184. کرامتوں کا بیان

【1】

کرامتوں کا بیان

کرامت کی تعریف کرامات دراصل کرامت کی جمع ہے جو اکرام اور تکریم کا اسم ہے۔ اس لفظ کے لغوی معنی نفیس ہونا عزت دار ہونا اور سخی ہونا کے ہیں لیکن اصطلاحی طور پر کرامت اس خارق عادات فعل (یعنی کرشمہ) کو کہتے ہیں جو مؤمن نیکوکار کے ہاتھ پر ظاہر ہو لیکن وہ نہ نبوت کے دعوے کے ساتھ ہو اور نہ اس کا مقصد کفار کا معارضہ و مقابلہ ہو کیونکہ جو خارق عادات فعل نبوت کے دعوے کے ساتھ ہو اور کفار کے معارضہ و مقابلہ پر ہو اس کو معجزہ کہتے ہیں اہل سنت کرامت کے مقر اور قائل ہیں جب کہ معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں

【2】

کرامت کا اثبات

اہل حق (یعنی تمام اہل سنت والجماعت) کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ولی سے کرامت کا ظاہر ہونا واقعی اور حقیقی چیز ہے۔ ولی اللہ اس نیک بندے کو کہتے ہیں جو حق تعالیٰ کی ذات وصفات کا بقدر طاقت بشری عرفان رکھتا ہو، طاعات (نیکی) کرنے اور منہیات (برائی) کے ترک پر قائم ودائم ہو، دنیاوی لذات و خواہشات میں غیر منہمک ہو اور اتباع سنت وتقویٰ میں بحسب تفاوت مراتب کامل ہو اولیاء اللہ سے کرامتوں کے ظہور و وقوع کا اثبات عقلا تو یوں محال نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز مشکل اور بعید از امکان نہیں ہے، اس کی ذات جس طرح اپنے پیارے پیغمبروں کے ذریعہ معجزوں کا ظہور کرا سکتی ہے، اس طرح اپنے پیغمبر کے سچے تابعداروں اور نیکوکار مؤمنوں کے ہاتھ پر کرامتوں کا ظہور کر اسکتی ہے، جہاں تک نقلا اثبات کا تعلق ہے تو قرآن پاک اور احادیث رسول دونوں میں کرامت کا ثبوت صراحۃ مذکور ہے، پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد کے زمانہ کے اولیا اللہ سے صادر ہونے والی کرامتوں کی روایتیں جس تسلسل کے ساتھ منقول ہیں وہ حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں اور قدر مشترک میں تو تواتر معنی اس درجہ کا ہے کہ اگر صاف ذہن اور کھلے دل و دماغ سے دیکھا جائے تو اس بارے میں کسی کو شک وشبہ اور انکار کی مجال نہیں ہوسکتی، خصوصا بعض اکابر مشائخ طریقت جیسے حضرت سیدنا عبد القادر جیلانی (رح) کی کرامتیں نہ صرف یہ کہ اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں بلکہ وہ اتنے تواتر کے ساتھ منقول ہیں کہ ان کا انکار کوئی عقل کا دشمن ہی کرسکتا ہے، ان کے زمانہ کے بعض مشائخ کا یہ قول منقول ہے کہ سیدنا عبد القادر جیلانی (رح) کی کرامتیں مروارید کی طرح تھیں کہ پے درپے صادر ہوتی تھیں کبھی خود ان کی ذات میں ظاہر ہوتیں اور کبھی ان کی ذات میں ظاہر ہوتیں۔ کرامت کا صدور اختیاری بھی ہوتا ہے اور غیر اختیاری بھی بعض حضرات نے یہ لکھا ہے ولی سے کوئی بھی کرامت اس کے قصد واختیار کے تحت صادر نہیں ہوتی بلکہ بلاقصد واختیار صادر ہوتی ہے انہی بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ کرامت معجزہ کی جنس سے نہیں ہوتی، یعنی جو چیزیں معجزہ کے طور پر ظاہر ہوچکی ہیں جیسے تھوڑے سے کھانے کا بہت ہوجانا اور انگلیوں سے پانی کا ابل پڑنا وغیرہ وہ کرامت کے طور پر ظاہر نہیں ہوتی لیکن اس سلسلہ میں تحقیقی قول یہ ہے کہ کرامت کا قصد واختیار کے تحت بھی صادر ہونا ممکن ہے اور بلاقصد واختیار بھی۔ اسی طرح کا ظہور ان چیزوں کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے جو معجزہ کے طور پر ظاہر ہوچکی ہیں اور ان کے علاوہ دوسری صورتوں میں بھی۔

【3】

دو صحابیوں کی کرامت

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن دو جلیل القدر صحابی) حضرت اسید ابن حضیر اور حضرت عباد ابن بشر (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے اپنے کسی (اہم معاملہ میں گفتگو کر رہے تھے) اور وہ گفتگو اتنی طویل ہوگئی تھی کہ) اس کا سلسلہ ایک ساعت یعنی بڑی رات گئے تک جاری رہا، جب کہ وہ رات بھی نہایت تاریک تھی، جب یہ دونوں حضرات اپنے گھروں کو لوٹنے کے لئے نبی کریم ﷺ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلے تو اس وقت ان دونوں میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں لاٹھی تھی، ان دونوں کی لاٹھی (اچانک) روشن ہوگئی اور اس کی روشنی میں وہ چلنے لگے، یہاں تک کہ جب دونوں کے راستے جدا ہوئے (یعنی اس جگہ پہنچے جہاں سے ہر ایک کے گھر کی طرف الگ الگ راستہ جاتا تھا، تو دوسرے کی لاٹھی بھی روشن ہوگئی اور پھر وہ دونوں اپنی اپنی لاٹھی کی روشنی میں چل کر اپنے اہل و عیال یعنی اپنے گھروں تک پہنچ گئے۔ (بخاری) تشریح بخاری کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں وہ دونوں صحابی اندھیری رات میں آنحضرت ﷺ کے پاس سے اٹھ کر باہر آئے تو اس وقت (ایسا لگا) جیسے ان دونوں کے ساتھ دو چراغ ہیں (جو ان کے راستے کو روشن رکھتے ہوئے ساتھ چل رہے ہیں، پھر جب وہ صحابی (اس جگہ پہنچ کر کہ جہاں سے ان دونوں کے گھروں کو الگ الگ راستے جاتے تھے) ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ایک ایک چراغ ہر ایک کے ساتھ ہوگیا یہاں تک کہ وہ دونوں اپنے اہل و عیال میں پہنچ گئے۔

