18. قربانى کا بیان

【1】

قربانی کا وقت

اور حضرت براء (رض) راوی ہیں سرتاج دو عالم ﷺ نے یوم النحر (یعنی بقر عید کے دن) ہمارے سامنے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ اس دن سب سے پہلا کام جو ہمیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم (عیدالاضحی کی) نماز پڑھیں پھر گھر واپس جائیں اور قربانی کریں، لہٰذا جس آدمی نے اس طرح عمل کیا (کہ قربانی سے پہلے نماز و خطبے سے فراغت حاصل کرلی) اس نے ہماری سنت کو اختیار کیا اور جس آدمی نے نماز سے پہلے قربانی کرلی وہ قربانی نہیں ہے بلکہ وہ گوشت والی بکری ہے جسے اس نے اپنے گھروالوں کے لئے جلدی ذبح کرلیا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ نماز سے پہلے قربانی کرلینے سے قربانی کا ثواب نہیں ملتا بلکہ اس کا شمار اس گوشت میں ہوجاتا ہے جو عام طور پر گھر والے کھاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں مشروع یہ ہے کہ پہلے عید قربان کی نماز پڑھی جائے اس کے بعد خطبہ پڑھا جائے اور سنا جائے پھر قربانی کی جائے چونکہ حدیث بالا میں قربانی کا وقت پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لئے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عید قرباں کے دن طلوع فجر سے پہلے قربانی جائز نہیں۔ البتہ طلوع فجر کے بعد قربانی کا وقت شروع ہونے کے سلسلے میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ چناچہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ جب آفتاب بقدر نیزہ بلند ہوجائے اور اس کے بعد کم از کم دو رکعت نماز اور دو مختصر خطبے کی بقدر وقت گزر جائے تو قربانی کا وقت شروع ہوتا ہے اس کے بعد قربانی کرنا جائز ہے خواہ بقر عید کی نماز ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ اس وقت سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے خواہ قربانی کرنے والا شہر میں رہتا ہو یا دیہات کا رہنا والا ہو، نیز امام شافعی کے نزدیک قربانی کا وقت تیرہویں تاریخ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک قربانی کا وقت شہر والوں کے لئے عید قربان کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور دیہات والوں کے لئے طلوع فجر کے بعد ہی شروع ہوجاتا ہے۔ ان کے ہاں قربانی کا آخری وقت بارہویں تاریخ کے آخر تک رہتا ہے۔ قربانی واجب ہے یا سنت حضرت امام شافعی (رح) کے ہاں قربانی واجب نہیں بلکہ سنت ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ ہر صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے اگرچہ نصاب نامی نہ ہو۔

【2】

قربانی کا وقت

اور حضرت جندب ابن عبداللہ بجلی (رض) راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جو آدمی ( قربانی کا جانور) عید قربان کی نماز سے پہلے ذبح کردے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے بدلے (قربانی کیلئے) دوسرا جانور ذبح کرے اور جو آدمی نماز پڑھنے تک ذبح نہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کے نام پر قربانی کا جانور ذبح کر دے (یہ قربانی درست ہوگی جس کا ثواب اسے ملے گا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

【3】

قربانی کا وقت

اور حضرت براء راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے (قربانی کا جانور) نماز سے پہلے ذبح کیا تو گویا اس نے اپنے (محض کھانے کے) واسطے ذبح کیا (اس لئے اسے قربانی کا ثواب حاصل نہیں ہوا) جس آدمی نے نماز کے بعد ذبح کیا تو بلا شبہ اس کی قربانی ادا ہوگئی اور (اس طرح) اس نے مسلمانوں کے طریقے کو اپنایا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جمہور علماء کا مسلک یہی ہے مگر تعجب ہے کہ اتنی واضح اور صحیح احادیث کے باوجود حضرت امام شافعی (رح) نے نہ معلوم کیوں جمہور علماء کے مسلک کے خلاف یہ کہا کہ قربانی کا وقت شروع ہوجانے کی بعد قربانی کر لینی جائز ہے۔ خواہ نماز ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو جیسا کہ ابھی پیچھے ان کا مسلک نقل کیا گیا ہے۔

【4】

رسول اللہ ﷺ عیدگاہ میں قربانی کرتے تھے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ عید گاہ میں ذبح اور نحر کرتے تھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح بکری، دنبہ بھیڑ، گائے بھینس اور اونٹ یہ جانور خواہ نر ہوں یا مادہ، ان کے علاوہ دوسرے جانور کی قربانی جائز نہیں، اونٹ کے علاوہ بقیہ جانوروں کے حلال کرنے کو ذبح کہتے ہیں اور اونٹ کے حلال کرنے کو نحر کہتے ہیں نحر کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اونٹ کو کھڑا کر کے اس کے سینہ میں نیزہ مارا جاتا ہے جس سے وہ گرپڑتا ہے۔ اگرچہ اونٹ کو ذبح کرنا بھی جائز ہے لیکن نحر افضل ہے۔

