179. آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان

【1】

آنحضرت ﷺ کے اخلاق وعادات کا بیان :

اخلاق خلق کی جمع ہے جس کی معنی طبعی خصلت اور باطنی صفت کے ہیں اور شمائل شمال کی جمع ہے جس کے معنی عادت اور خو کے ہیں پس پچھلے باب میں مؤلف کتاب نے آنحضرت ﷺ کی ظاہری شکل و صورت سے متعلق احادیث نقل کیں جس کو صورت اور خلق کہا جاتا ہے اب یہ باب قائم کرکے ان احادیث کو نقل کیا گیا ہے جن میں آنحضرت ﷺ کے باطنی اوصاف وخصائل ذکر کئے گئے ہیں، جن کو سیرت اور خلق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ باطنی اوصاف یا سیرت وخلق سے مراد مردانگی، شجاعت سخاوت، نرمی مروت محبت تحمل تواضع رحم و کرم اور شرم وحیا وغیرہ ہیں

【2】

بے مثال حسن خلق :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی دس سال خدمت کی (اس پورے عرصہ میں) مجھ کو آپ ﷺ نے کبھی اف بھی نہیں کہا اور نہ کبھی آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ (بخاری) تشریح مسلم کی روایت میں نوسال کے الفاظ۔ بہرحال آنحضرت ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت حضرت انس (رض) کی عمر باختلاف روایت آٹھ سال یا دس سال کی تھی، ان کی والدہ ماجدہ اور ان کے بعض اور رشتہ دار جو انصار میں سے تھے، ان کو آنحضرت ﷺ کے پاس لائے اور خدمت مبارک میں دے دیا، چناچہ حضرت انس (رض) نے اس دن سے اس وقت تک کہ آنحضرت ﷺ مدینہ منورہ میں دس سالہ قیام کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے آپ ﷺ کی مسلسل خدمت کرتے رہے اور اس حدیث میں وہ آنحضرت کے ساتھ اس طویل خادمانہ تعلق کا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس پورے عرصہ میں میری کسی غلطی اور کسی کوتاہی پر ڈانٹنا ڈپٹنا تو کجا کسی بات پر اف تک نہیں کیا۔ الف کے پیش اور ف کی تشدید اور زیر کے ساتھ ہے ایک نسخہ میں یہ لفظ کے زبر کے ساتھ ایک نسخہ میں تنوین مکسورہ کے ساتھ ہے، یہ لفظ انسان کی زبان سے اس وقت نکلتا ہے جب وہ کسی ناپسند یا تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہوتا ہے۔ تم نے یہ کام کیوں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔۔ اس جملہ کے ذریعہ بھی حضرت انس (رض) نے آنحضرت ﷺ کے حسن سلوک اور کمال خلق کو بیان کیا کہ اس طویل زمانہ میں ایسا کبھی ہوا کہ میں نے از خود کوئی کام کیا ہو اور آنحضرت ﷺ نے یہ اعتراض فرمایا ہو کہ تم نے میری مرضی کے بغیر یہ کام کیوں کیا، یا آنحضرت ﷺ نے مجھ سے کسی کام کے لئے کہا ہو اور میں اس کام کو نہ کرسکا ہوں تو آپ ﷺ نے جواب طلب کیا ہو کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا لیکن واضح رہے کہ حضرت انس (رض) نے آنحضرت ﷺ کا یہ معاملہ اور سلوک دنیاوی امور یا ذاتی خدمت کے تعلق سے بیان کیا ہے نہ دینی معاملات و امور سے متعلق، کیونکہ کسی دینی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر اعتراض پر چشم پوشی روا نہیں ہے۔ علامہ طیبی (رح) نے لکھا ہے کہ حدیث کے بین السطور سے خود حضرت انس (رض) کی خوبی ظاہر ہوتی ہے یا یوں کہے کہ ایک طرح سے حضرت انس (رض) نے اپنی تعریف بھی بیان کی کہ میں نے ایسا موقع کبھی نہیں آنے دیا کہ آنحضرت ﷺ میرے کسی کام پر کوئی اعتراض ہوا ہو یا مجھ سے کوئی شکایت پیدا ہوئی ہو لیکن یہ بات کہنا کچھ زیادہ موزوں معلوم نہیں ہوتا، حدیث کا جو سیاق وسباق ہے اور حضرت انس (رض) خلق نبوی کے متعلق جن احساسات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ان کے پیش نظر حدیث کا اصل مفہوم وہی ہے جو پہلے ذکر ہوا۔

【3】

شفقت ومروت :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اخلاق و عادات کی خوبی میں تمام لوگوں سے بڑھ کر تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ آپ ﷺ نے مجھے کسی کام سے کہیں بھیجنا چاہا، میں نے آپ ﷺ سے یوں کہہ دیا کہ کہ اللہ کی قسم میں نہیں جاؤں گا چناچہ میں چل پڑا، بازار سے گذرا تو ایک جگہ جہاں بچے کھیل رہے تھے ٹھہر گیا اچانک رسول اللہ ﷺ وہاں آگئے اور پیچھے سے میری گدی پکڑ لی، میں نے مڑ کر آپ ﷺ کی طرف دیکھا تو آپ مسکرا رہے تھے۔ پھر آپ ﷺ فرمانے لگے ارے انیس تو وہاں جارہا ہے نا، جہاں میں نے تجھے بھیجا تھا ؟ میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ﷺ میں اب جارہا ہوں (مسلم) تشریح حضرت انس (رض) نے یہ واقعہ اس زمانہ کا بیان کیا ہے جب انہیں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا اور ابھی صغیر السن تھے، یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے انہیں کہیں بھیجنا چاہا تو باوجودیکہ انکا ارادہ آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل کرنا تھا مگر بچپن کی نادانی اور لاابالی پن میں ان کی زبان سے یہ نکل گیا کہ میں تو نہیں جاؤں گا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کی اس بات کو اسی سیاق وسباق میں دیکھا اور اس پر کسی تادیب کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ ان کے ساتھ ہنسی اور نرمی و شفقت کا معاملہ کیا۔ انیس انس کی تصغیر ہے اور آپ ﷺ نے حضرت انس (رض) کو ان کے اصل نام سے مخاطب کرنے کے بجائے اس نام کی تصغیر انیس سے مخاطب کیا، جو ان کے تئیں آپ ﷺ کی شفقت و محبت کا اظہار تھا۔

【4】

بے مثال تحمل اور خوش اخلاقی :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا اس وقت آپ ﷺ کے جسم پر (یمن کے شہر) نجران کی بنی ہوئی (دھاری دار) چادر تھی، جس کے کنارے بہت دبیز اور موٹے تھے، (اچانک راستہ میں) ایک دیہاتی آنحضرت ﷺ کو مل گیا اور اس نے (اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے آپ ﷺ کی چادر پکڑ کر اتنے زور سے کھینچا کہ نبی کریم ﷺ اس کے سینے کی قریب آلگے، میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اس دیہاتی کے اس قدر سختی سے چادر کھینچنے سے رسول کریم ﷺ کی گردن مبارک پر چادر کے کنارے کی رگڑ کا نشان پڑگیا، پھر اس دیہاتی نے کہا کہ محمد ﷺ تمہارے پاس اللہ کا جو مال ہے اس میں سے کچھ مجھ کو دلواؤ۔ آنحضرت ﷺ نے پہلے تو (حیرت کے ساتھ) اس کی طرف دیکھا پھر (ازراہ تلطف) مسکرائے اور اس کو کجھ دیئے جانے کا حکم صادر فرمایا۔ (بخاری ومسلم ) تشریح ایک دوسری روایت میں ہے کہ مال اللہ الذی عندک کے بعد اس دیہاتی نے یہ بھی کہا لامن مالک ولامن مال ابیک (نہ تو تمہارے ذاتی مال میں سے مانگ رہا ہوں اور نہ تمہارے باپ کے مال میں سے) اور اللہ کے مال سے زکوٰۃ کا مال مراد ہے ! یہ حدیث لوگوں کی سخت گوئی بےمروتی اور بداخلاقی پر انحضرت ﷺ کے کمال ضبط و تحمل کی دلیل ہے اور اس بارے میں سرکار رسالت مآب کا ایک ایسا کردار پیش کرتی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی۔ واضح رہے کہ مذکورہ دیہاتی پرلے درجہ کا اجڈ اور نہایت درشت خو تھا، اس نے نہ تہذیب وشائستگی سیکھی اور نہ اخلاق وآداب کے معمولی مراتب سے بھی روشناس تھا، اس لئے اس نے اپنے خالص اجڈ پن میں آنحضرت ﷺ سے اس قدر غیر شائستہ انداز میں اپنا مدعا ظاہر کیا۔ اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ حاکم وسلطان کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنی رعایا اور نادان لوگوں کی ایذاء پر صبر و تحمل کرے اور دوسری بات یہ کہ اپنی حیثیت عرفی اور اپنے وقار کی حفاظت کے لئے کسی کو کچھ دینا دانشمندی کا تقاضہ ہے۔

【5】

آنحضرت ﷺ کی اکملیت وجامعیت :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (حسن و جمال، فضل و کمال، صفات حمیدہ اور اخلاق فاضلہ میں) تمام لوگوں سے بڑھ کر تھے، تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام لوگوں سے زیادہ دلیروبہادر تھے، ایک رات کا واقعہ ہے کہ مدینہ کے لوگ (کسی سمت سے چور وڈاکو یا کسی دشمن کی آواز سن کر) مضطرب وخوف زدہ ہوگئے (اور ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے) پھر (کچھ لوگ) (جمع ہو کر) اس آواز کی سمت گئے، وہاں انہوں نے اپنے سامنے نبی کریم ﷺ کو موجود پایا، حقیقت یہ ہے آنحضرت ﷺ سب سے پہلے (گھر سے نکل کھڑے ہوئے تھے اور تن تنہا، اس آواز کی سمت روانہ ہوگئے تھے آپ ﷺ نے ان سب لوگوں کو اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو نہیں، کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ اس وقت ابوطلحہ (رض) کے گھوڑے پر سوار تھے جو ننگی پیٹھ تھا، اس پر زین نہیں تھی نیز آپ ﷺ کی گردن میں تلوار بھی تھی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا میں نے تو اس گھوڑے کو دریا کی طرح تیز رو پایا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح ایک روایت میں یہ وضاحت بھی ہے کہ گھوڑا بہت سست رفتار، تنگ قدم اور سرکش تھا، لیکن اس دن کے بعد سے وہ گھوڑا ایسا تیز رفتار ہوا کہ کوئی گھوڑا اس کے آگے نہیں نکل پاتا تھا پس یہ آنحضرت ﷺ کے معجزات میں سے ہے کہ اس گھوڑے کی حالت آپ ﷺ کی ذرا سی دیر کی سواری سے اس طرح بدل گئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی طرف سے دشمن وغیرہ کی کوئی آہٹ محسوس ہو تو صورت حال کی تحقیق کے لئے سبقت کرنا اور اس طرف تن تنہا روانہ ہوجانا دلیری بھی ہے اور مستحب بھی بشرطیکہ ہلاکت میں نہ پڑنے کا یقین ہو، اس طرح اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عاریتا مانگنا اور مستعار گھوڑے (یا کسی بھی سواری) پر جہاد کرنا جائز ہے نیز تلوار کا گردن میں لٹکانا مستحب ہے، یہ بھی اس حدیث سے معلوم ہوا ،

【6】

کبھی کسی سائل کو انکار نہیں کیا :

