177. سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان

【1】

سیدالمرسلین ﷺ کے فضائل ومناقب کا بیان :

آنحضرت ﷺ کے فضائل ومناقب اور آپ ﷺ کی ذات ستودہ صفات کے اوصاف حمیدہ اور فضائل کبری کا کوئی شمار نہیں، کسی زبان وقلم کو تاب نہیں کہ آپ ﷺ کے تمام فضائل اور اوصاف کا احاطہ کرسکے، تاہم مؤلف مشکوٰۃ نے ان میں سے کچھ فضائل کے متعلق احادیث و روایات کو اس باب کے تحت جمع کیا ہے۔ اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ تمام اولاد آدم کے سردار ہیں، انبیاء میں سب سے افضل و اشرف آپ ﷺ ہی ہیں، آپ ﷺ کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) افضل ہیں، پھر حضرت موسیٰ کلیم اللہ (علیہ السلام) ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کس کا درجہ ہے اس بارے میں صراحت کے ساتھ علماء سے منقول نہیں ہے، ویسے بعض علماء نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور ان کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کو افضل و اشرف کہا ہے اور لکھا ہے کہ انبیاء (علیہ السلام) کی طویل فہرست میں یہ پانچ نبی اولو العزم سمجھے جاتے ہیں اور راہ حق میں ان کے صبر و استقامت اور عزیمیت کا درجہ بےمثال ہے۔

【2】

آنحضرت کا خاندانی ونسبی فضل وشرف :

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھ کو یکے بعد دیگرے ہر قرن کے بنی آدم کے بہترین طبقوں میں منتقل کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ میں اس موجودہ قرن میں پیدا کیا گیا۔ (بخاری) تشریح بہترین طبقوں سے مختلف زمینوں کا ہر وہ طبقہ مراد ہے جس میں آنحضرت ﷺ کے آباء و اجداد تھے اور جو اپنے اپنے عہد میں اپنی خاندانی نجابت و شرافت اور انسانی فضل و کمال کے اعتبار سے ممتاز و نمایاں اور قابل تکریم و احترام رہا ہے جیسے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی اولاد، ان کے بعد کے عہد میں کنانہ اور ان کی اولاد، ان کے بعد کے عہد میں ہاشم اور ان کی اولاد۔ پس اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہوا کہ میرا سلسلہ نسب شروع سے لے کر اب تک نسل انسانی کے نہایت مفتخر ومعزز افراد پر مشتمل ہے میرے آباء و اجداد کہ جن کی پشت در پشت منتقل ہوتا ہوا میں اس زمانہ میں پیدا ہوا ہوں اپنے اپنے عہد و زمانہ کے وہ ممتاز و نمایاں افراد تھے جن کی ذات خاندانی نجابت و شرافت، سماجی عزت و شوکت، مجلسی تہذیت ومتانت، قومی و وطنی مقبولیت ومرجعیت، ذاتی برگزیدگی وافضلیت اور انسانی خصائل و فضائل کا منبع رہی ہے۔

【3】

آنحضرت ﷺ کی برگزیدگی۔

اور حضرت واثلہ ابن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں کنانہ کو چنا اور اولاد کنانہ سے قریش کو چنا اور اولاد قریش میں سے بنی ہاشم کو چنا اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو چنا (مسلم) اور ترمذی کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم (علیہ السلام) میں اسماعیل (علیہ السلام) کو برگزیدہ کیا اور اولاد اسماعیل میں، بنی کنانہ کو برگزیدہ کیا۔ تشریح آنحضرت ﷺ کا نسلی ونسبی تعلق حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے ہے، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بیٹے قیدار کی اولاد میں ایک شخص عدنان تھے، انہی عدنان کی اولاد بن اسماعیل کے تمام مشہور قبائل پر مشتمل ہے، اسی لئے عرب مستعربہ بنی اسماعیل کو عدنانی یا آل عدنان کہا جاتا ہے عدنان کے بیٹے معد اور معد کے بیٹے نزار تھے، نزار کے جو چار مشہور بیٹے بتائے جاتے ہیں ان میں سے دو بیٹے ربیعہ اور مضر سب سے زیادہ نامور اور جزیرہ نما عرب کے بڑے قبائل کے مورث ہیں، مضر کی اولاد میں آگے چل کر ایک شخص کنانہ ہوئے اور ان کی اولاد مضر کے قبائل میں سب سے زیادہ مشہور و معروف قبیلہ پر مشتمل ہوئی، کنانہ کے بیٹے نضر اور نضر کے بیٹے مالک اور مالک کے بیٹے فہر تھے، یہی وہ فہر ہیں جن کا لقب قریش تھا، فہر کی اولاد میں بہت سے قبائل ہوئے اور سب قریش کہلاتے ہیں یہ تمام قبائل مختلف علاقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان نہ باہمی ربط و اتفاق تھا اور نہ کوئی اجتماعی نظام تھا۔ پھر ایک شخص قصی بن کلاب پیدا ہوئے، انہوں نے بڑی محنت اور جدوجہد کرکے تمام قریش کو منظم کیا، ان میں اجتماعیت اور بیداری کی روح پھونکی جس کی بدولت قریش نے نہ صرف مکہ معظمہ بلکہ تمام حجاز پر غلبہ و اقتدار حاصل کرلیا۔ اسی وجہ سے بعض حضرات یہ کہتے ہیں قریش اصل میں قصی بن کلاب کا لقب ہے، کیونکہ یہ لفظ (قریش) قرش سے نکلا ہے جس کے معنی جمع کرنے اور منظم کرنے کے ہیں۔ ویسے زیادہ مشہور یہ ہے کہ قریش ایک سمندری جانور کا نام ہے جو نہایت قوت اور زور رکھتا ہے، اس کی تائید حضرت ابن عباس کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ قریش کا نام اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ قریش (قرش) ایک بڑی خطرناک مچھلی کا نام ہے جو سب مچھلیوں کو نگل لیتی ہے لیکن خود اس کو نہ کوئی مچھلی گزند پہنچاتی ہے نہ اس پر قابوپاتی ہے۔ یہی وجہ تسمیہ قاموس میں بھی مذکور ہے۔ ظہور اسلام کے وقت قریش کی شاخوں میں سے جو شاخ سب سے زیادہ مشہور باعزت اور غالب تھی وہ بنوہاشم ہے، آنحضرت ﷺ بنو ہاشم میں پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے محمد ﷺ بن عبداللہ ابن عبد المطلب ابن ہاشم ابن عبدمناف ابن قصی ابن کلاب ابن مرۃ ابن کعب ابن لوی ابن غالب ابن فہر ابن مالک ابن نضر ابن کنانہ ابن خزیمہ ابن مدرک ابن الیاس ابن مضر ابن نزار ابن معد ابن عدنان۔ عدنان سے پہلے کا نسب نامہ زیادہ وثوق کے ساتھ نہیں بتایا جاسکتا۔ اس کی تفصیل کی روشنی میں حدیث کا مفہوم واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو سب سے زیادہ برگزیدگی و عظمت آنحضرت ﷺ کو حاصل ہوئی، پس آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اپنے سلسلہ نسب کی تمام تر برگزیدگیوں اور عظمتوں کانچوڑ ہے۔

【4】

قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کی سرداری :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے قبر سے میں ہی اٹھوں گا نیز سب سے پہلے میں ہی شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول ہوگی۔ (مسلم ) تشریح مطلب یہ کہ قیامت کے دن تمام انسانی کمالات وصفات اور تمام تر عظمتوں اور ان کا مظہر آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی ہوگی، اس دن مخلوقات میں سے نہ کسی کا درجہ آپ ﷺ سے بڑا ہوگا اور نہ آپ ﷺ کے علاوہ کوئی اور ذات سرداری وسربراہی کی سزا وار قرار پائے گی۔ واضح رہے کہ محمد عربی ﷺ دنیا و آخرت دونوں جہاں میں تمام لوگوں کے سردار وآقا ہیں، لیکن قیامت کے دن کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ اس دن آنحضرت ﷺ کی سرداری اور برتری کا ظہور کسی بھی شخص کے اختلاف وعناد کے اظہار کے بغیر ہوگا، جب کہ اس دنیا میں کفر شرک اور نفاق کی طاقتیں نہ صرف حیات مبارک میں آپ ﷺ کی سرداری و برتری کی مخالف ومعاند رہیں بلکہ بعد میں بھی ان کا اختلاف وعناد ظاہر رہا۔ اس حدیث کے بین السطور سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ فرشتوں پر بھی فضیلت و برتری رکھتے ہیں اور آپ ﷺ کی ذات افضل المخلوقات کو اکمل الموجودات ہے چناچہ بعض حدیثوں میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ تم لوگ پیغمبروں کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو اور نہ مجھ کو موسیٰ (علیہ السلام) اور یونس (علیہ السلام) سے افضل کہو، تو اس کی مخالف کی توجیہہ پیچھے گذر چکی ہے۔

【5】

امت محمدیہ کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن پیغمبروں میں سے جس پیغمبر کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی وہ میں ہوں گا اور جنت کا دروازہ سب سے پہلے جو شخص کھٹکھٹائے گا (یعنی کھلوائے گا) وہ بھی میں ہی ہوں گا (مسلم) تشریح قیامت کے دن امت محمدیہ کی تعداد کی کثرت کے بارے میں پہلے ایک حدیث گذر چکی ہے کہ آپ ﷺ کی امت تمام اہل جنت کی مجموعی تعداد کا دو تہائی حصہ ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کی اتباع اور پیروی کرنے والوں کی کثرت، اس شخص کی فضیلت و برتری کا باعث بنتی ہے، اس لئے کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ کا مرتبہ زیادہ ہے کیونکہ ائمہ فقہ میں سے ان ہی کا مسلک زیادہ رائج ہے اور مسلمانوں کی اکثریت اسلام کے فروعی احکام میں ان ہی کی پیروکار ہے، اسی طرح قاریوں میں امام عاصم کا مرتبہ بلند تر ہے کیونکہ فن تجویدوقرأت میں ان کے پیروکار زیادہ ہیں۔

【6】

جنت کا دروازہ سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کے لئے کھولا جائے گا :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب قیامت کے دن میں جنت کے دروازے پر آؤں گا اور اس کو کھلواؤں گا تو جنت کا نگہبان پوچھے گا کہ تم کون ہو ؟ میں کہوں گا کہ میں محمد ﷺ ہوں۔ تب نگہبان کہے گا مجھ کو حکم دیا گیا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لئے دروازہ نہ کھولوں۔ (مسلم )

【7】

سب سے پہلے آپ ﷺ شفاعت کریں گے :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں سب سے پہلے سفارش کرنے والا میں ہوں گا (یعنی اپنی امت کو) جنت میں داخل کرنے کی یا اہل جنت کی مراتب درجات کی ترقی کی سفارش سب سے پہلے میں کروں گا) انبیاء میں سے جتنی تصدیق میری کی گئی ہے اتنی کسی کی نہیں کی گئی ہے (یعنی میری نبوت و رسالت کی تصدیق کرنے والوں اور مجھ پر ایمان لانے اور رکھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اس طرح تمام امتوں کے مقابلہ میں میری امت سب سے بڑی ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ انبیاء میں سے ایک نبی ایسے بھی گذرے ہیں جن کی تصدیق صرف ایک مرد نے کی ہے۔ (مسلم)

【8】

آنحضرت ﷺ خاتم النبیّیں ہیں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری اور دوسرے تمام انبیاء کی مثال اس محل کی سی ہے جس کے درودیوار نہایت شاندار اور عمدہ ہوں، لیکن اس دیوار میں اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی ہو اور جب لوگ اس محل کے گرد پھر کر عمارت کو دیکھیں تو عمارت کی شان و شوکت اور درودیوار کی خوشنمائی انہیں حیرت میں ڈال مگر ایک اینٹ کے بقدر اس خالی جگہ کو دیکھ کر انہیں سخت تعجب ہو پس میں اس اینٹ کی جگہ بھرنے والا ہوں، اس عمارت کی تکمیل میری ذات سے ہے اور انبیاء ورسل کے سلسلہ کا اختتام مجھ پر ہوگیا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ پس میں ہی وہ اینٹ ہوں (جس کی جگہ خالی رکھی گئی تھی) اور میں ہی نبیوں کے سلسلہ کو پایہ اختتام تک پہنچانے والا ہوں۔ تشریح یہ حدیث آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی واضح دلیل ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے دنیا میں اپنے رسول اور نبی بھیجنے کا جو سلسلہ انسان اول حضرت آدم (علیہ السلام) سے شروع کیا تھا وہ محمد عربی ﷺ پر آ کر ختم ہوگیا آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی اور رسول اس دنیا میں آیا ہے اور نہ آئندہ کبھی آئے گا۔ اسی حقیقت کو آنحضرت ﷺ نے بڑے نفسیاتی طریقہ سے ایک مثال کے ذریعہ فرمایا کہ مجھ سے پہلے دنیا میں جتنے اور رسول آئے وہ اللہ کی طرف سے جو شریعت، آئین ہدایت، علم ودین اور پیغام و احکام لائے ان کا مجموعہ کو ایک ایسا محل تصور کرو جو نہایت شاندار، مضبوط و پختہ اور دیدہ زیب ہو، لیکن اس کی دیوار میں ایک اینٹ کے برابر جگہ خالی چھوڑ دی گئی ہو اور وہ خالی جگہ کسی ایسے شخص کی منتظر ہو جو آکر اس کو پر کردے اور اس خالی جگہ کے نقص کو پورا کرکے محل کی تعمیر کا سلسلہ ختم کردے۔ پس آنحضرت ﷺ نے پہلے آنے والے انبیاء کی بعثت، ان کی لائی ہوئی شریعت و ہدایت اور ان کے تبلیغ و ارشاد کے ذریعہ دین کا محل گویا تیار ہوچکا تھا، لیکن کچھ کسر باقی رہ گئی تھی، وہ کسر ہمارے حضرت محمد ﷺ کی بعثت مبارکہ سے پوری ہوگئی، اب نہ اللہ کا دین ناقص ہے، نہ شریعت حقہ غیر مکمل ہے اور نہ کسی نبی کے آنے کی ضرورت باقی رہ گئی ہے۔

【9】

سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے ہر ایک نبی کو معجزات میں صرف اتنا دیا گیا جس پر انسان ایمان لاسکے اور جو معجزہ مجھ کو ملاوہ اللہ کی وحی ہے جو اس نے میری طرف بھیجی (اور جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے) اس کی بناء پر مجھے یقین ہے کہ قیامت کے دن میرے ماننے والوں کی تعداد تمام انبیاء کے ماننے والوں سے زیادہ ہوگی۔ (بخاری ومسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام چونکہ مخلوق کے سامنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسالت ونبوت کا دعوی کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو کچھ ایسے معجزے عطا فرماتا ہے جس کو وہ اپنے دعوے کی دلیل وبرہان کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں، چناچہ جتنے بھی نبی اور رسول اس زمین پر آئے ان کو کسی نہ کسی نوعیت کا ایسا معجزہ دیا گیا جس کو دیکھ کر عقل سلیم رکھنے والا انسان اس نبی کی تصدیق کرسکے اور اس پر ایمان لاسکے لیکن آنحضرت ﷺ سے پہلے جس نبی کو جو بھی معجزہ دیا گیا وہ اس نبی کے زمانہ اور اس کی حیات تک مخصوص اور باقی رہا، اس نبی کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ اس کا معجزہ بھی ختم ہوگیا، مثلا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں سحر اور جادو کا زبردست چرچا تھا، بڑے بڑے جادوگر اپنے فن کا کمال دکھایا کرتے تھے اور لوگ ان کے فن کے کمال سے متاثر ہوتے تھے، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یدبیضا اور عصا کا معجزہ دیا گیا ان کے دونوں معجزوں نے تمام چھوٹے بڑے جادوگروں کا چراغ گل کردیا اور نہ صرف عام لوگوں کو بلکہ خود ان جادوگروں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عظمت کا اعتراف کرنا پڑا، اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں طب و حکمت کا بڑا زور تھا اس وقت ایسے ایسے قابل اور ماہر فن طبیب اور حلیم موجود تھے جو پیچیدہ سے پیچیدہ دکھ اور بیماری کو جڑ سے اکھیڑ دیا کرتے تھے، چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ معجزہ عطا ہوا کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتے تھے، کوڑھی کو تندرست اور اندھے کو بینابنا دیتے تھے، اس طرح ان کا یہ معجزہ اپنے زمانہ کے نہایت ترقی یافتہ طب و حکمت پر غالب رہا، لیکن نہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ان کے بعد باقی رہا اور نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کو دائمی حیثیت حاصل ہوئی۔ تمام انبیاء کے برخلاف آنحضرت ﷺ کو قرآن کریم کی صورت میں جو سب سے بڑا معجزہ عطا ہوا اس کو دائمی حیثیت حاصل ہوئی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں فصاحت و بلا غت کا زور تھا، عرب فصحاء کا دعوی تھا کہ ان کی فصاحت و بلاغت کے سامنے دنیا کے تمام لوگ گونگے ہیں چناچہ آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم نازل کیا گیا جس کی فصاحت و بلاغت نے عرب کے بڑے سے بڑے فصیح وبلیغ کی فصاحت و بلاغت کو مانند کردیا، اپنی زبان دانی اور معجز بیانی کا بلند بانگ دعوی کرنے والے مغلوب ہوگئے، تمام فصیح مل کر بھی قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت جیسا کلام بھی پیش نہ کرسکے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس عظیم معجزہ کو قیامت تک کے لئے باقی رکھا جو ہر زمانے اور ہر طبقہ میں سید العٰلمین ﷺ کی نبوت و رسالت کی صداقت پر پوری حقانیت اور یقین کے ساتھ گواہی پیش کرتا رہا ہے اور پیش کرتا رہے گا۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ مجھے عطا کیا جانے والا یہ عظیم معجزہ چونکہ قیامت تک باقی رہے گا اور لوگ برابر اس پر لاتے رہیں گے اس لئے قیامت کے دن اکثریت ان اہل ایمان کی ہوگی جو میری نبوت و رسالت پر عقیدہ رکھنے والے اور میرے اس معجزہ قرآن کریم کو ماننے والے ہونگے۔

【10】

آنحضرت ﷺ کے خصائص :