【4】

جو کہا تھا وہی ہوا

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ جب جنگ احد پیش آئی تو رات میں میرے والد نے مجھے بلایا اور کہا میرا خیال ہے کہ (اس جنگ) میں نبی کریم ﷺ کے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مارے جائیں گے ان میں سب سے پہلے مارا جانے والا شخص میں ہونگا۔ اور اس میں شک نہیں کہ میں اپنے پیچھے ایسا کوئی شخص نہیں چھوڑ رہا ہوں جو مجھے تم سے زیادہ عزیز ہو سوائے رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی کے (یعنی ایک آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی تو ایسی ہے جو مجھے تمام لوگوں سے زیادہ بلکہ خود اپنی جاں سے بھی زیادہ عزیز و محبوب ہے، باقی میرے اپنے پسماندگان میں تم ایسے شخص ہوگے جو مجھ سے زیادہ عزیز ہے، لہٰذا اس خصوصی تعلق کی بناء پر تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ) میرے ذمہ (جو بہت سا) قرضہ ہے، اس کو (جلد سے جلد) ادا کردینا، نیز اپنی بہنوں کے حق (جو نو ہیں) میری یہ وصیت سن لو کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا (حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ اس رات کے بعد) جب صبح ہوئی (اور میدان کار زار گرم ہوا) تو میرے والد ہی شہید ہونے والوں میں سب سے پہلے شخص تھے اور میں نے ان کو ایک اور شخص کے ساتھ قبر میں دفن کیا۔ (بخاری) تشریخ جنگ احد کے شہداء کی تدفین کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے حکم دیا تھا کہ دو دو کو ایک ایک قبر میں دفن کیا جائے۔ چناچہ حضرت جابر (رض) نے اپنے والد کو ایک دوسرے شہید کے ساتھ ایک قبر میں دفن کیا اور وہ دوسرے شہید حضرت عمرو بن الجموع تھے جو حضرت جابر (رض) کے والد کے دوست بھی تھے اور ان کے بہنوئی بھی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت ایک قبر میں دو کو دفن کرنا جائز ہے۔

