185. نبی ﷺ کی وفات کا بیان

【1】

نبی کریم ﷺ کی وفات کا بیان

مشکوٰۃ المصابیح کے اکثر نسخوں میں صرف باب کا لفظ منقول ہے ایک نسخہ میں باب وفات النبی ﷺ کے الفاظ ہیں جن سے باب کے موضوع کا اظہار ہوتا ہے اور یہی زیادہ صحیح اور زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ مؤلف مشکوٰۃ کا معمول یہ ہے کہ وہ صرف باب کا لفظ اس موقع پر لاتے ہیں جہاں پچھلے باب سے تعلق رکھنے والی بقیہ حدیثوں کو نقل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جب کہ یہاں ایسی صورت نہیں ہے اس باب میں جو احادیث نقل کی گئی ہیں وہ سابقہ باب سے کوئی نسبت اور تعلق رکھنے کے بجائے ایک مستقل موضوع یعنی آنحضرت ﷺ کے وصال کے حالات سے متعلق ہیں نیز اس باب کے بعد جو باب آرہا ہے وہاں مؤلف نے موضوع کا ذکر کئے بغیر صرف باب کا لفظ لکھ دیا ہے اور اس باب میں اسی باب کے موضوع یعنی نبی کریم ﷺ سے متعلق احادیث منقول ہیں، اس بات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہاں باب کا ذکر اپنے موضوع یعنی نبی کریم ﷺ کی وفات کے اظہار کے ساتھ ہو اگلا باب موضوع کے اظہار کے بغیر ہو جس میں اس باب سے متعلق بقیہ احادیث منقول ہوں۔

【2】

مرض الموت کی ابتدا

آنحضرت ﷺ کے مرض الموت کی ابتداء کس دن ہوئی، اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ایک قول یہ ہے کہ ہجرت کے گیارھویں سال ماہ صفر کے آخر میں ٢٧ یا ٢٨ تاریخ کو درد سر کے شدید حملہ سے آپ ﷺ کے مرض الموت کا آغاز ہوا ایک روایت کے مطابق محرم کے مہینے ہی میں آپ ﷺ پر بخار کا حملہ ہوگیا تھا ، ٢٦ صفر کو بیماری سے کسی قدر آفاقہ محسوس ہوا تھا اور ٢٨ صفر ہی کو پھر بیماری میں اشتداد ظاہر ہوگیا، ایک روایت ہے کہ مرض الموت کا آغاز ماہ ربیع الاول میں شروع ہوا۔ ابن جوزی کی کتاب الوفاء میں یہ لکھا ہے کہ آپ ﷺ کے مرض وفات کا آغاز ماہ صفر کی اس تاریخ کو ہوا۔ جب کہ مہینہ ختم ہونے میں دس راتیں باقی تھیں اور آپ ﷺ کا وصال ١٢ ربیع الاول کو ہوا سلیمان تیمی نے جو ایک ثقہ اور انتہائی قابل راوی ہیں اپنا یہ یقین بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے مرض الموت کی ابتداء بدھ کے دن ٢٢ صفر کو ہوئی اور آپ ﷺ پیر (دوشنبہ) کے دن ربیع الاول کی دوسری تاریخ کو ہوا بہت سے علماء اس قول کو اگرچہ اس بناء پر قابل ترجیح کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراء (رض) کا انتقال رمضان المبارک کی تیسری تاریخ کو ہوا تھا اور تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت فاطمہ الزہراء (رض) کی وفات آنحضرت ﷺ کے وصال کے ٹھیک ٹھیک چھ ماہ بعد ہوئی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر روایتوں میں آپ ﷺ کی تاریخ وفات ١٢ ربیع الاول ہی منقول ہے۔

【3】

سختی مرض

شدید درد سر اور بخار کی صورت میں جو مرض لاحق ہوا تھا وہ بڑھتا گیا، شدت مرض سے آپ کے کرب کا یہ حال ہوتا تھا کہ بستر پر پڑے پڑے کروٹ پر کروٹ بدلتے بدلتے مگر کسی صورت چین نہیں ملتا تھا، اس وقت آپ ﷺ فرماتے تھے کہ بیماری جتنی سخت ہم لوگوں یعنی انبیاء کی ہوتی ہے اتنی سخت کسی کی نہیں ہوتی اور اس میں شبہ نہیں کہ اجروثواب بھی ہمیں ہی زیادہ ملتا ہے۔ اپنی اس بیماری کے دوران آنحضرت ﷺ نے چالیس غلام آزاد کئے اور علاوہ تین روز کے پوری مدت مرض اپنے صحابہ کرم رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتے رہے بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ آپ ﷺ سترہ نمازیں نہیں پڑھائیں اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں آخری تلقین و نصیحت روایتوں میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنے مرض الموت میں سب سے زیادہ جس چیز کی نصیحت فرمایا کرتے تھے ان میں سے ایک تو یہ تھی کہ نماز سے غافل مت ہونا اور دوسری یہ تھی کہ اپنے غلاموں اور اپنی باندیوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا معاملہ کرنا وفات کے دن فجر کے وقت آپ ﷺ حجرہ شریف سے نکل کر مسجد میں آئے اور حضرت ابوبکر (رض) کی امامت میں فجر کی نماز ادا کی، بعد نماز آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آخری بار خطاب کیا اور فرمایا مسلمانو ! میں تم لوگوں کو اللہ حافظ کہتا ہوں اور تم سب کو اللہ کی حفاظت میں دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ ہی تمہارے حق میں میرا خلیفہ یعنی بہتر کا رساز ہے اب چونکہ میں دنیا چھوڑ رہا ہوں اور تم سے جدا ہو رہا ہوں اس لئے تمہیں یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ تقویٰ (پرہیزگاری اختیار کرنا اور نیک کاری کو ہمیشہ مدنظر رکھنا۔

【4】

مرض الموت کے دوران

مرض وفات کے دوران جو بعض غیر معمولی واقعات پیش آئے ان میں سے یہ بھی ہے کہ پنجشنبہ کے دن جب کہ آپ ﷺ پر بیماری کا شدید غلبہ تھا، آپ ﷺ نے ایک وصیت نامہ لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف (رض) سے فرمایا کہ بکری کے شانہ کی ہڈی (کہ جو چوڑی ہونے کے سبب لکھنے کے لئے زیادہ پسند کی جاتی تھی، یا کوئی تختہ لے آؤ تاکہ میں اس پر ابوبکر صدیق کے لئے وصیت لکھ دوں۔ حضرت عبدالرحمن آپ ﷺ کے فرمانے کے مطابق ہڈی یا تختہ لانے کے لئے اٹھنا ہی چاہتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اچھا رہنے دو اب ضرورت محسوس نہیں کرتا (مجھے یقین ہے کہ) اللہ اور مسلمان ابوبکر کے حق میں اختلاف نہیں کریں گے (مطلب یہ کہ ابوبکر کی خلافت کو اللہ تعالیٰ بھی پسند فرمائے گا اور تمام مسلمان بھی متفقہ طور پر ان کے ہاتھ بیعت کرلیں گے ) منقول ہے کہ (جب آنحضرت ﷺ کی حالت زیادہ بگڑی تو) حضرت عباس (رض) نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہا عبد المطلب کے اولاد کے چہروں کی مجھے شناخت ہے کہ آثار موت ان پر کس طرح ظاہر ہوتے ہیں میں ڈر رہا ہوں کہ آنحضرت ﷺ اس بیماری سے شاید اب جان بر نہ ہو سکیں، لہٰذا میری رائے ہے کہ (اس وقت کو غنیمت جانو اور) آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس چیز (یعنی خلافت) کا مطالبہ کرو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جواب دیا کہ آپ جانتے ہیں کہ اگر میں آنحضرت ﷺ سے یہ چیز مانگوں اور آپ ﷺ نہ دیں تو کیا پھر بھی لوگ مجھے یہ چیز دیدیں گے ؟ (مطلب یہ کہ خلافت کا مسئلہ عام مسلمانوں کی رائے اور ان کے اتفاق سے تعلق رکھتا ہے اگر مجھے یہ یقین ہوتا کہ تمام مسلمان ہر حالت میں مجھے ہی ترجیح دینگے تو میں آنحضرت ﷺ سے بھی طلب گار ہوجاتا، لیکن جب میں یہ سمجھتا ہوں کے ابھی مجھ سے تو پھر میں آنحضرت ﷺ سے اپنے بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا) راویتوں میں آتا ہے کہ مرض الموت کے درمیان آنحضرت ﷺ کے پاس پانچ یا چھ اور یا سات دینار تھے جو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی تحویل میں رکھ دیئے تھے، آپ ﷺ نے ان دیناروں کو صدقہ کردینے کا حکم دیا تاکہ آپ ﷺ اپنے پیچھے کچھ نہ چھوڑ جائیں۔

【5】

یوم وفات

چونکہ مرض الموت کی ابتداء کے دن و تاریخ اور وفات کے دن و تاریخ کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ اس لئے تعین کے ساتھ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ آپ ﷺ کتنے دن مرض الموت میں مبتلا رہے، چناچہ علماء کرام (رح) نے لکھا ہے کہ مذکورہ اختلاف اقوال کی بناء پر آپ ﷺ بارہ یا اٹھارہ دن بیمار رہے اور علماء کرام کے معتمد قول کے مطابق ٢ ربیع الاول دوشنبہ (پیر) کے دن اس دار فانی سے آپ ﷺ نے انتقال فرمایا منقول ہے کہ اس وقت جب کچھ لوگوں کو تردد ہوا کہ آپ ﷺ کی روح مبارک، جسد پاک سے پرواز کرگئی ہے یا نہیں تو حضرت اسماء بنت عمیس (رض) نے جو پہلے جعفر ابن ابوطالب کے نکاح میں تھیں اور ان کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے نکاح میں آئیں اور پھر ان کی وفات کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نکاح میں آگئی تھیں، آنحضرت ﷺ کے جسد پاک پر شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر دیکھا اور کہا رسول اللہ ﷺ اس جہان فانی سے کوچ فرماچکے ہیں اور آپ ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان جو مہر نبوت تھی وہ اٹھالی گئی۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ وفات کے دن میں اپنا ہاتھ سرکار دوعالم ﷺ کے سینہ مبارک پر رکھ کر دیکھا تھا اس دن کے بعد سے کئی ہفتوں تک میرے (اس ہاتھ سے مشک کی خوشبو آتی رہی حالانکہ میں ہر کھانے کے وقت (اور ویسے بھی وضو وغیرہ) پابندی سے ہاتھ دھویا کرتی تھی۔ اور شواہد النبوۃ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا آپ کا حافظہ اور فہم اتنا اچھا کس طرح ہوگیا ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جب میں نے سرکار دوعالم ﷺ کے جسد اطہر کو غسل دیا تو آپ ﷺ کی پلکوں میں جو پانی جمع ہوگیا تھا اس کو میں نے اپنی زبان سے اٹھایا تھا اور پی گیا تھا، اسی چیز کو میں اپنے حافظہ وفہم کی قوت کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔

【6】

تکفین

آنحضرت ﷺ کے کفن کے بارے میں مختلف روایتیں منقول ہیں لیکن صحیح روایت وہ ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے منقول ہے کہ آپ ﷺ کو تین سوتی کپڑوں میں کفنایا گیا تھا، ان میں کرتا اور عمامہ نہیں تھا ویسے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی اس روایت کے بیان کے مطلب میں بھی اختلافی اقوال ہیں۔ بعض حضرات نے یہ کہا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے ارشاد کے مطابق ان میں کرتا اور عمامہ نہیں تھا کا مطلب یہ ہے کہ کرتا اور عمامہ ان تین کپڑوں میں نہیں تھا بلکہ کرتا اور عمامہ ان تین کپڑوں کے علاوہ تھے گویا آپ ﷺ کے کفن میں مجموعی طور پر پانچ کپڑے تھے، لیکن یہ بات قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی، اصل مطلب وہی ہے جو دوسرے حضرات نے بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ کے کفن میں ان تین کپڑوں کے علاوہ کرتا اور عمامہ بالکل نہیں تھا یعنی صرف ہی کپڑوں یعنی ازار، کفنی اور لفافہ (پوٹ کی چادر) کا کفن مستحب ہے۔

