175. دوزخ اور دوزخیوں کا بیان

【1】

دوزخ کی آگ کی گرمی

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہاری (دنیا کی) آگ دوزخ کی آگ کے ستّر حصوں میں سے ایک حصہ ہے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! یہ تو دنیا کی آگ ہی (عذاب دینے کے لئے) کافی تھی (پھر اس سے بھی زیادہ حرارت وتپش رکھنے والی آگ پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوزخ کی آگ کو یہاں (دنیا) کی آگ انہتر حصہ بڑھا دیا گیا ہے اور ان انہتر حصوں میں سے ہر ایک حصہ تمہاری (دنیا کی) آگ کے برابر ہے۔ اس روایت کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے، لیکن (یہاں مذکورہ) الفاظ بخاری کے ہیں اور صحیح مسلم کی روایت یوں ہے کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) تمہاری (دنیا کی) یہ آگ جس کو ابن آدم (انسان) بتلاتا ہے دوزخ کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے، نیز مسلم کی روایت میں علیہن اور کلہن کے بجائے علیہا اور کلہا کے الفاظ ہیں (یعنی بخاری کی روایت میں ہے تشریح دنیا کی آگ کا دوزخ کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی آگ جو درجہ حرارت رکھتی ہے دوزخ کی آگ اس سے ستر درجہ حرارت زیادہ گرم ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ ستر کے عدد سے مراد دنیا کی آگ کا مقابلہ پر دوزخ کی آگ کی گرمی کی شدت و زیادتی کو بیان کرنا ہو نہ کہ یہ خاص عدد ہی مراد ہے گویا اصل مفہوم یہ ہوگا کہ دوزخ کی آگ تمہاری دنیا کی آگ کے مقابلہ پر بہت زیادہ درجہ حرارت رکھتی ہے۔ آنحضرت ﷺ سے جو سوال کیا گیا، اس کے جواب میں آپ ﷺ نے جو فرمایا وہ گویا از راہ تاکید اسی جملہ کی تکرار تھی جو آپ ﷺ نے شروع میں فرمایا تھا اور اس سے جواب کا حاصل یہ نکلا کہ بیشک کسی کو جلانے کے لئے یہ دنیا کی آگ ہی بہت ہے کہ اگر تم کسی انسان کو عذاب میں مبتلا کرنے کے لئے اس آگ میں ڈال دو تو وہ جل کر کوئلہ ہوجائے گا مگر دوزخ کی آگ جس عذاب الٰہی کے لئے تیار کی گئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس کی حرارت و گرمی اس دنیا کی آگ کی حرارت و گرمی سے بہت زیادہ ہوتا کہ اللہ کا عذاب دنیا والوں کے عذاب سے ممتاز رہے اور دوزخ کی اس آگ میں جلنے والوں کو معلوم ہو کہ ان کے اللہ کا عذاب اتنا شدید اور اتنا سخت ہے کہ اگر دنیا میں کوئی شخص انہیں وہاں کی آگ میں جلاتا تو وہ عذاب اس عذاب الٰہی کے مقابلے پر ہیچ ہوتا حاصل یہ کہ دوزخ کی آگ دراصل عذاب الٰہی ہے جیسا کہ اس کا اضاف عذاب میں ذکر ہوتا ہے اس لئے اس کو دنیا کی بہ نسبت کہیں زیادہ درجہ حرارت رکھنا ہی چاہے۔

【2】

دوزخ کو لانے کا ذکر :

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اس دن (یعنی قیامت کے دن) دوزخ کو (اس جگہ سے کہ جہاں اس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے) لایا جائے گا اس کی ستر ہزار باگیں ہوں گی اور ہر باگ پر ستر ہزار فرشتے متعین ہوں گے جو اس کو کھینچے ہوئے لائیں گے۔ (رواہ مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن دوزخ کو لاکھوں فرشتے اس کی جگہ سے کھینچ کر محشر والوں کے سامنے لائیں گے اور ایسی جگہ رکھ دینگے کہ وہ اہل محشر اور جنت کے درمیان حائل ہوجائے گی اور جنت تک جانے کے لئے اس پل صراط کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا جو دوزخ کی پیٹھ پر رکھا ہوگا دوزخ جو ستر ہزار باگیں ہوں گی ان کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ جب لائی جائے گی تو اہل دوزخ پر اپنی غضب ناکی کا اظہار کر رہی ہوگی اور چاہے گی سب وہ نگل لے اور ہڑپ کر جائے پس نگہبان فرشتے اس کو انہیں باگوں کے ذریعہ روکیں گے اگر اس کی باگیں چھوڑ دی جائیں اور اس کو حملہ آور ہونے سے باز نہ رکھا جائے تو وہ مومن اور کافر سب کو چٹ کر جائے۔

【3】

دوزخ کا سب سے ہلکا عذاب :

اور حضرت نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ دوزخیوں میں سے جو شخص سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہوگا اس کو آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن کے اوپر آگ کے دو تسمے ہوں گے (یعنی ان جوتیوں کے تلوے بھی آگ کے ہوں گے جو پیروں کے نیچے کے حصے میں ہوں گے اور ان کے تسمے بھی آگ کے ہوں گے جو پیروں کے اوپر کے حصے پر ہوں گے) اور ان دونوں (یعنی جوتیوں کے تلوؤں اور تسموں کی تپش و حرارت سے ان کا دماغ اس طرح جوش مارے گا جس طرح دیگ جوش کھاتی ہے۔ وہ شخص چونکہ دوسرے دوزخیوں کی حالت و کیفیت سے بیخبر ہوگا اس لئے) یہ خیال کرے گا کہ اس سے زیادہ سخت عذاب میں کوئی مبتلا نہیں ہے حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہوگا۔ تشریح اس حدیث سے صراحۃ معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کے اعتبار سے اہل دوزخ متفاوت ہوں گے کہ کوئی سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوگا اور کوئی ہلکے عذاب میں ،

【4】

دوزخ میں سب سے ہلکا عذاب ابوطالب کا ہوگا :

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب ابوطالب کا ہوگا وہ آگ کی جوتیاں پہنے ہوں گے جن سے ان کا دماغ کھولتا رہے گا۔ (بخاری) تشریح ابو طالب آنحضرت ﷺ کے چچا تھے جن کی شفقت وسرپرستی نے آنحضرت ﷺ کی بہت مدد کی اگرچہ انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا مگر جب تک جئے آنحضرت ﷺ کو کفار مکہ کی دشمنی و عداوت سے محفوظ رکھنے کی حتی المقدور کوشش کرتے رہے اور اس کے بدلے میں ان کو دوزخ میں سب سے ہلکا عذاب ہوگا۔

