181. نبوت کی علامتوں کا بیان

【1】

نبوت کی علامتوں کا بیان :

علامات علامت کی جمع ہے اور علامت اصل میں تو مطلق نشان کو اور خاص طور پر اس نشان کو کہتے ہیں جو راستہ کے سرے پر قائم کیا جاتا ہے اور جس کا مقصد مسافروں اور راہ گیروں کو ان کے راستے اور ان کی منزل کا پتہ بتانا ہوتا ہے۔ اسی قبیل کے دو اور لفظ معلم اور علم کے بھی یہی معنی ہیں لیکن یہاں علامات (یاعلامتوں) سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو آنحضرت ﷺ کی پیغمبری کو ظاہر وثابت کرتی ہیں اور آپ ﷺ کی ذاتی اخلاقی صفات و خصوصیات، آپ ﷺ کے فضائل وشمائل اور آپ ﷺ کے افعال و احوال پر اس طرح دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی عقلمند اور سمجھ دار شخص ان کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کا یقین حاصل کرسکتا ہے۔ نیز سابقہ آسمانی کتابوں میں آنحضرت ﷺ کی جن صفات و خصوصیات اور احوال کا ذکر ہے وہ بھی اسی قبیل سے ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کو جتنے معجزے عطا ہوئے وہ سب آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی علامتوں میں سے ہیں، اس اعتبار سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مؤلف مشکوٰۃ نے جو دو باب قائم کئے ہیں ایک تو یہی نبوت کی علامتوں کا بیان اور دوسرا معجزات کا بیان اس کا کیا سبب ہے اور انہوں نے علامتوں اور معجزوں کے درمیان کیا فرق ملحوظ رکھا ہے، جب کہ ان دونوں میں خوارق (معجزات) ہی کا ذکر ہے شارحین مشکوٰۃ بسیار غور و فکر کے باوجود اس کی کوئی مضبوط وجہ بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں،

【2】

شق صدر کا واقعہ :

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ (اپنے بچپن میں جب دایہ حلیمہ کے پاس تھے تو اس کا واقعہ ہے کہ (ایک دن آپ ﷺ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور آپ ﷺ کو پکڑ کر چت لٹا دیا، پھر انہوں نے آپ ﷺ کے (سینہ کو) دل کے قریب سے چاک کیا اور آپ ﷺ کے دل میں سے بستہ خون کا ایک سیاہ ٹکڑا نکال لیا کہ یہ تمہارے جسم کے اندر شیطان کا حصہ ہے (اگر یہ ٹکڑا تمہارے جسم میں یوں ہی رہنے دیا جاتا تو شیطان کو اس کے ذریعہ تم پر قابو پانے کا موقع ملتا رہتا) اس کے بعد انہوں نے آپ ﷺ کے دل کو ایک سونے کی لگن میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر دل کو اس کی جگہ میں رکھ کرسینہ مبارک کو اوپر سے برابر کردیا۔ (وہ) بچے (جو اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ تھے یہ پورا منظر دیکھ کر گھبرا گئے اور) بھاگے ہوئے آنحضرت ﷺ کی ماں یعنی آپ ﷺ کی دایہ (حلیمہ) کے پاس آئے اور کہا کہ محمد ﷺ کو مار ڈالا گیا ہے (دایہ حلیمہ کے گھر اور پڑوس کے) لوگ (یہ سنتے ہی) اس جگہ پہنچے جہاں آنحضرت ﷺ موجود تھے، انہوں نے آنحضرت ﷺ کو صحیح سالم دیکھا لیکن آپ ﷺ کو اس حال میں پایا کہ خوف و دہشت سے) آپ ﷺ (کے چہرہ) کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ حضرت انس (رض) (یہ روایت بیان کرکے) کہتے ہیں کہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔ آنحضرت ﷺ کے سینہ مبارک پر سلائی کا نشان دیکھا کرتا تھا۔ (مسلم) تشریح جامع الاصول میں عن قلبہ کے بعد واستخرجہ کا لفظ بھی منقول ہے اور پوری عبارت یوں ہے فشق عن قلبہ واستخرجہ فاستخرج منہ علقہ۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا پھر انہوں نے آپ کے (سینہ کو) دل کے قریب سے چاک کیا اور دل کو نکالا اور پھر دل میں سے بستہ خون کا ایک سیاہ ٹکڑا نکال لیا ( جو برائیوں اور گنا ہوں کی جڑ ہوتا ہے) سونے کے لگن میں زمزم کے پانی سے دھویا۔ سونے کی لگن کا استعمال آپ ﷺ کی عظمت و کر امت کے اظہا رکے لئے تھا جہاں تک سونے کے استعمال کی ممانعت کا سوال ہے تو اس کا تعلق اس دنیا کی زندگی سے امتحان و آزمائش سے ہے جس کا مقصد انسان کو اس دنیاوی زندگی میں ایسی بہت سی چیزوں سے باز رکھ کر اس کی بندگی کو آزمانا ہے جس میں کامیاب ہونے کے بعد آخرت میں وہی چیزیں اس کو اجر و انعام کے طور پر حاصل ہونگی، اسی لئے آخرت میں نہ صرف یہ کہ سونے کا استعمال جائز ہوگا بلکہ جنت کے ظروف وبرتن سونے کے ہوں گے پس شق صدر کا یہ تمام واقعہ جو اس وقت یا شب معراج میں پیش آیا، اس دنیا سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ عالم غیب اور دوسرے جہاں کے احوال سے تعلق رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ نقطہ بھی محفوظ خاطر رہنا چاہیے کہ سونے کی لگن کا استعمال خود آنحضرت ﷺ کی طرف سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا استعمال فرشتے نے کیا تھا جو احکام و مسائل میں ہماری طرح مکلف نہیں تھا۔ ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ سونے کی لگن کے استعمال کا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب احکام و مسائل کا نفاذ ہی نہیں ہوا تھا اور شرعی طور پر کسی چیز کی حلت و حرمت نازل اور معلوم نہیں ہوئی تھی۔ حدیث کے اس ٹکڑے سے یہ ثابت ہوا کہ زمزم کا پانی سب پانیوں سے افضل و برتر ہے یہاں تک کہ جنت کے پانی پر بھی فضیلت و برتری رکھتا ہے کیونکہ اگر کوئی شبہ نہیں کہ وہ پانی جو بطور معجزہ آنحضرت ﷺ کی انگلیوں سے ابل کر نکلا تھا، یہاں تک کہ آب زمزم پر بھی فضیلت و برتری رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ پانی آنحضرت ﷺ کے دست مبارک کے اثر سے نکلا تھا جب کہ زمزم کا پانی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی پیروں کے اثر سے برآمد ہوا ہے۔ یہ حدیث اور اسی طرح کی دوسری حدیثیں اس قبیل سے تعلق رکھتی ہیں جن کا جوں کا توں تسلیم کرنا واجب ہے اور بطریق مجاز تاویل وتوجیہہ کے ذریعہ ان کے ظاہری مفہوم ومعانی سے اعراض کرنا نہ تو جائز ہے اور نہ اس کی کچھ ضرورت ہے کیونکہ ان حدیثوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ انسانی عقل وفہم سے کتنا ہی ماوراء کیوں نہ ہو، اس کے برحق اور سچ ہونے کے لئے یہی ایک بات کافی ہے کہ اس کا تعلق قادرمطلق، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ظہور سے ہے اور یہ وہ باتیں ہیں جن کی خبر صادق ومصدوق ﷺ نے دی ہے، لہٰذا ان کی صداقت شمہ برابر بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ شق صدر میں حکمت آنحضرت ﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کرکے قلب مبارک کو صاف کرنے میں قدرت کی یہ حکمت کار فرما تھی کہ آپ ﷺ کا باطن اسی طرح مجلی و پاکیزہ اور قلب مبارک اس قدر لطیف و روشن ہوجائے کہ وحی الہٰی کا نورجذب کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے اور منصب رسالت کا بار اٹھانے کے لئے قلب و دماغ پہلے سے تیار رہے، نفسانی وسوسوں کا آپ ﷺ میں کہیں سے گزر نہ ہو اور شیطان آپ ﷺ کو حق کی طرف سے غافل کرنے میں نہ صرف یہ کہ کامیاب نہ ہوسکے بلکہ آپ ﷺ سے بالکل مایوس ہوجائے، جیسا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے الفاظ ہذا حظ الیشطان منک اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ بتادینا ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ شق صدر سینہ چاک کئے جانے) کا واقعہ چار مرتبہ ظہور میں آیا ہے ایک مرتبہ تو بچپن میں دایہ حلیمہ کے پاس، جس کا ذکر اس حدیث میں ہے، دوسری مرتبہ دس سال کی عمر میں، تیسری مرتبہ ظہور نبوت کے وقت اور چوتھی مرتبہ شب معراج میں اس وقت جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کو لینے آئے۔ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ سینہ مبارک کا چاک کیا جانا اور قلب مبارک کا دھویا جانا صرف آنحضرت ﷺ کے لئے مخصوص تھا یا دوسرے پیغمبروں کے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے جو روایت تابوت اور سکینہ کے بارے میں منقول ہے اس میں انہوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس (تابوت) میں (دوسرے تبرکات کے علاوہ) وہ طشت بھی تھا، جس میں انبیاء (علیہ السلام) کے دل دھوئے گئے تھے، اس روایت سے ان علماء کی تائید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی طرح دوسرے انبیاء (علیہ السلام) کے بھی سینے چاک کئے گئے اور ان کے دل دھوئے گئے تھے۔

【3】

پتھر کا سلام

اور حضرت جابر بن سمرۃ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو مکہ میں ظہور نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا، میں اب بھی اس کو (خوب) پہچانتا ہوں۔ (مسلم) تشریح مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ یعنی جب بھی میں اس پتھر کے سامنے سے گزرتا تو مجھے اس میں آتی ہوئی یہ آواز سنائی دیتی۔ اسلام علیک یا نبی اللہ۔ بعض محدثین نے کہا ہے کہ اس پتھر سے مراد حجر اسود ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ پتھر ہے جو ز قاق الحجر کے نام سے مشہور ہے اور وہ اب تک مکہ میں موجود ہے، یہ پتھر جس جگہ ہے وہ مسجد حرام اور حضرت خدیجہ (رض) کے گھر کے درمیان واقع ہے۔ ایک روایت حضرت عائشہ (رض) سے منقول ہے، انہوں نے بیان کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس رسالت لے کر آئے (اور مجھے نبوت و رسالت کے منصب پر فائز کردیا گیا) تو اس کے بعد جب بھی میں کسی درخت یا پتھر کے سامنے سے گزرتا تو وہ کہتا السلام علیک یا رسول اللہ۔

【4】

شق قمر کا معجزہ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ مکہ کے کافروں نے (جمع ہو کر) رسول کریم ﷺ سے مطالبہ کیا کہ (اگر) تم (نبوت کے دعوے میں) سچے ہو تو کوئی نشانی (معجزہ دکھاؤ، چناچہ آنحضرت ﷺ نے) اپنے دست مبارک کے اشارہ سے چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھا دئیے یہاں تک کہ ان کافروں نے حراء پہاڑ کو چاند کے ان دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا۔ ( بخاری ومسلم)