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول کریم ﷺ سے کسی نے سوال کیا ہو اور آپ ﷺ نے اس کو انکار کردیا ہو ( بخاری ومسلم) تشریح علامہ ابن حجر (رح) نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ جب کوئی شخص آپ ﷺ سے کچھ مانگتا اور آپ ﷺ کے پاس ہوتا تو فورا دے دیتے تھے۔ اگر آپ ﷺ کے پاس دینے کے لئے کچھ نہ ہوتا اور سائل کا سوال پورا کرنے پر قادر نہ ہوتے تو اس صورت میں بھی صفائی کے ساتھ انکار نہ کرتے بلکہ یا تو خاموشی اختیار کرلیتے یا مناسب الفاظ میں عذر بیان کرتے، یا دعائیہ جملے ارشاد فرمادیتے، گویا آپ ﷺ کسی بھی حالت میں سائل کے سامنے اپنی زبان پر صاف انکار کا لفظ نہیں لاتے تھے۔ اور شیخ عزالدین نے لکھا ہے اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ لا (انکار کا لفظ) آپ ﷺ کی زبان پر کبھی اس لئے نہیں آیا کہ کسی سائل نے آپ ﷺ سے کوئی سوال کیا ہو اور آپ ﷺ اس سوال کو ٹھکرانا چاہتے ہوں، یہ اور بات ہے کہ کوئی سوال پورا کرنا آپ ﷺ کے بس میں نہ رہا ہو اور آپ ﷺ نے عذر بیان کرنے کے لئے یا کسی اور مقصد کی خاطر اس لفظ کا استعمال فرمایا ہو جیسے ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا تھا لااجدما احملکم علیہ (میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے کہ تمہیں سوار ہونے کے لئے دوں) مشہور شاعر فرزدق نے آنحضرت ﷺ کے اسی وصف کا کہ لا (انکار) کا لفظ آپ ﷺ کی زبان پر کبھی نہیں آیا اپنے شعر میں اس طرح ذکر کیا ہے۔ ماقال لا قط الا فی تشہدہ لولا التشہد کانت لاؤہ نعم۔ اسی مضمون کو ایک فارسی شاعر نے یوں ادا کیا ہے۔ نہ رفت کلمہ لا برزبان او ہرگز مگر باشہدان لاالہ الا اللہ۔

【7】

عطاوبخشش کا کمال :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے اتنی بکریاں مانگیں جو پہاڑوں کے درمیانی نالہ کو بھر دیں، چناچہ آپ ﷺ نے اس کو اتنی بکریاں دے دیں، اس کے بعد وہ شخص اپنی قوم میں آیا اور کہا اے میری قوم کے لوگو اسلام قبول کرلو، اللہ کی قسم محمد ﷺ اتنا دیتے ہیں کہ فقر و افلاس سے بھی نہیں ڈرتے۔ (مسلم) تشریح شاید سائل کے وہم گماں میں بھی نہ تھا کہ اس کا اتنا بڑا سوال اتنی آسانی سے پورا کیا جاسکتا ہے چناچہ جب آنحضرت ﷺ نے اپنے تصرف میں موجود تقریبا ساری ہی بکریاں دے کر اس کا سوال پورا کردیا تو وہ اچھنبے میں پڑگیا اور آنحضرت کی بخشش وعطاء کا یہ مظاہرہ دیکھ کر اس کو یقین ہوگیا کہ آپ توکل و قناعت اور زہد واستغناء کے جس درجہ کمال پر فائز ہیں وہ اسی مذہب کا پر تو ہوسکتا ہے جس کے رسول بنا کر آپ ﷺ اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں، اس لئے اس نے اپنی قوم میں جا کر لوگوں کو مخلصانہ تلقین کی کہ اگر تم اعلی اخلاقی اقدار اور بلند ترین انسانی کردار کی عظمت حاصل کرنا چاہتے ہو تو حلقہ بگوش اسلام ہوجاؤ اور ان محمد عربی ﷺ کے پیرو بن جاؤ جو سائل کے سوال کو اس طرح پورا کرتے ہیں کہ ان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اپنی ضرورت سے بےنیاز ہو کر سب دے دیتے ہیں اپنے فقر و افلاس کا خدشہ بھی انہیں سائل کی طلب و خواہش کی تکمیل سے نہیں روکتا۔ ہرچہ آمدت بدادے تو بیش ازاں ایں جود آں کسی ست کش از فقر عارنیست۔

【8】

خلق نبوی ﷺ :

حضرت جبیر ابن مطعم (رض) اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہیں جب وہ رسول کریم ﷺ کے ہمراہ غزوہ حنین سے واپس آرہے تھے کہ (راستہ میں ایک مقام پر) کچھ (غریب) دیہاتی آپ ﷺ کو لپٹ گئے اور (غنیمت کا مال) مانگنے لگے اور اس حد تک پیچھے پڑگئے کہ آپ کو (کھینچتے ہوئے) ایک کیکر کے درخت تک لے گئے۔ وہاں آپ ﷺ کی چادر کیکر کے کانٹوں میں الجھ کر رہ گئی آپ (بڑی بےچارگی کے ساتھ) رک گئے اور فرمایا لاؤ میری چادر تو دے دو ، اگر میرے پاس ان خار دار درختوں کے برابر بھی چوپائے (یعنی بکریاں اور اونٹ وغیرہ) ہوتے تو میں ان سب کو تمہارے درمیان تقسیم کردیتا اور تم جان لیتے کہ میں نہ بخیل ہوں نہ جھوٹا وعدہ کرنے والا اور نہ چھوٹے دل والا ہوں۔ (بخاری) تشریح غزوہ حنین وہ مشہور جنگ ہے جو فتح مکہ کے فورا بعد طائف اور مکہ کے درمیان آباد بنوہوازن وبنوثقیف اور ان کے حلیف قبائل سے آنحضرت ﷺ کو کرنا پڑی تھی۔ اس جنگ میں ابتدائی طور پر کچھ سخت پریشانیوں اور قدرے ہزیمت کے بعد مسلمانوں کو زبر دست فتح حاصل ہوئی تھی، دشمن کے چھ ہزار قیدیوں کے علاوہ مال غنیمت میں ٤٤ ہزار اونٹ ، ٤٤ ہزار سے زیادہ بھیڑبکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی مسلمانوں کے ہاتھ آئی، اس معرکہ میں مدینہ کے دس ہزار مہاجر و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ اہل مکہ میں کے وہ دو ہزار لوگ بھی شامل تھے جو فتح مکہ کے موقع پر نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے آپ ﷺ نے عزوہ حنین کا سارا مال غنیمت میدان جنگ کے قریب ہی مقام جعرانہ میں جمع کرنے کا حکم دیا اور وہیں سے اہل طائف کی شورش کو دبانے کے لئے طائف تشریف لے گئے طائف کی مہم میں کامیاب ہو کر مقام جعرانہ واپس آئے اور وہاں جمع شدہ مال غنیمت کی تقسیم شروع فرمائی زیادہ تر مال آپ ﷺ نے اہل مکہ کی تالیف قلب کے لئے ان کو دے دیا دوسرے مستحقین کو بھی عطا فرمایا اور ایک شخص کو اس کے سوال پر بہت زیادہ بکریاں دینے کا وہ واقعہ، جس کا ذکر پیچھے کی حدیث میں گذرا اسی موقع پر پیش آیا تھا اس طرح جب آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے تو سارا مال و اسباب تقسیم کرکے ختم کرچکے تھے، لہٰذا آگے چل کر راستہ میں جب کچھ دیہاتیوں نے آپ ﷺ سے کچھ سوال کیا تو آپ ﷺ ان کا سوال پورا نہ کرسکے، ایک طرف تو یہ مجبوری تھی کہ سارا مال و اسباب ختم ہوجانے کی وجہ سے آپ ﷺ ان کو کچھ دے نہیں سکتے تھے دوسری طرف صفائی کے ساتھ انکار کرکے ان کی دل شکنی بھی گوار انہیں تھی لیکن جب ان لوگوں نے تنگ و پریشان کرنے کی حد تک آپ ﷺ کا پیچھا پکڑ لیا تو آپ ﷺ نے ان سے مذکورہ جملے ارشاد فرمائے جس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارا سوال پورا نہ کرنے کا حقیقی سبب یہ ہے کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں بچا ہے، جو مال اسباب میرے پاس تھا سب کچھ تقسیم کرچکا ہوں، اگر میرے پاس اس جنگل میں پائے جانے والے بیشمار خار دار درختوں کے برابر بھی مال ہوتا تو میں سب کا سب تم لوگوں کے درمیان تقسیم کردیتا اس وقت تم لوگوں کو تجربہ ہوجاتا کہ نہ میں بخیل ہوں کہ خرچ کرنا نہیں چاہتا، نہ یہ بات کہ اپنا مال بچانے اور محض ٹرخانے کے لئے جھوٹا سچا وعدہ کرکے سائلین سے اپنا پیچھا چھڑا لیا کرتا ہوں اور نہ یہ کہ میں چھوٹے دل کا آدمی ہوں اور اس خوف کی وجہ تمہیں کچھ دینا نہیں چاہتا کہ اگر تمہیں دے دیا تو میرے پاس کچھ نہیں رہ جائے گا اور خود مجھے فقروافلاس گھیر لے گا غرضیکہ بخل وکذب اور جبن جیسی بری خصلتیں میرے اندر نہیں پاسکتے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی میں اس بات کی دلیل ہے کہ اعتماد اور بھروسہ پیدا کرنے کے لئے نہ جاننے والے کے سامنے اوصاف حمیدہ کے ذریعہ اپنی تعریف کرنا جائز ہے۔

【9】

مخلوق اللہ کے تئیں شفقت وہمدردی :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو اہل مدینہ کے خدام (یعنی لونڈیاں اور غلام اپنے اپنے برتنوں میں پانی لے کر پہنچ جاتے (تاکہ آپ ﷺ کے دست مبارک کی برکت سے عافیت اور بیماریوں سے شفا حاصل کریں) چناچہ جو شخص بھی پانی کا برتن لے کر آتا آپ ﷺ (اس کی خوشی کی خاطر اور اس کو اپنی برکت پہنچانے کے لئے) اس برتن میں اپنا ہاتھ ڈال دیتے اکثر ایسا ہوتا تھا کہ لوگ سردی کے موسم میں صبح ہی صبح اپنے برتن لے کر آتے اور آپ ﷺ (بڑی خوش دلی کے ساتھ) اپنا دست مبارک ان برتنوں میں ڈال دیتے۔ (مسلم) تشریح یہ حدیث نہ صرف آپ ﷺ کی اس شفقت و محبت اور ہمدری کو ظاہر کرتی ہے جو آپ ﷺ اپنی امت کے تئیں رکھتے تھے بلکہ اس طرف رہنمائی بھی کرتی ہے کہ اگر تکلیف و پریشانی کو برداشت کرکے بھی مخلوق اللہ کو فائدہ پہنچا یا جاسکتا ہو تو اس سے دریغ نہ کرنا چاہیے۔

【10】

غیریب وپریشان حال لوگوں کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا معاملہ :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ مدینہ والوں کی لونڈیاں میں سے ایک لونڈی کا یہ معاملہ تھا کہ جب اس کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی) رسول کریم ﷺ کا ہاتھ پکڑتی اور جہاں اس کا جی چاہتا آپ ﷺ کو لے جاتی۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ کہ وہ ضرورت سمجھتی تو آپ ﷺ کو مدینہ سے باہر کہیں دور اس طرح لئے چلی جاتی اور وہاں اپنی پریشانی بیان کرتی اور جو کچھ کہنا سننا ہوتا کہتی سنتی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اپنی امت کے لوگوں یہاں تک کہ چھوٹے درجہ کے افراد سے کس قدر محبت وتعلق تھا اور تواضع وبے نفسی کے کس بلند ترین مقام پر فائز تھے !

