183. معجزوں کا بیان

【1】

معجزوں کا بیان

معجزات معجزۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں وہ خارق عادت جس کو اللہ تعالیٰ کے نبی و رسول کے ہاتھ سے ظاہر کر دے اور دوسرے اس سے عاجز ہوں۔ لفظ معجزہ اصل میں عجز سے مشتق ہے جس کے معنی نا تو اں ہونا، عاجز ہونا کے ہیں اور جو حزم ( قادر ہونا) کی ضد ہیں۔ اسی لفظ سے معجزہ بنا ہے جس کے معنی ہیں، عاجز کرنے والا، اعجاز دکھانے والا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے اور ان کے ہاتھ سے معجزہ ظاہر ہوتا ہے اس کی امت اور قوم کے لوگ نہ صرف یہ کہ مقابلہ میں اس معجزہ کی طرح کا کوئی کرشمہ دیکھا نے اور پیش کرنے سے عاجز ہوتے ہیں بلکہ اگر کوئی چاہے کہ اس معجزہ کا توڑ کر دے تو یہ بھی ممکن نہیں ہوتا۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (رح) نے لکھا ہے معجزہ کا لفظ اعجاز سے لیا گیا ہے جس کے معنی عاجز کرنے کے ہیں اور معجزہ اس چیز کو کہتے ہیں جو خارق عادت ہو اور جس سے نبوت و رسالت کا دعوی ظاہر وثابت ہوتا ہو اور جو خوارق عادات ظہور نبوت سے پہلے ظاہر ہوتے ہیں ان کو معجزات نہیں کہتے بلکہ ارہاصات کہتے ہیں جو ارہاص کی جمع ہے، ارہاص کے لغوی معنی مکان کو اینٹ مٹی اور پتھر کے ساتھ مضبوط ومستحکم بنانے کے ہیں، لہٰذا ظہور نبوت سے پہلے ظاہر ہونے والے خوارق عادات گویا نبوت و رسالت کی عمارت کو مستحکم و مضبوط بنانے کا ابتدائی ذریعہ ہوتے ہیں۔

【2】

خوارق عادات کی قسمیں

خارق عادت، یعنی ایسی چیز کا وقوع پذیر ہونا جو جاری نظام قدرت سے الگ اور عادت وعام طریقہ کے خلاف ہو اور جس کو کرشمہ سمجھا جاتا ہو، مختلف نوعیتیں ہوتی ہیں اور اسی اعتبار سے ان کی الگ الگ قسمیں ہیں ! اور پھر ان قسموں کو الگ الگ ناموں سے تعبیر کیا گیا ہے، تاکہ ان سب کی اپنی اپنی حیثیت بھی متعین ہوجائے اور ایک دوسرے سے ممتاز بھی رہیں، چناچہ خوارق عادات کی پہلی قسم تو وہ ہے جو نبی اور رسول سے ظاہر ہو جس کو معجزہ کہا جاتا ہے، دوسری قسم وہ ہے عام مسلمانوں سے ظاہر ہو، اس کو معونت کہا جاتا ہے، تیسری قسم وہ ہے، جو اولیائے اللہ سے ظاہر ہو اور جس کو کرامت کہا جاتا ہے اور چوتھی قسم وہ ہے جو کافروں اور فاسوں سے ظاہر ہو، اس کو استدراج کہا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان چاروں قسموں میں سے اول الذکر قسم کو چھوڑ کر باقی تینوں قسمیں اپنے اپنے مفہوم و مصداق کے اعتبار سے دعوی نبوت کی قید سے باہر ہیں، گویا ان تینوں قسموں میں سے کسی قسم کو بھی معجزہ نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ معجزہ تو وہی خرق عادت ہے جو نبوت کے دعویٰ کے ساتھ ہو۔

【3】

سحر خرق عادت نہیں ہے

شعبدہ اور سحر یعنی جادو کو خرق عادت نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ شعبدہ اور سحر کا صدور و ظہور اسباب ظاہری کے تابع ہوتا ہے اور کوئی بھی شخص ان اسباب میں درک مہارت حاصل کر کے شعبدہ اور سحر ظاہر کرتا ہے، لہٰذا جو چیز ظاہری اسباب کے ذریعہ وجود میں آئے اس پر خرق عادت کا اطلاق نہیں ہوسکتا، اسی وجہ سے دواؤں اور طبی تدابیر کے ذریعہ حاصل ہونے والی شفاء کو بھی خارق عادت نہیں کہا جاتا اگر اس کو کوئی خارق عادت کہہ دے تو ظاہری صورت کے اعتبار سے ہوگا۔

【4】

غار ثور کا واقعہ

حضرت انس ابن مالک (رض) روای ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بیان فرمایا جب ہم غار میں چھپے ہوئے تھے اور میں نے مشرکوں کے پیروں کی طرف دیکھا جو گویا ہمارے سروں پر تھے تو میں نے عرض کیا ! یا رسول اللہ ﷺ ! اگر ان میں سے کسی ایک کی نظر اپنے پیروں کی طرف چلی گئی تو ہم کو دیکھ لے گا۔ آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر) فرمایا۔ ان دو شخصوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح غار سے مراد مشہور پہاڑ جبل ثور کے بالائی حصہ کی وہ غار ہے جس میں رسول کریم ﷺ نے مکہ سے مدینہ کو سفر ہجرت کے دوران تین راتیں بسر فرمائی تھیں اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) آپ کے ساتھ تھے، جبل ثور مکہ کے مشرقی جنوبی سمت تقریبًا ساڑھے تین سو میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ جب آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنا وطن عزیز چھوڑ کر مدینہ منورہ جانے کے لئے مکہ سے روانہ کر دئیے، ان کو حکم دیا گیا کہ جس طرح بھی ممکن ہو محمد ﷺ کو مکہ واپس لایا جائے آنحضرت ﷺ اپنے رفیق سفر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ جبل ثور کے اس غار میں چھپے ہوئے تھے کہ اچانک ان گماشتوں کی ایک ٹولی اس غار کے دہانے تک پہنچ گئی، اس غار کا محل وقوع اس طرح کا ہے کہ اگر کوئی شخص غار کے باہری کنارہ پر کھڑا ہو تو غار کے اندر موجود شخص کی نظر اس کے پیروں پر پڑتی ہے اور اگر باہری کنارہ پر کھڑا ہوا شخص نیچے نظر کر کے اپنے پیروں کی طرف دیکھے تو وہ غار کے اندر موجود شخص کو بڑی آسانی کے ساتھ دیکھ سکتا ہے، چناچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے دیکھا کہ مشرکین مکہ کے گماشتے آنحضرت ﷺ کی تلاش میں اس غار تک پہنچ گئے ہیں اور وہ لوگ بالکل غار کے منہ پر کھڑے ہوئے ہیں، جوں ہی ان میں سے کسی شخص کی نظر ان کے اپنے پیروں کی طرف جائے گی، وہ ہمیں دیکھ لے گا اور اس طرح آنحضرت ﷺ پر دسترس کا موقع ان لوگوں کو مل سکتا ہے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنی اس تشویش اور گھبراہٹ کا اظہار آپ ﷺ کے سامنے کیا لیکن آپ ﷺ نے بڑے یقین کے ساتھ ان کو اطمینان دلایا کہ ہم اور تم وہ دو شخص ہیں جن کے ساتھ ایک تیسری ذات اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت بھی ہے ہمارا پروردگار ہماری حفاظت فرمائے گا اور ہمیں اپنے دشمنوں کے چنگل میں پڑنے سے بچائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول ﷺ اور آپ کے پیارے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی اس طرح حفاظت فرمائی کہ وہ مشرکین مکہ جو غار کے منہ پر کھڑے ہوئے اپنی تیز نگاہوں سے ادھر ادھر آنحضرت ﷺ کو تلاش کر رہے تھے اور اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ آنحضرت ﷺ اسی غار میں موجود ہیں، عین موقع پر حوصلہ ہار بیٹھے، نہ تو ان کو آگے تلاش کا موقع ملا اور نہ انہیں پیروں کی طرف غار کے اندر دیکھنا نصیب ہوسکا، صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ اور آنحضرت ﷺ کے معجزہ کا ظہور تھا۔ علامہ طیبی (رح) نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے ان مشرکوں کے حق میں یہ بد دعا فرمائی تھی، اے اللہ ! ان کی آنکھوں کی بینائی معطل کر دے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان سب کو اس طرح بےبصر کردیا کہ وہ غار کے چاروں طرف گھومتے تھے مگر اس کے اندر موجود آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کو دیکھنے پر قادر نہیں ہوتے تھے اور جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ اس موقع پر کبوتروں نے غار کے منہ پر انڈے رکھ دئیے اور مکڑیوں نے جالا تن دیا یہ بھی معجزہ ہی تھا۔

【5】

سفر ہجرت کے دوران دشمن کے خلاف معجزہ کا ظہور

حضرت براء ابن عازب (رض) اپنے محترم ( حضرت عازب) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے پوچھا کہ اے ابوبکر ! جب ( آنحضرت ﷺ نے ہجرت کے ارادہ سے مکہ چھوڑا اور مدینہ روانہ ہوئے اور) تم نے رات میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر کیا تو ( غار سے نکلنے کے بعد) تمہیں کیا کیا حالات اور واردات پیش آئے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا ! ( غار سے نکل کر) ہم ساری رات چلتے رہے اور اگلے دن کا کچھ حصہ بھی ( یعنی دوپہر تک) سفر میں گزرا یہاں تک کہ جب ٹھیک دوپہر ہوگئی اور سورج ٹھہر گیا اور راستہ ( آنے جانے والوں سے) بالکل خالی ہوگیا تو ہمیں ایک چٹان نظر آئی جس کے نیچے سایہ تھا اور سورج اس پر نہیں آیا تھا ( یعنی اس چٹان کے نیچے جو کھوہ یا غار تھا اس میں دھوپ نہیں تھی۔ چناچہ ہم اس چٹان کے نیچے اتر گئے اور میں نے وہاں رسول کریم ﷺ کے لئے ایک جگہ اپنے ہاتھوں سے ہموار اور صاف کی تاکہ آپ ﷺ اس پر سو رہیں پھر میں نے اس جگہ پر پوستین بچھایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ یہاں سو جائیے، میں آپ ﷺ کے ادھر ادھر نگرانی رکھوں گا کہ کسی طرف سے دشمن کا کوئی آدمی تو ہماری ٹوہ میں نہیں ہے، اگر کوئی ادھر آئے گا تو اس کو روکوں گا) رسول کریم ﷺ سوگئے اور وہاں سے نکل کر آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے لئے چاروں طرف نگرانی رکھے ہوئے تھا کہ اچانک میں نے ایک چرواہے کو دیکھا جو سامنے سے آرہا تھا (جب وہ میرے قریب آگیا تو) میں نے پوچھا کہ کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے ؟ اس نے کہا ہاں ہے، کیا تو دودھ دوہ کر دے گا ؟ اس نے کہا ہاں ! پھر اس نے ایک بکری کو پکڑا اور لکڑی کے پیالے میں تھوڑا سا دودھ دوہ دیا، میرے پاس ایک چھاگل تھی جو میں نے نبی کریم ﷺ کے استعمال کے لئے رکھی تھی، اس میں پانی رہتا تھا جو آپ ﷺ کے پینے اور وضو کے کام آتا تھا، میں دودھ لے کر) نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ سو رہے تھے، میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا اور خود بھی آپ ﷺ کا ساتھ دیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ خود بیدار ہوئے (اور میں بھی اٹھ گیا) پھر میں نے دودھ میں (اتنا) پانی ڈالا کہ نیچے تک ٹھنڈا ہوگیا اور پھر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! نوش فرمائے۔ آپ ﷺ نے وہ دودھ نوش فرمایا اور میں بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا کوچ کا وقت آیا ؟ میں نے کہا ! ہاں آگیا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) کہتے ہیں کہ پس ہم نے سورج ڈھلنے کے بعد (ٹھنڈے وقت) وہاں سے کوچ کیا اور ( آگے سفر شروع ہوا تو) پیچھے سے سراقہ ابن مالک آگیا، میں نے (اس کو دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! دشمن ہمیں پکڑ نے آگیا ہے۔۔۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ڈرو نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے سراقہ کے لئے بددعا کی اور سراقہ کا گھوڑا اس کو لئے ہوئے پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ (اس صورت حال سے دوچار ہو کر بدحو اس ہوگیا اور) کہنے لگا کہ میں جانتا ہوں، تم دونوں نے میرے لئے بددعا کی ہے، اب میری نجات وخلاصی کے لئے بھی تم دعا کرو مجھ کو اس گرفت سے نجات دلا دو تو) میں اللہ کو گواہ بنا کر وعدہ کرتا ہوں کہ میں کفار کو تمہارا تعاقب کرنے سے روک دوں گا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے اس کے لئے دعا فرمائی اور وہ اس گرفت سے نجات پا گیا۔ اور سراقہ نے (اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے یہ کیا) کہ آنحضرت ﷺ کی تلاش میں مکہ سے روانہ ہونے والے کافروں میں سے) جو بھی اس راستہ میں ملتا وہ اس سے کہتا کہ تمہارے لئے میرا تلاش کرنا کافی ہے (یعنی میں بہت دور سے محمد ﷺ کو تلاش کرکے دیکھ چکا ہوں ان کا کہیں پتہ نہیں چلا تم ان کو تلاش کرنے کی زحمت برداشت نہ کرو) سراقہ کو جو شخص بھی ملتا اس کو وہ یہی کہہ کر واپس کردیتا۔ ( بخاری و ومسلم) تشریح۔ اور خود بھی آپ ﷺ کا ساتھ دیا یہ فوافقتہ کا ترجمہ ہے، یعنی آپ ﷺ کو سوتا دیکھ کر نہ صرف یہ کہ میں نے آپ ﷺ کو جگانا پسند کیا بلکہ آپ ﷺ کی طرح میں خود بھی ایک طرف کو لیٹ کر سوگیا۔ اور ایک روایت میں یہ لفظ ف پر ق کی تقدیم کے ساتھ ہے، اس صورت میں ترجمہ ومطلب یہ ہوگا کہ میں نے آپ ﷺ کو سوتا دیکھ کر توقف کیا یعنی آپ ﷺ کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور اس وقت تک انتظار کرتا رہا جب تک آپ ﷺ خود بیدار نہ ہوگئے۔ پھر میں نے دودھ میں پانی ڈالا عربوں کی عادت تھی کہ دودھ کی حرارت کو زائل کرنے کے لئے اس میں ٹھنڈا پانی ملالیتے تھے اور پھر اس کو پیتے تھے، چناچہ اس موقع پر حضرت ابوبکر (رض) نے بھی اس عادت ومعمول کے مطابق بکری کے اس دودھ میں اتنا پانی ملادیا جس سے وہ دودھ خوب ٹھنڈا ہوگیا۔ اور میں بہت خوش ہوا۔ یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو اس بات سے بہت خوشی و طمانیت محسوس ہوئی کہ ان کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ آنحضرت ﷺ کو کچھ دیر استراحت کا موقع مل گیا بلکہ دودھ بھی فراہم ہوگیا جس کو آپ ﷺ نے بشاشت وخوش طبعی کے ساتھ نوش فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ محب کی اصل خوشی محبوب کی خوشی اور راحت میں ہوتی ہے۔ اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی بکریوں کا دودھ کیسے دوہا اور پیا گیا جس کی مالک کی اجازت حاصل نہیں تھی ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ وہ بکریاں کسی ایسے شخص کی تھیں جو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا دوست اور معتمد تھا۔ اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) اپنے اس دوست کی اجازت کا اعتماد رکھتے تھے، دوسرا جواب یہ ہے کہ عربوں اور خاص طور پر اہل مکہ کی عادت تھی کہ وہ اپنے چرواہوں کو پہلے ہی اجازت دیدیتے تھے کہ انہیں جو مسافر یا بھوکا ملے اور طلبگار ہو تو اس کو بلاتوقف دودھ نکال کر دے دیا کریں اور ایک تیسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مطلوبہ قیمت دیکر وہ دودھ حاصل کیا ہوگا ! سراقہ ابن مالک ان لوگوں میں سے ایک تھا جن کو قریش مکہ نے آنحضرت ﷺ کے تعاقب پر مامور کیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ جو شخص بھی محمد ﷺ کو پکڑ کر لائے گا اور ہمارے حوالے کردے گا اس کو بطور انعام سو اونٹ دئیے جائینگے۔ یہ سراقہ ابن مالک فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوگئے تھے ! اور وہ گرفت سے نجات پا گیا ایک روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بددعا کے نتیجہ میں سراقہ کے زمین میں دھنسنے اور پھر آنحضرت ﷺ کی دعا کے بعد نجات پانے کا واقعہ تین بار ہوا یعنی وہ ہر بار آنحضرت ﷺ سے دعا کرا کر نجات پا جاتا اور پھر آپ ﷺ کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھنے لگتا، یہاں تک کہ وہ جب تیسری مرتبہ اپنے گھوڑے کے ساتھ زمین میں دھنسا اور اس کی لجاجت پر آنحضرت ﷺ نے اس کے حق میں دعا کر کے اس کو نجات دلوائی تو وہ اپنے برے ارادہ سے باز آگیا اور پھر نہ صرف یہ کہ آنحضرت ﷺ کو پکڑنے کے لئے خود آگے نہیں بڑھا بلکہ واپسی میں اس کو جو شخص بھی آنحضرت ﷺ کے تعاقب میں آتا ہوا ملا اس کو اس نے واپس کردیا اور کسی کو آنحضرت ﷺ تک پہنچنے نہیں دیا۔ اس حدیث سے جہاں آنحضرت ﷺ کے معجزے اور مختلف وجوہ سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے وہیں کئی قیمتی اور مفید باتیں بھی سامنے آتی ہیں ایک تو یہ کہ تابع کو اپنے متبوع کی خدمت میں اپنی پوری کوشش اور صلاحیت صرف کرنی چاہئے، دوسرے یہ کہ سفر میں ایسا برتن ( یعنی چھاگل یا لوٹا وغیرہ) ساتھ رکھنا کہ جو پانی پینے اور طہارت و وضو کے کام آئے نہایت ضروری ہے اور تیسرے یہ کہ بندہ کو ہر حالت میں اپنے اللہ پر اعتماد اور توکل رکھنا چاہئے کہ نتیجہ اور انجام کی بہتری اسی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔

【6】

عبداللہ ابن سلام کے ایمان لانے کا واقعہ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن سلام ایک جگہ درختوں سے پھل چن رہے تھے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کے ( مکہ سے مدینہ میں) آنے کا حال سنا، وہ فورا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں ( نبوت کی علامتوں کی تصدیق کے لئے) آپ ﷺ سے تین باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں، جن کو نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا، ایک تو یہ کہ قیامت کی پہلی علامت کیا ہوگی ؟ دوسرے یہ کہ جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہوگا۔ ( جو وہ جنت میں پہنچ کر سب سے پہلے کھائیں گے) تیسرے یہ کہ وہ کونسی چیز ہے جو اولاد کو ماں یا باپ کے مشابہ کرتی ہے ( یعنی اولاد جو شکل و صورت کے اعتبار سے کبھی باپ کے مشابہ ہوتی ہے اور کبھی ماں کے مشابہ تو اس کا کیا سبب ہے ؟ ) آنحضرت ﷺ نے ( عبداللہ ابن سلام کے یہ تینوں سوال سن کر) فرمایا ابھی ابھی جبرائیل (علیہ السلام) نے ان سوالوں کے جواب سے آگاہ کیا ہے ( اور وہی تمہیں بتاتا ہوں) کہ قیامت کی پہلی علامت تو وہ آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے مغرب کی طرف جمع کر کے لے جائے گی اور جنتی جنت میں سب سے پہلے جو کھانا کھائیں گے وہ مچھلی کے جگر کا زائد حصہ ہوگا ( یعنی مچھلی کے جگر کا وہ حصہ جو جگر سے علیحدہ لٹکتا ہے اور جو مچھلی کا لذیذ ترین جزء ہوتا ہے) اور جہاں تک اولاد میں ماں باپ کی مشابہت کا سوال ہے تو) اگر مرد کا پانی ( منی) عورت کے پانی پر غالب آجاتا ہے تو مرد اولاد کو اپنی مشابہت کی طرف کھینچ لیتا ہے اور اگر عورت کا پانی ( مرد کے پانی پر) غالب آجاتا ہے تو عورت اولاد کو اپنی مشابہت کی طرف کھینچ لیتی ہے۔ عبداللہ ابن سلام نے ( اپنے سوالوں کے یہ جواب سن کر) کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ ﷺ یقینًا اللہ کے رسول ہیں ( اس قبول اسلام کے بعد عبداللہ ابن سلام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ یہودی بڑے افتراش اور بہتان تراش ہیں، اگر آپ ﷺ کے پوچھنے سے پہلے ان کو میرا مسلمان ہونا معلوم ہوگیا تو مجھ پر جھوٹے بہتان باندھیں گے ( یعنی ان کو یہ معلوم ہونے کے بعد کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں، آپ ﷺ ان سے میرے بارے میں کچھ پوچھیں گے تو وہ مخالفت پر اترآئیں گے اور مجھ پر بڑے بڑے الزام لگا ڈالیں گے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ ان کو میرے اسلام کی خبر ہونے سے پہلے آپ ان سے میرے بارے میں جو پوچھنا چاہیں پوچھ لیں تاکہ وہ میرے متعلق صحیح حالات سے آپ ﷺ کو آگاہ کریں ) ۔ چناچہ اتفًاقا یا آنحضرت ﷺ کے بلانے پر، اسی وقت) کچھ یہودی مجلس نبوی میں آگئے اور عبداللہ ابن سلام ایک گوشہ میں چھپ گئے، آنحضرت ﷺ نے ان یہودیوں سے پوچھا کہ تم میں ( یا تمہارے گمان وعلم میں) عبداللہ ابن سلام کیسے شخص ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ ہم میں سے بہترین آدمی ہیں، ہم میں سے بہترین آدمی کا بیٹا ہے ( یعنی عبداللہ ابن سلام نہ صرف یہ کہ اپنی ذات کے اعتبار سے ہم میں، علمی، اخلاقی اور سماجی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے سردار ہیں بلکہ حسب ونسب کے اعتبار سے بھی ہم پر ان کو فضیلت حاصل ہے ( آنحضرت ﷺ نے ان کا یہ جواب سن کر) پھر یہ پوچھا کہ اچھا بتلاؤ کہ عبداللہ ابن سلام مسلمان ہوجائیں ( تو کیا تم بھی مسلمان ہوجاؤ گے، یہودیوں نے کہا اللہ اس کو اسلام سے بچائے اور اپنی حفاظت میں رکھے ( یا یہ کہ معاذ اللہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے) جبھی عبداللہ ابن سلام ان کے سامنے آگئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا معبود نہیں اور یہ کہ بلاشبہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ یہودیوں نے یہ ( سنتے ہی) کہنا شروع کردیا کہ یہ شخص تو ہم میں بہت برا ہے اور بدترین شخص کا بیٹا ہے اور ان میں طرح طرح کے عیب نکالنے لگے۔ عبداللہ ابن سلام نے کہا ( آپ ﷺ نے دیکھا) یا رسول اللہ ﷺ ! یہی وہ بات ہے جس سے میں ڈرتا تھا ( اور اسی وجہ سے میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا تھا کہ ان سے میرا حال پہلے پوچھ لیجئے، تاکہ آپ ﷺ کو اندازہ ہوجائے کہ یہ قوم کیسی دوغلی اور جھوٹی ہے۔ ( بخاری) تشریح عبداللہ ابن سلام ایک جگہ درختوں کے پھل چن رہے تھے یا تو صورت واقعہ یہی تھی کہ عبداللہ ابن سلام نے اپنے باغ میں درختوں سے پھل اتارنے اور اکٹھا کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ کسی نے آکر ان کو بتایا ہوگا کہ نبوت کا دعویٰ اور دین اسلام کی دعوت لے کر محمد ﷺ مدینہ میں آگئے ہیں، یہ سنتے ہی وہ اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔۔۔ یا یہ کہ عبداللہ ابن سلام آنحضرت ﷺ کی آمد کی خبر سن کر آپ ﷺ کی خدمت میں جس عجلت واشتیاق کے ساتھ حاضر ہوئے اس کو ان الفاظ کے ذریعہ مبالغہ کے طور بیان کیا گیا ہے مطلب یہ کہ عبداللہ ابن سلام اگر چاہتے تو اپنا کام کاج نمٹانے کے بعد فرصت کے وقت اور اطمینان سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آتے، لیکن انہوں نے چونکہ تورات میں آنحضرت ﷺ کی صفات و خصوصیات کو پڑھ رکھا تھا اور نبی آخرالزمان ﷺ کے ظہور کے شدت سے منتظر تھے اس لئے جوں ہی ان کو آنحضرت ﷺ کی آمد کی خبر ملی وہ ذرا بھی توقف کئے بغیر خدمت اقدس میں پہنچ گئے۔ مدتے برد کہ مشتاق نقایت بودم لاجز روئے ترا دیدار واز جارفتم عبداللہ ابن سلام کا سلسلہ نسب حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملتا ہے، یہود مدینہ کے سرداروں میں سے تھے، بڑے عقل مند وعالم، دانشور اور تورات پر زبردست عبور رکھتے تھے، آنحضرت ﷺ ، مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو یہ اس تشریف آوری کا علم ہوتے ہی آنحضرت ﷺ کی خدخت میں حاضر ہوئے اور ایمان واسلام کی دولت سے سرفراز ہو کر نہایت اونچے درجہ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شمار ہوئے۔ (رض) ۔ جن کو نبی ﷺ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اس سے عبداللہ ابن سلام کی یہ مراد تھی کہ میں جو تین چیزیں پوچھ رہا ہوں ان کے بارے میں صحیح بات جاننا اور بتانا صرف نبی کے بس میں ہے۔ نبی کے علاوہ وہی شخص جان سکتا ہے جس کو یا تو نبی نے بتایا ہو یا اس نے اللہ کی کتاب سے معلوم کیا ہو۔ یہ بیان مراد اس لئے ضروری ہے کہ خود عبداللہ ابن سلام بھی تو ان چیزوں کے بارے میں اجمالی وتفصیلی طور پر جانتے تھے اور ان کو یہ علم تورات سے حاصل ہوا تھا اور ان سوالات سے ان کا اصل مقصد آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کی تصدیق حاصل کرنا تھا، ان تینوں چیزوں کے جوابات گویا ان کے حق میں آنحضرت ﷺ کا معجزہ ثابت ہوئے اور ان کو آنحضرت ﷺ کی رسالت ونبوت کا علم یقین حاصل ہوا اور غالبًا اسی مناسبت سے اس حدیث کو یہاں معجزات کے باب میں نقل کیا گیا ہے۔ ابھی ابھی جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے ان سوالوں کے جواب سے آگا کیا ہے۔ اپنے سوالات کے جواب سن کر عبداللہ ابن سلام کو یہ وہم اور شبہ ہوسکتا تھا کہ انہوں نے ( یعنی آنحضرت ﷺ نے) شاید یہ کسی اہل کتاب ( تورات جاننے والے) سے پہلے ہی یہ باتیں سن رکھی ہوں گی۔ اور اسی بنیاد پر میرے سوالات کے جواب دئیے۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اس وہم اور شبہ کی راہ پہلے ہی روک دینے کے لئے واضح فرمایا کہ یہ جواب جو میں تمہارے سامنے بیان کر رہا ہوں اللہ کی طرف سے جبرائیل (علیہم السلام) نے مجھ تک پہنچائے ہیں، نیز ان الفاظ سے آپ ﷺ کا مقصد عبداللہ ابن سلام کو متنبہ فرمانا بھی تھا کہ گوش ہوش سے اپنے سوالات کے جواب سنو، علاوہ ازیں ان کو وجود وحی اور نزول جبرائیل سے (علیہ السلام) کو آگاہ کرنا بھی مقصود تھا۔ اذا سبق ماء الرجل الخ میں سبق کے معنی ملا علی قاری (رح) نے علا اور غلب لکھے ہیں اور ترجمہ میں اسی معنی کی رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی (رح) نے اس کے معنی پیش میشود یعنی رحم میں پہلے پہنچنا لکھے ہیں مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت میں جس کا پانی عورت کے رحم میں پہلے پڑتا ہے اس کی شکل وشباہت کی چھاپ اولاد پر پڑتی ہے، شیخ عبد الحق محدث دہلوی (رح) نے بعد میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے ماں باپ کے مشابہ ہونے کا سبب ان دونوں میں سے ایک کے پانی کا سبقت کرنا ہے جب کہ ایک اور حدیث میں جو باب الغسل میں نقل ہوئی ہے مشابہت کا سبب غلبہ اور سبقت دونوں کو بتایا گیا ہے۔ اس اعتبار سے سبق کے معنی غلبہ اور سبقت دونوں کے ہوسکتے ہیں ؟

【7】

جنگ بدر سے متعلق پیش خبری کا معجزہ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس وقت جب کہ ہمیں ابوسفیان کے آنے کی خبر ملی، ( مدینہ والوں سے) صلاح مشورہ کیا تو سعد ابن عبادہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر آپ ﷺ ہمیں اپنی سواری کے جانوروں کو سمندر میں ڈال دینے کا حکم دیں تو بلاشبہ ہم ایسا ہی کریں گے ( یعنی روئے زمین پر موقوف نہیں اگر آپ ﷺ کا حکم ہوگا تو ہم دشمن تک پہنچنے اور اس کا قلع قمع کرنے کے لئے سمندر میں اپنے گھوڑے دوڑا دیں گے) اور اگر آپ ﷺ کا حکم ہو کہ ہم اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کے جگر کو برک غماد تک ماریں تو ہم بیشک ایسا ہی کریں گے۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے تمام لوگوں یعنی مہاجرین و انصار کو ( جنگ کے لئے) جوش و خروش سے بھر دیا اور تیار کیا اور سب لوگ روانہ ہوگئے یہاں تک کہ جب بدر کے مقام پر پہنچے ( معرکہ آرائی کے لئے اس جگہ کو منتخب کیا گیا) تو رسول کریم ﷺ نے ( مجاہدین اسلام کو مخاطب کر کے) فرمایا ( دیکھو) یہ جگہ فلاں شخص کے ہلاک ہونے اور اس کی نعش گرنے کی ہے ( اور اس جگہ فلاں شخص قتل ہو کر گرے گا) اس طرح آپ ﷺ مکہ کے کفار واشقیاء کے نام لیتے جاتے تھے اور زمین پر ( ایک ایک جگہ) ہاتھ رکھتے ( اور کہتے جاتے تھے کہ) فلاں شخص یہاں مر کر گرے گا اور فلاں شخص کی لاش یہاں گرے گی۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جہاں جہاں ہاتھ رکھ دیا تھا وہاں سے ایک شخص بھی متجاوز نہیں ہوا۔ ( مسلم) تشریح جب کہ ہمیں ابوسفیان کے آنے کی خبر ملی۔ یہ غزوہ بدر کی ابتدائی مرحلہ کا ذکر ہے کہ مکہ کا ایک سردار ابوسفیان اپنے تجارتی قافلہ کے ہمراہ ملک شام سے مکہ واپس آرہا تھا، قافلہ میں آدمی تو صرف چالیس سوار تھے لیکن مال اسباب بہت زیادہ تھا، جب مدینہ میں مسلمانوں کو ابوسفیان کے اس تجارتی قافلہ کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے اہل مکہ پر بھر پور اقتصادی ومالی ضرب لگانے کے لئے اس موقع کو غنیمت جانا، ان کا خیال تھا کہ قافلہ کے چالیس سواروں کو زیر کر کے ان تمام مال و اسباب پر قبضہ کرلیا جائے گا، لیکن اول تو خود ابوسفیان کو مسلمانوں کے حملہ کی اطلاع مل گئی اور اس نے عام راستہ چھوڑ کر ساحلی راستہ اختیار کرلیا جس سے مسلمانوں کی زد سے وہ محفوظ ہوگیا دوسرے یہ خبر مکہ بھی پہنچ گئی اور اہل مکہ نے مسلمانوں سے فیصلہ کن جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا، چناچہ ابوجہل نے کعبہ کی چھٹ پر چڑھ کر اہل مکہ کو مسلمانوں کے خلاف للکارا اور انہیں نہایت مشتعل کر کے جنگ پر آمادہ کیا ! جب پوری تیار ہوگئی تو ابوجہل زبر دست حربی طاقت کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوا، راستہ میں کچھ لوگوں نے اس کو سمجھایا بھی کہ جب ہمارا قافلہ ساحلی علاقہ پر لگ گیا ہے اور مسلمانوں کی زد سے محفوظ واپس آرہا ہے تو اب مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے جانے میں کوئی عقلمندی نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ ہم لوگ مکہ لوٹ جائیں لیکن ابوجہل کے تو زوال کا وقت آگیا تھا، اس نے لوگوں کا یہ مشورہ ماننے سے انکار کردیا اور بدر پہنچ گیا۔ اسی موقع پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور آنحضرت ﷺ کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں صورتوں میں سے ایک صورت کا وعدہ کیا ہے، چاہے قافلہ کو زیر کر کے مال حاصل کرلو اور چاہے ( جنگ کر کے) دشمنوں پر فتح حاصل کرلو۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے مہاجر و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کر کے مشورہ فرمایا کہ ابوسفیان تو ساحلی راستہ اختیار کر کے ہماری زد سے بچ گیا ہے اور اب جب کہ ابوجہل ہمیں نیست ونابود کردینے کا عزم لے کر زبردست فوجی طاقت کے ساتھ ہمارے مقابلہ پر نقل کھڑا ہوا ہے تو ہمیں کیا رویہ اور طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے ! آنحضرت ﷺ کا یہ مشورہ طلب کرنا دراصل انصار مدینہ کو آزمانا اور ان کا رد عمل جاننا تھا، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ابتداء میں ان سے جو بیعت لی تھی اس میں یہ بات شامل نہیں تھی کہ وہ ( انصار) جہاد کے لئے آنحضرت ﷺ کے ساتھ نکلیں گے اور دشمن کے مقابلہ پر مسلمانوں کی اقدامی کا روائی میں جانی ومالی مدد دیں گے، ان سے صرف اس بات پر بیعت لی گئی تھی کہ وہ ان لوگوں سے، آنحضرت ﷺ کی حفاظت کریں گے جو آپ پر حملہ آور ہوں گے، اس وقت یہ صورت حال تھی کہ کوئی دشمن آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں پر حملہ آور نہیں ہو رہا تھا بلکہ خود مسلمانوں سے جنگ کی طرف سے ابوسفیان کے تجارتی قافلہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور اس کے شاخسانہ کے طور پر اہل مکہ مسلمانوں سے جنگ کرنے نکل کھڑے ہوئے تھے، لہٰذا آنحضرت ﷺ نے ضروری جانا کہ انصار سے مشورہ کر کے ان کا رد عمل جان لیا جائے کہ آیا وہ اس کار روائی میں ہماری مدد کرتے ہیں یا نہیں۔ آنحضرت ﷺ کو انصار کی طرف سے نہایت حوصلہ افزا جواب ملا انہوں نے نہ صرف اس موقع پر تن من، دھن سے جان نثاری کا ثبوت دیا بلکہ بعد میں بھی جب کوئی ایسا موقع آیا انہوں نے پوری یگانگت اور موافقت کے ساتھ خود کو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین کے دوش بدوش رکھا۔ آنحضرت ﷺ کے اس مشورہ طلب کرنے میں امت کے لئے بھی تلقین و ترغیب ہے کہ اپنے مسائل و معاملات میں اصحاب عقل و دانش اور اپنے رفقاء ومعاونین سے مشورہ کرنا حسن مآل تک پہنچنے کا بابرکت ذریعہ ہے۔ سعد ابن عبادہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔۔۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا مشورہ طلب کرنے سے آنحضرت ﷺ کا اصل مقصد چونکہ انصار کا ردعمل جاننا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر حضرت سعد ابن عبادہ جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے جو انصار کے ایک سردار تھے انہوں نے آنحضرت ﷺ کو جواب دیا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم کسی بھی حالت میں آپ کی مدد کرنے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں، یہ تو بہت نزدیک کے دشمن کے مقابلہ پر جانے کی بات ہے اگر ہمیں دور دراز علاقوں میں جانے کا حکم دیں تو چاہے ہمیں زمین پر سفر کرنا پڑے چاہے سمندر میں اتر کر جانا پڑے ہم آپ ﷺ کے دشمنوں کا مقابلہ کریں گے۔ برک غماد ایک مقام کا نام تھا جو مدینہ سے بہت دور یمن میں واقع تھا، یا ہجر کے پر لے کنارہ پر اور یا اس کی آبادیوں کے بالکل آخری کنارہ پر تھا۔۔۔ اونٹوں یا گھوڑوں کے جگر کو مارنا، سورای کے جانور کو نہایت تیز ہانکنے سے کنایہ ہے۔ اور اس میں لفظی مناسبت یہ ہے کہ جب کوئی شخص مثلا گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور گھوڑا تیز بھاگتا ہے تو سوار کے پیر اس گھوڑے کے جسم کے اس حصہ پر زور زور سے لگتے جاتے ہیں جہاں جگر ہوتا ہے اس جملہ کا مطلب یہی تھا کہ اگر آپ ہمیں اپنی سواریوں کو تیز بھگا کر برک غماد تک جو یہاں سے بہت دور واقع ہے، دشمن کے مقابلہ پر پہنچنے کا حکم دیں تو ہم آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں یہاں سے فورًا روانہ ہوجائیں گے اور کہیں رکے بغیر نہایت تیز رفتاری سے برک غماد پہنچ کر ہی دم لیں گے۔ حدیث کے آخر میں آنحضرت ﷺ کے ایک بڑے معجزہ کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے بدر کے مقام پر پہنچ کر جنگ شروع ہونے سے بھی پہلے ستر کافروں کی لاشیں گرنے کی جگہوں کے بارے میں بتادیا تھا، آپ ﷺ نے ان سب کے نام لے لے کر اور ایک ایک جگہ ہاتھ رکھ کر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آگاہ فرمایا تھا کہ ان میں سے فلاں شخص اس جگہ مقتول ہو کر گرے گا اور فلاں شخص کی لاش یہاں گرے گی۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ جب جنگ شروع ہوئی اور مجاہدین اسلام نے کافروں کو قتل کرنا شروع کیا آپ ﷺ نے جس کافر کے لئے جس جگہ کا اشارہ فرما دیا وہ اسی جگہ مارا گیا اور اس کی لاش وہاں سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں گری۔

【8】

جنگ بدر کے دن آنحضرت ﷺ کی دعا

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جنگ بدر کے دن ایک خیمہ میں یہ دعا مانگ رہے تھے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے تیری امان مانگتا ہوں اور تیرے وعدہ کا ایفاء چاہتا ہوں اے اللہ ! اگر تو یہی چاہتا ہے ( کہ یہاں دشمنوں کے مقابلہ پر مسلمان ہلاک ہوجائیں) تو (روئے زمین پر کوئی مسلمان باقی نہیں رہے گا اور) آج کے بعد تیری عبادت نہیں ہوگی جب آپ ﷺ گڑ گڑا کر یہ دعا مانگتے ہی رہے تو حضرت ابوبکر (رض) نے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا یا رسول اللہ ! بس کیجئے اتنا ہی دعا مانگنا بہت کافی ہے، آپ ﷺ نے بہت الحاح وزاری کے ساتھ اپنے پروردگار سے فتح ونصرت کی التجا کی ہے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے ( فرط مسرت سے) بڑی تیزی کے ساتھ اپنے خیمہ سے باہر آئے اور یہ آیت ( جو اس وقت نازل ہوئی تھی) آپ ﷺ ( بآواز بلند) پڑھ رہے تھے۔ (سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ) 54 ۔ القمر 45) ( کفار کی) یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ اس روایت کو بخاری نے نقل کیا ہے۔ تشریح تیرے وعدہ کا ایفاء چاہتا ہوں یہ آپ نے اس آیت (وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّا ى ِفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ ) 8 ۔ الانفال 7) اور جب اللہ تعالیٰ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتے تھے کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی) کی طرف اشارہ کیا جس میں حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر مسلمان کفار مکہ سے جنگ کو اختیار کریں گے تو انہیں اس جنگ میں فتح عطا کی جائے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ تو عارف باللہ تھے اور خوب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو وعدہ فرما لیتے ہیں اس کے خلاف نہیں ہوتا اور جب اللہ نے فتح کا وعدہ فرما لیا تھا تو وہ حاصل ہونی ہی تھی ایسی صورت میں آپ ﷺ نے دعا کیوں کی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس دعا سے آپ کا مقصد اس حکم کی تعمیل تھا کہ بندہ کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے مدد و توفیق اور حصول مقصد کی دعا والتجا کرنی چاہئے خواہ اس مقصد کے حصول کا یقینی ہونا اس کو معلوم ہو یا نہ ہو، دوسرے یہ کہ علم باللہ بجائے خود حق تعالیٰ سے خوف، کا متقاضی ہونا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اس خوف سے خالی نہیں ہوتے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے محض اس خوف کے پیش نظر دعا کی ہو کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے فتح ونصرت کا وعدہ فرمایا ہے، لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ خود میری طرف سے کوئی ایسی چیز پیش آئے جو فتح ونصرت کی راہ کی رکاوٹ بن جائے اور حق تعالیٰ کی طرف سے وہ موعودہ فتح ونصرت رد کردی جائے۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ سے نصرت کا وعدہ بیشک فرمایا تھا لیکن عطائے نصرت کا کوئی وقت متعین نہیں کیا تھا اور آنحضرت ﷺ تاخیر سے ڈرتے تھے اس لئے آپ ﷺ نے دعا مانگی کہ وہ وعدہ آج ہی پورا ہوجائے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ شاید اس موقع پر آنحضرت ﷺ کا ذہن اس آیت (اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ ) 35 ۔ فاطر 16) اور اس آیت ( اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ ) 29 ۔ العنکبوت 6) کے مفہوم کی طرف متوجہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی کامل بےپرواہی اور بےنیازی پر دلالت کرتا ہے، چناچہ آپ ﷺ نے ان آیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حق تعالیٰ سے مدد ونصرت کی دعا فرمائی۔ اسی بات کو امام غزالی نے بھی لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا احساس و ادراک نہایت کامل تھا اور حق تعالیٰ کی شان بےنیازی اور اس کے سطوت و جلال کے تئیں آپ ﷺ کا عمل وعرفان وسیع تر تھا اس لئے آپ ﷺ نے حق تعالیٰ کے وعدہ نصرت کے باوجود فتح کی دعا نہایت منت وسماجت کے ساتھ فرمائی جب کہ حضرت ابوبکر صدیق کی نظر محض حق تعالیٰ کے ظاہری وعدہ پر تھی اس لئے انہوں نے زیادہ دعا کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ کے کے وعدہ پر پوار بھروسہ اور اعتماد رکھنے کے باوجود آنحضرت ﷺ کا دعا کرنا اور اس دعا میں الحاح وزاری اختیار کرنا ایک خاص مقصد بھی رکھتا ہے اور وہ تھا صحابہ اور مجاہدین اسلام کے دل کو تقویت دینا، ان کو ثابت قدم رکھنا اور ان میں ولولہ اور حوصلہ پیدا کرنا کیونکہ صحابہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کی دعا یقینی طور پر مستجاب ہے۔ خصوصا وہ دعا جو زیادہ سے زیادہ الحاح اور زاری سے ہو۔ فرط مسرت سے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے خیمہ سے باہر آئے۔۔ الخ۔۔ پہلے تو آنحضرت ﷺ خوف ورجاء کے درمیان تھے، لیکن جب اللہ تعالیٰ کا یہ حتمی وعدہ نازل ہوا کہ دشمنوں کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں گے تو رجاء ( امید) کا پہلو غالب آگیا اور آپ کفار کے مقابلہ پر فتح کے احساس سے خوش ہوگئے، اسلامی مجاہدین کو کفار کی شکست اور مسلمانوں کی فتح کی خوش خبری دینے کے لئے آپ مذکورہ آیت باواز بلند پڑھتے ہوئے خیمہ سے باہر تشریف لائے اور یہ ایک معجزہ تھا کہ دشمنوں کے مقابلہ پر مسلمانوں کی فتح کی بات جو اس وقت تک اللہ کے علاوہ اور کسی کے علم میں نہیں تھی، آپ نے اللہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت و اطلاع پاکر لوگوں کو بتادی۔

【9】

جنگ بد میں جبرئیل (علیہ السلام) کی شرکت

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جنگ بدر کے دن فرمایا یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جو اپنے گھوڑے کا سر ( یعنی باگ) پکڑے ہوئے ( لڑنے کے لئے مستعد کھڑے) ہیں اور جنگ کا سامان لئے ہوئے ہیں۔ ( بخاری) تشریح اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کے اس معجزہ کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے جنگ بدر میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کفار کو شکست دلانے اور مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کرانے کے لئے آسمان سے اترے تھے۔ واضح رہے کہ بدر دراصل ایک کنویں کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان مدینہ سے چار منزل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ کفار مکہ اور اہل اسلام کے درمیان ہونے والی یہ پہلی باقاعدہ جنگ، جو ١٧، رمضان سن ٢ ھ جمعہ کے دن ہوئی۔ اس کنویں کے پاس ایک میدان میں ہوئی تھی اس لئے اس کو جنگ بدر یا غزوہ بدر کہا جاتا ہے۔