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی و رسول کو عطا نہیں ہوئیں، ایک تو مجھ کو اس رعب کے ذریعہ نصرت عطا ہوئی ہے جو ایک مہینے کی مسافت کی دوری پر اثر انداز ہوتا ہے دوسرے ساری زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی قرار دیا گیا، چناچہ میری امت کا ہر (وہ) شخص (جس پر نماز واجب ہو) جہاں نماز کا وقت پائے (اگر پانی نہ ہو تو تیمم کرکے) نماز پڑھ لے، تیسرے میرے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا، جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں تھا چوتھے مجھ کو شفاعت عظمی عامہ کے مرتبہ فرمایا گیا اور پانچویں مجھ سے پہلے ہر نبی کو خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جب کہ مجھ کو روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ( بخاری ومسلم) تشریح مجھ کو اس رعب کے ذریعہ نصرت عطا ہوئی ہے۔۔۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اور اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ پر مجھے اس خصوصیت کے ساتھ فتح ونصرت عطا فرماتا ہے کہ ان کے دلوں میں میرا رعب اور خوف پیدا ہوجاتا ہے اور وہ مجھ سے ایک مہینہ کی مسافت کی دوری پر بھی ہوتے ہیں تو میرے نام ہی سے ان کی ہمت پست ہوجاتی ہے اور مارے رعب و دہشت کے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ، ساری زمین کو میرے لئے مسجد۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے پہلے کے رسولوں اور نبیوں کی شریعت میں ہر جگہ نماز پڑھنا اور عبادت کرنا درست نہیں تھا ان کی نمازوعبادت کے لئے جو جگہ عبادت خانہ کے طور پر متعین اور مخصوص ہوتی تھی بس وہیں نماز و عبادت ہوسکتی تھی لیکن مجھے یہ خصوصیت عطاء ہوئی کہ میں اور میری امت کے لوگ بیت الخلاء وغسل خانہ اور مقبرہ کے علاوہ پوری روئے زمین پر جس جگہ اور جہاں چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں الاّ یہ کہ کسی جگہ کی ناپاکی کا علم یقین کے ساتھ ہوجائے تو اس جگہ نماز پڑھنا جائز نہیں اسی طرح گذشتہ امتوں میں پانی کے بغیر پاکی حاصل نہیں ہوتی تھی لیکن ہمارے لئے یہ جائز قرار دیا گیا ہے کہ اگر کہیں پانی دستیاب نہ ہو یا پانی کے استعمال میں کوئی شرعی عذر حائل ہو تو پاک مٹی کے ذریعہ تیمم کرکے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے میرے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا کی وضاحت یہ ہے کہ مال غنیمت کے بارے میں گذشتہ امتوں میں جو یہ معمول تھا کہ حاصل ہونے والا مال غنیمت اگر جانوروں کے علاوہ کسی اور جنس کا ہوتا تو اس کو جمع کرکے ایک جگہ رکھ دیا جاتا اور پھر آسمان سے ایک آگ اترتی اور وہاں جمع شدہ تمام مال و اسباب کو جلا کر واپس چلی جاتی اور اگر مال غنیمت مویشوں اور جانوروں کی صورت میں ہوتا تو اس کے حقدار صرف وہی لوگ ہوتے تھے جو اس کو دشمنوں سے چھنتے اور اس پر قبضہ کرتے تھے نبی اور رسول کو اس میں سے کچھ نہ ملتا لیکن ہمارے حضرت محمد ﷺ کے لئے نہ صرف یہ کہ خمس یعنی مال غنیمت کا پانچوں حصہ بلکہ صفی بھی لینا جائز کیا گیا ہے صفی اس چیز کو کہتے ہیں جو مال غنیمت میں سب سے اچھی ہو چناچہ مال غنیمت میں جو چیز سب سے اچھی معلوم ہوتی تھی جیسے تلوار وغیرہ اس کو آنحضرت ﷺ اپنے لئے مخصوص فرمالیتے تھے مجھے کو شفاعت عظمی عامہ کے مرتبے سے سرفراز فرمایا گیا قیامت کے دن یہ مرتبہ خاص صرف آنحضرت ﷺ کو حاصل ہوگا اور شفاعت کے جتنے بھی مواقع اور مقام ہوں گے وہ سب آنحضرت ﷺ کے اسی مرتبہ کے تحت ہوں گے اس بارے میں تفصیلی بحث باب شفاعتہ میں گذر چکی ہے مجھ کو روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا کہ بارے میں یہ ذہن نشین رہے کہ آنحضرت ﷺ کی رسالت صرف انسانوں کی تک محدود نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ کی بعثت جنات کی طرف بھی ہوئی ہے اپنی رسالت کے ذریعہ جس طرح آپ ﷺ روئے زمین کے تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام ہدایت پہنچایا اسی طرح جنات کی بھی ہدایت فرمائی اسی لئے آپ ﷺ کو رسول الثقلین کہا جاتا ہے ہوسکتا ہے کہ جس وقت آپ ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی اس وقت تک جنات کی طرف آپ ﷺ کی بعثت نہ ہوئی ہو بعد میں ہوئی ہو اور اسی وجہ سے اس حدیث میں جنات کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے چھ چیزوں کے ذریعہ دوسرے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے، (١) مجھے جامع کلمات عطاء ہوئے (٢) دشمنوں کے دل میں میرا رعب ڈالنے کے ذریعہ مجھے فتح ونصرت عطا فرمائی گئی (٣) مال غنیمت میرے لئے حلال ہوا (٤) ساری زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی قرار دیا گیا، (٥) ساری مخلوق کے لئے مجھے نبی بنا کر بھیجا گیا (٦) اور نبوت و رسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا۔ (مسلم) تشریح مجھے جامع کلمات عطا ہوئے۔ کا مطلب یہ ہے کہ دین کی حکمتیں اور احکام، ہدایت کی باتیں اور مذہبی و دنیاوی امور سے متعلق دوسری چیزوں کو بیان کرنے کا ایسا مخصوص اسلوب مجھے عطا فرمایا گیا جو نہ پہلے کسی نبی اور رسول کو عطا ہوا اور نہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے فصیح وبلیغ کو نصیب ہوا ! اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ تھوڑے سے الفاظ کے ایک چھوٹے سے جملہ میں معانی و مفہوم کا ایک گنجینہ پہناں ہوتا ہے، پڑھئے اور لکھئے تو چھوٹی سی سطر بھی پوری نہ ہو، لیکن اس کا فہم اور وضاحت بیان کیجئے تو کتاب کی کتاب تیار ہوجائے، چناچہ آنحضرت ﷺ کے اقوال و ارشادات میں اس طرح کے کلمات کی ایک بڑی تعداد ہے جن کو جوامع الکلم سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان میں سے چند کلمات کو بطور مثال یہاں نقل کیا جاتا ہے ١ انماالاعمال بالنیات۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔ ٢ ومن حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ۔ بےفائدہ بات کو ترک کردینا آدمی کے اسلام کا حسن ہے۔ ٣ الدین النصیحۃ۔ دین خیر خواہی کا نام ہے ٤ العدۃ دین وعدہ۔ وعدہ، بمنزلہ دین کے ہے۔ ٥ المستشارموتمن جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانتدار ہے۔ بعض علماء نے بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے کام لے کر احادیث کے ذخائر میں سے اس طرح کی حدیثوں کو، جو جوامع الکلم میں سے ہیں چنا ہے (اور انکا مجموعہ تیار کیا ہے ! بعض شارحین نے یہ لکھا ہے کہ مجھے جوامع الکلم یعنی جامع کلمات عطا ہوئے ہیں۔ میں جوامع الکلم سے قرآن کریم مراد ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے کلام کا یہ اعجاز نمایاں ہے کہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑے بڑے مضمون پنہاں ہیں، لیکن پہلی وضاحت ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اسی مضمون کی ایک دوسری روایت میں اختصہ لی الکلام کے الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں اس سے اسی قول کی تائید ہوتی ہے کہ یہاں جوامع الکلم سے آنحضرت ﷺ کے ارشاد اقوال مراد ہیں اور نبوت و رسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا، رسالت تمام ہوئی اب میرے بعد کوئی اور نبی و رسول نہیں آئے گا کیونکہ اللہ کا دین مکمل ہوگیا ہے قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اترنا بھی اسی دین کو مضبوط بنانے اور زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے لئے ہوگا۔

【11】

آنحضرت ﷺ کے لئے خزانوں کی کنجیاں :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے جامع کلمات کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے، رعب کے ذریعہ مجھ کو نصرت عطا فرمائی گئی ہے اور ( ایک دن) جب کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دینے کے لئے لائی گئیں اور میرے سامنے پیش کردی گئیں۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ مجھے بشارت عطاء فرمائی کہ بڑے بڑے علاقوں اور شہروں کا فتح ہونا اور ان کے خزانوں اور مال و اسباب کا حاصل ہونا میرے لئے اور میری امت کے لئے آسان کردیا گیا۔ یا خزانوں سے مراد معدنیات ہیں جو زمین کے نیچے چھپی ہوئی ہیں جیسے سونا، چاندی اور دوسری قیمتی چیزیں۔

【12】

امت محمدیہ ﷺ کہ تئیں خصوصی عنایات ربانی :

اور حضرت ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے روئے زمین کو سمیٹا (یعنی اس کو سمیٹ کر ایک ہتھیلی کے برابر کردیا اور پھر مجھے دکھایا) چناچہ میں نے روئے زمین کو مشرق سے لے کر مغرب تک دیکھا اور میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ میری امت عنقریب روئے زمین کے تمام علاقوں کی بادشاہت سے سرفراز ہوگی، جو سمیٹ کر مجھ کو دکھائے گئے ہیں اور میں یہ بھی حقیقت ہے کہ مجھ کو سرخ اور سفید دو خزانے عطا کئے گئے ہیں۔ نیز میں نے اپنے پروردگار سے التجا کی کہ میری امت کے لوگوں کو عام قحط میں نہ مارے (یعنی ایسا قحط نہ مسلط کرے جس میں مبتلا ہو کر پوری امت ہلاک ہوجائے) اور یہ کہ میری امت پر مسلمانوں کے علاوہ کسی (غیر مسلم دشمن کو مسلط نہ کرے جو ان کی اجتماعیت اور ملی نظام کے مرکز پر قبضہ کرلے۔ چناچہ میرے رب نے فرمایا اے محمد ﷺ جب میں کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہوں تو وہ بدلا نہیں جاسکتا، پس تمہاری امت کے حق میں تمہیں اپنا یہ عہد و فیصلہ دیتا ہوں کہ مسلمانوں کو نہ تو قحط میں ہلاک کروں گا اور نہ خود ان کے علاوہ کوئی اور دشمن ان پر مسلط کروں گا جو ان کی اجتماعیت اور ملی نظام کے ایک مرکز پر قبضہ کرلے اگرچہ ان (مسلمانوں) پر تمام روئے زمین کے غیر مسلم دشمن جمع ہو کر حملہ آور ہوں الاّ یہ کہ تمہاری امت ہی کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں اور ایک دوسرے کو قید وبند کی صعوبت میں ڈالیں۔ (مسلم) تشریح سرخ اور سفید خزانوں، سے سونے اور چاندی کے خزانے مراد ہیں اور دونوں خزانوں کے ذریعہ کسری بادشاہ فارس اور قیصر بادشاہ روم کی سلطنت وممکت کی طرف اشارہ مقصود ہے، کیونکہ اس زمانہ میں فارس میں سونے کے اور روم میں چاندی کے ذخائر اور خزینے بہت زیادہ تھے، پس آپ ﷺ نے پیشگوئی فرمائی کہ میری امت کے لوگ جلد ہی وقت کی ان دونوں عظیم سلطنتوں پر قابض وحکمران ہوجائیں گے اور ان کے تمام خزانے اور مال و اسباب مسلمانوں کے ہاتھ لگیں گے، چناچہ یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ الاّیہ کہ تمہاری امت ہی کے لوگ آپس میں۔۔۔۔۔ الخ۔ اس جملہ کا سیاق وسباق اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو دو چیزوں سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ومامون کردیا ہے، ایک یہ تو یہ کہ عام قحط وفاقہ کشی کی ایسی صورت حال کہ جو مجموعی طور پر تمام مسلمانوں کو ہلاک وفنا کردے کبھی پیش نہیں آئے گی، دوسرے یہ کہ اگر تمام روئے زمین کی اسلام دشمن اور مسلم مخالف طاقتیں مل کر بھی یہ چاہیں مسلمانوں کی دینی واجتماعی ہئیت کے مرکز اور ان کی مجموعی طاقت کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ان کے تمام علاقوں پر قبضہ کر بھی لیں تو ایسا کبھی نہیں ہوگا، یہ اور بات ہے کہ خود مسلمانوں میں باہمی افتراق و انتشار پیدا ہوجائے، بھائی بھائی کا گلا کانٹے لگے، ایک مسلمانوں کی ملی ودینی اجماعیت اور ان کے سیاسی مرکز کو نقصان پہنچا دے یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مقدر ہوچکا ہے، اس فیصلہ کو نہ کوئی بدل سکتا ہے اور نہ کوئی اس کے خلاف کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔

【13】

اپنی امت کے حق میں آنحضرت ﷺ کی وہ دعا جو قبول نہیں ہوئی ،

اور حضرت سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ (انصار کے ایک قبیلہ) بنی معاویہ کی مسجد کے قریب سے گذرے تو اندر (مسجد میں) تشریف لائے اور وہاں دو رکعت نماز پڑھی، اس میں آپ کے ساتھ ہم بھی شریک ہوئے، (نماز کے بعد) آپ ﷺ نے اپنے پروردگار سے بڑی طویل دعا مانگی (یعنی بہت دیر تک دعا میں مصروف رہے) پھر جب نماز ودعا سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں نے (آج اپنی دعا میں) اپنے پروردگار سے تین چیزیں مانگی تھیں، ان میں سے دو چیزیں تو مجھے عطا فرما دی گئیں اور ایک چیز سے منع کردیا گیا، ایک چیز کی درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو قحط عام میں ہلاک نہ کیا جائے، یہ درخواست قبول فرمائی گئی، دوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو پانی میں غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے ( یعنی جس طرح فرعون کی قوم دریائے نیل میں غرق کرکے ہلاک کردی گئی، یا نوح (علیہ السلام) کی قوم پانی کے طوفان میں مبتلا کر کے نیست ونابود کردی گئی۔ اس طرح میری پوری امت پانی میں ڈبوکر ہلاک نہ کی جائے) اور میری یہ درخواست بھی قبول فرمائی گئی تیسری درخواست یہ تھی کہ میری امت کے لوگ آپس میں دست و گریبان نہ ہوں (یعنی مسلمان، مسلمان سے برسرپیکار نہ ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی نہ کریں) لیکن میری یہ درخواست قبول نہیں ہوئی۔ (مسلم) تشریح بنومعاویہ انصار مدینہ کے ایک قبیلہ کا نام تھا آنحضرت ﷺ ایک دن اس قبیلہ میں تشریف لے گئے ہوں گے کسی فرض نماز کا وقت آگیا ہوگا اور آپ ﷺ نے وہ فرض نماز اس قبیلہ کی مسجد میں ادا فرمائی یا یہ کہ آپ ﷺ نے اس نماز میں التحیات کے دوران یا سلام پھیر کر اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے حق میں جو تین دعائیں مانگیں اور ان میں سے جو ایک دعا قبول نہیں ہوئی تو اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام کی بھی بعض دعا قبول نہیں ہوتی تھی۔

【14】

تورات میں آنحضرت ﷺ کے اوصاف کا ذکر :

اور حضرت عطاء ابن یسار (رح) (مشہور جلیل القدر تابعی) کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو ابن عاص (رض) کی ملاقات سے مشرف ہوا، تو ان سے عرض کیا کہ (یہودیوں کی آسمانی کتاب) تورات میں رسول کریم ﷺ جن کی جو صفات و خصوصیات ذکر ہے ان کے بارے میں مجھے کچھ بتائے ! حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ضرور بتاؤں گا، اللہ کی قسم تورات میں آنحضرت ﷺ کی ان بعض صفات و خصوصیات کا ذکر ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہیں چناچہ (اللہ تعالیٰ نے تورات میں آپ ﷺ کی جو صفات و خصوصیات ذکر کی ہیں، ان کو اپنی زبان اور اپنے اسلوب میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ) اے نبی، ہم نے تمہیں اہل ایمان کا شاہد، اجروانعام کی خوشخبری دینے والا، عذاب و عتاب سے ڈارنے والا اور امیوں کو پناہ دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اے محمد ﷺ تم میرے بندے ہو ( کہ عبودیت و بندگی کا وہ مرتبہ خاص تمہیں حاصل ہے جو کسی اور کو نصیب نہیں) تم (بندوں کی طرف بھیجے جانے والے میرے خاص رسول ہو، میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے ( یعنی تمہیں توکل و اعتماد کی وہ دولت عطا کی ہے جو کسی اور کو نہیں ملی، اسی بناء پر تم اپنے تمام معاملات ومہمات میں اپنی طاقت و صلاحیت پر اعتماد کرنے کے بجائے صرف میری ذات اور میرے حکم پر بھروسہ رکھتے ہو) نہ تم بدخوہو، نہ سخت گو اور سخت دل ہو اور نہ بازاروں میں شوروغل مچانے والے ہو۔ تورات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ) وہ (محمد) برائی کو برائی کے ساتھ دور نہیں کریں گے ( یعنی وہ اپنے ساتھ برائی کرنے والے سے انتقام نہیں لیں گے اور سزا نہیں دیں گے) بلکہ درگذر کریں گے اور (احسان پر احسان یہ کریں گے کہ) برائی کرنے والے کے لئے دعائے مغفرت کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ان محمد ﷺ کی روح کو اس وقت قبض نہ کرے گا جب تک ان کہ ذریعہ کج رو اور گمراہ قوم کو راہ راست پر نہ لے آئے اس طرح کہ قوم کے لوگ اعتراف و اقرار کرلیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس وقت ان کی روح قبض نہیں کی جائے گی) جب تک کہ اللہ تعالیٰ کلمہ طیبہ (لاالہ الا اللہ) کے ذریعہ اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور بےحس دلوں کو درست نہ کردے۔ اس روایت کو بخاری نے ( عطاء ابن یسار سے) نقل کیا ہے نیز یہی حدیث دارمی نے بھی عطاء ابن یسار ہی سے نقل کی ہے، البتہ دارمی میں عطاء ابن یسار کی یہ روایت ( عبداللہ ابن عمر و ابن عاص کے بجائے) عبداللہ ابن سلام سے منقول ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی وہ روایت ( جو آنحضرت ﷺ کے فضائل سے متعلق ہے اور) جس کی ابتداء نحن الاخرون کے الفاظ سے ہوتی ہے باب الجمعہ میں نقل کی جاچکی ہے۔ تشریح حضرت عبداللہ ابن عمروابن عاص نہایت عالم فاضل قاری حافظ صحابی تھے، کتابت خوب جانتے تھے، پچھلی آسمانی کتابوں تورات و انجیل پر بھی ان کی اچھی نظر تھی، حضور ﷺ ان کو اپنی احادیث لکھنے کی اجازت عطا فرمائی تھی چناچہ آپ ﷺ سے سنتے تھے لکھ لیتے تھے، اس لئے حضرت ابوہریرہ (رض) کی طرح یہ بھی کثیر الاحادیث ہیں اور بہت سے تابعین آپ سے حدیثیں نقل کرتے ہیں۔ بہرحال حضرت عبداللہ ابن عمر نے چونکہ توراۃ پڑھ رکھی تھی اور انہیں معلوم تھا کہ اس آسمانی کتاب میں ہمارے حضرت ﷺ کے بارے میں کیا کیا پیشین گوئیاں ہیں اور آپ کے کن فضائل و اوصاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس لئے انہوں نے حضرت عطاء ابن یسار کے سوال پر بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے جو بعض اوصاف و فضائل قرآن کریم میں ذکر کئے ہیں اور جن کو ہم نے آپ ﷺ کی زندگی میں دیکھا بھی ہے وہ تورات میں بھی مذکور ہیں، پھر انہوں نے کچھ تفصیل کے ساتھ آنحضرت کے ان اوصاف و فضائل کو بیان کیا ہے جو تورات میں مذکور ہیں، نیز انہوں نے تورات میں مذکور باتوں کو بیان کرنے کے لئے تفنن عبارت کے طور پر شروع میں وہی اسلوب اختیار کیا جو قرآن میں آنحضرت ﷺ کو خطاب کیا ہے اور پھر وہ اسلوب بھی اختیار کیا جو تورات میں آنحضرت ﷺ کے متعلق پیش گوئی کا ہے۔ امیوں کو پناہ دینے والا میں امیوں سے مراد اہل عرب ہیں اور ان کو امی سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ ان کی اکثریت پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی۔ اور یا ان کو ام القری ( یعنی اہل مکہ کی طرف منسوب کرکے امی کہا گیا۔ نیز یہاں اہل عرب کی تخصیص اس لئے ہے کہ آنحضرت ﷺ کا نسلی و وطنی تعلق انہی سے ہے اور انہی میں مبعوث فرمائے گئے، تاکہ ان کو غیر عرب کے غلبہ تسلط سے محفوظ رکھیں اور سب سے پہلے ان ہی کو ایمان و اخلاق کے ہتھیار سے مسلح کرکے ان کی حفاظت و فلاح کا سامان کریں ! اور اگر (شیطانی گمراہیوں اور نفسانی آفات سے پناہ مراد لی جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کا برکت وجود تمام ہی عالم کے لئے پشت پناہ ہے۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ پناہ سے مراد آنحضرت ﷺ کی قوم وملت کا اس وقت تک عذاب الہٰی میں مبتلا ہونے اور تباہ وہلاک ہوجانے سے محفوظ ومامون رہنا ہے جب تک آپ ﷺ اپنی قوم وملت کے درمیان موجود ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (مسلمانوں) پر عذاب نازل کرے اور آپ ﷺ ان میں موجود ہوں۔ اور نہ بازاروں میں شوروغل مچانے والے ہو میں بازار کی تخصیص محض اس بنا پر ہے کہ عام طور پر شور وغل اور سنجیدہ حرکتوں کی جگہ بازار ہی ہے، جہاں اچھے اچھے لوگ بھی پہنچ کر اپنی متانت وسنجیدگی کھو دیتے ہیں۔