【5】

ایک دوزخی ایک جنتی :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن دوزخیوں میں ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ عیش و آرام کی زندگی گزارتا تھا (اور اپنے اس عیش و آرام سے بدمست ہو کر ظلم وجور میں بہت بڑھا ہوا تھا) پھر اس کو دوزخ میں ایک غوطہ دیا جائے گا (یعنی دوزخ میں ڈبویا جائے گا جس طرح کپڑا رنگ میں ڈبویا جاتا ہے) اور کہا جائے گا کہ اے ابن آدم ! کیا تو نے دنیا میں کبھی کوئی راحت و بھلائی دیکھی تھی اور کوئی عیش و آرام اٹھایا تھا ؟ وہ دوزخی (دوزخ میں ڈالے جانے کے ڈر سے اس قدر سہم جائے گا کہ دنیا کے تمام نازونعم اور ان تمام آسائش و راحت کو فراموش کردے گا جو اس کو حاصل تھیں اور ایسا ظاہر کرے گا جیسے اس کو دنیا میں کوئی راحت ونعمت نصیب ہی نہیں ہوئی تھی چناچہ وہ کہے گا کہ نہیں میرے پروردگار اللہ کی قسم مجھے کوئی راحت ونعمت نصیب نہیں ہوئی تھی اس طرح جنتیوں میں سے ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ غم والم اور مشقت وکلفت برداشت کرنے والا تھا، پھر اس کو جنت میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اے ابن آدم کیا تو نے دنیا میں کوئی غم اٹھایا تھا اور کسی مشقت وکلفت سے دوچار ہوا تھا ؟ وہ جنتی جنت کی نعمتیں اور راحتیں دیکھ کر اپنے دنیا کے تمام رنج وغم اور کلفت ومشقت بھول جائے گا اور جواب دے گا کہ نہیں میرے پروردگار اللہ کی قسم میں نے دنیا میں کبھی کوئی رنج وغم نہیں دیکھا اور کوئی مشقت وکلفت نہیں اٹھائی۔ (مسلم) تشریح جنتی کو چونکہ نہایت درجہ کی خوشی حاصل ہوگی اس لئے وہ جواب میں طوالت اختیار کرے گا اس کے برخلاف دوزخی مختصر سا جواب دے کر خاموش ہوجائے گا۔

【6】

شرک کے خلاف انتباہ :

اور حضرت انس (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوزخیوں میں سے اس شخص سے جو سب سے ہلکے عذاب میں ہوگا فرمائے گا کہ اگر تیرے پاس روئے زمین کی چیزوں میں سے کوئی ایسی چیز ہوتی جس کا بدلہ میں دے سکتا اور اس کے عوض دوزخ کا عذاب سے خواہ وہ کتنا ہی ہلکا ہو چھٹکارا پاسکتا، تو کیا تو ایسا کرتا وہ دوزخی کہے گا کہ ہاں میں دنیا کی حاصل شدہ بڑی سے بڑی چیزبدلہ میں دے کر دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا پانا چاہوں گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ بدنصیب انسان میں نے تو اسی وقت جب تو آدم کی پشت میں تھا، اس (بدلہ میں کوئی چیز دینے) سے بھی آسان وسہل چیز تیرے لئے طے کردی تھی اور وہ یہ کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا، مگر تو اس سے مکر گیا اور میرے احکام کی کوئی پابندی نہیں کی یہاں تک کہ بتوں وغیرہ کی پرستش و تعظیم کے ذریعہ میرا شریک ٹھہرا کر رہا، پس اب میں اس عذاب دوزخ کے بدلہ میں کوئی چیز قبول نہیں کروں گا خواہ تو دنیا کی تمام چیزیں ہی کیوں نہ لے آئے۔ ( بخاری و مسلم ) تشریح لفظی ترجمہ کے اعتبار سے اس جگہ اردت منک الخ کے معنی یہ ہوں گے کہ میں نے تجھ سے اس سے بھی آسان وسہل چیز چاہی تھی اور مظہر نے لکھا ہے کہ یہاں ارادہ کا لفظ امر کے معنی میں ہے (یعنی چاہنے سے مراد حکم دینا ہے) نیز ارادہ اور امر میں فرق یہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے سب اسی کے ارادے ومشیت سے ہوتا ہے جب کہ امر کا اطلاق کبھی اس چیز پر بھی ہوتا ہے جو اس کے ارادہ ومشیت کے خلاف ہو طیبی (رح) یہ کہتے ہیں کہ زیادہ درست یہ ہے کہ یہاں ارادہ کو میثاق یعنی عہد لینے پر محمول کیا جائے جس کا ذکر قرآن کریم میں یوں فرمایا گیا ہے واذا اخذربک من بنی ادم من ظہورہم ذریتہم الخ اور اس کا قرینہ خود حدیث قدسی کے یہ الفاظ وانت فی صلب ادم ہیں (مکر نے) کو عہد توڑنے محمول کیا جائے۔

【7】

عذاب میں تفاوت ودرجات :

اور حضرت سمرۃ بن جندب سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دوزخیوں میں سے کچھ لوگ وہ ہوں گے جن کے دونوں ٹخنوں تک آگ ہوگی، کچھ لوگ ہوں گے جن کے دونوں زانوں تک آگ ہوگی کچھ لوگ ہوں گے جن کی کمر تک آگ ہوگی اور کچھ لوگ ہوں گے جن کی گردن تک آگ ہوگی۔ (مسلم) تشریح اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہم کہ ہم اہل دوزخ عذاب کے ہلکے اور سخت ہونے میں متفاوت ہوں گے جو دنیا میں جس درجہ کا بد عقیدہ اور بدعمل رہا ہوگا۔ اس کو اسی درجہ کا عذاب ہوگا۔

【8】

دوزخیوں کے جسم :

اور حضرت ابوہریرۃ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دوزخ میں کافر کے جسم کو اس قدر موٹا اور فربہ بنادیا جائے گا کہ اس کے دونوں مونڈھوں کا درمیانی فاصلہ تیز رو سوار کی تین دن کی مسافت کے برابر ہوگا۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ دوزخ میں کافر کا دانت احد پہاڑ کے برابر ہوگا اور اس کے جسم کی کھال تین دن کی مسافت کے برابر موٹی ہوگی۔ (مسلم) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت اشتکت النار الی ربہا باب تعجیل الصلوۃ میں نقل کی جاچکی ہے۔ تشریح اس حدیث میں اہل دوزخ کے جسم کے پھیلاؤ اور مٹاپے کا ذکر ہے جب کہ ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ قیامت کے دن متکبرین کو میدان حشر میں اس حالت میں لایا جائے گا کہ ان کے جسم تو چیونٹیوں کے برابر ہوں گے اور ان کی صورتیں مردوں کی ہوں گی اور پھر انہیں ہانک کر قید خانہ میں لایا جائے گا۔ پس ان دونوں رویتوں میں تطبیق یہ ہے کہ متکبرین سے مراد مؤمن گناہ گار ہیں جب کہ مذکورہ بالا حدیث میں کفار کا ذکر کیا گیا ہے لیکن زیادہ درست یہ کہنا ہے کہ ان کو میدان حشر میں چیونٹیوں ہی کے جسم میں لایا جائے گا جہاں وہ لوگوں کے تلوؤں تلے خوب روندے جائیں گے اس کے بعد پھر ان کے بدن اپنی اصلی حالت میں آجائیں گے اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے، دوزخ میں ان کے بدن دوبارہ غیر معمولی ساخت کے ہوجائیں گے اور ان کا مٹاپا اور پھیلاؤ اتنا بڑھ جائے گا جس کا ذکر حدیث میں کیا گیا ہے نیز ان کے بدن کو اس قدر موٹا اور فربہ اس لئے کیا جائے گا تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ عذاب ہوسکے۔

