178. نبی کریم ﷺ کے اسماء مبارک اور صفات کا بیان

【1】

نبی کریم ﷺ کے اسماء مبارک اور صفات کا بیان ،

عنوان باب کے دو جز ہیں، ایک کا تعلق آنحضرت ﷺ کے آسماء مبارک سے ہے اور دوسرے کا تعلق صفات نبوی کے ذکر سے ہے لیکن یہاں صفات سے مراد آنحضرت ﷺ کے اخلاق واطوار اور باطنی اوصاف نہیں ہیں جن کا ذکر دوسرے باب میں ہوگا بلکہ صفات سے مراد آپ ﷺ کا حلیہ مبارک قدوقامت اور ظاہری شکل و صورت ہے۔ اسمائے مبارک کی تعداد آنحضرت ﷺ کے اسماء مبارک بہت ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر قرآن کریم میں ہے کچھ سابقہ آسمانی کتابوں میں پائے جاتے ہیں، کچھ کا ذکر انبیاء (علیہم السلام) کی زبان مبارک سے ہوا ہے اور کچھ احادیث میں مذکور ہیں۔ تاہم ان کی کل تعداد کے بارے میں کوئی ایک قول نہیں ہے۔ مواہب لدنیہ میں لکھا ہے آنحضرت ﷺ کے نام اور القاب قرآن مجید میں بہت آئے ہیں۔ چناچہ بعض علماء نے ننانوے نام جمع کئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء پاک کی بھی تعداد ہے قاضیی عیاض کا قول منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں میں سے تیس نام اپنے حبیب کے لئے مخصوص کئے ہیں۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اگر سابقہ آسمانی کتابوں اور قرآن و حدیث میں آنحضرت ﷺ کے نام تلاش کئے جائیں تو ان کی تعداد تین سو تک اور ایک قول کے مطابق چار سو تک پہنچتی ہے۔ اور قاضی ابوبکر ابن العربی نے، جو مالکی مسلک کے بڑے عالموں میں سے ہیں لکھا ہے بعض صوفیاء کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہزار نام ہیں اور اس کے حبیب کے بھی ہزار نام ہیں اور یہ کہ ناموں سے مراد وہ اوصاف وصفات ہیں جن سے حضور ﷺ کی ذات متصف ہے اور ہر وصف وصفت سے ایک نام نکلتا ہے سیوطی نے بھی مستقل طور پر ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں انہوں نے حضور ﷺ کے اسماء مبارک جمع کئے ہیں اور علامہ طیبی (رح) نے بائیس نام ذکر کیئے ہیں اور ان سب کی وضاحت کی ہے جہاں تک مؤلف مشکوۃ شریف کا تعلق تو انہوں نے اس باب میں صرف دو حدیثیں نقل کی ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کے معتدد اسماء نقل کئے گئے ہیں۔ اصل اسم مبارک آنحضرت ﷺ کا اصل نام جو سب سے زیادہ مشہور ورائج ہے محمد ہے یہ آپ ﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب کا رکھا ہوا نام ہے۔ منقول ہے کہ جب عبد المطلب سے کسی نے کہا کہ تم نے اپنے پوتے کا نام اپنے آباؤ اجداد کے نام پر کیوں نہیں رکھا اور ایسے نام کو ترجیح دی جو تمہاری قوم اور تمہارے خاندان میں پہلے کسی کا نہیں رہا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا میں نے اپنے پوتے کا یہ نام اس امید پر رکھا ہے کہ تمام دنیا والے اس کی توصیف میں رطب اللسان ہوں۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ! تاکہ آسمانوں پر اللہ تعالیٰ اس کی تعریف و توصیف کرے اور زمین پر دنیا والے رطب اللسان ہوں۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش سے بہت پہلے حضرت عبد المطلب نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ ان کی پشت سے چاندی کی ایک زنجیر نکلی جس کا سلسلہ آسمان تک چلا گیا، ایک سلسلہ مشرق کی آخری حدوں تک اور ایک سلسلہ مغرب کی آخری حدوں تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد وہ زنجیر ایک تناور درخت میں تبدیل ہوگئی اور اس درخت کے پتہ پتہ پر نور پھیل گیا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ان نورانی پتوں کے نیچے مشرق سے لے کر مغرب تک کے لوگ جمع ہیں۔ عبدا المطلب نے بیدار ہونے کے بعد اس عجیب و غریب خواب کا ذکر لوگوں سے کیا، تعبیر دینے والوں نے اس خواب کو سن کر کہا کہ مبارک ہو، تمہاری نسل میں ایک شخص پیدا ہوگا جس کی تابعداری کرنے کے والوں کا سلسلہ مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوگا اور زمین و آسمان میں اس کی تعریف ہی تعریف ہوگی۔ چناچہ آنحضرت ﷺ پیدا ہوئے تو حضرت عبد المطلب نے آپ ﷺ کا نام مبارک (محمد) رکھا آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ (رض) نے بھی حاملہ ہونے کے بعد خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ تمہارے بطن میں اس امت کا سردار اور پیغمبر ہے، جب تمہارے ہاں ولادت ہو توبچہ کا نام محمد رکھنا۔ روایتوں میں آتا ہم کہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش سے پہلے کبھی کسی کا نام محمد نہیں رکھا گیا تھا، ہاں اہل کتاب نے جب اپنی آسمانی کتابوں میں مذکور پیش گوئیوں کے مطابق لوگوں کو بتایا کہ وہ زمانہ آیا ہی چاہتا ہے جب اللہ کے آخری پیغمبر پیدا ہوں گے اور ان کا نام محمد ہوگا تو یہ سن کر چار لوگوں نے اس آرزو میں اپنے بیٹوں کا نام محمد رکھا کہ شرف نبوت سے مشرف ہوں۔ تاہم یہ چار نام بھی آنحضرت ﷺ کے نام سے پہلے نہیں کہے جاسکتے کیونکہ ان چاروں نے بھی آنحضرت ﷺ کا نام محمد سن کر ہی اپنے بیٹوں کے نام محمد رکھے تھے۔

【2】

اسماء نبوی ﷺ :