【11】

غیریب وپریشان حال لوگوں کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا معاملہ :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت تھی جس کے دماغ میں کچھ خلل تھا، اس نے ایک دن کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ سے میرا ایک کام ہے (جو لوگوں سے پوشیدہ طور پر کہنے کا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا فلانے کی ماں تم جس کوچہ کو (لوگوں کی نظروں سے محفوظ سمجھو) دیکھ لو (میں تمہارے ساتھ وہاں چلنے کو تیار ہوں) تمہارا جو کام ہوگا میں ضرور کروں گا (یعنی جس تنہا مقام پر مجھ سے بات کرنا چاہو چلو میں وہاں چل کر تمہاری بات سن لوں گا) چناچہ آپ ﷺ اس کے ساتھ ایک کوچہ میں تشریف لے گئے اور وہاں تنہائی میں اس عورت کو جو کچھ کہنا سننا تھا اس نے کہا سنا۔ (مسلم) تشریح یہ حدیث بھی آنحضرت ﷺ کے علو اخلاق کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے نہ صرف پاگل عورت کی طرف توجہ دی بلکہ اس نے جہاں چاہا وہ اپنی بات سنانے آپ ﷺ کو لے گئی نیز اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کا اس عورت کے ساتھ ایک کوچہ میں تنہائی اختیار کرنا گھر میں اور عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے کی مانند نہیں تھا کیونکہ اس کوچہ میں آنحضرت ﷺ اس عورت کے ساتھ بالکل تنہا نہیں تھے بلکہ وہ لوگ تو وہاں موجود ہی تھے جن کے مکانات وہاں موجود تھے لیکن برعایت حسن ادب وہ حضرات اس جگہ سے کچھ فاصلہ پر کھڑے ہوئے تھے، جہاں آپ ﷺ اس عورت کی بات سن رہے تھے۔

【12】

آنحضرت ﷺ کے اوصاف حمیدہ :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نہ تو فحش گو تھے نہ لعنت کرنے والے اور نہ بدکلام تھے جب کسی پر آپ ﷺ کو غصہ آتا تو بس یہ فرماتے کیا ہوا اس کو جو اس نے یہ بات کہی یا یہ کام کیا) خاک آلود ہو اس کی پیشانی۔ (بخاری) تشریح فحش کے اصل معنی ہیں کوئی بات کہنے یا کسی بات کا جواب دینے میں حد سے بڑھ جانا زیادہ تر اس کا استعمال اس کلام کے لئے ہوتا ہے جس میں اجماع یا جماع سے متعلق باتوں کا کھلم کھلا ذکر ہو ! جیسے اوباش وبے حیاء اور بدقماش لوگ باپ کی گندی گالیاں اور شرمناک باتیں بکتے ہیں اور اہل حیاء وشریف لوگ ایسی باتوں کو زبان پر لانا تو درکنار، ان کو سننا بھی برداشت نہیں کرتے، بلکہ اگر انہیں اس طرح کوئی بات ضروری بھی کہنا ہوتی ہے تو اس کو اشارے وکنایہ میں کہتے ہیں یہاں تک کہ پیشاب وپاخانہ کا ذکر بھی قضاء حاجت جیسے مہذب الفاظ میں کنایۃ ًکرتے ہیں۔ اس طرح فحش کا لفظ کثرت و زیادتی، ہر سخت برے گناہ، ہر ایک بری اور قبیح خصلت اور زنا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ لعن کے لغوی معنی ہیں، ہانک دینا، محروم کردینا، ذلیل کرنا، گالی دینا، لعن یا لعنت کی نسبت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے پروردگار کا اپنے قرب سے دور کردینا اور اپنی رحمت سے محروم کردینا اور اگر اس لفظ کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس سے مراد ہوتا ہے برا کہنا اور رحمت الٰہی سے دوری و محرومی کی بدعا کرنا۔ مثلا اگر کہیں یہ آئے کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت کی، یا فلاں پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اپنے مقام قرب سے دور پھینک دیا اور اپنی رحمت سے دور کردیا اور اگر یہ آئے کہ فلاں شخص نے لعنت بھیجی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس شخص نے اللہ کی رحمت سے دوری و محرومی کی بدعا کی ! واضح رہے کہ اس شخص پر لعنت کرنا جو لعنت کا مستحق نہ ہو سخت گناہ ہے اور بار بار لعنت کرنا تو گناہ کبیرہ ہے نیز علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی معین شخص پر لعنت پر لعنت کرنا حرام ہے اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، ہاں اگر کسی شخص کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ کفر ہی کی حالت میں مرگیا ہے جیسے ابوجہل وغیرہ تو اس پر لعنت کرنا حرام نہیں ہے، اسی طرح کسی برائی میں مبتلا لوگوں پر عمومی انداز میں لعنت کرنا جیسے یہ کہنا کہ کافروں یا ظالموں، یا سود خواروں وغیرہ وغیرہ پر اللہ کی لعنت ہو، حرام نہیں ہے۔ ایک بات یہ بھی جان لینی چاہے کہ لعنت کی دو قسمیں ہیں ایک تو رحمت الٰہی اور دخول جنت سے محرومی دوری اور بدی عذاب و تباہی (خلود دوزخ) کے ابتلاء کی بددعا، اس قسم کا تعلق بعض درجہ کے گنہگاروں اور بدکاروں سے ہے۔ ان قسموں کے باہمی فرق کو ملحوظ رکھنے سے اس مسئلہ میں پیدا ہونے والے بہت سے اشکال دور ہوجاتے ہیں ! خاک آلود ہو اس کی پیشانی۔ یہ جملہ ذلت و خواری اور نگوساری سے کنایہ ہے۔ مطلب یہ کہ غصہ و ناراضگی کے وقت آپ ﷺ کی طرف سے شدید جو ردعمل ظاہر ہوتا تھا وہ بس یہ جملہ تھا جو زبان مبارک سے ادا ہوتا اور اس میں بھی آپ ﷺ براہ راست اس شخص کو خطاب نہیں فرماتے تھے جو اس غصہ و ناراضگی کا باعث ہوتا، بلکہ اس کی ذات سے اعراض کرکے غائب کا صیغہ استعمال فرماتے۔ اسی طرح کا ایک جملہ خاک آلود ہو اس کی ناک آتا ہے، جو اسی معنی اور اسی محل میں استعمال ہوتا تھا، تاہم واضح رہے کہ دونوں جملے ذو معنیین (دومتضاد معنوں کے متحمل) ہیں جس طرح ان جملوں کو بدعا پر محمول کرکے ذلت خواری اور نگوساری سے کنایہ کہا جاسکتا ہے اسی طرح ان دونوں جملون کو دعا پر محمول کرکے عبادت و سجدہ ریزی سے کنایہ بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ عبادت اور سجدہ کرنے والے پیشانی اور ناک کو خاک لگتی ہے، اس صورت میں ان جملوں کا مفہوم یہ ہوگا کہ سجد اللہ وجہک (اللہ تعالیٰ تیرے چہرے کو اپنے حضور سجدہ ریزکرے ) ۔

【13】

اپنے دشمنوں کے حق میں بھی بدعا نہیں فرماتے تھے :

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ (اپنے دشمنوں) کافروں کے حق میں بددعا فرمائیے، تاکہ وہ ہلاک ہوں اور ان کی جڑ اکھڑجائے) تو فرمایا مجھ کو لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ مجھ کو تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے (مسلم ) تشریح مجھ کو تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے کے ذریعہ آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ میں سارے جہاں کے لئے رحمت کا باعث ہوں کیا مؤمن اور کیا کافر، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وما ارسلنک الا رحمتہ للعلمین۔ اور آپ ﷺ کو تو سارے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اس صورت میں جب کہ سب ہی کے حق میں رحمت کر بھیجا گیا ہوں، کافروں کے حق میں بددعا کیسے کرسکتا ہوں خواہ وہ میرے کیسے ہی دشمن کیوں نہ ہوں۔ اہل ایمان کے حق میں آنحضرت ﷺ کا باعث رحمت ہونا تو ظاہرہی ہے رہی کافروں کی بات تو ان کے حق میں آپ ﷺ کا باعث رحمت ہونا اس اعتبار سے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دین اور اس کے رسول کی سخت نافرمانی، سرکشی اور دشمنی کے باوجود محض آنحضرت ﷺ کے بابرکت وجود کے باعث ان پر سے دنیا کا عذاب اٹھا لیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم۔ اس حالت میں کہ آپ ان کے درمیان موجود ہیں اللہ تعالیٰ ان پر (دنیا میں) عذاب نازل نہیں کرے گا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی اس برکت کو حیات مبارکہ تک ہی محدود نہیں رکھا، ہمیشہ کے لئے اس برکت کو باقی رکھا اور طے فرما دیا کہ کلی استیصال کا عذاب قیامت تک نازل نہیں ہوگا، جب کہ کتنی ہی گذشتہ امتیں اپنے پیغمبروں کی بددعا کی وجہ سے نیست ونابود کردی گئیں اور ان کا معمولی ساوجود بھی باقی نہ رہا۔ علامہ طیبی (رح) لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ میں اس لئے نہیں آیا ہوں کہ کسی کو اللہ کی رحمت سے دور کروں بلکہ اس دنیا میں میری بعثت کا مقصد یہی ہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ ہدایت، اپنی تعلیمات اور اخلاق کی طاقت سے لوگوں کو اللہ اور اس کی رحمت کے قریب کروں، ایسی صورت میں جب کہ کسی کے حق میں بددعا کرنا یا کسی پر لعنت بھیجنا میری شان سے بعید اور میرے حال کے غیر مناسب ہے تو میں ان کافروں کے حق میں بھی کیسے بددعا کروں اور کس طرح ان پر لعنت بھیجوں۔

【14】

آنحضرت ﷺ کی شرم وحیا۔

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے، جب کوئی خلاف مزاج بات (طبعی طور پر غیر پسندیدہ یا غیر شرعی ہونے کی وجہ سے) پیش آجاتی تو ہم آپ ﷺ کے چہرہ مبارک سے آپ ﷺ کی ناگواری کو محسوس کرلیتے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح خدر پردہ کو کہتے ہیں پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی۔ اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ جتنی زیادہ شرم وحیا اس کنواری لڑکی میں ہوتی ہے جو پردہ میں رہتی ہے اور گھر سے باہر قدم نہیں نکالتی اتنی اس کنواری میں نہیں ہوتی جو بےپردہ ہوتی ہے اور گھر سے باہر پھرتی ہے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ کے سامنے کوئی ایسی بات پیش آتی جو طبعی طور پر غیر پسندیدہ یا غیر شرعی ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کے مزاج کے خلاف ہوتی تو اس کی ناگواری کے اثر سے چہرہ مبارک فورًا متغیرہوجاتا اور ہم اس تغیر سے آپ ﷺ کی ناگواری کو محسوس کرکے اس کے دفیعہ کی کوشش کرتے چناچہ آپ ﷺ کے چہرہ سے ناگواری کے اثرات ختم ہوجاتے تھے اور یہ محسوس ہونے لگتا تھا کہ آپ ﷺ بالکل غصہ نہیں ہوئے تھے لیکن یہ اس صورت میں ہوتا تھا جب اس خلاف مزاج بات کا تعلق کسی طبعی امر سے ہوتا یا کسی ایسے شرعی امر سے ہوتا جس کا ارتکاب حرام ناجائز بلکہ مکروہ ہوتا۔ علامہ نووی (رح) نے یہ مطلب لکھا ہے کہ جو خلاف مزاج بات پیش آتی غلبہ حیاء سے آپ ﷺ اس کے خلاف ناگواری کا اظہار زبان سے نہ کرتے بلکہ اس کے اثرات آپ ﷺ کے چہرے پر ظاہر ہوجاتے تھے چناچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ چہرے کے تغیر سے آپ کی ناگواری اور ناراضگی کو محسوس کرلیتے اس حدیث سے نہ صرف یہ کہ شرم وحیاء کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے بلکہ یہ سبق ملتا ہے کہ اس وصف کو اپنے اندر زیادہ سے زیادہ پیدا کرنا چاہے تاوقتے کہ اس کی وجہ سے کسی شرعی وانسانی فریضہ کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا نہ ہو اور کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو۔

【15】

منہ کھول کر نہیں ہنستے تھے :

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتیں ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو کبھی اس طرح ہنستے نہیں ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ کا سارا منہ کھل گیا ہو اور مجھے آپ ﷺ کے حلق کا کوا نظر آیاہو، آپ ﷺ کی ہنسی بس مسکراہٹ تک محدود رہتی تھی۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ کہ جس طرح دوسرے لوگ قہقہ مار کر بڑے زور سے ہنستے ہیں اور اس وقت ان کا پورا منہ اتنا زیادہ کھل جاتا ہے کہ اندر کے مسوڑھے، تالو اور حلق کا کوا تک نظر آجاتا ہے اس طرح آنحضرت ﷺ کبھی نہیں ہنستے، اکثر کسی خوشی ومسرت کی بات پر آپ مسکرادینے ہی پر اکتفا فرماتے تھے۔ کبھی کبھی ہنسی بھی ہنس لیتے تھے، اس تفصیل پیچھے اس موضوع سے متعلق باب میں گذر چکی ہے۔

