182. معراج کا بیان

【1】

معراج کا بیان

معراج کا لفظ عروج سے ہے جس کے معنی ہیں، چڑھنا، اوپر جانا۔ اور معراج اس چیز کو کہتے ہیں جو اوپر چڑھنے کا ذریعہ بنے یعنی سیڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو جو آسمانوں کی سیر کرائی اور وہاں خاص خاص نشانیاں آپ ﷺ کو دکھلائیں۔ اس کو معراج اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ گویا آنحضرت ﷺ کے لئے سیڑھی رکھی گئی۔ جس پر چڑھ کر آپ ﷺ آسمان پر تشریف لے گئے اور ایک روایت میں معراج یعنی سیڑھی کا تذکرہ بھی آیا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کا عالم بالا کا سفر شروع ہوا تو آپ ﷺ کے لئے سیڑھی رکھی گئی جس کے ذریعہ آسمان کے اوپر تشریف لے گئے اور یہ وہی سیڑھی ہے جس کے ذریعہ فرشتے آسمان سے آمدورفت رکھتے ہیں اور جس پر سے بنی آدم کی ارواح آسمان تک چڑھتی ہیں۔ معراج کا زمانہ اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ معراج نبوت کے بارھویں سال یعنی ہجرت سے ایک سال پہلے ربیع الاول کے مہینہ میں ہوئی اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ رمضان کی ستائیس تاریخ کو ہوئی، کچھ حضرات کا قول ستائیسویں رجب کا ہے اور عوام میں بھی یہی مشہور ہے، کچھ حضرات ہجرت سے تین سال پیشتر معراج ہونے کے قائل ہیں۔ معراج اور اسراء کا فرق جاننا چاہئے کہ ایک تو معراج ہے اور ایک اسراء ۔ اسراء اس سفر کو کہتے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے اس شب میں مسجد حرام ( بیت اللہ) سے مسجد اقصی ( بیت المقدس) تک کیا اور مسجد اقصی سے آسمان تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ اسراء نص قرآن سے ثابت ہے اور اس کا انکار کرنا دائرہ اسلام سے خارج ہونا ہے اور معراج، مشہور و متواتر حدیثوں سے ثابت ہے، اس کا انکار کرنے والا گمراہ اور بدعتی کہلاتا ہے۔ خواب میں یا عالم بیداری میں اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو جو معراج پیش آئی وہ خواب کا واقعہ ہے یا عالم بیداری کا ؟ یہ واقعہ ایک بار پیش آیا یا متعدد بار ؟ یا یہ کہ ایک بار تو عالم بیداری میں پیش آیا اور خواب میں متعدد بار پیش آیا ؟ یا یہ کہ اگر یہ واقعہ خواب میں بھی پیش آیا تو کیا وہی اصلی واقعہ ہے یا وہ اس حقیقی واقعہ کا ابتدائیہ اور تمہید تھی جو عالم بیداری میں پیش آیا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ جسمانی طور پر آسمانوں کے سیر کرنے سے پہلے آپ ﷺ میں روحانی اور نفسیاتی طور پر اس عالم بالا سے ایک گونہ مناسبت اور تعلق پیدا ہوجائے جیسا کہ ابتدائے نبوت میں رویائے صادقہ ہی کو وحی اور عالم بالا سے آپ ﷺ کی مناسبت کا ذریعہ بنایا گیا تھا ؟ اور یا یہ کہ اسراء یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کے سفر کا واقعہ تو جسمانی طور پر پیش آیا تھا اور معراج یعنی مسجد اقصی سے عالم بالا تک کا واقعہ محض روحانی طور پر پیش آیا تھا ؟ بہر حال ان تمام اقوال اور ان سے متعلق بحث دلائل سے صرف نظر کرتے ہوئے اتنا بتادینا کافی ہے کہ اس بارے میں جو قول تحقیقی اور زیادہ صحیح سمجھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ معراج کا واقعہ ایک بار پیش آیا ہے اور عالم بیداری میں جسم وروح کے ساتھ پہلے آپ ﷺ کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک پھر مسجد اقصی سے آسمانوں تک اور پھر آسمانوں سے ان خاص مقامات تک جہاں تک اللہ نے چاہا، آپ ﷺ کو لے جایا گیا۔ جمہور فقہا و علماء محدثین و متکلمین اور صوفیاء کا یہی مسلک ہے۔ نیز اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ کی صحیح حدیثیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال نہایت کثرت سے منقول ہیں جن میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر معراج کے واقعہ کا تعلق محض خواب سے ہوتا ( جیسا کہ گمان کیا جاسکتا ہے) تو نہ اس غیر معمولی انداز میں اس واقعہ کو بیان کیا جاتا اور نہ اس سے متعلق وہ تمام بحث و تحقیق ہوتی جو علماء ومحققین نے کی ہے، علاوہ ازیں اس مسئلہ کو لے کر بعض لوگوں نے جو فتنہ خیزی اور غوغا آرائی کی ہے نہ وہ ہوتی اور نہ یہ مسئلہ اختلاف و انکار نیز ارتداد کے ابتلاء کا باعث بنتا۔ معراج آنحضرت ﷺ کا خصوصی شرف ہے جسم وروح کے ساتھ معراج کا حاصل ہونا آنحضرت ﷺ کا خصوصی شرف ہے یہ مرتبہ کسی اور نبی اور رسول کو حاصل نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اپنے آخری نبی رسول اللہ ﷺ کی عظمت و برگزیدگی کو ظاہر کرنے کے لئے یہ خارق عادت قدرت ظاہر فرمائی۔ لہٰذا واقعہ معراج کو اسی سیاق وسباق میں دیکھنا چاہئے۔ اس مسئلہ کو عقل و قیاس کے پیمانہ سے ناپنا بےسود بھی ہے اور حقیقت واقعہ کو محض دماغی قابلیت کے بل پر سمجھنا اور سمجھانا گرفتاران عقل کے بس سے باہر بھی ہے یہ مسئلہ خالص یقین و اعتقاد کا ہے بس اس پر ایمان لانا اور اس کی حقیقت و کیفیت کو علم الٰہی کے سپرد کردینا ہی عین عبادت ہے اور ویسے بھی نبوت، وحی اور معجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل و قیاس سے باہر کی چیزیں ہیں، جو شخص ان چیزوں کو قیاس کے تابع اور اپنی عقل و فہم پر موقوف رکھے اور کہے کہ یہ چیز جب تک عقل میں نہ آئے میں اس کو نہیں مانوں گا اور اس پر اعتقاد نہیں رکھوں گا تو سمجھنا چاہئے کہ وہ شخص ایمان کے اپنے حصہ سے محروم ہے، ہاں اولیاء اللہ اور عارفین بیشک معرفت کے ایک خاص مقام تک پہنچنے کے بعد اتنی صلاحیت کے حامل ہوجاتے ہیں کہ ان پر ان چیزوں کی کچھ حقیقت روشن اور واضح ہوجاتی ہے، جو لوگ معرفت کے اس مقام کو نہ پہنچے ہوں ان کے لئے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول جو کچھ فرما دیں بس اس کو مان لیں اور بلا چون وچرا اس پر ایمان لے آئیں، سلامتی اور نجات کی راہ اس کے علاوہ کوئی نہیں۔