حضرت جبیربن معطعم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا میرے متعدد نام ہیں جن میں سے میرا مشہور نام ایک تو محمد ہے اور دوسرا احمد ہے میرا نام ماحی بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹاتا ہے، میرا نام حاشر بھی ہے، کہ لوگوں کو میرے نقش قدم پر اٹھایا جائے گا اور میرا نام عاقب بھی ہے یعنی وہ شخص جس کے بعد کوئی نبی نہیں ( بخاری ومسلم ) تشریح بعض روایتوں میں محمد اور احمد کے ساتھ ایک نام محمود بھی منقول ہے، ان تینوں کا مادہ اشتقاق ایک ہی ہے یعنی حمد محمود کا مطلب ہے وہ ہستی جس کی ذات وصفات کی تعریف دنیا میں بھی کی گئی اور آخرت میں بھی۔ محمد کا مطلب وہ ہستی جس کی بےانتہا تعریف کی گئی۔ احمد کا مطلب ہے وہ ہستی جس کی تعریف اگلے پچھلوں اور سابقہ آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ کی گئی۔ احمد کے ایک معنی یہ بھی بیان ہوئے ہیں کہ وہ ہستی جو صاحب لوائے حمد ہو اور جو اپنے مولیٰ کی حمد وثنااتنی زیادہ اور اتنے اچھوتے انداز میں کرے کہ کسی کے علم و گمان کی رسائی اس تک نہ ہو جیسا کہ قیامت کے دن مقام محمود میں ہوگا۔ ماحی کے معنی ہیں مٹانے والا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں اور رسولوں کی دعوت و تبلیغ کی بہ نسبت سب سے زیادہ آپ ﷺ ہی کی دعوت و تبلیغ کے ذریعہ کفر کو مٹایا۔ عاقب کے معنی ہیں سب سے پیچھے آنے والا۔ یعنی آنحضرت ﷺ اللہ کے وہ نبی اور رسول ہیں جو تمام رسولوں اور نبیوں کے بعد اس دنیا میں تشریف لائے ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی اور نبی و رسول اس دنیا میں مبعوث نہیں ہوگا۔ اور حضرت ابوموسی اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ہمارے سامنے اپنی ذات مبارک کے متعدد نام بیان فرمایا کرتے تھے، چناچہ (ایک دن) آپ ﷺ نے فرمایا میں احمد ہوں میں محمد ہوں، میں مقفی (تمام پیغمبروں کے پیچھے آنے والا ہوں، میں حاشر (یعنی قیامت کے دن تمام لوگوں کو جمع کرنے والا ہوں میں توبہ کا نبی ہوں اور میں رحمت کا نبی ہوں۔ (مسلم) تشریح توبہ کا نبی یا تو اس اعتبار سے فرمایا کہ خلقت نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی اور آپ ﷺ کے سامنے پچھلی زندگی کے اعمال خواہ وہ کفروشرک ہو یا گناہ و معصیت سے بیزاری کا پختہ عہد کرکے دین اسلام کی کامل تابعداری کا اقرار کیا۔ یا یہ کہ آنحضرت ﷺ چونکہ توبہ و استغفار بہت کرتے تھے اور رجوع الی اللہ آپ ﷺ کی زندگی کا بنیادی نقطہ و محور تھا نیز یہ آپ ﷺ ہی کی ذات کا فیض تھا کہ آپ ﷺ کی امت کے لوگ اگر پختہ عہد یقین کے ساتھ زبان سے توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کی زبانی توبہ کو قبول فرمالیتا ہے جب کہ پچھلی امتوں کے لوگ اس وقت قابل معافی قرار نہیں پاتے تھے جب تک ان کے قصور اور جرم کی سزا قتل یا دوسری صورتوں میں ان کو نہ مل جاتی تھی، اس لئے آنحضرت ﷺ کا نام نبی التوبہ بھی ہوا نبی الرحمۃ یعنی رحمت کا نبی۔ یہ قرآن کریم سے ماخوذ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔ ہم نے آپ ﷺ کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

【3】

آنحضرت ﷺ اور کافروں کی گالیاں ،

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (ایک دن صحابہ کرام سے) فرمایا کہ تمہیں اس پر حیرت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قریش مکہ کی گالیوں اور لعنتوں سے کس طرح محفوظ رکھا ہے ؟ وہ مذمم کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں جب کہ میں محمد ہوں۔ (بخاری) تشریح مذمم معنی کے اعتبار سے محمد کی ضد ہے یعنی وہ شخص جس کی مذمت و برائی کی گئی ہو یہ لفظ قریش مکہ کے بغض وعناد کا مظہر تھا، وہ بدبخت آنحضور ﷺ کو محمد کہنے کے بجائے مذمم کہا کرتے تھے اور یہی نام لے لے کر آپ ﷺ کی شان میں بد زبانی کرتے اور آپ ﷺ پر لعن وطعن کیا کرتے تھے، چناچہ آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کرتے تھے کہ قریش مکہ جو بدزبانی کرتے ہیں اور سب وشتم کے تیر پھینکتے ہیں، ان سے آزردہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ بدبخت تو مذمم کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور مذمم پر لعن طعن کرتے اور میں مذمم نہیں ہوں بلکہ محمد ہوں، یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ اس نے میرے نام کو جو میری ذات کا مظہر ہے، ان حاسدوں کی گالیوں اور لعن طعن کانشانہ بننے سے بچا رکھا ہے۔