【16】

حضور ﷺ کی گفتگو کا بہترین انداز :

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ تیز تیز اور مسلسل بات نہیں کرتے تھے جس طرح تم لوگ مسلسل بولے چلے جاتے ہو آپ ﷺ اس طرح ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے کہ اگر کوئی گننا چاہتا تو گن سکتا تھا۔ (بخاری) تشریح اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ گفتگو کا انداز اور بولنے کا طرز نہایت عام فہم اور دلکش اور باوقار تھا نہایت مہذب وعقلمند اور سنجیدہ لوگوں کی طرح آپ ﷺ بھی ٹھہر ٹھہر کر، ایک ایک جملہ کو الگ الگ کرکے بڑے باوقار لہجہ میں گفتگو کرتے تھے، اگر کوئی چاہتا کہ آپ ﷺ کے الفاظ اور جملوں کو گن لے تو یقینا گن سکتا تھا، آپ ﷺ کی گفتگو کا انداز وہ بالکل نہیں تھا جو عام لوگوں کا ہوتا ہے کہ جب بات کرتے ہیں تو زبان مسلسل اور تیزی کے ساتھ چلتی رہتی ہے اس تیزی وروانی میں نہ جملوں کی ترتیب موزوں ہوتی ہے اور نہ الفاظ کی ادائیگی صاف ہوتی ہے جس سے مخاطب کو بات سمجھنے میں وقت اور اشتباہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

【17】

گھرکے کام خود کرتے تھے :

حضرت اسود کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ گھر میں کیا کیا کام کرتے تھے تو انہوں نے فرمایا آنحضرت ﷺ اپنے گھر میں خانگی کام کرتے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت آتا تو نماز کے لئے چلے جاتے تھے (اس وقت سارا کام کاج چھوڑ دیتے تھے اور گھر والوں سے کوئی مطلب نہیں رکھتے تھے (بخاری) تشریح مَہْنَۃٌیا مِہْنَۃٌکے معنی ہیں خدمت کرنا اور کام کاج میں لگے رہنا۔ چناچہ خود حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بھی اس لفظ کی یہی وضاحت فرمائی کہ اس سے مراد گھر والوں کی خدمت کرنا اور خانگی کام کاج میں لگے رہنا ہے جیسے بکری کا دودھ دوہنا، جوتی کا مرمت کرنا اور کپڑوں میں پیوند لگانا وغیرہ وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ گھر اور گھر والوں کی خدمت اور کام کاج میں لگے رہنا، انبیاء کرام کی سنت اور صالحین کے طور طریقوں میں سے ہے۔ حدیث کے راوی حضرت اسود جلیل القدر تابعین میں سے ہیں، انہوں نے نبوت کا زمانہ پایا، خلفاء اربعہ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور اکابر صحابہ کرام سے سماعت حدیث کا شرف حاصل کیا، بڑے عابد و زاہد، نیک متقی اور اعلی اوصاف کے حامل تھے، ان کو ٨٠ حج و عمرے ادا کرنے کی سعادت ملی، آخر وقت تک ہمیشہ روزے رکھتے رہے اور ہر رات دو قرآن شریف ختم کرتے تھے، اونچے درجہ کے فقیہہ تھے اور بہت زیادہ روایتیں نقل کرتے ہیں۔

【18】

کبھی کسی سے انتقام نہیں لیتے تھے :

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو جب بھی دو کاموں میں سے کسی ایک کام کو چن لینے کا اختیار دیا جاتا تو آپ ہمیشہ اسی کام کو چنتے جو ہلکا اور آسان ہوتا، بشرطیکہ وہ گناہ کا موجب نہ ہوتا، اگر وہ (ہلکا اور آسان) کام گناہ کا موجب ہوتا تو آپ اس سے سب سے دور رہنے والے شخص ہوتے۔ اور آنحضرت ﷺ اپنی ذات کے لئے کبھی کسی بات کا انتقام نہیں لیتے تھے، ہاں اگر کوئی ایسی بات ہوتی جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے تو پھر آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے (حکم کے) پیش نظر اس کی سزادیتے تھے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح اس حدیث کی وضاحت میں علماء اور شارحین نے لکھا ہے کہ اختیار دینے کا تعلق اللہ تعالیٰ سے بھی ہوسکتا ہے اور لوگوں سے بھی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملنا مراد ہو تو اس صورت میں یہ اشکال پیدا ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کا معصوم عن الخطا ہونانص سے ثابت ہے اور کسی گناہ کی طرف آپ ﷺ کی نسبت ہو ہی نہیں سکتی، اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو ایسی دو چیزوں میں سے کوئی ایک چیز پسند کرلینے کا اختیار کیسے دیا جاسکتا تھا جس میں سے کوئی بھی ایک چیز گناہ کا موجب ہوتی ؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ بشرطیکہ اس میں گناہ کی کوئی بات ہوتی۔ میں گناہ سے مراد وہ چیز ہے جو بذات خود تو گناہ کی نہ ہو لیکن وہ کسی بھی درجہ میں گناہ تک پہنچانے کا احتمال رکھتی ہو۔ مثلا اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو اخیتار دیا تھا کہ دنیاوی زندگی گذارنے کے لئے چاہے دنیا کے خزانے لے لیں جو آپ ﷺ کو دیئے جائیں گے، چاہے بقدر ضرورت و حاجت روزی پر قناعت کریں، ان دونوں میں سے دوسری چیز کو آپ ﷺ نے اختیار فرمایا اور پہلی چیز کو آپ ﷺ نے اس لئے پسند نہیں فرمایا کہ اگر دنیاوی مال و دولت کے خزانے بذات خود کوئی گناہ کی چیز نہیں لیکن اس بات کا احتمال ضرور ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کے کاروبار اور معاملات میں اس طرح مشغول و مصروف ہوجائے کہ عبادت اور دینی امور کی طرف ضروری توجہ بھی نہ دے سکے پس اس حدیث کا اطلاق اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملنے پر کیا جائے تو یہ بات ضرور ملحوظ رکھی جائے کہ گناہ سے مراد واقعی گناہ نہیں ہے بلکہ وہ چیز مراد ہے جو گناہ کے احتمال کو ظاہر کرنے والی ہو اور ایسی چیز بذات خود گناہ میں شمار نہیں ہوتی۔ لوگوں کی طرف سے اختیار ملنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ کافروں کی طرف سے اختیار ملنا مراد ہو، اس صورت میں بالکل ظاہر ہے کہ ان دو چیزوں میں سے ایک چیز گناہ کا موجب ضرور ہوتی ہوگی اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کی طرف سے اختیار ملنا مراد ہو تو اس صورت میں گناہ سے مراد وہ چیز ہوگی جو گناہ کا باعث بنتی ہو جیسے مجاہدہ اور اقتصاد کے درمیان اختیار ملنا، ظاہر ہے کہ مجاہدہ اگرچہ گناہ کی چیز نہیں ہے لیکن اگر مجاہدہ میں اتنی زیادتی اور شدت اختیار کی جائے جو ہلاکت تک پہنچا دے تو مجاہدہ ناجائز ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملنے کی صورت وہ بھی مراد ہوسکتی ہے جس کا تعلق آپ کی ذات سے نہیں، بلکہ آپ ﷺ کے واسطہ سے دوسروں کی ذات سے ہو مثلا اگر اختیار دیا جاتا کہ آپ اپنی امت کے حق میں فلاں گناہ کی ان دو سزاؤں میں سے کسی ایک سزا کو پسند کرلیجئے تو آپ اس سزا کو پسند کرتے جو ہلکی ہوتی، یا اگر یہ کہا جاتا کہ آپ ﷺ اپنی امت کے حق میں ان دو چیزوں میں سے اس چیز کو پسند فرماتے جو سزا کا مستوجب کرنے والی نہ ہوتی، یا مثلا آپ ﷺ کو اختیار دیا گیا تھا کہ جو کفار آپ ﷺ کے زیر تسلط آئیں ان کو چاہے قتل کردیجئے چاہے ان پر جزیہ عائد کر کے ان کے جان ومال اور آبرو کی حفاظت کیجئے آپ ﷺ نے جزیہ کی صورت کو پسند فرما لی اور یا آپ ﷺ کو اللہ کے حق میں اختیار دیا گیا تھا کہ اس کی عبادت میں چاہے مجاہدہ کو پسند کرلیں، چاہے اقتصاد کو، آپ ﷺ نے اقتصاد کو پسند فرمایا۔ اپنی ذات کے لئے کبھی کسی بات کا انتقام نہیں لیتے تھے۔ کے بارے میں ابن حجر نے لکھا ہے ! اس کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کبھی کسی غلطی یا جرم کی سزا اپنی ذات کا انتقام لینے یا اپنی طبعی خواہش کی تکمیل کے لئے نہیں دیتے تھے۔ اس وضاحت سے آپ ﷺ کے اس عمل پر کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا کہ آپ ﷺ نے ایسے کئی لوگوں کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا جنہوں نے آپ ﷺ کو سخت ایذائیں پہنچائی تھیں ان لوگوں کے قتل کا حکم اس جرم کی سزا دینے کے لئے تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی باتوں کا ارتکاب کیا تھا اور اسلام دشمنی میں حد سے بڑھ جانے کے سبب اللہ کی طرف سے سزا کے مستوجب بن چکے تھے۔

【19】

آنحضرت ﷺ نے کبھی کسی کو نہیں مارا :

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے کبھی کسی چیز (یعنی آدمی) کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، عورت اور خادم کو بھی نہیں، علاوہ اس صورت کے جب آپ ﷺ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے تھے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ (کسی شخص کی طرف سے) آپ ﷺ کو کوئی اذیت و تکلیف پہنچی ہو اور آپ ﷺ نے اذیت و تکلیف پہنچانے والے سے انتقام لیا ہو ہاں اگر اللہ کی حرام کی ہوئی کسی چیز کا ارتکاب کیا جاتا تو آپ اللہ (کے حکم کی تعمیل) کے لئے اس کو سزا دیتے تھے۔ (مسلم) تشریح ترجمہ میں بین القوسین آدمی کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ بعض موقعوں پر سواری کے جانور کو مارنا منقول ہے۔ خادم کا اطلاق مرد و عورت دونوں صنف کے خادم پر ہوتا ہے ! نیز اس ارشاد گرامی میں خادم اور عورت کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لئے کیا گیا ہے کہ عام طور پر ان دونوں کو کمزور جان کر زیادہ مارا اور ستایا جاتا ہے اور چونکہ مرد کا زندگی میں انہیں دونوں سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے، نجی اور خانگی معاملات کا پیشتر انحصار انہی پر ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ان کی طرف سے غصہ اور ناراضگی کے مواقع زیادہ آتے رہتے ہے، اس لئے ان دونوں کو خاص طور پر ذکر کے اس طرف اشارہ فرمایا گیا کہ اس باب ان دونوں کو غیر اہم نہ جانا جائے ایسا نہیں ہے کہ ان دونوں کی کمزوری اور لاچاری کا فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھ کوئی بھی سلوک روا رکھا جاسکتا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر ان کو مارا پیٹا جاسکتا ہے اگرچہ بعض حالات میں اور کچھ شرائط کے ساتھ ان کو تھوڑا بہت مار دینا جائز ہے لیکن ان حالات میں مارنے سے اجتناب کرنا بھی اولی قرار پاتا ہے اس پر اولاد کو مارنے کے مسئلہ کو قیاس نہ کرنا چاہے کیونکہ ان کی تادیب سب سے مقدم ہے اور اس سلسلہ میں اسی رو رعایت کی گنجائش نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاد کو مارنا اس کی اصلاح کے لئے ہوتا ہے جب کہ ان دونوں کو مارنے کا تعلق زیادہ تر نفس کے غلط تقاضے سے ہوتا ہے صحیح تریبت اور تادیب کے پیش نظر اولاد کی غلطی پر اس کو مارنا اولی ہے اور نفس کے تقاضے اور غصہ پر قابو رکھنے کے لئے ان دونوں (خادم اور عورتوں) کے تئیں عفو و درگذر کا معاملہ اولی قرار پایا۔ علاوہ اس صورت کے جب آپ ﷺ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے تھے۔ خدا کی راہ میں جہاد اللہ کے دشمنوں سے ہوتا ہے، اس لئے اس وقت آنحضرت ﷺ کسی کے ساتھ عفو و درگذر کا معاملہ نہیں کرتے تھے۔ چناچہ غزوہ احد میں ایک دشمن اللہ ابی ابن خلف کو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔ نیز یہاں اللہ کی راہ میں جہاد کا اطلاق صرف اللہ کے دشمنوں کو مارنے ہی پر نہیں بلکہ حدودوتعزیرات (شرعی ودینی سزاؤں کے نفاذ) صورتیں بھی مراد ہیں۔