【15】

مسلمانوں کے لئے آنحضرت ﷺ کی تین دعائیں :

حضرت خباب بن ارت (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور اس کو خلاف معمول کافی طویل کیا ہم نے (نماز سے فراغت کے بعد) عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ آج تو آپ ﷺ نے ایسی طویل نماز پڑھی کہ کبھی بھی اتنی طویل نماز نہیں پڑھی تھی ؟ فرمایا ہاں یہ نماز (بہت زیادہ طویل اس وجہ سے ہوئی کہ یہ) امیدوخواہش اور خوف و دہشت کی نماز تھی (یعنی اس نماز کے دوران اللہ تعالیٰ سے کچھ دعائیں مانگ رہا تھا اور ان دعاؤں کی قبولیت کی امید تھی وہیں عدم قبولیت کا خوف بھی تھا اس لئے میں بہت زیادہ خشوع و خضوع اور عرض والتجا میں مصروف رہا جس سے پوری نماز بہت طویل ہوگئی) حقیقت یہ ہے کہ میں نے نماز میں اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کی التجا کی، ان میں سے دو مجھ کو عطا کردی گئیں اور ایک سے انکار کردیا گیا، میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک التجا تو یہ کی تھی کہ میری امت کو عام قحط (یا اسی طرح کی کسی بھی ایسی آفت وبلا) میں مبتلانہ کرے جس سے (پوری) امت ہلاک وتباہ ہوجائے، میری یہ التجا پوری ہوئی، دوسری التجایہ تھی کہ مسلمانوں پر کوئی (ایسا) غیر مسلم دشمن مسلط نہ کیا جائے (جو اپنی اسلام اور مسلم دشمنی میں انہیں نیست ونابود کردے) میری یہ التجا بھی پوری ہوئی، میں نے تیسری التجا یہ کی تھی کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہلاکت و عقوبت سے دوچار نہ کریں (یعنی ان کا باہمی اتحاد ہمیشہ بنا رہے، وہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرانہ ہوں اور آپس میں لڑائی جھگڑے کرکے اپنی ملی ملت کو کمزور نہ کریں) لیکن میری یہ التجا قبول نہیں ہوئی ،۔

【16】

مسلمان تین چیزوں سے محفوظ رکھے گئے ہیں :

اور حضرت ابوموسی اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (مسلمانو ! ) اللہ تعالیٰ نے تمہیں تین چیزوں سے محفوظ رکھا ہے، ایک تو یہ کہ تمہارا نبی تمہارے لئے بدعا نہ کرے جس سے تم ہلاک ہوجاؤ (جیسا کہ پہلے بعض انبیاء نے بدعا کرکے اپنی قوم کو ہلاک و برباد کرادیا) دوسرے یہ کہ باطل و گمراہ لوگ اہل حق پر غالب نہ ہوں، تیسرے یہ کہ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو (ابوداؤد) تشریح باطل و گمراہ لوگ اہل حق پر غالب نہ ہوں کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن، طاقت اور تعداد کے اعتبار سے بہت ہوں اور مسلمان کم ہوں تب بھی وہ تمام مسلمانوں کو ہرگز مٹا نہیں سکیں گے چناچہ حاکم نے حضرت عمر (رض) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت آنے تک ہمیشہ میری امت میں سے کوئی نہ کوئی گروہ حق کے ساتھ غالب رہے گا اور ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ روایت منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہمیشہ میری امت میں سے کوئی نہ کوئی گروہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گا اور ان کا دشمن ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ سارے مسلمان کسی فاسد نظریہ اور کسی غلط کام پر متفق ومتحد ہوجائیں، یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں کے کچھ افراد یا کچھ طبقے اپنے اغراض کی خاطر کسی اسلامی بات کو قبول کرلیں اور اس کو جائز قرار دینے لگیں، لیکن یہ ممکن نہیں کہ پوری دنیا کے مسلمان یا مسلمانوں کا سواداعظم اس غیر اسلامی بات پر جمع ہوجائے۔ حدیث کا یہ جملہ گویا اس امر کی دلیل ہے کہ اجماع حجت ہے اور اجماع سے مراد اپنے زمانہ کے مجتہد وبا بصیرت علماء کا کسی حکم شرعی پر متفق ہونا ہے ،

【17】

مسلمان آپس کے افتراق وانتشار کے باوجود اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونگے :

اور حضرت عوف ابن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس امت کے خلاف دو تلواروں کو اکٹھا نہیں کرے گا ایک تو خود مسلمانوں کی اور دوسری ان کے دشمنوں کی (ابو داؤد) تشریح یہ خدائی فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کبھی بھی دو تلواریں جمع نہیں ہوں گی جن سے پوری ملی طاقت تہ وبالا ہوجائے اور مسلمان بحیثیت مجموعی ختم ہوجائیں ! دو تلواروں کے جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو مسلمان آپس میں دست و گریبان ہوں، باہمی افتراق و انتشار کا شکار ہوں، ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے میں مصروف ہوں اور دوسری طرف سے ان کا مشترکہ دشمن یعنی کوئی غیر مسلم طاقت ان پر حملہ آور ہو اور ان باہمی افتراق و انتشار کا فائدہ اٹھا کر ان پر غلبہ و تسلط حاصل کرلے اور ان کو مٹا کر رکھ دے، تورپشتی نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ جب مسلمان آپس میں لڑنے جھگڑنے لگیں گے اور ان میں اتحاد و اتفاق کی جگہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اتنی شدت اختیار کر جائے کہ ملی شیرازہ منتشر ہونے لگے، تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسی غیر مسلم طاقت مسلط کردے گا جس کا ظلم وجور مسلمانوں کی ملی اتفاق و اتحاد کے جھنڈے کے نیچے لے آئے گا اور وہ آپس میں لڑنا جھگڑنا چھوڑ کر باہم شیروشکر ہوجائیں گے۔ اور طیبی نے یہ لکھا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اس امت کے لوگوں کو ایک ساتھ دو لڑائیوں کا شکار نہیں بنایا جائے گا، کہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑیں اور کسی غیر مسلم دشمن کے خلاف بھی نبرد آزما ہوں، بلکہ جب ان کو اپنے غیر مسلم دشمن کی جارحیت اور استیصال کا سامنا ہوگا تو وہ اپنے تمام باہمی اختلاف اور لڑائی جھگڑے مٹا کر اس دشمن کے مقابلہ پر یکجا اور متحد ہوجائیں گے۔

【18】

آنحضرت ﷺ کی نسلی ونسبی فضیلت :

اور حضرت عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ایک دن) کفار کو نبی کریم ﷺ کی شان میں ہرزہ سرائی کرتے سنا تو (افسوس اور غصہ میں بھرے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں آئے ( اور بتایا کہ کفار یہ بکو اس کررہے ہیں کہ اگر اللہ میاں کو مکہ ہی کے کسی شخص کو اپنا نبی اور رسول بنانا تھا تو اس شہر کے بڑے بڑے صاحب دولت و ثروت اور اونچے درجے کے سرداروں کو چھوڑ کر محمد ﷺ کا انتخاب کیوں کرتا) آنحضرت ﷺ (نے یہ سنا تو واضح کرنے کے لئے نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت وعزت کے اعتبار سے آپ ﷺ کی شان کیا ہے اور مرتبہ نبوت پر فائز ہونے کے لئے دوسروں کے مقابلہ آپ ﷺ کی حیثیت و اہمیت کیا ہے) منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو، میں کون ہوں ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں آپ ﷺ نے فرمایا (ہاں میں اللہ کا رسول ہوں، لیکن میری نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت کیا ہے، اس کو جاننے کے لئے سنو) میں عبداللہ بن عبد المطلب کا بیٹا محمد ﷺ ہوں اور عبد المطلب وہ ہستی ہیں جو عرب میں نہایت بزرگ ومعزز، بڑے شریف وپاکباز اور انتہائی مشہور و معروف تھے) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق (جن و انسان) کو پیدا کیا تو مجھے اس مخلوق میں سے بہترین مخلوق (نوع انسانی) میں پیدا کیا پھر اس بہترین مخلوق (نوع انسانی) کے اللہ تعالیٰ نے دو طبقے کئے (ایک عرب دوسراعجم) اور مجھے ان دونوں طبقوں میں سے بہترین طبقہ (عرب) میں پیدا کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین طبقہ (عرب) کو قبائل در قبائل کیا (یعنی اس طبقہ کو مختلف قبیلوں اور قوموں میں تقسیم کیا) اور مجھے ان قبائل میں سے بہترین قبیلہ (قریش) میں پیدا کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین قبیلہ (قریش) کے مختلف گھرانے بنائے اور مجھے ان گھرانوں میں سے بہترین گھرانے (بنوہاشم) میں پیدا کیا، پس میں ان (تمام نوع انسانی اور تمام اہل عرب) میں ذات وحسب کے اعتبار سے بھی سب سے بہتر واعلی ہوں اور خاندان وگھرانے کے اعتبار سے بھی سب سے اونچا ہوں (ترمذی) تشریح حضور ﷺ نے اپنی نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت و فضیلت کا اظہار کر کے گویا یہ واضح کیا کہ اللہ کا آخری نبی بننے اور اللہ کی آخری کتاب پانے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت الہٰی اس کا لحاظ رکھتی تھی کہ مرتبہ نبوت و رسالت پر فائز ہونے والی ہستی حسب اور خاندان کے اعتبار سے بلند درجہ اور عالی حیثیت ہو لیکن انبیاء کی ذات کے لئے حسب ونسب کی عظمت و برتری کا لازم ہونا کوئی بنیادی چیز نہیں ہے، اس کا تعلق محض ان لوگوں کے خلاف اتمام حجت سے ہے جو حسب ونسب کی بڑائی اور خاندانی وجاہت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جیسا کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت جاہل اور بیوقوف کفار کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ کی آخری کتاب قران کو نازل کیا جانا تھا اور نبوت و رسالت قائم کی جانی تھی تو اس کے لئے عرب کے بڑے سرداروں میں سے کسی کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا ! ور جہاں تک نفس نبوت کا تعلق ہے وہ خود اتنا بڑا شرف ہے جس کے سامنے کسی کی بھی بڑی سے بڑی وجاہت اور عظمت بےحیثیت چیز ہے، اس کا حصول نہ حسب ونسب کی عظمت و بلندی پر موقوف ہے اور نہ کسی اور سبب و ذریعہ پر بلکہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اس نے جس کو چاہا اس شرف و مرتبہ کے لئے منتخب فرمایا قرآن کریم میں ارشاد ہے اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ اس کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کے لئے کس کو منتخب کرے ایک اور موقع پر فرمایا۔ و اللہ یختص برحمتہ من یشاء واللہ ذو الفضل العظیم۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت (عنایت) کے ساتھ جس کو منظور ہوتا ہے مخصوص فرما لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل (کرنے) والے ہیں۔ وکان فضل اللہ علیک عظیما۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو (اپنی کتاب اور علم ونبوت عطا کر کے) بڑے فضل سے نوازا۔ آنحضرت ﷺ کی نبوت حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود پذیر ہونے سے بھی پہلے تجویز ہوگئی تھی

【19】

آنحضرت ﷺ کی نسلی ونسبی فضیلت :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ نبوت کے لئے آپ ﷺ کس وقت نامزد ہوئے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت جب کہ آدم (علیہ السلام) روح اور بدن کے درمیان تھے (ترمذی) تشریح مطلب یہ کہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی مرتبہ نبوت و رسالت کے لئے اس وقت نامزد بھی ہوچکی تھی۔ جب کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی روح ان کے پیکر خاکی سے متعلق بھی نہیں ہوئی تھی اور ان کا پتلا زمین پر بےجان پڑا تھا۔ یہ جملہ دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود میں آنے سے بھی پہلے متعین ومقرر ہوچکی تھی۔

【20】

آنحضرت ﷺ اور ختم نبوت :

اور حضرت عرباض ابن ساریہ (رض) رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی وقت سے خاتم النبین لکھا ہوا ہوں جب کہ آدم (علیہ السلام) اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ اور میں تمہیں بتاتا ہوں میرا پہلا امر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت ہے اور میری ماں کا خواب ہے جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا، حقیقت یہ ہے کہ میری ماں کے سامنے ایک نور ظاہر ہوا تھا جس نے ان پر شام کے محلات کو روشن کردیا تھا۔ اس روایت کو بغوی نے (اپنی اسناد کے ساتھ) شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔ نیز امام احمد نے بھی اس روایت کو ساخبرکم سے آخرتک ابوامامہ سے نقل کیا ہے تشریح وان ادم لمنجدل فی طینہ۔ میں لفظ طینہ کے معنی گوندھی ہوئی مٹی، کیچڑ اور گارے کے ہیں خلقت اور جبلت کو بھی طینت کہتے ہیں۔ حضور ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ میرا خاتم النبیین کی حیثیت سے اس دنیا میں مبعوث ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت لکھا جا چکا تھا جب آدم (علیہ السلام) آب وگل کے درمیان تھے اور نہ صرف یہ کہ ان کے پتلے میں جان نہیں پڑی تھی بلکہ ان کا پتلا بن کر تیار بھی نہیں ہوا تھا بن رہا تھا۔ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق و پیدائش سے بھی پہلے متعین ومقرر ہوجانے سے کیا مراد ہے ؟ اگر اللہ تعالیٰ کے علم اور تقدیر الہٰی میں ہونا مراد ہے تو یہ بات تمام ہی انبیاء کے متعلق کہی جاسکتی ہے، آنحضرت ﷺ کی تخصیص کے کیا معنی اور اگر آنحضرت ﷺ کی نبوت کا بالفعل ظاہر ہونا مراد ہے تو یہ خلاف واقعہ ہوگا، کیونکہ بالفعل کا تعلق اس دنیا سے ہے اور ظاہر ہے کہ اس دنیا میں آنحضرت ﷺ کی نبوت کا اظہار حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق و پیدائش کے ہزاروں سال بعد ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل مراد آنحضرت ﷺ کی نبوت کا تمام فرشتوں اور روحوں میں ظاہر و متعارف کردیا جانا ہے، جیسا کہ ایک روایت میں آنحضرت ﷺ کے اسم شریف کا عرش، آسمان اور جنت کے محلات وبالاخانوں پر حورعین کے سینوں پر، جنت کے درختوں اور طوبی درخت کے پتوں پر اور فرشتوں کی آنکھوں اور بھوؤں پر لکھا ہونا منقول ہے۔ اور بعض عارفین نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روح مبارک عالم ارواح میں تمام روحوں کی تربیت و اصلاح کرتی تھی جیسا کہ اس دنیا میں تشریف لانے کے بعد آپ ﷺ کی ذات گرامی اس دنیا میں اجسام انسانی کی مربی ومصلح ہوئی اور یہ بات کسی شک وشبہ کے بغیر ثابت ہے کہ تمام روحیں اپنے اجسام سے بہت پہلے عالم وجود میں آچکی تھیں۔ میرا پہلا امر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہے۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے یہ واضح فرمایا کہ میرا خاتم النبیین ہونا نہ صرف یہ کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود پذیر ہونے سے پہلے تجویز اور عالم بالا میں ظاہر ہوچکا تھا بلکہ اس دنیا میں بھی میری جسمانی پیدائش سے بہت پہلے مختلف انبیاء کے ذریعہ میری نبوت و رسالت اور میرے علو مرتبہ کا ظہور ہوچکا تھا اس کی دلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ دعا ہے جو انہوں نے میری رسالت کے متعلق خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت کی تھی اور جس کو قرآن کریم میں اس طرح نقل کیا گیا ہے (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) 2 ۔ البقرۃ 129) میرے پروردگار اور اس جماعت (اسمٰعیل (علیہ السلام) کی اولاد) میں ان ہی کا ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کردیجئے جوان لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیا کرے اور ان کو پاکیزہ کردیں بلاشبہ آپ ہی غالب القدرۃ اور کامل الانتظام ہیں۔ اسی طرح اس دنیا میں میری آمد سے کہیں پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے میری نبوت و رسالت کی خوشخبری دے دی تھی، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد۔ اور (اے بنی اسرائیل) میرے بعد جو ایک رسول آنے والے ہیں اور جن کا نام احمد ہوگا میں ان کی بشارت دینے والا ہوں۔ نیز میری پیدائش سے پہلے میری والدہ محترمہ کا بشارت انگیز خواب دیکھنا اور میری پیدائش کے وقت ان کے ساتھ حیرت ناک واقعات و حالات کا پیش آنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ میری نبوت و رسالت کانور، اس دنیا میں میرے مبعوث ہونے سے پہلے ہی پر تو فگن ہوچکا تھا۔ حدیث کے اس جملہ جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کے تحت علامہ طیبی (رح) وغیرہ شارحین نے لکھا ہے کہ ان الفاظ کی مراد خواب میں دیکھنا بھی ہوسکتا ہے اور حالت بیداری میں دیکھنا بھی، پہلی صورت میں پیدائش کے وقت سے کچھ پہلے عرصہ مراد ہوگا جیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ (رض) کے ہاں ولادت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے خواب میں دیکھا ایک فرشتہ آیا اور کہہ رہا ہے کہ کہو میں اس بچہ کو (جو میرے پیٹ سے پیدا ہونے والا ہے یعنی آنحضرت ﷺ ہر حسد کرنے والے کے شر سے خدائے واحد کی پناہ میں دیتی ہوں حضرت آمنہ (رض) نے اس سے پہلے استقرار حمل کے وقت بھی خواب میں دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ آیا اور کہنے لگا کہ کیا تم جانتی ہو تمہارے پیٹ میں اس امت کا سردار نبی ہے۔ دوسری صورت میں بحالت بیداری دیکھنا مراد ہو، کہا جائے گا کہ انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا۔ کا تعلق اس چیز کے دیکھنے سے ہے جس کا ذکر اس جملہ میں محذوف ہے، مگر آگے کی عبارت اس کی پوری وضاحت کرتی ہے اور بعض روایتوں میں بھی آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے وقت ایسا نور ظاہر ہوا کہ جس سے شام کے محلات تک روشن و نمایاں ہوگئے، اس کی حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ اس وقت دنیا میں اس ہستی کا ظہور ہوا ہے جس کی نبوت و رسالت کی روشنی مشرق سے لے کر مغرب تک پوری روئے زمین کو منور کردے گی اور کفروضلالت کا اندھیرا ہلکا پڑجائے گا۔

