180. آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان

【1】

آنحضرت ﷺ کی بعثت اور نزول وحی کا بیان :

لفظ مبعث بعث اور زمانہ بعث کے معنی میں ہے اور بعث کے معنی ہیں اٹھانا، بھیجنا۔ یہاں اس لفظ سے مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا محمد عربی ﷺ کو اپنا نبی اور رسول بنا کر تمام مخلوق کی طرف بھیجنا۔ لفظ بدء کے معنی آغاز، ابتداء اور شروع کے ہیں بعض روایتوں میں بدء کے بجائے بدو کا لفظ ہے اور اس کے معنی ظہور کے ہیں، مفہوم ومطلب کے اعتبار سے دونوں لفظوں میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن زیادہ بہتر اور موزوں پہلی ہی روایت ہے جس میں بدء کا لفظ ہے لفظ وحی کے اصل معنی ہیں اشارہ کرنا لکھنا، رمزو کنایہ میں ایسی بات کرنا، آہستہ سے بات کرنا، پیغام بھیجنا، القا اور الہام کرنا۔ اور مشارق الانوار میں لکھا ہے وحی کا اصل مفہوم ہے تیزی کے ساتھ خفیہ طور پر پیغام رسانی، آنحضرت ﷺ اور دوسرے انبیاء پر نزول وحی (اللہ تعالیٰ کی طرف پیغام و ہدایات آنے) کی مختلف صورتیں تھیں، بعض کو براہ راست حق تعالیٰ سے شرف تکلم حاصل ہوتا تھا جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اور اس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے۔ جیسے ہمارے حضرت ﷺ کو بھی شب معراج میں یہ شرف حاصل ہوا تھا۔ وحی کی دوسری صورت رسالت اور فرشتے کی وساطت کی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا پیغام اور ہدایت لے کر آتے اور حرف بحرف رسول و نبی تک پہنچاتے، وحی کی اکثر وبیشتر یہی صورت عمل میں آیا کرتی تھی، وحی کی تیسری صورت القا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بات اور کسی مضمون کا دل میں ڈالا جانا جیسے آنحضرت ﷺ نے فرمایا القی فی روعی (یہ بات میرے میں ڈالی گئی) اور کہتے ہیں کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر وحی آتی تھی وہ زیادہ تر اسی صورت میں ہوتی تھی۔ یہ تو اس وحی کا ذکر تھا جس کی نسبت انبیاء کرام کی طرف ہوتی ہے قرآن مجید میں بعض موقع پر لفظ وحی کی نسبت غیر انبیاء کی طرف بھی کی گئی ہے تو واضح رہے کہ ایسے موقعوں پر وحی کا لفظ الہام کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے ایک جگہ فرمایا واوحینا الی ام موسیٰ (اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو الہام کیا) اسی طرح وحی کا لفظ امر (حکم) کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے ایک آیت میں ہے (وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيّ نَ ) 5 ۔ المائدہ 111) (اور ہم نے حواریین کو حکم دیا) نیز وحی سے مراد طبعی خاصہ پیدا کرنا بھی ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا واوحیٰ ربک الی النحل (اور آپ ﷺ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طبیعت میں یوں رکھا۔

【2】

آنحضرت ﷺ کو چالیس سال کی عمر میں خلعت نبوت سے سرفراز کیا گیا ،

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو چالیس سال کی عمر میں منصب رسالت ونبوت پر فائز کیا گیا، اس کے بعد آپ ﷺ تیرہ سال مکہ میں رہے اور پھر آپ ﷺ کو ہجرت کا حکم دیا گیا چناچہ آپ ﷺ نے (مکہ سے) ہجرت فرمائی اور دس سال مدینہ میں رہے جب آپ کی وفات ہوئی تو عمر مبارک تریسٹھ سال کی تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح آپ ﷺ کی عمر مبارک کے بارے میں مختلف روایتیں منقول ہیں لیکن زیادہ صحیح یہی روایت ہے کہ تریسٹھ سال کی عمر میں دنیا سے تشریف لے گئے۔ اور حضرت ابن عباس (رض) ہی کی اپنی روایت میں پنیسٹھ سال کی عمر میں وفات کا ذکر ہے اور حضرت انس (رض) کی روایت میں جو آگے آئے گی اس میں ساٹھ سال کی عمر میں وفات کا ذکر ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اگلی روایت میں سن ولادت اور سن وفات کو بھی پورا پوراسال شمار کر کیا اور ان دوسالوں کو ملا کر کل ٦٥ سال بیان کی جب کہ حضرت انس (رض) نے تریسٹھ میں سے کسر یعنی تین کو حذف کرکے ساٹھ سال کا ذکر کیا۔

【3】

نزول وحی کی ابتداء :

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (رسالت عطا ہونے کے بعد) پندرہ سال مکہ میں قیام فرمایا اور (ان پندرہ سالوں میں سے) ابتدائی سات سالوں میں (حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی) آواز (یامحمد ﷺ سنتے اور اندھیری راتوں میں) ایک عجیب و غریب روشنی دیکھتے تھے اس کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ پھر پندرہ سالوں میں سے آخر کے) آٹھ سال کے عرصہ میں وحی نازل ہوتی رہی، اس کے بعد آپ ﷺ نے مدینہ میں دس سال کی مدت گذاری اور جب وفات ہوئی تو آپ ﷺ کی عمر ٦٥ سال کی تھی۔ ( بخاری ومسلم) تشریح ٦٥ سال کی وضاحت تو اوپر کی حدیث کی تشریح میں گذری منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد مکہ میں آپ ﷺ کے قیام کی مدت یہاں ١٥ سال بتائی گئی ہے جب کہ اوپر کی حدیث میں ١٣ سال کا ذکر تھا، لہٰذا یہاں بھی یہی توجیہہ کی جائے گی کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس روایت میں سن ولادت اور سن ہجرت کو پورا پورا سال شمار کرکے ١٣ سال کے بجائے ١٥ سال کا ذکر کیا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا مذکورہ آواز سننا اور اس عجیب وغریت روشنی کو دیکھنا منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد مکہ میں پندرہ سالہ قیام کے ابتدائی سات سالوں میں پیش آتا رہا جب کہ تاریخی روایت اور بعض دوسری احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورت حال ظہور نبوت (منصب رسالت پر فائز ہونے) سے پہلے پیش آئی تھی اور اس میں حکمت یہ تھی کہ آپ ﷺ اس طرح عالم ملکوت سے ایک گونہ مانوس اور آشنا ہوجائیں اور ایسا نہ ہو کہ ماوراء الدنیا حالات و کیفیات کے یک بیک ظہور کو انسانی وبشری حالت وقوت برداشت کرنے سے عاجز رہے۔

【4】

حضور ﷺ نے کتنی عمر میں وفات پائی :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ساٹھ سال کی عمر پوری ہونے پر اٹھا لیا۔

【5】

آنحضرت ﷺ اور خلفاء اربعہ کی عمر :

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی وفات بھی تریسٹھ سال کی عمر میں ہوئی اور حضرت عمر فاروق (رض) نے بھی تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ (مسلم) اور محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا آنحضرت ﷺ کی عمر کے بارے میں زیادہ روایتیں تریسٹھ سال ہی کی ہیں۔ تشریح جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ آنحضرت ﷺ کی عمر کے بارے میں زیادہ تر صحیح روایت یہی ہے کہ آپ ﷺ تریسٹھ سال کی عمر میں اس دنیا سے تشریف لے گئے، اسی طرح خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں بلا اختلاف ثابت ہے کہ ان کی عمر بھی تریسٹھ سال ہی کی ہوئی، خلافت صدیق کی مدت دو سال چار ماہ ہے اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق (رض) آنحضرت ﷺ کے بعد جتنے عرصہ حیات رہے اتنے ہی دن آنحضرت ﷺ سے چھوٹے تھے۔ حضرت عمر فاروق عمر (رض) کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں زیادہ صحیح روایت تریسٹھ سال کی ہے، بعض روایتوں میں انسٹھ سال کا ذکر ہے، خود مؤلف مشکوٰۃ نے یہ لکھا ہے کہ مغیرہ ابن شعبہ کے غلام ابولؤلوء نے ٢٦ ذی الحجہ ٢٣ ھ بدھ کے دن مدینہ میں خنجر سے حملہ کرکے ان کو زخمی کیا اور ١٠ محرم الحرام ٢٤ ھ اتوار کے دن ان کی تدفین عمل میں آئی، اس وقت ان کی عمر تریسٹھ سال تھی اور یہی قول زیادہ صحیح ہے، حضرت عمر فاروق (رض) کی خلافت دس سال چھ ماہ رہی۔ حضرت عثمان غنی (رض) نے واقدی کی روایت کے مطابق ١٨ ذی الحجہ ٣٥ ھ کو جمعہ کے دن ایک مصری باغی اسود تجیبی کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا اور شنبہ کے روز جنت البقیع میں دفن کئے گئے اس دن ان کی عمر ٨٢ سال کی تھی بعض حضرات نے کہا ہے کہ ٨٨ سال کی تھی، ان کے بارے میں بعض اور روایتیں بھی نقل کیا جاتی ہیں حضرت عثمان (رض) کی خلافت کا دور کچھ دن کم بارہ سال رہا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت عثمان غنی (رض) کی شہادت کے دن خلیفہ منتخب کئے گئے اور ١٧ رمضان ٤٠ ھ کو جمعہ کے دن ایک شخص عبدالرحمن ابن ملجم نے کوفہ میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا جس کے نتیجہ میں شدید زخمی ہوئے اور اس حملہ کے تین دن کے بعد جان جاں آفریں کے سپرد کردی اور نجف میں دفن کئے گئے، اس دن اس ان کی عمر تریسٹھ سال کی تھی، ان کی خلافت کی مدت کچھ دن اوپر چار سال نومہینے رہی۔ امام بخاری (رح) کے قول کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی عمر مبارک کے بارے میں جو مختلف روایتیں منقول ہیں ان میں سب سے زیادہ روایتیں تریسٹھ سال کے قول کی ہیں دوسرے اقوال جیسے ٦٠ سال سے متعلق کم روایتیں ہیں، اسی لئے اصل اعتبار اسی روایت کا کیا جاتا ہے جس میں ٦٣ سال کی ہے جہاں تک آپ ﷺ کے سن ولادت کا تعلق ہے تو صحیح تر اور مشہور روایت کے مطابق آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ واقعہ فیل کے سال ہوئی، بلکہ قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ تاریخ دانوں اور علماء کا اس پر اجماع ہے نیز یوم ولادت کے متعلق اس بات کو علماء اور مؤرخین نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں پیر کے دن پیدا ہوئے البتہ تاریخ کے بارے میں اختلاف ہے کہ بارھویں تاریخ تھی یا اٹھارھویں یا دسویں آپ ﷺ کی وفات بھی ربیع الاول ہی کے مہینہ میں ١٢ تاریخ کو پیر کے دن چاشت کے وقت ہوئی۔