【7】

نماز جنازہ

آپ ﷺ کی نماز جنازہ باجماعت ادا نہیں کی گئی اور نہ کسی نے امامت کی بلکہ یہ صورت اختیار کی گئی تھی کہ جسد پاک کو نہلا کفنا کر حجرہ مبارک میں، کہ جہاں تدفین ہوئی تھی، رکھ دیا گیا تھا۔ لوگ ٹولیوں کی شکل میں تنہا تنہا نماز جنازہ پڑھ کر باہر نکل جاتے اس طرح پہلے مردوں نے پھر عورتوں نے اور پھر بچوں نے الگ الگ نماز پڑھی۔

【8】

تدفین

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے حجرہ مبارک میں، جہاں آپ ﷺ کی پاک روح نے جسد اطہر سے پرواز کی تھی قبر تیار کی گئی اور تدفین عمل میں آئی۔ جب قبر میں اتارا جانے لگا تو آپ ﷺ کے آزادہ کردہ غلام حضرت شقران نے لحد میں آپ ﷺ کے نیچے آپ ﷺ کی چادر مبارک بچھا دی اور کہا کہ مجھے یہ گوارہ نہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی دوسرا اس چادر کو اوڑھے۔ لیکن ایک روایت کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شقران کی اس بات کو پسند نہیں کیا اور مٹی ڈالنے سے پہلے وہ چادر نکال لی گئی تھی اسی لئے تمام علماء نے قبر میں میت کے نیچے کسی طرح کی چادر وغیرہ بچھانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ کی تدفین چہار شنبہ (بدھ) کی شب میں، یا ایک روایت کے مطابق سہ شنبہ (منگل) کے دن سورج ڈھلنے کے بعد عمل میں آئی تھی۔

【9】

قبرشریف

آنحضرت ﷺ کی قبر بغلی (لحد) بنائی گئی اور لحد کا منہ نو کچی اینٹیں کھڑی کرکے بند کیا گیا اور اس قبر کو مسنم (یعنی اونٹ کے کوہان کی طرح اٹھی ہوئی) بنایا گیا پھر اس پر سنگریزے بچھائے اور پانی چھڑکا گیا اسی بناء پر بالاتفاق چاروں ائمہ کے ہاں قبر کو مسنم بنانا مستحب ہے۔

【10】

جب اہل مدینہ کے نصیب جاگے تھے

حضرت براء ابن حازب (رض) (جوانصار مدینہ میں سے مشہور ترین صحابی ہیں) کہتے ہے کہ (ہجرت نبوی سے قبل) رسول کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں جو حضرات سب سے پہلے ہمارے ہاں (مدینہ آئے وہ حضرت مصعب ابن عمیر (رض) اور حضرت ام مکتوم (رض) تھے ان دونوں حضرات نے (آتے ہی) ہمیں قرآن کی تعلیم دینا شروع کردیا تھا پھر حضرت عمار ابن یاسر، حضرت بلال ابن رباح اور حضرت سعد ابن ابی وقاص (رض) آئے اور حضرت عمر ابن خطاب (رض) نبی کریم ﷺ کے بیس صحابہ کرام رضوان اللہ کے ساتھ تشریف لائے، ان کے بعد نبی کریم ﷺ نے (حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ) نزول جلال فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ (اس دن جب کہ اہل مدینہ کے نصیب جاگے تھے میں نے مدینہ والوں کو آپ کی تشریف آوری پر جتنا فرحاں و شاداں دیکھا تھا اتنی وجت و شادمانی ان کو کسی (بڑی سے بڑی دنیاوی) خوشی کے موقع پر حاصل نہیں تھی، میں نے یہاں تک دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے لڑکے اور لڑکیاں (مارے خوشی کے) یہ نعرے لگا رہے تھے یہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں، جو ہماری بستی میں تشریف لائے ہیں اور میں نے (آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہی مفصل) یعنی اوساط مفصل کی ہم مثل سورتوں میں سے سورت سبح اسم ربک الاعلی سیکھ لی تھی (یا یہ کہ اوساط مفصل کی دوسری ہم مثل سورتوں کے ساتھ ساتھ سورت سبح اسم ربک الاعلی بھی سیکھ لی تھی۔ (بخاری) تشریح اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سورت سبح اسم ربک الاعلی مکہ میں نازل ہوئی ہے، لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس سورت کی آیات قدافلح من تز کی وذکر اسم ربہ فصلی، چونکہ صدقہ فطر کے بارے میں ہے اور صدقہ اور نماز عید کا واجب قرار دیا جانا ٢ ھ واقعہ کا ہے اس لئے سورت سبح اسم ربک الاعلی کو مکی سورت کہنے پر اشکال واقع ہوسکتا ہے ہاں اگر یہ کہا جائے کہ ان دو آیتوں یعنی (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى 14 وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّه فَصَلّٰى 15) 87 ۔ الاعلی 15-14) کے علاوہ بقیہ پوری سورت میں نازل ہوئی ہے تو پھر مذکورہ اشکال واقع نہیں ہوگا مگر حقیقت میں نہ اشکال صحیح ہے اور نہ احتمال، کیونکہ صحیح تر روایت کے مطابق یہ سورت اپنی تمام آیتوں کے ساتھ مکہ میں نازل ہوئی ہے اور بعد میں مدینہ آکر جب صدقہ فطر اور نماز عید کو واجب قرار دیا گیا تو رسول کریم ﷺ نے اس وقت ان دونوں آیتوں کی مراد بیان فرمائی کہ ان کا مضمون دراصل صدقہ فطر اور نماز عید کی اہمیت و فضیلت کے اظہار سے تعلق رکھتا ہے دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان دونوں آیتوں مجرد مالی وبدنی عبادتوں (صدقہ و زکوٰۃ اور صلوٰۃ کی تلقین و ترغیب ہے جس میں اصل مراد کا بیان نہیں ہے، اس اصل کو مراد بعد سنت نے اس وقت بیان کیا جب صدقہ فطر اور نماز عید کو واجب قرار دیا گیا۔

【11】

وہ رمز جس کو صرف صدیق اعظم نے پہچانا

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ (مرض وفات کے آیام میں ایک دن، یا جیسا کہ ایک روایت میں وضاحت بھی ہے، وفات سے پانچ راتیں پہلے) منبر پر تشریف فرما ہوئے اور (ہمیں خطاب کرتے ہوئے) فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک بندہ کو دونوں چیزوں کے درمیان اختیار دے دیا ہے کہ چاہے تو وہ اس دنیا کی بہار کا انتخاب کرلے جو اللہ دینا چاہے (یا جو خود لینا چاہے) اور چاہے اس چیز کا انتخاب کرلے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے (یعنی آخرت کی نعمتیں) پس اس بندہ نے اللہ کے ہاں کی نعمتوں (اور آخرت کے اجروثواب) کا انتخاب کرلیا ہے (کیونکہ اصل اور ابدی نعمتیں تو وہی ہیں) حضرت ابوبکر صدیق (رض) (آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سن کر) ایک دم رو پڑے اور عرض کیا (یا رسول اللہ ﷺ اگر ہماری جانوں کا نذرانہ کچھ کارگر ہوسکے تو) ہم آپ ﷺ پر قربان ہوں، ہمارے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوجائیں۔ ہم لوگوں (یعنی وہاں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو حضرت ابوبکر صدیق (رض) پر سخت حیرت ہوئی (کہ آخر اس موقع پر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا باعث کیا چیز بنی ہے ! ؟ چناچہ کچھ لوگوں نے تو (آپس میں ایک دوسرے سے) یہ بھی کہا کہ ذرا ان بڑے میاں کو تو دیکھو (اتنی پختہ عمر اور عقل رکھنے کے باوجود کیسی بےتکی بات کر رہے ہیں کہ) رسول کریم ﷺ تو کسی بندے کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دونوں چیزوں کا اختیار دے دیا ہے کہ چاہے دنیا کی بہار کا انتخاب کرے اور چاہے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اور یہ بڑے میاں کہہ رہے ہیں کہ (یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ ﷺ پر قربان ہوں ہمارے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوجائیں ! ؟ (لیکن مراد خود اپنی ذات مبارک تھی) بلاشبہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) تمام لوگوں میں سب سے زیادہ دانا تھے (انہوں نے شروع ہی میں اس رمز کو پہچان لیا کہ جس بندہ کو اختیار دئیے جارہا ہے وہ خود آنحضرت ﷺ ہی ہیں۔ (بخاری ومسلم ) تشریح یہ حضرت ابوبکر (رض) کے فہم و ادراک کا کمال تھا، انہوں نے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سنتے ہی تاڑ لیا کہ ذات رسالت پناہ ﷺ کی مفارقت کا وقت قریب آگیا ہے اور ہمارے درمیان آپ ﷺ چند ہی دنوں کے مہمان ہیں انہوں نے یہ حقیقت یا تو آپ ﷺ کی شدید علالت قرنیہ سے پہچانی تھی یا انہوں نے اس گہرائی میں جا کر ارشاد گرامی کے رمز کو تلاش کیا کہ دنیا کی عزت اور پر بہار نعمتوں سے منہ موڑ لینا اور آخرت کی ابدی حقیقتوں کو برضاء ورغبت اختیار کرلینا وہ وصف ہے جو صرف اللہ کے نیک ترین اور مقرب ترین بندوں کے مقام تسلیم ورضا اور قرب کو ظاہر کرتا ہے، ادھر وہ جانتے ہی تھے کہ اس دنیا کی نعمتیں، مقام سید الانبیاء (علیہم السلام) کے شایان شان نہیں ہیں، لہذا ان کا ذہن اس حقیقت کی طرف منتقل ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ ایک بندہ کے ذریعہ دراصل اپنی ذات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ دنیاوی حیات وبقاء کو چھوڑ کر موت اور بقاء حق کو اختیار کرلینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