【5】

شق قمر کا معجزہ

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چاند درمیان میں سے شق ہو کر اس طرح دو ٹکڑے ہوگیا کہ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر کی جانب تھا اور دوسرا نیچے کے طرف رسول کریم ﷺ نے (کافروں کی طلب پر یہ معجزہ دکھا کر ان سے) فرمایا کہ میری نبوت یا میرے معجزہ کی شہادت دو ۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح شہادت دو کہ ایک معنی بعض حضرات نے یہ لکھے ہیں کہ۔ آؤ اس معجزہ کو دیکھو۔ اس معنی کی صورت میں اشہدوا کو شہادت سے مشتق کہا جائے گا پہلے معنی کی صورت میں (جو ترجمہ میں بیان ہوئے ہیں اشہدوا کو شہود سے مشتق مانا جائے گا۔ شق القمر کا معجزہ یعنی آنحضرت ﷺ کے دست مبارک کے اشارہ پر چاند کے دو ٹکڑے ہوجانا، ایک حقیقی واقعہ ہے، جس کی صداقت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، اس واقعہ سے متعلق روایت کو صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت نے بیان کیا ہے اور ان کے واسطہ سے بیشمار محدثین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ علامہ ابن سبکی نے شرح مختصر ابن حاجب میں لکھا ہے کہ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ شق قمر کی روایت متواتر ہے اور اس کو بخاری و مسلم نیز دوسرے بہت سے ائمہ حدیث نے اتنے زیادہ طرق سے نقل کیا ہے کہ اس میں کہیں سے بھی شک کا گزر نہیں، علاوہ ازیں اس معجزہ کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت خود قرآن کریم ہے چناچہ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق و اجماع ہے کہ اس آیت کریمہ۔ (اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔ ) 54 ۔ القمر 2-1) قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا اور اگر یہ لوگ (کافر) کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو رو گردانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔ میں وہی شق قمر مراد ہے جو آنحضرت ﷺ کے معجزہ کے طور پر واقع ہوا نہ کہ وہ انشقاق قمر مراد ہے جو قیامت کے دن واقع ہوگا، اس کی واضح دلیل خود آیت کے الفاظ آیت (وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ) 54 ۔ القمر 2) ہیں۔ بہت سے بےدینوں اور فلسفیوں نے اس معجزہ کا انکار کیا ہے، ان کے انکار کی بنیاد اس اعتقاد پر ہے کہ فلکیات میں خرق و التیام ممکن نہیں ہے، اس سلسلہ میں پہلی بات تو یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہی فلکیات کا خلق اور قادر مطلق ہے، تمام فلک اس کی قدرت کے مسخر اور کے حکم کے تابع ہیں، اس کائنات میں جو کچھ ہم، خواہ زمین ہو یا آسمان، چاند، ستارے ہوں یا سورج، ان میں سے جس کو چاہے وہ توڑ پھوڑ کر ایک طرف کرسکتا ہے، خود اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ قیامت کے دن وہ آسمان کو اس طرح لپیٹ دے گا جس طرح کاغذ کو لپیٹ دیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ فلکیات میں خرق والتیام کے محال کا نظریہ جو اس وقت بھی بہت سے فلاسفہ کے نزدیک محل نظر تھا تحقیق و تجربہ کے بعد اب بالکل ہی باطل ہوچکا ہے اس دور کے انسان نے چاند پر پہنچ کر شق القمر کے معجزہ کو زبر دست تائید بھی پہنچائی ہے لہٰذا خرق والتیام کی بحث اٹھا کر اس معجزہ کے خلاف دلیل قائم کرنا بالکل بےمعنی بات ہوگئی ہے۔ منکرین صداقت ایک اعتراض اور کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ چاند میں اتنا زبردست تغیر ہوجانا کہ وہ ٹکڑوں میں بٹ گیا کوئی معملولی بات نہیں تھی اگر حقیقت میں ایسا ہوا تھا تو اس کا مشاہدہ صرف اہل مکہ تک محدود نہ رہتا بلکہ اس کرشمہ کو تمام اہل زمین دیکھتے اور بلا تفریق مذہب و ملت تمام مورخین تواتر کے ساتھ اس کا تذکوہ کرتے، اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس معجزہ کا وقوع کچھ خاص لوگوں کے مطالبہ پر ہوا تھا اور انہیں کو یہ کرشمہ دکھانا اور ان کو لا جواب کرنا مقصود تھا، علاوہ ازیں یہ رات کے وقت کا واقعہ ہے، جو ایک لمحہ کے لئے تھا ظاہر ہے کہ ایسے میں جب کہ اکثر لوگ محو خواب ہوں گے اس لمحاتی کرشمہ کا عام مشاہدہ کیسے ممکن تھا دوسرے یہ کہ اختلاف مطالع کی بناء پر یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ چاند ایک وقت میں ایک ہی مطلع پر دنیا کے تمام خطوں میں نظر آئے اس لئے معجزہ کے وقوع کے وقت کا چاند دنیا کے تمام خطوں میں سے کچھ کو نظر آیا اور کچھ کو نظر نہیں، جیسا کہ جب چاند گرہن ہوتا ہے تو اس وقت کچھ خطوں میں نظر آتا ہے اور کچھ خطوں میں نظر نہیں آتا، علاوہ ازیں بعض روایتوں میں آتا ہے اس دن عرب کے باہر کے جو لوگ مکہ مکرمہ یا اس کے کسی قریبی علاقوں میں آئے ہوئے تھے انہوں نے اپنے شہروں اور علاقوں میں پہنچ کر اس واقعہ کی اطلاع دی، جہاں تک تاریخ میں اس عجیب و غریب واقعہ (شق قمر) کے ذکر کا تعلق ہے تو اسلامی تاریخ و سیر کی کتابوں میں اس واقعہ کا ذکر تواتر کے ساتھ موجود ہی ہے، گو اسلام مخالف اور دین بیزار لوگ اس سے انکار کریں، لیکن اسلامی تاریخ کے علاوہ بعض دوسری قوموں کے تذکرہ اور احوال میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے، جیسے ہندوستان کے علاقہ ملیبار یا مالوہ کے شہر وہار کے راجہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ تو صرف اس واقعہ کے مشاہدہ یا تصدیق کی وجہ ہی سے مشرف باسلام ہوگئے تھے

【6】

قدرت کی طرف سے ابوجہل کو تنبیہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ابوجہل نے لوگوں سامنے بڑی تحقیر کے ساتھ) کہا کہ کیا محمد ﷺ تمہارے سامنے اپنے چہرہ کو خاک آلود کرتا ہے (یعنی نماز پڑھتا ہے اور سجدہ کرتا ہے ؟ ) لوگوں نے کہا کہ ہاں ابوجہل بولا۔ لات وعزی۔ (دونوں بڑے بتوں) کی قسم اگر محمد ﷺ کو ایسا کرتے (یعنی نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے) دیکھ لیا تو (اپنے پیروں سے) اس کی گردن روند ڈالوں گا۔ چناچہ (ایک دن) جب کہ رسول کریم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے ( اور سجدہ میں تھے) ابوجہل اس (ناپاک) ارادہ کے ساتھ آپ ﷺ کی گردن مبارک کو اپنے پاؤں سے کچل دے لیکن پھر وہ آنحضرت ﷺ کی طرف بڑھتے بڑھتے اچانک رک گیا اور فورا) پچھلے پاؤں اپنے لوگوں کی طرف لوٹنے لگا اور ایسا دکھائی دیا جیسے وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے کسی چیز کو روک رہا ہو (یعنی جب وہ لوٹ کر اپنے لوگوں تک پہنچا تو ایسا معلوم ہوا تھا کہ کوئی سخت آفت اس پر ٹوٹ پڑی ہے اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کو روک رہا ہے) لوگوں نے (یہ دیکھ کر) اس سے پوچھا کہ آخر کیا ماجرا ہم ( تو اپنا ارادہ پورا کئے بغیر الٹے پاؤں لوٹ آیا اور اپنے ہاتھوں سے کوئی چیز روکنے کی کوشش کر رہا ہے ؟ ) ابوجہل نے (نہایت بوکھلائے لہجہ) میں کہا (میں دیکھ رہا ہوں کہ) میرے اور محمد ﷺ کے درمیان آگ کی خندق ہے، بڑا خوفناک منظر ہے اور (محافظ فرشتوں کے) پر وبازو ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر ابوجہل میرے قریب آجاتا تو فرشتے اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے لے جاتے (یعنی ہر فرشتہ اس کے بدن کا ایک ایک عضو نوچ کرلے جاتا۔