【10】

آسمانی کمک کا کشف ومشاہد

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس دن ( یعنی جنگ بدر کے دن) جب کہ ایک مسلمان ایک مشرک کا تعاقب کر رہا تھا آگے بھاگا جارہا تھا، تو اچانک اس ( مسلمان) نے مشرک پر پڑتے ہوئے چابک کی آواز سنی، پھر اس نے ایک سوار کی آواز سنی جو یہ کہہ رہا تھا حیزوم اقدام کر۔۔۔ پھر اس مسلمان کی نظر اپنے آگے بھاگتے ہوئے مشرک کی طرف گئی تو دیکھا کہ وہ زمین پر چت پڑا ہوا ہے، اس نے یہ بھی دیکھا کہ اس مشرک کی ناک پر نشان پڑا ہوا تھا اور اس کا منہ پھٹا ہوا تھا جو چابک کی مار کی علامت تھی اور وہ تمام جگہ جہاں چابک پڑا تھا سبز و سیاہ ہوگئی تھی ( یعنی) جس طرح کوئی جگہ چوٹ کھا کر نیلی ہوجاتی ہے اسی طرح اس کی ناک کا وہ حصہ جس پڑ چابک کا وہ نشان نظر آرہا تھا، نیلا پڑگیا تھا۔ چناچہ وہ انصاری مسلمان ( جس نے اس مذکورہ مشرک کو مذکورہ حال میں دیکھا تھا) آنحضرت ﷺ کے پاس جب آیا تو آپ ﷺ سے (یہ سارا واقعہ) بیان کیا، آپ ﷺ نے ( پورا واقعہ سن کر فرمایا کہ تم سچ کہتے ہو، وہ فرشتہ ( جس نے اس مشرک کو چابک مار کر ہلاک کیا) تیسرے آسمان کی فوجی کمک کا فرشتہ تھا اس دن کی جنگ میں) مسلمانوں نے ستر کافروں کو قتل کیا اور ستر کو گرفتار کرلیا تھا۔ ( مسلم) تشریح خیزوم اقدام کرنا یہ اقدام حیزوم کا ترجمہ کیا گیا ہے، اصل میں اقدام کے معنی ہیں ! جنگ میں دشمن کا للکارنا اور خوفزدہ کرنا اور جرأت وبہادری دکھانا ! لیکن یہ معنی اس صورت میں مراد لئے جاتے ہیں جب لفظ اقدم۔ ا کے زبر، ق کے جزم اور د کے زیر کے ساتھ ہو اور اگر یہ لفاظ ا اور د کے پیش کے ساتھ ہو تو پھر اس کے معنی آگے بڑھنے کے ہوں گے، اس صورت میں اقدام حیزوم کا ترجمہ یہ ہوگا کہ حیزوم ! آگے بڑھ کر۔۔۔ حیزوم حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کا نام ہے جیسا کہ قاموس میں ذکر کیا گیا ہے، لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ ایک اور فرشتہ کے گھوڑے کا نام ہے۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کو جو غیب سے آسمانی مدد حاصل ہوئی اور اس مدد سے تعلق رکھنے والے ایک فرشتہ کی کاروائی ایک صحابی پر مذکورہ بالا صورت میں جو کشف و اظہار ہو اوہ دراصل ان صحابی کی کرامت ہے۔ اور تابع یعنی صحابی سے ظاہر ہونے والی کرامت چونکہ اس کے متبوع یعنی نبی کریم ﷺ کے معجزہ ہی کی ایک صورت ہوتی ہے خاصل طور سے ایسی حالت میں جب کہ وہ کرامت نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں ظاہر ہوئی ہو، اس کی مناسبت سے اس حدیث کا معجزات کے باب میں نقل کیا جانا غیرموزوں نہیں ہے۔۔۔ یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس کی خبر صحابی ثقہ نے دی اور صادق ومصدوق، ﷺ نے اس کی تصدیق کی اور یہ تصدیق صرف آپ کا کام تھا، جس کا علم اعجاز رسالت سے ہے، لہٰذا اس واقعہ کو آنحضرت ﷺ کے معجزات میں شمار کرنا بھی صحیح ہے۔

【11】

جنگ احد میں فرشتوں کی مدد کا معجزہ

اور حضرت سعد ابن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے احد کی لڑائی میں، رسول کریم ﷺ کے دائیں بائیں سفید کپڑوں میں ملبوس دو آدمیوں کو دیکھا ( جن میں سے ایک تو آنحضرت ﷺ کے دائیں طرف اور ایک بائیں طرف تھا) اور وہ دونوں نہایت شدت کے ساتھ ( ہمارے دشمنوں سے لڑ رہے تھے، ان دونوں کو میں نے نہ تو اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی دیکھا (اس سے ثابت ہوا کہ وہ دونوں دراصل فرشتے ( یعنی، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور حضرت میکائیل (علیہ السلام) تھے۔ ( بخار ومسلم) تشریح یعنی حضرت جبرائیل اور میکائیل تھے یہ وضاحت خود راوی نے کی ہے اور انہوں نے ان دونوں کا فرشتہ جبرائیل ومیکائیل ہونا یا تو اسی بات سے سمجھا کہ نہ کبھی اس سے پہلے انہوں نے ان دونوں کو دیکھا اور نہ اس کے بعد کبھی دیکھا، یا انہوں نے خود آنحضرت ﷺ سے سنا ہوگا کہ وہ دونوں اجنبی حضرت جبرائیل اور میکائیل تھے۔

【12】

دست مبارک کے اثر سے ایک صحابی کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ درست ہوگئی

اور حضرت براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت کو ابورافع کی طرف بھیجا، چناچہ ( جب وہ جماعت اس کے قلعہ پر پہنچی تو ایک صحابی) عبداللہ ابن عتیک رات کے وقت ابورافع کی خوابگاہ میں جب کہ سو رہا تھا، داخل ہوگئے اور اس کو مار ڈالا عبداللہ ابن عتیک نے بیان کیا کہ میں نے ابورافع کے پیٹ پر تلوار رکھی یہاں تک کہ وہ پشت کے طرف سے باہر نکل گئی، جب میں نے سمجھ لیا کہ اس کا کام تمام ہوگیا ہے تب میں نے ( قلعہ) کے دروازے کھولنے شروع کئے ( تاکہ جماعت کے باقی لوگ بھی جو میرے ساتھ اس مہم میں آئے تھے، اندر آجائیں) اور پھر میں ایک زینہ پر پہنچا اور ( اس خیال سے آگے زمین ہے) جونہی میں نے پاؤں رکھا پھیلی ہوئی چاندنی میں ( اس طرح) گرپڑا ( کہ) میری پنڈلی ٹوٹ گئی، میں نے اپنا عمامہ کھول کر پنڈلی کو باند ھ لیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا ( جو قلعہ کے نیچے کھڑے تھے) پھر میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے سارا ماجرا بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ ! میں نے اپنا پاؤں پھیلادیا، آنحضرت ﷺ نے میرے پاؤں پر اپنا دست مبارک پھیرا اور اسی وقت میرا پاؤں اس طرح اچھا ہوگیا جیسے اس میں کوئی تکلیف ہی نہیں ہوئی تھی۔ ( بخاری) تشریح ابورافع ایک یہودی تاجر تھا، اس کی کنیت ابوالحقیق تھی نہایت بدظن اور کمینہ خصلت شخص تھا تمام طرح یہ بھی آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کا دشمن تو تھا ہی، لیکن اس نے اپنی عہد شکنیوں، فتنہ انگیزیوں اور اذیت رسانیوں سے آنحضرت ﷺ کو بہت زیادہ تنگ کردیا تھا، اس بدبخت نے رسالت مآب ﷺ کی شان اقدس میں ناپاک ہجو بھی کہی تھی، آخر کار آنحضرت ﷺ نے مجبور ہو کر اس کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا ارادہ فرمالیا اور حضرت عبداللہ ابن عتیک کی سر کردگی میں چند انصاری نوجوانوں کو اس کے قید کرنے یا قتل کر ڈالنے کے لئے بھیجا جو پہلے سے صورت حال کا اندازہ لگا اپنے محفوظ قلعہ میں محصور ہوگیا، عبداللہ ابن عتیک ایک بڑی عجیب اور حیرت انگیز تدبیر کے ساتھ ( جو واقعہ کی پوری تفصیل کے ساتھ تاریخ وسیر کی کتابوں کے علاوہ خود بخاری کی کتاب المغازی کی تفصیلی روایت میں مذکور ہے) پہلے اس کے قلعہ میں اور پھر جب رات کے کھانے کے بعد ابورافع سوگیا تھا اس کی خوب گاہ میں داخل ہوگئے اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کردیا۔ جب وہ اپنی کاروائی مکمل کر کے واپس ہونے لگے تو انہیں ایک زینہ سے اترنا پڑا اور وہ جب نیچے اتر رہے تھے تو چاند رات ہونے کی وجہ سے اندر زینہ تک اس طرح کی روشنی رہ گی جس میں نگاہ الجھ جاتی ہے، چناچہ عبداللہ ابن عتیک نے یہ سمجھ کر اپنا قدم اٹھایا کہ زینہ ختم ہوگیا ہے اور آگے زمین مگر وہاں ابھی تک ایک زینہ باقی تھا اور ان کا پاؤں اس طرح پڑا کہ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور نیچے گرگئے اس کی وجہ سے ان کی پنڈلی ٹوٹ گئی، بعد میں وہ جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور پورا واقعہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے ان کے پاؤں پر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس کی برکت سے ٹوٹی ہوئی پنڈلی درست ہوگئی اور ساری تکلیف بھی جاتی رہی، یہ ذات رسالت کا اعجاز تھا۔

【13】

غزوہ احزاب میں کھانے کا معجزہ

اور جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ ( یعنی صحابہ) خندق کے دن ( یعنی عزوہ احزاب کے موقع پر دشمنوں سے بچاؤ کے لئے مدینہ کے گرد) خندق کھود رہے تھے کہ سخت پتھر نکل آیا ( جو کسی طرح ٹوٹ نہیں رہا تھا) صحابہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ کھدائی کی جگھ ایک سخت پتھر نکل آیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں خود ( خندق میں) اتر کر دیکھوں گا، چناچہ آپ ﷺ فورا اٹھ کھڑے ہوائے اس وقت ( شدت بھوک سے) آپ ﷺ کے شکم مبارک پر پتھر بندھا ہوا تھا۔ اور ہم سبھی لوگ تین دن سے اس حال میں تھے کہ ہم نے کچھ نہیں کھایا تھا کوئی چیز چکھی تک نہیں تھی، آنحضرت ﷺ نے کدال ہاتھ میں لیا اور ( خندق میں اتر) کر پتھر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ سخت پتھر ریت کی مانند ( ذرہ ذرہ ہوگیا) بکھر گیا۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں وہاں سے اپنے گھر آیا اور اپنی بیوی ( سہیلہ بنت معود انصاری سے) پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ( کھانے کی کوئی) چیز ہے ؟ میں نے رسول کریم ﷺ پر بھوک کا شدید اثر دیکھا ہے ( یہ سن کر) میری بیوی نے تھیلا نکال کردیا جس میں تقریبا سیر جو تھے اور ہمارے ہاں بکری کا ( دنبہ اور یا گھر کی پلی ہوئی پھیڑکا) ایک چھوٹا سا بچہ تھا، میں نے اس بچہ کو ذبح کیا اور میری بیوی نے آٹا پیسا اور پھر ہم نے گوت کو ہانڈی میں ڈال کر ( چولہے پر) چڑھا دیا پھر میں نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ ﷺ سے چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور میری بیوی نے تقریبا ساڑھے تین سیر جو پیسے ہیں ( اس طرح کچھ لوگوں کے لئے میں نے کھانا تیار کرا لیا ہے) اب آپ ﷺ چند لوگوں کے ساتھ تشریف لے چلے۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے بآواز بلند اعلان کیا کہ خندق والو ! چلو، جابر نے تمہاری ضیافت کے لئے کھانا تیار کیا ہے، جلدی چلو۔ پھر آپ ﷺ نے ( مجھ سے) فرمایا کہ تم جا کر کھانے کا انتظام کرو لیکن، اپنی ہانڈی چولہے سے نہ اتارنا اور نہ آٹا پکانا جب تک میں نہ آجاؤں۔ پھر آپ ﷺ ( اپنے تمام ساتھیوں سمیت میرے ہاں، تشریف لائے، میں نے گندھا ہوا آٹا آپ ﷺ کے سامنے لا کر رکھ دیا، آپ ﷺ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈال کر برکت کی دعا فرمائی پھر ہانڈی کی طرف بڑھے اور اس میں لعاب ڈال کر برکت کی دعا فرمائی اس کے بعد آپ ﷺ نے ( میری بیوی کے بارے میں) فرمایا کہ روٹی پکانے والی کو بلاؤ تاکہ وہ تمہارے ساتھ روٹی پکا کردیتی رہے اور چمچے سے ہانڈی میں سالن نکالتے رہو لیکن ہانڈی کو چولہے پر رہنے دینا۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ اس وقت خندق والے ایک ہزار آدمی تھے ( جو تین دن سے بھوکے تھے) اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان سب نے ( اس کھانے میں سے خوب شکم سیر ہو کر) کھایا لیکن کھانا ( جوں کا توں) بچارہا، جب وہ سب لوگ واپس ہوئے تو ہانڈی اسی طرح چولہے پر پک رہی تھی جیسی کہ پہلے تھی اور آٹا اسی طرح پکایا جارہا تھا جیسا کہ وہ شروع میں تھا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حدیث میں لفظ سور جس کا ترجمہ ضیافت کا کھانا، کیا گیا ہے، دراصل فارسی کا لفظ ہے، جو آنحضرت کی زبان مبارک پر جاری ہوا، یہ لفظ اہل فارس کی اصطلاح میں شادی کے کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ اس لفظ کے علاوہ فارسی کے اور بھی کئی الفاظ مختلف مواقع پر آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوئے۔ کھانے کی اس مقدار نے جو چند ہی آدمیوں کے لئے کافی ہوسکتی تھی نہ صرف یہ کہ ایک ہزار آدمیوں کا شکم سیر کرا دیا بلکہ جوں کا توں بچ بھی گیا دراصل اس ذات گرامی کی برکت کا طفیل تھا جو تمام برکتوں کی منبع ومخزن ہے اور تمام ذات کائنات بلکہ زمین وآمان ان ہی کی برکتوں سے معمور ہیں، ﷺ ۔ اس طرح کے بیشمار معجزات یعنی کھانے کی قلیل مقدار کا بڑھ جانا انگلیوں سے پانی کا ابل پڑنا اور ذرا سے پانی کا بہت ہوجانا، کھانے سے تسبیح کی آواز آنا، کھجور کے درخت کے تنہ کا آو زاری کرنا، وغیرہ وغیرہ ایسے واقعات ہیں جو احادیث اور تاریخ وسیر کی کتابوں میں کثرت سے مذکور ہیں اور ان سے متعلق روایتیں حد تواتر کو پہنچتی ہوئی ہیں جن سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے، ان معجزات کو جو آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کی دلیل ہیں، مختلف محقق علماء نے بڑی کاوش و محنت کر کے اپنی کتابوں میں جمع کیا ہے، اس سلسلہ میں زیادہ عمدہ کتاب امام بیہقی کی دلائل النبوۃ کو مانا گیا ہے۔

【14】

عمار ابن یاسر کے بارے میں پیشن گوئی

اور حضرت ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ عمار ابن یاسر خندق کھود رہے تھے اور رسول کریم ﷺ ان کے سر پر ہاتھ پھیر پھیر کر ان کے سر سے دھول مٹی جھاڑتے جاتے تھے اور یہ فرماتے تھے ہائے سمیہ کے بیٹے عمار ابن یاسر) کی سختی و مصیبت تمہیں باغیوں کا گروہ قتل کر ڈالے گا۔ ( مسلم) تشریح سمیۃ ایک صحابی خاتون کا نام ہے، انہوں نے بالکل شروع ہی میں مکہ میں اسلام قبول کیا تھا اور دوسرے مسلمانوں کی طرح یہ بھی کفار مکہ کے ظلم وستم کا تختہ مشق بنی تھیں، ایک عورت ہو کر بھی انہوں نے ظالموں کے ہاتھوں سخت سے سخت اذیتیں اور مصیبتیں سہیں لیکن دین کے راستہ سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوئیں، آخر کار لعین ابوجہل نے ای دن ان کی شرمگاہ میں خنجر مار کر ان کو شہید کردیا، حضرت عمار ابن یاسر اسلام کی ان ہی مایہ ناز خاتون کے عظیم سپوت تھے۔ غزوہ احزاب کے موقع پر جب مدینہ کی حفاظت کے لئے صحابہ کرام خندق کھود رہے تھے تو حضرت عمار ابن یاسر بھی پوری جان فشانی اور محنت کے ساتھ اس کام میں مصروف تھے، آنحضرت ﷺ نے ان کو دیکھا ان کی محنت و شفقت کا احساس فرمایا اور پھر عالم الغیب نے آپ ﷺ پر منکشف کردیا کہ عمار کی موت باغیوں کے ہاتھوں ہوگی، چناچہ آپ ﷺ کا قلب مبارک عمار کے تئیں جذبہ ترحم و محبت سے لبریز ہوگیا اور آپ ﷺ کی زبان مبارک پر مذکورہ حسرتنا تک الفاظ جاری ہوگئے ان الفاظ میں آپ ﷺ نے یا تو عمار کی سختی و مصیبت کو کیا مگر اصل مخاطب خود عمار جس کا مطلب یہ تھا کہ عمار مجھے تمہارے اوپر بڑا ترس آرہا ہے، تمہیں ایک دن ایسی سختی و مصیبت کا سامنا بھی کرنا ہوگا کہ باغیوں کی ایک جماعت جس نے امام برحق اور خلیفہ وقت کے خلاف علم بغاوت بلند کر ہوگا، تمہیں شہید کر دے گا۔

【15】

حدیث کا مصداق

شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اس پیشن گوئی کو پورا ہونا تھا اور وہ پوری ہوئی۔ حضرت عمار ابن یاسر جنگ صفین میں امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے شریک ہوئے اور حضرت معاویہ کے گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس تنازعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ حق پر تھے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ عمار کی موت باغیوں کے ہاتھوں ہوگی اور حضرت معاویہ کے گروہ نے انہیں قتل کردیا۔ ایک روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ جب اس جنگ میں حضرت عمار شہید ہوگئے تو حضرت عمر وبن العاص جو حضرت معاویہ کے ساتھ تھے، نہایت سراسیمہ ہوئے اور حضرت معاویہ کے پاس آکر کہنے لگے یہ تو بڑی پریشانی کی بات پیدا ہوگئی کہ عمار ہمارے لشکر کے ہاتھوں مارے گئے معاویہ نے کہا کیوں اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ؟ عمر و بن العاص نے کہا میں نے آنحضرت ﷺ کو عمار سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ تمہیں باغیوں کا گروہ قتل کرے گا۔ معاویہ نے جواب دیا تو عمار کو ہم نے کب قتل کیا ہے، اصل میں تو علی نے ان کو مارا ہے وہی ان کو اپنے ساتھ جنگ میں لائے تھے۔ یہ بھی منقول ہے کہ حضرت معاویہ اس حدیث کے الفاظ تاویل کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ لفظ باغیہ، یہاں بغی سے مشتق نہیں ہے جس کے معنی بغاوت کے ہیں بلکہ بغاء سے مشتق ہے جس کے معنی ڈھونڈ ھنا، طلب کرنا ہیں اس اعتبار سے ان کے نزدیک آنحضرت ﷺ کے ارشاد تقتلک الفئۃ الباغیۃ کا ترجمہ یہ ہوا کہ ( عمار) تمہیں مطالبہ کرنے والوں کا ایک گروہ قتل کرے گا، مطلب یہ کہ جو گروہ قصاص اور خون بہا کا مطالبہ کرے گا، اسی کے ہاتھوں عمار کا قتل ہوگا، چناچہ حضرت معاویہ کہا کرتے تھے کہ نحن فئۃ باغیۃ طالبۃ لدم عثمان ( ہم مطالبہ کرنے والا گروہ ہیں، جو حضرت عثمان کے خون بہا کا طالب ہے) لیکن عقل ونقل کی روشنی میں حضرت معاویہ کی یہ تاویل نہیں بلکہ صریح تحریف ہے۔ بعض روایتوں میں تو یہاں تک نقل کیا گیا ہے۔ کہ جب حضرت عمر و بن العاص نے حضرت معاویہ کے سامنے مذکورہ پریشانی کا ذکر کیا تو معاویہ نے ان سے کہا کہ تم عجیب آدمی ہو اپنے سے کمتر آدمی کے معاملہ میں پھسلے جاتے ہو یعنی عمار تو تمہارے مقابلہ میں ایک ادنیٰ شخص تھے، پھر یہ کیا ہے کہ تم ان کا معاملہ لے کر تذبذب کا شکار ہوگئے ہو اور ہماری رفاقت سے الگ ہونا چاہتے ہو۔ لیکن ملا علی قاری نے شیخ اکمل الدین کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ دونوں باتیں حضرت معاویہ پر افتراء ہے، انہوں نے نہ تو حدیث کی یہ تاویل کی ہے جو تحریف کے مرادف ہے اور نہ حضرت عمار کے بارے میں ایسی پست بات کہی۔

【16】

انتباہ

بلاشبہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان جو محاذ آرائی ہوئی اس میں حضرت علی حق پر تھے اور جو لوگ بھی ان کی اطاعت سے باہر ہو جر جنگ کے لئے کمر بستہ ہو انہوں نے خراج کیا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ لوگ اس حدیث کو دیکھ کر اور اس کے محمول و مصداق کو جان کر حضرت معاویہ کے حق میں زبان لعن وطعن دراز کریں اور ان کی ذات کو ہدف ملامت کریں۔ راسخ العقیدہ اور صحیح الخیال مسلمان کے لئے صرف یہی نجات کی رہا ہے کہ اس نازک مسئلہ میں اپنی زبان کو روکے اور ان دونوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دے، حضرت معاویہ ایک جلیل القدر صحالی تھے اور دربار رسالت میں بڑی عزت و اہمیت رکھتے تھے، ان کی شان میں کوئی بھی ناز یبابات زبان سے نکالنا صحابی کی شان میں گستاخی کرنا ہے اور صحابی کی شان میں گستاخی کرنا اللہ کا عذاب مول لینا ہے، آنحضرت ﷺ نے اپنے تمام صحابہ کے بارے میں ارشاد فرمایا لوگو ! میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان کو کبھی ہدف ملامت نہ بنانا ( یاد رکھوں ! ) جس شخص نے میرے صحابہ کو دوست رکھا اس نے مجھ سے محبت رکھنے کے سبب ان کو دوست رکھا اور جس شخص نے میرے صحابہ کو مبغوض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھنے کے سبب ان کو مبغوض رکھا اور جس شخص نے میرے صحابہ کو ( اپنے قول وعمل سے) ایذاء پہنچائی اس نے درحقیقت مجھ کو ایذاء پہنچائی اور جس شخص نے مجھ کو ایذاپہنچائی اس نے ( گویا) اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی اور جس شخص نے اللہ کو ایذاء پہنچائی اس کو جلد ہی اللہ تعالیٰ عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اس ارشاد گرامی کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور اس کتاب میں بھی آگے فضائل صحابہ کے باب میں ایسی بہت سی احادیث آئیں گی، نیز اس طرح کی بھی بہت حدیثیں منقول ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سکوت ہی میں بھلائی ہے، ان میں سے یہی ایک حدیث سبق حاصل کرنے کے لئے بہت کافی ہے کہ من سکت سلم ومن سلم نجا ( جس نے سکوت اختیار کیا سلامت رہا اور جو سلامت رہا نجات پا گیا ) ۔ اس کے علاوہ بعض حدیثیں خود حضرت معاویہ کی فضیلت میں منقول ہیں، جیسے پیچھے باب علامت النبوۃ میں یہ حدیث گزر چکی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت میرے سامنے پیش کی گئی جن کو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اور سمندر کی پشت پر اس طرح سفر کرتے ہوئے دکھا یا گیا جیسے وہ بادشاہوں کی مانند تخت پر بیٹھے ہوں۔۔ الخ۔۔ عع اس حدیث کا مصداق یہی حضرت معاویہ اور ان کے لشکر والے تھے جنہوں نے سمندر پار کر کے کفار کے ساتھ جہاد کیا۔ غرض یہ کہ حضرت معاویہ کی شان میں گستاخی کرنے ان سے بغض ونفرت رکھنے اور ان کو برابھلا کہنے سے پوری طرح اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ یہ رفض وشیعت کے عقائد میں سے ہے اللہ تعالیٰ اس قسم کے برے عقیدہ سے محفوظ رکھے بعض سنی بھی جہالت ونادانی کے سبب اس فتنہ کا شکار ہوجاتے ہیں اور صحابی کے حق میں نہایت نازیبا الفاظ و خیال کا اظہار کرتے ہیں ! ملا علی قاری نے شرح، فقہ اکبر میں صاف طور پر ( حضرت علی اور حضرت معاویہ سے متعلق) اس معاملہ کو خطائے اجتہادی پر محمول کیا ہے۔ پس اہل سنت کو تو خاص طور پر اس سلسلہ میں احتیاط کا دامن پکڑنا چاہئے ! اور اپنے دل کو کسی بھی صحابی کے بغض سے پاک رکھنا چاہئے خواہ ان کا تعلق اہل بیت نبوی سے ہو، یا عام صحابہ کی جماعت سم، نیز آنحضرت ﷺ کی اس ارشاد پر نظر رکھتے ہوئے اپنی زبان پر مہر سکوت لگا لینی چاہئے کہ لیحجرک عن الناس ما تعلم من نفسک اور جب عام لوگوں کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ولا تذکر الناس الا بخیر ( لوگوں کا ذکر کرو تو اچھائی کے ساتھ کرو) تو صحابہ تو بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے تذکرے میں ایسا کوئی لفظ نہ آئے جس سے ان کی شان اور ان کی حیثیت پر حرف آتا ہو اور ایک بات یہ بھی یادر کھنی چاہئے کہ جن مقدس، ہستیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ونزعنا ما فی صدورہم من غل اخوانا علی سرر متقبلین ( اور ان کے دلوں میں جو کینہ تھا ہم سب دور کریں گے اور سب بھائی بھائی کی طرح رہیں گے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھا کریں گے، تو کیا یہ بدبختی نہیں ہے کہ ہم ان ہستیوں کے بارے میں طعن وتشنیع کے ذریعہ اپنی زبانیں گندی کریں۔

【17】

ایک پیش گوئی جو پوری ہوئی

اور حضرت سلیمان ابن صرد کہتے ہیں کہ جب غزوہ احزاب سے دشمنوں کا لشکر بھاگ گیا ( اور مدینہ کا محاصرہ ہٹ گیا) تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اب دشمن ہم پر چڑھائی نہ کرسکیں گے، ہاں ہم ان سے جہاد کریں گے اور ان پر لشکر کشی کریں گے۔ ( بخاری ) تشریح یہ غزوہ خندق کا ذکر ہے جب تمام کفار بشمول یہود ہزارہا کی تعداد میں مدینہ پر چڑھ آئے تھے اور مدینہ کی حفاظت کے لئے آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ کے ساتھ مل کر شہر کے گرد خندق کھودی تھی، قریش کے لشکر کے سردار ابوسفیان تھے، اسی طرح مشرکین و کفار کے دوسرے گروہوں کے بھی اپنے الگ الگ سردار تھے، دشمن نے مسلسل ایک مہینہ تک مدینہ کا محاصرہ رکھا اور خندق کے اس پار ڈٹے رہے اس عرصہ میں کوئی باقاعدہ جنگ نہیں ہوئی، کبھی کبھار تیر اندازی اور پتھر اؤ کا سلسلہ کچھ دیر کے لئے شروع ہوجاتا تھا، آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنی غیبی مدد ظاہر فرمائی، ملائکہ نازل ہوئے دشمن کی نگاہوں میں ظاہر نہ ہونے کے باوجود اس کے قلع قمع میں لگ گئے، ہوا اور آندھی کا ایسا سخت طوفان آیا جس نے کفار کے لشکر میں سخت ابتری پھیلا دی اور اس طرح ان کے دلوں میں ایسا خوف اور رعب بیٹھ گیا کہ پورا لشکر تتر بتر ہو کر بھاگ کھڑا ہوا، اسی مناسبت سے اس کو عزوہ احزاب بھی کہا جاتا ہے، اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے، پیش گوئی فرمائی تھی کہ آج مشرکوں کی ہمت بالکل ٹوٹ گئی ہے، اب کبھی بھی ہمارے دشمن کو ہم پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہیں ہوگی، تو اب ہم ہی ان پر لشکر کشی کریں گے، چناچہ ایسا ہی ہوا کہ اس غزوہ کے بعد کفار کا لشکر مدینہ پر حملہ آور نہیں ہوا بلکہ رسول کریم ﷺ نے مکہ اور دوسرے مقامات پر لشکر کشی فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر مسلمانوں کو فتح دی۔

【18】

حضرت جبرئیل (علیہ السلام) اور فرشتوں کی مدد کا معجزہ

اور حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے غزوہ خندق سے واپس آکر ( اپنے جسم سے) ہتھیار اتا رے اور غسل ( کا ارادہ) کیا تھا کہ آپ ﷺ کی خدمت میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے، درآنحالیکہ وہ اپنے سر سے ( غزوہ خندق میں پڑی ہوئی) گرد و غبار جھاڑ رہے تھے۔ اور کہنے لگے کہ آپ ﷺ نے تو ہتھیار اتار کر رکھ دئیے ہیں اور قسم اللہ کی میں نے ابھی ہتھیار نہیں اتارے ہیں ( جیسا کہ آپ ﷺ مجھے دیکھ ہی رہے ہیں ( چلئے ابھی تو ان کافروں پر لشکر کشی کرنی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہاں چلنا ہے، کس پر لشکر کشی کرنی ہے ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بنی قریظہ کی طرف اشارہ کیا اور آنحضرت ﷺ ( فورا مسلح ہو کر اپنے صحابہ کے ساتھ قریظہ کی طرف روانہ ہوگئے ( جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فتح عطا فرمائی) اور بخاری کی ایک روایت میں حضرت انس (رض) سے یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ۔ گویا میں اس غبار کو اب بھی دیکھ رہا ہوں جو بنو غنم کے کوچہ میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ہمراہ چلنے والی ( سوار فرشتوں کی) جماعت کے سبب اس وقت اٹھ رہا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ بنو قریظہ کی طرف جار ہے تھے۔ تشریح غسل کیا تھا سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے غسل کا ارادہ کیا تھا اور نہانے جا ہی رہے تھے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آگئے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جس وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے تو آپ ﷺ غسل کر رہے تھے، سر کا ایک حصہ دھونا باقی تھا، گویا اس وقت تک آپ ﷺ کا غسل پورا نہیں ہوا تھا۔ درآنحالیکہ وہ اپنے سر سے ( غزوہ خندق میں پڑی ہوئی) گردوغبار جھاڑ رہے تھے۔ اس میں ہو کی ضمیر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف راجع ہوسکتی ہے اور آنحضرت ﷺ کی طرف بھی، حاصل یہ کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا آنا اور آنحضرت ﷺ کا بنی قریظہ سے جنگ کے لئے روانہ ہونا غزوہ خندق سے واپسی کے فورا بعد کا واقعہ ہے۔ بنو قریظہ سے مراد یہودیوں کی وہ قوم ہے جو مدینہ شہر سے باہر تین چار میل کے فاصلہ پر آباد تھی، وہاں ان کی حویلیاں تھیں اور ایک بہت مضبوط قلعہ بھی تھا، انہوں نے عہد شکنی کا ارتکاب کیا تھا اور آنحضرت ﷺ سے مصالحانہ معاہدہ کے باوجود غزوہ خندق میں دشمنوں کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کی تباہی کا پورا منصوبہ بنایا تھا۔ بہر حال آنحضرت ﷺ نے ان سے جنگ کی اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فتح عطا فرمائی اس کی تفصیل تاریخ وسیر کی کتابوں میں مذکور ہے۔ غنم انصار کے ایک قبیلہ کا نا ہے، آنحضرت ﷺ بنو قریظہ کی طرف جاتے ہوئے اس قبیلہ کے محلہ سے گزرے تھے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اس محلہ کے گلی کوچہ میں لوگوں کی آمد ورفت نہیں تھی، اسی وجہ سے اس کو چہ میں اٹھتا ہوا گردوغبار دیکھ کر حضرت انس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فرشتوں کا لشکر ساتھ چل رہا ہے اور اس کے قدموں سے یہ گردوغبار اٹھ رہا ہے، نیز غالب گمان یہ ہے کہ فرشتوں کے اس لشکر کے کمانڈر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے جو یا تو لشکر کے ساتھ ہی تھے یا آنحضرت ﷺ کے ہمراہ چل رہے تھے۔ اس حدیث میں جو چیز آنحضرت ﷺ کا معجزہ کو ظاہر کرتی ہے وہ ایک تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا مسلح ہو کر اپنے لشکر سمیت آنحضرت ﷺ کے دشمنوں سے جنگ کے لئے آنا ہے اور دوسری چیز فرشتوں کے قدموں سے اٹھتے ہوئے گردوغبار کا نظر ہے جب کہ خود وہ فرشتے کسی کو نظر نہیں آرہے تھے۔

【19】

انگلیوں سے پانی کا معجزہ

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ مقام حدیبیہ میں ( ایک دن ایسا ہوا کہ پانی کی شدید قلت کے سبب) لوگوں کو سخت پیاس کا سامنا کرنا پڑا، اس وقت آنحضرت ﷺ کے پاس ایک لوٹا تھا جس سے آپ ﷺ نے وضو فرمایا تھا ( اور اس میں بہت تھوڑا سا پانی بچا) لوگوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہمارے لشکر میں پینے اور وضو کرنے کے لئے بالکل پانی نہیں ہے، بس وہی تھوڑا سا پانی ہے جو آپ ﷺ کے لوٹے میں بچ گیا ہے ( اور ظاہر ہے) کہ اس سے سب لوگوں کا کام نہیں چل سکتا) آپ ﷺ نے ( یہ سن کر) اپنا دست مبارک اس لوٹے ( کے اندر یا اس کے منہ) میں ڈال دیا اور آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے اس طرح پانی ابلنے لگا جیسے چشمے جاری ہوگئے ہوں۔ حضرت جابر کا بیان ہے ہم سب لوگوں نے خو پانی پیا اور وضو کیا۔ حضرت جابر سے پوچھا گیا کہ اس موقع پر تم سب کتنے آدمی تھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایک لاکھ ( آدمی) ہوتے تب بھی وہ پانی کافی ہوتا، ویسے اس وقت ہماری تعداد پندرہ سو تھی۔ ( بخاری ومسلم) تشریح ہم سب لوگوں نے خوب پانی پیا کتنے قابل رشک تھے وہ لوگ جن کو اس مقدس پانی کے پینے کی سعادت نصیب ہوئی اور اس کے طفیل میں ظاہر و باطن کی کیسی پاکیزگی ان کو حاصل ہوئی، کیونکہ زمین و آسمان میں اس پانی سے زیادہ افضل اور کوئی پانی نہیں تھا۔ اگر ہم ایک لاکھ ہوتے حضرت جابر کا یہ جواب ایک لطیف طنز تھا، کہ بھلا معجزہ کے معاملہ میں کمیت کے بارے میں پوچھنا بھی کوئی بات ہوتی ! تاہم انہوں نے بعد میں واضح جواب دیا کہ اس وقت ہماری تعداد پندرہ سو تھی نیز انہوں نے ایک پانچ سو کہنے کے بجائے پندرہ سو اس نکتہ کے پیش نظر کہا کہ کثرت کا جو شدید تاثر پندرہ سو کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے وہ ایک ہزار پانچ سو کے الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتا علاوہ ازیں بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مقام حدیبیہ میں جو صحابہ کرام موجود تھے وہ الک الک جماعتوں کی صورت میں تقسیم تھے اور ہر جماعت ایک سو افراد پر مشتمل تھی۔ لہٰذا حضرت جابر نے پندرہ سو کے ذریعہ پندرہ جماعتوں کی طرف اشارہ کیا۔

【20】

آب دہن کی برکت سے خشک کنوں لبریز ہوگیا

اور حضرت براء ابن عازب (رض) کہتے ہیں کہ حدیبیہ میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہم چودہ سو افراد تھے، حدیبیہ میں ایک کنواں تھا جس کا پانی ہم سب نے کھینچ کر استعمال کرلیا تھا اور اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہیں رہا تھا، جب نبی کریم ﷺ کو یہ معلوم ہوا ( کہ کنواں خشک ہوگیا ہے اور پانی ختم ہوجانے کی وجہ سے لشکر کے تمام لوگ پریشان ہیں) تو آپ ﷺ کنویں پر تشریف لائے اور اس کے کنارے بیٹھ گئے، پھر آپ ﷺ نے وضو کے پانی کا برتن منگا کر وضو کیا اور وضو کے بعد منہ میں پانی لیا اور دعا مانگی، اس کے بعد آپ ﷺ نے وہ آب دہن کنویں میں ڈال دیا اور فرمایا کہ ساعت بھر کنویں کو چھوڑ دو اور پھر، ( ایک ساعت کے بعد کنویں میں اتنا پانی ہوگیا کہ) تمام لشکر والے خود بھی اور ان کے مویشی بھی اور جب تک وہاں سے کوچ کیا اسی کنویں سے پانی لیتے رہے۔ ( بخاری) تشریح حضرت جابر کی روایت میں پندرسو کی تعداد بیان کی گئی تھی جب کہ یہاں حضرت براء کی روایت میں چودہ سو کی تعداد بیان کی گئی ہے، تو جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، اصل تعداد چودہ سو سے زائد اور پندرہ سو سے کم تھی روای نے کسر کو شمار کر کے بیان کیا اس نے پندرہ سو کی تعداد بیان کی اور جس راوی نے کسر کو چھوڑ دیا اس نے چودہ سو کی تعداد بیان کی۔ یا یہ کہ اہل حدیبیہ چونکہ جماعتوں میں تقسیم تھے اور ایسا ہوتا تھا کہ پانی کے لئے کچھ جماعتیں آتی تھیں تو کچھ جماعتیں پانی لے کر چلی جاتی تھیں اس صورت میں کسی وقت تو مجموعی تعداد چودہ سو ہوجاتی تھی اور کسی وقت پندرہ سو۔۔۔ لہٰذا جس راوی نے جو تعداد دیکھی اس کو بیان کردیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے پہلے کل تعداد پندہ سو تھی جس کو حضرت جابر نے جو بیان کیا اور جب براء نے بیان کیا تو اس وقت تعداد گھٹ کر چودہ سو ہوگئی تھی، ایک قول یہ بھی ہے کہ ان میں سے کسی بھی راوی نے ایک ایک آدمی کو شمار کر کے یقینی تعداد نہیں بیان کی ہے بلکہ جس نے جو بھی تعداد بیان کی اندازہ اور تخمینہ کے طور پر بیان کی ہے کسی نے چودہ سو کا اندازہ لگایا تو کی نے پندرہ سو کا۔ نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ اس واقعہ سے کہ جس کو حضرت براء نے بیان کیا ہے، پہلے کا ہے اور حدیبیہ میں اس طرح کے معجزے متعدد بار ظہور میں آئے لہٰذا تعددواقعہ کو دیکھتے ہوئے ان دونوں روایتوں میں بیان تعداد کا کوئی تضاد نہیں رہ جاتا۔ ساعت بھر کنویں کو چھوڑ دو کا مطلب یہ تھا کہ تھوڑی سی دیر کے لئے اس کنویں کو اسی طرح رہنے دو ، ابھی اس میں سے پانی نکالنے کا ارادہ نہ کرو، کچھ دیر بعد جب کنواں بھر جائے گا تو اس میں سے پانی کھینچنا۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح آپ ﷺ نے یہ اشارہ فرمایا ہو کہ کنویں میں پانی بڑھ جانے کی جو دعا کی گئی ہے اس کی قبولیت کی ساعت بتدریج آئے گی۔

【21】

پانی میں برکت کا معجزہ

اور حضرت عوف (رح) ( تابعی) حضرت ابورجاء (رح) ( تابعی) سے اور وہ حضرت عمران ابن حصین (رض) ( صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ( یعنی حضرت عمران نے) بیان کیا ایک سفر میں ہم ( کچھ صحابہ) نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے، ایک موقع پر لوگوں نے آپ سے ( پانی نہ ہونے کے سبب) پیاس کی شکایت کی، آپ ﷺ ( یہ سن کر) اسی جگہ اتر پڑے اور فلاں شخص کو بلایا۔ اس فلاں شخص کا نام ابوجاء نے تو بیان کیا تھا لیکن ( ان کے بعد کے راوی) عوف اس شخص کا نام بھول گئے اس لئے انہوں نے اس شخص کو لفظ فلاں سے تعبیر کیا۔ نیز آپ ﷺ نے حضرت علی کو بھی طلب کیا اور ان دونوں کو حکم دیا کہ جاؤ پانی تلاش کرو، چناچہ وہ دونوں ( یعنی وہ شخص اور حضرت علی پانی کی تلاش میں ادھر ادھر پھرنے لگے، انہوں نے ایک جگہ ایک عورت کو دیکھا، جو اونٹ پر ( لٹکے ہوئے) دو مشکیزوں کے درمیان بیٹھی تھی، یا یہ کہ پانی کے دو سطیحوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی، دونوں حضرات اس عورت کو، ( اس کے مشکیزے سمیت) نبی کریم ﷺ کے پاس لائے، پھر اس عورت کو ( یا جیسا کہ بعض حضرات نے لکھا ہے اس کے مشکیزوں کو اونٹ سے اتارا گیا، نبی کریم ﷺ نے ایک برتن منگا کر اس میں دونوں مشکیزوں کے دہانوں سے پانی انڈیلنے کا حکم دیا اور پھر لوگوں کو آوازدی گئی کہ آؤ پانی پیو اور پلاؤ ( اور اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لو۔۔ ) ۔ چناچہ سب لوگوں نے خوب پانی پیا ( اور اپنے اپنے برتنوں میں اچھی بھر لیا ) ۔ حضرت عمران کہتے ہیں کہ اس وقت ہم لوگ چالیس آدمی تھے جو بری طرح پیاسے تھے ہم سب نے اس برتن میں سے خوب سیر ہو کر پانی پیا بھی اور اپنی اپنی مشکیں اور چھاگلیں بھی ہمارے ساتھ تھیں اچھی طرح بھر لی گئیں، اللہ کی قسم جب ہم لوگوں کو روک دیا گیا یعنی جب ہم پانی لے لے کر اس چھاگل کے پاس سے ہٹے تو ہم نے محسوس کیا کہ چھاگل پہلے سے زیادہ بھرئی ہوئی ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب نے اس چھاگل سے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور جس جس کے پاس جو بھی برتن تھا اس کو اچھی طرح بھر لیا گیا، اس کے بعد اس چھاگل میں نہ صرف یہ کہ پانی جوں کا توں موجود تھا بلکہ یہ ایسا محسوص ہوا کہ یہ چھاگل اس وقت سے بھی زیادہ بھری ہوئی ہے جب اس سے پانی لینا، شروع کیا گیا تھا۔ اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں جو یہاں نقل نہیں ہوئے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو کھانا اور غلہ وغیرہ دیا، جب وہ وہاں سے واپس ہو کر اپنی قوم میں پہنچی تو لوگوں سے سارا ماجرا بیان کر کے کہنے لگی کہ وہ شخص یا تو اتنا بڑا جادوگر ہے کہ اس کے برابر کوئی جادوگر زمین و آسمان میں نہیں ہے یا وہ شخص نبی برحق ہے۔

【22】

درختوں کی اطاعت کا معجزہ

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ ایک جگہ پہنچ کر ایک وسیع و عریض میدان میں اترے اور کریم ﷺ قضائے حاجت کے لئے تشریف حاجت کے لئے بیٹھ سکتے، اچانک آپ ﷺ کی نظر دو درختوں پر پڑی جو میدان کے کنارہ پر کھڑے تھے، چناچہ رسول کریم ﷺ ان ایک درخت کے پاس پہنچے اور اس کی ایک ٹہنی پکڑ کر فرمایا کہ اللہ کے حکم سے (اوٹ بننے کے لئے) میری اطاعت کر۔ یہ سنتے ہی وہ درخت آپ ﷺ کے سامنے زمین پر) اس طرح جھک گیا جیسے نکیل پڑا ہوا اونٹ ( اپنے ہانکنے والے کی اطاعت کرتا ہے) پھر آپ دوسرے درخت کے پاس پہنچے اور اس کی ایک ٹہنی پکڑ کر فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میری اطاعت کر، پہلے درخت کی طرح اس درخت نے فورا اطاعت کی (اور زمین پر جھک گیا) اس کے بعد آپ ﷺ نے ان دونوں درختوں کے درمیانی فاصلہ کے بیچوں پیچ پہنچ کر فرمایا کہ اب تم دونوں اللہ کے حکم سے ( ایک دوسرے کے قریب آکر) آپس میں اس طرح مل جاؤ کہ میں تمہارے نیچے چھپ جاؤں، چناچہ وہ دونوں درخت مل گئے ( اور آپ ﷺ ان دونوں درختوں کی اوٹ میں بیٹھ کر قضائے حاجت سے فارغ ہوئے۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں (اس واقعہ کو دیکھ کر حیران تھا اور اس عجیب و غریب کرشمہ سے متعلق غور و فکر کرکے سوچ رہا تھا کہ اللہ نے اپنے محبوب نبی ﷺ کے ذریعہ یہ کیسا معجزہ ظاہر کیا ہے، یا یہ کہ اس واقعہ سے الگ میں اپنی کسی گہری سوچ میں پڑا ہوا تھا، کہ اچانک میری نظر ایک طرف کو اٹھی تو رسول کریم ﷺ کو تشریف لاتے دیکھا اور پھر کیا دیکھتا ہوں کہ وہ دونوں درخت ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنی اپنی جگہ پر جا کھڑے ہوئے ہیں ( مسلم )

【23】

زخم سے شفا یابی کا معجزہ !۔

اور حضرت یزید ابن عبید (رح) (تابعی) کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں نے حضرت سلمہ ابن اکوع کی پنڈلی پر زخم کا نشان دیکھ کر ان سے پوچھا کہ ابومسلم ! یہ کیسے زخم کانشان ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ زخم خیبر کی لڑائی میں تھا (اور زخم بھی اتنا سخت تھا کہ) لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ سلمہ کام آگیا (یعنی زخم کی تاب نہ لا کر شہید ہوگیا) لیکن ہوا یہ کہ میں (اس زخم کے ساتھ) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچا، آپ ﷺ نے اس زخم پر تین بار دم کیا اور اس کی برکت سے وہ زخم (ایک لخت) ایسا اچھا ہوگیا کہ پھر اب تک مجھ کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ (بخاری )