【6】

آغاز وحی کی تفصیل :

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ پر نزول وحی کا سلسلہ جس چیز سے شروع ہوا وہ سوتے میں سچے خوابوں کا نظر آنا تھا، آپ ﷺ جو خواب دیکھتے اس کی تعبیر (کسی ابہام و اشتباہ کی آمیزش کے بغیر) اس طرح روشن ہو کر سامنے آجاتی جیسے صبح کا اجالا (ظاہر ہوجاتا) اس کے بعد جب کہ ظہور نبوت کا وقت آنے کو ہوا) آپ ﷺ کو تنہائی کا شائق بنادیا گیا۔ اور آپ ﷺ غار حرا میں گوشہ نشین رہنے لگے، اس غار میں آپ ﷺ عبادت کیا کرتے یعنی متعدد راتیں وہیں عبادت میں اس وقت تک مشغول رہتے جب تک کہ گھر والوں (کے پاس جانے) کا اشتیاق پیدا نہ ہوجاتا، آپ ﷺ (ان عبادت کی راتوں کے لئے گھر سے) کھانے پینے کی چیزیں لے جاتے اور (جب وہ چیزیں ختم ہوجاتیں تو) پھر حضرت خدیجہ (رض) کے پاس آتے اور اگلی راتوں کے بقدر کچھ چیزیں لے کر واپس غار میں چلے جاتے (یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا) یہاں تک کہ حق (کے ظہور کا وقت) آگیا، آپ ﷺ اس وقت بھی غار حرا ہی میں تھے، آپ ﷺ کے پاس فرشتہ (یعنی جبرائیل (علیہ السلام) اور ایک روایت کے مطابق اسرافیل (علیہ السلام) آیا اور کہا کہ پڑھو ! آنحضرت ﷺ نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں فرشتہ نے (میرا یہ جواب سن کر) مجھ کو پکڑ لیا اور (خوب زور سے) بھینچا یہاں تک کہ میں پریشان ہوگیا، پھر اس (فرشتہ) نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو ! میں نے وہی جواب دیا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں فرشتہ نے دوسری مرتبہ مجھ کو پکڑ لیا اور (خوب زور) سے بھینچا یہاں تک کہ میں پریشان ہوگیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو میں نے اب بھی یہی کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا فرشتہ نے تیسری مرتبہ مجھ کو پکڑا اور (خوب زور سے) بھینچا یہاں تک میں پریشان ہوگیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا اقرأ باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق اقرأ وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم۔ یعنی پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جس نے (تمہیں اور ہر چیز) کو پیدا کیا، انسان کو (رحم مادر میں) بستہ خون سے پیدا کیا، پڑھو اور تمہارا پروردگار سب سے بزرگ و برتر ہے وہ پروردگار جس نے قلم کے ذریعہ بہت سے علم کی تعلیم دین اور انسان کو ہر وہ چیز سکھائی جس کو وہ نہ جانتا تھا۔ اس کے بعد (فرشتہ تو غائب ہوگیا اور) آنحضرت ﷺ ان آیتوں کے ساتھ مکہ (اپنے گھر) واپس آئے اس وقت یہ حال تھا کہ (وحی کی شدت رعب سے سخت دہشت زدہ تھے اور نہ صرف) آپ ﷺ کا دل کانپ رہا تھا (بلکہ بخار اور لرزہ کی کیفیت پورے جسم پر طاری تھا) آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ (رض) کے پاس پہنچ کر کہا کہ مجھے کپڑے اڑھاؤ مجھے کپڑے اڑھاؤ حضرت خدیجہ (رض) نے آپ ﷺ کو کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ (کچھ دیر کے بعد اس رعب وہیبت کی شدت ختم ہوئی تو) آپ ﷺ کا خوف وہراس جاتا رہا (اور اصل جسمانی حالت بحال ہوئی) تب آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ (رض) کو پورا واقعہ بتایا اور ان سے یہ بھی فرمایا کہ مجھ کو اپنی جان کا خوف ہے حضرت خدیجہ (رض) نے (تسلی دیتے ہوئے) کہا کہ آپ ﷺ قطعا خوف نہ کرئیے۔ آپ ﷺ جو سوچ رہے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا) اللہ کی قسم (مجھے پورا یقین ہے کہ) اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی رسوا اور بےمراد نہیں کرے گا کیونکہ آپ ﷺ قرابت داروں سے حسن سلوک وتعلق کا معاملہ رکھتے ہیں (اگرچہ وہ قرابت دار آپ ﷺ قرابت داروں سے حسن سلوک وتعلق کا معاملہ رکھتے (اگر چہ وہ قرابت دار آپ ﷺ سے ترک وتعلق اور بدسلوکی ہی کا معاملہ کیوں نہ کرتے ہوں) آپ ﷺ کبھی کسی سے جھوٹ نہیں بولتے اگرچہ لوگ آپ ﷺ سے جھوٹ بولے یا آپ ﷺ کو جھٹلائیں بعض روایتوں میں یہاں یہ الفاظ بھی ہیں کہ تو دی الامانۃ یعنی آپ ﷺ امانت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے آپ ﷺ دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں آپ ﷺ غریبوں مسکینوں پر خرچ کرنے کے لئے کماتے ہیں آپ ﷺ مہمانوں کی خاطر مدارات کرتے ہیں اور ان کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں آپ ﷺ لوگوں کی حقیقی حادثات و مصائب میں ان کی مدد کرتے ہیں اس کے بعد حضرت خدیجہ (رض) آنحضرت ﷺ کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ ابن نوفل کے پاس پہنچی اور ان سے کہا کہ اے ابن عم اپنے بھتیجے کی روداد سن لیجئے ورقہ آنحضرت ﷺ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا میرے بھتیجے تم پر کیا بیتی اور تم کیا دیکھتے اور محسوس کرتے ہو ؟ رسول کریم ﷺ نے ان کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا جو آپ ﷺ کے ساتھ پیش آیا تھا ورقہ نے ساری باتیں سن کر کہا کہ تم دونوں کو مبارک ہو یہ تو وہی ناموس فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ وحی دے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھیجتا تھا اے کاش تمہاری نبوت کا اظہار اور تمہاری دعوت کے اعلان کے وقت میں طاقتور جوان ہوتا کاش میں اس وقت زندہ ہی رہتا چاہے میرے اندر طاقت وتوانی نہ ہوتی جب تمہاری قوم یعنی قریش میں سے تمہارے قرابت دار تمہارے شہر سے تمہیں نکال دیں گے رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر حیرت کے ساتھ پوچھا کیا واقعی میری قوم شہر سے نکال دے گی ؟ ورقہ نے کہا ہاں مجھے یقین ہے کہ تمہاری قوم کے لوگ تمہیں شہر سے ضرور نکال دیں گے کیونکہ ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جب بھی کوئی شخص تمہاری طرح نبوت و شریعت لے کر اس دنیا میں آیا اس کے ساتھ دشمنی کی گئی ایک روایت میں یوں ہے جب بھی کوئی پیغمبر اس دنیا میں آیا کافروں نے اس کے ساتھ دشمنی رکھی اور اس کو سخت ترین ایذائیں پہچائیں اگر میں ان ایام میں جب تم لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاؤ گے اور اس کے جواب میں تمہاری قوم کے لوگ تمہیں ایذاء پہنچائیں گے اور تمہیں تمہارے شہر سے نکالیں گے) زندہ رہا تو پوری طاقت وقوت سے تمہاری مدد و حمایت کروں گا۔ لیکن اس کے بعد ورقہ زیادہ دن نہ رہے اور جلدی ہی اس دنیا سے چلے گئے اور آنحضرت ﷺ پر وحی آنے کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔ اس روایت کو یہاں تک بخاری ومسلم دونوں نے نقل کیا ہے لیکن اس کے بعد بخاری نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ (نزول وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو) آنحضرت ﷺ پر غم وحزن طاری ہوگیا، جس کا ثبوت ہمیں ان حدیثوں سے بھی ملتا ہے جو ہم تک پہنچی ہیں اور یہ غم وحزن اتنا شدید اور سخت تھا کہ کئی مرتبہ آپ ﷺ صبح کو اس ارادہ سے پہاڑوں پر گئے کہ اپنے آپ کو ان اونچے پہاڑوں کی چوٹی سے نیچے گرا دیں، جب بھی آپ کس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تاکہ اپنے آپ کو نیچے گرادیں تو (اچانک) جبرائیل (علیہ السلام) ظاہر ہوتے اور کہتے محمد ﷺ بلاشبہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں اس صورت میں یقینًا آپ ﷺ کی ہر کلفت و پریشانی ختم ہو کر رہے گی اور انجام کار دین ودنیا کے ہر معاملہ میں آپ بامراد رہیں گے اگرچہ درمیان میں کتنے ہی مشقت وابتلاء کے مراحل سے گذرنا پڑے) چناچہ (حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی یہ بشارت سن کر) آنحضرت ﷺ کے دل کا اضطراب، دہشت اور قلق جاتا رہتا اور آپ ﷺ مطمئن ہوجاتے۔ تشریح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے یہ روایت ابتداء نزول وحی کی ساری تفصیل یا تو براہ راست آنحضرت ﷺ سے سن کر یا کسی صحابی سے نقل کرکے بیان کی ہے کیونکہ ظہور نبوت کے ابتدائی زمانہ میں تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا وجود بھی نہیں تھا۔ وہ سوتے میں سچے خوابوں کا نظر آنا تھا کے ضمن میں شارحین نے یہ اقوال نقل کئے ہیں کہ ظہور نبوت سے پہلے سچے خواب نظر آنے کی اس کیفیت وحالت کا عرصہ چھ ماہ رہا۔ نیز سچے خواب کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خوابیدہ شخص کے دل و دماغ اور اس کے احساسات پر ان چیزوں کا عکس ڈال دیتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہیں یا پہلے ہی وقوع پذیر ہوچکی ہوتی ہیں لیکن پہلے سے اس شخص کے علم میں نہیں ہوتی اس طرح جیسے بیداری کی حالت میں میں انسانی دل و دماغ اور ادراک و احساس بھی بیدار رہتے ہیں تقریبًا اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس خوابیدہ شخص کا ادراک و احساس بھی بیدار ہوجاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر وبیشتر وہ شخص خواب میں جو کچھ دیکھتا ہے اس کی بعینہ عملی اور وجودی تعبیر وہ جاگنے کے بعد دیکھ یا جان لیتا ہے یہ چیز حق تعالیٰ کے حکم وقدرت کے تحت ہے اور عملی دنیا میں ناممکن بالکل نہیں ہے، اس قادر مطلق کو ہرچیز پر قدرت حاصل ہے کہ اس کے کسی حکم وفعل کی راہ میں نہ نیند رکاوٹ بن سکتی ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ آپ ﷺ غار حرا میں گوشہ نشین رہنے لگے۔ حراء اس مشہور پہاڑ کا نام ہے جو مکہ کے نواح میں واقع ہے اس پہاڑ کو جبل ثور بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے خانہ کعبہ نظر آتا ہے اور شاید اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے گوشہ نشینی اور عبادت الٰہی کے لئے اس پہاڑ کے ایک غار کو منتخب فرمایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے بھی واقعہ فیل کے دوران اسی پہاڑ کو اپنی پناہ گاہ بنایا اور اسی جگہ دعا ومناجات میں مشغول رہے۔ حدیث کے اس جملہ کے تحت شارحین حدیث نے خلوت گزینی اور گوشہ نشینی کے بارے میں بڑی مفید باتیں لکھی ہیں، مثلا خلوت گزینی اللہ کے نیک و صالح اور عارف بندوں کی مخصوص شان ہے اسی لئے ظہور نبوت سے پہلے آنحضرت ﷺ کو اس کا شائق بنایا گیا اور اس کی حکمت یہ ہے کہ خلوت و تنہائی میں دل و دماغ کو مکمل سکون اور فراغت حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ رہنے کا موقع خوب ملتا ہے دنیاوی علائق وتفکرات اور انسانی تقاضوں اور بشری مرغوبات سے انقطاع رہتا ہے اللہ کی یاد اور اس کی عبادت میں خشوع و خضوع، نورانیت و طمانیت اور خاطر جمعی بہت اچھی طرح میسر آتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر حالت میں اور ہر موقع پر خلوت گزینی اور گوشہ نشینی ہی سب سے اچھی چیز اور شریعت کی نظر میں زیادہ مطلوب و پسندیدہ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خلوت وعزلت کی طرح جلوت اور اختلاط کی بھی اہمیت ہے اور ان دونوں میں سے کون سی صورت افضل ہے، اس کا مدار پیش آمدہ حالات و معاملات کے حسن وقبح پر ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک صورت ان شرائط و ضروریات کے تحت کہ جن کا شریعت میں اعتبار ہے اپنے اپنے موقع پر افضل و برتر ہے، اگر معاشرہ میں خرابیاں اور برائیاں چھوت کی طرح پھیل گئی ہوں اور لوگوں کے ساتھ اختلاط رکھنے میں دین و ایمان کے نقصان کا خطرہ ہو اور کوئی شخص نصیحت سننے اور اچھی بات ماننے پر تیار نہ ہو تو اس صورت میں خلوت گزینی اور گوشہ نشینی کو افضل کہا جائے گا اور اگر دین و ایمان کے نقصان کا خطرہ نہ ہو، لوگ تعلیم و نصیحت کے ضرورت مند ہوں اور یہ بات معلوم ہو کہ لوگوں کو تعلیم و نصیحت کے ذریعہ نیکی کی تربیت دی جاسکتی ہے تو اس صورت میں سب کے ساتھ اختلاط رکھنے اور سماجی زندگی اختیار کرنا ہی افضل ہوگا۔ تحنث کے معنی ہیں راتوں کو عبادت کرنا جیسا کہ خود حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے یا کسی راوی نے فیتحنث فیہ کے بعد وہو التعبد اللیالی کے ذریعہ اس لفظ کی وضاحت کی ہے۔ بہرحال متعدد راتوں سے مراد کئی کئی روز وشب ہیں اور خاص طور پر راتوں ہی کا ذکر اس وجہ سے ہی کیا گیا ہے خلوت کے ساتھ رات ہی کا جوڑ زیادہ موزوں اور مناسب تھا نیز متعدد کی جو قید لگائی گئی ہے اس سے قلت کی طرف اشارہ مراد ہے کہ مسلسل شب وروز عبادت کی مشغولیت کا سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں بلکہ چند دنوں تک رہتا تھا، تاہم بعض حضرات نے اس سے کثرت کا مراد ہونا بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے کیونکہ کسی بھی تسلسل کو ذکر کرنے کی ضرورت اسی صورت میں ہوتی ہے جب کہ وہ غیر معمولی طور دراز ہو اور زیادہ دنوں پر مشتمل ہو۔ جب تک کہ گھر والوں کا اشتیاق پیدا نہ ہوجاتا کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ اس غار حرا سے نکل کر شہر میں اسی وقت آتے جب مسلسل کئی کئی دنوں تک عبادت الٰہی میں مشغول رہنے کے بعد گھر والوں کی خبر لینے اور ان کے حقوق و ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان کے پاس جانے کی خواہش پیدا ہوجاتی۔ یہاں یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ ایک روایت میں ینزع کے بجائے یرجع کا لفظ آیا ہے۔ اگلی راتوں کے بقدر کچھ چیزیں لے کر واپس غار میں چلے جاتے۔ کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جب تک خلوت گزین اور گوشہ نشین رہے آپ ﷺ کا یہ معمول تھا کہ عبادت کے لئے غار حرا میں چلے جاتے اور جب وہاں کھانے پینے کا سامان ختم ہوجاتا تو شہر میں اپنے گھر آتے اور حضرت خدیجہ (رض) سے کچھ اور دنوں کا توشہ جیسے ستو وغیرہ لے کر اس غار میں چلے جاتے اور ان چیزوں کے لے جانے کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ بھوک پیاس کی شدت خلوت گزینی کے معمولات میں رکاوٹ نہ ڈالے اور پوری خاطر جمعی کے ساتھ عبادت میں مشغول رہ سکیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے بقدر توشہ اپنے ساتھ رکھنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ محققین نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خلوت گزینی کی مدت ہر سال ایک مہینہ ہوتی تھی اور وہ مہینہ رمضان کا ہوتا تھا۔ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ آنحضرت ﷺ نبوت سے پہلے سابقہ شریعتوں میں سے کس شریعت کی اتباع کرتے تھے یا اپنی عقل سے جس عمل کو اچھا سمجھتے تھے اس پر عامل رہتے تھے اور یا ہر شریعت میں سے ہر اس عمل کو اختیار فرماتے جس کو آپ ﷺ افضل واعلی سمجھتے تھے ؟ اور یہ کہ اگر سابقہ شریعتوں میں سے کس شریعت کی اتباع کرتے تھے تو وہ کونسی شریعت تھی ؟ بہت سے علماء نے اگرچہ اس قول کو اختیار کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی نبوت و شریعت کے ظہور سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر عمل کرتے تھے اسی لئے ایک روایت میں یتحنث کے بجائے یتحنف کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ آپ ﷺ دین حنیف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر عمل کرتے تھے لیکن اس سلسلہ میں زیادہ موزوں اور مناسب اور زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قبل نبوت آنحضرت ﷺ عملی طور پر کسی دین اور کسی شریعت کے تابع نہیں تھے بلکہ براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب و دماغ کو بصیرت کا وہ نور عطا فرمایا گیا تھا جو نیک اور اچھے عمل کی طرف آپ ﷺ کی رہنمائی کرتا تھا اور اس طرح آپ ﷺ خود بخود وہی کام اور وہی عمل کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ اور مقبول ہوتا تھا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی عبادت کا تعلق ذکر وشغل سے ہوتا تھا یا فکر واستغراق سے ؟ اس بارے میں بھی کئی قول ہیں اور زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ آپ ﷺ کی عبادت ذکر وشغل کی صورت میں ہوتی تھی نہ کہ فکر واستغراق کی صورت میں۔ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ کا مطلب یا تو یہ تھا کہ میں اچھی طرح پڑھنے پر قادر نہیں ہوں یا یہ کہ آنحضرت ﷺ کی زبان سے یہ جواب اس خوف و دہشت کی بنا پر نکلا جو اچانک ایک فرشتہ کو دیکھنے اور موقع ومحل کے نہایت پر رعب ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کے دل و دماغ پر طاری ہوگیا تھا، لہٰذا یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ جواب اس لئے دیا کہ آپ ﷺ امی تھے اور واقعتہ پڑھنے پر قادر نہیں تھے، کیونکہ امی (ان پڑھ) اس شخص کو کہتے ہیں جو پڑھنا نہ جانے اور ظاہر ہے کہ کسی کے پڑھانے اور سکھانے سے پڑھنا (یعنی کسی کی زبان سے کوئی عبارت اور جملہ سن کر اپنی زبان سے ادا کرنا) امی ہونے کے منافی نہیں ہے خصوصًا ایسے شخص کے حق میں جو فصاحت اور ذہانت میں کامل ہو، جہاں تک کسی لکھی ہوئی عبارت کو دیکھ کر پڑھنے یا لکھنے کا تعلق ہے تو یہ چیز امی ہونے کے منافی ہے چناچہ قاموس میں لکھا ہے امی اس شخص کو کہتے ہیں جو لکھنا اور کتاب پڑھنا نہ جانے۔ بعض روایتوں میں یہ منقول ہے کہ اس موقع پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ایک حریری صحیفہ جو جواہرات سے مرصع تھا آنحضرت ﷺ کو دیا اور آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اس کو پڑھو، آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں پڑھنا نہیں جانتا اور ان حریری اوراق میں مجھے کچھ لکھا ہوا نظر نہیں آتا میں کیا پڑھوں۔ اس روایت کی روشنی میں میں پڑھنا نہیں جانتا کے معنی زیادہ واضح اور موزوں طور پر متعین کئے جاسکتے ہیں۔ یہاں تک میں پریشان ہوگیا حتی بلغ منی الجہد کا یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب کہ لفظ جہد میں حرف ومنصوب یعنی جہد پڑھا جائے اور مطلب یہ ہوگا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آنحضرت ﷺ کو اپنے سینہ سے لگا کر بہت زور سے بھینچا جس سے آنحضرت ﷺ کو کچھ تکلیف بھی محسوس ہوئی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا یہ عمل دراصل آنحضرت ﷺ کے وجود پاک میں ملکوتی نور اور قلب مبارک میں وحی کے عرفان کو منتقل کرنے کی ایک ایسی صورت تھی جس کا مقصد آنحضرت ﷺ کو وحی الہٰی کی عظمتوں کے تحمل کی طاقت وقوت فراہم کرنا تھا۔ اور اگر لفظ جہد کے ج کو مرفوع یعنی جہد پڑھا جائے تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے اتنے زور سے بھینچا کہ خود انہیں بڑی مشقت اٹھانا پڑی۔ جس نے تمہیں اور ہر چیز کو پیدا کیا کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اپنی ذاتی صلاحیت و طاقت یا کسی دوسرے کی مدد پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرنا چاہئے بلکہ ہر معاملہ میں اور ہر مرحلہ میں صرف اللہ تعالیٰ پر تکیہ کرنا چاہئے اور اسی سے مدد کا طلب گار رہنا چاہئے کیونکہ اس نے ہر ایک کو پیدا کیا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ اس موقع پر ایک خاص بحث کردینا ضروری ہے، اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ سب سے پہلے قرآن کی کون سے سورت نازل ہوئی ہے ؟ جیسا کہ اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے، جمہور علماء و مفسرین کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے سورت اقراء نازل ہوئی ہے لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت یا ایہا المدثر ہے، گو یہ قول بہت کمزور ہونے کی وجہ سے قابل اعتنا نہیں ہے لیکن ملا علی قاری (رح) نے اس ضمن میں جو لکھا ہے اس سے ان دونوں اقوال کے درمیان بڑی تطبیق ہوجاتی ہے، انہوں نے کہا ہے ! میرے نزدیک یہ کہنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ سورت اقرء تو حقیقی پہلی سورت ہے اور یا ایہا المدثر اضافی پہلی سورت ہے یعنی پہلی وحی (سورۃ اقرء) نازل ہونے کے بعد نزول وحی کا جو سلسلہ کچھ عرصہ کے لئے منقطع ہوگیا تھا اور پھر یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تو اس وقت سب سے پہلے یا ایہا المدثر۔ نازل ہوئی۔ ضمنی طور پر اس بات کا ذکر بھی موزوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ان حضرات کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورت کا جزء نہیں ہے بلکہ اس کا نزول دو سورتوں کے درمیان فصل قائم کرنے کے لئے ہوا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ بہت سے علم کی تعلیم دی۔ میں قلم سے مراد وہ قلم قدرت بھی ہوسکتا ہے جو اللہ کے حکم سے اولین وآخرین کے تمام علوم کو ضبط تحریر میں لایا اور تمام آسمانی کتابوں کے معرض وجود میں آنے کا اولین ذریعہ بنا اور ہماری دنیا کا یہ قلم بھی مراد ہوسکتا ہے جو حقیقت میں اس کائنات انسانی میں قلم وقدرت کا مظہر اور مثال ہے اور جس کے ذریعہ انسان اللہ کے عطا کردہ نور علم و ذہانت کی مدد سے نہ معلوم کتنے علوم و حقائق کا اظہار وانکشاف کرتا ہے۔ مشہور تفسیر کشاف میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ہمارا یہ قلم اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کا عظیم مظہر ہے کہ عجیب و غریب علوم اس کے ذریعہ لکھے جاتے ہیں۔ انسان کی ہر وہ چیز سکھائی جس کو وہ جانتا نہیں تھا۔ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اپنے بس کی بات نہیں تھی کہ زمان ومکان میں ہر لمحہ وجود پذیر ہونے والی نئی نئی چیزوں کے علم وانکشاف پر قادر ہوتا، یہ تو اللہ کے عطا کردہ اس نور علم و ذہانت کا کرشمہ ہے جو انسان کو علم و معرفت کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہاں انسان سے مراد انسان کامل یعنی آنحضرت ﷺ کی ذات ہو، اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہے۔ وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اللہ علیک عظیما۔ اور ہر وہ چیز آپ ﷺ کو سکھائی جو آپ ﷺ نہیں جانتے تھے اور یہ آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ مجھ کو اپنی جان ہے۔ آنحضرت ﷺ کے اس اظہار خوف کی مختلف وجوہ ہوسکتی تھیں، یا تو اس صورت سے آپ ﷺ کو دفعۃً اتنا شدید خوف طاری ہوگیا تھا کہ آپ ﷺ ہلاکت یا دماغی توازن کے درہم برہم ہوجانے کے خطرہ کو محسوس کرنے لگے تھے، یا یہ کہ آپ ﷺ کو یہ ڈر تھا کہ منصب نبوت کا بار برداشت سے باہر نہ ہوجائے یا اس منصب کے فرائض کی ادائیگی میں جو مصائب وپریشانیاں اٹھانا پڑیں گی، قوم کی طرف سے جن ایذاؤں اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا قتل و غارت گری کی جو دھمکیاں ملیں گی اور لوگ جس طرح تکذیب و استہزاء کا سلوک کریں گے ان پر صبر وضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور یا آپ کو یہ خوف تھا کہ اہل وطن مجھے اپنے شہر اور وطن سے نکال دیں گے جس کی وجہ سے اپنے محبوب وطن اور کعبۃ اللہ کا قرب چھوٹ جائے گا۔ آپ ﷺ (دوسروں کا) بوجھ اٹھاتے ہیں۔ یہ تحمل الکل کا ترجمہ ہے اور کل اصل میں بوجھ اور بار کو کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے کہ اہل و عیال کی خبر گیری اور ان کی ضروریات کی کفالت ایک بوجھ اور بار ہوتا ہے۔ اہل و عیال کو بھی کل کہا جاتا ہے لہٰذا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ اپنے اہل و عیال اور زیر کفالت لوگوں کے خرچ واخراجات اور ان کی ذمہ داریوں کا بوجھ نہایت خوش دلی کے ساتھ اٹھاتے ہیں اور اس راہ میں پیش آنے والی محنت ومشقت بھی آپ ﷺ کو بدل نہیں سکتی اگرچہ وہ لوگ کہ جن کا بوجھ آپ ﷺ اٹھاتے ہیں آپ سے ترک تعلق اور بےمروتی کا معاملہ کیوں نہ کریں۔ واضح رہے کہ یہاں بوجھ اٹھانے کے معنی میں ضعیفوں، یتیموں، بیواؤں اور ناداروں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے۔ آپ غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرنے کے لئے کماتے ہیں۔ یہ تکسب المعدوم کا ترجمہ ہے اور یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب کہ تکسب کو ت کے زبر کے ساتھ پڑھا جائے، جیسا کہ زیادہ صحیح اور مشہور ہے اور بعض روایتوں میں یہ لفظ ت کے پیش کے ساتھ بھی منقول ہے اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا کہ آپ ﷺ غریبوں اور مسکینوں کی کمانے میں مدد کرتے ہیں، یعنی ان کو روپیہ پیسہ اور مال دیتے ہیں تاکہ وہ لوگ اس کے ذریعہ کسب و تجارت کی صورت میں اپنی معاشی حالت درست کریں اور افلاس وتنگ دستی سے چھٹکارا پائیں۔ بہرحال دونوں صورتوں میں مفہوم ومطلب ایک ہی ہوگا۔ یعنی نیک کاموں میں اپنا مال خرچ کرنا۔ بعض حضرات نے معدوم کا مصداق صرف فقیر کو قرار دیا ہے جو عدم تصرف اور بالکل محتاج ہونے کے اعتبار سے گویا ایک لاشہ ہوتا ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ ﷺ اپنا مال فقیروں پر خرچ کرکے گویا ان کی زندگی اور ان میں حرکت وعمل پیدا ہوجانے کا سبب بنتے ہیں۔ آپ ﷺ لوگوں کے حقیقی حادثات و مصائب میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ یہ تعین علی نوائب الحق کا ترجمہ ہے نوائب اصل میں نائبۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں وہ مصیبت و ضرورت جو آن پڑے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ہر اس شخص کی مدد واعانت فرماتے ہیں جو کسی حقیقی حادثہ اور مصیبت کے سبب درماندہ اور عاجز ہوجاتا ہے مثلا جو قرض یا دیت کے مال کی ادائیگی پر قادر نہیں ہوتا اور فقروافلاس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی مصیبت کو ٹال نہیں پاتا آپ ﷺ اس کی مالی مدد دے کر اس مصیبت سے نجات دلاتے ہیں۔ نوائب الحق کی قید سے معلوم ہوا کہ اسی مصیبت زدہ کی مددواعانت مستحسن و مطلوب ہے جو قدرتی طور پر مجبور و لاچار ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی مصیبت کا خود سبب بنا ہو، اس نے اپنی حرکتوں اور بےعملیوں سے اپنے اوپر مصیبت نازل کرلی ہو جیسے اسراف کی صورت میں اپنا مال وزر لٹا بیٹھا ہو، یا ناروا اطوار غصب وغصہ کرکے خود کو کسی نقصان اور آفت میں مبتلا کر بیٹھا ہو تو اس کی مدد کرنا مستحسن و مطلوب نہیں ہے۔ حضرت خدیجہ رضی للہ تعالیٰ عنہا نے اس موقع پر آنحضرت ﷺ کے محاسن و اوصاف کا ذکر کر کے آپ ﷺ کو جس طرح تسلی دی اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اخلاق اور اچھی خصلتیں انسان کو کسی نقصان اور آفت میں پڑنے سے بچاتی ہیں اور حق تعالیٰ ان اوصاف و محاسن کے طفیل میں امن و سلامتی عطا فرماتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو دین ودنیا کی ہر آفت و مصیبت سے محفوظ و سلامت رکھے گا۔ اس سے حضرت خدیجہ (رض) کے بارے میں بھی ثابت ہوا کہ وہ انتہائی فراست و بصیرت، معرفت وفقاہت اور دور اندیشی وسمجھداری کے بلندوبالامقام پر فائز تھیں اور کیوں نہ ہوتیں جب کہ مدت درازتک آنحضرت ﷺ کی زوجیت و خدمت میں رہیں اور آنحضرت ﷺ پر حقیقی معنی میں سب سے پہلے ایمان لائیں، اس وصف میں میں ان کا کوئی شریک نہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی خاص مصلحت و حکمت کے تحت بعض حالات میں کسی شخص کی اچھائیوں اور خوبیوں کی تعریف اس کے منہ پر کرنا جائز ہے اور یہ بھی معلوم ہوا اور کوئی شخص کسی معاملہ میں خوف زدہ ہو تو اس کو اطمینان و تسلی دینا اور اس کے سامنے امن و سلامتی کے اسباب کا ذکر کرنا چاہئے، نیز اس حدیث میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا فقر اپنا اختیار کردہ اور پسندیدہ تھا، نہ کہ اضطراری اور غیر پسندیدہ تھا جس کا اصل منشاء سخاوت و کرم کے درجہ کمال کا اظہار تھا علاوہ ازیں ایک بات یہ بھی واضح ہوئی کہ آنحضرت ﷺ میں ان اچھائیوں اور خوبیوں کا نبوت سے بھی موجود ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ تمام انسانی و اخلاقی اوصاف و محاسن آپ ﷺ کی ذات میں طبعی وخلقی طور پر تھے۔ ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہ (رض) کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے، کیونکہ وہ خالد ابن اسد ابن عبدالعزی کی بیٹی تھی اور ورقہ، نوفل ابن عبد العزی کے بیٹے تھے، ورقہ اگرچہ مشرکین مکہ ہی سے نسبی تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نصرانیت (عیسائی مذہب) اختیار کرلیا تھا، پھر انہوں نے انجیل پر بڑا عبور حاصل کیا اور عربی میں اس کا ترجمہ کیا ظہور نبوت کے وقت جب حضرت خدیجہ (رض) آنحضرت ﷺ کو لے کر ورقہ کے پاس گئیں تو اس زمانہ میں وہ بہت زیادہ ضعیف اور بوڑھے ہوچکے تھے، یہاں تک کہ آنکھوں کی بینائی بھی بالکل ختم ہوگئی تھی۔ اے ابن عم ! اپنے بھتیجے کی روداد سن لیئجے۔ حضرت خدیجہ (رض) نے آنحضرت ﷺ کو ورقہ کا بھتیجا محض ورقہ کے بڑھاپے کی بنا پر اور ان کی تعظیم کے پیش نظر کہا کہ آنحضرت ﷺ حقیقت میں ورقہ کے بھتیجے تھے، ویسے یہ عرب کا عام دستور تھا کہ لوگ آپس میں ملاقات و مخاطب کے وقت ایک دوسرے کو چچا بھتیجا کہتے تھے۔ یہ تو وہی ناموس (فرشتہ) ہے۔۔۔۔۔ الخ۔۔ ناموس اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بادشاہ کا راز دار اور معتمد علیہ ہو، اس مناسبت سے اہل کتاب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ناموس کہا کرتے تھے، بعض حضرات نے کہا کہ ناموس خیریت (اچھی باتوں) کے راز دار کو کہتے ہیں اور جاموس شر (بری باتوں) کے راز دار کو کہا جاتا ہے۔ ورقہ ابن نوفل چونکہ نصرانیت کے پیرو تھے اس اعتبار سے ان کے لئے مناسب اور موزوں یہ تھا کہ وہ یوں کہتے یہ وہی ناموس ہے جس کو اللہ تعالیٰ وحی دے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھیجتا تھا۔ لیکن انہوں نے بےجاطور پر دینی تعصب کا شکار ہونے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کرنے کے بجائے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کتاب و شریعت کی جامعیت کے اعتبار سے زیادہ جلیل القدر پیغمبر تھے۔ تو پوری طاقت وقوت سے تمہاری مدد کروں گا۔ کے تحت بعض علماء اور شارحین نے تو یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر ورقہ کے ایمان لانے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے، اگر یہ واقعہ نبوت کے ثابت وظاہر ہونے کے بعد کا ہے تو ظاہر ہے کہ ورقہ کو صحابی کہا جائے گا۔ اور اگر اس واقعہ کا تعلق اظہار نبوت کے بالکل ابتدائی مراحل سے ہے تو اس صورت میں ورقہ کو صحابی نہیں کہا جائے گا۔ اور ملاعلی قاری نے قاموس کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ورقہ کے ایمان واسلام کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے ، اور پھر آنحضرت ﷺ پر وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ یعنی جب آنحضرت ﷺ پر یہ پہلی وحی آئی اور آپ ﷺ کی نبوت ثابت و ظاہر ہوگئی تو اس کے بعد وحی آنی موقوف ہوگئی، بعض حضرات کہتے ہیں کہ پھر تین سال تک کوئی وحی نہیں آئی، بعض حضرات نے یہ مدت چھ ماہ اور بعض نے اڑھائی ماہ بیان کی ہے۔ نیز علامہ ابن حجر لکھتے ہیں سلسلہ وحی کے منقطع ہوجانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سورت اقرء اور یا ایہا المدثر کے نزول کے درمیان آنحضرت ﷺ کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی آمد کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا تھا بلکہ انقطاع وحی سے مراد نزول قرآن کے سلسلہ کا موقوف ہوجانا ہے، اس عرصہ میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تو آتے رہتے تھے لیکن قرآن نہیں لاتے تھے اور کچھ عرصہ کے لئے نزول وحی کے موقوف ہوجانے میں مصلحت و حکمت یہ تھی کہ ابتدائی مرحلہ پر آنحضرت ﷺ کے دل جو خوف وہراس پیدا ہوگیا تھا اس کے اثرات زائل ہوجائیں اور اس خوف وہراس کی جگہ شوق و انتظار کے جذبات پیدا ہوجائیں۔ دیر ست کہ دلدار پیامے نہ فرستاد ننوشت سلامے وکلامے نہ فرستاد