【4】

چہرئہ اقدس، بال مبارک اور مہر نبوت کا ذکر ،

اور حضرت جابر ابن سمرۃ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے سر اور داڑھی کے اگلے حصہ میں کچھ بال سفید ہوگئے تھے جب آپ ﷺ بالوں میں تیل لگا لیتے تو یہ سفیدی ظاہر نہیں ہوتی تھی، البتہ جب سر مبارک کے بال بکھرے ہوئے ہوتے تو یہ سفیدی جھلکنے لگتی تھی اور آنحضرت ﷺ کی داڑھی میں بہت زیادہ بال تھے جب حضرت جابر (رض) نے آنحضرت ﷺ کا یہ حلیہ بیان کیا تو) ایک شخص نے کہا آپ ﷺ کا چہرہ مبارک (چمک اور دمک میں) تلوار کی طرح تھا۔ حضرت جابر (رض) نے کہا کہ نہیں بلکہ آفتاب وماہتاب کی طرح تھا اور گولائی لئے ہوئے تھا۔ نیز میں نے آپ ﷺ کی مہر نبوت کو دیکھا جو شانہ کے قریب تھی اور کبوتر کے انڈے کی طرح (گول) تھی اس کی رنگت آپ ﷺ کے جسم مبارک کے رنگ کی سی تھی۔ (مسلم) تشریح تیل لگانے سے بال اکٹھا ہو کر جمے رہتے ہیں، اس لئے آپ ﷺ کے وہ بال سفید بال جو تعداد میں بہت کم تھے، تیل لگے بالوں میں نظر نہیں آتے تھے اور جب آپ ﷺ کے بال خشک رہتے تھے، ان میں تیل نہیں ہوتا تھا تو وہ سفید نہیں ہوتا تھا تو وہ سفید بال جھلکنے لگتے تھے کیونکہ بغیر تیل کے بال بکھرے رہتے ہیں اور اگر کوئی ایک بھی سفید بال ہوتا تو وہ نظر آنے لگتا ہے روایتوں میں آتا ہے کہ آخر عمر میں جب کہ آپ ﷺ پر بڑھاپا طاری ہوگیا تھا اس وقت بھی آپ ﷺ کے سر اور داڑھی میں سفید بالوں کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں تھی بلکہ ایک روایت میں اس سے بھی کم کا ذکر ہے۔ داڑھی میں بہت زیادہ بال کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی داڑھی گھنی تھی ہلکی نہیں تھی جیسا کہ ایک روایت میں کث اللحیۃ کے الفاظ بھی ہیں کہ آپ ﷺ گھنی داڑھی والے تھی۔ اس بارے میں کوئی واضح بات ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ کی ریش مبارک کی درازی کیا تھی تاہم آپ ﷺ کے صحابہ کرام اور دوسرے بزرگوں کی داڑھی کے بارے میں واضح روایتیں منقول ہیں۔ چناچہ منقول ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی داڑھی اتنی لمبی چوڑی تھی کہ پورا سینہ کندھوں تک چھپا رہتا تھا اور حضرت ابن عمر (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی رکھتے تھے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رح) کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کی داڑھی بھی بہت لمبی چوڑی تھی بہر حال داڑھی کو ایک مشت سے کم رکھنا روا نہیں ہے۔ البتہ ایک مشت سے زائد لمبی داڑھی کے بارے میں مختلف روایات وآثار منقول ہیں، بلکہ آفتاب وماہتاب کی طرح تھا اس شخص نے آنحضرت ﷺ کے چہرہ کو جو تلوار سے مشابہت دی تو اس سے ایک گمان یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کا چہرہ لمبوترا ہوگا جس کو بیضوی یا کتابی چہرہ کہا جاسکتا ہے لہذا حضرت جابر نے واضح فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کا چہرہ لمبوترا نہیں تھا بلکہ گولائی لئے ہوئے تھا واضح رہے کہ یہاں حدیث میں مستدیر کا جو لفظ ہے یا تو آفتاب وماہتاب اور آئینہ کا جو ذکر آیا ہے تو اس سے یہ وہم بھی نہ ہونا چاہے کہ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک چاندوسورج کی مانند بالکل گول دائرہ کی طرح تھا ایک حدیث میں وضاحت ہے لم یکن بالمکثم آنحضرت ﷺ کا چہرہ مبارک نہ بالکل گول تھا نہ بالکل لمبا بلکہ گولائی لئے ہوئے تھا۔ اسی لئے مستدیر کا ترجمہ گولائی لئے ہوئے کیا گیا ہے۔ ایک روایت میں بل مثل القمر کے الفاظ ہیں یعنی بلکہ چاند کی طرح تھا۔ ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ وکان وجہہ قطعۃ قمر یعنی آپ ﷺ کا چہرہ مبارک آئینہ کی طرح ہوتا تھا کہ دیوار کا عکس آپ ﷺ کے چہرہ مبارک جھلکنے لگتا مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ جہاں تک ان تشبیہوں کا تعلق ہے تو لوگوں نے اپنی سمجھ کے مطابق اور مروجہ اسلوب و تعبیر بیان کا سہارا لیتے ہوئے آنحضرت کے سراپا اور حسن و جمال کو مختلف چیزوں سے تشبیہ دی ہے ورنہ آنحضرت ﷺ کے جمال باکمال کی شوکت و جلالت اور آپ کے حسن وملاحت کی تا بندگی اور دلربائی سے کوئی بھی چیز مشابہت نہیں رکھ سکتی۔ کسے بحسن ملاحت بیار مانہ رسد ترادریں سخن انکار کار مانہ رسد ہزار نقش برآیدز کلک صنع ولے یکے بخوبی نقش ونگار مانہ رسد میں نے آپ ﷺ کی مہر نبوت کو دیکھا جو شانہ کے قریب تھی۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ مہر نبوت دونوں شانوں کے درمیان تھی، ان دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے دراصل وہ مہر نبوت بائیں شانہ کے قریب تھی، لہٰذا کسی نے تو یہ بیان کیا کہ شانہ کے قریب تھی اور کسی نے یہ کہا ہے کہ دونوں شانوں کے درمیان تھی ! اس کی رنگت آپ ﷺ کے جسم مبارک کے رنگ کی سی تھی کا مطلب یہ ہے کہ مہر نبوت جسم پر کسی بدنما داغ یا دھبے کی صورت میں نہیں تھی کہ وہ بدن مبارک سے الگ کوئی چیز معلوم ہوتی ہو بلکہ جس طرح آپ ﷺ کے جسم مبارک اور تمام اعضاء کا رنگ وروپ تھا اسی طرح مہر نبوت بھی تھی، اس کی آب وتاب اور رنگ وروپ میں جسم مبارک سے سرموفرق نہیں تھا۔ مہر نبوت کی حقیقت مہر نبوت آنحضرت ﷺ کے بدن مبارک پر ولادت ہی کے وقت سے تھی اور اس کی صورت یہ تھی کہ آپ ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر ایک جگہ بیضوی شکل میں جسم مبارک سے کچھ ابھری ہوئی تھی یہی مخصوص ابھار خاتم نبوت (یعنی نبوت کی مہر اور علامت) کہلاتا تھا، اس مہر نبوت کی مقدار اور رنگت کے بارے میں روایتیں کچھ مختلف ہیں لیکن ان روایتوں کے درمیان تطبیق یہ ہے کہ اس کا حجم گھٹتا بڑھتا رہتا تھا اور اس کی رنگت بھی مختلف ہوتی رہتی تھی، اس طرح اس بارے میں بھی مختلف روایتیں ہیں کہ اس مہر نبوت پر کچھ لکھا ہوا تھا یا نہیں ؟ بعض روایتوں میں ہے کہ اس پر محمد رسول اللہ ﷺ لکھا ہوا تھا اور بعض روایتوں میں یہ ہے کہ مہر نبوت پر یہ عبارت تھی وحدہ لاشریک لہ توجہ حیث کنت فانک منصور روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ مہر نبوت میں اتنی نورانیت اور اس قدر چمک تھی کہ اس پر آنکھیں نہیں ٹھہرتی تھیں آنحضرت ﷺ کی اس مہر نبوت کا ذکر پچھلی آسمانی کتابوں تورات اور انجیل وغیرہ میں موجود تھا اور انبیاء (علیہم السلام) آخر زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے ظہور کی جو بشارت دیتے تھے تو یہ علامت خاص طور پر بتاتے تھے کہ ان کی پشت پر مہر نبوت ہوگی، حاکم مستدرک میں وہب ابن منبہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایسا کوئی نبی اور رسول نہیں گذرا جس کے داہنے ہاتھ پر نبوت کا نشان (یعنی مہر نبوت) نہ ہو مگر ہمارے آقا ﷺ کی نبوت کانشان آپ کی پشت مبارک پر دونون شانوں کے درمیان تھا اور اس نشان کی حیثیت مہر کی سی تھی جو کسی فرمان ودستاویزکو تغیروتبدل سے محفوظ رکھنے کے لئے اس پر ثبت کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ کی اس مہر نبوت کو ظاہری چیزوں جیسے کبوتر کے انڈے وغیرہ سے تشبیہ دینا لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہے ورنہ اس کی اصل حقیقت ایک ایسا سرعظیم اور قدرت کی نادر نشانی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

【5】

مہر نبوت کہاں تھی :

حضرت عبداللہ ابن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کی زیارت کی اور آپ کے ساتھ کھانا کھانے کا شرف حاصل کیا، کھانا روٹی اور گوشت تھا، یا انہوں نے یہ کہا کہ۔ ثرید تھا (یعنی روٹی کے ٹکڑے شوربے میں بھگوئے ہوئے تھے) پھر میں نے آپ ﷺ کی پشت کی طرف آیا اور مہر نبوت ﷺ کو دیکھا جو آپ ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان بائیں شانہ کی نرم ہڈی کے پاس تھی اور (ہیئت کے اعتبار سے) مٹھی کی مانند تھی اور اس پر مسوں کی مانند تل تھے۔ (مسلم )

【6】

بچوں پر شفقت :

اور خالد ابن سعید کی بیٹی ام خالد کہتی ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ کے پاس (ہدیہ میں) کچھ کپڑے آئے جن میں ایک چھوٹی سی کملی بھی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ام خالد کو میرے پاس لاؤ۔ آپ ﷺ نے وہ کملی اٹھائی اور اپنے ہاتھ سے ام خالد کو اڑھا دی اور پھر (جیسا کہ آپ ﷺ کی عادت تھی کہ جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اس کو دعا دیتے) ام خالد کو یہ دعا دی اس کپڑے کو پرانا کرو اور پھر پرانا کرو یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری عمر دراز کرے اور باربار تمہیں کپڑا استعمال کرنا اور بہت کپڑا پہننا نصیب ہو۔ اس کملی میں سبز یازرد نشان بنے ہوئے تھے ! آپ ﷺ نے فرمایا ام خالد یہ کپڑا تو بہت عمدہ ہے۔ اور لفظ سناہ ( جس کا ترجمہ بہت عمدہ کیا گیا ہے) حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی عمدہ اور بہترین کے ہیں۔ ام خالد کہتی ہیں کہ پھر میں (آنحضرت ﷺ کی بشت مبارک کی طرف چلی) گئی اور (بچپن کی ناسمجھی کی بنا پر) مہر نبوت سے کھیلتی رہی، میرے باپ نے (یہ دیکھا تو) مجھے منع کرنے لگے، رسول کریم ﷺ نے فرمایا اس کو کھیلنے دو منع نہ کرو۔ (بخاری)