【5】

مسلمانوں کے لئے خوشی کے دو دن

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ لہو و لعب کرتے (اور خوشیاں مناتے) تھے، آپ ﷺ نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ یہ دو دن کیسے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ان دونوں دنوں میں ہم زمانہ جاہلیت میں کھیلا کو دا کرتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان دونوں دنوں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دئیے ہیں اور وہ عید الاضحی اور عید الفطر کے دن ہیں۔ (ابوداؤد) تشریح زمانہ جاہلیت میں اہل مدینہ کے لئے دو دن مقرر تھے جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے تھے اور خوشیاں منایا کرتے تھے ان میں سے ایک دن نوروز تھا اور دوسرا دن مہر جان ۔ نوروز کے دن آفتاب برج حمل میں جاتا ہے اور مہر جان کے دن برج میزان میں داخل ہوتا ہے۔ چونکہ ان دونوں دنوں میں آب و ہوا معتدل ہوتی ہے۔ اور رات دن برابر ہوتے ہیں اس لئے ان دنوں کو حکام نے خوشی منانے کی لئے مقرر کرلیا تھا چناچہ وہی رسم لوگوں میں چلی آتی تھی۔ یہاں تک کہ جب اہل مدینہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو شروع میں پرانی عادت کے مطابق ان دونوں میں پہلے زمانے کی طرح خوشی منایا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب ان دنوں کی حقیقت دریافت فرمائی تو وہ اس کی کوئی حقیقت بیان نہ کرسکے صرف اتنا بتاسکے کہ پرانے زمانے سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے اور ان دنوں سے ہم اسی طرح خوشی مناتے چلے آتے ہیں، تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان دنوں سے تمہیں اب کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان دنوں سے بہتر تمہیں عیدین کے دو دن عنایت فرما دئیے ہیں تم ان بابرکت دنوں میں خوشی منا سکتے ہو۔ گویا اس طرح آپ ﷺ نے ایک طرف تو یہ اشارہ فرمایا کہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ حقیقی عید اور خوشی عبادت کے دن منائے۔ لہٰذا اس حدیث میں عیدین کے دن لہو و لعب میں مشغول ہونے کی ممانعت ہے۔ دوسری طرف یہ اشارہ خفی ہے کہ عیدین میں بہت معمولی طریقے پر کھیل کود اور اس انداز اور اس طریقے سے خوشی منانا کہ جس میں حدود شریعت سے تجاوز اور فحاشی نہ ہو جائز ہے۔ یہ حدیث نہایت طبع انداز میں یہ بتارہی ہے کہ غیر مسلموں کے تہوار کی تعظیم کرنا اور ان میں خوشی منانا، نیز ان کی رسموں کو اپنانا ممنوع ہے نیز یہ حدیث غیر مسلموں کی عید و تہوار میں شرکت و حاضری کی ممانعت کو بھی ظاہر کر رہی ہے۔ بعض علماء نے تو اسے سخت جانا ہے کہ اس عمل پر کفر کا حکم لگایا ہے چناچہ ابوحفص کبیر حنفی فرماتے ہیں کہ جو آدمی نوروز کی عظمت و توقیر کے پیش نظر اس دن مشرکوں کو تحفہ میں انڈا بھیجے ( جیسا کہ اس روز مشرکین کا طریقہ ہے) تو وہ کافر ہوجاتا ہے اور اس کے تمام اعمال نابود ہوجاتے ہیں۔ حضرت قاضی ابوالمحاسن ابن منصور حنفی کا قول ہے کہ اگر کوئی اس دن وہ چیزیں خریدے جو دوسرے دنوں میں نہیں خریدتا ہے (جیسا کہ ہمارے یہاں دیوالی کے روز کھلیں اور مٹھائی بنے ہوئے کھلونے وغیرہ خریدے جاتے ہیں یا اس دن کسی کو تحفہ بھیجتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اس دن کی تعظیم ہو جیسا کہ مشرک اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو وہ آدمی کافر ہوجاتا ہے اور اگر کوئی آدمی محض اپنے استعمال اور فائدہ اٹھانے یا حسب عادت کسی کو ہدیہ بھیجنے کی نیت سے خریدتا ہے۔ تو کافر نہیں ہوتا لیکن یہ بھی مکروہ ہے لیکن اس طرح کافروں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اس لئے اس سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔ اس طرح اگر کوئی آدمی عاشورہ کے دن خوشی مناتا ہے تو خوارج کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور اگر اس دن غم والم ظاہر کرنے والی چیزیں اختیار کرتا ہے تو روافض کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے لہٰذا ان دونوں باتوں سے بچنا چاہیے۔ یہ بات بھی جانے لیجئے کہ نوروز کی عظمت و توقیر کے سلسلہ میں روافض مجوسیوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ اسی دن حضرت عثمان شہید کئے گئے تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلاف منعقد ہوئی تھی۔ فتاوی ذخیرہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی ہولی اور دیوالی دیکھنے کے لئے بطور خاص نکلتا ہے وہ حدود کفر سے قریب ہوجاتا ہے کیونکہ اسی میں اعلان کفر ہوتا ہے لہٰذا ایسا آدمی گویا اپنے عمل سے فکر کی مدد کرتا ہے اسی پر نوروز دیکھنے کے لئے نکلنے کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ بعض مسلمان ایسا کرتے ہیں۔ یہ بھی موجب کفر ہے۔ تجنیس میں مذکور ہے کہ ہمارے مشائخ اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ جس آدمی نے اہل کفار کے معتقدات و معاملات میں سے کسی چیز کے اچھا ہونے کا اعتقاد رکھا تو وہ حدود کفر میں داخل ہوجائے گا۔ اسی پر اس مسئلہ کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی ایسے ہال ہوا و ہوس انسان مثلاً شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والے نام نہاد صوفیا کے کسی کلام یا کسی قول کے بارے میں اچھا خیال رکھے اور یہ کہے کہ یہ کلام معنوی ہے یا یہ کہے کہ فلاں قول ایسا ہے جس کے معنی صحیح ہیں تو اگر حقیقت میں وہ کلام و قول کفر آمیز ہو تو اس کے بارے میں اچھا عقیدہ رکھنے والا اور اسے صحیح کہنے والا بھی کافر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح نوادر الفتاوی میں منقول ہے کہ جو آدمی غیر مسلموں کی رسومات کو اچھا جانے وہ کافر ہوجاتا ہے۔ عمدۃ الاسلام میں لکھا ہے کہ جو آدمی کافروں کی رسومات ادا کرے مثلاً نئے مکان میں بیل اور گائے اور گھوڑے کو زردو سرخ رنگ کرے یا بندھن دار باندھے تو کافر ہوجاتا ہے۔ حاصل یہ کہ ان معتقدات و رسومات سے قطعاً احتراز کرنا چاہے جن سے اسلام اور شریعت کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو بلکہ ان کی بنیاد خالص غیر اسلامی و غیر شرعی چیزوں پر ہے۔

【6】

عید میں نماز سے پہلے اور بقر عید میں نماز کے بعد کھانا پینا چاہیے

حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عید کے دن بغیر کچھ کھائے پئے عید گاہ تشریف نہیں لے جاتے تھے۔ اور بقر عید کے دن بغیر نماز پڑھے کچھ نہیں کھاتے پیتے تھے۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، دارمی) تشریح عید کے روز نماز سے پہلے کھانے پینے کا سبب گذشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے۔ بقر عید کے روز آپ غرباء و مساکین کا ساتھ دینے اور ان کی دلجوئی کی خاطر بقر عید کی نماز کے بعد ہی کچھ تناول فرماتے تھے۔ کیونکہ غرباء و مساکین کو تو کچھ کھانا پینا اسی وقت نصیب ہوتا تھا جب قربانی ہوجاتی اور اس کا گوشت ان لوگوں میں تقسیم ہوجاتا اس لئے آپ ان کی وجہ سے خود بھی کھانے پینے میں تاخیر فرماتے تھے۔

【7】

تکبیرات عیدین

اور حضرت کیثر ابن عبداللہ اپنے والد سے اور وہ کیثر کے دادا سے یعنی اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ (جامع ترمذی، ابن ماجۃ، دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے تحریمہ اور رکوع کی تکبیروں کے علاوہ ساتھ تکبیریں کہیں۔ اسی طرح دوسری رکعت میں قیام اور رکوع کی تکبیروں کے علاوہ پانچ تکبیریں کہیں۔ چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا اسی پر عمل ہے اس سلسلہ میں مفصل بحث آگے آرہی ہے۔

【8】

تکبیرات عیدین

اور حضرت جعفر ابن محمد مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) عیدین اور استسقاء کی نماز میں سات اور پانچ تکبیریں کہا کر تھے اور (عیدین و استسقاء کی) نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے، نیز قرأت بآواز بلند پڑھتے تھے۔ (شامی) تشریح جعفر سے مراد امام جعفر صادق ابن محمد باقر ابن علی یعنی امام زین العابدین ابن حضرت امام حسین ابن علی ابن حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ سات اور پانچ کی وضاحت حدیث بالا تاکید کی ہے کہ پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسرک رکعت میں قرار سے پہلے پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے، یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ حضرت امام شافعی (رح) کا یہی مسلک ہے۔

【9】

تکبیرات عیدین

اور حضرت سعید ابن عاص فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوموسی و حضرت حذیفہ (رض) سے سوال کیا کہ رسول کریم ﷺ عید و بقر عید کی نماز میں کتنی تکبیریں کہتے تھے ؟ تو حضرت ابوموسی (رض) نے جواب دیا کہ جس طرح آپ ﷺ جنازہ میں چار تکبیریں کہتے تھے اسی طرح عیدین کی نماز میں بھی چار تکبیریں کہا کرتے تھے حضرت حذیفہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ابوموسی نے سچ کہا (ابوداؤد) تشریح حضرت ابوموسی کے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح آپ ﷺ نماز جناز میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے اسی طرح آپ ﷺ عیدین کی نماز میں بھی ہر رکعت میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے اس طرح کہ پہلی رکعت میں تو قرأت سے پہلے تکبیر تحریمہ سمیت چار تکبیریں کہتے تھے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد رکوع کی تکبیر سمیت چار تکبیریں کہتے تھے۔ اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ تکبیرات عید کے سلسلہ میں متضاد احادیث منقول ہیں اسی وجہ سے ائمہ کے مسلک میں بھی اختلاف ظاہر ہوا ہے چناچہ تینوں اماموں کے نزدیک عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں ہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے ہاں تو پہلی رکعت میں سات تکبیریں مع تکبیر تحریمہ کے ہیں اور اسی طرح دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں تکبیر قیام سمیت ہیں جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک پہلی رکعت میں سات تکبیریں تکبیر تحریمہ کے علاوہ اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں تکبیر قیام کے علاوہ ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ تین تکبیریں پہلی رکعت میں اور تکبیر رکوع کے علاوہ تین تکبیریں دوسری رکعت میں ہیں جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ نیز اسی کو حضرت عبداللہ ابن مسعود نے بھی اختیار کیا ہے جبکہ حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق حضرت عبداللہ ابن عباس کا مسلک ہے یہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن سے حضرت امام شافعی استدلال کرتے ہیں تو ان کی صحت و ضعف اور ان کی اسناد و طرق کے بارے میں بہت زیادہ اعتراضات ہیں جس کو یہاں نقل کرنے کا موقع نہیں ہے۔ علماء حنیفہ اپنے مسلک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ تکبیرات عیدین کے سلسلہ میں جب متضاد اور مختلف احادیث سامنے آئیں تو ہم نے ان میں سے ان احادیث کو اپنا معمول بہ قرار دیا جن میں تکبیرات کی تعداد کم منقول تھی کیونکہ عیدین کی زائد تکبیریں اور رفع یدین بہر حال خلاف معمول ہیں اس لئے کم تعداد کا اختیار کرنا ہی اولیٰ ہوگا۔