【21】

آنحضرت ﷺ کے خصائص :

اور حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میں تمام بنی آدم کا سردار بنوں گا اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا (قیامت کے دن مقام محمود میں) حمد کا نیزہ میرے ہاتھ میں ہوگا اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا، اس دن کوئی بھی نبی خواہ وہ آدم ہوں، یہ کوئی اور، ایسا نہیں ہوگا جو میرے نیزے کے نیچے نہیں آئے گا۔ اور (قیامت کے دن) سب سے پہلے میں زمین پھٹ کر اٹھوں گا اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔ (ترمذی) تشریح اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔ سے آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ میرا یہ کہنا شیخی مارنے، اترانے اور خواہ مخواہ کی بڑائی جتانے کے طور پر نہیں ہے بلکہ پروردگار نے اس فضل و برتری کی جو نعمت مجھے عطا فرمائی ہے اس کا اقرار و اظہار کرنے، اس نعمت پر شکر ادا کرنے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم واما بنعمۃ ربک فحدث کی بجا آوری کے لئے ہے، علاوہ ازیں میں اس بات اظہار و اعلان اس لئے بھی کررہا ہوں تاکہ لوگ میری قدرومنزلت اور میری حیثیت و عظمت کو جانیں اس پر اعتقاد رکھیں اور اس کے مطابق میری تو قیر و تعظیم اور میری محبت کے ذریعہ ایمان کو مضبوط بنائیں۔ لوائ کے معنی جھنڈے اور پرچم کے ہیں لیکن نیزہ کو بھی کہتے ہیں حمد کا نیزہ میرے ہاتھ میں ہوگا سے مراد قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کا اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا میں نام آور ہونا ہے، اگر ترجمہ یوں کیا جائے کہ حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا تو اس کی مراد بھی یہی ہوگی کیونکہ جس طرح اہل عرب کسی معاملہ میں اپنی شہرت وناموری کے اظہار کے لئے نیزہ کھڑا کردیا کرتے تھے اسی طرح پرچم بھی عظمت و بلندی اور ناموری کے اظہار کی علامت سمجھا جاتا ہے مطلب یہ کہ اس دن جب یہ نیزہ یا جھنڈہ آپ ﷺ کے ہاتھ میں آئے گا تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کا دل ایسا کھول دے گا کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی وہ تعریف کریں گے جو کوئی دوسرا نہ کرسکے گا واضح رہے کہ آپ کی امت حمادین کہلاتی ہے یعنی ایسے لوگ جو ہر حالت میں، خواہ خوشی کا موقع ہو یا غمی کا، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتے ہیں قیامت کے دن آپ ﷺ کی ذات حامد بھی ہوگی اور محمود بھی اور آپ اللہ تعالیٰ کے حمد کے ذریعہ ہی شفاعت کا دروازہ کھلوائیں گے جیسا کہ اس دنیا میں بادشاہوں اور سرابراہان مملکت کی عظمت و شوکت کے اظہار اور ان کی حیثیت کو ممتاز کرنے کے لئے ان کا اپنا الگ پرچم نصب ہوتا ہے۔

【22】

سیدالمرسلین ﷺ کے فضائل ومناقب کا بیان :

آنحضرت ﷺ کے فضائل ومناقب اور آپ ﷺ کی ذات ستودہ صفات کے اوصاف حمیدہ اور فضائل کبری کا کوئی شمار نہیں، کسی زبان وقلم کو تاب نہیں کہ آپ ﷺ کے تمام فضائل اور اصاف کا احاطہ کرسکے، تاہم مولف مشکوٰۃ نے ان میں سے کچھ فضائل کے متعلق احادیث و روایات کو اس باب کے تحت جمع کیا ہے۔ اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ تمام اولاد آدم کے سردار ہیں، انبیاء میں سب سے افضل و اشرف آپ ﷺ ہی ہیں، آپ ﷺ کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) افضل ہیں، پھر حضرت موسیٰ کلیم اللہ (علیہ السلام) ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کس کا درجہ ہم اس بارے میں صراحت کے ساتھ علماء سے منقول نہیں ہے، ویسے بعض علماء نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور ان کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کو افضل و اشرف کہا ہے اور لکھا ہے کہ انبیاء (علیہ السلام) کی طویل فہرست میں یہ پانچ نبی اولو العزم سمجھے جاتے ہیں اور راہ حق میں ان کے صبر و استقامت اور عزیمیت کا درجہ بےمثال ہے۔

【23】

آنحضرت کا خاندانی ونسبی فضل وشرف :

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھ کو یکے بعد دیگرے ہر قرن کے بنی آدم کے بہترین طبقوں میں منتقل کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ میں اس موجودہ قرن میں پیدا کیا گیا۔ (بخاری) تشریح بہترین طبقوں سے مختلف زمینوں کا ہر وہ طبقہ مراد ہے جس میں آنحضرت ﷺ کے آباء و اجداد تھے اور جو اپنے اپنے عہد میں اپنی خاندانی نجابت و شرافت اور انسانی فضل و کمال کے اعتبار سے ممتاز و نمایاں اور قابل تکریم و احترام رہا ہے جیسے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی اولاد، ان کے بعد کے عہد میں کنانہ اور ان کی اولاد، ان کے بعد کے عہد میں ہاشم اور ان کی اولاد۔ پس اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہوا کہ میرا سلسلہ نسب شروع سے لے کر اب تک نسل انسانی کے نہایت مفتخر ومعزز افراد پر مشتمل ہے میرے آباء و اجداد کہ جن کی پشت در پشت منتقل ہوتا ہوا میں اس زمانہ میں پیدا ہوا ہوں اپنے اپنے عہد و زمانہ کے وہ ممتاز و نمایاں افراد تھے جن کی ذات خاندانی نجابت و شرافت، سماجی عزت و شوکت، مجلسی تہذیت ومتانت، قومی و وطنی مقبولیت ومرجعیت، ذاتی برگزیدگی وافضلیت اور انسانی خصائل و فضائل کا منبع رہی ہے۔

【24】

آنحضرت ﷺ کی برگزیدگی۔

اور حضرت واثلہ ابن اسقع کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں کنانہ کو چنا اور اولاد کنانہ سے قریش کو چنا اور اولاد قریش میں سے بنی ہاشم کو چنا اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو چنا (مسلم) اور ترمذی کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم (علیہ السلام) میں اسماعیل (علیہ السلام) کو برگزیدہ کیا اور اولاد اسماعیل میں، بنی کنانہ کو برگزیدہ کیا۔ تشریح آنحضرت ﷺ کا نسلی ونسبی تعلق حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے ہے، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بیٹے قیدار کی اولاد میں ایک شخص عدنان تھے، انہی عدنان کی اولاد بن اسماعیل کے تمام مشہور قبائل پر مشتمل ہے، اسی لئے عرب مستعربہ بنی اسماعیل کو عدنانی یا آل عدنان کہا جاتا ہے عدنان کے بیٹے معد اور معد کے بیٹے نزار تھے، نزار کے جو چار مشہور بیٹے بتائے جاتے ہیں ان میں سے دو بیٹے ربیعہ اور مضر سب سے زیادہ نامور اور جزیرہ نما عرب کے بڑے قبائل کے مورث ہیں، مضر کی اولاد میں آگے چل کر ایک شخص کنانہ ہوئے اور ان کی اولاد مضر کے قبائل میں سب سے زیادہ مشہور و معروف قبیلہ پر مشتمل ہوئی، کنانہ کے بیٹے نضر اور نضر کے بیٹے مالک اور مالک کے بیٹے فہر تھے، یہی وہ فہر ہیں جن کا لقب قریش تھا، فہر کی اولاد میں بہت سے قبائل ہوئے اور سب قریش کہلاتے ہیں یہ تمام قبائل مختلف علاقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان نہ باہمی ربط و اتفاق تھا اور نہ کوئی اجتماعی نظام تھا۔ پھر ایک شخص قصی بن کلاب پیدا ہوئے، انہوں نے بڑی محنت اور جدوجہد کرکے تمام قریش کو منظم کیا، ان میں اجتماعیت اور بیداری کی روح پھونکی جس کی بدولت قریش نے نہ صرف مکہ معظمہ بلکہ تمام حجاز پر غلبہ و اقتدار حاصل کرلیا۔ اسی وجہ سے بعض حضرات یہ کہتے ہیں قریش اصل میں قصی بن کلاب کا لقب ہے، کیونکہ یہ لفظ (قریش) قرش سے نکلا ہے جس کے معنی جمع کرنے اور منظم کرنے کے ہیں۔ ویسے زیادہ مشہور یہ ہے کہ قریش ایک سمندری جانور کا نام ہے جو نہایت قوت اور زور رکھتا ہے، اس کی تائید حضرت ابن عباس کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ قریش کا نام اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ قریش (قرش) ایک بڑی خطرناک مچھلی کا نام ہے جو سب مچھلیوں کو نگل لیتی ہے لیکن خود اس کو نہ کوئی مچھلی گزند پہنچاتی ہے نہ اس پر قابوپاتی ہے۔ یہی وجہ تسمیہ قاموس میں بھی مذکور ہے۔ ظہور اسلام کے وقت قریش کی شاخوں میں سے جو شاخ سب سے زیادہ مشہور باعزت اور غالب تھی وہ بنوہاشم ہے، آنحضرت ﷺ بنو ہاشم میں پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے محمد ﷺ بن عبداللہ ابن عبد المطلب ابن ہاشم ابن عبدمناف ابن قصی ابن کلاب ابن مرۃ ابن کعب ابن لوی ابن غالب ابن فہر ابن مالک ابن نضر ابن کنانہ ابن خزیمہ ابن مدرک ابن الیاس ابن مضر ابن نزار ابن معد ابن عدنان۔ عدنان سے پہلے کا نسب نامہ زیادہ وثوق کے ساتھ نہیں بتایا جاسکتا۔ اس کی تفصیل کی روشنی میں حدیث کا مفہوم واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بنوکنانہ کو سب سے زیادہ برگزیدگی و عظمت آنحضرت ﷺ کو حاصل ہوئی، پس آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اپنے سلسلہ نسب کی تمام تر برگزیدگیوں اور عظمتوں کانچوڑ ہے۔

【25】

قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کی سرداری :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے قبر سے میں ہی اٹھوں گا نیز سب سے پہلے میں ہی شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول ہوگی۔ (مسلم ) تشریح مطلب یہ کہ قیامت کے دن تمام انسانی کمالات وصفات اور تمام تر عظمتوں اور ان کا مظہر آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی ہوگی، اس دن مخلوقات میں سے نہ کسی کا درجہ آپ ﷺ سے بڑا ہوگا اور نہ آپ ﷺ کے علاوہ کوئی اور ذات سرداری وسربراہی کی سزا وار قرار پائے گی۔ واضح رہے کہ محمد عربی ﷺ دنیاو آخرت دونوں جہاں میں تمام لوگوں کے سردار وآقا ہیں، لیکن قیامت کے دن کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ اس دن آنحضرت ﷺ کی سرداری اور برتری کا ظہور کسی بھی شخص کے اختلاف وعناد کے اظہار کے بغیر ہوگا، جب کہ اس دنیا میں کفر شرک اور نفاق کی طاقتیں نہ صرف حیات مبارک میں آپ ﷺ کی سرداری و برتری کی مخالف ومعاندر ہیں بلکہ بعد میں بھی ان کا اختلاف وعناد ظاہر رہا۔ اس حدیث کے بین السطور سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ فرشتوں پر بھی فضیلت و برتری رکھتے ہیں اور آپ ﷺ کی ذات افضل المخلوقات کو اکمل الموجودات ہے، چناچہ بعض حدیثوں میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ تم لوگ پیغمبروں کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو اور نہ مجھ کو موسیٰ (علیہ السلام) اور یونس (علیہ السلام) سے افضل کہو، تو اس کی مخالف کی توجیہہ پیچھے گذر چکی ہے۔

【26】

امت محمدیہ کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی :

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن پیغمبروں میں سے جس پیغمبر کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی وہ میں ہوں گا اور جنت کا دروازہ سب سے پہلے جو شخص کھٹکھٹائے گا (یعنی کھلوائے گا) وہ بھی میں ہی ہوں گا (مسلم) تشریح قیامت کے دن امت محمدیہ کی تعداد کی کثرت کے بارے میں پہلے ایک حدیث گذر چکی ہے کہ آپ ﷺ کی امت تمام اہل جنت کی مجموعی تعداد کا دو تہائی حصہ ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کی اتباع اور پیروی کرنے والوں کی کثرت، اس شخص کی فضیلت و برتری کا باعث بنتی ہے، اس لئے کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ کا مرتبہ زیادہ ہے کیونکہ ائمہ فقہ میں سے ان ہی کا مسلک زیادہ رائج ہے اور مسلمانوں کی اکثریت اسلام کے فروعی احکام میں ان ہی کی پیروکار ہے، اسی طرح قاریوں میں امام عاصم کا مرتبہ بلند تر ہے کیونکہ فن تجویدوقرأت میں ان کے پیروکار زیادہ ہیں۔

【27】

جنت کا دروازہ سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کے لئے کھولا جائے گا :

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب قیامت کے دن میں جنت کے دروازے پر آؤں گا اور اس کو کھلواؤں گا تو جنت کا نگہبان پوچھے گا کہ تم کون ہو ؟ میں کہوں گا کہ میں محمد ﷺ ہوں۔ تب نگہبان کہے گا مجھ کو حکم دیا گیا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لئے دروازہ نہ کھولوں۔ (مسلم )

【28】

سب سے پہلے آپ ﷺ شفاعت کریں گے :

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں سب سے پہلے سفارش کرنے والا میں ہوں گا (یعنی اپنی امت کو) جنت میں داخل کرنے کی یا اہل جنت کی مراتب درجات کی ترقی کی سفارش سب سے پہلے میں کروں گا) انبیاء میں سے جتنی تصدیق میری کی گئی ہے اتنی کسی کی نہیں کی گئی ہے (یعنی میری نبوت و رسالت کی تصدیق کرنے والوں اور مجھ پر ایمان لانے اور رکھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اس طرح تمام امتوں کے مقابلہ میں میری امت سب سے بڑی ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ انبیاء میں سے ایک نبی ایسے بھی گذرے ہیں جن کی تصدیق صرف ایک مرد نے کی ہے۔ (مسلم)

【29】

آنحضرت ﷺ خاتم النبیّیں ہیں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری اور دوسرے تمام انبیاء کی مثال اس محل کی سی ہے جس کے در و دیوار نہایت شاندار اور عمدہ ہوں، لیکن اس دیوار میں اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی ہو اور جب لوگ اس محل کے گرد پھر کر عمارت کو دیکھیں تو عمارت کی شان و شوکت اور درودیوار کی خوشنمائی انہیں حیرت میں ڈال مگر ایک اینٹ کے بقدر اس خالی جگہ کو دیکھ کر انہیں سخت تعجب ہو پس میں اس اینٹ کی جگہ بھرنے والا ہوں، اس عمارت کی تکمیل میری ذات سے ہے اور انبیاء ورسل کے سلسلہ کا اختتام مجھ پر ہوگیا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ پس میں ہی وہ اینٹ ہوں (جس کی جگہ خالی رکھی گئی تھی) اور میں ہی نبیوں کے سلسلہ کو پایہ اختتام تک پہنچانے والا ہوں۔ تشریح یہ حدیث آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی واضح دلیل ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے دنیا میں اپنے رسول اور نبی بھیجنے کا جو سلسلہ انسان اول حضرت آدم (علیہ السلام) سے شروع کیا تھا وہ محمد عربی ﷺ پر آ کر ختم ہوگیا آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی اور رسول اس دنیا میں آیا ہے اور نہ آئندہ کبھی آئے گا۔ اسی حقیقت کو آنحضرت ﷺ نے بڑے نفسیاتی طریقہ سے ایک مثال کے ذریعہ فرمایا کہ مجھ سے پہلے دنیا میں جتنے اور رسول آئے وہ اللہ کی طرف سے جو شریعت، آئین ہدایت، علم ودین اور پیغام و احکام لائے ان کا مجموعہ کو ایک ایسا محل تصور کرو جو نہایت شاندار، مضبوط و پختہ اور دیدہ زیب ہو، لیکن اس کی دیوار میں ایک اینٹ کے برابر جگہ خالی چھوڑ دی گئی ہو اور وہ خالی جگہ کسی ایسے شخص کی منتظر ہو جو آکر اس کو پر کردے اور اس خالی جگہ کے نقص کو پورا کرکے محل کی تعمیر کا سلسلہ ختم کردے۔ پس آنحضرت ﷺ نے پہلے آنے والے انبیاء کی بعثت، ان کی لائی ہوئی شریعت و ہدایت اور ان کے تبلیغ و ارشاد کے ذریعہ دین کا محل گویا تیار ہوچکا تھا، لیکن کچھ کسر باقی رہ گئی تھی، وہ کسر ہمارے حضرت محمد ﷺ کی بعثت مبارکہ سے پوری ہوگئی، اب نہ اللہ کا دین ناقص ہے، نہ شریعت حقہ غیر مکمل ہے اور نہ کسی نبی کے آنے کی ضرورت باقی رہ گئی ہے۔