【7】

آنحضرت ﷺ کے قدوقامت وغیرہ کا ذکر :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا قد نہ تو بہت لمبا تھا اور نہ ٹھگنا، آپ ﷺ کا رنگ نہ بالکل سفید تھا اور نہ بالکل گندمی یعنی مائل بہ سیاہی آپ ﷺ کے سر کے بال نہ بالکل خمدار تھے اور نہ بالکل سیدھے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس وقت مبعوث فرمایا (یعنی منصب رسالت پر فائز کیا) جب کہ آپ ﷺ کی عمر پورے چالیس سال کی ہوگئی تھی، پھر آپ ﷺ نے دس سال مکہ میں قیام فرمایا (دس سال مدینہ میں اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ساٹھ سال کی عمر میں وفات دی، اس وقت آپ ﷺ کے سر مبارک اور داڑھی میں صرف بیس بال سفید تھے۔ ایک اور روایت میں حضرت انس (رض) نے نبی کریم ﷺ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ آپ ﷺ لوگوں میں میانہ قد تھے نہ لمبے تھے نہ ٹھگنے، آپ ﷺ کا رنگ نہایت صاف اور چمکدار تھا۔ حضرت انس (رض) نے بیان کیا آپ ﷺ کے سر کے بال آدھے کانوں تک تھے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ ﷺ کے سرکے بال) کانوں اور شانوں کے درمیان تک لمبے تھے ( بخاری ومسلم) ایک اور روایت میں، جس کو بخاری نے نقل کیا ہے اس طرح ہے کہ حضرت انس (رض) نے بیان کیا آنحضرت ﷺ کا سر مبارک بڑا تھا اور پاؤں مبارک پرگوشت تھے، میں نے آپ جیسا (وجیہہ وشکیل انسان) نہ تو آپ ﷺ سے پہلے دیکھا تھا اور نہ آپ ﷺ کے بعد دیکھا اور آپ ﷺ کی ہتھیلیاں فراخ تھیں۔ بخاری ہی کی روایت میں ہے کہ حضرت انس نے بیان کیا ! آنحضرت ﷺ کے دونوں بازو اور ہتھیلیاں گدازا ور پر گوشت تھیں۔ تشریح قد نہ تو بہت لمبا تھا نہ ٹھگنا۔ کا مطلب یہ کہ آپ ﷺ کا قد میانہ مائل بہ درازی تھا جس کو ہمارے محاورے میں نکلتا قد کہتے ہیں۔ بعض روایتوں میں جو یہ آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کسی مجمع میں کھڑے ہوتے تو سب سے بلند دکھائی دیتے تھے، اگرچہ اس مجمع میں دراز قد لوگ بھی ہوتے تھے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ﷺ کا قد بہت زیادہ دراز تھا بلکہ اس کا مقصد آپ ﷺ کی اعجازی حیثیت کو بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو جو عظمت و رفعت عطا فرمائی تھی وہ ہر موقع پر آپ ﷺ کے قد وقامت سے بھی ظاہر ہوتی تھی یہاں تک کہ اگر آپ دراز قد لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ ہی کے وجود کو سب سے زیادہ نمایاں رکھتا تھا۔ آپ ﷺ کا رنگ نہ بالکل سفید تھا۔۔۔۔۔۔ الخ۔۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رنگت نہ تو چونے کی طرح بالکل سفید تھی جس میں سرخی کی جھلک بھی نہیں ہوتی اور نہ بہت گہری گندمی تھی بلکہ ایسی گندم گوں تھی جس کو سرخ سفید رنگ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کے سر مبارک کے بال نہ تو اتنے زیادہ گھونگھرلے تھے جیسے افریقی اور حبشی لوگوں کے ہوتے ہیں اور نہ بالکل سیدھے تھے بلکہ ان دونوں کے بیچ بیچ تھے۔ مدینہ میں آنحضرت ﷺ کے قیام کی مدت دس سال تو بالاتفاق ثابت ہے اور اس میں کوئی اختلافی روایت نہیں ہے لیکن منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد مکہ میں قیام کی مدت کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں۔ تحقیقی طور پر جو قول صحیح مانا گیا ہے وہ تیرہ سال کی مدت کا ہے اس اعتبار سے آنحضرت ﷺ کی عمر تریسٹھ سال ہوتی ہے پس اس روایت میں جو ساٹھ سال کہا گیا ہے تو اس کی توجیہہ یہ ہے کہ راوی نے اس روایت میں کسور کے ذکر کو اہمیت نہ دیتے ہوئے تیرہ سال کو دس سال کہا اور تریسٹھ سال کو ساٹھ سال کہا، کیونکہ اس زمانہ میں عام طور پر یہ رواج تھا کہ اعداد و شمار کو بیان کرتے وقت کسور کو ذکر کرنا زیادہ ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے سرکے بالوں کی لمبائی کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، دو روایتیں تو یہاں نقل ہوئیں، ایک روایت میں دونوں کانوں کی لوتک کے الفاظ ہیں اور ایک روایت میں کاندھوں کے قریب تک کا ذکر ہے۔ روایتوں کے اس اختلاف کا سبب دراصل یہ ہے کہ جس وقت آپ ﷺ اپنے بالوں کو تیل اور کنگھی سے آراستہ کئے ہوئے ہوتے اس وقت بال لمبے معلوم ہوتے اور جب بالوں میں تیل نہ ہوتا اور نہ آپ ﷺ کئے ہوئے ہوتے تو اس وقت بال چھوٹے معلوم ہوتے، اس طرح جیسا کہ مجمع البحار میں لکھا ہے جب بالوں کی اصلاح کرائے ہوئے زیادہ دن گذرجاتے تھے تو قدرتی طور پر بال لمبے ہوجاتے تھے اور جب اصلاح کر الیتے تھے تو بالوں کی لمبائی کم ہوجاتی تھی، جس شخص نے اس میں سے جس حالت میں آپ ﷺ کے بالوں کو دیکھا اس کے مطابق ان کی لمبائی کو ذکر کیا۔ مجمع البحار کی اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ وقتا فوقتا اپنے بالوں کو موزوں مقدار میں کٹواتے رہتے تھے، جہاں تک بالوں کو منڈوانے اور سربالکل صاف کرانے کا تعلق ہے تو اس کا ثبوت کسی روایت سے نہیں ملتا۔ ہاں صرف حج اور عمرے کے موقع پر آپ ﷺ کا سر منڈوانا ضرورثابت ہے۔ سر مبارک بڑا اور پاؤں پرُگوشت تھے پیروں کاموٹا یعنی پرگوشت ہونا شجاعت اور ثابت قدمی کی علامت ہے جب کہ سرکا بڑا ہونا سرداری عظمت اور عقلمندی کی نشانی سمجھا جاتا تھا اسی طرح آنحضرت ﷺ کی دونوں ہتھیلیاں بھی بہت گداز اور پرگوشت تھیں اور یہ چیز بھی قوت و شجاعت کی علامت مانی جاتی ہے۔

【8】

آنحضرت ﷺ کے قدوقامت وغیرہ کا ذکر :