【10】

امام خطبہ دیتے عصا وغیرہ کا سہارا لے لے

اور حضرت براء (رض) راوی ہیں کہ عید کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کمان پیش کی گئی چناچہ آپ ﷺ نے سہارا لے کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس طرح عصاء وغیرہ ٹیک کر خطبہ پڑھا جاتا ہے اسی طرح آپ ﷺ نے عصاء کے بجائے کمان ٹیک کر اس کے سہارے خطبہ ارشاد فرمایا۔

【11】

امام خطبہ دیتے عصا وغیرہ کا سہارا لے لے

اور حضرت عطاء بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب خطبہ ارشاد فرماتے تو اپنے نیزے پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے۔ (شافعی)

【12】

امام خطبہ دیتے عصا وغیرہ کا سہارا لے لے

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ عید کے دن رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز میں شریک ہوا، چناچہ آپ ﷺ نے اذان و تکبیر کے بغیر خطبہ سے پہلے نماز شروع فرمائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو (خطبہ کے لئے) حضرت بلال (رض) کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے، آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی تعریف بیان فرمائی۔ لوگوں کو نصیحت کی اور انہیں عذاب وثواب ( کے احکام یاد دلائے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے پر ترغیب دلائی۔ پھر آپ ﷺ عورتوں کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے حضرت بلال (رض) بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے (وہاں بھی) آپ ﷺ نے عورتوں کو اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا، ان کو نصیحت کی اور انہیں عذاب وثواب ( کے احکام) یاد دلائے۔ (سنن نسائی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطیب کے لئے مناسب ہے کہ وہ خطبہ دیتے وقت کسی چیز مثلاً تلوار، کمان برچھی، عصا یا کسی آدمی کا سہارا لے کر کھڑا ہو۔

【13】

عید گاہ جانے کا طریقہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب عید کے دن (عید گاہ) ایک راستہ سے تشریف لے جاتے تو واپس دوسرے راستہ سے ہوتے تھے۔ (جامع ترمذی، دارمی) تشریح عیدگاہ جانے کے لئے ایک راستہ اختیار کرنا اور واپسی کے لئے دوسرا راستہ اختیار کرنا مسنون ہے، اس کی حکمت اسی باب کی فصل میں ایک حدیث کی فائدہ کے ضمن میں بیان کی جا چکی ہے۔ عیدگاہ جاتے ہوئے۔ راستہ میں یعنی اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ۔ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد پڑھتے رہنا چاہیے۔ صاحبین کے نزدیک تو عید و بقر عید دونوں موقع پر راستہ میں یہ تکبیر بلند آواز سے پڑھنی چاہیے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ عید الفطر میں تو یہ تکبیر آہستہ آواز سے۔ اور بقر عید میں بلند آواز سے پڑھنا چاہیے۔

【14】

عذر کی وجہ سے عیدین کی نماز شہر کی مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) عید کے دن بارش ہونے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مسجد میں نماز پڑھائی۔ ( ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین کی نماز شہر سے باہر جنگل میں ادا فرماتے تھے مگر جب بارش ہوتی تو آپ ﷺ مسجد نبوی ہی میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ عیدین کی نماز جنگل میں (یعنی عیدگاہ میں) ادا کرنا افضل ہے۔ ہاں کوئی عذر پیش آجائے تو پھر شہر کی مسجد میں ادا کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں اہل مکہ کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ وہ عیدین کی نماز مسجد حرام ہی میں ادا کریں جیسا کہ آجکل عمل ہے اسی طرح اہل مدینہ بھی عیدین کی نماز مسجد نبوی ہی میں پڑھتے ہیں۔

【15】

عیدین کی نماز تاخیر سے اور بقر عید کی نماز جلدی پڑھ لینی چاہیے

اور حضرت ابی الحویرث (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو بن حز کو جو نجران میں تھے یہ (حکم لکھ کر بھیجا کہ بقر عید کی نماز جلدی اور عید کی نماز تاخیر سے ادا کرو نیز (خطبہ میں) لوگوں کو پند و نصیحت کرو۔ (شافعی) تشریح نجران ایک شہر کا نام ہے رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو ابن حزم کو وہاں کا عامل بنا کر بھیجا تھا جب کہ ان کی عمر صرف سترہ سال تھی۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں یہ احکام لکھ کر بھیجے تھے تاکہ وہ اس پر عمل کریں۔ بقر عید کی نماز جلدی ادا کرلینے کے لئے اس واسطے فرمایا تاکہ لوگ نماز سے جلدی فارغ ہو کر قربانی وغیرہ میں مشغول ہوجائیں۔ اس طرح عید کی نماز تاخیر سے ادا کرنے کے لئے اس واسطے فرمایا بلکہ لوگ سے پہلے صدقہ فطر ادا کرلیں۔

【16】

چاند کی شہادت زوال کے بعد آئے تو عید کی نماز دوسرے دن پڑھی جائے

اور حضرت عمیر بن انس اپنے چچاؤں سے جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے تھے، نقل کرتے ہیں کہ ایک قافلہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شہادت دی کہ انہوں نے کل عید کا چاند دیکھا ہے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کو افطار کا حکم دیا اور فرمایا کہ صبح عید گاہ جائیں۔ (ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح رمضان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو اہل مدینہ نے عید کا چاند نہیں دیکھا چناچہ انہوں نے تیس تاریخ کو روزہ رکھا۔ اتفاق سے اسی روز ایک قافلہ باہر سے مدینہ آیا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس بات کی شہادت دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا۔ آپ ﷺ نے اس قافلہ کی شہادت کو مانتے ہوئے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کردیں۔ اور چونکہ چاند ہونے کی یہ شہادت زوال آفتاب کے بعد آئی تھی اور نماز عید کا وقت نہ رہا تھا۔ جیسا کہ ایک روایت میں یہ صراحت بھی ہے کہ انھم قدموا اخر النھار (یعنی قافلہ دن کے آخری حصہ میں مدینہ پہنچا تھا) آپ ﷺ نے نماز عید کا کے بارے میں یہ حکم دیا کہ کل صبح ادا کی جائے۔ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا اسی پر عمل ہے کہ آفتاب بلند ہونے کے بعد نماز عید کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور زوال آفتاب تک رہتا ہے۔ شرح منیہ لکھا کہ اگر کوئی ایسا عذر پیش آجائے جو عید الفطر کے روز زوال آفتاب سے پہلے نماز عید کی ادائیگی کے لئے مانع ہو تو عید کی نماز اس روز پڑھنے کی بجائے دوسرے روز زوال آفتاب سے پہلے ادا کرلی جائے۔ اگر دوسرے دن بھی کوئی عذر نماز کی ادائیگی کے لئے مانع ہو تو پھر نماز نہ پڑھی جائے۔ بخلاف بقر عید کی نماز کے کہ اگر اس کی ادائیگی کے لئے کوئی عذر پہلے اور دوسرے روز مانع ہو تو تیسرے روز بھی اس کی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ویسے بقر عید کی نماز میں بلا عذر بھی دوسرے یا تیسرے دن تک تاخیر جائز ہے مگر مکروہ ہے۔