【30】

سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے ہر ایک نبی کو معجزات میں صرف اتنا دیا گیا جس پر انسان ایمان لاسکے اور جو معجزہ مجھ کو ملاوہ اللہ کی وحی ہے جو اس نے میری طرف بھیجی (اور جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے) اس کی بناء پر مجھے یقین ہم کہ قیامت کے دن میرے ماننے والوں کی تعداد تمام انبیاء کے ماننے والوں سے زیادہ ہوگی۔ (بخاری ومسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام چونکہ مخلوق کے سامنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسالت ونبوت کا دعوی کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو کچھ ایسے معجزے عطا فرماتا ہے جس کو وہ اپنے دعوے کی دلیل وبرہان کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں، چناچہ جتنے بھی نبی اور رسول اس زمین پر آئے ان کو کسی نہ کسی نوعیت کا ایسا معجزہ دیا گیا جس کو دیکھ کر عقل سلیم رکھنے والا انسان اس نبی کی تصدیق کرسکے اور اس پر ایمان لاسکے لیکن آنحضرت ﷺ سے پہلے جس نبی کو جو بھی معجزہ دیا گیا وہ اس نبی کے زمانہ اور اس کی حیات تک مخصوص اور باقی رہا، اس نبی کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ اس کا معجزہ بھی ختم ہوگیا، مثلا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں سحر اور جادو کا زبردست چرچا تھا، بڑے بڑے جادوگر اپنے فن کا کمال دکھایا کرتے تھے اور لوگ ان کے فن کے کمال سے متاثر ہوتے تھے، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یدبیضا اور عصا کا معجزہ دیا گیا ان کے دونوں معجزوں نے تمام چھوٹے بڑے جادوگروں کا چراغ گل کردیا اور نہ صرف عام لوگوں کو بلکہ خود ان جادوگروں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عظمت کا اعتراف کرنا پڑا، اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں طب و حکمت کا بڑا زور تھا اس وقت ایسے ایسے قابل اور ماہر فن طبیب اور حلیم موجود تھے جو پیچیدہ سے پیچیدہ دکھ اور بیماری کو جڑ سے اکھیڑ دیا کرتے تھے، چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ معجزہ عطا ہوا کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتے تھے، کوڑھی کو تندرست اور اندھے کو بینابنا دیتے تھے، اس طرح ان کا یہ معجزہ اپنے زمانہ کے نہایت ترقی یافتہ طب و حکمت پر غالب رہا، لیکن نہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ان کے بعد باقی رہا اور نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کو دائمی حیثیت حاصل ہوئی۔ تمام انبیاء کے برخلاف آنحضرت ﷺ کو قرآن کریم کی صورت میں جو سب سے بڑا معجزہ عطا ہوا اس کو دائمی حیثیت حاصل ہوئی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں فصاحت و بلا غت کا زور تھا، عرب فصحاء کا دعوی تھا کہ ان کی فصاحت و بلاغت کے سامنے دنیا کے تمام لوگ گونگے ہیں چناچہ آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم نازل کیا گیا جس کی فصاحت و بلاغت نے عرب کے بڑے سے بڑے فصیح وبلیغ کی فصاحت و بلاغت کو مانند کردیا، اپنی زبان دانی اور معجز بیانی کا بلند بانگ دعوی کرنے والے مغلوب ہوگئے، تمام فصیح مل کر بھی قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت جیسا کلام بھی پیش نہ کرسکے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس عظیم معجزہ کو قیامت تک کے لئے باقی رکھا جو ہر زمانے اور ہر طبقہ میں سید العٰلمین ﷺ کی نبوت و رسالت کی صداقت پر پوری حقانیت اور یقین کے ساتھ گواہی پیش کرتا رہا ہے اور پیش کرتا رہے گا۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ مجھے عطا کیا جانے والا یہ عظیم معجزہ چونکہ قیامت تک باقی رہے گا اور لوگ برابر اس پر لاتے رہیں گے اس لئے قیامت کے دن اکثریت ان اہل ایمان کی ہوگی جو میری نبوت و رسالت پر عقیدہ رکھنے والے اور میرے اس معجزہ قرآن کریم کو ماننے والے ہونگے۔

【31】

آنحضرت ﷺ کے خصائص :

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی و رسول کو عطا نہیں ہوئیں، ایک تو مجھ کو اس رعب کے ذریعہ نصرت عطا ہوئی ہے جو ایک مہینے کی مسافت کی دوری پر اثر انداز ہوتا ہے دوسرے ساری زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی قرار دیا گیا، چناچہ میری امت کا ہر (وہ) شخص (جس پر نماز واجب ہو) جہاں نماز کا وقت پائے (اگر پانی نہ ہو تو تیمم کرکے) نماز پڑھ لے، تیسرے میرے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا، جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں تھا چوتھے مجھ کو شفاعت عظمی عامہ کے مرتبہ فرمایا گیا اور پانچویں مجھ سے پہلے ہر نبی کو خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جب کہ مجھ کو روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ( بخاری ومسلم) تشریح مجھ کو اس رعب کے ذریعہ نصرت عطا ہوئی ہے۔۔۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اور اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ پر مجھے اس خصوصیت کے ساتھ فتح ونصرت عطا فرماتا ہے کہ ان کے دلوں میں میرا رعب اور خوف پیدا ہوجاتا ہے اور وہ مجھ سے ایک مہینہ کی مسافت کی دوری پر بھی ہوتے ہیں تو میرے نام ہی سے ان کی ہمت پست ہوجاتی ہے اور مارے رعب و دہشت کے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ، ساری زمین کو میرے لئے مسجد۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے پہلے کے رسولوں اور نبیوں کی شریعت میں ہر جگہ نماز پڑھنا اور عبادت کرنا درست نہیں تھا ان کی نمازوعبادت کے لئے جو جگہ عبادت خانہ کے طور پر متعین اور مخصوص ہوتی تھی بس وہی نماز و عبادت ہوسکتی تھی لیکن مجھے یہ خصوصیت عطاء ہوئی کہ میں اور میری امت کے لوگ بیت الخلاء وغسل خانہ اور مقبرہ کے علاوہ پوری روئے زمین پر جس جگہ اور جہاں چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں الاّ یہ کہ کسی جگہ کی ناپاکی کا علم یقین کے ساتھ ہوجائے تو اس جگہ نماز پڑھنا جائز نہیں اسی طرح گذشتہ امتوں میں پانی کے بغیر پاکی حاصل نہیں ہوتی تھی لیکن ہمارے لئے یہ جائز قرار دیا گیا ہے کہ اگر کہیں پانی دستیاب نہ ہو یا پانی کے استعمال میں کوئی شرعی عذر حائل ہو تو پاک مٹی کے ذریعہ تیمم کرکے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے میرے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا کی وضاحت یہ ہے کہ مال غنیمت کے بارے میں گذشتہ امتوں میں جو یہ معمول تھا کہ حاصل ہونے والا مال غنیمت اگر جانوروں کے علاوہ کسی اور جنس کا ہوتا تو اس کو جمع کرکے ایک جگہ رکھ دیا جاتا اور پھر آسمان سے ایک آگ اترتی اور وہاں جمع شدہ تمام مال و اسباب کو جلا کر واپس چلی جاتی اور اگر مال غنیمت مویشوں اور جانوروں کی صورت میں ہوتا تو اس کے حقدار صرف وہی لوگ ہوتے تھے جو اس کو دشمنوں سے چھنتے اور اس پر قبضہ کرتے تھے نبی اور رسول کو اس میں سے کچھ نہ ملتا لیکن ہمارے حضرت محمد ﷺ کے لئے نہ صرف یہ کہ خمس یعنی مال غنیمت کا پانچوں حصہ بلکہ صفی بھی لینا جائز کیا گیا ہے صفی اس چیز کو کہتے ہیں جو مال غنیمت میں سب سے اچھی ہو چناچہ مال غنیمت میں جو چیز سب سے اچھی معلوم ہوتی تھی جیسے تلوار وغیرہ اس کو آنحضرت ﷺ اپنے لئے مخصوص فرمالیتے تھے مجھے کو شفاعت عظمی عامہ کے مرتبے سے سرفراز فرمایا گیا قیامت کے دن یہ مرتبہ خاص صرف آنحضرت ﷺ کو حاصل ہوگا اور شفاعت کے جتنے بھی مواقع اور مقام ہوں گے وہ سب آنحضرت ﷺ کے اسی مرتبہ کے تحت ہوں گے اس بارے میں تفصیلی بحث باب شفاعتہ میں گذر چکی ہے مجھ کو روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا کہ بارے میں یہ ذہن نشین رہے کہ آنحضرت ﷺ کی رسالت صرف انسانوں کی تک محدود نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ کی بعثت جنات کی طرف بھی ہوئی ہے اپنی رسالت کے ذریعہ جس طرح آپ ﷺ روئے زمین کے تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام ہدایت پہنچایا اسی طرح جنات کی بھی ہدایت فرمائی اسی لئے آپ ﷺ کو رسول الثقلین کہا جاتا ہے ہوسکتا ہے کہ جس وقت آپ ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی اس وقت تک جنات کی طرف آپ ﷺ کی بعثت نہ ہوئی ہو بعد میں ہوئی ہو اور اسی وجہ سے اس حدیث میں جنات کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ١٠ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے چھ چیزوں کے ذریعہ دوسرے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے، (١) مجھے جامع کلمات عطاء ہوئے (٢) دشمنوں کے دل میں میرا رعب ڈالنے کے ذریعہ مجھے فتح ونصرت عطا فرمائی گئی (٣) مال غنیمت میرے لئے حلال ہوا (٤) ساری زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی قرار دیا گیا، (٥) ساری مخلوق کے لئے مجھے نبی بنا کر بھیجا گیا (٦) اور نبوت و رسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا۔ (مسلم) تشریح مجھے جامع کلمات عطا ہوئے۔ کا مطلب یہ ہے کہ دین کی حکمتیں اور احکام، ہدایت کی باتیں اور مذہبی و دنیاوی امور سے متعلق دوسری چیزوں کو بیان کرنے کا ایسا مخصوص اسلوب مجھے عطا فرمایا گیا جو نہ پہلے کسی نبی اور رسول کو عطا ہوا اور نہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے فصیح وبلیغ کو نصیب ہوا ! اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ تھوڑے سے الفاظ کے ایک چھوٹے سے جملہ میں معانی و مفہوم کا ایک گنجینہ پہناں ہوتا ہے، پڑھئے اور لکھئے تو چھوٹی سی سطر بھی پوری نہ ہو، لیکن اس کا فہم اور وضاحت بیان کیجئے تو کتاب کی کتاب تیار ہوجائے، چناچہ آنحضرت ﷺ کے اقوال و ارشادات میں اس طرح کے کلمات کی ایک بڑی تعداد ہے جن کو جوامع الکلم سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان میں سے چند کلمات کو بطور مثال یہاں نقل کیا جاتا ہے ١ انماالاعمال بالنیات۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔ ٢ ومن حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ۔ بےفائدہ بات کو ترک کردینا آدمی کے اسلام کا حسن ہے۔ ٣ الدین النصیحۃ۔ دین خیر خواہی کا نام ہے ٤ العدۃ دین وعدہ۔ وعدہ، بمنزلہ دین کے ہے۔ ٥ المستشارموتمن جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانتدار ہے۔ بعض علماء نے بڑی محنت اور دیدہ زیزی سے کام لے کر احادیث کے ذخائر میں سے اس طرح کی حدیثوں کو، جو جوامع الکلم میں سے ہیں چنا ہے (اور انکا مجموعہ تیار کیا ہے ! بعض شارحین نے یہ لکھا ہے کہ مجھے جوامع الکلم یعنی جامع کلمات عطا ہوئے ہیں۔ میں جوامع الکلم سے قرآن کریم مراد ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے کلام کا یہ اعجاز نمایاں ہے کہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑے بڑے مضمون پنہاں ہیں، لیکن پہلی وضاحت ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اسی مضمون کی ایک دوسری روایت میں اختصہ لی الکلام کے الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں اس سے اسی قول کی تائید ہوتی ہے کہ یہاں جوامع الکلم سے آنحضرت ﷺ کے ارشاد اقوال مراد ہیں اور نبوت و رسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا، رسالت تمام ہوئی اب میرے بعد کوئی اور نبی و رسول نہیں آئے گا کیونکہ اللہ کا دین مکمل ہوگیا ہے قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اترنا بھی اسی دین کو مضبوط بنانے اور زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے لئے ہوگا۔

【32】

آنحضرت ﷺ کے لئے خزانوں کی کنجیاں :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے جامع کلمات کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے، رعب کے ذریعہ مجھ کو نصرت عطا فرمائی گئی ہے اور ( ایک دن) جب کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دینے کے لئے لائی گئیں اور میرے سامنے پیش کردی گئیں۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ مجھے بشارت عطاء فرمائی کہ بڑے بڑے علاقوں اور شہروں کا فتح ہونا اور ان کے خزانوں اور مال و اسباب کا حاصل ہونا میرے لئے اور میری امت کے لئے آسان کردیا گیا۔ یا خزانوں سے مراد معدنیات ہیں جو زمین کے نیچے چھپی ہوئی ہیں جیسے سونا، چاندی اور دوسری قیمتی چیزیں۔

【33】

امت محمدیہ ﷺ کہ تئیں خصوصی عنایات ربانی :

اور حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے روئے زمین کو سمیٹا (یعنی اس کو سمیٹ کر ایک ہتھیلی کے برابر کردیا اور پھر مجھے دکھایا) چناچہ میں نے روئے زمین کو مشرق سے لے کر مغرب تک دیکھا اور میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ میری امت عنقریب روئے زمین کے تمام علاقوں کی بادشاہت سے سرفراز ہوگی، جو سمیٹ کر مجھ کو دکھائے گئے ہیں اور میں یہ بھی حقیقت ہے کہ مجھ کو سرخ اور سفید دو خزانے عطا کئے گئے ہیں۔ نیز میں نے اپنے پروردگار سے التجا کی کہ میری امت کے لوگوں کو عام قحط میں نہ مارے (یعنی ایسا قحط نہ مسلط کرے جس میں مبتلا ہو کر پوری امت ہلاک ہوجائے) اور یہ کہ میری امت پر مسلمانوں کے علاوہ کسی (غیر مسلم دشمن کو مسلط نہ کرے جوان کی اجتماعیت اور ملی نظام کے مرکز پر قبضہ کرلے۔ چناچہ میرے رب نے فرمایا اے محمد ﷺ جب میں کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہوں تو وہ بدلا نہیں جاسکتا، پس تمہاری امت کے حق میں تمہیں اپنا یہ عہد و فیصلہ دیتا ہوں کہ مسلمانوں کو نہ تو قحط میں ہلاک کروں گا اور نہ خود ان کے علاوہ کوئی اور دشمن ان پر مسلط کروں گا جو ان کی اجتماعیت اور ملی نظام کے ایک مرکز پر قبضہ کرلے اگرچہ ان (مسلمانوں) پر تمام روئے زمین کے غیر مسلم دشمن جمع ہو کر حملہ آور ہوں الاّ یہ کہ تمہاری امت ہی کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں اور ایک دوسرے کو قید وبند کی صعوبت میں ڈالیں۔ (مسلم) تشریح سرخ اور سفید خزانوں، سے سونے اور چاندی کے خزانے مراد ہیں اور دونوں خزانوں کے ذریعہ کسری بادشاہ فارس اور قیصر بادشاہ روم کی سلطنت وممکت کی طرف اشارہ مقصود ہے، کیونکہ اس زمانہ میں فارس میں سونے کے اور روم میں چاندی کے ذخائر اور خزینے بہت زیادہ تھے، پس آپ ﷺ نے پیشگوئی فرمائی کہ میری امت کے لوگ جلد ہی وقت کی ان دونوں عظیم سلطنتوں پر قابض وحکمران ہوجائیں گے اور ان کے تمام خزانے اور مال و اسباب مسلمانوں کے ہاتھ لگیں گے، چناچہ یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ الاّیہ کہ تمہاری امت ہی کے لوگ آپس میں۔۔۔۔۔ الخ۔ اس جملہ کا سیاق وسباق اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو دو چیزوں سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ومامون کردیا ہے، ایک یہ تو یہ کہ عام قحط وفاقہ کشی کی ایسی صورت حال کہ جو مجموعی طور پر تمام مسلمانوں کو ہلاک وفنا کردے کبھی پیش نہیں آئے گی، دوسرے یہ کہ اگر تمام روئے زمین کی اسلام دشمن اور مسلم مخالف طاقتیں مل کر بھی یہ چاہیں مسلمانوں کی دینی واجتماعی ہئیت کے مرکز اور ان کی مجموعی طاقت کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ان کے تمام علاقوں پر قبضہ کر بھی لیں تو ایسا کبھی نہیں ہوگا، یہ اور بات ہے کہ خود مسلمانوں میں باہمی افتراق و انتشار پیدا ہوجائے، بھائی بھائی کا گلا کانٹے لگے، ایک مسلمانوں کی ملی ودینی اجماعیت اور ان کے سیاسی مرکز کو نقصان پہنچا دے یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مقدر ہوچکا ہے، اس فیصلہ کو نہ کوئی بدل سکتا ہے اور نہ کوئی اس کے خلاف کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔

【34】

اپنی امت کے حق میں آنحضرت ﷺ کی وہ دعا جو قبول نہیں ہوئی ،

اور حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ (انصار کے ایک قبیلہ) بنی معاویہ کی مسجد کے قریب سے گذرے تو اندر (مسجد میں) تشریف لائے اور وہاں دو رکعت نماز پڑھی، اس میں آپ کے ساتھ ہم بھی شریک ہوئے، (نماز کے بعد) ﷺ نے اپنے پروردگار سے بڑی طویل دعا مانگی (یعنی بہت دیر تک دعا میں مصروف رہے) پھر جب نماز ودعا سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں نے (آج اپنی دعا میں) اپنے پروردگار سے تین چیزیں مانگی تھیں، ان میں سے دو چیزیں تو مجھے عطا فرما دی گئیں اور ایک چیز سے منع کردیا گیا، ایک چیز کی درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو قحط عام میں ہلاک نہ کیا جائے، یہ درخواست قبول فرمائی گئی، دوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو پانی میں غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے ( یعنی جس طرح فرعون کی قوم دریائے نیل میں غرق کرکے ہلاک کردی گئی، یا نوح (علیہ السلام) کی قوم پانی کے طوفان میں مبتلا کر کے نیست ونابود کردی گئی۔ اس طرح میری پوری امت پانی میں ڈبوکر ہلاک نہ کی جائے) اور میری یہ درخواست بھی قبول فرمائی گئی تیسری درخواست یہ تھی کہ میری امت کے لوگ آپس میں دست و گریبان نہ ہوں (یعنی مسلمان، مسلمان سے برسرپیکار نہ ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی نہ کریں) لیکن میری یہ درخواست قبول نہیں ہوئی۔ (مسلم) تشریح بنومعاویہ انصار مدینہ کے ایک قبیلہ کا نام تھا آنحضرت ﷺ ایک دن اس قبیلہ میں تشریف لے گئے ہوں گے کسی فرض نماز کا وقت آگیا ہوگا اور آپ ﷺ نے وہ فرض نماز اس قبیلہ کی مسجد میں ادا فرمائی یا یہ کہ آپ ﷺ نے اس نماز میں التحیات کے دوران یا سلام پھیر کر اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے حق میں جو تین دعائیں مانگیں اور ان میں سے جو ایک دعا قبول نہیں ہوئی تو اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام کی بھی بعض دعا قبول نہیں ہوتی تھی۔

【35】

تورات میں آنحضرت ﷺ کے اوصاف کا ذکر :