【2】

واقعہ معراج کا ذکر

حضرت قتادہ (رح) (تابعی) حضرت انس ابن مالک (رض) سے اور وہ حضرت مالک ابن صعصہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اسراء اور معراج کی رات کے احوال و واردات کی تفصیل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیان کرتے ہوئے فرمایا اس رات میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا اور بعض موقعوں پر آپ ﷺ نے حجر میں لیٹنے کا ذکر فرمایا۔ کہ اچانک ایک آنے والا ( فرشتہ) میرے پاس آیا اور اس نے ( میرے جسم کے) یہاں سے یہاں تک کے حصہ کو چاک کیا۔ روای کہتے ہیں کہ (یہاں سے یہاں تک سے) آنحضرت ﷺ کی مراد گردن کے گڑھے سے زیر ناف بالوں تک کا پورا حصہ تھا۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس فرشتہ نے اس طرح میرا سینہ چاک کر کے) میرے دل کو نکالا، اس کے بعد میرے سامنے سونے کا ایک دشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہوا تھا اور اس میں میرے دل کو دھویا گیا، پھر دل میں ( اللہ کی عظمت و محبت یا علم و ایمان کی دولت) بھری گئی اور پھر دل کو سینہ میں اس کی جگہ رکھ دیا گیا۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ پھر میرے پیٹ ( کے اندر کی تمام چیزیں یا دل کی جگہ) کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا۔ اور پھر اس میں ایمان و حکمت بھرا گیا، اس کے بعد سواری کا ایک جانور لایا گیا جو خچر سے نیچا اور گدھے سے اونچا تھا، یہ جانور سفید رنگ کا تھا اور اس کا نام براق تھا ( اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ) جہاں تک اس کی نظر جاتی تھی وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا، مجھے اس پر سوار کیا گیا اور جبرائیل (علیہ السلام) مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ میں آسمان دنیا ( یعنی پہلے آسمان) پر پہنچا، جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو ( دربان فرشتوں کی طرف سے) پوچھا گیا کہ کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں پھر پوچھا گیا اور تمہارے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا ! محمد ﷺ ہیں۔ اس کے بعد سوال کیا گیا ! ان ( محمد ﷺ کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ( یا از خود آئے ہیں) جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا بلائے ہوئے آئے ہیں۔ تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) میرے سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ تمہارے باپ ( یعنی جد اعلی، آدم ہیں ان کو سلام کرو۔ میں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا ! میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر اور دوسرے آسمان پر آئے، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) میں ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب دربان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہیں جو ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی تھے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ یحیٰی ہیں اور یہ عیسیٰ ہیں ان کو سلام کرو۔ میں نے دونوں کو سلام کیا اور دونوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا نیک بخت بھائی اور پیغمبر صالح کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر اوپر چلے اور تیسرے آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں تیسرے آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ یوسف ہیں، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا میں نیک بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر اوپر چلے اور چوتھے آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں چوتھے آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ ادریس ہیں، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا میں نیک بخت بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر اوپر چلے اور پانچویں آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں پانچویں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ ہارون ہیں، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا میں نیک بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر اوپر چلے اور چھٹے آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں چھٹے آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میرے سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ موسیٰ ہیں، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا میں نیک بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد جب میں آگے بڑھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رونے لگے، پوچھا گیا آپ کیوں روتے ہیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ایک نوجوان جس کو میرے بعد رسول بنا کر دنیا میں بھیجا گیا اس کی امت کے لوگ میرے امت کے لوگوں سے کہیں زیادہ جنت میں داخل ہوں گے۔ بہر حال ( اس چھٹے آسمان سے گزر کر) جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لئے اوپر چلے اور ساتویں آسمان پر آئے، انہوں نے آسمان کا دروزاہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کہ کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ ہیں۔ پھر سوال کیا گیا ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں ساتویں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ تمہارے باپ ( مورث اعلی ابراہیم (علیہ السلام) ہیں، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد سدرۃ المنتہی تک پہنچایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس کے پھل یعنی بیر، مقام ہجر کے ( بڑے بڑے) مٹکوں کے برابر تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے، جبرائیل (علیہ السلام) نے ( وہاں پہنچ کر) کہا یہ سدرۃ المنتہی ہے ! میں نے وہاں چار نہریں بھی دیکھیں، دو نہریں تو باطن کی تھیں اور دو نہریں ظاہر کی تھیں، میں نے پوچھا جبرائیل ! یہ دو طرح کی نہریں کیسی ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا یہ باطن کی دو نہریں جنت کی ہیں اور یہ ظاہر کی دو نہریں نیل اور فرات ہیں، پھر مجھ کو بیت المعمور دکھلایا گیا اور اس کے بعد ایک پیالہ شراب کا، ایک پیالہ دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا میرے سامنے لایا گیا ( اور مجھے اختیار دیا گیا کہ ان تینوں میں سے جس چیز کا پیالہ پسند ہو لے لوں) چناچہ میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا، جبرائیل (علیہ السلام) نے ( یہ دیکھ کر کہ میں نے دودھ کا پیالہ کو اختیار کیا) کہا دودھ فطرت ہے اور یقینا تم اور تمہاری امت کے لوگ اسی فطرت پر ( قائم وعامل) رہیں گے ( اور جہاں تک شراب کا معاملہ ہے تو وہ ام الخبائث اور شر و فساد کی جڑ ہے) اس کے بعد وہ مقام آیا جہاں مجھ پر ( ایک دن اور ایک رات کی) پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ پھر ( جب ملاء اعلی کا میرا سفر تمام ہوا اور درگاہ رب العزت سے) میں واپس ہوا تو ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے رخصت ہو کر چھٹے آسمان پر، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا ( اور ان سے رخصت ہونے لگا) تو انہوں نے پوچھا تمہیں کس عبادت کا حکم دیا گیا ہے ؟ میں نے ان کو بتایا کہ ( ہر شب وروز میں) پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ( یہ سن کر) کہا تمہاری امت ( نسبتاً کمزور قویٰ رکھنے کے سبب یا کسل وسستی کے سبب) رات دن میں پچاس نمازیں ادا نہیں کرسکے گی، اللہ کی قسم، میں تم سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں ( کہ عبادت الٰہی کے راستہ میں مشقت وتعب براداشت کرنا ان کی طبیعتوں پر کس قدر بار تھا) اور بنی اسرائیل کی اصلاح ودرستی کی سخت ترین کوشش کرچکا ہوں ( لیکن وہ اصلاح پذیر نہ ہوئے باوجودیکہ ان کے قوی تمہاری امت کے لوگوں سے زیادہ مضبوط تھے، تو پھر تمہاری امت کے لوگ اتنی زیادہ نمازوں کی مشقت کیسے برداشت کرسکیں گے لہٰذا تم اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے حق میں تخفیف اور آسانی کی درخواست کرو۔ چناچہ میں ( اپنے پروردگار کی بارگاہ میں) دوبارہ حاضر ہوا اور میرے پروردگار نے میرے عرض کرنے پر ( دس نمازیں کم کردیں، میں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا ( اور ان کو بتایا کہ دس نمازیں کم کر کے چالیس نمازیں رہنے دی گئی ہیں) لیکن انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا ( کہ میں پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں، تمہاری امت کے لوگ چالیس نمازیں بھی ادا نہیں کرسکیں گے، اب پھر بارگاہ رب العزت میں جا کر مزید تخفیف کی درخواست کرو ( چناچہ میں پھر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا اور ( چالیس میں سے) دس نمازیں کم کردی گئیں، میں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چناچہ میں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا اور ( تیس میں سے) دس نمازیں کم کردی گئیں، میں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چناچہ میں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا اور مزید پانچ نمازوں کی تخفیف کر کے مجھ کو ہر شب و روز میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا کہ اب تمہیں کیا حکم ملا ہے ؟ میں نے ان کو بتایا کہ اب مجھے رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا حقیقت یہ ہے کہ تمہاری امت کے اکثر لوگ ( پوری پابندی اور تسلسل کے ساتھ) دن رات میں پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ پائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ میں تم سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور بنی اسرائیل کی اصلاح ودرستی کی سخت کوشش کر کے دیکھ چکا ہوں ( وہ تو اس سے بھی کہیں کم عبادت الٰہی پر عامل نہیں رہ سکے تھے) لہٰذا تم پھر پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لئے ( پانچ نمازوں میں بھی) تخفیف کی درخواست کرو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( کہ اس موقع پر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا) کہ میں باربار اپنے پروردگار سے تخفیف کی درخواست کرچکا ہوں اور مجھ کو شرم آتی ہے ( اگرچہ امت کی طرف سے پانچ نمازوں کی بھی پابند نہ ہوسکنے کا گمان ہے مگر مزید تخفیف کی درخواست کرنا اب میرے لئے ممکن نہیں ہے) میں اپنے پروردگار کے اس حکم کو ( برضاء ورغبت) قبول کرتا ہوں ( اور اپنا اور اپنی امت کا معاملہ اس کے سپرد کردیتا ہوں کہ وہ اپنی توفیق ومدد سے امت کے لوگوں کو ان پانچ نمازوں کی ادائیگی کا پابند بنائے ) ۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس گفتگو کے بعد) جب میں وہاں سے رخصت ہوا تو ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) یہ ندائے غیبی آئی میں نے ( پہلے تو) اپنے فرض کو جاری کیا اور پھر ( اپنے پیارے رسول کے طفیل میں اپنے بندوں کے حق میں تخفیف کردی ( مطلب یہ کہ اب میرے بندوں کو نمازیں تو پانچ ہی پڑھنی پڑیں گی لیکن ان کو ثواب پچاس نمازوں کا ملے گا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حطیم خانہ کعبہ کی شمالی دیوار سے ڈیڑھ گز کے فاصلہ پر ایک ہلالی شکل کی دیوار ہے، اس دیوار کے اندر کا حصہ حطیم کہلاتا ہے اور حجر ( ح کے زیر کے ساتھ) بھی حطیم کو کہا جاتا ہے یہ جگہ ( یعنی حطیم یا حجر اصلًا خانہ کعبہ کا حصہ ہے۔ معراج کی رات میں جب کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کو لینے کے لئے آئے آپ ﷺ اسی جگہ استراحت فرما تھے۔ یہاں سے یہاں تک کے حصہ کو چیرا۔ شق صدر ( سینہ مبارک کے چاک کئے جانے) کا یہ واقعہ اس کے علاوہ ہے جو بچپن میں پیش آیا تھا، اس وقت ( بچپن میں آپ ﷺ کے سینہ مبارک کے چاک کئے جانے کا مقصد آپ ﷺ کے اندر سے وہ مادہ نکالنا تھا جس کے ذریعہ انسان کو گمراہ کرنے کا موقعہ شیطان کو ملتا ہے یا جس کے سبب خود انسان کا نفس گمراہی اور برائی میں مبتلا ہوتا ہے اور اس موقع پر ( معراج کی رات میں) شق صدر کا مقصد آپ ﷺ کے قلب مبارک میں علم و معرفت کا کمال بھرنا تھا۔ سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ یہ کنایہ اور تمثیل کے طور پر کہا گیا ہے یا یہ کہ ایمان کو ظاہری جسم دے کر واقعتاً اس طشت میں بھرا گیا، جیسا کہ قیامت کے دن اعمال کو مجسم کیا جائے گا تاکہ ان کو میزان میں تولا جاسکے۔ اس کا نام براق تھا۔ آنحضرت ﷺ کی سواری کے لئے مخصوص اس جانور کا نام براق اس مناسبت سے رکھا گیا کہ وہ برق ( بجلی) کی طرح تیز رفتار اور روشنی کی طرح چمکدار تھا۔ اس کی تیز رفتاری کے بارے میں جو یہ فرمایا کہ اس کا ایک قدم حد نظر پر پڑتا تو اس سے بعض حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ براق ایک ہی قدم میں آسمان پر پہنچ گیا ہوگا کیونکہ زمین سے اس کی حد نظر آسمان ہی تھا، اس اعتبار سے ساتویں آسمان تک وہ سات قدموں میں پہنچا ہوگا۔ اس براق کے بارے میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ وہ براق تمام انبیاء (علیہم السلام) کی سورای کے لئے متعین تھا اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ ہر نبی کے لئے اس کی حیثیت و مرتبہ کے مطابق الگ الگ براق تھے۔ جیسا کہ آخرت میں ہر نبی کے لئے اس کے مرتبہ ومقام کے مطابق الگ الگ حوض بنے ہوئے ہیں، چناچہ حدیث کے اس جملہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ براق آنحضرت ﷺ کی سواری کے لئے مخصوص و متعین تھا۔ مجھے اس پر سوار کیا گیا۔ اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس براق پر آنحضرت ﷺ کا سوار ہونا محض اللہ تعالیٰ کی مدد اور قدرت سے ممکن ہوا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی قوت ملکیت کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کو اس براق پر سوار کرایا تھا اور یہ بات بعید از امکان اس لئے نہیں ہوسکتی کہ آنحضرت ﷺ پر وحی اترنے اور آپ ﷺ تک فیض الہٰی پہنچنے کا اصل ذریعہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہی تھے اور اس سفر معراج میں بھی ان کی حیثیت اس رفیق سفر اور خادم کی تھی جس کا مقصد ہر طرح کی راحت ومدد پہنچانا ہوتا ہے ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آنحضرت ﷺ کی رکاب پکڑ رکھی تھی اور میکائیل (علیہ السلام) براق کی باگ تھامے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ میں آسمان دنیا پر پہنچا۔ اس سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ سواری ہی کے ذریعہ آسمان میں داخل ہوئے۔ نیز جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ معراج کا واقعہ اس شبہ سے الگ ایک دوسری شب میں پیش آیا تھا جس میں صرف اسراء یعنی بیت المقدس تک کا سفر پیش آیا تھا اور جس کو لیلۃ الاسراء ( اسراء کی رات) کہا جاتا ہے، وہ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس روایت میں بیت المقدس تک کے سفر کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ مسجد حرام سے براق پر سوار ہو کر روانہ ہونے کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوا کہ اسراء یعنی بیت المقدس تک کے سفر کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ مسجد حرام سے براق پر سوار ہو کر روانہ ہونے کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوا کہ اسراء یعنی بیت المقدس تک کا سفر ایک دوسری شب میں بیش آیا تھا اور اس حدیث میں جس شب کا ذکر کیا جارہا ہے اس میں صرف معراج پیش آئی تھی۔ معراج کے وقت جب آپ ﷺ آسمان پر تشریف لے گئے تو براق پر سوار تھے یا سیڑھی کے ذریعہ عروج وصعود فرمایا ؟ اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے، اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ براق پر سوار ہو کر آپ ﷺ آسمان پر تشریف لے گئے، جب کہ دوسری روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے، کہ آسمان تک آپ ﷺ کا عروج وصعود سیڑھی کے ذریعہ ہوا۔ لہٰذا ملا علی قاری (رح) نے روایتوں کے اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے لکھا ہے کہ یہاں اس روایت میں راوی نے اختصار سے کام لیا ہے اور واقعہ کی تفصیل ذکر کرنے کے بجائے اجمال پر اکتفاء کیا تفصیلی روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے اور آپ ﷺ نے براق کو اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء کرام اپنے براقوں کو باندھتے تھے، بیت المقدس کے مشاغل ( جیسے انبیاء کرام کو نماز پڑھانا اور ان سے ملاقات وغیرہ) سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے آسمان کی طرف عروج وصعود فرمایا اور یہ عین ممکن ہے کہ سیڑھی کے ذریعہ آپ ﷺ آسمان پر تشریف لے گئے ہوں اور براق بدستور مسجد اقصی ( بیت المقدس) کے دروازہ پر بندھا رہا۔ پس راوی نے اس درمیانی تفصیل کو حذف کر کے بس آسمان پر پہنچنے کا ذکر کردیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ﷺ کے دروازہ پر بندھا رہا۔ پس راوی نے اس درمیانی تفصیل کو حذف کر کے بس آسمان پر پہنچنے کا ذکر کردیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ﷺ براق پر سوار ہو کر ہی سیڑھی کے ذریعہ آسمان پر تشریف لے گئے ہوں جیسا کہ بعض علماء کا قول ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں تمام روایتیں متفق ہوجاتی ہے۔ پوچھا گیا کہ کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ آسمان میں حقیقۃ دروازے ہیں اور ان دروازوں پر دربان مقرر ہیں نیز کہا جاتا ہے کہ وہ دروازے بیت المقدس کے محاذات میں ہیں۔ حدیث کے اس جملہ سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی کے گھر جا کر دروازے پر آواز یا دستک دی جائے اور گھر کے اندر سے پوچھا جائے کہ کون ہے ؟ تو اس کے جواب میں صرف یہ نہ کہا جائے کہ میں ہوں۔ جیسا کہ عام طور پر لوگوں کی عادت ہے اور اس کی ممانعت منقول ہے بلکہ اپنا نام لے کر جواب دیا جائے۔ مثلا یوں کہا جائے میں زید ہوں۔ ان کو سلام کرو کے تحت علماء نے لکھا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف سے آنحضرت ﷺ کو سلام میں سبقت ( پہلے سلام کرنے) کا حکم اظہار تواضع و شفقت کی تعلیم کے طور پر تھا کیونکہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ کو وہ عالی مرتبہ ومقام حاصل ہوا تھا جس سے بلندو برتر مرتبہ ومقام کا تصور بھی کسی اور کے لئے نہیں کیا جاسکتا لہٰذا آپ ﷺ پر لازم تھا، کہ تواضع و انکساری اور شفقت و محبت کا اظہار کریں اور سلام میں سبقت اس کا بہترین ذریعہ تھا۔ نیز بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ ان انبیاء کرام (علیہم السلام) کے پاس سے گذر رہے تھے اور اس اعتبار سے آپ ﷺ اس شخص کے حکم میں تھے جو کھڑا ہوا اور انبیاء (علیہم السلام) اپنی اپنی جگہ پر پہلے سے موجود و برقرار تھے اور اس اعتبار سے وہ اس شخص کے حکم میں تھے جو بیٹھا ہو اور اصول یہ ہے کہ اگر ایک شخص کھڑا ہوا اور ایک شخص بیٹھا ہو، تو کھڑا ہوا شخص پہلے سلام کرے اگرچہ وہ بیٹھے ہوئے شخص سے افضل ہو، لہٰذا ان انبیاء کرام (علیہم السلام) کو آنحضرت ﷺ کا پہلے سلام کرنا اس اشکال کو لازم نہیں کرتا کہ آنحضرت ﷺ چونکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) سے افضل ہیں اس لئے سلام میں آپ ﷺ کو سبقت کا حکم کیوں دیا گیا۔ میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ نہ صرف حضرت آدم (علیہ السلام) بلکہ حدیث میں مذکور تمام انبیاء (علیہم السلام) نے آپ ﷺ کا اسقبال کرتے ہوئے آپ ﷺ کی مدح و تعریف میں صلاح یعنی نیک بختی کا ذکر کیا، اس سے معلوم ہوا کہ نیک بختی وعظیم مرتبہ وہ بلند ترین مقام ہے جو تمام انسانی و اخلاقی خوبیوں اور بھلائیوں کا مجموعہ ہے، اسی لئے کہا گیا ہے کہ صالح یعنی نیک بخت وہ شخص ہے جو اللہ اور اللہ کے بندوں کے تمام لازمی حقوق کی ادائیگی پر عامل وقائم ہو، نیز اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں انبیاء (علیہم السلام) کا اصل وصف صلاح ہی بیان کیا ہے، جیسا کہ فرمایا وکل من الصالحین۔ اور۔ وکلا جعلنا صالحین۔ اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے کہیں زیادہ جنت میں داخل ہوں گے۔ کے تحت علماء نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رونے کا جو یہ سبب بیان کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کی فضیلت و بڑائی کی بنا پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں حسد یا جلن جیسی کوئی چیز تھی، کیونکہ حسد اور جلن تو وہ برا جذبہ ہے جس سے عام مؤمنین کے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور اس جہاں ( آخرت) میں تو معمولی درجہ کے اہل ایمان کے دلوں میں سے بھی یہ برا جذبہ نکال باہر کیا جائے گا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسی عظیم ہستی اس برے جذبہ میں مبتلا ہوتی جس کو حق تعالیٰ نے اپنا برگزیدہ بنایا، منصب نبوت و رسالت پر فائز کیا اور شرف تکلم سے سرفراز فرمایا۔ لہٰذا کہا جائے گا کہ اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رونا اس حسرت و افسوس کے سبب تھا کہ ان کی امت کے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام وتعلیمات کی مخالفت کر کے اور سرکشی و نافرمانی کے راستہ پر جمے رہ کر اپنی مجموعی اور ملی حیثیت کو زبردست نقصان پہنچایا جس کا اثر یہ ہوا کہ خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ اجر و انعام جاتا رہا جس سے ان کے مراتب و درجات کی ترقی کا راستہ کھلا رہتا، اس طرح ان کی امت کے لوگوں نے اپنا ہی نقصان نہیں کیا بلکہ اپنے پیغمبر ( حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اجرو ثواب کے نقصان کا سبب بھی بنی کیونکہ ہر پیغمبر کو اس شخص کا ثواب ملتا ہے جو اس کی متابعت کرتا ہے اور جن لوگوں کو خود ثواب نہ ملتا ہو وہ اپنے پیغمبر کے اجرو ثواب میں اضافہ اور ترقی کا باعث کیسے بن سکتے ہیں جو ایک طرح سے اس پیغمبر کے حق میں نقصان ہے، اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کے لوگ ان کی بات مان کر سرکشی اور گناہ کے راستہ سے بچنے اور اللہ کی طاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلتے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی وہی ثواب ملتا جس کے حقدار ان کی امت کے لوگ ہوتے کیونکہ جتنا ثواب اس شخص کو ملتا ہے جو کوئی نیک عمل کرتا ہے، اتنا ہی ثواب اس نیک عمل کی راہ دکھانے والے کو بھی ملتا ہے، پس قوم موسیٰ کی سرکشی اور نافرمانی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ملنے والا یہ اجروثواب جاتا رہا، اس کے برخلاف جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کی فضیلت اور آپ ﷺ کے ان بلندو مراتب کو دیکھا جو آپ ﷺ کی امت کی اطاعت و فرمانبرداری کے سبب آپ ﷺ کو ملنے والے تھے تو وہ اپنے اجرو ثواب کی محرومی پر از راہ تاسف رو پڑے۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رونا دراصل اپنی قوم کی قابل رحم حالت پر حسرت افسوس اور شفقت و محبت کا بیساختہ اظہار تھا، جب انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف تو میری امت کے لوگ ہیں جن کو اللہ نے بڑی بڑی عمر دی۔ مضبوط قوی سے نوازا، کا رگا۔ حیات میں زیادہ طویل عرصہ تک مصروف عمل رہنے کا موقعہ دیا لیکن انہوں نے نہ تو میری اتباع سے وہ فائدہ اٹھایا جو محمد ﷺ کی امت کے لوگ چھوٹی چھوٹی عمر اور کمزور قوی رکھنے کے باوجود اپنے پیغمبر کے اتباع کی صورت میں اٹھائیں گے اور نہ میری امت کے لوگ اس کثرت کو پہنچ سکے جو محمد ﷺ کی امت کے لوگوں کو نصیب ہوگی تو اس شفقت کی تحت کہ جو کسی بھی دوسرے تعلق اور رشتہ سے کہیں زیادہ اپنی امت کے تئیں ایک پیغمبر کے دل میں ہوتی ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رونے لگے، ان کا خیال تھا کہ یہ ایک ایسی مبارک ساعت ہے جس میں حق تعالیٰ کا دریائے رحم و کرم جوش میں ہے، شاید اللہ تعالیٰ اس مبارک ساعت کی برکت سے اس وقت میری امت پر بھی رحم فرمادے اور ان کے ساتھ وہ سخت معاملہ نہ کرے جس کے وہ مستوجب ہوچکے ہیں۔ اور بعض حضران نے لکھا ہے ! اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے رونے کا مقصد ہمارے حضرات ﷺ کے دل کو خوش کرتا تھا، یعنی انہوں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے زبان حال سے گویا یہ اعتراف و اظہار کیا کہ آپ ﷺ کے بابعداروں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی اور جنت میں جتنے لوگ دوسری امتوں کے داخل ہوں گے ان سب سے زیادہ آپ ﷺ کے امتی جنت میں جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو یہ کہا ایک نوجوان جس کو میرے بعد رسول بنا کر دنیا میں بھیجا گیا الخ تو اس سے آنحضرت ﷺ کی حقارت یا توہین مقصود نہیں تھی بلکہ یہ جملہ ( جس میں غلام کا لفظ استعمال کیا) اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور کمال کرم پر اظہار تعجب کی طور پر تھا، یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ کہتے ہیں پروردگار کی قدرت کی بڑائی کے کیا کہنے، اس نے اس نوجوان کو اس چھوٹی سی عمر میں وہ مرتبہ فضل عطا فرمایا جو پہلے نبیوں اور رسولوں کو بڑی بڑی عمر میں نصیب نہیں ہوا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے غلام (نوجوان کا لفظ آنحضرت ﷺ کی عمر کے اعتبار سے ہی استعمال کیا ہو کیونکہ اس وقت انبیاء کرام کی ان عمروں کی بہ نسبت کہ جو وہ دنیا میں گذار کر آئے تھے اور پھر جتنا طویل عرصہ ان کو عالم بزرخ میں گذارتے ہوگیا تھا، آنحضرت ﷺ کی عمر یقینا بہت چھوٹی تھی اور ان کے سامنے آپ ﷺ بالکل نوعمر تھے۔ یہاں سوال ہوتا ہے کہ آسامنوں میں جن انبیاء کرام سے آنحضرت ﷺ کی ملاقات کرائی گئی وہ جسم وروح کے ساتھ وہاں موجود تھے یا ان کی موجودگی محض روحانی تھی ؟ اگر وہ جسم ورو کے ساتھ وہاں موجود تھے تو پھر یہ اشکال لازم آتا ہے کہ ان کے اجسام تو قبروں میں ہیں، آسمانوں میں ان کی موجودگی کیسے تھی ؟ اس سلسلہ میں علماء نے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ان انبیاء کرام کے اجسام اصلیہ تو قبروں ہی میں رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ارواح کو اجسام مثالیہ کے ساتھ مشتمل کر کے آپ ﷺ کی ملاقات کے لئے جمع کیا البتہ آپ ﷺ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر جسم اصلی کے ساتھ دیکھا کیونکہ وہ اسی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے، اسی طرح حضرت ادریس (علیہ السلام) کو جسم اصلی کے ساتھ دیکھا وہ بھی آسمان پر زندھ اٹھائے گئے تھے۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے اعزاز ہی انبیاء کے لئے ان انبیاء کرام کو مع اجسام عنصریہ کے مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس) اور آسمانوں میں جمع کیا، اس طرح آنحضرت ﷺ نے تمام انبیاء کو ان کے اجسام اصلی کے ساتھ دیکھا اور اللہ کی قدرت کے آگے کچھ محال نہیں تھا کہ ایک شب کے لئے ان انبیاء کے اجسام عنصریہ ان کی قبروں سے بیت المقدس اور پھر آسمانوں پر جمع کئے گئے اور پھر ان کو ان کی قبروں میں واپس کردیا گیا۔ ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ آسمانوں میں ان ہی چند حضرات انبیاء کو آنحضرت ﷺ کی ملاقات کے لئے کیوں مخصوص کیا گیا اور یہ کہ انبیاء میں سے ہر نبی کو ایک آسمان کے ساتھ کس سبب سے مخصوص کیا گیا اور اس میں کیا حکمت تھی ؟ اس بارے میں علماء نے یہ لکھا ہے کہ ان ہی چند حضرات انبیاء سے آنحضرت ﷺ کی ملاقات کرانے اور ان میں ہر نبی کو تفاوت و درجات کی ترتیب سے ایک ایک آسمان کے ساتھ مخصوص کرنے میں ان خاص حالات کی طرف اشارہ مقصود تھا جو حضور ﷺ کو بعد میں وقتا فوقتا پیش آئے چناچہ پہلے آسمان پر حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملاقات کی خصوصیت یہ تھی کہ حضرت آدم (علیہ السلام) ہی سب سے پہلے نبی ہیں اور ہر انسان کے پہلے باپ ہیں، اس لئے سب سے پہلے ان ہی سے ملاقات کرائی گئی اور اس ملاقات میں ہجرت کی طرف اشارہ تھا کہ جس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے دشمن ( ابلیس) کی وجہ سے آسمان اور جنت سے زمین کی طرف ہجرت فرمائی اسی طرح آپ ﷺ بھی اپنے دشمنوں کی وجہ سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائیں گے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرح آپ ﷺ کو بھی وطن مالوف کی مفارقت طبعا شاق ہوگی۔ دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات کی خصوصیت یہ تھی کہ تمام انبیاء میں جس نبی سے آنحضرت ﷺ کو سب سے زیادہ زمانی قرب حاصل ہے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں، نیز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آخر زمانہ میں دجال کے قتل کے لئے آسمان سے اتریں گے اور امت محمدیہ میں ایک مجدد ہونے کی حیثیت سے شریعت محمدیہ کو جاری فرمائیں گے اور قیامت کے دن تمام لوگوں کو لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں وہی حاضر ہوں گے اور آپ ﷺ سے شفاعت کی درخواست کریں گے، ان وجوہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات کرائی گئی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی معیت محض ان کی نسبی قرابت کی وجہ سے تھی۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات کی خصوصیت یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنحضرت ﷺ کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ اس بنا پر سب سے زیادہ مخصوص قرب حاصل ہے، کہ جب آنحضرت ﷺ کی امت جنت میں داخل ہوگی تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شکل و صورت کے حسن و جمال کی حامل ہوگی، نیز اس ملاقات میں اس طرف اشارہ تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرح آپ ﷺ کو بھی اپنے خاندانی بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں سے سخت تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں گی اور بالاآخر آپ ﷺ ان پر غالب آکر ان سے درگزر فرمائیں گے۔ چوتھے آسمان پر حضرت ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات کی خصوصیت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا ورفعنہ مکانا علیا۔ اور چونکہ ساتوں آسمانوں میں درمیانی اور معتدل چوتھا آسمان ہی ہے اس لئے ان کو چوتھے آسمان آسمان پر رگھا گیا، نیز اس ملاقات میں اس طرف اشارہ تھا کہ آنحضرت ﷺ سلاطین عالم کو دعوت اسلام کے خطوط روانہ فرمائیں گے، کیونکہ خط و کتابت کے اول موجد حضرت ادریس (علیہ السلام) ہی ہیں۔ پانچویں آسمان پر حضرت ہارون (علیہ السلام) سے ملاقات کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ( حضرت ہارون) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہونے کی حیثیت سے ان سے بہت قریب بھی تھے اور دعوت حق کے راستہ میں ان کے معتمد مددگار بھی، اس اعتبار سے ان کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان سے قریب پانچویں آسمان پر رکھا گیا اور ان کے اوپر چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو رکھا گیا، کیونکہ وہ کلیم اللہ کی فضیلت رکھنے کے سبب دوسرے نبیوں سے اوپر چھٹے آسمان ہی سے موزونیت رکھتے تھے نیز اس ملاقات میں اس طرف اشارہ تھا کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) ملک شام میں جبارین سے جہاد و قتال کے لئے گئے اور اللہ نے ان کو فتح دی اسی طرح آنحضرت ﷺ بھی دشمنان دین سے جہاد و قتال کے لئے ملک شام میں داخل ہوں گے، چناچہ آنحضرت ﷺ شام میں عزوہ تبوک کے لئے تشریف لے گئے اور دومۃ الجندل کے رئیس نے جزیہ دے کر صلح کی درخواست پیش کی اور آنحضرت ﷺ نے اس کی صلح کی درخواست منظور فرمالی اور جس طرح ملک شام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت یوشع (علیہ السلام) کے ہاتھ پر فتح ہوا اسی طرح حضور پر نور ﷺ کے بعد حضرت عمر کے ہاتھ پر پورا ملک شام فتح ہوا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے خلیل ہیں۔ اس اعتبار سے ہمارے حضرت ﷺ کے بعد تمام نبیوں میں وہ سب سے افضل و اشرف ہیں، لہٰذا ان کو تمام انبیاء کے اوپر ساتویں آسمان پر رکھا گیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ بانی کعبہ بھی ہیں اس لئے اس آخری ملاقات میں اس طرف اشارہ تھا کہ آنحضرت ﷺ وفات سے بیشتر حج بیت اللہ فرمائیں گے اور آخر کار مکہ مکرمہ آپ ﷺ کے ہاتھوں فتح ہوگا۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہاں یہ احتمال ہے کہ اس شب میں آسمان پر تمام انبیاء کو جمع کرنے کے بجائے ان چند مخصوص انبیاء کو جمع کرنا کافی سمجھا گیا ہو، وہیں یہ احتمال بھی ہے کہ باقی انبیاء بھی جمع کئے گئے ہوں اور اس موقع پر وہ سب اپنی اپنی حیثیت اور درجہ کے مطابق یہاں یہ احتمال ہے کہ اس شب میں آسمان پر انبیاء کو جمع کرنے کے بجائے ان چند مخصوص انبیاء کو جمع کرنا کافی سمجھا گیا ہو، وہیں یہ احتمال بھی ہے کہ باقی تمام انبیاء بھی جمع کئے گئے ہوں اور اس موقع پر وہ سب اپنی اپنی حیثیت اور درجہ کے مطابق مقامات پر آسمانوں میں موجود ہوں لیکن ذکر میں صرف ان مخصوص و مشہور انبیاء کے اسماء پر اکتفاء کیا گیا ہو اور باقی انبیاء کے ذکر کی ضرورت ہی نہ سمجھی گئی ہو۔ اس کے بعد مجھ کو سدرۃ المنتہی تک پہنچایا گیا۔ سدرۃ المنتہی ساتویں آسمان پر ایک بیری کا درخت ہے جس کی جڑ چھٹے آسمان میں ہے۔ سدرۃ کے معنی بیر کے درخت کے ہیں اور منتہی کے معنی ہیں وہ جگہ جہاں ہر چیز پہنچ کر رک جاتی ہے۔ چناچہ زمین سے جو بھی چیز اوپر جاتی ہے وہ سدرۃ المنتہی پر جا کر منتہی ہوجاتی اور پھر اوپر اٹھائی جاتی ہے، اسی طرح ملاء اعلی سے جو چیز اترتی ہے وہ سدرۃ المنتہی پر آکر ٹھہر جاتی ہے پھر نیچے لائی جاتی ہے، گویا یہ وہ مقام ہے جس کے آگے فرشتے بھی نہیں جاسکتے۔ یہ سعادت صرف ہمارے حضرت ﷺ کو حاصل ہوئی کہ آپ ﷺ اس مقام سے بھی آگے تشریف لے گئے، آپ ﷺ کے علاوہ اور کوئی اس مقام سے آگے نہیں گیا۔ واذا ورقھا اذان لفیلۃ ( اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے) اس جملہ میں لفظ فیلہ اسل میں فیل ( ہاتھی) کی جمع ہے اور دیک کے وزن پر ہے جو دیک ( مرغ) کی جمع ہے۔ سدرۃ ی المنتہی کے پھلوں کو بڑے بڑے مٹکوں کے برابر اور اس کے پتوں کو ہاتھی کے کانوں کے برابر کہنا عوام کو سمجھانے اور قیاس عقل میں لانے کے لئے ہے حقیقت یہ ہے کہ لفظی طور پر نہ تو خود اس درخت کی لمبائی موٹائی حد حصر میں آسکتی ہے اور نہ اس کے پھل اور پتوں کے بڑے پن کا کائی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ سدرۃ المنتہی ہے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا یہ کہنا یا تو آنحضرت ﷺ کو اس مقام سے متہعارف کرانا اور اس بات کی مبارکباد دینا تھا کہ آپ ﷺ اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جو تمام خلائق کے عقل وعلم کا منتہی ہے اور جس کے آگے آپ ﷺ کے علاوہ اور کئی کی رسائی ممکن نہیں ہے یا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے اس کہنے کا مقصد یہ عذر بیان کرنا تھا کہ اب وہ مقام آگیا ہے جس کے آگے مجھے بھی جانے کی اجازت اور تاب نہیں ہے، اس لئے میں یہاں سے آگے آپ ﷺ کی رفاقت ومصاحبت میں نہیں رہ سکوں گا۔ یہ باطن کی دو نہریں جنت کی ہیں کے بارے میں طیبی نے لکھا ہے کہ جنت کی ان دونوں نہروں میں سے ایک نہر تو سلسبیل تھی اور دوسری نہر کوثر تھی۔ نیز ان دونوں نہروں کو باطن ( پوشیدہ) اس اعتبار سے کہا گیا ہے، کہ وہ جنت میں بہتی ہیں، وہاں سے باہر نہیں نکلتیں۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے جنت کی ان دونوں نہروں کو باطن اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عقل ان کے اوصاف و خصوصیات کی حقیقت وکہنہ کا ادراک نہیں کرسکتی۔ اور یہ ظاہر کی دو نہریں نیل وفرات ہیں کے بارے میں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں نہروں سے مراد مصر کا دریائے نیل اور عراق کا دریائے فرات ہے، جن کے متعلق حدیث میں ہے کہ یہ دونوں اصل میں سدرۃ المنتہی کی جڑ سے نکل کر زمین تک آئے ہیں اور روئے زمین کے ان علاقوں میں بہتے ہیں۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا کہ ان دونوں نہروں کو نیل اور فرات سے تعبیر کرنا یا تو تشبیہ اور استعارہ کے طور پر ہے کہ دریائے نیل اور دریائے فرات کا پانی شیرینی ولطافت اور فوائد و منافع کے اعتبار سے جنت کے پانی کے مشابہ ہے اور یا یہ محض اسمی اشتراک ہے کہ جیسے زمین کے دو دریاؤں کے نام نیل وفرات ہیں ایسے ہی جنت کی دو نہروں کے نام بھی نیل اور فرات ہیں۔ پھر مجھ کو بیت المعمور دکھلایا گیا۔ بیت المعمور بھی اللہ کا گھر ہے جو قبلہ ملائک ہے اور ساتویں آسمان پر واقع ہے، اس کا محل وقوع ٹھیک خانہ کعبہ کے محاذات میں ہے، بالفرض اگر وہ گرے تو عین کعبہ پر آکر گرے۔ اس کا ذکر آگے حدیث میں آرہا ہے۔