【9】

دوزخ کی آگ کا ذکر :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوزخ کی آگ کو ایک ہزار برس جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی پھر ایک ہزار برس اور جلایا گیا جس سے وہ سیاہ ہوگئی ہے پس اب دوزخ کی آگ بالکل سیاہ و تاریک ہے جس میں نام کو بھی روشنی نہیں ہے۔ (ترمذی) تشریح یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی۔ یہ آگ کا خاصہ ہے کہ جب وہ دیر تک جلتی رہتی ہے اور خوب صاف وتیز ہوجاتی ہے تو بالکل سفید معلوم ہونے لگتی ہے، پہلے اس میں جو سرخی ہوتی ہے وہ دھویں کی آمیزش کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بہرحال یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ دوزخ وجود میں آچکی ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے۔ اس کے برخلاف معتزلہ کا مسلک یہی ہے کہ دوزخ ابھی تیار نہیں ہوئی ہے اور وجود میں نہیں ہے۔ اہل سنت والجماعت کی بڑی دلیل قرآن کی اس آیت ( اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران 131) میں اعدت کا لفظ ہے جو ماضی کے صیغہ کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔

【10】

کافردوزخی کی جسامت :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ فرمایا قیامت کے دن (دوزخ میں) کافر کے دانت احد پہاڑ کے برابر اور اس کی ران بیضا (پہاڑ کے برابر ہوگی اور دوزخ میں اس کے بیٹھنے کی جگہ تین دن کی مسافت کے بقدر ہوگی جیسا کہ ربذہ ہے۔ (ترمذی) تشریح ربذہ مدینہ کے قصبات میں سے ایک قصبہ تھا جو وہاں سے تین دن کی مسافت پر ذات عرق کے قریب واقع تھا۔ پس جیسا کہ ربذہ ہے سے مراد یہ ہے کہ کافر دوزخی اپنی لمبی چوڑی جسامت کی وجہ سے اپنے بیٹھنے میں اتنی جگہ گھیرے گا جتنی کہ مدینہ سے ربذہ تک کا فاصلہ ہے۔

【11】

کافردوزخی کی جسامت :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کافر دوزخی کی کھال بیالیس ہاتھ موٹی ہوگی، اس کے دانت احد پہاڑ کے برابر ہوں گے اور دوزخ میں اس کے بیٹھنے کی جگہ مکہ اور مدینہ کے درمیانی فاصلہ کے برابر ہوگئی (ترمذی) تشریح ایک روایت میں بیالیس ہاتھ کی وضاحت کے لئے بذرع الجیار کے الفاظ بھی منقول ہیں یعنی ہاتھ بھی کونسا، ایک لمبے چوڑے شخص کا ہاتھ اوپر کی حدیث میں کافر دوزخی کے بیٹھنے جگہ مدینہ اور ربذہ کے درمیانی فاصلہ کے برابر بیان فرمائی گئی ہے جب کہ اس حدیث میں مکہ اور مدینہ کے درمیانی فاصلہ کا ذکر ہے ؟ چناچہ علامہ ابن حجر عسقلانی (رح) نے لکھا ہے کہ مقدار کا یہ فرق واختلاف دراصل کافر دوزخی کو دیئے جانے والے عذاب میں فرق واختلاف کی بنیاد پر ہے کہ جو کافر سخت ترین عذاب کا مستوجب ہوگا اس کی جسامت بھی اسی اعتبار سے لمبی چوڑی ہوگی اور اسی لحاظ سے بیٹھنے کی جگہ بھی زیادہ لمبی چوڑی ہوگی اور جو کافر نسبتا ہلکے عذاب کا مستوجب ہوگا اس کی جسامت نسبتاً کم لمبی چوڑی ہوگی اور اسی لہٰذا سے اس کے بیٹھنے کی جگہ بھی کم لمبی چوڑی ہوگی اسی پر کھال وغیرہ کی مقدار اختلاف کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے

【12】

کافردوزخی کی جسامت :

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ (دوزخ میں) اپنی زبان تین تین اور چھ چھ کوس تک نکالے گا اور لوگ اس کو (اپنے پیروں سے) روندے گے یعنی اس زبان پر چلے پھریں گے (احمد ترمذی) اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【13】

دوزخ کا پہاڑ :

اور حضرت ابوسعید (رض) رسول کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سعود (جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت سارقہ سعودا میں ہے) دوزخ میں ایک پہاڑ ہے جس پر کافر ستر برس تک چڑھایا جائے گا اور وہاں سے اسی طرح ستر برس تک گرایا جائے گا اور برابر یونہی سلسلہ جاری رہے گا یعنی کافر دوزخی ہمشہ اس پہاڑ پر چڑھائے اور گرائے جاتے رہیں گے (ترمذی)

【14】

دوزخی کی غذا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (یعنی اس آیت ( اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ 43 طَعَامُ الْاَثِيْمِ 44 ٻ كَالْمُهْلِ ڔ يَغْلِيْ فِي الْبُطُوْنِ 45) 44 ۔ الدخان 43) میں لفظ مھل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ زیتون کی تلچھٹ کی طرح ایک چیز ہوگی جب اس مھل کو دوزخی کے منہ کے قریب لیجایا جائے گا تو (مارے گرمی کے) اس کے منہ کی کھال اس میں گرپڑے گی۔ (ترمذی)