اور حضرت عطاء ابن یسار (مشہور جلیل القدر تابعی) کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمروابن عاص کی ملاقات سے مشرف ہوا، تو ان سے عرض کیا کہ (یہودیوں کی آسمانی کتاب) تورات میں رسول کریم ﷺ جن کی جو صفات و خصوصیات ذکر ہے ان کے بارے میں مجھے کچھ بتائے ! حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ضرور بتاؤں گا، اللہ کی قسم تورات میں آنحضرت ﷺ کی ان بعض صفات و خصوصیات کا ذکر ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہیں، چناچہ (اللہ تعالیٰ نے تورات میں آپ ﷺ کی جو صفات و خصوصیات ذکر کی ہیں، ان کو اپنی زبان اور اپنے اسلوب میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ) اے نبی، ہم نے تمہیں اہل ایمان کا شاہد، اجروانعام کی خوشخبری دینے والا، عذاب و عتاب سے ڈارنے والا اور امیوں کو پناہ دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اے محمد ﷺ تم میرے بندے ہو ( کہ عبودیت و بندگی کا وہ مرتبہ خاص تمہیں حاصل ہے جو کسی اور کو نصیب نہیں) تم (بندوں کی طرف بھیجے جانے والے میرے خاص رسول ہیں، میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے ( یعنی تمہیں توکل و اعتماد کی وہ دولت عطا کی ہے جو کسی اور کو نہیں ملی، اسی بناء پر تم اپنے تمام معاملات ومہمات میں اپنی طاقت و صلاحیت پر اعتماد کرنے کے بجائے صرف میری ذات اور میرے حکم پر بھروسہ رکھتے ہو) نہ تم بدخوہو، نہ سخت گو اور سخت دل ہو اور نہ بازاروں میں شوروغل مچانے والے ہو۔ تورات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ) وہ (محمد) برائی کو برائی کے ساتھ دور نہیں کریں گے ( یعنی وہ اپنے ساتھ برائی کرنے والے سے انتقام نہیں لیں گے اور سزا نہیں دیں گے) بلکہ درگذر کریں گے اور (احسان پر احسان یہ کریں گے کہ) برائی کرنے والے کے لئے دعائے مغفرت کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ان محمد ﷺ کی روح کو اس وقت قبض نہ کرے گا جب تک ان کہ ذریعہ کج رو اور گمراہ قوم کو راہ راست پر نہ لے آئے اس طرح کہ قوم کے لوگ اعتراف و اقرار کرلیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس وقت ان کی روح قبض نہیں کی جائے گی) جب تک کہ اللہ تعالیٰ کلمہ طیبہ (لاالہ الا اللہ) کے ذریعہ اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور بےحس دلوں کو درست نہ کردے۔ اس روایت کو بخاری نے ( عطاء ابن یسار سے) نقل کیا ہے نیز یہی حدیث دارمی نے بھی عطاء ابن یسار ہی سے نقل کی ہے، البتہ دارمی میں عطاء ابن یسار کی یہ روایت ( عبداللہ ابن عمر و ابن عاص کے بجائے) عبداللہ ابن سلام سے منقول ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی وہ روایت ( جو آنحضرت ﷺ کے فضائل سے متعلق ہے اور) جس کی ابتداء نحن الاخرونکے الفاظ سے ہوتی ہے باب الجمعہ میں نقل کی جاچکی ہے۔ تشریح حضرت عبداللہ ابن عمر وابن عاص نہایت عالم فاضل قاری حافظ صحابی تھے، کتابت خوب جانتے تھے، پچھلی آسمانی کتابوں تورات و انجیل پر بھی ان کی اچھی نظر تھی، حضور ﷺ ان کو اپنی احادیث لکھنے کی اجازت عطا فرمائی تھی چناچہ آپ ﷺ سے سنتے تھے لکھ لیتے تھے، اس لئے حضرت ابوہریرہ (رض) کی طرح یہ بھی کثیر الاحادیث ہیں اور بہت سے تابعین آپ سے حدیثیں نقل کرتے ہیں۔ بہرحال حضرت عبداللہ ابن عمر نے چونکہ توراۃ پڑھ رکھی تھی اور انہیں معلوم تھا کہ اس آسمانی کتاب میں ہمارے حضرت ﷺ کے بارے میں کیا کیا پیشین گوئیاں ہیں اور آپ کے کن فضائل و اوصاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس لئے انہوں نے حضرت عطاء ابن یسار کے سوال پر بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے جو بعض اوصاف و فضائل قرآن کریم میں ذکر کئے ہیں اور جن کو ہم نے آپ ﷺ کی زندگی میں دیکھا بھی ہے وہ تورات میں بھی مذکور ہیں، پھر انہوں نے کچھ تفصیل کے ساتھ آنحضرت کے ان اوصاف و فضائل کو بیان کیا ہے جو تورات میں مذکور ہیں، نیز انہوں نے تورات میں مذکور باتوں کو بیان کرنے کے لئے تفنن عبارت کے طور پر شروع میں وہی اسلوب اختیار کیا جو قرآن میں آنحضرت ﷺ کو خطاب کیا ہے اور پھر وہ اسلوب بھی اختیار کیا جو تورات میں آنحضرت ﷺ کے متعلق پیش گوئی کا ہے۔ امیوں کو پناہ دینے والا میں امیوں سے مراد اہل عرب ہیں اور ان کو امی سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ ان کی اکثریت پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی۔ اور یا ان کو ام القری ( یعنی اہل مکہ کی طرف منسوب کرکے امی کہا گیا۔ نیز یہاں اہل عرب کی تخصیص اس لئے ہے کہ آنحضرت ﷺ کا نسلی و وطنی تعلق انہی سے ہے اور انہی میں مبعوث فرمائے گئے، تاکہ ان کو غیر عرب کے غلبہ تسلط سے محفوظ رکھیں اور سب سے پہلے ان ہی کو ایمان و اخلاق کے ہتھیار سے مسلح کرکے ان کی حفاظت و فلاح کا سامان کریں ! اور اگر (شیطانی گمراہیوں اور نفسانی آفات سے پناہ مراد لی جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کا برکت وجود تمام ہی عالم کے لئے پشت پناہ ہے۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ پناہ سے مراد آنحضرت ﷺ کی قوم وملت کا اس وقت تک عذاب الہٰی میں مبتلا ہونے اور تباہ وہلاک ہوجانے سے محفوظ ومامون رہنا ہے جب تک آپ ﷺ اپنی قوم وملت کے درمیان موجود ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (مسلمانوں) پر عذاب نازل کرے اور آپ ﷺ ان میں موجود ہوں۔ اور نہ بازاروں میں شوروغل مچانے والے ہو میں بازار کی تخصیص محض اس بنا پر ہے کہ عام طور پر شور وغل اور سنجیدہ حرکتوں کی جگہ بازار ہی ہے، جہاں اچھے اچھے لوگ بھی پہنچ کر اپنی متانت وسنجیدگی کھو دیتے ہیں۔

【36】

مسلمانوں کے لئے آنحضرت ﷺ کی تین دعائیں :

حضرت خباب بن ارت کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور اس کو خلاف معمول کافی طویل کیا ہم نے (نماز سے فراغت کے بعد) عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ آج تو آپ ﷺ نے ایسی طویل نماز پڑھی کہ کبھی بھی اتنی طویل نماز نہیں پڑھی تھی ؟ فرمایا ہاں یہ نماز (بہت زیادہ طویل اس وجہ سے ہوئی کہ یہ) امید و خواہش اور خوف و دہشت کی نماز تھی (یعنی اس نماز میں کے دوران اللہ تعالیٰ سے کچھ دعائیں مانگ رہا تھا اور ان دعاؤں کی قبولیت کی امید تھی وہیں عدم قبولیت کا خوف بھی تھا اس لئے میں بہت زیادہ خشوع و خضوع اور عرض والتجا میں مصروف رہا جس سے پوری نماز بہت طویل ہوگئی) حقیقت یہ ہے کہ میں نے نماز میں اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کی التجا کی، ان میں سے دو مجھ کو عطا کردی گئیں اور ایک سے انکار کردیا گیا، میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک التجا تو یہ کی تھی کہ میری امت کو عام قحط (یا اسی طرح کی کسی بھی ایسی آفت وبلا) میں مبتلانہ کرے جس سے (پوری) امت ہلاک وتباہ ہوجائے، میری یہ التجا پوری ہوئی، دوسری التجایہ تھی کہ مسلمانوں پر کوئی (ایسا) غیر مسلم دشمن مسلط نہ کیا جائے (جو اپنی اسلام اور مسلم دشمنی میں انہیں نیست ونابود کردے) میری یہ التجا بھی پوری ہوئی، میں نے تیسری التجا یہ کی تھی کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہلاکت و عقوبت سے دوچار نہ کریں (یعنی ان کا باہمی اتحاد ہمیشہ بنا رہے، وہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرانہ ہوں اور آپس میں لڑائی جھگڑے کرکے اپنی ملی ملت کو کمزور نہ کریں) لیکن میری یہ التجا قبول نہیں ہوئی ،۔

【37】

مسلمان تین چیزوں سے محفوظ رکھے گئے ہیں :

اور حضرت ابوموسی اشعری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (مسلمانو ! ) اللہ تعالیٰ نے تمہیں تین چیزوں سے محفوظ رکھا ہے، ایک تو یہ کہ تمہارا نبی تمہارے لئے بدعا نہ کرے جس سے تم ہلاک ہوجاؤ (جیسا کہ پہلے بعض انبیاء نے بدعا کرکے اپنی قوم کو ہلاک و برباد کرادیا) دوسرے یہ کہ باطل و گمراہ لوگ اہل حق پر غالب نہ ہوں، تیسرے یہ کہ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو (ابوداؤد) تشریح باطل و گمراہ لوگ اہل حق پر غالب نہ ہوں کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن، طاقت اور تعداد کے اعتبار سے بہت ہوں اور مسلمان کم ہوں تب بھی وہ تمام مسلمانوں کو ہرگز مٹا نہیں سکیں گے چناچہ حاکم نے حضرت عمر کی یہ روایت نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت آنے تک ہمیشہ میری امت میں سے کوئی نہ کوئی گروہ حق کے ساتھ غالب نہ رہے گا اور ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) یہ روایت منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہمیشہ میری امت میں سے کوئی نہ کوئی گروہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گا اور ان کا دشمن ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ سارے مسلمان کسی فاسد نظریہ اور کسی غلط کام پر متفق ومتحد ہوجائیں، یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں کے کچھ افراد یا کچھ طبقے اپنے اغراض کی خاطر کسی اسلامی بات کو قبول کرلیں اور اس کو جائز قرار دینے لگیں، لیکن یہ ممکن نہیں کہ پوری دنیا کے مسلمان یا مسلمانوں کا سواداعظم اس غیر اسلامی بات پر جمع ہوجائے۔ حدیث کا یہ جملہ گویا اس امر کی دلیل ہے کہ اجماع حجت ہے اور اجماع سے مراد اپنے زمانہ کے مجتہد وبا بصیرت علماء کا کسی حکم شرعی پر متفق ہونا ہے ،

【38】

مسلمان آپس کے افتراق وانتشار کے باوجود اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونگے :

اور حضرت عوف ابن مالک کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس امت کے خلاف دو تلواروں کو اکٹھا نہیں کرے گا ایک تو خود مسلمانوں کی اور دوسری ان کے دشمنوں کی (ابو داؤد) تشریح یہ خدائی فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کبھی بھی دو تلواریں جمع نہیں ہوں گی جن سے پوری ملی طاقت تہ وبالا ہوجائے اور مسلمان بحیثیت مجموعی ختم ہوجائیں ! دو تلواروں کے جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو مسلمان آپس میں دست و گریبان ہوں، باہمی افتراق و انتشار کا شکار ہوں، ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے میں مصروف ہوں اور دوسری طرف سے ان کا مشترکہ دشمن یعنی کوئی غیر مسلم طاقت ان پر حملہ آور ہو اور ان باہمی افتراق و انتشار کا فائدہ اٹھا کر ان پر غلبہ و تسلط حاصل کرلے اور ان کو مٹا کر رکھ دے، تورپشتی نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ جب مسلمان آپس میں لڑنے جھگڑنے لگینگے اور ان میں اتحاد و اتفاق کی جگہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اتنی شدت اختیار کر جائے کہ ملی شیرازہ منتشر ہونے لگے، تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسی غیر مسلم طاقت مسلط کردے گا جس کا ظلم وجور مسلمانوں کی ملی اتفاق و اتحاد کے جھنڈے کے نیچے لے آئے گا اور وہ آپس میں لڑنا جھگڑنا چھوڑ کر باہم شیروشکر ہوجائیں گے۔ اور طیبی نے یہ لکھا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اس امت کے لوگوں کو ایک ساتھ دو لڑائیوں کا شکار نہیں بنایا جائے گا، کہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑیں اور کسی غیر مسلم دشمن کے خلاف بھی نبرد آزما ہوں، بلکہ جب ان کو اپنے غیر مسلم دشمن کی جارحیت اور استیصال کا سامنا ہوگا تو وہ اپنے تمام باہمی اختلاف اور لڑائی جھگڑے مٹا کر اس دشمن کے مقابلہ پر یکجا اور متحد ہوجائیں گے۔

【39】

آنحضرت ﷺ کی نسلی ونسبی فضیلت :

اور حضرت عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ایک دن) کفار کو نبی کریم ﷺ کی شان میں ہرزہ سرائی کرتے سنا تو (افسوس اور غصہ میں بھرے ہوئے آپ ﷺ کی میں آئے ( اور بتایا کہ کفار یہ بکو اس کررہے ہیں کہ اگر اللہ میاں کو مکہ ہی کے کسی شخص کو اپنا نبی اور رسول بنانا تھا تو اس شہر کے بڑے بڑے صاحب دولت و ثروت اور اونچے درجے کے سرداروں کو چھوڑ کر محمد ﷺ کا انتخاب کیوں کرتا) آنحضرت ﷺ (نے یہ سنا تو واضح کرنے کے لئے نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت وعزت کے اعتبار سے آپ ﷺ کی شان کیا ہے اور مرتبہ نبوت پر فائز ہونے کے لئے دوسروں کے مقابلہ آپ ﷺ کی حیثیت و اہمیت کیا ہے) منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو، میں کون ہوں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں آپ ﷺ نے فرمایا (ہاں میں اللہ کا رسول ہوں، لیکن میری نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت کیا ہے، اس کو جاننے کے لئے سنو) میں عبداللہ بن عبد المطلب کا بیٹا محمد ﷺ ہوں اور عبد المطلب وہ ہستی ہیں جو عرب میں نہایت بزرگ ومعزز، بڑے شریف وپاکباز اور انتہائی مشہور و معروف تھے) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق (جن و انسان) کو پیدا کیا تو مجھے اس مخلوق میں سے بہترین مخلوق (نوع انسانی) میں پیدا کیا پھر اس بہترین مخلوق (نوع انسانی) کے اللہ تعالیٰ نے دو طبقے کئے (ایک عرب دوسراعجم) اور مجھے ان دونوں طبقوں میں سے بہترین طبقہ (عرب) میں پیدا کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین طبقہ (عرب) کو قبائل در قبائل کیا (یعنی اس طبقہ کو مختلف قبیلوں اور قوموں میں تقسیم کیا) اور مجھے ان قبائل میں سے بہترین قبیلہ (قریش) میں پیدا کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین قبیلہ (قریش) کے مختلف گھرانے بنائے اور مجھے ان گھرانوں میں سے بہترین گھرانے (بنوہاشم) میں پیدا کیا، پس میں ان (تمام نوع انسانی اور تمام اہل عرب) میں ذات وحسب کے اعتبار سے بھی سب سے بہتر واعلی ہوں اور خاندان وگھرانے کے اعتبار سے بھی سب سے اونچا ہوں (ترمذی) تشریح حضور ﷺ نے اپنی نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت و فضیلت کا اظہار کرکے گویا یہ واضح کیا کہ اللہ کا آخری نبی بننے اور اللہ کی آخری کتاب پانے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت الہٰی اس کا لحاظ رکھتی تھی کہ مرتبہ نبوت و رسالت پر فائز ہونے والی ہستی حسب اور خاندان کے اعتبار سے بلند درجہ اور عالی حیثیت ہو لیکن انبیاء کی ذات کے لئے حسب ونسب کی عظمت و برتری کا لازم ہونا کوئی بنیادی چیز نہیں ہے، اس کا تعلق محض ان لوگوں کے خلاف اتمام حجت سے ہے جو حسب ونسب کی بڑائی اور خاندانی وجاہت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جیسا کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت جاہل اور بیوقوف کفار کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ کی آخری کتاب قران کو نازل کیا جانا تھا اور نبوت و رسالت قائم کی جانی تھی تو اس کے لئے عرب کے بڑے سرداروں میں سے کسی کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا ! ور نہ جہان تک نفس نبوت کا تعلق ہے وہ خود اتنا بڑا شرف ہے جس کے سامنے کسی کی بھی بڑی سے بڑی وجاہت اور عظمت بےحیثیت چیز ہے، اس کا حصول نہ حسب ونسب کی عظمت و بلندی پر موقوف ہے اور نہ کسی اور سبب و ذریعہ پر بلکہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اس نے جس کو چاہا اس شرف و مرتبہ کے لئے منتخب فرمایا قرآن کریم میں ارشاد ہے اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ اس کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کے لئے کس کو منتخب کرے ایک اور موقع پر فرمایا۔ و اللہ یختص برحمتہ من یشاء واللہ ذو الفضل العظیم۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت (عنایت) کے ساتھ جس کو منظور ہوتا ہے مخصوص فرما لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل (کرنے) والے ہیں۔ وکان فضل اللہ علیک عظیما۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو (اپنی کتاب اور علم ونبوت عطا کر کے) بڑے فضل سے نوازا۔

【40】

آنحضرت ﷺ کی نبوت حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود پذیر ہونے سے بھی پہلے تجویز ہوگئی تھی :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ نبوت کے لئے آپ ﷺ کس وقت نامزد ہوئے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت جب کہ آدم (علیہ السلام) روح اور بدن کے درمیان تھے (ترمذی) تشریح مطلب یہ کہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی مرتبہ نبوت و رسالت کے لئے اس وقت نامزد بھی ہوچکی تھی۔ جب کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی روح ان کے پیکر خاکی سے متعلق بھی نہیں ہوئی تھی اور ان کا پتلا زمین پر بےجان پڑا تھا۔ یہ جملہ دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود میں آنے سے بھی پہلے متعین ومقرر ہوچکی تھی۔

【41】

آنحضرت ﷺ اور ختم نبوت :