【12】

وداعی نماز اور وداعی خطاب

اور حضرت عقبۃ ابن عامر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک ایسے شخص کی مانند کہ جو زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہا ہو، احد کے شہیدوں پر (ان کی تدفین کے) آٹھ سال بعد نماز پڑھی اور پھر منبر پر جلوہ افروز ہو کر (ہمیں خطاب کیا اور) فرمایا میں تمہارے آگے تمہارا میر منزل ہوں، میں تمہارا شاہد ہوں، تم سے کیا گیا وعدہ پورا ہونے کی جگہ حوض کوثر ہے اور یقین جانو میں اس وقت بھی اپنے منبر پر بیٹھا ہوا حوض کوثر دیکھ رہا ہوں، اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں اور میں اس بات سے تو نہیں ڈرتا کہ تم سب میرے بعد کفر وشرک اختیار کر لوگے البتہ مجھے یہ ڈر ضرور ہے کہ دنیا میں تمہاری دلچسپی زیادہ ہوجائے گی بعض راویوں نے یہاں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں اور دنیا میں تمہاری دلچسپی حد سے زیادہ بڑھ جانے کا نیتجہ یہ ہوگا کہ (تم ملک و دولت اور حکومت و اقتدار کی چھینا جھپٹی میں ایک دوسرے کا) قتل و قتال کرنے لگوگے اور پھر تم لوگ بھی اسی طرح ہلاکت و تباہی کا شکار ہوجاؤ گے جیسے پہلے لوگ ہلاک وتباہ ہوگئے تھے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح جیسے عام طور پر ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے موجودہ مقام سے کسی دوسرے مقام کو منتقل ہوتا ہے اور جدائی سے پہلے اپنے لوگوں سے وداعی سلام و کلام کرتا ہے، اسی طرح آنحضرت ﷺ نے اپنے زمانہ حیات میں یعنی یوم وفات سے چند دن پہلے شہدائے احد کے لئے نماز پڑھی جو گویا مردوں کو وداعی کہنا تھا اور پھر منبر پر جلوہ افروز ہو کر اپنے صحابہ کے سامنے ایسا بلیغ وعظ ارشاد فرمایا جس سے آپ کا اس دنیا سے رخصت ہونا اور زندوں کو وداع کہنا مفہوم ہوتا تھا۔ پس مردوں کو وداع کہنے کا مطلب تو یہ تھا کہ ان کے ساتھ اس دنیاوی تعلق کا وہ سلسلہ اب ختم ہونے والا ہے جو دعاواستغفار اور ایصال ثواب کی صورت میں زندگی بھر جاری رہا اور زندوں کو وداعی کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ بہت جلد اپنے صحابہ اور اپنے متعلقین کے درمیان سے اٹھ جائیں گے اور اس دنیا میں ذات رسالت کے وجود سے جو نور ہدایت اور فیضان صحبت حاصل ہوتا وہ کسی کو پھر کبھی اس دنیا میں حاصل نہیں ہوگا۔ شہدائے احد کے لئے نماز پڑھی کے تحت ایک چھوٹی سی فقہی بحث بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ حنفیہ کے مسلک میں چونکہ شہداء کی بھی نماز جنازہ ہے اس لئے حنفی علماء کے نزدیک یہاں نماز کا لفظ اپنے معروف معنی یعنی نماز جنازہ کے لئے استعمال ہوا ہے جب کہ شافعی علماء جن کے مسلک میں شہدا کے لئے نماز جنازہ نہیں ہے کہتے ہیں کہ شہداء احد کے لئے نماز پڑھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ نے شہداء احد کے حق میں دعاء استغفار کیا۔ میں تمہارے آگے تمہارا میر منزل ہوں میں میرمنزل فرط کا ترجمہ ہے اور عربی میں اس شخص کو کہتے ہیں جو پیچھے چھوڑ کر خود منزل پر پہنچ جائے تاکہ وہاں قافلہ کے لئے قیام وطعام اور جملہ آسائش و ضروریات کا انتظام درست رکھے لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ میں تم لوگوں سے پہلے عالم آخرت میں جارہا ہوں تاکہ وہاں تم لوگوں (یعنی امت کی) کی کا رسازی اور نجات و شفاعت کے اسباب مہیا کروں یا یہ کہ حشر میں تمہاری شفاعت چونکہ مجھے کرنی ہے اس لئے تم سے پہلے وہاں پہنچ کر میں شفاعت کے لئے تیار ہوں گا۔ میں تمہارا شاہد ہوں سے آپ ﷺ کی مراد یہ تھی اگر میں تم لوگوں کو چھوڑ کر جارہا ہوں مگر تمہارے احوال و معاملات سے بےتعلق اور لاعلم نہیں رہوں گا کیونکہ تمہارے اعمال و حالات وہاں میرے سامنے پیش کئے جاتے رہیں گے۔ یا یہ کہ میں تمہارا شاہد یعنی گواہ ہوں، وہاں میں تمہاری فرمانبرداری وطاعت اور تمہارے دعوت اسلام قبول کرنے کی گواہی دوں گا۔ وعدہ پورا ہونے کی جگہ حوض کوثر ہے کا مطلب تھا کہ آخرت میں حوض کوثر وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر نیک باطن اور بدباطن اور مؤمن اور منافق کے درمیان خط امتیاز قائم ہوجائے گا، اسی طرح محشر میں تمہاری شفاعت خاص کا جو میرا وعدہ وہ حوض کوثر پر پورا ہوگا کہ وہاں صرف اہل ایمان کو میری شفاعت پر حوض کوثر سے سیراب ہونے کا موقع ملے گا یہ مطلب ملاعلی قاری نے لکھا ہے اور حضرت شیخ عبد الحق نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ محشر میں میرے دیدار کا تم سے جو وعدہ ہے اس کے پورا ہونے اور میرے اور تمہارے درمیان ملاقات کی جگہ حوض کوثر ہے۔ حوض کوثر دیکھ رہا ہوں یہ ارشاد گرامی اپنے ظاہری معنی پر ہی محمول تھا، اس میں کی تاویل کی گنجائش نہیں، مطلب یہ کہ اس وقت جبکہ آپ ﷺ اپنے منبر پر بیٹھے ہوئے صحابہ کو خطاب کر رہے تھے گویا آپ ﷺ کے لئے حوض کو آخرت کے پردوں سے بےحجاب کردیا گیا تھا اور آپ ﷺ اپنی ظاہری آنکھوں سے اس کو دیکھ رہے تھے۔ مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دیدی گئی ہیں کا مطلب یہ تھا کہ میرے بعد مجاہدین امت کے ہاتھوں جو بڑے بڑے علاقے اور شہر فتح ہونگے اور وہاں کے لوگ ایمان واسلام قبول کرلیں گے، ان کے خزانے میری امت کے ہاتھوں میں آجائیں گے۔ دنیا میں تمہاری دلچسپی زیادہ ہوجائے گئی کے ذریعہ آپ ﷺ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ میرے بعد تم لوگ انشاء اللہ ایمان ودین پر قائم (رہو) گے یہ اور بات ہے کہ بعض بدنصیب لوگ کفر وشرک کے اندھیروں کی طرف پھر لوٹ جائیں مگر بحیثیت مجموعی ساری امت دوبارہ گمراہ نہیں ہوسکتی، ہاں یہ تو ہوسکتا ہے کہ وقت گذ رنے کے ساتھ تمہاری دینی زندگی میں بھی اضمحال آجائے اور تم دنیا میں بہت زیادہ دلچسپی لینے لگو جو تمہاری شان اور تمہاری حیثیت سے فروتربات بھی ہوگی اور تمہاری دینی وملی زندگی پر اس کے مضر اثرات بھی مرتب ہونگے۔ دراصل اس ارشاد گرامی میں امت کے لئے یہ تنبیہ ہے کہ اہل ایمان کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ دنیا کی فانی نعمتوں اور لذتوں کی طرف ضرورت سے زیادہ مائل ہوں اور ان کی بڑی دلچسپی کا مرکز دنیا بن جائے، ان کی شان تو یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر دلچسپی اور اپنی ساری رغبت آخرت کی نعمتوں میں رکھیں کیونکہ باقی اور قائم رہنے والی نعمتیں تو وہی ہیں۔ اسی حقیقت کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے۔ وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون۔ اور نعمتوں کے شائقین (یعنی اہل ایمان) کو چاہیے کہ وہ اسی (آخرت) کی نعمتوں سے رغبت ودلچسپی رکھیں۔ امام نووی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے آنحضرت ﷺ کے متعدد معجزوں کا اظہار ہوتا ہے ایک تو یہ کہ آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ میری امت زمین کے خزانوں کے مالک بنے گی بالکل سچ اور واقعہ کے مطابق ثابت ہوا دوسرے یہ کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کے بارے میں جو یہ خبر دی کہ وہ مرتد نہیں ہوگی تو ایسا ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدی کو کفر و ارتداد سے بچایا اور تیسرے یہ کہ آپ ﷺ کا یہ فرمانا بھی کہ میری امت کے لوگ دنیا میں زیادہ دلچسپی لینے لگیں گے بالکل صحیح ثابت ہوا۔