【17】

عیدین کی نماز میں اذان و تکبیر نہیں ہے

ابن جریج فرماتے ہیں کہ عطا نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت جابر ابن عبداللہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ نہ تو عید کے دن (نماز عید کے لئے) اذان دی جاتی تھی اور نہ بقر عید کے دن ابن جریج فرماتے ہیں کہ کچھ مدت کے بعد پھر میں نے دوبارہ عطاء سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے حضرت جابر ابن عبداللہ (رض) نے بتایا ہے کہ عید کے دن نماز عید کے لئے اذان نہیں ہے نہ تو امام کے باہر آنے کے وقت اور نہ امام کے باہر آجانے پر اور نہ تکبیر ہے اور نہ نداء ہے اور نہ کچھ اور، اس دن نہ نداء ہے نہ تکبیر۔ (صحیح مسلم) تشریح ابن جریج نے یا تو عطاء سے دوبارہ اس مسئلہ کی تفصیل معلوم کی ہوگی یا بعینہ وہی مسئلہ پوچھا ہوگا۔ بہر حال عطاء نے دوسری مرتبہ کے جواب میں صرف عیدالفطر کا ذکر کیا عیدا لاضحی کا نہیں، وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ یہ سمجھے کہ صرف عید الفطر کا ذکر کردینا ہی کافی ہے سائل عیدالفطر پر عیدالاضحی کو بھی قیاس کرلے گا۔ نداء سے الصلوٰۃ الصلوٰۃ یا اس طرح کہ دوسرے الفاظ جو نماز کی اطلاع دینے کے لئے استعمال کئے جائیں کہنا مراد ہے لانداء کے بعد لفظ لاشی لانداء کی تاکید کہ لئے لایا گیا ہے، پھر اس کے بعد حدیث کے آخری الفاظ لا نداء یومذ ولا اقامۃ بھی تاکید کے لئے دوبارہ استعمال کئے گئے ہیں۔ (شیخ عبدالحق) ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ لفظ لانداء اول سے آخر تک پہلے جملہ کی تاکید ہے اور مناسب یہ ہے کہ لفظ نداء سے اذان مراد لی جائے کیونکہ عیدین کے موقع پر اذان و تکبیر کی بجائے الصلوٰۃ جامعۃ پکار کر کہنا تمام علماء کے نزدیک مستحب ہے۔ گویا حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) کے قول کے مطابق حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ عیدین کی نماز کے لئے جس طرح اذان و تکبیر مشروع نہیں ہے اسی طرح نماز کی اطلاع کے لئے کوئی اور لفظ مثلاً الصلوٰۃ جامعہ پکارنا بھی مشروع نہیں ہے جب کہ حضرت ملا علی قاری کے قول کا مطلب یہ ہے کہ عیدین کی نماز میں اذان و تکبیر تو مشروع نہیں ہاں نماز کی اطلاع دینے کے لئے نداء یعنی الصلوۃ جامعۃ پکار کر کہنا مستحب ہے۔ لہٰذا ان دونوں اقوال کے باہم اختلاف و تضاد کو اس تطبیق کے ذریعہ ختم کیا جائے حضرت شیخ نے نداء کی جو نفی کی ہے وہ عیدگاہ کے اندر بطریقہ التزام کے ہے یعنی ان کا مطلب یہ ہے کہ اول تو عید گاہ کے اندر اور دوسرے بطریق التزام نداء نہ دی جائے اور حضرت ملا علی قاری نے نداء کو جو مستحب لکھا ہے تو اس کا تعلق عید گاہ سے باہر اور کبھی کبھی کہنے سے ہے یعنی الصلوٰۃ جامعۃ عید گاہ سے باہر اور کبھی کبھی پکار کر کہنا مستحب ہے۔ وا اللہ اعلم۔