【5】

کھانے میں اضافہ کا کرشمہ

اور حضرت عبدالرحمن ابن ابوبکر (رض) کہتے ہیں کہ اصحاب صفہ مفلس لوگ تھے (جن کے خوردونوش کا انتظام تمام مسلمان اپنی اپنی حیثیت واستطاعت کے مطابق کیا کرتے تھے، چناچہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ جس شخص کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں شخص کو (اصحاب صفہ میں سے لے جائے یا چھٹے شخص کو بھی لے جائے (یہ سن کر) حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے تین آدمیوں کو لیا اور نبی کریم ﷺ کے ہاں کھانا کھایا اور وہیں (کھانے کے بعد بھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر رہے یہاں تک کہ جب عشاء کی نماز ہوگئی تو وہ (نماز کے بعد بھی اپنے گھر نہیں گئے بلکہ) آنحضرت ﷺ کے گھر چلے آئے اور اس وقت تک خدمت اقدس میں حاضر رہے۔ جب تک کہ نبی کریم ﷺ (تنہا یا اپنے مہمانوں کے ساتھ) کھانا نہیں کھالیا۔ اس طرح حضرت ابوبکر صدیق (رض) جب اپنے گھر پہنچے تو رات کا اتنا حصہ کہ جو اللہ نے چاہا گذر چکا تھا۔ اور اس وقت تک نہ صرف ان کے اہل و عیال بلکہ ان کے مہمان بھی گھر میں بیٹھے ان کا انتظار کرتے رہے، گھر میں ان کے داخل ہوتے ہی ان کی بیوی نے کہا کس چیز نے آپ کو اپنے مہمانوں سے روک رکھا تھا، یعنی آپ نے گھر آنے میں اتنی تاخیر کیوں کی جب کہ یہاں آپ کے مہمان کھانے کے لئے آپ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں حضرت ابوبکر (رض) بولے تو کیا تم نے اب تک مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا ؟ بیوی بولیں ان مہمانوں نے آپ کے آنے تک کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا، تاکہ کھانے میں ان کے ساتھ آپ بھی شریک رہیں حضرت ابوبکر صدیق (رض) یہ سن کر اپنے گھر والوں پر) سخت غصبناک ہوئے کیونکہ ان کو یہ خیال گذرا کہ گھر والوں ہی کی کوتاہی ہے جو انہوں نے اصرار کر کے مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا چناچہ انہوں نے (اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے) کہا کہ اللہ کی قسم میں یہ کھانا ہرگز نہیں کھاؤں گا پھر ان کی بیوی نے بھی قسم کھالی کہ وہ اس کھانے کو (ہرگز نہیں کھائیں گی اور مہمانوں نے بھی قسم کھائی کہ وہ بھی اس کھانے کو (یا تو مطلق یا تنہا) نہیں کھائیں گے بھر چند ہی لمحوں بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) کہنے لگے کہ میرا اس طرح غضبناک ہوجانا اور قسم کھالینا (کوئی موزوں بات نہیں ہے بلکہ) شیطان کے (بہکا دینے کے سبب) سے تھا (جس پر مجھے اب سخت پشیمانی ہورہی ہے اور میں اپنے اللہ سے توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ یہ کہ) انہوں نے کھانا منگایا اور پھر سب لوگوں نے (یعنی خود انہوں نے ان کے گھر والوں نے اور ان کے مہمانوں نے کھانا کھایا۔ (کھانے کے دوران یہ عجیب بات دیکھنے میں آئی کہ) حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے مہمان (برتن سے منہ کی طرف) جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے اس کی جگہ کھانا اور بڑھ جاتا تھا (یعنی جب وہ لوگ لقمہ اٹھاتے تو برتن میں اس لقمہ کی جگہ کھانا کم ہونے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ ہوجاتا تھا، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے (یہ حیرت انگیز بات دیکھ کر) اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہا ارے بنو فراس کی بہن ! ذرا دیکھنا) یہ کیسا عجیب معاملہ ہے۔ بیوی بولیں اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم (میں خود بھی حیرت سے یہی دیکھے جارہی ہوں) یہ کھانے کا برتن جتنا پہلے بھرا ہوا تھا اس سے سہ چند زیادہ اب بھرا ہوا ہے، بہرحال سب نے (خوب سیر ہو کر) کھانا کھایا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے وہ کھانا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھی بھیجا اور بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کھانے میں سے تناول فرمایا (بخاری ومسلم) اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کی (رض) روایت کنانسمع تسبیح الطعام باب المعجزات میں نقل کی جاچکی ہے۔ تشریح نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں مسجد نبوی ﷺ سے متصل اور حجرہ نبوی سے شمالی جانب واقع ایک چبوترہ تھا جس کو صفہ کہا جاتا تھا، جو غریب ومفلس مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہ گھر بار رکھتے تھے اور نہ بال بچے، وہ اس چبوترہ پر شب باش رہتے تھے، اسی نسبت سے ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا تھا، یہ صحابہ اضیاف المسلمین (مسلمانوں کے مہمان) بھی کہلاتے تھے کیونکہ ان کے فقروافلاس اور بےمائیگی کی بناء پر ان کے خوردونوش کا انتظام عام مسلمان اپنی اپنی حیثیت واستطاعت کے مطابق کرتے تھے اور خالص اخلاقی وانسانی بنیاد پر ان کی مہمانداری کے فرائض انجام دیتے تھے۔ جو لوگ کہیں باہر سے مدینہ آتے تھے اگر مدینہ میں ان کے جان پہچان والے ہوتے تو وہ انہی کے ہاں اترتے ورنہ یہی صفہ ان کی امامت گاہ بنتا مشہور صحابہ ابوذر غفاری، عمار ابن یاسر، سلمان فارسی، صہیب، ابوہریرہ، جناب ابن ارت، حذیفہ بن الیمان، ابوسعیدخدری، بشیربن انحصاصیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام ابومویہبہ اصحاب صفہ ہی میں سے ہیں، یا چھٹے شخص کو بھی لے جائے یہ حکم اس پس منظر میں تھا کہ جس شخص کے گھر میں اس کے اہل و عیال کے چار آدمیوں کا کھانا موجود ہو اور وہ یہ سمجھتا ہو کہ وہ کھانا زیادہ سے زیادہ پانچ آدمیوں کی بھوک دفع کرسکتا ہے تو اپنے ساتھ پانچویں آدمی یعنی اصحاب صفہ میں سے ایک شخص کو لے جائے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ چار آدمیوں کا وہ کھانا اتنا ہے کہ چھ آدمی بھی اپنی بھوک مٹا سکتے ہیں تو پھر وہ پانچویں کے بعد چھٹے آدمی کو بھی یعنی اصحاب صفہ میں سے دواشخاص کو اپنے ساتھ لے جائے۔ اس صورت میں لفظ او تنویع کے لئے بھی ہوسکتا ہے اور تخییر کے لئے بھی۔ تاہم یہ احتمال بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ لفظ اوشک کو ظاہر کرنے کے لئے ہے یعنی اصل حدیث کا جز نہیں ہے بلکہ راوی نے اس لفظ کے ذریعہ اپنے شک کا اظہار کیا ہے اور ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لفظ او دراصل بل کے معنی میں ہے جو ضیافت کے باب میں مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مطلب یہ کہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے گویا یہ فرمایا جس شخص کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں شخص کو بلکہ چھٹے شخص کو بھی لے جائے۔ اس وضاحت کی بنیاد وہ تناسب ہے جو ارشاد گرامی جس شخص کے ہاں اپنے اہل و عیال کے لئے دو آدمیوں کا کھانا تو وہ تیسرے آدمی کو لے جانے سے واضح ہوتا ہے اور جس کا تقاضا یہ ہے کہ جس شخص کے ہاں اپنے اہل و عیال کے چار آدمیوں کا کھانا تھا اس کو ایک نہیں دو مہمان کا، لے جانے کا حکم دیا جاتا بلکہ احمد، مسلم، ترمذی اور نسائی نے حضرت جابر (رض) سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہوسکتا ہے دو آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کو کافی ہوسکتا ہے اور چار آدمیوں کا کھانا آٹھ آدمیوں کو کافی ہوسکتا ہے۔ اور اس وقت تک خدمت اقدس میں ظاہر رہے جب تک کہ نبی کریم ﷺ نے کھانا نہیں کھایا۔ یہ جملہ بظاہر عبارتی تکرار ہے یعنی آنحضرت ﷺ کے ہاں کھانے کا ذکر پہلے کیا جا چکا تھا، اب پھر یہاں اسی کو ذکر کر کے از سر نو آگے تک بیان کرنا مقصود ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے تو صرف حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے کھانے کا ذکر کیا گیا تھا کہ انہوں نے گھر میں اپنی بیٹی (حضرت عائشہ) کے پاس بیٹھ کر کھانا کھالیا ہوگا اور یہاں آنحضرت ﷺ کے کھانے کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے عشاء کی نماز کے بعد تنہا یا اپنے ان مہمانوں کے ساتھ کھایاجن کو آپ صفہ سے لے کر آئے تھے۔ انہوں نے کھانا منگایا اور پھر سب لوگوں نے کھانا کھایا یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے پہلے تو کھانا نہ کھانے کی قسم کھالی اور پھر کھانا منگا کر کھا بھی لیا اس طرح انہوں نے قسم کے خلاف کیسے کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے غصہ میں آکر قسم کھالی مگر پھر جب ان کو اپنے غصہ پر پشیمانی ہوئی اور آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کی طرف دھیان کیا گیا کہ اگر کوئی شخص کسی بات پر قسم کھالے اور بعد میں وہی چیز بہتر دکھائی دے جو اس قسم کے خلاف ہو تو اس کو چاہئے کہ قسم کے خلاف عمل کرے لیکن قسم کا کفارہ ادا کردے تو انہوں نے قسم توڑ کر کھانا منگایا اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کردیا۔ ارے بنو فراس کی بہن ! حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس موقع پر اپنی بیوی کو فرط حیرت سے ان کے ابائی قبیلہ کی طرف منسوب کرکے مخاطب اور متوجہ کیا۔ وہ جس قبیلہ سے آبائی تعلق رکھتی تھیں اس کا نام فراس تھا۔ اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم یہ بیوی کا والہانہ انداز تھا جو انہوں نے اپنے محبوب شوہر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے حیرت بھرے خطاب کے جواب میں اختیار کیا۔ لیکن یہ بات اس صورت میں کہی جائے گی جب یہ مانا جائے کہ آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہی تھے۔ کیونکہ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہاں آنکھوں کی ٹھنڈک سے آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی مراد ہے۔ قرۃ العین (آنکھوں کی ٹھنڈک) دراصل عربی کی ایک محاوراتی اصلاح ہے جس سے محبوب کے دیدار اور اس دیدار سے حاصل ہونے والی لذت و خوشی کو تعبیر کیا جاتا ہے ویسے لفظ قرۃ یا قر ق کے پیش اور زبر دونوں کے ساتھ الگ الگ معنی رکھتا ہے لیکن یہ محاوراتی اصطلاح (قرۃ العین) دونوں معنی ! میں صادق آتی ہے کیونکہ اگر ق کے پیش کے ساتھ ( قرہ) ہو تو اس کے معنی خنکی اور ٹھنڈک کے ہوتے ہیں اور محبوب کا دیدار بلاشبہ آنکھ کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ اور اگر یہ لفظ ق کے زبر کے ساتھ قرہ ہو تو اس کے معنی قرار کے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب محبوب نظر کے سامنے آتا ہے تو آنکھ کو گویا قرار آجاتا ہے اور نگاہ روئے محبوب پر اس طرح جم جاتی ہے کہ پھر دائیں بائیں اٹھنے کی روا دار نہیں ہوتی۔