【15】

گرم پانی کا عذاب :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب دوزخیوں کے سر پر گرم پانی ڈالا جائے گا تو وہ گرم پانی اندر کو اترتا ہوا پیٹ تک پہنچ جائے گا اور ان چیزوں کو کاٹ ڈالے گا جو پیٹ کے اندر ہیں (یعنی آنتیں وغیرہ) یہاں تک کہ وہ گرم پانی پیٹ کے اندر کی چیزوں کو کاٹتا اور گلاتا ہوا پیروں کے راستہ سے باہر نکل جائے گا اور صہر کے یہی معنی ہیں پھر وہ دوزخی کہ جس کے ساتھ گرم پانی کا یہ عمل ہوگا ویسا کا ویسا ہوجائے گا۔ (ترمذی) تشریح صہر کے معنی گلنے اور پگھلنے کے ہیں اور یہ لفظ جس کی وضاحت آنحضرت ﷺ نے مذکورہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی قرآن کریم کی اس آیت میں آیا ہے۔ ( يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ 19 يُصْهَرُ بِه مَا فِيْ بُطُوْنِهِمْ وَالْجُلُوْدُ 20) 22 ۔ الحج 19) (اور) ان کے سر کے اوپر سے تیز گرم پانی چھوڑ دیا جائے گا جس سے پیٹ کی چیزیں (یعنی انتڑیاں) اور ان کی کھالیں سب گل جاویں گی پھر وہ ویسا کا ویسا ہی ہوجائے گا کا مطلب یہ ہے کہ دوزخیوں کے ساتھ گرم پانی کا یہ عمل عذاب کے طور پر مسلسل باقی رکھا جائے گا، یعنی اس عذاب کے بعد وہ اپنی سابق حالت پر واپس آجائیں گے ان کی کھال جوں کی توں ہوجائے گی اور ان کی آنتیں پیٹ میں اپنی اپنی جگہ صحیح سالم ہوجائیں گی، تب پھر ان کے سر پر وہی گرم پانی ڈالا جائے گا جو اندر تک تاثیر کرتا ہوا پیٹ تک پہنچے گا اور آنتیں وغیرہ کو کاٹتا گلاتا ہوا دونوں پیروں کے راستہ باہر نکل جائے گا، اسی طرح یہ سلسلہ برابر جاری رہے گا اس کا ثبوت قرآن کریم کے ان الفاظ سے ملتا ہے۔ (كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا) 4 ۔ النساء 56)

【16】

دوزخیوں کے پینے کا پانی :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد یسقی من مآء صدید یتجرعہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جب وہ پانی اس (دوزخی) کے منہ کے قریب لایا جائے گا تو وہ بہت ناک بھوں چڑھائے گا اور پھر وہ پانی اس کے منہ میں ڈالا جائے گا تو اس کے منہ کے گوشت کو بھون ڈالے گا اور اس کے سر کی کھال گرپڑے گی اور جب وہ (دوزخی) اس پانی کو پیئے گا اور وہ پانی پیٹ میں پہنچے گا تو آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا، پھر وہ پاخانہ کے راستے سے باہر نکل آئے گا، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وسقوا مآء حمیما فقطع امعآء ہم اسی طرح قرآن میں ایک اور جگہ یوں فرمایا گیا ہے وان یستغیثوا یغاثوا بمآء کالمہل یشوی الؤ جوہ بئس الشراب۔ (ترمذی)

【17】

دوزخ کی چار دیواری :

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا دوزخ کے احاطہ کے لئے چار دیواریں ہوں گی جن میں سے ہر دیوار کی چوڑائی چالیس برس کی مسافت کے برابر ہوگی۔ (ترمذی) ١٨ اور حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دوزخیوں کے زخموں سے جو زرد پانی بہے گا (یعنی خراب خون اور پیپ) اگر اس کا ڈول بھر کر دنیا میں انڈیل دیا جائے تو یقینا تمام دنیا والے سڑجائیں۔ (ترمذی) ١٩ اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے یہ آیت (يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ١٠٢) 3 ۔ آل عمران 102) تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا اگر (دوزخ کے) زقوم یعنی تھوہر کے درخت کا ایک قطرہ بھی اس دنیا کے گھر میں ٹپک پڑے تو یقینا دنیاوالوں کے سامان زندگی کو تہس نہس کردے پھر (سوچو) اس شخص کا کیا حال ہوگا جس کی خوراک ہی زقوم ہوگی۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح حق تقاتہ (جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے) کا مطلب یہ ہے، واجبات کو بجا لانا اور سیأات سے پرہیز کرنا۔ حضرت ابن مسعود نے ان الفاظ کی تفسیریوں بیان کی ہے کہ۔ ہو ان یطاع فلا یعصی ویشکر فلایکفر ویذکر فلا ینسی۔ وہ (اللہ سے ڈرنے کا حق) یہ ہے کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے اور کسی حال میں اس کی نافرمانی نہ کی جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے اور کسی بھی حال میں کفران نعمت نہ کیا جائے، اس کو یاد کیا جائے اور کسی بھی حال میں اس کو بھولا نہ جائے۔ حاکم نے یہ تفسیر و وضاحت آنحضرت ﷺ سے نقل کی ہے، اسی طرح ابن مردویہ اور ابن حاتم نے بھی اور محدثین نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، بہرحال اگر یہ الفاظ حق تقاتہ کمال تقویٰ کو بیان کرنے کے لئے ہیں (یعنی یہ کہا جائے کہ حق تقاتہ سے مراد کمال تقویٰ ہے) تو پھر کوئی اشکال ہی نہیں ہوگا اور اگر ان الفاظ کو اصل تقویٰ کی تعبیر قرار دیا جائے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ یہ آیت قرآن ہی کی اس دوسری آیت (فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ) 64 ۔ التغابن 16) کے ذریعہ منسوخ ہے کیونکہ اصل تقویٰ یعنی حق تعالیٰ سے اس کے مرتبہ کے لائق حیثیت بھلا کون بشر اختیار کرسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ آیت تلاوت کرنے کے بعد جو مضمون ارشاد فرمایا وہ اس آیت کے ساتھ کیا مناسبت رکھتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل تقوی، عذاب دوزخ سے سلامت و محفوظ رکھنے کا سبب ہے اور تقویٰ اختیار نہ کرنا گویا عذاب دوزخ میں گرفتار ہونا ہے پس آنحضرت ﷺ نے اس مناسبت سے دوزخ کے بعض عذاب کا ذکر کرنا مناسب سمجھا۔

【18】

دوزخیوں کے منہ کی بدہئیتی :

اور حضرت ابوسعید (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے آیت قرآنی کے ان الفاظ (تَلْفَحُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيْهَا كٰلِحُوْنَ ) 23 ۔ المؤمنون 104) کی وضاحت میں فرمایا کہ دوزخ کی آگ کافر کے منہ (کے گوشت) کو بھون ڈالے گی جس سے اس کے اوپر کا ہونٹ اوپر کو سمٹ جائے گا یہاں تک کہ سر کے درمیانی حصہ تک پہنچے گا اور نیچے کا ہونٹ لٹک جائے گا یہاں تک کہ ناف تک پہنچ جائے گا۔ (ترمذی) تشریح قرآن کی مذکورہ جس آیت میں ہے وہ پوری یوں ہے۔ (تَلْفَحُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيْهَا كٰلِحُوْنَ ) 23 ۔ المؤمنون 104) جہنم کی آگ ان دوزخیوں کے چہروں کو جھلستی ہوگی اور اس جہنم میں ان کے چہرے بگڑے ہوں گے۔ لفظ کالح سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جس کا ہونٹ سکڑ کر اوپر چڑھ گیا ہو اور دانت کھل گئے ہوں بعض مفسرین نے تو کالحون کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ان کی تیوریاں چڑھی ہوئی ہوں گی اور بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ ان کے دانت کھلے ہوں گے ! یہ دوسرا ترجمہ آنحضرت ﷺ کی مذکورہ وضاحت کے زیادہ مناسب ہے لیکن ان کے چہڑے بگڑے ہونگے ایک ایسا ترجمہ ہے جس میں لغوی معنی اور آنحضرت ﷺ کی وضاحت، سب کی رعایت ہوجاتی ہے۔

