176. جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔

【1】

جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان :

اس باب میں وہ احادیث نقل ہوں گی جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جنت اور دوزخ کی تخلیق ہوچکی ہے اور وہ موجود ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے، اس کے برخلاف مسلمانوں میں ہی کے بعض گمراہ فرقے کہتے ہیں کہ جنت و دوزخ کی ابھی تخلیق نہیں ہوئی خصوصیات کا ذکر ہے اور یہ بیان ہے کہ کس کے لئے جنت پیدا کی گئی ہے اور کس کے لئے دوزخ۔

【2】

جنت اور دوزخ کی شکایت :

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت و دوزخ نے آپس میں بحث و تکرار کی چناچہ دوزخ نے تو یہ کہا کہ مجھے سرکش و متکبر اور ظالموں کے لئے چھانٹا گیا ہے اور جنت نے یہ کہا کہ میں اپنے بارے میں کیا کہوں میرے اندر بھی تو وہی لوگ داخل ہوں گے جو ضعیف و کمزور ہیں۔ لوگوں کی نظروں میں گرے ہوئے ہیں اور جو بھولے بھالے اور فریب میں آجانے والے ہیں۔ (یہ سن کر) اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت کے اظہار کا ذریعہ اور میرے کرم کی آماجگاہ کے علاوہ اپنے بندوں سے جس کو اپنی رحمت سے نوازنا چاہتا ہوں اس کے لئے تجھے ہی ذریعہ بناتا ہوں۔ اور دوزخ سے فرمایا تو میرے عذاب کا محل ومظہر ہونے کے علاوہ کچھ نہیں میں اپنے بندوں میں سے جس کو عذاب دینا چاہتا ہوں اس لئے تجھے ہی ذریعہ بناتا ہوں اور میں تم دونوں ہی کو لوگوں سے بھردوں گا البتہ دوزخ کے ساتھ تو یہ معاملہ ہوگا کہ وہ اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک کہ اس پر اللہ تعالیٰ اپنا پاؤں نہ رکھ دے گا، چناچہ جب اللہ تعالیٰ رکھ دے گا تو دوزخ پکار اٹھے گی کہ بس، بس، بس، اس وقت دوزخ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بھر جائے گی اور اس کے حصوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیا جائے گا (پس وہ سمٹ جائے گی) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا رہا جنت کا معاملہ تو (اس کے بھرنے کے لئے) اللہ تعالیٰ نئے لوگ پیدا کردے گا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح جنت و دوزخ نے آپس میں بحث و تکرار کی کا مطلب یہ ہے کہ دونوں نے گویا اپنے اپنے بارے میں ایک طرح کا شکوہ شکایت کیا دوزخ کا کہنا اگر یہ تھا کہ سرکش و ظالم لوگوں کے لئے مجھے ہی کیوں مخصوص کیا گیا تو جنت نے یہ کہا کہ میرا معاملہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے میرے اندر بھی تو انہی لوگوں کو داخل کیا جائے گا دنیا میں جن کی کوئی شان و شوکت نہیں ہے اور کمزور جسم لاغر بدن خستہ حال ومفلس اور لوگوں کی نظروں میں بےوقعت ہیں ان دونوں کا شکوہ سن کر اللہ تعالیٰ نے ان پر واضح کیا کہ تم میں سے کسی کا بھی اس کے علاوہ کوئی معاملہ نہیں کہ تم دونوں کو محض میری مشیت اور مصلحت کے نتیجہ میں وجود میں لایا گیا ہے کہ میں نے ایک کو اپنی رحمت اور لطف و کرم کا اور دوسری کو اپنے قہر وغضب کا محل ومظہر بنایا پس مؤمن اور کافر کی طرح تم دونوں بھی، یعنی جنت و دوزخ دراصل خدائی جمال و جلال کے مظاہر کا نقطہ کمال ہو اور تم دونوں میں سے کسی کو بھی ایسی کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے جس سے دوسرے کے مقابلہ پر اس کی فضیلت و برتری ظاہر ہو اگرچہ اتنی بات ضرور ہے کہ دوزخ کے معاملات کا تعلق عدل و انصاف سے جڑا ہوا ہے اور جنت کے معاملات فضل و کرم سے تعلق رکھتے ہیں۔ لوگوں کی نظروں میں گرے ہوئے ہیں یعنی وہ لوگ جو اگرچہ اپنے عقیدہ وعمل اور اخلاق کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی قدر ومنزلت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں یعنی علماء وصلحاء اور ارباب باطن کی نظروں میں بھی انہیں قدر ومنزلت ہی حاصل ہوتی ہے لیکن ظاہری طور پر ان کے کمزور و ضعیف خستہ حال اور غریب ونادار ہونے کی وجہ سے اکثر دنیا والے ان کو حقیر وکمتر اور ناقابل اعتناء سمجھتے ہیں نیز میرے اندر وہی لوگ داخل ہوں گے جو کمزور و ضعیف ہیں میں جو مصر ہے اس سے مراد اکثر واغلب ہے کہ جنت میں زیادہ تر لوگ اسی زمرہ کے ہوں گے، ورنہ جنت میں جانے والے تو انبیاء و رسول بھی ہوں گے اور سلاطین وامراء بھی ! یا یہ کہا جائے کہ ضعفاء (ضعیف و کمزور) سے مراد وہ بندے ہیں جو پروردگار کے سامنے بھی ذلت وفروتنی ظاہر کرتے ہیں، مخلوق کے ساتھ بھی تو تواضع و انکساری کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور خود اپنی نظر میں بھی اپنے کو گرائے رکھتے ہیں۔ جو بھولے بھالے اور فریب میں آجانے والے ہیں۔ یعنی وہ لوگ فکر آخرت میں سرگرداں رہنے کی وجہ سے دنیاوی امور سے غافل اور دنیاوی معاملات میں ناتجربہ کار رہتے ہیں اس لئے دنیا ان کو بڑی آسانی کے ساتھ بیوقوف بنادیتے ہیں اپنے مکر و فریب کے جال میں پھانس لیتے ہیں اسی اعتبار سے ایک حدیث میں یوں فرمایا گیا ہے کہ اہل جنت کی اکثریت دنیاوی امور سے نابلند اور نادان) لوگوں پر مشتمل ہوگی ان کے مقابلہ پر کافر و منافق دنیاوی معاملات میں بڑے چالاک اور مکار ہوتے ہیں کیونکہ وہ دنیا کے معاملات کو سب کچھ سمجھ کر اپنے فکر وعمل کی پوری توانائی ادھر ہی لگائے رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یعملون ظاہرا من الحیوۃ الدنیا وہم عن الاخرۃ ہم غافلون وہ دوزخ اس وقت تک نہیں بھرے گی۔۔۔۔۔۔ الخ۔ یعنی جتنے لوگوں کا دوزخ میں جانا مقدر ہوگا ان سب کے دوزخ میں پہنچ جانے کے بعد بھی جب دوزخ کا پیٹ نہیں بھرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ سے مزید دوزخیوں کا مطالبہ کرے گی، قرآن کریم میں ہے یوم نقول لجہنم ہل امتلئت وتقول ہل من مزید لیکن اللہ تعالیٰ اس کا پیٹ بھرنے کے لئے یہ نہیں کرے گا کہ بےگناہ لوگوں کو جہنم میں بھر دے یا جو گناہ گار بخشے جانے والے ہوں گے انہیں کو دوزخ کے سپرد کردے یا نئے لوگ اس لئے پیدا کرے کہ ان کو دوزخ کا پیٹ بھرنے کے کام میں لایا جائے، بلکہ یہ کرے گا کہ اپنا پیر دوزخ پر رکھ دے گا جس سے دوزخ کے تمام اطراف ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گی اور دوزخ کا پیٹ سمٹ کر وہاں موجود لوگوں سے بھر جائے گا، یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر ظلم نہیں کرے گا تو اس سے مراد یہ ہے کہ دوزخ کا پیٹ بھرنے کے لئے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرے گا جس کو صورتا ظلم سے تعبیر کا جاسکتا ہو، ورنہ اصل بات یہ ہے اگر پروردگار بےگناہ لوگوں ہی کو دوزخ میں ڈال کر اس کا پیٹ بھرے تو حقیقت میں اس کو ظلم نہیں کہیں گے کیونکہ اپنی ملکیت میں کسی طرح کے بھی تصرف کو ظلم قرار نہیں دیا جاتا مگر اللہ تعالیٰ صورۃ ظلم بھی نہیں کرے گا اس ضمن میں یہ ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف پاؤں کی نسبت متشابہات میں سے ہے جیسا کہ اس کے لئے ہاتھ آنکھ اور چہرے کے ذکر کو متشابہات میں شمار کیا جاتا ہے اور متشابہات کے سلسلے میں قرآن و حدیث میں ہے وہ یہ ہے کہ بس یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اس سے جو کچھ مراد ہے وہی درست اور حق ہے اس کی حقیقت و کیفیت کی جستجو میں نہ پڑا جائے یہی سب سے بہتر راستہ ہے اور اسی کو سلف نے اختیار کیا ہے، تاہم متاخیرین ارباب طویل میں سے بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے پیر سے مراد اس کی مخلوق میں سے کسی کا پیر ہے، اس کے علاوہ بعض لوگوں نے کچھ اور ایسی تاویلیں بھی کی ہیں جو ذات اقدس تعالیٰ کی شان کے مطابق ہیں لیکن طوالت کے خوف سے ان کو یہاں ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔ جنت کو بھرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نئے لوگ پیدا کرے گا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جمع کرکے جنت میں داخل کردے گا جنہوں نے کبھی کوئی عمل نہیں کیا ہوگا اور جنت کے مستحق نہیں ہوں گے پس یہ رب کریم کی شان رحمت کا اظہار ہوگا کہ وہ دوزخ کو بھرنے کے لئے بےگناہ لوگوں کو تو اس میں نہیں ڈالے گا لیکن بہشت کو بھرنے کے لئے بےعمل لوگوں کو اس میں داخل کردے گا۔

【3】

دوزخ و جنت کو بھرا جائے گا :

اور حضرت انس (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا دوزخ میں برابر (لوگوں) کو ڈالا جاتا رہے گا اور وہ کہتی رہے گی کہ کچھ اور بھی ہے ؟ (یعنی ابھی تک میرا پیٹ نہیں بھرا ہے مجھے اور لوگ چاہیں) آخر کار خداوند بزرگ و برتر اس پر اپنا پاؤں رکھ دے گا اور دوزخ کے حصے ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے (جس سے دوزخ سمٹ جائے گی تب وہ کہے گی کہ بس، بس، تیری عزت اور تیرے کرم کی قسم میں بھر گئی اس طرح جنت کے اندر وسعت و زیادتی ہوتی رہے گی (یعنی جنتیوں کے جنت میں پہنچ جانے کے باوجود اس کے محلات ومکانات خالی بچ جائیں گے) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ جنت کے ان خالی محلات مکانات کو پر کرنے کے لئے نئے لوگ پیدا کردے گا جہنیں ان میں بسا دیا جائے گا۔ ( بخاری ومسلم) اور حضرت انس کی روایت کتاب الرقاق میں نقل کی جاچکی ہے۔

【4】

جنت کو مکروہات نفس سے اور دوزخ کو خواہشات نفس سے گھیر دیا گیا ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب جنت کو بنایا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا کہ جاؤ ذرا جنت کی طرف نگاہ اٹھا کر تو دیکھو، (میں نے کتنی اچھی اور کس قدر نازک اور دیدہ زیب چیز بنائی ہے چناچہ وہ گئے اور جنت کو اور اس کی ان تمام چیزوں کو جو اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے لئے بنائی ہیں دیکھا، پھر واپس آکر عرض کیا کہ پروردگار تیری عزت کی قسم (تونے اتنی اعلی اور نفیس جنت بنائی ہے اور اس کو ایسی ایسی نعمتوں اور خوبیوں سے معمور کیا ہے کہ) جو کوئی بھی اس کے بارے میں سنے گا وہ اس میں داخلہ کی یقینا خواہش کرے گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے جنت کے چاروں طرف ان چیزوں کا احاطہ قائم کردیا، جو نفس کو ناگوار ہیں اور فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) جا کر جنت کو دوبارہ دیکھ آؤ چناچہ وہ گئے اور جنت کو اس اضافہ کے ساتھ جو چاروں طرف احاطہ کی صورت میں ہوا تھا) دیکھ کر واپس آئے اور عرض کیا کہ پروردگار ! تیری عزت کی قسم مجھے یہ خدشہ ہے کہ اب شاید ہی کوئی جنت میں داخل ہونے کی خواہش کرے (کیونکہ اس کے گرد مکروہات نفس کا جو احاطہ قائم کردیا گیا ہے اس کو عبور کرنے کے لئے نفسانی خواہشات کو مارنا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ انسان خواہشات نفس کو مار کر جنت تک پہنچنا دشوار سمجھے گا) آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے دوزخ بنائی تو حکم دیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) ! جاؤ دوزخ کو دیکھ کر آؤ کہ میں نے کتنی ہولناک اور بری چیز بنائی ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا پس جبرائیل گئے اور دوزخ کو دیکھ کر واپس آئے تو عرض کیا کہ پروردگار ! تیری عزت و جلال کی قسم جو کوئی بھی دوزخ کے بارے میں سنے گا وہ ڈر کے مارے اس سے دور رہے گا اور اس میں جانے کی خواہش نہ کرے گا، تب اللہ تعالیٰ نے دوزخ کے چاروں طرف خواہشات اور لذات دنیا کا احاطہ قائم کردیا اور جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا کہ جبرائیل ! جاؤ دوزخ کو دوبارہ دیکھ کر آؤ آنحضرت ﷺ نے فرمایا چناچہ حضرت جبرائیل گئے اور دوزخ کو اس احاطہ کے اضافہ کے ساتھ دیکھ کر واپس آئے اور عرض کیا کہ پروردگار ! تیری عزت و جلال کی قسم، مجھے خدشہ ہے کہ اب شاید ہی کوئی باقی بچے جو دوزخ میں نہ جائے کیونکہ جن خواہشات نفس اور لذات دنیا کا احاطہ دوزخ کے چاروں طرف کردیا گیا ہے وہ اس قدر دلفریب اور اتنی زیادہ مزیدار ہیں کہ نفس طبیعت کی پیروی کرنے والوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جو ان خواہشات ولذات کی طرف نہ لپکے اور اس کے نتیجہ میں دوزخ میں نہ جانا پڑے۔ تشریح مکارہ اصل میں مکرہ کی جمع ہے جس کی معنی ہیں مکروہ یعنی ناپسندیدہ و دشوار چیز یہاں مکارہ سے مراد وہ شرعی امور ہیں جن کا انسان کو مکلف قرار دیا گیا ہے کہ فلاں فلاں کو اختیار کیا جائے اور فلاں فلاں سے اجتناب کیا جائے پس جنت کے چاروں طرف مکارہ کا احاطہ قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور گناہوں سے اجتناب کرنے کی تکلیف ومشقت اٹھائی جائے گی نفس کی خواہشات اور اس کی تمناؤں کو ختم نہ کردیا جائے گا اس وقت تک جنت میں داخل ہونا ناممکن ہوگا۔

【5】

آنحضرت ﷺ کو جنت ودوزخ کا مشاہدہ :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر منبر پر چڑھے اور مسجد کے قبلہ کی طرف اپنے دست مبارک سے اشارہ کرکے فرمایا کہ ابھی جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو مجھے اس دیوار کے سامنے کے حصہ میں جنت اور دوزخ کی تمثیلیں دکھائی گئیں واقعہ یہ ہے کہ میں نے جتنی اچھی چیز اور جتنی بری چیز آج دیکھی ہے اس جیسی اچھی اور بری چیز پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ (بخاری) تشریح لفظ قبل ق کے زیر ب کے زبر کے ساتھ بھی منقول ہے اور ان دونوں کے پیش کے ساتھ بھی اسی طرح ق کے پیش ب کے جزم کم ساتھ بھی نقل ہوا ہے ان سب صورتوں میں معنی ایک ہی ہیں یعنی سامنے ہونا۔ میں نے جتنی اچھی چیز اور جتنی بری چیز آج دیکھی ہے۔۔۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ تھا کہ جو بھی اچھی چیز انسان دیکھ سکتا ہے اس سے زیادہ اچھی چیز میں نے جنت کو دیکھا ہے اسی طرح جو بھی بری چیز اس دنیا میں دیکھی جاسکتی ہے اس سے بھی زیادہ بری چیز میں نے دوزخ کو دیکھا ہے۔ یہاں اگر یہ اشکال پیدا ہوتا ہو کہ جنت و دوزخ اس قدر وسیع و عریض ہونے کے باوجود حضور ﷺ کے سامنے ایک دیوار میں کس طرح ممثل ومنور ہو کر آگئیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ کسی بھی چیز کی تمثیل وعکس کے لئے یہ مطلقا ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اس چیز کے اصل طول وعرض کے ساتھ منعکس ہو۔ سب سے بڑی مثال پانی یا آئینہ میں کسی چیز کے عکس کی ہے کہ کسی وسیع و عریض باغ یا مکان کا جو پورا عکس پانی یا آئینہ میں آتا ہے وہ اصل باغ یا مکان کے حقیقی طول وعرض کے ساتھ ہرگز نہیں ہوتا ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ حدیث کے متعلقہ الفاظ سے یہ لازم نہیں آتا جنت یا دوزخ کی تمثیل یا تصویر دیوار کے اوپر نقش یا کندہ ہوگئی ہو بلکہ ان الفاظ میں ان تمثیل کو دیوار کے سامنے کے حصہ میں دیکھنے کا ذکر ہے جس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تمثیلیں آپ ﷺ کو دیوار کی سمت میں دکھائی گئی ہے اور ان تمثیلوں کا وجود کسی اور عالم میں یا کسی اور جگہ ہو۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ یعنی میں نے جنت اور دوزخ کو اس دیوار کے گوشہ پر دیکھا اس حدیث کے ضمن میں بھی شارحین حدیث نے مذکورہ بالااشکال اور اس کا مذکورہ ہی جواب نقل کیا ہے۔ بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی یہ مراد نہیں تھی کہ میں نے جنت اور دوزخ کو اس طرح دیکھا کہ ان کی تمثیل دیوار کے سامنے کے حصہ میں تھیں، بلکہ آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ میں نے (اپنی روحانی آنکھوں سے) جنت اور دوزخ کو دیکھا، جب کہ میں قبلہ کی طرف کی دیوار کے سامنے تھا، اس صورت میں کوئی اشکال واقع نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔

【6】

ابتدائے پیدائش اور انبیاء (علیہ السلام) کے ذکر کا بیان :

ابتدائے پیدائش سے مراد اس کائنات کا عالم وجود میں آنا اور مخلوقات کی پیدائش و تخلیق کا سلسلہ شروع ہونا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) چونکہ اس کائنات کا جوہر ہیں، دین وملت کی تدوین و تربیت کا نقطہ آغاز ان ہی کی ذات ہے، امور عالم کا نظم و انتظام اور اصلاح انہی سے وابستہ ہے اور نوع انسانی کی پیدائش کا سلسلہ ابوالبشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہی سے شروع ہوتا ہے جو نبی اول بھی ہیں اس لئے ان مقدس نفوس کے ذکر کو عنوان باب کا دوسرا جزء قرار دیا گیا ہے۔ عالم حادث ہے سب سے پہلے یہ امر ذہن نشین رہنا چاہئے کہ تمام مذہب سماویہ اور ملتیں یہاں تک مجوسی بھی اس پر متفق ہیں کہ عالم حادث ہے یعنی یہ دنیا اور دنیا کی ہر چیز عدم سے وجود میں آئی ہے، اللہ کے سوا کوئی بھی چیز پہلے موجود نہیں تھی بعد میں اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ اس بارے میں سب سے بہتر شہادت مخبر صادق ﷺ کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا۔ کان اللہ ولم یکن معہ شیئ۔ صرف اللہ کی ذات موجود تھی اس کے ساتھ کسی چیز کا وجود نہیں تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے لوح وقلم کو پیدا کیا اور مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (تقدیر) لکھی، اس کے بعد عرش کرسی، آسمانوں، زمینوں، فرشتوں اور جنات و انسان کو پیدا فرمایا۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام اجسام اپنی ذات وصفات کے ساتھ حادث ہیں اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اجسام میں سے جو چیز سب سے پہلے پیدا ہوئی وہ پانی ہے کیونکہ یہ خصوصیت صرف پانی کو حاصل ہے کہ وہ ہر شکل و صورت اختیار کرسکتا ہے اور تمام چیزوں کا مادہ تخلیق بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، چناچہ کہا جاتا ہے کہ یہ پانی ہی تھا جس میں لطافت پیدا ہوئی تو ہوا عالم وجود میں آئی پھر اس کے جوہر سے آگ پیدا ہوئی اور اس کے دھوئیں سے آسمان بنا واضح رہے کہ آسمان پر دخان یعنی دھوئیں کا اطلاق قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ یہ قول کہ کائنات کی ہر چیز کا مادہ تخلیق پانی ہے اور پانی ہی کے جوہر سے آگ اور اس کے دھوئیں سے آسمان پیدا ہوا۔ قدیم حکماء میں سے ایک شخص ط اس ملطی کی طرف منسوب ہے لیکن علماء نے کہا ہے کہ ط اس ملطی نے یہ بات آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے اخذکر کے کہی ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس سلسلہ میں جو کچھ فرمایا ہے اس کی تصدیق نہ صرف حکماء قدیم وجدید کے اقوال سے ہوتی ہے بلکہ قدیم آسمانی کتابوں میں بھی اسی طرح منقول ہے چناچہ توریت کے پہلے صفحہ میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اس کائنات ارضی وسماوی کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو) ایک جوہر پیدا فرمایا اور اس پر ہیبت و جلال کی نظر ڈالی جس سے اس جوہر کے اجزاء پگھل کر پانی ہوگئے پھر اس میں سے دھوئیں کے مانند بخارات اٹھے جس سے آسمان کو پیدا کیا اور پھر اس پانی پر جھاگ ظاہر ہوا جس سے زمین کو وجود بخشا اور زمین کو جمانے اور قائم رکھنے کے لئے پہاڑوں کو پیدا فرمایا۔ بہرحال ابتدائے تخلیق کائنات کا موضوع بڑا وسیع اور خاصا بحث طلب مانا گیا ہے، ہمیشہ سے حکماء اور دانشور اس میں مصرف تحقیق رہے ہیں اور کتنے ہی مختلف نظریات و اقوال سامنے آچکے ہیں، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس موضوع کا تعلق ایسے امور سے ہے جن کو محض عقل و قیاس سے معلوم نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کی حقیقت تک رسائی کا مدار خالق کائنات کے عطا کردہ اس علم اور اس علم سے اخذواستنباط پر ہے جو بذریعہ وحی دنیا میں آیا ہے اور جس کو آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشادات کے ذریعہ دنیا والوں تک پہنچا بھی دیا ہے۔

【7】

پہلے اللہ کے سوا کچھ نہ تھا :

حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ( مشہور اور عظیم قبیلہ) بنوتمیم کے کچھ لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم کے لوگوں بشارت حاصل کرو، انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے (دین کی تعلیمات کی صورت میں) بشارت تو ہمیں عطا فرمادی، اب کچھ اور بھی عنایت فرما دیجئے۔ پھر کچھ دیر بعد یمن کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ (یمن کے لوگوں تم بشارت حاصل کرلو، بنوتمیم کے لوگوں نے تو بشارت حاصل نہیں کی، یمن والوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم نے بشارت حاصل کی اور ہم اسی لئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ﷺ سے مذہبی معلومات اور دینی شعور وفہم حاصل کریں، چناچہ ہم آپ سے ابتدائے آفرینش اور مبداء عالم کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس (کائنات کے وجود میں آنے اور مخلوقات کی پیدائش) سے پہلے کیا چیز موجود تھی ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ صرف اللہ کی ذات موجود تھی (ازل الازال میں) اس کے ساتھ اور اس کے پہلے کسی چیز کا وجود نہیں تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور لوح محفوظ میں ہر چیز کو لکھا۔ (حدیث کے راوی حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی یہیں تک سن پایا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ عمران جاؤ اپنی اونٹنی کو تلاش کرو وہ بھاگ گئی ہے (یہ سنتے ہی میں اپنی اونٹنی کو تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا اور اب میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کاش میں اس وقت مجلس نبوی سے اٹھ کر نہ جاتا بھلے ہی میری اونٹنی جاتی رہتی (بخاری) تشریح اس موقع پر بنوتمیم کے جو لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ان کا مطمح نظر آنحضرت ﷺ سے اکتساب دین اور حصول معرفت سے زیادہ کوئی دنیاوی طلب و خواہش تھی، اس لئے جب آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ بشارت حاصل کرو، یعنی مجھ سے ایسی چیز حاصل کرو اور وہ بات قبول کرو جو جنت کی نعمتوں اور دونوں جہان کی سعادتوں کے حصول کی بشارت کا موجب ہے جیسے دین کے عقائد و احکام سیکھنا اور مذہبی معلومات حاصل کرنا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ کی عطا کردہ بشارت ہمارے سر آنکھوں پر، دینی عقائدواحکام سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہمیں تسلیم، لیکن اس وقت ہمارا اصل مقصد کچھ دنیاوی چیزوں کا حاصل کرنا ہے آپ تو ہماری وہ دنیاوی طلب و خواہش پوری فرمادیجئے پس ان لوگوں نے چونکہ فانی دنیا کو زیادہ اہم جانا اور اس کو مذہبی تعلیمات اور دینی فہم و شعور حاصل کرنے پر کہ جو آخرت کے اجروثواب اور دارین کی فلاح وسعادت کا باعث ہے، فوقیت دی، اس لئے آپ ﷺ نے ان کی اس بات کو ان کی عدم لیاقت اور یقین و اعتماد میں ان کے ضعف و کمزوری پر محمول فرمایا اور ازراہ غصہ ان کی طرف سے وہ بشارت کو قبول کئے جانے کی نفی فرمادی، چناچہ آپ ﷺ نے یمن کے لوگوں سے فرمایا کہ بنوتمیم کے لوگوں نے تو بشارت حاصل کی نہیں، تم ہی لوگ اس بشارت کو حاصل کرلو۔ بنوتمیم کے لوگوں کے بعد یمن کے لوگ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، ان کی نیت چونکہ بالکل اور سچی تھی اور ان کی آمد کا اصل مقصد ہی یہ پاک جذبہ تھا کہ آنحضرت ﷺ سے کچھ دین کی باتیں سیکھیں آپ ﷺ کی صحبت سے اپنے عقیدہ و ایمان کو تازگی بخشیں نہ کہ وہ دنیا کی چیز حاصل کرنے یا کسی پست مقصد کے لئے حاضر ہوئے تھے لہٰذا ان کو بشارت حاصل ہوئی طاعت و قبول کی سعادت ان کے حصہ میں آئی۔ علم وعمل ان کا نصیب بنا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے جب کہ بنو تمیم کے لوگ دنیا طلبی کے چکر میں پڑ کر ان سعادتوں اور نعمتوں سے محروم رہے اور ان کی کم نظری اور پست ہمتی نہ ان کو نیچے گرا دیا اس سے معلوم ہوا کہ بندہ مؤمن کو ہمیشہ بلند نظر عالی ہمت اور پاک مقصد ہونا چاہے کیونکہ بلند نظری عالی ہمتی اور مقصد کی پاکی بڑے سے بڑے درجہ و مرتبہ کو پہنچا دیتی ہے اور دارین کی فلاح وسعادت سے نوازتی ہے جیسا کہ ایک بزرگ حضرت شیخ ابوالعباس مرصی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک دن حضرت امیرحمزہ کی تربت کی زیارت کے ارادے سے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور ایک شخص بھی ان کے ساتھ ہولیا جو وہ حضرت امیرحمزہ کے مقبرہ پر پہنچے تو خلاف معمول حضرت شیخ ابوالعباس کے لئے خاص طور پر مقبرہ کا دروازہ کھولا گیا وہ اندر داخل ہوئے اور تربت پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ عالم غیب کے کچھ لوگوں کی ایک جماعت کسی بھی طرح کی کمی اور عیب سے پاک اپنے اجسام کے ساتھ موجود ہے حضرت شیخ ان کو دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ یہ ساعت قبولیت ہے یہاں پروردگار سے جو کچھ بھی طلب کیا جائے حاصل ہوگا چناچہ انہوں نے پروردگار سے دنیا وآخرت میں عفو و عافیت کی دعا مانگی اور پھر از راہ ہم دردی اور شفقت اپنے ساتھی سے کہا کہ میرے عزیز اللہ تعالیٰ سے جو کچھ چاہتے ہو مانگ لو، کیونکہ یہ دعا کی قبولیت اور فضل ربی حاصل ہونے کا وقت ہے اس شخص نے بڑی پست ہمتی دکھائی اور ایک دینار کی دعا مانگی (کہ پروردگار مجھے ایک دینار عطا کردے) نہ تو اس نے آخرت کا کوئی ذکر کیا اور نہ جنت و دوزخ کے بارے میں کچھ عرض مدعا کیا۔ اس کے بعد وہ دونوں مقبرہ سے نکلے اور واپسی کے لئے مدینہ کی طرف چل پڑے اور مدینہ شہر میں داخل ہوئے تو اہل مدینہ میں سے کسی نے اس شخص کے ہاتھ میں ایک دینار تھما دیا پھر شہر میں پہنچ کر وہ دونوں اس زمانے کے مشہور قطب وولی حضرت سید ابوالحسن شاذلی کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت شاذلی پر ان دونوں کا پورا قصہ منکشف ہوگیا انہوں نے بڑے تأسف کے ساتھ اس شخص سے کہا کہ ارے پست ہمت تجھے قبولیت دعا کا وقت نصیب ہوا اور تو نے ذلیل دنیا کا ایک حقیر ٹکڑا مانگنے پر اکتفا کیا ؟ آخر تو نے ابوالعباس کی طرح عفو و عافیت کی دعا کیوں نہیں مانگی یہ تو وہ نعمت ہے جو تجھے حاصل ہوجاتی تو تیری دنیا بھی تیرے قدموں میں آجاتی اور تیری عاقبت بھی سنور جاتی صرف اللہ کی ذات موجود تھی یعنی جس طرح اس کی پاک ذات ابد الاباد تک رہنے والی ہے اسی طرح ازل الازال میں بھی صرف اسی کی ذات تھی کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے موجود ہے اور اس سے پہلے کسی بھی چیز کا وجود نہیں تھا، جس طرح اس کے لئے کوئی انتہا واختتام نہیں ہے اسی طرح اس کے لئے کوئی ابتداء نہیں ہے، اس کی ذات اور اس کا وجود تغیروحدث سے پاک ومبرا ہے جو اس کے بندوں اور اس کی مخلوق کا خاصہ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نہ پہلے کبھی اس کی ذات عدم میں تھی اور نہ آئندہ کبھی وہ عدم میں ہوگا کیونکہ جو ذات ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لئے قائم و باقی ہے اس کا عدم محال ہے۔ اللہ تعالیٰ سے پہلے کسی چیز کا وجود نہیں تھا یہ پہلے جملہ کی وضاحت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے علاوہ ہر چیز حادث ہے تو اس واجب الوجود سے پہلے کسی اور چیز کے وجود کا تصور تک نہیں ہوسکتا اور چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق وموجد ہے اس لئے جو بھی چیز وجود میں آئی ہے اسے کے بعد اور اسے کی قدرت تخلیق سے وجود پذیر ہوئی ہے اور اس کا عرش پانی پر تھا الخ، اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے عرش اور پانی کی تخلیق زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ہوئی ہے نیز شروع میں عرش کے نیچے پانی کے علاوہ زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز نہیں تھی پس عرش کا پانی پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عرش اور پانی کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تھی یہ مطلب نہیں ہے کہ عرش پانی کی سطح پر قائم تھا نیز اس پانی سے مراد وہ پانی نہیں ہے جو سمندروں اور دریاؤں میں موجود ہے بلکہ عرش کے نیچے کا وہ پانی قدرت ومشیت الہٰی کا مظہر کوئی اور ہی پانی تھا اس کا تفصیلی ذکر کتاب کی ابتداء میں باب الایمان بالقدر میں گزر چکا ہے ابن ملک نے مذکورہ جملہ کی تشریح میں لکھا ہے عرش پانی پر تھا پانی ہوا کی پشت پر تھا اور ہوا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے قائم تھی۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہم کہ عرش اور پانی کی تخلیق آسمان اور زمین کی تخلیق سے پہلے ہوئی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پانی سے پیدا فرمایا اس طرح کہ پانی اپنی تجلی ڈالی، تو وہ موجیں مارنے لگا اور اس میں زبردست اتھل پتھل ہوئی جس کے سبب سے اس میں جھاگ پیدا ہوا اور وہ جھاگ جمع ہو کر اس جگہ قائم ہوا جہاں خانہ کعبہ ہے اور اس طرح زمین کا سب سے پہلا ٹکڑا عالم وجود میں آیا اور پھر اسی ٹکڑے سے چاروں طرف زمین پھیلائی گئی اور اس کائنات کا تختہ ارض قائم ہوا، پھر اس تختہ ارض پر پہاڑوں کو پیدا کیا گیا تاکہ زمین ہلنے اور ڈولنے نہ پائے اور پہاڑوں کے دباؤ سے ساکن وجامد رہے اور جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، سب سے پہلے جو پہاڑ پیدا کیا گیا وہ جبل ابوقبیس ہے نیز اس پانی میں تموج اور اضطراب سے دھوئیں کی شکل میں جو بخارات اوپر کی طرف بلند ہوئے ان سے آسمان پیدا ہوئے۔ اور لوح محفوظ میں ہر چیز کو لکھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہر چیز کے متعلق لوح محفوظ میں ہر وہ بات لکھ دی ہے جو اس کو پیش آنے والی ہے اور اسی کے مطابق دنیا میں ظہور ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ لوح محفوظ میں اللہ تعالیٰ کے لکھنے سے کیا مراد ہے ؟ تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حروف والفاظ پیدا فرمائے ہوں جو اس لوح محفوظ میں مرتسم ہوگئے ہوں یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو لکھنے کا حکم دیا اور انہوں نے اس حکم کے مطابق ہر چیز لوح محفوظ میں لکھ دی ! یہ واضح رہے کہ لوح محفوظ میں ہر چیز کا لکھا جانا عرش کی بھی تخلیق سے پہلے ہوگیا تھا۔ روایت کے آخری الفاظ کے ذریعہ حضرت عمران ابن حصین نے اپنے تاسف کا اظہار کیا کہ وہ اپنی اونٹنی کے چکر میں پڑ کر ایسے موقع پر مجلس نبوی سے اٹھ گئے جب کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا سلسلہ جاری تھا اور وہ آگے کے ملفوظات نبوی ﷺ نہ سن سکے صورت حال یہ ہوئی کہ حضرت عمران مجلس نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنی اونٹنی دروازے کے باہر باندھ دی تھی، اس دوران کہ آنحضرت ﷺ یمن کے لوگوں کو اس کائنات کے ابتدائے آفرنیش اور مبدء عالم کے بارے میں بتا رہے تھے، کسی شخص نے آکر حضرت عمران سے کہا کہ تمہاری اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہے جلدی جاؤ اور اس کو پکڑ و اور وہ یہ سنتے ہی مجبورا اٹھ گئے اور اپنی اونٹنی کو پکڑنے کے لئے چلے گئے پھر بعد میں بشیمان ہوئے کہ میں کیوں اٹھ گیا اور آنحضرت ﷺ کی مبارک صحبت اور ان حقائق وعلوم سے محروم رہ گیا جو اس وقت بیان فرمائے جارہے تھے۔

【8】

آنحضرت ﷺ نے ابتدائے آفرینش سے روز قیامت تک کے احوال بیان فرمادیئے تھے :

اور حضرت امیر المؤمنین حضرت عمر ف اور ق (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ خطبہ دینے کے لئے ہمارے سامنے کھڑے ہوئے آپ ﷺ نے اس خطبہ کے دوران ابتدائے آفرینش سے قیامت کے دن جنت و دوزخ میں داخل ہونے تک کے تمام احوال و کوائف کا ذکر فرمایا جس شخص نے ان باتوں کو یاد رکھا اس کو یاد ہیں اور جس شخص نے بھلادیا وہ بھول گیا ہے (بخاری) تشریح مطلب یہ کہ آپ ﷺ نے اس دن بڑی تفصیل کے ساتھ مبداء ومعاد کے احوال کو اول سے آخر تک بیان فرمایا یعنی پہلے آپ ﷺ نے تخلیق کائنات کی ابتداء کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو قائم کرنے کا ارادہ کیا تو شروع میں کیا کیا چیزیں بنائیں پھر کس طرح نظام عالم کو قائم فرمایا اور اس عالم کو انسان نامی مخلوق سے آباد کرنے کے لئے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق فرمائی اور ان کے ذریعہ نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا، کائنات انسانی کی تہذیبی، اخلاقی اور دینی زندگی کا نظم قائم کرنے اور رب کائنات کی حاکمیت و ہدایت کے ظہور کے لئے کون نبی اور رسول اس دنیا میں آئے کیسی کیسی ملتیں اور قومیں وجود میں آئیں، ان ملتوں اور قوموں نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا، جن لوگوں نے اللہ کے بیجھے ہوئے رسولوں کی اطاعت کی ان کو کیا اجروانعام ملے اور جن لوگوں نے ان رسولوں کو جھٹلایا اور ان کی بات ماننے سے انکار کردیا ان کو کس طرح تباہ و برباد کردیا گیا اور آخرت میں ان سب ملتوں اور امتوں کا کیا حال ہوگا اور پھر آخر میں آپ ﷺ نے اپنی امت کے بارے میں بتایا کہ اللہ کے آخری دین اسلام کو ماننے والوں یعنی مسلمانوں کی ملی زندگی میں کیسے کیسے انقلاب آئیں گے، انہیں کن کن احوال سے دوچار ہونا پڑے گا کون کون سی اچھائیاں ان کا طرہ امتیاز بنیں گی اور کون کون سی برائیاں ان کی دینی و دنیاوی زندگی کو خراب کریں گی پھر آخرت میں اس امت محمدیہ کے ساتھ کیا سلوک ہوگا، کس طرح کے لوگ جنت میں اور کس طرح کے لوگ دوزخ کے سپرد کئے جائیں گے۔ جس شخص نے ان باتوں کو یاد رکھا۔۔۔۔ الخ۔ سے حضرت عمر کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ نے وہ باتیں جس کا تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی تھیں، ان کو ان لوگوں نے یاد رکھا جہنوں نے یاد رکھنے کی کوشش کی اور جن کو اللہ تعالیٰ نے یاد رکھنے کی توفیق عطا فرمائی اور وہ لوگ ان باتوں کو بھول گئے جہنوں نے یاد رکھا جہنوں نے یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ حاصل یہ کہ بعض لوگوں کو وہ پوری باتیں یاد ہیں اور بعض لوگ ان کو بھول گئے ہیں۔

【9】

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر سبقت لے گئی ہے :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق یعنی زمین آسمان کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب لکھی اس میں یہ درج ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے اور وہ کتاب یا مذکورہ عبارت اللہ تعالیٰ کے پاس عرش کے اوپر لکھی ہوئی موجود ہے (بخاری ومسلم ) تشریح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کو تمام خلائق سے پوشیدہ رکھا گیا ہے کہ اس کے مندرجات اللہ تعالیٰ کا ایسا راز ہیں جن کو کسی پر کھولا نہیں گیا ہے اور نہ کسی کے علم و ادراک کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ اس کتاب میں لکھی ہوئی باتوں کو جان اور سمجھ سکے۔ تورپشتی نے لکھا ہے کہ احتمال ہے کہ اس کتاب سے مراد لوح محفوظ ہو اور آنحضرت ﷺ کے اس پاک ارشاد فہو مکتوب عندہ کے معنی یہ ہوں کہ مذکورہ عبارت لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ کتاب سے مراد لوح محفوظ نہ ہوبل کہ قضا یعنی فیصلہ الٰہی ہو جس کو حق تعالیٰ نے جاری فرمایا ہے، بہرحال دونوں صورتوں میں آنحضرت ﷺ کے ارشاد عندہ فوق العرش میں یہ آگاہی ہے کہ وہ کتاب لکھی گئی اور تمام خلائق کے احاطہ ادراک سے ماوراء رکھی گئی ہیں کہ اس کے مندرجات تک کسی کا علم وفہم نہیں پہنچ سکتا۔ رحمت الٰہی کے غضب الہٰی پر سبقت لے جانے کے معنی یہ ہیں، رحمت کے آثار و مظاہر بہت زیادہ ہیں کہ کیا مؤمن کیا کافر اور کیا متقی کیا گنہ گار سب ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے زیر سایہ ہیں جب کہ اس کا غضب بہت کم ظاہر ہوتا ہے اور کبھی کبھی اور کوئی ہی اس کا مورد بنتے ہیں، چناچہ قرآن مجید میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان عذابی اصیب بہ من اشاء ور حمتی وسعت کل شیء۔ میں اپنے عذاب میں ان ہی لوگوں کو مبتلا کرتا ہوں جن کو چاہتا ہوں لیکن میری رحمت نے ہر چیز کو اپنے دامن میں لے رکھا ہے۔

【10】

ملائکہ، جنات اور انسان کا جوہر تخلیق :

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے، جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا ہے، جس میں دھواں ملا ہوتا ہے اور آدم (علیہ السلام) کو اس چیز سے پیدا کیا گیا ہے جو تمہیں بتادی گئی ہے (مسلم) تشریح قاموس میں لکھا ہے کہ نور کے معنی یا تو روشنی کے ہیں یا روشنی سے پھوٹنے والی شعاع کے ہیں بہرحال یہاں حدیث میں نور سے مراد اصل روشنی وہ جوہر ہے جس سے روشنی وجود میں آتی ہے پس فرشتوں کی تخلیق اسی جوہر روشنی سی ہوئی ہے لفظ جان کے معنی یا تو جن یا جنات کے ہیں یا اس لفظ سے مراد جنات کی وہ اصل (یعنی ان کا باپ) ہے جس سے جنات کی نسل چلی ہے جسے انسان کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں جو تمہیں بتادی گئی ہے سے قرآن کریم کے ان الفاظ وخلقہ من تراب (اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا) کی طرف اشارہ ہے مطلب یہ کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے بعض روایتوں میں کچھ دوسری چیزوں کے جوہر تخلیق کا بھی ذکر کیا گیا ہے جسے ابن عسا کرنے حضرت ابوسعید (رض) سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ کھجور انار اور انگور کو آدم کی مٹی کے فضلہ سے پیدا کیا گیا ہے طبرانی نے حضرت ابوامامہ سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ حورعین زعفران سے پیدا کی گئی ہے جنات و انسان کی تین تخلیقی اقسام حکیم ابن ابی الدنیا ابوشیخ اور ابن مردویہ نے حضرت ابودرداء سے یہ روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات کو تین طرح سے پیدا کیا ہے ان کی ایک قسم وہ ہے جس کو سانپ وبچھو اور حشرات الارض کی صورت دی گئی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو فضاء میں ہوا کی مانند ہے اور تیسری قسم کے جنات وہ ہیں جن کو انسان کی طرح خیروشرکا مکلف قرار دیا ہے گیا ہے اور ان کو حساب ومواخذہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی تین قسم کا پیدا کیا ہے، ایک قسم تو وہ ہے جو چوپاؤں کے مانند ہے دوسری قسم کے انسان وہ ہیں جن کے جسم وبدن اور شکل و صورت تو بنی آدم (آدمیوں) کی سی ہے لیکن ان کی ارواح گویا شیاطین کی ارواح ہیں اور تیسری قسم کے انسان وہ ہیں جو جسم وبدن اور روح دونوں اعتبار سے انسانیت و آدمیت کا پیکر ہیں اور جو قیامت کے دن پروردگار کے سایہ رحمت میں ہوں گے۔

【11】

پیکر آدم کے بارے میں شیطان کا اظہار خیال :

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں آدم (علیہ السلام) کا پیکر بنایا اور شکل و صورت دی تو اس پیکر کو جب تک چاہا جنت میں رکھے رکھا، اس عرصہ میں ابلیس اس پیکر کے گرد چکر کاٹتارہا اور غور کرتا رہا کہ یہ کیا ہم اور کیسا ہے (یعنی وہ یہ مشاہدہ کرنا چاہتا تھا، کہ اللہ تعالیٰ نے اس پیکر خاکی کی صورت میں اپنے بندوں کی جو نئی مخلوق پیدا کرنا چاہتا ہے کہ اس کی حیثیت و حقیقت کیا ہوگی) اور جب اس نے دیکھا کہ یہ پیکر خاکی اندر سے کھوکھلا ہے تو سمجھ گیا کہ یہ ایسی مخلوق پیدا کی گئی ہے جو غیر مضبوط ہوگی۔ (مسلم) تشریح اس حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پیکر اور شکل و صورت کی تخلیق جنت میں ہوئی تھی جب کہ اور روایت اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کی تخلیق اور ان کو پیکر و صورت کا عطا کیا جانا میدان عرفات کے ایک حصہ وادی نعمان میں عمل میں آیا تھا، وہاں ان کے پیکر کو آخری شکل دے کر اور اس میں روح پھونک کر ان کو جنت میں لے جایا گیا پس حدیث میں فی الجنۃ کے الفاظ، جن سے ان کی تخلیق کا جنت میں ہونا مفہوم ہوتا ہے، دراصل ان کی ابتدائی تخلیق کا اظہار کرنے کے لئے نہیں بلکہ تخلیق کے بعد کی صورت حال کو ذکر کرنے کے ہیں، اس اعتبار سے حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو تخلیق کرکے اور ان کے پیکر میں روح پھونک کر ان کو جنت میں رکھا تو ابلیس نے ان کے پیکر کی ساخت و حقیقت کی ٹوہ لگائی اور جب اس نے دیکھا کہ یہ پیکر خاکی کھوکھلا ہے اور اندر سے اس کا پیٹ خالی ہے تو اس کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ انسان نامی مخلوق اپنی جسمانی ساخت کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہے کیونکہ جو چیز اندر سے ٹھوس نہ ہو اور اس کے تمام اعضاء و اجزاء ایک دوسرے سے اس طرح مربوط نہ ہوں کہ ان کے درمیان کوئی خلانہ رہے تو اس کو پوری طرح ثبات وقرار حاصل نہیں ہوتا، لہٰذا اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب اس پیکر خاکی کی جسمانی ساخت اس طرح کی ہے تو لامحالہ اس کی افتاد طبع اس کا مزاج اور اس کے اندورنی احوال کو بھی ثبات وقرار نہیں ہوگا اور اس افتادطبع کی وجہ سے خود کو اپنے معاملات میں ڈانواڈول ہونے اور اپنے احوال میں غیر مستحکم ہونے سے نہ بچاپائے گا اور اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ سکے گا کہ مثلا غصہ کے وقت بےاختیار ہوجایا کرے گا اور طبعی خواہشات پر قدغن نہیں لگا سکے گا کہ بھوک پیاس مٹانے، جنسی تسکین حاصل کرنے اور اپنی آرزؤں کو پورا کرنے کے لئے جائز و ناجائز کے درمیان تمیز نہیں کرے گا۔ پس ابلیس گویا خوش ہوا کہ اس نے امید قائم کرلی کہ جو مخلوق اپنی جسمانی ساخت اور طبعی افتاد کی وجہ سے آفات کا مورد بن سکتی ہے اس کو گمراہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہوگا۔

【12】

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ختنہ :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی سال کی عمر میں قدوم سے اپنا ختنہ کیا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح امام نووی (رح) نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ لفظ قدوم کی دال کی حرکت میں اختلاف ہے اگر اس دال کو تخفیف کے ساتھ قدوم پڑھا جائے تو اس کے معنی بڑھی کے اوزار یعنی بسولے کے ہوں گے اور حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنا ختنہ بسولے سے خود کیا اور اس وقت ان کی عمر اسّی سال کی تھی اور اگر اس لفظ کو دال کی تشدید کے ساتھ قدّوم پڑھا جائے تو اس سے مراد ملک شام کا ایک گاؤں ہوگا جس کا نام قدوم تھا، ویسے اس گاؤں کا نام قدوم بہ تخفیف دال بھی نقل کیا گیا ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسّی سال کی عمر میں ختنہ خود کیا اور اس وقت وہ ملک شام کے گاؤں قدوم میں تھے، حاصل یہ کہ جس روایت میں یہ لفظ بہ تشدید دال نقل ہوا، اس میں قدوم سے مذکورہ گاؤں ہی مراد ہوسکتا ہے اور مذکورہ گاؤں بھی۔

