او ادنی) اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى) 53 ۔ النجم 11) اور اللہ تعالیٰ اس ارشاد (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى) 53 ۔ النجم 18) ان سب آیتوں کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دیکھا اور درآنحالیکہ ان کے چھ سو بازو تھے۔ اور ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى) 53 ۔ النجم 11) کی تفسیر میں کہا آنحضرت ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا جو سبز کپڑوں کا جوڑا پہنے ہوئے تھے اور زمین کے درمیانی فضا ان سے معمور تھی۔ نیز ترمذی اور بخاری کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى) 53 ۔ النجم 11) کی تفسیر میں کہا کہ آنحضرت ﷺ نے جامہ سبز پوش یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا جنہوں نے پورے آسمانی افق کو گھیر رکھا تھا۔ اور حضرت امام مالک بن انس سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد الی ربہاناظرۃ کے بارے میں پوچھا گیا اور ان کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ یعنی معتزلہ اور ان کے ہمنوا دیگر اہل بدعت کہتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھنے سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھنا نہیں ہے بلکہ اس کے ثواب کو دیکھنا مراد ہے ؟ تو حضرت امام مالک نے فرمایا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں، آخر ان کی سمجھ کہاں چلی گئی ہے ! وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کلاانہم عن ربہم یؤمئذ لمحجوبون کو کیوں نہیں دیکھتے پھر حضرت امام مالک نے فرمایا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور فرمایا اگر یہی بات ہوتی کہ اہل ایمان قیامت کے دن اپنے پروردگار کو نہیں دیکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کفار کو دیدار الہٰی سے محرومی کا عار نہ دلاتا اور یہ نہ فرماتا کہ (كَلَّا اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَى ِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ) 83 ۔ المطففین 15) اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح آنحضرت ﷺ نے جبرائیل علیہ اسلام کو دیکھا کے ذریعہ حضرت ابن مسعود (رض) نے یہ واضح کیا کہ سورت نجم کی ان آیتوں کی ضمیریں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف راجع ہیں اور ان کا محمول و مصداق آنحضرت ﷺ کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی رویت قرب ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی رویت وقرب مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں۔ پس حضرت ابن مسعود (رض) کی یہ تاویل و تفسیر حضرت عائشہ (رض) کی اس تاویل و تفسیر کے مطابق ہے جو ان آیتوں سے متعلق پچھلی حدیث میں ذکر کی گئی۔ واضع رہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) کی جلالت شان اور ان کا کمال علم مسلمہ ہے اور علماء نے لکھا ہے کہ خلفاء اربعہ کے بعد ابن مسعود (رض) ہی تمام صحابہ میں سب سے بڑے عالم تھے۔ بہرحال ان روایات و اقوال سے معلوم ہوا کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ کے اللہ تعالیٰ کو بچشم سر دیکھنے کے بارے میں صحابہ کرام کے ہاں اختلاف ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو اس بات سے انکار ہے اور حضرت ابن عباس (رض) اس کے قائل ہیں، ان میں سے ہر ایک کو صحابہ کرام کی تائید حاصل ہے کہ کچھ صحابہ کرام تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے ساتھ ہیں اور کچھ صحابہ حضرت ابن عباس (رض) کے ساتھ، پھر صحابہ کے بعد تابعین و علماء سلف بھی اسی نقش قدم پر گئے ہیں۔ کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کچھ حضرات اس کا انکار کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے سکوت وتوقف اختیار کیا ہے اور کسی بھی فریق کے ساتھ نہیں گئے ہیں، ان حضرات کا کہنا ہے کہ دونوں میں سے کسی جانب بھی واضح دلیل نہیں ہے اس لئے ہم یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ اس مسئلہ میں خاموش رہا جائے اور حقیقت حال اللہ تعالیٰ کے سپرد کردی جائے کہ اصل بات اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تاہم جمہور علماء اسی کے قائل ہیں کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا عینی دیدار حاصل ہوا ہے، حضرت شیخ محی الدین نووی (رح) فرماتے ہیں کہ اکثر علماء کبار کے نزدیک راجح اور مختار یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے معراج کی رات میں اپنے پروردگار کو سر کی آنکھوں سے دیکھا۔ نیز انہوں نے کہا کہ اس کا اثبات آنحضرت ﷺ سے سماعت کے بعد ہی ہوا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے جو یہ کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو شب معراج میں اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوا تو انہوں نے یہ بات آنحضرت ﷺ سے سننے کے بعد ہی کہی تھی، جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اس کے انکار میں حدیث سے استدلال نہیں کیا ہے اور اس بارے میں آنحضرت ﷺ سے کچھ سن کر روایت نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ قرآن کی اس آیت (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَا ي ِ حِجَابٍ ) 42 ۔ الشوری 51) اور اس آیت (لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ) 6 ۔ الانعام 103) سے ان کے اپنے استنباط اجتہاد کا نتیجہ ہے جب کہ ان آیتوں کے بارے میں بھی ائمہ مفسرین نے لکھا ہے کہ پہلی آیت (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَا ي ِ حِجَابٍ ) 42 ۔ الشوری 51) میں جو نفی بیان کی گئی ہے وہ حالت رویت میں کلام کی نفی ہے جس سے رؤیت بےکلام کی نفی قطعا لازم نہیں آتی اور دوسری آیت لاتدر کہ الابصار الخ میں ادراک کا ذکر ہے جس کے معنی احاطہ کے ہیں اور احاطہ کی نفی سے مطلق رویت کی نفی مفہوم نہیں ہوتی بعض دوسرے علماء نے بھی لکھا ہے کہ مذکورہ مسئلہ میں حضرت ابن عباس ہی قول پر زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے اور یہ طے ہے کہ انہوں نے یہ بات آنحضرت ﷺ سے سنے بغیر نہیں کہی تھی اور یہ ممکن بھی نہیں کہ وہ اتنی بڑی بات اپنے ظن و اجتہاد سے کہیں، منقول ہے کہ حضرت ابن عمر نے حضرت ابن عباس (رض) سے کافی بحث و تکرار کی اور پوچھا کہ کیا واقعتہ محمد ﷺ نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا، حضرت ابن عباس (رض) نے پورے وثوق کے ساتھ جواب دیا کہ ہاں دیکھا تھا چناچہ حضرت ابن عمر (رض) نے ان کی بات کو قطعی طور پر تسلیم کیا اور کسی ترددوانکار کا اظہار نہیں کیا۔ حضرت عمر ابن راشد کا قول ہے کہ ہمارے نزدیک حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے زیادہ علم کی حامل نہیں ہیں اس لئے ان کے مقابلہ پر حضرت ابن عباس (رض) ہی کے قول کو راجح اور قابل اعتماد قرار دیا جائے گا، نیز مشائخ صوفیہ بھی رویت ہی کے قائل ہیں۔ اب امام مالک کی روایت کی طرف آئیے جب ان کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ جسے معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ آخرت میں اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھیں گے اور قرآن کی اس آیت (اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ) 75 ۔ القیامۃ 23) کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھنے کے بجائے اس کے ثواب یعنی جنت کی نعمتوں اور وہاں کے مراتب و درجات کو دیکھنا مراد ہے تو امام مالک (رح) نے ان لوگوں کی زبردست تردید کی اور فرمایا کہ وہ لوگ عقل وسمجھ سے کوسوں دور ہیں کہ بالکل ظاہر معنی رکھنے والی اس آیت کی غلط تاویل تو کرتے ہیں لیکن اس آیت کلا انہم عن ربہم یؤمئذ المحجوبون کو نہیں دیکھتے جس میں اہل کفر کو اسی بات کا عار دلایا گیا ہے کہ وہ قیامت کے دن پروردگار کے دیدار سے روک دئیے جائیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی سعادت سے محروم رہینگے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور اس کے دیدار کی سعادت سے مشرف ہوں گے اگر یہی بات ہو تو اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے دیدار کی سعادت حاصل نہیں کریں گے تو پھر اہل کفار کو اس سعادت سے محرومی اس بھر پور انداز میں خبر دینے اور انہیں عار دلانے کی کیا ضرورت تھی معلوم ہوا کہ آخرت میں اہل کفار کے حق میں سب سے بڑا عذاب یہ ہوگا کہ وہ دیدار الہٰی سے محروم ومخذول قرار دیئے جائیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اس محرومی کی حسرت میں مبتلا رہیں گے جس طرح کہ اہل ایمان کے حق میں سب سے بڑا اجر وثواب دیدار الہٰی ہوگا اور وہ نعمت دیدار سے محظوظ ومشرف ہونگے۔