【6】

نجاشی کی قبر پر نور

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ نجاشی کے انتقال کے بعد ہمارے درمیان اس بات کا چرچا ہوتا تھا کہ نجاشی کی قبر پر ہمیشہ نور دکھائی دیتا ہے۔ (ابوداؤد ) تشریح نجاشی سے مراد حبشہ کے دو بادشاہ ہیں۔ جو آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت اپنے ملک کے حکمران تھے وہ پہلے دین نصرانیت (عیسائیت) کے پیرو تھے پھر آنحضرت ﷺ پر ایمان لا چکے اور سچے مسلمان بن گئے تھے، انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی بڑی خدمت کی اور آنحضرت ﷺ کے دل میں اونچی جگہ بنائی، چناچہ جب حبشہ ہی میں ان کا انتقال ہوا اور آنحضرت ﷺ کی یہ خبر ملی تو آپ ﷺ نے انتہائی افسوس کا اظہار کیا اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مدینہ میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ ان کے انتقال کے بعد کا ذکر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرما رہی ہیں کہ مدینہ میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ نجاشی کی قبر پر نور دیکھا جاتا ہے، کیونکہ جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حبشہ آنا جانا ہوتا تھا وہ وہاں ان کی قبر دیکھ کر مدینہ میں آکر یہی بتاتے تھے اور چونکہ سب لوگوں کا کسی غلط بات پر متفق ہونا ممکن نہیں تھا اس لئے یہ بات خبر متواتر کے قریب کی ہے۔ رہی بات کہ نور دکھائی دینے سے کیا مراد ہے تو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی کی قبر پر نور کا اس طرح کھلی آنکھوں مشاہدہ ہوتا تھا جیسے کسی چراغ، چاند اور سورج کی روشنی دیکھی جاتی ہے، تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ نور دکھائی دینا دراصل اس نورانیت تازگی اور روحانی طمانیت کی تعبیر ہے جو اس قبر کی زیارت کرنے والے کو حاصل ہوئی تھی۔

【7】

جسد اطہر کو غسل دینے والوں کی غیب سے رہنمائی

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ (وفات کے بعد) جب نبی کریم ﷺ کے جسد اطہر کو غسل دینے کا ارادہ کیا گیا تو (وہاں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجعمین یا اہل بیت کے درمیان) یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ آیا رسول کریم ﷺ کے کپڑے بھی اسی طرح اتار دئیے جائیں جس طرح ہم ( غسل دینے کے لئے) اپنے مردوں کے کپڑے اتار دیتے ہیں (کہ صرف ستر کے اوپر ایک کپڑا چھوڑ کر باقی پورے جسم کو برہنہ کردیا جاتا ہے، یا آپ ﷺ کو (آپ ﷺ کی خصوصیات کی بناء پر) کپڑوں ہی کے اندر غسل دیدیا جائے ؟ جب (اس سوال پر) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اختلاف رائے کا اظہار ہوا (کہ کچھ لوگوں نے میت کو غسل دینے کے مروجہ طریقہ پر قیاس کرتے ہوئے جسد اطہر پر سے کپڑے اتارنے کا مشورہ دیا اور کچھ حضرات نے جسد اطہر کو برہنہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور سب کا کسی ایک بات پر اتفاق نہیں ہوسکا تو اچانک) اللہ تعالیٰ نے سب پر نیند کو مسلط کردیا اور یہاں تک کہ کوئی شخص ایسا نہیں رہا جس کی ٹھوڑی اس کے سینہ پر نہ آگئی ہو (مطلب یہ کہ نیند کے اچانک غلبہ نے سب کو غافل کردیا اور پھر ان لوگوں نے گھر کے ایک کونے سے کسی ایسے بولنے والے کی آواز سنی جس سے وہ لوگ بالکل ناواقف تھے، وہ کہہ رہا تھا نبی کریم ﷺ کو کپڑوں کے اندر غسل دو چناچہ وہ سب لوگ (یہ آواز سنتے ہی ہوشیار ہوگئے اور) اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ کے جسم مبارک کو کپڑوں ہی کے اندر غسل دیا کہ اس وقت جسد اطہر پر جو کرتا تھا اسی پر پانی ڈالتے جاتے تھے اور کرتے ہی سے بدن کو ملتے جاتے تھے اس روایت کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح علامہ نووی (رح) نے اس ضمن میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ صحیح روایت یہی ہے کہ غسل دیتے وقت جسد اطہر پر جو کپڑا (کرتا) تھا اس کو کفن دیتے وقت اتارا گیا تھا اور یہ روایت ضعیف ہے کہ تکفین کے وقت بھی اس کرتے کو نہیں اتارا گیا تھا بلکہ اس کو کفن کے نیچے ہی رہنے دیا گیا تھا اور یہ روایت، لہٰذا اس روایت سے اسنادواستدلال صحیح نہیں ہے۔