【13】

حیات نبوی کے آخری لمحات

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جن انعامات سے مجھے خصوصی طور پر نوازا ان میں سے یہ بھی کہ رسول کریم ﷺ نے میرے گھر میں اور میری باری کے دن وفات پائی، آپ ﷺ نے میرے سینہ اور ہنسلی کے درمیان اپنی جان جاں آفرین کے سپرد کی اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی وفات کے وقت میرے اور آپ کے لعاب دہن کو جمع کردیا (جس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ آپ ﷺ کے ان آخری لمحات میں میرے عزیز بھائی عبدالرحمن ابن ابوبکر (رض) جب میرے پاس آئے تو ان کے ہاتھ میں مسواک تھی اور رسول کریم ﷺ میرے سینہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کی نظر (بار بار) ان کی طرف (یعنی عبدالرحمن کی طرف یا یہ کہ ان کی مسواک کی طرف) اٹھ رہی ہے۔ میں یہ بات چونکہ جانتی تھی کہ آپ ﷺ (عام طور یا تبدیلی ذائقہ کے وقت خاص طور پر) مسواک کو بہت پسند فرماتے ہیں اس لئے میں نے پوچھا کہ کیا عبدالرحمن (رض) یہ مسواک آپ ﷺ کے لئے لے لوں ؟ آپ ﷺ نے سرکے اشارہ سے بتایا کہ ہاں لے لو۔ میں نے عبدالرحمن (رض) مسواک لے کر آپ ﷺ کو دیدی۔ آپ ﷺ نے (مسواک کرنی چاہی تو اس کے سخت ہونے کی وجہ سے) دشواری محسوس کی، اب میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی آسانی کے لئے اس مسواک کو (اپنے دانتوں سے) نرم کردوں ؟ آپ ﷺ نے پھر سرکے اشارہ سے اجازت دی تو میں نے مسواک کو نرم کردیا اور آپ ﷺ نے وہ مسواک اپنے دانتوں پر پھیری (بالکل آخری لمحات اس طرح گذرے کہ اس وقت) آپ ﷺ کے سامنے پانی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا اس پانی میں آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ ڈالتے اور (بھگوکر) اپنے چہرہ مبارک پر پھیر لیتے تھے اور فرماتے لاالہ الا اللہ، موت کے وقت سختیاں ہیں پھر آپ ﷺ نے (دعا کے لئے یا آسمان کی طرف اشارہ کرنے کے لئے) ہاتھ اٹھا کر یہ کہنا شروع کیا (اے اللہ مجھ کو رفیق اعلی میں شامل فرما ! یہاں تک کہ روح پرواز کرگئی اور آپ ﷺ کے دست مبارک نیچے گرپڑے۔ (بخاری) تشریح اور میری باری کے دن وفات پائی کے ذریعہ حضرت عائشہ نے اس طرف اشارہ کیا کہ اگرچہ آنحضرت ﷺ وفات کے دن تک مرض الموت کی پوری مدت میں میرے ہی گھر میں رہے لیکن میری مزید خوش بختی یہ رہی کہ جس دن آپ ﷺ کی وفات ہوئی وہ حساب کے اعتبار سے وہی دن تھا جس میں میرے ہاں قیام کی باری آتی جامع الاصول میں لکھا ہے کہ جس دن آنحضرت ﷺ کے مرض الموت کی ابتداء ہوئی اس دن بھی آپ ﷺ حضرت عائشہ ہی کے ہاں تھے اور اس کے بعد جس دن درد سر اور بیماری میں شدت پیدا ہوئی تو آپ ﷺ حضرت میمونہ کے ہاں تھے، اس وقت آپ ﷺ کی ازواج مطہرات سے بہ ررضا ورغبت آپ ﷺ کو اجازت دیدی مرض الموت کی شدت بارہ دن رہی اور آپ ﷺ کی وفات ربیع الاول کے مہینے میں دوشنبہ (پیر) کے دن چاشت کے وقت ہوئی، تاریخ کے بارے میں بعض حضرات نے ١٢ ربیع الاول بیان کی ہے اور اکثر روایتوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ میرے سینہ اور ہنسلی کے درمیان کا مطلب یہ ہے کہ پاک روح نے جس وقت جسد اطہر سے پرواز کی تو آپ ﷺ حضرت عائشہ کے سینہ اور گردن سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ یہ بات حضرت عائشہ کے مقام محبوبیت اور کمال قرب وتعلق پر دلالت کرتی ہے حضرت عائشہ کا ارشاد طرق کثیرہ سے نقل کی گئی حاکم اور ابن سعد کی اس روایت اس وقت آنحضرت ﷺ کا سر مبارک حضرت علی کی گود میں تھا کے معارض نہیں ہے کیونکہ اول تو ان دونوں نے جن طرق کثیرہ سے اس روایت کو نقل کیا ہے ان میں سے کوئی بھی طریق سند ایسا نہیں ہے جو کسی بھی طرح کی ایک خرابی سے خالی نہ ہو دوسرے یہ کہ اگر ان طرق کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس روایت کی تاویل یہ کی جائے کہ آپ ﷺ کا سر مبارک حضرت علی کی گود میں وفات سے پہلے تھا۔ میرے اور آپ ﷺ کے لعاب دہن کو جمع کردیا تھا یعنی جب آنحضرت ﷺ نے عبدالرحمن کی مسواک اپنے منہ میں لے کر کرنی چاہی اور اس کے سخت ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کو دشواری ہوئی تو پھر حضرت عائشہ نے اس مسواک کو اپنے دانتوں سے نرم کیا اور آپ ﷺ نے وہ نرم کی ہوئی مسواک اپنے دانتوں پر پھیری اس طرح دونوں کے لعاب دہن حضرت عائشہ کے منہ میں بھی جمع ہوئے اور آنحضرت ﷺ کے منہ میں بھی پس حضرت عائشہ نے گویا یہ واضح کیا کہ آنحضرت ﷺ کے مقدس لعاب دہن کی برکت حاصل ہونا یوں تو ہمیشہ میرے لئے بڑی نعمت رہا لیکن عین وفات کے وقت اس لعاب دہن کی برکت کا حصول تو میرے لئے بہت بڑی نعمت تھی کیونکہ وہ وقت تمام برکتوں اور سعادتوں کا منتہائے آخر تھا یا اس جملہ کے ذریعہ حضرت عائشہ نے اس طرف اشارہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کے لعاب دہن کی برکت مجھے اسی وقت حاصل ہوئی اس سے وقبل اور کبھی یہ نعمت مجھے حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اور بھگو کر اپنے چہرہ مبارک پر پھیر لیتے تھے اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اس وقت آپ ﷺ کے مزاج مبارک پر حرارت کا بہت غلبہ تھا اور بھیگا ہوا ہاتھ چہرہ پر پھیر لینے سے ایک گونہ تسکین مل جاتی تھی لیکن اس میں آنحضرت ﷺ کی طرف سے اپنے عجز اور عبودیت کا اظہار کا اشارہ بھی تھا اور اس سے یہ بات بھی نکلی کہ سکرات الموت کے وقت یہ عمل ہر مریض کو اختیار کرنا چاہے اور اگر خود مریض اس پر قادر نہ ہو تو تیماداروں کو چاہیئے کہ وہ اس سنت پر عمل کرتے ہوئے پانی میں ہاتھ تر کر کے مریض کے چہرے پر پھیریں یا اس کے حلق میں پانی ٹپکائیں کیونکہ اس سے کرب میں تخفیف ہوئی ہے بلکہ اگر حاجت شدید ہو تو پھر پانی ٹپکانا واجب ہوتا ہے۔ سکرات دراصل سکرۃ کی جمع ہے جس کے معنی سختی کے ہیں اور سکرات الموت سے جان کنی کے وقت کی وہ سختیاں اور دشواریاں مراد ہیں جو اندورنی تپش وسوزش اور مزاج و طبیعت کو پیش آنے والی سخت تلخیوں کی صورت میں جاں بہ لب کو برداشت کرنا پڑتی ہیں اور ان سختیوں اور دشواریوں کا سامنا انبیاء اور ارباب حق کو بھی کرنا پڑتا ہے اور صرف حق تعالیٰ کا فضل و کرم ہی اس آڑے وقت میں دستگیری کرتا ہے لہٰذا سکرات الموت سے پناہ مانگنا اور جان بہ لب مریض کے لئے ان سختیوں میں آسانی کی دعا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ ایک اور روایت میں حضر عائشہ سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو نزع کے وقت دیکھا کہ آپ ﷺ اپنے پاس رکھے ہوئے پانی کے پیالہ میں اپنا ہاتھ تر کرکے چہرہ مبارک پر پھیرتے جاتے تھے اور زبان مبارک پر یہ دعا جاری تھی، لاالہ الا اللہ ان للموت سکرات۔ ایک روایت میں سکرات الموت کے بجائے منکرات الموت کے الفاظ ہیں، مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ الہٰی موت کی ان سختیوں کے وقت میری مدد فرما ! مجھ کو رفیق اعلی میں شامل فرما رفیق اسم جنس ہے کہ اس کا اطلاق فرد واحد پر بھی ہوتا ہم اور بہت سوں پر بھی پس رفیق اعلی سے مراد انبیاء کرام ہیں جو اعلی علیین میں پہنچ چکے ہیں، اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں اس دعا کے یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ (یعنی انبیاء کے ساتھ) صدیقین کے ساتھ شہداء کے ساتھ اور صالحین کے ساتھ کہ وہی لوگ) اچھے رفیق ہیں) یا یہ کہ رفیق اعلی سے مراد ملاء اعلی اور عالم ملکوت یعنی آسمانوں میں رہنے والے فرشتے وغیرہ ہیں اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ رفیق اعلی سے مراد اللہ رب العزت ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر بھی رفیق کا اطلاق منقول ہے جیسے ایک روایت میں آیا ہے کہ اس کی طرف سے آپ ﷺ کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ چاہے آپ ﷺ (ابھی دن اور) دنیا میں رہنا پسند کرلیں چاہے اس کے پاس (بارگاہ حق میں) پہنچ جائیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اخترت الرفیق الاعلی (میں نے رفیق اعلی کو اختیار کیا )

【14】

انبیاء کو موت سے پہلے اختیار

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہر نبی کو اس کو مرض الموت میں دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیدیا جاتا ہے (چاہے تو وہ کچھ تک دنیا کی زندگی کو اختیار کئے رہے اور چاہے عالم آخرت کے سفر کو اختیار کرلے لیکن ہمیشہ ایسا ہوا کہ ہر نبی نے دنیا کی زندگی کو رد کرکے اللہ کے ہاں جانے کو پسند واختیار کیا کیونکہ جو کچھ اللہ کے ہاں ہے اصل نعمت وہی ہے اور اس کو دوام وقرار ہے) پھر جب آنحضرت ﷺ مرض الموت میں مبتلا ہوئے اور (وہ مرحلہ آیا کہ) آواز سخت بھاری ہوگئی (جیسے جان کنی کے وقت سانس یا بلغم حلق میں آکر اٹک جاتا ہے اور اس کی وجہ سے آواز میں خرخراہٹ اور بھاری پن پیدا ہوجاتا ہے) تو اس وقت میں نے سنا آپ ﷺ کی زبان پر یہ الفاظ تھے (الہٰی) مجھ کو ان لوگوں میں شامل فرما جن پر تو نے اپنا فضل و انعام کیا ہم کہ وہ انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین ہیں (وہی لوگ اچھے رفیق ہیں) ان دعائیہ الفاظ سے میں سمجھ گئی کہ آنحضرت ﷺ کو (دنیاوی زندگی اور عالم آخرت میں سے کسی ایک کو چن لینے کا) اختیار دیدیا گیا ہے (اور آخر آپ ﷺ نے دنیاوی زندگی کو چھوڑ کر عالم آخرت کو چن لیا ہے۔ (بخاری ومسلم )

【15】

حضرت فاطمہ کا غم وحزن

اور حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں جب (وفات کے دن) نبی کریم ﷺ کی حالت بہت بگڑگئی اور مرض کی شدت آپ ﷺ پر (باربار بیہوشی طاری کرنے لگی تو حضرت فاطمہ (بیتاب ہو کر) کہنے لگیں ہاے میرے بابا جان کو کیسی سختی نے گھیرا ہے آنحضرت ﷺ نے (یہ سنا تو) ان کو مخاطب کرکے فرمایا آج کے بعد پھر تمہارے بابا جان کو کوئی سختی نہیں گھیرے گی ! مطلب یہ تھا کہ کرب اور سختی مرض کی شدت کی وجہ سے ہے اور اس کرب و سختی کا احساس وظاہر جسم سے تعلق رکھنے کے سبب سے ہے، لیکن آج کے دن کے بعدجب اس جسم سے تعلق ختم ہوچکا ہوگا اور صرف روحانی و معنوی علائق رہ جائیں گے تو پھر سکون ہی سکون ہوگا اور پھر جب آپ کا انتقال ہوگیا تو حضرت فاطمہ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے اے میرے بابا جان اللہ نے آپ ﷺ کو اپنے پاس بلایا اور آپ نے اس دعوت کو قبول کرکے اپنے پروردگار کے پاس چلے گئے۔ اے میرے بابا جان ! اے وہ مقدس ذات جس کا مستقر جنت الفردوس ہے اے میرے بابا جان ! ہم آپ ﷺ کی وفات کی خبر جبرائیل (علیہ السلام) کو پہنچاتے ہیں بعد میں جب آپ کو دفن کردیا گیا تو حضرت فاطمہ بےاختیار ہو کر کہنے لگیں ارے انس اور اے صحابہ رسول ! ) تم لوگوں نے آخر یہ کیسے گوراہ کرلیا کہ رسول اللہ ﷺ پر مٹی ڈال دو ؟۔ (بخاری ) اس موقع پر حضرت فاطمہ کے دو شعر مندرجہ ذیل ہیں۔ ماذا علی من شم تربۃ احمد ان لم یشم مدی الزمان غوا لیا۔ صبت علی مصائب لو انہا صبت علی الایام صرن لیا لیا۔

【16】

مدینہ غم واندوہ میں ڈوب گیا

حضرت انس (رض) کہتے ہیں رسول کریم ﷺ مدینہ میں نزول اجلال فرمایا تھا تو (تمام لوگوں نے بےپناہ خوشی ومسرت کا اظہار کیا یہاں تک کہ) حبشیوں نے (بھی جشن مسرت منانے کے طور پر) نیزوں کے کھیل کرتب دکھائے تھے یہ (روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے اور دارمی نے جو روایت نقل کی ہے اس میں یوں ہے کہ حضرت انس نے کہا میں نے اس دن سے زیادہ حسین اور روشن دن اور کوئی نہیں دیکھا جس دن (مدینہ میں) ہمارے درمیان رسول کریم ﷺ تشریف لائے تھے اور میں نے اس دن سے زیادہ برا اور تاریک دن اور کوئی نہیں دیکھا جس دن رسول کریم ﷺ کی وفات ہوئی اور ترمذی کی روایت میں ہے کہ حضرت انس نے کہا جب وہ دن آیا کہ رسول کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو (مدینہ) ہر چیز (یعنی درودیوار وغیرہ) پر نور پھیل گیا جب وہ دن آیا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی تو ہر چیز (غم اندوہ کی) تاریکی میں ڈوب گئی اور آپ ﷺ کی تدفین کے بعد ہم نے ابھی اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑی بھی نہیں تھی بلکہ آپ ﷺ کی تدفین ہی میں مشغول تھے کہ اپنے دلوں میں ایک دوسرے سے ناآشنائی محسوس کرنے لگے تھے۔ تشریح مدینہ میں آنحضرت ﷺ کی آمد کا دن نہایت حسین بھی تھا بڑا تابناک بھی، کیونکہ وہ دن مشتاقان جمال کے لئے وصال وقرب کا دن تھا ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کی تکمیل کا دن تھا، نہ صرف یہ کہ ان کے دل و دماغ کھل اٹھے تھے بلکہ ان کے دردودیوار تک نور نبوت کی جلوہ ریزی سے جگمگا اٹھے تھے اور پھر جب وہ دن آیا کہ آفتاب نبوت اس دنیا سے رخصت ہوا تو مدینہ والوں کی دنیا اندھیری ہوگئی ہر سوغم واندوہ کی تاریکی چھاگئی کیونکہ وہ دن عشاقان جمال نبوت کے لئے فراق کا دن تھا ان کی مسرتوں اور شاد مانیوں کی جدائی کا دن تھا۔ ایک دوسرے سے آشنائی محسوس کرنے لگے تھے۔ مطلب یہ کہ ہمارے درمیان سے آنحضرت ﷺ کے اٹھ جانے اور اس دنیا سے آفتاب نبوت کے رخصت ہوجانے کے سبب ہم پر تاریکی چھائی تو ہمیں بین طور محسوس ہوا کہ ہمارے دلوں کی وہ پاکیزگی اور نورانیت جو ذات رسالت کے مشاہدہ و صحبت کے نتیجہ میں حاصل ہوتی رہتی تھی اس کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے اور ہمارے قلوب میں صدق و اخلاص اور مہر ووفا کی وہ پہلی والی کیفیت باقی نہیں رہی ہے۔