【18】

عیدین میں خطبہ نماز کے بعد پڑھنا چاہے

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ بقر عید کے دن (عید گاہ) جاتے تو (پہلے) نماز شروع کرتے جب نماز سے فارغ ہوجاتے تو (خطبہ کے لئے) کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے، لوگ اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہے چناچہ اگر آپ ﷺ کو کہیں لشکر بھیجنا ہوتا تو (اس وقت) لوگوں کے سامنے اس کا ذکر فرماتے ہیں اور لشکر بھیجتے یا لوگوں کی کوئی اور حاجت ہوتی (یعنی مسلمانوں کے فائدہ کی کوئی بات ہوئی) تو اس کے بارے میں حکم فرماتے اور رسول اللہ ﷺ (اپنے خطبہ کے دوران) یہ فرمایا کرتے تھے صدقہ دو ، صدقہ دو ، صدقہ دو ، چناچہ عورتیں زیادہ صدقہ خیرات یاد کرتیں تھیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ اپنے مکان واپس تشریف لاتے (آپ ﷺ کے مبارک زمانہ اور آپ ﷺ کے بعد چاروں خلفاء کے دور خلافت میں نیز اس کے بعد تک بھی) یہی معمول جاری رہا ( کہ خطبہ نماز کے بعد ہوتا اور خطبہ منبر پر نہیں بلکہ زمین ہی پر کھڑے ہو کر پڑھا جاتا رہا) یہاں تک کہ (امیر معاویہ کی جانب سے مدینہ کا حکم) مروان ابن حکم مقرر ہوا (ایک مرتبہ عید کے دن) میں مروان ابن حکم ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے عید گاہ آیا (جب ہم عید گاہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ) وہاں کثیر ابن صلت نے مٹی اور کچھی اینٹ کا منبربنا رکھا تھا۔ اچانک مروان مجھے اپنے ہاتھ کے سامنے کھینچنے لگا گویا وہ مجھے منبر کی طرف کھینچ رہا تھا (تاکہ نماز سے پہلے خطبہ پڑھے) اور میں اس کو نماز کی طرف کھینچ رہا تھا (تاکہ وہ پہلے نماز پھر خطبہ پڑھے) جب میں نے یہ دیکھا کہ وہ پہلے خطبہ پڑھنے پر مصر ہے تو میں نے کہا کہ ابوسعید ! جھگڑا نہ کرو، جس بات کو تم جانتے ہو اب وہ متروک ہے (یعنی میں نے مصلحت کے پیش نظر خطبہ سے پہلے نماز پڑھنا چھوڑ دیا ہے اور مصلحت یہ ہے کہ اگر خطبہ نماز کے بعد پڑھا جائے گا تو لوگ اٹھ اٹھ کر جانے لگیں گے) میں نے کہا کہ ہرگز نہیں ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے جو چیز میں جانتا ہوں تم اس سے بہتر چیز لا ہی نہیں سکتے میں نے یہ بات تین مرتبہ اس سے کہی۔ پھر (مروان کے اس فعل کی وجہ سے) ابوسعید (عید گاہ سے) چلے گئے (اور جماعت میں شریک نہیں ہوئے۔ (صحیح مسلم) تشریح صدقہ و خیرات یعنی اللہ کے نام پر اپنا مال خرچ کرنے کی جو اہمیت و فضیلت ہے اس کے پیش نظر آپ ﷺ اپنے خطبہ میں لفظ تصدقوا تین مرتبہ تاکیدا فرمایا کرتے ہیں، یا یہ کہ تین مرتبہ فرمانا تین حالتوں کی طرف اشارہ ہے (١) صدقہ دو اپنی زندگی کے واسطہ (٢) صدقہ دو اپنی موت کے لئے (٣) اور صدقہ دو اپنی آخرت کے لئے۔ مخاضر دو آدمیوں کے اس طرح باہم ہاتھ پکڑے ہوئے چلنے کو فرماتے ہیں کہ ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کو لھے کے قریب ہو۔ مروان ابن حکم ٢ ھ میں پیدا ہوا تھا مگر اسے رسول اللہ ﷺ سے شرف زیارت حاصل نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح کثیر ابن صلت کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش بھی رسول اللہ ﷺ ہی کے زمانہ مبارک ہی میں ہوئی تھی۔ چناچہ اسی وجہ سے صاحب جامع الاصول نے انہیں صحابہ میں شمار کیا جب کہ بعض محققین نے انہیں تابعی کہا ہے۔ ان کا مکان عید گاہ کے قریب تھا انہوں نے ہی عیدگاہ میں منبر بنایا تھا تاکہ عیدین کا خطبہ اس پر کھڑے ہو کر پڑھا جائے جیسا کہ جمعہ کا خطبہ منبر پر کھڑے ہو کر پڑھنا مسنون ہے۔ لہٰذا ظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے مروان ابن حکم نے عید گاہ میں منبر بنوایا ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ ثم انصرف کے یہ معنی بھی محتمل ہوسکتے ہیں کہ مروان منبر کی طرف آیا تاکہ خطبہ پڑھے اور اس نے حضرت ابوسعید کی یہ بات نہ مانی کہ پہلے نماز پڑھی جائے پھر خطبہ پڑھا جائے۔ عیدین کی نماز کا طریقہ عیدین کی نماز دو رکعت ہے جس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے والا نیت کر کے اور تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھے لے پھر سبحانک اللہم پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے اور ہر مرتبہ مثل تکبیر تحریمہ کے دونوں کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کے بعد لٹکا دے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر تو قف کرے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکیں۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائے بلکہ ہاتھ باندھے لے اور اعوذبا اللہ، بسم اللہ، پڑھ کر سورت فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھ کر رکوع و سجدہ کر کے کھڑا ہوا۔ پھر دوسری رکعت میں پہلے سورت فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ لے اس کے بعد تین تکبیریں اس طرح کہے جس طرح پہلی رکعت میں سبحانک اللہم پڑھ کر کہی تھی۔ لیکن یہاں تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے بلکہ لٹکائے رکھے اور پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور نماز پوری کرے۔ نماز کے بعد امام کو چاہیے کہ وہ منبر پر کھڑے ہو کردو خطبے پڑھے۔ عید الفطر کے خطبہ میں صدقہ فطر کے احکام و مسائل بیان کرے اور عید الاضحی کے خطبہ میں قربانی اور تکبیر تشریق کے احکام بیان کرے۔ تکبیر تشریق یعنی ہر فرض نماز کے بعد فرض نماز پڑھنے والے کے ایک مرتبہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و للہ الحمد کہنا واجب ہے۔ یہ تکبیر عرفہ یعنی ذوالحجہ کی نویں تاریخ کی فجر سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک کہنا چاہیے۔ یہ تکبیر عورت اور مسافر پر واجب نہیں۔ ہاں اگر یہ لوگ کسی ایسے آدمی کی مقتدی ہوں جن پر تکبیر کہنا واجب ہے تو ان پر بھی تکبیر واجب ہوجائے گی۔ (علم الفقہ)

【19】

قربانی کا بیان

حنفی مسلک میں قربانی ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو مقیم اور غنی ہو یعنی نصاب کا مالک ہوا گرچہ نصاب نامی نہ ہو حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک قربانی سنت موکدہ ہے حضرت امام احمد (رح) کا بھی مشہور اور مختار قول یہی ہے۔

【20】

قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیے

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے دو دنبوں کی جو سینگوں والے (یعنی جن کے سینگ لمبے تھے یا یہ کہ سینگ ٹوٹے ہوئے نہ تھے) اور ابلق (یعنی سیاہ رنگ کے) تھے قربانی کی۔ آپ ﷺ نے بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر (خود) اپنے ہاتھ سے انہیں ذبح کیا حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پہلو (یا کلے) پر پاؤں رکھے ہوئے تھے اور بسم اللہ وا اللہ اکبر کہتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح قربانی کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ اگر وہ ذبح کے آداب جانتا ہو تو قربانی کا جانور خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے ورنہ بصورت دیگر اپنی طرف سے کسی دوسری آدمی سے ذبح کرائے اور خود وہاں موجود رہے۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا (یعنی بسم اللہ کہنا) حنفیہ کے نزدیک شرط ہے اور تکبیر کہنی (یعنی واللہ اکبر کہنا) علماء کے نزدیک مستحب ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ ویقول بسم اللہ واللہ اکبر میں اس طرف اشارہ ہے کہ لفظ واللہ اکبر واؤ کے ساتھ کہنا افضل ہے۔ ذبح کے وقت درود پڑھنا جمہور علماء کے نزدیک مکروہ ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک سنت ہے۔

【21】

قربانی کے دنبہ کی صفات

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (قربانی کے لئے) ایک ایسے سینگ دار دنبہ کے لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو (یعنی اس کے پاؤں سیاہ ہوں) سیاہی میں بیٹھا ہو (یعنی اس کا پیٹ اور سینہ سیاہ ہو) اور سیاہی میں دیکھا ہو (یعنی اس کی آنکھوں کے گرد سیاہی ہو) چناچہ (جب) آپ کے لئے قربانی کے واسطے ایسا دنبہ لایا گیا ( تو) فرمایا کہ عائشہ ! چھری لاؤ (جب چھری لائی تو) پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر (رگڑ کر) تیز کرو، میں نے چھری تیز کی، آپ نے چھری لی اور دنبے کو پکڑ کر اسے لٹایا پھر جب اسے ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو یہ فرمایا کہ اللھم تقبل من محمد و ال محمد و من امۃ محمد (یعنی اے اللہ ! اسے محمد ﷺ ، آل محمد ﷺ اور امت محمد ﷺ کی طرف سے قبول فرما) پھر اسے ذبح کردیا۔ (صحیح مسلم) تشریح جب جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو، اس کے سامنے چھری تیز کرنا مکروہ ہے کیونکہ حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک ایسے آدمی کو درے سے مارا تھا جس نے ایسا کیا تھا۔ اسی طرح ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنا بھی مکروہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ذبح کرتے وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے اس سے مراد صرف ثواب میں امت کو شریک کرنا تھا نہ یہ کہ آپ ﷺ نے سب کی طرف سے قبربانی کی تھی کیونکہ ایک دنبہ یا ایک بکری کی قربانی کئی آدمیوں کی طرف سے درست نہیں ہے۔