【13】

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تین جھوٹ :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا علاوہ تین جھوٹ کے اور ان میں سے بھی وہ جھوٹ اللہ کے لئے بولے تھے۔ ان میں ایک تو ان کا یہ کہنا تھا کہ میں آج علیل سا ہوں۔ دوسرا یہ کہنا تھا کہ بلکہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے جو تیسرا جھوٹ نکلا تھا وہ ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ میری بہن ہے اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی سارہ (ہجرت کرکے ملک شام کی طرف جارہے تھے کہ ان کا گزر ایک بڑے ظالم و جابر حاکم کے شہر سے ہوا چناچہ اس حاکم کو بتایا گیا کہ یہاں (اس شہر میں) ایک شخص آیا ہوا ہے جس کے ساتھ ایک حسین و جمیل عورت ہے، اس حاکم نے یہ سنتے ہی ایک گماشتہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بلانے کے لئے بھیجا اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کے پاس پہنچے تو اس نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون عورت ہے اور تمہاری کیا لگتی ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ میری بہن ہے۔ پھر انہوں نے سارہ کے پاس واپس آکر ان کو اس جابر حاکم کے برے ارادے سے نجات پانے کی تدبیر بتائی اور کہا کہ اگر اس ظالم کو معلوم ہوگیا کہ تم میری بیوی ہو تو تمہیں زبردستی مجھ سے چھین لے گا پس اگر وہ تمہارے اور میرے تعلق کے بارے میں پوچھے تو اس کو بتانا کہ تم میری بہن ہو اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ تم دین کے رشتہ سے میری بہن ہو لہٰذا خود کو میری بہن بتاتے وقت دینی اخوت کی نیت کرلینا اور یہ نیت اس لئے بھی صحیح ہوگی کہ اس سر زمین پر سوائے میرے اور تمہارے کوئی دوسرا مؤمن نہیں ہے۔ لہٰذا اس ظالم نے ایک گماشتہ بھیج کر حضرت سارہ کو طلب کیا اور ادھر تو حضرت سارہ اس کے پاس لے جائی گئیں ادھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) (اپنی قیام گاہ پر) نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے سارہ جب اس ظالم کے پاس پہنچیں تو وہ اس کا حسن و جمال دیکھ کر ازخود رفتہ ہوگیا اور یا تو ان سے پوچھے اور تحقیق کئے بغیر کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کیا رشتہ رکھتی ہیں، یا پوچھنے اور سارہ کے یہ کہنے کے باوجودیکہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی بہن ہیں اس نے ان پر ہاتھ ڈالنا اور ان کی عفت وعصمت کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے سارہ کی مدد کی اور وہ ظالم پکڑا گیا۔ ایک روایت میں یا تو فاخذ کی بجائے یا اس لفظ کے ساتھ مزید فخط کا لفظ بھی نقل کیا گیا ہے بہرحال وہ عتاب الٰہی کی گرفت میں آنے کے بعد زمین پر پیر مارنے لگا یعنی جس طرح کوئی آسیب زدہ یا مرگی میں مبتلا شخص زمین پر زور زور سے پاؤں پٹختا ہے اسی طرح وہ بھی اپنے پیر پٹخنے لگا پھر اس نے سارہ سے کہا کہ میں اپنے ارادہ بد سے باز آیا تم اللہ سے دعا کرو کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے میرا وعدہ ہے کہ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا یعنی تمہارے ساتھ کوئی تعرض نہیں کروں گا چناچہ حضرت سارہ نے دعا کی اور اس ظالم کی خلاصی ہوگئی لیکن اس نے دوبارہ دست درازی کرنی چاہی اور پھر پہلے کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت عتاب الٰہی میں پکڑا گیا اس نے پھر حضرت سارہ سے کہا کہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے اور میں اب صدق دل کے ساتھ یقین دلاتا ہوں کہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا حضرت سارہ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس ظالم کی گلوخلاصی ہوگئی۔ اس کے بعد اس ظالم اپنے دربانوں میں کسی کو بلایا اور کہا کہ تو میرے پاس انسان کو نہیں لایا ہے (کہ جس پر قابوپاسکتا) بلکہ تو کسی جن کو میرے پاس لے آیا ہے کہ اس پر قابو پانے کے بجائے خود الٹا مصیبت میں پھنس جاتا ہوں یہ تو تو نے میرے لئے موت کا سامان فراہم کردیا ہے پھر اس نے سارہ کی خدمت کے لئے ہاجرہ نامی ایک لونڈی دی اور ان کو واپس بھیج دیا سارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس واپس پہنچیں تو وہ نماز پڑھنے میں مشغول تھے کیونکہ اس وقت تک ان کو اس ظالم کے پنجہ سے سارہ کی رہائی کی خبر نہیں ہوئی تھی، وہ بدستور نماز میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ تھے اور سارہ کی باعفت و عافیت واپسی کی دعائیں مانگ رہے تھے حضرت ابر اہیم (علیہ السلام) ان کو دیکھا تو نماز ہی میں اپنے ہی میں اپنے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کا حال ہے اور تم پر کیا بیتی ؟ حضرت سارہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کافر کی بدنیتی کو اس کے سینے میں ہی لوٹا دیا (یعنی اس نے مجھے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لئے جس بدنیتی کا اظہار کیا وہ الٹے اس کے گلے پڑگئی، مجھے تو وہ کوئی نقصان پہنچا نہیں سکا خود عذاب الٰہی میں ضرور پھنس گیا تھا اور اس نے خدمت کے لئے ہاجرہ کو میرے ساتھ کردیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) کہا کہ اے آسمان کے پانی کے بیٹو ! وہی ہاجرہ تم سب کی ماں ہیں ( بخاری ومسلم) تشریح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کبھی جھوٹ بولا علاوہ تین جھوٹ کے۔ کے بارے میں یہ ذہن نشین رہے کہ تمام انبیاء معصوم ہیں ان سے کوئی بھی گناہ سرزد نہیں ہوسکتا خواہ وہ جھوٹ ہو یا اور کوئی معصیت، پس حدیث کے مذکورہ جملہ کی یہ مراد ہرگز نہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی زندگی میں جھوٹ جیسے گناہ کا تین بار ارتکاب کیا بلکہ ان کی طرف جھوٹ بولنے کی نسبت خود ان کی ذات کے اعتبار سے نہیں، سننے والوں کے اعتبار سے ہے، مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ تینوں باتیں بظاہر تو جھوٹ کی صورت میں تھیں مگر حقیقت میں جھوٹ نہیں تھا نہ تو اس اعتبار سے کہ وہ باتیں جھوٹی باتوں کے زمرہ میں آتی ہیں اور نہ اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان باتوں کے ذریعہ غلط بیانی اور دروغ گوئی کا قصد و ارادہ کیا تھا اس بات کو اگر اور زیادہ خوبصورت انداز میں کہنا ہو تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس مقام پر کذب سے مراد یہ ہے کہ ایسا کلام جو صحیح اور پاک مقصد کے لئے بولا گیا ہو لیکن مخاطب اس کا وہ مطلب نہ سمجھے جو متکلم کی مراد ہے بلکہ ان الفاظ کو اپنی ذہنی مراد کے مطابق سمجھے۔ یہ انداز کلام معاریض یا تعریض (اشارے کنائے کہ پیرایہ بیان) کے زمرہ میں شمار کیا جاتا ہے اور فصحاء بلغاء کے ہاں اکثر رائج ہے۔ اسی ضمن میں یہ ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے متعلق اس طرح کی صرف تین باتوں کا ذکر ہے، چوتھی بات کا ذکر نہیں ہے جو انہوں نے کواکب کو دیکھ کر کہی تھی کہ ہذاربی (یہ میرا رب ہے) اور اس کے ذکر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات ایام طفولیت میں کہی تھی، اس وقت چونکہ وہ کسی بھی امر کے مکلف نہیں تھے اس لئے اس چوتھی بات کا کوئی اعتبار نہیں۔ ان میں سے ایک تو ان کا یہ کہنا کہ میں آج کچھ علیل سا ہوں اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آذر اور اپنی قوم کے لوگوں کو ہر طرح سے بت پرستی کی خرابیوں کو ظاہر کرکے اس سے باز رکھنے کی سعی کرلی اور ہر قسم کے پندونصائح کے ذریعہ ان کو یہ باور کرانے میں پوری طاقت صرف کرلی کہ یہ بت نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور آذر اور قوم کے دلوں پر کسی بھی پندونصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا تو انہوں یہ تدبیر سوچی کہ اب مجھ کو رشد و ہدایت کا ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہے جس سے ان لوگوں کو یہ مشاہدہ ہوجائے کہ ہم لکڑیوں اور پتھروں کی جن مورتیوں اور بتوں کو پوجتے ہیں وہ ہمارے لئے کسی بھی طرح کارگر اور فائدہ مند نہیں ہے اور ان کی ذات سے ہمیں کوئی رنج و نقصان پہنچ سکتا ہے چناچہ ایک مرتبہ قوم کا ایک اہم مذہبی میلہ لگنے والا تھا اور سب لوگ اس میں شرکت کے لئے چلنے لگے تو کچھ لوگوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اصرار کیا کہ وہ بھی سیر کے لئے میلہ میں چلیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو اس موقع کی انتظار میں تھے، کہ سب لوگ یہاں سے چلے جائیں تو ان کے تمام بتوں کو توڑ پھوڑ کو اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہناؤں، چناچہ انہوں نے پہلے تو ان لوگوں کے ساتھ جانے سے صاف انکار کیا مگر جب ان کا اصرار بہت بڑھا تو اس وقت انہوں نے کہا انی سقیم (میں آج کچھ علیل سا ہوں) ان کی یہ بات بظاہر خلاف واقعہ اور جھوٹ معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہ اس وقت واقعتہ علیل نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ نہ جانے کے لئے علالت کا بہانہ کیا تھا اس کی تاویل علماء یہ کرتے ہیں انی سقیم کہنے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مراد یہ تھی کہ ہر انسان کی طرح میرے ساتھ بھی بیماری آزاری لگی رہتی ہے اور وقتا فوقتا بیمار ہوجایا کرتا ہوں۔ پس انہوں نے ایسی مبہم بات کہی کہ اس کے ظاہری اسلوب سے تو یہ مفہوم ہوا کہ میں اس وقت بیمار ہوں تمہارے ساتھ کیسے جاسکتا ہوں لیکن حقیقت میں ان کی مراد اس کے برعکس تھی۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک خاص انداز سے مذکورہ بات کہہ کر ان کا دھیان ستاروں کی طرف متوجہ کردیا تھا چناچہ قوم کے لوگ اپنے عقیدہ کے لحاظ سے یہ سمجھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کسی نجس ستارے کے اثر بد میں مبتلا ہیں اور انہوں نے علم نجوم کے ذریعہ معلوم کرلیا ہے کہ وہ عنقریب بیمار ہونے والے ہیں۔ اس تاویل کا قرینہ قرآن کریم کی اس آیت کا سیاق ہے جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس جملہ انی سقیم سے اپنی جسمانی علالت مراد لی تھی بلکہ قلب کی ناسازی مراد لی تھی کہ تمہارے کفروطغیان نے مجھے دکھی کردیا ہے اور میرے دل کی حالت سقیم ہے، ایسے میں تمہارے ساتھ میرے جانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے دوسرا کہنایہ تھا کہ بلکہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس بات کا تعلق بھی مذکورہ بالا پہلے واقعہ ہی سے ہے ہوا یہ کہ جب ان کی قوم کے تمام لوگ اس میلہ میں چلے گے اور بستی خالی ہوگئی تو وہ اٹھے اور سب سے بڑے بت کے ہیکل (مندر) میں پہنچے دیکھا تو وہاں بتوں کے سامنے طرح طرح کے حلوؤں پھلوں، میوؤں اور مٹھائیوں کے چڑھاوے رکھے ہوئے تھے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے طنزیہ لہجے میں چپکے چپکے ان مورتیوں کو خطاب کرکے کہا کہ سب کچھ موجود ہے ان کو کھاتے کیوں نہیں ؟ اور پھر کہنے لگے کہ میں تم سے مخاطب ہوں کیا بات ہے کہ تم جواب نہیں دیتے اور اس کے بعد انہوں نے سب مورتیوں کو توڑ پھوڑ ڈالا اور سب سے بڑے بت کے کاندھے پر تبر رکھ کر واپس چلے گے قوم کے لوگ میلے سے واپس آئے تو انہوں نے مندر میں اپنے دیوتاؤں (بتوں) کو اس خراب حالت میں پایا اور سخت برہمی کے ساتھ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کس کی حرکت ہے ؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہو نہ ہو یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا کام ہے وہی شخص ہے جو ہمارے دیوتاؤں کی برائی کہتا ہے اور اس بستی میں اس کے علاوہ کوئی موجود بھی نہیں تھا چناچہ بڑے بڑے پجاریوں، سرداروں کے سامنے ان کی طلبی ہوئی اور مجمع عام میں ان سے پوچھا گیا کہ ابر اہیم تم نے ہمارے ان دیوتاؤں کے ساتھ یہ کیا حرکت کی ہے ؟ اس وقت حضرت ابراہیم نے یہ بات کہی کہ بل فعلہ کبیرہم بلکہ یہ کام ان سب کے بڑے بت نے کیا ہے پس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ جواب بھی گویا خلاف واقعہ تھا لیکن حقیقت میں ان کے اس جواب کو جھوٹ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی اصل غرض اپنی گمراہ قوم کو متنبہ کرنا اور اس طرح لاجواب کردینا تھا کہ ان کے غلط عقائد کی قلعی کھل جائے چناچہ اپنے حریف کو اس کی غلطی پر متنبہ کرنے اور اس کو راہ راست پر لانے کے لئے ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ مناظرہ اور تبادلہ خیالات کا موقع آجائے تو اس کے مسلمات میں سے کسی مسلمہ عقیدہ کو صحیح فرض کرکے اس طرح اس کا استعمال کرے کہ اس کا ثمرہ اور نتیجہ حریف کے خلاف اور اپنے موافق ظاہر ہو اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مذکورہ واقعہ میں اسے طریقہ کو تیار کیا ان کی قوم خدائے واحد کے علاوہ بیشمار دیوتاؤں اور بتوں کو پوجتی تھی ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ یہ دیوتا اور بت سب کچھ سنتے اور دیکھتے ہیں اور ہماری مرادوں کو پورا کرتے ہیں اور اپنے اپنے ماننے والوں اور اپنے پجاریوں سے خوش ہوتے ہیں اور اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے سخت انتقام لیتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں کی اس خام خیالی اور بدعقیدگی کو عملہ ان پر ظاہر کرنے کے لئے ان کے بتوں اور مورتیوں کو توڑ پھوڑ ڈالا اور بڑے بت کو چھوڑ دیا پھر جب پوچھ گچھ کی نوبت آئی تو انہوں نے مناظرہ کا وہی بہترین طریقہ اختیار کیا جس کا ذکر اوپر کیا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی قوم پر یہ بات پوری طرح عیاں ہوگئی کہ جو بت اپنے کو شکست دریخت سے نہ بچا سکے اور اپنے کسی دشمن کی توڑ پھوڑ کا مقابہ نہ کرسکے وہ کسی دوسرے کو کیا نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں اور عبادت و پرستش کے قابل کیسے ہوسکتے ہیں بعض حضرات نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مذکورہ جواب کی ایک اور تاویل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو یہ کہا بل فعلہ کبرہم تو کبیرہم سے ان کی مراد اللہ تعالیٰ کی ذات تھی گویا اس جملہ کا مطلب یہ تھا کہ ان بتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ اس ذات (یعنی اللہ تعالیٰ ) کی طرف سے ہوا ہے جو سب سے بڑا ہے اور جس کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ اب تیسرے جھوٹ کو لیجئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت سارہ بارے میں کہا تھا کہ یہ میری بہن ہے یہ بات بظاہر خلاف حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو اپنی بہن بتایا، لیکن اگر اس بات کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اصل مراد کے سیاق میں دیکھا جائے تو ان کا یہ کہنا کہ یہ میری بہن ہے خلاف حقیقت نہیں ہوگا کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت سارہ ہم مذہب (دین اسلام کے پیر و) ہونے کی حیثیت سے دینی بھائی بہن تھے جیسے کہ خود قرآن نے فرمایا ہے انما المؤمنون اخوۃ، تمام اہل ایمان ایک دوسرے کے ساتھ اخوت کا تعلق رکھتے ہیں اور ظاہر ہے بیوی کا رشتہ قائم ہوجانے سے دینی اخوت کا رشتہ منقطع نہیں ہوجاتا علاوہ ازیں حضرت سارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چچا حاران کی بیٹی تھیں اور اس اعتبار سے ان کو بہن کہنا ایسی بات ہرگز نہیں ہے جس پر حقیقی جھوٹ کا اطلاق ہوسکے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سارہ سے یہ کہنا کہ اس سر زمین میں سوائے میرے اور تمہارے کوئی دوسرا مؤمن نہیں ہے۔ صورت حال کا صحیح بیان تھا کیونکہ اس وقت وہاں کوئی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان نہیں لایا تھا اور اس شہر میں دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا شخص مؤمن و مسلمان نہیں تھا، لہذا اس موقع پر یہ اشکال پیدا نہیں ہوسکتا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سر زمین پر صرف دو مؤمنوں (یعنی ایک خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور دوسرے حضرت سار ہ) کے موجود ہونے کی بات کیسے کہی ؟ ایک تیسرے مؤمن حضرت لوط (علیہ السلام) بھی تو تھے جیسا کہ قرآن کریم کی شہادت ہے فامن لہ لوط پس ایمان لائے لوط (علیہ السلام) ، ابراہیم (علیہ السلام) (کے دین) پر۔ ہاں، یہ اشکال اس صورت میں تو پیدا ہوسکتا تھا جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس جملہ کی مراد یہ ہوئی کہ پوری دنیا میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور مؤمن نہیں ہے، یا یہ کہ اس وقت ان دونوں کے ساتھ کے علاوہ کوئی اور مؤمن نہیں ہے، یا یہ کہ اس وقت ان دونوں کے ساتھ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی اس شہر میں ہوتے۔ حضرت شیخ عبد الحق نے مذکورہ جملہ کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس موقع پر اسلام کے رشتہ اخوت کو صرف اپنی اور سارہ کی ذات تک جو محدود رکھا تو شاید اس کی بنیاد دین اسلام کی وہ نسبت تھی جوان کو اصالتا حاصل تھی اور ان کے تعلق کا وہ خاص شرف تھا جو حضرت سارہ کو حاصل تھا۔ حضرت شیخ نے جملہ کے تحت ایک اور اشکال اور اس کا جواب نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس جابر حاکم کے سامنے واضح طور پر یہی کیوں نہ کہا کہ یہ عورت میری بیوی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو جو مقصد حضرت سارہ کو بہن سے تعبیر کر کے حاصل کرنا چاہتے تھے وہی مقصد وہ بیوی بتا کر بھی حاصل کرسکتے تھے کیونکہ پہلے زمانوں کے بدقماش لوگوں کا بھی ایک اصول تھا، وہ کسی شخص سے اس کی بیوی کو کم ہی چھینتے تھے ؟ دوسرے یہ کہ وہ جابر حاکم اگر اتنا ہی ظالم اور بوالہوس تھا تو اس کو اس بات سے کیا سروکار تھا کہ کوئی عورت کسی کی بہن یا بیوی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس جابر حاکم کی ایک خاص عادت تھی کہ وہ کسی شخص سے اس کی بہن کو نہیں چھینتا تھا لیکن شوہر سے اس کی بیوی کو ضرور لے لیتا تھا، علاوہ ازیں وہ حاکم مذہب کے اعتبار سے آتش پرست تھا اور آتش پرستوں میں بہن اور بھائی کے رشتہ کی ایک خصوصی اہمیت تھی یہاں تک کہ بڑے سے بڑا بوالہوس آتش پرست بھی کسی کی بہن پر بری نظر نہیں ڈال سکتا تھا اور اپنے اس مذہبی اصول کا احترام کرتا تھا کہ جو عورت اپنے کی تولیت اور کفالت میں ہے یا جس عورت کو کسی شخص نے اپنی بہن بتادیا ہے وہ ہر طرح سے محفوظ ومامون ہے اور اس کا بھائی ہی اس کے بارے میں تمام تر حق اختیار رکھتا تھا۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چاہا کہ اسی کے دین کا سہارا لیں اور سارہ کو اس ظالم کے چنگل سے بچانے کے لئے ایسی بات کہی جو بالکل ہی خلاف واقعہ نہ ہو اور وہ ظالم بھی اپنے برے ارادے سے باز آجائے۔ یہ اور بات ہے کہ اس ظالم پر شیطان کی گرفت اتنی سخت تھی کہ اس نے نہ تو اپنے دین کے اصول کا احترام کیا اور نہ اپنی قماش کے لوگوں کی روایت و عادت کا لحاظ رکھا بلکہ حضرت سارہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے درپے ہوا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے۔ یعنی وہ حضرت سارہ کو اس حاکم کی طرف روانہ کرکے خود نماز پڑھنے اور رب العزت میں عرض ومناجات کے لئے کھڑے ہوگئے تاکہ اپنے پروردگار سے التجاء کریں کہ اس کی قدرت کاملہ سارہ کی عزت کو محفوظ رکھے اور انہیں سخت ترین پریشانی سے نجات دے۔ چناچہ اللہ کے مقرب بندوں کی یہی عادت ہے کہ جب انہیں کوئی سخت پریشانی لاحق ہوتی ہے اور وہ رنج و مصیبت میں گھر جاتے ہیں تو نماز پڑھنے لگتے ہیں اور ان کا یہ عمل قرآن کریم کی اس آیت کے بموجب ہوتا ہے۔ (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ) 2 ۔ البقرۃ 153) اے ایمان والو ! صبرو نماز کے واسطہ سے اللہ کی مدد چاہو۔ ذہب یتاولہا بیدہ فاخد میں لفظ اخذ (پکڑا گیا) تخفیف کے ساتھ مجہول کا صیغہ ہے، اس لفظ کی وضاحت میں تین قول ہیں ایک تو یہ کہ جب اس ظالم نے برے ارادے کے ساتھ حضرت سارہ کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہا تو قدرت الہٰی نے سارہ کی اس طرح مدد کی کہ وہ ظالم اپنے برے ارادے سے باز رکھا گیا۔ دوسرے یہ کہ وہ ظالم اپنے ارادہ بد کی پاداش میں فورا پکڑا گیا اور اس پر عذاب خداوندی نازل ہوگیا۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ جونہی اس نے حضرت سارہ پر ہاتھ ڈالنا چاہا اس پر بیہوشی طاری کردی گئی۔ واضح رہے کہ ایک روایت میں لفظ فعظ بھی مجہول کا صیغہ ہے، معنی یہ ہیں کہ اس کا گلا گھونٹا گیا اور دم سا رک گیا۔ یا یہ کہ اس کے حلق سے اس طرح کی آواز (خرخراہٹ) نکلنے لگی، جیسے سوئے ہوئے شخص کے خر اٹے کی ہوتی ہے۔ پھر اس نے سارہ کی خدمت کے لئے ہاجر نام کی ایک لونڈی دی۔ مطلب یہ کہ جب اس حاکم نے حضرت سارہ کی بزرگی کا اس طور پر مشاہدہ کیا اور جان لیا کہ یہ کوئی معمولی عورت نہیں ہے بلکہ اپنے اللہ کے نزدیک بہت بلند مقام و مرتبہ اور کمال درجہ کا تقرب رکھتی ہے تو اس نے نہ صرف یہ کہ بڑے خوف اور دہشت کے ساتھ ان کو واپس بھیج دیا بلکہ ان کی خدمت کے لئے ایک لونڈی ان کے ساتھ کردی جن کا اصل نام ہاجر یا آجر تھا مشہور ہاجر ہے۔ حضرت سارہ کے بطن سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کوئی اولاد نہیں ہوتی تھی، چناچہ حضرت سارہ نے حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں پیش کردیا اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس کے بطن سے آپ کے یہاں بچہ ہوگا۔ ان دنوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سو برس کی عمر کے ہوچکے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک فرزند حضرت اسماعیل (علیہ السلام) عطا فرمایا اور آخر میں حضرت سارہ کی گود ہری ہوئی اور ان کے بطن سے حضرت اسحٰق (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ اے آسمان کے پانی کے بیٹو !۔ یہ حضرت اسماعیل کی اولاد یعنی اہل عرب سے خطاب ہے اور حضرت ابوہریرہ (رض) کا ان ( اہل عرب) کو آسمان کے پانی سے تعبیر کرنا ان کی نسلی ونسبی شرف و عظمت کے اظہار کے طور پر تھا کیونکہ آسمان کا پانی نظافت و پاکیزگی کے لئے ضرب المثل ہے، چناچہ کہا جاتا ہے فلاں شخص آسمان کے پانی سے زیادہ پاک وصاف ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اہل عرب کو بنی ماء السماء (آسمان کے پانی کے بیٹے، اس کہا تھا کہ وہ بارش کے انتظار میں رہتے تھے، جہاں بارش ہوتی وہاں جاکررہ جاتے تھے۔ بعضوں نے کہا ہے کہ بنی ماء السماء سے انصار مراد ہیں کیونکہ وہ عامر بن حارثہ ازدی کی اولاد ہیں جو نعمان بن منذر کا دادا تھا اور اس کا لقب ماء السمائ سے مراد یہ زمزم ہے اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے بنی ماء السماء کی ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ زمزم کا چشمہ حضرت اسماعیل کی وجہ سے نمودار ہوا تھا اس کا پانی، آسمان قدس و طہارت سے اس زمین پر آیا تھا اور یہ کہ زمین سے جو فوائد وفیوض برآمد ہوتے ہیں وہ سب صانع حقیقی اللہ تعالیٰ آسمان سے ہی بھیجتا ہے۔ یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ اگرچہ تمام اہل عرب حضرت ہاجرہ ہی کے بطن سے تعلق نہیں رکھتے لیکن ان میں سے اکثر وبیشتر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی کی اولاد میں سے ہیں اس لئے اکثر واغلب کا اعتبار کرتے ہوئے تمام ہی اہل عرب کو بنی ماء السماء سے خطاب کیا گیا۔

【14】

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) سے متعلق بعض اہم واقعات کا ذکر :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کرنے کے لائق ہیں، جب انہوں نے کہا تھا رب انیٰ کیف تحی الموتٰی (اے پروردگار مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح جلائے گا) اور اللہ تعالیٰ حضرت لوط (علیہ السلام) پر رحم کرے جو رکن شدید کا سہارا پکڑنا چاہتے تھے۔ اور اگر میں قید خانے میں اتنی طویل مدت تک رہتا جتنی مدت حضرت یوسف (علیہ السلام) رہے تو میں یقینا بلانے والے کی دعوت قبول کرلیتا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جس شک کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تذکرہ قرآن کریم میں یوں ہے۔ (وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھ مُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُ حْيِ الْمَوْتٰى قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَى ِنَّ قَلْبِىْ ) 2 ۔ البقرۃ 160) اور (وہ وقت قابل ذکر ہے) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کی کہ اے پروردگار مجھے دکھادے کہ تو مردوں کو کس طرح جلائے گا ارشاد ہوا کیا آپ (علیہ السلام) کو یقین نہیں ہے، عرض کی کہ ضرور ہے، لیکن (یہ درخواست) اس لئے ہے کہ قلب کو (اور) اطمینان ہوجائے۔ اور اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کرنے کے لائق ہیں۔ تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو صحابہ میں کچھ حضرات نے (آنحضرت ﷺ کی عظمت اور برتری ظاہر کرنے کے لئے) کہا کہ یہ شک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہوا ہمارے حضرت محمد ﷺ نے اس طرح کا شک ظاہر نہیں کیا۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا کہ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کرنے کے لائق ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے ظاہری اسلوب سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نہ صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے بلکہ اپنی ذات شریف کے لئے بھی مذکورہ شک کا اثبات کیا حالانکہ دونوں کا اس طرح کے شک میں مبتلا ہونا امر محال ہے کیونکہ انبیاء کرام صلوٰت اللہ وسلامہ اجمعین جن کی ذات ایمان وایقان کا اولین مظہر بلکہ اصل اور بنیاد ہوتی ہے اور جن کا وجود طمانیت وعرفان کا سرچشمہ ہوتا ہے، فطری طور پر شک وتردد سے محفوظ ومامون ہوتے ہیں، ان میں عدم ایقان اور شک وشبہ کے وجود کے کوئی معنی نہیں۔ لہٰذا مذکورہ ارشاد سے آنحضرت ﷺ کی مراد وہ نہیں ہے جس کا تقاضا ظاہری اسلوب کرتا ہے بلکہ آپ ﷺ کی اصل مراد یہ ہے کہ اس آیت کریمہ سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے جو درخواست کی اس کا تحریک احیا موتی کے نفس وقوع میں کوئی شک وشبہ تھا، وقوع پر تو ان کو پورا ایمان وایقان تھا، وہ صرف مراتب عرفان اور کمالات ایقان میں ترقی کے طلب گار تھے، علم الیقین سے اور آگے بڑھ کر علم الیقین کے درجہ پر پہنچنے کے متمنی تھے جس کو اطمینان قلبی سے تعبیر کیا، یعنی ان کا مدعا یہ تھا کہ احیاء موتی کے وقوع پر ایمان کے درجہ تک تو یقین اب بھی حاصل ہے، صرف یہ چاہتا ہوں کہ مشاہدہ بھی حاصل ہوجائے تاکہ اطمینان قلب کی دولت میں اور اضافہ ہو۔ ان صحابہ پر اسی بات کو واضح کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے یہ پیرایہ بیان اختیار فرماتے ہیں کہ دیکھو شک وتردد اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں راہ پاسکتا تو یقینا ہم میں بھی راہ پاتا اور تم یہ جانتے ہی ہو کہ ہم میں شک وتردد کا کسی طرح گذر نہیں ہوتا لہٰذا جان لو کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی ہماری ہی طرح کمال ایقان وعرفان کے درجہ پر فائز تھے اور ان کے دل و دماغ میں بھی کسی طرح کا کوئی شک وتردد راہ پائے ہوئے نہیں تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مذکورہ درخواست کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے یہاں کے بادشاہ وقت نمرود اور قوم کے لوگوں کے قلب و دماغ میں خدائے واحد کا یقین پیدا کرنے کے لئے یہ دلیل پیش کی کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے، تو اس موقع پر انہوں نے پروردگار کے حضور یہ درخواست گذاری تاکہ ان کی پیش کردہ دلیل سب کے مشاہدہ میں بھی آجائے۔ بحرحال آنحضرت ﷺ کے مذکورہ ارشاد گرامی کے بین السطور سے آنحضرت ﷺ کی ذات شریف پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فضیلت و برتری کا اظہار ہوتا ہے حالانکہ آنحضرت ﷺ کا تمام انبیاء سے افضل وبرترہونا ثابت شدہ حقیقت ہے یہ باعث خلجان بات ہے، چناچہ اسی خلجان واشکال کو دور کرنے کے لئے شارحین نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تعلق سے یہاں جو کچھ فرمایا ہے وہ انکسار و تواضع کے طور پر ہے، یا یہ کہ آپ ﷺ کا یہ اشارہ اس وحی کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے کہ آپ تمام اولاد آدم (علیہ السلام) کے سردار اور سب سے افضل ہیں یہی توجیہ ہر اس حدیث کی ہے جو آنحضرت عدم فضیلت کا مفہوم ظاہر کرتی ہے۔ جو رکن شدید کا سہارا پکڑنا چاہتے تھے۔ رکن، اصل میں کسی بھی چیز کے مضبوط کنارے یا مضبوط ستون کو کہتے ہیں اور یہاں رکن شدید سے مراد مضبوط اور طاقت ور لوگوں کی جماعت ہے حدیث کے اس جملہ میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم اپنی بدعملی، سرکشی، بےحیائی اروخبث اخلاقی گرواٹ (ہم جنس یعنی مرد لڑکوں سے اختلاط) میں حد سے تجاوز کرگئی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے ابلاغ حق، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اس پر مطلق کچھ اثر نہیں ہوا، تو آخر کار حق تعالیٰ کی طرف سے ان کی سزا و بربادی و ہلاکت کا فیصلہ ہوگیا، چناچہ عذاب کے فرشتے قوم لوط کے شہر سدوم میں اترے اور آدمیوں کی شکل و صورت میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے یہاں مہمان ہوئے، یہ فرشتے نہایت حسین و خوبصورت اور عمر میں نواجون لڑکوں کی شکل و صورت میں حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان مہمانوں کو دیکھا تو گھبراگئے اور ڈرے کہ بدبخت قوم کے لوگ میرے ان مہمانوں کی ساتھ نہ معلوم کیا سلوک کریں گے، اس وقت تک حضرت لوط (علیہ السلام) کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ اللہ کے پاک فرشتے ہیں اور اس بدبخت قوم کے لئے عذاب الہٰی کا فیصلہ لے کر آئے حضرت لوط (علیہ السلام) نے اسی پریشانی اور تردد میں تھے کہ قوم کو خبر لگ گئی اور یہ مطالبہ لے کر حضرت لوط (علیہ السلام) کے مکان پر چڑھ آئے کہ ان (مہمانوں) کو ہمارے حوالہ کرو، حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو اس وقت بھی بہت سمجھایا، ان کی بدفطری پر ان کو غیرت عار دلائی اور کوشش کی یہ بدبخت ان معزز اور پاکباز نوعمر مہمانوں کے تئیں اپنی بری نیت اور ارادہ بد سے باز آجائیں اور جب انہوں نے دیکھا کہ ان لوگوں کے سیاہ دلوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے اور سب کے سب ان کے مہمانوں کے ساتھ بداخلاقی پر تلے ہوئے ہیں، تب پریشان خاطر ہو کر انہوں نے فرمایا۔ لوان لی بکم قوۃ اواوی الی رکن شدید۔ کاش تمہارے مقابلہ کی مجھے (ذاتی) طاقت حاصل ہوتی یا (طاقتور ساتھیوں اور حمایتوں کی صورت میں) کوئی مضبوط سہارا ہوتا جس کا آسرا پکڑا جاسکتا ( اور ان مہمانوں کو تمہارے شر سے محفوظ رکھتا۔ پس آنحضرت ﷺ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی اسی حسرت و تمنا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ لوط (علیہ السلام) پر رحم کرے کہ وہ انسانی طاقت وقوت کا سہارا چاہنے لگے تھے حالانکہ اصل سہارا اللہ تعالیٰ کی قدرت و طاقت اور اس کی حفاظت و حمایت کا ہے کہ اہل عرب کے کلام کا یہ خاص اسلوب ہے کہ جب وہ کسی شخص کے ایسے قول وفعل کا ذکر کرتے ہیں جو تقصیر سے تعلق رکھتا ہو یا اس کو وہ کام و کلام نہ کرنا چاہے تھا کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو معاف فرمائے کہ اس نے ایسا کام کیا یا ایسی بات کہی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مذکورہ ارشاد کے ذریعہ کیا اس طرف اشارہ فرمایا کہ نعوذ باللہ حضرت لوط (علیہ السلام) اللہ کی قدرت پر بھروسہ نہیں رکھتے تھے جو کسی رکن شدید کی پناہ کے طالب ہوئے جواب ہے کہ ہرگز نہیں کیونکہ ایسا سمجھنا نہ صرف یہ کہ خلاف واقعہ ہم بلکہ انبیاء (علیہم السلام) کے طریق ادب کے بھی منافی ہے، جہاں تک حضرت لوط (علیہ السلام) کے رکن شدید کی پناہ طلب کرنے کا سوال ہے، تو حضرت لوط (علیہ السلام) اللہ کو بھول کر کسی اور کی پناہ کے طالب نہیں تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس وقت اپنی قوم کے ارادہ بد کو دیکھ کر اس قدر پریشان اور اس درجہ قابل رحم حالت میں تھے کہ طبعی طور پر ان کی یہ تمنا ہوئی کہ کاش ! اللہ تعالیٰ میری مدد فرماتا اور اتنی طاقت وقوت عطا فرما دیتا کہ میں اسی وقت ان بدبختوں کو ان کی خباثت کا مزہ چکھا دیتا، چناچہ ان کے پروردگار نے آخر ان کی مدد کی اور ان فرشتوں نے (جو نوعمر مہمانوں کی شکل و صورت میں ان کے یہاں آئے تھے) ان پر اپنا راز ظاہر کردیا اور ان کو تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں۔ ، زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ یہ بدبخت اپنی بد کر داری کے عبرتناک انجام تک پہنچ جائیں گے۔ رہی آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی بات، تو جب آنحضرت ﷺ عام لوگوں تک کی غیبت اور عیب جوئی سے منع فرماتے تھے خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں تو یہ تصور کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ ایک نبی مرسل (لوط (علیہ السلام) کے بارے میں ایسی بات فرمائیں جو ان کے رتبہ ودرجہ کو کم کرنے یا ان کی کم ہمتی کے اظہار کی موسم ہو، پس آپ ﷺ کے اس ارشاد کی مراد دراصل یہ واضح کرنا تھا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) ایک انسان تھے اور ایسے نازک وقت میں ان کی بشری جبلت کا اندورنی تقاضا یہ ہوا کہ کہ وہ ان بد کردار اور اوباش لوگوں کو مزہ چکھانے کے لئے مضبوط طاقتور لوگوں کی مدد کے متمنی ہوں اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے اس عمل میں ہمارے لئے یہی جواز موجود ہے کہ اس طرح کے موقعوں پر ہم عالم اسباب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مادی و دنیاوی وسائل و ذرائع سے مدد لے سکتے ہیں باوجودیکہ ہر حالت میں ہمارا اصل بھروسہ رب الارباب پر ہوتا ہے اور ہم حقیقی سہارا اسی کی مدد و نصرت کو جانتے اور مانتے ہیں۔ اب ایک بات اور رہ جاتی ہے کہ پھر آنحضرت ﷺ نے اپنے اس ارشاد کی ابتدا یرحم اللہ کے الفاظ سے کیوں کی ؟ تو حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ استعمال ہی اس لئے فرمائے کہ کوئی شخص حضرت لوط (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو کسر شان پر محمول نہ کرے اور اس کی وہم میں مبتلانہ ہوجائے کہ انہوں نے رکن شدید کا جو سہارا تلاش کیا تھا اس سے ان کے درجہ و مرتبہ کی تنقیص ہوئی یا اس کی وجہ سے ان کی ذات پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے۔ کلام کے شروع میں اس طرح کے الفاظ کا استعمال محض دعا وتعظیمیا شان و مرتبہ کے تقدس و احترام کو باقی رکھنے کے لئے بھی ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا ہے۔ عفا اللہ عنک لم اذنت لہم اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کرے، آپ ﷺ نے ان کو اجازت کیوں دے دی تھی ۔ اگر قید خانہ میں اتنی طویل مدت تک رہتا۔۔۔۔ الخ۔۔ حدیث کے اس آخری جملہ کا تعلق حضرت یوسف (علیہ السلام) کی مدح و تعریف سے ہے جس میں ان کے ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرکے ان کے صبر وثبات کے کمال کو ظاہر فرمایا گیا ہے، اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیر مصر نے ایک غلام کے طور پر خریدا اور اپنے گھر لایا تو ان کے ساتھ غلاموں کا سا معاملہ نہیں کیا بلکہ اپنی اولاد کی طرح عزت و احترام کے ساتھ رکھا اور گھریلو زندگی کی تمام ذمہ داریاں ان کے سپرد کردیں، حضرت یوسف (علیہ السلام) کی جوانی کا عالم تھا۔ جمال و رعنائی اور حسن وخوبروئی کے پیکر تھے، ادھر یہ کہ ہر وقت کا ساتھ، عزیر مصر کی بیوی دل پر قابو نہ رکھ سکی اور حضرت یوسف (علیہ السلام) پر پروانہ وار نثار ہونے لگی، مگر حضرت یوسف (علیہ السلام) ، جو خانوادہ نبوت کے چشم وچراغ اور منصب نبوت کے لئے منتخب تھے، بھلا ان سے یہ کس طرح ممکن تھا کہ بےکرداری اور فحش میں مبتلا ہو کر عزیر مصر کی بیوی کے ارادہ بد کو پورا کردیتے، اس عورت نے پہلے تو آرائش حسن وزینت کی بےپناہ نمائش اور عشوہ طرازیوں کی بارش کے ذریعہ ان کو اپنے جال میں پھانسنا چاہا اور جب کامیاب نہ ہوئی تو زبردستی پر اتر آئی، مگر خدا نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس کے خبث نفس کی گرفت سے بچالیا، پھر اس عورت کے ناکام عشق کا بھید اس کے شوہر عزیر مصر پر بھی کھل گیا لیکن اس نے حقیقت حال سے آگاہ ہو کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ستائش کی اور اپنی عورت کو فہمائش کی اور خفت و رسوائی سے بچنے کے لئے معاملہ کو دبا دیا، مگر بات پوشیدہ نہ رہ سکی اور شدہ شدہ شاہی خاندان کی عورتوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور عزیر مصر کی بیوی اپنی ہم جو لیوں اور سہیلیوں کی طنز وتعریض کا نشانہ بن کر رہ گئی اس صورت حال نے اس کو بوکھلادیا اور اس نے طے کیا کہ طنز وتعریض کرنے والی عورتوں کو ایسا سبق دینا چاہے کہ وہ جس بات پر مجھ پر چھینٹے اڑاتی ہیں خود اس میں مبتلا ہوجائیں۔ چناچہ ایک دن اس نے شاہی خاندان اور عمائدین شہر کی عورتوں کو دعوت دی اور جب سب نے دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کے لئے چھری کانٹے ہاتھ میں لئے تو عزیر مصر کی بیوی نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ باہر آئیں، وہ مالکہ کا حکم سن کر باہر نکلے اور جب عورتوں نے جمال یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا تو رخ انور کی تابانی سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ چیزیں کاٹنے کے بجائے چھری کانٹوں سے ہاتھ کاٹ لئے اور یہ دیکھ کر عزیر مصر کی بیوی بہت محفوظ ہوئی اور فخرہ انداز میں کہنے لگی کہ یہی وہ غلام ہے جس کے عشق و محبت کے بارے میں تم نے مجھے مطعون کر رکھا ہے اور تیرا ملامت کانشانہ بنایا ہوا ہے، اب بتاؤ میرا عشق بیجا ہے یا بجا ؟ عزیرمصر کی بیوی نے اس وقت یہ بھی کہا کہ بیشک میں نے اس شخص کو اپنے قابو میں کرنا اور اس کے دل کو اپنے پیجہ عشق میں لینا چاہا مگر یہ میرے قابو میں نہیں آیا، اب میں یہ کہے دیتی ہوں کہ اس نے میرا کہا نہ مانا تو قیدخانہ کی ہوا کھائے گا اور بےعزت ہو کر رہے گا، معاملہ جب اس حد تک پہنچ گیا تو عزیر مصر نے باوجودیکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پاکباز اور پختہ کردار پرکھ لیا تھا، اپنی بیوی کی فضیحت و رسوائی دیکھ کر یہ طے کرلیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو کچھ عرصہ کے لئے قید خانہ میں ڈال دے تاکہ یہ معاملہ لوگوں کے دلوں سے محو ہوجائے اور چرچے بند ہوجائیں اور اس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قید خانہ میں بند کردیا گیا۔ وہ نو برس تک قید خانہ میں پڑے رہے تاآنکہ بعض واقعات کے نتیجہ میں مصر کا بادشاہ فرعون تک ان کی بزرگی، جلالت قدر اور عظمت شان کا قائل ہوگیا تو اس نے ان کی رہائی کا حکم جاری کردیا، لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قید خانے سے باہر آنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ پہلے میرے معاملہ کی تحقیق کرو اور جن عورتوں نے مجھے دیکھ کر اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں ان سے میرے کردار اور پاکیزگی کی چھان بین کرو، جب تک معاملہ کی اصل صورت سامنے نہیں آجائے گی اور میرا بےقصور اور صاحب عصمت ہونا پوری طرح ظاہر وثابت نہیں ہوجائے گا میری عزت نفس جیل سے باہر آنا گوارا نہیں کرے گی، پس آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر یوسف (علیہ السلام) کی جگہ میں ہوتا اور مجھے اتنی طویل مدت تک قید خانہ میں رہنا پڑجاتا تو رہائی کا پروانہ آتے ہی اس کو قبول کرلیتا اور جیل سے باہر آنے میں کوئی توقف نہ کرتا، نہ اس بات کا مطالبہ کرتا کہ صورت حال کی مکمل تحقیق وتفتیش ہو اور نہ اس تحقیق وتفتیش کے نتیجہ کے ساتھ اپنی رہائی کو مشروط کرتا ! یہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زبردست تعریف وتحسین اور ان کے صبر وثبات اور متانت رائے کا اظہار و اعتراف ہے کہ ایسی صورت میں جب کہ کوئی شخص ایک مدت درازتک جیل کی کوٹھری میں بند اور وہاں کے مصائب وآلام میں مبتلا رہے اور جب اس کی رہائی کا پروانہ آئے تو وہ شخص اپنی عزت نفس کی خاطر اس پروانے کو ٹھکرادے اور جیل سے باہر آنے سے اس وقت تک کے لئے انکار کردے جب تک کہ اس کو بالکل بےداغ اور بےقصور قرار نہ دے دیا جائے۔ صبر و استقامت کی ایک ایسی مثال ہے جس کا کسی اور کے لئے تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صرف حضرت یوسف (علیہ السلام) ہی کا کمال تھا کہ انہوں نے بےمثل کردار کا ثبوت دیا تاہم یہ واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اس کردار اور ان کی شان استقامت کا ذکر جس انداز میں فرمایا وہ تواضع وکسرنفسی پر محمول ہے ورنہ خود آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی صبر و استقامت کا ایسا پیکر جلیل تھی جو حضرت یوسف (علیہ السلام) ہی کے اس صبر و استقامت پر بھاری نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ کا یہ وصف تمام اولو العزم انبیاء سے بلند وبالا ہے۔