اور حضرت براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ میانہ قد تھے اور آپ ﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان کافی کشادگی تھی (جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کا سینہ مبارک بہت چوڑا تھا) آپ ﷺ کے سرکے بال کانوں کی لو تک تھے اور میں نے آپ ﷺ کو سرخ لباس میں (جو یمنی کپڑے کے تہبند اور چادر پر مشتمل تھا) (اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ) میں نے آنحضرت ﷺ سے زیادہ حسین کوئی چیز نہیں دیکھی۔ بخاری ومسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت براء (رض) نے کہا میں نے کوئی بالوں والا آدمی سرخ لباس میں رسول کریم ﷺ سے زیادہ حسین و وجیہہ نہیں دیکھا، آپ ﷺ کے سرکے بال مونڈھو تک تھے۔ آپ ﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان کافی کشادگی تھی۔ اور آپ ﷺ کا قد نہ بہت لمبا تھا اور نہ ٹھگنا۔ تشریح محدثین نے تحقیق کے بعد لکھا ہے کہ سرخ لباس سے مراد یہ کہ آپ ﷺ کے جسم مبارک پر جس کپڑے کا تہبند اور چادر تھی اس میں سرخ دھاریاں تھیں اس طرح جن حدیثوں میں سبز لباس کا ذکر ہے، اس سے بھی یہی مراد ہے کہ وہ لباس ایسے کپڑے کا تھا جس میں سبز دھاریاں تھیں عربی میں انسان کے سرکے بالوں کے لئے عام طور پر تین لفظ مستعمل ہوتے ہیں ایک جمہ ہے اس سے مراد وہ بال ہوتے ہیں جو کان کی لو سے اتنے نیچے تک ہوں کہ کاندھوں تک پہنچ جائیں اور کبھی اس لفظ کا اطلاق مطلق بالوں پر بھی ہوتا ہے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے دوسرا لفظ لمہ ہے یہ لفظ بالوں کی اس زلف کے لئے استعمال ہوتا ہے جو کانوں کی لو سے متجاوز ہو، لیکن کاندھوں تک نہ پہنچی ہو اور تیسرا لفظ وفرہ ہے جو کانوں کی لوتک لٹکے ہوئے بالوں کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

【9】

آنحضرت ﷺ کے قدوقامت وغیرہ کا ذکر :

اور حضرت سماک ابن حرب، حضرت جابر ابن سمرۃ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ کشادہ دہن تھے آپ ﷺ کی آنکھوں میں سرخی ملی ہوئی تھی اور ایڑیاں کم گوشت تھیں (روای کہتے ہیں کہ) حضرت سماک سے پوچھا گیا کہ ضلیع الفم سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کے معنی ہیں بڑے منہ والا ! ان سے پوچھا گیا کہ اشکل العین کے کیا معنی ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کے معنی ہیں دائرہ چشم کا بڑا ہونا پھر ان سے پوچھا گیا کہ منہوش العقبین کے کیا معنی ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ایڑیاں جن پر گوشت کم ہو۔ (مسلم) تشریح کشادہ دہن سے کیا مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کے منہ کا بایا بڑا تھا اور یہ چیز عرب میں مردوں کے لئے قابل تعریف سمجھی جاتی ہے جب کہ کسی مرد کے منہ کا بایا چھوٹا ہونا ایک عیب مانا جاتا ہے۔ اور بعض حضرات نے کشادہ دہنی سے فصاحت و بلاغت مراد لی ہے۔ آنکھوں کی سفیدی میں سرخی سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کی آنکھوں میں سرخ ڈورے بہت نمایاں تھے ! واضح رہے کہ حضرت سماک نے اشکل العین کے جو یہ معنی بیان کئے کہ دائرہ چشم کا بڑا ہونا تو یہ ان کا سہو ہے، اصل معنی وہی ہیں جو ترجمہ میں ذکر کئے گئے ہیں، تمام ائمہ لغت نے بھی اس لفظ کے یہی معنی لکھے ہیں۔

【10】

آنحضرت ﷺ کے قدوقامت وغیرہ کا ذکر :

اور حضرت ابوطفیل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ سفید ملیح رنگ کے تھے نیز متوسط القامت اور تناسب الاعضاء تھے (مسلم )

【11】

آنحضرت ﷺ نے خضاب استعمال نہیں کیا :

اور حضرت ثابت (رض) کہتے ہیں کہ حضرت انس (رض) سے رسول کریم ﷺ کے خضاب کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا آنحضرت ﷺ کی عمر اتنی کہاں ہوئی تھی کہ خضاب استعمال فرماتے اگر میں آپ ﷺ کی داڑھی کے سفید بالوں کو گننا چاہتا تو یقینا گن سکتا تھا۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر میں آپ ﷺ کی داڑھی کے نیچے کے حصہ میں اور کن پٹیوں میں تھی اور کچھ سر مبارک میں۔ تشریح آنحضرت ﷺ کی عمر اتنی کہاں ہوئی تھی۔۔۔۔ الخ۔ سے مراد یہ ہے کہ حضور کائنات ﷺ کا وصال جس عمر میں ہوا وہ کوئی ایسی عمر نہیں تھی جس میں آدمی پر خالص بڑھاپا طاری ہوجاتا ہو، اس عمر کو زیادہ سے زیادہ بڑھاپے کی ابتدا کہا جاسکتا ہے ظاہر ہے کہ اس عمر میں آنحضرت ﷺ کے بال اتنے زیادہ سفید نہیں ہوئے تھے کہ خضاب کی ضرورت پیش آتی جو تھوڑے بہت ہوگئے تھے اس کی مقدار اتنی کم تھی کہ بادی النظر میں بھی معلوم نہیں ہوتے تھے۔

【12】

آنحضرت ﷺ کی ہتھلیاں حریرودیباج سے زیادہ ملائم اور آپ ﷺ کا پسینہ مشک وعنبر سے زیادہ خوشبودار تھا :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ دہکتے ہوئے رنگ کے تھے اور آپ ﷺ کے پسینے کے قطرے (ہیت وچمک) اور صفائی میں) موتی کی طرح ہوتے تھے جب آپ ﷺ راستہ چلتے تو آگے کی طرف جھکے ہوئے چلتے اور میں نے کسی دیباج وحریر کو بھی رسول کریم ﷺ کی ہتھلیوں سے زیادہ ملائم اور نرم نہیں پایا اور نہ میں کوئی ایسا مشک وعنبر سونگھا جس میں نبی کریم ﷺ کے بدن مبارک کی خوشبو سے زیادہ خوشبوہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح آگے کی جانب جھکے ہوئے چلتے۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی چال اور رفتار میں بھی ایک خاص قسم کا ایسا وقار ہوتا تھا، جس میں انکساری شامل ہو اور یہ چال ایسی ہوتی تھی جیسے کوئی شخص بلند زمین سے نشیب میں اتر رہا ہو۔ یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ آپ ﷺ جب چلتے تو اس اعتماد اور وقار کے ساتھ قدم اٹھاتے جس طرح کوئی بہادر اور قوی و توانا شخص اپنے قدم اٹھاتا ہے، یہ نہیں تھا کہ چلتے وقت آپ ﷺ کی چال میں کوئی ڈگمگاہٹ یا غیر توانائی محسوس ہوتی ہو اور یا زمین پر پاؤں گھسٹیتے ہوئے چلتے ہیں

【13】

پسینہ مبارک :