اور حضرت عرباض ابن ساریہ رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی وقت سے خاتم النبین لکھا ہوا ہوں جب کہ آدم (علیہ السلام) اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ اور میں تمہیں بتاتا ہوں میرا پہلا امر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت ہے اور میری ماں کا خواب ہے جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا، حقیقت یہ ہے کہ میری ماں کے سامنے ایک نور ظاہر ہوا تھا جس نے ان پر شام کے محلات کو روشن کردیا تھا۔ اس روایت کو بغوینے (اپنی اسناد کے ساتھ) شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔ نیز امام احمد نے بھی اس روایت کو ساخبرکم سے آخرتک ابوامامہ سے نقل کیا ہے تشریح وان ادم لمنجدل فی طینہ۔ میں لفظ طینہ کے معنی گوندھی ہوئی مٹی، کیچڑ اور گارے کے ہیں خلقت اور جبلت کو بھی طینت کہتے ہیں۔ حضور ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ میرا خاتم النبیین کی حیثیت سے اس دنیا میں مبعوث ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت لکھا جا چکا تھا جب آدم (علیہ السلام) آب وگل کے درمیان تھے اور نہ صرف یہ کہ ان کے پتلے میں جان نہیں پڑی تھی بلکہ ان کا پتلا بن کر تیار بھی نہیں ہوا تھا بن رہا تھا۔ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق و پیدائش سے بھی پہلے متعین ومقرر ہوجانے سے کیا مراد ہے ؟ اگر اللہ تعالیٰ کے علم اور تقدیر الہٰی میں ہونا مراد ہے تو یہ بات تمام ہی انبیاء کے متعلق کہی جاسکتی ہے، آنحضرت ﷺ کی تخصیص کے کیا معنی اور اگر آنحضرت ﷺ کی نبوت کا بالفعل ظاہر ہونا مراد ہے تو یہ خلاف واقعہ ہوگا، کیونکہ بالفعل کا تعلق اس دنیا سے ہے اور ظاہر ہے کہ اس دنیا میں آنحضرت ﷺ کی نبوت کا کا اظہار حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق و پیدائش کے ہزاروں سال بعد ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل مراد آنحضرت ﷺ کی نبوت کا تمام فرشتوں اور روحوں میں ظاہر و متعارف کردیا جانا ہے، جیسا کہ ایک روایت میں آنحضرت ﷺ کے اسم شریف کا عرش، آسمان اور جنت کے محلات وبالاخانوں پر حورعین کے سینوں پر، جنت کے درختوں اور طوبی درخت کے پتوں پر اور فرشتوں کی آنکھوں اور بھوؤں پر لکھا ہونا منقول ہے۔ اور بعض عارفین نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روح مبارک عالم ارواح میں تمام روحوں کی تربیت و اصلاح کرتی تھی جیسا کہ اس دنیا میں تشریف لانے کے بعد آپ ﷺ کی ذات گرامی اس دنیا میں اجسام انسانی کی مربی ومصلح ہوئی اور یہ بات کسی شک وشبہ کے بغیر ثابت ہے کہ تمام روحیں اپنے اجسام سے بہت پہلے عالم وجود میں آچکی تھیں۔ میرا پہلا امر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہے۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے یہ واضح فرمایا کہ میرا خاتم النبیین ہونا نہ صرف یہ کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود پذیر ہونے سے پہلے تجویز اور عالم بالا میں ظاہر ہوچکا تھا بلکہ اس دنیا میں بھی میری جسمانی پیدائش سے بہت پہلے مختلف انبیاء کے ذریعہ میری نبوت و رسالت اور میرے علو مرتبہ کا ظہور ہوچکا تھا اس کی دلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ دعا ہے جو انہوں نے میری رسالت کے متعلق خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت کی تھی اور جس کو قرآن کریم میں اس طرح نقل کیا گیا ہے ربنا وابعث فیہم رسولا منہم یتلوا علیہم ایتک ویعلمہم الکتب والحکمۃ ویزکیہم انک انت العزیزالحکیم۔ میرے پروردگار اور اس جماعت (اسمٰعیل کی اولاد) میں ان ہی کا ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کردیجئے جوان لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیا کرے اور ان کو پاکیزہ کردیں بلاشبہ آپ ہی غالب القدرۃ اور کامل الانتظام ہیں۔ اسی طرح اس دنیا میں میری آمد سے کہیں پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے میری نبوت و رسالت کی خوشخبری دے دی تھی، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد۔ اور (اے بنی اسرائیل) میرے بعد جو ایک رسول آنے والے ہیں اور جن کا نام احمد ہوگا میں ان کی بشارت دینے والا ہوں۔ نیز میری پیدائش سے پہلے میری والدہ محترمہ کا بشارت انگیز خواب دیکھنا اور میری پیدائش کے وقت ان کے ساتھ حیرت ناک واقعات و حالات کا پیش آنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ میری نبوت و رسالت کانور، اس دنیا میں میرے مبعوث ہونے سے پہلے ہی پر تو فگن ہوچکا تھا۔ حدیث کے اس جملہ جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کے تحت طیبی وغیرہ شارحین نے لکھا ہے کہ ان الفاظ کی مراد خواب میں دیکھنا بھی ہوسکتا ہے اور حالت بیداری میں دیکھنا بھی، پہلی صورت میں پیدائش کے وقت سے کچھ پہلے عرصہ مراد ہوگا جیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے ہاں ولادت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے خواب میں دیکھا ایک فرشتہ آیا اور کہہ رہا ہے کہ کہو میں اس بچہ کو (جو میرے پیٹ سے پیدا ہونے والا ہے یعنی آنحضرت ﷺ ہر حسد کرنے والے کے شر سے خدائے واحد کی پناہ میں دیتی ہوں حضرت آمنہ نے اس سے پہلے استقرار حمل کے وقت بھی خواب میں دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ آیا اور کہنے لگا کہ کیا تم جانتی ہو تمہارے پیٹ میں اس امت کا سردار نبی ہے۔ دوسری صورت میں بحالت بیداری دیکھنا مرادہو، کہا جائے گا کہ انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا۔ کا تعلق اس چیز کے دیکھنے سے ہے جس کا ذکر اس جملہ میں محذوف ہے، مگر آگے کی عبارت اس کی پوری وضاحت کرتی ہے اور بعض روایتوں میں بھی آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے وقت ایسا نور ظاہر ہوا کہ جس سے شام کے محلات تک روشن و نمایاں ہوگئے، اس کی حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ اس وقت دنیا میں اس ہستی کا ظہور ہوا ہے جس کی نبوت و رسالت کی روشنی مشرق سے لے کر مغرب تک پوری روئے زمین کو منور کردے گی اور کفروضلالت کا اندھیرا ہلکا پڑجائے گا۔

【42】

آنحضرت ﷺ کے خصائص :

اور حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میں تمام بنی آدم کا سردار بنوں گا اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا (قیامت کے دن مقام محمود میں) حمد کا نیزہ میرے ہاتھ میں ہوگا اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا، اس دن کوئی بھی نبی خواہ وہ آدم ہوں، یہ کوئی اور، ایسا نہیں ہوگا جو میرے نیزے کے نیچے نہیں آئے گا۔ اور (قیامت کے دن) سب سے پہلے میں زمین پھٹ کر اٹھوں گا اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔ (ترمذی) تشریح اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔ سے آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ میرا یہ کہنا شیخی مارنے، اترانے اور خواہ مخواہ کی بڑائی جتانے کے طور پر نہیں ہے بلکہ پروردگار نے اس فضل و برتری کی جو نعمت مجھے عطا فرمائی ہے اس کا اقرار و اظہار کرنے، اس نعمت پر شکر ادا کرنے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم واما بنعمۃ ربک فحدث کی بجا آوری کے لئے ہے، علاوہ ازیں میں اس بات اظہار و اعلان اس لئے بھی کررہا ہوں تاکہ لوگ میری قدرومنزلت اور میری حیثیت و عظمت کو جانیں اس پر اعتقاد رکھیں اور اس کے مطابق میری تو قیر و تعظیم اور میری محبت کے ذریعہ ایمان کو مضبوط بنائیں۔ لوائ کے معنی جھنڈے اور پرچم کے ہیں لیکن نیزہ کو بھی کہتے ہیں حمد کا نیزہ میرے ہاتھ میں ہوگا سے مراد قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کا اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا میں نام آور ہونا ہے، اگر ترجمہ یوں کیا جائے کہ حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا تو اس کی مراد بھی یہی ہوگی کیونکہ جس طرح اہل عرب کسی معاملہ میں اپنی شہرت وناموری کے اظہار کے لئے نیزہ کھڑا کردیا کرتے تھے اسی طرح پرچم بھی عظمت و بلندی اور ناموری کے اظہار کی علامت سمجھا جاتا ہے مطلب یہ کہ اس دن جب یہ نیزہ یا جھنڈہ آپ ﷺ کے ہاتھ میں آئے گا تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کا دل ایسا کھول دے گا کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کو وہ تعریف کریں گے جو کوئی دوسرا نہ کرسکے گا واضح رہے کہ آپ کی امت حمادین کہلاتی ہے یعنی ایسے لوگ جو ہر حالت میں، خواہ خوشی کا موقع ہو یا غمی کا، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتے ہیں قیامت کے دن آپ ﷺ کی ذات حامد بھی ہوگی اور محمود بھی اور آپ اللہ تعالیٰ کے حمد کے ذریعہ ہی شفاعت کا دروازہ کھلوائیں گے جیسا کہ اس دنیا میں بادشاہوں اور سرابر اہان مملکت کی عظمت و شوکت کے اظہار اور ان کی حیثیت کو ممتاز کرنے کے لئے ان کا اپنا الگ پرچم نصب ہوگا۔

【43】

آنحضرت ﷺ اللہ کے حبیب ہیں :

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ کے کچھ صحابی (مسجد نبوی میں) بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ اپنے حجرہ مبارکہ سے نکلے اور جب ان کے قریب پہنچے تو ان کی باتیں کان میں پڑیں آپ ﷺ نے ایک صحابی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل قرار دیا دوسرے صحابی نے کہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے شرف تکلم سے نوازا، ایک اور صحابی نے کہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں (یعنی وہ نظام قدرت کے مروجہ اسباب و ذرائع کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے شیرخواری کے زمانہ میں پالنے میں لوگوں سے باتیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے روح الامین کو ان کی ماں کے پاس بھیجا جس نے پھونک ماری اور اس کے نتیجہ میں ان کی پیدائش ہوئی، اس کے علاوہ ان کی روحانیت کے امور بہت سے آثار وکرشمے ظاہر ہوئے یہاں تک کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتے تھے) ایک صحابی نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو برگزیدہ کیا (یعنی انسان اول ہونے کے لئے انہیں کا انتخاب کیا ان کو تمام چیزوں کے نام سکھائے اور ان کے سامنے فرشتوں سے سجدہ کرایا) بہرحال (صحابہ اپنی باتوں کے دوران نبیوں کے خصوصی اوصاف تعجب کے ساتھ ذکر کر رہے تھے کہ) رسول کریم ﷺ ان کی مجلس تک پہنچ گئے اور فرمایا کہ میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں، تمہیں تعجب ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے خلیل یعنی دوست ہیں تو بیشک ان کی یہی شان ہے ( تمہیں تعجب ہے کہ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں تو بیشک ان کی بھی شان ہے، (تمہیں تعجب ہے کہ) حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے برگزیدہ کیا، تو بیشک ایسا ہی ہے اور ان کی یہی شان ہے۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہے کہ میں اللہ کا حبیب ہوں اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا، قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کرنے والا میں ہوں گا، سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا، جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والوں میں سب سے پہلا شخص میں ہی ہوں گا چناچہ اللہ تعالیٰ (فرشتوں کو حکم کے ذریعہ) جنت کا دروازہ میرے لئے کھول دے گا اور (سب سے پہلے) مجھے جنت میں داخل کرے گا اس وقت میرے ساتھ مؤمن فقراء ہوں گے اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا اور بلاشبہ تمام اگلے پچھلوں (خواہ وہ انبیاء ہوں یا دوسرے لوگ) سب ہی سے افضل واکرم ہوں اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔ (ترمذی) تشریح میں اللہ کا حبیب ہوں کے ضمن میں بعض شارحین نے تو یہ لکھا ہے کہ خلیل اور حبیب کے معنی دوست کے ہیں، لیکن حبیب اس دوست کو کہتے ہیں جو مجبوبیت کے مقام کو پہنچا ہوا ہو جب کہ خلیل مطلق دوست کو کہتے ہیں۔ اور ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ خلیل وہ دوست ہے جس کی دوستی کسی حاجت اور غرض کے تحت ہو جبکہ حبیب وہ دوست ہے جو اپنی دوستی میں بالکل بےلوث اور بےغرض ہو۔ واضح رہے کہ یوں تو تمام ہی انبیاء و رسول بلکہ تمام ہی اہل ایمان بارگاہ رب العزت کے دوست اور محبوب ہیں، لیکن دوستی اور محبوبیت کے بھی چونکہ مختلف درجات و مراتب ہوتے ہیں اس لئے یہاں گفتگو دوستی و محبوبیت کے اس درجہ و مرتبہ کے بارے میں ہے جو سب سے اعلی اور سب سے بہتر ہیں رہی یہ بات کہ بار گاہ رب العزت میں دوستی و محبوبیت کا سب سے بلندو برتر درجہ آنحضرت ﷺ کو حاصل ہے، تو اس کی سب سے بڑی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے (قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ) 3 ۔ ال عمران 31) (اے محمد) کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے دوستی رکھے گا۔ اس وقت میرے ساتھ مؤمن فقراء ہونگے، کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں سب سے پہلے آنحضرت ﷺ داخل ہوں گے اور پھر اہل ایمان میں سے جو طبقہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا وہ مہاجر و انصار صحابہ میں سے وہ حضرات ہوں گے جو مفلس وبے مایہ تھے اور جو اپنے اپنے درجات و مراتب کے اعتبار سے آگے پیچھے جنت میں جائیں گے، جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میری امت کے فقراء اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صبر و استقامت کی راہ اختیار کرنے والا فقیر (بھکاری نہیں) شکر گذار غنی سے بہتر ہے اور صوفیاء کے نزدیک فاقہ و احتیاج کا نام فقر نہیں بلکہ ان کے ہاں صرف اللہ تعالیٰ کا محتاج ہونے اور اللہ تعالیٰ سے بھی اس کی رضا و خوشنودی کے علاوہ اور کچھ نہ مانگنے کا نام فقر ہے امام ثوری نے کہا ہے کہ فقر یہ ہے کہ مال و اسباب نہ ہونے پر تسکین خاطر حاصل ہو اور مال میسر ہو تو اس کو خرچ کیا جائے آنحضرت ﷺ نے نفس کے فقر سے پناہ مانگی ہے اور غنائے نفس کی تعریف فرمائی ہے حاصل یہ کہ اصل چیز اللہ تعالیٰ رضا و خوشنودی ہے جو بھی حالت، خواہ وہ فقر ہو یا غنا اس چیز کے حصول سے باز رکھے وہ بری ہے تاہم عام طور پر غنا یعنی دولت مندی کی حالت انسان کو برائیوں میں مبتلا کرتی ہے جب کہ فقر کی حالت بہت سی برائیوں میں مبتلا ہونے سے باز رکھتی ہے، اس لئے حق تعالیٰ نے زیادہ تر انبیاء اور اولیاء کو فقر کی حالت میں رکھا اور ان کا فقر، ان کے ان کے مراتب و درجات میں بلندی کا باعث بنا، ایک دلیل یہ ہے کہ جب فقیر کافر کو دوزخ میں غنی کافر سے ہلکا عذاب ہوگا تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہی فقر مؤمن کو جنت میں فائدہ نہیں پہنچائے گا۔

【44】

امت محمدی کی خصوصیت :

اور حضرت عمرو بن قیس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (دنیا میں ظہور وجود کے اعتبار سے) ہم آخر میں ہیں لیکن قیامت کے دن ( جنت میں داخل ہونے اور اعلیٰ مراتب و درجات کے اعتبار سے) ہم اول ہوں گے اور میں تم سے ایک بات کہتا ہوں اور اس بات کے کہنے سے اظہار فخر مقصود نہیں ہے ( بلکہ ایک حقیقت کا اظہار مقصود ہے اور وہ یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) تو اللہ کے خلیل ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ ہیں اور میں اللہ کا حبیب ہوں کہ دنیا وآخرت میں میری حیثیت محب کی بھی ہے اور محبوب کی بھی) اور قیامت کے دن ( مقام محمود میں) حمد کا پرچم میرے پاس ہوگا ( جو میرے احمد اور محمد ہونے کی علامت ہوگا) نیز اللہ تعالیٰ نے میری امت کو (خیر کثیر عطا کرنے کا اور تین چیزوں سے بچانے کا وعدہ کیا ہے ایک تو یہ کہ وہ مسلمانوں کو عام قحط میں ہلاک نہیں کرے گا دوسرے یہ کہ کوئی دشمن ان کا استیصال نہ کرسکے گا یعنی دشمنان اسلام سارے مسلمانوں کو نیست ونابود نہ کرسکیں گے اور تیسرے یہ کہ تمام مسلمان کسی گمراہی پر اتفاق نہیں کریں گے یعنی یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ساری اسلامی دنیا کسی ایسی بات پر اتفاق کرلے جو گمراہی کا باعث ہو۔ (دارمی )

【45】

حضور ﷺ قائد المرسلین علیہم السلام اور خاتم النبیین ہیں :

اور حضرت جابر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (قیامت کے دن) میں تمام نبیوں اور رسولوں کا قائد ہوں گا (کہ تمام نبی و رسول میدان حشر میں آنے کے لئے میرے پیچھے آئیں گے اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا میں انبیاء (علیہم السلام) کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں یعنی نبوت مجھ پر ختم ہوگئی ہے اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا، شفاعت کرنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول ہوگی اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔ (دارمی)

【46】

قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کی عظمت وبرتری :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (قیامت کے دن) جب لوگوں کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا تو سب سے پہلے قبر میں سے میں نکلوں گا جب لوگ بار گاہ الٰہی میں پیش ہوں گے تو ان کی قیادت میں کروں گا، جب تمام لوگ خاموش ہوں گے تو میری زبان سب کی ترجمانی کرے گی اور جب لوگوں کو موقف میں روک دیا جائے گا تو ان کی خلاصی کے لئے شفاعت وشفارش میں کروں گا، جب لوگوں پر نا امیدی اور مایوسی چھائی ہوگی تو (اہل ایمان کو) مغفرت ورحمت کی بشارت دینے والا میں ہوں گا، اس (قیامت کے) دن شرف و کر امت اور جنت کی کنجیاں میرے ہاتھ میں (یعنی میرے تصرف) میں ہوں گی، اس دن حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا، اس دن پروردگار کے نزدیک آدم کے بیٹوں میں سب سے بزرگ و اشرف میری ہی ذات ہوگی، میرے آگے پیچھے ہزاروں خادم پھرتے ہوں گے جیسے وہ چھپے ہوئے انڈے یا بکھرے موتی ہیں، اس روایت کو ترمذی ودارمی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح جب تمام لوگ خاموش ہوں گے۔۔۔۔۔۔ الخ۔ میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب میدان حشر میں عام دہشت وہولنا کی چھائی ہوگی، ہر شخص متحیروسراسیمہ ہوگا کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ اپنی زبان سے دو لفظ ادا کرسکے اور کوئی عذر و درخواست پیش کرے تو اس وقت سردار دو عالم ﷺ ہی کی ذات گرامی آگے آئے گی آپ ﷺ سب کی طرف سے عذر و معذرت بیان کریں گے شفاعت کی درخواست پیش فرمائیں گے اور اس وقت جب کہ عام لوگ تو درکنار بڑے بڑے انبیاء کو بولنے کی مجال نہیں ہوگی، آپ ﷺ بارگاہ رب العزت میں گویا ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریف وثنا بیان فرمائیں گے جو اس کی شان کے لائق ہوگی اور اس طرح اس وقت آنحضرت ﷺ کے علاوہ اور کسی کو بولنے اور کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہوگی پس قرآن کریم میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ہذا یوم لاینطقون ولا یؤذن لہم فیعتذورن۔ یہ وہ دن ہوگا جس میں وہ لوگ نہ بول سکیں گے اور نہ ان کو (عذر کی) اجازت ہوگی ، تو آنحضرت ﷺ کی ذات اس سے مستثنیٰ ہے کہ آپ ﷺ کے علاوہ اور کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہوگی، یا یہ کہ اس آیت میں ابتدائی مرحلہ کا ذکر ہے کہ شروع میں کسی کو بھی بولنے کی اجازت نہیں ہوگی مگر بعد میں آنحضرت ﷺ کو اجازت عطا فرمائی جائے گی اور یا یہ کہ اس آیت کا تعلق صرف اہل کفر سے ہے۔ جب لوگوں پر نا امیدی ومایوسی چھائی ہوگی۔ کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو لوگوں پر سخت خوف و دہشت طاری ہوگی اور دوسری طرف وہ ایک ایک کرکے تمام ہی بڑے بڑے انبیاء سے شفاعت و سفارش کی درخواست کریں گے اور کوئی نبی ان کی طرف سے بولنے اور شفاعت کرنے کی جرأت نہ کرسکے گا، تو ان پر رحمت و مغفرت کی طرف سے نا امیدی چھاجائے گی تب آنحضرت ﷺ بار گاہ رب العزت میں ان کی شفاعت کریں گے اور ان کی مایوسی ونا امیدی کو ختم فرمائیں گے۔ چھپے ہوئے انڈوں سے مراد شترمرغ کے انڈے ہیں، آپ ﷺ نے غلاموں، خادموں اور حوروں کو شترمرغ کے انڈوں سے اس لئے تشبیہ دی کہ وہ (انڈے) گرد و غبار وغیرہ سے محفوظ ہونے کی وجہ سے صفائی ستھرائی کی علامت سمجھے جاتے ہیں، ان کا رنگ بھی ایسا سفید ہونے کی وجہ سے کہ جس میں کچھ زردی کی آمیزش ہو بہت پیارا مانا جاتا ہے اور مجمع البحار میں لکھا ہے کہ (چھپے ہوئے انڈوں سے) مراد سیپ کے موتی ہیں، جو لوگوں کے ہاتھوں اور نظروں سے بچے رہنے کی وجہ سے بڑی آب وتاب رکھتے ہیں۔ حاصل یہ کہ اس دن آنحضرت ﷺ کے آگے پیچھے دائیں بائیں جو خادم ہوں گے وہ صفائی ستھرائی، رنگ وروپ اور بالکل نئے نویلے ہونے کی وجہ سے نہایت بھلے معلوم ہونگے۔ یابکھرے ہوئے موتی ہوں۔ میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح آب وتاب رکھنے والے موتی، کسی لڑی میں پروئے ہوئے ہونے کی بہ نسبت یونہی بکھرے ہوئے زیادہ خوبصورت اور چمکدار لگتے ہیں اس طرح وہ خادم بھی آپ ﷺ کے چاروں طرف ادھر ادھر بکھرے ہوئے اور خدمت میں لگے ہوئے بہت زیادہ خوبصورت اور دلکش معلوم ہوں گے۔