【15】

حضرموسی (علیہ السلام) اور ایذاء بنی اسرائیل :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک نہایت شرمیلے اور سخت پردہ کا اہتمام رکھنے والے آدمی، ان پر شرم وحیا کا اتنا غلبہ تھا کہ (پورے بدن کو ہر وقت ڈھانپے رہتے تھے اور) ان کے جسم کی کھال کا کوئی بھی حصہ دکھائی نہ دیتا تھا، ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے ان کو ایذاء اور رنج پہنچانا چاہا تو انہوں نے مشہور کردیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے جسم کو اس قدر احتیاط و اہتمام کے ساتھ اس لئے ڈھانپے رہتے ہیں کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے، یا تو برص (کوڑھ) ہے یا خصیے پھولے ہوئے ہیں (جب یہ بات بہت پھیل گئی تو) اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ جو عیب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر لگایا جارہا ہے اس سے ان کو محفوظ ومامون رکھے اور ان کی بےعبیی کو ظاہر وثابت کرے، چناچہ ایک دن جب کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک پوشیدہ جگہ نہانے کے لئے گئے اور اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھے دیئے تو وہ پتھر ان کے کپڑوں کو لے کر بھاگا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے (یہ ماجرا دیکھا تو نہایت حیرانی و اضطراب کے عالم میں) اس پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ اے پتھر میرے کپڑے دے، ارے او پتھر میرے کپڑے دے، یہاں تک کہ (آگے آگے پتھر اور اس کے پیچھے پیچھے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دوڑتے ہوئے بنی اسرائیل کے لوگوں کے ہجوم تک پہنچ گئے، ہجوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا برہنہ جسم دیکھا تو ان کو اللہ کی مخلوق میں ایک بہترین اور بےعیب جسم کا انسان پایا، تب انہوں نے (بیک آواز) کہا کہ اللہ کی قسم، موسیٰ کا بدن کسی بھی عیب و نقصان سے مبرا ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پتھر کو (لاٹھی سے) مارنا شروع کیا، اللہ کی قسم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مارنے کی وجہ سے اس پتھر پر نشان پڑگئے، تین نشان یا چار نشان یا پانچ نشان۔ ( بخاری ومسلم) تشریح بنی اسرائیل اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کس طرح سخت اذیت و تکلیف پہنچاتے تھے اس کا اندازہ اس حدیث میں مذکورہ واقعہ سے کیا جاسکتا ہے، بت پرستی کی فرمائش، گوسالہ پرستی میں انہماک، قبول تورات سے انکار، ارض مقدس میں داخلہ سے انکار اور من وسلوی پر ناسپاسی حتیٰ کہ ان کی ذات پر بہتان ترازی اور تہمت تراشی ایسی کونسی قولی فعلی ایذاء تھی جو ان کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نہیں پہنچی یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اولو العزمی اور ان کے صبر وضبط کا کمال تھا کہ وہ اپنی قوم کی ہر ایذاء کو برداشت کرتے اور اپنے اللہ کی طرف سے رشد و ہدایت کے پیغام میں انہماک کے جذبہ عمل کو سرد نہیں ہونے دیتے تھے اور ان کے اللہ کا ان پر انعام تھا کہ ہر مرحلہ پر اس نکمی اور پست قوم کے مقابلہ پر ان کو سرخ روئی اور عزت عطاہوئی تھی۔ جب بدبخت قوم کے لوگوں نے ان کے وصف شرم وحیا کی تحسین و تقلید کے بجائے ان کی ذات کو عیب دار بنانے کا بیڑا اٹھا لیا اور پوری قوت کے ساتھ یہ مشہور کردیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے جسم کو زیادہ چھپاتے ہیں اور اپنے بدن کے ان حصوں پر بھی نگاہ نہیں پڑنے دیتے جو ستر میں شامل نہیں ہیں یہاں تک کہ سب کی نظروں سے چھپ کر تنہائی میں نہاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے حصہ جسم پر برص کے داغ ہیں، یا ان کے خصیے پھول گئے ہیں، یا کوئی اسی قسم کا خراب مرض ان کو لاحق ہے چناچہ حق تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بےعیب اور باوجاہت بدن کا عام مشاہدہ کرادیا جائے تاکہ لوگ اپنی آنکھوں سے حقیقت حال کو دیکھ لیں اور ایک رسواکن شہرت کی قلعی کھل جائے اس طرح پتھر کا کپڑا لے کر بھاگنے کا وہ واقعہ پیش آیا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی ہدایت اور دینی خدمت کی راہ میں سرگرم عمل رہنے والے اپنے برگزیدہ بندوں کو ہر اس عیب اور نقصان سے آخر کار بری اور پاک ثابت کردیتا ہے، جو ان کے مخالف اور نادان لوگ ان کی طرف منسوب کرکے ان کو متہم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بندوں کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ اس لئے کرتا ہے تاکہ وہ عام لوگوں کی نگاہ میں معززومکرم ہوں اور ان کی شخصی وجاہت الزامات واتہامات کے گردوغبار سے صاف رہے۔ مارنے کی وجہ سے اس پتھر پر نشان پڑگئے۔۔۔۔ یعنی جب وہ پتھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کپڑے لے کر بھاگا تو ان پر اس اچانک واقعہ کا ایسا اثر پڑا کہ وہ غصہ میں جھنجھلا کر پتھر پر لاٹھی کے وار کرنے لگے اور جب بھی ان کی لاٹھی پتھر پر پڑتی اس پر نشان پڑجاتا، اس طرح جتنی بار انہوں نے لاٹھی ماری اتنے ہی نشان اس پتھر پر پڑگئے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) گبھراہٹ اور غصہ میں اس پتھر کے پیچھے بھاگے اور آخر کار وہ پتھر بنی اسرائیل کے ایک بڑے مجمع کے سامنے ٹھہر گیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی حکم ہوا کہ اس پتھر کو اٹھا کر اپنے ساتھ اس کے ساتھ رہا اور جب وہ بنی اسرائیل کے ساتھ تیہ کے میدان (صحراء سینا) میں پہنچے تو اس وقت انہوں نے پتھر پر لاٹھی سے ایک ضرب یا کئی ضربیں لگائیں اور پتھر میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔ اس قول کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ معجزہ بیان کیا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل صحراء سینا میں پہنچ کر اس خیال سے گھبرا اٹھے کہ اس بےآب وگیاہ میدان میں پانی کہاں سے پئیں گے اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سم اپناعصا ایک پہاڑی چٹان پر مارا جس کے نتیجہ میں فورا بارہ سوت ابل پڑے اور بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے لئے جدا جدا چشمے جاری ہوگئے تو اس پہاڑی چٹان سے مراد وہی پتھر ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کپڑے لے کر بھاگا تھا اور جس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے ساتھ رکھ چھوڑا تھا۔ بہرحال حدیث سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دو معجزے ثابت ہوئے ایک تو بےجان پتھر کا حرکت میں آجانا اور چلنے لگنا اور دوسرا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی کی ضرب سے اس پتھر پر نشان پڑجانا۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پوشیدہ جگہ پر ننگے بدن نہانا جائز ہے اگرچہ ایسی جگہ نہاتے وقت بھی ستر ڈھاکنا افضل ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مخالفین اور نادانوں کی ایذاء انبیاء اولیاء اللہ پر اثر انداز ہوتی ہے اور وہ اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں لیکن اس ایذاء پر صبروضبط کرتے ہیں۔

【16】

حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ایک واقعہ :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حضرت ایوب (علیہ السلام) (جب طویل اور سخت ترین بیماری کی آزمائش و امتحان میں سرخرو ہوئے اور ان کو صحت و عافیت نصیب ہوئی تو انہوں نے غسل صحت کیا اور اسی غسل صحت کے دوران وہ) برہنہ جسم نہا رہے تھے کہ (اللہ تعالیٰ نے ان کے گھر پر سونے کی ٹڈیاں برسانا شروع کیا اور وہ) سونے کی ٹڈیاں ان کے اوپر (یعنی دائیں بائیں) گرنے لگیں، حضرت ایوب (علیہ السلام) ان ٹڈیوں کو سمیٹ کر اپنے کپڑوں میں رکھنے لگے (سونے کی ٹڈیاں میں ان کا یہ انہماک دیکھ کر) ان کے پروردگار نے ان کو مخاطب کرکے کہا کہ ایوب ( علیہ السلام) جو چیز تم دیکھ رہے ہو کیا ہم نے اس سے تمہیں بےنیاز نہیں کردیا ہے ؟ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے عرض کی ! بیشک تیری عزت کی قسم تو نے مجھے اس چیز سے بےپرواہ کردیا ہے لیکن میں تیری نعمت کی کثرت اور تیری رحمت کی فراوانی سے ہرگز بےنیاز نہیں ہوں۔ (بخاری) تشریح برہنہ جسم نہا رہے تھے۔ کی مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے جسم پر تہبند کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہیں تھا اور تہبند باندھے ہوئے نہا رہے تھے، اس کی تائید آگے کی عبارت یحشی فی ثوبہ (سمیٹ سمیٹ کر اپنے کپڑے میں رکھنے لگے ) ، میں پوشیدہ جگہ پر بالکل ننگا نہا رہے تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں پوشیدہ جگہ پر بالکل ننگے نہانا مذکور ہوا اور اس کے شرعی جواز میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن آنحضرت ﷺ نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ اپنے پروردگار سے شرم وحیا کی خاطر پوشیدہ جگہ پر بھی نہاتے وقت ستر پوشی افضل ہے اور آنحضرت ﷺ جس مکارم و اخلاق کی تکمیل کے لئے دنیا میں تشریف لائے اس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ان ٹڈیوں کو سمیٹ سمیٹ کر اپنے کپڑے میں رکھنے لگے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) برستی ہوئی سونے کی ٹڈیوں کو ایک ہاتھ سے اٹھا اٹھا کر یا دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کر انہی تہبند میں سمیٹتے جاتے تھے جو انہوں نے نہانے کے لئے باندھ رکھا تھا یا کپڑے سے مراد وہ پوشاک ہے جو انہوں نے نہانے کے بعد پہنی ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کپڑا مراد ہو جو انہوں نے اس وقت تک پہنا نہ ہو بلکہ ان کے قریب ہی رکھا ہوا ہو۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کا مذکورہ خطاب، ناراضگی اور عتاب کے طور پر نہیں تھا بلکہ اظہار شفقت و محبت کے طور تھا کہ جب میں نے تمہارے گھر میں اتنا زیادہ سونا برسا دیا ہے اور تمہیں مالا مال کردیا ہے تو کیا ضروری ہے کہ تم ان ٹڈیوں کو اٹھا اٹھا کر اپنے کپڑے میں رکھو ؟ چناچہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ بیشک تو نے مجھے اس قدرمالا مال کردیا ہے اور میرے گھر میں اتنا سونا بھر دیا ہے کہ میں ان ٹڈیوں کو جمع کرنے اور ان کو اٹھا اٹھا کر رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں رکھتا لیکن تیری بارگاہ میں اپنے عجز و احتیاج کے اظہار کے لئے میں تیری رحمتوں کی مزید طلب سے بےنیاز بھی نہیں ہوسکتا خواہ تو مجھے کتنا ہی مالا مال کردے اور مجھ پر اپنی نعمتوں اور رحمتوں کی کتنی ہی بارش برسادے، اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ان ٹڈیوں کا اٹھانے میں انہماک ودلچسپی رکھنا، دنیا کی حرص وطمع اور مال و دولت میں اضافہ کی خواہش کی بناء پر نہ تھا بلکہ حق تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت سے مستفید ہونے اور تشکروامتنان کی بنا پر تھا۔ اور ملاّ علی قاری نے لکھا ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جائز مال و دولت میں اضافہ کی حرص اس شخص کے حق میں روا ہے جس کو اپنے نفس پر اعتماد ہو کہ اس مال و دولت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں کوتاہی نہیں ہوگی اور اس کو انہی مقاصد ومصارف میں خرچ کیا جائے گا جن سے حق تعالیٰ راضی وخوش ہوتا ہے۔

【17】

ایک نبی کو دوسرے نبی کے مقابلہ پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ممانعت :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ (کسی موقع پر ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان بدکلامی ہوئی، مسلمان نے کہا اللہ کی قسم جس نے محمد ﷺ کو سارے جہان کے لوگوں میں سے بہتر قرار دیا، اس کے جواب میں یہودی نے یہ کہا کہ اس اللہ کی قسم جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جہاں کے لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا اس پر مسلمان نے (طیش میں آکر) یہودی پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس کے گال پر طمانچہ مارا یہودی (شکایت لے کر) نبی کریم ﷺ کے پاس گیا اور آپ ﷺ کے سامنے اپنا اور اس مسلمان کا پورا واقعہ رکھا، نبی کریم ﷺ نے مسلمان کو طلب فرمایا اور اس سے صورت حال کی تحقیق کی، اس نے (یہودی کے بیان کردہ واقعہ کی تردید نہیں کی بلکہ) آپ ﷺ کو جوں کی توں ساری بات بتادی۔ نبی کریم ﷺ نے (فریقین کے بیانات سن کر) فرمایا مجھ کو موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت نہ دو اس لئے کہ قیامت کے دن (صور پھونکے جانے پر) جب سب لوگ بیہوش ہو کر گرپڑیں گے تو ان کے ساتھ میں بھی بیہوش ہو کر گر جاؤں گا پھر سب سے پہلے ہوش میں آنے والا شخص میں ہوں گا، لیکن (جب میں ہوش میں آؤں گا تو) دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ موسیٰ بیہوش ہوجانے والے لوگوں میں شامل ہوں گے اور ان کی بیہوشی مجھ سے پہلے ختم ہوچکی ہوگی یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا۔ (اور بیہوش ہو کر گر پڑنے والے لوگوں میں شامل ہی نہیں ہوں گے) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کی بیہوشی کو (قیامت کے دن کی) اس بیہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا یا یہ ہوگا کہ (بیہوش ہو کر گرپڑنے والوں میں وہ بھی شامل ہوں گے مگر) وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آجائیں گے۔ (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے افضل ہے۔ اور حضرت ابن سعید کی روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے (دونوں فریق کے بیانات سن کر) فرمایا تم انبیاء میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دو ( بخاری ومسلم) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ۔ تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو ۔ تشریح قرآن کریم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انی اصطفیتک علی الناس (یعنی اے موسیٰ (علیہ السلام) میں نے تمہیں تمام لوگوں میں سب سے بہتروافضل قرار دیا ہے) تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے زمانہ کے تمام لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا تھا، لیکن اس یہودی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو برگزیدگی اور افضلیت کے اس مفہوم کو مطلق رکھا اور یہ دعوی کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہر زمانہ کے تمام لوگوں سے افضل اور سب سے بہتر ہیں اور اس طرح اس نے آنحضرت ﷺ کی برگزیدگی اور افضلیت کا انکار کیا، اسی وجہ سے اس کے مخالف مسلمان کو طیش آگیا اور انہوں نے اس کے طمانچہ رسید کردیا۔ یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو یہ فرمایا ہے کہ۔ ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ ط اور (جب قیامت کے دن) صور میں پھونک ماری جائے گی تو تمام آسمان اور زمین والے بیہوش ہوجائیں گے علاوہ ان کے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیہوش کرنا چاہے گا (جسے فرشتے ) ۔ تو یہ ہوسکتا ہے کہ جس طرح فرشتوں پر بیہوشی طاری ہوگی اس طرح اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بہوش ہونے سے مستثنیٰ کردے گا ! بہرحال آنحضرت ﷺ نے دونوں صورتیں ذکر فرما کر یہ واضح کیا دونوں ہی صورتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، اگر یہ ہوگا کہ تمام لوگوں کی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی بیہوش ہوجائیں گے، تو میرا ہوش میں آنے کے بعد ان کو اس طرح دیکھنا کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں، یہ ثابت کرے گا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آگئے تھے، اس صورت میں مجھ پر ان کی فضیلت بالکل ظاہری بات ہے اور اگر یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بیہوش ہوجانے والو میں شامل نہیں کیا جائے گا اور وہ سرے سے بیہوش ہی نہیں ہوں گے حالانکہ مجھ پر بیہوشی طاری ہوجائے گی، تو یہ صورت بھی ان کی فضیلت کو ظاہر کرنے والی ہے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس معاملہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مجھ پر فضیلت حاصل ہے تو پھر مجھ کو ان پر فضیلت دینے کے کیا معنی ہیں لیکن اس بات کو آنحضرت ﷺ کی کسرنفسی پر محمول کرنا چاہے کہ آپ ﷺ نے از راہ انکسار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت کو اس طرح ظاہر فرمایا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کو جو شرف حاصل ہوگا وہ زیادہ سے زیادہ جزوی فضیلت کی نوعیت رکھتا ہے جو اس بات کے منافی نہیں کہ کلی فضیلت آنحضرت ﷺ ہی کو حاصل ہے۔ ایک بات یہ بھی کہی جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے جو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے افضل نہیں ہیں تو یہ اس وقت کا ارشاد ہے جب کہ وہ وحی نازل نہیں ہوئی جس میں آنحضرت ﷺ کا ہر ایک سے افضل و اشرف ہونا مذکور ہے، اس وحی کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ کی افضلیت کسی شک وشبہ کے بغیر ثابت ہوچکی ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ کوہ طور پر بیہوش ہو کر گرپڑنا۔۔۔۔ الخ۔ اس جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر حق تعالیٰ کی ذات کے دیدار کی خواہش کی تو بارگاہ رب العزت سے جواب ملا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تم مشاہدہ ذات کی تاب نہ لاسکو گے اچھا دیکھو ہم اپنی ذات کی تجلی کا ظہور اس پہاڑ پر کریں گے اگر یہ تجلی کو برداشت کرلے تو پھر تم اپنی خواہش ظاہر کرنا اس کے بعد طور پر حضرت حق کی تجلی نے ظہور کیا تو پہاڑ کا وہ حصہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بیہوش ہوگئے اور گرپڑے۔ پس آنحضرت ﷺ نے کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس بیہوشی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے دن اس موقع پر بیہوش ہو کر گرپڑنے سے محفوظ ومستثنیٰ رکھے جائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ اس استثنا کی وجہ ان کی کوہ طور کی بیہوشی ہو جس کو قیامت کی اس بیہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا واضح رہے کہ یہاں جس صعقہ ( یعنی قیامت کے دن بیہوش ہوجانے کا ذکر ہے اس سے وہ صعقہ مراد نہیں ہے جو موت و ہلاکت کے معنی میں ہے اور جس کا ظہور ابتداء قیامت میں صور پھونکے جانے کے بعد ہوگا کیونکہ اس صعقہ کے وقت، کہ جب پہلا صور پھونکے جانے کے بعد تمام عالم زیروزبر ہوجائے گا اور ہر متنفس کی موت و ہلاکت واقع ہوگی، بھلا آنحضرت ﷺ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کہاں موجود ہوں گے کہ ان پر صعقہ طاری ہوگا، پھر یہ کہ اس صعقہ کے بعد بعث (یعنی دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا) ہوگا نہ کہ افاقت (یعنی بیہوشی کا زائل ہونا) اور یہ بات بھی متفقہ طور پر مسلم ہے کہ اس صعقہ کے بعد (میدان حشر میں) سب سے پہلے اٹھنے والے آنحضرت ﷺ ہی ہوں گے لہٰذا آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ فلاادری کان فیمن صعق الخمود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے جس صعقہ کا ذکر فرمایا ہے اس سے وہ صعقہ مراد ہے جو بعث کے بعد میدان حشر میں میں پیش آئے گا کہ سب لوگ بیہوش ہو کر گرپڑیں گے اور اس کے بعد جب سب لوگ افاقہ پائیں گے یعنی ہوش میں آئیں گے تو سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کو ہوش آئے گا، اس وقت آپ ﷺ یہ دیکھیں گے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیہوش ہونے والوں میں شامل ہی نہیں ہونگے یا وہ بھی بیہوش ہوئے ہوں گے تو پھر ان کی بیہوشی آنحضرت ﷺ سے بھی پہلے زائل ہوچکی ہوگی۔ بہرحال اس ارشاد گرامی میں حضور ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ مجھے موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت نہ دو تو اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ انبیاء کے درمیان شرف و فضیلت کے اعتبار سے کوئی فرق مراتب نہیں اور یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یا کسی بھی نبی کے مقابلہ پر آنحضرت ﷺ کو افضل نہ کہا جائے بلکہ اس ارشاد کا اصل مقصد یہ ہدایت دینا ہے کہ کسی نبی کو خواہ وہ آنحضرت ﷺ ہی کی ذات کیوں نہ ہوں، کسی دوسرے نبی کے مقابلہ پر اس طرح اور اس انداز میں افضل و اشرف نہ کہو کہ اس (مفضول) نبی کی تحقیر و توہین ہو یا یہ ظاہر ہو کہ ایک نبی کو تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے اور دوسرے نبی کو مرتبہ سے گرایا جارہا ہے کیونکہ اس طرح کا اظہار فضیلت نہ صرف یہ کہ انبیاء کی عظمت اور ان کے احترام کے خلاف ہے، بلکہ مختلف نبیوں کے ماننے والوں کے درمیان باہمی خصومت و عداوت کا سبب بھی ہم۔ یا مذکورہ ارشاد گرامی کی مراد یہ کہ کسی نبی کے مقابلہ پر فضل وشرف کے تمام انواع کے ساتھ اس طرح فضیلت دینے کی ممانعت مراد ہے کیونکہ نفس نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں اور ہر نبی یکساں حیثیت رکھتا ہے۔ اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس ابن متی سے افضل ہے۔ لفظ متی حضرت یونس (علیہ السلام) کے باپ کا نام تھا، جیسا کہ قاموس میں مذکور ہے، لیکن جامع الاصول میں یہ ہے کہ متی ان کی ماں کا نام تھا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کے خاص طور پر ذکر کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اولوالعزی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ یہ کیا کہ جب ان کی قوم نے ان کی بات نہ مانی اور ان کو ایذاء پہنچائی تو وہ بےصبری کی وجہ اور غصہ کے مارے قوم کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور کشتی میں جابیٹھے۔ لہٰذا ان کا یہ طرز عمل لوگوں کو اس گمان میں مبتلا کرسکتا تھا کہ ان کے مقابلہ پر کسی نبی کو فضیلت دینا موزوں ہے اور یہ کہنا غیر مناسب بات نہیں ہے کہ حضرت یونس کے مقابلہ پر فلاں نبی زیادہ افضل ہم لیکن آنحضرت ﷺ نے ارشاد کے ذریعہ اپنی امت کے لوگوں کو اس گمان سے بھی باز رکھا اور واضح کیا کہ یہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی ذات پر طعن اور ان کی تحقیر کے مرادف ہے۔ تم کسی نبی کو کسی نبی پر فوقیت نہ دو ۔ کا مطلب یہ ہے کہ یوں نہ کہو کہ فلاں نبی کے مقابلہ پر فلاں نبی افضل ہے۔ اور یہی مطلب اس ارشاد کا ہے کہ تم اللہ کے نبیوں میں کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو ۔ اور جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے اس ممانعت سے یا تو یہ مراد ہے کہ نفس نبوت کے اعتبار سے کسی نبی کو کسی نبی کے مقابلہ پر فضیلت نہ دو کیونکہ اصل مرتبہ نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں، یا یہ مراد ہے کہ نبی کو کسی نبی کے مقابلہ میں اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو اور کسی نبی کی افضلیت کو اس انداز میں بیان نہ کرو کہ دوسرے نبیوں کی تحقیر و توہین لازم آئے کیونکہ یہ چیز (یعنی کسی نبی کی تحقیر و توہین کا مرتکب ہونا) کفر ہے اور یا یہ کہ آپ ﷺ نے یہ ممانعت اس وقت ارشاد فرمائی تھی جب کہ آنحضرت ﷺ کی افضلیت کو ظاہر کرنے والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی، اس وحی کے نزول کے بعد یہ ممانعت ختم ہوگئی اور یہ بات ثابت قرار پائی کہ آنحضرت ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں اور آپ ﷺ کو کسی بھی نبی کے مقابلہ پر افضل و اشرف کہنا درست ہے۔ لاتفضلوابین انبیاء اللہ لفظ تفضلوا مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں ضاء ہی کے ساتھ منقول ہے لیکن ایک نسخہ میں یہ لفظ صاد کے ساتھ (لاتفصلوا) منقول ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم اللہ کے نبیوں کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہ کرو اس صورت میں کہا جائے گا کہ یہ ارشاد قرآن کریم کی اس آیت سے ماخوذ ہے (لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ) 3 ۔ ال عمران 84)