【8】

آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام سفینہ کی کرامت

اور (جلیل القدر تابعی) ابن منکدر (رح) بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ کے آزاد کرتے غلام حضرت سفینہ رومی علاقہ میں لشکر کا راستہ بھول گئے تھے یا دشمن کے ہاتھوں قید کر لئے گئے، پھر دشمن کے قبضہ سے نکل بھاگے اور اپنے لشکر کی تلاش میں لگ گئے اسی دوران (جنگل میں) ان کی مڈ بھیڑ ایک بڑے شیر سے ہوگئی انہوں نے نہ صرف یہ کہ خطرناک شیر کو سامنے دیکھ کر بھی اپنے اوسان بحال رکھے بلکہ اس کو اس کی کنیت کے ذریعہ مخاطب کرکے) کہا اے ابوحارث میں رسول اللہ ﷺ کا آزاد کردہ غلام ہوں اور میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے (کہ میں اپنے لشکر سے بھٹک گیا ہوں، یا یہ کہ دشمن کے ہاتھوں قید ہوگیا تھا، اب ان کے قبضہ سے نکل بھاگا ہوں اور اپنے لشکر کی تلاش میں سرگرداں ہوں، شیر (یہ سنتے ہی) دم ہلاتا ہوا (کہ جو جانور کے مطیع و فرمانبردار ہوجانے کی علامت ہے) ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا اور پھر کسی طرف سے کوئی خوفناک (درندے وغیرہ کی) آواز آئی تو شیر (اس کے دفعیہ کے لئے) اس آواز کی طرف لپکتا اور پھر واپس آجاتا، اسی طرح وہ شیر (ایک محافظ اور رہبر کی مانند) سفینہ کے پہلو بہ پہلو چلتا رہا یہاں تک کہ سفینہ اپنے لشکر میں پہنچ گئے اور شیر واپس چلا گیا۔ (شرح السنۃ ) تشریح یا دشمن کے ہاتھوں قید کر لئے گئے یہاں راوی نے اپنے شک کو ظاہر کیا کہ یا تو یہ صورت حال پیش آئی تھی کہ اس علاقہ میں حضرت سفینہ اسلامی لشکر سے بچھڑ گئے تھے اور اس کی تلاش میں ادھر ادھر سرگرداں تھے یا یہ کہ کہیں موقع پاکر دشمن نے ان کو اچک لیا تھا اور قید میں ڈال دیا تھا۔ سفینہ نام نہیں لقب ہے اور اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس کا اصل نام کیا ہے اور یہ لقب اس لئے مشہور ہوا کہ وہ ایک سفر میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے اور بہت سارا سامان اپنے اوپر لادے ہوئے تھے، اس کے باوجود شرکاء سفر میں سے جو شخص تھک جاتا وہ اپنا سامان بھی ان پر لاد دیتا تھا اور وہ ہنسی خوشی سب کا بوجھ اپنے اوپر لادتے جاتے تھے آنحضرت ﷺ نے ان کو اس حال میں دیکھا تو مزاحًا فرمایا کہ انت السفینۃ (تم تو کشتی ہو) بس اسی دن سے وہ سفینہ کے لقب سے اس طرح مشہور ہوئے کہ لوگوں نے ان کے اصل نام کا پتہ نہیں چلتا تھا، اگر کوئی ان سے پوچھتا کہ تمہارا اصل نام کیا ہے تو وہ جواب میرا نام بس وہی ہے جو میرے آقا نے رکھ دیا تھا یعنی سفینہ۔

【9】

قبر مبارک کے ذریعہ استسقاء

اور مشہور تابعی (رح) ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ خشک سالی کی وجہ سے، مدینہ والے سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے ام المؤمنیں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کا ذکر کیا (تاکہ وہ بارش کی دعا کریں اور کوئی تدبیر بتائیں) حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے کہا ایسا کرو تم نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک پر رجوع کرو اور حجر کی چھت میں سے کچھ سوراخ آسمان کی طرف اس طرح کھول کہ قبر شریف اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے چناچہ لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے کہنے کے مطابق عمل کیا اور پھر جو بارش ہوئی ہے تو ہرا چارہ بھی اتنا نکلا کہ (خوب کھا کھا کر) اونٹ فربہ ہوگئے یہاں تک کہ چربی کی زیادتی سے ان کی کو کھیں پھول گئیں اور اس سال کا نام ہی فتق کا سال پڑگیا۔ (درامی ) تشریح کوئی (ک کے زبر کے ساتھ اور پیش ک ساتھ بھی) دراصل کوۃ (ک کے زبر اور پیش دونوں کے ساتھ) جمع ہے جس کے معنی اس سوراخ یا روشن دان کے ہیں جو گھر کی چھت یا دیوار میں کھلا ہو حضرت عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک جس حجرہ میں اس کی چھت میں اس طرح کے متعدد روشن دان کھول دو کہ قبر شریف اور آسمان کے درمیان کوئی حجاب حائل نہ رہے، تاکہ جب آسمان آپ ﷺ کی قبر شریف دیکھے تو آپ ﷺ کی وفات کے صدمہ کو یاد کر کے روئے، تم پر پانی برسائے اور یہی ہوا کہ جب حجرہ شریف کی چھت میں بڑے بڑے سوراخ کر دئے گئے اور آسمان نے قبر مبارک دیکھی تو رونے لگا اور اس کے رونے کی وجہ سے ندی نالے بہہ پڑے واضح رہے کہ آسمان کے رونے کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے، فرمایا گیا، فمابکت علیہم السمآء والارض۔ اس آیت میں ان لوگوں پر آسمان کے نہ رونے کا ذکر ہے، جو اللہ کے مبغوض بندے تھے، لہٰذا اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندوں کے حق میں اس کے برعکس ہوتا ہے کہ آسمان ان کے لئے روتا ہے اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے مشورہ پر حجرہ شریف کی چھت میں سوراخ کا کھولا جانا دراصل قبر مبارک سے وسیلہ و سفارش حاصل کرنا تھا، مطلب یہ کہ حیات مبارکہ میں تو آنحضرت ﷺ کی ذات مبارکہ کے ذریعہ بارش کے طلب گار ہوتے تھے اور جب ذات مبارک نے اس دنیا سے پردہ فرما لیا استسقاء (طلب بارش) کی ضرورت پیش آئی تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے حکم دیا کہ قبر مبارک کے اوپر سے چھت کھول دی جائے تاکہ رحمت حق جوش میں آئے اور پانی برسنے لگے بارش کی طلب گاری کا ذریعہ بنایا لیکن حقیقت میں آپ ﷺ کی ذات مبارک ہی اس طلبگاری کا ذریعہ اور وسیلہ تھی اور قبر مبارک کی چھت کا کھولا جانا اس طلبگاری کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے اور پریشان حال لوگوں کی اضطراری کیفیت کو ظاہر کرنے کے لئے تھا۔ فتق کے معنی ہیں پھول جانا۔ اور بعض نے اس کے معنی پھٹ جانا اور بعض نے پھیل جانا بھی بیان کئے ہیں مطلب یہ کہ بارش ہوجانے سے قحط کا اثر ختم ہوگیا، چاروں طرف ارزانی ہوئی، جنگل اور کھیت بھی ہریالے ہوگئے اور ہرا چارہ اتنا زیادہ نکلا کہ مویشیوں نے خوب کھایا پیا اور پھر ان میں چربی اور فربہی بھی اتنی زیادہ ہوگئی کہ ان کی کو کھیں پھول گئیں یا ان کے بدن پھیل گئے اور پھٹ گئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا بارش کی طلب گاری میں قبر شریف کے ذریعہ ذات مبارک سے سفارش و وسیلہ حاصل کرنا اور اس کے اثرات کا ظاہر ہونا حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی کرامت تو ہے ہی لیکن حقیقت میں آنحضرت ﷺ کا معجزہ تھا اور ویسے بھی امت کے اولیاء عظام کی کرامتیں پیغمبر امت کے معجزوں میں شمار ہوتی ہیں۔