【7】

انقطاع کے بعد پہلی وحی۔

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے کچھ دنوں کے لئے انقطاع وحی اور پھر سلسلہ وحی کے دوبارہ شروع ہونے کا حال اس طرح سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا (ایک دن مکہ کے کسی راستہ پر یا حراء پہاڑ) میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں ایک آسمانی آواز آئی، میں نے اوپر نظر آٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غار حراء میں میرے پاس آیا تھا، زمین و آسمان کے درمیان ایک تخت پر بیٹھا ہوا ہے (اس پر نظر پڑتے ہی) میرے دل میں اتنا سخت رعب اور خوف پیدا ہوگیا کہ میں (بےساختہ) زمین پر گرپڑا، پھر میں (اٹھ کر) اپنے گھر والوں کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کپڑا اڑھا دو ، چناچہ گھر والوں نے مجھ کو کپڑا اڑھا دیا (اور میں اس کپڑے میں دبک کر لیٹ گیا، جب ہی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ۔ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ۔ ) 74 ۔ المدثر 1 تا 5) ۔ اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھو اور مخلوق کو ڈراؤ اور اپنے رب کو ہی بڑا جانو اور اپنے کپڑوں کو پاک کرو اور پلیدی کو چھوڑ دو ۔ اس کے بعد وحی گرم ہوگئی یعنی مسلسل آنے لگی۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اور مخلوق کو ڈراؤ۔ کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کو تو عذاب الٰہی سے ڈراؤ تاکہ وہ کفر وشرک کی راہ چھوڑ کر ایمان واسلام کے راستہ پر لگ جائیں اور اہل ایمان کو طرح طرح کے اجر وثواب کی بشارت دو تاکہ زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرنے کی تحریک اور جذبہ ان میں پیدا ہو۔ اور اپنے رب ہی کو بڑا جانو۔ کا مطلب یہ ہے کہ بڑائی اور کبریائی کا مالک پروردگار کو جانو اور اس اعتبار سے صرف اسی کو قابل تعظیم مان کر اس کے آگے سرجھکاؤ، اس جیسا کسی اور کو نہ جانو اور جب بھی اللہ کی طرف سے کوئی بات پیش آئے تو اللہ اکبر کہو۔ منقول ہے کہ جب یہ حکم نازل ہوا تو آنحضرت ﷺ کی زبان سے بےساختہ اللہ اکبر نکلا اور حضرت خدیجہ (رض) نے بھی یہ نعرہ تکبیر بلند کیا، انہیں بےحد مسرت و طمانیت محسوس ہوئی اور ان کو یہ یقین ہوگیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک کرو۔ یعنی اپنے لباس اور اپنے کپڑوں کو نجاست وناپا کی سے محفوظ رکھو اور پاکی وستھرائی کی طرف دھیان دو ۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کپڑوں کو پاک کرنے میں کپڑوں سے مراد انسانی صفات و محاسن ہیں اور پاک کرنے سے مراد بری خصلتوں اور خراب باتوں سے اجتناب کرنا ہے۔ اور پلیدی کو چھوڑ دو ۔ سے مراد شرک و گناہ سے اجتناب کرنا ہے اور اس اجتناب پر پابندی کے ساتھ قائم رہنا۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے راوی نے اقتصارواختصار کے پیش مذکورہ آیتوں کے آخری حصے کو نقل نہیں کیا ہے جو یہ ہے۔ (وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ۔ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ ۔ ) 74 ۔ المدثر 7-6) اور کسی کو اس غرض سے مت دو ( کہ دوسرے وقت) زیادہ چاہو اور اپنے رب (کی خوشنودی کے لئے) صبر کرو۔ تفسیر مدارک میں مذکورہ بالا روایت حضرت جابر (رض) کے الفاظ میں یوں منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں (ایک دن) حراء پہاڑ پر تھا کہ کسی نے ان الفاظ میں مجھے آواز دی یا محمد انک رسول اللہ ﷺ ۔ (اے محمد بلاشبہ تم اللہ کے رسول ہو) میں نے دائیں بائیں دیکھا، پھر اوپر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ مجھے آواز دینے والا فرشتہ ہے جو زمین و آسمان کے درمیان ایک تخت پر بیٹھا ہوا ہے، میں اس کو دیکھ کر سہم گیا اور خدیجہ (رض) کے پاس واپس آکر کہا کہ مجھے کپڑا اڑھاؤ، چناچہ خدیجہ (رض) نے مجھ کو کپڑا اڑھا دیا، جب ہی جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے یہ پڑھایا یا ایہا المدثر الخ اس کے بعد روایت کے وہی الفاظ ہیں جو اوپر نقل ہوئے۔

【8】

وحی کس طرح آتی تھی :

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ حارث ابن ہشام نے (جوابوجہل کے بھائی تھے اور فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے تھے) رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے پاس وحی کبھی تو گھنٹال کی آواز میں آتی ہے۔ ( یعنی وحی کے الفاظ جو مجھ تک پہنچائے جاتے ہیں گھنٹال کی آواز کی طرح صوتی آہنگ رکھتے ہیں) اور یہ وحی مجھ پر سخت ترین وحی ہوتی ہے، چناچہ فرشتہ، وحی کے جو الفاظ مجھ تک پہنچاتا ہے میں اس کو بڑی محنت اور توجہ سے سن کریاد کرلیتا ہوں۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فرشتہ انسان کی شکل اختیار کرکے مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور کچھ کہتا ہے میں اس کو محفوظ اور یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) (یہ بیان کرکے) کہتی ہیں ! میں نے دیکھا ہے کہ جب شدید سردی کے دن ہوتے تھے اور آنحضرت ﷺ پر وحی اترتی تھی اور فرشتہ وحی پہنچا کر چلا جاتا تھا تو آپ ﷺ کی پیشانی پسینہ سے شرابور نظر آتی تھی۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح اور یہ وحی مجھ پر سخت ترین وحی ہوتی ہے۔ یعنی اس وحی کے الفاظ اور مفہوم کے الفاظ ومقصد کو سمجھنے میں سخت دشواری پیش آتی ہے کیونکہ ایسی بات کو سمجھنا جس کے الفاظ غیر مانوس صوتی آہنگ (مثلا گھنٹال کی آواز جیسا آہنگ) رکھتے ہوں سخت دشوار ہوتا ہے، اس کی بہ نسبت وہ بات زیادہ آسانی سے سمجھ آتی ہے جو کسی انسان سے ہم کلامی ومخاطبت اور مانوس صوتی آہنگ کی صورت میں ہو۔ فرشتہ انسان کی شکل اختیار کرکے۔۔۔۔ الخ۔ کے تحت شارحین نے یہ مشہور قول لکھا ہے کہ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) انسان کی شکل میں آتے تھے تو زیادہ تر ایک صحابی حضرت دحیہ کلبی کی شکل و صورت میں آتے تھے نیز علماء نے لکھا ہے کہ استفادہ اور استفاضہ کے لئے بنیادی شرط ہے کہ بات کہنے والے اور اس بات کو سننے والے کے درمیان وہ مناسبت ہونی چاہیے جو ایک دوسرے سے وحشت زدہ نہ کرے، چناچہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی ملکیت اور روحانیت آنحضرت ﷺ پر غالب کردی جاتی تھی اور کچھ عرصہ کے لئے آپ ﷺ کو بشریت سے جدا کردیا جاتا تھا، جس سے آنحضرت ﷺ کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ ملکوتی مناسبت حاصل ہوجاتی تھی یہ وہ صورت ہوتی تھی جس کی طرف آنحضرت ﷺ کی آنحضرت ﷺ نے نزول وحی کا پہلا طریقہ بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا۔ اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی بشریت کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) پر غالب کردیا جاتا تھا اور وہ کچھ عرصہ کے لئے وصف بشریت کے حامل ہوجاتے تھے جس سے آنحضرت ﷺ اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے درمیان بشری مناسبت پیدا ہوجاتی تھی، یہ وہ صورت ہوتی تھی جس کی طرف آنحضرت ﷺ نے نزول وحی کا دوسرا طریقہ بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا۔ لیکن یہ ساری بحث اس وقت ہے جب کہ یہ مانا جائے کہ آنحضرت ﷺ نے جس چیز کو صلصلۃ الجرس (گھنٹال کی آواز) سے تعبیر فرمایا ہے وہ نفس وحی کی آواز ہوتی تھی جیسا کہ حدیث کی ظاہری عبارت سے واضح ہوتا ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ صلصلۃ الجرس کی طرح وہ آواز دراصل حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی اپنی آواز ہوتی تھی جو وحی پہنچانے سے پہلے ان سے ظاہر ہوتی تھی اور پہلے ان کی اس آواز کے ظاہر ہونے میں کی حکمت یہ ہوتی تھی کہ آنحضرت ﷺ پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہوجائیں اور سماعت وحی کے اصل الفاظ سننے کے لئے اس طرح تیار اور خالی ہوجائے کہ وحی کے علاوہ اور کسی آواز کے لئے اس (سماعت) میں جگہ ہی نہ رہے اور اسی لئے نزول وحی کی یہ (پہلی) صورت آپ ﷺ پر بڑی سخت ہوتی تھی کہ آپ ﷺ کی تمام تر ذہنی وفکری طاقت مجتمع ہو کر صرف وحی کی طرف متوجہ رہتی تھی۔ ۔۔۔۔۔ تو آپ ﷺ کی پیشانی پسینہ سے شرابور نظر آتی تھی۔ بظاہر تو یہ معلومہ ہوتا ہے کہ یہ کیفیت اس صورت میں پیش آتی تھی جب نزول وحی کا پہلا طریقہ عمل میں آتا تھا، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں صورتوں میں یہ کیفیت پیش آتی ہو۔