【18】

حضرت یونس (علیہ السلام) کے متعلق ایک ہدایت :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں یونس (علیہ السلام) ابن متی سے بہتر ہوں۔ ( بخاری ومسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص یہ کہے کہ میں یونس ابن متی سے بہتر ہوں تو یقینا وہ جھوٹا ہے۔ تشریح کوئی شخص یہ کہے کہ میں یونس ابن متی سے بہتر ہوں۔ یہ عبارت دو احتمال رکھتی ہے، ایک تو یہ کہ کوئی شخص مجھ کو (یعنی آنحضرت ﷺ کو) یونس ابن متی سے افضل بہتر نہ کہے۔ اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ کوئی شخص خود اپنے بارے میں یہ کہے کہ میں حضرت یونس (علیہ السلام) سے بہتر و افضل ہوں ! کیونکہ کوئی بڑے سے بڑا ولی بھی کسی نبی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا اور جب کوئی شخص کسی نبی کا ہمسر نہیں ہوسکتا تو بہتر و افضل ہونے کا دعوی کیسے کرسکتا ہے۔ تو یقینا وہ جھوٹا ہے اگر حدیث کے الفاظ کی مراد دوسرے احتمال کی روشنی میں متعین کی جائے تو یہاں سے مراد کفر ہوگا اس طرح کی بات کہنے والا شخص کافر ہوجائے گا کیونکہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص خود کو کسی بھی نبی اور پیغمبر سے بہتر و افضل قرار دے وہ کافر ہے رہی پہلے احتمال کی بات تو آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ کوئی مجھ کو یونس ابن متی سے بہتر و افضل نہ کہے تواضع اور کسرنفسی پر محمول ہے کہ آپ ﷺ نے انکسار نفس کے طور پر ایسا فرمایا لہٰذا یہ حدیث اس روایت کے مخالف نہیں ہوگی جس میں آپ نے یہ فرمایا کہ انا سیدولد ولافخر یعنی میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور میں یہ بات از راہ فخر نہیں کہتا (بلکہ اظہار حقیقت اور تحدیث نعمت کے طور پر کہتاہوں) اور حضرت یونس (علیہ السلام) کے تخصیص کی وجہ پچھلی حدیث کی تشریح میں بیان کی جاچکی ہے۔

【19】

حضرت خضر (علیہ السلام) کا ذکر :

اور حضرت ابی ابن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے جس لڑکے کو مار ڈالا تھا وہ کفر کی طبیعت لے کر پیدا ہوا تھا اگر وہ لڑکا زندہ رہتا تو یقینا اپنے ماں باپ کو کفروسرکشی میں مبتلا کردیتا ( بخاری ومسلم ) تشریح کفر کی طبیعت لے کر پیدا ہوا تھا کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مقدر میں یہ لکھا ہوا تھا کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوگا پس یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کل مولود یولد علی فطرت الاسلام۔ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے کیونکہ فطرت اسلام پر ہونے کا مطلب فطرت انسانی کا ایسی ساخت کا ہونا ہے جو نور ہدایت کی طرف لپکے اور اسلام کو قبول کرنے کی استعداد و صلاحیت رکھتی ہے اور یہ بات اس چیز کے منافی نہیں ہے کہ کوئی نومولود بچہ آگے چل کر اپنے ماحول اور اپنے نفس کی گمراہیوں کا اس طرح شکار ہوجائے کہ اس کی وہ استعدادوصلاحیت دب کر رہ جائے اور وہ اپنی اصل فطرت کے تقاضوں پر قائم نہ رہ سکے یہاں تک کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہو۔ لفظ خضر خ کے زیر کے ساتھ خضر ہے اور ایک نسخے میں یہ لفظ خ کے زیر اور ض کے جزم کے ساتھ خِضر، منقول ہے، یہ ان کا لقب ہے، اصل نام لیان ابن ملکان ہے ! بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ یہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کے بھائی ہیں، بعض حضرات نے کہا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے صلبی بیٹے تھے اور بعض نے ان کو یفت واسطہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں کہا ہے اور وضاحت کی ہے کہ ان کے باپ سلاطین میں سے تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں تھے مشہور قول کے مطابق حضرت خضر (علیہ السلام) پیغمبر ہیں عمر طویل رکھتے ہیں عام نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ زندہ ہیں بلکہ قیامت کے دن تک زندہ رہے گے کیونکہ انہوں نے آب حیات پی رکھا ہے لیکن بعض بڑے محدثین جیسے بخاری اور ابن مبارک وغیرہ نے ان کی حیات ابدی کا انکار کیا ہے جمہور علماء صوفیاء اور بہت سے صلحاء ان کی حیات کے قائل ہیں نیز حضرت خضر (علیہ السلام) کا بعض صلحاء سے ملاقات کا کرنا ان سے ہم کلام ہونا اور خیروبھلائی کی جگہوں پر ان کا موجود ہونا بہت مشہور ہے، مشائخ کے حالات و کلام میں ان کا بہت ذکر آتا ہے اور عجیب و غریب واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔ حضرت غوث الثقلین شیخ عبد القادر جیلانی کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت شیخ کسی مسئلہ پر حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں گفتگو فرما رہے تھے کہ اچانک انہوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو ہوا پر سوار گذرتے دیکھا اور فرمایا قف یا اسرائیلی واسمع کلام محمدی اے اسرائیلی (خضر) ٹھہرئیے کلام محمدی سنتے جائیے۔ چنانچہ منقول ہے کہ اس زمانہ کے مشائخ میں سے جو بھی حضرت خضر (علیہ السلام) کو ملتا، آپ اس کو ہدایت فرماتے کہ شیخ عبدالقادر کی مجلس میں ضرور جایا کرو کیونکہ ان مجلسوں میں برکتیں نازل ہوتی ہیں اور وہاں فلاح وسعادت حاصل ہوتی ہے۔

【20】

خضر کی وجہ تسمیہ :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا حضرت خضر (علیہ السلام) کا نام خضر (یعنی سرسبز و شاداب) اس لئے مشہور ہوا کہ وہ ایک خشک و بنجر سفید زمین پر (یا بالکل خشک گھاس) پر بیٹھے تو یکایک وہ زمین (یا خشک گھاس) ان کے پیچھے سے لہلہانے لگی اور وہاں سبزا پیدا ہوگیا (بخاری)

【21】

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور موت کا فرشتہ :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (جب) حضرت موسیٰ ابن عمران (علیہ السلام) (کی موت کا وقت قریب آیا ان) کے پاس موت کا فرشتہ عزرائیل (علیہ السلام) آیا اور کہا کہ اپنے پروردگار کی طرف سے پیغام اجل قبول فرمائیے یعنی آپ کی روح قبل ہونے کا وقت آپہنچا ہے واصل الی اللہ ہونے کے لئے تیار ہوجائیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سن کر فرشتہ موت کے طمانچہ رسید کردیا جس سے اس کی آنکھ پھوٹ گئی آنحضرت ﷺ نے فرمایا موت کا فرشتہ دربار الہٰی میں واپس گیا اور عرض کیا کہ پروردگار تو نے مجھے روح قبض کرنے کے لئے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا جو موت نہیں چاہتا اور یہ کہ اس نے میری آنکھ بھی پھوڑ دی ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرشتہ موت کی یہ شکایت سن کر اس کی آنکھ درست کردی اور یہ حکم دیا کہ میرے بندہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس دوبارہ جاؤ اور ان کو میرا یہ پیغام پہنچاؤ کہ کیا تم طویل زندگی چاہتے ہو ؟ اگر تم طویل زندگی چاہتے ہو تو کسی بیل کی کمر پر اپنا ہاتھ یا دونوں ہاتھ رکھ دو تمہارے اس ہاتھ یا دونوں ہاتھوں کے نیچے جتنے بال آجائینگے ان میں سے ہر ایک بال کے عوض تمہاری زندگی میں ایک سال کا اضافہ ہوجائے گا فرشتہ نے دوبارہ حاضر ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سنایا تو انہوں نے کہا کہ اس طویل زندگی کا بھی آخری نتیجہ موت ہی ہے تو پھر وہ آج ہی کیوں نہ آجائے میں اسے وقت موت کی آغوش میں جانے کے لئے تیار ہوں لیکن میری یہ دعا ضرور ہے کہ رب کریم ( تدفین کے لئے مجھے ارض مقدس (یعنی بیت المقدس) سے قریب کردے اگرچہ ایک پھینکے ہوئے پتھرکے بقدر ہو اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اگر میں بیت المقدس کے قریب ہوتا تو تمہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر کا نشان دیکھا دیتا جو ایک راستے کے کنارے پر سرخ ٹیلے کے قریب ہے ( بخاری ومسلم) شریح رب کریم مجھے ارض مقدس سے قریب کردے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آخری وقت میں یہ دعا اس لئے کی کہ وہ بیت المقدس کے قریب دفن ہونا چاہتے تھے اور اس زمانہ میں وہی جگہ سب جگہوں سے افضل و اشرف تھی کیونکہ انبیاء کا مدفن اور مزارات ہوسکتا ہے کہ مذکورہ واقعہ کے وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میدان تیہ (صحراسینا) میں ہونگے لہٰذا انہوں نے آخری وقت میں بیت الرب (یعنی بیت المقدس) کی قربت کی خواہش ظاہر کی اور اس خواہش کی شدت کو ظاہر کرنے کے لئے کہا کہ چاہے یہاں سے وہ قربت اتنے کم فاصلہ کے برابر ہی کیوں نہ ہو جو ایک پھینکا ہوا پتھر طے کرتا ہے نیز انہوں نے بیت المقدس کے قریب دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی خود بیت المقدس میں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا انہیں یہ خوف تھا کہ اگر میں نے بیت المقدس میں دفن ہونے کی خواہش کی تو میری قبر بہت مشہور اور زیارت گاہ خلائق ہوجائے گی اور ہوسکتا ہے کہ لوگ اس کی وجہ سے کتنے فتنہ اور برائی میں مبتلا ہوجائینگے۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ حدیث میں جس سرخ ٹیلے کا ذکر ہے وہ ایک بستی اریحاء کے قریب ہے اور بستی میدان تیہ کے سب کے قریب وادی مقدس کا علاقہ ہے بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلحاء کے مزارات مدفن کے قریب متبرک جگہوں میں دفن ہونا مستحب ہے۔ یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ بعض لوگ جو عقل و قیاس کے اسیر ہیں انہوں نے اس حدیث کا انکار کیا ہے وہ کہتے ہیں فرشتہ موت کا آنکھوں سے ہاتھ دھوبیٹھنا کیا معنی رکھتا ہے روح قبض کرنے کے لئے آنے والے فرشتہ کے طمانچہ رسید کرنا انسانی طاقت کے لئے کیسے ممکن ہوسکتا ہے اور یہ کہ اس واقعہ سے موت کو غیر پسندیدہ اور غیر مرغوب شئے سمجھنا اور دنیا میں زیادہ دنوں تک باقی رہنے کی آرزو کرنا لازم آتا ہے اور یہ چیز اس انسان کے شایان شان نہیں ہوسکتی جو نبوت و رسالت جیسے عظیم الشان منصب پر فائز ہو۔ ان باتوں کا جواب الفاظ حدیث کی اس تعبیر میں مل جاتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں موت کا فرشتہ حاضر ہوا تو وہ انسانی شکل و صورت میں تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کو دیکھ کر پہچان نہ سکے کہ یہ موت کا فرشتہ ہے اور میری روح قبض کرنے آیا ہے، ان کو یہ ناگوار گذرا کہ ایک اجنبی شخص بغیر اجازت کیوں اس کے خلوت کدہ میں گھس آیا ہے، پھر اس نے ان کو موت کا پیغام دیا تو یہ خطرہ بھی ہوا کہ کہیں یہ شخض قتل کرنے کی نیت سے تو میرے پاس نہیں آیا اس لئے ان کو طیش بھی آیا اور انہوں نے اس کے خلاف اس کے خلاف دفاعی اقدام کرنا ضروری سمجھا، چناچہ اس کے منہ پر طمانچہ ماردیا، فرشتہ بشکل انسان تھا لہٰذا بشری اثرات نے کام کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زبردست طمانچہ کی چوٹ سے اس کی آنکھ جاتی رہی۔ پھر یہ کہ انہوں نے اس کو ایک دروغ گو کی حیثیت میں بھی دیکھا کیونکہ اس نے روح قبض کرنے کا دعوی کیا تھا کہ کوئی انسان روح قبض کرنے والا نہیں ہوسکتا لہٰذا ان کو اس دروغ گوئی پر غصہ آیا اور دورغ گو پر غصہ للہ فی للہ ہوتا ہے اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر کوئی اعتراض کیسے ہوسکتا ہے اور یہی وجہ ہے ان کے اس اقدام پر بارگاہ حق سے کوئی عتاب بھی نہیں ہوا۔ بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس اقدام کے بعد بھی فرشتہ موت نے اپنی اصل حیثیت ظاہر نہ کی اور ان کو یہ بتائے بغیر کہ وہ موت کا فرشتہ ہی غائب ہوگیا اور درگاہ الہٰی میں جاپہنچا، اب اللہ تعالیٰ نے اس کو پھر ملکوتی ہیئت پر واپس کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں دوبارہ بھیجا اور اس طرح وہ اس عیب و نقصان سے بری ہوگیا جو بشری شکل و صورت میں آنکھ مجروح ہوجانے سے پیدا ہوگیا تھا، ادھر فرشۃ موت نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خیالات سے آشنا ہوئے بغیر خود ہی یہ سمجھ لیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) موت کے نام سے خفا ہوگئے اور موت نہیں چاہتے اور دربار الہٰی میں جاکریہی شکایت بھی کی لیکن اللہ تعالیٰ تو اصل صورت حال جانتا تھا اس نے فرشتہ کی غلط فہمی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جلالت شان دونوں کے اظہار کے لئے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ فرشتہ موت دوبارہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک بلیغ انداز میں موت کا پیغام پہنچائے ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس اجنبی شخص کے یکایک غائب ہوجانے پر فورا محسوس کرلیا کہ درحقیقت یہ معاملہ عالم بالا کا ہے، چناچہ فرشتہ موت نے جب دوبارہ حاضر ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغام الہٰی سنایا تو ان کا طرز عمل اور طریقہ گفتگو فورا بدل گیا پھر انہوں نے پیغام اجل کو لبیک کہنے میں مزاج دیر نہیں کی اور رفیق اعلی سے جاملے، کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مزاج میں نہایت تیزی وشدت تھی وہ جلال کا مظہر تھے، مزاج اور اصول کے خلاف کوئی بات ان کے لئے ناقابل برداشت بن جاتی تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہ چلہ کشی اور تورات لینے کے لئے جبل طور یا حوراب پہاڑ پر تشریف لے گئے تو اپنے پیچھے بنی اسرائیل کا نگہبان اپنے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بنا گئے تھے، جب ان کو گئے ہوئے ایک ماہ سے زائد گذر گیا تو بنی اسرائیل کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا اور ایک بدباطن شخص سامری کے بہکانے میں آکر قوم کے لوگ گوسالہ (بچھڑے) کی پرستش کرنے لگے، حضرت ہارون (علیہ السلام) نے قوم کو بہت سمجھایا اور اس مشرکانہ حرکت سے لاکھ منع کیا مگر کسی نے ان کی بات پر کان نہیں دھرا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس آئے اور قوم کو گوسالہ پرستی میں مبتلا دیکھا تو بپھر گئے اور یہ خیال کرکے کہ ہارون (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو شرک سے باز رکھنے میں کوتاہی کی ہے، ان کی گردن پکڑ لی اور ان کے سرکے نوچنے لگے اور ڈاڑھی تک پر ہاتھ ڈال دیا، حضرت ہارون (علیہ السلام) نے پوری صورت حال بتائی اور اپنا بےقصور ہوناثابت کردیا تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جلال اور غصہ سے ان کی خلاصی ہوئی۔ بہرحال اس حدیث کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس پر عقیدہ رکھنا چاہے اور اگر اس کی کچھ باتیں خلاف قیاس معلوم ہوتی ہوں تو اپنے فہم کا تصور سمجھنا چاہئے اگرچہ مندرجہ بالا صحیح تعبیرات وتاویلات کی روشنی میں دیکھنے کے بعد اس حدیث میں کوئی بات قیاس کے خلاف معلوم ہی نہیں ہوسکتی۔

【22】

انبیاء (علیہ السلام) کے حلیے :

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب انبیاء کرام میرے سامنے لائے گئے تو میں نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ہلکے بدن کے ہیں جیسے وہ قبیلہ بنوشنوہ میں سے کوئی آدمی ہوں اور میں نے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو دیکھا تو وہ میرے دیکھے ہوئے لوگوں میں عروہ ابن مسعود (رض) سے بہت مشابہ نظر آئے اور میں نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا تو وہ میرے دیکھے ہوئے لوگوں میں دحیہ ابن خلیفہ سے بہت مشابہ نظر آئے۔ (مسلم) تشریح جب انبیاء کرام میرے سامنے لائے گئے۔ یہ شب معراج کا ذکر ہے جب آپ ﷺ نے اس رات میں مسجد اقصی میں یا آسمان پر ان انبیاء کرام سے ملاقات فرمائی اور ان کو دیکھا، اس ملاقات کے وقت ان انبیاء کرام کی ارواح مقدسہ کو ان کے ان اجسام کے ساتھ کہ جو وہ دنیا میں رکھتے تھے، آپ ﷺ کے سامنے لایا گیا، چناچہ آپ ﷺ نے ان انبیاء کرام کی شکل و صورت اور ان کے سراپا کا خاکہ اپنے صحابہ کرام کے سامنے رکھنے کے لئے ان افراد واشخاص کا ذکر فرمایا جن کو صحابہ نے دیکھ رکھا تھا اور جو جسم وبدن اور تن وتوش کے اعتبار سے ان انبیاء کرام کی مشابہت رکھتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آپ ﷺ نے ہلکے بدن کا بتایا اور ان کے سراپا کو قبیلہ بنو شنوہ کے لوگوں کی طرح قرار دیا، یہ قبیلہ یمن کی سر زمین سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے لوگ دبلے جسم کے ہوتے تھے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آپ ﷺ نے اپنے ایک صحابی حضرت عروہ ابن مسعود کی طرح بتایا کہ عروہ ابن مسعود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بہت مشابہ ہیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مشابہت کے لئے آپ ﷺ نے خود اپنی ذات شریف کو پیش کیا، جس سے ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آنحضرت ﷺ میں بہت زیادہ مشابہت تھی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے بارے میں بتایا کہ وہ دحیہ ابن خلیفہ کے بہت مشابہ تھے، حضرت دحیہ ایک مشہور صحابی ہیں اور بہت زیادہ خوبصورت تھے، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اکثر وبیشتر ان ہی کی شکل و صورت میں آنحضرت ﷺ کے پاس آیا کرتے تھے اور شب معراج میں بھی آنحضرت ﷺ کے سامنے ان کو دحیہ ہی کی شکل و صورت میں پیش کیا گیا۔

【23】

انبیاء (علیہ السلام) کے حلیے :

اور حضرت ابن عباس (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں شب معراج میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا وہ گندم گوں اور دراز قد تھے ان کے بال خمدار تھے اور (جسم وبدن کا اعتبار سے) قبیلہ شنوہ کے کسی آدمی کی طرح نظر آتے تھے اور میں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا وہ خلقی طور پر متوسط قدوقامت کے تھے (نہ بہت لمبے تھے نہ ٹھگنے اور نہ بہت موٹے تھے نہ دبلے) ان کا رنگ سرخ سفید تھا (جیسے خود حضور ﷺ کے جسم مبارک کا رنگ تھا) اور ان کے سر کے بال سیدھے (یعنی گھونگھریالے نہیں) تھے اور میں نے دوزخ کے دورغہ مالک کو اور دجال کو بھی دیکھا ! اور آنحضرت ﷺ کا ان سب کو دیکھنا قدرت الہٰی کی ان نشانیوں اور علامتوں کے ضمن میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو (شب معراج میں) دیکھائیں اس لئے (اے اس حدیث کو پڑھنے اور سننے والے) اس امر میں کوئی شک وشبہ نہ کر، آنحضرت ﷺ نے ان سب کو دیکھا اور ملاقات فرمائی۔ (بخاری) تشریح جعد کے معنی ہیں بالوں کا گھونگھریالہ ہونا۔ اور اس کے مقابلہ پر سبط کے معنی ہیں بالوں کا سیدھا ہونا پس یہاں مراد یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بال سیدھے نہیں تھے بلکہ خمدار تھے یعنی گھونگھریالے نظر آتے تھے اور حضرت شیخ عبد الحق دہلوی (رح) نے اپنی شرح میں جعد کے تحت لکھا ہے کہ اس لفظ (جعد) کا اکثر اطلاق گھونگھریالے بالوں پر ہوتا ہے مگر کبھی کبھی یہ لفظ مضبوط اور گٹھے ہوئے بدن کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور یہاں حدیث میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک گٹھے ہوئے بدن کے آدمی تھے۔ حضرت شیخ نے جعد کے یہ معنی مراد لینے کی وجہ یہ لکھی ہے کہ اگلی حدیث میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ رجل الشعر تھے اور رجل کا اطلاق ایسے بالوں پر ہوتا ہے جو گھونگھریالے نہ ہوں۔ اس کی وضاحت اگلی حدیث میں آرہی ہے۔ روایت کا یہ جملہ فی ایات ارہن اللہ ایاہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا جزء نہیں ہے، نیز یہ ذریعہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ ولقد اتینا موسیٰ الکتب فلاتکن فی مریۃ من لقاہ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی، سو (اے محمد ﷺ آپ شب معراج میں) موسیٰ (علیہ السلام) کے ملنے میں کچھ شک نہ کیجئے۔ یعنی آپ موسیٰ (علیہ السلام) سے شب معراج میں ملے تھے، وہ سچی حقیقت ہے کوئی دھوکا یا نظر بندی نہیں۔ لہٰذا مذکورہ جملہ سے اس آیت کی طرف اشارہ کرکے ہر ایک کو آگاہ کیا گیا کہ جب قرآن سے بھی یہ ثابت ہے کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملنا ایک سچی حقیقت ہے تو کوئی بھی اس شک وشبہ کا شکار نہ ہو۔