【22】

کس عمر کے جانور کی قربانی کرنی چاہیے؟

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم (قربانی میں صرف) مسنہ جانور ذبح کرو، ہاں اگر مسنہ نہ پاؤ تو پھر دنبہ بھیڑ کا جزعہ ذبح کرلو۔ (صحیح مسلم) تشریح مسنہ یا جزعہ کسی خاص جانور کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک اصطلاح ہے جو قربانی کے جانور کی عمر کے سلسلہ میں مستعمل ہوتی ہے۔ چناچہ حنفی مسلک کے مطابق اس کی تفصیل یہ ہے کہ اونٹوں میں وہ اونٹ مسنہ کہلاتا ہے جو پورے پانچ سال کی عمر کا ہو اور چھٹے برس میں داخل ہوچکا ہو۔ گائے، بھینس اور بیل میں مسنہ اسے فرماتے ہیں جو پورے دو سال کی عمر کا ہو تیسرے سال میں داخل ہوچکا ہو۔ بھیڑ اور دنبہ میں مسنہ وہ ہے جو اپنی عمر کو پورا ایک سال گزار کر دوسرے سال میں داخل ہوچکا ہو۔ لہٰذا ان جانوروں میں قربانی کے لئے جانور کا مسنہ ہونا ضروری ہے۔ ہاں دنبہ اور بھیڑ کا اگر جزعہ بھی ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ جزعہ بھیڑ یا دنبہ کا وہ بچہ کہلاتا ہے جس کی عمر ایک برس سے تو کم ہو مگر چھ مہینہ سے زیادہ ہو۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جزعہ کی قربانی اس صورت میں جائز ہوگی جب کہ وہ اتنا فربہ ہو کہ اگر اسے مسنہ کے ساتھ کھڑا کردیا جائے تو دور سے دیکھنے والا اسے بھی مسنہ گمان کرے اگر وہ فربہ نہ ہو بلکہ چھوٹا ہو اور دبلا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔ بظاہر حدیث سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر مسنہ بہم نہ پہنچے یا اس کی قیمت میسر نہ ہو تو جزعہ کی قربانی درست ہے ورنہ بصورت دیگر اس کی قربانی درست نہیں ہوگی۔ بلکہ فقہاء لکھتے ہیں کہ یہ استحباب پر محمول ہے یعنی مستحب تو یہی ہے کہ اگر مسنہ مل جائے اور اس کے خریدنے کی استطاعت ہو تو جزعہ کی قربانی نہ کرے۔ ویسے اگر مسنہ ہوتے ہوئے بھی کوئی جزعہ کی قربانی کرے گا تو درست ہوگئی۔

【23】

بکری کے بچہ کی قربانی

اور حضرت عقبہ ابن عامر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بکریوں کا ایک ریوڑ دیا تاکہ وہ اسے صحابہ کرام میں بطریق قربانی کے تقسیم کردیں چناچہ (انہوں نے تقسیم کردیا) تقسیم کے بعد بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا اور انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی قربانی تم کرلو ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے ! دنبہ کا ایک بچہ ملا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی قربانی کرلو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح عتود بکری کے اس بچہ کو فرماتے ہیں جو موٹا تازہ ہو اور ایک سال کی عمر کا ہو۔ لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بکری کے ایک سال کے بچہ کی قربانی جائز ہے چناچہ امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ عتود بکری کے اس بچے کو فرماتے ہیں جو چھ مہینہ سے زیادہ کا ہو اس صورت میں یہ حکم صرف عقبہ ابن عامر کے ساتھ مخصوص ہوگا۔ دوسروں کے لئے عتود کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ جزعہ کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے۔ یعنی دنبہ کا وہ بچے جو چھ مہینے سے زیادہ کا ہو۔

【24】

عید گاہ میں قربانی افضل ہے۔

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید گاہ میں قربانی کے جانور کو ذبح اور نحر کیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح باب صلوٰۃ العیدین کی پہلی فصل کے آخر میں ذبح اور نحر کے معنی اور ان کے باہم فرق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ عید گاہ میں قربانی کرنا افضل ہے۔

【25】

قربانی کے حصے

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قربانی کے لئے) گائے اور ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے کافی ہے۔ (صحیح مسلم، سنن ابوداؤد)

【26】

قربانی کرنے والے کے لئے کچھ ہدایتیں

اور حضرت ام سلمہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے تو تم میں سے جو آدمی قربانی کرنے کا ارادہ کرے وہ ( اس وقت تک کہ قربانی نہ کرے) اپنے بال اور ناخن بالکل نہ کتروائے ایک روایت میں یوں ہے کہ نہ بال کٹوائے اور نہ ناخن کتروائے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو آدمی بقر عید کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ (قربانی کے لینے تک) اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔ (صحیح مسلم) تشریح بقر عید کا چاند دیکھنے لینے کے بعد قربانی کرلینے تک بال وغیرہ کٹوانے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے تاکہ احرام والوں کی مشابہت حاصل ہوجائے۔ لیکن یہ ممانعت تنزیہی ہے لہٰذا بال وغیرہ کا نہ کٹوانا مستحب ہے اور اس کے خلاف عمل کرنا ترک اولی ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے۔

【27】

عشرہ ذی الحجہ کے نیک اعمال کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دنوں میں کوئی دن نہیں ہے جس میں نیک عمل کرنا اللہ کے نزدیک ان دس دنوں (ذی الحجہ کے پہلے عشرہ) سے زیادہ محبوب ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا ( ان ایام کے علاوہ دوسرے دنوں میں) اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی (ان دنوں کے نیک اعمال کے برابر) نہیں ہے ؟ فرمایا ہاں ! اس آدمی کا جہاد جو اپنی جان و مال کے ساتھ (اللہ کی راہ میں لڑنے) نکلا اور پھر واپس نہ ہوا ( ان دنوں کے نیک اعمال سے بھی زیادہ افضل ہے) ۔ (صحیح البخاری ٰ تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر جہاد ایسا ہو جس میں مال و جان سب اللہ کی راہ میں قربان ہوجائے اور جہاد کرنے والا مرتبہ شہادت پا جائے تو وہ جہاد البتہ اللہ کے نزدیک ان دس دنوں کے نیک اعمال سے بھی زیادہ محبوب ہے کیونکہ ثواب نفس کشی و مشقت کے بقدر ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنا مال قربان کردینے سے زیادہ نفس کشی اور مشقت کیا ہوسکتی ہے ؟ چونکہ رمضان کے نیک اعمال کی بھی بہت زیادہ فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ اس حدیث کی مراد یہ ہو کہ ان دنوں کے نیک اعمال ایام رمضان کے نیک اعمال کے علاوہ دوسرے دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں یا رمضان کے نیک اعمال اس حیثیت سے سب سے زیادہ محبوب نہیں کہ ان دنوں میں فرض روزے رکھے جاتے ہیں۔ اور بہت زیادہ برگزیدہ و مقدس ترین شب یعنی لیلۃ القدر بھی رمضان ہی میں آتی ہے اور ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کے اعمال اس اعتبار سے سب سے زیادہ محبوب ہیں کہ بہت زیادہ برگزید اور باعظمت و فضیلت دن یعنی عرفہ انہیں دنوں میں آتا ہے۔ اور افعال حج بھی انہیں ایام میں ہوتے ہیں