【24】

ان دیکھے واقعہ کی خبر دینے کا معجزہ ،

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے زید، جعفر اور ابن رواحہ کی شہادت کا حال، ان تینوں کے بارے میں خبر آنے سے پہلے ہی لوگوں کو سنا دیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا زید نے جھنڈا لیا اور شہید ہوگئے، پھر جعفر نے جھنڈا لیا اور وہ بھی شہید ہوگئے، پھر ابن رواحہ نے جھنڈا لیا اور وہ بھی شہید ہوگئے، آپ ﷺ یہ بیان کر رہے تھے اور (ان شہداء کے غم میں) آنکھوں سے آنسو جاری تھے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا آخر کار اس شخص نے جھنڈا لیا جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ حضرت انس یا بعد کے کسی روای کا بیان ہے کہ) اس سے آنحضرت ﷺ کی مراد خالد بن ولید کی ذات تھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرما دی۔ (بخاری) تشریح یہ واقعہ جنگ موتہ کا ہے موتہ ایک جگہ کا نام ہے جو ملک شام میں واقع ہے، یہ جنگ سن ٨ ھجری میں رومیوں سے ہوئی تھی اور آنحضرت ﷺ نے وہاں لشکر بھیجتے ہوئے مذکورہ بالا تینوں جلیل القدر صحابہ کرام کو نامزد فرمایا تھا کہ اگر جنگ کے درمیان امیر لشکر زید بن حارث شیہد ہوجائیں تو ان کے بعد جعفر امیر لشکر ہوں گے اور اسلام کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہوگا، چناچہ اس جنگ میں ایسا ہی ہوا کہ یہ تینوں حضرات یکے بعد دیگرے شہید ہوگئے اور پھر اسلامی لشکر نے حضرت خالدابن ولید کو اپنا امیر چن لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائی۔ پس آنحضرت ﷺ کی شہادت کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں آئی تھی، مقام موتہ سے ایک ماہ کی مسافت کے فاصلہ پر ( مدینہ منورہ میں) بیٹھے بیٹھے اس واقع کی خبر دے دی تھی۔ یہ آپ ﷺ کا معجزہ ہوا۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موت کی خبر پہنچانا جائز ہے۔ جو اللہ کی تلوار میں ایک تلوار ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے بہادر ترین بندوں میں سے ایک بہادر ترین بندہ ہے اور اسی مناسبت سے ان کا لقب سیف اللہ ( اللہ کی تلوار) ہے، پس اس جملہ میں اللہ کی طرف تلوار کی نسبت، دراصل حضرت خالد کی عظمت اور ان کی بےمثال شجاعت کو ظاہر کرنے کے لئے ہے، چناچہ منقول ہے کہ وہ دشمن کے ایک ایک ہزار سپاہیوں پر تنہا حملہ کر کے ان کو پچھاڑ دیتے تھے اور اس دن لڑتے لڑتے ان کے ہاتھ سے آٹھ تلواریں ٹوٹی تھیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرما دی۔ کے تحت محدثین اور شارحین کے اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ اس جنگ میں دشمنوں کو کامل ہزیمت اور شکست اٹھانا پڑی تھی اور مسلمان مال غنیمت کے ساتھ فائز المرام لوٹے تھے، یا فتح سے مراد مسلمانوں کا اپنے دفاع میں کامیاب ہوجانا ہے، کہ اسلامی لشکر دشمن کی تباہ کن طاقت کا پامردی سے مقابلہ کر کے صحیح وسالم واپس آگیا تھا ؟ حضرت شیخ عبد الحق (رح) نے یہاں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح عطا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رومیوں کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کی مدد فرمائی اور مسلمان ان کے ہاتھوں شکست وہزیمت اٹھانے سے محفوظ رہے۔

【25】

غزوئہ حنین کا معجزہ

اور حضرت عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک تھا ( ایک موقع پر) جب کہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان شدید خون ریزی ہوئی تو پشت دے کر مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے ( یہ نازک صورت حال دیکھ کر) رسول کریم ﷺ نے اپنے خچر کو ایڑی لگانا اور ( بلا خوف) کفار کی طرف بڑھنا شروع کیا، اس وقت میں تو رسول کریم ﷺ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا اور اس خیال سے اس کو روک رہا تھا کہ کہیں وہ تیزی کے ساتھ کافروں میں نہ جا گھسے اور ( آنحضرت ﷺ کے چچا زاد بھائی) ابوسفیان بن حارث ( جن کا اصلی نام مغیرہ بن حارث بن عبد المطلب تھا، اظہار عقیدت و محبت اور محافظت کے طور پر) رسول کریم ﷺ کی رکاب تھامے ہوئے تھے، اسی دوران رسول کریم ﷺ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ عباس ! اصحاب سمرہ کو آواز دو ! حضرت عباس (رض) جو ایک بلند آواز آدمی تھے کہتے ہیں کہ میں نے ( آنحضرت ﷺ کے حکم پر پکار کر کہا کہاں ہیں اصحاب سمرہ ! ! ؟ ( کیا تم اپنی وہ بیعت بھول رہے ہو جو تم نے آنحضرت ﷺ کی مدد و حفاظت کے لئے درخت کے نیچے کی تھی ! ؟ حضرت عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ( میری یہ پکار سن کر) اصحاب سمرہ اس طرح لوٹے اور دوڑتے ہوئے آئے) جیسے گائیں ( فرد محبت واشتیاق سے) اپنے بچوں کی طرف ( دوڑتی ہوئی) لوٹ کر آتی ہے) اور وہ ( اصحاب سمرہ) کہہ رہے تھے اے قوم ہم حاضر ہیں، اے قوم ہم حاضر ہیں۔ اس کے بعد مسلمان از سر نو ہمت اور جوش کے ساتھ ( کافروں سے بھڑ گئے۔ اور انصار صحابہ) نے آپس میں ایک دوسرے کو بلانے اور حوصلہ دلانے کے لئے غازیوں کی مانند) اس طرح پکارنا شروع کیا کہ اے گروہ انصار ! اے گروہ انصار ! ہمت سے کام لو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو) پھر یہ پکارنا قبیلہ بنو حارث بن خزرج تک محدود ہوگیا ( یعنی صرف اولاد حارث ہی کو، جو انصار کا سب سے بڑا قبیلہ ہے، اے اولاد حارث اے اولاد حارث کہہ کر پکارا جانے لگا) اس دوران رسول کریم ﷺ نے، جو اپنے خچر پر ایک طاقتور اور قابو یافتہ سوار کی طرح جمے ہوئے تھے، لڑتے ہوئے مسلمانوں پر نظر ڈالی ( اور بعض حضرات نے کالمتطاول کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جو خچر پر گردن اونچی کر کے دیکھنے والے کی طرح بیٹھے ہوئے تھے، یعنی جس طرح کوئی اپنے سے دور کسی چیز کو دیکھنے کے لئے گردن اونچی کر کے نگاہ ڈالتا ہے اسی طرح آپ ﷺ نے کچھ کنکریاں ہاتھ میں اٹھائیں اور شاہت الوجوہ کہتے ہوئے ان کنکریوں کو کافروں کے منہ پر پھینک مارا اور ( یا تو از راہ تفاول یا پیش خبری کے طور پر) فرمایا رب محمد ﷺ کی قسم کافروں کو شکست ہوگئی۔ ( حضرت عباس (رض) کہتے ہیں کہ) اللہ کی قسم ! یہ شکست جو کافروں کو ہوئی صرف آپ ﷺ کی کنکریاں پھینکنے کے سبب ہوئی ( کنکریاں پھینکنے کے بعد آخر تک) برابر دیکھتا رہا کہ کافروں کی تیزی اور شدت سے چلنے والی تلواریں ہلکی اور کند پڑ رہی تھیں اور ان کا انجام ذلت و خواری سے بھرا ہوا تھا۔ تشریح حنین مکہ اور طائف کے درمیان عرفات سے آگے ایک مقام کا نام ہے جہاں فتح مکہ کے بعد شوال سن ٨ ھ میں مسلمانوں اور اس علاقہ میں آباد مشہور قبائل ہو ازن وثقیف کے درمیان زبر دست جنگ ہوئی تھی، ابتداء جنگ میں مسلمانوں کو دشمن فوج کی طرف سے صبح کا ذب کی تاریکی میں اتنے سخت وشدید اور اچانک حملہ کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ ( مسلمان) سراسیمہ ہو کر رہ گئے اور سب سے پہلے اہل مکہ میں سے وہ لوگ جو بالکل نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، حو اس باختہ ہو کر بھاگے تو ان کو دیکھ کر انصار و مہاجر صحابہ بھی سخت پریشانی میں ادھر ادھر منتشر ہونے لگے وہ دراصل مدد اور تحفظ چاہنے کے لئے لوٹ لوٹ کر آنحضرت ﷺ کے پاس آرہے تھے لیکن اس افرا تفری میں محسوس یہ ہو رہا تھا کہ مسلمان پشت دے کر بھاگ رہے ہیں، جب کہ درحقیقت نہ انہوں نے پشت دکھائی تھی اور نہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، بہر حال مسلمانوں میں اس طرح کی ہلچل اور افراتفری ضرور پیدا ہوگئی تھی جس سے جنگ کا نقشہ مسلمانوں کے خلاف بھی ہوسکتا تھا لیکن آنحضرت ﷺ کی انتہائی شجاعت و استقلال، نہایت کامیاب حکمت عملی اور اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت نے تھوڑی ہی دیر بعد مسلمانوں کو سنبھال لیا اور دشمنوں کو شکست فاش کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس جنگ میں آنحضرت ﷺ جس خچر پر سوار تھے اس کا نام دلدل تھا اور فروہ ابن نفاثہ نے، جو ایک مشرک تھا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں تحفۃ بھیجا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ مشرکوں کا ہدیہ قبول کیا جاسکتا ہے، لیکن جیسا کہ احادیث میں منقول ہے آنحضرت ﷺ نے بعض مشرکوں کے ہدیئے رد کر دئیے تھے، لہٰذا بعض حضرات نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کا ( دلدل) ہدیہ کا قبول کرلینا اس عمل کا ناسخ ہے کہ آپ ﷺ نے بعض مشرکوں کا ہدیہ قبول نہیں کیا تھا، لیکن یہ قول محل نظر ہے، کیونکہ تاریخ کے تعین کے ساتھ یہ بات ثابت نہیں ہے کہ قبول کرنے کا واقعہ پہلے کا ہے یا رد کرنے کا واقعہ پہلے پیش آیا تھا ؟ نیز اکثر حضرات کا قول یہ ہے کہ رد منسوخ نہیں ہے، آپ ﷺ نے جو قبول کیا تو اس مشرک کا ہدیہ قبول کیا جس کے مسلمان ہوجانے کی توقع اور جس کے ذریعہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچنے کی امید آپ ﷺ کو تھی اور جن مشرکوں کا معاملہ اس کے برعکس تھا ان کا ہدیہ آپ ﷺ نے رد کردیا۔ سمرہ کیکر کے درخت کو کہتے ہیں، حدیبیہ میں آپ ﷺ نے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جس درخت کے نیچے جان نثاری کی بیعت لی تھی وہ کیکر کا درخت تھا اس بیعت کو بیعت الرضوان اور جن صحابہ سے بیعت لی گئی ان کو اصحاب سمرہ کہا جاتا ہے۔ اصحاب سمرہ کو آواز دے دو سے آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جو لوگ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے اور جنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی تھی ان کو آواز دے کر کہو یہی وقت تمہاری آزمائش کا ہے اللہ کی راہ میں اور میری حمایت و حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کردینے کا تم نے جو عہد کیا تھا اب اس کو پورا کرنے کے لئے پہنچو۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کے دو معجزوں کا ذکر ہے، ایک تو یہ کہ آپ ﷺ نے پہلے سے خبر دے دی کہ کفار کو شکت ہوگئی اور دوسرا معجزہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے کنکریاں اٹھا کر دشمن کے منہ پر پھینکیں تو وہ میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

【26】

غزوہ حنین میں آنحضرت ﷺ کی شجاعت وپامردی ،

اور حضرت ابواسحٰق (رح) (تابعی) روایت کرتے ہیں ( ایک موقع پر) ایک شخص نے حضرت براء ابن عازب (رض) (صحابی) سے پوچھا کہ اے ابوعمارہ کیا (کیا یہ سچ ہے کہ) آپ لوگ غزوہ حنین میں دشمن کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے ؟ حضرت براء ابن عازب (رض) نے جواب دیا نہیں اللہ کی قسم رسول کریم ﷺ نے ہرگز پشت نہیں دکھائی تھی صرف اتنا ہوا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے کچھ نوجوان صحابہ کرام کا جن کے پاس زیادہ ہتھیار نہیں تھے (اچانک) ایک تیر انداز قوم (بنو ہوازن) سے مقابلہ ہوگیا، اس کے لوگ ایسے (خطرناک) تیر انداز تھے کہ ان کا تیر کوئی زمین پر نہیں گرتا تھا (یعنی نشانہ خالی نہ جاتا تھا) ان لوگوں نے نوجوان صحابہ کرام پر تیربرسانا شروع کیا تو ان کا کوئی تیرخطا نہیں کررہا تھا، اس وقت وہ نوجوان صحابہ دشمن کے سامنے سے ہٹ کر رسول کریم ﷺ کے پاس آگئے۔ آنحضرت ﷺ (اس وقت) اپنے سفید خچر (دلدل) پر سوار تھے اور ابوسفیان ابن حارث (خچر کی لگام پکڑے ہوئے آگے تھے، آپ ﷺ (جنگ کا یہ پریشان کن نقشہ اور اپنے صحابہ کی سرآئیگی دیکھ کر) خچر سے اترے اور اللہ تعالیٰ سے مدد اور فتح کی دعا کی، آپ ﷺ نے (بآواز بلند یہ بھی فرمایا میں نبی ہوں، اس میں کچھ جھوٹ نہیں ہے میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ اس کے بعد ( جب کہ اسلامی لشکر دشمن کے مقابلہ کے لئے از سر نو ہمت و ولولہ کے ساتھ مستعد ہوا اور مذکورہ نوجوان آپ ﷺ کے پاس جمع ہوگئے تو) آپ ﷺ نے تمام مجاہدین کی صف بندی کی۔ ( مسلم) اور بخاری نے بھی اس مضمون کی روایت ( اپنے الگ الفاظ میں) نقل کی ہے۔ نیز بخاری ومسم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ براء ابن عازب نے کہا، اللہ کی قسم جب لڑائی سخت ہوئی، ( یعنی دشمنوں کا حملہ سخت ہوجاتا ہے اور ہم ہتھیاروں کی کمی یا کسی کمزوری کے سبب زیادہ دباؤ محسوس کرتے) تو آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچ کر اپنی حفاظت کرتے ( اور ذات گرامی کی برکت سے مدد ونصرت کے طلب گار ہوتے) بلاشبہ اس وقت ہم میں زیادہ بہادر اور شجاع وہی شخص تھا جو ان کے یعنی رسول کریم ﷺ کے برابر میں آکر کھڑا ہوجاتا تھا۔ تشریح رسول کریم ﷺ نے ہرگز پشت نہیں دکھائی تھی ۔۔۔ حضرت براء ابن عازب (رض) کا یہ جواب نہایت ہو شمندی وسمجھداری اور ذات رسالت کے تئیں انتہائی ادب و احترام پر مبنی تھا، دراصل پوچھنے والے کا مطلب یہ تھا کہ کیا آپ سب لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تھے ؟ اور سب لوگ میں چونکہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی کا سوال بھی پوشیدہ ہوسکتا تھا اس لئے حضرت براء ابن عازب (رض) نے سب سے پہلے تو بڑے زور دار انداز اور واضح الفاظ میں بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے نہ تو حقیقتًا پشت دکھائی تھی اور نہ آپ ﷺ ان لوگوں میں شامل تھے جو دشمن کے سامنے سے ہٹ آئے تھے اور جن پر صورۃ پشت دکھانے کا اطلاق ہوسکتا تھا، پھر حضرت براء ابن عازب (رض) نے اس وقت کی اصل صورت حال کی وضاحت کی کہ ان لوگوں نے بھی حقیقتا پشت نہیں دکھائی تھی بلکہ ہوا یہ تھا کہ وہ چند نوجوان صحابہ کرام جن کے پاس کافی ہتھیار نہیں تھے جب دشمن کے مدمقابل ہوئے تو ان پر ایک ایسی جماعت نے نہایت شدت سے تیر برسانا شروع کردیا جو تیر اندازی میں بہت ماہر اور کامیاب نشانہ باز تھی ان لوگوں کا کوئی تیر بھی خطا نہیں کر رہا تھا، ایسی صورت میں ان نوجوان صحابہ کرام نے یہی مناسب سمجھا کہ بیکار اپنی جانیں گنوانے کے بجائے دشمن کے سامنے سے ہٹ جائیں اور آنحضرت ﷺ کے قریب پہنچ کر اور آپ ﷺ کی مدد سے دشمن کے خلاف کوئی دوسرا محاذ بنائیں ! پس دشمن کے سامنے سے وقتی طور پر ان کے لوٹ آنے کو پشت دکھانا یا فرار اختیار کرنا ہرگز نہیں کہا جاسکتا، وہ صرف مدد حاصل کرنے آئے تھے کہ کمک لے کر دشمن کے خلاف زیادہ مؤثر طور پر لڑ سکیں۔ یہاں اس پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے حضرت عباس (رض) کی روایت میں پشت دے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ کے الفاظ ہیں جب کہ حضرت براء ابن عازب (رض) یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ صحابہ دشمن کے سامنے سے ہٹ کر آنحضرت ﷺ کے پاس آگئے۔ ان دونوں تعبیر بیان میں تضاد معلوم ہوتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دشمن کے حملہ اور تیر اندازی کی شدت کے وقت شروع میں تو ایسا ہی دکھا دیا کہ جیسے اسلامی لشکر کے لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، لیکن جب فورًا ہی آنحضرت ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوگئے اور حضرت عباس (رض) نے ان کو پکارنا شروع کیا جس سے اسلامی لشکر میں جوش اور ولولہ کی ایک نئی لہرپیدا ہوگئی تو اس طرح وہ عمل جو فرار کی صورت میں نظر آیا تھا بعد میں قرار و استقامت کی صورت میں بدل گیا پس حضرت عباس (رض) نے تو ابتدائی صورت حال کا نقشہ کھینچا اور حضرت براء ابن عازب (رض) نے بعد کی صورت حال بیان کی۔ اور ابوسفیان ابن حارث ( خچر کی لگام پکڑے ہوئے) آگے تھے۔۔۔ اس حدیث کا یہ جملہ بھی بظاہر حضرت عباس (رض) کی روایت کے معارض ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے خچر کی لگام تو حضرت عباس (رض) نے پکڑ رکھی تھی اور حضرت ابوسفیان (رض) رکاب تھامے ہوئے تھے ؟ لیکن حقیقت میں ان دونوں کے درمیان کوئی تضاد وتعارض نہیں ہے۔ کیونکہ اس بات کو تناوب ( باری باری پکڑنے) پر محمول کیا جاسکتا ہے، یعنی کبھی تو حضرت عباس (رض) لگام پکڑتے ہوں گے اور کبھی ابوسفیان (رض) رکاب تھامے رہتے ہوں گے اور کبھی حضرت ابوسفیان (رض) لگام پکڑ لیتے ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسا موقع آگیا ہو کہ دونوں حضرات کے لئے خچر کی لگام پکڑنا ضروری ٹھہرا ہو، لہٰذا ان دونوں روایتوں میں الگ الگ ان دونوں حضرات کا ذکر کیا گیا۔ میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں یہ انا النبی لا کذب انا ابن عبد المطلب کا ترجمہ ہے اور اس جملہ کے لفظ کذب اور مطلب کے ب پر جزم ہے، جو اس جملہ کی شعری ترکیب پر دلالت کرتا ہے، لیکن یہ جملہ آپ ﷺ کی موزونی طبیعت کے تحت بلا قصد آپ ﷺ کی زبان پر بروزن شعر جاری ہوگیا تھا لہٰذا اس کو شعر نہیں کہا جاسکتا۔ اس جملہ میں آپ ﷺ نے اپنی نسبت اپنے والد ماجد حضرت عبداللہ کی طرف نہ کر کے اپنے جد امجد عبد المطلب کی طرف کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ عزت و بزرگی میں عبد المطلب ہی زیادہ مشہور تھے۔ نیز اس جملہ میں آپ ﷺ نے اپنی جو تعریف کی تو یہ غروروتکبر یا اپنی ذات و حیثیت کی نا مناسب نمائش کے طور پر نہیں تھی بلکہ اس طرح کی تھی جیسے عام طور پر میدان جنگ میں غازی اور مجاہد دشمنوں کے سامنے اپنی شجاعت وجوانمردی کا اظہار کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر اور اس مقصد سے اپنی تعریف کرنا جائز ہے۔ اس وقت ہم میں زیادہ بہادر اور شجاع وہی شخص۔۔ الخ۔ یعنی اس وقت میدان جنگ کا نقشہ اتنا خطرناک اور دشمن کا حملہ اتنا خوفناک تھا کہ کوئی بھی مسلمان آنحضرت ﷺ سے زیادہ پامردی کے ساتھ جمے رہنے پر قادر نہیں تھا زیادہ سے زیادہ ایسا تھا کہ جو لوگ بہت زیادہ بہادر اور جوانمرد تھے وہ ادھر ادھر سے آکر اس جگہ پہنچنے کی کوشش کرتے جہاں آنحضرت ﷺ ہوتے اس طرح وہ لوگ اپنے اس حوصلہ کا اظہار کرتے تھے کہ وہ کسی بھی حال میں آنحضرت ﷺ کو تنہا چھوڑ کر میدان جنگ میں نہیں جائیں گے بلکہ ذات گرامی سے مدد و حوصلہ پا کر دشمن کے خلاف سینہ سپر ہوں گے، اگر کوئی شخص بزدل ہوتا تو وہ یقینًا آنحضرت ﷺ کے پاس آنے کے بجائے وہاں سے بھاگ کھڑے ہونے ہی میں اپنی عافیت دیکھتا۔ اس سے آنحضرت ﷺ کی بےپناہ شجاعت وبہادری اور اللہ کی ذات پر آپ ﷺ کے کامل اعتماد اور بھروسہ کا اظہار ہوتا ہے۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کے اس معجزہ کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے اس موقع پر اپنے خچر سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے فتح ونصرت کی دعا مانگی ( اور کنکریاں اٹھا کر دشمن کے منہ پر پھینک ماریں) جس کے سبب اس طاقتور دشمن کو شکست فاش ہوئی۔

【27】

کنکریوں کا معجزہ

اور حضرت سلمہ ابن اکوع (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ ( کافروں سے جہاد کے لئے) غزوہ حنین میں شریک تھے چناچہ ( اس غزوہ میں) جب رسول کریم ﷺ کے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دشمن کے سامنے سے بھاگنے لگے اور کافروں نے رسول کریم ﷺ کو گھیر لیا تو آپ ﷺ اپنے خچر سے اترے اور زمین سے ایک مٹھی خاک اٹھائی ( جس میں کنکریاں بھی تھیں) پھر اس خاک ( اور کنکریوں) کو کافروں کے منہ کے سامنے پھینک مارا اور فرمایا خراب ہوئے ان کے منہ ( یا یہ کہ خراب ہوں ان کے منہ ) چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کوئی ایسا انسان پیدا نہیں کیا تھا ( یعنی اس وقت دشمنوں میں ایسا کوئی شخص نہیں تھا) جس کی دونوں آنکھوں کو اللہ تعالیٰ نے اس ایک مٹھی خاک سے بھر نہ دیا ہو، پھر تو سارے کافر بھاگ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے ان کے مال کو (جو بطور غنیمت ہاتھ لگا) مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ ( مسلم) تشریح اس حدیث میں گویا تین معجزوں کا ذکر ہے، ایک تو یہ کہ آپ ﷺ نے جو ایک مٹھی مٹی کافروں کے منہ کی طرف، پھینک ماری وہ ان سب کی آنکھوں تک پہنچ گئی، دوسرے یہ کہ اتنی تھوڑی مٹی سے ان سب لوگوں کی آنکھیں بھر گئیں جن کی تعداد چار ہزار تھی اور تیسرے یہ کہ ظاہری طاقت کے بغیر محض اس مٹی اور کنکریوں کے ذریعہ اتنے بڑے لشکر کو شکست ہوگئی۔

【28】

ایک حیرت انگیز پیش گوئی جو بطور معجزہ پوری ہوئی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک تھے وہاں جنگ شروع ہونے سے پہلے ( میدان جنگ میں) رسول کریم ﷺ نے اپنے لشکر کے لوگوں میں سے ایک ایسے شخص کے بارے میں کہ جو اپنے کو مسلمان کہتا تھا فرمایا یہ شخص دوزخی ہے۔ پھر جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ شخص بڑی بےجگری سے لڑا اور اس کا جسم زخموں سے چور ہوگیا ( یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے) ایک صاحب نے آکر، اظہار تعجب کے طور پر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اس شخص کی حقیقت حال مجھے بتائیے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے ( جب کہ ظاہری حال تو یہ ہے کہ) وہ اللہ کی راہ میں بڑی بےجگری سے لڑا ہے اور بہت زخم اس نے کھائے ہیں، جس سے اس کا جنتی ہونا معلوم ہوتا ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یاد رکھو وہ دوزخیوں میں سے ہے، یعنی حقیقت حال وہی ہے جو میں نے پہلے بتائی ہے کہ وہ شخص دوزخی ہے اگرچہ اس کا ظاہر حال اس کے خلاف ہی کیوں نہ نظر آئے، بات یہ ہے کہ آخرت کے متعلق ظاہری اعمال کا کچھ اعتبار نہیں اصل مدار حسن احوال اور حسن خاتمہ پر ہے۔ اور پھر قریب تھا کہ بعض ( ضعیف الایمان) لوگ ( میدان جنگ میں کافروں کے خلاف اس شخص کی جان فروشانہ لڑائی کو دیکھتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کی سچائی میں) شک وشبہ کا شکار ہوجاتے، لیکن ( اسی وقت لوگوں نے دیکھا کہ) یکایک اس شخص نے اپنے زخموں کی تکلیف سے بےچین ہو کر اپنا ہاتھ ترکش کی طرف بڑھایا اور ایک تیر نکال کر اس کو ابنے سینہ میں پیوست کرلیا۔ ( یہ دیکھنا تھا کہ) بہت سے مسلمان دوڑے ہوئے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی ( یہ) بات سچی کردی ( کہ وہ شخص دوزخی ہے) اس نے اپنا سینہ چیر کر خود کشی کرلی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ بہت بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اس کا رسول ہوں۔ ( یہ الفاظ آپ ﷺ نے اس خوشی کے اظہار کے لئے فرمائے کہ آپ ﷺ کا کہنا سچ ہوا اس کے بعد آپ ﷺ نے حکم دیا کہ) بلال کھڑے ہو اور لوگوں کو آگاہ کردو کہ جنت میں صرف مؤمن داخل ہوگا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو فاسق شخص کے ذریعہ بھی مضبوط کرتا ہے۔ ( بخاری) تشریح یہاں اس واقعہ کا ذکر غزوہ حنین کی نسبت سے کیا گیا ہے جب کہ مواہب لدنیہ میں اس کا ذکر غزوہ خیبر کے موقع پر ہوا ہے اور صحیح بخاری میں یہی منقول ہے لہٰذا ہوسکتا ہے اس طرح کا واقعہ دونوں غزو وں میں پیش آیا ہو۔ حدیث میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام قرمان تھا اور وہ ایک منافق تھا اگرچہ اس کا منافق ہونا ظاہر نہیں تھا۔ اور ایک تیر نکال کر اس کو اپنے سینہ میں پیوست کرلیا بخاری کی اکثر روایتوں میں سھما کے بجائے جمع کا صیغہ اسھما نقل کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے ترکش سے بیک وقت کئی تیر کھینچ کر ان سب کو اپنے سینہ میں گھسیڑ لیا تھا، نیز صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ اس شخص نے اپنی تلوار زمین پر رکھی اور اس کی دھار پر اپنا سینہ رکھ کر زور سے دبایا یہاں تک کہ مرگیا۔ لیکن ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے پہلے تیر کے ذریعہ اپنا کام تمام کرنا چاہا ہو اور جب فوری طور پر وہ نہ مر سکا ہوگا تو پھر تلوار کے ذریعہ خود کشی کا عمل پورا کیا ہوگا۔ حاصل یہ کہ اس شخص کی موت اس حال میں آئی کہ اس کے اندر خبث باطن ( نفاق تھا) یا پھر وہ خود کشی کرلینے کے سبب فاسق کی موت مرا۔ اللہ تعالیٰ اس دین کو فاسق شخص۔۔ الخ۔ میں فاسق سے مراد یا تو منافق ہے یا وہ لوگ مراد ہیں جو نام ونمود کے لئے اور نمائش کے جذبہ سے اچھے عمل کرتے ہیں یا اچھے عمل بھی کرتے ہیں اور گناہ کے کام کرتے رہتے ہیں اور یا یہ کہ زندگی بھر تو اچھے عمل کرتے رہتے ہیں لیکن آخر میں کوئی ایسی بد عملی کرلیتے ہیں جس سے خاتمہ بالخیر نہیں ہوتا۔ ایک احتمال تو یہ ہے کہ اس جملہ کا تعلق بھی اس اعلان سے ہے جس کا حکم آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال کو دیا، لیکن دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس جملہ کا تعلق اعلان سے نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ نے یہ جملہ الگ سے فرمایا اور اس کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ زبانی قول ودعوی اور ظاہری اعمال بہر صورت حقیقت حال کے ترجمان نہیں ہوتے ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص زبان سے اپنی نیکی کا دعوی بھی کرتا ہے اور بظاہر نیک کام بھی کرتا دکھائی دیتا ہے مگر اس کے اندر نیت کے فساد یا نفاق کی ایسی برائی ہوتی ہے جس سے اس کے حقیقی احوال اور اس کے باطن کا اس کے ظاہر ہونے سے تعلق نہیں ہوتا اگرچہ اس کے ظاہری اعمال کے سبب دین کو فائدہ پہنچتا ہے اس کی بڑی مثال وہ لوگ ہیں جو محض مالی مفاد اور دنیاوی اغراض فاسدہ کے تحت دینی کتابوں کی تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کا کام کرتے ہیں، یا اذان دیتے ہیں، امامت کرتے ہیں، وعظ وتقریر کرتے ہیں اور مسجد ومدرسہ بناتے ہیں، اس طرح کے لوگ بظاہر حسن عمل اور حسن خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں اور ان کے اس عمل و خدمت سے یقینا اسلام کو، مسلمانوں اور نیکی کے طلبگاروں کو بہت فائدہ پہنچتا ہے اور وہ دین وملت کی تقویت کا باعث بنتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ خود اپنے اس عمل و خدمت پر اجر وثواب سے بےبہرہ ہوتے ہیں۔

【29】

خود کشی کا مرتکب دوزخی

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قتل نفس ( یعنی خود کشی) کا مرتکب دوزخ میں جائے گا، لیکن اس مسئلہ میں علماء کرام نے لکھا ہے کہ اگر ایسا شخص ( کہ جس نے خود کشی کر کے اپنے آپ کو ختم کرلیا ہو) مؤمن ہے اور تصدیق ایمانی رکھتا تھا تو دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا، جیسا کہ کسی مؤمن کو عمداً قتل کرنے والے مؤمن کا حکم ہے، چناچہ کسی مؤمن کا اپنے آپ کو ختم کرلینا ( یعنی خودکشی کرلینا) ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی دوسرے مؤمن کو قتل کردیا ہو۔ واضح رہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت میں قاتل مؤمن کے متعلق خلود نار ( دوزخ کے ابدی عذاب) کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ لیکن علماء کرام نے اس آیت میں تاویلیں کی ہیں کیونکہ قرآن کریم ہی کی دوسری آیتوں اور احادیث سے مؤمن کے قتل عمد کا ارتکاب کرنے والے کے بارے میں عدم خلود نار ( دوزخ کے غیر ابدی عذاب) کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ تاہم وہ محدثین جن کا تعلق اہل ظواہر سے ہے انہوں نے کہا ہے کہ ایسا شخص ( جس نے خود کشی کرلی ہو) اگرچہ مؤمن بھی ہو تو دوزخ کے ابدی عذاب کا مستوجب ہوگا، گویا ان کے نزدیک دوزخ کا ابدی عذاب کافر ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے مگر یہ قول شاذ ہے اور اہل سنت والجماعت کے متفقہ مسلک کے بالکل خلاف ہے۔

【30】

آنحضرت ﷺ پر سحر کئے جانے کا واقعہ

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ( جب) رسول کریم ﷺ پر جادو کیا گیا تو ( تو آپ ﷺ کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ) کسی کام کے بارے میں آپ ﷺ کا خیال ہوتا کہ کرلیا ہے حالانکہ وہ کام کیا نہ ہوتا تھا ( کافی دنوں تک آپ ﷺ کی یہی حالت رہی) تاآنکہ ایک دن اس وقت جب کہ آپ ﷺ میرے پاس تھے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پھر دعا کی اور پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ عائشہ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتادی ہے جو میں نے اس سے دریافت کی تھی ؟ اس کے بعد آپ ﷺ نے بیان کیا کہ (اللہ تعالیٰ نے میری حالت کے بارے میں مجھ پر اس طرح منکشف کیا کہ) میرے پاس آدمیوں کی صورت میں دو فرشتے آئے، ان میں سے ایک تو میرے سرہانے بیٹھا اور دوسرا پائینتی، پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے ( میری طرف اشارہ کر کے) پوچھا ! اس شخص کو کیا بیماری ہے ؟ دوسرے نے کہا اس پر جادو کیا گیا ہے۔ پھر پہلے نے پوچھا جادو کس نے کیا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا لبید ابن اعصم یہودی نے پہلے نے پوچھا کس چیز میں جادو کیا گیا ہے۔ دوسرے نے جواب دیا کنگھی میں، ان بالوں میں جو کنگھی سے جھڑتے ہیں اور تر کھجور کے خوشہ کے خول میں۔ پہلے نے پوچھا یہ جادو کی ہوئی چیزیں کہاں رکہی ہیں ؟ دوسرے نے جواب دیا مدینہ کے ایک کنویں ذروان میں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ اپنے چند مخصوص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور فرمایا یہی وہ کنواں ہے جو مجھ کو دکھایا گیا ہے۔ اس کنویں کا پانی حنا کی طرح سرخ تھا اور کھجور کے وہ خوشے ( جو اس کنویں میں ڈالے گئے تھے) ایسے تھے جیسے وہ شیطانوں کے سر ہوں، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان سب چیزوں کو کنویں سے نکال لیا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح کسی کام کے بارے میں آپ ﷺ کا خیال ہوتا۔۔ الخ۔ بعض شارحین نے اس جملہ کا یہ مطلب یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر جو سحر ( جادو) کیا گیا تھا اس کے اثر سے آپ ﷺ پر نسیان ( بھول) کا غلبہ اس طرح ہوگیا تھا کہ کسی کام کرنے کے یا نہ کرنے کا خیال بہک جاتا تھا، مثلا آپ ﷺ کے خیال میں یہ بات آجاتی تھی کہ میں نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ وہ کام آپ ﷺ کا کیا نہ ہوتا تھا، کسی بھی دینی معاملہ میں یہ صورت ہرگز پیش نہیں آتی تھی۔ اس حدیث میں آپ ﷺ کی ذہنی کیفیت و حالات کو ظاہر کرنے کے لئے یخیل کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کی نظیر قرآن میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یخیل الیہ من سحرہم انہا تسعی یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں یہ بات آئی کہ جادو کے اثر سے خود یہ رسیاں دوڑ رہی ہیں، حالانکہ رسیاں نہیں دوڑ رہی تھیں، بلکہ یہ تو ان کافر جادو گروں کی طرف سے نظر بندی کا اثر تھا کہ زمین پر پڑی ہوئی ساکت وصامت رسیاں خیال میں دوڑتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں یا یہ کہ جادوگر نے ان رسیوں پر پہلے سے پارہ جیسی کوئی چیز مل رکھی تھی اور، جب وہ رسیاں دھوپ میں زمین پر ڈال دی گئیں تو سورج کی تمازت سے ان کی ظاہری سطح پر اس طرح کی لرزش اور تھرتھرا ہٹ نمایاں ہوگئی جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں آیا کہ یہ رسیاں خود حرکت کر رہی ہیں۔ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ اس حالت کو جو سحر کے اثر سے آپ ﷺ میں پیدا ہوگئی تھی، اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے خیال میں آتا کہ اپنی کسی بیوں سے ہمبستری کریں لیکن پھر نہیں کرتے تھے، یعنی آپ ﷺ میں خواہش پیدا ہوتی تھی اور یہ جانتے تھے کہ ہمبستری کی قدرت رکھتا ہوں لیکن جب بیوی کے پاس جاتے تھے تو ان پر قادر نہیں ہوتے تھے۔ واضح رہے کہ دوسرے امراض کی طرح سحر بھی ایک مرض ہی ہوتا ہے پس انبیاء (علیہم السلام) کی بشریت کے تحت جس طرح ان پر دوسرے جسمانی امراض اور بیماریوں کا اثر ہوتا تھا اسی طرح سحر کا بھی ان پر اثر انداز ہونا ان کی نبوت کے منافی نہیں ہے، نیز آنحضرت ﷺ کے جسم شریف میں سحر کی تاثیر اس حکمت کا اظہار بھی تھا کہ سحر کی تاثیر کا ایک حقیقت ہونا اس طرح ثابت ہوجائے کہ جب اشرف المخلوقات کی سب سے عظیم شخصیت بھی سحر سے متاثر ہوسکتی ہے تو دوسرے کی کیا حیثیت ہے اس سے آنحضرت ﷺ کی نبوت کی ایک واضح دلیل بھی ان کفار کے سامنے آئی جو آنحضرت ﷺ کو ساحر کہا کرتے تھے، چونکہ سحر خود ساحر پر اثر انداز نہیں ہوتا۔۔۔ اور آنحضرت ﷺ پر سحر نے اثر کیا تھا لہٰذا ثابت ہوا کہ آپ ﷺ ساحر نہیں ہیں۔ آپ ﷺ سے سحر کئے جانے کا یہ واقعہ ذی الحجہ سن ٦ ھ کا ہے جب کہ آپ ﷺ صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے تھے اور علماء کرام نے لکھا ہے کہ سحر کا یہ اثر آپ ﷺ پر چالیس سال تک رہا، ایک روایت میں چھ مہینے کی مدت بھی منقول ہے اور ایک قول کے مطابق تو یہ اثر پورے سال تک رہا۔ تاہم ان روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ غالب گمان یہ کہ اس سحر کا اثر پوری شدت اور غلبہ کے ساتھ چالیس دن تک رہا پھر اس کی کچھ علامتیں چھ ماہ تک باقی رہیں اور کچھ ہلکا سا اثر پورے سال تک رہا۔ بہر حال جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ نے مذکورہ صورت میں آپ ﷺ پر اس سحر کی حقیقت کو منکشف فرمایا اور اس سے نجات عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پھر دعا کی۔۔۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ بار بار دعا کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ سے التجا میں مسلسل مصروف رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی ناپسندیدہ اور تکلیف دہ صورت حال کے پیش آجانے اور کسی آفت وبلاء کے نازل ہونے پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور گلوخلاصی کی دعا مانگنا مستحب ہے۔ اس موقع پر علماء کرام نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے خاص اور برگزیدہ بندوں کے دل میں دعاء کا داعیہ اس وقت ڈالتا ہے جب قبولیت کی گھڑی آجاتی ہے ان کے برخلاف عالم لوگوں کا معاملہ دوسرا ہوتا ہے ان کو ان کی حالت پر چھوڑے رکھا جاتا ہے کہ وہ دعا کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب وقت قبولیت آتا ہے تو ان کی دعا قبول ہوتی ہے۔ لبید ابن اعصم یہودی نے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہاں لبید سے مراد اس کی بیٹیاں ہیں، گویا اس فرشتے نے بتایا کہ لبید ابن اعصم کی بیٹیوں نے آنحضرت ﷺ پر سحر کیا ہے، ان حضرات نے یہ مراد قرآن کریم کی سورت قل اعوذبرب الناس اور الفلق کے ان الفاظ کی بنیاد پر بیان کی ہے کہ ومن شرالنفاثات فی العقد یعنی جادوگروں کا پڑھ پرھ کر گنڈہ پر پھونکنا اور گرہ لگاتے جانا، بھی ہوسکتا ہے۔ قاضی نے خاص طور پر شر نفاثات سے پناہ مانگنے کا سبب لکھتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ایک یہودی نے آنحضرت ﷺ پر جو سحر کیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ اس ( یہودی) نے کمان کے چلہ کو گنڈہ بنایا اور اس میں گیارہ گرہیں، لگائیں ( جن پر وہ منتر پڑھ پڑھ کر پھونکتا رہا) اور پھر اس نے اس چلہ ( یا گنڈہ) کو کنویں میں گاڑ دیا، چناچہ آنحضرت ﷺ اس اثر سے بیمار ہوگئے، تب اللہ تعالیٰ نے معوذتین یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس نازل فرمائی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آنحضرت ﷺ کو وہ کنواں بتایا جہاں گنڈہ دفن تھا، آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بھیجا اور وہ اس گنڈہ کو نکال کر لائے اور اس پر یہ دونوں سورتیں پڑھائیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب ایک آیت پڑھتے تو اس گنڈہ کی ایک ایک گرہ خود بخود کھل جاتی، اس طرح ہر آیت پر ایک ایک گرہ کر کے تمام گرہیں کھل گئیں، اس کے بعد کا سچ ثابت ہونا لازم نہیں آتا جو وہ کہا کرتے تھے کہ محمد ﷺ تو سحر زدہ ہیں۔ وہ تو یہ بات اس معنی میں کہا کرتے تھے کہ محمد ﷺ پر کسی ایسے سحر کا اثر ہے جس نے ( نعوذ باللہ) ان کی عقل کو ماؤف کردیا ہے اور ان پر دیوانگی طاری کردی ہے جب کہ آنحضرت ﷺ پر کئے جانے والے اس سحر اور اس کے اثرات کی نوعیت بالکل دوسری تھی۔ بہر حال بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قاضی نے جو روایت بیان کی ہے وہ ایک دوسرا واقعہ ہے اور اس واقعہ کے علاوہ ہے جو یہاں ( حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی) حدیث میں بیان کیا گیا ہے، تاہم یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ واقعہ تو ایک ہی ہے مگر الگ الگ دو صورتوں میں ایک ساتھ پیش آیا تھا، یعنی خود لبید نے بھی اپنی تدبیروں کے ساتھ آنحضرت ﷺ پر سحر کیا اور اس کی بیٹیوں نے بھی کیا تھا اور اس طرح حق تعالیٰ نے گویا آپ کے ثواب کو دو چند کرنے کے لئے دونوں سحر کے اثرات میں مبتلا کیا۔ جیسے وہ شیطانوں کے سر ہو۔ کھجور کے وہ خوشے کچھ تو منتر کے اثرات کی وجہ سے اور کچھ پانی میں پڑے رہنے یا نم زمین میں دفن رہنے کی وجہ سے جتنے زیادہ بد ہیت اور جس قدر وحشت ناک ہوگئے تھے اس کو ظاہر کرنے کے لئے ان کو شیطانوں کے سروں کے ساتھ مشابہت دی کیونکہ اہل عرب شیطان کے سر کو بد ہیتی اور وحشت ناکی کی علامت جانتے تھے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہاں شیطانوں کے سر سے ہیبت ناک سانپ مراد ہیں، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ کھجور کے وہ خوشے اس طرح کے ہوگئے تھے جسے ہیبتناک سانپ ہوں۔ اس واقعہ سے متعلق حضرت ابن عباس (رض) کی بھی ایک روایت ہے جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ سحر اور اس کی جگہ کا انکشاف ہونے کے بعد) آنحضرت ﷺ اور حضرت علی اور حضرت عمار کو سحر کی یہ چیزیں نکالنے کے لئے ذروان کنویں پر بھیجا۔ جب ان دونوں نے کھجور کا وہ خوشہ کنویں سے نکالا تو اس کے خول میں ان کو موم کا بنا ہوا آنحضرت ﷺ کا ایک پتلا ملا، اس پتلے میں سوئیاں چھبوئی ہوئی تھیں اور اس کے اوپر ایک ڈورا گیارہ گرہوں کے ساتھ لپٹا ہوا تھا پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) معوذتین ( سورت قل اعوذ برب الناس اور قل اعوذ برب الفلق) لے کر نازل ہوئے ان دونوں سورتوں کا پڑھا جانا شروع ہوا تو ہر آیت پر ایک گرہ کھلنے لکی اور اس پتلے میں سے کوئی سوئی نکالی جاتی تو آنحضرت ﷺ کو تسکین و راحت محسوس ہوتی اسی طرح ایک ایک کر کے تمام گرہیں کھل گئیں اور اس پتلے میں سے سب سوئیاں نکال لی گئیں۔ اس روایت کے متعلق شارحین نے لکھا ہے کہ ان دونوں حضرات کے ساتھ آنحضرت ﷺ بھی تشریف لے گئے ہوں گے اور حضرت علی وحضرت عمار کو کنویں میں جا کر ان چیزوں کے نکال لانے کا حکم فرمایا ہوگا۔ دوسری روایتوں میں بھی یہ آیا ہے کہ سحر اور ساحر کے اس انکشاف کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس یہودی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی اور نہ کچھ کہا بلکہ یہ فرمایا ! کہ میں فتنہ ابھارنے کو پسند نہیں کرتا۔