【24】

شب معراج میں انبیاء سے ملاقات اور آنحضرت ﷺ کا پیالہ شراب قبول کرنے سے انکار :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے شب معراج میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات کی اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایک مضطرب شخص نظر آئے، ان کے سر کے بال گھونگھریالے تھے اور نہ بالکل سیدھے اور ایسے لگتے تھے جیسے وہ قبیلہ شنوہ کے کوئی مرد ہوں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی میری ملاقات ہوئی، ان کا قد میانہ اور رنگ سرخ تھا اور (ایسا لگتا تھا) جیسے (ابھی نہا کر) دیم اس یعنی حمام سے نکلے ہوں۔ اور میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا اور میں ان کی اولاد میں سے سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر میرے سامنے دو پیالے پیش کئے گئے۔ جن میں سے ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب تھی اور مجھ سے کہا گیا کہ ان میں سے جس کو پسند کرو، لے لو (چاہے شراب پسند کرلو چاہے دودھ) میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور پی لیا، تب مجھ سے کہا گیا (یعنی فرشتوں نے کہا) یہ کہ تمہیں راہ فطرت دکھائی گئی (یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین اسلام کی وہ راہ سمجھا دی جو اصل میں انسانی فطرت اور جس پر ہر شخص پیدا ہوتا ہے) جان لو اگر تم (اس وقت) شراب پی لیتے تو تمہاری امت گمراہ ہوجاتی۔ (بخاری ومسلم) ۔ تشریح وہ ایک مضطرب شخص نظر آئے۔ کی وضاحت میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، بعض نے یہ کہا کہ یہاں مضطرب دراز قد کے معنی میں ہے یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لمبے قد کے تھے۔ بعض نے کہا ہے کہ مضطرب کے معنی کم گوشت کے ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دبلے پتلے، کم گوشت چھریرے بدن کے تھے۔ اور بعض نے یہ کہا ہے کہ اس جملہ میں مضطرب کا لفظ خوف الہٰی سے دہلنے کانپنے والے کے معنی میں ہے، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ نماز اور عبادت الہٰی کے دوران خوف اللہ سے تھر تھرکانپتے رہتے تھے۔ رجل الشعر میں لفظ رجل ج کے زیر کے ساتھ ہے اور ج کے جزم اور زبر کے ساتھ بھی منقول ہے، اس لفظ کا اطلاق ان بالوں پر ہوتا ہے جو نہ بالکل سیدھے ہوں جن کو سبط کہتے ہیں اور نہ بالکل گھونگھریالے ہوں جن کو جعد کہا جاتا ہے، بلکہ ہلکا سا خم لئے ہوں لیکن ملا علی قاری (رح) نے لکھا ہے کہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہے کہ رجل سے مراد وہ بال ہیں جن میں خمی غالب ہو یعنی گھونگھریالے کے قریب ہوں، انہوں نے یہ معنی اس لئے مراد لئے ہیں تاکہ یہ روایت پچھلی حدیث کے منافی نہ ہو جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بالوں کا خم دار ہونا مذکور ہے۔ اس حدیث میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رنگت کو سرخ بتایا گیا ہے جب کہ پیچھے کی روایت میں سرخ سفید فرمایا گیا ہے لیکن دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ جہاں تک ان کی اصل رنگت کا تعلق ہے وہ سرخ سفید ہی تھے اور اس اعتبار سے کہ ان پر سرخی غالب ہوگی، ان کی رنگت پر سرخ کا اطلاق درست ہوا۔ من دیم اس یعنی الحمام میں یعنی الحمام کے الفاظ اصل حدیث کے نہیں بلکہ ایک راوی عبدالرزاق کے ہیں جنہوں نے ان الفاظ کے ذریعہ دیم اس کی وضاحت کی ہے کہ اس لفظ سے آنحضرت ﷺ نے حمام مراد لیا تھا۔ بہرحال جیسے ابھی حمام سے نکلے ہوں کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے دراصل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی رنگت کے نکھار، بدن کی تروتازگی وشادابی اور روئے مبارک کی تابانی وشگفتگی کی طرف اشارہ کیا جو روحانیت کے غلبہ کا پر تو تھی۔ لبن کے ساتھ فی استعمال نہ کرنا اور خمر کے ساتھ استعمال کرنا بظاہر تو از راہ تفنن ہے، لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شراب تو کم تھی اور دودھ زیادہ تھا۔ نیز آنحضرت ﷺ کے سامنے ان دونوں چیزوں کے پیش کئے جانے سے مقصود یہ تھا کہ فرشتوں پر آپ کی یہ فضیلت و عظمت ظاہر ہوجائے کہ آپ ہر حالت میں وہی چیز پسند کرتے اور اختیار کرتے ہیں جو بھلائی و بہتری کی ضامن ہوتی ہے اور جو چیز اپنے اندر کسی بھی طرح کی خرابی اور برائی رکھتی ہے اس کو از خود آپ ﷺ کی طبیعت قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ تمہیں راہ فطرت دکھائی گئی دودھ کا پیالہ پسند اور اختیار کرنے کو راہ فطرت یعنی نور ہدایت سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ اس عالم سفلی میں دودھ ایک ایسی چیز ہے جو پاک وصاف، خالص ولطیف اور سفید وشرین ہونے کے اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتی ہے اور بچے کو سب سے پہلی پرورش اور سب سے پہلی غذا دودھ ہی سے حاصل ہوتی ہے، پس عالم بالا میں دودھ کی مثال ہدایت اور فطرت کو قرار دیا گیا جس سے قوت و توانائی اور غذائے روحانی ملتی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ عالم بالا میں اس دنیا کی چیزوں کی مثالیں اور صورتیں مقرر ہیں جن سے مناسب معانی اور اشارے اخذ کئے جاتے ہیں علم تعبیر الرویاء کی مستند کتابوں میں لکھا ہے کہ جو شخص خواب میں دودھ دیکھے یا خود دودھ پینا دیکھے تو اس کی تعبیر علم، دین اور ہدایت ہے جب کہ شراب کا معاملہ اس کے برعکس ہے جو اس دنیا میں تمام برائیوں خباثتوں اور فتنوں اور ہر طرح کے نقصان کی جڑ ہے۔ اگر تم شراب پی لیتے تو تمہاری امت گمراہ ہوجاتی۔ یہ اس لئے کہا گیا کہ آنحضرت ﷺ اس وقت شراب کے پیالہ کو اختیار کرلیتے تو آپ ﷺ کی امت کے لئے بھی شراب حلال ہوجاتی اور اس طرح اس امت کے لوگوں میں شراب نوشی کی برائی اور اس کے مضرات داخل ہوجاتے۔ واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ کی ذات پاک چونکہ کسی بھی برائی میں مبتلا ہونے سے ازلی وابدی طور پر محفوظ تھی اور آپ ﷺ کا کسی بھی گمراہی میں پڑنا متصور ہی نہیں ہوسکتا، اس لئے آپ ﷺ سے یہ کہا گیا کہ اگر آپ شراب پی لیتے تو تم گمراہ ہوجاتے، بلکہ گمراہی کی نسبت آپ ﷺ کی امت کے لوگوں کی طرف کی گئی۔ حدیث کے اس جملہ سے یہ نکتہ معلوم ہوا کہ رہبر و پیشوا خواہ نبی ہو یا عالم ہو یا کسی قوم و ملک کا بادشاہ وسرابراہ ہو، کی استقامت واولوالعزمی، اس کے پیرؤوں اور اس کے ماننے والوں کی استقامت واولوالعزمی کا ذریعہ وسبب ہے کیونکہ اس کو وہی حیثیت حاصل ہوتی ہے جو کسی جسم میں دوسرے اعضاء کی نسبت سے دل کو حاصل ہوتی ہے۔

【25】

انبیاء اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی اعمال خیر کرتے ہیں :

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک سفر میں جو مکہ اور مدینہ کے درمیان تھا، ہم رسول کریم ﷺ کے ہمراہ تھے، جب ہم ایک جنگل سے گذرنے لگے تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کونسا جنگل ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ وادی ازرق ہے۔ آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ گویا میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ رہا ہوں پھر آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے رنگ اور بالوں کا ذکر کیا (کہ ان کا رنگ گندمی اور بال خمدار ہیں اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے فرمایا کہ) انہوں نے اپنی انگلیاں کانوں میں دے رکھی ہیں (جس طرح کہ مؤذن اپنی آواز بلند کرنے کے لئے اذان دیتے وقت اپنی انگلیاں کانوں میں دئیے رہتا ہے) اور روتے گڑ گڑاتے، بآواز بلند اپنے پروردگار کے حضور لبیک لبیک کہتے اس جنگل سے گذر رہے ہیں (جس طرح کہ کوئی احرام باندھے ہوئے شخص نہایت فروتنی و عاجزی کے ساتھ لبیک لبیک کہتا ہوا حرم کی طرف چلتا ہے) حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہاں سے گذر کر ہم آگے چلے اور ایک گھاٹی میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کونسی گھاٹی اور پہاڑ ہے ؟ لوگوں نے بتایا یہ ہر شا پہاڑ ہے۔ یا لفت پہاڑ ہے ! آپ ﷺ نے یہ (سن کر) فرمایا گویا میں یونس (علیہ السلام) کو دیکھ رہا ہوں جو سرخ اونٹنی پر سوار ہیں اور موٹے اون کا جبہ پہنے ہوئے ہیں، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کی رسی کی ہے اور وہ لبیک لبیک کہتے ہوئے اس گھاٹی سے گذر رہے ہیں (مسلم) تشریح اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) بعد از موت بھی اعمال خیر کرتے ہیں وہیں حج کی اہمیت بھی ثابت ہوئی کہ یہ عبادت اللہ اور اس کے انبیاء کے شعائر میں سے ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی اس کو ترک نہیں کرتے لہٰذا جو بھی شخص حج کی استطاعت وقدرت رکھتا ہو اس کو اس فریضہ کی ادائیگی سے غافل نہ ہونا چاہئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حج کرتے ہیں اور تلبیہ کہتے ہوئے محو سفر ہوتے ہیں (جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے) کیونکر ممکن ہے کیونکہ وہ وفات پاچکے ہیں اور یہ دنیا، دار آخرت نہیں ہے، دارالعمل ہے جہاں سے ان کا جسمانی تعلق منقطع ہوچکا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) بھی شہداء کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی افضل ہیں اور شہداء کے بارے میں یہ ہے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اللہ کے ہاں زندہ ہیں تو کیا بعید ہے وہ حج کریں، نماز پڑھیں اور دوسرے جو اعمال خیر چاہیں اختیار کرکے اپنے اللہ کا تقرب اور اس کی خوشنودی حاصل کریں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان نبیوں کو دیکھنے کا جو ذکر کیا وہ کھلی آنکھوں دیکھنے یا شب معراج کا واقعہ نہیں ہے بلکہ دراصل آپ ﷺ نے اپنے خواب کا ذکر کیا جس میں ان نبیوں کو مذکورہ حالت و کیفیت میں دیکھا، یہ اور بات ہے کہ انبیاء کا خواب بھی اتناہی سچا ہوتا ہے جتنا کھلی آنکھوں دیکھنا اور حضرت شیخ عبد الحق نے یہ لکھا ہے کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ تمام انبیاء کرام صلوۃ اللہ علیہم اجمعین حقیقی اور دنیاوی حیات کے ساتھ زندہ ہیں گوان کی اس حیات کو عام نظروں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے اور جب یہ بات حقیقت ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو حیات دنیا حاصل ہے تو اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد ﷺ کو کسی خواب وغیرہ کے واسطہ و ذریعہ کے بغیر کھلی آنکھوں سے ان انبیاء کا مشاہدہ کرادیا۔

【26】

حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ذکر :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا حضرت داؤد (علیہ السلام) پر زبور کی تلاوت آسان کردی گئی تھی، وہ اپنے جانوروں پر زین کسنے کا حکم دیتے اور قبل اس کے کہ زین کسنے کا کام پورا ہو، وہ زبور کی تلاوت مکمل کرلیتے تھے اور حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی محنت کی روٹی کھاتے تھے۔ (بخاری) تشریح حدیث سے گویہ واضح نہیں ہوتا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس کتنے جانور تھے اور ان جانوروں پر زین کسنے کا کام کتنے عرصہ میں مکمل ہوتا تھا، لیکن یہ ثابت ہوا کہ وہ عرصہ بہرحال اتنا طویل نہیں ہوتا تھا جس میں پوری زبور کی تلاوت مکمل کرلینا عام طور پر ممکن ہوتا، یہ صرف حضرت داؤد (علیہ السلام) کا وصف تھا کہ وہ تھوڑے عرصہ میں زبور جیسی کتاب کی تلاوت کرلیتے تھے۔ حاصل یہ کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو یہ وصف فوق العادت کمال کے طور پر حاصل تھا اور اس خصوصی عطیہ الٰہی سے تعلق رکھتا تھا کہ رب کریم اپنے نیک اور مخصوص بندوں کے لئے زمانہ اور وقت کی طناب کھینچ بھی دیتا ہے اور ڈھیلی بھی کردیتا ہے، کبھی ایک مختصر ساعرصہ ان بندگان خاص کے حق میں طویل عرصہ کے برابر ہوجاتا ہے اور کبھی ایک طویل عرصہ ایک مختصر عرصہ کے برابر کردیا جاتا ہے۔ سیدنا امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی سواری کے ایک رکاب میں پیر رکھتے وقت قرآن کریم پڑھنا شروع کرتے اور دوسرے رکاب میں پیر ڈالنے تک پورے قرآن کی تلاوت ختم کرلیتے تھے حدیث کے آخر میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ایک دوسرا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ باوجود سلطنت وحکمرانی کے اپنی روزی اپنے ہاتھ کی محنت سے حاصل کرتے تھے، زرہ سازی ان کا جزوقتی مشغلہ اور ہنر تھا، اسی کی آمدنی سے ان کا خرچ چلتا تھا۔

【27】

ایک قضیہ میں حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے الگ الگ فیصلے :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے (حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ کا یہ قصہ بیان فرمایا کہ دو عورتیں تھیں اور ان دونوں کے پاس ایک ایک لڑکا تھا، (ایک دن) ایک بھڑیا آیا اور ان میں سے ایک عورت کے لڑکے کو اٹھا کرلے گیا، (اب دونوں نے آپس میں جگڑنا شروع کیا، ایک نے کہا کہ بھڑیا جس لڑکے کو لے گیا ہے وہ تیرا تھا اور دوسری نے کہا کہ نہیں وہ تیرا لڑکا تھا، آخر کار دونوں اپنا مقدمہ لے کر حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس پہنچیں اور حضرت داؤد (علیہ السلام) نے (دونوں کے بیانات سن کر) موجود لڑکا بڑی عمر کی عورت کو دلوادیا، پھر وہ دونوں عورتیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آئیں اور ان سے (پورا قضیہ اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کا فیصلہ) بیان کیا (نیز انہوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے اپنا فیصلہ دینے کا کہا) حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے (صورت واقعہ کی نزاکت اور پیچدگی کو سمجھ کر (اپنے خادموں سے) کہا کہ ذرا چھری اٹھا لاؤ میں اس لڑکے کو بیچ میں سے دو ٹکڑے کر کے ان دونوں عورتوں میں بانٹ دوں گا۔ چھوٹی عمر کی عورت (نے ان کا یہ فیصلہ سنا تو تڑپ اٹھی اور کہنے لگی اللہ آپ پر رحم کرے ایسا نہ کیجئے لڑکا بڑی عمر والی عورت ہی کو دے دیجئے، یہ اسی کا ہے (یہ دیکھ کر) حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چھوٹی عمر والی عورت کے حق میں فیصلہ کیا اور اس کو لڑکا دلوادیا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اس قضیہ کی بنیاد یہ تھی کہ دونوں عورتیں جو عمر میں ایک دوسرے سے چھوٹی بڑی تھیں ایک ہی جگہ رہتی تھیں، ان دونوں کے پاس ایک ایک بچہ تھا اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں بچے ہم عمر بھی تھے اور ہم شکل بھی، اس لئے جب بھیڑیا ان میں سے ایک بچہ کو اٹھا کرلے گیا تو دونوں عورتوں کے درمیان یہ نزاع پیدا ہوگیا کہ بھیڑیا جس بچہ کو اٹھا کرلے گیا ہے وہ کس کا تھا ؟ ہر ایک عورت یہ کہتی تھی کہ وہ بچہ اس کا نہیں تھا بلکہ دوسری عورت کا تھا۔ یا یہ کہ وہ بچے ہم عمر اور ہم شکل نہیں تھے اور دونوں عورتیں خوب جانتی تھیں کہ بھیڑیا کس کے بچہ کو لے گیا ہے لیکن اس بچہ کی ماں یا تو بد حواسی میں یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ اس کا بچہ جاتا رہے یا وہ دوسرے بچہ کو جو موجود تھا، اس لئے ہتھیانا چاہتی تھی کہ اس کو اپنے پاس رکھ کر اپنے اصل بچہ کا غم ہلکا کرسکے اور یا اس کے اس دعوے کے پیچھے کوئی اور فاسد غرض کار فرما ہوگی، بہرحال جب یہ قضیہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جس بچہ کو بھیڑیا اٹھا کرلے گیا ہے وہ اس عورت کا تھا جو چھوٹی عمر کی ہے اور موجود لڑکے کو بڑی عمر والی عورت کے حوالہ کرنے کا حکم دیا حضرت داؤد (علیہ السلام) نے یہ فیصلہ یا تو اس بنیاد پر کیا کہ وہ بچہ بڑی عمر والی عورت ہی کے پاس تھا اور شرعی قاعدہ یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی ملکیت کے بارے میں کوئی واضح اور یقینی ثبوت نہ ہو تو اس چیز کا زیادہ حق دار وہ شخص مانا جائے گا جس کے قبضے میں وہ چیز ہوگی۔ یا یہ کہ وہ بچہ بڑی عمر والی عورت سے کچھ مناسبت رکھتا تھا لہٰذا حضرت داؤد (علیہ السلام) نے علمی قیافہ سے کام لے کر مذکورہ فیصلہ صادر کیا بہرحال ان کے اس فیصلہ کی بنیاد ان دونوں میں سے کوئی بات ہو یا ان کے علاوہ کسی اور قرینہ اور دلیل کو انہوں نے مدنظر رکھا ہو یہ بات طے ہے کہ ان کا یہ فیصلہ ان کے اپنے اجتہاد کا نتیجہ تھا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی نہیں تھا کیونکہ اگر اس سلسلہ میں ان پر کوئی وحی آئی ہوتی اور ان کو یہ فیصلہ اسی وحی کے تحت ہوتا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) ان کے فیصلے کے خلاف الگ فیصلہ نہ دیتے۔ جب یہ قضیہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اس کا فیصلہ کرنے کا بالکل نفسیاتی طریقہ اختیار کیا انہوں نے دونوں کے دعوے سن کر کہا کہ ایک چھری لاؤ میں اس بچہ کو بیچ سے کاٹ کردو ٹکڑے کئے دیتا ہوں اور تم دونوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک ٹکڑا دے دوں گا ان کا مقصد یہ تھا کہ دونوں عورتوں کی مامتا کا امتحان ہوجائے اس بات پر ان دونوں طرف سے جس ردعمل کا اظہار ہوگا وہ صحیح نتیجہ تک پہنچنے میں مدد دے گا ظاہر ہے جو عورت اس بچہ کی اصل ماں ہوگی وہ چاہے اس بچہ کو اپنے سے جدا کرنے پر راضی ہوجائے مگر اپنی آنکھوں کے سامنے اس کے دو ٹکڑے کئے جانے کو کسی حال میں برداشت نہیں کرے گی چناچہ یہی ہوا جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان دونوں کو پرکھنے کے لئے یہ بات کہی تو بڑی عمر والی عورت خاموش رہی مگر چھوٹی عمر والی عورت تڑپ گئی اور کہنے لگی کہ ایسا ظلم نہ کیجئے میں اس پر راضی ہوں کہ آپ اس بچہ کو اس بڑی عمر والی عورت کے حوالے کردیں اور یہ بچہ جیتا رہے لیکن مجھے یہ گوارہ نہیں کہ اس بچہ کو چیر کردو ٹکڑے کردیا جائے اور موت کی آغوش میں پہنچا دیا جائے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے کہنے کا جو مقصد تھا وہ پورا ہوگیا انہوں نے اس بچہ کے تئیں چھوٹی عمر والی عورت کی ظاہر کردہ شفقت و محبت کو اس کی ممتا اور بڑی عمر والی عورت کی خاموشی کو اس کی سنگدلی اور بچہ سے بےتعلقی پر محمول کر کے نتیجہ اخذ کرلیا کہ یہ بچہ چھوٹی عمر والی ہی عورت کا ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں بڑی عمر والی عورت نے اقرار بھی کیا ہوگا کہ وہ بچہ اس کا نہیں ہے بلکہ دوسری عورت کا ہے، لہٰذا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بچہ کو اس کی اصل ماں یعنی چھوٹی عمر والی عورت کے حوالہ کردیا ! اب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس فیصلہ کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے فیصلہ کو کیسے توڑا، جب کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا فیصلہ ایک نبی کا فیصلہ تھا اور کسی نبی کے فیصلہ کو توڑا نہیں جاسکتا، چاہے وہ فیصلہ اس نبی کے اپنے اجتہاد ہی کا نتیجہ کیوں نہ ہو ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس بڑی عمر والی عورت کے حق میں حتمی اور یقینی فیصلہ صادر نہیں کردیا تھا بلکہ حدیث میں جس فیصلہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ احتمالی نوعیت رکھتا ہے اور اس کی حیثیت انتظامی حکم کی تھی اور اس سے ان کا مقصد اس معاملہ کو محض رفع دفع کرنا تھا اور ممکن ہے کہ ان کی شریعت میں پائی جانے والی کسی گنجائش کے تحت کسی ایسے حکم کو منسوخ کیا جانا جائز ہو جس کا تعلق وحی الہٰی یا نص شرعی کے بجائے اجتہاد سے ہو۔

【28】

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ایک واقعہ :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (ایک دن) حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ کہا (یعنی یہ عزم و ارادہ کیا) کہ آج رات میں اپنی نوے بیویوں سے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اپنی سو بیویوں کے ساتھ مباشرت کروں گا ان میں سے ہر بیوی، ایک سوار (بہادر مرد) جنے گی جو اللہ کے راستہ میں جہاد کرے گا۔ ( چونکہ انہوں نے اس عزم و ارادہ کے وقت، جو اگرچہ نیک مقصد کے لئے تھا، انشاء اللہ نہ کہا اس لئے اس) فرشتہ نے جو دائیں طرف رہتا ہے یا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اور یا کسی بھی فرشتہ نے ان سے کہا کہ انشاء اللہ کہہ لیجئے ! لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) انشاء اللہ کہنا بھول گئے، پھر انہوں نے (اپنے ارادہ کے مطابق) ان سب بیویوں کے ساتھ مباشرت کی اور ان میں سے صرف ایک عورت کے علاوہ کوئی بھی حاملہ نہیں ہوئی اور اس نے بھی آدھا مرد یعنی ناقص الخلقۃ بچہ جنا۔ (اور پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا) قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، سلیمان (علیہ السلام) اگر انشاء اللہ کہہ لیتے تو یقینا ہر عورت سے بیٹا پیدا ہوتا اور سب اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے اور سوار (بہادر مرد) ثابت ہوتے۔ تشریح انشاء اللہ کہہ لیجئے۔ اس سے کسی بھی کام کے عزم و ارادہ کے وقت انشاء اللہ کہنے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، کہ جب بھی کوئی عزم و ارادہ کیا جائے تو اس کو انشاء اللہ کہہ کر مضبوط بنا لینا چاہئے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں یہ کام کروں گا اور اگر اللہ نے چاہا تو یہ کام ہوگا اور یہ کہنا ضروری اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ کے چاہے بغیر کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آتی اور بندے کی وہی خواہش بارآور ہوتی ہے جس میں مشیت الہٰی بھی شامل ہو لہٰذا اس فرشتے نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو گویا یاد دلایا کہ آپ نے جو عزم و ارادہ کیا ہے اس کو اللہ کی مشیت سے وابستہ نہیں کیا جس کی وجہ سے اس عزم و ارادہ کی بار آوری غیر یقینی ہوگئی ہے۔ آپ اب بھی انشاء اللہ کہہ لیجئے تاکہ آپ کا یہ عزم و ارادہ اب سے بارآور ہونے کا مستحق ہوجائے۔ لیکن جیسا کہ شیخ عبدالحق نے اپنی شرح میں حدیث کے مذکورہ جملہ کے تحت لکھا ہے، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ کہ بھول جانے کی وجہ سے اس وقت انشاء اللہ نہیں کہا، جب فرشتہ نے انہیں یاد دلایا تھا بلکہ بعد میں بھی نہیں کہا۔ ملا علی قاری نے اس موقع پر یہ لکھا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرشتہ کے کہنے کے باوجود انشاء اللہ اس لئے نہیں کہا کہ وہ یہ سمجھے کہ جب دل میں انشاء اللہ کی نیت کرلی ہے تو زبان سے انشاء اللہ کہنا ضروری نہیں ہے، اس اعتبار سے نسی کا لفظ علم کے معنی میں ہوگا۔ نیز ایک روایت میں نسی کا لفظ ن کے پیش اور اس کی تشدید کے ساتھ نقل ہوا ہے اور یہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے، اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ ان کے ذہن سے یہ بات فراموش کردی گئی کہ انشاء اللہ کہنے میں قلب اور زبان دونوں کا جمع ہونا ارباب جمع اور اہل عرفان کے نزدیک اصل درجہ رکھتا ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا انشاء اللہ نہ کہنا ان کی لغزش قرار پایا اور یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے ایک ابتلاء تھا اس لئے انہوں نے بعد میں حق تعالیٰ کے حضور اپنی اس لغزش کا اعتراف و اقرار اور توبہ و استغفار کیا جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے۔ بہرحال حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کسی بھی کام کے ارادے وعزم کے اظہار کے وقت یہ کہنا مستحب ہے کہ میں فلاں کام کروں گا انشاء اللہ تعالیٰ تاکہ اس کام میں حق تعالیٰ کی طرف سے مدد و برکت حسن تکمیل اور آسانی و سہولت میسر ہو چناچہ قرآن کریم میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ولاتقولن لشئی انی فاعل ذلک غدا الا ان یشاء اللہ۔ اور آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کہا کیجئے کہ میں اس کو کل کروں گا مگر اللہ کے چاہنے کو ملا دیا کیجئے (یعنی اس طرح کی بات کہتے وقت انشاء اللہ ضرور کہا کیجئے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) میں قوت مردی اور جنسی طاقت کمال درجہ کی تھی اور اس طاقت کا زیادہ ہونا مردوں کے لئے خوبی اور فضیلت کی بات ہے جب کہ اس طاقت کا کم ہونا کمی اور نقصان میں شمار کیا جاتا ہے۔

【29】

کمانا انبیاء کی سنت ہے :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حضرت زکریا (علیہ السلام) نجار (یعنی بڑھئی) تھے (مسلم) تشریح مطلب یہ کہ وہ بڑھئی کا کام کرتے تھے اور اپنی روزی اپنے ہاتھ کی محنت سے پیدا کرتے تھے۔ پس اس حدیث میں اور اس حدیث میں جو اوپر حضرت داؤد (علیہ السلام) سے متعلق گذری، یہ دلیل ہے کہ کمانا اور محنت ومشقت کے ذریعہ اپنا حلال رزق حاصل کرنا انیباء (علیہم السلام) کی سنت میں سے ہے۔

【30】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آنحضرت کا باہمی قرب وتعلق :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دنیا اور آخرت میں (یا آغاز و انجام میں) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سب سے زیادہ قریب اور متعلق میں ہوں اور تمام انبیاء (علیہم السلام) آپس میں سوتیلے بھائی ہیں جن کا باپ ایک ہے اور مائیں الگ الگ ہیں، ان سب کا اصل دین ایک ہے اور ہمارے (یعنی میرے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے) درمیان کوئی نبی نہیں ہے (بخاری ومسلم ) تشریح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سب سے زیادہ قریب و متعلق میں ہوں اس اعتبار سے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان کوئی پیغمبر نہیں ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی نے آنحضرت ﷺ کے اس دنیا میں مبعوث ہونے کی واضح بشارت دی آنحضرت کے دین و شریعت کی تمہید بھی انہوں نے ہی قائم کی اور آخر زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے نائب اور خلیفہ بھی وہی ہوں گے۔ انبیاء کو ایک دوسرے کا سوتیلا بھائی قرار دینے کا مقصد ان کے درمیان باہمی تعلق اور مناسبت کی ایک خاص نوعیت کو ظاہر کرتا ہے اور ان کے باپ سے مراد وہ چیز ہے جو اس دنیا میں ان کی بعثت کا سبب بنی ہے یعنی مخلوق اللہ کی ہدایت اور ان کو صحیح راستے پر لگانے کی ذمہ داری اور ان کی ماؤں سے مراد ان کی اپنی اپنی شریعتیں ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف اور الگ الگ ہیں۔ ان کا سب کا اصل دین ایک ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ لوگوں کی ہدایت اور ان کے مفاد کی مصلحت و حکمت اور قوم وملت کے حالات کی رعایت کے پیش نظر ہر نبی کو الگ الگ شریعت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا لیکن سب کا اصل دین ایک ہی ہے، یعنی تو حید۔