【3】

واقعہ معراج کا ذکر

دودھ فطرت ہے الخ فطرت دین سے مراد دین اسلام ہے جس کو حق تعالیٰ نے ہر انسان کی پیدائش وخلقت کی بنیاد ہے۔ دودھ اور فطرت یعنی دین اسلام میں مماثلت و مناسبت یہ ہے کہ جس طرح دین اسلام انسان کی رواحانی اور اعتقادی تخلیق کی خشت اول ہے اسی طرح دودھ انسان کی جسمانی پرورش اور اٹھان کا بنیادی عنصر ہے، یہ دودھ ہی ہوتا ہے جس سے آدمی کی پیدائش ہوتے ہی پرورش شروع ہوجاتی ہے اور پھر دودھ میں جو فطری خوبیاں، لطافت و پاکیزگی، شیرین ومنفعت اور خوشگواری ہے، اس سے دین فطرت یعنی اسلام کو بہت مناسبت حاصل ہے، اسی لئے عالم بالا میں دین اور علم کی مثال دودھ کو قرار دیا گیا ہے اور علماء کہتے ہیں اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ وہ دودھ پی رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اس شخص کو دین اور علم سے بہت زیادہ حصہ اور بیشمار فوائد حاصل ہوں گے۔ تم اور تماری امت کے لوگ اس فطرت پر رہیں گے۔ یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف سے بشارت تھی کہ آپ ﷺ نے چونکہ دودھ کے پیالہ کو اختیار فرمایا اس لئے ثابت ہوگیا کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے لوگ دین اور علم کی راہ پر گامزن رہیں گے دودھ کے مقابلہ پر شراب ہے، جو ہر برائی کی جڑ بتائی گئی ہے اور آپ ﷺ نے اس کو ترک کر کے گویا اپنی امت کے لوگوں کو بالعموم برائی کے راستہ پر جانے سے روک دیا ہے، چناچہ ایک حدیث میں یہ منقول ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ بھی کہا تھا اگر آپ شر اب کا پیالہ لے لیتے تو پھر آپ کی امت فتنہ و فساد یعنی تمام خرابیوں کی جڑ پڑجاتی واضح رہے کہ ( معراج کا واقعہ) جس زمانہ کا ہے اس وقت شراب پینا مباح تھا، خصوصا شراب جنت ( جو آپ ﷺ کو اس موقع پر پیش کی گئی، کی حیثیت دوسری تھی لیکن اس کے باوجود عالم بالا میں جس چیز کو برائی اور خرابی کی جڑ قرار دیا گیا وہ شراب ہی ہے۔ اب رہ گئی شہد کی بات، تو اگرچہ شہد بھی ایک لطیف اور پاکیزہ چیز ہے اور اس کو شفا کا ذریعہ بھی بتایا گیا ہے لیکن اس کی لطافت و پاکیزگی اور خوشگواری چونکہ دودھ سے بڑھ کر نہیں، بلکہ اس سے کم ہی ہے اور اس کی حیثیت بھی دودھ کی بہ نسبت غیر اہم ہے، اس لئے آپ ﷺ نے دودھ کے مقابلہ پر شہد کو بھی ترجیع نہیں دی۔ ویسے آگے جو حدیث آرہی ہے اس میں شہد کا ذکر بھی نہیں ہے، صرف دودھ اور شراب کے پیالوں کا ذکر ہے۔ نیز اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ چیزوں کے پیالے آپ ﷺ کے سامنے اس وقت پیش کئے گئے جب آپ ﷺ سدرۃ المنتہی کے پاس تھے جب کہ آگے آنے والی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ پیالے آپ ﷺ کے سامنے بیت المقدس میں پیش کئے گئے، لہذا علماء نے لکھا ہے کہ یہ پیالے آپ ﷺ کے سامنے دو مرتبہ پیش کئے گئے تھے، ایک مرتبہ مسجد اقصی میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد، اس وقت صرف دو پیالے آپ ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے یعنی ایک دودھ کا اور ایک شراب کا، جیسا کہ اگلی حدیث میں ذکر ہے اور دوسری مرتبہ آسمان پر ( سدرۃ المنتہی کے پاس) تین پیالے پیش کئے گئے جن میں سے ایک دودھ کا تھا، ایک میں شہد تھا اور ایک میں شراب تھی۔ تم پھر پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لئے ( پانچ نمازوں میں بھی) تخفیف کی درخواست کرو۔ کے تحت خطابی نے کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا آنحضرت ﷺ کو باربار اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجنا اور ان کے مشورہ پر آنحضرت ﷺ کا اللہ تعالیٰ سے نمازوں کی تعداد میں تخفیف کی درخواست کرنا اس بات کی علامت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نمازوں کی فرضیت کا جو ابتدائی حکم صادر ہوا ہے وہ وجوب قطعی کے طور پر نہیں ہے، اس میں تبدیلی کی گنجائش ہے۔ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بات معلوم نہ ہوتی تو وہ بار بار تخفیف کی درخواست کا مشورہ نہ دیتے، نیز آنحضرت ﷺ کی طرف سے بار بار درخواست پیش کرنا اور ہر مرتبہ اس درخواست کا منظور ہونا بھی اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پہلا حکم قطعًا وجوب کے طور پر نہیں تھا کیونکہ جو حکم وجوب قطعی کے طور پر جاری ہوتا ہے اس میں تخفیف کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ملا علی قاری نے خطابی کے اس قول کو طیبی کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد اپنی طرف سے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ان کے نزدیک خطابی کی بات وزن دار نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ تخفیف کی درخواست کرنا اصل میں علامت ہی اس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم وجوب کے طور پر تھا، کیونکہ جو چیز واجب نہ ہو اس میں تخفیف کی درخواست کی ضرورت پیش نہیں آتی، لہٰذا اس سلسلہ میں صحیح بات وہی ہے جو بعض حضرات نے نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے پچاس نمازیں ہی فرش کی تھیں پھر اپنے بندوں کے حال پر رحم کرتے ہوئے تخفیف کی درخواست قبول فرمائی اور پچاس نمازوں کے حکم کو منسوخ کر کے پانچ نمازوں کا حکم جاری ونافذ فرمایا جیسا کہ اور بعض احکام میں بھی تبدیلی ومنسوخی کا عمل ہوا ہے۔