【7】

ایک پیش گوئی جو حرف بحرف پوری ہوئی۔

اور حضرت عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا کہ اچانک ایک شخص آیا اور آپ ﷺ سے اپنے فقر و فاقہ اور افلاس کا شکوہ کرنے لگا، پھر ایک اور شخص آیا، اس نے راہزنی کی شکایت کی ( کہ راستہ میں کچھ ڈاکوؤں اور قزاقوں نے مجھے لوٹ لیا ہے ( آنحضرت ﷺ نے (ان دونوں کی باتیں سننے کے بعد مجھ سے) فرمایا عدی ! تم نے تو حیرہ دیکھا ہوگا۔ ؟ اگر تمہاری عمر بڑی ہوئی تو تم یقینا دیکھو گے کہ ایک تنہا اونٹنی پر سوار ہو کر حیرہ سے چلے گی اور (مکہ پہنچ کر) کعبہ کا طواف کرے گی اور سوائے اللہ تعالیٰ کے اس کو کسی (لیڑے اور رہزن کا خوف نہیں ہوگا، اگر تم زیادہ دنوں تک زندہ رہے تو (دیکھو گے کہ) کسری (فارس کے بادشاہ) کے خزانے (مسلمانوں کے لئے کھول دئیے جائیں گے (جو غنیمت کے طور پر ہاتھ لگیں کے اور تمام مسلمانوں میں تقسیم ہوں گے) اور تمہاری عمر زیادہ ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ایک شخص مٹھی بھر سونا یا چاندی (خیرات کرنے کو) نکلے گا اور قبول کرنے والے (یعنی کسی محتاج و مفلس) کو ڈھونڈتا پھرے گا مگر اس کو ایسا شخص نہیں ملے گا جو اس سے خیرات کا مال لے لے۔ اور (یاد رکھو) قیامت کے دن تم میں سے ایک شخص اللہ کے حضور اس طرح پیش ہوگا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا جو اس کا حال بیان کرے، پھر اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا کہ کیا میں نے تجھ کو دین کے احکام پہنچانے اور قیامت کے دن کی خبر دینے کے لئے رسول نہیں بھیجا تھا ؟ وہ شخص کہے گا کہ بیشک آپ نے رسول بھیجا تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ میں نے تجھ کو مال وزر عطا نہیں کیا تھا اور کیا میں نے تجھ پر فضل و احسان نہیں کیا تھا ؟ وہ کہے گا بیشک آپ نے مجھ کو مال بھی عطاء کیا تھا اور مجھ پر فضل و احسان بھی فرمایا تھا، اس کے بعد وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اس کو دوزخ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا (جس کو اس نے ترک طاعت و عبادت کے سبب اپنے لئے واجب کر رکھا ہوگا) پھر وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا تو اس کو دوزخ کے علاوہ کچھ نہیں نظر نہیں آئے گا (جس کو اس نے ارتکاب معصیت کے سبب اپنے اوپر واجب کر رکھا ہوگا) پس رسول کریم ﷺ نے تمام لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ لوگو ! دوزخ کی آگ سے (خیرات کے ذریعہ) اپنے آپ کو بچاؤ۔ اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خیرات کرنے کی استطاعت رکھتے ہو اور اگر کوئی شخص (اللہ کے نام پر خرچ کرنے کے لئے کھجور کا ایک ٹکڑا بھی نہ رکھتا ہو تو نرمی اور خوش خلقی کے ساتھ بات کر کے (خود کو دوزخ کی آگ سے) بچائے۔ حضرت عدی ابن حاتم نے (یہ روایت بیان کرنے کے بعد) کہا (آنحضرت ﷺ کی اس پیش گوئی کے مطابق) میں نے یہ تو دیکھ لیا کہ اونٹنی سوار عورت خانہ کعبہ کا طواف کرنے کے لئے حیرہ سے تنہا سفر کرتی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے ڈر نہیں لگتا اور میں خود ان لوگوں میں شامل تھا۔ جہنوں نے کسری ابن ہرمز بن نوشیروان (فارس کے بادشاہ) کے خزانوں کو کھولا، اب اگر تو زیادہ دونوں زندہ رہے تو نبی کریم ابوالقاسم ﷺ کی اس پیش گوئی کو بھی حرف بحرف پورا ہوتے دیکھ لو گے کہ ایک شخص مٹھی بھر کر ( سونا چاندی خیرات کرنے کو نکلے گا) اور کوئی شخص اس کو لینے والا نہیں ملے گا۔ (بخاری) تشریح اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے تین باتوں کی پیش گوئی فرمائی، ایک تو یہ کہ ملک عرب میں مکمل امن وامان ہوجائے گا، ڈکیتی اور رہزنی جیسے جرائم جو عام زندگی خوف ہر اس میں مبتلا کردیتے ہیں اس طرح ختم ہوجائیں گے کہ حیرہ جو کوفہ کے پاس ایک پرانا شہر ہے اور مکہ معظمہ سے بہت دور ہے، وہاں سے ایک عورت زیارت بیت اللہ اور طواف کعبہ کے لئے مکہ معظمہ تک اونٹنی یا کسی بھی سواری پر تنہا سفر کرے گی اور اس کی جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ مجاہدین اسلام کے ہاتھوں فارس ( ایران) کی عظیم سلطنت فتح کرائے گا اور وہاں کے بادشاہ کسری کے خزانوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے گا اور تیسرے یہ کہ اسلامی حدود سلطنت میں اقتصادی خوش حالی اور مال و دولت کی فراوانی سے چند لوگ یا کوئی خاص طبقہ نہیں بلکہ تمام لوگ اس طرح بہرہ مند ہوں گے کہ زکوٰۃ خیرات نکالنے والا اپنے ہاتھ میں سونا چاندی اور روپیہ پیسہ لئے پھرے گا مگر ڈھونڈنے سے بھی کوئی صدقہ لینے والا اس کو نہیں ملے گا کیونکہ پوری اسلامی قلم رو میں جب کوئی بھوکا محتاج ہی نہیں ہوگا تو صدقہ خیرات کا سونا چاندی لینے والا کون ہوگا۔ ان تینوں پیش گوئیوں میں سے دو تو پوری ہوگئیں اور ان کا مشاہدہ خود حدیث کے روای حضرت عدی ابن حاتم نے کیا اور پیش گوئی کے بارے میں بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے بعد پوری ہوگی کہ ان کے عہد سلطنت میں کوئی شخص بھوکا محتاج نہیں ہوگا اور عام خوشحالی کا یہ عالم ہوگا کہ ڈھونڈنے پر بھی خیرات کوئی صدقہ خیرات لینے والا نہیں ملے گا۔ اس کا ذکر اس حدیث میں گزر چکا ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے باب میں پیچھے نقل ہوئی ہے۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ تیسری پیش گوئی بھی حضرت ابن عمر ابن عبد العزیز کی خلافت کے زمانے میں پوری ہوچکی ہے بیہقی نے اس قول کو جزم کے ساتھ اختیار کیا ہے، چناچہ ان کے عہد میں عام لوگوں کی اقتصادی حالت اتنی بہتر تھی کہ صدقہ و خیرات کا مال لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا ! آنحضرت ﷺ نے جو پہلی پیش گوئی فرمائی وہ دراصل اس شخص کے جواب میں تھی جس نے راہزنی کی شکایت کی تھی اور دوسری پیش گوئی اس شخص کے جواب میں تھی جس نے اپنے فقر و افلاس کی شکایت کی تھی، روئے سخن آپ ﷺ نے حضرت عدی ابن حاتم کی طرف کر رکھا جو اس وقت مجلس شریف میں حاضر تھے اور خطاب عام تھا ! مقصد یہ تھا کہ ان باتوں کی بشارت تمام صحابہ سن لیں اور اس ضمن میں ان دونوں شکایت کنندہ کو جواب بھی حاصل ہوجائے جس سے ان کو تسلی ہو۔ یہ بشارت دینے کے بعد کہ مسلمانوں پر معاشی خوشحالی اور مالی وسعت کا زمانہ جلد آنے والا ہے، آپ ﷺ نے یہ واضح کردینا بھی ضروری سمجھا کہ مال و دولت کی فراوانی چونکہ عام طور پر انسان کو دنیا کے عیش و عشرت میں ڈال کر آخرت سے غافل کردیتی ہے اس لئے اہل ایمان کو چاہے اس فراخی و تونگری کے زمانہ میں یہ بات فراموش نہ کریں کہ دنیا میں مال و دولت کی آسائش و راحت دراصل میں آخرت میں تنگی و سختی اور ندامت کا باعث ہے، ہاں اگر مال و دولت کو دنیاوی آسائش و راحت کے ساتھ مصارف خیر میں خرچ کر کے آخرت کا توشہ بھی بنا لینے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوجائے تو دنیا و آخرت دونوں جگہ آسائش ہی آسائش ہوگی ! حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی اس شان نبوت کے تحت کہ آپ ﷺ بھلائیوں کی بشارت دینے والے بھی ہیں اور خرابیوں سے ڈرانے والے بھی ہیں مسلمانوں کو وسعت رزق اور فراغت معیشت کی بشارت بھی عطا فرمائی اور قیامت کے دن کی سختی و شدت اور ہولناکی سے ڈرایا بھی ترجمان اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی بات کو ایک زبان سے دوسری زبان میں بیان کرے، اس کو مترجم کہا جاتا ہے پس۔ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کسی مترجم وغیرہ کا واسطہ نہیں ہوگا پروردگار کے حضور بندہ کی براہ راست پیشی اور گفتگو ہوگی۔ کیا میں نے تجھ کو مال و زر عطا نہیں کیا تھا ؟ یہ استفہام اقراری ہے یعنی ! میں نے تجھ کو مال و دولت سے سرفراز کیا، تجھ پر اپنا فضل و انعام کیا، اس مال و دولت کو خرچ کرنے اس سے فائدہ اٹھانے اور مستحق و ضرورت مند لوگوں پر اس کو صرف کرنے کی قدرت عطا کی۔ دائیں اور بائیں دوزخ کو دیکھنے کا ذکر کرنا دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ اس دن بندہ اپنے کو چاروں طرف سے دوزخ کے درمیان گھرا ہوا دیکھے گا اور اس ہولناک جگہ سے گو خلاصی کا راستہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا کہ اس کو دوزخ کے اوپر (پل صراط) سے گزرنا پڑے گا، اگر دنیا میں ایمان وتقوی کی زندگی اختیار کی ہوگی اور اللہ کا فضل شامل رہا تو اس کے اوپر سے گزر کر جنت میں پہنچ جائے گا ورنہ دوزخ میں گرپڑے گا۔ ارشاد ربانی ہے ا یت (وان منکم الا واردھا کان علی ربک حتما مقضیا ثم ننجی الذین اتقوا ) ۔ اور تم میں ایسا کوئی شخص نہیں جس کو اس (دوزخ) کے اوپر سے گزرنا نہ پڑے گا یہ تمہارے رب کا حتمی فیصلہ ہے، پھر ہم پرہیز گاروں کو نجات دیں گے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ اور اس کا ایک بہترین طریقہ صدقہ خیرات بھی ہے جس قدر مالی وسعت ہو، جتنی ہمت ہو اس کے مطابق غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مالی مدد کر کے اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا چاہیے اگر کوئی سائل تمہارے سامنے دست سوال دراز کرے تو تمہیں جو کچھ میسر ہو اس کو دے دو ، یہاں تک کہ تم کھجور کے ایک ٹکڑے کے برابر کوئی معمولی چیز دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتے تو وہی معمولی چیز دے کر اس کا سوال پورا کرو اور اگر سرے سے کچھ بھی دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تو کم سے کم یہ کرو کہ اپنے کھرے اور بھدے جواب کے ذریعہ اس کی دل شکنی کرنے کی بجائے نہایت نرمی و ملائمت کے ساتھ اس کے سامنے اپنا عذر بیان کرو اور ایسے الفاظ و اسلوب میں اس کو جواب دو کہ وہ تمہارے برتاؤ ہی سے خوش ہوجائے، بشرطیکہ اس میں دین کی مداہنت نہ ہو،۔