【9】

نزول وحی کے وقت آنحضرت ﷺ کی کیفیت وحالت :

اور حضرت عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو اس کے سبب آپ ﷺ کو سخت غم لاحق ہوجاتا تھا اور آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب آنحضرت ﷺ پر وحی اترتی تھی تو آپ ﷺ اپنا سرجھکا لیتے تھے اور (اس وقت جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین (موجود ہوتے وہ) بھی اپنا سر جھکا لیتے تھے، جب وحی اترنا موقوف ہوجاتا تو آپ ﷺ ( اور صحابہ بھی) اپنا سر اٹھا لیتے۔ (مسلم) تشریح تو آپ ﷺ کو سخت غم لاحق ہوجاتا تھا۔ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کسی شخص کو اس کی کوئی بہت ہی اہم ذمہ داری غم اور فکر میں مبتلا کردیتی ہے اسی طرح آنحضرت ﷺ اس وحی کو بجنسہ یاد و محفوظ رکھنے اور دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری کا سخت فکر اور غم کرتے تھے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کا اہتمام آپ ﷺ کو ہلکان کردیتا تھا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے فرمایا۔ لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرانہ۔ (اے پیغمبر ﷺ آپ قبل اختتام وحی قرآن پر اپنی زبان نہ ہلایا کیجئے تاکہ آپ اس کو جلدی لیں، اس (قرآن) کو آپ ﷺ کے قلب وحافظہ میں) جمع و محفوظ کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ یا یہ غم وفکر آپ ﷺ کو اس سبب سے ہوتا تھا کہ نازل ہونے والی وحی میں غیظ وغضب، سزاو عذاب کا اظہار کرنے والی آیات بھی ہوتی تھیں اور آپ ﷺ ان آیات کی بنا پر اپنی امت کے حق میں سخت فکر مند اور غمگین ہوجاتے تھے کہ کہیں میری امت کے لوگ اس غیظ وغضب اور عذاب کے مستوجب نہ ہوجائیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سر جھکا لینا تو اس بناء پر ہوتا تھا کہ اس وقت آنحضرت ﷺ پر جو کیفیت طاری ہوتی تھی، کمال تعلق و محبت کی وجہ سے ان کا اثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سرایت کرجاتا تھا، یا یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب آپ ﷺ کو سرجھکاتے دیکھتے تو آپ ﷺ کی اتباع میں وہ سر جھکا لیتے تھے۔

【10】

خدا کے دین کے پہلی دعوت :

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت (وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) 26 ۔ الشعراء 214) ۔ نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ (اس حکم کی تعمیل کے لئے فورًا) نکل پڑے اور کوہ صفا پر چڑھ گئے (قریش کے قبائل کو) پکارنا شروع کیا اے فہر کی اولاد ! اے عدی کی اولاد اس طرح آپ ﷺ نے یہاں تک تمام شاخوں کو نام بنام پکارا۔ چناچہ (آپ ﷺ کی اس آواز پر) قریش کے تمام قبائل اور گروہ (آپ ﷺ کے گرد) جمع ہوگئے یہاں تک کہ جو شخص (کسی عذر اور مجبوری کے سبب) خود اس جگہ نہ پہنچ سکا تو اس نے (یہ) معلوم کرنے کے لئے (کہ محمد ﷺ نے کیوں سب کو بلایا ہے) کسی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیج دیا۔ غرضیکہ جب سب اہل قریش اور (آنحضرت ﷺ کا چچا) ابولہب آگئے تو آپ ﷺ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اگر میں تمہیں یہ خبردوں کہ (جنگجو) سواروں کا ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ سواروں کا ایک دستہ (مکہ کے) جنگل سے نمودار ہوا ہے اور اس کا مقصد قتل و غارت گری کے لئے (دن یا رات کے کسی حصہ میں) تم لوگوں پر اچانک ٹوٹ پڑنا ہے تو بتاؤ کہ کیا تم لوگ میری اس بات کو سچ مانو گے۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں (ضرور سچ مانیں گے) کیونکہ ہم نے تمہیں ہمیشہ سچا پایا ہے۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا (سنو) میں تم لوگوں کو اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو (دنیا یا آخرت میں) تمہارے سامنے پیش (آنے والا ہے ) ۔ (یہ سننا تھا کہ) ابولہب (بھبک اٹھا اور) کہنے لگا ہلاکت اور نقصان میں پڑو تم، کیا تم نے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تبت یدا ابی لہب وتب (ہلاک ہوجائے ابولہب اور وہ ہلاک ہوگیا ) ۔ ( بخاری ومسلم) تشریح تبت یدا ابی لہب میں یدا کا لفظ (جس کے معنی دونوں ہاتھ کے ہیں) زائد ہے، یا اس کے دونوں ہاتھوں سے مراد اس کا پورا وجود ہے اور چونکہ تمام اعضاء انسانی میں ہاتھ ہی ایسا عضو ہے جس سے انسان اپنے تمام خارجی کام کرتا ہے اور اس کا بیشتر انحصار ہاتھوں ہی میں ہوتا ہے، اس اعتبار سے ہاتھ بول کر پورا وجود مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ذلک بما قدمت یداک نیز بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ اس موقع پر ابولہب کے دونوں ہاتھوں میں پتھر تھے اور جب اس نے آنحضرت ﷺ کی زبان سے مذکورہ الفاظ سنے تو انتہائی غصہ کی حالت میں وہ پتھر آنحضرت ﷺ کی طرف پھینکے۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہوجائے۔

【11】

دعوت حق کی پاداش میں عمائدین قریش کی بدسلوکی اور ان کا عبرتناک انجام :