اور حضرت ام سلیم سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ان کے یہاں آکر قیلولہ فرمایا کرتے تھے (یعنی دوپہر کے وقت ان کے ہاں ان یہاں استراحت کے لئے تشریف لایا کرتے تھے) چناچہ ام سلیم آپ ﷺ کے لئے چمڑے کا بستر بچھا دیتیں آپ ﷺ اسی پر قیلولہ فرماتے۔ آنحضرت ﷺ کو پسینہ زیادہ آیا کرتا تھا (کیونکہ آپ ﷺ کیثرالحیا تھے) ام سلیم (رض) آپ ﷺ کا پسینہ جمع کرکے اپنے عطر میں ملالیتی تھیں) (ایک دن) آنحضرت صلی اللہ علیہ نے ان کو پسینہ جمع کرتے ہوئے دیکھا تو) پوچھا کہ ام سلیم یہ تم کیا کر رہی ہو ؟ ام سلیم (رض) نے کہا کہ یہ آپ کا پسینہ ہے جس کو جمع کرکے ہم اپنے عطر میں ملالیتے ہیں، بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کا پسینہ مبارک تمام خوشبوؤں سے بہتر خوشبو ہے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ام سلیم نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اس پسینہ کو ہم اپنے بچوں کے لئے باعث برکت تصور کرتی ہیں (یعنی آپ ﷺ کے مبارک پسینہ کو ہم اپنے بچوں کے بدن اور منہ پر ملتی ہیں اور یقین رکھتی ہیں کہ وہ بچے اس پسینہ کی برکت سے آفات اور بلاؤں سے محفوظ رہیں گے) آپ ﷺ نے فرمایا تم نے صحیح کہا اور اچھا کیا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح حضرت ام سلیم (رض) حضرت انس (رض) کی والدہ ہیں جو آنحضرت ﷺ کے خادم خاص تھے یہ بڑی عاقلہ اور فاضلہ خاتون تھیں، اللہ نے اپنی اور اپنے دین کی اور اپنے رسول کی محبت کا وافر حصہ ان کو عطا فرمایا تھا کسی رضاعی یا نسبی رشتے سے آنحضرت ﷺ کی محرم عورتوں میں سے تھیں، اسی لئے آنحضرت ﷺ دوپہر کے وقت ان کے ہاں جا کر قیلولہ فرما لیا کرتے تھے

【14】

بچوں کے ساتھ پیار :

اور حضرت جابر ابن سمرۃ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی جب نماز پڑھ چکے تو آنحضرت ﷺ اپنے گھر جانے کے لئے مسجد سے باہر نکلے تو آپ ﷺ کے ساتھ میں بھی باہر آیا اتفاق سے آنحضرت ﷺ کے سامنے کچھ بچے آگئے آپ ﷺ نے پیار کرنے کے لئے ان میں سے ہر ایک بچہ کے رخساروں پر ہاتھ پھیرا اور پھر میرے رخساروں پر پھیرا اس وقت میں نے آپ ﷺ کے دست مبارک کی ایسی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی جیسے آپ ﷺ نے ابھی عطروں کے ڈبہ میں سے ہاتھ نکلا (مسلم) اور حضرت جابر (رض) کی روایت سمواباسمی الخ باب الاسامی میں اور حضرت سائب بن یزید کی کی روایت نظرت الی خاتم النبوۃ الخ باب احکام المیاہ میں نقل کی جاچکی ہیں، ( صاحب مصابیح نے ان دونوں روایتوں کو اس باب میں نقل کیا تھا۔ تشریح واما انا فمسح خدی اور پھر میرے رخساروں پر دست مبارک پھیرا اس جملہ میں لفظ خدی دال کے زیر اور یا کے جزم کے ساتھ بصیغہ مفرد ہے اور بعض نسخوں میں یہاں بھی یہ لفظ دال کے زیر اور یا کی تشدید کے ساتھ بلفظ تثنیہ ہے، جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے لیکن ملاعلی قاری (رح) نے یہ لکھا ہے کہ اکثر نسخوں میں تو یہاں یہ لفظ بصیغہ تثنیہ ہے اور ایک نسخہ میں بصیغہ مفرد ہے جس سے جنس مراد ہے۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کے جسم مبارک کی خوشبوکا ذکر ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا خود جسم مبارک خوشبودار تھا اگر آپ ﷺ خارجی خوشبو کا استعمال نہ بھی کرتے تب بھی جسم مبارک سے خوشبو آیا کرتی تھی، لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ اکثر اوقات خارجی خوشبو استعمال فرمایا کرتے تھے، تاکہ آپ ﷺ ملائکہ سے ملنے وحی حاصل کرنے اور مسلمانوں کے ساتھ ہم نشینی کے وقت زیادہ سے زیادہ معطر رہ سکیں۔

【15】

حضور ﷺ کا سراپا

حضرت علی ابن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نہ تو دراز قد تھے نہ پستہ قد (بلکہ میانہ قد تھے) بڑے سردار اور گھنی داڑھی والے تھے، ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پاؤں پر گوشت تھے، آپ ﷺ کا رنگ سرخ وسفید تھا، ہڈیوں کے جوڑ موٹے تھے اور سینہ سے ناف تک بالوں کی ایک لمبی لکیر تھی جب آپ ﷺ چلتے تو آگے کی جانب کو جھکے ہوئے چلتے گویا آپ ﷺ بلندی سے نشیب میں جا رہے ہوں حقیقت یہ ہے کہ میں نے آپ جیسا کوئی شخص نہ تو آپ سے پہلے دیکھا اور نہ آپ ﷺ کے بعد دیکھا آپ پر اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح آگے کی جانب کو جھکے ہوئے چلتے۔ کا ایک مطلب تو وہ ہے جو پیچھے بھی گذرا ہے کہ آپ قومی اور بہادر لوگوں کی چال چلتے تھے یعنی قوت کے ساتھ پاؤں زمین سے اٹھاتے اور رکھتے تھے۔ اور بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ کی چال میں اکڑ اور اتراہٹ نہیں ہوتی تھی بلکہ مسکینی اور تواضع کی چال اختیار فرماتے تھے۔