【8】

دین کی راہ میں سخت سے سخت اذیت سہنا ہی اہل ایمان کا شیوہ ہے

اور حضرت خباب ابن ارت کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نے نبی کریم ﷺ سے اس وقت جب کہ آپ ﷺ کعبہ اقدس کے سائے میں سر کے نیچے کملی رکھے ہوئے لیٹے تھے (کفار کی سخت ترین مخالفت اور دشمنی کی) شکایت کی کہ ان سے ہم لوگوں کو بہت اذیت اور تکلیف پہنچتی ہے اور عرض کیا کہ (جب وہ لوگ ایذاء رسانی سے باز نہیں آتے تو) آپ ﷺ ان کے حق میں بد دعا کیوں نہیں فرماتے (ہماری یہ بات سنتے ہی) آپ ﷺ اٹھ بیٹھے اور چہرہ مبارک سرخ ہوگیا فرمایا تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان میں ایک وہ شخص تھا جس کے لئے زمین میں ایک گڑھا کھودا جاتا تھا پھر اس شخص کو اس گڑھے میں بٹھایا یا کھڑا کیا جاتا تھا اور پھر آرہ لا کر اس کے سر پر رکھا جاتا تھا اور اس آرہ سے اس کو چیز کر اس کے دو ٹکڑے کردیئے جاتے تھے لیکن یہ سخت عذاب بھی اس کو دین سے پھرنے نہیں دیتا تھا اور ایک وہ شخص تھا جس کے جسم پر لوہے کی (تیز) کنگھی چلائی جاتی تھی جو گوشت کے نیچے ہڈیوں اور پٹھوں تک کو چیرتی چلی جاتی تھی لیکن یہ سخت ترین عذاب بھی اس کو دین سے پھرنے نہیں دیتا تھا، اللہ کی قسم یہ دین یقینا درجہ کمال کو پہنچے گا اور تم مصیبتوں اور پریشانیوں کے ختم ہوجانے والے اس دور کے بعد آسانیوں اور اطمینان کا وہ زمانہ بھی دیکھو گے کہ) ایک شخص صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرے گا، یا یہ کہ کسی شخص کو اپنی بکریوں کے بارے میں بھیڑیوں سے بھی کوئی خوف و خطرہ نہیں ہوگا، لیکن تم جلدی کرتے ہو، (بخاری) تشریح چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ یہ دراصل اس کرب اور اس اندورنی کیفیت کا اظہار تھا جو صحابہ کی زبان سے کافروں اور دین کے دشمنوں کے ظلم وستم اور ان کی ایذاء رسانیوں کو سن کر آپ ﷺ پر طاری ہوئی ! یا یہ کہ آپ ﷺ کو چونکہ یہ پسند نہیں تھا کہ کافروں کے ظلم و ستم پر آپ ﷺ کے صحابہ بےصبری کا اظہار کریں اور زبان پر حرف شکایت لائیں اس لئے جب ان صحابہ نے کفار کی مخالف و دشمنی اور ایذا رسانی کی شکایت کی تو ناگواری اور غصہ کی وجہ سے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ آپ ﷺ نے آگے جو فرمایا اس کو دیکھتے ہوئے یہی مطلب زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ صنعاء دمشق (شام) کے نواح میں ایک گاؤں کا نام تھا جیسا کہ قاموس میں لکھا ہے اور اصل میں جزیرہ نما عرب کے مشہور ملک یمن کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ پانی کی فراواینی اور درختوں کی کثرت کی وجہ سے یمن کی سرسبزی وشادابی اور زرخیزی بہت مشہور ہے۔ حضرموت بھی پہلے یمن ہی کا ایک حصہ تھا اور ایک جگہ کا نام تھا لیکن اب عدن کے مشرقی سمت کے ایک بڑے علاقہ پر مشتمل بہت سے شہروں اور آبادیوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ ایک زمانہ میں یہاں صلحاء اور اہل اللہ کی قدر کثرت رہا کرتی تھی اور اس سر زمین پر اتنے اولیاء اللہ پیدا ہوتے تھے کہ یہ مقولہ ہی ہوگیا تھا حضرموت منبت الالیاء یعنی حضرموت وہ جگہ ہے جہاں اولیاء اللہ اگتے ہیں۔ اس جگہ کا نام حضرموت اس وجہ سے مشہور ہے کہ جلیل القدر پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) کا انتقال یہیں ہوا تھا اور وفات کے وقت انہوں یہ جملہ فرمایا تھا، حضرالموت (موت حاضر ہوگئی) اسی وقت سے اس جگہ کا نام ہی حضرموت پڑگیا۔ اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ایک اور پیغمبر حضرت جرجیس (علیہ السلام) کی موت اسی جگہ آئی تھی اور اس وقت سے اس کو حضرموت کہا جانے لگا۔ کسی شخص کو اپنی بکریوں کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کے اصل معنی مراد نہیں ہیں، یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ واقعہ بھیڑئیے بکریوں پر حملہ کرنا اور ان کو درندگی کا نشانہ بنانا چھوڑ دیں گے کیونکہ عادتاً ایسا ممکن ہی نہیں ہے، اگرچہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب اس دنیا میں نازل نہیں ہوں گے اور عام دردبست ان کے ہاتھ میں ہوگا تو اس وقت اتنا برکت امن وامان قائم ہوگا کہ بھیڑئیے بھی بکریوں پر حملہ کرنے سے باز رہیں گے، بلکہ اس جملہ کا اصل مقصد انسانوں کے باہمی اعتبار و اعتماد اور امن وامان کو شدت کے ساتھ ظاہر کرنا ہے کہ اس وقت لوگ ایک دوسرے کے ظلم و ستم اور زور زبردستی سے بالکل محفوظ و مامون ہوں گے اور پورا معاشرہ اس طرح کے امن و عافیت سے بھر پور ہوگا جس کا تصور بھی زمانہ جاہلیت میں نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لیکن تم جلدی کرتے ہو،۔ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے گویا صحابہ کو تسلی دی کہ تمہیں گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار نہ ہونا چاہے اور نہ اس بات کی توقع رکھنی جائیے کہ جس عظیم مقصد کی راہ میں تم لگے ہوئے ہو اس کو بغیر اذیت و پریشانی اٹھائے اور بہت جلد سر کرلو گے۔ اس راہ میں بڑی رکاوٹیں بھی ہیں اور شدید ترین مصائب بھی، جہاں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے سخت ترین جدوجہد کرنا پڑے گی وہیں ان مصائب پر و استقامت کا دامن بھی تھامے رکھنا ہوگا، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اللہ نے چاہا تو اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کا عناد آمیز رویہ اور اذیت ناک برتاؤ جلد ختم ہوجائے گا اور آخر الامر اللہ کے دین کا بول بالا ہوگا لہٰذا تم دین کی راہ میں تمام مصائب پر صبر کرو جیسا کہ گزشتہ امتوں کے اہل حق اور اہل ایمان لوگوں نے ان مصائب اور اذیتوں پر اپنے یقین و ایمان کی قوت کے سہارے صبر کیا جو تمہیں پیش آنے والے مصائب اور اذیتوں سے کہیں زیادہ درد ناک اور سخت ترین تھیں۔

【9】

ایک خواب اور دعا

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان کے ہاں آیا جایا کرتے تھے جو حضرت عبادہ بن صامت کی بیوی تھیں، ایک دن (حسب معمول) آنحضرت ﷺ ام حرام کے ہاں تشریف لائے تو ام حرام نے آپ کو کھانا کھلایا اور پھر آپ ﷺ کے سر مبارک میں جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں، اس دوران آپ ﷺ سو گئے پھر (کچھ ہی دیر بعد) ہنستے ہوئے بیدار ہوگئے ! ام حرام نے بیان کیا کہ میں نے (آپ ﷺ کو اس حالت میں ہنستے ہوئے دیکھا تو) پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کو کس چیز نے ہنسایا ؟ فرمایا (خواب میں) میری امت میں سے ایک جماعت اس حال میں میرے سامنے لائی گئی اور مجھ کو دکھائی گئی کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہی تھی اور سمندر میں اس طرح محو تھی جیسے بادشاہ اپنے تحت پر ہوتے ہیں۔ یا یہ فرمایا کہ بادشاہوں کی طرح جو تخت پر جلوہ گر ہوں۔ میں نے (یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیئجے کہ وہ ان مجاہدوں میں جو سمندر کے سینے کو چیرتے ہوئے اللہ کی راہ میں جہاد کو نکلیں) مجھ کو بھی شامل کر دے۔ آپ ﷺ نے ام حرام کے حق میں دعا کردی۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے (تکیہ پر) سر رکھا اور پھر سو گئے (کچھ دیر بعد) پھر آپ ﷺ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ اب کیوں ہنسے ؟ فرمایا (اب پھر (خواب میں) میری امت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے اس حال میں پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے تھے جیسا کہ آپ ﷺ نے پہلی مرتبہ فرمایا تھا (اس مرتبہ بھی وہی الفاظ ارشاد فرمائے کہ وہ لوگ سمندر میں اس طرح محو سفر تھے جیسے بادشاہ اپنے تخت پر ہوتے ہیں) میں نے (یہ سن کر اس مرتبہ) پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ان مجاہدوں میں مجھ کو بھی شامل کر دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ! پہلی جماعت میں ہو۔ چناچہ حضرت ام حرام نے حضرت معاویہ (رض) کے زمانہ میں (جہاد کی غرض سے) بحری سفر کیا اور جب سمندر سے اتر کر جانور پر سوار ہوئیں تو (اچانک) جانور کی پشت سے زمین پر گرپڑیں اور (راہ اللہ میں شہادت کا مرتبہ پا کر اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔ (بخاری ومسلم ) تشریح ام حرام ملحان ابن خالد کی بیٹی ہیں، قبیلہ بنی نجار سے تعلق رکھتی ہیں، حضرت انس (رض) کی خالہ ہیں اور ان کی والدہ حضرت ام سلیم کی بہن ہیں، یہ دونوں یعنی ام حرام اور حضرت ام سلیم دودھ کے رشتہ سے یا کسی نسبی قرابت سے آنحضرت ﷺ کی خالہ تھیں، امام نووی نے لکھا ہے کہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ حضرت ام حرام آنحضرت ﷺ کی محرم تھیں اسی لئے آپ ﷺ بےتکلفی کے ساتھ دوپہر میں ان کے ہاں جا کر قیلولہ فرمایا کرتے تھے، لیکن کیفیت محرمیت میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کسی نے کسی تعلق سے محرم کہا ہے اور کسی نے کسی تعلق سے ! حضرت ام حرام مشرف باسلام ہوئیں اور آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر بیت کی اور حضرت عثمان (رض) کے زمانہ خلافت میں اپنے خاوند حضرت عبادہ ابن صامت (رض) کے ساتھ جو انصار میں سے ایک جلیل القدر صحابی ہیں اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلیں اور سر زمین روم میں پہنچ کر مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوئیں۔ سر مبارک میں جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں۔ پہلے یہ تحقیقی قول گزر چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بدن مبارک کے کسی بھی حصہ میں جوئیں نہیں تھیں۔ حضرت ام حرام کا مقصد آپ ﷺ کے مبارک بالوں کو گرد و غبار سے صاف کرنا تھا اور یہ دیکھنا تھا کہ کہیں کوئی جوں تو نہیں ہے، اگر ہو تو نکال دیں۔ یا یہ فرمایا کہ بادشاہوں کی طرح جو تخت پر جلوہ گر ہوں۔ اس موقع پر دراصل روای نے آپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ یہاں آنحضرت ﷺ نے ملوکا علی الاسرۃ کے الفاظ ارشاد فرمائے یا مثل الملوک علیہ الاسرۃ کے الفاظ دونوں جملوں میں بہت معمولی سا لفظی فرق ہے، معنی و مفہوم کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں۔ اس جملہ میں آنحضرت ﷺ نے سمندر کے سینہ کو گویا زمین کی پشت سے اور کشتی کو تخت سے مشابہت دی اور کشتی میں سوار ہونے کو تخت سلطنت پر بادشاہ کے بیٹھنے کے مشابہ قرار دیا اور اس طرح آپ ﷺ نے یہ اشارہ فرمایا کہ وہ لوگ اگرچہ اپنی جان ہتھلی پر رکھ کر اتنی خطرناک مہم پر روانہ ہوں گے لیکن قصد کے تئیں اخلاص و یقین اور رضائے الہٰی کے حصول کا جذبہ صادق رکھنے کی وجہ سے ان کے دلوں میں نہ خوف ہوگا نہ گھبراہٹ وہ اس قدر ذہنی و دماغی اطمینان و سکون اور قلبی طمانیت و نشاط کے ساتھ کھلے سمندر میں سفر کریں گے اور کشتیوں میں بیٹھے ہوں گے جیسے کوئی بادشاہ اپنے محفوظ و مامون محل میں تحت سلطنت پر اطمینان سے بیٹھا ہو۔ تم پہلی جماعت ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو دوسری مرتبہ خواب میں جماعت دکھائی دی۔ وہ اس جماعت کے علاوہ دوسرے لوگوں پر مشتمل تھی جو پہلی مرتبہ دکھائی گئی تھی، اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ اس امت کی کوئی نہ کوئی جماعت برابر سمندری سفر کر کے کے راستہ میں جہاد کرتی رہے گی، کبھی کوئی لشکر برسر پیکار ہوگا اور کبھی کوئی لشکر سمندروں کا سینہ چیرتا ہوا دشمنان حق پر حملہ آور ہوگا۔ لہٰذا جب حضرت ام حرام نے دوسری مرتبہ آنحضرت ﷺ سے دعا کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے حق میں تو پہلی مرتبہ کی دعا قبول ہوچکی ہے اور تم اس جماعت میں شامل ہوگی جو سب سے پہلے بحری سفر کر کے اللہ کے راستہ میں جہاد کرے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا مرتبہ کہ جنہیں پہلے جہاد کی سعادت نصیب ہوئی، بعد کے مجاہدین کے مرتبہ سے بلند ہے۔ روایت کے آخری الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سفر جہاد میں حضرت ام حرام کی روانگی اور سواری کے جانور کی پشت سے گر کر ان کی وفات پانے کا واقعہ حضرت امیر معاویہ (رض) کی حکومت کے زمانہ کا ہے جب کہ اسماء الرجال اور سیر کی کتابوں میں ان کی وفات حضرت عثمان (رض) کی خلافت کے زمانہ میں بیان کی گئی ہے، تو یہ سلسلہ میں اصل بات یہ ہے کہ یہاں حضرت معاویہ (رض) کے زمانہ سے مراد ان کی گورنری کا زمانہ ہے، یعنی حضرت عثمان (رض) کی خلافت کے زمانہ میں جب معاویہ عامل و گورنر تھے تو اس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا نہ کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حضرت معاویہ (رض) بذات خود تخت امارت و حکومت پر فائز تھے، اس کی وضاحت سے دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد باقی نہیں رہتا۔