【17】

تدفین کے بارے میں اختلاف اور حضرت ابوبکر کی صحیح راہنمائی

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کا انتقال ہوگیا اور آپ ﷺ کی تدفین کے بارے میں صحابہ کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوا تو حضرت ابوبکر نے کہا میں نے (اس سلسلہ میں) خود رسول کریم ﷺ سے ایک بات سنی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ ہر نبی کی روح اس جگہ قبض کرتا ہے جہاں وہ نبی دفن ہونا پسند کرتا ہے (یا یہ کہ جہاں اللہ تعالیٰ اس نبی کا دفن کیا جانا پسند کرتا ہے ) لہٰذا آنحضرت ﷺ کو اس جگہ دفن کرنا چاہیے جہاں آپ ﷺ بستر مرگ پر تھے ( اور جہاں آپ ﷺ کی وفات ہوئی ہے۔ (بخاری) تشریح صحابہ کے درمیان اختلاف رائے ہوا یعنی بعض حضرات کا کہنا تو یہ تھا کہ آپ ﷺ کی تدفین بقیع قبرستان میں ہونی چاہے اور بعض حضرات یہ کہہ رہے تھے کہ مسجد نبوی میں دفن کرنا موزوں ہے جب کہ کچھ حضرات کی رائے یہ بھی تھی کہ آپ ﷺ کی تدفین بیت المقدس میں عمل میں آنی چاہیے کیونکہ اکثر انبیاء کی قبریں وہیں ہیں یا یہ کہ سرے سے دفن کرنے ہی کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا تھا کہ آیا آپ ﷺ کو دفن کیا جائے یا نہیں ؟ چناچہ ترمذی ہی کی روایت میں یوں ہے کہ اس موقع پر صحابہ نے حضرت ابوبکر سے رجوع کیا اور ان سے پوچھا کہ اے صاحب رسول ! رسول کریم ﷺ کو دفن کیا جائے یا نہیں ؟ حضرت ابوبکر نے کہا اسی جگہ جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی روح قبض کی ہے اور جہاں آپ ﷺ کی روح مبارک قبض کی گئی ہے وہ پاک و طاہر ہے صحابہ سمجھ گئے کہ ابوبکر جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے (اور اس طرح حجرہ عائشہ میں کہ جہاں آپ ﷺ کی وفات ہوئی وہیں تدفین عمل میں آئی ) ۔

【18】

وفات سے پہلے ہی نبی کو جنت میں اس کا مستقر دکھا دیا جاتا ہے

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ (مرض الموت میں مبتلا ہونے سے قبل) اپنی تندرستی کے زمانہ میں فرمایا کرتے تھے کہ کسی نبی کی روح اس وقت قبض نہیں کی جاتی جب تک کہ جنت اس کا مستقر (یعنی وہ منازل عالیہ جو اس کے لئے جنت میں مخصوص ہیں) اس کو دیکھا کر اس کو اختیار نہیں دے دیا جاتا (کہ چاہے ابھی اور دنیا میں رہو اور چاہے یہاں ہماری بارگاہ میں آجاؤ اس کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر جب (مرض وفات میں آنحضرت ﷺ کی موت کا وقت قریب آیا تو اس وقت جب کہ آپ ﷺ کا سر مبارک میری ران پر تھا اور (شدت مرض سے) آپ ﷺ بار بار بےہوش ہو رہے تھے، (ایک بار) جو ہوش آیا تو آپ ﷺ نے چھت (یعنی آسمان) کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہا الہٰی ! میں نے رفیق اعلی کو پسند کرتا ہوں (مجھے رفیق اعلی میں شامل فرما) میں نے (آپ ﷺ کے یہ الفاظ سنتے ہی) کہا اب آنحضرت ﷺ نے ہمیں (یعنی دنیا کی زندگی کو) ناپسند کردیا ہے (اور عالم آخرت کی زندگی کو اختیار کرلیا ہے) کیونکہ مجھے وہ ارشاد گرامی یاد آگیا جو آپ ﷺ نے تندرستی کے زمانہ میں فرمایا تھا کہ کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک کہ جنت کا اس کا مستقر اس کو دکھا کر اسکواختیار نہیں دیا جاتا (پس آپ ﷺ کا آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا گویا جنت میں اپنا مستقر دیکھنا تھا) اور اللہم رفیق الاعلی کے الفاظ آپ ﷺ کے اس فیصلہ کا اعلان ہے کہ ملے ہوئے اختیار کے تحت میں نے دنیا کی زندگی کو چھوڑ کر عالم آخرت کو پسند کرلیا ہے) حضرت عائشہ نے بیان کیا ہے نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے جو آخری الفاظ نکلے وہ یہی اللہم رفیق الاعلی کے الفاظ تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک والے آخری الفاظ الہم الرفیق الاعلی تھے اور جیسا کہ سہیلی نے لکھا ہے کہ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے سب سے پہلے جو الفاظ نکلے تھے وہ تھے اللہ اکبر اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب آپ ﷺ اپنے زمانہ شیر خوارگی میں دایہ حلیمہ کے پاس تھے۔ اور ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ جب روز ازل حق تعالیٰ نے تمام ارواح عالم سے اپنی ربوبیت کا عہد لیا تھا جس کو عہد الست کہا جاتا ہے تو اس وقت حق تعالیٰ کے سوال الست بربکم (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ کے جواب میں بلیٰ (جی ہاں یقینا آپ ہمارے رب ہیں) سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کی روح پاک نے کہا تھا۔

【19】

زہر کا اثر

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنے مرض وفات میں فرمایا کرتے تھے کہ عائشہ میں نے خیبر میں جو (زہر آلود) کھانا کھالیا تھا (اس کے تکلیف دہ اثرات تو برابر محسوس کرتا تھا لیکن اب اس مرض میں) تو ایسا لگتا ہے کہ اسی زہر کے اثر سے میری رگ جان کٹ جائے گی۔ (بخاری) تشریح زہر آلود کھانے سے مراد بکری ہے جو سازش کے تحت ایک یہودی عورت نے فتح خیبر کے موقع پر آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کی تھی اور آپ ﷺ نے اس میں سے کچھ کھالیا تھا اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ پیچھے ایک موقع پر گذر چکا ہے اس وقت اگرچہ ظہور معجزہ کے تحت زہر کا ایسا اثر نہیں ہوا کہ ہلاکت واقع ہوجاتی لیکن اس کے مضر اثرات بہرحال قائم رہ گئے تھے جس کا ظہور بعد میں کبھی کبھی ہوجاتا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے بظاہر اس حکمت کے تحت کہ آپ ﷺ کو درجہ شہادت بھی مل جائے مرض الموت میں اس زہر کا اصل اثرظاہر کیا جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی موت اس سانپ کے زہر کے اثر سے واقع ہوئی تھی جس نے مدتوں پہلے مکہ سے مدینہ کے سفر ہجرت کے دوران غار ثور میں ان کو ڈسا تھا۔