【10】

ایک معجزہ ایک کرامت

اور حضرت سعید ابن عبد العزیز (رح) جو جلیل القدر تبع تابعین میں سے ہیں اور جو نہ صرف یہ کہ زبردست فقیہ تھے اور حدیث کو صحت کے ساتھ بیان کرنے میں امتیازی حیثیت رکھتے بلکہ بڑے گریاں وترساں بزرگ تھے) بیان کرتے ہیں کہ واقعہ حرہ کے دنوں میں تین روز تک مسجد نبوی ﷺ میں نہ تو اذان دی گئی نہ تکبیر کہی گئی اور نہ حضرت سعید ابن مسیب (رض) مسجد سے باہر نکلنے پائے (کیونکہ ان ایام میں لوگوں کا مسجد میں آنا بالکل بند کردیا گیا تھا) (مسیب ان پر آفات کے دنوں میں) نماز کا وقت صرف اس آہستہ گنگناہٹ جیسی آواز سے شناخت کرتے تھے جو آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک کے حجرہ کے اندر سے آتی ہوئی وہ سنتے تھے۔ (دارمی) تشریح حرہ مدینہ کے باہر اس قطعہ زمین کو کہتے تھے جو کالے پتھروں اور سنگریزوں والا تھا اور واقعہ حرہ سے مراد مدینہ والوں پر یزید ابن معاویہ (رض) کی وہ لشکر کشی ہے جس کے نتیجہ میں مدینہ شہر کو سخت تباہی و بربادی اور اہل مدینہ کو ہیبت ناک قتل و غارت کری کا شکار ہونا پڑا تھا یہ المناک واقعہ تاریخ اسلام کے سخت ترین واقعات میں ہے۔ اس کے درد ناک حالات کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلسل تین دن تک مسجد نبوی اذان وتکبیر سے محروم رہی۔ یزید کا لشکر چونکہ اسی حرہ کی طرف سے مدینہ پر حملہ آور ہوا تھا اس لئے اس کو واقعہ حرہ سے موسوم کیا جاتا۔ حضرت سعید ابن مسیب (رح) اونچے درجہ کے تابعین میں سے تھے، بڑے فقیہ محدث عابد اور متقی۔ انہوں نے چالیس حج کئے تھے ٩٣ ھ میں ان کا انتقال ہوا۔

【11】

حضرت انس کی کرامت

اور حضرت ابوخلدہ (رح) (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے (بزرگ تابعی) حضرت ابوالعالیہ (رح) سے پوچھا کیا حضرت انس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے حدیثیں سنی ہیں ؟ حضرت ابوالعالیہ (رح) نے جواب دیا حضرت انس (رض) کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں دس سال رہنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ نیز ان کو نبی کریم ﷺ کی دعا لگی ہوئی تھی، ان کا جو باغ تھا اس میں سال کے اندر دو دفعہ پھل آتے تھے اور اس باغ میں جو پھول تھے ان سے مشک کی خوشبو پھوٹتی تھی اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تشریح حضرت ابوخلدہ (رح) نے حضرت انس (رض) کے بارے میں حضرت ابوالعالیہ (رض) سے سوال کیا اس کا کیا مطلب یہ تھا کہ حضرت انس (رض) جو حدیثیں روایت کرتے ہیں وہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے بلاواسطہ اور براہ راست سنی ہیں یا وہ مرسل رواتیں ہیں اگرچہ مرسل روایتوں کی حجیت میں کسی کو کئی کلام نہیں ہے ؟ اس سوال کے بین السطور سے یہ بات جھلکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد کچھ لوگوں کو حضرت انس (رض) کو روایت کے بارے میں ترد ہوا ہوگا حضرت ابوالعالیہ (رح) نے جو بزرگ تابعین میں سے تھے ابوخلدہ (رح) کا جواب براہ راست نہیں دیا بلکہ انہوں نے وہ بات بتائی جس سے حضرت انس (رض) کی اہمیت شان واضح ہوتی ہے انہوں نے نے کہا کہ حضرت انس (رض) نے جو دس سال کی عمر یا بعض روایتوں کے مطابق آٹھ سال کی عمر میں آنحضرت ﷺ کی خدمت کے لئے وقف کر کردئیے گئے تھے مسلسل دس سال تک آپ کی خدمت کی اور یہ ان کی والہانہ اور مخلصانہ خدمت گذاری ہی کا مبارک صلہ تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے حق میں عمر اور مال کی برکت کی دعا فرمائی تھی اور اس دعا کے اثر سے ان کو ایک سو تین سال کی عمر حاصل ہوئی، اللہ نے ان کو کثرت اولاد سے بھی اس طرح نوازا کہ ان کے تہتر تو لڑکے تھے اور ستائیس لڑکیاں۔ ان کے یہاں مال میں برکت کا یہ حال تھا کہ دوسروں کے باغات تو سال میں ایک مرتبہ پھل دیتے تھے لیکن ان کے باغ کے اندر سال میں دو دفعہ پھل آتے تھے۔ ان کی عظمت شان کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے باغ میں جو پھول کھلتے تھے ان سے مشک کی خوشبو پھوٹا کرتی تھی، لہٰذا واضح ہوا کہ جس ہستی کو ایسا مرتبہ ملا ہو، جس کو اتنے طویل عرصہ تک آنحضرت ﷺ کی خدمت وملازمت میں رہنے اور شرف صحبت حاصل کرنے کی سعادت ملی ہو اس آنحضرت ﷺ سے براہ راست حدیثیں کیسے نہیں سنی ہوں گی اور وہ حدیثین روایت کیوں نہیں کرے گا۔