【31】

فرقہ خوارج کے بارے میں پیشگوئی جو حرف بہ حرف پوری ہوئی

حضرت سعید خدری کہتے ہیں کہ اس جب کہ ہم ( مقام جعرانہ میں) رسول کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ( غزوہ حنین میں حاصل شدہ) مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے ایک جس کا نام ذوالخویصرہ تھا اور جو ( مشہور قبیلہ) بنی تمیم سے تعلق رکھتا تھا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آکر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ( مال غنیمت کی تقسیم میں) عدل و انصاف سے کام لیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر) فرمایا تجھ پر افسوس ہے، میں عدل و انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا، اگر میں عدل و انصاف سے کام نہ لوں تو یقینا تو محروم ہوجائے گا اور ٹوٹے میں رہے گا۔ حضرت عمر نے بارگاہ رسالت میں اس شخص کی یہ گستاخانہ فقرہ بازی دیکھ کر) عرض کیا کر یا رسول اللہ ﷺ ! اجازت دیجئے کہ اس (گستاخ اور بدبخت) انسان کا سرقلم کر دوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا (نہیں) اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ کچھ لوگ اس کے تابعدار ہوں گے جن کی نمازوں کے مقابلہ پر تم اپنی نمازوں کو) اور جن کے روزوں کے مقابلہ پر تم اپنے روزوں کو حقیر جانوگے، وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ جائے گا۔ اور وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جب تیر شکار کو چھیدتا اور پار نکل جاتا ہے تو چاہے اس کے حلق سے نیچے نہ جائے گا۔ اور وہ دین سے اس نکل جائیں گے جس طرح جب تیر شکار کو چھیدتا اور پار نکل جاتا ہے تو چاہے اس کے پیکان کو دیکھا جائے چاہے اس کے رصاف کو دیکھا جائے چاہے اس کے پروں کو دیکھا جائے کہیں بھی کچھ نہیں پایا جاتا حالانکہ وہ تیر نجاست اور خون میں سے ہو کر نکلتا ہے اور اس شخص (ذو الخویصرہ) کے تابعداروں ( کے سردار) کی علامت یہ کہ وہ سیاہ رنگ کا آدمی ہوگا جس کے ایک بازو میں عورت کے پستان کی مانند (ابھرا ہوا گوشت) کا ایک ٹکڑا ہوگا جو ہلتا ہوگا ( اسی بناء پر اس کو ذو الثدیہ کہا جائے گا) اور وہ لوگ (یعنی اس شخص کے تابعدار) لوگوں کے ایک بہترین طبقہ ( یعنی حضرت علی اور ان کے تابعداروں) کے خلاف بغاوت کریں گے۔ حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے خود یہ حدیث رسول کریم ﷺ سے سنی ہے اور پھر یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس فرقہ کے لوگوں سے (جن کی طرف آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا) جنگ کی اور میں اس جنگ میں حضرت علی کے ساتھ تھا حضرت علی نے (اس جنگ میں فتحیاب ہونے اور دشمنوں کی پسپائی کے بعد) اس شخص کو تلاش کرنے کا حکم دیا (جس کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی، چناچہ مقتولین میں سے تلاش کرکے حضرت علی کے پاس اس شخص کو لایا گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ نے اس کی جو علامت بیان کی تھی وہ اس میں (ہوبہو) موجود تھی۔ اور ایک روایت میں (آنحضرت ﷺ ذوالخویصرہ کی آمد کے ذکر کے بجائے یوں مذکور ہے کہ (اس وقت جب کہ آنحضرت ﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے) ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گنجان تھی رخسار اٹھے ہوئے تھے اور سر منڈا ہوا تھا، اس نے کہا اے محمد ﷺ ! اللہ سے ڈور (یعنی اللہ کی اطاعت کرو اور تقسیم میں عدل و انصاف سے کام لو) آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اللہ کی اطاعت کرے گا (یعنی میں مقام نبوت وعصمت پر فائز ہونے کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا اور سب سے زیادہ اس کی اطاعت کرنے والا ہوں، بھلا تو مجھ کو اطاعت گزاری کا کیا سبق دیتا ہے) مجھ کو اللہ تعالیٰ روئے روئے زمین کے لوگوں میں (سب سے بڑا) امین جانتا ہے (اور مخلوق میں عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے مجھے اس دنیا میں بھیجا ہے) صرف تو ہے جو مجھ کو امین نہیں سمجھتا اور مجھ پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایک صحابی یعنی حضرت عمر نے (اس شخص کی یہ گستاخی دیکھ کر) آنحضرت ﷺ سے اس شخص کا سرقلم کردینے کی اجازت چاہی لیکن آپ ﷺ نے اس کو منع فرمایا اور جب وہ شخص واپس چلا گیا تو فرمایا اس شخص کی اصل سے ایک قوم نمودار ہوگی۔ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا، اسلام (یعنی کمال اسلام کے دائرہ یا امام وقت کی اطاعت) سے وہ اس طرح نکل جائیں گم جس طرح تیر شکار میں نکل جاتا ہے، پھر وہ لوگ (یعنی خارجی، اہل اسلام کو تو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں گے (مطلب یہ کہ جن لوگوں سے جنگ کرنا زیادہ اہم ہوگا، یعنی کافروں اور بت پرستوں سے، ان سے تو جنگ کریں گے نہیں البتہ مسلمانوں کے خلاف جنگ وجدل میں مصروف رہیں گے) اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو ان کو اس طرح قتل کردوں جس طرح قوم عاد کے لوگ قتل کئے گئے تھے (بخاری ومسلم) تشریح ذوالخویصرہ نامی شخص جس کا حدیث میں ذکر ہوا، دراصل منافق تھا اور جیسا کی آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی فرمائی، امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں جس طبقہ نے حضرت علی (رض) سے خروج و بغاوت کی راہ اختیار کی تھی جو فرقہ خوارج کے نام سے مشہور ہوا اس کی اصل بنیاد یہی شخص تھا اس کے حق میں قرآن کی یہ آیت (وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ ) 9 ۔ التوبہ 58) نازل ہوئی تھی۔ ایک شارح نے جو یہ کہا ہے کہ ذوالخویصرہ، خارجیوں کا سردار تھا تو یہ بات صحیح نہیں کیونکہ خارجیوں کا ظہور حضرت علی کے کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں ہوا ہے۔ غزوہ حنین میں غنیمت کے طور پر جو مال و اسباب اسلامی لشکر کے ہاتھ لگا تھا اس کو آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں میں اس طرح تقسیم فرمایا کہ جس شخص کی جتنی ضرورت و حاجت تھی اس کو اسی اعتبار سے عطا فرمایا اس منافق ذوالخویصرہ کو یہ بات ناگوار ہوئی اور اس نے اپنی بدظنی کے اظہار میں آنحضرت ﷺ پر گویا یہ اعتراض کیا کہ آپ ﷺ کو مال غنیمت کو تقسیم اس طرح نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ ہر شخص کو برابر برابر تقیسم کا جو طریقہ میں نے اختیار کیا ہے اس کی بنیاد عدل و انصاف کے سوا کچھ نہیں، عدل کا مطلب یہی نہیں ہے کہ ہر شخص کو برابر برابر دیا جائے خواہ کسی کی ضرورت کتنی ہی زیادہ ہو اور کسی کی حاجت کتنی ہی کم ہو، یہ بھی عدل ہی ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ ضرورت مند ہے اس کو اتنا ہی زیادہ دے کر اس کی ضرورت کو پورا کیا جائے اور جو شخص کم ضرورت رکھتا ہے اس کو کم دیا جائے، پھر آپ ﷺ نے اس شخص کو واضح فرمادیا کہ میں رحمۃ للعالمین بنا کر دنیا میں بھیجا گیا ہوں تاکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کروں اگر کوئی شخص میری عدالت اور میری انصاف پسندی پر انگلی اٹھاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے نصیب میں مایوسی و محرومی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، لہٰذا تیری بہرہ مندی اور امیدواری تو اسی صورت میں تھی جب تجھے میری عدالت پر اعتماد ہوتا، اگر میرے عدل پر تجھے بھروسہ نہیں ہے اور تیرے نزدیک میں انصاف سے کام نہیں لے رہا ہوں تو سمجھ لے کہ تو خود اپنے گمان کے مطابق ناامید محروم ہوگیا اور ٹوٹے میں رہا۔ شرح السنۃ میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کو تو اس شخص کے قتل سے منع کردیا، لیکن دوسری روایت کے بموجب آپ ﷺ نے اپنے اس عزم کا اظہار فرمایا کہ اگر میں اس شخص کے تابعداروں کو پاؤں تو قتل کر دوں ؟ ان دونوں میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے عزم کے اظہار کی صورت میں ان لوگوں کے قتل کو جو مباح فرمایا تو اس کا تعلق اس صورت سے ہے، جب وہ لوگ باقاعدہ اپنا گروہ بنائیں اور بہت سارے مل کر اور ہتھیار باندھ کر دوسرے لوگوں ( یعنی اہل اسلام) سے تعارض کریں اور ان کے خلاف جنگ وجدال کر معرکہ گرم کرنے کے درپے ہوں، جب کہ حضرت عمر کو منع کرنے کے وقت یہ صورت نہیں تھی وہ تو بس ایک شخص تھا جس نے اپنی بدباطنی اور اپنے نفاق کا اظہار کردیا تھا یہ اس کے فتنہ انگیز تابعداروں کا ظہور اور ان کے فتنہ و فساد کی اصل ابتداء حضرت علی کے زمانہ میں ہوئی۔ چناچہ حضرت علی نے ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے بہت سوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ لیکن زیادہ صحیح اور عمدہ بات وہ ہے جو ایک شارح نے لکھی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا حضرت عمر کو اس شخص کی قتل کی اجازت نہ دینا دراصل آنحضرت ﷺ کی اس حسن اخلاق اور کمال تحمل وبردباری کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ کبھی بھی اپنی ذات کے بارے میں کسی سے بدلہ و انتقام نہیں لیتے تھے حالانکہ اس شخص نے زیادتی اور عداوت کے اظہار میں کئی کسر نہیں چھوڑی تھی اس نے براہ راست ذات رسالت کو مخاطب کرکے کہا، عدل و انصاف سے کام لو، دوسری روایت کے مطابق اس نے یہ کہا کہ اللہ سے ڈرو۔ اور ایک روایت میں اس کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ ( اے محمد ﷺ ! ) تم جس طرح مال غنیمت تقسیم کر رہے ہو اس میں عدل و انصاف نہیں ہے اس کے اس طرح کے الفاظ اس بات کے لئے کافی تھے کہ اس کو فورا قتل کردیا جاتا، کیونکہ اس نے رسول کریم ﷺ کی نکتہ چینی کی اور آپ ﷺ کو عیب لگایا، اسی لئے اگر کوئی شخص آج بھی ذات رسالت ﷺ کے متعلق اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالے تو اس پر کفر و ارتداد کا حکم لگادیا جائے گا، لیکن اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے اس سے داوگیر نہیں کی اور اس کو قرار واقعی سزا دینے کی اجازت عطا نہیں فرمائی۔ جن کی نمازوں کے مقابلہ پر تم اپنی نمازوں کو۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے تابعدار وہ لوگ ( جو فرقہ خوارج کے نام سے موسوم اور مشہور ہوں گے، بظاہر بڑے دین دار اور متبع شریعت نظر آئیں گے، وہ عام مسلمانوں کی نظر میں اپنا سکہ جمانے کے لئے ایسی اچھی نمازیں پڑھیں گے، بظاہر بڑے دین دار اور متبع شریعت نظر آئیں گے، وہ عام مسلمانوں کی نظر میں اپنا سکہ جمانے کے لئے ایسی اچھی نمازیں پر ھیں گے، وہ قرآن کی تلاوت بھی کریں گے اور اس طرح کریں گے کہ ترتیل وتجوید اور مخارج حروف کی رعایت کے تمام آداب و شرائط پر اتریں گے، لیکن ان کے دل میں چونکہ نفاق ہوگا اس لئے ان کی تلاوت حلق سے نیچے نہیں جائے گی، یعنی نہ ان کی تلاوت وقرآت عند اللہ مقبول ہوگی اور نہ ان کی عبادت و ریاضت اور اعمال اوپر چڑھیں گے اور ثمر آور ہوں گے یا یہ کہ ان کی تلاوت صرف ان کی زبان تک محدود رہے گی، نہ دل تک جائے گی اور نہ اس کے اثرات روح تک پہنچیں گے۔ پھر جب وہ لوگ اپنا مضبوط اور وسیع جتھہ بنالیں کے اور طاقتور جماعت کی صورت اختیار کرلیں گے تو پھر دین کی اطاعت و فرمانبرداری یا امام وقت کی اطاعت اور یا سرے سے اسلام کے دائرہ سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے بیچ میں سے نکل جاتا ہے، چناچہ جس جطرح شکار کے بیچ سے نکلے ہوئے تیر کے اوپر سے لے کر نیچے تک، کسی بھی حصہ پر خون یا نجاست کا نشان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا، حالانکہ وہ تیر خون اور نجاست ہی میں سے باہر نکلتا ہے اسی طرح ان لوگوں کے دین سے نکلنے کے بعد ان پر دینداری، اسلام کی وابستگی اور مسلمانوں کی محبت کا ذرا بھی کوئی اثر نہیں رہے گا حالانکہ وہ بڑے نمازی، قرآن کی بہت تلاوت کرنے والے اور تہجد گزار وشب بیدار ہوں گے۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے۔۔ الخ۔ حدیث کا یہ جملہ ان علماء کی دلیل ہے جو خوارج کی تکفیر کے قائل ہیں اور خطابی نے کہا ہے کہ دین سے نکل جائیں گے۔ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لوگ سرے سے دین اسلام کے دائرہ ہی سے خارج ہوجائیں گے بلکہ ان کا امام وقت کے خلاف بغاوت کرنا مراد ہے۔ اور سر منڈا ہوا تھا یہ گویا اس شخص کی طرف سے اس ہیبت و صورت کی ظاہری مخالفت تھی جس پر آنحضرت ﷺ کے اکثر صحابہ کرام تھے، چناچہ اکثر صحابہ کرام سر پر بال رکھتے تھے منڈاتے نہیں تھے علاوہ اس موقع کے جب حج سے فارغ ہونے کے بعد سر منڈانا ضرور ہوتا ہے، البتہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اکثر اپنا سر منڈایا کرتے تھے اور وہ بھی اس احتیاط کے پیش نظر کہ غسل میں کہیں بالوں کی وجہ سے پانی سر تک پہنچنے سے نہ رہ جائے۔ جس طرح قوم عاد کے لوگ قتل کئے گئے تھے میں قتل سے مراد ان کی اجتماعی ہلاکت اور ان کا مکمل استیصال ہے اور اس چیز یعنی ہلاکت واستیصال کو قتل سے تعبیر کرنا محض مشاکلت کے لئے ہے ورنہ جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے تو قوم عاد کو قتل نہیں کیا گیا تھا، بلکہ سخت آندھی اور طوفان کے ذریعہ اس طرح ان کو ہلاک و برباد کیا گیا تھا کہ قوم کی قوم نیست ونابود ہو کر رہ گئی تھی۔

【32】

حضرت ابوہریرہ کی والدہ کے اسلام لانے کا واقعہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو جو مشترکہ تھیں قبول اسلام کی تلقین کیا کرتا تھا، چناچہ ایک دن میں نے ان کو ( معمول کے مطابق) اسلام قبول کرنے کی تلقین کی تو انہوں نے رسول کریم ﷺ کی شان اقدس میں ( ایک نازیبا اور گستاخانہ) بات کہی کہ مجھ کو سخت ناگوار ہوئی (بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے گوارا نہیں کرتا میں ( اس بات سے مغموم اور رنجیدہ ہو کر کہ انہوں نے میرے سامنے اتنے برے الفاظ زبان سے نکالے ہیں اور ماں ہونے کی وجہ سے میں ان کی تادیب بھی نہیں کرسکتا) روتا ہوا رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اب تو آپ ہی اللہ سے دعا فرما دیجئے کہ ابوہریرہ (رض) کی ماں کو ہدایت عطا فرمائے، آپ ﷺ نے دعا فرمائی۔ اے اللہ ! ابوہریرہ (رض) کی ماں کو ہدایت عطا فرما ! میں نبی کریم ﷺ کی دعا سے بڑی خوش آیند امید لے کر ( بارگاہ نبوت سے) واپس لوٹا اور جب اپنی والدہ کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے، لیکن میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سن لی تھی انہوں نے، ( اندر سے آواز دے کر کہا کہ ابوہریرہ ! وہیں ٹھہرو ( یعنی ابھی گھر میں نہ آؤ) پھر میں نے پانی گر نے کی آواز سنی میری والدہ نے غسل کیا، کپڑا پہنا اور مارے جلدی کے دوپٹہ اوڑھے بغیر دروازہ کھول دیا اور ( مجھے دیکھ کر) کہا، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں یہ دیکھتے ہی کہ میری پیاری ماں کو ہدایت مل گئی اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا، الٹے پاؤں لوٹا اور خوشی کے آنسو گراتا ہوا رسول کریم ﷺ کے خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نے اللہ کی تعریف کی اور میری والدہ کے اسلام پر شکر ادا کیا اور اچھا فرمایا۔ ( مسلم) تشریح اور خوشی کے آنسو گراتا ہوا۔۔ الخ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان محض رنج وغم کے وقت ہی آنسو نہیں بہاتا بلکہ انتہائی مسرت اور خوشی کے موقع پر بھی اس کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں۔ کسی زندہ دل نے بڑی پیاری بات کہی ہے کہ خوشی کا رونا اس سبب سے ہوتا ہے کہ غم آنسووں کی صورت میں بہہ کی نکل جانا چاہتا ہے۔ اور اچھا فرمایا کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ خوشخبری سن کر دعا و بشارت پر مشتمل کوئی اچھا جملہ ارشاد فرمایا۔ یا یہ کہ خیر کا لفظ ایک ایسی عبارت سے متعلق ہے جو الفاظ میں تو مذکور نہیں ہے لیکن اس کا مفہوم مراد لیا گیا ہے یعنی آنحضرت ﷺ نے گویا یہ فرمایا اے ابوہریرہ ! تم اپنی والدہ کے اسلام لانے کے سبب اچھا اجر و انعام پانے کے مستحق ہوگئے۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کے اس معجزہ کا ذکر ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی والدہ باوجود یہ کہ کفر و انکار پر شدت سے قائم تھیں اور اسلام کے تئیں سخت بغض ونفرت رکھتی تھیں، لیکن آنحضرت ﷺ کی دعا نے فورا اثر کیا اور ان کے قلب و دماغ میں حیرت انگیز طور پر انقلاب آیا کہ دین اسلام کی آغوش میں آگئیں۔

【33】

حضرت ابوہریرہ کا کثیر الروایت ہونا اعجاز نبوی کا طفیل ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے ایک دن تابعین کو مخاطب کر کے یا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے صحابہ متاخرین کو مخاطب کر کے کہا کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے بہت زیادہ حدیثیں نقل کرتے ہیں ( تو پہلے یہ سمجھ لو کہ) اللہ کا وعدہ ( برحق ہے) اور پھر سنو میں زیادہ حدیثیں بیان کرنے کا سبب تمہیں بتاتا ہوں کہ میرے مہاجر بھائیوں کو تو بازار میں ہاتھ پر ہاتھ مارنے ( یعنی خریدو فروخت کی مشغولیت الجھائے رکھتی تھی اور میرے انصار بھائیوں کو ان کی زمین جائیداد فرصت نہیں دیتی تھی، جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں ایک مسکین ومفلس شخص تھا اور پیٹ بھر کر کھانا مل جانے پر قناعت کر کے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پڑا رہتا تھا۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ) رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا کپڑا پھیلائے اور اس وقت تک پھیلائے رہے جب تک میں اپنی بات ( یعنی دعا) پوری نہ کرلوں اور پھر وہ شخص اپنے کپڑے کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگالے تو یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ میرے بات ( حدیث) کو کلی طور پر یا جزوی طور پر کبھی بھی بھول جائے۔ چناچہ میں نے ( فورا) اپنی کملی پھیلا لی جس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی کپڑا نہیں تھا اور اس کو اس وقت تک پھیلائے رکھا جب تک آپ ﷺ نے اپنی بات پوری نہ کرلی اور پھر اس کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگا لیا، قسم ہے اس ذات کی جس نے آنحضرت ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ( اس کے بعد سے) آج تک میں آنحضرت ﷺ سے سنا ہوا کوئی ارشاد نہیں بھولا ہوں۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اللہ کا وعدہ برحق ہے میں اللہ کے وعدہ سے مراد قیامت کا دن ہے، اس بات سے حضرت ابوہریرہ (رض) کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ہم سب کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اگر میں نے آنحضرت ﷺ کی حدیث بیان کرنے میں کمی بیشی یا خیانت کی ہوگی تو یقینا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ کو سزا دے گا، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرما دیا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے یعنی میری طرف نسبت کرکے جھوٹی حدیث بیان کرے تو اس کو اپنا ٹھکانا دوزخ میں تیار سمجھنا چاہئے۔ دوسرے صحابہ کی بہ نسبت حضرت ابوہریرہ زیادہ حدیثیں کیوں بیان کرتے ہیں ؟ خود انہوں نے اس کے دو سبب بیان کئے ہیں، پہلا تو یہ کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں سب سے زیادہ حاضر باشی کی سعادت انہی کو حاصل تھی، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا مہاجر صحابہ جو زیادہ تر تجارت پیشہ تھے، اپنی تجارت اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ہمہ وقت حاضر نہیں رہتے تھے، اسی طرح انصار صحابہ اپنی زمین جائیداد کی مصروفیت جیسے کھجور کے باغات کی دیکھ بھال اور کھیتی باڑی وغیرہ میں لگے رہنے کے سبب بارگاہ نبوت میں خاص خاص اوقات میں ہی حاضر ہوتے تھے ان سب کے برعکس حضرت ابوہریرہ (رض) کا نہ گھر بار تھا نہ کاروبار، زراعت اور نہ معاشی زندگی کی کوئی مشغولیت، وہ تو ایک مفلس وقلاش انسان تھے ان کی قناعت کے لئے یہی بہت کافی تھا کہ کہیں سے کھانے پینے کی کوئی چیز آگئی اور انہوں نے اپنی بھوک مٹالی، اس کے علاوہ اور کسی چیز کی نہ ان کو ضرورت تھی اور نہ خواہش اس وجہ سے وہ اپنا تقریبا سارا وقت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر باشی میں گزارتے تھے اور اسی بناء پر آنحضرت ﷺ کے احوال و معاملات کو دیکھنے اور آپ ﷺ کے ارشادات کو سننے کا سب سے زیادہ موقع ان ہی کو ملتا تھا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جو دوسرا سبب بیان کیا وہ دراصل ارشادات نبوی ﷺ کو سن کر جوں کا توں اپنے دماغ میں محفوظ رکھنے کا وہ خصوصی وصف تھا جو ایک سعادت کے طور پر انہیں اعجاز نبوی کے طفیل میں حاصل ہوا، اس سعادت کے حصول کی جو صورت پیش آئی اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس کا ذکر جن الفاظ میں کیا اس کی وضاحت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ چاہتے تھے کہ میری امت کے جو لوگ مجھ سے حدیث سنیں وہ اس کو اچھی طرح یاد رکھیں تاکہ اس کے ذریعہ ہدایت وصلاح کا سلسلہ بلاکم وکاست جاری رہے، چناچہ آپ ﷺ نے ایک دن فرمایا کہ اس وقت میں اپنے پروردگار سے یہ دعا کرنے جارہا ہوں کہ میرے صحابہ میری جو حدیثیں سنیں وہ ان کے دماغ میں پوری طرح محفوظ رہیں۔ لہٰذا اس موقع پر جو شخص اپنا کپڑا پھیلالے گا اور میری دعا ختم ہونے تک اس کپڑے کو پھیلائے رکھے گا اور اس کے بعد پھر اس کپڑے کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگا لے گا تو اس دعا کی برکت سے، جو پہلے کپڑے میں اور پھر کپڑے کے ذریعہ سینہ تک پہنچے گی اس کا حافظہ اس قدر قوی ہوجائے گا کہ وہ میری جو حدیث سنے گا اس کو زندگی بھر کبھی نہیں بھولے گا، چناچہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اپنی کملی کو جو اس وقت ان کے پاس واحد کپڑا تھا، فورا پھیلا دیا آنحضرت ﷺ نے دعا مانگنی شروع کردی اور جب تک آپ دعا مانگتے رہے، حضرت ابوہریرہ اپنی کملی پھیلائے بیٹھے رہے، جب آنحضرت نے دعا ختم کرلی تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے کملی کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگا لیا، اس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت ابوہریرہ آنحضرت ﷺ سے جو بھی ارشاد گرامی سنتے وہ جوں کا توں آپ کے دماغ میں محفوظ ہوجاتا اس طرح آپ کا سینہ اور دماغ احادیث نبوی ﷺ کا محفوظ گنجینہ بن گیا۔

【34】

حضرت جریر کے حق میں دعا

اور حضرت جریر ابن عبداللہ بجلی کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تم ذولخلصہ کو توڑ کر مجھے راحت نہیں پہنچاؤ گے ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ( اس کو توڑ کر آپ ﷺ کو ضرور راحت پہنچاؤں گا ( لیکن میرے لئے ایک پریشانی یہ تھی کہ) میں گھوڑے کی سواری پر پوری طرح قادر نہیں تھا اور کبھی کبھی گرپڑتا تھا) لہٰذا میں نے نبی کریے ﷺ سے اس کا ذکر کیا ( کہ ذو الخلصہ تک پہنچنے کے لئے گھوڑے پر سفر کرنا پڑے گا اور میں گھوڑے کی سواری پر پوری طرح قادر نہیں ہوں) آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر) میرے سینے پر ( اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ میں نے اس کا اثر اپنے سینہ کے اندر تک محسوس کیا اور پھر ( میرے حق میں) یہ دعا فرمائی اے اللہ ! اس ( جریر) کو ( ظاہر و باطن میں) ثابت وقائم رکھ اور اس کو راہ راست دکھانے والا اور راہ راست پانے والا بنا۔ حضرت جریر کہتے ہیں کہ اس دعا کے بعد میں کبھی گھوڑے سے نہیں گرا اور پھر احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر جریر ( ذولخلصہ توڑنے کے لئے) روانہ ہوئے، وہاں پہنچ کر انہوں نے ذوالخلصہ کو آگ لگا دی اور اس کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح ذوالخلصہ ( یا ذو الخصلہ) عرب کے قبیلہ خثعم کے بت خانہ کا نام تھا اس کو کعبۃ الیمامہ بھی کہا جاتا تھا، اس میں ایک بہت بڑا بت تھا جس کا نام خلصہ تھا، اس بت کی بڑے پیمانہ پر پوجا ہوتی تھی، یہ صورت حال آنحضرت ﷺ کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھی اس لئے آپ ﷺ نے حضرت جریر سے فرمایا کہ اگر تم بت خانہ کو توڑ پھوڑ ڈالو تو مجھے چین مل جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نفوس مقدسہ اور کاملین کو غیرہ اللہ کی عبادت و پرستش اور خلاف شرع امور دیکھ کر سخت صدمہ ہوتا ہے اور اذیت محسوس ہوتی ہے۔ احمس جو احمر کے وزن پر ہے، دراصل لفظ حماسہ سے بنا ہے جس کے معنی شجاعت وبہادری کے ہیں، قریش کے کچھ قبیلے جو شجاعت وبہادری اور جنگجوئی میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے ان کو احمس کہا جاتا ہے۔ اور پھر احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر جابر روانہ ہوئے۔۔ الخ۔ ٰ روایت میں اس آخری جزء کے بارے میں شارحین نے لکھا ہے کہ یہ اس راوی کے الفاظ ہیں جس نے اس روایت کو حضرت جریر سے نقل کیا ہے، لیکن بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہ جملے بھی اصل روایت ہی کے ہیں اور حضرت جریر کے اپنے الفاظ ہیں روایت میں یہاں پہنچ کر انہوں نے وہ اسلوب اختیار کیا جس کو التفات کہا جاتا ہے۔ یعنی اس جملہ میں انہوں نے اپنے ذکر کے لئے متکلم کا صیغہ چھوڑ کر غائب کا صیغہ اختیار کیا۔

【35】

زبان مبارک سے نکلا ہوا لفظ اٹل حقیقت بن گیا

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک شخص کو نبی کریم ﷺ کی وحی لکھتا تھا مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جاملا۔ نبی ﷺ (کو اس کے بارے میں اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کو زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ ابوطلحہ نے (جو میری ماں کے شوہر تھے) مجھ کو بتایا کہ جب وہ (ابو طلحہ) اس مقام پر پہنچے جہاں اس شخص کی موت و تدفین ہوئی تھی تو دیکھا کہ وہ قبر سے باہر پڑا ہوا ہے انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ اس کو کیا ہوا (کہ قبر سے باہر پڑا ہوا ہے) لوگوں نے جواب دیا کہ ہم اس شخص کو کئ بار دفن کرچکے ہیں لیکن زمین اس کو قبول نہیں کرتی (ہر مرتبہ ایسا ہوا کہ ہم اس کو دفن کرکے گئے اور جب آکر دیکھا تو باہر پڑا ہوا پایا۔ آخر تنگ آکر ہم نے اس کو دفن کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ (بخاری ومسلم) وہ شخص پہلے نصرانی ( عیسائی) تھا پھر ایمان لایا اور مسلمان ہوگیا، چونکہ لکھنا پڑھنا جانتا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس کو وحی کی کتابت پر مامور کردیا، لیکن پھر نہ معلوم کیا ہوا کہ اسلام سے پھر گیا اور مرتد ہو کر دوبارہ نصرانی بن گیا اور مخالفین اسلام یعنی مشرکوں کی صف میں شامل ہوگیا۔ اس بات سے آنحضرت ﷺ کو سخت تکلیف ہوئی اور زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ اس شخص کو زمین بھی قبول نہیں کرے گی اور اس کی لاش کو اپنے اندر سے باہر پھینک دے گی۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ جب وہ شخص مرا اور مشرکوں نے ان کی لاش کو دفن کردیا تو صبح ہو کر انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے باہر پڑی ہوئی ہے انہوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے کہ قبر کھود کر اس کی لاش کو باہر ڈال دیا ہے اور پھر انہوں نے بڑی محنت سے جہاں تک کھود سکے بہت گہری قبر کھودی اور اس کو دفن کردیا، جب اگلی صبح کو پھر آکر دیکھا تو لاش قبر سے باہر پڑی ہوئی ہے اب اس کو احساس ہوا کہ یہ کسی آدمی کا کام نہیں ہے چناچہ وہ مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے اور لاش کو اسی جگہ پڑے رہنے دیا۔

【36】

قبور یہود کے احوال کا انکشاف

اور حضرت ابوایوب انصاری کہتے ہیں کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ غروب آفتاب کے بعد گھر سے نکلے تو ایک آواز سنی اور ( وہ آواز سن کر) فرمایا یہ یہود ہیں ( یعنی یہ آواز ان یہودیوں کی ہے) جن کو قبر میں عذاب دیا جار ہا ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح ایک آواز سنی کے بارے میں شارحین نے لکھا ہے کہ وہ آواز یا تو ان ملائکہ کی تھی جو قبر میں آوازدینے پر مامور تھے یا ان یہودیوں کی تھی جن کو قبروں میں عذاب دیا جارہا تھا اور یا وقوع عذاب کی آواز تھی۔ حدیث کی عبارت یھود تعذب فی قبورھا کے پیش نظر دوسرا احتمال زیادہ قرین قیاس ہے۔ اس حدیث سے عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے اور آنحضرت ﷺ کا یہ معجزہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ پر ان یہودیوں کی قبر کا حال منکشف ہوا اور آپ ﷺ نے اس کو بیان فرمایا۔

【37】

آندھی دیکھ کر ایک منافق کے مر نے کی خبر دینے کا معجزہ

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ سفر سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے کہ مدینہ کے قریب پہنچے تو سخت آندھی آئی اور سخت بھی اتنی کہ سوار کو زمین میں دفن کر دے ( یعنی اس آندھی کی شدت اور تیزی دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی سوار زمین پر قائم نہیں رہ سکے گا، طوفانی آندھی کا کوئی سخت جھونکا اڑا کرلے جائے گا اور کہیں ( دور نامعلوم جگہ پر ہلاک کر ڈالے گا) آنحضرت ﷺ نے ( اس موقع پر) فرمایا یہ آندھی ایک منافق کے مرنے پر بھیجی گئی ہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ جب مدینہ میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ منافقوں کا ایک بڑا سردار مرگیا ہے۔ ( مسلم) تشریح بعض حضرات نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ مرنے والے منافق کا نام رفاعہ بن درید تھا اور یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ ﷺ غزوہ تبوک کے سفر سے واپس تشریف لا رہے تھے اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس منافق کا نام رافع تھا اور یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آنحضرت ﷺ غزوہ بنی مصطلق سے واپس آرہے تھے۔ اس بڑے منافق کے مرنے پر اتنی سخت آندھی آنا دراصل اس وحشت و بدحالی اور آلودگی وپراگندگی کا قدرت کی طرف سے اظہار تھا جس سے منافق و بدکار مرتے وقت دوچار ہوتے ہیں اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ آئندہ کی زندگی ( آخرت) میں بھی اس طرح کے لوگوں کو اسی حالت سے کہ جو سراسر کلف و پریشانی اور تباہی میں مبتلا کرنے والی ہے، دوچار ہونا ہوگا۔

【38】

مدینہ کی حفاظت کے بارے میں معجزانہ خبر

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ( مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے) اور جب ( مکہ سے تقریبا ٣٢ میل کے فاصلہ پر) مقام عسفان پہنچے تو آنحضرت ﷺ نے وہاں کئی راتیں قیام کیا بعض لوگوں ( یعنی منافقوں اور ضعیف الاسلام لوگوں نے ( اس جگہ کے قیام سے گھبرا کر) کہا کہ ہم یہاں بیکار کیوں پڑے ہوئے ہیں جب کہ ہمارے اہل و عیال ہم سے دور ( مدینہ میں تنہا) ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں اطمینان نہیں ہے ( کہ ہماری عدم موجودگی) کا فائدہ اٹھا کر کہیں کوئی دشمن ان کی غارت گری پر نہ اتر آئے) ان لوگوں کی یہ بات نبی کریم ﷺ تک بھی پہنچی، آپ ﷺ نے یہ ( سن کر) فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مدینہ کا کوئی راستہ اور کوئی کوچہ ایسا نہیں ہے جس پر دو دو فرشتے متعین نہ ہوں اور وہ فرشتے ( مدینہ کے راستوں اور کوچوں کی) نگہبانی اور حفاظت پر اس وقت تک مامور رہیں گے جب تک تم مدینہ نہیں پہنچ جاؤ گے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے وہاں سے کوچ کا حکم دیا اور ہم روانہ ہوئے اور مدینہ پہنچ گئے، قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے ( یعنی اللہ کی قسم) ہم نے ( مدینہ پہنچ کر) ابھی ( اپنے اونٹوں کی پیٹھ سے) اپنا سامان بھی نہیں اتارا تھا کہ ( اچانک) بنو عبداللہ بن غطفان ہم ( اہل مدینہ) پر چڑھ آئے جب کہ ہمارے آنے سے پہلے ایسی کوئی بات پیش نہیں آئی جوان کو جنگ پر ابھارنے والی ہوتی۔ ( مسلم) تشریح لفظ شعب کے لغوی معنی اس راستہ کے ہیں جو پہاڑ کے درمیان سے گزرتا ہو، اسی طرح نقب کے معنی بھی اس راستہ کے ہیں جو پہاڑوں کے درمیان ہو، لیکن یہاں حدیث میں شعب سے مراد وہ راتسہ ہے جو شہر وآبادی میں آنے جانے کا ذریعہ ہو اور نقب سے مراد وہ گزرگاہ ہے جو دونوں طرف بنے ہوئے مکانات کے درمیان ہو جس کو گلی اور کوچہ کہتے ہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے انقاب مدینہ ( مدینہ کی گلی کوچوں) پر فرشتے متعین ہیں ان کی وجہ سے مدینہ شہر میں نہ تو طاعون آئے گا اور نہ دجال داخل ہوسکے گا۔ بنو عبداللہ ابن غطفان ہم پڑ چڑھ آئے۔ بنو عبداللہ ابن غطفان ایک قبیلہ کا نام ہے مطلب یہ کہ ہم لوگوں کی عدم موجودگی میں مدینہ بالکل محفوظ تھا جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے بطور معجزہ ہمیں بتایا تھا اور اس وقت تک ہمارے کسی بھی دشمن کے جارحانہ عزائم کی راہ میں فرشتوں کی نگہبانی اور حفاظت گیری کے علاوہ کوئی بھی ظاہری رکاوٹ نہیں تھی، چناچہ مدینہ پہنچنے کے بعد ہم نے آنحضرت ﷺ کی دی ہوئی اس خبر کی صداقت کا مشاہدہ کرلیا کہ جب تک ہم لوگ مدینہ نہیں پہنچے فرشتوں کی نگہبانی کی وجہ سے کوئی بھی دشمن حملہ آور نہیں ہوسکا اور نہ ہمارے اہل و عیال کو کوئی نقصان پہنچا سکا، ہمارے مدینہ پہنچتے ہی ایک ایسادشمن قبیلہ ہم پر حملہ آور ہوگیا جس کے حملہ کا باعث ہماری آمد سے پہلے پیدا نہیں ہوا تھا، ایسا محسوس ہوا کہ محض ہمیں نقصان پہچانے کے لئے اس دشمن کو حملہ آور ہونا پڑا اور ہماری عدم موجودگی اس کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کا بہترین موقع ثابت ہونا چاہئے تھی، مگر یہ غیبی طاقت ہی تھی جس نے اس دشمن سے ہمارے اہل و عیال کی حفاظت کی اور اس کو ہماری عدم موجودگی میں مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیا اور آبادی پر حملہ کرنے سے باز رکھا۔

【39】

بارش سے متعلق قبولیت کا معجزہ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ( ایک مرتبہ خشک سالی کی وجہ سے قحط پڑگیا، انہی دنوں نبی کریم ﷺ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے مال و اسباب ( یعنی کھیتی باڑی) مویشی اور باغات پانی نہ لینے کی وجہ سے) برباد ہوگئے اور اہل و عیال بھوکے بلبلا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ آپ ﷺ نے ( یہ سنتے ہی) اپنے دست مبارک ( دعا کے لئے) اٹھا دیئے اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی ہمیں نظر نہیں آرہا تھا، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے آپ ﷺ نے ( دعا ختم کر کے) ابھی اپنے ہاتھ نہ چھوڑے تھے کہ اچانک پہاڑوں کی مانند بادل اٹھا اور آپ ﷺ منبر سے نیچے نہ اترنے پائے تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ ﷺ کی ریش مبارک پر گرنے لگا تھا پھر اس ( جمعہ کے) دن ( کے باقی حصے میں) پانی برسا دوسرے روز برسا اور تیسرے روز برسا یہاں تک کہ دوسرے جمعہ تک اس بارش کا سلسلہ جاری رہا اور ( جب مسلسل بارش جاری رہنے کی وجہ سے لوگوں کا نقصان ہونے لگا تو) دوسرے جمعہ کو ( آنحضرت ﷺ کے خطبہ کے دوران) وہی دیہاتی ( یا کوئی دوسرا شخص) کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مکان گر رہے ہیں اور مال و اسباب ڈوب رہے ہیں آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے دعا فرمائیے ( کہ بارش تھم جائے۔ آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر) اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی ! اے اللہ ! ہمارے اطراف میں ( یعنی کھیتوں اور باغات پر) برسا، ہمارے اوپر ( یعنی ہمارے گھروں پر) نہ برسا۔ ( اس دعا کے بعد) آپ ﷺ جس طرف اشارہ کرتے جاتے تھے ابر اس جانب سے کھلتا جاتا تھا یہاں تک کہ مدینہ کے ایک گول گڑھے کی مانند ہوگیا ( یعنی مدینہ شہر کے باہری حصوں میں چاروں طرف بادل چھائے ہوئے تھے اور بارش ہو رہی تھی جب کہ بیچ میں مدینہ شہر کا مطلع باکل صاف ہو کر گول گڑھے کی طرح ایسا نمایاں ہوگیا تھا کہ پوری آبادی کے اوپر بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا) اور مدینہ کے باہری اطراف میں مسلسل بارش کی وجہ سے) وہ نالہ جس کا نام قناۃ تھا ایک مہینہ تک بہتا رہا۔ ان اطراف سے جو بھی شخص ( مدینہ شہر میں) آیا اس نے کثرت سے بارش ہونے کی خبر دی۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یوں دعا فرمائی اے اللہ ! ہمارے اطراف میں برسا ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ ! ٹیلوں پر، پہاڑوں پر، نالوں کے اندر اور درختوں کے اگنے کی جگہ ( یعنی کھیتی و باغات) پر برسا۔ حضرت انس (رض) کا بیان ہے کہ ( اس دعا کے بعد شہر کے باہر اطراف میں تو بارش ہوتی ہی، لیکن آبادی کے حصہ میں) ابر بالکل کھل گیا اور ہم اس حال میں باہر نکلے کہ دھوپ میں چل رہے تھے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح لفظ یتحادر اصل میں تو ینزل ویقطر کے معنی ظاہر کرتا ہے لیکن یہاں حدیث میں یہ لفظ یتساقط کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ بارش کا پانی براہ راست آپ ﷺ کی ریش مبارک پر گر رہا تھا۔ مشکوۃ کے بعض نسخوں میں علی لحیۃ کے الفاظ ہیں اور ترجمہ میں اسی کا لحاظ رکھا گیا ہے لیکن بعض نسخوں میں عن لحیۃ کے الفاظ ہیں چناچہ حضرت شیخ عبد الحق نے اس کے اعتبار سے یہ ترجمہ کیا ہے کہ بارش کا پانی آپ ﷺ کی ریش مبارک پر ٹپکنے لگا تھا۔۔۔ حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ نے بارش کی دعا فرمائی اور ابھی آپ ﷺ منبر سے اترے بھی نہیں تھے اور مسجد سے باہر نہیں نکلے تھے کہ زور دار بارش شروع ہوگئی۔ امام نووی (رح) نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بارش کا سلسلہ زیادہ شدت کے ساتھ طویل ہوجائے اور اس کی وجہ سے مکانات وغیرہ کو نقصان پہنچنے لگے تو یہ دعا مانگنا مستحب ہے کہ اے اللہ اب ہمارے گھروں پر بارش نہ برسا ! لیکن اس دعا کے لئے نماز پڑھنا اور آبادی سے باہر جنگل و میدان میں جا کر دعا مانگنا، جیسا کہ استسقاء کی نماز کا حکم ہے) مشروع نہیں ہے۔

【40】

اسطوانہ حنانہ کا معجزہ

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب ( مسجد نبوی میں) خطبہ ارشاد فرماتے تو کھجور کے اس سوکھے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے جو ایک ستون کے طور پر مسجد میں کھڑا تھا، پھر جب منبر تیار ہوگیا اور آنحضرت ﷺ خطبہ پڑھنے کے لئے اس ( منبر) پر کھڑے ہوئے تو کھجور کا وہ تنا جس سے ( منبر بننے سے پہلے) ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے چلانے لگا ( یعنی زور زور سے رونے لگا) اور قریب تھا کہ وہ ( آنحضرت ﷺ کے فراق کی اذیت کی شدت سے پھٹ جائے کہ نبی کریم ﷺ ( منبر سے) اترے اور اس کے پاس جا کر اس کو ( ہاتھوں سے پکڑا اور پھر ( اس کو تسلی کے لئے) اس کو گلے لگایا اس کے بعد تو اس ستون نے اس بچہ کی طرح رونا شروع کردیا جس کو ( مختلف حیلوں تدبیروں سے) چپ کرایا جاتا ہے ( اور وہ جلدی چپ نہیں ہوتا) آخر کار اس ستون کو قرار آگیا اور وہ چپ ہوگیا۔ پھر آنحضرت ﷺ نے ( اس ستون کے رونے کا سبب یہ) بیان فرمایا یہ ستون اس وجہ سے رویا کہ ( اللہ کا) جو ذکر سنتا تھا اس سے محروم ہوگیا ہے ( بخاری) تشریح آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مسجد نبوی ﷺ کے ستون کھجور کے سوکھے تنوں کے تھے، چناچہ ابتدائی زمانہ میں جب کہ منبر شریف بن کر تیار نہیں ہوا تھا آنحضرت ﷺ خطبہ ارشاد فرماتے وقت انہی ستونوں سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے، جب منبر تیار ہوگیا اور آپ ﷺ خطبہ دینے کے لئے اس ستون سے ٹیک لگا کر کھڑے ہونے کے بجائے منبر پر کھڑے ہوئے تو وہ ستون اپنی اس سعادت کی محرومی پر بلک بلک کر رونے لگا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ذکر یعنی خطبہ کے وقت اس کو میرا جو قرب حاصل تھا اور نہایت قریب سے میرا جو خطبہ سنتا تھا اس سے محرومی نے اس کو رونے پر مجبور کردیا ہے اس واقعہ کے بعد سے اس ستون کو اسطوانہ حنانہ کہا جانے لگا۔ یہ حدیث جس میں اس ستون کے رونے کا ذکر ہے، جماعت صحابہ کرام کے اتنے متعدد طرف سے منقول ہے کہ اس کے بارے میں کوئی شک وشبہ ہی نہیں کیا جاسکتا اور بعض محدثین نے تو اس حدیث کو متواتر کہا ہے، یہ دراصل آنحضرت ﷺ کا ایک بڑا معجزہ تھا کہ کھجور کے سوکھے تنے جیسی بےجان چیز آنحضرت ﷺ کے قرب کی سعادت سے محرومی پر رونے لگی اور اس کے رونے کی آواز کو مسجد نبوی میں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے کانوں سے سنا۔ حضرت حسن بصری (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ اس حدیث کو بیان کرتے تو بےاختیار رونے لگتے تھے اور کہا کرتے تھے لوگو ! کھجور کی سوکھی ہوئی لکڑی آنحضرت ﷺ کے شوق و محبت میں روتی تھی تمہیں تو اس سے زیادہ آنحضرت ﷺ کی محبت اور شوق ملاقات میں بےقرار ہونا چاہئے۔ سنگے وگیا ہے کہ درد خاصیتے ہست زآد میی دان کہ درد معرفتی نیست