【4】

اسراء اور معراج کا ذکر

اور حضرت ثابت بنانی (رح) ( تابعی) حضرت انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے سامنے براق لایا گیا جو ایک سفید رنگ کا، دراز بینی، میانہ قد، چوپایہ تھا، گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا، جہاں تک اس کی نگاہ جاتی تھی وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا، میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس میں آیا اور میں نے اس براق کو ( مسجد کے دروازہ پر) اس حلقہ سے باندھ دیا جس میں انبیاء کرام ( اپنے براقوں کو یا اس براق کو) باندھتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر میں مسجد اقصی میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں مسجد سے باہر آیا اور جبرائیل (علیہ السلام) میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا اور ایک پیالہ دودھ کا لائے، میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا آپ ﷺ نے فطرت ( یعنی دین اسلام) کو اختیار کرلیا اور پھر ہمیں آسمان کی طرف چڑھایا۔ اس کے بعد حضرت انس (رض) نے حدیث کا وہی مضمون بیان کرتے ہوئے جو سابق حدیث میں گذرا کہا کہ ( آنحضرت ﷺ نے فرمایا) میں نے ( پہلے آسمان پر) حضرت آدم (علیہ السلام) ( ان الفاظ میں) مرحبا کہا ( کہ میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں) اور میرے لئے دعائے خیر کی۔ پھر آپ ﷺ نے تیسرے آسمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں میں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا جن کو آدھا حسن عطا کیا گیا تھا، انہوں نے بھی مجھ کو مرحبا کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی۔ راوی یعنی ثابت بنانی نے ( حضرت انس (رض) سے اس روایت میں) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے رونے کا ذکر نہیں کیا ( جیسا کہ حدیث سابق میں تھا) اور آنحضرت ﷺ نے ساتویں آسمان کو ذکر کرتے ہوئے اور بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے (طواف کے لئے) داخل ہوتے ہیں جن کو دوبارہ داخل ہونا نصیب نہیں ہوتا ( یعنی ہر دن نئے ستر ہزار فرشتے طواف کے لئے آتے ہیں کیونکہ فرشتوں کی کثرت کی بناء پر کسی فرشتہ کو ایک مرتبہ کے بعد پھر دوبارہ بیت المعمور میں داخل ہونے کا کبھی موقع نہیں ملتا) اس کے بعد مجھ کو سدرۃ المنتہی کی طرف لے جایا گیا ( جو ساتویں آسمان بری کا درخت ہے) میں نے دیکھا کہ اس ( سدرۃ المنتہی) کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر اور اس کے پھل ( یعنی بیر) مٹکوں کے برابر تھے، پھر جب سدرۃ المنتہی کو اللہ کے حکم سے ڈھانکے والی چیز نے ڈھک دیا تو اس کی حالت بدل گئی ( یعنی اس میں پہلے سے زیادہ اعلی تبدیلی آگئی اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی خوبی اور وصف ( کے کمال) کو بیان نہیں کرسکتا، پھر اللہ تعالیٰ نے جو وحی چاہی میری طرف بھیجی ( یعنی مجھ سے بلا واسطہ کلام فرمایا) پھر مجھ پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر میں اس مقام سے نیچے اترا اور ( ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے رخصت ہوتا ہوا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چھٹے آسمان پر آیا، انہوں نے پوچھا تمہارے پروردگار نے تمہاری امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا رات دن میں پچاس نمازیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اپنے پروردگار کے پاس واپس جاؤ اور ( نمازوں کی تعداد میں) تخفیف کی درخواست کرو کیونکہ تمہاری امت اتنی طاقت نہیں رکھتی، میں بنی اسرائیل کو آماز کر اور ان کا امتحان لے کر پہلے دیکھ چکا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مشورہ پر) میں بارگاہ الٰہی میں پھر حاضر ہوا اور کہا میرے پروردگار ! میری امت کے حق میں آسانی فرمادیجئے۔ چنانچھ اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے میری امت کے حق میں ( آسانی فرما کر) پانچ نمازیں کم کردیں۔ پھر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا کہ میری درخواست پر پانچ نمازیں کم کردی گئی ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ! تمہاری امت اتنی ( نمازیں ادا کرنے کی بھی) طاقت نہیں رکھتی، تم پھر اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور مزید تخفیف کی درخواست کرو ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں اسی طرح اپنے پروردگار اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان آتا جاتا رہا ( اور تخفیف کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا کہ میری درخواست پر ہر مرتبہ پانچ نمازیں کم کردی جاتیں) ! رات دن میں فرض تو یہ پانچ نمازیں ہیں لیکن ان میں سے ہر نماز کا ثواب دس نمازوں کے برابر ہے، اس طرح یہ پانچ نمازیں ثواب میں پچاس نمازوں کے برابر ہیں اور ہمارا اصول یہ ہے کہ) جس شخص نے نیکی کا قصد کیا اور اس کو ( کسی شرعی عذر یا کسی دوسری رکاوٹ کے سبب) پورا نہ کرسکا تو اس کے حساب میں ( صرف اس قصد ہی کی وجہ سے) ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور اگر اس قصد کے بعد اس نے اس نیکی کو کرلیا تو اس کے حساب میں وہ نیکی دس گنا لکھی جاتی ہے۔ اور جس شخص نے برے کام کا قصد و ارادہ کیا اور پھر اس برے کام کو نہ کرسکا تو اس کے حساب میں وہ برائی نہیں لکھی جائے گی اور اگر اس نے اپنے قصد کے مطابق اس برے کام کو کرلیا تو اس کے حساب میں وہی ایک برائی لکھی جائے گی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ! پھر بارگاہ الٰہی سے نیچے ( چھٹے آسمان پر) واپس آیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو صورت حال بتائی، انہوں نے پھر مشورہ دیا کہ اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور ( پانچ نمازوں میں بھی) تخفیف کی درخواست کرو ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ میں بار بار اپنے پروردگار کے پاس جا چکا ہوں اب مجھ کو اس کے پاس جاتے شرم آتی ہے۔ (مسلم ) تشریح پھر میں مسجد اقصی میں داخل ہوا کے تحت ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ اسراء یعنی مسجد اقصی تک کے سفر پر سب علماء کا اتفاق ہے اور کسی نے اس کی واقعیت سے اختلاف نہیں کیا ہے، البتہ مسجد اقصیٰ سے آسمان تک کے سفر یعنی واقعہ معراج میں بعض لوگوں جیسے معتزلہ نے اختلاف کیا ہے اور ان کا یہ اختلاف بھی علمائے قدیم کے اس نظریہ کو ماننے کی وجہ سے ہے کہ آسمان میں خرق والتیام محال ہے۔ اور دو رکعت نماز پڑھی یہ تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں تھی جو آپ ﷺ نے مسجد اقصی میں داخل ہونے کے بعد پڑھیں اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ اس نماز کا ذکر ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے امامت فرمائی اور دوسرے انبیاء نے جن کو آنحضرت ﷺ کے اعزاز میں بیت المقدس میں جمع کیا گیا تھا، آپ ﷺ کی اقتداء کی تھی، پس راوی نے اس موقع پر آنحضرت ﷺ کی امامت کا ذکر یا تو اختصار کے پیش نظر نہیں کیا یا وہ اس جز کو ذکر کرنا بھول گئے جیسا کہ سابق حدیث میں آنحضرت ﷺ کے مسجد اقصی میں جانے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ جبرائیل۔ میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا اور ایک پیالہ دودھ کا لائے ہوسکتا ہے کہ راوی نے یہاں اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف دو پیالوں کا ذکر کیا اور تیسرے پیالے یعنی شہد کے پیالہ کے ذکر کی ضرورت نہ سمجھی اور جیسا کہ پیچھے بیان ہوا یہ بھی ممکن ہے کہ مسجد اقصی میں تو آپ ﷺ کے سامنے دو پیالے یعنی ایک شراب کا اور ایک پیالہ دودھ کا لائے گئے تھے، البتہ آسمان پر تین پیالے پیش کئے گئے جن میں ایک پیالہ شہد کا بھی تھا۔ پھر ہمیں آسمان کی طرف چڑھایا یہ ثم عرج بنا الی السماء کا لفظی ترجمہ ہے، اس جملہ میں لفظ عرج اور ر کے زبر سے ہے جیسا کہ نووی اور سیوطی نے لکھا ہے، اس صورت میں عرج کا فاعل یا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو کہا جائے گا یا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے چونکہ آگے بنا کے لفظ ارشاد فرمایا ہے اس لئے عرج کا فاعل اللہ تعالیٰ ہوا، مطلب یہ کہ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اور جبرائیل (علیہ السلام) کو اوپر آسمان تک پہنچایا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنا کا لفظ محض اظہار تعظیم کے لئے ہو، تو پھر عرج کا فاعل حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہی ٹھہریں گے۔ نیز ایک نسخہ میں عرج کا لفظ بصیغہ مجہول نقل ہوا ہے، اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا ! پھر ہمیں اور پر آسمان تک لے جایا گیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا جن کو آدھا حسن عطا کیا گیا تھا۔ آدھے حسن سے کیا مراد ہے، اس سلسلہ میں زیادہ صحیح اور تحقیقی قول یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے گویا یہ ظاہر فرمایا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں جتنا حسن و جمال تمام لوگوں میں تھا اس کا آدھا حصہ تنہا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ملا تھا اور بعض حضرات نے اس جملہ سے آنحضرت ﷺ کی یہ مراد بیان کی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو میرے حسن کا آدھا حصہ عطا کیا گیا تھا۔ یعنی آنحضرت ﷺ کو جو حسن و جمال عطا کیا گیا تھا اس کا آدھا حصہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ملا تھا۔ اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) حسن و جمال میں ہمارے حضرت ﷺ سے بڑھ کر نہیں تھے بلکہ متعدد صاحب تحقیق اور قاتل اعتماد علماء نے لکھا ہم کہ آنحضرت ﷺ حضرت یوسف (علیہ السلام) سے زیادہ حسن و جمال کے مالک تھے اور اس کی ایک دلیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارمے میں یہ کہیں نہیں آیا ہے کہ ان ( حضرت یوسف (علیہ السلام) کی صورت کے جمال کا عکس مثل آیئنہ کے دیوار پر پڑتا ہوا اور سامنے کی چیزیں اس میں نظر آتی ہوں جب کہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ نقل ہوا ہے کہ آپ ﷺ کے روئے انور کا جمال اسی درجہ کا تھا، یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اس روشن جمال کے بہت کچھ حصہ جلوہ ریز رہا کرتا تو نہ کسی کو تاب نظارہ ہوتی اور نہ کسی کو روئے انور کے دیدار کی سعادت حاصل ہوسکتی تھی، جب کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا جو کچھ حسن و جمال تھا سب کی نظروں کے سامنے تھا، اس میں کوئی حصہ پوشیدہ نہیں رکھا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے دوسری بات لکھی ہے، ان کا کہنا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شان میں اور ان کے حسن و جمال کی تعریف میں جو باتیں منقول اور ثابت ہیں۔ ان میں سے کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ذہن میں یہ بات ڈالتی ہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حسن و جمال بےمثال تھا، جیسا کہ اسی واقعہ معراج سے متعلق ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ! اس شب میں ایک ایسے شخص ( یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھی دیکھنا اور ان سے ملنا ہوا جو قدرت کی سب سے حسین تخلیق تھا اور جو اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ حسن و جمال سے نوازا گیا تھا۔ جس طرح تمام ستاروں میں چاند سب سے زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ حدیث بھی ہے جو ترمذی نے حضرت انس (رض) سے نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی نبی اور رسول مبعوث نہیں کیا جو خوبرو اور خوش آواز نہ ہوا اور سب سے زیادہ خوش آواز تمہارے پیغمبر ﷺ تھے۔ جہاں تک شب معراج سے متعلق اس حدیث کا تعلق ہے جس کو شیخ عبد الحق دہلوی نے پیش کیا ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنی ذات کو الگ کر کے یہ بات فرمائی تھی، یعنی آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ ذات رسالت مآب ﷺ کو چھوڑ کر باقی تمام مخلوق اللہ میں سب سے زیادہ حسین و جمیل حضرت یوسف (علیہ السلام) تھے اور اس تاویل کی گنجائش یوں بھی موجود ہے کہ کلام کرنے والا عموم خطاب میں داخل نہیں ہوتا ! حضرت شیخ ابن حجر مکی نے شرح شمائل ترمذی میں لکھا ہے آنحضرت ﷺ پر کامل ایمان میں سے ایک جزء یہ اعتقاد رکھنا بھی ہے کہ جتنا حسن و جمال آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس اور ظاہری شکل و صورت کو عطا ہوا اتنا حسن و جمال کسی بھی انسان کی ذات کو اور ظاہری شکل و صورت کو نہیں دیا گیا، جیسا کہ جتنا فضل و کمال آنحضرت ﷺ کے باطن میں رکھا گیا اتنا فضل و کمال کسی اور انسان کے باطن کو نصیب نہیں ہوا اور چونکہ کسی بھی انسان کا ظاہر، اس کے باطن کا غماز اور مظہر ہوا کرتا ہے اس لئے جس طرح آپ ﷺ کا باطن بےمثال اسی طرح آپ ﷺ کا ظاہر بھی بےمثال ! نیز آنحضرت ﷺ کے ظاہری و باطنی حسن و جمال کی مدح و تعریف میں بس یہی بات اصول کا درجہ رکھتی ہے کہ مرتبہ الوہیت کے علاوہ فضل و کمال کے اور جتنے بھی مرتبے اور درجے ہوسکتے ہیں وہ سب آنحضرت ﷺ کے لئے ثابت ہیں اور آپ ﷺ سے بڑھ کر ہی نہیں بلکہ آپ ﷺ کے برابر بھی کوئی کامل انسان نہ آج تک پیدا ہوا اور نہ آئندہ کبھی پیدا ہوسکتا ہے۔ کسے بحسن وملاحت بیار ما نرسد تراد ریں سخن انکار کار ما نرسد ہزار نقد بازار کائنات آرند یکے بس کہ صاحب عیار مانرسد اور اسی حقیقت کود وسرے انداز میں ایک اور شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔ یا صاحب الجمال ویاسید البشر من وجھک المنیر لقد نور القمر لایمکن الثناء کما کان حقہ بعد از اللہ بزرگ توئی قصہ مختصر سدرۃ المنتہی کو اللہ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیز نے ڈھک دیا اس بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ کس چیز نے سدرۃ المنتہی کو ڈھک دیا تھا ؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ جو بیشمار فرشتے سدرۃ المنتہی کو گھیرے ہوئے تھے ان کے پروں کی روشنی اور چمک نے گویا پورے درخت پر نور و جمال کی چادریں ڈال دی تھیں۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اللہ کے جلال و عظمت کا نور سونے کے پروانوں کی طرح اس پر گررہا تھا جس کے نیچے پورا درخت چھپ سا گیا تھا۔ بعض حضرات نے یوں کہا ہے سونے کے پتنگے وپروانے اور دوسری رنگ برنگ کی عجیب و غریب چیزوں نے جن کی حقیقت و کیفیت کوئی نہیں جانتا سدرۃ المنتہی کو ڈھک دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو وحی چاہی میری طرف بھیجی یہ وہ موقع تھا جب آنحضرت ﷺ بارگاہ بےنیاز کے حریم قرب میں پہنچے اور نور السموات والارض کے جمال بےمثال کو حجاب کبریائی سے دیکھا اور بلا واسطہ کلام الٰہی اور براہ راست وحی ایزدی سے مشرف و سرفراز ہوئے۔ وہ کلام کیا تھا اور وہ وحی کن الفاظ میں تھی ؟ یہ ایک رمز ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ادب و احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس کو مبہم ومجمل ہی رکھا جائے اور اس کی وضاحت و تشریح کی کوشش نہ کی جائے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے میری امت کے حق میں پانچ نمازیں کم کردیں۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پچاس نمازوں میں جو تخفیف ہوئی وہ ہر مرتبہ پانچ پانچ کم ہونے میں ہوئی جب کہ سابق حدیث میں ہر مرتبہ دس دس اور آخر میں پانچ نمازیں کم ہونے کی صورت ذکر کی گئی ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ یہاں اصل عبارت اس طرح ہو کھ ۔۔۔ میری امت کے حق میں پانچ اور پھر پانچ نمازیں کم کردیں۔ گویا ہر دفعہ پانچ پانچ کر کے دس نمازیں کم کی گئی ہوں گی اور اس طرح اس حدیث کی سابق حدیث سے مطابقت ہوجائے کی۔ لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہر مرتبہ پانچ پانچ نمازوں ہی کی تخفیف ہوتی رہی اور سابق حدیث میں طوالت سے پچھنے کے لئے ہر مرتبہ پانچ پانچ کا ذکر کرنے کے بجائے دس دس کا ذکر کر کے کلام کو مختصر کردیا گیا، اس کی تائید اسی حدیث کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ (آنحضرت ﷺ نے فرمایا) پھر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا کہ میری درخواست پر پانچ نمازیں کم کردی گئی ہیں۔ تو اس کے حساب میں وہ نیکی دس گنی لکھی جاتی ہے۔ ع یعنی نیکی تو وہ ایک ہی کرے گا مگر اس کے نامہ اعمال میں ثواب دس نیکیوں کا لکھا جائے گا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کی بشارت یوں دی ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا۔ جو کوئی ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو ایسی دس نیکیاں ملیں گی اور غیر حرم میں تضاعف کا یہ سب سے ادنیٰ درجہ ہے یعنی حرم شریف کے علاوہ دوسری جگہوں پر کئے جانے والے کسی ایک نیک عمل پر جو کئی کئی گناہ زیادہ ثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے اس میں دس گنا سب سے ادنیٰ درجہ ہے، چناچہ دوسری حدیثوں سے ثابت ہے بعض صورتوں میں ایک عمل پر دس گنا سے بھی زائد یہاں تک کہ سات سو گنا ثواب ملتا ہے، بلکہ صدق و اخلاص کی حیثیت و کیفیت کے بقدر سات سو گنا سے بھی زیادہ ثواب مل سکتا ہے۔ اور پھر اس برے کام کو نہ کرسکا تو اس کے حساب میں وہ برائی نہیں لکھی جائے گی۔ یعنی اگر کسی شخص نے کوئی برا کام کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اس کی وجہ کے بغیر یا کسی ایسے سبب سے کہ جو مباح میں سے ہو، اس نے وہ برا کام نہیں کیا تو اس کے نامہ اعمال میں کوئی برائی نہیں لکھی جائے گی بشرطیکہ وہ ارادہ محض سطحی طور پر پیدا ہوا ہو، دل میں مضبوطی اور پختگی کے ساتھ نہ رہا ہو۔ اور اگر اس نے برے کام کا ایسا ارادہ کیا تھا جو دل میں مضبوطی و پختگی کے ساتھ تھا اور پھر اس نے وہ برا کام نہیں کیا تو دیکھا جائے گا کہ اس نے پختہ ارادہ کے باوجود برا کام کس سبب سے نہیں کیا ؟ اگر یہ سبب۔ کہ اس ارادہ کے بعد اس کے دل پر اللہ کا خوف غالب آگیا اور اس نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس برے کام سے اجتناب کیا تو اس صورت میں اس کے نامہ اعمال میں ایک برائی لکھ دی جائے گی۔ تو اس کے حساب میں صرف وہی ایک برائی لکھی جائے گی۔ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ایک نیکی کرنے پر نامہ اعمال میں وہ نیکی دس گنا لکھی جاتی ہے اس طرح ایک برائی کرنے پر نامہ اعمال میں وہ برائی دس گنا نہیں لکھی جاتی۔ بلکہ ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے کیونکہ کمیت کے اعتبار سے برائی مضاعف نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزی الا مثلہا وہم لا یظلمون اور جو کوئی برائی لے کر آئے اسے ویسی ہی سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ نیز اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا سے واضح ہوا کہ برائی کا مضاعف نہ ہونا عدل الٰہی کا اظہار ہے جب کہ نیکی کا مضاعف ہونا فضل الٰہی ہے۔