【20】

خدام کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا برتاؤ :

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ جب مجھ کو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو میری عمر آٹھ سال کی تھی، اس وقت سے مسلسل دس سال تک میں آپ ﷺ کی خدمت کے فرائض انجام دیتا رہا (جو مدینہ میں آپ ﷺ کی کل مدت قیام ہے) اس پورے عرصہ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میرے ہاتھ سے کوئی چیز ضائع ہوگئی ہو اور آپ ﷺ نے مجھ کو ملامت کی ہو، اگر آنحضرت ﷺ کے اہل بیت میں سے کوئی شخص (کسی چیز کے ضائع ہوجانے پر مجھ کو ملامت کرتا تو آپ ﷺ فرماتے جانے دو ، اس کو ملامت نہ کرو، حقیقت یہ ہے کہ جو بات ہونے والی ہوتی ہے ضرور ہو کر رہتی ہے۔ روایت کے یہ الفاظ مصابیح کے ہیں اور بیہقی نے بھی اس روایت کو کچھ الفاظ کے تغیر وتبدل کے ساتھ شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح جو بات ہونے والی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کا ٹونٹا پھوٹنا اور تلف ہونا قضا وقدر الہٰی کے تحت ہوتا ہے اگرچہ اس کا ظاہری سبب کچھ ہو اگر کوئی شخص کسی چیز کے ضائع ہوجانے کا ظاہری سبب بنا ہے تو اس کو ملامت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں اسی حقیقت کے پیش نظر ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اگر لونڈی وخادمہ کے ہاتھ سے کوئی برتن ٹوٹ جائے تو اس کو مارو نہیں کیونکہ ہر چیز کے لئے فنا ہے اور اس کے باقی رہنے کی ایک مدت مقر رہے۔

【21】

آنحضرت ﷺ کے اوصاف حمیدہ :

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نہ تو خلقی و طبعی طور پر فحش گو تھے اور نہ قصدا فحش گوئی کرتے تھے (گویا کسی بھی طرح اور کسی بھی حالت میں آپ ﷺ سے فحش گوئی کا صدور نہیں ہوتا تھا) اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے (جیسا کہ عام لوگوں کی عادت ہوتی ہے) اور نہ آپ ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے لیتے تھے بلکہ (برائی کرنے والے کو دل سے) معاف کردیتے تھے اور ظاہر میں بھی) اس سے عفو و درگذر کا معاملہ کرتے تھے ( اور اس طرح آپ ﷺ حق تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرتے تھے (فاعف عنہم واصفح ان اللہ یحب المحسنین) (ترمذی)

【22】

حضور ﷺ میں تواضع وانکساری :

اور حضرت انس (رض) نے (ایک موقع پر) نبی کریم ﷺ کے متعلق (بہترین اخلاق و عادات کا ذکر کرتے ہوئے) بیان کیا کہ آپ ﷺ بیمار کی عیادت کرتے، جنازہ کے ساتھ جاتے، مملوک و غلام کی دعوت قبول فرمالیتے اور گدھے پر سوار ہونے میں بھی کوئی تکلف نہیں فرماتے تھے، چناچہ غزوہ خیبر کے دن میں نے آپ ﷺ کو ایک گدھے پر سوار دیکھا جس کی باگ کھجور کے پوست کی تھی۔ اس روایت کو ابن ماجہ نے شعب الایمان میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔ تشریح مملوک سے مراد وہ غلام ہے جو اپنے مالک کی اجازت سے آپ ﷺ کی دعوت کرتا تھا، اس سے ثابت ہوا کہ جب آنحضرت ﷺ کسی غلام کی دعوت و ضیافت کو رد کرنا گوارہ نہیں کرتے تھے تو کسی آزادوخود مختار شخص کی دعوت کو تو بدرجہ اولی رد نہیں کرتے ہونگے۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کے جن اوصاف حمیدہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب آپ ﷺ کی کسر نفسی، تواضع، کسی فرق و امتیاز کے بغیر تمام انسانوں سے آپ ﷺ کی محبت و شفقت اور اپنی بڑائی کے اظہار اور غرور وتکبر سے کلیۃ اجتناب پر دلالت کرتے ہیں وقت ضرورت گدھے پر سوار ہونے سے بھی گریز نہ کرنا اور خصوصا غزوہ خیبر کے دن جو شوکت وسطوت کے اظہا رکا دن تھا، گدھے پر سوار ہونا اس بات کی علامت ہے کہ نہ آپ ﷺ میں بادشاہوں اور دنیادار بڑے لوگوں جیسی خوبو تھی اور نہ آپ ﷺ علوئے نفس کے جذبہ سے تکلفات اور ظاہر داری اختیار کرنا گوارہ کرتے تھے۔

【23】

اپنا جوتا خود گانٹھ لیتے تھے۔

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنی جوتیاں خود گانٹھ لیتے تھے، اپنا (نیا یا پرانا) کپڑا خود سی لیتے تھے اور اپنے گھر کا کام کاج اسی طرح کرتے تھے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر کا کام کاج کرتا ہے۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے مزید فرمایا آنحضرت ﷺ ایک ایسے ہی انسان تھے جیسے دوسرے انسان ہوتے ہیں آپ ﷺ اپنے کپڑے کی جوئیں خود ہی دیکھتے تھے، اپنی بکری کا دودھ خود دوہتے تھے اور اپنی خدمت آپ ﷺ کرلیتے تھے (یعنی اپنا ذاتی کام خود ہی کرلیا کرتے تھے کسی دوسرے سے کرنے کے لئے کم ہی کہا کرتے تھے۔ (ترمذی) تشریح اپنے کپڑے کی جوئیں خود ہی دیکھتے تھے۔ سے کیا مراد ہے کہ وقتا فوقتا اپنے کپڑوں کو خود دیکھا کرتے تھے کہ کہیں ان میں جوئیں تو نہیں پڑگئیں ہیں۔ پس یہ بات اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں آیا ہے کہ جوئیں آپ ﷺ کو پریشان نہیں کرتی تھیں ! نیز مواہب لدنیہ میں ہے کہ آپ ﷺ کے کپڑوں یا بدن مبارک کے کسی حصہ میں کبھی کوئی جوں نہیں پڑی۔ اسی طرح امام فخر الدین رازی نے نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ ایسے ہی ایک انسان تھے۔۔۔۔ الخ۔۔ اس جملہ کے بارے میں طیبی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے یہ بات بطور تمہید فرمائی جس کا مقصد آگے کہی جانے والی بات کے پس منظر کو ظاہر کرنا تھا۔ دراصل حضرت عائشہ نے جب دیکھا اور سنا کہ کفار و مشرکین یہ کہتے ہیں کہ اگر محمد ﷺ اللہ کے نبی اور رسول ہوتے تو وہ اپنا رہن سہن اور طور طریقہ عام لوگوں کی طرح نہ رکھتے گویا ان کفار کے نزدیک اللہ کے رسول کو اس بادشاہ اور سردار کی طرح اپنی زندگی گذارنی چاہے تھی جو عام لوگوں کے رہن سہن اور طور طریقوں سے اجتناب کرتا ہے شان و شوکت کے ساتھ رہتا ہے، اپنی بڑائی اور دبدبہ کو ظاہر کرتا ہے۔ کفار کی اس بات کو قرآن نے بھی ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ مال ہذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق۔ اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ عام لوگوں کی طرح) کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ پس حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے کفار کے اس خیال اور قول کی تردید میں فرمایا کہ آنحضرت ﷺ اللہ کی مخلوقات ہی میں سے ایک مخلوق تھے اور اسی طرح ایک انسان تھے جیسے اولاد آدم میں سے دوسرے انسان ہیں۔ اگر دوسرے انسانوں اور آپ ﷺ میں کوئی فرق ہے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنی رسالت ونبوت کے منصب عظمی سے سرفراز فرمایا آپ ﷺ کو انسانیت کے اعلیٰ ترین قدروں سے مزین کیا اور آپ ﷺ کو اخلاق واطوار کی وہ خوبیاں عطا فرمائیں جن سے آپ ﷺ کی ذات آدمیت کے شرف و امتیاز کا مظہر اور نمونہ قرار پائی، جیسا کہ قرآن کریم میں بھی فرمایا گیا ہے قل انما انا بشر مثلکم یؤ حی الی۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارے جیسا ایک انسان ہوں بس فرق یہ ہے کہ) مجھ پر وحی آتی ہے۔ چنانچہ ذاتی عظمت اور اخلاق انسانی کی بلندی کی اس سے بڑی مثال اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ آپ ﷺ شرف و مرتبت کے سب سے اعلی مقام پر فائز ہونے کے باوجود ایک عام انسان جیسی زندگی گذارتے تھے اور اللہ عام بندوں کی طرح نہایت سادگی اور جفاکشی کے ساتھ رہتے تھے عام لوگوں کے ساتھ کے ساتھ خلط ملط، ان جیسا رہن سہن، ان جیسی محنت ومشقت اور ان کے ساتھ ہمدردی وغمگساری بھی تھی کہ تواضع و انکساری کو انسانی کردار کی بلندی سمجھا جائے اور اللہ تعالیٰ کے پیغام اور اس کی ہدایت کو اس کی مخلوق تک پہنچانے کی ذمہ داری کو ایک ایسا منصب جانا جائے، جس کے فرائض کی انجام دہی عوامی رابطہ کے بغیر ممکن نہیں اور عوامی رابطہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اپنے نفس کو خود بینی وخود پسندی کے جال سے نکال کر اور ظاہر شان و شوکت سے اجتناب کرکے خود کو ایک عام انسان کی صورت میں پیش کیا جائے۔

【24】

آنحضرت ﷺ کا عوامی تعلق :