【41】

جھوٹا عذر بیان کرنے والا اپنے ہاتھ کی توانائی سے محروم ہوگیا

اور حضرت سلمہ ابن اکوع (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ کے سامنے بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپ ﷺ نے اس کو نصیحت فرمائی کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اس شخص نے ( اس شخص نے نصیحت پر عمل کرنے کے بجائے) جواب دیا کہ میں داہنے ہاتھ سے نہیں کھا سکتا، آنحضرت ﷺ نے ( بد دعا کے طور پر) فرمایا تمہیں داہنے ہاتھ سے کھانے پر کبھی قدرت نہ ہو۔ ( در اصل) اس شخص نے گھمنڈ میں آکر داہنے ہاتھ سے نہیں کھایا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ ( آنحضرت ﷺ کی اس بددعا کے نتیجہ میں) وہ شخص اپنا داہنا ہاتھ منہ تک پہنچانے پر کبھی قادر نہیں ہوسکا۔ ( مسلم) تشریح اس شخص نے گمھنڈ میں آکر دائیں ہاتھ سے نہیں کھایا تھا یہ راوی کے الفاظ ہیں جن کے ذریعہ انہوں نے یہ وضاحت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو رحمۃ للعلمین ہونے کے باوجود اس شخص کے حق میں جو بددعا فرمائی تو اس کی وجہ یہ تہی کہ اس شخص نے آنحضرت ﷺ کی نصیحت سن کر صحیح عمل کرنے کے بجائے اپنے غلط عمل کی جھوٹی تاویل کی اور جھوٹا عذر بیان کیا، اس شخص کا بائیں ہاتھ سے کھانا اس وجہ سے نہیں تھا کہ اس کے دائیں ہاتھ میں کوئی خرابی تھی یا وہ دائیں ہاتھ سے کہانے سے واقعۃ مجبور تھا بلکہ اس نے ایک گھمنڈی شخص کی طرح بلا کسی واقعی عذر کے اپنے بائیں ہاتھ سے کھایا اور آنحضرت ﷺ کی نصیحت کا بڑی بےباکی اور بیہودگی سے جواب دیا، لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اس کے حق میں بددعا فرمائی اس بددعا کا یہ اثر ہوا کہ وہ شخص اپنے دائیں ہاتھ سے کھانے پر کبھی قادر نہیں ہوسکا اس کا دایاں ہاتھ اس طرح بیکار ہوگیا کہ سخت کوشش کے باوجود منہ تک اٹھتا ہی نہیں تھا۔

【42】

آنحضرت ﷺ کی سواری کی برکت سے سست رفتار گھوڑا تیز رفتار ہوگیا

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رات میں) اہل مدینہ ( چوروں یا کسی دشمن کا خطرہ محسوس کر کے) گھبرا گئے) اور چیخ و پکار کرنے لگے، نبی کریم ﷺ ( صورت حال کی تحقیق کے لئے) ابوطلحہ (رض) کے ( ننگی پیٹھ والے) گھوڑے پر جو بہت سست رفتار اور مٹھا تھا سوار ہو کر ( اس سمت کہ جدھر سے خطرہ محسوس ہوا تھا) تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو ( ابوطلحہ سے) فرمایا کہ ہم نے تو تمہارے گھوڑے کو پانی کی طرح ( تیز اور کشادہ قدم) پایا۔ بس ( آنحضرت ﷺ کی سواری کے بعد) وہ گھوڑا ایسا تیز رفتار ہوگیا کہ کوئی گھوڑا اس سے آگے تو کیا نکلتا) اس کے ساتھ بھی نہیں چل سکتا تھا۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ پس اس دن کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ ( بخاری )

【43】

کجھوروں میں برکت کا معجزہ

اور حضرت جابر ابن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ جب میرے والد کی وفات ہوئی تو ان کے ذمہ بہت سا قرضہ تھا، چناچہ میں نے ان کے قرض خواہوں کو پیشکش کی کہ ہمارے پاس جتنی کھجوریں ہیں وہ سب اس قرض کے بدلہ میں جو میرے والد پر تھا لے لیں، لیکن انہوں نے میری بات ماننے سے انکار کردیا ( کیونکہ وہ قرض خواہ، جو یہودی تھے ان کھجوروں کو اپنے دیئے ہوئے قرض کے مقابلہ میں بہت کم جانتے تھے) آخر کار میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاصر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ کو معلوم ہے میرے والد احد کی جنگ میں شہید ہوگئے ہیں اور انہوں نے بہت سا قرض چھوڑا ہے، میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ ﷺ کو ( میرے پاس) دیکھیں ( یعنی کوئی ایسی صورت ہو کہ جب قرض خواہ میرے پاس آئیں تو آپ ﷺ تشریف فرما ہوں تاکہ وہ آپ ﷺ کو دیکھ کر میرے ساتھ کوئی رعایت کردیں، آپ ﷺ نے یہ سن کر مجھ سے فرمایا کہ جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کی الگ الگ ڈھیری بنا لو چناچہ میں نے ایسا ہی کیا کہ میرے پاس جتنی کھجوریں تھیں سب کو الگ الگ ڈھیریوں میں کردیا) اور اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو بلا لایا۔ قرض خواہوں نے آنحضرت ﷺ کو تشریف لاتے دیکھا تو اس وقت انہوں نے فورا ایسا رویہ اختیار کرلیا جیسے وہ مجھ پر حاوی ہوگئے ہوں ( یعنی انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ آنحضرت ﷺ کلی یا جزوی طور پر قرض معاف کرنے کی ہمیں تلقین کریں گے یا کچھ اور دنوں تک صبر کرنے کا مشورہ دیں گے، لہٰذا آنحضرت ﷺ کو دیکھتے ہی انہوں نے مجھ پر برسنا اور بڑے لب و لہجہ میں قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا اور اس طرح انہوں نے پہلے ہی سے اپنا ایسا رویہ ظاہر کیا جیسے وہ بتانا چاہتے ہوں کہ پورے قرض کی واپسی کے علاوہ اور کسی بات پر تیار نہیں ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے جب ان قرض خواہوں کا یہ رویہ دیکھا تو ( ان سے کچھ کہے بغیر) کھجوروں کی سب سے بڑی ڈھیری کے گرد تین بار چکر لگایا اور پھر ڈھیری پر بیٹھ کر ( مجھ سے) فرمایا کہ اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ ( جب وہ آگئے تو) آپ ﷺ کے حکم سے اس ڈھیری میں سے ناپ ناپ کر قرض خواہوں کو دینا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کا تمام قرضہ ادا کردیا، اگرچہ میری خوشی کے لئے یہی کیا کم تھا کہ اللہ تعالیٰ میری ان کھجوروں سے میرے والد کا تمام قرضہ ادا کرا دیتا خواہ اپنی بہنوں کے پاس لے جانے کے لئے ایک کھجور بھی باقی نہ بچتی لیکن اللہ تعالیٰ نے تو ( آنحضرت ﷺ کے معجزے سے) ساری ڈھیریوں کو محفوظ رکھا اور جس ڈھیری پر نبی کریم ﷺ بیٹھے ہوئے تھے میں نے اس کی طرف نظر اٹھائی تو ایسا لگا کہ اس میں سے بھی ایک کھجور کم نہیں ہوئی ہے اور جب اس ڈھیری ہی میں سے کچھ کم نہ ہوا جس میں سے ان قرض خواہوں کو ان کے طالبہ کے بقدر دیا گیا تھا تو باقی ڈھیریاں بدرجہ اولی محفوظ وسالم رہیں۔ ( بخاری) تشریح حضرت جابر (رض) کے والد نے اپنے پسماندگان میں کئی بیٹیاں چھوڑی تھیں جو حضرت جابر (رض) کی بہن ہوئی حضرت جابر (رض) کا مطلب یہ تھا کہ کھجوروں میں اپنے لئے یا اپنی بہنوں کے لئے میری کوئی خواہش نہیں تھی، میں تو اس میں خوش تھا کہ کسی طرح میرے والد کا تمام قرضہ اتر جائے خواہ ہمارے لئے ان کھجوروں میں سے کچھ نہ بچے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی برکت اور آپ ﷺ کے معجزے کے طفیل ان کھجوروں کے ذریعہ نہ صرف میرے والد کا تمام قرضہ ادا کردیا بلکہ تمام کجھورویں جوں کی توں بچ گئیں۔

【44】

گھی کی کپی کے متعلق ایک معجزہ

اور حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ( ایک انصاری صحابیہ) حضرت ام مالک (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک کپی میں گھی کا ہدیہ بھیجا کرتی تھیں، ( چناچہ اس کپی میں اتنی برکت آگئی تھی کہ) جب ام مالک (رض) کے بیٹے ( گھر میں) آکر روٹی کے ساتھ کھانے کے لئے) کوئی سالن مانگتے اور ان کے پاس کوئی سالن موجود نہیں ہوتا تھا ( کیونکہ روغن وگھی کی قسم سے ان کے پاس جو کچھ بھی ہوتا تھا اس کو وہ آنحضرت ﷺ کے پاس خدمت میں بھیج دیا کرتی تھیں) تو ام مالک (رض) کا آسرا وہی کپی بنتی جس میں وہ نبی کریم ﷺ کے لئے گھی بھیجا کرتی تھیں، ( یعنی وہ اس کپی کو اٹھا کر اس میں گھی دیکھتیں) اور ان کو اس میں سے گھی مل جاتا تھا، ( کافی دنوں تک) یہی سلسلہ جاری رہا کہ اس کپی میں لگا ہوا گھی ان کے پورے گھر کے لئے سالن کی ضرورت پوری کردیا کرتا تھا پھر ( ایک دن ایسا ہوا کہ ( ام مالک (رض) نے ( زیادہ گھی حاصل کرنے کی طمع میں) اس کپی کو پوری طرح نچوڑ لیا ( یعنی اس کپی میں جو گھی لگا ہوا تھا اس کو نچوڑ نچوڑ کر سارا نکال لیا، اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ اس کی برکت سے محروم ہوگئیں اور گھر والوں کو روٹی کھانے کے لئے جس چیز کا سہارا تھا، وہ ملنی بند ہوگئی کیونکہ حرص وطمع تو ہے ہی بری بلا، جس سے آخر الامر محرومی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا) ام مالک (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچیں ( اور یہ ماجرہ بیان کیا) آنحضرت ﷺ نے پوچھا کیا تم اس گھی کی کپی کو بالکل نچوڑ لیا تھا ؟ انہوں نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم کپی کو اس طرح نہ نچوڑتیں تو ہمیشہ تمہیں اس کپی سے سالن ( گھی) ملا کرتا ( کیونکہ اس کپی میں اگر ذرا سا بھی گھی لگا رہتا تو اس میں برکت اترتی رہتی اور جب کسی چیز میں برکت اترتی ہے تو وہ چیز کتنی ہی ذرا سی کیوں نہ ہو، بڑھ کر بہت ہوجاتی ہے۔ ( مسلم )

【45】

کھانے میں برکت کا معجزہ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) ابوطلح انصاری (رض) ( جو میرے سوتیلے باپ تھے، گھر میں آکر میری ماں، ام سلیم سے کہنے لگے، کہ ( آج) میں نے رسول کریم ﷺ کی آواز میں بڑی کمزوری محسوس کی جس سے مجھے محسوس ہوا کہ آپ بھوکے ہیں، کیا تمارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ ام سلیم (رض) نے جواب دیا کہ ہاں کچھ ہے اور پھر انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں اور پھر اپنی اوڑھنی لی اور اس کے ایک حصہ میں تو روٹیوں کو لپیٹا اور ایک حصہ سے میرے سر کو لپیٹ دیا اور پھر اوڑھنی میں لپٹی ہوئی ان روٹیوں کو میرے ہاتھ کے نیچے چھپایا اور مجھے رسول کریم ﷺ کے پاس بھیجا، میں وہ روٹیاں لے کر پہنچا تو رسول اللہ ﷺ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے اور بہت سارے لوگ ( جن کی تعداد اسی تھی) آپ ﷺ کے باس بیٹھے ہوئے تھے، میں نے سب کو سلام کیا رسول کریم ﷺ نے ( سلام کا جواب دینے کے بعد) مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں ابوطلحہ (رض) نے بھیجا ہے ؟ میں نے عرض کیا ہاں ! پھر آپ ﷺ نے پوچھا کیا کھانا دے کر بھیجا ہے ؟ میں نے عرض کیا ہاں ! رسول کریم ﷺ نے میرا جواب سن کر ان لوگوں سے جو آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے فرمایا کہ اٹھو ( ابوطلحہ کے گھر چلو) اس کے بعد آنحضرت ﷺ اور وہ تمام لوگ ( ابوطلحہ کے گھر کی طرف) روانہ ہوئے اور میں بہی آپ ﷺ کے آگے چل پڑا (جیسا کہ خادم اور میزبان آگے آگے چلتے ہیں، یا اس خیال سے آگے چلا کہ پہلے پہنچ کر ابوطلحہ (رض) کو آنحضرت ﷺ کے تشریف لانے کی اطلاع کر دوں) چناچہ ابوطلحہ (رض) کے پاس پہنچ کر ان کو ( آپ ﷺ کی تشریف آوری کی) خبر دی، ابوطلحہ (رض) نے ( آنحضرت ﷺ کے ساتھ اتنے سارے آدمیوں کے آنے کی خبر سنی تو) بولے کہ ام سلیم ! رسول کریم ﷺ تشریف لا رہے ہیں اور آپ ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ہیں جب کہ ہمارے پاس ( ان چند روٹیوں کے علاوہ کہ جو ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجی تھی) اتنے سارے آدمیوں کے کھلانے کے لئے کوئی چیز نہیں ہے، ام سلیم (رض) نے جواب دیا، اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ پھر ابوطلحہ (رض) ( آنحضرت ﷺ کے استقبال کے لئے) گھر سے باہر نکلے اور ( راستہ میں پہنچ) کر رسول کریم ﷺ سے ملاقات کی اس کے بعد رسول کریم ﷺ ابوطلحہ (رض) کے تشریف لائے اور ( گھر میں پہنچ کر) فرمایا کہ ام سلیم (رض) ( از قسم روٹی) جو کچھ تمہارے پس ہے، لاؤ ام سلیم نے وہ روٹیاں جو ان کے پاس تھیں، لا کر ( آنحضرت ﷺ کے سامنے) رکھ دیں، آنحضرت ﷺ نے ( ابوطلحہ کو یا کسی اور کو حکم دیا کہ وہ روٹیوں کو توڑ توڑ کر چورا کردیں، چناچہ ان روٹیوں کو چورا کیا گیا اور ام سلیم (رض) نے ( گھی کی) کپی کو نچوڑ کر گھی نکالا اور اس کو سالن کے طور پر رکھا، اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے اس روٹی سالن کے بارے میں وہ فرمایا جو اللہ نے کہلانا چاہا۔ پھر آپ ﷺ نے ( مجھے یا ابوطلحہ کو یا اور کسی دوسرے کو) حکم دیا کہ دس آدمیوں کو بلاؤ، چناچہ دس آدمیوں کو بلایا گیا اور انہوں نے پیٹ بھر کر کھایا، پھر جب وہ دس آدمی اٹھ کر چلے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دس ( اسی طرح) دس آدمیوں کو بلا کر کھلاتے رہو ( اور دس دس آدمیوں کو بلا کھلایا جاتا رہا) یہاں تک کہ تمام لوگوں نے ( اس تھوڑے سے کھانے میں خوب سیر ہو کر کھایا اور یہ سب ستر یا اسی آدمی تھے۔ ( بخاری) ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو کھانے پر بلاؤ اور جب وہ ( دس آدمی) آئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر کھاؤ ! چناچہ انہوں نے ( اللہ کا نام لے کر) کھانا کھایا، اسی طرح ( دس دس آدمی کر کے) اسی آدمیوں کو کھلایا گیا اور جب سب لوگ کھاچکے تو) آخر میں نبی کریم ﷺ نے اور گھر کے آدمیوں نے کھانا کھایا اور پھر بھی پس خوردہ باقی رہا۔ اور بخاری کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو میرے پاس لاؤ۔ اسی طرح ( دس دس آدمی کر کے) چالیس آدمیوں کو شمار کیا اور ان کے بعد خود نبی کریم ﷺ نے کھانا تناول فرمایا اور میں برابر دیکھے جارہا تھا کہ کھانے میں سے کچھ کم ہوا ہے یا نہیں ( لیکن مجھے قطعا کوئی کمی نظر نہیں آرہی تھی۔ اور مسلم کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بہی ہیں کہ ( جب سب لوگ شکم سیر ہوچکے ( تو آنحضرت ﷺ نے پس خوردہ کو) اٹھا اٹھا کر جمع کیا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، چناچہ وہ ایسا ہی ہوگیا، جیسا کہ پہلے تھا ( یعنی جس مقدار میں پہلے وہ کھانا تھا، اتنا ہی اب ہوگیا) پھر آپ ﷺ نے فرمایا لو اس کو رکھو ( اور پھر کھا لینا۔ تشریح آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کھانا کھلانے اور تھوڑے سے کھانے میں برکت ہونے کا یہ واقعہ اسی طرح کا ہے جیسا کہ حضرت جابر (رض) کے ساتھ پیش آیا تھی اور حضرت جابر (رض) کے واقعہ کی طرح یہ واقعہ بھی غزوہ خندق کے موقع کا ہے لہٰذا حضرت انس (رض) کے ان الفاظ رسول کریم ﷺ ! اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں مسجد میں سے مراد خندق کے قریب کی وہ جگہ ہے جس کو آپ ﷺ نے دشمنوں کی طرف سے مدینہ کے محاصرہ اور خندق کھودے جانے کے موقع پر نماز پڑھنے کے لئے مخصوص کردیا تھا۔ آنحضرت ﷺ کے اس سوال پر کہ کیا تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے ؟ حضرت انس کو (رض) روٹیاں دے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ کیا کھانا دے کر بھیجا ہے ؟ آنحضرت ﷺ کا اس بات کو پہلی بات ( کیا تمہیں ابوطلحہ (رض) نے بھیجا ہے) سے الگ کر کے پوچھنا تو سمجھانے کے لئے تھا یا وحی اور علم کی تاخیر کے مطابق تھا، یعنی پہلے تو آپ ﷺ کو وحی کے ذریعہ صرف اس بات کا علم حاصل ہوا تھا کہ انس (رض) کو ابوطلحہ (رض) کے کہنے پر بھیجا گیا ہے، لہٰذا آپ ﷺ نے بس یہی سوال کیا کہ کیا تمہیں ابوطلحہ (رض) نے بھیجا ہے ؟ پھر بعد میں جب دوبارہ وحی کے ذریعہ آپ ﷺ کو یہ علم ہوا کہ انس (رض) کے ساتھ کھانا بھی ہے تو آپ ﷺ نے پھر یہ سوال کیا کہ کیا کھانا دے کر بھیجا ہے ؟ اٹھو ( ابوطلحہ کے گھر چلو) کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو چونکہ ( وحی کے ذریعہ) یہ معلوم ہوچکا تھا کہ انس (رض) کے ساتھ چند ہی روٹیاں ہیں لہٰذا آپ ﷺ نے یہ پسند فرمایا کہ اتنے مجمع میں خود تنہا یا دو تین آدمیوں کے ساتھ کھا کر بیٹھ جائیں اور باقی لوگ بھوکے رہیں، اس کے ساتھ آپ ﷺ کا ارادہ اس معجزہ کے اظہار کا بھی ہوا جس کے نتیجہ میں چند روٹیوں سے ایک بڑی جماعت شکم سیر ہوئی اور اسی کے شمن میں دوسرا معجزہ الو طلحہ (رض) کے گھر میں کپی میں خیر و برکت کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے، تاکہ انہوں نے اور ان کے گھر والوں نے آنحضرت ﷺ کے تئیں جس اخلاص و محبت، نیک نیتی اور خدمت گزاری کے جذبہ وعمل کا اظہار کیا اس کا پھل ان کو حصول برکت کی صورت میں ملے، پس آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لے کر ابوطلحہ کے گھر تشریف لے گئے۔ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں اس جواب کے ذریعہ ام سلیم (رض) نے دارصل ابوطلحہ (رض) کو اطمینان دلایا کہ اگر آنحضرت ﷺ اتنے سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لے کر تشریف لا رہے ہیں تو اس کی وجہ سے ہمیں اس گھبراہٹ میں مبتلا نہ ہونا چاہئے کہ ہم اتنا تھوڑا سا کھانا اتنے زیادہ آدمیوں کو کسی طرح کھلا پائیں گے، کیونکہ اس میں ضرور کوئی حکمت و مصلحت ہے، جس کو اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ہمارے ہاں آپ ﷺ کی آمد یقینًا ہمارے لئے خیروبرکت کا باعث ہوگی۔ گویا ام سلیم (رض) نے فورا محسوس کرلیا کہ آنحضرت ﷺ کی آمد ضرور کسی معجزے کے اظہار کے لئے ہے، اس سے ام سلیم کی دینداری دانشمندی اور قوت یقین کا اظہار ہوتا ہے کہ انہیں جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ آپ ﷺ کی آمد سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی، بلکہ فوری طور پر ان کے دماغ میں یہی بات آئی کہ آنحضرت ﷺ کو کھانے کی نوعیت اور مقدار کا خوب علم ہے، اگر آپ ﷺ کوئی مصلحت نہ سمجھتے تو سب کو لے کر یہاں آنے کی ضرورت کیوں محسوس فرماتے، چونکہ آپ ﷺ کا کوئی فعل مصلحت و حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے جماعت کے ساتھ آپ ﷺ کی آمد میں یقینًا کوئی مصلحت پوشیدہ ہے۔ یہ بھی فیض رسالت کا اعجاز ہی تھا کہ اس زمانہ کی ایک عورت ہمارے زمانہ کے بہت سے مردوں سے بھی زیادہ یقین و ایمان کی قوت رکھتی تھی۔ (رض) وعن اہل عصر ہا وجعلنا فی زمرتہم امین یا رب العلمین۔ وہ فرمایا جو اللہ نے کہلانا چاہا کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے خیر و برکت کی دعا فرمائی، یا اسماء الہٰی پڑھ کر اس کھانے پر دم کیا۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ بسم اللہ اللہم اعظم فیھا الرکۃ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ دس آدمیوں کو بلاؤ۔ آپ نے پوری جماعت کو ایک ہی مرتبہ کھانے پر بلانے کے بجائے دس دس آدمیوں کو بلا کر کھلانے کا حکم اس لئے دیا کہ جس برتن میں وہ کھانا تھا وہ بس اتنا ہی بڑا تھا کہ اس کے گرد دس آدمی بیٹھ کر اطمینان سے کھا سکتے تھے اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ مکان میں گنجائش کی کمی کے سبب سب آدمیوں کو بیک وقت بلانے کے بجائے دس دس آدمیوں کو بلا کر کھانے کا حکم دیا گیا۔ اور یہ سب ستر یا اسی آدمی تھے کی وضاحت میں اب ابن حجر (رح) نے لکھا ہے کہ یہاں تو تعداد کا ذکر شک ہی کے ساتھ ہے لیکن دوسری روایت میں تعین اور یقین کے ساتھ اسی کا ذکر ہے، نیز اس روایت میں اسی سے کچھ اوپر کا ذکر ہے تاہم ان دونوں روایتوں میں منافات نہیں ہے۔ کیونکہ اسی (٨٠) والی روایت کے بارے میں احتمال ہے کہ راوی نے تعداد ذکر کرتے وقت کسر کو حذف کردیا ہو، البتہ ایک اور روایت میں جس کو امام احمد بن حنبل (رح) نے نقل کیا ہے جو یہ بیان کیا گیا ہے، کہ اس کھانے میں چالیس آدمیوں نے کھایا اور پھر بھی کھانا جوں کا توں باقی رہا یا یہاں ہی امام بخاری (رح) کی دو دوسری روایت نقل کی گئی ہے اور جس میں چالیس آدمیوں کے کھانے اور ان کے بعد آنحضرت ﷺ کے کھانے کا ذکر ہے تو اس سے ان روایتوں میں واقعہ کا تعدد معلوم ہوتا ہے یعنی ان روتیوں میں ایک ہی واقعہ کا ذکر نہیں ہے بلکہ الگ الگ دو واقعوں کا ذکر ہے کہ ایک واقعہ میں تو اسی آدمیوں نے کھایا تھا اور ایک واقعہ میں چالیس آدمیوں نے، لیکن ایک شارح نے کہا ہے کہ واقعہ متعدد نہیں بلکہ ایک ہی ہے جس کا ذکر ان روایتوں میں ہے اور ان رویتوں میں تطبیق یہ ہے کہ ان اسی ( ٨٠) آدمیوں نے دو مرحلوں میں کھانا کھایا تھا، پہلے دس دس کر کے چالیس آدمی کھانے سے فارغ ہوئے اور اس کے بعد ان چالیس آدمیوں نے کھانا کھایا جو آنے میں پہلے چالیس آدمیوں سے پیچھے رہ گئے تھے یا آنحضرت ﷺ نے ان کو بعد میں بلا بھیجا تھا۔ اس تطبیق کی روشنی میں بخاری کی دوسری روایت کے یہ الفاظ کہ چالیس آدمیوں نے کھایا اور ان کے بعد آنحضرت ﷺ نے کھانا تناول فرمایا کی وضاحت یہ ہوئی کہ جب چالیس آدمی کھانے سے فارغ ہوگئے تو چالیس آدمیوں کی دوسری جماعت آنے سے پہلے آپ ﷺ نے کھانا تناول فرمالیا، اس طرح آپ ﷺ کی برکت پہلی جماعت کو بھی حاصل ہوگئی اور دوسری جماعت کو بھی۔

【46】

انگلیوں سے پانی ابلنے کا معجزہ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں ( ایک موقع پر) جب کہ نبی کریم ﷺ (مدینہ کے قریب) زوراء گاؤں میں تشریف فرما تھے آپ ﷺ کی خدمت میں ( پانی) کا ایک برتن لایا گیا، آپ ﷺ نے اپنا مبارک ہاتھ اس برتن میں رکھ دیا اور آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی کا فوارہ ابلنے لگا، چناچہ پوری جماعت نے اسی پانی سے وضو کیا۔ ( حدیث کے راوی) حضرت قتادہ تابعی (رح) ( جنہوں نے یہ روایت حضرت انس (رض) سے نقل کی ہے ؟ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے سوال کیا اس موقع پر آپ لوگ کتنے آدمی تھے ؟ حضرت انس (رض) نے جواب دیا تین سو، یا تخمینا تین سو ( آدمی ہوں گے ) ۔ ( بخاری ومسلم) تشریح انگلیوں کے درمیان سے پانی کا فوارہ ابلنے لگا۔ کی وضاحت میں دو قول ہیں، ایک تو یہ کہ خود انگلیوں ہی سے پانی نکلنے لگا تھا۔ یہ قول مزنی کا ہے اور اکثر علماء کا رجحان اسی طرف ہے نیز اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ فرأیت الماء من اصابعہ یعنی میں نے آپ ﷺ کی انگلیوں سے پانی ابلتے دیکھا۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اصل معجزہ کی بڑائی بھی اسی بات سے ثابت ہوتی ہے اور آنحضرت ﷺ کی اس معجزہ کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس معجزہ سے افضل ہونا بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے عصا کی ضرب سے پتھر سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے تھے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس برتن میں جو پانی پہلے موجود تھا اس کو دست مبارک کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اتنا زیادہ کردیا کہ آنحضرت ﷺ کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے فوارے کی طرح ابلنے لگا۔

【47】

انگشتہائے مبارک سے پانی نکلنے اور کھانے سے تسبیح کی آواز آنے کا معجزہ

اور عبداللہ ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ( ہم صحابہ) تو آیات کو برکت و خوشحالی کا سبب سمجھتے تھے اور ( اے لوگو) تم سمجھتے ہو کہ آیات بس ( منکرین صداقت کو) ڈرانے کے لئے ہیں۔ ( اس کے بعد حضرت ابن مسعود (رض) نے ایک معجزہ بیان کیا کہ) ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ( راستہ میں) پانی کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ ( کسی کے پاس برتن میں تھوڑا سا بھی) بچا ہوا پانی ہو تو اس کو دیکھ کر ( میرے پاس لاؤ چناچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کی خدمت میں ایک ایسا برتن لے کر آئے جس میں بہت تھوڑا سا پانی تھا آپ ﷺ اپنا دست مبارک اس برتن میں ڈال دیا اور فرمایا آؤ جلدی سے یہ پاک اور بابرکت پانی حاصل کرو اور یہ وہ برکت ہے جو ( کسی ظاہری سبب و ذریعہ سے نہیں بلکہ ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ اور ( حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) نے کہا) اس وقت رسول کریم ﷺ کی مبارک انگلیوں سے فوارہ کی طرح پانی ابلتے میں نے خود دیکھا۔ نیز ( حضرت ابن مسعود (رض) نے ایک اور معجزہ یہ بیان کیا کہ) کھانا کھاتے وقت ہم کھانے کی تسبیح کی آواز سنا کرتے تھے۔ ( بخاری) تشریح آیات سے مراد یا تو قرآن کریم کی آیتیں ہیں جو آسمان سے نازل ہوئی تھی یا وہ معجزات مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ظاہر فرماتا ہے زیادہ صحیح اور حدیث کے سیاق سے زیادہ مناسبت یہی ہے کہ آیات سے مراد معجزات لئے جائیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ آیات اگرچہ کافروں اور منکروں کو ڈرانے کے لئے ہیں، یہ وضاحت حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (رح) نے علامہ طیبی (رح) کے حوالہ سے نقل کی ہے اور ملا علی قاری (رح) نے لکھا ہے کہ آیات سے مراد صرف معجزات اور کرامات ہیں انہوں نے واضح کیا ہے کہ یہاں آیات سے آیات قرآنی مراد لینا غیر موزوں ہے۔ اس حدیث کے الفاظ سے صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی مبارک انگلیوں ہی سے پانی نکلتا تھا جیسا کہ جمہور علماء کرام کا قول ہے اور اسی نسبت سے آنحضرت ﷺ کے اس معجزے کو پتھر سے پانی نکلنے کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ پر ترجیع دی جاتی ہے لہٰذا یہ قول ناقابل اعتناء ٹھہر جاتا ہے کہ پانی انگلیوں سے نہیں نکلا تھا بلکہ جو تھوڑا سا پانی برتن میں پہلے موجود تھا وہی بڑھ گیا اور اتنا زیادہ بڑھا کہ آپ ﷺ کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے فوارہ کی طرح ابلنے لگا، یہ قول دراصل الفاظ حدیث کی تاویل ہے اور نہیں معلوم کہ حدیث کے واضح مفہوم کے باوجود اس تاویل کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ پانی کے اس معجزہ کا اظہار تو خالی برتن کے ذریعہ بھی ہوسکتا تھا، پھر تھوڑا سا پانی تلاش کرا کے منگانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس میں یقینا کوئی حکمت و مصلحت ہی ہو کیا لیکن وہ حکمت و مصلحت کیا تھی محدثین وشارحین بسیار غور وفکر کے بعد بھی اس کی جڑ تک نہیں پہنچ سکے ہیں، لہذا اس کا علم اللہ کے سپرد کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ حضرت انس (رض) نے دوسرے معجزہ میں کھانے کی تسبیح کا ذکر کیا ہے، انہی کی ایک روایت میں یہ ہے کہ ( ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ایک مٹھی میں سنگریزے اٹھائے تو وہ سنگریزے آپ ﷺ کے دست مبارک میں تسبیح ( یعنی اللہ کی پاکی بیان) کرنے لگے اور ہم نے خود ان کی تسیبح کی آواز سنی۔

【48】

پانی کا ایک اور معجزہ

اور حضرت ابوقتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( ایک سفر کے دوران) ہمارے سامنے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ تم اس رات کے اول حصہ میں اور آخر حصہ میں ( یعنی رات) سفر کرو گے اور انشاء اللہ کہ تمہیں پانی مل جائے گا ( یعنی آپ ﷺ نے گویا اس پانی کی طرف اشارہ فرمایا جو بطریق معجزہ حاصل ہونا تھا اور جس کا ذکر آگے آرہا ہے) چناچہ تمام لوگ اس طرح ( بےتحاشا) چلنے لگے کہ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں تھی ( کیونکہ ہر شخص پر بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح جلد سے جلد پانی تک پہنچ جائے اور اس دھن میں نہ کسی کو کسی کا ساتھ پکڑنے کا خیال تھا اور نہ کوئی کسی کو ساتھ لے کر چلنے کی طرف دھیان دے رہا تھا (بلکہ ہر شخص علیحدہ علیحدہ چلا جا رہا تھا ) ۔ ابو قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ( اسی رات میں) رسول کریم ﷺ بھی چلے جا رہے تھے کہ جب آدھی رات گزر گئی تو آپ ﷺ ( سونے کے ارادہ سے) راستہ سے ہٹ کر ( ایک کنارے پر) اتر گئے اور سر رکھ کر لیٹ گئے اور اور ( سونے سے پہلے کسی خادم کو ہدایت فرمائی کہ ہماری نماز کا خیال رکھنا، کہیں ایسا نہ ہو کی سب لوگ بیخبر سو جائیں اور فجر کے وقت آنکھ نہ کھلنے کے سبب نماز قضاء ہوجائے، لیکن ایسا ہی ہوا کہ سب لوگ بیخبر ہوگئے اور نیند کے غلبہ سے فجر کے وقت کسی کی بھی آنکھ نہیں کھلی) پھر سب سے پہلے رسول کریم ﷺ بیدار ہوئے جب کہ دھوپ آپ ﷺ کی پشت مبارک پر پڑنے لگی آپ ﷺ نے (سب کو جگا کر) فرمایا کہ فورا تیار ہوجاؤ ( اور یہاں سے چل دو ) چناچہ ہم لوگ ( جلدی جلدی) اپنی سواریوں پر بیٹھے اور وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ جب سورج ( ایک نیزہ کے بقدر یا اس سے زیادہ) بلند ہوا تو آنحضرت ﷺ ( سواری) سے اتر گئے، پھر آپ ﷺ نے وضو کا برتن منگایا جو میرے پاس تھا اور جس میں تھوڑا سا پانی باقی تھا اور اس سے آپ ﷺ نے مختصر وضو کیا ( یعنی جن اعضاء کو تین تین بار دھویا جاتا ہے ان کو آپ ﷺ نے پانی کی قلت کے سبب ایک ایک بار یا دو دو بار ہی دھونے پر اکتفا کیا ) ۔ اور ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ( وضو کے بعد) ذرا سا اس برتن میں بچ گیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا اس برتن ( کے پانی) کو حفاظت سے رکھنا، اس لئے کہ عنقریب اب پانی سے ( بطریق معجزہ) ایک ( اہم اور عظیم الشان) بات ظہور پذیر ہوگی ( جس کا بڑا فائدہ تمہیں ہی پہنچے گا) اس کے بعد بلال (رض) نے نماز کے لئے اذان کہی اور رسول کریم ﷺ نے ( سنت کی) دو رکعتیں پڑھ کر ( ہمراہی صحابہ کے ساتھ) فجر کی قضاء نماز باجماعت ادا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد آنحضرت ﷺ سوار ہوئے اور ہم بھی اپنی سواریوں پر بیٹھ گئے ( اور آگے کا سفر شروع ہوگیا) یہاں تک کہ ہم ( قافلہ کے ان لوگوں سے جا ملے ( جو ہم سے کچھ آگے جا کر اترے تھے، اس وقت دن چڑھ چکا تھا اور سورج اوپر آگیا تھا جس سے ہر چیز تپنے لگی تھی لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم تو ہلاک ہوگئے ( یعنی گرم ہوا کے تھپیڑوں اور دھوپ کی تمازت نے ہمارا برا حال کردیا ہے) اور چونکہ پانی نہیں ہے اس لئے) پیاس ( کی شدت بڑھ رہی ہے ) ۔۔۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے ہلاکت نہیں ) ۔ پھر آپ ﷺ نے وضو کے پانی کا وہی برتن طلب فرمایا اور اس برتن سے پانی ڈالنا شروع کردیا اور ابوقتادہ (رض) نے لوگوں کو پلانا شروع کیا، اہل قافلہ نے جیسے ہی اس برتن سے پانی گرتے ( اور کچھ لوگوں کو پیتے) دیکھا تو سب کے سب ایک دم ٹوٹ پڑے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے، آنحضرت ﷺ نے ( ان کی بےصبری دیکھ کر) فرمایا خوش اسلوبی اختیار کرو اور اخلاق سے کام لو، تم سب مل کر اس پانی سے) سیراب ہوجاؤ گے۔ چناچہ فورًا ہی) سب لوگوں نے تنظیم وخوش اسلوبی اختیار کر ( اور الگ الگ ہو کر وقار و قطار کے ساتھ کھڑے ہوگئے) پھر رسول کریم ﷺ نے پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ لو پیو، میں نے عرض کیا کہ میں اس وقت تک نہیں پی سکتا جب تک آپ ﷺ نہ پی لیں، آپ ﷺ نے فرمایا لوگوں کا ساقی ان کا آخری آدمی ہوتا ہے۔ یعنی جو شخص لوگوں کو پلاتا ہے وہ خود سب کے بعد پیتا ہے کیونکہ یہ آداب میں سے ہے کہ ساقی جب سب کو سیراب کرلے تب خود پئے، حضرت ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ( ارشاد گرامی کی اتباع میں) میں نے پی لیا اور پھر آنحضرت ﷺ نے پانی نوش فرمایا۔ ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد اہل قافلہ پانی ( کی جگہ) پر اس حال میں پہنچے کہ سیراب تھے اور راحت پاچکے تھے۔ اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے اور صحیح مسلم میں اسی طرح منقول ہے۔ نیز کتاب حمیدی اور جامع الاصول میں بھی یہ روایت ان ہی الفاظ کے ساتھ منقول ہے، البتہ مصابیح میں، ساقی القوم اخرہم کے بعد شربا کا لفظ مزید ہے۔ تشریح آنحضرت ﷺ نے جو آنکھ کھلتے ہی قضاء نماز نہیں پڑھی بلکہ اس کو کچھ مؤخر کر کے اس جگہ سے روانہ ہوگئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ کسی جگہ پہنچ کر نماز پڑھنا چاہتے تھے، جہاں پانی دستیاب ہو، یا یہ وجہ تھی کہ جس وقت آپ ﷺ کی آنکھ کھلی وہ نماز کے لئے وقت کراہت تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس وقت کراہت کو نکالنے کے لئے نماز کو کچھ اور مؤخر کیا اور وہاں سے روانہ ہوگئے جیسا کہ پہلی روایت کے الفاظ فرکبنا فسرنا حتی اذا ارتفعت الشمس دلالت کرتے ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس جگہ سے فورا منتقل ہوجانا چاہئے جہاں حکم الٰہی کی تعمیل میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہو یا کسی ممنوع بات کا ارتکاب ہوگیا ہو اگرچہ وہ ارتکاب قصدا نہ ہوا ہو۔ نیز آپ ﷺ نے فجر کی قضاء نماز ادا کرنے سے پہلے جو رکعتیں پڑھیں وہ سنتیں تھیں اور مسئلہ یہی ہے کہ اگر آنکھ نہ کھلنے یا کسی اور سبب سے فجر کی نماز وقت پر ادا نہ ہو سکے اور پھر اس کی قضاء زوال آفتاب سے پہلے ادا کی جائے تو اس کے ساتھ سنت کی دو رکعتیں بھی پڑھنی چاہئیں، ہاں اگر فرض نماز فوت نہ ہوئی ہو بلکہ صرف سنتیں فوت ہوئی ہوں تو اس کی قضا نہیں ہے لیکن امام محمد کا قول یہ ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد زوال آفتاب سے پہلے فوت شدہ سنتوں کی قضاء نماز پڑھ لینی چاہئے، گویا کسی بھی امام کے مسلک میں زوال آفتاب کے بعد اس کی قضاء نہیں ہے۔ فجر کی قضاء نماز ( باجماعت) ادا کی سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس بھی اپنے اپنے برتن تھے جن میں وہ اتنا پانی رکھتے تھے کہ اس وقت وضو کرکے آنحضرت ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس اتنا بھی پانی نہیں تھا کہ آنحضرت ﷺ کی طرح مختصر ہی وضو کرلیتے، لہٰذا انہوں نے تیمم کر کے نماز میں شرکت کی، بہر حال اس سلسلہ میں حدیث کے الفاظ بالکل خاموش ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے علاوہ باقی لوگوں نے وضو کیا یا تیمم کیا تھا۔ تم پر ہلاکت نہیں ہے اس ارشاد کے ذریعہ آپ ﷺ نے لوگوں کو گویا تسلی و بشارت دی کہ گھبراؤ نہیں، تمہیں کسی ہلاکت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے غیب سے پانی بھیجے گا، اس اعتبار سے یہ جملہ خبریہ ہوا، یا یہ کہ ارشاد دراصل جملہ دعائیہ تھا یعنی آپ ﷺ نے گویا یہ فرمایا اللہ تعالیٰ تمہیں ہلاکت سے دور رکھے اور عیب سے تمہاری سیرابی کا انتظام فرمائے۔

【49】

تبوک میں کھانے کی برکت کا معجزہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے دن ( توشہ کی کمی کے سبب) جب سخت بھوک نے لوگوں کو ستایا تو حضرت عمر (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ جو تھوڑا بہت توشہ لوگوں کے پاس بچا ہوا ہے اس کو منگوا لیجئے اور پھر اس توشہ پر ان کے لئے اللہ سے برکت کی دعا فرمائیے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا اچھا۔ اور پھر آپ ﷺ نے چمڑے کا دستر خوان منگوا کر بچھوایا اور لوگوں سے ان کا بچا ہوا توشہ لانے کے لئے کہا گیا چناچہ لوگوں نے چیزیں لانا شروع کیں، کوئی مٹھی بھر چنے لے کر آیا، کوئی مٹھی بھر کھجور لے کر آیا اور کوئی روٹی کا ٹکڑا لایا، اس طرح اس دستر خوان پر کچھ تھوڑی سی چیزیں جمع ہوگئیں تو رسول کریم ﷺ نے نزول برکت کی دعا فرمائی اور پھر ( سب لوگوں سے) فرمایا لو ( جس کا جتنا جی چاہے اس میں سے اپنا برتن بھر لے) چناچہ لوگوں نے اپنے اپنے برتن میں لینا شروع کیا یہاں تک کہ لشکر میں کوئی ایسا برتن نہیں بچا جس کو بھر نہ لیا گیا ہو۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ پھر سارے لشکر نے ( جو تقریبًا ایک لاکھ مجاہدین پر مشتمل تھا) خوب پیٹ بھر کر کھایا اور بھر بھی بہت سارا کھانا بچ رہا۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ بلاشبہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اور یاد رکھو) ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص ان دو گواہیوں کے ساتھ کہ جن میں سے اس کو کوئی شک وشبہ نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے جا کر ملے اور پھر اس کو جنت میں جانے سے روکا جائے۔ ( مسلم) تشریح تبوک ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تقریبا ٤٦٥ میل کے فاصلہ پر واقع ہے، ماہ رجب سن ٩ ھ میں آنحضرت ﷺ عزوہ کے لئے وہاں اسلامی لشکر لے کر گئے تھے کہا جاتا ہے کہ اس لشکر میں ایک لاکھ کے قریب مجاہدین اسلام شامل تھے اور آنحضرت ﷺ کا یہ سب سے آخری غزوہ تھا۔ جو تھوڑا بہت توشہ لوگوں کے پاس بچا ہوا تھا۔۔ الخ۔ سے مراد حضرت عمر کا مطلب یہ تھا کہ عام طور پر اہل لشکر غذائی سامان کی قلت کا شکار ہیں اور بہت سے لوگ بھوگے رہ رہے ہیں، تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس ان کی حاجت و ضرورت سے زائد کچھ سامان خوراک ہوگا، لہٰذا آپ ﷺ ان لوگوں کو ہدایت فرمائیے، کہ وہ اس بچے ہوئے سامان خوراک کو لے کر آپ ﷺ کے پاس آجائیں۔ دراصل اس روایت میں یہاں اختصار سے کام لیا گیا ہے، پوری روایت یوں ہے کہ جب ( اہل لشکر کو سامان خوراک کی قلت کا سامنا کرنے پڑا اور) لوگ بھوکے رہنے لگے تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اگر آپ ﷺ اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کر کے اپنی غذائی ضرورت پوری کرلیں، آنحضرت ﷺ نے ان کو اجازت دے دی، لیکن جب حضرت عمر کو یہ معلوم ہوا تو وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اگر آپ ﷺ نے لوگوں کو اونٹ ذبح کرنے کی اجازت دے دی تو اس سے لشکر کو سواریوں کی قلت کا ( زیادہ پریشان کن) مرحلہ پیش آجائے گا ؟ لہٰذا آپ ﷺ ان لوگوں کو ( اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت دینے کے بجائے) یہ حکم دیجئے کہ جس شخص کے پاس جو بچا ہوا توشہ ہو اس کو آپ ﷺ کے پاس لے آئے۔۔ الخ۔ ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص۔۔ الخ۔ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ جس شخص نے کامل یقین و اعتقاد کے ساتھ توحید و رسالت کی گواہی دی ( یعنی کملہ گو ہوا) اور پھر ذرا بھی تشکیک وترد رکھے بغیر اسی یقین و اعتقاد کے ساتھ اس حالت میں اس کا انتقال ہوگیا تو اس کو جنت میں جانے سے روکا نہیں جائے گا۔