【5】

معراج کا ذکر

اور حضرت ابن شہاب زہری (رح) ( تابعی) حضرت انس ابن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا حضرت ابوذر بیان کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں مکہ میں اپنے گھر میں (سویا ہوا) تھا کہ ( اچانک) مکان کی چھت کھلی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے، انہوں نے میرا سینہ چاک کر کے آب زمزم سے دھویا پھر وہ سونے کا ایک طشت لائے جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا، اس کو میرے سینہ میں الٹ دیا گیا اور پھرے سینہ ( کی چا کی) کو ملا کر برابر کردیا گیا۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف چڑھا کرلے گئے، جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ ( دروازہ کھولو، داروغہ نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ اور کوئی بھی ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں، میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں۔ داروغہ نے پوچھا کیا ان کو بلوایا گیا ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں ! ! چناچہ دروازہ کھولا گیا اور جب ہم آسمان دنیا کے اوپر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور ( ان کی اولاد وزریات میں سے) کچھ لوگ ان کے دائیں اور کچھ بائیں بیٹھے ہوئے ہیں ( پھر میں نے یہ بھی دیکھا کھ) جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے ہیں تو ہنسنے لگتے ہیں ( کیونکہ اس طرف دوزخی لوگ تھے جن کو دیکھنا رنج وغم کا باعث تھا) انہوں نے ( سلام و جواب بعد میری طرف مخاطب ہو کر) کہا پیغمبر صالح اور نیک بخت بیٹے کو میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ! یہ آدم (علیہ السلام) ہیں اور یہ لوگ جو ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں ان کی اولاد کی روحیں ہیں، ان میں سے جو لوگ ان کے دائیں بیٹھے ہیں وہ جنتی ہیں اور جو لوگ ان کے بائیں بیٹھے ہیں وہ دوزخی ہیں، اسی لئے جب یہ ( آدم (علیہ السلام) اپنی دائیں جانب دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں وہ جنتی ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے ہیں تو روتے ہیں، اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) مجھ کو لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اور انہوں نے آسمان کا دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو اس کے داروغے نے بھی وہی سوال کیا جو پہلے آسمان کے داروغہ نے کیا تھا۔ راوی کہتے ہیں ! غرضیکہ اسی طرح آنحضرت ﷺ نے تمام آسمانوں پر پہنچنے اور وہاں حضرت آدم (علیہ السلام) ، حضرت ادریس (علیہ السلام) ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات کا ذکر فرمایا لیکن ان کے منازل و مقامات کی کیفیت و احوال کو بیان نہیں کیا، صرف حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے آسمان پر اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے چھٹے آسمان پر ملنے کا ذکر فرمایا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھ کو ابن حزم نے بتایا کہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابوحبہ انصاری نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ! پھر مجھ کو اور اوپر لے جایا گیا، یہاں تک میں ایک ہموار اور بلند مقام پر پہنچا جہاں قلموں سے لکھنے کی آوازیں آرہی تھیں ابن حزم اور حضرت انس یہ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے کی طرف سے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں، چناچہ ( پچاس فرض نمازوں کا یہ حکم اور اس پر عمل آوری کا ارادہ لے کر) میں واپسہوا، لیکن جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گذرا تو انہوں نے پوچھا کہ پروردگار نے تمہارے ذریعہ تمہاری امت پر کیا چیز فرض کی ہے ؟ میں نے ان کو بتایا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا اپنے پروردگار کے پاس واپس جاؤ ( اور ان نمازوں میں تخفیف کی درخواست کرو) کیونکہ تمہاری امت اتنی نمازیں ادا نہیں کرسکے گی۔ اس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مجھ کو بارگاہ رب العزت میں واپس کیا ( یعنی ان کے کہنے پر میں نے پروردگار کی بارگاہ میں واپس جا کر درخواست پیش کی) اور ان میں سے کچھ نمازیں ( یعنی دس نمازیں) کم کردی گئیں۔ میں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ( پچاس نمازوں) کا کچھ حصہ معاف کردیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اپنے پروردگار کے پاس پھر جاؤ ( اور عرض معروض کر کے مزید تخفیف کی درخواست کر) کیونکہ تمہاری امت اتنی نمازیں ادا کرنے کی بہی طاقت نہیں رکھے گی۔ میں پھر واپس گیا ( اور مزید تخفیف کے لئے عرض معروض کی) چناچہ ان میں سے کچھ اور نمازیں کم کردی گئیں، اس کے بعد پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار کے پاس جاؤ ( اور مزید تخفیف کی درخواست کرو) کیونکہ تمہاری امت اتنی نمازیں ادا کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھی گی، چناچہ میں پھر گیا ( اور پروردگار سے خوب عرض معروض کی) پس ( پروردگار نے مزید تخفیف کر کے پانچ نمازوں کا حکم دے دیا تو) پروردگار نے فرمایا فرض تو یہ پانچ نمازیں ہیں لیکن ( اجر وثواب کے اعتبار سے) پچاس نمازوں کے برابر ہیں، میرا قول تبدیل نہیں ہوتا۔ میں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا کہ اب پانچ نمازیں فرض رہ گئی ہیں) تو انہوں نے کہا کہ اب مجھ کو بارگاہ رب العزت میں واپس جانے ( اور پانچ نمازوں میں تخفیف کی درخواست کرنے) کا مشورہ دیا، لیکن میں کہا کہ اب مجھ کو اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے۔ اس کے بعد ( آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ) مجھ کو سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا جس پر ( جلال کبریائی کے انوار یا ملائکہ کے پروں کی چمک یا کسی اور چیز کے) اس طرح کے رنگ چھائے ہوئے تھے جن کے بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز تھی ( یعنی یا تو اس وقت جو کچھ میں نے دیکھا اور محسوس کیا اس کو اب بیان کرنے پر قادر نہیں ہوں یا یہ کہ اس وقت میں ذات حق کی طرف اس طرح متوجہ اور مستغرق تھا کہ میری نظر کو سدرۃ المنتہی پر چھائے ہوئے رنگوں کی حقیقت تک پہنچنے اور جاننے کا موقع ہی نہیں ملا) اس کے بعد مجھ کو جنت میں پہنچایا گیا وہاں میں نے موتیوں کے گنبد دیکھے اور یہ بھی دیکھا کہ جنت کی مٹی مشک تھی۔ ( بخاری ومسلم) تشریح لفظ فرج یہ تخفیف مجہول کا صیغہ ہے اور بعض حضرات نے اس کو تشدید کے ساتھ یعنی فرج بھی نقل کیا ہے، دونوں صورتوں میں معنی ایک ہی ہیں، یعنی حضرت جبرائیل مکان کی چھت ہٹا کر اوپر سے آئے۔ اسراء اور معراج کے سفر کی ابتدا اکہاں سے ہوئی اس سلسلہ میں بظاہر مختلف ومتضاد روایتیں منقول ہیں۔ بعض روایتوں میں حطیم، بعض میں حجر کا ذکر ہے جیسا کہ سابق حدیث سے معلوم ہوا، بعض روایتوں میں شعب ابی طالب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں یہ ذکر ہے کہ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کو لینے آئے تو اس وقت آپ ﷺ حضرت ام ہانی کے مکان میں بستر استراحت پر آرام فرما تھے اور یہی روایت مشہور ہے۔ ان تمام روایتوں میں بہترین تطبیق وہ ہے جو صاحب فتح الباری نے لکھی ہے یعنی اس شب میں کہ اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا نبی کریم ﷺ حضرت ام ہانی کے مکان میں سوئے ہوئے تھے جو شعب ابی طالب میں واقع تھا چناچہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) مکان کی چھت پھاڑ کر آنحضرت ﷺ کے باس تشریف لائے اور آپ ﷺ کو جگا کر مسجد حرام میں خانہ کعبہ کے پاس لائے جہاں حطیم اور حجر ہے، آپ ﷺ حطیم میں لیٹ گئے اور چونکہ نیند کا اثر باقی تھا اس لئے آپ ﷺ وہاں پھر سوگئے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے پھر آپ ﷺ کو جگایا اور شق صدر وغیرہ کے مراحل سے گذارنے کے بعد آپ ﷺ کو مسجد حرام کے دروازہ پر لائے جہاں آپ ﷺ کو براق پر سوار کر کے مسجد اقصی لے جایا گیا۔ پس اسراء اور معراج کے سفر کی ابتداء دراصل حضرت ام ہانی کے گھر سے ہوئی جس کو آپ ﷺ نے اپنا گھر اس اعتبار سے فرمایا کہ آپ ﷺ اس شب میں اسی گھر میں مقیم تھے۔ اور پھر میرے سینہ کو ملا کر برابر کردیا گیا اس شق صدر کے سلسلہ میں وضاحت پیچھے پہلی فصل کی پہلی حدیث کے تحت گزر چکی ہے، وہاں حدیث کے جو الفاظ تھے ان سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے قلب مبارک کو سونے کے طشت میں دھویا گیا اور اس کے بعد علم و ایمان سے بھر آگیا، لیکن یہاں حدیث میں جو الفاظ ہیں ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے سینہ مبارک کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا طشت لایا گیا اور اس کو سینہ مبارک میں الٹ دیا گیا۔ تاہم ان دونوں میں کوئی گہرا تضاد نہیں ہے، صورت واقعہ کی ترتیب یہ تھی کہ آپ ﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کیا گیا پھر قلب مبارک نکال کر اس کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا طشت لایا گیا اور اس ایمان و حکمت کو آپ ﷺ کے قلب مبارک میں بھر دیا گیا۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف چڑھا کرلے کرلے گئے۔ یہاں نہ تو براق لائے جانے اور اس پر آنحضرت ﷺ کو سوار کرنے کا ذکر ہے اور نہ مسجد اقصیٰ میں لے جانے کا ذکر ہے۔ اسی بناء پر بعض حضرات نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اسراء اور معراج دو الگ الگ واقعے ہیں اور دونوں واقعے الگ الگ شب میں پیش آئے، نیز براق کی سواری اسراء کی شب میں تھی جب کہ معراج کی شب میں سیڑھی کے ذریعہ آسمان پر تشریف لے گئے تھے۔ اور یہ لوگ جو ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں ان کی اولاد کی روحیں ہیں کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ چونکہ منقول ہے کہ مؤمنوں کی روحیں تو علیین میں چین کرتی ہیں اور کافروں کی روحیں سجین میں محبوس ہیں لہٰذا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ سب روحیں ایک مقام میں ( یعنی آسمان پر حضرت آدم (علیہ السلام) کے دائیں بائیں) کیسے جمع ہوئیں ؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شاید ایک وقت معین میں یہ روحین حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیش ہوتی ہوں گی اور آنحضرت ﷺ جب آسمان دنیا پر پہنچے اور حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملاقات کی تو وہ وہی وقت تھا جب تمام روحیں حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیش تھیں۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے دائیں بائیں جو روحیں دیکھی تھیں وہ ان لوگوں کی تھیں جو اس وقت تک دنیا میں پیدا نہیں ہوئے تھے اور وہ روحیں اپنے اپنے اجسام میں نہیں گئی تھیں اور ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کے رہنے کی جگہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے دائیں بائیں ہو، نیز حضرت آدم (علیہ السلام) ان روحوں کا انجام جانتے تھے کہ جو روحیں دائیں طرف ہیں وہ دنیا میں اچھے عقائد و اعمال اختیار کر کے جنت میں جائیں گی اور جو روحیں بائیں طرف ہیں وہ دنیا میں برے عقائد و اعمال اختیار کر کے دوزخ میں جائیں گی۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے چھٹے آسمان پر ملنے کا ذکر کیا حضرت شہاب کی یہ روایت جس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ شب معراج میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے آنحضرت ﷺ کی ملاقات چھٹے آسمان پر ہوئی تھی، گویا اس روایت کے مطابق ہے جو حضرت انس (رض) سے ایک دوسرے روای حضرت شریک نے نقل کی ہے، ان روایتوں کی علاوہ باقی اور تمام روایتوں سے یہ ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ساتویں آسمان پر ہوئی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ معراج کا واقعہ ایک سے زائد مرتبہ پیش آیا تھا تو اس صورت میں ان متضاد روایتوں سے کوئی اشکال پیدا نہ ہوگا، ہاں اشکال اس وقت پیدا ہوگا جب یہ کہا جائے کہ جسمانی معراج کا واقعہ ایک ہی مرتبہ پیش آیا تھا جیسا کہ معتمد و مشہور قول ہے، دریں صورت اس اشکال کا جواب یہ ہوگا کہ معراج کے سلسلہ میں سب سے زیادہ قوی اور سب سے زیادہ صحیح روایت وہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا تو وہ بیت المعمور سے پشت لگائے بیٹھے تھے اور یہ بات کسی اختلاف کے بغیر ثابت ہے کہ بیت المعمور ساتویں آسمان پر ہے۔ علاوہ ازیں یہاں راوی نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تمام آسمانوں پر پہنچنے اور وہاں حضرت آدم (علیہ السلام) اور ادریس (علیہ السلام) وغیرہ سے ملاقات کا ذکر فرمایا لیکن ان کے منازل و مقامات کو بیان نہیں فرمایا اس سے یہ خود ثابت ہوجاتا ہے کہ راجح اور زیادہ قابل اعتماد روایت وہی قرار پائے گی جس میں ہر نبی اور رسول کے بارے میں وضاحت کے ساتھ ذکر ہے کہ کس نبی سے کس آسمان پر ملاقات ہوئی۔ حاصل یہ کہ آسمانوں کے تعین اور انبیاء کرام (علیہم السلام) سے ملاقات کے بارے میں حدیثوں میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ اختلاف راویوں کے اشتباہ کی وجہ سے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو چھٹے آسمان پر بھی دیکھا ہو اور ساتویں آسمان پر بھی، اس لئے کسی روایت میں چھٹے آسمان پر ملاقات کو بیان کیا گیا اور کسی روایت میں ساتویں آسمان پر ملاقات کا ذکر ہے۔ ۔۔۔ جہاں قلموں کے لکھنے کی آوازیں آرہی تھیں یہ مقام صریف الاقالم، کا ذکر ہے۔ صریف الاقلام قلم کی اس آواز کو کہتے ہیں جو لکھنے کے وقت پیدا ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ جب آنحضرت ﷺ کو اور عروج ہوا تو آپ ﷺ اس بلند مقام پر پہنچے جہاں قضاء وقدر کے قلم مشغول کتابت تھے، ملائکۃ اللہ امور الہٰی کی کتابت اور احکام الٰہی کو لوح محفوظ سے نقل کرنے میں مصروف تھے، کتابت اور قلم چلنے سے جو آ واز پیدا ہو رہی تھی اس کو آپ ﷺ نے سنا۔ بعض علمائے محققین نے یہ حدیث کے اس جملہ کی وضاحت میں لکھا ہے ! آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اس عروج کے دوران میں اس مقام تک لے جایا گیا جہاں رفعت مرتبہ کے سبب اس جگہ تک پہنچنا بھی نصیب ہوا جو کائنات کے نظام قدرت احکام الٰہی کے صدور اور مخلوق کے تمام خدائی نظم ونسق کا بلا تشبیہ و تمثیل مرکزی دفتر اور صدر مقام ہے اس طرح اس جگہ پہنچ کر گویا مجھ پر کائنات سے متعلق نظام قدرت کے رموز کا انکشاف ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں آپ ﷺ سے پہلے کسی اور کو پہنچنا نصیب نہیں ہوا۔ رہی یہ بات کہ وہ قلم کیسے تھے اور ان کی شکل و صورت کیا تھی ؟ تو اس کا علم اللہ اور اللہ کے رسول کے سوا کسی کو معلوم نہیں، اس بارے میں تحقیق و جستجو بیکار ہے، ویسے قلم کی حقیقت کے بارے میں اتنا بتادینا ضروری ہے کہ وہ اس چیز کا نام ہے جس سے نقوش وحرف پیدا ہوں اور اس کی حقیقت و حیثیت کچھ بھی ہوسکتی ہے، کسی دھات کا ہولڈر یا نب اور یا سر کنڈا، قلم کی حقیقت میں داخل نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے یہاں قلم کی وضاحت میں تاویل کا طریقہ اختیار کیا ہے اور اس کے ظاہری معنی مراد نہیں لئے ہیں، لیکن یہ غیر مناسب بات ہے، خالص اعتقادی نقطہ نظر سے تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ قلم کو اس کے ظاہری معنی ہی پر محمول کیا جانا چاہئے اور وجود قلم کا عقیدہ رکھنا چاہئے اور یہ کہ اس قلم کی حقیقت و کیفیت کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا جائے۔ میرا قول تبدیل نہیں ہوتا۔ ان الفاظ کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ میں نے اجر وثواب کے اعتبار سے نمازوں کو پچاس نمازوں کے برابر کردیا ہے۔ اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ اور دوسرے یہ کہ تمہارے بار بار کہنے پر میں نے پچاس نمازوں کی جگہ پانچ نمازیں کردیں ہیں اور اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ ٫٫ اب مجھ کو اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے آنحضرت ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ تو پھر اس بار گاہ میں حاضر ہونا اور مزید تخفیف کی درخواست کرنا حیاء کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں اس بات سے بھی آپ ﷺ کو شرم محسوس ہوئی کہ اب تک اتنی مرتبہ تخفیف کی درخواست لے کر جا چکا ہوں اور ہر مرتبہ رخصتی اسلام کرکے واپس آجاتا ہوں اور پھر درخواست لے کر پہنچ جاتا ہوں، لہٰذا آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صاف کہہ دیا کہ کہ اب میں تخفیف کی درخواست لے کر نہیں جاؤں گا۔ وہاں میں نے موتیوں کے گنبد دیکھے مسلم کی ایک اور روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ میں جنت کی سیر کررہا تھا کہ اچان کہ ایک نہر دیکھی جس کے دونوں کناروں پر ( بڑے بڑے) مجوف موتیوں کے گنبد تھے۔ اور یہ بھی دیکھا کہ جنت کی مٹی مشک تھی۔ یعنی جنت کی مٹی سے ایسی خوشبو پھوٹ رہی تھی جیسے مشک مہک رہا ہو یا یہ کہ جنت کی جو مٹی ہے وہ دراصل مشک ہے اور اس کی خوشبو اتنی زیادہ ہے کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے جنت کی خوشبو کی لپٹ پانچ سو سال کی مسافت کی دوری تک پہنچتی ہے۔