【10】

زبان رسالت کا اعجاز

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ازدشنوہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص جس کا نام ضماد تھا (اسلام کے ابتدائی زمانہ میں) مکہ آیا وہ ہوا (یعنی آسیب و جن) اتارنے کے لئے جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا، جب اس نے مکہ کے بیوقوفوں کی زبان سے یہ سنا کہ محمد ﷺ دیوانہ ہوگیا ہے تو اس نے کہا کہ اگر میں اس شخص محمد ﷺ کو دیکھوں (تو علاج کر دوں) شاید اللہ تعالیٰ اس کو میرے علاج سے ٹھیک کر دے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد ضماد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے محمد ﷺ میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ آسیب و جن دفع کرتا ہوں، اگر تو چاہو تو میں اپنی جھاڑ پھونک کے ذریعہ تمہارا علاج کروں ؟ رسول کریم ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ہم اسی کی حمد و ثنا کرتے ہیں، (اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں) اور اسی سے (ذکر وطاعت اور عبادت کی توفیق اور) مدد چاہتے ہیں، وہ جس کو سیدھا راستہ دکھا دے (اور مقصد یاب کرے) اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جس کو وہ گمراہ کر دے اس کو کوئی ہدایت نہیں کرسکتا اور منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، بعد ازاں۔ ضماد (یہاں تک سننے کے بعد) بیساختہ بولا کہ ان جملوں کو ایک مرتبہ پھر میرے سامنے ارشاد فرمائے آنحضرت ﷺ نے ان جملوں کو پھر ارشاد فرمایا اور تین بار ارشاد فرمایا۔ ضماد نے کہا میں نے کاہنوں کے اقوال سنے ہیں میں نے ساحروں کے کلمات سنے ہیں میں نے شاعروں کے اشعار سنے ہیں، لیکن (خدا کی قسم) آج تک میں نے آپ ﷺ کے ان کلمات و اقوال کے مانند کوئی کلام نہیں سنا، حقیقت تو یہ ہے کہ آپ ﷺ کے کلمات (فصاحت و بلاغت اور تاثیر کے اعتبار سے) دریائے علم و کلام کی انتہائی گہرائیوں تک پہنچے ہوئے ہیں، لائیے اپنا ہاتھ بڑھائیے، میں (آپ ﷺ کے دست مبارک پر) اسلام کی بیعت کرتا ہوں۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ضماد نے (اسی وقت) آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اور مسلمان ہوگیا۔ (مسلم) تشریح مصابیح کے بعض نسخوں میں ( بلغن کی جگہ) بلغنا ہے اور (قاموس البحر کی جگہ) ناعوس البحر ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت یہلک کسری الخ اور حضرت جابر بن سمرۃ (رض) کی روایت لتفتحن عصابۃ الخ باب الملاحم میں نقل کی جا چکی ہیں۔ تشریح ضماد ویسے تو ض کے زیر اور آخر میں د کے ساتھ (ضماد) ہے لیکن بعض حضرات نے اس نام کو آخر میں م کے ساتھ یعنی ضمام نقل کیا ہے۔ شنوۃ یمن کے ایک بہت بڑے قبیلہ کا نام ہے اور ازد اسی قبیلہ کی ایک شاخ کو کہتے ہیں۔ ضماد اپنے وقت کا ایک بڑا طبیب بھی تھا فسوں گر بھی، علم کے میدان سے اچھا خاصا تعلق رکھتا تھا۔ عملیات یعنی جھاڑ پھونک اس کا خاص فن اور پیشہ تھا، زمانہ نبوت سے پہلے ہی آنحضرت ﷺ سے اس کی شناسائی تھی، اسی لئے جب اعلان نبوت کے بعد وہ مکہ آیا اور بد باطن مشرکین مکہ کے عناد آمیز اور شرانگیز پروپیگنڈہ کے ذریعہ اس تک یہ بات پہنچی کہ (نعوذ باللہ) محمد ﷺ پر آسیب کا اثر ہے یا ان پر دیوانگی کا مرض غالب آگیا ہے جس کی وجہ سے وہ بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں، تو اس نے اپنے پچھلے تعلق کی بنا پر از خود اور بزعم خود آنحضرت ﷺ کا علاج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچ گیا، آنحضرت ﷺ نے اس کی بات سن کر یہ مناسب سمجھا کہ مخالفین اسلام کے بےسروپا پروپیگنڈہ کے زیر اثر اس نے جو رائے قائم کی ہے اس کی تردید براہ راست نہ کی جائے بلکہ اس کے سامنے اللہ کا پیغام اور دین کی بات اس انداز اور پیرایہ میں رکھی جائے جس سے خود جان جائے کہ جس شخض کو بیوقوف لوگ دیوانہ یا آسیب زدہ کہتے ہیں وہ درحقیقت کیا حیثیت رکھتا ہے اور عقل و دانائی کے کس مقام پر فائز ہے چناچہ آپ ﷺ نے اس کے سامنے پند و نصیحت پر مشتمل خطبہ ارشاد کرنے کے لئے ابھی حمد و ثنا کے کلمات اور تمہدی جملے ہی ارشاد فرماتے تھے اور اما بعد (بعد ازاں) کہہ کر اصل خطبہ شروع کرنا چاہتے تھے کہ زبان رسالت کے اعجاز نے ضماد کو آگے کچھ اور سننے کی ضرورت ہی باقی نہ رہنے دی اس کو خطبہ کے ان تمہیدی جملوں ہی سے اپنے دل و دماغ کی دنیا بدلتی محسوس ہونے لگی، اس نے درخواست کر کے بار بار ان الفاظ کو زبان رسالت سے سنا اور جب اس کے دل و دماغ نے گواہی دے دی کہ یہ شخص نہ دیوانہ ہے اور نہ آسیب و جن کے زیر اثر بلکہ حقیقت میں اللہ کا رسول اور پیغمبر ہے اور اس کے بارے میں مخالفین و معاندین کا جو گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے اس کا اصل مقصد لوگوں کو اس شخص سے اور اس کی سچی باتوں سے دور رکھنا ہے تو اس نے فورا آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کرلی اور مسلمان ہوگیا، اس طرح ضماد ان خوش نصیب صحابہ میں سے جنہیں ابتدائے اسلام ہی میں حلقہ بگوش دین ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ (رض) علیہ۔ قاموس البحر میں اصل لفظ قاموس ہے یا ناعوس اس کے متعلق شارح مسلم امام نووی نے لکھا ہے کہ ہم نے اس لفظ کو دونوں طرح یعنی ناعوس بھی نقل کیا ہے اور قاموس، بھی ہمارے یہاں صحیح مسلم کے جو نسخے پائے جاتے ہیں اس میں ناعوس ہی کا لفظ ہے، لیکن صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں کی مشہور روایتوں میں لفظ قاموس لکھا ہے۔ اور قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ بعض حضرات نے ناعوس کا لفظ نقل کیا ہے اور ہمارے شیخ ابوالحسن نے کہا ہے کہ ناعوس کے وہ معنی ہیں جو قاموس کے ہیں۔ لیکن تورپشتی نے کہا ہم کہ (صحیح لفظ قاموس ہی ہے) ناعوس کا لفظ خطاء و تصحیف اور کسی راوی کا وہم ہے ویسے یہ ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ بعض حضرات کے نزدیک یہ لفظ قاموس بھی منقول ہے، نیز لغت کی مشہور کتابوں میں، ناعوس، کا لفظ نہیں ملتا۔