【19】

دوزخی خون کے آنسو روئیں گے

اور حضرت انس (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا (اے لوگو خدا کے خوف سے روؤ اور رونا چونکہ اختیاری چیز نہیں ہے اس لئے اگر تمہیں رونا نہ آئے تو بہ تکلف روؤ (یعنی ان احوال کا تصور کرو جو خوف الٰہی سے رلا دے اور رقت طاری کردے) حقیقت یہ ہے کہ دوزخی جہنم میں روئیں گے اور ان کے آنسو خون بن کر ان کے رخساروں پر اس طرح بہیں گے گویا وہ نالیاں ہیں اور جب ان کے آنسو ختم ہوجائیں گے تو خون بہنا شروع ہوجائے گا اور آنکھیں لہو لہان ہوجائیں گی ان کی آنکھوں سے بہنے والے خون اور آنسو کی زیادتی اس درجہ کی ہوگی کہ اگر ان کے آنسوؤں کے بہاؤ میں کشتیاں چھوڑ دی جائیں تو یقینًا وہ چلنے لگیں اس روایت کو بغوی نے اپنے اسناد کے ساتھ شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔

【20】

دوزخیوں کی حالت :

اور حضرت ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دوزخیوں پر بھوک اس طرح مسلط کردی جائے گی کہ اس بھوک کی اذیت اس عذاب کے برابر ہوگی جس میں وہ دوزخی پہلے سے گرفتار ہونگے چناچہ وہ بھوک کی اذیت سے بےتاب ہو کر فریاد کریں گے اور ان کی فریاد رسی ضریع کے کھانے کے ذریعہ کی جائے گی جو نہ فربہ کرے گی نہ بھوک کو دفع کرے گا پھر وہ پہلے کھانے کو لاحاصل دیکھ کر دوسری مرتبہ فریاد کریں گے اور اس مرتبہ ان کی فریاد رسی گلے میں پھنسی جانے والے کھانے کے ذریعہ کی جائے گی اس وقت ان کو یہ یاد آئے گا کہ جب (دنیا میں) کھاتے وقت ان کے گلے میں پھنس جاتی تھی تو اس کو وہ کسی پینے والی چیز سے نیچے اتارتے تھے چناچہ وہ اپنے گلے میں پھنسے ہوئے کھانے کو اتارنے کے لئے کسی پینے والی چیز کی التجاء کریں گے تب ان کو تیز گرم پانی دیا جائے گا جس کو زنبوروں کے ذریعہ پکڑ کر اٹھایا جائے گا یعنی جن برتنوں میں وہ تیز گرم پانی ہوگا وہ زنبوروں کے ذریعہ پکڑ کر اٹھائے جائیں گے اور اٹھانے والے یا تو فرشتے ہوں گے یا براہ راست دست قدرت ان کو اٹھا کر دوزخیوں کے منہ کو لگائے گا اور جب گرم پانی کے وہ برتن ان کے مونہوں تک پہنچے گے تو ان کے چہروں (کے گوشت) کو بھون ڈالیں گے اور جب ان برتنوں کے اندر کی چیز (جو ان کو پینے کے لئے دی جائے گی جیسے پیپ پیلا پانی وغیرہ) ان کے پیٹ میں داخل ہوگی تو پیٹ کے اندر کی چیزوں (یعنی آنتوں وغیرہ) کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گی پس اس صورت حال سے بیتاب ہو کر وہ دوزخی (جہنم پر) متعین فرشتوں سے کہیں گے اے دوزخ کے سنتریو ! اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ کم سے کم ایک ہی دن کے لئے ہمارے اوپر مسلط اس عذاب کو ہلکا کردے دوزخ کے سنتری جواب دیں گے کہ (اب ہم سے دعا کے لئے کہتے ہو) کیا اللہ کے رسول خدائی معجزے اور واضع دلیلیں لے کر تمہارے پاس نہیں آئے تھے ( اور تم سے یہ نہ کہتے تھے کہ کفر و سرکشی کی راہ چھوڑ کر اللہ کے اطاعت و فرمانبرداری کا راستہ اختیار کرلو تاکہ کل آخرت میں دوزخ کے سخت عذاب سے محفوظ رہ سکو ؟ ) وہ کہیں گے کہ بیشک اللہ کے رسول ہمارے پاس آئے تھے اور ان کی تعلیمات ہم تک پہنچی تھی، لیکن وائے افسوس ہم گمراہی میں پڑے رہے اور ایمان و سلامتی کی راہ اختیار نہ کرسکے دوزخ کے سنتری کہیں گے کہ پھر تو تم خود ہی دعا کرو اور اپنا معاملہ سمجھو ہم تو تمہاری شفاعت کرنے سے رہے اور کافروں کی دعا زبان کاری وبے فائدگی کے علاوہ کچھ نہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوزخی جب جہنم کے سنتریوں سے دعا و شفاعت کرنے میں ناکام ہوجائیں گے اور انہیں سخت مایوسی کا منہ دیکھنا پڑے گا تو وہ یقین کرلیں گے کہ ہمیں عذاب الٰہی سے نجات ملنے والی نہیں ہے پھر کیوں نہ موت ہی مانگی جائے چناچہ وہ آپس میں کہیں گے کہ مالک یعنی دروغہ جنت سے مدد کی درخواست کرو ! اور پھر وہ التجاء کریں گے کہ اے مالک اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ ہمیں موت دے دے تاکہ ہمیں آرام مل جائے آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوزخیوں کی التجاء سن کر مالک خود اپنی طرف سے یا پروردگار کی طرف جواب دے گا کہ اس دوزخ سے نجات یا موت کا خیال چھوڑ دو تمہیں ہمیشہ ہمیشہ یہیں اور اسی عذاب میں گرفتار رہنا ہے حضرت اعمش (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کہتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام نے (بطریق مرفوع یا موقوف) مجھ سے بیان کیا کہ مالک سے ان دوزخیوں کی التجاء اور مالک کی طرف سے ان کو جواب دینے کے درمیان ایک ہزار برس کا وقفہ ہوگا یعنی وہ دوزخی مالک سے التجاء کرنے کے بعد ایک ہزار سال تک جواب کا انتظار کرتے رہیں گے اور اس دوران بھی اس عذاب میں مبتلا رہیں گے آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر وہ دوزخی (آپس میں) کہیں گے کہ اب ہمیں براہ راست اپنے پروردگار ہی سے نجات کی التجا کرنی چاہئے کیونکہ وہی قادر مطلق رحیم وکریم اور غفار ہے) ہمارے حق میں بھلائی و بہتری کرنے والا اس پروردگار سے بہتر اور کوئی نہیں چناچہ وہ التجا کریں گے کہ ہمارے پروردگار ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم (توحید کے راستہ سے) بھٹک گئے تھے اے پروردگار ہمیں دوزخ (اور یہاں کے عذاب) سے رہائی عطا فرمادے اگر ہم اس کے بعد بھی کفرو شرک کی طرف جائیں تو اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کو جواب دے گا دور رہو کم بختو کتوں کی طرح ذلیل و خوار رہو) ایسے دوزخ میں پڑے رہو اور رہائی اور نجات کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرو تمہاری گلوخلاصی ہرگز نہیں ہوسکتی آنحضرت ﷺ نے فرمایا آخر کار وہ دوزخی ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور تب وہ حسرت اور نالہ و فریاد کرنے لگے گیں حضرت عبداللہ بن عبدالرحمن جو اس حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں کہ اس حدیث کو مرفوع قرار نہیں دیا جاتا لیکن ترمذی نے اس حدیث کو مرفوع نقل کیا ہے جیسا کہ روایت کی ابتداء سے معلوم ہوتا ہے۔ تشریح اس بھوک کی اذیت اس عذاب کے برابر ہوگی۔۔۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ ان پر جو بھوک مسلط کی جائے گی اس کی درد ناکی دوزخ کے اور تمام عذاب کی درد نا کیوں کے برابر ہوگی اس سے معلوم ہوا کہ بھوک کی آگ دوزخ کی مانند ہے۔ اور ان کی فریاد رسی ضریع کے کھانے کے ذریعہ کی جائے گی۔ جب وہ دوزخی بھوک سے بیتاب ہو کر کچھ کھانے کو مانگیں گے تو ان کو کھانے کے لئے ضریع دیا جائے گا واضح رہے کہ ضریع ایک خار دار جھاڑ کو کہتے ہیں جو حجاز میں ہوتا ہے، یہ ایک ایسی زہریلی اور کڑوی گھاس ہوتی ہے جس کے پاس کوئی جانور بھی نہیں پھٹکتا اور اگر کوئی جانور اس کو کھالیتا ہے تو مرجاتا ہے۔ بہرحال یہاں حدیث میں ضریع سے مراد آگ کے کانٹے ہیں جو ایلوے سے زیادہ کڑوے مردار سے زیادہ بدبودار اور آگ سے زیادہ بدبودار ہوں گے۔ فربہ کرے گا اور نہ بھوک دفع کرے گا۔ یہ دراصل قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ (لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِيْعٍ ۔ لَّا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِيْ مِنْ جُوْعٍ ۔ ) 88 ۔ الغاشیۃ 7-6) (اور) ان (دوزخیوں) کو ایک خار دار جھاڑ کے سوا اور کوئی کھانا نصیب نہ ہوگا جو نہ تو کھانے والوں کو فربہ کرے گا اور نہ ان کی بھوک کو دفع کرے گا۔ گلے میں پھنس جانے کے ذریعہ فریاد رسی کا مطلب یہ ہے کہ دوسری مرتبہ ان کو کھانے کے لئے ہڈی یا آگ کے کانٹے وغیرہ کی طرح کی ایسی چیزیں دی جائیں گی۔ جو گلے میں جا کر پھنس جائیں گی کہ نہ حلق سے نیچے اتر سکیں گی اور نہ باہر آسکیں گی پس حدیث کے اس جملہ میں اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔ (اِنَّ لَدَيْنَا اَنْكَالًا وَّجَحِ يْمًا 12 وَّطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّعَذَابًا اَلِ يْمًا 13) 73 ۔ المزمل 13-12) حقیقت یہ ہے کہ (کفروشرک کرنے والوں کے لئے) ہمارے یہاں بیڑیاں ہیں اور (دوزخ کی) بھڑکتی آگ ہے اور گلے میں پھنس جانے والا ہے اور درد ناک عذاب ہے۔ حدیث کے یہ الفاظ وما دعا الکافرین الافی ضلال۔ ( اور کافروں کی دعا زیاں کاری وبے قاعدگی کے علاوہ کچھ نہیں) بھی دراصل قرآن ہی کے الفاظ ہیں اور ان کی دعا کو زیاں کاری سے تعبیر اس لئے کیا گیا ہے کہ اس وقت ان کے حق میں کوئی بھی دعا و شفقت کار گر نہیں ہوگی، خواہ وہ خود دعا کریں اور گڑ گڑائیں یا کسی اور سے دعا و شفاعت کرائیں لیکن اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ کافرو مشرک کی دعا اس دنیا میں بھی قبول نہیں ہوتی جیسا کہ قرآن و حدیث کے ان الفاظ سے بعض حضرات نے نتیجہ اخذ کیا ہے، حقیقت حال تو یہ ہے کہ اس دنیا میں شیطان تک کی درخواست جو اس نے اپنی عمر کی درازی کے لئے کی تھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ہے پھر کافر کی دعا قبول کیوں نہیں ہوسکتی، بشرطیکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرے۔ غلبت علینا شقوتنا (ہماری بدبختی نے ہمیں گھیرلیا) میں شقوۃ شین کے زبر اور قاف کے جزم کے ساتھ ہے اور یہ لفظ شقاوۃ (شین کے زبر کے ساتھ) بھی پڑھا گیا ہے، دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی بدبختی جو سعادت (نیک بختی) کی ضد ہے مذکورہ جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ہماری تقدیر کہ جس میں ہمارا خاتمہ بد لکھ دیا گیا، پوری ہو کر رہی اور ہم خود اپنی بدبختی کا شکار ہوگئے۔ اگر ہم اس کے بعد بھی کفر وشرک کی طرف جائیں۔۔۔۔ الخ۔ کافر دوزخیوں کا یہ کہنا بھی مکروکذب پر مبنی ہوگا جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے۔ ولو ردوا لعادوا لمانہوا عنہ وانہم لکذبون۔ اور اگر یہ لوگ پھر (دنیا میں) واپس بھی بھیج دئیے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ بالکل جھوٹے ہیں۔ یاخذون فی الزفیروالحسرۃ والویل ( حسرت ونالہ و فریاد کرنے لگیں گے) میں لفظ زفیر کے اصل معنی ہیں۔ گدھے کا سانس اندر لے جانا جیسا کہ شہیق کے معنی گدھے کا سانس باہر نکالنا یا یہ کہ جب گدھا رینگنا شروع کرتا ہے تو پہلے اس کی آواز باریک اور چھوٹی نکلتی ہے جس کو زفیر کہا جاتا ہے اور آخر میں اس کی آواز تیز اور بڑی ہوجاتی ہے کہ اس کو شہیق سے تعبیر کیا جاتا ہے، حدیث کے ان الفاظ میں قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ لہم فیہا زفیر وشہیق۔ دوزخ میں گدھے کی چھوٹی اور بڑی آواز کی طرح ان دوزخیوں کی چیخ و پکار پڑی رہے گی۔ بہرحال حدیث کے اس آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ دوزخی جب بارگاہ الٰہی کا جواب سن لیں گے تو وہ بالکل مایوس ونا امید ہوجائیں گے کہ دوزخ کے سنتریوں کو پکارنا کچھ سود مند نہ ہو دروغہ دوزخ سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ سے موت ہی دلوادے اس کا بھی فائدہ نہ ہوا آخر میں بارگاہ الٰہی میں روئے گڑ گڑائے وہاں بھی کوئی بات قبول نہیں ہوئی، اب کہاں جائیں، کس کے سامنے فریاد کریں۔ ایسے میں وہ بےمعنی آوازوں اور بےہنگم صداؤں میں نالہ و فریاد اور چیخ و پکار کرنے لگیں گے جیسا کہ مایوسی کے عالم میں ہوتا ہے۔ روایت کے آخر میں ان الفاظ اس حدیث کو مرفوع قرار نہیں دیا جاتا۔ کا مطلب یہ ہے کہ بعض محدثین کے نزدیک یہ حدیث آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی نہیں ہے بلکہ حضرت ابودرداء (رض) کا اپنا بیان ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث بہر صورت مرفوع حدیث یعنی آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی ہی کے حکم میں ہے کیونکہ اس کے احوال، دوزخیوں کی گفتگو اور دوزخ کے عذاب وغیرہ سے متعلق جو بھی مضمون کوئی بھی صحابی آنحضرت ﷺ سے سنے بغیر اپنی طرف سے بیان کر ہی نہیں سکتا۔