【50】

ام المؤمنین حضرت زینب کے ولیمہ میں برکت کا معجزہ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا ام المؤمنین حضرت زینب (رض) کے ساتھ نکاح ہوا تو (شب عروسی کے بعد) میری والدہ ام سلیم نے کجھور، گھی اور قروت ( پنیر) لے کر مالیدہ سا بنا لیا اور اس مالیدہ کو ایک پیالہ میں رکھ کر مجھ سے کہا کہ انس (رض) ! اس کو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لے جاؤ اور کہنا کہ میری مان نے یہ ( حقیر ہدیہ) آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ہے اور آپ ﷺ کو سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ ( یا رسول اللہ ﷺ ! ) یہ ایک چھوٹا سا ہدیہ ( جو) ہماری طرف سے آپ ﷺ کے لئے ہے ( اگرچہ آپ ﷺ کی شان کے لائق نہیں ہے لیکن آپ ﷺ کے الطاف کریمانہ سے امید ہے کہ اس کو قبول فرمائیں گے) چناچہ میں اس کو لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میری والدہ نے کہا تھا عرض کردیا۔ آپ ﷺ نے ( بڑی خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے) فرمایا کہ اس کو رکھ دو اور پھر فرمایا کہ فلاں فلاں اور فلاں شخص کو جن کے نام آپ ﷺ نے بتائے تھے جا کر بلا لاؤ اور ( دیکھو) راستہ میں جو شخص ملے اس کو بھی بلاتے لانا چناچہ میں گیا اور ان لوگوں کو کہ جو مجھے راستہ میں ملے، بلا کرلے آیا اور جب میں گھر میں واپس آیا، تو دیکھا کہ پورا گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا، حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ ( اس وقت) تم سب کتنے لوگ ہوگے ؟ حضرت انس (رض) نے جواب دیا کہ تین سو کے قریب۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ نے اس مالیدہ پر اپنا دست مبارک رکھ کر وہ کہا جو اللہ نے چاہا ( یعنی خیر و برکت کی دعا فرمائی، اس کے بعد آپ ﷺ نے دس دس آدمیوں کو بلانا شروع کیا اور وہ ( یکے بعد دیگرے دس دس) آدمی کھانے ( کے لئے آنے) لگے اور ( جو لوگ کھانے پر آتے ان سے) آپ ﷺ فرماتے ! اللہ کا نام لے کر کھاؤ اور ہر شخص کو اپنے سامنے سے کھانا چاہئے ( کیونکہ کھانے کا یہ مسنون طریقہ ہے جس سے تہذیب وشائستگی کا اظہار بھی ہوتا ہے اور کھانے میں خیر و برکت بھی اترتی ہے۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں جب دس آدمیوں کی ایک جماعت کھانے سے فارغ ہو کر چلی جاتی تو ( اتنے ہی آدمیوں) کی دوسری جماعت آجاتی، یہاں تک کہ سب لوگوں نے ( خوب آسودہ ہو کر) کھالیا اور پھر آنحضرت ﷺ نے مجھ سے فرمایا انس ! ( سب لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے ہیں) اب اس پیالہ کو اٹھالو۔ میں نے پیالہ کو اٹھالیا اور میں نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت میں نے پیالہ رکھا تھا اس وقت اس میں مالیدہ زیادہ تھا، یا اس وقت جب کہ ( تمام لوگوں کے اس کھانے سے فراغت کے بعد) میں نے اس کو اٹھایا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح جن کے نام آپ ﷺ نے بتائے تھے ۔ ان الفاظ کے ذریعہ حضرت انس نے یہ بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے تو متعین ومشخص کر کے ان تین آدمیوں کے نام بتائے تھے لیکن اس وقت میرے ذہن میں وہ تینوں نام محفوظ نہیں ہیں لہٰذا میں نے یہاں ان تینوں کو فلاں فلاں اور فلاں لفظ سے تعبیر کیا ہے اس سے واضح ہوا کہ رجالا سما ہم کے الفاظ خود حضرت انس کے ہیں جو نحوی طور پر فلان و فلاں وفلاں کا بدل واقع ہوئے ہیں یا یہ کہ ان الفاظ سے پہلے اعنی یا یعنی کا لفظ مقدر ( محذوف) ہے۔ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ۔۔ الخ۔ یعنی ظاہری صورت کے اعتبار سے تو میں صحیح اندازہ نہیں لگا سکا کہ وہ مالیدہ پہلے زیادہ تھا یا جب میں نے وہاں سے اٹھایا تو ای وقت زیادہ تھا، تاہم جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کا بابرکت ہاتھ رکھے جانے اور ان کے مقدس صحابہ کا پس خورجہ ہونے کے سبب وہ مالیدہ اس وقت جب کہ میں نے اس کو وہاں سے اٹھایا زیادہ بابرکت تھا۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حدیث کے ظاہری مفہوم سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ام المؤمنین حضرت زینب کا ولیمہ اسی مالیدہ سے ہوا جو حضرت انس کی والدہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا، لیکن دوسری روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ولیمہ کا کھانا روٹی اور گوشت پر مشتمل تھا جیسا کہ خود حضرت انس کی ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت زینب کے ولیمہ میں بکری ذبح کی اور اس موقع پر ایک ہزار آدمیوں کو گوشت اور روٹی سے شکم سیر کیا۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے اس کو دور کرنے کے لئے) یہ کہا گیا ہے کہ دراصل وہ مالیدہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اس وقت پہنچا تھا جب آپ ولیمہ کا کھانا ( جو گوشت اور روٹی پر مشتمل تھا) لوگوں کو کھلانے جا رہے تھے، اس طرح اس دعوت ولیمہ میں دونوں چیزیں کھلائی گئیں۔ یعنی مالیدہ بھی اور گوشت روٹی بھی۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک دن تو یہ مالیدہ والا واقعہ ہوا ہوگا اور دوسرے دن روٹی اور گوشت کھلانے کا واقعہ پیش آیا ہوگا ! مگر ملا علی قاری نے اس حدیث کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت انس کی والدہ نے جو مالیدہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا اسی کا ولیمہ ہوا بلکہ انہوں نے وہ مالیدہ ہدیہ کے طور پر آپ ﷺ کو بھیجا تھا جس کو آپ ﷺ نے تین سو کے قریب لوگوں کو کھلایا تھا اور پھر اسی دن شام کو یا اگلے دن آنحضرت ﷺ نے بکری ذبح کر کے ولیمہ کیا اور اس ایک بکری کے گوشت اور روٹی میں اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت عطا فرمائی کہ ایک ہزار شکم سیر ہوئے پس نہ تو ان دونوں روایتوں میں کوئی منافات ہے اور نہ ان دونوں معجزوں میں کوئی معارضہ

【51】

اونٹ سے متعلق معجزہ

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں ایک جہاد کے سفر میں رسول کریم ﷺ کے ہمراہ تھا اور آب کش اونٹ پر سوار تھا، وہ اونٹ ( اتنا زیادہ) تھک گیا تھا) کہ جیسا اس کو چلنا چاہئے تھا اس طرح چلنے پر قادر نہیں تھا ( ایک جگہ پہنچ کر) میرا اور نبی کریم ﷺ کا ساتھ ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے اونٹ کو کیا ہوگیا ہے ( کہ اچھی طرح نہیں چل رہا ہے) میں نے کہا کہ تھک گیا ہے ( یہ سن کر رسول کریم ﷺ میرے اونٹ کے پیچھے آگئے اور ( یا تو کسی چیز سے مار کر یا محض آواز کے ذریعہ) اس کو ہانکا اور پھر اس کے حق میں ( تیز روی کی) دعا فرمائی اس کا اثر یہ ہوا کہ میرا اونٹ سب سے آگے رہنے لگا، پھر آپ ﷺ نے پوچھا ( کہو) اب تمہارے اونٹ کا کیا حال ہے ؟ میں نے عرض کیا آپ ﷺ کی برکت سے اب خوب چلتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس اونٹ کو چالیس درہم کے بدلے بیچٹے ہو ؟ میں نے اس شرط پر اس اونٹ کو ( آپ ﷺ کے ہاتھ) بیچ دیا کہ مدینہ تک یہ اونٹ میری ہی سواری میں رہے گا۔ پھر رسول کریم ﷺ اور ہم لوگ) جب مدینہ پہنچ گئے تو اگلے ہی دن صبح کو میں اونٹ لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ( تاکہ اونٹ سپرد کر کے اس کی طے شدہ رقم لے لوں) آپ ﷺ نے معاملہ کے مطابق) قیمت مجھے عطا فرما دی لیکن ( ازراہ) عنایت وہ اونٹ بھی مجھ ہی کو دے دیا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح میں نے اس شرط پر اس اونٹ کو بیچ دیا۔۔ الخ۔ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز بیچتے وقت ایسی شرط عائد کرنا جس سے بیچنے والے کو فائدہ ہو جائز ہے حالانکہ مسئلہ کی رو سے یہ جائز نہیں ہے ! پس یا تو اس مسئلہ میں یہ حدیث منسوخ کے حکم میں ہے یا یہ کہ مذکورہ شرط کا تعلق عین عقد سے نہیں تھا بلکہ خریدو فروخت کا معاملہ ہو جانیکے بعد یا تو حضرت جابر کی درخواست پر یا خود آنحضرت ﷺ کی عنایت سے یہ طے پایا کہ مدینہ تک یہ اونٹ جابر کی سواری میں رہے گا تاہم یہ وضاحت حدیث کی ظاہری عبارت سے میل نہیں رکھتی۔

【52】

غزوئہ تبوک کے موقع کے تین اور معجزے

اور حضرت ابوحمید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لئے ( مدینہ سے) روانہ ہو کر جب مدینہ سے تین دن کی مسافت پر واقع) وادی قریٰ میں پہنچے تو ایک باغ سے گزرے جو ایک عورت کا تھا، رسول کریم ﷺ نے ( اس باغ میں پہنچ کر ہم لوگوں سے فرمایا اندازہ کر کے بتاو اس باغ میں کتنے پھل ہونگے ؟ ہم سب نے اپنا اپنا اندازہ بتایا ( کسی کا اندازہ کچھ ہوا اور کسی کا کچھ) پھر رسول کریم ﷺ نے بھی اندازہ کیا اور فرمایا کہ اس باغ میں دس وسق پھل ہوں گے۔ اس کے بعد اس عورت سے فرمایا ( جب پھل اتریں اور تم ان کا وزن کرو تو ( وزن کو یاد رکھنا تاآنکہ ہم لوٹ کر آئیں انشاء اللہ۔ وہاں سے روانہ ہو کر جب ہم تبوک پہنچے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ آج کی رات تم پر سخت آندھی آئے گی اس وقت کوئی شخص ( اپنی جگہ سے) کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو وہ اس کے عقال ( رسی) مضبوطی سے باندھ دے ( مطلب یہ کہ آندھی سے حفاظت کے پیش نظر اس وقت کوئی شخص نہ تو چلے پھرے اور نہ اپنے اونٹ کو کھلی جگہ چھوڑ دے) چناچہ ( ایسا ہی ہوا کہ رات میں اتنی ( سخت آندھی آئی کہ ایک شخص کو جو آنحضرت ﷺ کی ہدایت کے مخالف کھڑا ہوگیا تھا، اڑا کرلے گئی اور طے کے پہاڑوں کے درمیان پھینک دیا۔ جب ہم ( غزوہ تبوک سے فارغ ہو کر) واپس ( مدینہ) روانہ ہوئے اور وادی قریٰ میں پہنچے تو رسول کریم ﷺ نے اس عورت سے باغ کے بارے میں پوچھا کہ ( اب بتاؤ) پھل کتنے ہوئے اس نے کہا دس وسق ! ( بخاری ومسلم) تشریح طے دراصل اس مشہور قبیلہ کے مورث اعلی کا نام ہے جو قبیلہ طے کہلاتا ہے اور سابق جغرافیائی تقسیم کے مطابق یمن میں آباد تھا، مشہور تاریخی شخصیت حاتم طائی کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا، وہ علاقہ جہاں قبیلہ طے آباد تھا اور جو تلا دطے کہلاتا تھا اور وہاں کے پہاڑ جبال طے کے نام سے مشہور تھے، موجودہ جغرافیائی تقسیم میں سعودی عرب کے خطہ نجد میں شامل ہے اور منطقہ شمر کہلاتا ہے۔ اس حدیث میں گویا آنحضرت ﷺ کے تین معجزوں کا ذکر ہے، ایک تو پھلوں کا، کہ آپ ﷺ نے درخت پر لگے ہوئے پھلوں کا بالکل صحیح وزن بتادیا، دوسرا سخت آندھی کا معجزہ کہ آپ ﷺ نے کسی ظاہری علامت یا آثار کے نمودار ہوئے بغیر سخت آندھی کی پیش گوئی فرمائی جو جوں کی توں درست ہوئی اور تیسرا معجزہ یہ ہوا کہ جس شخص نے آپ ﷺ کی ہدایت پر عمل نہیں کیا اس کو آندھی نے اڑا لیا اور اتنی دور لے جا کر پھینک دیا۔ اس موقع پر ان تینوں معجزوں کا اظہار یا تو ان منافقوں پر آپ ﷺ کی نبوت کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے ہوا جو آپ ﷺ کے لشکر میں شامل تھے یا اہل ایمان کے یقین و اعتقاد کو مزید پختہ کرنے کے لئے۔

【53】

فتح مصر کی پیش گوئی

اور حضرت ابوذر غفاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یقینا وہ وقت قریب ہے، جب تم مصر کو فتح کر لوگے اور مصر وہ زمین ہے جہاں قیراط بولا جاتا ہے۔ جب تم مصر کو فتح کرلو تو وہاں کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا کیونکہ ان کو امان ہے اور ان سے قرابت ہے۔ یا یہ فرمایا کہ۔ ان کو امان ہے۔ اور ان سے سسرالی رشتہ ہے اور جب تم لوگ دیکھو کہ وہاں دو آدمی ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑا کرتے ہیں، تو تم وہاں سے نکل آنا۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے ( اپنے قیام مصر کے دوران) عبدالرحمن ابن شرجیل ابن حسنہ اور اس کے بھائی ربیعہ کو ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑتے دیکھا تو سر زمین مصر سے نکل آیا۔ ( مسلم) تشریح قیراط ایک سکہ کا نام تھا جو پانچ جو سونے کے برابر ہوتا تھا اور اس زمانہ میں مصر میں رائج تھا، مصر کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی قیراط کا چلن تھا اور مختلف اوزان ومالیت رکھتا تھا مثلا مکہ معظمہ اور اس کے علاقوں میں ایک قیراط دینار کے چوبیس حصہ کے برابر اور عراق میں دینار کے بیسویں حصہ کے برابر ہوتا تھا۔ جہاں قیراط بولا جاتا ہے کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ آپ ﷺ نے اس کے سکہ سے مصر کا تعارف کرایا اور پتہ بتایا بلکہ اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ اس ملک کے لوگ، جو اس وقت قبطی کافر تھے، دناء ۃ اور خست کا مزاج رکھتے تھے جس کی علامت یہ ہے کہ ان کی زبان پر قیراط کا ذکر بہت رہتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ عالی حوصلہ اور کریم النفس ہوتے ہیں ان کی زبان پر حقیر وخسیس چیزوں کا ذکر زیادہ نہیں رہتا۔ وہاں کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ۔ اس ہدایت کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ مصری لوگ اپنی مخصوص مزاجی کیفیت ( یعنی دناء وخست) کے اعتبار سے تم لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گے مگر اس کے باوجود ان کے ساتھ تمہیں اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ اگر تم ان کے ایسے افعال و اعمال دیکھو جو تمہارے نزدیک برے ہوں اور ان سے تمہیں ذہنی یا جسمانی اذیت پہنچتی ہو تو تم بہر حال ان سے عفو و درگزر کا معاملہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ ان کی کسی بات یا کسی فعل سے مشتعل ہو کر تم ان کو تکلیف پہنچانے کے درپے ہوجاؤ۔ اور یہ ہدایت اس لے ہے کہ مصریوں سے ہمارے دو خصوصی تعلق ہیں ایک تو اس امان و حرمت کے سبب جو ہمارے بیٹے ابراہیم ابن محمد ﷺ کی نسبت سے مصریوں کو حاصل ہے، ابراہیم کی والدہ جن کا نام ماریہ قبطیہ تھا، مصری قوم ہی سے تعلق رکھتی تھیں اور ان سے دوسرا تعلق یہ ہے کہ ہمارے جد امجد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسبت سے مصریوں سے ہماری قرابت بھی ہے، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ حضرت ہاجرہ مصری النسل تھیں ۔ یا یہ فرمایا کہ۔ ان کو امان ہے اور ان سے سسرالی رشتہ ہے ۔ یہاں الفاظ اوشک کے لئے ہے جس کے ذریعہ راوی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یا تو فان لہا ذمۃ ورحما کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے، یا فان لہا ذمۃ وصھرا کے الفاظ، اس دوسری روایت کی صورت میں ذمہ ( امان) کا تعلق حضرت ہاجرہ کی نسبت سے ہوگا اور مصاہرت ( سسرالی رشتہ) کا تعلق حضرت ماریہ قبطیہ کی نسبت سے۔ جب تم لوگ دیکھو کہ وہاں دو آدمی۔۔ الخ۔ ان الفاظ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے گویا اہل مصر کی ( دناءۃ اور خست کا حال بیان فرمایا کہ وہ لوگ ایک ایک اینٹ کی جگہ کے لئے لڑتے جھگڑتے ہیں۔ اس جملہ میں جو را تم ( تم لوگ دیکھو) کا لفظ ( بصغیہ جمع) فرمایا گیا ہے، اس کی مناسبت سے آگے جمع ہی کے صیغہ فاخر جوا ( تو تم لوگ وہاں سے نکل آنا) کا لفظ استعمال ہونا چاہئے تھا لیکن آپ ﷺ نے واحد کا صیغہ و اخرج استعمال فرما کر صرف حضرت ابوذر کو خطاب فرمایا جو حضرت ابوذر کے تئیں آنحضرت ﷺ کے خصوصی تعلق اور کمال شفقت پر دلالت کرتا ہے، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمومی ہی مراد ہو۔ مصر حضرت عمر بن الخطاب (رض) کے زمانہ میں فتح ہوا اور حضرت ابوذر غفاری (رض) نے وہاں اپنے قیام کے دوران دو آدمیوں کو ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑتے دیکھا تو فورا مصر چھوڑ کر چلے آئے، یہ حضرت عثمان غنی کی خلافت کے زمانہ کا واقعہ ہے۔ پس آنحضرت ﷺ کو غیب سے معلوم ہوگیا تھا کہ ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑنا دراصل مصریوں کی خصومت، جنگ جوئی اور فتنہ آرائی کی وہ علامت ہوگی جس کے پیچھے فتنہ و فساد اور شرانگیزی کا جنم لینا والا ایک طویل سلسلہ چھپا ہوگا اور جس کے نتیجہ میں مسلامانوں اور اسلام کو زبر دست نقصان سے دوچار ہونا ہوگا، چناچہ بعد میں مصریوں کا خلافت عثمانی سے بغاوت کرکے مدینہ پر چڑھ آنا، حضرت عثمان کو شہید کردینا اور پھر مصر میں حضرت علی کی طرف سے تعینات حاکم حضرت محمد ابن ابوبکر کو قتل کردینا وہ واقعات ہیں جن کا علم آنحضرت ﷺ کو پہلے ہوگیا تھا، اسی لئے آپ ﷺ نے حضرت ابوذر کو ہدایت اور وصیت فرمائی کہ جب مصر میں ذرا سی بات میں دو آدمیوں کے درمیان جھگڑا ہونے لگے تو تم ان سے ملنے جلنے ان کے درمیان رہنے اور ان کے ملک میں قیام کرنے سے اجتناب کرنا، چناچہ حضرت ابوذر نے ایسا ہی کیا۔

【54】

منافقوں کے عبرتناک انجام کی پیش خبری

اور حضرت حذیفہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا میرے صحابہ میں۔ ایک اور روایت میں یہ ہے کہ۔ میری امت میں بارہ منافق ہیں جو جنت میں نہیں داخل ہوں گے بلکہ جنت کی بو بھی نہیں پائیں گے جب تک کو سوئی کے ناکہ میں سے اونٹ نہ گز جائے۔ اور ان بارہ میں آٹھ منافقوں کو تو دبیلہ نمٹا دے گا ( یعنی ان کو ہلاک کرے ان کے شر اور فتنہ کو ختم کر دے گا) وہ ( دبیلہ) ایک آگ کا شعلہ ہوگا جو ان کے مونڈھوں میں پیدا ہوگا اور پھر سینوں یعنی پیٹوں تک پہنچ جائے گا۔ ( مسلم) او ہم حضرت سہل ابن سعد کی روایت لا عطین ہذہ ارایۃ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب میں اور حضرت جابر کی روایت من یصعد الثنیۃ کو جامع المناقب میں نقل کریں گے۔ ( انشاء اللہ تعالیٰ ) تشریح جب تک کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ نہ گزر جائے یہ مبالغہ اور تعلیق بالمحال ہے، مطلب کہ جس طرح سوئی کے ناکہ میں سے اونٹ کا گزرنا محال اور ناممکن ہے، اسی طرح ان منافقوں کا جنت میں جانا محال اور ناممکن ہے، قرآن میں بھی یہ الفاظ آئے ہیں اور وہاں یہ بات کفار کے حق میں فرمائی گئی ہے۔ ولا یدخلون الجنۃ حتی یلج الجمل فی سم الخیاط یعنی اور وہ کافر جنت میں داخل نہیں ہونگے، جب تک کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ نہ گزر جائے۔ واضح رہے کہ امت ع کا اطلاق منافقوں پر ہوسکتا ہے اگر امت سے مراد امت دعوت ہو، لہٰذا میری امت میں بارہ منافق ہیں۔ میں میری امت سے آپ ﷺ کی مراد امت دعوت ہی تھی یعنی انسانیت عامہ جو آپ ﷺ کی دعوت اسلام کی مخاطب ہے اور جس کو اسلام کی طرف بلانا آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہے، ہاں منافقوں پر صحابہ کا اطلاق نہیں ہوسکتا، لہٰذا میرے صحابہ میں بارہ منافق ہیں کی تاویل کی جائے گی کہ آپ ﷺ نے ان منافقوں پر صحابہ کا اطلاق ان کے ظاہر احوال کے اعتبار سے کیا کہ اگرچہ ان کے اندر نفاق تھا لیکن بظاہر وہ کلمہ گو تھے اور اپنی اس ظاہری حیثیت کی بناء پر وہ جماعت صحابہ سے اختلاط رکھتے اور ان کے درمیان رہتے سہتے تھے، مطلب یہ کہ ان کے ظاہری احوال کے اعتبار سے اور صحابہ کے ساتھ ان کے اختلاط کو دیکھتے ہوئے آپ ﷺ نے ان کو مجاذا صحابی فرمایا اس اعتبار سے امت کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے، کہ امت دعوت نہیں بلکہ امت اجابت ہی مراد ہے۔ حضرت حذیفہ کی ایک روایت میں منقول ہے کہ ان منافقین کی تعداد چودہ ١٤ تھی لیکن ان میں سے دو نے توبہ کرلی تھی اور بارہ نفاق پر قائم رہے اور جیسا کہ مخبر صادق ﷺ نے خبر دی تھی وہ بدبخت اسی حالت میں مرے۔ بہر حال آنحضرت ﷺ نے اپنے بعض مخصوص اور مقرب صحابہ کو ان منافقین کے بارے میں تشخص کے ساتھ بتادیا تھا، تاکہ وہ ان کے مکرو فریب اور فتنہ پر دارزیوں سے ہوشیار رہیں، ان منافقین نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے عناد آمیز عزائم کے تحت جو فتنہ پردازیاں کیں ان کے ذکر سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے، ان بدبختوں کے مکروہ عزائم کا نقطہ عروج اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے غزوہ تبوک سے واپسی کے سفر کے دوران ایک گھاٹی میں دغا اور فریب کی راہ میں آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو محفوظ رکھا۔ دبیلۃ دبل یا دبلۃ کی تصغیر ہے، جس کے معنی اس پھوڑے کی ہیں جو پیٹ میں ہوتا ہے اور جس کے سبب اکثر موت واقع ہوجاتی ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ دبیلہ طاعون کا ورم مراد ہے جس کو انگریزی میں پلیگ کہتے ہیں ویسے دبل کے ایک معنی آفت اور مصیبت کے بھی ہیں۔ جو ان کے مونڈھوں میں پیدا ہوگا۔۔ الخ۔ ان الفاظ کے ذریعہ دبیلہ کی وضاحت کی گئی ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ آنحضرت ﷺ کے اصل ارشاد کے جزو نہیں بلکہ حضرت حذیفہ کے اپنے الفاظ ہیں، نیز ان الفاظ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ دبیلہ سے طاعون کا ورم ہی مراد ہے۔ حضرت حذیفہ (رض) سے ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان منافقوں کے بارے میں مجھے پوری طرح بتادیا تھا کہ وہ کون کون سے لوگ ہیں اور کسی طرح مریں گے) چنا چہ وہ سب اسی طرح مرے جس طرح آنحضرت ﷺ نے مجھے بتایا تھا۔

【55】

بحیرا راہب کا واقعہ

اور حضرت ابوموسی بیان کرتے ہیں ( کہ ایک مرتبہ) ابوطالب نے ( تجارت کی غرض) شام کا سفر کیا تو ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ بھی گئے ( جو اس وقت بارہ سال کی عمر کے تھے، یہ تجارتی قافلہ ( ملک شام کے ایک مقام بصری میں) ایک راہب یعنی عیسائی پادری ( بحیرا نام) کے ہاں مقیم ہوا) اور سب نے اپنے کجاوے کھول لئے راہب ان لوگوں سے ملاقات کے لئے خود چلا آیا، حالانکہ اس سے پہلے جب بھی یہ لوگ ادھر سے گزرے اور اس راہب کے ہاں قیام کیا تو اس نے کبھی باہر آکر ان سے ملاقات نہیں کی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے کجاوے کھول رہے تھے اور راہب ان کے درمیان کسی کو ڈہونڈتا پھر رہا تھا، یہاں تک کہ اس نے آکر نبی کریم ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا یہی ہے، تمام جہانوں کا سردار، یہی ہے تمام جہانوں کے پروردگار کا رسول ( جو انسانیت عامہ کی ہدایت کے لئے آیا ہے) یہی وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہان ولاوں کے لئے رحمت ورافت کا ذریعہ بنا کر بھیجا ہے۔ قریش کے شیوخ نے راہب کو یہ کہتے سنا تو) کسی شیخ نے اس سے پوچھا کہ تم اس ( نوعمر) کے بارے میں ( یہ سب باتیں) کہاں سے جانتے ہو ؟ راہب نے جواب دیا جب تم دو پہاڑوں کے درمیان والے راستہ سے نکل کر سامنے آئے تو ( میں یہاں سے دیکھ رہا تھا کہ، کوئی درخت اور کوئی پتھر ایسا نہ تھا جو سجدہ میں نہ گرا ہو اور درخت وپتھر بڑے پیغمبر کے علاوہ اور کسی کو سجدہ نہیں کرتے، نیز میں نے ایک اس شخص کو اس مہر نبوت کے ذریعہ بھی پہچانا ہے جو اس کے شانہ کی ہڈی کے نیچے سیب کے مانند واقعہ ہے۔ پھر وہ راہب اپنے گھر میں گیا اور قافلہ والوں کے لئے کھانا تیار کیا اور جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو) آنحضرت ﷺ اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے، راہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ اس شخص کو بلوا لو ( کیونکہ میرا مہمان خصوصی اصل میں وہی شخص ہے اور اسی کے اعزاز میں میں نے کھانا تیار کرایا ہے) چناچہ ( بلابھیجنے پر یا از خود) آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے اور جب آپ ﷺ آرہے تھے ابر کا ایک ٹکڑا آپ پر سایہ کئے ہوئے تھا، پھر جب آپ ﷺ لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایسی جگہوں پر کہ جہاں درخت کا سایہ تھا وہ لوگ پہلے ہی قبضہ کر کے پیٹھ گئے تھے تو فورا درخت کی شاخوں نے ایک ٹکڑا آپ ﷺ پر سایہ کرلیا ( یہ ماجرا دیکھ کر) راہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ درخت کے سایہ کو دیکھوں جو اس شخص پر جھک آیا ہے۔ پھر اس نے کہا، میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں) یہ بتاؤ کہ تم میں سے کون شخص اس ( نوعمر) کا سرپرست ہے ؟ لوگوں نے کہا ابوطالب ہیں۔ ( یہ سن کر) راہب بڑی دیر تک ابوطالب کو اس بات کے لئے سمجھاتا رہا اور قسم دیتا رہا کہ وہ آپ ﷺ کو مکہ واپس بھیج دیں بالآخر ابوطالب نے آنحضرت ﷺ کو مکہ واپس بھیج دیا، ینز ابوبکر نے بلال کو آپ ﷺ کے ہمراہ کردیا اور راہب نے کنک اور روغن زیت کا توشہ آپ ﷺ کے ساتھ کیا۔ ( ترمذی) تشریح نیز میں نے اس شخص کو اس مہر نبوت کے ذریعہ بھی پہچانا ہے۔۔ الخ۔ بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ راہب اہل قافلہ کو یہ جواب دینے کے بعد کھڑا ہوا اور آنحضرت ﷺ کو گلے لگایا اور پھر اہل قافلہ سے آنحضرت ﷺ کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت سے سوال کئے کہ ان کے شب وروز کس طرح گزرتے ہیں، ان کے رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے، لیٹنے، سونے اور کھانے پینے کا کیا انداز ہے اور لوگوں کے ساتھ ان کے اخلاق و معاملات کیسے ہیں وغیرہ وغیرہ اہل قافلہ نے جو جواب دیئے ان کو اس نے اپنی کتابوں میں پڑھی ہوئی باتوں اور اپنی معلومات کے بالکل مطابق پایا۔ درخت کی شاخوں نے جھک کر آپ ﷺ پر سایہ کرلیا کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ اگرچہ اس وقت آنحضرت ﷺ کے سر پر ابر کے اس ٹکڑے کا سایہ موجود تھا جو راستہ سے آپ ﷺ پر سایہ فگن چلا آرہا تھا لیکن اس کے باوجود درخت نے جھک کر آپ ﷺ پر جو سایہ کیا وہ آپ ﷺ کی امتیازی حیثیت اجاگر کرنے اور آپ ﷺ کے اعزاز کو ظاہر کرنے کے لئے تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت ابر کا سایہ ہٹ گیا تھا، اس لئے درخت نے جھک کر سایہ کرلیا جس میں آپ ﷺ کے معجزہ کا اظہار تھا۔ بہر حال سر مبارک پر بادل کا سایہ فگن ہونا آپ ﷺ کے معجزات میں سے ہے، لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہ صورت ہمیشہ نہیں رہتی تھی بلکہ کبھی ضرورت و احتیاج کے وقت یہ معجزہ ظاہر ہوتا تھا۔ درخت کے سایہ کو دیکھو جو اس پر جھک آیا ہے سے راہب کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم ( بادل کی صورت میں) آسمان کے سایہ کو نہیں دیکھ یکتے تو زمین کے اس سایہ ہی کو دیکھ لو جو درخت کی شاخوں کی صورت میں اس ہستی پر جھکا ہوا ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ راہب کی مراد اہل قافلہ کو سر کی آنکھوں سے نہیں دل کی آنکھوں سے دیکھنے کی طرف متوجہ کرنا تھا کیونکہ سر کی آنکھوں سے توہ لوگ خود ہی دیکھ رہے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنی فطرت سلیم مسخ کر کے جہل و انکار کی تاریکی میں بھٹکنا ہی اپنا مقدر بنا لیا تھا ان کی دل کی آنکھیں تو تعصب اور ہٹ دھرمی سے ایسی بند ہوئیں کہ انہوں نے پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی آسمانی صداقت کی اس بڑی سے بڑی علامتیں کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود نورہدایت کی کوئی کرن حاصل نہیں کی، وہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی سب نشانیاں ( سر کی آنکھوں سے) دیکھتے تھے لیکن دل کی آنکھوں کا) ایسا دیکھنا ان کو نصیب نہیں ہوتا تھا جو ان کے کام آتا اور ان کو راہ راست پر لگا دیتا جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا وترہم ینظرون الیک وہم لا یبصرون اور ان کافروں) کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا آپ کو دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ بالآخر ابوطالب نے آنحضرت ﷺ کو مکہ واپس بھیج دیا بات دراصل یہ تھی کہ بصری رومی سلطنت کے زیر نگین تھا جہاں عیسائی شہنشاہیت کا پرچم لہرا رہا تھال اور وہاں بڑے بڑے عیسائی پادریوں نے اپنے علم وقیافہ کی بنیاد پر نبی آخر الزمان کی بعثت کی خبر دی تھی، جس سے ایک طرح کی سراسیمگی اس عیسائی شہنشاہیت پر طاری ہوگئی تھی اور اس بات کا وسیع پیمان پر انتظام کیا گیا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس نئے نبی کو اپنے اثرات پھیلانے سے پہلے ہی دنیا سے ختم کردیا جائے ! راہب بحیرا چونکہ آسمانی کتابوں کا سچا عالم تھا اور نبی آخر الزمان کے تئیں عقیدت رکھتا تھا اس لئے اس نے آنحضرت کو پہچان کر حضرت ابوطالب پر زور ڈالا کہ آپ کو مکہ واپس کردیں، اس کو خوف تھا کہ اگر رومی سلطنت کے گماشتوں کو آنحضرت ﷺ کی بھنک ملی گئی تو وہ فوارا گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے جائیں گے اور قتل کر ڈالیں گے، چناچہ ترمذی اور حاکم نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ادھر تو حضرات ابوطالب کے تجارتی قافلہ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا سفر شروع ہوا ادھر رومی سلطنت کے گماشتے جن کی تعداد سات تھی، آپ ﷺ کی ٹوہ میں لگ گئے کہ جہاں بھی ملیں قتل کردیا جائے، اس ٹوہ میں وہ بحیرا راہب تک بھی پہنچ گئے، بحیرا نے ان کو دیکھ کر کہا کہ تم لوگ یہاں کیا کرنے آگئے ؟ انہوں نے کہا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پیغمبر آخر الزمان ﷺ اس مہینے ( اپنے ملک سے) سفر پر روانہ ہونے والے ہیں، لہٰذا ہر ہر راستہ پر آدمی لگا دئیے گئے ہیں کہ وہ جب بھی ہماری سلطنت کی حدود میں) داخل ہوں ان کو فورا مار ڈالا جائے۔ بحیرا نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو مقدر کردیا ہے تو کیا کوئی شخص اس کو بدل سکتا ہے، ان گماشتوں نے جواب دیا نہیں، تب بحیرا نے کہا ( میں تمہیں سچی بات بتاتا ہوں کہ تم لوگ جس شخص کی تلاش میں ہو وہ یقینا اللہ کا سب سے بڑا پیغمبر بننے والا ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی لہٰذا تم اپنے اس خیال خام سے باز آجاؤ کہ اس کو قتل کر دوگے اور بہتر یہی ہے کہ) تم اس کی اطاعت کو قبول کر کے اس کے ساتھ عقیدت و محبت رکھو۔ کنک اور روغن زیت کا توشہ آپ ﷺ کے ہمراہ کیا کنک موٹی روٹی کو کہتے ہیں اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ کنک اس خاص قسم کی روٹی کو کہتے تھے جو آٹے، دودھ اور شکر کو ملا کر بناتے تھے، اس روٹی کے ساتھ روغن زیت اس لئے دیا تھا کہ روٹی سے لگا کر کھانے کے کام آئے۔ جزری نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ ویسے تو اس کی اسناد صحیح ہے اور اس کے رجال بخاری اور صحیح مسلم یا ان دونوں میں سے کسی ایک کے سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم اس حدیث میں حضرت ابوبکر اور حضرت بلال کو جو ذکر ہے، وہ غیر محفوظ ہے ( یعنی اصل روایت کا جزو نہیں ہے) کسی راوی کے سہو سے یہ جز و نقل ہوگیا ہے) کیونکہ اس وقت خود آنحضرت ﷺ کی عمر بارہ سال کی اور حضرت ابوبکر آنحضرت ﷺ سے دو یا ڈھائی سال چھوٹے تھے اور حضرت بلال تو شاید ان دنوں میں پیدا بھی نہ ہوئے ہوں گے۔ پس یہ کہنا کہ ابوبکر اور بلال کو آنحضرت ﷺ کے ہمراہ کردیا تھا کوئی معنی نہیں رکھتا، اسی لئے ذہبی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے گو بعض حضرات نے ذہبی کہ اس قول کو مسترد کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے راوی ثقات ہیں اور اس میں کوئی منکر نہیں ہے علاوہ اس جزء کے ( جس میں یہ مذکور ہے کہ ابوبکر نے بلال کو آنحضرت ﷺ کے ہمراہ کردیا تھا۔ بہر حال یہ بات تو ثابت ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، ہاں اس کے مذکور جزء کے بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے یہ اصل روایت کا جزء نہیں ہے بلک کسی روای کے سہو سے نقل ہوگیا ہے۔

【56】

درخت اور پتھر کے سلام کرنے کا معجزہ

اور حضرت علی ابن ابی طالب کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ مکہ میں تھا ( ایک دن) جب ہم مکہ کے نواح میں ایک طرف گئے تو جو بھی پہاڑ ( یعنی پتھر) اور درخت سامنے آیا اس نے کہا السلام علیک یا رسول اللہ ! ( ترمذی والدارمی) تشریح زیادہ صحیح تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی پتھر اور درخت آنحضرت ﷺ کو سلام کرتا تھا اس کی آواز حضرت علی بھی سنتے تھے اس اعتبار سے واقعہ معجزہ اور کرامت دونوں کی ظاہر کرتا ہے، معجزہ آنحضرت ﷺ کی نسبت سے اور کرامت حضرت علی کی نسبت سے۔ تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ ان کے سلام کرنے کی آواز خود حضرت علی نے نہیں سنی تھی بلکہ ان کو آنحضرت ﷺ نے بتایا تھا۔

【57】

براق کے متعلق معجزہ

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ شب معراج میں جب نبی کریم ﷺ کی سواری کے لئے براق لایا گیا جس کی زین کسی ہوئی اور لگام چڑھی ہوئی تھی اور آنحضرت ﷺ اس پر سوار ہونے لگے تو وہ شوخیاں کرنے لگا۔ ( جس کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کو اس پر سوار ہونا دشوار ہوگیا) پس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس ( براق) کو مخاطب کر کے کہا کیا محمد ﷺ کے ساتھ تو یہ شوخیاں کر رہا ہے ( جب کہ تو نے اس سے پہلے کسی نبی کے ساتھ شوخی نہیں کی اور اگر پہلے نبیوں کے ساتھ بھی شوخی کی تھی تب بھی ان کے ساتھ تو ہرگز شوخی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ) وہ وہ ذات گرامی ہے اللہ کی نظر میں جن سے بہتر کوئی شخص تجھ پر سوار نہیں ہوا۔ راوی کا بیان ہے کہ ( حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی یہ بات سن کر) براق پسینہ پسینہ ہوگیا۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح یہ وہ ذات گرامی ہے۔۔ الخ۔ اس عبارت کے بین السطور سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس براق پر آنحضرت ﷺ سے پہلے دوسرے انبیاء (علیہم السلام) بھی سوار ہوچکے تھے، اس سلسلہ میں تفصیلی تحقیق باب المعراج میں گزر چکی ہے ۔ براق پسینہ پسینہ ہوگیا کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ وہ براق تو اس خوشی کے مارے اچھل رہا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی سواری کا شرف مجھے حاصل ہو رہا ہے لیکن حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ گمان کیا کہ اس کی اچھل کود شوخی کے طور پر ہے لہٰذا جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے براق کو متنبہ کیا اور براق کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے اس گمان کا احساس ہوا تو مارے شرم کے پسینہ پسینہ ہوگیا۔

【58】

معراج سے متعلق ایک اور معجزہ

اور حضرت بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ( معراج کی رات میں) جب ہم بیت المقدس پہنچے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا اور اس اشارہ کے ذریعہ پتھر میں سوارخ ہوگیا اور پھر ( میں نے یا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے) اس سوراخ کئے ہوئے پتھر سے براق کو باندھا۔ ( ترمذی) تشریح باب المعراج میں حضرت انس (رض) کی یہ روایت گزری ہے کہ براق کو اس حلقہ سے باندھا جس سے تمام انبیاء (علیہم السلام) ( اپنے براق) باندھتے تھے، پس اس روایت اور اس روایت کے درمیان بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے اس کو رفع کرنے کے لئے شارحین نے لکھا ہے کہ حضرت انس (رض) والی روایت میں حلقہ سے مراد شاید وہ جگہ ہوگی، جہاں حلقہ ( سوراخ) تھا اور پھر بند ہوگیا تھا، شب معراج میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی انگلی سے اشارہ کر کے اسی بند سوراخ کو کھولا ہوگا، دونوں روایتوں میں بس فرق یہ ہے کہ حضرت انس (رض) کی روایت میں تو حلقہ ( سوراخ) کھولنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور یہاں حضرت بریدہ (رض) کی روایت میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

【59】

اونٹ کی شکایت، درخت کے سلام اور ایک کے اثرات بد سے نجات کا معجزہ

اور یعلی ابن مرہ ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے ( ایک ہی سفر میں) رسول کریم ﷺ ( کے معجزات میں) سے تین چیزیں دیکھیں، وہ اس طرح کے ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ جا رہے تھے کہ ناگہاں آب کش ( پانی کھینچنے والے) اونٹ کے پاس سے گزرے اس اونٹ نے جب آنحضرت ﷺ کو دیکھا تو بڑ بڑ کر کے اپنی گردن ( زمین پر رکھ دی) نبی کریم ﷺ اس کے پاس ٹھہر گئے اور پوچھا کہ اس اونٹ کا مالک کہاں ہے ؟ مالک حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا یہ اونٹ میرے ہاتھ بیچ دو ! اس نے عرض کیا یار سول اللہ ! میں اس اونٹ کو بیچ تو نہیں سکتا ہاں ( آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کے احترام میں) اس کو آپ ﷺ کی خدمت میں ( بلا قیمت نذر کرتا ہوں، ویسے ( یہ عرض کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں دیکھتا کہ) یہ اونٹ ایسے گھر والوں کا ہے ( یعنی میرا اور میرے اہل و عیال کا) کہ جن کا ذریعہ معاش اس اونٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے آپ ﷺ نے یہ سن کر، فرمایا جب کہ تم نے اونٹ کے بارے میں حقیقت حال بیان کردی ہے تو ( میں بھی تمہیں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ میں اپنی ضرورت کے لئے اس اونٹ کو خریدنا نہیں چاہتا تھا، بلکہ اصل مقصد اس اونٹ کو تنگی اور مصیبت سے نجات دلانا تھا کیونکہ) اس اونٹ نے درحقیقت مجھ سے شکوہ کیا ہے کہ اس سے کام زیادہ لیا جاتا ہے اور کھانے کو کم دیا جاتا ہے، پس اگر تم اس اونٹ کو بیچ کر اپنے سے جدا نہیں کرسکتے تو یہ تو کرسکتے ہو کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو ( یعنی اس کو گھاس دانہ خوب دو اور کام کم لو اگرچہ زیادہ کھلا کر زیادہ کام لینا جائز ہے یا اگر چارہ زیادہ دینے کی استطاعت نہیں ہے تو کام بھی کم لینا چاہئے لیکن یہ ظلم کی بات ہے کہ کھلاؤ کم اور کام زیادہ لو) اس کے بعد حضرت یعلی نے دوسرا معجزہ بیان کیا کہ) پھر ہم آگے روانہ ہوئے یہاں تک کہ ایک جگہ اتر کر آرام کرنے لگے اور نبی کریم ﷺ سوگئے اس وقت ( میں نے دیکھا کہ) ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آنحضرت ﷺ کو ڈھانک لیا (یعنی آپ ﷺ پر جھک گیا) اور پھر وہ اپنی جگہ پر واپس چلا گیا جب رسول کریم ﷺ بیدار ہوئے تو میں نے آپ ﷺ سے اس درخت کے آنے اور جانے کا ذکر کیا آپ ﷺ نے (پورا واقعہ سن کر) فرمایا یہ وہ درخت ہے جس نے اپنے پروردگار سے اس بارے میں اجازت مانگی تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو سلام کرے چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اجازت دیدی (اور وہ مجھے سلام کرنے آیا تھا) حضرت یعلی تیسرا معجزہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم پھر آگے بڑھے اور ایک پانی کی جگہ (یعنی ایسی آبادی میں) پہنچے (جہاں پانی دستیاب تھا) وہاں ایک عورت اپنے لڑکے کو لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس آئی اس لڑکے پر دیوانگی طاری تھی (یعنی کسی جن یا شیطان کے اثرات بد میں گرفتار تھا) آنحضرت ﷺ نے لڑکے کی ناک پکڑ کر (اس جن یا شیطان سے) کہا کہ نکل جاؤ، میں محمد ﷺ اللہ کا رسول ہوں اس کے بعد ہم نے آگے کا سفر پورا کیا اور جب واپسی میں اس پانی والی آبادی کے پاس سے گزرے تو آنحضرت ﷺ نے اس عورت سے اس لڑکے کا حال دریافت کیا عورت نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم نے آپ ﷺ (کے جانے) کے بعد ( یا آپ ﷺ کی دعا کے بعد) اس لڑکے میں تشویش کی کوئی بات نہیں دیکھی (یعنی وہ بالکل اچھا ہوگیا ہے) اور سارے اثرات بد زائل ہوگئے ہیں) اس روایت کو بغوی نے شرح السنہ میں نقل کیا ہے۔

【60】

ایک اور لڑکے کے شیطانی اثر سے نجات پانے کا معجزہ

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک عورت۔۔۔ اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوئی اور بولی کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے بیٹے پر جنون کا اثر ہے جس کا دورہ (ہر دن) دوپہر اور رات کے کھانے کا وقت آنے پر (یا صبح اور شام کے وقت پڑتا ہے) آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر) اس لڑکے کے سینہ پر دست مبارک پھیرا اور دعا فرمائی، چناچہ اس لڑکے کو ایک بڑی قے ہوئی جس کے ذریعہ اس کے پیٹ سے ایک ایسی (ہیبتناک) شئ نکلی جسیے دوڑتا ہوا کالا پلہ ہو۔ (ترمذی)

【61】

درخت کا معجزہ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نہایت غمگین اور زخموں کے خون میں لتھڑے ہوئے بیٹھے تھے جو اہل مکہ نے پہنچائے تھے کہ اتنے میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ ﷺ کو ( آپ ﷺ کا) ایک معجزہ دکھاؤں (جو آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی علامت ہوگی اور جس سے آپ ﷺ کو تسلی ہوجائے گی کہ اللہ کی راہ میں اذیت و پریشانی اٹھانا آپ ﷺ کے مراتب و درجات کی بلندی میں اضافہ کا باعث ہے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ ضرور دکھاؤ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے اس درخت کی طرف دیکھا جو ان کے پیچھے تھا اور پھر آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اس درخت کو بلائیے۔ آنحضرت ﷺ نے درخت کو بلایا اور وہ آپ ﷺ کے سامنے ( تابعداروں کی طرح) آکر کھڑا ہوگیا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا اب اس کو واپس جانے کا حکم دیجئے، آنحضرت ﷺ نے اس کو واپسی کا حکم دیا تو واپس چلا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا مجھ کو کافی ہے مجھ کو کافی ہے (دارمی) ۔ تشریح جو اہل مکہ نے پہنچائے تھے سے کفار مکہ کہ وہ بدسلوکی اور اذیت رسانی مراد ہے جو ان کی طرف سے آنحضرت ﷺ کو جنگ احد میں پہنچی تھی جس کے نتیجہ میں آپ ﷺ کا دندان مبارک شہید ہوا اور رخسار مبارک زخمی ہوگیا تھا۔ صورت میں بارگاہ حق میں اپنا بلند مرتبہ ومقام اور اپنی عظمت دیکھ کر مجھے اپنے زخموں کی اذیت کا احساس رہ گیا اور نہ کوئی رنج وغم رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کہ خارق عادت (یعنی معجزہ یا کرامت) کا ظہور یقین و اعتقاد کی مضبوطی اور غم وحزن کے دفعیہ میں موثر کردار ادا کرتا ہے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ جن بندگان عالی کو بارگاہ رب العزت میں تقرب اور عظمت کا مقام حاصل ہوتا ہے اگر ان کو دشمنوں کی اور مخالفوں کی طرف سے جسمانی یا روحانی اذیت و تکلیف اور رنج وغم پہنچے تو اس پر صبر کرنا چاہئے کیونکہ دین کی راہ میں جس قدر مشقت اور پریشانی آتی ہے اتنا ہی اجر بڑھتا ہے۔