【10】

دیدار الہٰی کی کفیت :

اور حضرت جابر (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب جنتی اپنی حاصل شدہ نعمتوں سے لذت وکیف اٹھانے میں مشغول ہوں گے کہ اچانک ان کے سامنے ایک عظیم نور پھیل جائے گا وہ اس نور کو دیکھنے کے لئے اپنا سر اٹھائیں گے تو کیا دیکھیں گے کہ ان کے اوپر پروردگار جلوہ گر ہے اور پروردگار ان سے فرمائے گا کہ اہل جنت اسلام علیکم اور یہ ( یعنی اس وقت پروردگار کا جنتیوں کو سلام کرنا) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سلام قولا من رب رحیم سے ثابت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ جنتیوں کی طرف دیکھے گا اور جنتی اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھیں گے اور وہ دیدار الہٰی میں اس قدر محو ہوں گے کہ اس وقت جنتیوں کی نعمتوں میں سے کسی چیز کی طرف توجہ و التفات نہیں کریں گے تاآنکہ پروردگار ان کی نظروں سے مخفی ہوجائے گا اور اس کا نور باقی رہ جائے گا۔ تشریح تاآنکہ ان کی نظروں سے مخفی ہوجائے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب تک چاہے گا ان کی نظروں کے سامنے خود کو جلوہ گر رکھے گا اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے حجاب حائل کردے گا لیکن اس کے جلوے کی نورانیت اور اس کے دیدار سے حاصل ہونے والے کیف و سرور کا خمار باقی رہے گا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ حجاب اور جنتیوں کی نظر سے پروردگار کا مخفی ہوجانا بھی اس کی طرف سے اپنے بندوں پر ایک طرح کا لطف و کرم ہی ہوگا کیونکہ پروردگار کا اہل جنت کو برابر اپنی درگاہ اور حضور وشہود میں رکھنا اور ہر وقت ان کی نظر کے سامنے جلوہ گر رہنا ایک ایسی صورت حال ہوگی جو جنتیوں کی تاب و طاقت سے باہر ہوگی، ظاہر ہے ایک دفعہ دیدار کرنے کے بعد پھر ان کو اتنے عرصہ کی ضرورت ہوگی جس میں وہ خود کو سنبھال سکیں اور اپنی اصل حالت پر واپس آجائیں تاکہ جنت کی دوسری نعمتوں سے لطف اندوز ہو کر ذات باری تعالیٰ کی تجلی کا استحقاق نئے سرے سے حاصل کرسکیں اور ہر بار دیدار الہٰی کا نیا ذوق اور نیا کیف وسرورحاصل کریں۔