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) جب کہ رسول کریم ﷺ خانہ کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے اور وہاں (کعبہ کے پاس) قریش (کے عمائدین) کا ایک گروہ مجلس جمائے بیٹھا تھا اچانک ان میں ایک شخص نے کہا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو اٹھ کر فلاں محلہ اور قبیلہ میں) جائے جہاں فلاں خاندان میں ایک اونٹ ذبح کیا گیا ہے اور اس ( اونٹ کی) غلاظت سے بھری ہوئی اوجھڑی، اس کا خون اور اس کا پوست اٹھا لائے اور ان سب گندی اور غلیظ چیزوں کو) رکھ لے پھر جب محمد ﷺ سجدہ میں جائیں تو وہ ان سب چیزوں کو ان کے دونوں مونڈھوں کے درمیان ڈال دے (یہ سن کر) ایک انتہائی بدبخت شخص (عتبہ ابن معیط ابوجہل) اٹھا اور ان چیزوں کو لانے کے لئے چلا گیا ( اور یہ سب چیزیں لے کر آگیا) چناچہ جب آنحضرت ﷺ سجدہ میں گئے تو اس نے ان چیزوں کو آنحضرت ﷺ کے مونڈھوں کے درمیان رکھ دیا اور آنحضرت ﷺ (ان گندی چیزوں کا بوجھ اٹھا نہ سکے اور) سجدے میں پڑے رہ گئے، وہ بدبخت یہ دیکھ کر ہنستے اور ٹھٹھا مارنے لگے اس ہنسی میں اس قدر بدحال ہوئے اور ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گرگئے، جب ہی کسی شخص نے جا کر حضرت فاطمہ الزہراء (رض) سے کہہ دیا، حضرت فاطمہ الزہراء (رض) دوڑی ہوئی آئیں اور نبی کریم ﷺ اس وقت تک (ان غلاظتوں میں دبے ہوئے) سجدے میں پڑے تھے، حضرت فاطمہ الزہراء (رض) نے ان تمام چیزوں کو آپ ﷺ کی پشت پر سے اٹھا کر پھینکا اور ان بدبختوں کی طرف متوجہ ہو کر ان کو برا بھلا کہنے لگیں، جب رسول کریم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو دعا کی اے اللہ تو ان قریش کو سخت پکڑ، یعنی مشرکین قریش کو ہلاک و برباد فرما۔ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتے تو تین بار التجا کرتے۔ پھر عمومی طور پر قریش کے حق میں بددعا فرمانے کے بعد خاص طور سے ان ازلی بدبختوں کا نام لے کر یوں بددعا فرمائی، اے اللہ ! تو عمرو ابن ہشام (ابوجہل) کو عتبہ ابن ربیعہ اور شیبہ ابن ربیعہ (دونوں بھائیوں) کو ولید بن عتبہ کو، امیہ ابن خلف کو، عقبہ ابن معیط اور عمارہ ابن ولید کو سخت پکڑ۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) (راوی) نے (یہ روایت بیان کرکے) کہا کہ اللہ کی قسم میں نے جنگ بدر کے دن مذکورہ کافروں کو ہلاک شدہ زمین پر پڑے دیکھا، پھر ان کو میدان سے کھینچ کر ایک کنوئیں میں، جو مقام بدر کا کنواں تھا پھینک دیا گیا اور (اس وقت) آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا ان لوگوں کو جو کنوئیں میں پھینکے گئے ہیں ملعون قرار دے دیا گیا ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اچانک ان میں سے ایک شخص نے کہا۔ کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ وہ شخص ابوجہل تھا ! نیز ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو نماز اور عبادت میں مشغول دیکھ کر اور آپ ﷺ کی طرف اشارہ کرکے ان میں سے ایک شخص نے کہا الاینتظرون الی ہذا المرائی (ذرا اس ریا کار کو تو دیکھو۔ ) اس وقعہ کے وقت حضرت فاطمہ الزہراء (رض) بہت چھوٹی عمر کی تھیں کیونکہ ان کی پیدائش کے وقت آنحضرت ﷺ کی عمر اکتالیس سال کی تھی، لیکن اس بچپنے میں بھی یہ حضرت فاطمہ الزہراء (رض) کی غیر معمولی عالی ہمتی تھی کہ وہ اس خبر کو سنتے ہی عمائدین قریش کے بھرے مجمع میں بھاگی چلی ان سب کافروں کو منہ در منہ برا بھلا کہا اور کسی کو بھی ان کے مقابلہ پر آنے کی مجال نہیں ہوئی۔ آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے ان کے حق میں بددعا کے الفاظ جاری ہوگئے اور ایک ایک کرکے یہ سارے بدبخت اپنے برے حشر کو پہنچے۔ لطف حق گرچہ موا ساہا کند لیک چوں از حدبشد رسوا کند ان لوگوں کو جو کنوئیں میں پھینکے گئے ہیں، ملعون قرار دے دیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ الفاظ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف روئے سخن کر کے فرمائے اس کے بعد آپ ﷺ نے کنوئیں میں پھینکی گئی ان مشرکین کی لاشوں کو مخاطب کرکے فرمایا تھا بلاشبہ ہم نے اس چیز (یعنی فتح ونصرت) کو پالیا جس کا ہم سے ہمارے رب نے وعدہ کیا تھا اور یقینًا تم نے بھی وہ چیز (یعنی عذاب اور سخت ترین سزا) پالی ہوگی جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا۔ حدیث کے یہ آخری الفاظ گو یہاں نقل نہیں کئے گئے ہیں، لیکن کتاب الجہاد کی ایک روایت میں نقل ہوچکے ہیں۔ نیز ان تمام عمائدین قریش اور مشرکین مکہ کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ سب جنگ بدر میں ہلاک و برباد ہوئے اور ان کی لاشوں کو کنوئیں میں ڈال دیا گیا، اکثر کے اعتبار سے ہے کہ ان میں سے زیادہ تر مشرکوں کا یہی حال ہوا اور ان میں سے بعض مشرکین مثلا عمارہ بن ولید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنگ بدر میں شریک نہیں تھا بلکہ حبشہ میں مرا، اسی طرح عقبہ ابن ابومعیط جنگ بدر سے تو بچ کر آگیا تھا مگر بعد میں بڑی بری طرح مارا گیا، نیز امیہ ابن خلف جنگ بدر ہی میں مارا گیا تھا مگر اس کی لاش اتنی زیادہ پھول گئی تھی کہ بھاری ہوجانے کے سبب اس کو کھینچ کر کنوئیں میں نہیں ڈالا جاسکا، یہ ساری تفصیل سیرت و تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ اس حدیث کے بارے میں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی پشت مبارک پر ناپاک اور گندی چیزیں ڈال دی گئی تھیں تو یقینًا آپ ﷺ کا بدن مبارک اور کپڑے ناپاک ہوگئے تو اس کے باوجود آپ ﷺ نماز میں بدستور کیسے مشغول رہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب خون وغیرہ اور مشرکین کے ذبیحہ کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی اس وجہ سے آپ ﷺ کی نماز پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا جیسا کہ شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے جب کپڑے کو شراب لگ جاتی تھی تو اس کے کپڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے اور وہ نماز ہوجاتی تھی۔

【12】

عقبہ کے سخت ترین مصائب اور آپ ﷺ کا کمال تحمل وترحم :

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک (دن) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ ﷺ پر گذرا ہے ؟ (احد کی جنگ میں آنحضرت ﷺ کو بہت زیادہ مصیبتوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کا ذکر آگے کی حدیث میں آرہا ہے) آنحضرت ﷺ نے (حضرت عائشہ (رض) کا یہ سوال سن کر) فرمایا تمہاری اس قوم کی طرف سے جو صورت حال پیش آئی تھی وہ احد کے دن سے کہیں زیادہ مجھ پر سخت تھی اور یہ عقبہ کے دن کا واقعہ ہے جب میں نے تمہاری اس قوم سے ایسی سخت اذیتیں اٹھائیں جن سے زیادہ سخت اذیتیں ان کی طرف سے عمر بھر مجھے کبھی نہیں پہنچیں ہوا یہ تھا کہ میں اس دن ابن عبد یا لیل ابن کلال کے پاس پہنچا (اور اس کو اسلام قبول کرنے کی تلقین کی) لیکن اس نے میری (تلقین پر کوئی توجہ نہیں دی اور میں رنجیدہ و غمگین اپنے منہ کی سیدھ میں چل پڑا ( اور چلتا ہی رہا) یہاں تک کہ قرن ثعالب پہنچ کر میرے حو اس قابو میں آئے، میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک (بڑا) ابر کا ٹکڑا ہے جو مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اور پھر اچانک میری نظر اس ابر کے ٹکڑے میں جبرائیل (علیہ السلام) پر پڑی۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے مخاطب کیا اور کہا کہ آپ ﷺ کے پروردگار نے آپ ﷺ کی قوم کی بات سن لی اور اس کا وہ جواب بھی سن لیا جو اس نے آپ ﷺ کو دیا ہے (یعنی آپ ﷺ کی قوم کا آپ ﷺ کو برا بھلا کہنا آپ ﷺ کو جھٹلانا اور آپ ﷺ کو ایذاء پہنچانا سب معلوم ہے) اور اب اس (پروردگار) نے آپ ﷺ کی خدمت میں پہا ڑوں کے فرشتہ کو (جس کے سپرد تمام روئے زمین کے کوہ وجبل کی عملداری ہے) اس لئے بھیجا ہے کہ آپ ﷺ اپنی قوم (کی ہلاکت و تباہی اور ان تمام ظالموں کو پہاڑوں میں دبا دینے) کے بارے میں جو چاہیں حکم صادر فرمائیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھ کو (یا نبی ! یامحمد ! کہہ کر) مخاطب کیا اور سلام کرکے کہا کہ اے محمد ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی قوم کی بات سن لی ہے، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں، مجھ کو آپ ﷺ کے پروردگار نے آپ ﷺ کے پروردگار نے آپ ﷺ کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ ﷺ مجھے اپنے فیصلہ کی تعمیلکا حکم دیں، اگر آپ ﷺ فرمائیں تو میں آپ ﷺ کی قوم کے لوگوں پر ان دونوں پہاڑوں اخشبین کو الٹ دوں (جن کے نیچے دب کر سب کے سب نیست ونابود ہوجائیں) رسول کریم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا (میں ان کی ہلاکت کا خواہاں نہیں ہوسکتا) بلکہ میں تو یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ پیدا فرمادے جو صرف اسی ایک اللہ کی عبادت کریں اور کسی بھی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دیں (یعنی نہ شرک جلی میں مبتلا ہوں اور نہ شرک خفی میں۔ (بخاری ومسلم) تشریح عقبہ اصل میں تو اس راستہ کو کہتے ہیں جو دو پہاڑوں کے درمیان گزرتا ہے، لیکن بظاہر یہاں عقبہ سے مراد وہ جگہ ہے جو منیٰ میں واقع ہم اور جس کی طرف جمرہ کی نسبت کرکے جمر ۃ العقبہ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپ ﷺ حج کے زمانہ میں اور عام اجتماعات کی جگہ پر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے ان کے سامنے اللہ کا پیغام رکھتے تھے، ان کو نیک کاموں کی تلقین و تبلیغ کرتے اور برے کاموں سے باز رکھنے کے لئے اللہ کی عذاب سے ڈراتے، چناچہ اس دن بھی یہی ہوا کہ آپ ﷺ نے عقبہ کے مقام پر جمع لوگوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور تمام قبائل کو اللہ کا دین قبول کرلینے کی تبلیغ فرمائی، اسی ضمن میں آپ ﷺ وہاں سے چل کر قبیلہ ثقیف میں پہنچے اور اس قبیلہ کے ایک سردار ابن عبد یالیل ابن کلال کو اسلام کی دعوت دی لیکن نہ صرف یہ کہ ان لوگوں پر آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوا اور کسی نے آپ ﷺ کی بات نہیں مانی بلکہ وہاں کے جاہلوں اور ظالموں نے آپ ﷺ کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز سلوک کیا، آپ ﷺ کو گالیاں دیں، سخت ایذائیں پہنچائیں، انتہاء یہ کہ آپ ﷺ پر بےتحاشہ پتھر برسائے جس سے آپ ﷺ خون میں شرابور ہوگئے۔ زور اغیار دیوار سنگ یاری بارد بلائے درد منداں از در و دیوار مے بارد ایک طرف تو دین حق سے ان کی بےاعتنائی، دعوت و تبلیغ کی ناکامی، دوسری طرف ان بدبختوں کا اس قدر تکلیف دہ اور جان سوز رویہ کہ پورا جسم لہولہان ہوگیا، اس سخت ترین رنج وغم اور انتہائی ہولناک اذیتوں نے آپ ﷺ پر شدید قسم کی سراسیمگی اور بدحواسی طاری کردی، نہ یہ خبر رہی کہ کدھر سے آئے تھے، نہ یہ شعور رہا کہ کہاں جانا ہے، نہ راستہ کا پتہ رہا نہ منزل کی پہچان بس جدھر منہ اٹھا چل کھڑے ہوئے، یوں ہی چلتے چلتے جب کچھ ہوش وحو اس بجا ہوئے اور دل و دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ قرن ثعالب کے مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں نجد کی میقات ہے اور جس کو قرن منازل کہتے ہیں، اسی جگہ ایک ابر کے ٹکڑے میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نمودار ہوئے اور یہیں پہاڑوں پر مامور فرشتہ نے ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اجازت طلب کی مگر یہ آپ ﷺ کی رحمت و شفقت تھی کہ اس سخت ترین صورت حال سے دوچار کرنے والوں کے خلاف کوئی فیصلہ کرنا ناگوارہ نہیں ہوا اور امید یہ قائم کی اگر ان کو ہدایت کی توفیق نصیب نہیں ہوئی تو کیا ہوا، یقینا اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا کردے گا جو کفر وشرک کی راہ چھوڑ کر ایمان واسلام کی آغوش میں آجائیں گے۔