【28】

قربانی کے وقت کی دعا

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ذبح کے دن (یعنی عید قرباں کے دن) دو دنبے جو سینگ دار ابلق اور خصی تھے ذبح کرنے چاہے تو ان کو قبلہ رخ کیا اور یہ پڑھا۔ یعنی میں اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اس حال میں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں جو توحید کو ماننے والے تھے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں بلاشبہ میری نماز، میری تمام عبادتیں، میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں اے اللہ ! یہ قربانی تیری عطاء سے ہے اور خالص تیری ہی رضا کے لئے ہے تو اس کو محمد ﷺ اور اس کی امت کی جانب سے قبول فرما ساتھ نام اللہ کے اور اللہ بہت بڑا ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ذبح کیا۔ (احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ، دارمی) نیز مسند احمد سنن ابوداؤد اور جامع ترمذی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (دونوں دنبے) اپنے ہاتھ سے ذبح کئے ہیں کہا بسم اللہ واللہ اکبر، اے اللہ ! یہ قربانی میری جانب سے ہے اور میرے امت کے ہر اس فرد کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔ تشریح خصی سے مراد وہ ہے جس کے بیضے کوٹ کر اس کی شہوت ختم کردی جاتی ہے اس کی قربانی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ایسا خصی فربہ ہوتا ہے اور اس کا گوشت لذیذ ہوتا ہے۔ وما انا من المشرکین (اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں) اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نبوت ملنے سے پہلے کس شریعت کے مطابق عبادت کیا کرتے تھے ؟ چناچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ نبوت ملنے سے پہلے آپ ﷺ کی عبادت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت کے مطابق ہوتی تھی، بعض علماء کا قول یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کے مطابق اور بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کے مطابق آپ عبادت کیا کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ آپ ﷺ کسی بھی شریعت کے مطابق عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی فہم اور اپنے وجدان کے موافق آپ ﷺ اپنی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اور اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ البتہ یہ بات بالکل اجماعی طور پر محقق اور ثابت ہے کہ آپ ﷺ زندگی کے کسی بھی دور میں بت برستی کی نجاست میں ملوث نہیں ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ ﷺ کی عبادت کس نوع اور کس طریقہ کی تھی ؟ تو اس کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ وہ غیر معلوم ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ ﷺ اس وقت کس طرح عبادت کرتے تھے ؟ عن محمد وامتہ میں مشارکت یا تو ثواب پر محمول ہے یعنی رسول اللہ ﷺ نے ذبح کے وقت یہ الفاظ فرما کر اپنی قربانی کے ثواب میں اپنی امت کو بھی شریک فرما لیا۔ یا اسے حقیقت پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے مگر اس صورت میں کہا جائے گا یہ رسول اللہ ﷺ کے خصائص میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں واضح ترین بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایک دنبہ تو اپنی طرف سے قربان کیا اور دوسرے دنبہ کی قربانی امت کی طرف سے کی۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر قربانی کرنے والا ذبح کرنے پر قادر ہو تو اس کے لئے اپنے ہاتھ سے قربانی کا جانور ذبح کرنا مستحب ہے اگرچہ عورت ہی کیوں نہ ہو۔

【29】

میت کی طرف سے قربانی جائز ہے

اور حضرت خش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دو دنبے قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ یہ کیا ؟ یعنی جب ایک دنبہ کی قربانی کافی ہے تو دو دنبوں کی قربانی کیوں کرتے ہیں ؟ ) انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے یہ وصیت فرمائی تھی کہ (ان کے وصال کے بعد) میں ان کی طرف سے قربانی کروں لہٰذا میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح اس سلسلہ میں دونوں ہی احتمال ہیں یا تو حضرت علی المرتضیٰ اپنی قربانی کے علاوہ دو دنبے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قربان کرتے ہوں گے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی زندگی میں دو دنبوں کی قربانی کرتے تھے، یا پھر یہ کہ حضرت علی المرتضیٰ ایک دنبہ کی قربانی تو اپنی طرف سے کرتے ہوں گے اور ایک دنبہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کا یہ ہمیشہ کا معمول تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہر سال قربانی کرتے تھے۔ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اگرچہ بعض علماء نے اسے جائز نہیں کہا ہے۔ ابن مبارک کا قول یہ ہے کہ میں اسے پسند کرتا ہوں کہ میت کی طرف سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ اس کی طرف سے قربانی نہ کی جائے، ہاں اگر میت کی طرف سے قربانی کی ہی جائے تو اس کا گوشت بالکل نہ کھایا جائے بلہ سب کا سب اللہ کے نام پر تقسیم کردیا جائے

【30】

عیب دار جانور کی قربانی نہ کرنی چاہیے

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ( قربانی کے جانور کے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں ( کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یا پچھلی طرف سے کٹا ہوا ہو اور نہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں یہ روایت جامع ترمذی ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے لیکن ابن ماجہ کی روایت لفظ والاذن ختم ہوگئی ہے۔ تشریح حضرت امام شافعی کے نزدیک اس بکری کی قربانی جائز نہیں ہے جس کا کان تھوڑا سا بھی کٹا ہوا ہو جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہے اگر کان آدھے سے کم کٹا ہوا ہو۔ حضرت امام طحاوی حنفی (رح) فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں حضرت امام شافعی کا عمل اس حدیث پر ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے جو بہت جامع ہے کیونکہ اس مسلک سے اس حدیث میں اور فتادہ کی حدیث میں تطبیق ہوجاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت قتادہ حضرت ابن کلیب سے یہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عضبائے قرن و اذن ( کی قربانی) سے منع فرمایا ہے۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید ابن المسیب سے پوچھا کہ یہ عضائے اذن کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جس کا کان آدھا یا آدھے سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔ حنیفہ کے نزدیک کیسے جانور کی قربانی جائز نہیں ؟ اس مسئلہ میں حنیفہ کا جو مسلک ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے جس کا کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔ ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں ہے جس کے کان پیدائشی نہ ہوں، اسی طرح ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں جس کی دم اور ناک تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹی ہوئی ہو، جو جانور اندھا یا کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو تو اس کی قربانی بھی جائز نہیں ہے جس جانور کے تھن خشک ہوگئے ہوں اس کی قربانی بھی درست نہیں او ایسے جانور کی بھی درست نہیں جس میں مغز نہ رہا ہو اور نہ ایسے لنگڑے کی جو قربانی کی جگہ تک نہ جاسکے اور نہ ایسے بیمار کی جو گھاس نہ کھا سکے نہ ایسے جانور کی جس کے خارش ہو، وہ بغیر دانت کے جانور کی جو گھاس نہ کھا سکتا اور نہ نجاست خور جانور کی، ہاں ایسے جانور کی قربانی درست ہے جس کا کان لمبائی میں یا اس کے منہ کی طرف سے پھٹ جائے اور لٹکا ہوا یا پیچھے کی طرف پھٹا ہوا، اس صورت میں کہا جائے گا یہ حدیث کہ جس سے ایسے جانور کی قربانی کی ممانعت معلوم ہو رہی ہے نہی تنز یہی پر محمول ہے۔

【31】

عیب دار جانور کی قربانی نہ کرنی چاہیے

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ، راوی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ ہم ایسے جانور کی قربانی کردیں جس کے سینگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے ہوں۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح حنفی مسلک میں ایسے جانور کی قربانی جائز و درست ہے جس کے پیدائش ہی سے سینگ نہ ہوں یا ٹوٹے ہوئے ہوں یا ان کا خول اتر گیا ہے لہٰذا یہ حدیث نہی تنزیہی پر محمول کی جائے گی۔ البتہ ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی جس کے سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہوں۔

【32】

عیب دار جانور کی قربانی نہ کرنی چاہیے

اور حضرت براء ابن عازب راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیسے جانور کی قربانی لائق نہیں ؟ تو آپ ﷺ نے ہاتھ کی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چار طرح کے جانور قربانی کی قابل نہیں ہیں۔ (١) لنگڑا۔ جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو یعنی جو چل نہ سکے۔ (٢) کا نا جس کا کانا پن ظاہر ہو یعنی آنکھ سے بالکل دکھائی نہ دیتا ہو یا تہائی یا تہائی سے زیادہ روشنی جاتی رہی ہو۔ (٣) بیمار۔ جس کی بیماری ظاہر ہو یعنی جو بیماری کی وجہ سے گھاس نہ کھا سکے۔ (٤) ایسا دبلا کہ جس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو۔ (مالک، احمد بن حنبل، جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی)

【33】

فربہ جانور کی قربانی بہتر ہے

اور حضرت ابوسعید فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ ایسے سینگ دار فربہ دنبہ کی قربانی کرتے تھے جو سیاہی میں دیکھتا تھا یعنی اس کی آنکھوں کے گرد سیاہی تھی، سیاہی میں کھاتا تھا اس کا منہ سیاہ تھا اور سیاہی میں چلتا تھا یعنی اس کے پاؤں بھی سیاہ تھے۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح علماء لکھتے ہیں کہ ایسے جانور کی قربانی کرنا جو بہت فربہ اور موٹاہو مستحب ہے۔ چناچہ ایک فربہ بکری کی قربانی دو دبلی بکریوں کی قربانی سے افضل ہے۔ ایسے ہی زیادہ گوشت والی بکری کی قربانی کم گوشت والی بکری کی قربانی سے افضل ہے بشر طی کہ گوشت خراب نہ ہو یعنی زیادہ گوشت والی بکری کا گوشت خراب ہو تو پھر اس کی قربانی افضل نہیں ہے۔