اور حضرت خارجہ ابن زید ابن ثابت کہتے ہیں کہ (ایک دن) کچھ لوگوں کی جماعت (میرے والد محترم، حضرت زید ابن ثابت کے پاس آئی اور ان سے کہا کہ ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کی (وہ) حدیثیں بیان کیجئے ( جو آنحضرت ﷺ کی خوش خلقی اور عام لوگوں کے ساتھ آپ ﷺ کے بہترین اور خوشگوار تعلقات کو ظاہر کریں) حضرت زید نے کہا ! میں آنحضرت ﷺ کے بالکل پڑوس میں رہا کرتا تھا جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ ذرا مجھے بلا بھیجتے میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ ﷺ کے حکم سے وحی لکھتا آنحضرت ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب ہم دنیا ( کی خرابیوں یا دنیا کے مزرعۃ الآخر ۃ ہونے کے اعتبار سے اس کی خوبیوں) کا ذکر کرتے تو آنحضرت ﷺ بھی ہمارے ساتھ اس دنیاوی ذکر میں شامل ہوجاتے، جب ہم آخرت کا ذکر کرتے تو آپ ﷺ بھی ہمارے ساتھ آخرت کا ذکر کرتے اور جب ہم کھانے پینے کا ذکر کرتے تو آپ ﷺ بھی ہمارے ساتھ اس کا ذکر کرتے۔ یہ تمام باتیں میں تم لوگوں کو رسول کریم ﷺ کی بتارہا ہوں۔ (ترمذی) تشریح میں آنحضرت ﷺ کے بالکل پڑوس میں رہا کرتا تھا۔۔۔۔۔ الخ۔ اس جملہ کے ذریعہ حضرت زید (رض) نے اس طرف اشارہ کیا کہ مجھے روحانی اور جسمانی دونوں طور پر بہت زیادہ قربت حاصل تھی، اس اعتبار سے آنحضرت ﷺ کی خانگی اور سماجی زندگی کی تفصیل اور آپ ﷺ کے روز مرہ کے معاملات و حالات کا علم دوسروں کی بہ نسبت مجھے بہت زیادہ ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ اور عوام کے درمیان بڑا گہرا سماجی رابطہ تھا اور آپ ﷺ اپنے صحابہ کرام اور لوگوں کے ساتھ نہایت خوشگوار اور بےتکلفانہ معاشرتی تعلقات رکھتے تھے آپ ﷺ ان کی سماجی گفت و شنید علمی بحث و مباحثہ، دینی باتوں کے ذکر و اذکار اور ان دنیاوی معاملات واخبار میں مساوی طور پر حصہ لیا کرتے تھے جن کا تعلق معاشرہ کے مختلف احوال و کوائف، واقعات وحادثات اور لوگوں کے حقوق و عادات سے ہوتا تھا لیکن یہ گفت و شنید اور ذکر و اذکار اور اس میں آپ ﷺ کی شرکت کا تعلق صرف ان باتوں سے ہوتا تھا جو مذموم و مکروہ باتوں کا تعلق ہے تو نہ یہ ہوسکتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی مجلس میں اور آپ ﷺ کے سامنے ان کا ذکر آئے اور نہ اس ذکر و اذکار میں آپ ﷺ کی شرکت کا تصور کیا جاسکتا ہے پس یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے کہ انہ ﷺ کان یخزن لسانہ الا فیما یعینہ وان مجلسہ علم۔ آنحضرت ﷺ اپنی زبان کو محفوظ (بند) رکھتے تھے علاوہ اس بات کے جو کام کی اور ضروری ہو، یقینا آپ ﷺ کی مجلس خالص علمی مجلس ہوتی تھی۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بسا اوقات دنیاوی معاملات کے ذکرواذکار سے بہت سے علمی، معاشرتی معلوماتی اور ادبی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں، لہٰذا جس مجلس میں کسی بھی ایسے دنیاوی امور سے متعلق گفتگو ہو جن سے مذکورہ فائدے حاصل ہوتے ہوں تو اس مجلس کو علمی مجلس میں شمار کیا جائے گا اور اگر کسی دنیاوی معاملہ سے متعلق غیر مذہبی بات چیت کے بارے میں یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ وہ مذکورہ فائدوں سے خالی رہی ہو اس صورت میں اس بات چیت اور اس میں آنحضرت ﷺ کی شرکت کو بیان جواز پر محمول کیا جائے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کرام سے اکثر مباح امور میں بھی بات کرلیا کرتے تھے تاکہ وہ (صحابہ) اس کا جواز جان لیں اور بیان جواز کے لئے اس طرح کی بات چیت میں حصہ لینا آنحضرت ﷺ پر واجب بھی تھا یہ تمام باتیں تم لوگوں کو رسول کریم ﷺ کی بتارہا ہوں، حضرت زید نے یہ بات حدیث کے صحیح اور مستند ہونے کو اہمیت کے ساتھ ظاہر کرنے اور روایت حدیث کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے کہی ،

【25】

مصافحہ ومواجہہ اور مجلس میں نشست کا طریقہ :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب کسی شخص سے مصافحہ ( اور ملاقات) کرتے تو اپنا ہاتھ اس وقت تک علیحدہ نہ کرتے جب تک کہ وہی شخص اپنا علیحدہ نہ کرلیتا اور آپ ﷺ اپناچہرہ مبارک اس کے چہرہ کے سامنے سے اس وقت تک نہیں ہٹاتے تھے جب تک کہ وہی شخص اپنا چہرہ آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے سے نہ ہٹا لیتا، نیز آنحضرت ﷺ کو کبھی کسی نے اس حال میں نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ اپنے گھٹنے اپنے ہم نشین کے آگے کرکے بیٹھے ہوں۔ (ترمذی ) تشریح آنحضرت ﷺ کے یہ دونوں وصف کہ جب تک مصافحہ کرنے والا خود اپنا ہاتھ علیحدہ نہ کرلیتا آپ ﷺ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے علیحدہ نہ کرتے اور جب تک کہ وہ شخص خود آپ ﷺ کے سامنے سے نہ ہٹ جاتا آپ ﷺ اس کی جانب متوجہ رہتے اور اس کی طرف سے اپنا روئے مبارک نہ ہٹاتے، آپ ﷺ کے علوئے اخلاق، نہایت تحمل وبردباری اور تواضع و انکساری پر دلالت کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کے نزدیک یہ بات بھی آداب مجلس کے خلاف تھی کہ اپنے کو نمایاں، برتر اور بڑا ظاہر کرنے کے لئے مجلس میں اپنے برابر بیٹھے ہوئے شخص سے آگے ہو کر بیٹھیں، چناچہ جب آپ ﷺ کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو سب کے ساتھ ایک صف میں ہو کر برابر بیٹھتے اور اپنے گھٹنے اور زانو آگے بڑھا کر نہ بیٹھتے جیسے گھمنڈی لوگوں کی عادت ہوتی ہے بعض شارحین نے یہ لکھا ہے کہ اس جملہ سے یہ مراد ہے کہ آپ ﷺ آداب مجلس کی رعایت، مہذب طریقہ پر عمل اور اہل مجلس کی تعظیم کے پیش نظر لوگوں کے سامنے اپنے گھٹنے کھڑے کر کے نہیں بیٹھتے تھے۔ اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ رکبتین سے مراد دونوں پاؤں ہیں اور ان کے آگے بڑھانے سے مراد مجلس میں پاؤں پھیلا کر بیٹھنا ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ ﷺ آداب مجلس کا لحاظ کرتے ہوئے کبھی کسی کے سامنے پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے۔ بہرحال اس حدیث میں امت کے لئے یہ تعلیم ہے کہ آنحضرت ﷺ کے طریقہ پر عمل کر کے اپنے ہر مسلمان بھائی کی خاطر داری اور تعظیم و تکریم کرنی چاہیے خواہ وہ مرتبہ میں اپنے سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔

【26】

اپنی ذات کے لئے کچھ بچا کر نہ رکھتے تھے :

مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر جو کامل اعتماد اور توکل تھا اور اس کے خزانہ رحمت پر جو پورا بھروسہ تھا اس کے تحت آپ ﷺ نے کبھی کوئی چیز بچا کر اور جمع کر کے نہیں رکھی کہ کل کام آئے گی۔ لیکن یہ بات صرف آنحضرت ﷺ کی ذات خاص کے لئے مخصوص تھی کہ آپ ﷺ اپنی ذات کے لئے ایسا نہیں کرتے تھے، ورنہ یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ اکثر اہل و عیال کی خاطر ان کی ایک سال کی اصل ضروریات کے بقدر چیزیں جمع کرکے رکھ دیتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ کو ان کے بارے میں یہ خدشہ رہتا تھا کہ شاید یہ لوگ احتیاج کے وقت صبروتحمل نہ کرسکیں اور انسانی جبلت کے تحت اپنی ضروریات کی طرف سے فکر مند رہیں۔

【27】

آنحضرت ﷺ کی کم گوئی کا ذکر :

اور حضرت جابر ابن سمرۃ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ زیادہ تر خاموشی اختیار کئے رہتے تھے۔ اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح مطلب یہ کہ کم گوئی آپ ﷺ کا وصف تھا، اگر کوئی ضروری بات کرنی ہوتی تو بولتے ورنہ خاموش رہا کرتے تھے بخاری ومسلم اور دوسرے محدثین نے ایک روایت نقل کی ہے کہ من کان یومن باللہ والیوم الاخرۃ فلیقل خیرہ ولیسکت۔ جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ یا تو اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) فرمایا کرتے تھے۔ لیتی کنت اخرس الاعن ذکر اللہ کاش میں گونگا ہوتا، بس ذکر اللہ کی حد تک گویائی حاصل ہوتی۔

【28】

حضور ﷺ کی گفتگو کا انداز :

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے الفاظ کی ادائیگی میں ترتیل اور ترسیل کا لحاظ ہوتا تھا (ابوداؤد) تشریح ترتیل اور ترسیل دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی کسی چیز کو پڑھتے اور بولتے وقت ایک ایک حرف کو علیحدہ علیحدہ کر کے خوب صاف صاف پڑھنا اور بولنا۔ بعض حضرات نے ان دونوں کے معنی میں یہ معمولی فرق بیان کیا ہے کہ ترتیل کے معنی ہیں ہر ایک حرف کو برابر نکالنا اور ترسیل کے معنی ہیں بولنے میں جلدی اور تیزی نہ کرنا بلکہ ٹھہر ٹھہر کر بات کرنا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں ترتیل کا تعلق آنحضرت ﷺ کی تلاوت قرآن کریم سے ہے اور ترسیل کا تعلق آپ کی عام بات چیت سے ہے۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا رسول کریم ﷺ کی گفتگو اس طرح مسلسل اور بےتکان نہیں ہوتی تھی جس طرح تم لوگ مسلسل اور بےتکان بولتے ہو، جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے تو ایک ایک حرف اور جملہ کو اس طرح ٹھہر ٹھہر کر ادا فرماتے کہ جو شخص آپ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا ہوتا (پوری گفتگوکو) اچھی طرح یاد کرلیتا۔ (ترمذی )

【29】

مبارک لبوں پر مسکراہٹ رہتی تھی :

اور حضرت عبداللہ ابن حارث ابن جزء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کو مسکراتے نہیں دیکھا (ترمذی)

【30】

وحی کا انتظار :

اور حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب باتیں کرنے بیٹھتے تو آپ ﷺ کی نگاہ آسمان کی طرف اٹھتی رہتی تھی (ابوداؤد) تشریح یعنی آپ ﷺ لوگوں سے گفتگو کے دوران بھی بار بار نگاہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے اور یہ آپ ﷺ کے اس انتظار کی کیفیت کا اظہار ہوتا جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے اترنے اور وحی آنے کے سلسلہ میں رہتا تھا۔

【31】

اہل وعیال کے تئیں شفقت ومحبت :

اور حضرت عمرو ابن سعید حضرت انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول کریم ﷺ سے زیادہ کسی کو اپنے اہل و عیال پر مہربان اور شفیق نہیں دیکھا۔ آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم (جوماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے) بالائی مدینہ ( کے ایک محلہ میں ایک دایہ یعنی دودھ پلانے والی کے یہاں) دودھ پینے کے لئے رکھے گئے تھے، آپ ﷺ اکثر (اپنے بیٹے کو دیکھنے اور ان کی خیریت معلوم کرنے کے لئے) اس محلہ میں جایا کرتے تھے ہم کبھی آپ ﷺ کے ساتھ ہوتے تھے، آپ ﷺ وہاں پہنچ کر (دایہ کے) گھر میں تشریف لے جاتے تھے جہاں دھواں گھٹا ہوتا تھا کیونکہ دایہ کا شوہر لوہار تھا اور ان کی بھٹی کا دھواں گھر میں چاروں طرف بھرا رہتا تھا مگر آپ ﷺ بیٹے کی محبت میں اسی دھوئیں بھرے گھر میں چلے جاتے) پھر ابراہیم کو گود میں لیتے، پیار کرتے اور (حال چال معلوم کرکے) اپنے گھر واپس آجاتے۔ حضرت عمرو نے ( حضرت انس (رض) سے نقل کرکے) بیان کیا کہ جب ابراہیم (رض) کا انتقال ہوا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابراہیم میرا بیٹا ہے وہ چھاتی میں یعنی شیرخوارگی کی حالت میں اللہ کو پیارا ہوا ہے، اس کے لئے دو دایہ متعین کی گئی ہیں جو جنت میں اس کی مدت شیر خوراگی کو پورا کررہی ہیں۔ (مسلم) تشریح ظئر کے معنی دایہ اور انا (کسی بچہ کو دودھ پلانے والی) کے ہیں اور انا کے خاوند کو بھی ظئر کہتے ہیں جس کو اردو میں تگایا اتگہ کہا جاتا ہے۔ عرب کے قدیم دستور کے مطابق آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کو، دودھ پلانے کے لئے جن خاتون کی سپردگی میں دیا گیا تھا ان کا نام ام سیف تھا اور ان کے شوہر کا نام ابویوسف تھا جو پیشہ کے اعتبار سے لوہار تھے ابراہیم کا انتقال ہوا تو مدت شیرخوارگی ہی میں ہوگیا تھا، ان کی عمر سولہ مہینے یا سترہ مہینے کی تھی ! جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا آنحضرت ﷺ کی برکت اور صاحبزادہ رسول ہونے کی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ درجہ عطا کیا کہ نہ صرف بعد وفات ان کو فورا جنت میں پہنچا دیا گیا بلکہ وفات پاتے ہی ان کے لئے جنت میں دو اناؤں کا بھی انتظام کیا گیا جن کے سپرد یہ خدمت کی گئی کہ وہ ابراہیم (رض) کو ان کی شیرخوارگی کی مدت (دو سال) پورے ہونے تک دودھ پلائیں۔