【20】

مرض الموت میں ارادئہ تحریر کا قصہ

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ (یوم وفات یعنی دو شنبہ سے تین دن قبل پنجشنبہ کے دن) اس وقت جب کہ رسول کریم ﷺ پر مرض کا شدید غلبہ تھا اور گھر میں آپ ﷺ کے بستر مرض کے قریب حضرت عمر بن الخطاب سمیت بہت سے لوگ موجود تھے، نبی کریم ﷺ (اچانک فرمانے لگے لاؤ میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تمہاری گمراہی کا کوئی سوال پیدا نہ ہو، حضرت عمر (یہ سن کر وہاں موجود لوگوں سے کہا (اس وقت) آنحضرت ﷺ پر بیماری کا شدید غلبہ ہے، ویسے تم لوگوں پاس قرآن موجود ہی ہے اور تمہیں (راہ مستقیم پر گامزن رکھنے کے لئے) یہ اللہ کی کتاب بہت کافی ہے لیکن وہ لوگ جو (اہل بیت میں سے بھی تھے اور دوسرے صحابہ میں بھی اور اس وقت) گھر میں موجود تھے (اس مسئلہ میں خاموشی اختیار کرنے کی بجائے) آپس میں بحث مباحثہ کرنے لگے، ان میں سے کچھ لوگ تو یہ کہہ رہے تھے (لکھنے کا سامان) لا کر سامنے رکھ دینا چاہے تاکہ رسول کریم ﷺ تمہارے لئے کوئی تحریر مرتب فرمادیں اور کچھ لوگ وہی بات کہہ رہے تھے جو حضرت عمر نے کہی تھی (کہ مرض اور تکلیف کی شدت دیکھتے ہوئے اس وقت آنحضرت ﷺ کو زحمت نہیں دینی چاہئے اور پھر جب ان لوگوں کے اختلاف رائے کا اظہار بڑھتا ہی رہا اور کافی شوروشغب ہونے لگا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اچھا اب تم سب لوگ میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ (میں نے کوئی چیز لکھنے کا ارادہ ترک کردیا ہے کیونکہ کتاب وسنت کی موجودگی ہی تمہارے لئے کافی ہوگی، عبیداللہ (جو حضرت ابن عباس (رض) سے اس حدیث کے روای) ہیں کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (یہ واقعہ بیان کر کے) کہا کرتے تھے مصیبت ہے پوری مصیبت جو ان لوگوں کے اختلاف اور شوروشغل کی صورت میں رسول کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے وصیت نامہ لکھنے کے ارادہ کے درمیان حائل ہوگئی تھی (کاش وہ لوگ اس طرح اختلاف کا اظہار اور شورشغب نہ کرتے تو آنحضرت ﷺ کوئی ایسا وصیت ضرور مرتب فرمادیتے جو مرحلہ پر ہم سب کی رہنمائی کرتا رہتا) اور سلیمان ابن مسلم احوال ( جو ثقات اور ائمہ دین میں سے ہیں) کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عباس نے کہا (آہ) جمعرات کا دن، وہ جمعرات کا دن کیا عجیب تھا (جب ایک زبر دست المیہ واقع ہوا تھا) اور یہ کہ کر رونے لگے اور اتنا روئے کہ (وہاں پڑے ہوئے سنگریزے) ان کے آنسوؤں سے تر ہوگئے میں نے عرض کیا ابن عباس (کون سی) جمعرات کے دن کا ذکر ہے اور اس دن) کیا ہوا تھا (کہ آپ اتنے تأسف بھرے انداز میں اس کو بیان کر رہے ہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا (یہ اس جمعرات کا دن کا ذکر ہے) جب رسول کریم ﷺ کی بیماری بہت نازک صورت حال اختیار کرگئی تھی اور آپ ﷺ نے فرمایا مجھے شانہ کی ہڈی لا کردو تاکہ میں تمہارے لئے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوسکو (ا سوقت آنحضرت ﷺ کے پاس موجود) لوگوں نے (یہ بات سن کر) اختلاف ونزاع کا اظہار شروع کردیا حالانکہ نبی کے سامنے اختلاف ونزاع کا اظہار مناسب نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ بات آنحضرت ﷺ کی کس حالت کی غماز ہے ؟ کیا آنحضرت ﷺ (دنیا کو) چھوڑ رہے ہیں ؟ آنحضرت ﷺ سے معلوم کرنا چاہئے (کہ آپ ﷺ کیا فرما رہے ہیں اور آپ ﷺ کا کیا منشا ہے ؟ ) اور پھر ان (میں سے بعض) لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ تکرار کرنا شروع کردیا تھا، آخر کار سرکار رسالت مآب ﷺ نے فرمایا مجھ کو چھوڑ دو مجھے اپنی حالت پر رہنے دو (یعنی اس وقت میرے پاس شوروشغب مت کرو اور مجھے دوسری باتوں میں نہ الجھاؤ) کیونکہ اس وقت میں جس حالت میں ہوں اس حالت سے بہتر و افضل ہے جس کی طرف تم مجھے متوجہ کر رہے ہو اس کے بعد (جب لوگوں نے بحث و تکرار ختم کردی اور ذات رسالت کی طرف متوجہ ہوئے تو) آپ ﷺ نے ان کو تین باتوں کا حکم دیا ایک یہ کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دو ، دوسرا یہ کہ (دوسرے ملکوں اور حکومتوں کے) جو ایلچی اور قاصد آئیں ان کے ساتھ عزت و احترام کا وہی برتاؤ کرو جو میں کرتا تھا اور تیسری بات پر ابن عباس نے (یا تو بھول جانے کی وجہ سے یا اختصار کی خاطر) خاموشی اختیار کرلی یا یہ کہ ابن عباس نے وہ تیسری بات بھی بیان کی تھی لیکن میں اس کو بھول گیا ہوں سفیان ابن عیینہ کہتے ہیں یہ الفاظ (کہ ابن عباس نے خاموشی اختیار کی یا یہ کہ میں اس کو بھول گیا ہوں) سلیمان احوال کے ہیں۔ (بخاری ومسلم ) تشریح لاؤ میں تمہارے لئے نوشتہ لکھ دوں کے تحت نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے یہ ناممکن اور محال تھا کہ آنحضرت ﷺ جھوٹ بولتے، یہ بھی ناممکن اور محال تھا کہ آپ ﷺ احکام شریعت میں سے کسی بھی چیز میں کوئی تغیر وتبدل کرتے خواہ آپ ﷺ تندرست و توانا ہوتے یا مرض میں مبتلا، یہ بھی ناممکن اور محال تھا کہ آپ ﷺ اس چیز کو بیان ونافذ کرنا ضروری سمجھتے جس کا بیان ونفاذ کا حکم آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف دیا جاتا اور یہ بھی ناممکن اور محال تھا کہ جس چیز کی تلقین و تبلیغ کرنا اللہ نے آپ کے لئے واجب اور ضروری قرار دیا تھا اس کی تلقین و تبلیغ سے آپ ﷺ صرف نظر کرلیتے (کیونکہ یہ سب وہ قبائح ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو معصوم بنایا تھا، اس لئے آپ ﷺ سے ایسی چیزوں کے صدور کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، ہاں یہ بات ناممکن اور محال نہیں تھی کہ آپ ﷺ کسی ایسے جسمانی مرض میں مبتلانہ ہوتے جس سے نہ آپ ﷺ کے مرتبہ نبوت اور شان رسالت کو کوئی نقصان پہنچتا اور نہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر کوئی فرق پڑتا یہی وجہ ہے کہ جب آپ ﷺ پر سحر کیا گیا تو آپ ﷺ اس کی زد میں آگئے اور آپ ﷺ کے اعضائے جسمانی اور حو اس اس حد تک متاثر ہوگئے تھے کہ ایک کو سمجھتے کہ میں کرچکا ہوں حالانکہ آپ ﷺ نے اس کو نہ کیا ہوتا، تاہم اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے مرتبہ عصمت کو اس طرح محفوظ رکھا کہ اس دوران آپ ﷺ کی زبان مبارک سے احکام شریعت کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں نکلی جو آپ ﷺ کی پہلی کہی بات کے مخالف ہوتی (یا آپ ﷺ کے خیال وعمل کا مذکورہ تخالف کسی ایسے معاملہ میں رونما نہیں ہوا جس کا تعلق دینی وشرعی معمولات و عبادات سے ہوتا) نیز روایت میں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مرض وفات کے آخری دنوں میں کوئی نوشتہ مرتب کرنے کا ارادہ فرمایا تھا اور پھر اس ارادہ کو پورا نہیں فرمایا تو اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ مثلا بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ دراصل آنحضرت ﷺ نے یہ چاہا تھا کہ تحریری طور پر اپنے صحابہ میں سے کسی ایک کو منصب خلافت کے لئے نامزد فرمادیں تاکہ بعد میں عام مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف ونزاعی صورت حال پیدا نہ ہو بعض دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا اصل منشاء ایک ایسا نوشتہ تیار کرا دینا تھا جس میں دین و شریعت کے اہم احکام و مسائل کی تدوین و ترتیب اور ان کی محض وضاحت ہوتی، تاکہ بعد میں علمائے امت ان احکام و ہدایت کے بیان اور ان کی وضاحت وترجمانی میں اختلاف ونزاع کا شکار نہ ہوں اور منصوص علیہ پر امت میں کامل اتفاق و اتحاد رہے، یہاں تک نووی کے ملفوضات تھے اور ان ملفوضات کو ملاعلی قاری نے یہ صرف نقل کیا ہے بلکہ مذکورہ دونوں اقوال نقل بھی کیا ہے چناچہ انہوں نے پہلے قول کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ تو بہت ہی بعید از حقیقت ہے کیونکہ اگر آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ میں سے کسی کو خلافت کے لئے نامزد کرنا اور مثلا حضرت ابوبکر، حضرت عمر حضرت عباس اور حضرت علی وغیرہ ہم میں سے کسی ایک کے نام کو متعین ومشخص کرنا چاہتے تو اس کے لئے آپ ﷺ کو نوشتہ یادستاویز مرتب کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں تھی، صرف زبان سے آپ ﷺ کا کہہ دینا کافی تھا اور ایسا ہوا بھی کہ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر کو اپنی زندگی ہی میں نماز کی امامت کے لئے متعین فرما کر نہ صرف عملی طور پر ان کی خلافت کی طرف اشارہ فرما دیا تھا بلکہ اپنے ارشاد یابی اللہ والمؤمنون الاابابکر کے ذریعہ زبانی طور پر صراحت بھی فرما دی تھی ہاں اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت ﷺ دراصل ایک ایسا نوشتہ مرتب فرما دینا چاہتے تھے جس میں خلافت کے اہل اور مستحق افراد کی نامزدگی کا ایسا طریقہ لکھا ہوتا جو آپ ﷺ کی وفات کے بعد سے امام مہدی کے ظہور اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول تک یکے بعد دیگرے بلا کسی اختلاف ونزاع کے خلافت کے تقرر کو بروئے کار لاتا رہتا، تو یہ ایک ایسی بات ہوسکتی ہے جس کو کسی حدتک معقول اور قرین قیاس کہا جاسکتا ہے اور اس صورت میں کہا جائے گا کہ حکمت الٰہی چونکہ یہی تھی کہ خلافت کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے طے شدہ اور ظاہر ہوجانے کے بجائے غیر متعین اور پوشیدہ رہے اس لئے آنحضرت ﷺ وہ تحریر مرتب نہ فرماسکے دوسرے قول کے بارے میں ملاعلی قاری نے یہ لکھا ہے کہ جہاں تک خود آنحضرت ﷺ کے زمانہ کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ اس وقت دین و شریعت کے اہم احکام و مسائل کے متعلق کوئی باہمی اختلاف ونزاع نہیں تھا کہ اس کے ختم کرنے اور صحابہ کے درمیان اتحادواتفاق قائم کرنے کے لئے آپ ﷺ کسی نوشتہ کے تحریر کرنے کی ضرورت محسوس فرماتے، رہی یہ بات کہ آپ ﷺ کے اس ارادہ تحریر کا تعلق آپ ﷺ کے بعد کے زمانہ میں ممکنہ اختلاف و نزاع کے دفعیہ سے تھا تو یہ بات بھی قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی کیونکہ زمانہ نبوت کے بعد دینی احکام و مسائل کی وضاحت وترجمانی اور مسائل قیاسی میں علماء امت کے درمیان اختلاف کا پیدا ہونا محض امکان کے درجہ کی چیز نہیں تھی بلکہ ایک حقیقی چیز تھی جس کے بارے میں خود آنحضرت ﷺ نے پہلے ہی خبر دی دے دی تھی، مثلا ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا تھا اختلاف امتی رحمتہ یا آپ ﷺ کا ارشاد گرامی اصحابی کالنجوم یایہم اقتدیتم اہتدیتم یا آپ ﷺ نے فرمایا علیکم بالسواد الاعظم اور آپ ﷺ نے فرمایا استفت قلبک وان افتاک المفتون ویسے بھی تمام لوگوں کا کسی نقطہ پر جمع ہوجانا اور دین و مذہب میں باہمی اختلاف کا رونما ہونا ایک ایسی ناممکن بات ہے جس کی خبر خو قرآن کریم نے بھی دی ہے مثلا فرمایا گیا ہے ولایزالون مختلفین الا من رحم ربک وبذالک خلقہم یعنی اور لوگ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے مگر جس پر آپ ﷺ کے رب کی رحمت ہو اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اسی لئے پیدا کیا ہے۔ اگر زمانہ رسالت کے بعد دینی معاملات و مسائل میں امت (یعنی علماء ومجتہدین) کے درمیان پیدا ہونے والے باہمی اختلاف کے بارے میں آپ ﷺ کو واضح احکام و ہدایات کو مرتب کرانا ہوتا تو اس کے لئے آپ ﷺ اپنی زندگی کے ان آخری لمحات میں ارادہ نہ فرماتے بلکہ بہت پہلے ہی جب کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کو ان آئندہ اختلاف کی خبردیا کرتے تھے، مذکورہ نوشتہ تحریر فرمادیتے علاوہ ازیں یہ بات بھی سمجھ میں نہ آنے والی نہیں ہے کہ دین و شریعت کے وہ تمام احکام و مسائل جن کے نزول اور وجوب ونفاذ کا زمانہ بیس سال کے عرصہ پر پھیلا ہوا تھا، آخری ایام حیات کے اس مختصر ترین عرصہ میں کس طرح سمیٹے جاسکتے تھے اور یہ کیسے تھے اور یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ ﷺ اس وقت ان تمام احکام و مسائل کو اس طرح ملخص ومرتب فرمادیتے کہ ائندہ ان کے بارے میں کسی اختلاف کی ذرہ برابر گنجائش باقی نہ رہ جاتی۔ لہٰذا اس قول کو تسلیم کرنا ممکن نہیں، ہاں یہ بات تو ایک حد درجہ میں کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس وقت ایک ایسا نوشتہ لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا جس میں ان احکام و مسائل کا ذکر ہوتا کہ جو پچھلے زمانوں میں تو موجود تھے لیکن کتاب وسنت میں ان کا ذکر نہیں ہے، یا یہ کہ آپ ﷺ اس نوشتہ میں مسلمانوں کے فرقہ ناجیہ کے طور طریقوں اور علامتوں کو ذکر کرنا اور ان گمراہ فرقوں کے احوال و عواقب کو تفصیلی طور پر بیان کرنا چاہتے تھے جو بعد میں اس امت کے درمیان پیدا ہوئے جیسے معتزلہ، خوارج، روافض اور تمام بدعتی، لیکن حکمت الٰہی کو یہ منظور نہ تھا اس لئے آپ ﷺ وہ نوشتہ تیار نہ فرما سکے۔ (اس وقت) آنحضرت ﷺ پر بیماری کا شدید غلبہ ہے اس بات سے حضرت عمر کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگوں کی دینی زندگی کو سنوارنے اور مستحکم رکھنے کے لئے اللہ کی کتاب موجود ہی ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یعنی تم سب اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھامے رہو۔ رہی حدیث وسنت کی بات تو وہ بھی قرآن ہی کے ضمن میں آتی ہے کیونکہ حدیث وسنت کا اصل و موضوع قرآن کی وضاحت وترجمانی ہی ہے۔ پس حضرت عمر کا مقصد آنحضرت ﷺ کی بات کو کاٹنا نہیں تھا بلکہ ان کے مخاطب تو وہ لوگ تھے جنہوں نے اس وقت بحث ونزاع شروع کردی تھی اور اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے لکھنے کا سامان لے آنا چاہئے تاکہ آپ ﷺ پر مرض کا شدید غلبہ ہے اور آپ ﷺ سخت کرب میں مبتلا ہیں زیادہ سے زیادہ راحت و آرام کا موقع آپ ﷺ کو ملنا چاہئے دوسرے یہ کہ ان کی فراست نے جان لیا تھا کہ آپ ﷺ کا یہ حکم وجوب وجزم کے ساتھ نہیں ہے بلکہ خود صحابہ اور مسلمانوں کی مصلحت کے تحت ہے کہ اگر وہ اس پر عمل کریں تو یہ ان کا اختیار ہے اور اگر عمل نہ کریں تو ان کی مرضی چناچہ یہ آپ ﷺ کا ہمیشہ معمول تھا کہ جب آپ ﷺ کسی معاملہ میں ایسا حکم دیتے جو وجوب ولزوم کے ساتھ نہ ہوتا تو صحابہ کرام کو اس میں اظہار رائے کی پوری آزادی ہوتی اگر وہ اس میں اشکال وتردد کا اظہار کرتے تو آپ ﷺ اس حکم کی تعمیل کو ضروری قرار نہ دیتے بلکہ صحابہ کی رائے اور صوابدید پر چھوڑ تے تھے ہاں جو حکم وجوب ولزوم کے طور پر ہوتا ہے اس کی تعمیل ضروری ہوتی، اس کو آپ ﷺ صحابہ کی رائے اور صوابدید پر نہ چھوڑتے تھے نیز حضرت عمر کو یہ احساس بھی ہوا ہوگا کہ اس وقت آنحضرت ﷺ جو کچھ تحریر فرمانا چاہتے ہیں شاید وہ کوئی ایسا حکم ہو جس کی تعمیل صحابہ کے لئے شاق اور سخت دشواری کا باعث بن جائے اور پھر اس کی وجہ سے پوری امت کو کسی فتنہ اور آزمائش سے دوچار ہونا پڑجائے لہٰذا اپنے مذکورہ الفاظ کے ذریعہ انہوں نے اس طرف اشارہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کا اپنے اس ارادہ کو ترک کردینا ہی اولی ہے اور ان کے اس اشارہ کو سمجھ کر آنحضرت ﷺ نے اس ارادہ کو ترک بھی فرما دیا اس کی مثال وہ واقعہ ہے جو ابتدائے کتاب (باب الایمان) میں گذرا کہ جب آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوہریرہ (رض) فرمایا کہ جا کر لوگوں کو بشارت دے دو کہ جس شخص نے لاالہ الا اللہ۔ کہا وہ جنت میں داخل ہوگا اور پھر جب ابوہریرہ (رض) نے یہ بشارت سب سے پہلے حضرت عمر تک پہنچائی تو انہوں نہ صرف یہ کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کو یہ بشارت اور لوگوں تک پہنچانے سے روک دیا بلکہ دربار رسالت میں عرض کیا کہ (یہ بشارت عام نہ کیجئے ورنہ) لوگ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے اور عمل کرنے میں سست ہوجائیں گے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کے اس مشورہ کو قبول فرما لیا اور اس بشارت کو عام لوگوں تک پہنچانے کا حکم واپس لے لیا ان وضاحتوں کے علاوہ ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح حضرت عمر کے دوسرے موافقات ہیں کہ کئی مسئلوں میں ان کا اتفاق بصورت اختلاف ظاہر ہوا ہے اسی طرح اس واقعہ کو اور ان کے مذکورہ قول کو بھی موافقت ہی پر محمول کیا جائے اس صورت میں مخالفت کا الزام ان پر اٹھ جائے گا اس پہلو کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کی بات سن کرسکوت فرمایا یعنی کوئی ہدایت نامہ یا وصیت نامہ لکھنے کا ارادہ ترک کردیا۔ ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ حکم ازخود نہیں دیا تھا بلکہ صورت حال یہ ہوئی تھی کہ پہلے بعض صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی تھی کہ کچھ وصیتی کلمات تحریر فرما دیں، ان کی درخواست پر آپ ﷺ نے کچھ لکھنے کا اپنا رجحان ظاہر کیا اور سامان کتابت لانے کا حکم دیا مگر جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ کچھ کہ کچھ صحابہ جیسے حضرت عمر اور ان کی تائید کرنے والوں کا رجحان اس کے خلاف ہے تو آپ ﷺ نے تحریر کا ارادہ ترک فرمادیا بیہقی نے لکھا ہے سفیان ابن عیینہ نے ثقہ اہل علم سے نقل کیا ہے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ یہ چاہتے تھے کہ منصب خلافت کے لئے حضرت ابوبکر کو نامزد کردیں اور اس کے بارے میں ایک تحریر مرتب فرما دیں لیکن بعد میں آپ ﷺ نے اس اعتماد پر تحریرکا ارادہ ترک کردیا کہ تقدیر الہٰی کا فیصلہ خود بخود سامنے آجائے گا اور عام مسلمان بھی اس فیصلہ سے انحراف نہیں کریں گے) چناچہ آپ کا ارشاد گرامی یابی اللہ والمؤمنون الاابابکر (اللہ تعالیٰ اور تمام ابوبکر کے علاوہ اور کسی کو خلافت کے لئے قبول نہیں کرینگے) سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے (یہ حدیث تفصیل کے ساتھ آگے آرہی ہے) رہی شعیوں کی بات جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس وقت آنحضرت ﷺ کے ارادہ تحریر کا اصل مقصد حضرت علی کے حق میں خلافت کی وصیت کرنا تھا تو وہ خود اپنے دعوؤں کے باہمی تضاد کا شکار ہیں، ایک طرف تو وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کا دعویٰ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے غدیرخم میں پہلے ہی حضرت علی کی خلافت کا معاملہ طے کردیا تھا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ تمہارے قول کے مطابق جب آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کی خلافت کا فیصلہ پہلے کردیا تھا تو پھر اب وصیت نامہ لکھنے کی ضرورت کیا باقی رہ گئی تھی۔ تم سب لوگ میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ گویا آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں پر واضح کردیا کہ میں نے اس اعتماد اور بھروسہ پر اب کچھ لکھنے کا قصہ چھوڑ دیا ہے کتاب وسنت کی موجود گی ہی تمہاری ہدایت و رہنمائی کے لئے کافی ہے اس موقع پر نووی نے لکھا ہے کہ اس وقت یا تو یہ صورت حال پیش آئی تھی کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کے مفاد و مصلحت میں بعض چیزیں تحریر میں لے آنا خود اپنی رائے اور اپنے خیال کے مطابق مناسب سمجھا تھا لیکن پھر آپ ﷺ نے جب یہ دیکھا کہ کچھ نہ لکھناہی عین مصلحت ہے تو آپ ﷺ نے اپنی رائے اور اپنا خیال تبدیل کردیا یا یہ ہوا تھا کہ آپ ﷺ نے یہ ارادہ وحی کے ذریعہ کے ذریعہ خدائی ہدایت آنے کے بعد کیا لیکن پھر بعد میں دوسری وحی کے ذریعہ جب اس ارادہ کو موقوف کردینے کا حکم آیا تو آپ ﷺ نے لکھنے کا ارادہ ترک فرما دیا۔ نووی نے یہ لکھا ہے کہ حضرت عمر نے اس موقع پر (وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کرکے) جو یہ فرمایا تھا کہ حسبکم کتاب اللہ یعنی تمہارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے، تو اس سے ان کے کمال تفقہ اور فہم ونظر کا اظہار ہوتا ہے، دراصل حضرت عمر کو یہ خوف ہوا کہ کہیں آنحضرت ﷺ نے ایسے احکام تحریر فرما دئے جس پر عمل کرنا عام مسلمانوں کے لئے ممکن نہ ہوسکا تو ان احکام کے منصوص ہونے کے سبب ان میں اجتہاد و تاویل کی قطعا گنجائش نہ ہوگی اور لوگ ان پر عمل نہ کرنے کی بنا پر عذاب الہٰی کے مستوجب ہوجائیں گے۔ نیز انہوں نے اپنے قول حسبکم کتاب اللہ کے ذریعہ گویا اللہ تعالیٰ کے ارشاد مافرطنا فی الکتاب من شیأاور ارشاد الہٰی الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی کی طرف اشارہ کیا۔ مصیبت ہے پوری مصیبت اس جملہ کے ذریعہ حضرت ابن عباس نے دراصل اس موقع پر صحابہ کے اظہار اختلاف اور شوروشغب کو ایک ایسی بری صورت حال سے تعبیر کیا جس نے آنحضرت کو اپنے ارادہ تحریر کی تکمیل سے باز رکھا، ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کاش، وہ لوگ اختلاف ونزاع کا اظہار کرتے تو آنحضرت ﷺ کوئی ایسا نوشتہ مرتب فرما دیتے جو امت کے لئے ہمیشہ ہدایت وراستی کا ذریعہ بنتا گویا حضرت ابن عباس کا رجحان حضرت عمر اور ان کے مؤیدین کی رائے کے خلاف تھا اور وہ اس بات کے حق میں تھے کہ آنحضرت ﷺ کو اس وقت لکھنے کا موقع ضرور دینا چاہے بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر کا اصل مقصد یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ مرض کے اس شدید غلبہ کے وقت لکھنے کی زحمت اور تکلیف برداشت نہ کریں، اگر آنحضرت ﷺ اس وقت کوئی چیز لکھنا ضروری اور واجب سمجھتے تو حضرت عمر یا کسی کے بھی اختلاف رائے کے اظہار سے اپنا ارادہ موقوف نہ فرماتے، کیونکہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا حکم تھا بلغ ما انزل الیک من ربک (جو بھی بات آپ ﷺ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہو اس کو لوگوں تک پہنچا دیئجے) چناچہ جو باتیں لوگوں تک پہچانی ضروری تھیں ان کی تبلیغ و اشاعت آپ ﷺ نے ہر صورت میں کی اگرچہ دشمنان دین اور مخالفین اسلام نے آپ ﷺ کی لاکھ مخالفت کی، یا جیسا کہ اسی موقع پر ہوا کہ جس چیز کی وصیت و ہدایت کرنا آپ ﷺ نے ضروری سمجھا (یعنی جزیرہ عرب سے یہودیوں کا نکالنا وغیرہ) اس کی ہدایت آپ نے کی غرضیکہ اس وقت آنحضرت ﷺ جو چیز لکھنا چاہتے تھے وہ چونکہ ضروری نہیں تھی اس لئے حضرت عمر کی عقل میں آیا کہ شدت مرض کے کرب اور بےچینی کی حالت میں آپ ﷺ کو لکھنے کی زحمت کیوں دی جائے اور پھر دین و شریعت کا ایسا کون سا حکم اور ہدایت ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں موجود نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا الیوم اکملت لکم دینکم اس ارشاد الہٰی سے جو مفہوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ دین و شریعت سے متعلق قیام قیامت تک پیش آنے والی ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کا حکم اور مسئلہ کتاب وسنت میں خواہ دلالۃ خواہ صراحۃ موجود نہ ہو حضرت عمر کے معمولی فہم و ادراک میں ایک یہ بات بھی آگئی تھی کہ آنحضرت ﷺ کوئی ایسا نوشتہ مرتب فرمانا ہیں جس میں دینی احکام و مسائل کا بطریق اتمام بیان ہو اس صورت میں اجتہاد کا جواز ختم ہوجائے گا اور اہل علم واستنباط پر اجتہاد کا دروازہ بند ہوجائے گا لہٰذا انہوں نے آنحضرت ﷺ کو شدت مرض میں لکھنے کی تکلیف سے بچانے اور ارباب اجتہاد کو ان کی فضیلت سے محروم نہ ہونے دینے کی نیت سے اسی بات کو زیادہ اچھا سمجھا کہ آنحضرت ﷺ تحریر کا ارادہ ترک فرمادیں اور آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کی بات کو رد نہ کرکے اور اپنے ارادہ تحریر کو ترک فرما کر گویا حضرت عمر اور ان کے مؤیدین کے فہم و ادراک سے کہیں زیادہ مضبوط اور قوی تھا۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگے اور اتنا روئے حضرت ابن عباس کے رونے کا سبب یا تو یہ تھا کہ اس دن کا ذکر کرتے ہوئے ان کو آنحضرت ﷺ کی وفات کا سانحہ یاد آگیا تھا، یا یہ کہ ان کے گمان کے مطابق آنحضرت ﷺ اس دن جو نوشتہ مرتب فرمانا چاہتے تھے وہ چونکہ امت کے حق میں خیر کثیرکا باعث بنتا اس لئے یہ سوچ کر اس نوشتہ کے نہ لکھے جانے سے امت خیر کثیر سے کس طرح محروم ہوگئی ان کا دل بھر آیا وہ رونے لگے یہ دوسرا احتمال اس موقع سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوسکو علماء لکھا ہے کہ عبارت کا ظاہری اسلوب صاف بتارہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ارادہ دین و شریعت کے احکام و مسائل کو تفصیل و وضاحت کے ساتھ لکھنے کا تھا نہ کہ خلافت کے بارے میں کوئی وصیت کرنے کا۔ نبی کے سامنے اختلاف ونزاع کا اظہار مناسب نہیں ہے عبارت کے سیاق سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہم کہ جملہ حضرت ابن عباس کا اپنا ہے، جس کو انہوں نے روایت کے درمیان داخل کیا ہے، جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اصل میں یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے جس کو اس موقع پر ابن عباس نے استدلال کے طور نقل کیا ہے۔ کیا آنحضرت ﷺ (دنیا کو) کو چھوڑ رہے ہیں یہ لفظ اھجر کا ترجمہ ہے، فتح الباری میں قرطبی کے حوالہ سے اس لفظ کے معنی میں کئی احتمال بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک احتمال یہ نقل کیا گیا ہے کہ لفظ اہجر دراصل ہجر (بمعنی چھوڑنا) کا فعل ماضی ہے اور اس کا مفعول الحیٰوۃ محذوف ہے، اسی احتمال کو زیادہ موزوں اور مناسب سمجھتے ہوئے ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے اور حضرت شیخ عبد الحق نے یہ ترجمہ بیان کیا ہے کہ (یہ بات آنحضرت ﷺ کی کس حالت کی غماز ہے ؟ ) کیا ( شدت مرض کے سبب) آپ ﷺ کا کلام مختط ہوگیا ہے ؟ (جیسے عام بیماروں کی حالت میں سمجھا جاتا ہے کہ ان کی زبان سے کبھی کچھ نہیں نکلتا ہے اور کبھی کچھ) اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ جملہ استفہام انکاری پر محمول اور ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آنحضرت ﷺ نے لکھنے کا سامان لانے کا حکم حو اس و شعور کے ساتھ نہیں دیا ہے بلکہ بیماری کی شدت کے سبب آپ ﷺ کی زبان سے یہ بات یونہی نکل گئی ہے ؟ آنحضرت ﷺ کے بارے میں اس طرح کا گمان و خیال قائم کرلینا چونکہ نہایت غیرموزوں ہے لہٰذا آپ ﷺ کے اس حکم کو پورا کرو اور لکھنے کا سامان لا کر رکھ دو تاکہ آپ ﷺ جو لکھنا چاہتے ہیں لکھ دیں۔ اس حالت سے بہتر و افضل ہے جس کی طرف تم مجھے متوجہ کر رہے ہو اس بات سے آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت میں عالم آخرت کے سفر کی آخری تیاری، پروردگار سے ملنے کے اشتیاق اور ذات حق میں تفکر واستغراق کی اعلی حالت میں ہوں، لیکن تم لوگ آپس کے لفظی تکرار وبحث اور شوروشغب اور اظہار اختلاف کے ذریعہ میرا دھیان بٹانا چاہتے ہو اور اپنی طرف متوجہ کر رہے ہو۔ لہٰذا تم سب لوگ یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ تاکہ میں تمہاری ادنیٰ حالت کے بجائے اپنی اعلی حالت کی طرف متوجہ ہوں اس موقع پر ملاعلی قاری نے خطابی کے حوالہ سے مشہور حدیث اختلاف امتی رحمتہ (میری امت کا اختلاف رحمت ہے) کے بارے میں لکھا ہے کہ دین و شریعت میں اختلاف کی تین قسمیں ہیں، ایک تو صانع یعنی اللہ تعالیٰ کے اثبات اور اس کی وحدانیت میں اختلاف، پس یہ اختلاف (کہ جس کی بنیاد حق تعالیٰ کے وجود وحدانیت سے انکار پر ہوتی ہے) صریح کفر ہے، دوسرے حق تعالیٰ کی صفات اور مشیت میں اختلاف یہ اختلاف (کہ جس کی بنیاد ذات باری تعالیٰ کی صفات اور مشیت کے انکار پر ہوتی ہے) بدعت اور گمراہی ہے اور تیسرا اختلاف (کہ جس کی بنیاد وہ ہے جو دین و شریعت کے ایسے فروعی احکام مسائل کے استنباط وبیان سے تعلق رکھتا ہے جو مختلف جہات اور متعدد معنی کا احتمال رکھتے ہیں اور یہی اختلاف ہے جو ارباب علم و اجتہاد کے درمیان ہوتا ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے علماء ومجتہدین کے لئے رحمت و کر امت قرار دیا ہے ملاعلی قاری نے مازری کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ اس موقع پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ جب آنحضرت ﷺ نے وہاں موجود صحابہ کو امر (حکم) فرمایا کہ (میرے پاس لکھنے کا سامان) لاؤ میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں تو صحابہ کے لئے اختلاف کی گنجائش کیا تھی اور انہوں نے (حکم کی فوری تعمیل کے بجائے) اختلاف کا اظہار کیسے کیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ دراصل وہ اوامر (احکام) کہ جن کے صدور میں کچھ خارجی قرائن بھی شامل ہوں، ان کی حیثیت اور نوعیت تبدیل ہوسکتی ہے چناچہ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ اوامر کی اصل وجوب ہے ان کے نزدیک بھی ان قرائن کے سبب وجوب کا حکم استحباب میں بدل جاتا ہے کہ جو حضرات کہتے ہیں کہ اوامر کی اصل استحباب ہے ان کے نزدیک بھی قرائن کے سبب استحقاق کا حکم وجوب میں بدل جاتا ہے پس ہوسکتا ہے کہ یہ حکم دیتے وقت آنحضرت ﷺ سے ایسے قرائن ظاہر ہوئے ہوں جن سے یہ واضح ہوا ہوگا کہ اس حکم کی تکمیل وجوب اور ضروری نہیں ہے بلکہ اختیاری ہے لہٰذا صحابہ نے اپنے اپنے اجتہاد کے تحت جس پہلو کو مناسب جانا اختیار کیا۔ اور اسی سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام دین و شریعت کے معاملات میں ضرورت کے وقت اجتہاد کا سہارا لیتے تھے رہی یہ بات کہ حضرت عمر کے اجتہاد نے نوشتہ نہ لکھے جانے کے پہلو کو جو اختیار کیا تو اس کی بنیاد تو اس کی بنیاد کیا تھی ؟ تو ہوسکتا ہے کہ (ان کو یقین حاصل ہوا ہو کہ آنحضرت ﷺ کے ارادہ اور حکم کا عدم وجوب ظاہر ہوتا ہے۔ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دو اس کی وضاحت باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب۔ میں پیچھے گزر چکی ہے، اسی طرح جزیرہ عرب کی تشریح بھی کتاب کے ابتدائی ابواب میں سے باب الوسوسۃ میں ہوچکی ہے۔ جو ایلچی وقاصد آئیں اس کا حکم کا مطلب یہ تھا کہ دوسرے ملکوں اور سربراہان مملکت کے جو ایلچی اور سفراء تمہارے ہاں آئیں ان کے مراتب اور ان حیثیت کے مطابق ان کے ساتھ اعز ازوتکر یم، خاطر مدارت اور حسن سلوک و احسان کا معاملہ اسی انداز اور طور طریقے کی مناسبت کے ساتھ کرنا جو میرا معمول تھا آپ نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ ایک طرف تو اسلامی اخلاق و معاملات کی بلندی کا اظہار ہو دوسری طرف ان ایلچیوں اور قاصدوں کو خوشی و اطمینان ہو اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا حسن سلوک دیکھ کر مؤلفۃ القلوب میں سے دوسرے لوگوں کا رجحان اسلام اور مسلمانوں کی طرف بڑھے۔ علماء نے لکھا کہ حسن کا یہ حکم ہر قاصد وایلچی کے بارے میں ہے خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ لیکن میں اس کو بھول گیا ہوں کے تحت ملاعلی قاری نے تونووی کے حوالہ سے یہ لکھا ہے کہ (سفیان ابن عیینہ نے اس جملہ کی نسبت جس طور سے سلیمان احول کی طرف کی ہے وہ صحیح نہیں ہے) بلکہ حقیقت میں خاموشی اختیار کرنے والے تو حضرت ابن عباس تھے اور لیکن میں اس کو بھول گیا ہوں کہنے والے حضرت سعید ابن جبیر ہیں جو حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کے روای ہیں اور ان سے سلیمان احول نقل کرتے ہیں اور حضرت شیخ عبد الحق نے اپنی شرح میں سکت (خاموشی اختیار کرلی) کا فاعل آنحضرت ﷺ کو قرار دیا ہے، ان کے مطابق گویا یہ بات حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ یا تو آنحضرت ﷺ نے تیسری بات فرمائی ہی نہیں، یا یہ کہ آپ ﷺ نے تیسری بات یہ فرمائی تھی مگر میں اس کو بھول گیا ہوں بہرحال محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ نے جو تیسری بات فرمائی تھی وہ حضرت اسامہ کے لشکر کا سامان درست کرنے کا حکم تھا کہ جس کی درستی اور تیاری میں آپ ﷺ مشغول ہی تھے کہ مرض الموت میں مبتلا ہوگئے یا وہ تیسری بات قبربرستی کی ممانعت سے متعلق تھی جیسا کہ ایک روایت میں اس کے لئے یہ الفاظ منقول ہیں لاتتخدواقبری وثنا یعبد (میری قبر کو بت مت بنا لینا کہ اس کو پوجا جانے لگے ) ۔