【13】

غزوئہ احد میں آنحضرت ﷺ کے زخمی ہونے کا ذکر :

اور حضرت انس (رض) روایت ہے کہ احد کی لڑائی کے دن رسول کریم ﷺ کے ان چار دانتوں میں سے ایک دانت توڑ دیا گیا تھا جن کو رباعیہ کہتے ہیں اور آپ ﷺ کا سر مبارک زخمی کردیا گیا، آپ خون پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ وہ قوم کیونکر فلاح یاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کیا اور اس کے دانت توڑ دئیے۔ (مسلم) تشریح رباعیہ عربی میں دواوپر کے اور نیچے کے ان چار دانتوں کو کہتے ہیں جو ثنایا اور انیاب کے درمیان ہوتے ہیں چناچہ آپ ﷺ کے نیچے کے ان دو دانتوں میں سے داہنی طرف کا ایک دانت ٹوٹا تھا اس کے ساتھ نیچے کا لب مبارک بھی زخمی ہوگیا تھا ، واضح رہے کہ دانت ٹوٹنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ دانت جڑ سے اکھڑ گیا تھا بلکہ اس کا ایک حصہ ٹوٹ کر علیحدہ ہوگیا تھا نیز جس شخص نے آپ ﷺ پر حملہ کر کے یہ دانت توڑا تھا اس کا نام عقبہ بن ابی وقاص اور مشہور صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص کا بھائی تھا۔ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ بعد میں عقبہ ابن ابی وقاص مسلمان ہوگیا تھا اور صحابی ہونے کا شرف حاصل کیا تھا یا نہیں، نیز منقول ہے کہ اس شخص کی نسل میں پیدا ہونے والا ہر شخص جب بالغ ہوجاتا تھا تو اس کا آگے کا دانت خود بخود گرپڑتا تھا اس روایت میں سر مبارک کے زخمی ہونے کا ذکر ہے جب کہ بعض روایتوں میں پیشانی کا زخمی ہونا ذکر کیا گیا تھا، نیزیہ بھی منقول ہے کہ جو نہی آنحضرت ﷺ کو زخم پہنچا پہاڑ کے اوپر سے ایک چٹان نیچے آکر اس شخص پر گری جس نے حملہ کرکے آنحضرت ﷺ کو زخمی کیا تھا اور وہیں ریزہ ریزہ ہوگیا۔ جنگ احد میں آنحضرت ﷺ کو اور بھی بہت سی اذیتوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، کافروں نے میدان جنگ میں جگہ جگہ گڑھے کھود کر ان کو گھاس پھوس کے ذریعہ اوپر سے پات دیا تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ اپنے گھوڑے سمیت ایسے ہی ایک گھڑے میں گرگئے یہ دیکھ کر حضرت طلحہ ابن عبیداللہ (رض) دوڑے ہوئے آئے اور آنحضرت ﷺ کو اپنی گود میں لے کر اس گڑھے سے باہر نکالا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا اوجبہ طلحۃ یعنی طلحہ نے اپنے لئے جنت کو واجب کرلیا، اسی طرح آنحضرت ﷺ کے سر مبارک پر خود جو لوہے کا خود تھا اس کی دو کڑیاں آپ ﷺ کے رخسار مبارک میں پیوست ہوگئی تھیں اور اس بری طرح پیوست ہوئیں کہ جب حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) نے ان کو اپنے دانتوں میں پکڑ کر کھینچا تو ان کے دانت ٹوٹ کر الگ ہوگئے، حضرت مالک ابن سنان (رض) نے آگے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کے زخم سے بہتے ہوئے خون کو چوس چوس کر صاف کرنا شروع کیا، اس وقت بھی آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص نے میرا بہتا ہوا خون چوس کر صاف کیا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ سر مبارک کے زخم کو صاف کرنے کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنی سپر میں پانی بھر کر لائے اور حضرت فاطمہ الزہراء (رض) نے نمدے کا ایک ٹکڑا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھری جس سے خون کا بہنا موقوف ہوا۔ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ جب زخموں کی اذیت سے بتقاضائے بشریت آنحضرت ﷺ کے مزاج مبارک میں کچھ تغیرپیدا ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ ) 3 ۔ ال عمران 128) آپ ﷺ کوئی دخل نہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان پر یا تو متوجہ ہوجاویں اور یا ان کو کوئی سزا دے دیں کیونکہ انہوں نے بڑا ظلم کیا ہے۔ یہ بھی منقول ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کے زخموں سے خون بہنا شروع ہوا تو آپ ﷺ خون کو زمین پر گرنے سے روکنے کے لئے صاف کرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اگر میرے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرگیا تو ان (کافروں) پر آسمان سے عذاب اترنے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ احد کی لڑائی کے دن آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک پر تلوار کی ستر ضربیں پڑیں لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان ضربوں کے اثر سے محفوظ رکھا۔

【14】

رسول اللہ کے ہاتھ سے مارا جانے والا اللہ کے سب سے سخت عذاب میں مبتلا ہوگا۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا سخت ترین غضب اس قوم پر ہے جس نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ (ایسے سلوک سے) آپ ﷺ کا اشارہ اپنے دانتوں کی طرف تھا (جن میں ایک دانت کو کفار میں نے جنگ احد میں شہید کردیا تھا۔ اور اللہ کا سخت ترین غضب اس شخص پر ہے جس کو (اللہ کا رسول) اللہ کے راستہ (جہاد) میں قتل کردے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح جہاد کی قید کے ذریعہ گویا حد اور قصاص میں مارے جانے والے شخص کو مستثنیٰ قرار دیا کہ ایسا شخص اس وعید میں داخل نہیں ہے، نیز اللہ کے رسول سے یا تو آنحضرت ﷺ نے خود اپنی ذات مراد لی یا پھر ہر پیغمبر مراد ہے اور پیغمبر کے ہاتھوں قتل کئے جانے والے شخص کو اللہ کے سخت ترین غضب کا مورد اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ کسی شخص کو پیغمبر کا قتل کرنا اس کا پختہ ثبوت ہوتا ہے کہ وہ شخص کسی بھی صورت میں معافی کے قابل اور کسی بھی طرح رعایت کے لائق نہیں تھا اور اس کے قتل کا فیصلہ ذرا بھی شک وشبہ کے بغیر بالکل مبنی برحقیقت تھا، اس صورت میں اس کا واجب القتل اور دوزخی ہونا یقینی بات بن جاتا ہے۔

【15】

رسول اللہ کے ہاتھ سے مارا جانے والا اللہ کے سب سے سخت عذاب میں مبتلا ہوگا۔

حضرت یحییٰ ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسلمہ ابن عبدالرحمن ابن عوف (رح) سے (جواونچے درجہ کے تابعین، مشاہیر علماء اور فقہاء سبعہ میں سے ہیں) پوچھا کہ قرآن مجید کا کونسا حصہ سب سے پہلے نازل ہوا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایا ایہا المدثر۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ (یعنی اکثر علماء) تو یہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے اقرأباسم ربک نازل ہوئی ہے حضرت ابوسلمہ نے فرمایا میں نے حضرت جابر (رض) سے یہی سوال کیا تھا (کہ کونسا حصہ سب سے پہلے نازل ہوا ہے ؟ تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا جو میں نے تمہیں دیا ہے) پھر میں نے یہی کہا جو تم نے مجھ سے کہا ہے (کہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے (اقرأباسم ربک الذی اتری ہے) تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ میں تمہارے سامنے وہی حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول کریم ﷺ نے ہمارے سامنے ارشاد فرمائی تھی، آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں نے ایک مہینہ تک غار حراء میں خلوت گزین۔ اور معتکف تھا، جب میری خلوت گزینی اور اعتکاف کی مدت پوری ہوئی اور میں پہاڑ سے اترا تو (اچانک میرے کانوں میں آواز آئی کہ) کوئی مجھے مخاطب کررہا ہے، میں نے دائیں طرف (مڑ کر) دیکھا لیکن مجھے کوئی چیز بھی نظر نہیں آئی بائیں طرف دیکھا تو ادھر بھی کوئی چیز نظر نہیں آئی، پیچھے کی طرف نظر کی تو ادھر بھی کوئی نظر دکھائی نہیں دیا، پھر جب میں نے اوپر نظر اٹھائی تو مجھے کچھ نظر آیا یعنی ایک فرشتہ دکھائی دیا، میں (اس کو دیکھ کر سہم گیا اور مارے خوف کے کانپتا ہوا) خدیجہ (رض) کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کپڑا اڑھاؤ مجھے کپڑا اڑھاؤ۔ خدیجہ (رض) نے (فورًا) مجھ کو ایک کپڑا اڑھا دیا اور (میرے حو اس بحال کرنے کے لئے) مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالا، اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ۔ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ۔ ) 74 ۔ المدثر 1 تا 5) (یعنی اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھ کھڑے ہو اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو اور اپنے کپڑے کو پاک رکھو اور ناپاکی سے اجتناب کرو) اور نزول وحی کا یہ واقعہ نماز فرض ہونے سے پہلے کا ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روایت حدیث کے وقت نسیان کے سبب راوی کے ذہن میں مسئلہ کی اصل نوعیت پوری طرح محفوظ نہیں رہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے یہ حدیث اس طرح بیان کی کہ گویا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سب سے پہلی وحی یا ایہا المدثر الخ ہے حالانکہ حقیقت میں سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی ہے وہ اقرا باسم ربک الخ ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اقرا باسم ربک کے بعد وحی کا نزول کچھ عرصہ کے لئے منقطع ہوگیا اور یہ سلسلہ پھر دوبارہ شروع ہوا تو اس وقت سب سے پہلے جو وحی اتری وہ یا ایہا المدثر الخ ہے، جیسا کہ اس کا تفصیلی ذکر پیچھے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت میں گذرا پس یا ایہا المدثر الخ کی اولیت اضافی ہے نہ کہ حقیقی، چناچہ خود حضرت جابر (رض) کی جو روایت پہلے گذری ہے اس میں انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے انقطاع وحی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں چلا جارہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک آواز سنی، اوپر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ ہے جو میرے پاس کوہ حراء میں آیا۔۔۔۔۔۔ الخ۔ اس سے بھی صریحی طور پر یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں اس حدیث میں حضرت جابر (رض) نے اضافی اولیت مراد لی ہے۔ یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کے راوی نے اختصار سے کام لیا ہے اور سب سے پہلے اترنے والی وحی اقراء باسم ربک کے ذکر کو حذف کرکے اس وحی کو ذکر کیا جو انقطاع کے بعد سلسلہ وحی دوبارہ شروع ہونے پر سب سے پہلے اتری تھی۔