【21】

عذاب دوزخ سے آگاہی :

اور حضرت نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا (لوگو ! ) میں نے تم کو دوزخ کی آگ سے ڈرایا، میں نے تم کو دوزخ کی آگ سے ڈرایا۔ آپ ﷺ یہ باربار فرما رہے تھے (اور ایک عجیب کیفیت کے عالم میں جھوم جھوم کر اتنی بلند آواز سے فرما رہے تھے کہ) اگر آپ اس جگہ تشریف فرما ہوتے جہاں اس وقت میں بیٹھا ہوں تو یقینا آپ ﷺ کی آواز بازار والے سنتے یہاں تک کہ اس وقت ( اس جھومنے کی وجہ سے آپ ﷺ کی کالی کملی جو کاندھے پر پڑی تھی پیروں میں گر پڑی تھی۔ تشریح میں نے تم کو دوزخ کی آگ سے ڈرایا۔ کا مطلب یہ تھا کہ میں نے تم کو عذاب دوزخ کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دی۔ اس عذاب کی شدت و سختی سے آگاہ کردیا کھول کھول کر یہ بیان کردیا کہ عقیدہ وعمل کا کونسا راستہ دوزخ کی طرف لیجاتا ہے اور کون سا راستہ اس سے بچاتا ہے اور میں نے کتنی ہی وہ مختلف صورتیں بتادی ہیں جن کو تم اپنی استطاعت و طاقت کے بقدر اختیار کرکے دوزخ کی آگ سے محفوظ رہ سکتے ہو، میں نے یہاں تک کہا ہے کہ اتقوا النارولو بشق تمرۃ۔ یعنی (صدقہ و خیرات دوزخ سے بچانے والے ہیں) اگر تم کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ و خیرات کرسکتے ہو تو وہی صدقہ و خیرات کرکے دوزخ کی آگ سے بچواب اگر اس کے بعد بھی تم میں سے کوئی شخص دوزخ کے عذاب سے نہیں ڈرتا اور ایسے راستے اختیار کرتا ہے جو اس کو سیدھا دوزخ میں لے جانے والے ہیں، تو وہ شخص جانے۔

【22】

دوزخیوں کو باندھنے کی زنجیر :

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر سیسہ ( رانگے) کا ایک گولہ جو اس جیسا ہو اور آپ ﷺ نے سر کی طرف اشارہ کیا کہ کھوپڑی جیسا ہو۔ ( یعنی سیسے کا وہ گولہ جو کھوپڑی کی طرح گول اور بھاری ہونے کی وجہ سے نہایت سرعت کے ساتھ لڑھکنے والا ہو) آسمان سے زمین کی طرف پھینکا جائے جس کا درمیانی فاصلہ پانچ سو برس کی مسافت کے برابر ہے تو یقینًا وہ (گولہ) ایک رات گزرنے سے پہلے (یعنی مختصر مدت میں) زمین پر پہنچ جائے لیکن اگر وہ گولہ زنجیر کے سرے سے چھوڑا جائے تو چالیس سال تک مسلسل دن و رات لڑھکنے کے باوجود اس کی زنجیر کی جڑ یعنی اس کے آخری سرے تک یا یہ فرمایا کہ اس کی تہ تک نہ پہنچے۔ (ترمذی) تشریح زنجیر سے مراد وہ زنجیر ہے جس میں کافر و دوزخی اس طرح جکڑا جائے گا کہ وہ اس کی مقعد میں ڈال کر نتھنوں میں سے نکالی جائے گی، اس زنجیر کا ذکر قرآن کریم کے ان الفاظ میں ہے۔ ثم فی سلسلۃ ذرعہا سبعون ذراعا فاسلکوہ۔ (فرشتوں کو حکم ہوگا کہ) اس (دوزخی) کو ایک زنجیر میں جکڑو جس کی لمبائی ستر گز ہے اس موقع پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن کی رو سے اس زنجیر کی لمبائی ستر گز ہوگی تو وہ اس قدر مسافت کے برابر کیسے ہوسکتی ہے جس کا ذکر حدیث میں کیا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو ستر گز سے مخصوص عدد اور زنجیر کی متعین لمبائی مراد نہیں ہے بلکہ اس عدد سے (کثرت و مبالغہ) مراد ہے، دوسرے یہ کہ وہاں کے گز کو اس دنیا کے گز پر قیاس نہ کرنا چاہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہاں کا گز کتنا لمبا ہوگا اور اس کی کیا صورت ہوگی۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے۔ آخرت کے قیراط کو احد پہاڑ کے برابر فرمایا گیا ہے۔ ایک بزرگ نوف بکالی سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا ستر گز اس طرح کے ہوں گے کہ ہرگز دو ہتوں کے برابر ہوگا اور ہر دوہتا اس فاصلہ کے برابر لمبا ہوگا جو اس جگہ (کوفہ) اور مکہ کے درمیان ہے۔ حضرت حسن بصری (رح) نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس گز کی مقدار کیا ہوگی۔ بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس زنجیر میں کافر دوزخی کو جکڑا جائے گا اگر اس کی لمبائی کا اندازہ لگانا چاہو تو اس سے لگاؤ کہ اگر ایک سیسے کا گولہ آسمان سے چھوڑا جائے اور باوجودیکہ زمین و آسمان کے درمیان پانچ سو برس کی مسافت کے برابر فاصلہ ہے وہ گولہ بہت تھوڑی سی دیر میں زمین پر پہنچ جائے گا کیونکہ گول اور بھاری چیز اوپر سے نیچے کو بہت جلدی آتی ہے لیکن اگر وہی گولہ اس زنجیر کے ایک سرے سے لڑھکایا جائے اور آسمان سے زمین والی اسی تیز رفتاری کے ساتھ چالیس سال تک لڑھکتا رہے تب بھی اس زنجیر کے دوسرے سرے تک پہنچ نہیں پائے گا۔