【32】

آنحضرت ﷺ کا حسن اخلاق اور ایک یہودی :

حضرت علی کرم وجہہ راوی ہیں کہ (مدینہ میں) فلاں نام کا ایک یہودی عالم تھا اس کے کچھ دینار نبی کریم ﷺ پر چاہئیں تھے (ایک دن) اس یہودی عالم نے آکر نبی کریم ﷺ سے ان دیناروں کا تقاضا کیا، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ، اے یہودی ! تمہیں دینے کے لئے اس وقت میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے (یعنی نہ تو میرے پاس دینار ہیں کہ تمہارا قرض چکا دوں اور نہ کوئی ایسی چیز ہے جوان دیناروں کے بدلہ میں تمہیں دے کر تمہارا مطالبہ بےباق کردوں) یہودی نے کہا محمد ﷺ میں اس وقت تک تمہارے پاس سے نہیں ہٹوں گا جب تک تم میرا قرض ادا نہیں کر دوگے۔ رسول کریم ﷺ نے جواب دیا، (اچھا بھائی اگر یہی بات ہے کہ جب تک تم نہیں کہو گے تمہارے سامنے سے نہیں ہٹوں گا) اور (یہ فرما کر) آپ ﷺ اس کے پاس بیٹھ گئے اور اسی جگہ (یہودی کے سامنے) رسول کریم ﷺ نے ظہر عصر کی مغرب کی عشاء کی اور پھر (اگلی صبح) فجر کی نماز پڑھی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین (یہ صورت حال دیکھ کر سخت طیش میں آرہے تھے اور بار بار) اس یہودی کو ڈرا دھمکا رہے تھے ( اور کہہ رہے تھے کہ اگر تو اپنی گستاخی سے باز نہ آیا اور آنحضرت ﷺ کو اس طرح پابند بنائے رکھا تو مجبوراً ہم تجھے یہاں سے اٹھا کر پھینک دیں گے یا قتل کر ڈالیں گے) لیکن جب رسول کریم ﷺ نے یہ دیکھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس یہودی کو ڈرا دھمکا رہے ہیں تو آپ ﷺ نے ان کو (سختی سے) منع فرمایا (یا غضبناک نگاہوں سے ان کی طرف دیکھ کر گویا واضح کیا کہ تمہارا یہ عمل مجھے ہرگز پسند نہیں ہے) صحابہ کرام نے (آنحضرت ﷺ کی ناگواری دیکھ کر معذرت کے انداز میں) عرض کیا کہ رسول کریم ﷺ یہ ایک یہودی ہو کر آپ ﷺ کو پابند بنائے ہوئے ہیں اور یہاں بیٹھے رہنے مجبور کررہا ہے (ہم اس گستاخانہ حرکت کو کیسے برداشت کریں ؟ ) رسول کریم ﷺ نے فرمایا (کیا تمہیں نہیں معلوم کہ) اللہ تعالیٰ نے مجھے منع کیا ہے کہ میں اس شخص پر ظلم کروں جس سے عہد کیا گیا ہو یا وہ کوئی بھی ہو۔ جب دن نکلا تو وہ یہودی (آنحضرت ﷺ کا کردار و اخلاق دیکھ کر بےساختہ) بول اٹھا ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ یقینًا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں (پھر اس نے کہا کہ یا رسول ! ) میں (قبول اسلام کی توفیق ملنے کے شکرانہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور زیادہ اجروانعام کی امید میں اپنے مال وزرکا آدھا) حصہ اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ (آپ ﷺ اور یہاں موجود سارے صحابہ کرام) جان لیں کہ اللہ کی قسم میں نے اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا اس کا سبب اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ میں آپ ﷺ میں ان اوصاف کو آزمانا چاہتا تھا جس کا ذکر تورات میں موجود ہے (اور تورات میں وہ اوصاف اس طرح مذکور ہیں) کہ ان کا اسم گرامی محمد ﷺ ہوگا عبداللہ کے بیٹے ہوں گے، ان کی پیدائش مکہ میں ہوگی وہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کریں گے، ان کی مملکت کی سرحدیں ملک شام (اور اس کے گردو نواح) تک پھیلی ہوں گی، وہ نہ بد زبان ہوں گے نہ سنگدل نہ بازاروں میں شورمچانے والے ہوں گے، نہ فحش کی وضع اختیار کرنے والے اور نہ بیہودہ بات بکنے والے ہوں گے اس نے توراۃ میں مذکور یہ باتیں سنانے کے بعد ایک مرتبہ پھر کلمہ شہادت پڑھا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ یقینًا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ (یا رسول اللہ ﷺ ! ) یہ میرا مال حاضر ہے آپ ﷺ اللہ کے حکم کی روشنی میں اس کے متعلق جو مناسب سمجھیں فیصلہ فرمائیں۔ (راوی کا بیان ہے کہ) وہ یہودی بہت مالدار تھا ( اور اللہ نے اس کے مال ساتھ اس کا حال و مال بھی اچھا کیا) اس روایت کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح اور پھر فجر کی نماز پڑھی۔ سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے تمام دن ایک ہی جگہ بیٹھے ہوئے گذار دیا اور پوری رات اسی طرح یہودی کے ساتھ بیٹھے رہے، نہ سوئے نہ آرام کیا۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مسجد نبوی کے اندر پیش آیا تھا لیکن ایک احتمال یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کسی دوسری جگہ تھے اور وہیں وہ یہودی آگیا، اسی جگہ (خواہ مکان ہو یا کوئی کھلی ہوئی جگہ) آنحضرت ﷺ اس یہودی کے ساتھ تمام دن اور رات بیٹھے رہ گئے۔ ……۔۔ یا وہ کوئی بھی ہو یہ تخصیص کے بعد تعمیم ہے، یعنی آپ ﷺ نے پہلے تو خصوصی طور پر معاہد ( جس سے عہد کیا گیا ہو) کا ذکر کیا کہ یہ یہودی ان دمیوں میں سے ہے جن کو ہم نے اپنی پناہ اور اپنی حفاظت میں رکھنے کا عہد دیا ہے اگر میں اس کا قرض واپس کئے بغیر اس سے الگ ہوجاؤں اور اس کے پاس بیٹھنے سے انکار کردوں تو یہ میری طرف سے اس پر ظلم ہوگا اور ظاہر ہے کہ کسی معاہد پر ظلم کرنے سے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو منع کیا ہے، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ معاہد ہی کیا مجھے تو کسی بھی شخص پر ظلم کرنے سے منع کیا گیا ہے خواہ وہ معاہد ہو یا غیر معاہد، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ پس اس موقع پر آپ ﷺ نے تعمیم کے بعد تخصیص کے بجائے تخصیص کے بعد تمیم کا اسلوب اس لئے اختیار فرمایا کہ یہ موقع اسی اسلوب کا متقاضی تھا، یا آپ ﷺ نے اس بات کو پیش نظر رکھا کہ اگر دنیا میں کسی مسلمان کی حق تلفی ہو یا اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ ہوجائے تو قیامت کے دن اس مسلمان کو تو حق مارنے والے یا ظلم و زیادتی کرنے والے مسلمان کی نیکیاں دے کر راضی کرنا ممکن ہوگا لیکن غیر مسلم ذمی (معاہد) کو اس کا حق مارنے والے یا اس ظلم و زیادتی کرنے والے مسلمان کی نیکیاں دے کر بھی راضی کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ نہ تو کسی مسلمان کی نیکیاں اس کو دلوائی جاسکتی ہیں اور نہ وہ نیکیاں اس کے کچھ کام ہی آسکیں گی، اس اعتبار سے قیامت کے دن معاہد کی طرف سے کسی مسلمان کے خلاف ظلم کی فریاد اور اپنے حق کی چارہ جوئی زیادہ سخت مرحلہ ہوگا لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اسی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے پہلے خاص طور پر معاہد کا ذکر کیا اور اس کے بعد عمومی طور پر ہر ایک کا ذکر کیا۔ اس موقع پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ اس وقت اس یہودی کا قرض ادا کرنے سے اس درجہ معذور تھے کہ یہودی کی طرف سے عائد کردہ اتنی سخت پابندی آپ ﷺ کو برداشت کرنا پڑی تو کیا وہاں موجود صحابہ کرام اس قرض کی ادائیگی پر قادر نہیں تھے ؟ ، اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہی بات رہی ہوگی کہ وہ صحابہ کرام بھی آنحضرت ﷺ کے اس قرض کی ادائیگی پر اس وقت قادر نہیں تھے، دوسرے یہ کہ اس یہودی کا جو اصل مقصد تھا یعنی اخلاق و کردار اور ان اوصاف کو آزمانا جن کا ذکر تورات میں اس نے پایا تھا، اس کے پیش نظر وہ صحابہ کرام کی طرف سے اس قرض کی ادائیگی پر راضی نہیں ہوا ہوگا۔ یہ میرا مال حاضر ہے اس نے یہ جملہ مال کی طرف یا اس جگہ کی طرف جہاں اس کا مال تھا، اشارہ کرکے کہا اور پھر اس نے آنحضرت ﷺ کو مختیار بنادیا کہ آپ ﷺ اس مال کو اللہ کی رضا وخوشنوی اور دین وملت کے مفاد میں جس طرح خرچ کرنا مناسب سمجھیں خرچ کریں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس کی مراد اپنا کل مال تھا پہلے تو اس نے اپنے کل مال کا آدھا حصہ اللہ کی راہ میں پیش کرنے کا اعلان کیا مگر جب ایمان کا نور اس کے دل میں اچھی طرح گھر کر گیا اور اللہ و رسول ﷺ کی محبت اس پر غالب آگئی تو اس نے نہ صرف کل مال اللہ کی راہ میں دے دینے کا بلکہ اپنی جان تک کو پیش کرنے کا ارادہ کرلیا۔

【33】

غریب ولاچار لوگوں کے ساتھ حسن سلوک :