【6】

سدرۃ المنتہی کا ذکر

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کو رات میں ( بیت المقدس اور آسمانوں کی) سیر کرائی گئی تو آپ ﷺ کو سدرۃ المنتہی تک پہنچایا گیا اور سدرۃ المنتہی چھٹے آسمان پر ہے، نیز جو بھی چیز زمین سے اوپر لے جائی جاتی ہے، وہ سدرۃ المنتہی پر جا کر منتہی ہوجاتی ہے اور پھر کسی واسطہ و ذریعہ کے بغیر اوپر اٹھائی جاتی ہے، اسی طرح جو چیز ملاء اعلی سے زمین پر اتاری جاتی ہے وہ بھی سدرۃ المنتہی پر جا کر منتہی سے لی جاتی ہے۔ اس کے بعد حضرت ابن مسعود (رض) نے یہ آیت پڑھی (اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى) 53 ۔ النجم 16) ( یعنی اس وقت کہ ڈھانک لیا سدرہ کو جس چیز نے ڈھانک لیا) اور کہا کہ وہ چیز ( جس نے سدرہ کو ڈھانکا ہے سونے کے پتنگے ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے یہ بھی کہا کہ شب معراج میں رسول کریم ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں ١ پانچ نمازوں کر فرضیت عطا ہوئی ٢ سورت بقرہ کی آخری آیتیں عنایت ہوئیں ٣ اور آنحضرت ﷺ کی امت میں سے اس شخص کے گناہ کبیرہ کی معافی کا پروانہ عطا ہوا جو کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرائے۔ (مسلم ) تشریح سدرۃ المنتہی چھٹے آسمان پر ہے اس جملہ کے بارے میں بعض شارحین نے کہا ہے کہ یہ کسی راوی کا وہم ہے، یعنی اصل میں حدیث میں حضرت ابن مسعود (رض) نے تو سدرۃ المنتہی کے ساتویں آسمان پر ہونے کا ذکر کیا تھا لیکن ان کے بعد کسی راوی نے غلط فہمی سے یا بھول کر چھٹے آسمان کا ذکر کردیا، چناچہ تحقیقی بات یہی ہے کہ سدرۃ المنتہی ساتویں آسمان پر ہے اور جمہور راویوں نے یہی نقل کیا ہے، قاضی نے کہا یہی بات زیادہ صحیح ہے کہ سدرۃ المنتہی ساتویں آسمان پر ہے اور جمہور راویوں نے یہی نقل کیا ہے، ایک اور بڑے محقق ومحدث خلیل نے کہا سدرۃ المنتہی ساتویں آسمان پر ہے جو تمام آسمانوں اور جنت پر چھایا ہوا ہے۔ امام نووی (رح) فرماتے ہیں کہ (اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ اس حدیث میں چھٹے آسمان کا ذکر کسی راوی کا وہم نہیں بلکہ روایت کے اصل الفاظ ہیں تو اس صورت میں) اس روایت اور ان روایتوں کے درمیان کہ جن میں سدرۃ المنتہی کی جڑ چونکہ چھٹے آسمان میں ہے اس لئے اس کا چھٹے آسمان پر ہونا ذکر کیا گیا ہے۔ اس ( سدرۃ) کا اصل ظہور اور شاخیں چونکہ ساتویں آسمان پر ہیں اس لئے زیادہ تر روایتوں میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ساتویں آسمان پر ہے۔ ۔۔۔ وہ اسی سدرۃ المنتہی پر جا کر منتہی ہوجاتی ہے الخ۔ اس پوری عبارت کا مطلب یہ ہے کہ زمین سے بھی چیزیں یعنی بندوں کے اعمال اور ان کی روحیں فرشتوں کے ذریعہ اوپر جاتی ہیں وہ سب اس سدرۃ المنتہی پر جا کر ٹھہر جاتی ہیں، اس کے آگے چونکہ فرشتوں کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہے اس لئے یہاں سے وہ چیزیں فرشتوں کے واسطہ و ذریعہ کے بغیر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اوپر اٹھا لیتا ہے، اسی طرح جو چیزیں بارگاہ قدس سے زمین پر نازل ہوتی ہیں جیسے اوامرو احکام الہٰی وہ سب اوپر سے آکر سدرۃ المنتہی پر ٹھہر جاتی ہیں اور وہاں متعین فرشتے ان چیزوں کے لئے ہیں اور نیچے تک پہنچاتے ہیں۔ پس مخلوق کے علوم اور فرشتوں کے عروج کی آخری حد سدرۃ المنتہی ہی ہے، اس کے آگے اور اوپر جانے کی اجازت مقرب ترین فرشتوں کو بھی نہیں ملتی ہے، یہ صرف ہمارے حضرت ﷺ کی ذات گرامی ہیں جن کو سدرۃ المنتہی سے بھی آگے جانے کا شرف حاصل ہوا، بلکہ آپ ﷺ تو اس مقام تک تشریف لے گئے جو مقام لکان سے ماوراء ہے۔ اس وقت کہ ڈھانک لیا سدرہ کو جس چیز نے ڈھانگ لیا۔ یہ آیت کریمہ اذ یغشی السدرۃ الخ کا ترجمہ ہے جو حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) نے سدرۃ المنتہی کے ذکر کی مناسبت سے پڑھی، گویا حق تعالیٰ نے بھی اس چیز کو مبہم ہی رکھا جس نے سدرۃ المنتہی کو ڈھانک رکھا ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ایک ایسی چیز ہے جس کی حقیقت کنہ کوئی نہیں جان سکتا اور نہ کوئی یہ بتاسکتا کہ وہ چیز مقدار و تعداد میں کتنی ہے اور کیفیت و حیثیت کے اعتبار سے کیسی ہے۔ نیز مبہم انداز بیان کا مقصد اس چیز کی عظمت اور کثرت کو بیان کرنا ہے اور سابق حدیث میں آنحضرت ﷺ کے ان الفاظ لا ادری ماہیتہ ( میں نہیں جانتا وہ کیا چیز تھی) سے بھی یہی مراد ہے، نہ کہ واقعۃ علم و ادراک کی نفی مراد ہے۔ ایک اور روایت میں اسی سدرۃ المنتہی کے متعلق یہ آیا ہے کہ اس کے ہر پتہ پر فرشتہ کھڑا ہے جو اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول ہے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ ( اس کی شاخوں اور پتوں پر) سبز رنگ کے پرندوں کا جھنڈا ہے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ وہ سبز رنگ کے پرندے دراصل انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء عظام کی روحیں ہیں۔ وہ چیز سونے کے پتنگے ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) کا اس چیز کو سونے کے پتنگوں سے تعبیر کرنا اس کی حقیقت وماہیت بیان کرنے کے لئے نہیں کہ وہ چیز واقعتاً سونے کے پتنگے ہیں، بلکہ یہ تو انہوں نے محض تشبیہ کے طور پر ذکر کیا ہے، مطلب یہ کہ جو بیشمار فرشتے سدرۃ المنتہی پر متعین ومقرر ہیں ان کے پیروں کی چمک ایسا منظر پیش کرتی ہے جیسے سونے کے پتنگے ( پروانے) پورے سدرہ کو ڈھانکے ہوئے ہوں، نیز اس تعبیر میں فراش استعمال سدرہ پر نازل ہونے والے نور اقدس حق تعالیٰ کی تئیں ان فرشتوں کی شیفتگی وفریفتگی اور حیرانی وسرگردانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایک روایت میں جراد من ذہب ( سونے کی ٹڈی) کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ اور یہ بھی تمثیل و تشبیہ کے طور پر ہے کیونکہ جب ٹڈیاں کسی درخت پر ٹھہر جاتی ہیں تو اوپر سے پورا درخت ان کے نیچے چھپ کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح کن ذہب کے الفاظ بھی چمک دمک سے کنایہ ہیں اور ہوسکتا ہے کہ الفاظ کے ظاہری و حقیقی معنی ہی مراد ہوں، یعنی وہ پتنگے یا ٹڈیاں واقعۃ سونے کی ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ شب معراج میں رسول کریم ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شب میں علم وعمل، معرفت و حقائق، اسرارو فیوض اور انوار و برکات کی قسم ہے جو عظیم خزانے آنحضرت ﷺ کو عطا ہوئے ان کی لا محدودیت حصر و شمار سے ماوراء ہے، یہ تین چیزیں تو حضرت ابن مسعود (رض) نے وہ بیان کی ہیں جو امت کے تعلق سے مخصوص شرف و کرامت رکھتی ہیں اور ان کی خاص اہمیت کے اعتبار سے ان کا ذکر کیا جانا ضروری بھی تھا۔ سورت بقرہ کی آخری آیتیں عنایت ہوئیں۔ میں امن الرسول سے آخری سورت تک کی دونوں آیتیں مراد ہیں اور شب معراج میں ان آیتوں کے عطا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبولیت کا پروانہ عطا فرمایا جو ان آیتوں میں مذکور ہیں۔ پس یہ پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اچانک اپنے اوپر ( دروازہ کھلنے کی سی) ایک آواز سنی، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا اور پھر کہا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو زمین پر آیا ہے اور آج سے پہلے کبھی یہ زمین پر نہیں آیا تھا، اس کے بعد اس نو وارد فرشتہ نے (آنحضرت ﷺ کو) سلام کیا اور کہا آپ ﷺ کو مبارک ہو ( میں یہ خوشخبری لے کر آیا ہوں) کہ آپ ﷺ کو وہ دو نور عطا کئے گئے ہیں جو آپ ﷺ سے پہلے کسی اور نبی کو عطا نہیں ہوئے، ایک تو فاتحۃ الکتاب یعنی سورت فاتحہ اور دوسرا سورت بقرہ کی آخری آیتیں، آپ ان دونوں میں سے جو حرف بھی پڑھیں گے اس کے عوض ( اجر وثواب یا اس میں مذکور دعا کی قبولیت سے) نوازے جائیں گے، گویا شب معراج میں ان آیتوں کا دیا جانا ان عطایا الٰہی میں کا ایک حصہ تھا جن سے اس اہم موقع پر اور اس رفیع الشان مقام یعنی بارگاہ کبریائی میں آپ ﷺ کو سرفراز فرمایا گیا اور جس کی ایک یاد گار نماز پنجگانہ ہے اور مسلم وغیرہ کی اس روایت میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ فرشتے کا آسمان سے اترنا، آپ ﷺ کو شب معراج میں عطا شدہ ان آیتوں کی اہمیت و فضیلت کو ظاہر کرنے اور یہ بشارت دینے کے لئے تھا کہ آپ ﷺ کو جو یہ سب سے بڑی چیز عطا ہوئی ہے آپ ﷺ سے پہلے بھی نبی کو عطا نہیں ہوئی۔ اس صورت میں ان دونوں روایتوں کے درمیان کسی تضاد کا سوال یہ پیدا نہیں ہوتا، ہاں یہاں ایک یہ اشکال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ سورت بقرہ وہ سورت ہے جس کو مدنی کہا گیا ہے ( یعنی یہ سورت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے) جب کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے پہلے مکہ کی سکونت کے زمانہ کا ہے، دوسرے لفظوں میں، سورت بقرہ کی آیتوں کے شب معراج میں عطا ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آیتیں مدنی نہیں، بلکہ مکی ہیں ؟ اس کا جواب محدثین وشارحین نے یہ دیا ہے کہ سورت بقرہ کو مدنی اس اعتبار سے نہیں کہا گیا ہے کہ اول سے آخر تک اس کی تمام آیتیں مدینہ میں نازل ہوئی ہیں، بلکہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ ان دو آخری آیتوں کے علاوہ اور تمام آیتیں مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ ابن ملک نے حسن، ابن سیرین اور مجاہد (رض) سے یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورت بقرہ کی وحی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے واسطہ کے بغیر شب معراج میں براہ راست خود عطا فرمائی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان حضرات کے نزدیک پوری سورت بقرہ مکی ہے، تاہم جمہور مفسرین اور محدثین کا قول یہی ہے کہ یہ پوری سورت مدنی ہے اور اس قول کی روشنی میں اس روایت کے اس مفہوم کو کہ سورت بقرہ کی آخری آیتیں شب معراج میں عطا ہوئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ آیتوں کے الفاظ ( غفرانک سے آخر تک میں جو دعا تلقین کی گئی ہے آنحضرت ﷺ اور ان آیتوں کے پڑھنے والوں کے حق میں اس دعا کی قبولیت کا پروانہ شب معراج میں عطا ہوا۔ اور آنحضرت ﷺ کی امت میں سے اس شخص کے گناہ کبیرہ کی معافی کا پروانہ عطا ہوا الخ کا مطلب یہ ہے کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ سے امت کی مغفرت کا وعدہ کیا گیا یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا۔ بغیر عذاب کے بھی بخش دے گا خواہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو، لیکن شرط یہ ہے کہ اس نے شرک کا ارتکاب نہ کیا ہو۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء۔ اللہ تعالیٰ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سواہ ( اور گناہ) جس کو بخش دے گا۔ پس حدیث کے اس جملہ سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کھلی معافی دے دی گئی ہے اور کسی بھی ایسے مؤمن وموحد کو عتاب و عذاب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے، کیونکہ ان مؤمنین وموحدین کا عذاب میں مبتلا کیا جانا جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں، نصوص شرعیہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ رہا یہ سوال کہ اگر گناہ کبیرہ کے مرتکب کی مغفرت کا تعلق مشیت الہٰی سے ہے تو پھر حدیث میں اس کا ذکر کیوں نہ کیا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ۔ مغفرت کا انحصار مشیت الہٰی پر ہونا چونکہ ایک کھلی ہوئی بات تھی جس کا علم پہلے ہی سب کو ہے اس لئے مشیت الہٰی کے ذکر کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ اور ابن حجر (رح) نے یہ لکھا ہے کہ گناہ کبیرہ کی معافی سے مراد یہ ہے کہ مؤمنین وموحدین میں سے کوئی بھی شخص دوزخ میں ہمیشہ نہیں رکھا جائے گا خواہ اس نے کتنے یہ گناہ کبیرہ کئے ہوں، جب کہ مشرکین ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ لیکن ملا علی قاری (رح) نے ابن حجر کی اس بات پر تنقید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس صورت میں نہ تو اس امت کی کوئی خصوصیت باقی رہتی ہے اور نہ اس کے مرتبہ کی بلندی ظاہر ہوتی ہے، لہٰذا یہ کہنا زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے کہ معافی و مغفرت سے مراد امت محمدیہ ﷺ کے اکثر افراد کو معافی و مغفرت کا پروانہ عطا ہوتا ہے یعنی دوسری امتوں کے مقابلہ میں یہ خصوصیت آنحضرت ﷺ کی امت ہی کو حاصل ہوگی کہ اس کے اکثر وبیشتر لوگ پروردگار کی خصوصی رحمت کے تحت بخش دئے جائیں گے اور انہیں عذاب دوزخ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور اسی اعتبار سے اس امت کو امت مرحومہ کہا گیا ہے۔