【16】

حضور ﷺ کا سراپا

اور حضرت علی ابن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ جب وہ نبی کریم ﷺ کے اوصاف بیان کرتے تو کہتے آنحضرت ﷺ نہ تو بہت لمبے تھے اور نہ بہت ٹگھنے بلکہ میانہ قد لوگوں میں تھے آپ کے بال نہ تو بہت زیادہ گھونگریالے تھے نہ بالکل سیدھے تھے بلکہ خفیف سابل کھائے ہوئے، نہ منہ بالکل گول اور بھاری تھا اور نہ گال پھولے ہوئے تھے ( بلکہ پورا چہرہ ستواں، ورخسار یکساں و برابر تھے اور پیشانی بلند تھی) روئے مبارک کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا، رنگ سرخ وسفید تھا آنکھیں سیاہ تھیں، پلکیں بڑی بڑی تھیں۔ جوڑوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی اور مونڈھوں کا درمیانی حصہ (جہاں دونوں شانوں کی ہڈیاں آکرملتی ہیں) مضبوط اور پر گوشت تھا، جسم مبارک پر بال نہیں تھے صرف ایک لکیر بالوں کی تھی جو سینہ سے ناف تک چلی گئی تھی ہاتھ اور پاؤں بھرے ہوئے یعنی پر گوشت تھے جب راستہ چلتے تو قوت کے ساتھ قدم اٹھاتے جیسے بلندی سے نیچے اتر رہے ہوں جب دائیں بائیں متوجہ ہونا ہوتا تو پورے جسم کی ساتھ متوجہ ہوتے اور آپ ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی اور آپ ﷺ خاتم النبیین تھے آپ ﷺ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ دل کے سخی اور زبان کے نہایت سچے تھے طبیعت کے بہت نرم اور سب سے معزز ومکرم انسان تھے جو شخص آپ ﷺ کو پہلی مرتبہ دیکھتا اس پر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جو شخص آپ سے واقفیت رکھتا ہو اور میل جول رکھتا ہو آپ ﷺ سے والہانہ محبت کرتا۔ آنحضرت ﷺ کی ان صفات و خصوصیات کو بیان کرنے والے (حضرت علی کرم اللہ وجہہ) کہتے ہیں کہ آپ ﷺ جیسا کوئی شخص نہ تو میں نے آپ ﷺ سے پہلے دیکھا اور نہ آپ ﷺ کے بعد دیکھا، اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو آپ ﷺ پر۔ ( ترمذی) تشریح جسم مبارک پر بال نہیں تھے الخ۔ اس جملہ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سینے سے ناف تک بالوں کی ایک لکیر کے علاوہ آپ ﷺ کے جسم مبارک پر اور کہیں بال نہیں تھے، جب کہ بعض دوسری روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سینہ یا ناف کے علاوہ بھی بعض جگہوں جسے کلائی وبازو، پنڈلیوں اور پہنچوں پر بال تھے۔ لہٰذا کہا جائے گا کہ یہاں اجرد کا لفظ اشعر کے مقابلہ پر استعمال ہوا ہے اور اشعر سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جس کے تمام بدن پر بال ہوں اور اجرد اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پورے بدن پر بال نہ ہوں (بلکہ کہیں کہیں ہوں) ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پورے جسم کے ساتھ متوجہ ہوتے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ﷺ کو دائیں بائیں کسی کو دیکھنا ہوتا یا کسی کی طرف متوجہ ہونا ہوتا تو بےاعتنائی برتنے والوں کی طرح نظر چرا کر نہ دیکھتے بلکہ پورے التفات کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے یا یہ مطلب ہم کہ دائیں بائیں متوجہ ہونے کے لئے کم ظرف لوگوں کی طرح صرف اکڑی ہوئی گردن نہ گھماتے بلکہ ایک ہمدرد کی طرح اطمینان کے ساتھ اپنا منہ ادھر کو کر کے یا پورے وجود کے ساتھ گھوم کر اس کی طرف دیکھتے اور اپنی کامل توجہ کا اظہار فرماتے۔ دل کے سخی سے ہونے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ دل وجان سے سخاوت کرتے تھے جس کے پیچھے ایک فطری جذبہ اور محض اخلاص و ہمدردی کا تقاضہ ہوتا تھا نہ کہ دکھانے، سنانے یا کسی جبرواکراہ کے ساتھ آپ ﷺ سخاوت فرماتے تھے۔ اور ملا علی قاری نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ لفظ اجود کو اگر جودت سے ماخوذ سمجھا جائے تو اس کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ ﷺ دل کے فراخ اور دلیر تھے اور اسی وجہ سے آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کی خلاف مرضی باتوں سے اور ان پڑھ دیہاتی مسلمانوں کی تکلیف پہنچانے والی حرکتوں سے ملول اور تنگ دل نہ ہوتے تھے۔ اور اگر اجود کو لفظ جود سے ماخوذ مانا جائے جس کے معنی عطاوبخشش کے ہیں تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ آپ ﷺ کوئی بھی چیز دینے اور عطا کرنے میں ذرا سا بھی بخل نہیں کرتے تھے، خواہ مال ہو علم و اخلاق ہو اور تہذیب و تربیت ہو۔ اسی طرح زبان کے نہایت سچے تھے کہ ایک معنی تو یہی ہیں جو خود ترجمہ سے ظاہر ہیں کہ آپ ﷺ سے زیادہ سچ بولنے والا اور حق گو کوئی دوسرا شخص نہیں تھا، لفظ لہجۃ کی رعایت سے ایک یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ ﷺ کی گفتگو نہایت باوقار آپ ﷺ آپ ﷺ کا لہجہ نہایت شاندار اور آپ ﷺ کی زبان نہایت صاف تھی، الفاظ کی ادئیگی نہایت برمحل، موزوں اور مخارج حروف سے ہوتی تھی۔ جو شخص پہلی مرتبہ آپ ﷺ کو دیکھتا الخ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کے ذاتی اور صاف وخصائل اور اخلاق واطوار سے وقفیت نہ رکھتے ہوئے پہلے پہل آپ ﷺ کے سامنے آتا اور ملاقات کرتا تو اس پر آپ ﷺ کی باوقار شخصیت کا اس قدر رعب طاری ہوتا کہ وہ خوف محسوس کرنے لگتا لیکن جب کچھ آپ ﷺ کی مجلس میں بیٹھتا، آپ ﷺ کے مزاج اور اخلاق کا تجربہ کرتا اور آپ ﷺ کی پرکیف صحبت کی اثر آفرینی محسوس کرتا تو ایک دم کھل اٹھتا اور آپ ﷺ کی محبت وکشش کا اسیر بن جاتا۔

【17】

حضور ﷺ کے جسم کی خوشبو گذر گاہ کو معطر کردیتی تھی :

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کسی راستہ سے گذرتے تو آپ ﷺ کے بعد جو شخص اس راستہ سے گذرتا وہ آنحضرت ﷺ کے جسم مبارک کی خوشبو یا یہ کہا آپ ﷺ کے پسینہ مبارک کی خوشبو سے معلوم کرلیتا کہ آنحضرت ﷺ اس راستہ سے تشریف لے گئے ہیں۔ (درامی) تشریح یا یہ کہا یہ روای کا شک ہے کہ حدیث میں اس موقع پر من طیب عرفہ کے الفاظ تھے یا من ریح عرقہ کے دونوں صورتوں میں مفہوم ایک ہی رہتا ہے ! لفظ عرف کے لغوی معنی صرف بو کے ہیں خواہ خوشبو ہو یا بدبو، لیکن یہ لفظ اکثر خوشبو ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بہرحال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جس راستہ سے گذرتے اس راستہ کی ہوا آپ ﷺ کے جسم مبارک یا پسینہ مبارک کی خوشبو سے عطر آمیز ہوجاتی تھی اور پورا راستہ مہک اٹھتا تھا، چناچہ جو شخص آپ ﷺ کے بعد اس راستہ سے گذرتا اس مخصوص خوشبو سے معلوم کرلیتا کہ سرور دوعالم ﷺ ادھر سے گذرے ہیں۔ اور یہ عطر بیزی آپ ﷺ کی ذات کی خوشبو کی ہوتی تھی، نہ کہ آپ ﷺ کے بدن یا کپڑوں کو لگی ہوئی خارجی خوشبو کی۔

【18】

آپ ﷺ کا وجود آفتاب کی طرح :

محمد بن عمار ابن یاسر کے صاحبزادے ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ میں نے معوذ ابن عفراء کی صاحبزادی حضرت ربیع (صحابیہ) سے کہا کہ آپ ہمارے سامنے رسول کریم ﷺ کا وصف بیان کریں تو انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے ! اگر تم آنحضرت ﷺ کو دیکھ لیتے تو یہی سمجھتے کہ چمکتا ہوا سورج دیکھ لیا ہے۔ (دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا ایسا دبدبہ اور جلال تھا اور آپ ﷺ کا وجود اس قدر پر نور تھا کہ آپ کو دیکھنا گویا چمکتے ہوئے سورج کو دیکھنا تھا۔

【19】

چہرہ مبارک کی وہ تابانی کہ ماہتاب بھی شرمائے :

اور حضرت جابر ابن سمرۃ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں چاندنی رات میں نبی کریم ﷺ کو دیکھ رہا تھا اور صورت یہ تھی کہ کبھی رسول کریم ﷺ کے جمال عالمتاب کی طرف نظر کرتا اور کبھی چاند کو دیکھتا، اس وقت آپ ﷺ کے جسم مبارک پر اس کپڑے کا لباس تھا جس میں سرخ اور سفید دھاریاں تھیں، حقیقت یہ ہے کہ میرے نزدیک آپ ﷺ کا حسن و جمال چاند سے کہیں زیادہ تھا۔ (ترمذی، دارمی) تشریح آپ ﷺ کے حسن و جمال کو چاند سے کہیں زیادہ اس لئے کہا گیا کہ چاند تو ایک خاص نوعیت کا صرف ظاہری حسن رکھتا ہے جب کہ آپ ﷺ کی ذات ہمہ جہت ظاہری حسن و جمال کے علاوہ بےمثال معنوی حسن و کمال کا بھی پر تو تھی۔ رہی یہ بات کہ حضرت جابر (رض) نے آنحضرت ﷺ کے اظہار حسن کو میرے نزدیک کے الفاظ کے ساتھ کیوں مقید کیا تو اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ وہ اپنے ذاتی جذبات عقیدت، وفورمحبت اور استلذاذ وذوق کا اظہار کرنا چاہتے تھے، درحقیقت حضرت جابر (رض) کیا تمام ہی ارباب عشق و محبت اور ناقدین حسن و جمال کے نزدیک آپ ﷺ کا جمال جہاں آراء چاند کے حسن و جمال سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا تھا۔