اور حضرت عبداللہ ابن اوفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ذکر میں زیادہ مشغول رہتے، لغو (فضول) باتیں بہت کم کرتے، نماز کو طویل اور خطبہ کو مختصر کرتے اور بیوہ و مسکین کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہ فرماتے اور ان کا کام کردیتے تھے۔ (نسائی ودارمی) تشریح ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کا ذکر اور ہر وہ چیز ہے جو ذکر اللہ سے تعلق رکھتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ زیادہ، یا مختلف نوعیتوں سے ہر وقت اور ہر لمحہ ہی آپ ﷺ ذکر اللہ میں مشغول رہتے تھے۔ لغو (فضول) باتوں سے مراد ہر وہ بات ہے جو ذکر اللہ کے علاوہ اور دنیاوی امور سے تعلق رکھتی ہو، واضح رہے کہ ایسے دنیاوی امور کا ذکر بھی، کہ جو مصلحت و حکمت سے خالی نہ ہو، ذکر حقیقی کے اعتبار سے فضول باتوں ہی میں شامل ہے، اسی لئے امام غزالی (رح) نے فرمایا تھا ضیعت قطعۃ من العمر العزیر فی تالیف البسیط والوسیط والوجیز۔ میں نے اپنی عمر عزیز کا حصہ اپنی کتابوں بسیط، وسیط اور وجیز کی تالیف میں ضائع کیا۔ گو ایسی دنیاوی باتیں جو حکمت و مصلحت سے خالی نہ ہوں حقیقی معنی میں لغو اور فضول باتوں کے حکم میں نہیں ہوتیں لیکن ان کی ظاہری صورت اور مبنیٰ کے اعتبار سے ان کی حقیقت سے قطع نظر کر کے ان پر لغو اور فضول کا اطلاق کیا گیا ہے، اسی تعبیر کو ظاہر کرنے کے لئے عارفین کا یہ قول ہے کہ حسنات الابرار سیأات المقربین۔ لغو کو اس کے حقیقی معنی بیکار لایعنی اور باطل میں مراد لینا یوں بھی صحیح نہیں ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے کبھی بھی کسی لغویات کا صدور نہیں ہوا اور نہ یہ ممکن تھا کیونکہ جب اللہ تعالیٰ تمام اہل ایمان کا یہ وصف بیان کرتا ہے والذین ہم عن اللغومعرضون۔ تو آنحضرت ﷺ کے بارے میں لغویات کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے۔ بعض حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ یہاں قلیل (کم) کا لفظ عدم کے معنی میں استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کبھی کوئی لغویات زبان سے نہیں نکالتے تھے اور اس کی دلیل میں وہ حضرات کہتے ہی کہ قلیل کا لفظ کبھی مطلق نفی اور اظہار عدم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں فرمایا گیا ہے قلیلامایومنون۔ تو یہ قول اگرچہ لفظ لغو کے بارے میں بہت سی بحثوں کو ختم کردیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے سیاق میں یہ قول زیادہ موزوں و مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ تکثیر کا لفظ یقل کے لئے جس معنی کا تقاضہ کرتا ہے وہ وہی ہے جو پہلے ذکر کیا گیا۔ نماز کو طویل اور خطبہ کو مختصر کرتے تھے، میں خاص طور پر جمعہ کی نماز مراد ہے کیونکہ خطبہ کے ذکر سے، یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ جہاں تک خطبہ کے اختصار کی بات ہے تو وہ یوں بھی درست ہے کہ آپ ﷺ اپنے خطبہ جمعہ میں جو الفاظ اور جملے استعمال فرماتے تھے وہ بےحد جامع ومانع تھے۔ ہر جملہ گوالفاظ کے اعتبار سے بہت مختصر مگر مفہوم ومعانی کے دریا اپنے اندر رکھتا تھا۔ ویسے خطبہ کی اختصار والی بات اکثر احوال کے اعتبار سے بیان کی گئی ہے ورنہ جب زیادہ نصیحت کرنا مقصود ہوتی تھی تو آپ تفصیل کے ساتھ لمبا خطبہ بھی ارشاد فرماتے تھے۔ بہرحال اس جملہ کا اصل مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ آپ کا خطبہ نماز کی بہ نسبت مختصر ہوتا تھا۔ نیز ایک اور حدیث میں جو باب الجمعہ میں گذر چکی ہے منقول ہے کہ نماز کا طویل ہونا اور خطبہ کا مختصر ہونا فہم و سمجھ اور دانشمندی کی علامت ہے۔ اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ نماز چونکہ مؤمن کی معراج اور پروردگار کی مناجات کا موقع ہے اس لئے طوالت ہی اس کے مناسب ہے جب کہ خطبہ کا تعلق لوگوں کی طرف متوجہ ہونے اور ان کو حق کی طرف بلانے سے ہے جس میں زور بیان اور اثراندازی کے لئے فصاحت و بلاغت پر توجہ دینی پڑتی ہے اور یہ چیز ایسی ہوتی ہے جس پر ریاء کا گمان کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے خطبہ کو مختصر کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

【34】

قریش مکہ آنحضرت ﷺ کی تکذیب کیوں کرتے تھے :

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جب ابوجہل نے نبی کریم ﷺ سے یہ کہا کہ (اے محمد ﷺ ہم (یعنی قریش مکہ) تمہیں نہیں جھٹلاتے (کیونکہ تمہاری صدق گوئی ہم پر خوب عیاں ہے اور ہم نے تمہیں کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اسی لئے تم اپنوں اور غیروں سب میں صدق و امانت کے ساتھ مشہور ہو) ہم تو اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جو تم لے کر آئے ہو۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان (قریش مکہ یعنی ابوجہل وغیرہ) کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی ( فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ ) 6 ۔ الانعام 33) آپ ﷺ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ وہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں۔ (ترمذی ) تشریح جو تم لے کر آئے ہو۔ سے مراد وحی الٰہی یعنی کتاب اور شریعت ہے ابوجہل کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے ساتھ ہمارا اختلاف اس دین و شریعت کے بارے میں ہے جس کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہم تمہاری تکذیب صرف اس لئے کرتے ہیں کہ تمہاری لائی ہوئی کتاب و شریعت کو سچ نہیں مانتے، اگر درمیان میں سے تمہاری یہ کتاب و شریعت ہٹ جائے تو پھر تمہارے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں رہے گا۔ لیکن وہ لعین اتنا نہیں سمجھا کہ جب محمد ﷺ دنیاوی معاملات میں لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتے اور صدق و سچائی ان کا وصف ہے جس کا اقرار و اعتراف خود قریش مکہ کو بھی تھا تو پھر وہ دین وآخرت کے معاملہ میں لوگوں سے کیوں جھوٹ بولیں گے اور ان کو جھوٹ کی طرف بلائیں گے اور اللہ پر بہتان باندھیں گے۔ اصل بات یہ تھی کہ قریش مکہ کے سارے بڑے بڑے سردار آنحضرت ﷺ کے تئیں سخت بغض وعناد اور حسد کا شکار تھے ان کو ساری جلن اس بات کی تھی کہ اس یتیم وامی شخص کو اتنا بڑا مرتبہ کیسے مل گیا اور ہم اتنی ساری دنیاوی وجاہتیں رکھتے ہوئے اس کی پیروی کیسے کریں، کس طرح اس کو اپنا بڑا اور قابل اتباع مان لین اور یہی جلن ان سے طرح طرح کی باتیں کہلواتی تھی، جن میں نہ کوئی معقولیت ہوتی تھی اور نہ کوئی سچائی۔ تفسیر کشاف میں مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں دو مطلب لکھے ہیں ایک تو یہ کہ اے محمد ﷺ یہ کافر جو تمہیں جھٹلاتے ہیں اور یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ تم واقعۃ اپنے پروردگار کی طرف سے نئی کتاب و شریعت لے کر مبعوث ہوئے تو یہ تمہیں نہیں جھٹلاتے، درحقیقت اللہ کی نازل کردہ آیتوں اور اس کے تارے ہوئے دین کو جھٹلاتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مالک اپنے اس غلام سے کہ جس کو لوگ ناروا اطوار پر پریشان کرتے اور ستاتے ہوں یہ کہے کہ وہ لوگ تجھے نہیں ستاتے ہیں بلکہ مجھے ستاتے ہیں، تو دیکھنا میں ان کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں اور ان کو کیسا مزہ چکھاتا ہوں دوسرا مطلب یہ ہے کہ اے محمد ﷺ یہ کافر تمہیں نہیں جھٹلاتے ہیں کیونکہ تم تو ان کے نزدیک بڑے سچے اور امین ہو اور تمہاری سچائی اور امانت ان میں ضرت المثال کی حیثیت رکھتی ہے ہاں یہ لوگ اللہ کی آیتوں اور اس کے فرمائے ہوئے دین کو جھٹلاتے ہیں یہ مطلب حدیث کے مضمون سے زیادہ مطابقت اور موزونیت رکھتا ہے۔

【35】

حضور ﷺ نے اپنے لئے دولت مندی کو پسند نہیں فرمایا۔

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ مجھ سے فرمانے لگے عائشہ اگر میں چاہوں (اور اپنے پروردگار سے اپنے لئے دنیا کا مال ومنال طلب کروں) تو یقینا میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلا کریں۔ ( تمہیں ایک دن کی بات بتاتا ہوں کہ) میرے پاس ایک فرشتہ آیا) دراز قد تھا کہ) اس کی کمر کعبہ کے برابر تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ آپ ﷺ کا پروردگار آپ ﷺ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ چاہے تو بندہ پیغمبر بنوچا ہے بادشاہ پیغمبر بننا منظور کرلو (یعنی آپ ﷺ کو دونوں باتوں کا اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے ایسا پیغمبر بن جائے جو عجز وبے چارگی، تنگی اور فقرومشقت کی زندگی گذارے) میں نے (یہ سن کر) جبرائیل (یعنی اس فرشتہ) کی طرف (سوالیہ انداز میں) دیکھا (اور گویا ان سے مشورہ طلب کیا کہ تم ہی بتاؤ میرے لئے کونسی صورت بہتر رہے گی، انہوں نے کہا اپنے نفس کو پست کردو۔ یعنی فقر ومشقت اور تنگی ومحتاجگی کی زندگی کو اختیار کرونہ کہ عیش و راحت اور ٹھاٹ باٹ کی زندگی کو اور حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ (اللہ تعالیٰ کا مذکورہ پیغام سن کر) جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے اور مشورہ طلب انداز میں ان کی طرف دیکھا، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے (زمین کی طرف) اشارہ کر کے بتایا کہ پستی و انکساری اختیار کرلیجئے۔ پس (آنحضرت ﷺ نے فرمایا) میں نے کہا یقینا میں بندہ پیغمبر بنوں گا حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے کبھی ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھایا اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اس طرح کھانا کھاتا ہوں جیسے غلام کھاتا ہے اور میں اس طرح بیٹھتا ہوں جیسے غلام بیٹھتا ہے۔ اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح پستی و انکساری اختیار کرلیجئے۔ یعنی فقر ومشقت اور تنگی ومحتاجگی کی زندگی اختیار کرلیجئے جس میں دنیاوی طور پر پستی و انکساری ہے لیکن اللہ کے نزدیک بلند قدری ہے اس کے برخلاف بادشاہت اور دولت مندی کی زندگی، سرکشی اور اللہ فراموشی کی باعث اور تکبر و ناشکری کی موجب ہوتی ہے جس کو اختیار کرکے انسان اپنے پروردگار کی قربت و چاہت سے دور جاپڑتا ہے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ بات گویا غالب احوال کے اعتبار سے بتائی اور اسی لئے اکثر انبیاء اور علماء وصلحا نے فقروتنگی ہی کی زندگی کو اختیار کیا اور انہوں نے ہمیشہ مال و دولت اور عیش و راحت والی زندگی پر مشقت و محنت کی زندگی کو تر جیح دی۔ اللہم اجعلنا منہم واحشرنا معہم۔ جیسے غلام کھاتا ہے کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح کسی غلام کو اس کا مالک جیسا ویسا کھانا دیتا ہے وہ اس کو صبر وشکر کے ساتھ کھا لیتا ہے خواہ وہ کتنا ہی غیر مرغوب اور ادنیٰ درجہ کا کیوں نہ ہو اسی طرح مجھے جس طرح کا بھی کھانا میسر ہوتا ہے اس کو صبر و شکر کے ساتھ کھالیتا ہوں، نہ اچھے اور اعلی کھانے کی تمنا اور خواہش ہوتی ہے اور نہ ادنیٰ کھانے سے کوئی تنگی وناگواری محسوس ہوتی ہے۔ جیسے غلام بیٹھتا ہے سے دو زانو بیٹھنا مراد ہے جیسے نماز کی حالت میں بیٹھا جاتا ہے اور بیٹھنے کی افضل ترین ہیئت بھی یہی ہے یا کھانے کے وقت بیٹھنے کی وہ ہیئت مراد ہے جس میں ایک زانوکھڑا کرکے اور گوٹ مار کر بیٹھتے ہیں عام طور پر آنحضرت ﷺ اسی ہیئت سے بیٹھا کرتے تھے۔