【31】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب بھی کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کی دونوں کوکھ میں اپنی انگلیوں سے کونچا مارتا ہے، لیکن عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) اس سے محفوظ رہے، اس نے ان کی کوکھ میں بھی کونچا مارنا چاہا تھا مگر وہ صرف پردے میں کونچا مارسکا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) شیطان لعین کی تکلیف پہنچانے والی اس حرکت سے محفوظ رہے کہ ان کی نانی اور مریم (علیہ السلام) کی ماں حنہ نے اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کردیا تھا کہ وانی سمیتہا مریم وانی اعیذہا بک وذریتہا من الشیطان الرجیم۔ (پروردگار) میں نے اپنی اس بچی کا نام مریم (علیہ السلام) رکھا اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو مردود شیطان سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ پردے سے مراد وہ جھلی ہے جس میں بچہ پیدائش کے وقت لپٹا ہوا ہوتا ہے اور جس کو عربی میں مشیمہ کہا جاتا ہے مطلب یہ کہ شیطان نے اپنی عادت کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی کوکھ میں بھی کونچا مارنا چاہا اور اپنی انگلیاں چلائیں لیکن وہ انگلیاں ان کے جسم تک نہیں پہنچ سکیں، اسی جھلی میں اٹک کر رہ گئیں، اس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس کی اذیت سے محفوظ رہے۔ واضح رہے کہ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ جب بھی انسان پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ الخ۔ تو اس سے آنحضرت ﷺ مستثنیٰ اور خارج ہیں، آپ ﷺ نے اپنے علاوہ اور تمام بنی آدم کے بارے میں یہ فرمایا ہے چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح خود آپ کی ذات بھی شیطان کی اس ایذاء رسانی سے محفوظ رہی تھی۔

【32】

باکمال عورتوں کا ذکر :

اور حضرت ابوموسی (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مردوں میں تو بہت باکمال پیدا ہوئے، ( جیسے انبیاء خلفاء علماء اور اولیاء اللہ) لیکن عورتوں میں چند ہی کو باکمال ہونا نصیب ہوا اور وہ مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون ہیں نیز اور تمام عورتوں پر عائشہ کو وہ فضیلت حاصل ہے دوسرے کھانوں پر ثرید کو۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت انس (رض) کی روایت یا خیر البریہ الخ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ای الناس اکرم الخ اور حضرت ابن عمر کی روایت الکریم ابن الکریم الخ باب المفاخرۃ والعصبیۃ میں نقل ہوچکی ہے۔ تشریح اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں خواتین۔ مریم بنت عمران جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ہیں اور آسیہ زوجہ فرعون۔ دنیا کی تمام اگلی پچھلی عورتوں پر برتری اور فضیلت رکھتی ہیں، یہاں تک کہ حضرت فاطمہ، حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ (رض) اور دیگر ازواج مطہرات پر بھی ؟ لیکن یہ بات چونکہ اس طرح نہیں ہے اس لئے حدیث کی یہ توجیہ و تاویل کی جاتی ہے کہ مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کو جن عورتوں پر فضیلت دی گئی ہے ان سے امت محمدیہ سے پہلے کی امتوں کی عورتیں مراد ہیں کہ پچھلی تمام امتوں کی عورتوں میں سب سے زیادہ افضل اور سب سے برتر یہ دو عورتیں ہیں ! یا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے یہ حدیث اس زمانے میں ارشاد فرمائی تھی جب کہ حضرت فاطمہ، حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ (رض) افضلیت واکملیت کی ظاہر کرنے والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ اور یا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے امت محمد کی ان افضل خواتین کو مستثنیٰ ! کر کے باقی تمام عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ ان سب پر فضیلت و برتری مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کو حاصل ہے اور اس استثناء کا قرینہ وہ دوسری احادیث ہیں جن میں حضرت فاطمہ (رض) ، وغیرہ کے مناقب و اوصاف کا ذکر ہے جیسے ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے فاطمہ زہرا تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔ حدیث کا آخری جزء جس میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی فضیلت مذکور ہے، کئی احتمال رکھتا ہے اس میں عورتوں سے یا تو بلا استثناء دنیا کی تمام عورتیں مراد ہیں یا حدیث میں مذکورہ دونوں خواتین، مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون (رض) کا استثناء کرکے باقی تمام عورتیں مراد ہیں اور ترجمہ میں اسی احتمال کو ترجیح دی گئی ہے، یا جنتی عورتیں مراد ہیں، یا اس امت کی عورتیں مراد ہیں اور یا ازواج مطہرات مراد ہیں، واضح رہے کہ ثرید اس کھانے کو کہتے ہیں جو روٹی کو شوربے میں چور کر بنایا جاتا ہے اس زمانہ میں اہل عرب کا سب سے مرعوب کھانا ثرید ہی تھا، کیونکہ یہ کھانا اول تو بہت نرم اور لذیذ ہوتا ہے، دوسرے نہایت زود ہضم اور مقوی سمجھا جاتا ہے علماء کے یہاں اس بارے اختلاف ہے کہ حضرت عائشہ، حضرت خدیجہ اور حضرت فاطمہ (رض) سے کون سب سے افضل ہیں ؟ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) سے یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ حضرت خدیجہ (رض) کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ (رض) دنیا کی تمام عورتوں سے افضل ہے ابن حجر نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ کو حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ (رض) پر فضیلت حاصل ہے اور سب سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ سب سے افضل حضرت فاطمہ بنت محمد ﷺ ہیں ان کے بعد ان کی والدہ حضرت خدیجہ اور ان کے بعد حضرت عائشہ۔ مولف کتاب نے مذکورہ بالا مسئلہ میں اپنا قول فیصل اس طرح لکھا ہے بعض روایتوں سے جو ابن شیبہ وغیرہ سے منقول ہیں یہ معلوم ہوتا ہے حضرت فاطمہ زہرا مریم بنت عمران آسیہ زوجہ فرعون اور حضرت خدیجۃ الکبری (رض) کے بعد تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حضرت خدیجۃ الکبری کو حضرت عائشہ پر فضیلت حاصل ہے اور سبکی نے اپنے زمانے کے بعض ائمہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ حضرت حسن اور حضرت حسین جگر گوشہ رسول اور آپ ﷺ کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے خلفاء اربعا (حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی) سے افضل ہیں لیکن یہ افضلیت علی الاطلاق نہیں ہے کیونکہ یہ خلفاء اربعہ اپنے علم وفضل کی جلالت اور دین و ملت کی راہ میں اپنے بےمثال کار ناموں کی بنا پر سب سے زیادہ اجروثواب کے حامل ہونے کے اعتبار سے حضرت فاطمہ حضرت حسن اور حضرت حسین سے افضل ہیں جیسا کہ ابن حجر نے شمائل ترمذی کی شرح میں بیان کیا ہے پس معلوم ہوا کہ جس طرح خلفاء اربعہ اور یہ جگر گوشہ رسول اپنی اپنی مخصوص جہت و حیثیت کے اعتبار سے ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں اسی طرح مذکورہ عورات مطہرات (حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت فاطمہ (رض) میں سے کسی کو بھی مجموعی کلی طور پر باقی دونوں پر یا ان میں سے کسی ایک پر فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے بلکہ تینوں اپنی الگ الگ خصوصیات کے اعتبار سے آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتی ہیں چناچہ حضرت عائشہ کو بلند تر علمی مقام حاصل تھا اور ان کی جو خصوصیت حاصل تھی کہ اکثر وبیشتر وحی آپ پر اس وقت نازل ہوتی تھی جب آپ کے بستر پر یا ان کے حجرہ میں ہوتے تھے تو اس اعتبار سے ان کو حضرت فاطمہ پر فضیلت و برتری حاصل ہے اس کے برخلاف آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک کا ایک حصہ اور آپ کا جگر گوشہ ہونے کا شرف چونکہ حضرت فاطمہ کو حاصل ہے اس اعتبار سے وہ حضرت عائشہ پر فضیلت رکھتی ہیں اور مریم وآسیہ اپنے اپنے زمانہ کی تمام عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں نیز حضرت خدیجۃ الکبری اس اعتبار سے فضیلت رکھتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی پہلی زوجہ مطہرہ ہونے کا شرف ان ہی کو حاصل ہے آنحضرت ﷺ کی سب سے زیادہ خدمت ومعاونت انہوں نے ہی کی اور آنحضرت ﷺ کی اکثر اولاد ان ہی کے بطن سے ہے۔

【33】

خدا کے بارے میں ایک سوال :

اور حضرت ابورزین بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول ﷺ ہمارا پروردگار اپنی مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا عماء میں تھے نہ اس کے نیچے ہوا تھی اور نہ اس کے اوپر اس نے اپنا عرش پانی پر پیدا کیا اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا یزید ابن ہارون نے وضاحت کی ہے عماء سے مراد یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں تھی۔ تشریح عماء کے اصل معنی ابر (بادل) کے ہیں خواہ ہلکا ہو یا گہرا لیکن یہاں یہ اصل معنی مراد نہیں ہے کہ پروردگار اپنی مخلوقات پیدا کرنے سے پہلے ابر میں تھا بلکہ اس لفظ سے ایک پورے مفہوم کی طرف اشارہ مقصود ہے اور وہ یہ کہ مذکورہ سوال میں جس حقیقت کی جستجو ظاہر کی گئی ہے اس تک نہ کسی کا علم پہنچ سکتا ہے نہ کوئی عقل اس کا ادراک کرسکتی ہے اور نہ کوئی اس کو بیان کرسکتا ہے نہ اس کے نیچے ہوا تھی اور اس کے اوپر ان الفاظ کے ذریعہ اس مفہوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مخلوقات سے پہلے صرف اللہ ہی اللہ تھا اس کے ساتھ کوئی اور چیز موجود نہیں تھی اس اعتبار سے اس جملہ کا حاصل وہی ہے جو اس حدیث کا مضمون ہے کان اللہ ولم یکن معہ شیء (صرف اللہ کی ذات موجود تھی اس کے ساتھ کسی چیز کا وجود نہیں تھا) اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ماقبل جملہ (عماء میں ہے) سے اللہ کی طرف مکان کی نسبت کا واہمہ ہوسکتا تھا لہٰذا اس واہمہ کے دفعیہ کے لئے مذکورہ جملہ ارشاد فرمایا کہ عماء یعنی ابر سے متعارف ابر مراد نہیں ہے جس کے اوپر نیچے ہوا ہوتی ہے اور جب متعارف ابر مراد نہیں ہے کیونکہ اس کا ہوا کے بغیر ہونا محال ہے تو یہ وہم نہ ہونا چاہے کہ عماء کے ذریعہ اللہ کی طرف کسی مکان اور مقام کی نسبت کی گئی ہے اس نے اپنا عرش پانی پر پیدا کیا جملہ کے بارے میں ایک شارح نے یہ لکھا ہے کہ سائل نے جو سوال کیا تھا اس کا اصل مقصد یہ دریافت کرنا تھا کہ این کان عرش ربنا، یعنی مخلوقات جیسے زمین و آسمان وغیرہ کو پیدا کرنے سے پہلے ہمارے پروردگار کا عرش کہاں تھا اس کا جواب ﷺ نے یہ دیا کہ عرش الہٰی پانی کے اوپر تھا اس کی تحقیق پیچھے گذر چکی ہے۔

【34】

آسمانوں کا ذکر :

اور حضرت عباس ابن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ وہ (ایک دن) بطحائے مکہ (میں ایک جگہ محصب) میں لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور رسول کریم ﷺ بھی تشریف فرما تھے کہ اچانک ابر کا ایک ٹکڑا گذرا، لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے رسول کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم اس (ابر) کو کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ سحاب ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور اس کو مزن بھی کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں مزن بھی کہتے ہیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا اور اس کو عنان بھی کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں عنان بھی کہتے ہیں اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم لوگ جانتے ہو، آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے وہ کتنا طویل ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں نہیں معلوم آپ ﷺ نے فرمایا زمین و آسمان کے درمیان کا فاصلہ یا تو اکہتر سال یا بہتر سال یا تہتر سال کی مسافت کے بقدر ہے اور اس (پہلے) آسمان کے اوپر جو (دوسرا) آسمان ہے ان دونوں کے درمیان کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے ساتوں آسمانوں کا ذکر کیا ( کہ ہر آسمان اپنے نیچے کے آسمان سے کچھ اوپر ستر سال کی مسافت کے بقدر فاصلہ پر ہے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر پانی کا بہت بڑا سمندر ہے، اس سمندر کی تہ اور اس کے اوپر کی سطح کے درمیان بھی اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہے اور اس سمندر کے اوپر آٹھ فرشتے ہیں جو پہاڑی بکروں کے مانند ہیں، ان کے کھروں اور کو لہوں کے درمیان بھی اتناہی فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہم اور پھر ان فرشتوں کی پشت پر عرش الہٰی ہے جس کے نیچے کے حصہ اور اوپر کے حصہ کے درمیان بھی اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہے اور اس عرش کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح حدیث کے ظاہری اسلوب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عباس (رض) نے جس زمانہ کا واقعہ بیان کیا ہے اس وقت تک وہ حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوئے تھے۔ اس طرح وہ لوگ بھی مسلمان نہیں تھے جن کے ساتھ حضرت عباس (رض) اس موقع پر تھے۔ نیز اس موقع پر اور ان لوگوں کے درمیان آنحضرت ﷺ کا موجود ہونا بھی اسی کا احتمال رکھتا ہے کہ وہ سب لوگ مکہ کے رہنے والے تھے اور مسلمان ہوچکے تھے اور اگر یہ احتمال قائم کیا جائے کہ وہ سب لوگ مکہ کے کفار تھے اور اسلام کی دعوت دینے کا ارادہ فرمایا ہوگا اور اسی مقصد سے ان کے پاس تشریف لے گئے ہوں۔ یا تو اکہتر سال اور یا بہتر سال اور یاتہتر سال۔ یہ جملہ راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر ان تینوں میں سے کسی ایک عدد کا ذکر فرمایا تھا، بہرحال حاصل یہ ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کا درمیانی فاصلہ کچھ اوپر ستر سال کی مسافت کے بقدر ہم لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ اس عدد سے مراد تحدید نہیں ہے بلکہ تکثیر و مبالغہ یعنی اس فاصلہ کی وسعت و زیادتی کو بیان کرنا ہے لہٰذا یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ اور ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کے درمیانی فاصلہ کو پانچ سو سال کی مسافت کے بقدر فرمایا گیا ہے۔ ساتویں آسمان کے اوپر پانی کا ایک بڑا سمندر ہے۔ بعض دوسری روایتوں میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا عرش پیدا کرنے کے ساتھ ہی اس عرش کے نیچے ایک بہت بڑا سمندر پیدا کیا اور وہ سمندر مو جو وجاری ہے اور اس عرش کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے واضح رہے کہ اس جملہ کی مراد حق تعالیٰ کے مرتبہ کی بلندی، اس کی عظمت و شوکت اور اس کی سلطنت و حکومت کی مافوقیت کو بیان کرنا ہے، نہ کہ مکان وجہت اور استقرار وتمکن کے اعتبار سے اس کی ذات کا عرش پر ہونا مراد ہے ! گویا آپ ﷺ نے پروردگار کی عظمت و برتری کو انسانی ذہن میں اتارنے کے لئے بطور تمثیل یہ جملہ ارشاد فرمایا اور مطلب یہ تھا کہ وہ بڑا ہی عالی مرتبہ اور عظیم البرہان ہے اس کی ذات ہر شئے سے بلند وبالا ہے اور تمام موجودات اسی کے حکم اور اسی کی قدرت کے تحت ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے و اللہ من ورآہم محیطٌ اور اللہ سب کو ادھر ادھر سے گھیرے ہوئے ہے اور اصل بات یہ ہے کہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے ارشاد و ہدایت کا ایسا مضمون اور اسلوب اختیار فرمایا جس سے ان سب کے ذہن وفکر کی پرواز اس عالم سفلی سے منتقل ہو کر عالم علوی کی طرف مائل ہو اور زمین و آسمان کے اقتدار اعلی (حاکمیت الہٰ ) ایک ایسا تصوراتی خاکہ ان کے دل و دماغ پر منعکس ہو جس سے وہ لوگ کائنات عرض سماء کے پیدا کرنے والے اور کل کائنات کا نظام چلانے والے کی ذات کی طرف متوجہ ہو کر بت پرست ادہام پسندی اور فاسدعقیدہ و خیال کی پستی کا احساس و شعور حاصل کریں اور خود کو ان چیزوں سے باز رکھ سکیں۔

【35】

عرش الہٰی کا ذکر :

اور جبیر ابن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا کہ (ہمارے ہاں خشک سالی کی وجہ سے) انسانی جانیں قحط کا شکار ہورہی ہیں، بال بچوں کو بھکری کا سامنا ہے، مال وجائداد کی بربادی ہورہی ہے اور مویشی ہلاک ہو رہے ہیں، لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے بارش مانگئے، ہم اللہ تعالیٰ کے حضور آپ ﷺ کو وسیلہ بناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ کے ہاں شفیع مقرر کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات پاک منزہ ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک منزہ ہے، آپ ﷺ باربار تسبیح کے یہی الفاظ فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے صحابہ کے چہروں کا رنگ بدل گیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے شخص تجھ پر افسوس ہے درحقیقت اللہ کو کسی کے ہاں شفیع مقرر نہیں کیا جاتا اور نہ اس کو وسیلہ بنایا جاتا ہے بلاشبہ اللہ کی ذات اور اس کی حیثیت اس سے بالا تر ہے کہ اس کو کسی کا وسیلہ و ذریعہ بنایا جائے تجھ پر افسوس کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ کی عظمت و جلالت کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا عرش اس کے آسمانوں کو اس طرح محیط ہے یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ہتھلی کے اوپر قبا کی صورت میں دکھایا یعنی آپ ﷺ نے ہاتھ کو گنبد کی صورت میں بنا کر دکھایا کہ جس طرح یہ گنبد نما ہاتھ ہتھلی کو گھیرے ہوئے ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا عرش زمین تو زمین تمام آسمانوں تک کو اپنے نیچے گھیرے ہوئے ہے اور وہ عرش اس قدر وسیع و عریض ہونے کے باوجود اس طرح چرچر کرتا ہے جس اونٹ کا پلان یا گھوڑے کی زین (بھاری بھر کم) سوار کے نیچے چرچر کرتی ہے (ابوداؤد) تشریح ہم اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ کے ہاں شفیع مقرر کرتے ہیں اس جملہ سے اس دیہاتی کی مراد یہ تھی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں آپ ﷺ کی ذات کو اور آپ ﷺ کی عظمت و بزرگی کو اپنا وسیلہ بناتے ہیں آپ ﷺ کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں اور آپ ﷺ سے یہ دعا کرنے کی درخواست کرتے ہیں کہ پروردگار ہمارے حال پر رحم فرما کر بارش برسادے نیز آپ کی سفارش و توجہ چاہنے کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ملتجی ہیں کہ وہ آپ ﷺ کو ہماری طرف متوجہ کردے آپ ﷺ کو ہمارے حق میں سفارش کرنے کی توفیق عطا فرمائے لیکن اس نے اپنی یہ مراد ظاہر کرنے کے لئے موزوں اسلوب اختیار نہیں کیا جب کہ گھبراہٹ میں اس کی زبان سے ایسے الفاظ نکلے جن سے نہ صرف یہ کہ اس کی اصل مراد خبط ہوگئی بلکہ یہ ظاہر ہوا کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ کی بارگاہ میں وسیلہ بنا رہا ہے اور اس طرح اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اس کے نظام اور اس کے حکم واختیار میں آنحضرت ﷺ کو شریک و برابر کررہا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے حکم واختیار اور اپنے نظام قدرت میں کسی بھی طرح مشارکت اور کسی بھی طرح ہمسری کی روادار نہیں ہے ارشاد ربانی ہے لیس لک من الامرشیئ خدا کے نظام میں آپ ﷺ کو کوئی دخل نہیں اور یہ بھی فرمایا من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ ایسا کون شخص ہے جو اس کے پاس کسی کی سفارش کرسکے بدوں اس کی اجازت کے۔ لہٰذا اس دیہاتی کا یہ کہنا حضور ﷺ کو نہایت ناگوار ہوا اور آپ ﷺ اس کی طرف سے اس جملہ کی ادائیگی پر اظہار حیرت وتعجب اور اس کو متنبہ کرنے کے لئے بار بار سبحان اللہ سبحان اللہ فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے صحابہ کے چہروں کا رنگ بدل گیا۔ یعنی آنحضرت ﷺ کے بار بار سبحان اللہ کہنے سے اس مجلس میں موجود صحابہ سمجھ گئے کہ دیہاتی کے اس کہنے سے آپ ﷺ کو شدید ناگواری اور غصہ ہے، لہٰذا آنحضرت ﷺ کے غضب وغصہ کو محسوس کرکے وہ سب بھی ڈر گئے اور خوف اللہ سے ان کے چہروں کا رنگ بدل گیا اور پھر آنحضرت ﷺ نے جب ان صحابہ کے چہروں پر خوف اللہ کا اثر دیکھا تو آپ ﷺ نے سبحان اللہ کہنا موقوف کردیا اور اس دیہاتی کے طرف روئے سخن نہ کیا۔ وہ عرش اس قدر وسیع و عریض ہونے کے باوجود اس طرح چرچر کرتا ہے الخ۔ کے ذریعہ آپ ﷺ نے گویا اس دیہاتی کی سمجھ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان کی تمثیل بیان کی اور اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت کا اظہار ہے کہ اتنا بڑا عرش بھی اس کے تحمل سے عاجز ہے

【36】

وہ فرشتے جو عرش الہٰی کو اٹھائے ہوئے ہیں :

اور حضرت جابر ابن عبداللہ (رض) رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مجھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت مل گئی ہے کہ میں اللہ کے ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اس فرشتہ کے کان کی لو سے اس کے کندھے تک کا درمیانی فاصلہ سات سو سال کی مسافت کے برابر ہے (ابوداؤد )

【37】

دیدار الہٰی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) :

اور حضرت زرارہ ابن اوفیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچہا کہ کیا تم نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یہ سن کر تھرتھر کانپنے لگے اور پھر بولے محمد ﷺ میرے اور اللہ کے درمیان نور کے ستر پردے ہیں اگر ان پردوں میں سے کسی پردے کے قریب ہونے کے لئے ایک انگشت برابر بھی آگے بڑھوں تو جل جاؤں مصابیح میں روایت اسی طرح ہے البتہ ابونعیم نے اپنی کتاب حلیہ میں اس روایت کو حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ حضرت زرارہ (رض) نے بھی حضرت انس (رض) سے ہی نقل کیا ہو لیکن ابونعیم کی نقل کردہ روایت میں فانتقض ( حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھر تھر کانپنے لگے) کہ الفاظ نہیں ہے۔ تشریح حضرت زرارہ ایک جلیل القدر تابعی ہیں بصرہ کے قاضی اور اپنے زمانے کے ممتاز علماء اور مشائخ میں سے تھے حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے سماع رکھتے ہیں خشیت الہٰی اور آخرت کے خوف کا یہ حال تھا کہ ایک دن فجر کی نماز میں امامت کررہے تھے جب اس آیت، فاذا نقر فی الناقور پر پہنچے تو چیخ مار کر گرپڑے اور وہیں جان جاں آفریں کے سپرد کردی، ولید ابن عبدالملک کی خلافت کے زمانے میں ٧٣ ھ کا واقعہ ہے اور ملا علی قاری نے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ حضرت زرارہ صحابی تھے اور ان کی وفات حضرت عثمان غنی (رض) کے زمانہ خلافت میں ہوئی ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھر تھر کانپنے لگے یعنی مشاہدہ ذات باری تعالیٰ سے متعلق آنحضرت ﷺ کے اس سوال نے ان پر زبردست ہیبت طاری کردی اور وہ صورت حال کے تصور ہی سے لرزہ براندام ہوگئے کہ دیدار مشاہدہ جس کمال قرب کو مستلزم ہے، اگر مجھے یہ قرب میسر آتا تو مارے ہیبت کے میرا کیا حال ہوتا ! بہرحال آنحضرت ﷺ کے اس سوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آخرت میں حق تعالیٰ کی ذات کا دیدار و مشاہدہ ایک ممکن الوقوع حقیقت ہے کیونکہ اگر یہ دیدار و مشاہدہ محال ہوتا تو آنحضرت ﷺ یہ سوال نہ کرتے، تاہم قیامت کے دن (آخرت میں) فرشتوں اور جنات کو حق تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوگا یا نہیں، یہ علماء کے درمیان ایک اختلافی بحث ہے جس کی بحث پیچھے گرز چکی ہے۔ میرے اور اللہ کے درمیان نور کے ستر پردے حائل ہیں۔ یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے دیدار الہٰی کے مرتب عظمی تک اپنی رسائی کے عجز کو ظاہر کیا اور اپنے عجز کو انہوں نے اپنے اور ذات حق جل مجدہ کے درمیان ستر پردوں سے تعبیر کیا۔ پس انہوں نے حجاب کا ذکر اپنے اعتبار سے کیا، ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ حق تعالیٰ کی ذات ستر پردوں کے پیچھے ہے کیونکہ محجوب (پردہ میں ہونا) مغلوب ہونے کی علامت ہے جو خالق کی صفت نہیں ہوسکتی، وہ ہر حالت میں غالب ہوتا ہے اور کوئی بھی چیز اس کا حجاب نہیں بن سکتی اس کے برخلاف مخلوق چونکہ عجز و نقصان کا حامل ہے اس لئے محجوب ہونا اس کی صفت ہوسکتی ! واضح رہے کہ اس جملہ میں ستر ہزار پردے کے الفاظ ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض کثرت کی طرف اشارہ کرنا مراد ہے نہ کہ کوئی خاص عدد مراد ہے۔

【38】

حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کا ذکر :

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کو جس وقت پیدا کیا، وہ اسی وقت سے اپنے دونوں پیروں کو بستہ کئے (بالکل تیار) کھڑے ہیں، نظر تک نہیں اٹھاتے ان کے اور ان کے بزرگ و برتر پروردگار کے درمیان نور کے ستر پردے (حائل) ہیں اگر اسرافیل (بفرض محال) ان نور (کے پردوں میں سے) کسی ایک نور (کے پردے) کے قریب پہنچ جائیں تو وہ جل کر رہ جائیں۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ تشریح نظر تک نہیں اٹھاتے۔ یعنی حضرت اسرافیل (علیہ السلام) اپنی پیدائش کے وقت سے اس طرح مؤدت پابستہ کھڑے ہوئے ہیں کہ ان کی نگاہ بھی ایک ہی جگہ جمی ہوئی ہے، آسمان کی طرف بھی ان کی نظر نہیں اٹھتی۔ یا یہ کہ وہ ہر لمحہ صور کی طرف متوجہ ہیں، اس لئے نگاہ نہیں ہٹاتے ! اس کا حاصل یہ ہوگا کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت ہی سے صور پھونکنے کے حکم کی بجاآوری کے لئے بالکل مستعد اور اس طرح منتظر کھڑے ہیں کہ شاید اسی لمحہ حکم آپہنچے۔

【39】

انسان کی فضیلت :