【23】

دوزخ کا ہبہب نالہ :

اور حضرت ابوبردہ (رح) (تابعی) اپنے والد ( حضرت ابوموسیٰ اشعری) سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دوزخ میں ایک نالا ہے جس کا نام ہبہب ہے اس نالہ میں ہر اس شخص کو رکھا جائے گا جو متکبر و سرکش حق سے دور مخلوق پر سختی کرنے والا ہے۔ (دارمی) تشریح ہبہب کے اصل معنی تیزی وجلدی کے ہیں اور مذکورہ نالہ کو ہبہب کا نام اسی مناسبت سے دیا گیا ہے کہ ایک تو اس نالہ میں بھڑکنے والی آگ سے بہت تیز شعلے اٹھتے ہیں دوسرے یہ کہ نالہ میں ڈالے جانے والے گنہگاروں کو عذاب بڑی سرعت کے ساتھ ہوگا۔

【24】

دوزخیوں کی طویل وعریض جسامت :

حضرت ابن عمر نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ دوزخ میں دوزخیوں کے بدن بہت بڑے بڑے ہوجائیں گے ( جس سے ان کو عذاب بھی زیادہ معلوم ہوگا یہاں تک کہ ایک دوزخی کے کان کی لو سے اس کے کاندھے تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت کے برابر ہوگا اس کی کھال کی موٹائی ستر گز کی ہوگی اور اس کے دانت احد پہاڑ کے برابر ہوں گے۔

【25】

دوزخ کے سانپ بچھو :

اور عبداللہ بن حارث بن حزء کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دوزخ میں بختی اونٹ کے برابر (بہت بڑے بڑے) سانپ ہیں ان میں سے جو سانپ ایک دفعہ بھی جس کو ڈس لے گا وہ اس کے زہر کی ٹیس ولہر اور درد کی شدت میں چالیس سال تک مبتلا رہے گا اس طرح دوزخ میں جو بچھو ہیں وہ پالان بندھے خچروں کے مانند ہیں اور ان میں سے جو بچھو ایک دفعہ جس کو ڈنگ مارے گا وہ اس کی لہر اور درد کی شدت میں چالیس سال تک مبتلا رہے گا (ان دونوں روایتوں کو احمدنے نقل کیا ہے )

【26】

چاند وسورج سپرد آگ کردئیے جائیں گے :

اور حضرت حسن بصری (رح) کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ہم سے رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کی کہ آپ ﷺ نے فریاما قیامت کے دن سورج اور چاند کو پنیر کے دو ٹکڑوں کی طرح لپیٹ کر ( دوزخ کی آگ میں ڈال دیا جائے گا حضرت حسن بصری (رح) کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث سن کر حضرت ابوہریرہ (رض) سے پوچھا کہ آخر سورج و چاند کیا گناہ کرتے ہیں کہ ان کو آگ کے سپرد کردیا جائے گا حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواب دیا میں نے جو کچھ بیان کیا وہ رسول کریم ﷺ کی حدیث ہے حضرت حسن بصری (رح) سن کر خاموش ہوگئے۔ اس روایت کو بیہقی نے کتاب البعث والنشور میں نقل کیا ہے۔ تشریح حضرت ابوہریرہ (رض) نے اپنے مذکورہ جواب کے ذریعہ گویا حضرت حسن بصری (رح) کو متنبہ کیا کہ تم قیاس کو صریح نص (یعنی حدیث کے مقابل کر رہے ہو اور یہ سمجھ رہے ہو کہ دخول دوزخ کا اصل موجب عمل ہے حالانکہ اصل چیز اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ یہ بات علامہ طیبی (رح) نے لکھی ہے لیکن زیادہ درست یہ وضاحت ہے کہ حضرت حسن بصری کے کہنے کا مقصد گویا اس خواہش کا اظہار تھا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) وہ حکمت بھی بیان کردیں جو سورج و چاند کو دوزخ کی آگ کے سپرد کئے جانے کے پیچھے کار فرما ہوگی اور حضرت ابوہریرہ (رض) کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے جو کچھ سنا اس کو تمہارے سامنے بیان کردیا اس سے زیادہ مجھے بھی کچھ معلوم نہیں۔ ویسے بعض علماء نے لکھا ہے کہ سورج و چاند کو دوزخ میں اس لئے ڈالا جائے گا کہ دوزخ کی آگ میں ان دونوں کی حرارت و تمازت بھی شامل ہوجائے اور دوزخیوں پر عذاب کی شدت اور بڑھ جائے دیلمی (رح) نے مسند فردوس میں حضرت عمر (رض) سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ سورج و چاند کا رخ عرش کی طرف ہے اور ان کی پشت دنیا کی طرف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ان دونوں کا رخ دنیا کی طرف ہوتا تو دنیا والے ان کی حرارت و تمازت ہرگز برداشت نہیں کرسکتے تھے اور بعض نے یہ لکھا ہے کہ مشرک چونکہ چاند وسورج کی پوجا کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان دونوں کو دوزخ میں جھونک کر مشرکین کو شرمندہ کرے گا کہ تم لوگ جن چیزوں کو اللہ مانتے تھے اب دیکھو ان کا کیا حال ہے۔

【27】

شقی کون ہے؟

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دوزخ میں وہی شخص ڈالا جائے گا جو شقی یعنی بدبخت ہے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کون شقی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا شقی وہ ہے جو نہ تو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر (فرض و واجب) عبادت و طاعات اختیار کرے اور نہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے یعنی خوف سے گناہ و معصیت ترک کرے۔ (ابن ماجہ ) تشریح شقی کا لفظ عام مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے یعنی اس سے کافر بھی مراد ہے اور مسلمان فاجر بھی۔