【12】

حضرت سعید ابن زید کی کرامت

حضرت عروہ ابن زبیر بن العوم (رض) (جو اونچے درجہ کے تابعین میں سے ہیں اور عشرہ مبشرہ میں کے ایک مشہور صحابی حضرت زبیر بن العوام (رض) کے بیٹے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ (ایک عورت) اروی بنت اوس کو حضرت سعید بن زید بن عمرو ابن نفیل سے مخاصمت ہوئی اور ان کے خلاف استغاثہ لے کر مروان ابن حکم کی عدالت میں گئی (جو حضرت معاویہ (رض) کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، اروی نے دعوی کیا کہ سعید ابن زید نے میرا ایک قطعہ زمین (زبردستی دبالیا ہے حضرت سعید (رض) نے یہ دعوی سن کر اس کو بعید از امکان قرار دینے کے لئے) کہا رسول کریم ﷺ کا ارشاد سننے کے بعد بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس عورت کی زمین دبا لونگا۔ مروان نے پوچھا تم نے رسول اللہ ﷺ صلی اللہ ﷺ سے کیا سنا ہے ؟ حضرت سعید نے بیان کیا میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی بالشت بھر زمین بھی زبردستی ہتھیا لے گا تو (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اس زمین کے ساتوں طبقوں کو طوق بنا کر اس شخص کے گلے میں ڈالے گا، مروان نے (یہ سن کر) حضرت سعید (رض) سے کہا کہ اس دلیل کے بعد میں اس کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا کہ تم سے گواہ طلب کروں تاہم حضرت سعید (رح) نے (زمین کا وہ قطعہ اس عورت کے حق میں چھوڑ دیا اور) کہا اے اللہ ! یہ عورت اگر جھوٹی ہے تو اس کی بینائی چھین لے اور اس کو اسی زمین میں موت دے۔ حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ مرنے سے پہلے وہ عورت اندھی ہوگئی تھی اور ایک دن اسی (مذکورہ) زمین پر چل رہی تھی کہ اچانک ایک گہرے گھڑے میں گری اور وہی مرگئی (بخاری ومسلم ) اور مسلم کی ایک اور روایت میں، جو حضرت ابن زید ابن عبداللہ ابن عمر (رح) (تابعی) سے اس روایت کے ہم معنی منقول ہے یوں ہے کہ انہوں نے (یعنی محمد ابن زید نے ایک دن) دیکھا کہ وہ عورت، جو اندھی ہوچکی تھی (ایک دیوار کے سہارے) ٹٹولتی ہوئی چل رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ مجھے سعید ابن زید کی بددعا کھا گئی اور پھر یہ ہوا کہ (ایک دن) جب وہ اس کنویں (یعنی گہرے گڑھے) کے پاس سے گذر رہی تھی جو اسی مذکورہ زمین پر واقع گھر میں تھا تو اچانک اس میں گر کر مرگئی اور وہی کنواں (گڑھا) اس کی قبر بن گیا۔ تشریح حضرت سعید ابن زید عشرہ مبشرہ یعنی ان دس جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک ہیں جنہیں آنحضرت ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت عطا فرما دی تھی، یہ حضرت عمر فاروق (رض) کے بہنوئی اور بڑے باکرامت ومستجاب الدعوات تھے اروی کے بارے میں یہ تحقیق سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کوئی صحابیہ تھی یا تابعیہ بہرحال اس عورت نے مروان حاکم مدینہ کی عدالت میں حضرت سعید ابن زید (رح) کے خلاف یہ جھوٹا دعوی دائر کیا کہ انہوں نے زبردستی کر کے میری زمین کا کچھ حصہ دبالیا ہے جب کہ حقیقت میں وہ زمین حضرت سعید ابن زید کی اپنی جائز ملکیت اور قبضے میں تھی چناچہ انہوں نے اس جھوٹے دعوے پر سخت حیرت اور استبعاد کا اظہار کیا اور مروان کے سامنے کہا کہ جس شخص نے کسی کی زمین ہتھیانے کی وعید آنحضرت ﷺ سے خود سن رکھی ہو بھلا وہ کیسے جرأت کرسکتا ہے کہ کسی کی زمین پر زبردستی قبضہ کرلے۔ مروان نے حضرت سعید (رح) سے اس وعید سے متعلق حدیث سننے کی خواہش ظاہر کی، حضرت سعید (رح) نے وہ حدیث جس کو انہوں نے خود براہ راست آنحضرت ﷺ سے سنا تھا بیان کردی۔ مروان کو حضرت سعید (رح) کی سچائی کا یقین ہوگیا اور اس وقت اس نے حضرت سعید (رح) اللہ تعالیٰ علیہ سے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے تمہارے سچا ہونے کا پورا یقین ہے کیونکہ میں تمہاری اندرونی زندگی تک جانتا ہوں، تم کسی پر ظلم کر ہی نہیں سکتے اور پھر تم سے یہ حدیث سننے کے بعد تو اس کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کہ عدالتی طور پر تمہاری بات تسلیم کرنے کے لئے تم سے کوئی گواہ طلب کروں۔ یا مروان کا مطلب یہ تھا کہ تمہاری روایت حدیث میں مجھے کوئی شک نہیں ہے اور نہ اس حدیث کو صحیح ماننے کے لئے میں کسی اور راوی کی بھی روایت کا محتاج ہوں، تم خود اپنی معروف حیثیت کے اعتبار سے دو راویوں بلکہ اس زائد راویوں کے برابر ہو۔ غرضیکہ مروان نے اس عورت کا دعوی کردیا۔ مگر جیسا کہ کرمانی نے لکھا ہے اور خود روایت سے بھی مفہوم ہوتا ہے، حضرت سعید (رح) نے احتیاطا اس زمین سے دست کشی اختیار کر کے اسی عورت کے قبضہ میں جانے دی جس نے اس زمین کا دعوی کیا تھا، تاہم انہوں نے بد دعا ضرور کی کہ وہ عورت اگر جھوٹی ہے تو اسی دنیا میں اپنے جھوٹ کی سزا پائے اور دنیا والوں کی نظر میں اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بد دعا کا اثر ظاہر کیا اور جیسا کہ حضرت سعید (رح) نے کہا تھا وہ عورت مرنے سے پہلے اندھی بھی ہوگئی اور وہی زمین اس کی قبر بھی بنی جب وہ اس زمین میں واقع گھر کے اندر، ایک کنویں نما گڑھے میں گر کر مرگئی تو کسی نے اس کی لاش نکال کر علیحدہ سے دفن کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔

【13】

حضرت عمر کی کرامت

اور حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے (ایران کے صوبہ ہمدان کے جنوب میں واقع مقام نہاوندہ کو) جو لشکر بھیجا تھا) اس (کے ایک حصہ فوج) کا سپہ سالار ساریہ نامی شخص کو بنایا تھا، (ایک دن) جب کہ فاروق اعظم (مسجد نبوی میں) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے (اور حاضرین میں اکابر صحابہ حضرت عثمان اور حضرت علی (رض) کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین عظام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم بھی تھے) تو انہوں نے (دوران خطبہ) اچانک چلاچلا کر کہنا شروع کیا کہ ساریہ ! پہاڑ کی طرف جاؤ (یعنی میدان جنگ کا موجودہ مورچہ چھوڑ کر پہاڑ کے دامن میں چلے جاؤ اور پہاڑ کو پشت بنا کر کے نیا مورچہ بنا لو) لوگوں کو یہ سن کر بڑا تعجب ہوا اور پھر جب (چند دنوں کے بعد) لشکر سے ایک ایلچی آیا اور اس نے (میدان جنگ کے حالات سنا کر) کہا کہ امیر المؤمنین ! دشمن نے تو ہمیں آلیا تھا اور ہم شکست سے دوچار ہوا ہی چاہتے کہ اچانک (ہمارے کانوں میں ایک شخص کی آواز) جو چلا چلا کر کہہ رہا تھا ساریہ ! پہاڑ کی طرف جاؤ چناچہ (یہ آواز سن کر) ہم نے (اپنا وہ مورچہ چھوڑ دیا اور پہاڑ کی سمت جا کر) پہاڑ کو اپنا پشت بان بنالیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کو شکشت دی (اس روایت کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ جب لوگوں نے خطبہ کے دوران حضرت فاروق اعظم (رض) کو اس طرح بآواز بلند ساریہ کو مخاطب کرتے سنا تو حیرت زدہ ہو کر کہا کہ یہاں ساریہ کو پکار رہے ہیں وہ تو (سینکڑوں میل دور) نہاوند کے مقام پر دشمن کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہے ؟ فاروق اعظم (رض) نے فرمایا دراصل میں نے ایسا ہی منظر دیکھا کہ مسلمان مصروف جنگ ہیں اور ان کے لئے پہاڑ کو پشت بان بنا لینا نہایت ضروری ہے۔ اس لئے بےاختیار میری زبان سے یہ الفاظ نکل گئے جب ساریہ کا خط اور ایلچی آیا تو ٹھیک جمعہ کے روز عین نماز جمعہ کے وقت اس تاریخ کا وقعہ اس خط میں لکھا ہوا تھا اور ایلچی نے زبانی بھی بیان کیا۔ اس ایک واقعہ سے حضرت عمر فاروق (رض) کی کئی کرامتیں ظاہر ہوئیں، ایک تو یہ کہ انہوں نے جنگ نہاوند کا منظر سینکڑوں میل دور مدینہ میں دیکھا، دوسرے یہ کہ ان کی آواز جو مدینہ میں بلند ہوئی تھی سینکڑوں میل دور نہاوند کے مقام تک پہنچی اور وہاں سب اہل لشکر نے اس کو سنا اور تیسرے یہ کہ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں اہل اسلام کو فتح عطاء فرمائی۔

【14】

کعب بن احبار کی کرامت

اور حضرت نبیہ ابن وہب (رح) (تابعی) بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت کعب احبار (رض) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جب اس مجلس میں رسول کریم ﷺ (کی بعض صفات و خصوصیات یا آپ ﷺ کے وصال کے حالات کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کوئی دن ایسا نہیں گذرتا کہ طلوع فجر سے ہی ستر ہزار فرشتے آسمان سے اتر تے ہیں اور وہ (فرشتے) رسول کریم ﷺ کی قبر شریف کو گھیر لیتے ہیں اور (قبر کے اوپر سے گردوغبار صاف کرنے کے لئے یا انوار قبر سے برکت حاصل کرنے کے لئے) اپنے پروں کو قبر شریف پر مارتے ہیں اور رسول کریم ﷺ پر درود پڑھتے رہتے ہیں یہاں تک جب شام ہوتی ہے تو وہ فرشتے آسمان پر چلے جاتے ہیں اور (انہی کی طرح ستر ہزار) دوسرے فرشتے اترتے ہیں، جو ان (دن والے فرشتوں) کی طرح صبح تک یہی کرتے ہیں (یعنی قبر شریف کو گھیر لیتے ہیں اور اس پر اپنے پر مارتے ہیں اور درود پڑھتے رہتے ہیں، یہ سلسلہ (یعنی ہر روز صبح شام اس طرح ستر ہزار فرشتوں کا اترنا) اس وقت جاری رہے گا جب کہ (قیامت کے دن صور پھونکا جائے گا اور) قبرشریف شق ہوگی اور آپ ﷺ قبر سے اٹھیں گے اور ستر ہزار فرشتے (اپنے جلو میں لے کر) محبوب کو حبیب تک پہنچائیں گے۔ تشریح حضرت کعب احبار (رح) کبار تابعین میں سے ہیں، ویسے انہوں نے آنحضرت ﷺ کا زمانہ پایا تھا لیکن آپ ﷺ کو دیکھا نہیں مسلمان حضرت عمر فاروق کے زمانے میں ہوئے تھے۔ فرشتوں کے اترنے کی یہ بات حضرت کعب (رح) کو یا تو سابقہ آسمانی کتابوں میں مذکور پیشین گوئیوں سے معلوم ہوئی ہوگی یا انہوں نے پہلے زمانے کے بڑے بوڑھوں اور سابقہ کتابوں کے عالموں سے سنی ہوگی اور یا یہ کہ خود ان کا کشف اور کراماتی مشاہدہ ہوگا اور یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوئی ہے کیونکہ اس سے ان کی کرامت ظاہر ہوئی ہے۔