【20】

آنحضرت ﷺ کی رفتار :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی چیز نہیں دیکھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک آفتاب ہے جو آپ ﷺ کے چہرہ مبارک سے جلوہ ریز ہورہا ہے اور میں نے رسول کریم ﷺ سے زیادہ تیز رفتار کسی کو نہیں پایا (جب آپ ﷺ چلتے تو) ایسا لگتا کہ آپ ﷺ کے سامنے کی زمین لپٹی جارہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم تو سخت جدو جہد اور کوشش کرتے لیکن آپ ﷺ اپنی بےنیاز چال چلتے تھے۔ (ترمذی) تشریح ہم تو سخت جدوجہد اور کوشش کرتے الخ۔ کے ذریعہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس طرف اشارہ کیا کہ جب ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ راستہ چلتے تو ہم پوری کوشش اور جدوجہد کرکے اپنی رفتار کو بڑھاتے اور آنحضرت ﷺ کے برابر پہنچنا چاہتے لیکن آپ ﷺ بلاتعب و تکلف، اپنی معمولی چال سے چلتے ہوئے سب سے آگے ہی رہتے۔ یہ گویا آنحضرت ﷺ کا معجزہ تھا کہ دوسرے لوگ دوڑتے بھاگتے بھی آپ ﷺ کی اس رفتار کے برابر پہنچ پاتے تھے جو بالکل معمول کے مطابق اور سہولت کے ساتھ ہوتی تھی۔

【21】

حضور ﷺ کی پنڈلیاں، آنکھیں اور مسکراہٹ :

اور حضرت جابر ابن سمرۃ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی پنڈلیاں سبک ونازک تھیں۔ اور آپ ﷺ (عام طور) ہنسا نہیں کرتے تھے بلکہ مسکرایا کرتے تھے اور میں جب آپ ﷺ کی طرف تو دل میں کہتا کہ آپ ﷺ سرمہ لگائے ہوئے ہیں حالانکہ آپ ﷺ سرمہ لگائے نہ ہوتے تھے۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی آنکھیں خلقی طور پر سرمہ آگیں ہونے کی وجہ سے بہت حسین و خوبصورت معلوم ہوتی تھیں۔ بسان سرمہ سیہ کردہ خانہ مردم دو جشم تو کہ سیاہ اند سرمہ نا کردہ

【22】

حضور ﷺ کے دندان مبارک :

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے اگلے دو دانت کشادہ تھے، جب کشادہ تھے، جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ کے ان دونوں دانتوں کے درمیان سے نور نکل رہا ہے۔ (دارمی) تشریخ سامنے کے اوپر اور نیچے کے جو دو دو دانت ہوتے ہیں ان کو عربی میں ثنیان اور ثنایا کہتے ہیں، ثنیاں تثنیہ ہے اور ثنایا جمع۔ اسی طرح ان دو دانتوں کے دائیں اور بائیں جو دو دانت ہوتے ہیں ان کو رباعیات کہا جاتا ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کے سامنے کے یہ دو دانت ایک دوسرے سے بالکل جڑے ہوئے نہیں تھے، بلکہ ان دونوں کے درمیان کچھ خلا تھا، نیز الفاظ حدیث سے بظاہر یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ خلاصرف اوپر ہی کے دانتوں کے درمیان نہیں تھا بلکہ نیچے کے دونوں دانتوں کے درمیان بھی تھا۔

【23】

حضور ﷺ کی خوش دلی چہرہ سے نمایاں ہوجاتی تھی :

اور حضرت کعب ابن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ مبارک کھل اٹھتا تھا اور ایسے معلوم ہونے لگتا کہ آپ کا چہرہ مبارک چاند کا ٹکڑا ہے اور اس چیز سے ہم ( آپ ﷺ کی اندرونی کیفیت پہچان لیتے تھے) (بخاری و مسلم)

【24】

حضور ﷺ کی صفات و خصوصیات کا توریت میں ذکر

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا، بیمار ہوا تو نبی کریم ﷺ اس کی عیادت کو اس کے گھر تشریف لائے، آپ ﷺ نے دیکھا کہ اس کا باپ اس کے سرھانے بیٹھا ہوا ہے تورات کا کوئی حصہ پڑھا رہا ہے (جیسے مسلمانوں میں نزع کے وقت سورت یٰسین پڑھی جاتی ہے) رسول کریم ﷺ نے (یہ دیکھ کر) اس سے پوچھا کہ یہودی ! میں تمہیں اس اللہ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل کی (سچ سچ بتانا) کیا تم اس تورات میں میری تعریف و توصیف اور میرے (وطن سے) نکلنے کا ذکر پاتے ہو ؟ اس یہودی نے جواب دیا کہ نہیں لیکن وہ لڑکا بولا ہاں یا رسول اللہ ! خدا کی قسم اس تورات میں ہم آپ ﷺ کی تعریف و توصیف اور آپ کے نکلنے کا ذکر پاتے ہیں اور میں یقینی طور پر اس امر کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں معبود نہیں اور اس امر کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ بلاشبہ آپ اللہ کے رسول ہیں رسول کریم ﷺ نے اس لڑکے کی اس راست گوئی اور اس کے اظہار ایمان واسلام کو دیکھ کر) اپنے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اس کے باپ کو اس کے سرہانے سے اٹھادو اور تم اپنے اس (دینی) بھائی کے والی بنو (یعنی اگر اسی لڑکے کا انتقال ہوجائے تو پھر اس کے تجہیزوتکفین وغیرہ کے امور تم انجام دو ) اس روایت کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ذکر کیا ہے ، تشریح میرے نکلنے کا ایک مطلب تو وطن یعنی مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آجانا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ مخرج یہاں بعث (منصب رسالت ونبوت پر فائز ہونے) کے معنی میں ہو۔ لفظ، نعت اور صفت، لغوی طور پر دونوں ہم معنی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں نعت سے مراد آپ ﷺ کے ذاتی و باطنی اوصاف ہیں اور، صفت، سے ظاہری اوصاف مراد ہیں۔

【25】

آنحضرت ﷺ کی بعثت، رحمت خداوندی کا ظہور ہے :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ! حقیقت یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی رحمت ہوں۔ (اس روایت کو دارمی نے اور شعب الایمان میں بیہقی نے نقل کیا ہے شریح آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ میرا وجود، میری رسالت اور میرا لایا ہوا دین اللہ کی وہ عظیم رحمت ہے جو اس نے تمام کائنات کے لئے ہدیہ کے طور پر دنیا میں بھیجا پس جن لوگوں نے اللہ کے اس ہدیہ اور تحفہ کو قبول کیا وہ مطلب یاب ہوئے اور جن لوگوں نے قبول نہیں کیا وہ سراسر ٹوٹے میں رہے۔ ارشادگرامی مضمون کے اعتبار سے قرآن کریم کے ان الفاظ کا عکس ہے۔ وما ارسلنک الا رحمتہ العالمین۔ (اے محمد ﷺ ہم نے آپ ﷺ کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ، اس حدیث کے بین السطور سے امت محمدیہ کی عظمت و کر امت بھی ظاہر ہوتی کیونکہ شاہی ہدیہ وتحفہ ان ہی لوگوں کے پاس بھیجا جاتا ہے جو باعظمت وباکرامت ہو۔