【62】

آنحضرت ﷺ کی رسالت کی گواہی کیکر کے درخت کی زبانی

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جہاد کے سفر میں تھے کہ ( لشکر گاہ کے پاس) ایک دیہاتی آگیا اور جب رسول کریم ﷺ کے قریب پہنچا تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس امر کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا ہے اور جس کا کوئی شریک و ہمسر نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ دیہاتی نے کہا آپ ﷺ نے جو کچھ کہا ہے ( یعنی نبوت و رسالت کا جو دعوی کیا ہے) اس کی گواہی و شہادت دینے والا (نوع انسانی کے علاوہ) اور کوئی بھی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کیکر کا درخت ( جو سامنے کھڑا گواہی دے گا) اور پھر آپ ﷺ نے کیکر کو بلایا اس وقت آپ ﷺ ایک وادی کے کنارہ پر ٹھہرے ہوئے تھے کیکر کا درخت ( آپ ﷺ کا حکم سن کر) زمین چیرتا ہوا آیا اور آپ ﷺ کے سامنے کھڑا ہوگیا آپ ﷺ نے اس سے بار گواہی دینے کو کہا اور اس درخت نے تین بار گواہی دی ( کہ آپ ﷺ اپنے دعوے میں سچے ہیں اور یقینا رسول رب العالمین ہیں) اس کے بعد وہ درخت اپنے اگنے کی جگہ واپس چلا گیا (یعنی جس جگہ سے آیا وہیں واپس جا کر کھڑا ہوگیا۔ (دارمی)

【63】

آنحضرت ﷺ کی رسالت کی گواہی کیکر کے درخت کی زبانی

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا کہ میرے لئے اس بات کو جاننے ( اس پر یقین کرنے) کا ذریعہ کیا ہے کہ آپ ﷺ نبی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس ذریعہ سے کہ میں ابھی اس کھجور کے درخت پر لگے ہوئے خوشہ کو بلاتا ہوں وہ ( یہاں آکر) گواہی دے گا کہ میں اللہ کا نبی اور رسول ہوں۔ چناچہ رسول کریم ﷺ نے اس خوشہ کو بلایا اور وہ ( خوشہ) کھجور کے درخت سے الگ ہو کر اترنے لگا اور نبی کریم ﷺ کے قریب زمین پر آ کر گرا ( اور آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کی گواہی دی) پھر آپ ﷺ نے اس کو حکم دیا کہ واپس جاؤ اور زوہ خوشہ واپس ( اپنی جگہ) چلا گیا، ( یہ دیکھ کر) اس دیہاتی نے فورا اسلام قبول کرلیا۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

【64】

بھیڑیے کے بولنے کا معجزہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک بھیڑیا ( بکریوں) کے ایک ریوڑ میں، جہاں اس کا چرواہا بھی موجود تھا، گھس آیا اور اس میں سے ایک بکری اٹھا کر بھاگا، چرواہے نے اس کا تعاقب کیا اور آخر کار بکری کو اس بھیڑئیے سے چھڑا لیا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے کہ پھر وہ بھیڑیا ایک ٹیلہ پر چڑھا اور وہاں اس طرح بیٹھ گیا جیسے کوئی بھیڑیا سرین کے بل بیٹھتا ہے اور دونوں پاؤں کھڑے کر کے اپنی دم ان دونوں پاؤں کے درمیان داخل کرلی اور چرواہے کو ( زور سے) مخاطب کر کے بولا میں نے اپنا وہ رزق لینا چاہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے لیکن تم نے میرا رزق مجھ سے چھین لیا ہے۔ چرواہے نے ( جو ایک بھیڑیا کو بولتے دیکھا تو ششدرہ رہ گیا، چناچہ اس نے بھڑئیے ہی کو مخاطب کر کے کہا اللہ کی قسم، جیسا عجوبہ، میں نے آج دیکھا ہے ایسا تو کبھی نہیں دیکھا کہ ایک بھیڑیا ( آدمی کی طرح) باتیں کر رہا ہے۔ بھیڑیا پھر بولا اس سے بڑا عجوبہ تو اس شخص ( محمد ﷺ کا حال ہے، جو کھجوروں کے درختوں کے پیچھے دو سنگستانوں کے درمیان ( یعنی مدینہ میں) رہتا ہے، وہ شخص تمہیں وہ باتیں بتادے گا جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں اور وہ باتیں بھی بتادے گا جو تمہارے بعد وقوع پذیر ہونے والی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ وہ آدمی ( چرواہا) جو ایک یہودی تھا بھیڑئیے کی زبانی سن کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کے سامنے ( بھیڑیے کے بولنے کا) قصہ بیان کرکے مسلمان ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے بیان کردہ قصہ کو درست تسلیم کیا اور پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس طرح کی باتیں قیامت سے پہلے کی ( یعنی قرب قیامت کی) علامتیں ہیں وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ آدمی ( اپنے گھر سے) باہر جائے گا اور جب لوٹ کر ( گھر میں) آئے گا تو اس کے جوتے اور اس کا کو ڑما ( وغیرہ) اس کو وہ تمام باتیں بتادے گا، جو اس کے گھر والوں نے اس کی عدم موجودگی میں کی ہوں گی۔ ع ( شرح السنۃ) تشریح علامہ تور پشتی (رح) نے لکھا ہے کہ اس چرواہے کا نام جو بعد میں مسلمان ہو کر شرف صحابیت سے سرفراز ہوئے اہبار بن اوس خزاعی تھا، اس واقعہ کی نسبت سے ان کو مکلم الذئب کہا جانے لگا تھا۔۔۔ لیکن روایت کے یہ الفاظ کہ جو ایک یہودی تھا اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ اہبار ابن اوس خزاعی تھے کیونکہ قبیلہ خزاعہ کے لوگ یہودی نہیں تھے، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہبار اوس کا تعلق قبیلہ خزاعہ ہی سے تھا اور انہوں نے اپنے قبیلہ والوں کے برخلاف یہودی مذہب اختیار کرلیا تھا اس صورت میں تورپشتی کے قول پر کوئی اعتراض وار نہیں ہوگا۔ کھجور کے درختوں کے پیچھے دو سنگستانوں کے درمیان سے مراد مدینہ شہر تھا اور دو سنگستانوں دراصل حرتین کا ترجمہ ہے، حرتین تثنیہ ہے حرہ کا، جس کے معنی کالی پتھریلی زمین کے ہیں مدینہ شہر ایک ایسے میدان میں آباد ہے جو اپنی مشرقی اور مغربی سمتوں سے دو حروں ( یعنی دو سنگستانوں کے درمیان واقع ہے۔ پہلے گزرنے والی باتوں سے پچھلی امتوں کے احوال انجام مراد ہیں اور بعد میں وقوع پذیر ہونے والی باتیں بتائے سے مراد آنے والے زمانوں میں جو اہم واقعات و حوادث رونما ہوں گے ان کی پیش خبری بھی ہے اور عقبی وآخرت کے حقائق و کوائف بتانا بھی۔

【65】

برکت کہاں سے آتی تھی

اور حضرت ابوالعلاء (رح) ( تابعی) سمرہ ابن اجندب ( صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا ( ظہور معجزہ کے وقت) ہم سب نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک بڑے پیالہ میں سے ( دس دس آدمی باری باری صبح سے شام تک ( یعنی پورے دن) کھاتے رہتے تھے، ہوتا یہ کہ دس آدمی کھا کر اٹھ جاتے تو ( ان کی جگہ) دوسرے دس آدمی آکر بیٹھ جاتے تھے۔ ہم نے ( حضرت سمرہ (رض) سے) پوچھا کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس کے ذریعہ پیالہ کی مدد ہوتی تھی ( یعنی اس پیالہ میں سے کھانا کس چیز کے ذریعہ اور کہاں سے اتنا زیادہ ہوجاتا تھا ؟ ) ۔ حضرت سمرہ (رض) نے جواب دیا تمہارے لئے اس میں تعجب کی کیا بات ہے، اس پیالہ میں ( کھانے کا اضافہ) وہاں سے، یہ کہہ کر انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ ( ترمذی، دارمی) تشریح تمہارے لئے اس میں تعجب کی کیا بات ہے سوال تو ان سب تابعین کی طرف سے تھا جن کے سامنے حضرت سمرہ بیان کررہے تھے، لیکن حضرت سمرہ نے جواب میں صرف حضرت ابوالعلاء کو مخاطب کیا کیونکہ اول تو وہ بھی سوال کرنے والوں میں سے ایک تھے اور دوسروں یہ کہ اس مجلس میں حضرت ابوالعلاء کی حیثیت جلیل القدر تابعین میں ہونے کی وجہ سے سب سے نمایاں تھی۔ یا یہ کہ حضرت سمرہ نے کسی ایک شخص کو یا صرف اس مجلس کے لوگوں کو مخاطب نہیں کیا بلکہ ان کا خطاب عمومی طور پر ہر شخص سے ہے جو اس حدیث کو سنے یا پڑ ہے، بہر حال حضرت سمرہ کا مطلب یہ تھا کہ اس میں تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس ایک پیالہ میں موجود ( تھوڑے سے کھانے سے اتنے زیادہ آدمی دن بھر کھاتے رہتے تھے باوجودیکہ ظاہر طور پر ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا جس سے اس پیالہ کے کھانے میں اضافہ ہوسکتا، کیونکہ یہ تو معجزے کی بات تھی، اللہ اور اللہ کے رسول کا معاملہ تھا، اللہ کے رسول ﷺ دعا کرتے تھے اور اپنے دست مبارک سے اس پیالہ کو چھوتے تھے جس کے سبب اللہ آسمان سے برکت نازل کرتا تھا اور اس پیالہ میں غیر مرئی طور پر عالم بالا سے کھانا اترتا رہتا تھا، اس میں گویا قرآن کریم کی اس آیت (وَفِي السَّمَا ءِ رِزْقُكُمْ ) 51 ۔ الزاریات 22) کی طرف اشارہ ہے۔

【66】

جنگ بدر میں قبولیت دعا کا معجزہ

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جنگ بدر کے دن تین سو پندرہ آدمیوں کو لے کر نکلے اور دعا فرمائی اے اللہ ! یہ ( میرے صحابہ جو تیری راہ میں لڑنے کے لئے نکلے ہیں ننگے پاؤں ہیں ان کو سورای عطا فرما ! یہ ننگے بدن ہیں (کہ ان کے جسم پر تہبند کے علاوہ کوئی کپڑا نہیں) ان کو لباس عطا کر، اے اللہ ! یہ بھوکے ہیں، ان کو ( ظاہری و باطنی طور پر) شکم سیر فرما ( تاکہ ان کو تیری طاعت و عبادت کی طاقت حاصل ہو چناچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ( مشرکین مکہ کے مقابلہ پر) فتح یاب کیا ( دشمن کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر آدمی جنگی قیدیوں کے طور پر ہاتھ لگے) مجاہدین اسلام، اس حالت میں واپس ہوئے کہ ان میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے پاس ایک یا دو اونٹ نہ ہوں، نیز سب کو لباس بھی نصیب ہوئے اور سب شکم سیر بھی ہوئے۔ ( ابوداؤد) تشریح مطلب یہ کہ ہزیمت خوردہ دشمن کے جو اونٹ، کپڑے اور غذائی سامان مال غنیمت کے طور پر اسلامی لشکر کے ہاتھ لگا۔ اس کی وجہ سے ان مجاہدین کو اونٹ بھی مل گئے، کپڑے بھی ملے اور شکم سیری بھی ہوگئی، پس آنحضرت ﷺ کی ایک ایک دعا قبول ہوئی۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا قبول ہونا خصوصا ً اتنی جلدی اور اتنے مکمل طور پر قبول ہونا خارق عادت ( یعنی معجزہ و کر امت) کے قبیل سے ہے اور یہ نتیجہ تھا اس اس صبر کا جس کا مظاہرہ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی تمام صعوبتوں اور پریشانیوں پر آنحضرت ﷺ اور مجاہدین اسلام کی طرف سے ہوا، جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے ان الصبر علی ما یکرہ فیہ خیر کثیر۔ ( ناگوار اور پریشان کن امور پر صبر کرنا درحقیقت بہت ساری بھلائیوں اور فائدوں کا استحقاق حاصل کرنا ہے) نیز اس صبر کا یہ تو وہ فوری ثمرہ تھا، جو اس دنیا میں ملا، اصل ثمرہ تو باقی ہی رہا، جو آخرت میں ملے گا۔ والاخرۃ خیر وابقی۔

【67】

ایک بشارت ایک ہدایت

اور حضرت ابن مسعود (رض) رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے زمانہ آئندہ میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی پیش خبری اور ان واقعات کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے فوائد کی بشارت کے طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ یقینًا تمہیں ( دشمنوں کے مقابلہ پر) مدد ونصرت عطا ہوگئی، تمہیں ( مال غنیمت کی صورت میں بہت کچھ) ملے گا اور تمہارے ہاتھوں بہت بڑے بڑے علاقے اور مال و دولت سے بھرے ہوئے بہت سارے شہر فتح ہونگے پس تم میں سے جو شخص ان ( مذکورہ چیزوں) سے سرفراز ہو اس کو چاہئے کہ وہ ( درجہ کمال کو پہنچنے کے لئے دینی و دنیاوی معاملات ومشاغل میں) اللہ سے ڈرتا رہے لوگوں کو نیکی کی ہدایت و تلقین اور بری باتوں سے باز رکھنے کی سعی کرتا رہے۔ تشریح اس ارشاد کے ذریعہ آپ ﷺ نے گویا اعتدال و توازن کے راستہ کی راہنمائی فرمائی تاکہ کوئی شخص فتح و کامرانی حکومت وتاجداری اور مال و دولت کی سرفرازی میں اپنی حیثیت اور اپنے منصب ومقصد سے غافل نہ ہوجائے اور غروروتکبر، اسراف وخود نمائی اور ظلم وناانصافی کے راستہ پر چل کر اللہ کے غضب کا مورد نہ بن جائے دراصل اس ارشاد گرامی کے ذریعہ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو قرآن کریم کی اس آیت کی طرف متوجہ کیا جس میں فرمایا گیا ہے۔ (اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ) 22 ۔ الحج 41) یہ ( سچے مسلمان) لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں حکومت اور امارت دے دیں تو یہ لوگ ( خود بھی) نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور دوسروں کو بھی) نیک کاموں کی تلقین و ہدایت کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔

【68】

زہر آلود گوشت کی طرف سے آگاہی کا معجزہ

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ اہل خیبر میں سے ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی بکری میں زہر ملایا اور پھر اس کو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا، رسول کریم ﷺ نے اس بکری میں سے ایک دست لے کر خود بھی کھانا شروع کیا اور آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے صحابہ کی بھی ایک جماعت کھانے لگی، پھر ( ایک دم) رسول کریم ﷺ نے فرمایا اپنے ہاتھ روک لو ( اس میں سے کچھ نہ کھاؤ) اس کے بعد آپ ﷺ نے اس یہودی عورت کو بلانے کے لئے ایک آدمی بھیجا ( وہ آگئی تو) آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے اس بکری میں زہر ملایا ہے ؟ عورت نے کہا آپ ﷺ کو کیسے معلوم ہوا ؟ آپ ﷺ کے اللہ نے آپ ﷺ کو بتایا ہے یا مخلوق میں سے کسی نے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا ؟ مجھے اس نے بتایا ہے جو میرے ہاتھ میں ہے، یہ بات آپ ﷺ نے دست کی طرف اشارہ کر کے کہی۔ تب اس عورت نے ( اعتراف کرتے ہوئے) کہا کہ ہاں میں نے اس بکری کو زہر آلود کردیا تھا۔ اور میں نے سوچا تھا کہ اگر محمد ﷺ نبی ہوں گے تو زہر آلود بکری ان کو ہرگز نقصان نہیں پہچائے گی اور اگر وہ نبی نہ ہوں گے تو ( زہر کے اثر سے ختم ہوجائیں گے اور) ہمیں ان سے نجات اور راحت مل جائے گی۔ پس رسول کریم ﷺ نے اس عورت کو معاف کردیا اور کوئی سزا نہیں دی اور صحابہ میں سے جن لوگوں نے اس بکری میں سے کھایا تھا ( ان میں سے ایک صحابی حضرت بشر (رض) نیز رسول کریم ﷺ نے بھی اس زہر آلود بکری کا گوشت کھالیا تھا اس کے اثرات کے دفعیہ کے لئے مونڈھوں کے درمیان سینگیاں کھنچوائیں اور ابوہند نے ( جن کا اصل نام یسار حجام تھا اور) جو ( ایک انصاری قبیلہ) بنو بیاضہ کے آزاد کردہ غلام تھے، شاخ اور چوڑی چھری کے ذریعہ سینگیاں کھینچیں۔ ( ابوداؤد، دارمی) تشریح اس یہودی عورت کا نام زینت حارث اور سلام ابن مشکم کی بیوی تھی۔ ایک اور روایت میں یہ بھی منقول ہے کہ اس عورت نے پہلے ہی کچھ لوگوں سے معلوم کرلیا تھا کہ آنحضرت ﷺ کو کس حصہ کا گوشت زیادہ مرغوب ہے اس نے ایک بکری کا بچہ جو اس کے پاس تھا ذبح کیا اور اس کو بھون کر اس میں ایسا سریع الاثر زہر ملادیا کہ آدمی کھاتے ہی مرجائے، دست اور شانہ کے حصہ میں تو اس نے خصوصیت سے بہت زیادہ زہر ملایا اور پھر وہ بکری لا کر آنحضرت ﷺ اور ان صحابہ کے سامنے کہ جو اس وقت مجلس نبوی ﷺ میں حاضر تھے پیش کی۔ تو یہ زہر آلودبکری ہرگز نقصان نہیں پہنچائے گی یعنی یا تو اس وجہ سے کہ انبیاء پر زہر اس طرح اثر انداز نہیں ہوتا کہ ان کی زندگی ہی لے لے، یا اس بناء پر کہ دعوت اسلام کے اتمام اور دین کی تکمیل سے پہلے آپ ﷺ کی موت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ پہلے احتمال کی صورت میں وہ روایت خلجان کی باعث ہوسکتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات اس زہر کی تاثیر کے سبب ہوئی جو خیبر میں آپ ﷺ کو کھانے میں دیا گیا ہے ۔۔۔ لیکن چونکہ محققین نے لکھا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے اس کے خلجان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ ایک روایت میں تو یہ آیا ہے کہ کسی نے آنحضرت ﷺ سے ( مرض الموت میں) کہا کہ آپ ﷺ میں اس زہر کا اثر سرایت کر رہا ہے جو خیبر میں آپ ﷺ کو دیا گیا تھا ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھ کو اس کے علاوہ کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی جو میرے مقدر میں لکھی ہے اور جو اللہ چاہے۔ اس عورت کو معاف کردیا اور کوئی سزا نہیں دی اس ضمن میں بعض حضرات نے تو یہی کہا ہے کہ اس عورت کو نہ قتل کیا گیا اور نہ کوئی دوسری سزا دی گئی ہے اور اس نے اسلام قبول کرلیا تھا، چناچہ سلیمان تیمی نے اپنی کتاب المغازی میں یہ روایت نقل کرتے ہوئے فلن یضرہ کے بعد یوں نقل کیا ہے کہ وان کنت کا ذبا ارحت الناس منک وقد استبان لی انک صادق وانا اشہدک ومن حضرت علی دینک ان الا الہ الا اللہ وان محمد عبدہ ورسولہ۔ یعنی اس عورت نے کہا میں نے سوچا تھا کہ اگر محمد ﷺ نبی ہوں گے تو یہ زہر آلود بکری ان کو ہرگز نقصان نہیں پہنچائے گی) اور اگر آپ ﷺ جھوٹے ہیں تو میں ( اس زہر کے ذریعہ آپ ﷺ کا کام تمام کر کے) لوگوں کو آپ ﷺ سے نجات و راحت پاؤں گی، لیکن اب مجھ پر واضح ہوگیا ہے کہ یقینا آپ ﷺ ( سچے) نبی ہیں، میں آپ ﷺ کو اور اس شخص کو جو آپ ﷺ کے دین پر قائم ہے، گواہ کر کے اقرار کرتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں بلاشبہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ لیکن طیبی نے لکھا ہے کہ اس بارے میں اختلاف ہے ( کیونکہ جس طرح بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو معاف کردیا اور کوئی سزا نہیں دی اسی طرح ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت کے قتل کئے جانے کا حکم صادر فرمایا چناچہ اس کو قتل کردیا گیا۔ پس ان دونوں طرح کی روایتوں کی درمیان تطبیق یہ ہے کہ شروع میں آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو معاف کردیا تھا اور کوئی سزا نہیں دی تھی ( اس اعتبار سے بعض روایتوں میں معافی کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن پھر بعد میں جبکہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ اس زہر آلود بکری کو کھانے والوں میں سے ایک صحابی حضرت بشر ابن براء ابن معرور کا انتقال اس زہر آلود گوشت کھانے کے سبب ہوگیا۔ جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے منع کرنے سے پہلے ہی گوشت کا ایک ٹکڑا اپنے حلق سے نیچے اتار لیا تھا تو آنحضرت ﷺ نے اس یہودی عورت کے قتل کا حکم صادر فرمایا چناچہ وہ عورت حضرت بشر (رض) کے قصاص میں قتل کردی گئی ( اور اسی وجہ سے بعض روایتوں میں اس عورت سے قتل کئے جانے اور سزا پانے کا ذکر ہے۔

【69】

غزوہ حنین میں فتح کی پیش گوئی کا ذکر

اور حضرت سہل ابن حنظلیہ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر ( حنین کے مقام پر جانے کے لئے) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول کریم ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے تو سفر کا سلسلہ طویل ہوگیا ( یعنی کہیں رکے بغیر مسلسل چلتے رہے) یہاں تک کہ جب رات آئی تو ( ایک جگہ پہنچ کر جہاں پڑاؤ ڈالنا تھا) ایک سوار خدمت اقدس میں) حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں ایسے اور ایسے پہاڑ پر چڑھا ( اور دشمن کا جائزہ لے رہا تھا) کہ اچانک میں نے دیکھا کہ ہوازن ( جو مشہور اور بہت بڑا قبیلہ ہے) اپنے باپ کے اونٹ پر آگیا ہے یعنی قبیلہ کے تمام لوگ آگئے ہیں) ان کے ساتھ ان کی عورتیں بھی ہیں اور ان کے مویشی بھی ہیں اور وہ سب حنین کے مقام پر جمع ہوگئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ ( سن کر معنی خیز انداز میں) مسکرائے اور فرمایا۔ انشاء اللہ یہ سب چیزیں کل کے دن مسلمانوں کا مال غنیمت ہوں گی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ( تمام اہل لشکر کی طرف روئے سخن کر کے) فرمایا آج کی رات ہماری نگہبانی کا ذمہ کون لیتا ہے ؟ ( ایک صحابی) حضرت انس ابن ابی مرقد غنوی (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! تم اس پہاڑی راستہ سے جا کر اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاؤ ( اور وہاں سے دشمن پر نگاہ رکھو) ۔ پھر جب صبح ہوئی تو رسول کریم ﷺ نماز پڑھنے کی جگہ تشریف لائے ( جو پہلے سے مقرر تھی) آپ ﷺ نے (فجر کی سنت کی) دو رکعتیں پڑھیں اور ( اہل لشکر کو مخاطب کر کے فرمایا کیا تمہیں اپنے سوار کی کچھ آہٹ ملی ؟ ( یعنی تم میں سے کسی نے اس کو آتے دیکھا ہے یا اس کی آواز کسی نے سنی ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ وہ کس حال میں ہے ؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! نہیں ( ہم میں سے کسی کو کوئی آہٹ وخبر نہیں ہے) اتنے میں نماز فجر کی تکبیر کہی گئی ( اور نماز شروع ہوگئی) رسول کریم ﷺ ( کے اضطراب کا یہ حال تھا کہ آپ ﷺ نماز کے دوران بھی کن انکھیوں سے اسی پہاڑی راستہ کی طرف دیکھتے رہے یہاں تک کہ جب نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا خوش ہوجاؤ، تمہارا ( وہ) سوار آرہا ہے ( جو تمہاری نگہبانی کر رہا تھا) چناچہ ہم لوگوں نے اس پہاڑی راستہ کے درختوں میں دیکھنا شروع کیا یہاں تک وہ سوار آتا ہوا دکھائی دیا اور پھر وہ آکر رسول کریم ﷺ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور بیان کیا کہ میں ( یہاں سے) روانہ ہوا پہاڑی راستہ سے ہوتا ہوا ( پہاڑ کی) اس چوٹی پر پہنچا، جہاں جانے کا رسول کریم ﷺ نے حکم دیا تھا ( اور پوری رات اسی جگہ کھڑا ہوا نگہبانی کرتا رہا) پھر جب صبح ہوئی تو میں پہاڑ کے دونوں راستوں ( اور اس کی ادھر ادھر کی گھاٹیوں) میں آیا ( تاکہ اس بات کا اچھی طرح اندازہ لگا لوں کہ دشمن کے کچھ لوگ ادھر ادھر تو نہیں چھپے ہوئے ہیں، لیکن میں نے وہاں کسی کو نہیں دیکھا۔ رسول کریم ﷺ نے انس ابن مرثد سے پوچھا کیا رات میں گھوڑے سے اترے تھے ؟ انہوں نے کہا صرف نماز پڑھنے کے لئے یا استنجاء کرنے کے لئے ( ذرا سی دیر کے لئے) اترا تھا ( ورنہ پوری رات گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا نگہبانی کرتا رہا) آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر) فرمایا پھر تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اس رات کے بعد کوئی عمل نہ کرو۔ ( ابوداؤد) تشریح بکرۃ ۔ جوان اونٹ کو کہتے ہیں اور علی بکرۃ ابیہم۔ ( اپنے باپ کے اونٹ پر) دراصل عربوں کا ایک محاورہ ہے ان لوگوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے جو کسی جگہ آئیں اور سب کے سب آجائیں ان میں سے کوئی پیچھے نہ رہ جائے۔ یہ محاورہ یہاں سے چلا کہ کسی زمانہ میں ایک جگہ عربوں کی ایک جماعت کے لوگ کہیں جانے کے لئے تیار ہوئے چناچہ جب انہوں نے کوچ کیا تو جس شخص کو جہاں بھی کوئی اونٹ کھڑا ہوا ملا اس نے اس کو پکڑا اور اس پر بیٹھ کر روانہ ہوگیا، اتفاق کی بات کہ وہ اونٹ خود ان لوگوں کی ذاتی ملکیت نہیں تھے بلکہ ان کے باپ کے تھے۔ جو ادھر ادھر چر رہے تھے اس طرح وہ تمام لوگ ان اونٹوں پر سوار ہو کر منزل مقصود کو روانہ ہوگئے ان میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہیں بچا جو ان اونٹوں میں سے کسی اونٹ پر بیٹھ کر روانہ نہ ہوا ہو، پس اس کے بعد یہ محاورہ ہوگیا کہ جب کسی جماعت یا قبیلے کے لوک اجتماعی طور پر کہیں آتے تو ان کی اس اجتماعیت کو اہمیت کے ساتھ بیان کرنے کے لئے کہا جاتا کہ جاؤ ا علی بکرۃ ابیہم۔ ( وہ لوگ اپنے باپ کے اونٹوں پر آگئے) اور قاضی نے لکھا ہے کہ علی بکرۃ ابیہم دراصل مع کے معنی میں ہے اور یہ جملہ ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوا ہے اور یہ مثل یہاں سے چلی کہ ایک عرب خاندان کے کچھ لوگوں کے کسی حادثہ یا واقعہ کے پیش آجانے پر اپنی آبادی چھوڑنا پڑی، چناچہ ان تمام لوگوں نے یہاں سے کوچ کیا چونکہ وہ لوگ اپنے پیچھے کوئی چیز چھوڑنا نہیں چاہتے تھے اس لئے ایک ایک چیز اپنے ساتھ لے لی، یہاں تک کہ اونٹ جو ان کے پاس تھا اس کو بھی اپنے ساتھ لے لیا اس پر کچھ لوگوں نے کہا جاؤ ا علی بکرۃ ابیہم۔ یہ لوگ ( سب کچھ لے کر) آگئے یہاں تک کہ اپنے باپ کا اونٹ بھی لیتے آئے اس کے بعد سے یہ جملہ ایسے لوگوں کے حق میں ضرب المثل کے طور پر استعمال ہونے لگا جو ابنے ساتھ اپنے تمام مال و اسباب اور تمام آدمیوں کو لے کر پہنچتے چاہے ان کے ساتھ اونٹ ہوتا یا نہ ہوتا اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ ایک شخص اپنی تمام اولاد کو اپنے اونٹ پر لئے پھرتا تھا اس کو دیکھ کر کسی نے یہ جملہ کہا اور جب سے یہ ضرب المثل بن گیا۔ کہ اس رات کے بعد کوئی عمل نہ کرو اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے اس سوار یعنی حضرت انس ابن مرثد (رض) کو بشارت دی کہ تمہارے لئے اللہ کے نزدیک آج کی رات ہی کافی ہے۔ تمہارے نامہ اعمال میں اس رات کی خدمت کے عوض اتنا اجر وثواب جمع ہوگیا ہے اور تمہیں اتنی فضیلت مل گئی ہے کہ اگر تم از قسم فضائل ونوافل اور کوئی عمل نہ بھی کرو، تو آخرت میں بلندی درجات کی طرف سے تمہیں کوئی فکر نہ ہونی چاہئے۔ پس اس جملہ میں یہاں عمل سے نوافل وحسنات مراد ہیں نہ کہ فرائض، کیونکہ فرائض تو کسی حال میں ساقط نہیں ہوتے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں عمل سے مراد جہاد ہے، مطلب یہ ہے کہ تم نے آج کی رات اللہ کی راہ میں ہماری نگہبانی کی ذمہ داری جس محنت ومشقت اور جان نثاری کے جذبہ سے نبھائی ہے، اس کے بعد اگر تم جہاد میں شریک نہ بھی ہو تو تم پر کوئی مؤ اخذہ نہیں۔

【70】

کجھوروں میں برکت کا معجزہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) میں رسول کریم ﷺ کے پاس (اکیس) ٢١ کھجوریں لے کر آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اللہ سے ان کھجوروں میں برکت کی دعا فرما دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کھجوروں کو اپنے ہاتھ میں لیا ( یا یہ کہ ان کھجوروں پر اپنا ہاتھ رکھا) اور پھر میرے لئے ان کھجوروں کو اپنے توشہ دان میں رکھ لو، جب تم ان میں سے کچھ لینا چاہوں تو توشہ دان میں اپنا ہاتھ ڈالو اور نکال لو اور اس توشہ دان کو جھاڑ پھونک کر کبھی خالی نہ کرنا حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ( آنحضرت ﷺ کے حکم کے مطابق ان کھجوروں کو ایک توشہ دان میں رکھ لیا اور پھر ان چند کھجوروں میں اتنی برکت دیکھی کہ اس توشہ دان سے نکال نکال کر) اتنے اتنے وسق تو کھجوریں اللہ کی راہ میں خرج کردیں اور ہم ( یعنی میرے دوست و احباب) ان کھجوروں میں سے کھاتے اور کھلاتے رہتے تھے، وہ توشہ دان میری کمر ( پر بندھا رہتا تھا جہاں) سے کسی وقت الگ نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ حضرت عثمان کے شہید ہونے کے دن وہ توشہ دان میری کمر سے کھل کر گرپڑا ( اور ضائع ہوگیا ) ۔ (ترمذی) تشریح روایت کے آخری الفاظ سے معلوم ہوا کہ جب معاشرہ میں فتنہ و فساد پھیل جاتا ہے اور و لوگوں میں افتراق ونتشار بڑھ جاتا ہے تو خیر و برکت اٹھ جاتی ہے، ایک روایت میں منقول ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے دن حضرت ابوہریرہ اپنا درد وکرب اس شعر کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں۔ للناس ہم ولی الیوم ہم ان بینہم ہم الجراب وہم الشخ عثمانا ( آج کے دن اور و لوگوں کو تو ایک ہی غم کا سامنا ہے اور مجھ پر دو غم پڑے ہیں ایک غم تو توشہ دان کے ضائع ہونے کا اور ایک غم حضرت عثمان کی شہادت کا )

【71】

شب ہجرت کا واقعہ اور غار ثور کے محفوظ ہونے کا معجزہ

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ قریش مکہ نے ایک روز رات کے وقت (دارالندوہ) میں اپنی مجلس مشاورت منعقد کی (جس میں ابلیس شیطان بھی ایک نجدی شیخ کی صورت میں شریک ہوا) چناچہ بعض نے یہ مشورہ دیا کہ صبح ہوتے ہی اس شخص کی مشکیں کس لو (یعنی رسیوں سے باندھ کر قید میں ڈال دو ) اس شخص سے مراد نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی تھی، بعض نے یہ رائے دی کہ (نہیں بلکہ اس کو قتل کرڈالو اور بعض نے (حقارت کے ساتھ) یہ کہا کہ اس کو اپنی سر زمین سے نکال کر باہر کرو یعنی جلاوطن کردو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعہ) اپنے نبی ﷺ کو (قریش مکہ کے مشورہ و فیصلہ سے) آگا کردیا (اور حکم دیا کہ آپ ﷺ آج کی رات اپنے بستر پر حضرت علی کو سلادیں اور (ابو بکر کو ساتھ لے کر) مکہ سے نکلے اور غار ثور میں جا چھپے، ادھر قریش مکہ نے یہ سمجھ کر پوری رات علی کی نگرانی میں رات گزاردی کہ وہ نبی کریم ﷺ ہیں (یعنی گھر کے اندر آنحضرت ﷺ کے بستر پر تو حضرت علی سوئے ہوئے تھے اور قریش مکہ آنحضرت ﷺ کو سویا ہوا سجھ کر پوری رات گھر کی نگرانی کرتے رہے) یہاں تک کہ جب صبح ہوئی تو انہوں نے (یعنی قریش مکہ نے) اس (بستر) پر (کہ حضرت علی سوئے ہوئے تھے، آنحضرت ﷺ کا گمان کرکے) دھاوا بول دیا لیکن جب انہوں نے (آنحضرت ﷺ کے بجائے) حضرت علی کو دیکھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بدخواہی کو انہی پر لٹا دیا تو (وہ بڑے سٹپٹائے اور) حضرت علی (رض) سے پوچھنے لگے کہ تمہارا یہ دوست (جس کا یہ بستر ہے یعنی محمد ﷺ کہاں گیا ؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ مجھ کو نہیں معلوم۔ قریش مکہ (صورت حال کو سمجھ کر فوراحرکت میں آگئے اور آپ ﷺ کو ڈھونڈھ کر پکڑ لانے کے لئے) آپ ﷺ کے قدموں کے نشان پر آپ ﷺ کے تعاقب میں نکل پڑے، یہاں تک کہ جبل ثور تک پہنچ گئے مگر وہاں قدموں کے نشان مشتبہ ہوگئے تھے (جس کی وجہ سے ان کو آگے رہنمائی نہیں مل سکی) پھر وہ پہاڑ کے اوپر گئے اور ادھر ادھر ٹوہ لگاتے ہوئے) غار کے منہ پر پہنچ گئے (ان کا گمان تھا کہ آنحضرت ﷺ اس غار میں چھپے ہوں گے) لیکن انہوں نے غار کے اوپر گئے اور ادھر ادھر ٹوہ لگاتے ہوئے) غار کے منہ پر پہنچ گئے (ان کا گمان تھا کہ کہ آنحضرت ﷺ اس غار میں چھپے ہوں گے) لیکن انہوں نے غار کے منہ پر مکڑی کا جالا دیکھا تو کہنے لگے کہ اگر محمد ﷺ اس غار میں داخل ہوئے ہوتے تو اس کے منہ پر مکڑی کا جالا نہ ہوتا (اس طرح وہ لوگ وہاں سے مایوس ہو کر واپس ہوگئے) اور آنحضرت ﷺ تین رات دن اسی غار میں چھپے رہے۔ (احمد ) تشریح آنحضرت ﷺ کی ہجرت کے واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ کو یہ معلوم ہوا کہ محمد ﷺ کی دعوت اسلام مدینہ تک پہنچ گئی ہے اور وہاں کے متعدد لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ہیں تو انہیں سخت تشویش ہوئی، اس مسئلہ پر غور وفکر اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کے لئے ان کے سارے بڑے بڑے سردار اور زعماء دارالندوہ میں جمع ہوئے، عین اس وقت جب کہ ان سرداروں کی مشاورتی مجلس شروع ہونے والی تھی ابلیس ایک بوڑھے اور تجربہ کا رظاہر ہونے والے شخص کی صورت میں اس مشاورتی مجلس میں پہنچا اور بولا کہ میں نجد سے آیا ہوں، جب مجھے تو لوگوں کے اس اجتماع کا علم ہوا تو میری خواہش ہوئی کہ میں بھی تمہارے اس اجتماع میں شریک ہو کر کوئی مناسب اور کار گر رائے پیش کروں بلاشبہ عقل و دانائی اور خیرخواہی میں تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بڑھا ہوا نہیں ہے حاضرین مجلس ابلیس کی اس بات سے بہت متاثر ہوئے اور اس کو عزت و احترام کے ساتھ اپنے درمیان جگہ دی۔ اس کے بعد اس مشاورتی کمیٹی کی کار وائی کا آغاز ہوا اور مختلف لوگوں کی طرف سے اظہار خیال وآراء کا سلسلہ شروع ہوگیا، ابوالبختری نے کہا میری رائے یہ ہم کہ اس شخص محمد ﷺ کو قید کرکے کسی ایسی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند کردو جس میں آمدورفت کو کوئی ذریعہ اور کوئی دروازہ ودر کھلا نہ رہ جائے، صرف ایک ایسا بڑا سوراخ باقی رکھا جائے، جس میں سے اس کے کھانے پینے کی چیزیں ڈال دی جایا کریں اور اس کو اس کوٹھڑی میں اس وقت تک محبوس رکھنا چاہیے جب تک کہ وہ اس میں پڑاپڑا مر نہ جائے۔ یہ سن کر اس شیخ نجدی (کی صورت میں ابلیس نے کہا یہ رائے نہایت غیرموزوں ہے کیونکہ جب تم اس کو قید کروگے تو اس کے خاندان کے لوگ اس کے عزیز و اقا رب تم پر دھاوا بول دیں گے اور جنگ وجدل کے ذریعہ تمہاری قید سے اس کو آزاد کرا کے لے جائیں گے۔ پھر ہشام ابن عمرو نے یہ رائے دی کہ اس شخص کو اچھی طرح ذلیل ورسوا کر کے ایک اونٹ پر سوار کرا دو اور اپنی سر زمین سے باہر نکال دو ، وہ یہاں جلاوطن ہو کر جہاں کہیں جائے گا اور وہاں اپنے دین کی اشاعت میں جو کچھ کرے گا اس سے کم از کم تم لوگ تو محفوظ رہوگے۔ ابلیس نے اس رائے کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ اس طرح تو اس شخص کو کھیل کھیلنے کا خوب موقعہ مل جائے گا اور یہاں سے کہیں اور جا کر اپنی مظلومیت کے قصے سنائے گا اور لوگوں کی اپنی طرف متوجہ کرے گا، اگرچہ یہاں کے لوگ اس کی دعوت سے محفوظ رہیں گے مگر وہ دوسری جگہ کے لوگوں کو اپنا ہمنوا اور ہمدرد بنا لے گا اور پھر ان لوگوں کی مدد سے طاقت پاکر تم پر حملہ آور ہوجائے گا آخر میں لعین ابوجہل بولا اور اس نے رائے دی کہ تم لوگ ہر قبیلہ و خاندان میں ایک ایک نوجوان منتخب کرلو اور ان سب کو تلواریں دے کر کہو کہ وہ سب ایک ساتھ اس شخص پر اپنی تلواروں سے حملہ کرکے اس کا کام تمام کردیں، اس طرح اس کا خون تمام قبیلوں اور خاندانوں میں پھیل جائے گا یعنی اس کے قتل کا کوئی ایک قبیلہ و خاندان ذمہ دار ہونے کے بجائے اجتماعی جنگ کرنے اور اس شخص کے خون کا قصاص لینے سے عاجز ہوں گے۔ اور مجبورًا دیت (خون بہا) لینے پر راضی ہوجائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ دیت طلب کریں گے تو ہم سب مل کر ان کو دیت دے دیں گے اور قصہ تمام ہوجائے گا ابلیس نے اس رائے کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ اس جوان نے بالکل صحیح بات کہی پھر تو سب لوگ ہی ابوجہل کی رائے پر متفق ہوگئے اور یہی طے پایا کہ آج رات بھر محمد ﷺ کے گھر کا محاصرہ رکھا جائے اور صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کرکے قصہ تمام کردیا جائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیج کر قریش کی اس سازشی کاروائی سے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کردیا کہ آپ ﷺ اپنے بستر پر حضرت علی کو سلا کر ابوبکر کے ساتھ ہجرت کے ارادہ سے رات ہی میں مکہ سے نکل جائیں، قرآن کریم کی اس آیت میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ واذ یمکربک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک۔ اور جب (مکہ کے) کافر آپ ﷺ کے بارے میں یہ سازش کر رہے تھے کہ آپ ﷺ کو قید میں ڈال دیں یا آپ کو قتل کردیں یا آپ ﷺ کو جلاوطن کر ڈالیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اپنے بستر پر حضرت علی کو سلادیا اور خود حضرت ابوبکر کو لے کر راتوں رات مکہ سے نکل کر جبل ثور کے ایک غار میں جا چھپے اس وقت جب کہ قریش مکہ کی ایک خونخوار جماعت آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھی، آپ ﷺ کا گھر سے باہر نکلنا اور ان کافروں کا آپ ﷺ کو گھر سے نکلتے ہوئے دیکھنا، پھر ان سے آپ ﷺ کا گفتگو کرنا اور ان کی نظروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے صاف بچ کر نکل جانا ایک حیرت انگیز قصہ اور زبردست معجزہ تھا جس تفصیل تاریخ سیر کتابوں میں مذکور ہے۔ بحرحال قریش مکہ اپنے اس گمان کے مطابق کہ محمد ﷺ گھر کے اندر نہیں سوئے ہوئے تھے رات بھر آپ ﷺ کے گھر کی نگرانی کرتے رہے ان کا منصوبہ تھا کہ پوری رات آپ ﷺ کی نگرانی رکھنے کے بعد صبح سویرے گھر میں گھس پڑیں گے اور آپ ﷺ کا کام تمام کردیں گے حالانکہ گھر کے اندر تو حضرت علی سوئے ہوئے تھے اور آنحضرت ﷺ ان کی نظروں کے سامنے سے باہر نکل گئے تھے، چناچہ صبح ہوتے ہی جب انہوں نے گھر کے اندر دھاوا بول دیا تو وہاں حضرت علی کو دیکھ کر سخت حیران ہوئے اور فورا آپ ﷺ کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے وہ آپ ﷺ کے قدموں کے نشان دیکھ دیکھ کر جبل ثور تک پہنچ گئے اور پھر اس غار کے منہ پر بھی جاپہنچے، جہاں آپ ﷺ حضرت ابوبکر کے ساتھ چھپے ہوئے تھے، اس جگہ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کا معجزہ ظاہر ہوا جس غار کے اندر آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر چھپے ہوئے تھے اس کا منہ صرف ایک بالشت چوڑا اور ایک ہاتھ لمبا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسی وقت دو کبوتر بھیج دئے جنہوں نے غار کے منہ کے نیچے کی جانب انڈے دئیے اور قدرت الہٰی کے حکم سے ایک مکڑی نے آکر جبھی غار کے منہ پر جلا تن دیا، ایسی صورت میں قریش مکہ کے ان گماشتوں کو، جو آنحضرت ﷺ کے تعاقب میں غار تک پہنچ گئے تھے، یہ خیال بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ اس غار کے اندر دو انسان چھپے ہوئے ہیں، لہٰذا وہ اس جگہ سے مایوس ہو کر لوٹ گئے۔ ایک روایت میں تو یہ بھی آیا ہے کہ قریش مکہ کے وہ گماشتے غار کے منہ کے قریب ایسی جگہ پہنچ گئے تھے کہ اگر ان کی نظر اپنے پیروں کی طرف چلی جاتی تو بڑی آسانی سے وہ لوگ آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر کو غار کے اندر دیکھ لیتے، حضرت ابوبکر غار کے اندر سے ان لوگوں کو اپنے سر پر کھڑا دیکھ ہی رہے تھے انہیں آنحضرت ﷺ کے تئیں سخت تشویش ہوئی، چناچہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اپنے خوف کا اظہار کیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ان دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ تعالیٰ ہے (یعنی ہم دونوں یہاں بےیارومددگار نہیں ہیں بلکہ ایک تیسری ذات یعنی اللہ تعالیٰ بھی ہمارے ساتھ ہے جو یقینا ہم دونوں کی حفاظت کرے گا چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو اس طرح بےبصر کردیا کہ وہ غار کے چاروں طرف گھوم گھوم کر دیکھتے تھے لیکن غار کے اندر آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر کو دیکھ نہیں پائے۔ تفسیر بحرالعلوم میں اس آیت ( اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِه لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا) 9 ۔ التوبہ 40) ۔ کے تحت لکھا ہے کہ اس آیت میں صاحب (ساتھی) سے مراد حضرت ابوبکر صدیق ہیں، جو ہجرت کی رات میں اس موقع پر جب کہ کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ کے قتل کا پختہ ارادہ کرلیا تھا، آنحضرت ﷺ کے ساتھ مکہ سے نکلے تھے اور دونوں غار ثور میں جا کر چھپ گئے تھے اس غار میں ابوبکر نے جب دیکھا کہ کفار مکہ غار کے منہ تک آپہنچے ہیں تو آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اگر ان کفار میں کسی نے بھی اپنے پیروں کی طرف سے دیکھا تو اس کی نظر یقینا ہم تک پہنچ جائے گئی، اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ (فکر و تشویش کی کوئی بات نہیں ہے) اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے نیز آپ ﷺ نے فرمایا ابوبکر ان دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ تعالیٰ ہے۔ اور یہیں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی صحابیت کا منکر، نص قرآن کے انکار کے سبب کافر ہے جب کہ دوسرے صحابہ کی صحابیت کا منکر کافر بلکہ مبتدع ہے۔ واقعہ ہجرت کے سلسلہ میں جو روایت حضرت عائشہ (رض) منقول ہے اس میں انہوں نے یوں بیان کیا ہے کہ میرے والدین اپنے زمانہ عقل وبلوغ کی ابتداء ہی سے دیندار تھے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرا تھا کہ آنحضرت ﷺ ہمارے ہاں صبح وشام نہ آتے ہوں، جب مسلمانوں پر کفار مکہ کا ظلم وستم اپنے عروج کو پہنچ گیا تو آنحضرت ﷺ نے (ایک دن) میرے والد حضرت ابوبکر سے فرمایا کہ تمہارا دارالہجرت مجھے دکھایا گیا ہے، وہ دو سنگتانوں کے درمیان کھجوروں کے باغات والی ایک بستی ہے اس کے بعد آنحضرت ﷺ کے حکم سے مسلمانوں کا مدینہ کو ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے والے مسلمان بھی مدینہ آگئے اسی بناء حضرت ابوبکر نے بھی مدینہ کو ہجرت کی تیاری شروع کی لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر ! ابھی توقف کرو، میں امید رکھتا ہوں کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت ملنے والی ہے اس دن سے حضرت ابوبکر کا یہ حال ہوگیا کہ وہ ہر وقت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے کسی موقع پر بھی آپ ﷺ سے جدا نہیں ہوتے تھے، علاوہ ازیں انہوں نے پہلے ہی سے دو اونٹ مہیا کرلئے تھے جو کسی بھی وقت روانگی کی تیاری کے ساتھ چار مہینے تک گھر میں بندھے کھڑے رہے تاآنکہ ایک دن ٹھیک دوپہر میں آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکر کے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو ہجرت کی اجازت مل گئی ہے، حضرت ابوبکر نے ایک اونٹ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا، عائشہ اور اسماء نے زاد راہ تیار کیا اور پھر اسی دن جو ربیع الاول ١٤ نبوی کی تاریخ تھی اور پنجشنبہ کا دن تھا، رات کے وقت آپ ﷺ (اپنے مکان سے نکل کر) حضرت ابوبکر کے گھر آئے اور وہاں سے یہ دونوں روانہ ہو کر جبل ثور کے ایک غار میں جا چھپے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اسی رات میں اس غار کے منہ پر کیکر کا درخت اگ آیا، جنگلی کبوتر نے غار کے منہ پر گھونسلہ بنا کر انڈے دئیے اور مکڑی نے جالا تن دیا، کفار مکہ جب اس غار کے قریب پنچے تو اس کے حصہ پر ایسی عامتیں دیکھ کر جو غار کے اندر کسی شخص کی موجودگی کی نفی کرتی تھیں محروم و مایوس واپس لوٹ گئے۔ نیز جب آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر رات کی تاریکی میں مکہ سے روانہ ہوئے تو پورے راستہ حضرت ابوبکر کبھی آنحضرت ﷺ کے آگے چلتے تھے اور کبھی پیچھے ہوجاتے تھے اور اس کا مقصد اس بات کی نگرانی رکھنا تھا کہ کوئی کافر آگے سے یا پیچھے سے آکر اچانک دھاوا نہ بول دے، پھر جب غار کے قریب پہنچے تو انہوں نے انہوں نے آنحضرت ﷺ کو باہر کھڑا کیا اور پہلے خود غار کے اندر جا کر اس کو صاف کیا اور آنحضرت ﷺ کو غار کے اندر لے گئے، یہ دونوں تین راتیں اسی غار میں چھپے رہے انہیں نے اپنے دونوں اونٹ بن الدئل کے ایک شخص کے حوالہ کرکے اس کو اس بات پر تیار کرلیا تھا کہ وہ تین راتیں گزرنے پر ان اونٹوں کو لے کر غار کے قریب موجود رہے، نیز اس کو معقول معاوضہ دیا گیا اور اس کام کے لئے بھی آمادہ کرلیا تھا کہ وہ مدینہ تک رہبری کے فرائض انجام دے، غار ثور میں قیام کے دوران تینوں راتوں حضرت عبداللہ بن ابوبکر کفار مکہ کے تمام حالات اور دن بھر کی تمام کار روائیوں سے رات کے وقت آکر مطلع کرتے رہے پھر تین راتوں کے بعد یہ دونوں حضرات اپنے اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور اس رہبر کو ساتھ لے کر عام راستہ کے بجائے ساحل سمندر کے ساتھ والے راستہ کے ذریعہ مدینہ کو روانہ ہوئے، جب بنی مدلج کے علاقوں میں پہنچے تو پیچھے سے سراقہ ابن مالک آپہنچا جو قریش مکہ کی طرف سے آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر یا ان دونوں کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لانے کے عوض بھاری انعام کے لالچ میں ان کا تعاقب کررہا تھا، جب وہ دونوں کے قریب پہنچا تو اچانک اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ زمین پر گرپڑا اور پھر اٹھ کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اتنا قریب پہنچ گیا کہ آنحضرت ﷺ کی گفتگو اس کو سنائی دینے لگی اور عین اس وقت کہ وہ دھاوا بولنا چاہتا تھا اس کے گھوڑے کے دونوں پاؤں زانوں تک زمین میں دھنس گئے اور سراقہ الٹے منہ زمین پر گرپڑا اب اس کو تنبہ ہوا اور وہ گڑ گڑا کر امان کی دہائی دینے لگا، آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر اس کی آواز سن کر کھڑے ہوگئے سراقہ نے ان دونوں کی خدمت میں کچھ زاد راہ پیش کرنا چاہا لیکن آنحضرت ﷺ نے قبول نہیں فرمایا البتہ اس کو معاف کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ ہمارے بارے میں کسی کو نہ بتانا چناچہ سراقہ وہاں سے لوٹا اور راستہ میں جو بھی کافر آنحضرت ﷺ کے تعاقب میں آتا ہوا ملتا اس کو تدبیروں سے واپس کردیتا تھا اس طرح آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر بحفاظت تمام مدینہ پہنچ گئے۔