【34】

جذع کی قربانی

قبیلہ بنی سیلم کے (ایک فرد) حضرت مجاشع راوی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جذع (یعنی وہ دنبہ یا بھیڑ جس کی عمر چھ مہینے سے زیادہ ہو) کافی ہے اس بچے سے کہ کفایت کرے اس کو ثنی ۔ (ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس طرح کہ اس بکری کی قربانی جائز ہے جو ایک سال سے زیادہ کی ہو اسی طرح جزع کی قربانی بھی جائز ہے۔ ثنی بھی ایک اصلاحی لفظ ہے جو قربانی کے جانور کی عمر کے سلسلہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ چناچہ بکری میں ثنی وہ بکری کہلاتی ہے جو ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو۔ بیل اور گائے میں ثنی وہ ہے جو دو سال کر کے تیسرے سال میں ہو، اونٹ میں ثنی وہ ہے جو پانچ سال پورے کرنے کے بعد چھٹے سال میں داخل ہوچکا ہو۔

【35】

جذع کی قربانی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دنبہ کی جزع (یعنی چھ ماہ کے بچہ) کی قربانی بہتر ہے۔ (جامع ترمذی ) تشریح دنبہ کے جزع کی قربانی کی تعریف سے دراصل لوگوں کو یہ بتایا ہے کہ دنبہ کے چھ مہینہ کے بچہ کی قربانی جائز ہے بخلاف بکری کے جزع کی کہ اس کی قربانی درست نہیں۔

【36】

قربانی میں شرکت

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم (ایک) سفر میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ عید قربان آگئی، چناچہ گائے (کی قربانی) میں ہم سات آدمی اور اونٹ (کی قربانی) میں دس آدمی شریک ہوئے ( جامع ترمذی، سنن نسائی، ابن ماجہ) امام جامع ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے تشریح اسحق ابن راہو یہ (رح) نے اس حدیث پر عمل کیا ہے چناچہ وہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے لئے ایک اونٹ میں دس آدمیوں کو شریک ہوجانا چاہیے بلکہ تمام علماء کے نزدیک یہ اس حدیث کے ذریعہ منسوخ قرار دے دی گئی ہے جس میں یہ صراحت ہے کہ جس طرح گائے کی قربانی سات آدمیوں سے درست ہے اسی طرح اونٹ کی قربانی بھی سات آدمیوں کی طرف سے کی جاسکتی ہے۔

【37】

قربانی کی فضیلت

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابن آدم کا نحر (یعنی قربانی کے دن) ایسا کوئی عمل نہیں جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب ہو اور (قربانی کا) وہ ذبح کیا ہوا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون قبل اس کے کہ زمین پر گرے (یعنی ذبح کرنے کے ارادہ کے وقت ہی) الٰہی میں قبول ہوجاتا ہے۔ لہٰذا تم اس کی وجہ سے (یعنی قربانی کر کے) اپنے نفس کو خوش کرو۔ (جامع ترمذی، ابن ماجہ) تشریح زین العرب فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بقر عید کے دن سب سے افضل عبادت قربانی کے جانور کا خون بہانا ہے اور قربانی کا جانور قیامت کے روز اسی طرح آئے گا جس طرح کے دنیا میں قربانی سے پہلے بغیر کسی عیب کے تھا تاکہ وہ قربانی کرنے والے کے ہر ہر عضو کی طرف سے نعم البدل اور پل صراط پر اس کی سواری ہو۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری قربانی قبول کرتا ہے اور اس کے بدلہ میں تمہیں بہت زیادہ ثواب سے نوازتا ہے تو قربانی کرنے کی وجہ سے تمہارے اندر کسی قسم کی کوئی تنگی یا کراہت پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ اس عظیم خوشخبری کی وجہ سے تمہارے نفس کو مطمن اور تمہارے دل کو خوش ہونا چاہیے۔

【38】

عشرہ ذی الحجہ کی عبادتوں کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ایسا کوئی دن نہیں ہے کہ جس میں عبادت کرنا عشرہ ذی الحجہ سے زیادہ افضل ہو اس میں سے ہر دن کے روزے ایک سال کے روزوں کے برابر قرار دئیے جاتے ہیں اور اس میں ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر قرار دی جاتی ہے (جامع ترمذی، ابن ماجہ) امام جامع ترمذی فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد ضعیف ہیں۔ تشریح طلب یہ ہے کہ خدا کے نزدیک ان دنوں میں عبادت کرنا دوسرے دنوں میں عبادت کرنے سے زیادہ محبوب ہے خصوصاً قربانی کرنا دوسرے اعمال سے زیادہ افضل اور محبوب ہے۔ اور عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کے سلسلہ میں پوری وضاحت پہلی فصل میں گذر چکی ہے۔

【39】

بقر عید کی نماز سے پہلے قربانی درست نہیں

حضرت جندب ابن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) عید قرباں میں جو نحر یعنی قربانی کا دن ہے رسول کریم ﷺ کے ہمراہ (عیدگاہ) حاضر ہوا، ابھی آپ ﷺ نے نماز اور خطبہ شروع نہیں فرمایا تھا) کہ کیا دیکھتے ہیں کہ قربانی کا گوشت رکھا ہے اور نماز پڑھنے سے پہلے ہی قربانی ہوگئی ہے، آپ نے فرمایا کہ جس نے قبل اس کے کہ نماز پڑھے، یا یہ فرمایا کہ قبل اس کے کہ ہم نماز پڑھیں (قربانی کا جانور) ذبح کردیا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس کے بدلہ میں دوسرا جانور) ذبح کرے ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جندب (رض) نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے بقر عید کے روز نماز اور خطبہ ارشاد فرمایا پھر (قربانی کا جانور) ذبح کیا اور فرمایا کہ جو آدمی قبل اس کے کہ نماز پڑھے، یا فرمایا کہ قبل اس کے کہ ہم نماز پڑھیں ذبح کیا تو اسے چاہیے کہ (نماز کے بعد قربانی کا جانور) اللہ کے نماز کے ساتھ ذبح کردے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

【40】

ایام قربانی

اور حضرت نافع راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے فرمایا بقر عید کے دن کے بعد قربانی کے دو دن ہیں۔ امام مالک نے یہ روایت نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مجھے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ، سے بھی اس قسم کی روایت پہنچی ہے۔ تشریح حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم تینوں ائمہ کا عمل اسی حدیث پر ہے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ قربانی کا آخری وقت ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ آخری وقت تیرہویں تاریخ تک رہتا ہے۔ یہ حدیث تینوں ائمہ کی مستدل اور حضرت امام شافعی (رح) پر حجت ہے۔

【41】

ایام قربانی

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور (ہر سال قربانی) کرتے تھے۔ (جامع ترمذی ) تشریح قربانی واجب ہونے کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر مداومت فرمائی اور ہمیشہ قربان کرتے رہتے۔

【42】

قربانی حضرت ابراہیم کی سنت ہے

اور حضرت زید ابن ارقم (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے اصحاب نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ قربانی کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ (یعنی ان کی سنت ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! پھر اس میں ہمارے لئے کیا ثواب ہے ؟ فرمایا گائے اور بکری کی قربانی کرنے میں کہ جن کے بال ہوتے ہیں) ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ہے (انہوں نے عرض کیا کہ صوف (یعنی دنبہ، بھیڑ اور اونٹ کی اون اور اس کے بدلہ میں کیا ثواب ملتا ہے ؟ ) فرمایا اون کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔ (احمد بن حنبل، سنن ابن ماجہ)