【11】

قیصر روم کے دربار میں ابوسفیان کی گواہی

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ابوسفیان ابن حرب نے مجھ کو منہ در منہ یہ بیان کیا ہے کہ اس صلح (حدیبیہ) کی مدت میں جو میرے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان تھی (اور نہ صرف یہ کہ میں مسلمان نہیں ہوا تھا بلکہ دشمنان اسلام کا سردار تھا) میں نے سفر کیا اور اتفاق سے اس وقت جب کہ نبی کریم ﷺ کا نامہ مبارک ہرقل (قیصر روم کے پاس پہنچا میں ملک شام میں مقیم تھا ! ابوسفیان نے کہا کہ نامہ مبارک دحیہ کلبی لے کر آئے تھے جس کو انہوں نے بصری کے حاکم کے پاس پہنچایا اور بصری کے حاکم نے اس نامہ مبارک کو ہرقل کی خدمت میں پیش کیا، ہرقل نے پوچھا کہ کیا اس شخص کی قوم کا کوئی آدمی یہاں ہے جو اپنے نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے (تاکہ میں اس مدعی نبوت کے بارے میں معلومات حاصل کر کے یہ جان سکوں کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا ؟ ) اس کے عملہ نے بتایا کہ ہاں (اس شخص کی قوم سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ہے جو ہمارے یہاں تجارت کی غرض سے آیا ہوا ہے) چناچہ مجھے قریش کی ایک جماعت کے ساتھ (جو بیس آدمیوں پر مشتمل تھی) ہرقل کے دربار میں طلب کیا گیا۔ جب ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو ہمیں اس کے سامنے بٹھایا گیا (تاکہ آسانی کے ساتھ ہم اس کی اور وہ ہماری بات سن سکے) سب سے پہلے ہرقل نے پوچھا کہ تم میں سے کون آدمی اس شخص کا قریبی رشتہ دار ہے جون بوت کا مدعی ہے ؟ ابوسفیان کا بیان ہے کہ (یہ سن کر) میں نے کہا کہ اس شخص کا سب سے قریبی رشتہ دار میں ہوں۔ اس کے بعد تنہا مجھ کو ہرقل کے سامنے تخت شاہی کے قریب) بٹھا دیا گیا اور میرے ساتھ والوں کو میرے پیچھے بٹھلایا گیا۔ پھر ہرقل نے اپنے مترجم کو طلب کیا (جو عربی اور رومی دونوں زبانیں جانتا تھا) اور اس سے کہا کہ تم اس شخص (ابو سفیان) کے ساتھیوں سے کہہ دو میں اس (ابوسفیان) سے اس شخص کے حالات معلوم کروں گا جو نبوت کا دعوے کرتا ہے، اگر یہ (ابوسفیان) مجھ کو کوئی غلط بتائے تو تم لوگ (بلا جھجک) اس کی تردید کرنا اور مجھے صحیح بات بتادینا۔ ابوسفیان کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ مجھے دروغ گو مشہور کردیا جائے گا تو یقینا میں ہرقل کے سامنے جھوٹ بولتا (اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں صحیح بات نہ بتاتا) اس کے بعد ہرقل نے اپنے مترجم سے کہا کہ ابوسفیان سے پوچھو ! تمہارے درمیان اس شخص (آنحضرت ﷺ کا حسب کیسا ہے ؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں نے کہا وہ شخص ہم میں حسب والا ہے یعنی اعلی حسب رکھتا ہے۔ پھر ہرقل نے پوچھا کی اس شخص کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ میں نے کہا کبھی نہیں ! پھر ہرقل نے پوچھا جو کچھ وہ اب کہتا ہے اس سے پہلے بھی اس نے کبھی ایسی بات کہی جس کو تم نے جھوٹ سمجھا ہو (یعنی نبوت کا دعوی کرنے سے پہلے کے زمانہ میں کیا وہ جھوٹ بولا کرتا تھا یا کسی شخص نے کبھی اس پر جھوٹ کا الزام لگایا تھا ؟ ) میں نے کہا نہیں ! پھر ہرقل نے پوچھا اس کا اتباع کرنے والے اور اس پر ایمان لانے والے لوگ کون ہیں ؟ شرفاء یا کمزور ضعیف لوگ ؟ ابوسفیان نے کہا کہ میں نے جواب دیا کہ اس کے ابتاع کرنے والے کمزور ضعیف لوگ ہیں ہرقل نے پوچھا اس شخص کے تابعداروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے ؟ ابوسفیان نے کہا کہ میں نے جواب دیا کہ کم نہیں ہو رہی بلکہ زیادہ ہو رہی ہے پھر ہرقل نے پوچھا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی اس سے ناخوش ہو کر یا اس دین کی راہ میں پیش آنے والی سختی سے بیزار ہو کر دین کو چھوڑ بھی بیٹھتا ہے ؟ ابوسفیان نے کہا کہ میں نے جواب دیا نہیں کوئی نہیں چھوڑتا پھر ہرقل نے پوچھا کیا تم لوگ اس سے لڑتے ہو ؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں پھر ہرقل نے پوچھا کہ اس سے تمہاری لڑائی کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ ابوسفیان نے کہا کہ میں نے جواب دیا ہمارے اس کے درمیان ہونے والی جنگ دو ڈولوں کی مانند ہوتی ہے کبھی ہم اس کو بھگتتے ہیں اور کبھی وہ ہم کو بھگتتا ہے یعنی ہمارے اور اس کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کا حال ان دو ڈولوں کی طرح ہے جن کو بیک وقت پانی سے بھرنے کی کوشش کی جائے کہ کبھی ایک بھر جاتا ہے تو دوسرا خالی رہ جاتا ہے اور کبھی دوسرا بھر جاتا ہے تو پہلا خالی ہوجاتا ہے ایسے ہی کبھی ہم اس مدعئی نبوت اور اس کے ساتھیوں پر غالب آجاتے ہیں اور کبھی وہ ہم پر غالب آجاتا ہے اسی طرح کبھی ہم اس کی وجہ سے مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور کبھی وہ ہماری وجہ سے مصائب و تکلیف اٹھاتا ہے پھر ہرقل نے پوچھا کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے یعنی کسی سے صلح کرنے کے بعد اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس نے کسی سے صلح کی ہو اور اس کو از خود ختم کردیا ہو، البتہ آج کل ہمارے اور اس کے درمیان جو صلح (یعنی صلح حدیبیہ) ہے اس کے بارے میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کی روش کیا رہے گی (آیا وہ اس صلح کو اس کی مدت ختم ہونے سے پہلے توڑ دے گا یا باقی رکھے گا ) ۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم (ہرقل سے پورے سوال و جواب کے درمیان) صرف ایک بات ایسی تھی جو میں نے اپنے جذبات کے تحت کہی تھی اس کے علاوہ اور کوئی بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی (یعنی ہرقل کے کسی سوال کے جواب میں کوئی ایسی بات کہنے پر قادر نہیں ہوسکا جو میرے نزدیک خلاف حقیقت تھی یا جس سے آنحضرت ﷺ کی توہین و تنقیص ہوتی ہاں اس ایک بات کا اظہار اپنی طرف سے میں نے بیشک کیا کہ آج کل ہمارے اور ان کے درمیان جو صلح چل رہی ہے اس کے بارے میں ہمیں یہ خوف ہے کہ کہیں وہ عہد شکنی نہ کریں میری اس بات سے ذات رسالت کی طرف عہد شکنی کی نسبت کا احتمال ظاہر ہوتا تھا) بہر حال پھر ہرقل کا سوال یہ تھا کہ کیا اس طرح کی بات اس سے پہلے بھی کبھی کسی نے کہی ہے (یعنی مشہور پیغمبروں جیسے ابراہیم (علیہ السلام) ، اسماعیل (علیہ السلام) ، اسحق (علیہ السلام) ، یعقوب (علیہ السلام) ، اسباط (علیہ السلام) ، موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) وغیرہ کے علاوہ تمہاری قوم سے کسی اور شخص نے بھی اس سے پہلے نبوت کا دعوی کیا ہے ؟ ) میں نے جواب دیا ! نہیں۔ ( ان تمام سوال و جواب کے بعد) ہرقل نے ( ضروری سمجھا کہ اپنے ان سوالوں کو جو نبوت و رسالت کے باب میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں عقل و نقل اور تجربہ و معلومات کی روشنی میں واضح کرے۔ چناچہ اس نے) اپنے مترجم سے کہا کہ تم اس (سفیان) سے کہو کہ میں نے تمہارے درمیان اس شخص کے حسب کے بارے میں تم سے پوچھا اور تم نے بتایا کہ وہ حسب والا ہے تو حقیقت یہی ہے کہ رسول اور نبی اپنی قوم کے اشراف ہی میں سے ہوتے رہے ہیں۔ پھر میں نے پوچھا تھا کہ اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ تھا اور تم نے بتایا کہ کوئی نہیں، تو میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اگر اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں سمجھتا کہ وہ ایک شخص ہے جو اپنے باپ دادا کی حکومت کا طالب ہے (اور حکمرانی و سرداری کی اپنی اس طلب و خواہش کو نبوت کے دعوے کے ذریعہ ظاہر کر رہا ہے) پھر میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس کی اتباع کرنے والے لوگ اپنی قوم کے شرفاء (یعنی دولت و ثروت اور دنیاوی جاہ حشم رکھنے والے ہیں یا کمزور و ضعیف (یعنی مفلس و مسکین اور گوشہ نشین لوگ) ہیں اور تم نے بتایا کہ کمزور و ضعیف لوگ اس کے تابعدار ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ پیغمبروں کے تابعدار (عام طور پر) کمزور و ضعیف لوگ ہی ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس وقت وہ جو کچھ کہتا ہے (یعنی دعوی نبوت) اس سے پہلے کیا تمہیں کبھی اس کے جھوٹ کا تجربہ ہوا ہے۔ اور تم نے بتایا کہ نہیں تو میں نے سمجھ لیا کہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص لوگوں سے تو جھوٹ بولنے سے اجتناب کرے اور اللہ تعالیٰ کی نسبت جھوٹ بولے میں نے پوچھا تھا کہ اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس سے ناخوش ہو کر دین سے دین کو چھوڑ بھی بیٹھتا ہے ؟ اور تم نے بتایا تھا کہ نہیں، تو درحقیقت ایمان کا یہی حال ہے کہ وہ جب دلوں میں جگہ پکڑ لے اور روح اس کی لذت و حلاوت سے آشنا ہوجائے تو پھر ہرگز جدا نہیں ہوتا ( اور اگر شاد و نادر کوئی شخص دین چھوڑ بھی بیٹھے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل میں ایمان سرے سے داخل و راسخ ہیں نہیں ہوا تھا، میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس شخص کے تابعداروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے ؟ اور تم نے بتایا تھا کہ بڑھ رہی ہے تو درحقیقت ایمان کا یہی حال ہے (کہ روز بروز اس کا دائرہ اثر وسیع تر ہوتا جاتا ہے اور اہل ایمان کی تعداد بڑھتی رہتی ہے) آخر کار وہ پایہ تکمیل و اتمام پہنچ جاتا ہے میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم لوگ اس سے لڑتے ہو ؟ اور تم نے جواب دیا تھا کہ ہاں لڑتے ہیں اور لڑائی کا انجام دو ڈولوں کی طرح ہوتا ہے کہ کبھی وہ تم سے مصیبت اٹھاتا ہے اور کبھی تم اس سے مصیبت اٹھاتے ہو، تو حقیقت یہ کہ رسولوں کا امتحان اسی طرح لیا جاتا ہے (کہ کبھی ان کے دشمنان دین پر غلبہ عطا کیا جاتا ہے اور کبھی دشمنوں کو ان پر غالب کردیا جاتا ہے) لیکن انجام کار رسولوں اور ان کے تابعداروں ہی کامل فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے اور ان کا دین چھا جاتا ہے میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا وہ شخص عہد شکنی کرتا ہے اور تم نے جواب دیا تھا کہ وہ عہد شکنی نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول عہد شکنی نہیں کرتے اور میں نے تم سے سوال کیا تھا کہ۔۔۔۔۔ تمہاری قوم میں اس سے پہلے بھی کسی نے ایسی بات کہی ہے یعنی نبوت کا دعوی کیا ہے ؟ اور تم نے جواب دیا تھا کہ نہیں، تو میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اگر اس سے پہلے کسی نے اس طرح نبوت کا دعوی کیا ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ یہ پہلے شخص کی پیروی میں اس طرح کا دعوی کر رہا ہے۔ ابوسفیان کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہرقل نے مجھ سے پوچھا کہ (اچھا یہ بتاؤ) وہ شخص تم کو کس بات کا حکم دیتا ہے ؟ میں نے کہا وہ ہم سے کہتا ہے کہ نماز پڑھو، زکوٰۃ دو ، ناطے داروں سے محبت اور اچھا سلوک کرو اور حرام چیزوں سے بچو۔ ہرقل نے (یہ سن کر کہا) اگر تمہارا بیان درست ہے تو یقینا وہ شخص پیغمبر ہے۔ اور مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ (آخر زمانہ میں) ایک پیغمبر پیدا ہونے والا ہے لیکن میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ تمہاری قوم میں پیدا ہوگا، اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان سے ملاقات کرنا میرے لئے سب سے زیادہ پسندیدہ بات ہوتی۔ اور اگر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو ان کے دونوں پاؤں (اپنے ہاتھ سے) دھوتا اور (میں تم کو بتاتا ہوں) اس کی حکومت و اقتدار کا دائرہ اس زمین (ملک روم و شام) تک پہنچ جائے گا جو میرے قدموں کے نیچے ہے، پھر ہرقل نے آپ ﷺ کا نامہ مبارک مانگا اور اس کو پڑھا۔ (بخاری ومسلم) اور یہ حدیث پیچھے باب الکتاب الی الکفار میں پوری نقل ہوچکی ہے تشریح ابوسفیان نے مجھ کو منہ در منہ یہ بیان کیا ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے گویا یہ وضاحت کی ہے کہ ابوسفیان نے اپنا واقعہ مجھ کو براہ راست خود بیان کیا ہے، یہ نہیں کہ کسی واسطہ و ذریعہ سے مجھ کو نقل ہوا ہے۔ لیکن یہ کہنا زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ان الفاظ کے ذریعہ گویا یہ واضح کیا کہ جب ابوسفیان (رض) نے یہ واقعہ مجھ سے بیان کیا تو اس وقت میرے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا، چناچہ حدثنی کا لفظ بھی اسی مطلب پر دلالت کرتا ہے۔ جب کہ نبی کریم ﷺ کے درمیان تھی۔ میں مدت سے مراد صلح حدیبیہ کا زمانہ ہے۔ یہ صلح ٦ ھ میں ہوئی تھی اور صلح نامہ کی رو سے اس کی مدت دس سال کی قرار پائی تھی لیکن خود کفار مکہ نے اس صلح کو درمیان ہی میں اس طرح ختم کردیا تھا کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے حلیف قبیلہ خزاعہ کے بعض لوگوں کو ناحق قتل کردیا تھا، جس کی بناء پر آنحضرت ﷺ کو کفار مکہ سے جنگ کرنا پڑی اور اس کے نتیجہ میں مکہ فتح ہوا۔ یہ ٨ ھ کا واقعہ ہے۔ جب کہ نبی کریم ﷺ کا نامہ مبارک ہرقل کے پاس پہنچا ہرقل کا لفظ ہ کے زیر اور ر کے زبر اور ق کے جزم کے ساتھ (یعنی ہرقل) بھی آتا ہے اور ہ کے زبر رکے جزم اور ق کے زبر کے ساتھ (یعنی ہرقل) بھی منقول ہے، یہ اس وقت کی رومی سلطنت کے بادشاہ کا نام تھا، دراصل رومی سلطنت جو اپنے وقت کی سب سے بڑی عالمی طاقت تھی اور جس کے زیر نگین علاقوں میں تمام براعظم یورپ، مصر اور ایشیائے کوچک شامل تھا جب چوتھی صدی عیسوی کے اوائل میں دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو مغربی حصہ کا دار السلطنت اٹلی کا شہر روما ہی رہا اور مشرقی حصہ کا دار السلطنت قسطنطینہ قرار پایا جس طرح قدیم اور متحد رومی سلطنت کے حکمراں کو قیصر کہا جاتا تھا اسی طرح ان دونوں منقسم سلطنتوں کے حکمرانوں نے بھی اپنے اپنے لئے قیصر ہی کے لقب کو اختیار کیا یہی وجہ ہے کہ قسطنطیہ کے بادشاہ کو بھی قیصر روم کہا جاتا تھا جس کے تحت مصر حبش فلسطین شام اور ایشیائے کوچک و بلقان، کے ممالک تھے اس مشرقی رومی سلطنت کی شان و شوکت اور قوت و سطوت کے آگے مغربی روم کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی تھی، آنحضرت ﷺ کی ولادت کے وقت قسطنطنیہ کی سلطنت میں زبردست بغاوت ہوئی اور اس وقت کے قیصر فوقاکو امرائے سلطنت اور رعایائے ملک نے تخت سے اتار کر قتل کردیا اور افریقی مقبوضات کے گورنر یعنی فرمانروائے مصر کو قسطنطنیہ کا تخت سنبھالنے کی دعوت دی، گورنر افریقہ پیرانہ سالی کی وجہ سے نہ جاسکا لیکن اس کا جوان العمر بیٹا ہرقل قسطنطنیہ پہنچ کر اس عظیم سلطنت کا فرمانروا بن گیا اور ارکان سلطنت نے بھی ہرقل کی شہنشاہی کو بخوشی تسلیم کرلیا، پوری سلطنت کی طرح خود بھی عیسائی تھا، دیناروں پر ٹھپہ لگا کر اس کو باقاعدہ شکل دینے والا پہلا بادشاہ یہی ہرقل ہے، عیسائی دنیا میں یہ امتیاز بھی اسی کو حاصل ہے کہ گرجا گھر سب سے پہلے اسی نے تعمیر کرائے اور آنحضرت ﷺ نے دوسرے بادشاہوں اور سرداروں کے ساتھ جس قیصر روم کو اسلام کی دعوت کا نامہ مبارک روانہ فرمایا تھا وہ یہی ہرقل فرمانروائے سلطنت قسطنطنیہ تھا۔ بصری شام میں ایک شہر کا نام تھا اور سلطنت قسطنطنیہ (قیصر روم) کے زیر نگیں تھا، اس شہر کا حاکم، قیصر روم کے گورنر کی حیثیت سے بصری ہی کے پاس روانہ کیا تھا اور اس نے اس نامہ مبارک کو قیصر روم تک پہنچا یا تھا۔ تم میں سے کون آدمی اس شخص کا قریبی رشتہ دار ہے۔ کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ کسی شخص کے احوال و کوائف چونکہ اس آدمی کو زیادہ بہتر طور معلوم ہوتے ہیں اور وہی ان کو زیادہ صحیح طور پر بیان کرسکتا ہے، جو نسب اور رشتہ داری میں آنحضرت ﷺ سے زیادہ قریبی رشتہ داری رکھتے ہیں تو ان ہی کو سوال و جواب کے لئے منتخب کیا۔ اور میرے ساتھ والوں کو میرے پیچھے بٹھلایا گیا۔ ہرقل نے صحیح جوابات حاصل کرنے کے لئے یہ مزید احتیاط برتی کہ ابوسفیان کے تمام ساتھیوں کو ان کے پیچھے بٹھلایا تاکہ اگر ابوسفیان جواب دینے میں کچھ غلط بیانی کریں تو ان کے ساتھی آنکھ کے سامنے کا لحاظ کر کے ان کی ترید کرنے میں جھجک کا شکار نہ ہوں۔ یا ان لوگوں کو پیچھے بٹھانے میں ہرقل کا یہ مقصد بھی ہوسکتا تھا کہ اگر اور تمام لوگ ابوسفیان کے برابر میں یا اس کے سامنے بیٹھے ہوں گے تو شاید خود وہ لوگ آنکھ وسر یا ہاتھ کے اشارے سے ابوسفیان کو کوئی بات بیان کرنے سے منع کردیں۔ اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ مجھے دروغ کو مشہور کردیا جائے گا الخ۔ اس جملہ سے ابوسفیان کی مراد یہ تھی کہ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ یہاں موجود میرے ساتھی مکہ واپس ہو کر میری قوم کے سامنے یہ کہیں گے کہ ابوسفیان نے ہرقل کے دوبارہ میں غلط بیانی کے ذریعہ محمد ﷺ کے خلاف فضا بنانے کی کوشش کی اور ہرچند کو میری قوم کے لوگ وقتی طور پر خوش ہوجائیں گے مگر اس طرح میرا دماغ گو ہونا بھی مشہور ہوجائے گا جس سے میری قوم کی نظر میں میرے کردار کی عظمت باقی نہیں رہے گی۔ تو اس وقت آنحضرت ﷺ سے جو بغض وعناد اور سخت ترین مخالفانہ جذبات میں رکھتا تھا اس کے تحت ہرقل کے سامنے ضرور غلط بیانی کرتا اور آنحضرت ﷺ سے جو بغض وعناد اور سخت ترین مخالفانہ جذبات میں رکھتا تھا اس کے تحت ہرقل کے سامنے ضرور غلط بیانی کرتا اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں وہ صحیح باتیں ہرگز نہ بتلاتا جس سے آپ ﷺ کے دعوی نبوت کا برحق ہونا ثابت ہوتا تھا۔ لیکن ملا علی قاری کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس جملہ کا زیادہ صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ میں نے اس موقع پر اگر کوئی غلط بیانی کی تو یہاں موجود میرے ساتھی میری تردید کریں گے اور ہرقل کی نظر میں میرا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے گا تو میں ہرقل کے سوالات کے جوابات میں ضرور غلط بیانی سے کام لیتا اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں صحیح باتیں نہ بتاتا۔ وہ شخص ہم میں حسب والا ہے۔ حسب کے لغوی معنی شریف الاصل ہونا اور صفت کے ہیں، یعنی وہ ذاتی اور آبائی و خاندانی صفات و خصوصیات جو کسی شخص کو شرف و فضیلت دے کر معاشرہ میں مفتخر بناتی ہیں، اس اعتبار سے حسب کے تحت نسب کا مفہوم بھی آجاتا ہے لہٰذا ابوسفیان نے اس جواب کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ وہ شخص ( محمد ﷺ نہایت شریف خاندان کا ہے اور اس کا نسبی تعلق بنی ہاشم سے ہے جو قریش میں سب سے افضل۔ نیز بخاری میں حسب کے بجائے نسب کا لفظ ہے، اس کی عبارت یوں ہے۔ کیف نسبہ فیکم الخ ( تم لوگوں میں سے اس کا نسب کیسا ہے ) ۔ اس کی اتباع کرنے والے لوگ کون ہیں، شرفاء ہیں یا کمزور ضعیف لوگ ؟ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دنیا داروں کی نظر میں عزت وجاہت کے حامل ہوں اور وہ خود اپنی حیثیت عرفی پر مغرور و نازاں ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر شرفاء کے لغوی و عرفی معنی مراد لئے جائیں تو بنی ہاشم سے تعلق رکھنے والے حضرت عباس (رض) ، حضرت علی (رض) اور حضرت حمزہ (رض) وغیرہ اور اکابر قریش کی صف سے تعلق رکھنے والے حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت عثمان (رض) اور دوسرے جلیل القدر قریشی صحابہ سے بڑھ کر شرفاء کون ہوسکتے تھے جو ہرقل اور ابوسفیان کے اس سوال و جواب سے پہلے مشرف ہوچکے تھے۔ اس کی اتباع کرنے والے کمزور ضعیف لوگ ہیں۔ ابواسحق کی روایت میں یہاں ابوسفیان کا جواب ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے اس کی اتباع جن لوگوں نے کی ہے وہ کمزور و ضعیف، مسکین اور نوعمر لوگ ہیں، جہاں تک اعلی نسب و شرف رکھنے والوں کا تعلق ہے تو انہوں نے اس کی اتباع نہیں کی ہے۔ اگر ابوسفیان نے ان الفاظ میں جواب دیا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے یہ بات اکثر و اغلب پر محمول کر کے کہی تھی۔ تابعداروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے ؟ ہرقل کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ آیا یہ صورت ہے کہ اس شخص کی بات ماننے اور اس پر ایمان لانے والوں کی تعداد میں دن بدن نئے نئے لوگوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے یا اس کے تابعداروں کی تعداد اس طرح گھٹ رہی ہے کہ ایک دفعہ جن لوگوں کو ایمان لانا تھا وہ تو ایمان لے آئے، اب ان میں سے اگر کوئی آدمی اس کا دین چھوڑ کر اپنے پچھلے دین یعنی کفر و شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے یا کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کی کمی و نقصان کو پورا کرنے والے نئے لوگ اس کے دین میں داخل نہیں ہوتے ؟ اس کا جواب ابوسفیان نے دیا کہ کہ اس کے تابعداروں کی تعداد کسی بھی صورت میں گھٹ نہیں رہی ہے بلکہ دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ پیغمبروں کے تابعدار کمزور و ضعیف لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ہرقل نے یہ بات بالکل درست کہی کہ جب بھی حق کی آواز بلند ہوئی ہے اس کو لبیک کہنے کے لئے سب سے پہلے کمزور ضعیف، نادار ومفلس اور مسکین لوگ ہی نکل کر آتے ہیں، جہاں تک دولت و ثروت اور دنیاوی عزت واثر رکھنے والے لوگوں کا تعلق ہوتا ہے، وہ اپنے کاروبار، ناز و نعم اور جاہ وتکبر میں گرفتار رہنے کی وجہ سے اس سعادت سے محروم رہتے ہیں ہاں جب مجبور ہوجاتے ہیں اور حق کی پناہ حاصل کرنے کے علاوہ اور کوئی راہ نجات انہیں نظر نہیں آتی تو پھر وہ بھی اہل ایمان اور اہل دین کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں۔ لوگوں سے تو جھوٹ بولنے سے اجتناب کرے اور اللہ کی نسبت جھوٹ بولے۔ یعنی یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ اپنے خالق اور پروردگار کے حق میں جھوٹ بولنا اور اس کے تعلق سے کذب بیانی کرنا نہایت ہی برا ہے لہٰذا جس شخص کے بارے میں خود تمہارا اقرار ہے کہ اس نے لوگوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی کسی نے اس کو جھوٹا نہیں کہا، تو وہ شخص اللہ کے بارے میں اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول سکتا ہے کہ اللہ نے اس کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، خود تمہارے اقرار نے ثابت کردیا کہ وہ شخص اپنی بات میں سچا ہے اور یقینا اللہ کا رسول ہے۔ اور آخر کار وہ پایہ تکمیل و اتمام کو پہنچ جاتا ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا دین اسی طرح پھلتا پھولتا ہے کہ ایک طرف تو اس کے تابعداروں اور حامیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جاتی ہے اور دوسری طرف خود اس دین کے اصولی اور بنیادی احکام و قوانین بتدریج نازل ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ نقطہ عروج آجاتا ہے جہاں پہنچ کر دین کو آخری اور کامل شکل مل جاتی ہے اور اہل دین کو مؤثر غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ چناچہ دین اسلام کا معاملہ ایسا ہی ہوا کہ ایک طرف تو رسول کریم ﷺ کی مسلسل جدوجہد اور سعی و کوشش سے حلقہ بگوشان اسلام کی تعداد دن بہ دن بڑھتی رہی دوسری طرف اسلام کے احکام و قوانین جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی فرضیت نازل ہوتی رہی اور پھر وہ دن آگیا جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی آخری عمر میں اپنے دین کے نام لیواؤں کو مؤثر غلبہ بھی عطا فرما دیا اور دین کو کامل و مکمل کر کے یہ آیت نازل فرمائی۔ ا یت ( اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5 ۔ المائدہ 3) آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کیں۔ میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ تمہاری قوم میں پیدا ہوگا۔ ہرقل کا یہ تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد اکثر و بیشتر انبیاء چونکہ ہماری قوم یعنی حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی نسل سے نہیں ہوں گے جو اہل عرب ( حجاز) کے مورث اعلی ہیں۔ نیز ہرقل کا ابوسفیان سے یہ کہنا کہ تم نے جو باتیں بیان کی ہیں اگر وہ سچ ہیں تو وہ شخص ( محمد ﷺ یقینا پیغمبر ہے، اس بات کی علامت ہے کہ ہرقل سابقہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتا تھا اور چونکہ ان کتابوں میں آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کے متعلق مذکورہ علامتیں لکھی ہوئی تھی، اس لئے ہرقل نے اپنے علم کے مطابق جب یہ یقین حاصل کرلیا کہ اس مدعی نبوت میں یہ تمام علامتیں پائی جاتی ہیں تو اس نے ابوسفیان پر واضح کردیا کہ اس شخص کے نبی اور رسول ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ علاوہ ازیں ہرقل نجوم و کہانت میں بھی درک رکھتا تھا اور اس علم کے ذریعہ بھی وہ آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کی مذکورہ علامتوں کو جانتا تھا جیسا کہ بخاری ہی کی ایک اور روایت میں ابن ناطور حاکم بیت المقدس کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے کہ ہرقل قیصر روم جب بیت المقدس میں مقیم تھا تو ایک روز صبح کو گبھرایا ہوا اٹھا، ایک شخص نے پریشانی کا سبب پوچھا تو ہرقل نے کہا کہ آج رات میں نے ستاروں کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ مختون قوم کا بادشاہ تمام ممالک پر غالب آنے والا ہے۔ اس کے بعد اس نے دریافت کیا کہ وہ کون قوم ہے جس میں ختنہ کا رواج ہے تو اس کو بتایا گیا کہ عربوں میں ختنہ کا رواج ہے لیکن یہ ہرقل کی سب سے بڑی بدنصیبی رہی کہ وہ اپنے علم ذہانت سے آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کی حقیقت کو جاننے کے باوجود ایمان کی دولت سے محروم رہا اور اپنے علم و آگہی سے فائدہ حاصل نہ کرسکا اور اس نے نہ صرف یہ کہ آنحضرت ﷺ کی دعوت پر لبیک کہہ کر اسلام قبول نہیں کیا بلکہ آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کا صحابہ کے خلاف نبرد آزما بھی ہوا۔ اس نے مجاہدین اسلام کے خلاف متعدد بار اس اس زمانہ کر رومی سلطنت کی انتہائی ترقی یافتہ فوجیں روانہ کیں اور مختلف علاقوں اور شہروں میں اسلامی شیروں کو اس کے جابر لشکروں کا مقابلہ کرنا پڑا، مگر چونکہ اللہ کی مدد اپنے نام لیواؤں کے ساتھ ہوتی تھی اس لئے ہر میدان جنگ میں اور ہر موقع پر ہرقل کی رومی فوج کو زبردست پسپائی و ہلاکت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور اس کے لشکر کے بہت ہی کم لوگوں کو میدان جنگ سے صحیح وسالم واپس ہونے کا موقع نصیب ہوتا تھا، ہرقل اپنی عظیم سلطنت اور زبردست فوج کی طاقت کے بل پر اسلام اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی ایمانی طاقت کو مسدود اور محدود کردینے کی کاروائیوں میں زندگی بھر مصروف رہا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس کو اہل اسلام کے مقابلہ پر مغلوب کیا یہاں تک وہ مسلمانوں کو شکست فاش دینے کی حسرت و تمنا لئے ہوئے مرگیا اور اس کی عظیم سلطنت کا ایک بڑا حصہ جیسے ملک شام وغیرہ کے اکثر علاقے مسلمانوں نے فتح کر لئے۔ ہرقل کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین ہوا لیکن اسلام کے مقابلہ پر زوال پذیر رومی سلطنت کو وہ بھی سہارا نہ دے سکا اور اس کے مرنے کے بعد تو اس سلطنت کا وجود ہی چراغ سحری ہو کر رہ گیا اور پھر وہ زمانہ آیا جب ان ہی رومیوں میں سے ایک قوم (ترک) کو اللہ تعالیٰ نے ایمان و اسلام کی سعادت عطا فرمائی، اس قوم نے اپنی بےپناہ شحاعت و بہادری اور ایمان کی زبردست طاقت سے نہ صرف یہ کہ اپنے زمانہ میں دنیا بھر کے عیسائیوں کی مشترکہ طاقت کو پسپا کیا، کفر و شرک کے مقابلہ پر اسلام کی حفاظت کی، بلکہ خود کو مسلمان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف تھا، یہ ترک ہی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرمین شریفین کی تعمیر و ترقی اور خدمت و محافظت کی سعادت عطا کی۔ انہوں نے مسجد حرام، مکہ مکرمہ اور حرم نبوی، مدینہ منورہ کی خدمت و محافظت، اہل مکہ اور اہل مدینہ کی دیکھ بھال اور مالی امداد و اعانت اور علماء و مشائخ کی تعظیم و تکریم جس اخلاص، جس عقیدت اور جس لگن سے کی، اس کی کوئی مثال نہیں ہے ! اس سے معلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب فرما دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جس کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں پڑا رہنے دے اس کو کوئی کام نہیں آسکیں کیونکہ اس کا اصل مطمع و نظر وہ ریاست و سلطنت تھی جس کو وہ کسی حال میں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور مال و دولت کی وہ محبت تھی جس نے اس کے دل و دماغ پر حقیقت پسندی سے زیادہ جاہ پسندی کی چھاپ ڈال رکھی تھی۔ لہٰذا وہ توفیق الہٰی اور ازلی سعادت سے محروم رہا اور ابدی بدبختی کا مستوجب بنا، دوسری طرف اسی کے علاقہ اور اسی کی قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے جو اپنی ازلی اور ابدی سعادت کی بناء پر نہ صرف یہ کہ ایمان و اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوئے بلکہ دنیا کی زبردست طاقت عظیم فاتح اور مثالی حکمران بنے۔ اس موقع پر ہرقل کی اس خوبی کا ذکر بھی ناگزیر ہے کہ جب اس کے پاس رسول کریم ﷺ کا نامہ مبارک پہنچا تو اس نے نہ صرف یہ کہ اس کو اشتیاق و التفات کے ساتھ پڑھا بلکہ اس کی بڑی تعظیم و تکریم کی اور اس نامہ مبارک کو محفوظ رکھنے کا زبردست اہتمام کیا اس کے برخلاف فارس ( ایران) کے بادشاہ کسری نے نامہ مبارک کے ساتھ بےحرمتی کا معاملہ کیا اور اس بدبخت نے نامہ مبارک کو چاک کر کے پارہ پارہ کردیا، تو اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اس کی سلطنت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور اس کی اولاد ذلت و رسوائی کے ساتھ دربدر ماری ماری پھری اور اس کی آئندہ نسل میں سے کسی کو بھی تخت وتاج کی صورت دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ صحیح بخاری میں یہ روایت منقول ہے کہ ہرقل قیصر روم نے آنحضرت ﷺ کا مذکو رہ نامہ مبارک پڑھ کر اپنے ملک کے اعیان سلطنت اور عمائدین مملکت کو اپنے محل میں جمع کیا اور پھر بند کمرہ میں ان کی مجلس منعقد کی اور سب کو مخاطب کر کے کہا کہ لوگو ! اگر تم اپنی مراد کو پہنچنا چاہتے ہو اور فلاح یاب ہونے کے خواہش مند ہو تو اس نبی آخر الزمان ﷺ کی دعوت قبول کرو اور ان پر ایمان لے آؤ۔ یہ سنتے ہی ان تمام لوگوں نے سخت برہمی اور نفرت کا اظہار کیا اور اس قدر مشتعل ہوئے کہ ہرقل بھی ان کا رد عمل دیکھ کر گھبرا گیا، اس نے کہا کہ تم لوگوں کو اس قدر برہم اور وحشت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اپنے دین پر قائم رہو، میں نے تو صرف یہ آزمانے کے لئے کہ تم لوگ اپنے دین اور اپنے عقیدہ میں کسی قدر مستحکم اور مضبوط ہو، یہ بات کہی تھی۔ تب وہ اعیان سلطنت اور عمائدین مملکت مطمئن وخوش ہوئے اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوگئے۔ بعض حضرات نے ہرقل کے ایمان کی طرف اشارہ کیا ہے اور مختلف آثار وقرائن کے تحت اس کو مؤمن کہا ہے لیکن راجح قول اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ کفر و شرک پر عامل تھا اور کافر و مشرک ہی مرا، ایمان و اسلام کی دولت اس کو نصیب نہیں ہوئی، چناچہ مسند امام احمد میں ایک روایت منقول ہے کہ اس نے مقام تبوک سے آنحضرت ﷺ کو لکھا تھا کہ میں مسلمان ہوں، لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہرقل بالکل جھوٹ کہتا ہے، وہ نصرانیت ( عیسائیت) پر قائم ہے۔ بہرحال ہرقل کے واقعہ کو دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ علم و دانائی، ہدایت پانے کے لئے کافی نہیں ہے، جب تک کہ حق تعالیٰ کی توفیق اور فطرت سلیم کی وہ رہنمائی حاصل نہ ہو جو قبول حق تک پہنچاتی ہے۔ عشق کاریست کہ موقوف ہدایت باشد۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا کی محبت اور جاہ و اقتدار کی حرص، حق کے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