【7】

قریش کے سوالات پر بیت المقدس آنحضرت ﷺ کی سامنے لایا گیا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے آپ کو حجر ( حطیم) میں دیکھا، اس حال میں کہ ( میں کھڑا تھا) اور قریش مکہ مجھ سے میرے شب معراج کے سفر کے بارے میں سوالات کر رہے تھے اور بیت المقدس کی وہ چیزیں اور نشانیاں دریافت کر رہے تھے جو مجھ کو اس وقت یاد نہیں رہی تھیں۔ اس بات سے ( کہ قریش کی پوچھی ہوئی باتوں کا جواب نہ دے پایا تو یہ سب لوگ میرے بیت المقدس کے سفر اور معراج کے واقعہ کو ایک جھوٹا دعویٰ سمجھیں گے، میں اتنا سخت پریشان اور غمگین ہوگیا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا پریشان اور غمگین نہیں ہوا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی اور، بیت المقدس کو بلند کردیا جو میری نظروں کے سامنے آگیا ( یعنی قادر مطلق نے میرے اور بیت المقدس کے درمیان سارے فاصلے سمیٹ دئیے اور سارے حجابات اٹھا دئیے، جس سے بیت المقدس کی پوری عمارت اپنے گرد وپیش کے ساتھ میری نظروں کے سامنے آگئی اور میں اس قابل ہوگیا کہ قریش مکہ بیت المقدس کی جس چیز اور علامت کے بارے میں پوچھیں، میں اس کو دیکھ دیکھ کر بتاتا رہوں) چناچہ وہ مجھ سے ( بیت المقدس کے بارے میں) جو کچھ پوچھتے میں ان کو ( سامنے دیکھ کر بتادیتا ) اور یہ حقیقت ہے کہ ( اسراء و معراج کی رات میں) میں نے اپنے آپ کو انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان دیکھا، میں نے ( اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا جو کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک میانہ قد مرد نظر آئے جیسے وہ ( قبیلہ) شنوہ سے تعلق رکھنے والے شخص عروہ ابن مسعود (رض) ثقفی ہیں، پھر میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دیکھا جو کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ ان سے سب سے زیادہ مشابہت جو شخص رکھتا ہے وہ تمہارا دوست ہے، (تمہارے دوست سے) آنحضرت ﷺ کی مراد خود اپنی ذات تھی۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ) جب نماز کا وقت آیا تو میں ان سب ( انبیاء علیہم السلام) کا امام بنا اور جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ( آسمان پر جانے سے پہلے یا آسمان پر پہنچنے اور بارگاہ رب العزت میں حاضری کے بعد) ایک کہنے والے نے مخاطب کر کے کہا محمد ﷺ ! یہ دوزخ کا داروغہ موجود ہے ( اپنے پروردگار کی قہاریت کی تعظیم کے لئے یا جیسا کہ ابرار و صالحین کے آداب میں سے ہے از راہ تواضع و انکساری، اس کو سلام کرو ! چناچہ میں ( سلام کرنے کے لئے) اس ( داروغہ دوزخ) کی طرف متوجہ ہوا، لیکن سلام میں پہل اسی نے کی۔ ( مسلم) تشریح میں نے اپنے آپ کو انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان دیکھا۔ یہ آپ ﷺ نے اس وقت کا ذکر کیا ہے جب شب معراج میں آپ ﷺ مکہ سے روانہ ہوئے اور آسمانوں پر جانے سے پہلے بیت المقدس میں تشریف لائے۔ لہٰذا علماء ومحققین کا متفقہ قول ہے کہ یہ دیکھنا اس دیکھنے کے علاوہ ہے جو آسمانوں میں تھا۔ مطلب یہ کہ ایک دفعہ تو آپ ﷺ نے انبیاء کرام (علیہم السلام) کو مسجد اقصیٰ میں اس وقت دیکھا جب آپ ﷺ آسمانوں پر جانے سے پہلے بیت المقدس میں تشریف لائے اور دوبارہ ان انبیاء (علیہم السلام) کو آسمانوں میں دیکھا اور ان سے ملاقات کی۔ نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ان انبیاء (علیہم السلام) کو آسمانوں میں دیکھنا ان کو روحوں کے دیکھنے پر محمول ہے یعنی وہ انبیاء (علیہم السلام) آسمانوں میں اپنے جسموں کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ ان کی روحوں کو وہاں جمع کیا گیا تھا) البتہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ان کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہاں موجود ہیں، اسی طرح بعض حضرات نے حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں بھی یہی کہا ہے۔ رہا مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس) کا معاملہ، کہ وہاں انبیاء (علیہم السلام) کا نماز پڑھنا کس صورت پر محمول ہے ؟ تو یہ بھی احتمال ہے کہ محض ان کی روحوں نے نماز پڑھی تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کے جسموں نے اپنی روحوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ یہ دوسرا احتمال زیادہ قرین قیاس یوں ہے کہ پہلے گذر ہی چکا ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) اپنے پروردگار کے یہاں زندہ ہیں اور اللہ نے انبیاء (علیہم السلام) کے جسموں کو کھانا زمین پر حرام کیا ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین انبیاء (علیہم السلام) کے جسم کو نہیں کھاتی اور وہ اپنی قبروں میں جوں کے توں موجود ہیں) اور چونکہ ان کے جسم وبدن عام جسموں کی طرح کثیف نہیں ہیں بلکہ روحوں کی طرح لطیف ہیں لہٰذا قادر مطلق اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سبب عالم ملک و ملکوت میں کہیں بھی ان کے حاضر وجمع ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ خود حدیث کے وہ الفاظ بھی جن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کے نماز پڑھنے کا ذکر ہے، اسی بات کی تائید کرتے ہیں کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) نماز پڑھتے وقت بیت المقدس میں اپنے جسم اور روح دونوں کے ساتھ تھے، کیونکہ نماز کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ مختلف افعال جو اعضاء جسم کے ذریعہ صادر ہوں نہ کہ محض روح کے ساتھ۔ یہاں ایک اشکال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے ان انبیاء (علیہم السلام) کو مسجد اقصیٰ میں آنحضرت ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی اور پھر ان کو آنحضرت ﷺ کے استقبال و تکریم کے لئے آسمانوں پر پہنچادیا گیا ہے، یا یہ کہ مسجد اقصیٰ میں آنحضرت ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد ان کی روحوں کو آسمانوں پر متشکل کردیا گیا جن سے آنحضرت ﷺ نے وہاں ملاقات فرمائی، البتہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) اپنے جسموں کے ساتھ ہی آسمانوں میں تھے۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان انبیاء (علیہم السلام) کو آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھانے اور ان کے ساتھ جمع ہونے کا واقعہ سدرۃ المنتہی سے واپسی کے بعد پیش آیا ہو۔ تاہم اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے، اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے، اس نے جس طرح چاہا اپنی قدرت کا کرشمہ ظاہر کیا، اگر اولیاء اللہ کو متعدد صورتوں کے ساتھ مختلف جگہوں پر لوگ دیکھ سکتے ہیں ( جیسا کہ بعض بزرگوں کے حالات میں لکھا ہے، تو انبیاء کرام (علیہم السلام) کے ساتھ ایسی صورت پیش آنے میں کیا استبعاد ہے اور خوارق عادات ( یعنی معجزوں اور کرشموں) کا مطلب بھی تو یہی ہے کہ جو چیزیں عقل و قیاس میں آنے والی نہ ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ظہور میں آئیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک میانہ قد مرد نظر آئے میں میانہ قد لفظ جعد کا ترجمہ ہے ویسے لغت میں اس لفظ کے مختلف معنی آتے ہیں جن میں سے ایک تو یہی میانہ قد ہے دوسرے ہلکا لیکن گول گٹھا ہوا مضبوط جسم، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مضبوط بدن کے آدمی تھے اور تیسرے گھونگھریالے بال، لیکن جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، اس تیسرے کا اطلاق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر موزوں نہیں ہوگا کیونکہ دوسری روایتوں سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بال گھونگھریالے نہیں تھے بلکہ وہ سیدھے بال والے تھے۔ جب نماز کا وقت آیا تو میں ان سب کا امام بنا اس موقع پر ان انبیاء کرام (علیہم السلام) کا مسجد اقصی میں جمع ہونا اور نماز پڑھنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نماز دراصل مؤمن کی معراج ہے، یعنی یہی وہ عبادت ہے جو بندے کو اپنے خالق سے ملاتی ہے اور عبودیت کا سب سے بڑا مرتبہ عطا کرتی ہے کیونکہ اپنے رب کے آگے حضور اور پروردگار کے کمال قرب کی حالت اسی عبادت سے نصیب ہوتی ہے اور یہ حالت عشاق کے نزدیک سب سے بڑی لذت اور سب سے زیادہ کیف آور ہے۔ حدیث کے الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان انبیاء (علیہم السلام) کو یہ نماز آسمان پر جانے سے پہلے بیت المقدس میں پڑھائی اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان انبیاء (علیہم السلام) کے نماز پڑھنے اور آنحضرت ﷺ کی امامت کا واقعہ آسمان پر بھی پیش آیا ہو، گو حدیث کے الفاظ اس طرف اشارہ نہیں کرتے بلکہ اس واقعہ کا بیت المقدس ہی میں پیش آنا مفہوم ہوتا ہے۔ نیز یہ نماز جس کی امامت آنحضرت ﷺ نے فرمائی، یا تو نماز تحیہ تھی یا معراج کی مناسبت سے وہ مخصوص نماز تھی جو صرف اسی موقع پر پڑھی گئی۔ یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ مکہ سے لے کر بیت المقدس تک اور وہاں سے آسمانوں تک معراج کا سارا واقعہ اس دنیا سے ماوراء عالم ملک و ملکوت سے تعلق رکھتا ہے اور وہ عالم عبادات و اعمال کی کوئی ذمہ داری اور مسؤلیت عائد نہیں کرتا، تو پھر انبیاء (علیہم السلام) نے نماز کیوں پڑھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو انبیاء کرام صلوات اللہ علیہم حقیقی و دنیاوی حیات کے ساتھ زندہ ہیں اور چونکہ وہ زندہ ہیں، اس لئے ہوسکتا ہے کہ انہیں نماز کی ادائیگی کا مکلف بنایا گیا ہو، دوسرے یہ کہ اس عالم میں نماز یا کسی بھی عبادت کا وجوب بیشک اٹھا ہوا ہے لیکن ان کا وجود نہیں اٹھایا گیا لیکن سلام میں پہلی اسی نے کی یعنی آنحضرت ﷺ کا دبدبہ اور شان رحمت چونکہ دوزخ کی آگ اور داروغہ دوزخ پر غالب ہے لہٰذا آپ ﷺ کے اس تفوق و برتری کی بناء پر داروغہ دوزخ نے خود بڑھ کر سلام کیا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آسمان پر پیش آیا جیسا کہ ترجمہ کے دوران بھی اشارہ کیا گیا۔

【8】

بیت المقدس کا آنحضرت کے سامنے لایا جانا

حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ! جب قریش نے ( شب معراج میں میرے بیت المقدس جانے کے بارے میں) مجھے جھٹلایا ( اور بیت المقدس کی عمارتی علامات اور نشانیاں مجھ سے پوچھنے لگے) تو میں حجر یعنی حطیم میں کھڑا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے لئے نمایاں کردیا، چناچہ میں بیت المقدس کی طرف دیکھ دیکھ کر اس کی نشانیاں اور علامات ان لوگوں کو بتاتا رہا۔ (بخاری ومسلم) تشریح اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے نمایاں کردیا کا مطلب یہ ہے کہ اس موقع پر جب کہ قریش مکہ بیت المقدس کی عمارتوں اور ان کی نشانیوں کے بارے میں مجھ سے سوالات کر رہے تھے اور میرے ذہن میں بیت المقدس کا پورا عمارتی نقشہ اور اس کی نشانیاں محفوظ نہ رہنے کے سبب میں ان عمارتوں کو دوبارہ دیکھے بغیر ان کے سوالات کے جواب نہ دے سکتا تھا، قادر مطلق نے میری یوں مدد فرمائی کہ میرے اور بیت المقدس کے درمیان کے سارے فاصلے سمیٹ دئیے اور میری نگاہوں کے سامنے سے وہ ساری رکاوٹیں دور کردیں جو میرے اور بیت المقدس کے درمیان حائل تھیں اس طور سے پورا بیت المقدس میری نگاہوں کے سامنے آگیا اور میں کسی اشتباہ و احتمال کے بغیر اس کی ایک ایک چیز اچھی طرح دیکھ کر قریش مکہ کے ایک ایک سوال کا بالکل صحیح جواب دینے پر قادر ہوگیا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ پورا بیت المقدس اٹھا کر لایا گیا ہو اور آنحضرت ﷺ کے سامنے رکھ دیا گیا ہو، جیسا کہ ایک روایت میں، جو حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے، بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا چناچہ مسجد اقصیٰ اٹھا کر لائی گئی اور دار عقل کے پاس رکھی گئی۔۔۔ ! اور حقیقت یہ ہے کہ ظہور معجزہ میں کامل ترین صورت بھی یہی ہے، جیسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعہ میں ثابت ہے کہ بلقیس کا تخت ایک لمحہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے لا کر رکھ دیا گیا تھا۔ معراج کا باب ختم ہو رہا ہے، لیکن مؤلغ کتاب نے اس باب میں ایسی کوئی حدیث نقل نہیں کی جس سے بارگاہ رب العزت میں آنحضرت ﷺ کے حاضر ہونے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر ہوتا ؟ دراصل علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ آنحضرت ﷺ کو شب معراج میں دیدار الٰہی کا شرف حاصل ہوا یا نہیں اور اگر دیدار حاصل ہوا تو وہ سر کی آنکھوں سے تھا یہ دل کی آنکھوں سے ؟ واضح رہے کہ دل کی آنکھوں سے دیکھنا ایک الگ چیز ہے اور جاننا ایک دوسری چیز ہے، بعض حضرات سے جن میں صحابہ کرام اور تابعین عظام میں سے بھی کچھ حضرات شامل ہیں، یہ کہا ہے کہ آپ ﷺ کو شب معراج میں دیدار الٰہی تو حاصل ہوا لیکن وہ دیدار بصری نہیں تھا، قلبی تھا یعنی آپ ﷺ نے دل کی آنکھوں سے دیکھا، سر کی آنکھوں سے نہیں ! جب کہ جمہور صحابہ وتابعین اور علماء کا مسلک یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے پروردگار کو سر کی آنکھوں سے دیکھا اور محققین کے نزدیک یہی قول راجح اور حق ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل اللہ تعالیٰ کے دیدار کے باب میں پہلے گذر چکی ہے۔