【72】

خیبر کے یہودیوں کے متعلق معجزہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوگیا تو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی بکری بطور ہدیہ پیش کی گئی جس میں زہر ملا ہوا تھا، رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ اس جگہ (خیبر میں) جتنے یہودی ہوں سب کو میرے پاس لایا جائے، چناچہ تمام یہودیوں کو جمع کر کے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا، رسول کریم ﷺ نے ان (یہودیوں) سے فرمایا کیا میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں (اور یہ کہ اگر تم نے میرے سوال کا جواب غلط دیا اور میں نے اس کی تردید کی تو) تم میری اس بات کو باور کروگے ؟ یہودیوں نے کہا ہاں ابوالقاسم (ہم آپ ﷺ کے سوال کا جواب دیں گے اور اگر آپ ﷺ نے ہمارے جواب کی صحیح تردید کی تو ہم اس کو باور کریں گے) پس رسول کریم ﷺ نے ان سے سوال کیا کہ تمہارا باپ (یعنی تمہارا جد اعلی جس کو قبیلہ کا باپ کہا جاتا ہے) کون ہے ؟ یہودیوں نے (آنحضرت ﷺ کو پرکھنے کے لئے اپنے جداعلی کا صحیح نام نہیں بتایا بلکہ غلط طور پر کوئی اور نام لے کر) کہا کہ فلاں شخص ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم غلط کہتے ہو، تمہارا باپ فلاں شخص ہے یہودیوں نے کہا آپ ﷺ نے سچ فرمایا اور بجا فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے ان سے فرمایا۔ اگر میں تم سے سوال کوئی اور کروں (اور تمہارے غلط جواب کی تردید کرتے ہوئے صحیح بات بتاؤں) تو کیا تم میری اس بات کو باور کر لوگے ؟ یہودیوں نے کہا ہاں اے ابوالقاسم ! اگر ہم جھوٹ بولیں گے تو آپ ﷺ کو ہمارا جھوٹ معلوم ہوجائے گا جیسا کہ آپ ﷺ کو ہمارے باپ کے بارے میں (ہمارا غلط جواب) معلوم ہوگیا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا (تو پھر بتاؤ) دوزخی کون ہے ؟ (یہودیوں نے جواب دیا کچھ دن تو ہم لوگ رہیں گے اور پھر جب ہم دوزخ سے باہر آئیں گے تو) ہمارے جانشین تم لوگ ہوں گے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ارے کم بختو، پرے رہو دوزخ کے بارے میں ( اتنی جھوٹ بات مت کہو) اللہ کی قسم ہم دوزخ میں کبھی بھی تمہارے جانشیں نہ ہوں گے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں تم سے کوئی اور سوال کروں۔ (اور تمہارے غلط جواب کی تردید کرتے ہوئے صحیح بات بتاؤں) تو کیا تم میری اس بات کو باور کر لوگے ؟ یہودیوں نے کہا کہ ہاں اے ابوالقاسم ! آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا (اچھا بتاؤ) کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں آپ ﷺ نے پوچھا تمہیں کس چیز نے اس ذلیل حرکت پر اکسایا ہے انہوں نے کہا دراصل ہم نے سوچا تھا کہ اگر آپ ﷺ کا دعوی نبوت جھوٹا ہم تو (یہ زہر آپ ﷺ کی ہلاکت کا سبب بن جائے گا اور ہم کو آپ ﷺ سے نجات اور رحت مل جائے گی اور اگر آپ ﷺ اپنے دعوی میں سچے ہیں تو یہ (زہر) آپ ﷺ کو کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا (بخاری) تشریح ہاں اے ابوالقاسم آپ ﷺ کو مخاطب کرنے کا یہ یہودیوں کا خاص اسلوب تھا، وہ بدنصیب آپ ﷺ کو محمد ﷺ کہہ کر مخاطب نہیں کرتے تھے، کیونکہ یہ مبارک نام تورات اور انجیل میں مذکور اور مشہور تھا جو آپ ﷺ کے دعوی نبوت کی واضح دلیل تھا لہٰذا تعصب اور مخاصمت کی بناء انہیں گوار نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنی زبان سے اس کا نام کا اظہار کریں جو خود ان کی آسمانی کتابوں کی رو سے پیغمبر آخر الزمان ﷺ کی صداقت کی علامت تھا۔ پھر ہمارے جانشین تم لوگ ہوگے یہودی مسلمانوں سے یہی کہا کرتے کہ جنت کے اصل مستحق ہم ہی ہیں، اگر ہم اپنی بدعملی کی وجہ سے دوزخ میں داخل بھی ہوگئے تو وہ چند دنوں کی سزا ہوگی، جب ہم اپنی سزا کی وہ مدت پوری کرکے دوزخ سے نکالے جائیں گے تو پھر تم مسلمانوں کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، جہاں تم لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہوگے ان کی اس بات کو قرآن کریم نے بھی یوں نقل کیا ہے لن تمسنا النار الا ایاما معدودات۔ (یہودی یوں کہتے ہیں کہ) ہم کو صرف گنتی کے تھوڑے دنوں تک دوزخ کی آگ لگے گی۔ یہ گویا ان یہودیوں کا عقیدہ تھا جو حقیقت کے اعتبار سے اعتقاد باطل اور زعم فاسد سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہم وہ اپنے اعتقاد کے مطابق جس بات کو صحیح سمجھتے تھے اور آنحضرت ﷺ کے سوال کا جو جواب ان کے نزدیک صحیح تھا وہی انہوں نے بیان کیا۔ تو یہ زہر آپ ﷺ کو کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا یہودیوں کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ میں نے تو محض امتحان و آزمائش کے جذبہ سے بکری میں زہر ملادیا تھا کہ اگر آپ ﷺ اپنی نبوت کے دعویٰ میں جھوٹے ہوں گے تو اس زہر آلود بکری کا گوشت کھا کر ہلاک ہوجائیں گے اور اس صورت میں ہمیں آپ ﷺ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ ﷺ کو نبی تسلیم کرلیں گے۔ یہ تو یہودیوں کی بات تھی اور وہ اپنے اس قول میں کہاں تک سچے تھے اس کا اندازہ تو اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب زہر نے آنحضرت ﷺ پر کوئی اثر نہیں کیا تو اس کے اپنے کہنے کے مطابق آنحضرت ﷺ کا نبی ہونا سچ ثابت ہوگیا تھا لیکن وہ لوگ نہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے اور نہ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی سے باز آئے۔

【73】

قیامت تک پیش آنے والے تمام اہم وقائع اور حوادث کی خبر دینے کا معجزہ

اور حضرت عمر وبن اخطب انصاری کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور پھر منبر پر چڑھ کر ہمارے سامنے (وعظ) ارشاد فرمایا جس کا سلسلہ ظہر کے وقت تک جاری رہا، پھر منبر سے اتر کر آپ ﷺ نے (ظہر کی) نماز پڑھائی اور پھر منبر پر چڑھ کر وعظ فرمانے لگے یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا، پھر منبر سے اتر کر آپ ﷺ نے (عصر کی) نماز پڑھائی اور پھر منبر پر چڑھ کر وعظ ارشاد فرمانے لگے اور وعظ کا یہ سلسلہ غروب آفتاب پر جا کر ختم ہوگیا (گویا پورا دن وعظ میں گزر گیا) اور (اس وعظ کے دوران) آپ ﷺ نے ان تمام باتوں سے مطلع کیا جو قیامت تک پیش آنے والی ہیں یہ روایت بیان کرنے کے بعد (حضرت عمر وابن اخطب نے کہا) (آج) ہمارے درمیان ان تمام باتوں کو سب سے زیادہ یاد رکھنے والا شخص وہ ہے جو آج کل ہم میں دانا تر ہے۔ (مسلم ) تشریح حضرت عمر و بن اخطب جو ایک انصاری صحابی ہیں، اپنی کنیت ابوزید اعرج کے ساتھ زیادہ مشہور تھے آنحضرت ﷺ کے ساتھ عزو وں میں شریک رہا کرتے تھے۔ منقول ہے کہ ان کو تیرہ عزوؤں میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، ایک دن آنحضرت ﷺ نے ان کے سر پر دست مبارک پھیر کر خوبصورتی کی دعا فرمائی، اس کی برکت ان کو اس طرح حاصل ہوئی، کہ سو سال اوپر ان کی عمر ہوئی اور آخر تک چہرہ گلاب کی طرح تروتازہ رہا سر اور ڈاڑھی کے بال بھی بس چند ہی سفید ہوئے تھے۔

【74】

جنات کی آمد کی اطلاع درخت کے ذریعہ

اور حضرت معن ابن عبدالرحمن تابعی (جو حضرت عبداللہ ابن مسعود کے پوتے ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (حضرت عبدالرحمن (رض) سنا وہ فرماتے تھے کہ جب میں نے (جلیل القدر تابعی) حضرت مسروق سے پوچھا کہ اس رات میں، جب کہ جنات نے قرآن مجید سنا، ان (جنات) کی آمد کی اطلاع نبی کریم ﷺ کو کس نے دی تھی ؟ تو حضرت مسروق نے کہا کہ مجھ سے تمہارے والد یعنی حضرت عبداللہ ابن مسعود نے بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو جنات کے آنے کی خبر ایک درخت نے دی تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح یعنی بطور معجزہ ایک درخت نے اطلاع دی کہ یا رسول کریم ﷺ جنات ایمان لانے اور قرآن سننے کے لئے آئے ہیں چناچہ نبی کریم ﷺ آبادی سے باہر تشریف لے گئے اور ایک جگہ پہنچ کر جنات کو دیکھا اور ان کے سامنے قرآن کریم پڑھا۔

【75】

جنگ سے پہلے ہی مقتول کافروں کے نام ان کی لاشیں گرنے کی جگہوں کی نشاندہی کا معجزہ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ (ایک سفر کے موقع پر) ہم لوگ حضرت عمر ابن خطاب کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان (ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے) کہ وہاں ہم نے نئے مہینے کا چاند دیکھنے کی کوشش کی، میں چونکہ تیز نظر شخص تھا اس لئے میں نے چاند کو دیکھ لیا میرے علاوہ اور کوئی شخص نہیں تھا جس نے یہ کہا ہو کہ اس نے چاند دیکھا ہے میں عمر کو چاند دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے ان سے کہتا تھا کہ کیا آپ کو چاند نظر نہیں رہا ہے (دیکھئے وہ کیا ہے) لیکن وہ چاند کو دیکھ نہیں پا رہے تھے۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ (جب میرے باربار دکھانے پر بھی حضرت عمر کو چاند نظر نہیں آسکا تو) انہوں نے کہا بس رہنے دو ) میں تو عنقریب اپنے بستر پر لیٹا ہوا اس چاند کو دیکھ لوں گا۔ اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے ہمارے سامنے (کافروں میں سے ان) اہل بدر کا ذکر شروع کردیا، جو جنگ بدر میں مارے گئے تھے) اور بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے جنگ سے ایک دن پہلے ہی مارے جانے والے مشرکوں کے مقتول ہونے کی جگہ ہمیں بتادی تھیں چناچہ آپ (ایک ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے) فرماتے تھے کہ (دیکھو) یہ وہ جگہ ہے) جہاں کل انشاء اللہ فلاں مشرک مارا جائے گا اور یہ وہ جگہ ہے جہاں انشاء اللہ فلاں مشرک مرا ہوا پڑا ہوگا (گویا کہ آپ نے اہل اسلام کے ہاتھوں قتل ہونے والے مشرکوں کے نام لے لے کر ان کی نشاند ہی کردی تھیں بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لئے الگ الگ جگہیں تک متعین کر کے بیان کردی تھیں جہان ان مشرکوں کی لاشیں پڑنے والی تھیں پھر حضرت عمر (رض) نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آنحضرت ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا، رسول کریم ﷺ نے جو جگہیں متعین کر کے بیان کی تھیں قتل ہونے والے مشرک ان سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوئے (یعنی آپ ﷺ نے جس مشرک کے بارے میں جو جگہ متعین کر کے بتائی تھی وہ قتل ہو کر ٹھیک اسی جگہ گرا) پھر جب ان مشرکوں کی لاشوں کو ایک کے اوپر ایک کر کے (اس) کنویں میں ڈال دیا گیا (جو پانی لینے کے کام نہیں آتا تھا، تو رسول کریم ﷺ چل کر کنویں پر آئے اور ان (مشرکوں) کے نام لے لے کر (ان) کو مخاطب کیا اور فرمایا ! اے فلاں ابن فلاں اور اے فلاں ابن فلاں کیا تم نے اس چیز کو حق اور درست پایا جس کا تم سے اللہ نے اور رسول نے وعدہ کیا تھا ؟ میں نے تو اس چیز کو حق اور درست پایا جس کا مجھ سے میرے اللہ نے وعدہ فرمایا تھا۔ عمر نے (یہ بیان کیا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو ان مشرکوں کی لاشوں سے اس طرح مخاطب دیکھ کر) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ایسے جسموں سے کس طرح مخاطب ہیں جو روحوں سے خالی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہا ہوں اس کو تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو ہاں وہ جواب دینے کی قدرت نہیں رکھتے (مطلب یہ کہ میری یہ بات جس طرح تم نے سنی ہے اس طرح ان سب نے بھی سنی ہے بس فرق یہ ہے کہ جواب دینے کی قدرت ان کو حاصل نہیں ہے۔ (مسلم) تشریح میں تو عنقریب اپنے بستر پر لیٹا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ ان الفاظ کے ذریعہ دراصل حضرت عمر نے (رض) اس چاند کو دیکھنے کے لئے زیادہ جدوجہد اور کوشش کے غیر ضروری ہونے کی طرف اشا رہ کیا، ان کا مطلب یہ تھا کہ جن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھ لیا ہے ان کی شہادت پر روایت ثابت ہوجائے گی، یا یہ کہ مجھے خود نیا چاند دیکھنا ہی ہوگا تو کچھ دنوں کے بعد یا اگلے دن جب چاند زیادہ بڑا اور زیادہ روشن ہوجائے گا اور آسانی سے نظر آجائے گا تو دیکھ لونگا، اس وقت چاند مجھے نظر نہیں آرہا ہے تو اس کو دیکھنے کے لئے زیادہ تعب اور مشقت اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز ضروری نہ ہو اس کی کھوج کرید میں اپنا وقت اور اپنی طاقت ضائع کرنا ایک لایعنی چیز میں وقت اور طاقت جیسی قیمتی چیز گنوانا ہے۔

【76】

ایک پیش گوئی کے حرف بحرف صادق آنے کا معجزہ

اور حضرت زید ابن ارقم (رض) کی بیٹی حضرت انیسہ اپنے والد (حضرت زید ابن ارقم) سے نقل کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ زید ابن ارقم کی عیادت کو تشریف لے گئے جو بیمار ہوگئے تھے آپ ﷺ نے (ان کو تسلی وتشفی دیتے ہوئے فرمایا اس مرض کا تمہیں کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے (کیونکہ تم بالکل اچھے ہوجاؤ گے) لیکن اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میرے بعد زندہ رہوگے اور تمہاری بینائی جاتی رہے گی ؟ زید ابن ارقم نے عرض کیا میں ثواب کا آرزو مند ہوں گا اور (اپنے رب کے حکم پر) صابر و راضی رہوں گا۔ آنحضرت ﷺ نے (ان کا یہ جواب سن کر) فرمایا پھر تو تم بغیر حساب کتاب کے جنت میں جاؤ گے راوی نے (خواہ وہ حضرت انیسہ ہوں یا ان کے علاوہ دوسرا) بیان کیا ہے کہ زید ابن ارقم نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اندھے ہوگئے تھے، پھر (بہت زمانہ کے بعد) اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی دوبارہ واپس کردی اور پھر ان کا انتقال ہوا۔ تشریح آنحضرت ﷺ کی مذکورہ پیش گوئی حرف بحرف صادق ہوئی کہ جس بیماری میں آنحضرت ﷺ زید کی عیادت کو گئے تھے اس سے صحت یاب ہوگئے پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ان کی بینائی جاتی رہی۔ تاہم آنحضرت ﷺ نے یہ بھی پیش گوئی کرتے وقت زید ابن ارقم کے سامنے ان کی بینائی کے پھر بحال ہونے کا جو ذکر نہیں فرمایا تو اس کی وجہ شاید آپ ﷺ کی یہ خواہش ہوگی کہ اس صورت میں زید ابن ارقم صبر میں زیادہ سے زیادہ تعب اور تکلیف برداشت کریں اور پھر اس کے بعد ان کو زیادہ سے زیادہ اذیت اور پریشانی ہوتی اور نہ ان کو کامل صبر کا وہ مقام نصیب ہوتا جس کے سبب اللہ تعالیٰ کی مدد نصرت ان کو حاصل ہوئی۔

【77】

جھوٹی حدیث بیان کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت اسامہ ابن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے جو شخص (قصداً ) میری طرف کوئی ایسی بات منسوب کرے جس کو میں نے نہ کہا ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں تیار سمجھے اور اس ارشاد گرامی کا بس م نظریہ ہے کہ (ایک مرتبہ) آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو (کچھ لوگوں کی طرف یا کسی شخص کے پاس) بھیجا تھا اس نے آپ ﷺ کی طرف سے کوئی جھوٹی بات بنا کر کہی، (جب) رسول کریم ﷺ (پر یہ منکشف ہوا یا کسی ذریعہ سے آپ ﷺ کو اس بات کی خبر ہوئی تو (آپ ﷺ نے اس شخص کے حق میں بددعا فرمائی، چناچہ وہ شخص (ایک دن) اس حال میں مردہ پایا گیا کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا تھا اور (جب اس کو دفن کیا گیا تو) زمین نے اس کو قبول نہیں کیا۔ دونوں روایتوں کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح روایت کے آخری الفاظ اس بات کی علامت ہیں کہ وہ شخص ہمیشہ کے لئے دوزخی قرار پایا، اس اعتبار سے یہ روایت اس قول کی مؤید ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قصدا آنحضرت ﷺ کی طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرنے والا (یعنی جھوٹی حدیث گھڑنے والا) کافر ہوجا تا ہے۔

【78】

برکت کا معجزہ

اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر کھانا مانگا، آپ ﷺ نے اس کو آدھا وسق جو عطا فرمائے، (اس نے وہ جو لے کر گھر رکھ دئیے اور پھر) نہ صرف خود وہ شخص بلکہ اس کی بیوی اور ان دونوں کے (ہاں آنے جانے والے) مہمان مستقل اسی جو میں سے لے کر کھاتے تھے (لیکن وہ جو ختم نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ ایک دن، اس شخص نے (باقی ماندہ) جوؤں کو ناپا (جس کا اثر یہ ہوا کھ) پھر وہ جو ختم ہوگئے، اس کے بعد وہ شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا (اور صورت حال عرض کی، آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم اس جو کو نہ ناپتے تو تم لوگ ہمیشہ اسی جو میں سے لے کر کھاتے رہتے اور (میری برکت کے سبب) وہ (جوں کے توں) تمہارے پاس باقی رہتے۔ (مسلم )

【79】

مشتبہ کھانا حلق سے نیچے نہیں اتر ا

اور حضرت عاصم ابن کلیب (رح) (تابعی) اپنے والد سے اور وہ ایک انصاری شخص (یعنی ایک انصاری صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا (ایک دن) ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ کی نماز اور تدفین میں شرکت کے لئے گئے (قبرستان پہنچ کر میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ قبر (کے کنارہ) پر بیٹھ گئے اور گورکن کو ہدایت دینے لگے آپ ﷺ اس (گورکن) سے فرماتے تھے کہ پائنتی کی قبر کو کشادہ کردو اور سر کی جانب سے کشادہ کردو۔ پھر جب آپ ﷺ (تدفین سے فارغ ہو کر) واپس ہونے لگے، تو سامنے سے اس شخص نے آکر آنحضرت ﷺ کو میت کی بیوی کی طرف سے کھانے کی دعوت دی جس کو آپ ﷺ نے قبول فرما لیا (چنانچہ آنحضرت ﷺ اس کے گھر تشریف لے گئے اور) ہم بھی آپ ﷺ کے طفیل میں ساتھ ہولئے) جب کھانا لایا گیا تو آنحضرت ﷺ نے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سب لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ بڑھائے اور کھانا کھانے لگے، لیکن پھر (کھانا کھاتے) ہم نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ (نے جو پہلا) لقمہ (منہ میں ڈالا تھا اسی) کو چبائے جارہے ہیں یعنی اپنے منہ میں ادھر ادھر گھما رہے ہیں (ابھی ہم حیرت سے یہ دیکھ ہی رہے تھے کہ) آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اس گوشت کو ایک ایسی بکری کا گوشت محسوس کر رہا ہوں جس کو اس کی مالک کی اجازت و رضا کے بغیر لے لیا گیا ہے۔ اس عورت (کو آنحضرت ﷺ کی اس بات کا علم ہوا تو اس) نے آدمی بھیج کر صورت حال عرض کرائی کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے بکری خریدنے کے لئے ایک آدمی کو نقیع بھیجا تھا۔ وہ (نقیع) ایک جگہ کا نام ہے جہاں بکریوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔ لیکن وہاں بکری دستیاب نہیں ہوئی تو میں نے اپنے ہمسایہ کے پاس آدمی بھیجا جس نے ایک بکری خرید رکھی تھی اور کہلوایا کہ اس نے جس قیمت پر وہ بکری خریدی ہے اسی قیمت پر اس بکری کو میرے ہاتھ فروخت کردے، لیکن وہ ہمسایہ بھی اپنے گھر) نہ ملا۔ تب میں نے اس ہمسایہ کی بیوی کے پاس آدمی بھیجا اور اس نے وہ بکری میرے پاس بھیج دی۔ (یہ تفصیل سن کر) رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ کھانا قیدیوں کو کھلادو۔ اس روایت کو ابوداؤد نے اور دلائل النبوۃ میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔ تشریح ملا علی قاری (رح) نے لکھا ہے کہ میت کے کھانے کے سلسلہ میں فقہاء کے جو اقوال ہیں بظاہر یہ حدیث ان کے خلاف ہے مثلا بزازیہ میں لکھا ہے کہ (میت کے ورثاء کی طرف سے پہلے دن (یعنی موت والے دن) یا تیسرے دن اور ساتویں دن کھانا کھلانا مکروہ ہے، اسی طرح خلاصہ میں مذکور ہے کہ تیسرے دن (تیجا کے نام پر) کھانے کا اہتمام کرنا اور لوگوں کو اس کھانے پر بلانا مباح نہیں ہے۔ زیلعی نے کہا کہ ہم تین دن تک (غم منانے کے لئے) بیٹھنے میں مضائقہ نہیں ہے بشرطیکہ ممنوع چیزوں کا ارتکاب نہ ہو، جیسے بچھونے بچھانا اور دعوت و ضیافت کا اہتمام کرنا۔ نیز ابن ہمام (رح) نے بھی لکھا ہے کہ اہل میت کی ضیافت کرنا مکروہ ہے۔ ان فقہا نے علت یہ بیان کی ہے کہ ضیافت خوشی میں مشروع ہے نہ کہ غمی میں اور ابن ہمام (رح) نے یہ بھی کہا ہے کہ اہل میت کا ضیافت (جو غمی میں دی جائے) بدعت سیہ ہے نیز امام احمد اور ابن ماجہ صحیح اسناد کے ساتھ حضرت جریر ابن عبداللہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ( تدفین کے بعد) میت کے گھر میں لوگوں کے جمع ہونے اور اہل میت کی طرف سے کھانا دیئے جانے کو ہم نوحہ میں شمار کرتے تھے (جس کی سخت ممانعت منقول ہے) پس عاصم ابن کلیب کی روایت کردہ مذکورہ حدیث چونکہ فقہاء کے ان اقوال کے خلاف جاتی ہے اس لئے (اس حدیث اور فقہی روایتوں کے درمیان تطبیق کی خاطر) ضروری ہے کہ فقہا کے اقوال کو یا تو خاص نوعیت کے ساتھ مقید کیا جائے مثلا یہ کہا جائے کہ فقہی روایتوں کے مطابق میت کے گھر لوگوں کو اکٹھا ہونے کی جو ممانعت ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ لوگ محض رسمی طور پر یا ظاہری داری کے لئے میت کے گھر اکٹھا ہوں اور اہل میت کو شرما شرمی ان کے کھانے کا انتظام کرنے پر مجبور ہونا پڑے (جیسا کہ ہمارے ہاں دستور ہے کہ دور قریب کی عورتیں میت کے گھر جا کر ڈھی دیتی ہیں اور میت کے پسماندگان اگر استطاعت نہیں رکھتے تو قرض ادھار کر کے شرما شرمی ان کے کھانے پینے کا انتظام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں) یا ان فقہی روایتوں کو اس صورت میں محمول کیا جائے جس میں کھانے کا انتظام میت کے ترکہ میں سے ہو اور ورثاء میں سے صغیرالسن ہوں یا موجود نہ ہوں اور یا ان کی اجازت ورضا معلوم نہ ہو، یا یہ کہ کھانے کا انتظام کسی شخص نے اپنے ذاتی مال سے نہ کیا ہو بلکہ میت کے اس مال سے جو ورثاء کے درمیان تقسیم نہ ہوا ہو، ان کے علاوہ کچھ دوسری صورتیں بھی ہیں جن میں میت کا کھانا مختلف اسباب کی بنا پر مکررہ ہے (جیسے ہمارے یہاں بعض مقامات پر دستور ہے کہ بعض مقررہ تاریخوں پر یا ان سے آگے پیچھے کھانا پکا کر محض نام آوری کے لئے کھلوایا یا بانٹا جاتا ہے اور بعض لوگ تو قرض ادھار کر کے اس طرح کے اسراف کا مرتکب ہوتے ہیں) نیز قاضی خاں کا یہ قول بھی انہی صورتوں پر محمول ہے کہ غمی اور مصیبت کے دنوں میں ضیافت اور تقریب کا اہتمام کرنا مکروہ ہے کیونکہ وہ دن رنج والم کے اظہار کے ہیں اور جو چیز خوشی ومسرت کے موقع کی غماز ہوتی ہے (جیسے ضیافت اور تقریب کا اہتمام) اس کو غمی کے موقع پر اختیار کرنا نہایت موزوں ہے ہاں اگر (میت کے ثواب پہنچانے کی نیت سے) فقراء کو کھلانے کے لئے کھانے کا اہتمام کیا جائے تو یہ بیشک اچھا عمل ہوگا، جہاں تک اس صورت کا تعلق ہے اگر کوئی شخص یہ وصیت کر جائے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے مال میں سے کھانے کا اہتمام کرکے لوگوں کو تین دن تک کھلایا جائے تو زیادہ صحیح روایت کے مطابق یہ وصیت سرے سے باطل قرار پائے گی، گو بعض حضرات نے کہا ہے کہ وصیت تہائی مال میں جائز ہوگی اور یہی قول زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ یہاں تک جو کچھ نقل ہوا ہے وہ ملاعلی قاری (رح) کے کلام کا خلاصہ ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ انہوں نے فقہی روایتوں کو چند صورتوں پر محمول کرکے باقی اور تمام صورتوں میں اہل میت کی طرف سے کھانے کے اہتمام کو مطلق جائز قرار دے دیا ہے، بلکہ ان صورتوں میں غور کیا جائے، جن کو ممنوع اور مکروہ کہا گیا ہے، تو حقیقت واضح ہوگی کہ میت کے کھانے کی جو بھی صورتیں اور قسمیں ہمارے یہاں رائج ہیں کہ وہ کسی نہ کسی حیثیت سے اور کسی نہ کسی سبب کی بناء پر ممنوع اور مکروہ صورتوں اور قسموں کے دائرہ حکم سے باہر نہیں جاتیں، کہیں ممانعت و کر اہت کا کوئی سبب پایا جاتا ہم اور کہیں متعدد اسباب پائے جاتے ہیں۔ رہی اس حدیث کی بات جس میں آنحضرت ﷺ کا میت کے کھانے کی دعوت قبول کرنے کا ذکر ہے تو اس کی حقیقت خود حدیث میں غور وفکر کے بعد واضح ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہ حدیث میں کھانا کھلانے کی اس صورت کا ذکر ہے جس کے بارے میں قاضی خاں نے لکھا ہے کہ اگر (میت کو ثواب پہنچانے کی نیت سے) فقراء کو کھانا کھلایا جائے تو یہ اچھا عمل ہوگا۔ پس بظاہر یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ حدیث میں جس کھانے کا ذکر ہے وہ دراصل میت کی بیوی نے ایصال ثواب کی نیت سے فقراء اور مساکین کو بطور صدقہ کھلانے کے لئے تیار کیا تھا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں وہ کھانا بطور ہدیہ پیش کیا گیا، اسی بناء پر آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ کہ جو ضرورت مند اور مفلس تھے، میت کے گھر اس کھانے پر تشریف لے گئے علاوہ ازیں بعض فقہاء نے یہ لکھا ہے کہ جو لوگ تجہز وتکفین اور تدفین میں شریک ہوں ان کے لئے اہل میت کی طرف سے پیش کئے جانے والے طعام کو کھانا درست ہے یہی نہیں بلکہ جو فقہاء طعام مصیبت (میت وغیرہ کے موقع پر تیار کئے گئے کھانے) کو مکروہ لکھتے ہیں انہوں نے بھی اس صورت کو مستثنیٰ رکھا ہے لہٰذا میت کے گھر کھانے پر آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جانے کو اس صورت پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ وہ سب تجہزوتکفین اور تدفین میں شریک تھے اس لئے میت کے اہل بیت کی دعوت پر کھانا کھانے چلے گئے۔ اس بحث کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا کہ اس حدیث اور فقہی روایتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے۔ وہو موضع یباع فیہ الغنم۔ (وہ ایک جگہ کا نام ہے جہاں بکریوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے) یہ الفاظ اصل روایت کا جزء نہیں ہے بلکہ کسی راوی نے نقیع کی وضاحت کے لئے روایت میں شامل کئے ہیں واضح رہے کہ نقیع جس کا پہلا حرف نون ہے) مدینہ منورہ سے وادی عقیق کی جانب تقریبا بیس میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے، جہاں قدیم میں بکریوں کی خریدو فروخت ہوتی تھی نقیع اس بقیع کے علاوہ ہے (جس کا پہلا حرف ب ہے اور جہاں مدینہ منورہ کا مشہور قبرستان ہے۔ اور اس نے وہ بکری میرے پاس بھیج دی) میت کی بیوی نے بکری حاصل کرنے کی جو تفصیل بیان کی ہے اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ بکری درست طور پر خرید کر حاصل نہیں کی گئی تھی کیونکہ اس ہمسایہ کی رضامندی کہ جو بکری کا اصل مالک تھا، اس بکری کی فروختگی کے لئے صریحا حاصل نہیں تھی اس بکری کی خریدو فروخت کے مذکورہ معاملہ میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس صورت کے قریب تھا جس کو فقہاء نے بیع فضولی سے تعبیر کیا ہے اور اس صورت میں بیع کا صحیح ہونا مالک کی اجازت کے حصول پر موقوف رہتا ہے بہرحال یہ بات طے تھی کہ اس بکری کا گوشت مشتبہ مال تھا اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس کے گوشت کو آپ ﷺ کے پیٹ میں جانے سے باز رکھا۔ یہ کھانا قیدیوں کو کھلادو۔ میں قیدیوں سے مراد جنگی قیدی ہیں اور جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ وہ مفلس تھے اور جیسا کہ طیبی (رح) نے لکھا ہے کہ وہ کافر بھی تھے۔ مطلب یہ کہ اس وقت چونکہ بکری کا اصل مالک موجود نہیں تھا جس کی اجازت اور رضا مندی حاصل کرکے بکری کی خریداری کو درست قرار دیا جاتا اور اس کے گوشت سے تیار شدہ طعام آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کھانا روا ہوتا اور اگر مالک کے آنے اور دستیاب ہونے کا انتظار کیا جاتا تو یہ طعام خراب ہوجانے کے سبب کسی کے بھی کھانے کے مصرف کا نہ رہ جاتا، ادھر ان قیدیوں کے کھانے کا بھی انتظام کرنا ہی تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے وہ پورا کھانا قیدیوں کو کھلانے کا حکم دے دیا، تاہم اس بکری کے تلف ہونے کی وجہ سے مالک کے لئے اس کی پوری قیمت ادا کرنا اس عورت کے لئے ضروری قرار پایا تھا جس کو کھلانے کا حکم دے دیا، تاہم اس بکری کے تلف ہونے کی وجہ سے مالک کے لئے اس کی قیمت ادا کرنا اس عورت کے لئے ضروری قرار پایا تھا جس کو اس نے ادا بھی کیا لہٰذا اس کھانے کا ان قیدیوں کو کھلانا اس عورت کی طرف سے صدقہ کے حکم میں ہوگیا۔

【80】

ام معبد کی بکری سے متعلق ایک معجزہ کا ظہور

اور حضرت حزام ابن ہشام اپنے (والد حضرت ہشام) سے اور وہ حزام کے دادا (یعنی اپنے والد) حبیش سے جو ام معبد کے بھائی ہیں روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو جب مکہ چھوڑ دینے کا حکم ہوا اور آپ ﷺ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت ابوبکر (رض) کے آزادہ کردہ غلام عامر ابن فہیرہ اور ان دونوں (یعنی آنحضرت ﷺ اور ابوبکر) کو راستہ بتانے والے عبداللہ لیثی (ان چاروں) کا گزر (مدینہ کے راستہ میں ایک جگہ، ام معبد کے دو خیموں پر ہوا (جو اس ویرانے میں قیام پذیر تھیں) ان حضرات نے اہل خیمہ سے کچھ گوشت اور کھجوریں خریدنی چاہیں لیکن ان دونوں کو ام معبد کے پاس ان میں سے کوئی چیز دستیاب نہیں ہوئی کیونکہ اس زمانہ میں عام طور پر لوگ قحط زدگی اور بےسروسامانی کا شکار تھے۔ اتنے میں اچانک رسول کریم ﷺ کی نظر ایک بکری کی طرف گئی، جو خیمہ کی ایک جانب (بندھی کھڑی) تھی، آپ ﷺ نے وہ بکری دیکھ کر) پوچھا کہ ام معبد ! اس بکری کو کیا ہوا ؟ ام معبد (رض) نے جواب دیا اس کے دبلے پن نے اس کو ریوڑ سے الگ کر رکھا ہے (یعنی اتنی کمزور اور لاغر ہے کہ چرنے کے لئے دوسری بکریوں کے ساتھ چراگاہ تک جانے پر قادر نہیں ہے) آپ ﷺ نے پوچھا ! کیا یہ دودھ دیتی ہے ؟ ام معبد نے کہا ! جس مصیبت میں یہ مبتلا ہے اس میں دودھ کہاں سے دے سکتی ہے (مطلب یہ کہ ذرا سا بھی دودھ دینے کی صلاحیت اس میں باقی نہیں ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دوہوں ؟ ام معبد نے کہا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، اگر آپ ﷺ کو اس میں دودھ معلوم ہوتا ہے تو ضرور دوہ لیں (یعنی جب اس میں سرے سے دودھ ہی ہے نہیں تو آپ ﷺ دو ہیں گے ؟ ) رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر بکری کو منگوایا، پھر آپ ﷺ نے اس کے تھنوں پر اپنا دست مبارک پھیرا، بسم اللہ پڑھی اور ام معبد کے لئے ان کی بکری کے تئیں برکت کی دعا فرمائی، چناچہ بکری نے دودھ دینے کے لئے اپنے پاؤں آپ ﷺ کے سامنے کشادہ کردئیے (جیسا کہ دودھ والے جانور کی عادت ہوتی ہے کہ دوہے جانے کے وقت اپنے دونوں پاؤں کو پھیلا دیتا ہے۔ پھر وہ بکری دودھ بہانے اور جگالی کرنے لگی، آپ ﷺ نے ایک اتنا بڑا برتن منگایا جو ایک جماعت کو شکم سیر کرے اور اس برتن میں خوب بہتا ہوا دودھ دوہا یہاں تک کہ دودھ کے جھاگ برتن کے اوپر تک آگئے، اس کے بعد آپ ﷺ نے وہ دودھ (پہلے ام معبد کو پلایا جنہوں نے خوب سیر ہو کر پیا پھر اس کے ساتھیوں کو پلایا وہ بھی اچھی طرح سیر ہوگئے اور پھر سب کے بعد خود آپ ﷺ نے پیا، کیونکہ خود آپ ﷺ کا ارشاد ہے لوگوں کو پلانے والا خود سب کے بعد پیتا ہے) پھر پہلی مرتبہ دوہنے کے بعد (کچھ دیر) بعد آپ ﷺ نے دوبارہ اسی برتن میں دوہا، یہاں تک کہ وہ برتن دودھ سے لبریز ہوگیا اور وہ دودھ آپ ﷺ نے ام معبد کے پاس چھوڑ دیا (تاکہ وہ اپنے خاوند کو بھی یہ معجزہ دکھا دیں) پھر آپ ﷺ نے ام معبد کو مسلمان کیا اور ان کے ہاں سے روانہ ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔ اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں، ابن عبد البر نے استعیاب میں اور ابن جوزی نے کتاب الوفاء میں نقل کیا ہے نیز حدیث میں واقعہ کی اور بھی تفصیل ہے۔ تشریح ام معبد کا اصلی نام عاتکہ بنت خالد خزاعیہ ہے، آنحضرت ﷺ اپنے سفر ہجرت کے دوران ان کے خیمہ میں تشریف لائے تھے اور ان کو حلقہ بگوش اسلام فرمایا تھا ام معبد بڑے مضبوط اعصاب اور قوی دل و دماغ کی مالک خاتون تھیں اور اس ویرانہ میں قیام پذیر تھیں، وہ اپنے خیمہ کے باہر مسند لگا کر بیٹھ جایا کرتی تھی اور ہر راہ چلتے ہر ضرورت مند و مسکین کے کھانے پینے کی ضرورت پوری کیا کرتی تھیں، اس حدیث میں واقعہ کی اور تفصیل بھی ہے اور وہ یہ کہ جب آنحضرت ﷺ ام معبد کے خیمہ سے آگے سفر پر روانہ ہوگئے اور ام معبد کے خاوند ابومعبد نے ( پورا واقعہ بیان کیا اور) نہایت فصیح وبلیغ الفاظ میں آنحضرت ﷺ کے اوصاف و فضائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ نہایت بابرکت ہستی ہمارے خیمہ میں آئی تھی اور یہ دودھ اسی کی مبارک آمد کے طفیل ہے ابومعبد نے (یہ سب کچھ سن کر) کہا ! یقینا وہ ہستی قریش میں سے وہی شخص ہے جس کے بہت سے اوصاف میں نے مکہ میں سنے ہیں۔ اگر میں جانے کی قدرت رکھوں تو واللہ میں اس ہستی کی خدمت میں باریاب ہونے اور اس کی صحبت سے سرفراز ہونے کا قصد رکھتا ہوں۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ جب آنحضرت ﷺ ہجرت کی رات میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو لے کر مکہ سے روانہ ہوگئے اور اہل مکہ یہ معلوم کرنے میں ناکام رہے کہ آنحضرت ﷺ کہاں اور کس طرف گئے ہیں تو ایک مسلمان جبل ابوقیس پر چڑھا اور وہاں زور زور سے کچھ اشعار پڑھنے لگا مکہ کے لوگ حیرت سے اس آواز کو سن رہے تھے، جو ان کے کانوں میں صاف آرہی تھی لیکن وہ آواز جس طرف سے آرہی تھی وہاں ان کو کوئی نظر نہیں آرہا تھا، ان اشعار میں سے دو شعر یہ ہیں۔ جزی اللہ رب الناس خیر جزاہ رفیقین خلاخیمتی ام معبد ہما نزلا بالہدی واہتدیت بہ فقد فازمن امسی رفیق محمد