【47】

حضور ﷺ عرش الہٰی کے دائیں جانب کھڑے ہوں گے۔ :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا (قیامت کے دن) مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہناجائے گا اور پھر میں عرش کے دائیں جانب کھڑا ہوں گا، جہاں میرے سوا مخلوق میں سے کوئی اور کھڑا نہیں ہوگا۔ اور جامع الاصول کی روایت میں، جو حضرت ابوہریرہ (رض) ہی سے منقول ہے، یوں ہے کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی اور میں باہر آؤں گا، پھر جنتی جوڑا پہنایا جائے گا الخ۔

【48】

آنحضرت ﷺ کے لئے |" وسیلہ |" طلب کرو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ( مسلمانو ! ) میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگا کرو صحابہ کرام نے ( یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول ﷺ یہ وسیلہ کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ جنت کے سب سے بڑے درجہ کا نام ہے جو صرف ایک شخص کو ملے گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ شخص میں ہوں۔ (ترمذی ( تشریح آنحضرت ﷺ کا امت کے لوگوں سے اپنے لئے وسیلہ منگوانا اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بیچارگی کے اظہار کے لئے اور کسر نفسی کے طور پر ہے یا یہ مقصد ہے کہ میری امت کے لوگ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ کی درخواست کیا کریں گے۔ تو اس کی وجہ سے ان لوگوں کو فائدہ ہوگا اور ثواب پائیں گے اور یا یہ کہ اس حکم کے ذریعہ آپ ﷺ نے امت کے لوگوں کو باہمی الفت تعلق کے اظہار کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر عزیز اور ہر دوست کی ترقی درجات اور بلندی و مراتب کی دعا کیا کرے۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ شخص میں ہوں آپ ﷺ نے یہ بات بھی اظہار تواضع و انکساری اور بار گاہ رب العزت میں پاس ادب کی بنا پر فرمائی ورنہ یہ طے شدہ ہے کہ جنت کا وہ سب سے بڑا درجہ جس کو وسیلہ سے تعبیر کیا گیا ہے صرف آپ ﷺ ہی کو ملے گا۔

【49】

آنحضرت ﷺ تمام انبیاء علیہم السلام کے امام ہوں گے :

اور حضرت ابی ابن کعب (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو میں ( مقام محمود میں کھڑا ہونگا اور) تمام انبیاء کا امام و پیشوا بنوں گا (جب ان میں کوئی بھی بولنے پر قادر نہیں ہوگا تو میں ان کی ترجمانی کروں گا اور سب کی شفاعت وشفارش کروں گا اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔ (ترمذی)

【50】

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آنحضرت ﷺ :

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر پیغمبر کے پیغمبروں سے ایک ایک رفیق اور ولی ہیں پس پیغمبروں میں جو پیغمبر میرے رفیق اور ولی ہیں وہ میرے باپ اور پروردگار کے خلیل حضرت ابر اہیم (علیہ السلام) ہیں۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے (اپنے اس قول کی دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھی (اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 3 ۔ ال عمران 68) ترجمہ بلاشبہ سب آدمیوں میں زیادہ خصوصیت رکھنے والے (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ البتہ وہ لوگ تھے جہنوں نے (ان کے زمانہ میں) ان کا اتباع کیا تھا اور یہ نبی ( محمد ﷺ ہیں اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ حامی و کارساز ہیں ایمان والوں کے۔ (ترمذی)

【51】

آنحضرت ﷺ کی بعثت کا مقصد :

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں اور اچھے کاموں کو پورا کروں۔ (شرح السنۃ) تشریح مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا پیغمبر اور رسول بنا کر اس مقصد سے بھیجا ہے کہ میں مخلوق اللہ کی ہدایت کروں اور ان کو ظاہری اخلاق و معاملات اور عادات واطوار کے اعتبار سے بھی اور باطنی احوال و سیرت کے اعتبار سے بھی درجہ کمال پر پہنچادوں۔

【52】

تورات میں آنحضرت ﷺ اور امت محمدی ﷺ کے اوصاف کا ذکر :

اور حضرت کعب احبار (رح) (جو ایک جلیل القدر تابعی ہیں اور مسلمان ہونے سے پہلے زبردست یہودی عالم تھے) تورات کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے (تورات میں) یہ لکھا ہوا پایا ہے محمد ﷺ اللہ کے رسول اور اس کے برگزیدہ بندے ہونگے وہ نہ درشت خو ہونگے اور نہ سخت گونہ بازاروں میں شور مچاتے ہوں گے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے لینے والے بلکہ معاف کردینے والے اور بخش دینے والے ہوں گے۔ ان کی پیدائش کی جگہ مکہ ہوگی، ان کی ہجرت کی جگہ طیبہ (مدینہ) ہوگی اور ان کی حکومت کی جگہ ملک شام ہوگی، ان کی امت اللہ کی بہت زیادہ حمد و تعریف اور شکر کرنے والی ہوگی جو ہر حالت میں کیا غمی، کیا خوشی اور کیا فراخی، کیا تنگی، اللہ کی حمد وثنا اور شکر کرے گی، وہ لوگ جہاں بھی اتریں گے یا ٹھہریں گے، اللہ کا شکر بجا لائیں گے اور جہاں بھی چڑھیں گے اللہ کی بڑائی بیان کریں گے (یعنی جب اونچی جگہ پر چڑھیں گے تو اللہ اکبر کہیں گے) اور سورج کا لحاظ رکھا کریں گے، جب نماز کا وقت ہوگا نماز پڑھیں گے، اپنی کمر پر (یعنی ناف کے اوپر ازار باندھیں گے یعنی ستر پوشی کا بہت زیادہ خیال رکھیں گے) جسم کے اعضاء پر وضو کریں گے (یعنی ہاتھ پاؤں اور منہ دھوئیں گے اور پورا وضو کریں گے، ان کا منادی کرنے والا زمین و آسمان کے درمیان منادی کرے گا (یعنی مؤذن کسی بلند جگہ جیسے منارہ وغیرہ پر کھڑا ہو کر اذان دیا کرے گا) جنگ میں اور نماز میں ان کی صف یکساں ہوگی یعنی دشمنان اسلام کے خلاف میدان جنگ میں بھی صف بندی کے اصول وقواعد کی پابندی کریں گے اور بجماعت نماز ادا کرنے کے لئے بھی اپنی صفیں استوار کرے گے رات میں اپنے نفس اور شیطان کی سرکوبی کے لئے عبادت کے وقت ان کی آواز پست ہوگی یعنی تسبیح وتہلیل اور ذکر و تلاوت ہلکی آواز سے کیا کریں گے جیسے شہد کی مکھی کی آواز ہوتی ہے مصابیح نے اس روایت کو ان ہی الفاظ کے ساتھ اور دارمی نے تھوڑے سے تغیر کے ساتھ نقل کیا ہے۔ تشریح ان کی حکومت کی جگہ ملک شام ہوگی میں حکومت سے مراد دین ونبوت کے ثمرات وآثار کا ظاہر ہونا اور جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ اللہ کا پرچم بلند ہونا ہے چناچہ یہ حقیقت ہے کہ اسلام کی دعوت اسی ملک میں سب سے زیادہ پھیلی اور مسلمانوں کو جہاد بھی اسی علاقہ میں زیادہ کرنا پڑا ورنہ جہاں تک آنحضرت ﷺ کی دینی و دنیاوی حکومت کا تعلق ہے اس کا دائرہ اثر کسی خاص ملک یا علاقہ تک محدود نہیں ہے بلکہ کسی نہ کسی حیثیت میں پورے عالم تک پھیلا ہوا ہے یا اس جملہ کی یہ مراد ہے کہ آنحضرت ﷺ کا پایہ تخت آپ ﷺ کی حیات اور خلفاء راشدین کے زمانہ کے بعد ملک شام کو منتقل ہوجائے گا، چناچہ تاریخی طور پر ایسا ہی ہوا کہ حضرت معاویہ (رض) اور امیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کا دارالخلافہ ملک شام میں رہا۔ سورج کا لحاظ رکھا کریں گے۔ کہ ذریعہ نماز روزے اور دیگر عبادت کے ایام واوقات کی پابندی و رعایت کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمان سورج کے طلوع و غروب اور زوال کے اعتبار سے اپنی نماز و عبادت کے اوقات کا دھیان رکھیں گے اور جو وقت جس عبادت کا متعین ہوگا اس میں اس عبادت کا اہتمام کریں گے۔ ایک روایت میں، جس کو حاکم نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے مرفوعاً نقل کیا ہے فرمایا گیا ہے بلاشبہ اللہ کے بندوں میں بہتر لوگ وہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے (اوقات کے تعین کی خاطر) سورج چاند ستاروں اور سایوں کا دھیان رکھتے ہیں۔

【53】

تورات میں آنحضرت ﷺ اور امت محمدی ﷺ کے اوصاف کا ذکر :

اور حضرت عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ تورات میں حضرت محمد ﷺ کے اوصاف کا ذکر ہے اور یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کے حجرہ اقدس میں جمع کئے جائیں گئے۔ حضرت ابومودود (رح) جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کا بیان ہے کہ (حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے) حجرہ مبارک میں (جہاں آنحضرت ﷺ زیر زمین آرام فرما ہیں) ایک قبر کی جگہ باقی ہے (ترمذی) تشریح حجرہ مبارک میں جہاں آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) مدفون ہیں، تینوں قبروں کی ترتیب اس طرح ہے کہ سب سے آگے قبلہ کی جانب سرکار دو عالم ﷺ کی قبر مبارک ہے اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی قبر اس طرح ہے کہ جہاں آنحضرت ﷺ کا سینہ مبارک ہے وہاں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا سر ہے، حضرت ابوبکر (رض) کی قبر کے بعد حضرت عمر (رض) کی قبر اس طرح ہے کہ جہاں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا سینہ مبارک ہے وہاں حضرت عمر (رض) کا سر ہے اور حضرت عمر (رض) کے پہلو میں ایک قبر کی جگہ خالی ہے اس جگہ میں متعدد صحابہ نے دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن خواہش وقصد کے باوجود کسی کو وہاں دفن ہونا نصیب نہ ہوا، اس سے معلوم ہوا کہ قدرت کی حکمت اس جگہ کو خالی رکھنے ہی میں تھی تاکہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اسی جگہ دفن کئے جائیں۔ چناچہ ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) (اس دنیا میں اپنی عمر کے آخری حصہ میں پہنچیں گے تو حج بیت اللہ کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے جائیں گے وہاں سے واپس آرہے ہوں گے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان انتقال فرما جائیں گے اور ان کی نعش مبارک مدینہ منورہ لائی جائے گی جہاں روضہ اقدس نبوی میں حضرت عمر (رض) کے پہلو میں دفن کئے جائیں گے۔ اس طرح یہ دونوں صحابی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) دونبیوں کے درمیان تاقیامت آرام فرما رہینگے۔

【54】

انبیاء پر اور آسمان والوں پر آنحضرت کی فضیلت

حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ( ایک دن اپنی مجلس میں فرمایا) اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو تمام انبیاء (علیہم السلام) اور اہل آسمان (فرشوں) پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ حاضرین مجلس نے (یہ سن کر) سوال کیا کہ اے ابوعباس (رض) اہل آسمان پر آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کس طور پر فضیلت دی ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا اللہ تعالیٰ نے اہل آسمان سے تو یوں خطاب فرمایا۔ (گویا اس خطاب میں نہ صرف یہ کہ نہایت سخت انداز اور رعب ودبدبہ کا اظہار کیا بلکہ سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی جب کہ آنحضرت ﷺ کو خطاب فرمایا گیا تو بڑی ملائمت، مہربانی اور کرم و عنایت کا انداز اختیار فرمایا گیا چنانچہ) محمد ﷺ سے اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا (اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْ بِكَ وَمَا تَاَخَّرَ ) 48 ۔ الفتح 2-1) (اے محمد ﷺ ہم نے تمہارے لئے عظمتوں اور برکتوں کے دروازے پوری طرح کھول دیئے ہیں (جیسا کہ مکہ کا فتح ہونا) اور یہ اس لئے ہے کہ اللہ نے تمہارے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے ہیں لوگوں نے عرض کیا کہ (اچھا یہ بتائے) تمام انبیاء پر آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کس طور پر فضیلت دی ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا اللہ تعالیٰ نے دوسرے انبیاء کی نسبت یوں فرمایا (وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِه لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَا ءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) 14 ۔ ابراہیم 4) ہم نے ہر نبی کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ قوم کے سامنے اللہ کے احکام و قوانین بیان کرے اور اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے الخ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے بارے میں یہ فرمایا (وَمَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَا فَّةً لِّلنَّاسِ ) 34 ۔ سبأ 28) یعنی اے محمد ﷺ ہم نے آپ ﷺ کو تمام لوگوں کے لئے رسول بنا کربھیجا۔ تشریح اللہ نے تمہارے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے ہیں۔ اس آیت کے متعلق سوال اٹھتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ معصوم ہیں آپ ﷺ سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی کوئی گناہ آپ ﷺ سے سرزد ہوا تو پھر یہ کہنے کے کیا معنی کہ آپ ﷺ کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دئے گئے ؟ چناچہ مفسرین اور شارحین اس آیت کی مختلف تاویلیں اور توج ہیں کرتے ہیں، ان میں سے سب سے بہتر تاویل یہ سمجھی جاتی ہے کہ آیت قرآنی کا یہ فقرہ اپنے اصل لفظی معنی پر محمول نہیں ہے بلکہ اس سے محض آنحضرت ﷺ کے تئیں کمال عنایت و مہربانی اور آپ ﷺ کی امتیازی خصوصیت و عظمت کا اظہار مقصود ہے اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ جب کوئی آقا اپنے کسی غلام کی تابعداری سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اور اس کے تئیں کمال رضا و خوشنودی کو ظاہر کرنا چاہتا ہے تو اس سے یہ کہتا ہے کہ جا میں نے تجھے بالکل معافی دے دی، تیری ساری خطائیں معاف تجھ پر کوئی داروگیر نہیں، چاہے اس غلام سے کبھی بھی کوئی خطا سرزد نہ ہوئی ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو جن وانساں دونوں کا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ کے ذریعہ حضرت ابن عباس (رض) نے الفاظ قرآنی کافۃ للناس کی وضاحت فرمائی اگرچہ یہاں صرف انسان کا ذکر ہے اور وہ بھی اس بنا پر کہ اشرف المخلوقات انسان ہی ہے لیکن مراد جن و انسان دونوں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو انسانوں کی طرف بھی مبعوث فرمایا ہے اور جنات کی طرف بھی، اس کی دلیل متعدد آیات قرآنی اور احادیث نبوی ﷺ میں موجود ہے ! اس آیت کا اصل مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی رسالت ونبوت کسی خاص علاقہ یا انسانوں کے کسی خاص طبقہ کے لئے نہیں بلکہ آپ کی بعثت تمام نوع انسانی کی طرف ہوئی ہے اور اس حقیقت کی وضاحت بھی اس لئے کی گئی ہے تاکہ ان اہل کتاب کی تردید ہوجائے جو کہا کرتے تھے کہ محمد ﷺ کی رسالت تو صرف عرت والوں کے لئے ہے۔

【55】

آنحضرت ﷺ نے اپنی نبوت کو کیسے جانا :

اور حضرت ابوذر غفاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے (ایک دن) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے کیسے جانا کہ آپ ﷺ نبی ہیں اور پھر آپ ﷺ کو اپنی نبوت کا یقین کیونکر ہوا ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ابوذر میں بطحائے مکہ میں ایک جگہ تھا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے، ان میں سے ایک فرشتہ تو زمین پر اتر آیا اور دوسرا فرشتہ زمین و آسمان کے درمیان رہا، پھر ان میں سے ایک نے (میری طرف اشارہ کرکے) اپنے ساتھی فرشتہ سے پوچھا کہ کیا یہی وہ شخص ہیں جن کے بارے میں اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ میرے ایک پیغمبر ہیں ان کے پاس جاؤ) فرشتہ نے جواب دیا کہ ہاں یہی وہ شخص ہیں۔ پھر پہلے فرشتے نے دوسرے فرشتے سے کہا کہ (ان پیغمبر کی امت میں سے) ایک آدمی کے ساتھ ان کو تول کر دیکھو، چناچہ مجھے ایک آدمی کے ساتھ تولا گیا اور میں اس آدمی سے بھاری رہا۔ پھر اس فرشتے نے کہا کہ اب دس آدمیوں کے ساتھ ان کو تولو، چناچہ مجھے دس آدمیوں کے ساتھ تولا گیا اور میں ان دس آدمیوں سے بھی بھاری رہا، پھر اس فرشتہ نے کہا اچھا سو آدمیوں کے ساتھ ان کو تولو، چناچہ مجھے سو آدمیوں کے ساتھ تولا گیا اور میں ان سو آدمیوں کے مقابلہ میں بھی بھاری رہا پھر اس فرشتہ نے کہا کہ اچھا ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ ان کو تولو، چناچہ مجھے ہزار آدمیوں کے ساتھ تولا گیا اور میں ان ہزار آدمیوں کے مقابلہ میں بھی بھاری رہا اور گویا (اب بھی) میں ان ہزار آدمیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ جس پلڑے میں تھے وہ (میرے پلڑے کے مقابلہ میں) اتنا ہلکا تھا (اور اتنا اوپر اٹھ گیا تھا) کہ مجھے لگا جیسے وہ سب کے سب اب میرے اوپر گرے۔ اس کے بعد ان دونوں فرشتوں میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ اگر تم ان کو ان کی ساری امت کے ساتھ بھی تولو تو یہ یقینا ساری امت کے مقابلہ میں بھی بھاری رہیں گے۔ ان دونوں روایتوں کو دارمی نے نقل کیا ہے۔

【56】

حضور ﷺ پر ہر حالت میں قربانی فرض تھی :

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھ پر (ہرحالت میں) قربانی فرض کی گئی ہے ( خواہ میں مالی استطاعت رکھوں یا نہ رکھوں) جب کہ تمہارے اوپر اس طرح فرض نہیں ہے (بلکہ اسی حالت میں فرض ہے جب تم مالی استطاعت رکھو) نیز مجھ کو چاشت کی نماز کا حکم (وجوب کے طور) دیا گیا ہے جب کہ تمہیں نہیں دیا گیا ہے بلکہ اس نماز کو تمہارے لئے سنت قرار دیا گیا ہے۔ (دارقطنی (