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ! جب اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کو پیدا فرمایا تو فرشتوں نے عرض کیا کہ پروردگار ! آپ نے تو ایک ایسی مخلوق کو پیدا کیا ہے جو کھاتی ہے اور پیتی ہے شادی بیاہ کرتی ہے اور (طرح طرح کی سواریوں پر) سوار ہوتی ہے، تو ہماری درخواست ہے کہ دنیا ( کی تمام نعمتیں) اس مخلوق کو دے دیجئے اور آخرت (کی تمام نعمتیں) ہمیں مرحمت فرمادیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس مخلوق کو میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی، اس کو مخلوق کے برابر قرار نہیں دے سکتا جس کو میں نے کن کہا تو وہ پیدا ہوگئی۔ (اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح فرشتوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب یہ مخلوق روئے زمین پر آپ کی خلافت کے لئے پیدا کی گئی ہے اور اس کو دنیا کی وہ تمام نعمتیں اور لذتیں عطا کی گئی ہیں جن سے ہمیں محروم رکھا گیا ہے تو ان کو بس دنیا ہی کی سرفرازی تک محدود رکھا جائے، یا یہ کہ دنیا کی ملنے والی نعمتیں ان کے حق میں ہمیشہ باقی رکھی جائیں اور آخرت کی تمام نعمتوں کو ہمارے لئے مخصوص کردیا جائے کہ جس طرح ہمیں دنیا کی نعمتوں میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا اسی طرح انسان نامی اس مخلوق کو آخرت کی نعمتوں میں سے کوئی حصہ نہ ملے تاکہ ہم دونوں برابر ہوجائیں ! گویا فرشتوں نے دونوں کو اللہ کی مخلوق ہونے کے اعتبار سے خود کو آدم (علیہ السلام) اور ابن آدم کے مرتبہ ومقام کے برابر جانا، لیکن حق تعالیٰ نے فرشتوں کے اس گمان کی تصحیح فرمائی اور واضح کیا کہ انسان کی تخلیق و پیدائش دوسری تمام مخلوقات جس میں فرشتے بھی شامل ہیں کی تخلیق و پیدائش سے یکسرمختلف نوعیت رکھتی ہے مثلا فرشتوں کی تخلیق و پیدائش تو لفظ کن کے ذریعہ عمل میں آئی کہ صرف کن (پیدا ہوجا) کہ دیا تو تم فرشتے عالم وجود میں آگے اس کے برخلاف انسان کی تخلیق و پیدائش ایک خاص نظام کے تحت ہوئی اور اس کا سلسلہ بتدریج جاری ہے کہ سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) کو بغیر کسی واسطہ اور ذریعہ کے دست قدرت نے براہ رست تخلیق کیا ان میں روح پھونکی پھر ان ہی کے اندر سے ان کا جوڑا (ہوا کو) پیدا کیا اور ان دونوں سے توالد و تناسل کا سلسلہ جاری کیا جوان کے بعد ان کی اولاد در اولاد اس وقت تک چلتا رہے کا جب تک اس دنیا کے خاتمہ کا وقت نہیں آجاتا پھر یہ کہ فرشتوں کا خمیر مجرد ہے جب کہ انسان کا خمیر مرکب ہے اس کے اندر ہدایت قبول کرنے کی بھی صلاحیت ہے اور ضلالت کو اختیار کرنے کا مادہ بھی وہ پروردگار کی صفت جلال کا مظہر بننے کی بھی استعداد رکھتا ہے اور اس کی صفت جمال کا مظہر بھی بن سکتا ہے لہٰذا جو مخلوق اپنی تخلیق و پیدائش کے اعتبار سے یہ خصوصیت رکھتی ہے وہ اس مخلوق کے برابر کسے قرار دی جاسکتی ہے جو اس جیسی خصوصیت سے عاری ہو واضح ہو کہ شرف و کر امت اور قربت میں فرشتہ انسان کا ہمسر نہیں ہوسکتا خاص طور پر شرف کرامت کے اعتبار سے تو انسان فرشتہ سے بہت اونچا ہے اور اس کا مقام و مرتبہ بہت اعلیٰ ہے اور چونکہ فرشتوں کو معصوم پیدا کیا گیا ہے اس لئے ان کو عذاب سے تو دور رکھا گیا ہے لیکن ان کو نعمتوں سے بھی محروم رکھا گیا ہے ان کے برخلاف انسان کو چونکہ نیکی کا راستہ اختیار کرنے اور برائی کے راستے سے بچنے کا مکلف وذمہ دار بنا کر پیدا کیا گیا ہے اس لئے جو انسان اپنی اس ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرتا ہے وہ دونوں جہاں کی نعمتوں کا مستحق ہوتا ہے اور جو انسان اس ذمہ داری سے اعراض کرتا ہے وہ دونوں جہاں میں عتاب و عذاب کا مستوجب ہوتا ہے آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اور اس میں روح پھونکی میں اللہ کی طرف روح کی نسبت محض روح کی عظمت و بزرگی کے اظہار کے لئے ہے جیسے بیت اللہ میں اللہ کی طرف بیت کی نسبت ہے۔

【40】

فرشتوں پر انسان کی فضیلت :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (کامل درجہ کے) مؤمن (یعنی انبیاء اور اولیاء) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے بعض فرشتوں سے افضل و برتر ہیں۔ (ابن ماجہ) تشریح بعض فرشتوں سے مراد یا تو خواص فرشتے ہیں یا سب فرشتے مراد ہیں جو عام فرشتوں میں کسی بھی طرح کی برگزیدگی اور برتری رکھتے ہیں۔ طیبی (رح) نے یہ لکھا ہے کہ مؤمن سے مراد عام مؤمن ہیں اور بعض فرشتوں سے مراد بھی عام فرشتے ہیں محی السنۃ کہتے ہیں یہ کہا جانا زیادہ بہتر ہے کہ عام مؤمن عام فرشتوں سے افضل ہیں اور خواص مؤمن، خواص فرشتوں سے افضل ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ان الذین امنو وعملوا الصلحٰت اولئِک ہم خیر البریۃ۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے وہ لوگ بہترین خلائق ہیں۔ اہل سنت والجماعت اسی سے استدلال کرکے کہتے ہیں کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے لیکن بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اجمالی طور پر صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس بات کی تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے تاکہ انسان میں سے ہر کس وناکس کا فرشتوں سے افضل ہونا مفہوم نہ ہو اور یہ بھی ظاہر ہوجائے کہ اس مسئلہ میں عوام اور خواص کا مصداق کیا ہے، چناچہ یہ تفصیل کی جانی چاہئے کہ خواص مؤمن سے مراد اللہ کہ کے تمام رسول اور نبی ہیں اسی طرح خواص فرشتوں سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ، حضرت میکائیل (علیہ السلام) اور حضرت اسرافیل (علیہ السلام) وغیرہ ہیں، نیز عام مؤمنین سے مراد کامل درجہ کے اہل ایمان ہیں جیسے خلفاء راشدین اولیاء کاملین اور تمام علماء۔ ابن ماجہ میں ایک حدیث اور مذکور ہے جو دو سندوں سے منقول ہے اور وہ حدیث یہ ہے المؤمن اعظم حرمۃ من الکعبۃ۔ مؤمن کا احترام و اکرام کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔

【41】

مخلوقات کی پیدائش کے دن :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ میرا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے کہ جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کو جو چھ دن میں پیدا کیا تو کون سی چیز کس دن پیدا ہوئی ہے ؟ سنو بعض چیزوں کے متعلق میں بتاتا ہوں اللہ تعالیٰ نے مٹی زمین کو ہفتے کے دن پیدا کیا اس زمین پر پہاڑوں کو اتوار کے دن پیدا کیا درختوں کو پیر کے دن پیدا کیا بدی اور خراب چیزوں کو منگل کے دن پیدا کیا روشنی کو بدھ کے دن پیدا کیا جانوروں کو روئے زمین پر جمعرات کے دن پھلایا اور آدم کو جمعہ کے دن عصر کے بعد پیدا کیا اور یہ آخری پیدائش دن کے بالکل آخری حصے میں عصر کے بعد سے رات تک کے درمیان میں عمل میں آئی۔ تشریح السبت یعنی ہفتے کے دن سے اس دن کا وہ بالکل آخری حصہ مراد ہے جس پر دن کا اختتام ہوجاتا ہے، جس کو عربی میں عشیۃ الاحد یعنی اتوار کی رات کا ابتدائی حصہ کہتے ہیں اس اعتبار سے وہ وقت گویا اتوار ہی کا ایک حصہ ہوتا ہے پس یہ روایت قرآن کریم کی اس آیت (وَلَ قَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ) 50 ۔ ق 38) کہ منافی نہیں ہے۔ وخلق النور یوم الاربعاء (اور روشنی کو بدھ کے دن پیدا کیا میں مسلم نے نور ہی کا لفظ نقل کیا ہے اور مشکوۃ کے صحیح نسخوں میں بھی یہ لفظ اسی طرح ر کے ساتھ) ہے مشکوۃ کے ایک نسخے میں یہ لفظ نون کے ساتھ یعنی نون ہے جس کے معنی مچھلی کے ہیں لہٰذا ہوسکتا ہے کہ نور یعنی روشنی اور نون یعنی مچھلی دونوں کو ایک ہی دن یعنی بدھ کے دن پیدا کیا گیا ہو حدیث کے آخری جزو سے معلوم ہوا کہ مخلوقات کی پیدائش کا آخری دن جمعہ تھا اس دن تمام چیزوں کی پیدائش کا سلسلہ پایہ اختتام کو پہنچا اور تمام مخلوقات اس روئے زمین پر جمع ہوگئی چناچہ اس دن کا نام جمعہ رکھے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے نیز اس دن کا وہ وقت کے جس میں آدم کی تخلیق پر مخلوقات کے سلسلہ تخلیق و پیدائش کی تکمیل ہوئی دن کا بالکل آخری حصہ تھا اس مناسبت سے اس دن کے آخری لمحوں (عصر کے بعد سے رات شروع ہونے تک) کو ساعت قبولیت کے شرف سے نوازا گیا چناچہ اکثر علماء کہتے ہیں جمعہ کے دن اس آخری حصے میں اللہ تعالیٰ دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔

【42】

زمین و آسمان کا ذکر :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے کہ ابر کا ایک ٹکڑا گذرا آپ ﷺ نے ابر کے اس ٹکڑے کی طرف اشارہ کرکے صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو یہ کیا ہے صحابہ کرام نے اپنی عادات کے مطابق جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ عنان یعنی ابر ہے اور یہ ابر زمین کے رویا ہے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی طرف ہانکتا ہے جو نہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ اس کو پکارتے ہیں۔ پھر فرمایا جانتے ہو تمہارے اوپر (جو آسمان ہے وہ) کیا چیز ہے ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہترجانتے ہیں آپ ﷺ فرمایا تمہارے اوپر کی چیز رقیع ہے جو ایک محفوظ چھت اور نہ گرنے والی موج ہے پھر فرمایا جانتے ہو تمہارے اور آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے اور آسمان کے درمیان پانچ سو برس کی مسافت کے بقدر فاصلہ ہے پھر فرمایا جانتے ہو کہ آسمان کے اوپر کیا ہے ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اس آسمان کے بعد پھر اوپر نیچے دو آسمان ہیں اور ان دونوں آسمانوں کے درمیان بھی پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے یکے بعد دیگرے ہر آسمان کا ذکر کیا، یہاں تک کہ ساتوں آسمان کے بارے میں بتایا کہ ان میں سے ہر ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ وہی ہے جو زمین سے آسمان کے درمیان ہے ( یعنی پانچ سو سال کی مسافت کے بقدر۔ اس کے بعد فرمایا اس ساتویں اور آخری آسمان کے اوپر عرش ہے اور اس عرش اور اس کے نیچے آسمان کے درمیان وہی فاصلہ ہے جو آسمانوں کے درمیان ہے۔ پھر فرمایا جانتے ہو تمہارے نیچے کیا چیز ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا سب سے اوپر کی) زمین ہے پھر فرمایا جانتے ہو اس کے نیچے کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہترجانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اس کے نیچے ایک اور زمین ہے اور ان دونوں زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت (بقدر فاصلہ) ہے اس طرح آپ ﷺ سات زمینیں گنائیں اور بتایا کہ ان میں سے ہر ایک زمین سے دوسری زمین تک کا درمیانی فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت کے بقدر ہے اور پھر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر تم سب سے نیچے والی زمین پر رسی لٹکاؤ تو اللہ تعالیٰ ہی پر اترے گی۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ( اپنے اس ارشاد کی دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھی (هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ) 57 ۔ الحدید 3) یعنی وہی (اللہ) اول وہی (قدیم) ہے (کہ اس کے لئے کوئی ابتداء نہیں ہے) اور آخر (باقی) ہے (کہ اس کے لئے کوئی انتہاء اور اختتام نہیں ہے) اور (اپنی صفات کے اعتبار سے ظاہر) ہے اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) باطن ہے اور (دونوں جہاں کی) تمام (کلی وجزئی) چیزوں کو جاننے والا ہے (کہ اس کا علم نہایت کامل واکمل ہے اور ایک ایک چیز کے ہر ہر گوشہ پر محیط ہے۔ اس روایت کو احمد اور ترمذی نے نقل کیا ہے، نیز ترمذی نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کا اپنے ارشاد کے بعد اس آیت کو پڑھنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم اس کی قدرت اور اس کی حکومت ہر جگہ ہے اور وہ بذات خود (یعنی اس کی تجلی) عرش پر ہے جیسا کہ خود اسی نے اپنی کتاب میں اپنا وصف بیان کیا ہے۔ تشریح روایا اصل میں راویہ کی جمع ہے اور راویہ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو پانی کھینچتا ہے ! پس ابر یعنی بادل کو راویہ سے اس لئے تعبیر کیا کہ جس طرح اونٹ پانی کھینچ کر زمین کو سراب کرتا ہے اسی طرح بادل بھی پانی برسا کر زمین کو سیراب کرتے ہے۔ جو نہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اس جملہ کے ذریعہ ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو بارش ہونے پر نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے جس کے حکم اور جس کی قدرت سے اس بارش کے نتیجہ میں ان کی زمینیں سیراب ہوتی ہیں، ان کی پانی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور ان کی روزی وآمدنی کے ذرائع بار آور ہوتے ہیں بلکہ وہ اس بارش کی نسبت اس کے اصل مسبب (اللہ تعالیٰ کی طرف کرنے کے بجائے ظاہری اسباب کی طرف یا اپنے فاسد خیال و گمان کے مطابق غیر حقیقی طاقتوں اور ساعت و ستاروں کی طرف کرنے لگتے ہیں، اسی طرح اور نہ اس کو پکارتے ہیں۔ کے ذریعہ بھی انہیں لوگوں کی بےحسی اور بدعقیدگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ لوگ اللہ کو پکارنے، اس کی مدد چاہنے اور اس کی عبادت کرنے کی بجائے خود تراشیدہ بتوں اور فانی وغیرحقیقی طاقتوں کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور ان کو اپنا کا رساز ومدد گار سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ پروردگار کا لامحدود کرم اور اس کی بیکراں رحمت ہے کہ وہ ان لوگوں کی ناشکری، بدعملی اور بد عقیدگی کے باوجود ان کو رزق دیتا ہے، ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور انہیں امن و عافیت بخشتا ہے۔ رقیع رکے زبر کے ساتھ فعیل کے وزن پر ہے اور یہ پہلے آسمان جس کو آسمان دنیا بھی کہتے ہیں، کا نام ہے لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ ہر آسمان کو رقیع کہتے ہیں۔ جو ایک محفوظ چھت اور نہ گرنے والی موج ہے میں آسمان کو ایک ایسی مضبوط چھت سے تشبیہ دی گئی ہے جو گرنے پڑنے سے محفوظ ہوتی ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو اس طرح قائم فرمایا ہے کہ نہ اس کے زمین پر گرپڑنے کا خدشہ ہے اور نہ اس میں کسی ٹوٹ پھوٹ کا اندیشہ۔ اسی طرح آسمان کو موج کے ساتھ بایں مناسبت تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح پانی کی کوئی موج ہوا میں معلق ہوجاتی ہے اسی طرح آسمان بھی بغیر کسی ستون اور سہارے کے خلاء میں معلق ہے۔ ان میں سے ہر ایک زمین سے دوسری زمین کا درمیانی فاصلہ۔۔۔۔ الخ۔ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تمام زمینوں میں ایک دوسری کا درمیانی فاصلہ وہی ہے، جو تمام آسمانوں میں ایک دوسرے کا درمیانی فاصلہ ہے لہٰذا جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ زمین کے تمام طبقے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان کوئی باہمی بعد اور فاصلہ نہیں ہے اور اسی وجہ سے قرآن کریم میں ارض زمین کا لفظ بصیغہ مفرد ذکر کیا جاتا ہے جب کہ سماء (آسمان) کا ذکر بصیغہ جمع ہوتا ہے، تو یہ حدیث ان کے خلاف پڑتی ہے، ویسے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قرآن کریم میں ارض کا لفظ ہر موقع پر بصیغہ مفرد ذکر کیا جاتا ہے اور اس کی نسبت سے لفظا سماء بصیغہ جمع آتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ ارض سے صرف اسی زمین کا ذکر مقصود ہو جس سے اس کائنات کی مخلوق کا اصل تعلق ہے اور جو اس کے قدموں کے نیچے ہے، باقی اور زمینوں سے کسی کو کوئی سروکار نہیں، جب کہ آسمانوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے اور ہر ہر آسمان مصدر فیوض وآثار ہے اور تمام آسمانوں سے اس دنیا کا تعلق جڑا ہوا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ہی پر اترے گی۔ سے مراد جیسا کہ ترمذی نے وضاحت بھی کی ہے، اسی رسی کا اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت اور اس کی حکومت پر اترنا ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی معلومات، اس کا دائرہ قدرت واختیار اور اس کا حکم و تسلط جس طرح آسمان کی بلندیوں اور وسعتوں کو گھیرے ہوئے ہے اسی طرح اس روئے زمین پر اور زمین کی آخری گہرائیوں تک پر اس کا علم، اس کی قدرت اور اس کا حکم و تسلط حاوی اور نافذ ہے۔ دراصل آنحضرت ﷺ نے یہ بات شبہ کے دفعیہ کے لئے فرمائی کہ شاید کوئی ناسمجھ اور کم فہم اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے سے اس وہم و گمان کا شکار ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا دائرہ علم واختیار اور اس کی قدرت صرف آسمان اور آسمانی کائنات تک محدود ہے۔ آسمان سے نیچے کی چیزیں نہ اس کے علم ومعلومات میں ہیں اور نہ اس کے حکم وقدرت کے تحت لہٰذا آپ ﷺ نے واضح کیا کہ اللہ کی قدرت کے آگے آسمانوں کی بلندیوں اور زمینوں کی پہنائیاں، سب یکساں ہے۔ اس کے قدرت اور اس کے حکم کا ظہور جس شان سے آسمان کے اوپر ہے اسی شان سے زمین کی پشت پر اور زمین کے نیچے بھی ہے اور غالباً اسی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے کہا گیا ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کا معراج ان کا مچھلی کے پیٹ میں پہنچنا تھا جس طرح آنحضرت ﷺ کو آسمان کے اوپر معراج حاصل ہوا امام ترمذی نے جو یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر رسی اترنے سے مراد یہ ہے کہ وہ رسی اللہ تعالیٰ کے علم اس کی قدرت اور اس کی حکومت پر اترے گی تو انہوں نے یہ وضاحت اس آیت کی روشنی میں کی ہے جو آنحضرت ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمانے کے بعد پڑھی چناچہ اس آیت کے الفاظ بکل شیء ٍعلیم سے تو اس کا علم مفہوم ہوا اور ہوالاول والاخر، سے اس کی قدرت کا مفہوم نکلا یعنی وہ ایسا اول ہے کہ ہر چیز اس کے ہاتھ میں ہے اور جو بھی چیز موجود ہے وہ اسی کی قدرت سے عدم کا سینہ چیر کر تختہ وجود پر آئی ہے اور وہ ایسا آخر ہے کہ سب کچھ فنا ہوجائے گی مگر اس کی ذات باقی موجود رہے گی نیز اس کی حکومت یا یوں کہئے کہ اس کا تصرف اور اس کا غلبہ والظاہر والباطن سے مفہوم ہوا یعنی وہ ایسا ظاہر ہے کہ ہر چیز اسی کے زیر غلبہ اور زیرتصرف ہے خود اس پر کوئی چیز غالب نہیں ہے تمام موجود چیزوں میں جس طرح چاہتا ہے مالکانہ اور حاکمانہ تصرف کرتا ہے کیونکہ اس مافوق کوئی چیز نہیں ہے تصرف و تسلط میں رکاوٹ ڈالے اور وہ ایسا باطن ہے کہ خلقت کی آنکھوں اور خیال و وہم سے پوشیدہ ہونے کے باوجود ملجا وماوا اس کے علاوہ کوئی نہیں ہر چیز کے اندونی حال سے وہ باخبر ہے کسی کا کوئی راز و بھید اس سے چھپا ہوا نہیں ہے جیسا کہ خود اسی نے اپنی کتاب میں اپنا وصف بیان کیا۔ کے ذریعہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ (هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ) 20 ۔ طہ 5) وہ بڑی رحمت والا پروردگار عرش پر قائم ہے اور یہ آیت اگرچہ بظاہر یہ وہم پیدا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی خاص جہت اور کسی خاص جگہ پر متمکن ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد ہے اس کی سلطنت و حکومت اور اس کے علم وقدرت کے ظاہر کا ذکر ہے۔

【43】

حضرت آدم (علیہ السلام) کا قد :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حضرت آدم (علیہ السلام) کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا اور سات چوڑا تھا تشریح ذراع اصل میں بانہہ کو کہتے ہیں یعنی کہنی کے سرے سے لے کر بیچ کی انگلی کے سرے تک کا حصہ اور شرعی گز کا اطلاق بھی اسی پر ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے قد کو جو ساٹھ ہاتھ لمبا فرمایا گیا ہے تو کس کا ہاتھ مراد ہے، آیا خود حضرت آدم (علیہ السلام) کا ہاتھ یا موجودہ لوگوں کے ہاتھ ؟ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا ہاتھ مراد نہیں ہے، بلکہ موجودہ لوگوں کا ہاتھ مراد ہے، کہ ان کا ہاتھ اس وقت کے لوگوں کے اعتبار سے ساٹھ ہاتھ لمبا تھا، کیونکر اگر حضرت آدم (علیہ السلام) کا ہاتھ مراد لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کا ہاتھ، ان کے قد کے صرف ساٹھویں حصہ کے برابر تھا جوان کے قد کے لمبائی اور تناسب اعضاء کے اعتبار سے بالکل بےجوڑمعلوم ہوتا ہوگا اور یہ ممکن ہے۔

【44】

انبیاء (علیہ السلام) کی تعداد :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ سب سے پہلے نبی کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا حضرت آدم (علیہ السلام) میں نے پھر پوچھا کیا حضرت آدم (علیہ السلام) نبی تھے ؟ فرمایا ہاں وہ نبی تھے، انہوں رب العالمین سے شرف تکلم وتخاطب حاصل ہوا ہے، اس کے بعد میں نے پوچھا یا رسول ﷺ انبیاء میں رسول کتنے ہوئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کافی بڑی تعداد میں تین سو دس سے کچھ زیادہ ہی ہوں گے اور ایک روایت میں حضرت ابوامامہ تابعی سے منقول ہے یہ الفاظ ہیں حضرت ابوزر نے کہا میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء کی کل تعداد خواہ وہ رسول ہوں یا غیر رسول تعداد کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار ان میں رسول تین سو پندرہ ہوئے ہیں جو کافی بڑی تعداد ہے ، تشریح انہیں اللہ رب العالمین سے شرف وتکلم وتخاطب حاصل ہوا ہے، کا مطلب یہ ہے حضرت آدم (علیہ السلام) جس طرح دنیائے انسانی کے باپ اور اپنی نسل کی دنیوی سعادت و فلاح کے لئے رہنما وہادی تھے، اسی طرح اخروی سعادت و فلاح کے پیغامبر بھی تھے ان کا نبی ہونا شک وشبہ سے بالا تر ہے اور چونکہ وہ پہلے انسان ہیں اس لئے نسل انسانی کے لئے اللہ کی وحی کا ذریعہ جو پیغامات بھی انہوں نے سنائے وہی ان کے صحیفے اور وہی ان کی شریعت سمجھی جائے گی اس اعتبار سے وہ صرف نبی ہی تھے بلکہ رسول بھی تھے ان پر صحیفے بھی اترے اور ان کو شریعت بھی عطاء کی گی ،۔ رسول اور نبی میں فرق یہ ہے کہ رسول تو اس پیغمبر کو کہتے ہیں جس کو نئی شریعت و کتاب دی گئی ہو اور مخلوق اللہ تک اس شریعت و کتاب کو پہنچانے کا ذمہ دار بنایا گیا ہو اور نبی ہر پیغمبر کو کہتے ہیں چاہے اس کو نئی شریعت اور کتاب دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو، بلکہ وہ پہلی شریعت اور کتاب کا تابع ہو اور خواہ وہ تبلیغ کا ذمہ دار بنایا گیا ہو یا نہ بنایا گیا ہو،۔ کل انبیاء کی تعداد کے بارے میں اس حدیث میں ایک لاکھ چوبیس ہزار کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں دو لاکھ چوبیس ہزار بیان کی گی ہے ظاہر ہے دونوں عدد میں زبردست تضاد ہے اس لئے علماء نے لکھا ہے کہ اس بارے میں زیادہ تحقیق و جستجو نہ کرنی چاہی اور نہ کوئی خاص عددمتعین کرنا چاہے بلکہ یہ عقیدہ رکھنا چاہے کہ انبیاء کی ٹھیک تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور اجمالی طور پر اس طرح ایمان لانا چاہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول اور نبی بھیجے ہم ان سب کو برحق رسول اور نبی مانتے ہیں۔ اس عقیدہ اور اجمالی ایمان سے نہ کوئی نبی انبیاء کے زمرہ سے باہر رہے گا اور نہ کوئی غیر نبی ان کے زمروں میں شامل ہوگا۔

【45】

شنیدہ کے بود دیدہ :

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی چیز کے بارے میں سننا، اس کو آنکھ سے دیکھنے کے برابر نہیں ہوسکتا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے اس عمل کے بارے میں خبر دی جو انہوں نے گوسالہ پرستی کی صورت میں کیا تھا تو انہوں نے (مارے غصہ کے) تختیوں کو نہیں پھینکا لیکن جب وہ اپنی قوم میں واپس آئے اور اپنی آنکھوں سے قوم کے اس عمل کو دیکھا تو (اس درجہ غضبناک ہوگئے کہ) تختیوں کو پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئیں۔ ان تینوں حدیثوں کو احمدنے نقل کیا ہے۔ تشریح کسی چیز کے بارے میں سننا، اس کو آنکھ سے دیکھنے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے ایک اہم نفسیاتی نکتہ کی طرف ارشاد فرمایا ہے، انسان کا خاصہ ہے کہ وہ آنکھ سے دیکھی ہوئی چیز سے جتنا زیادہ اور جتنی جلدی متاثر ہوتا ہے اتنا زیادہ اور اتنی جلدی سنی ہوئی چیز سے متاثر نہیں ہوتا، اگر اس کو یہ خبر و اطلاع دی جائے کہ تمہارا فلاں عزیز سخت بیمار ہے تو اس کا پریشان اور متفکر ہوجانا فطری امر ہے لیکن اس خبر و اطلاع کے مقابلہ میں، خواہ وہ کتنی ہی یقینی کیوں نہ ہو، اس کے دل و دماغ پر وہ فکر اور پریشانی کہیں زیادہ سخت اور سریع الاثر ہوتی ہے جو اس بیمار عزیز کو آنکھوں سے دیکھ لینے کی صورت میں لاحق ہوتی ہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے اسی نکتہ کو ثابت کرنے کے لے یہ واقع بطور مثال پیش فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چلہ کشی) کے لئے جبل طور پر تشریف لے گئے اور وہاں اپنے پروردگار سے راز ونیاز میں مصروف اور اپنی قوم بنی اسرائیل کے لئے آئین الہٰی (تورات) حاصل کرنے میں مشغول تھے تو نیچے وادی سینا میں ان کی قوم نے ایک بد باطن شخص سامری کی قیادت میں گوسالہ کی پوجا شروع کردی، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس واقعہ سے مطلع کیا اور فرمایا کہ موسیٰ ! تو جس قوم کی ہدایت کے لئے اس قدر کوشاں اور مضطرب ہو اور یہاں (کوہ طور پر) اس کے لئے میری طرف سے کتاب و ہدایت (تورات) حاصل کررہے ہو، وہ تمہارے پیچھے گوسالہ پرستی کی گمراہی میں مبتلا ہوگئی ہے، یہ سن کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو رنج ہوا اور غصہ بھی آیا مگر جب وہ قوم کی طرف واپس آئے اور قوم کے لوگوں کو گوسالہ کی سمادھ لگائے اور اس کی پوجا کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو وہ کہیں زیادہ غضب ناک ہوگئے اور اس غیظ وغضب کی بنا پر انہوں نے ان تختیوں کو جن پر تورات لکھی ہوئی تھی زمین پر پھینک دیا جس سے وہ تختیاں ٹوٹ بھی گئیں۔ ان تختیوں کو پھینک کر گویا انہوں نے یہ واضح کیا کہ یہ آئین الہٰی اہل ایمان ہی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، جن لوگوں نے ایمان و عقیدہ کی راہ ترک کر کے کفر اور سرکشی کو اختیار کرلیا ہے ان کے لئے آئین الہٰی پر مشتمل ان تختیوں کو باقی رکھنے کا اب کیا فائدہ رہ گیا۔ تاہم ان تختیوں کے ٹوٹ جانے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ان میں جو کچھ تھا وہ جاتا رہا، ان تختیوں میں جو احکام و فرمان تھے وہ سب کے سب جوں کے توں موجود تھے اور اصل تورات اپنی جگہ باقی تھی۔