【21】

نزول وحی کا منقطع ہوجانے کا غم

اور حضرت انس بیان کرتے ہیں رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد ایک دن حضرت ابوبکر حضرت عمر فاروق سے بولے کہ آؤ، ام یمن کے ہاں چلیں اور ان کی زیارت کریں جس طرح رسول کریم ﷺ ان کی ملاقات کو تشریف لے جایا کرتے تھے چناچہ جب ہم تینوں (یعنی میں اور حضرت ابوبکر وحضرت عمر ام یمن کے ہاں پہنچے تو وہ (ہمیں دیکھ کر) رونے لگیں، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر دونوں نے کہا کہ کا ہے کو روتی ہو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے لئے اللہ کے ہاں (درجات و مراتب اور اعزازو انعام کی صورت میں) جو کچھ ہے وہ بہتر ہے ام ایمن بولیں میرے رونے کا سبب یہ نہیں ہے کہ میں اس بات سے لاعلم ہوں کہ اللہ کے ہاں رسول ﷺ کے لئے جو کچھ ہے بہتر ہی بہتر ہے (کیونکہ یہ تو بالکل ظاہری چیز ہے اور ہر شخص جانتا ہے) بلکہ میں اس لئے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے (اور ہم دنیا والے اس کی برکتوں سے محروم ہوگئے ہیں) ام ایمن (کے ان الفاظ) نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر بھی رقت طاری کردی اور وہ دونوں حضرات بھی ان کے ساتھ رونے لگے (مسلم ) تشریح ام ایمن حضرت اسامہ ابن زید کی ماں ہیں اور آنحضرت ﷺ کی آزادہ کردہ باندی ہیں۔ ان کا اصل نام برکتہ تھا اور آنحضرت ﷺ کے والد ماجد عبداللہ کی باندی تھیں، بعد میں ان کا ملکیت بطور وراثت آنحضرت ﷺ کو ملا تو آپ ﷺ نے ان کو آزاد کردیا تھا اور حضرت زید کے نکاح میں دے دیا تھا۔ حضرت زید بھی پہلے غلام تھے اور حضرت خدیجہ الکبری کی ملکیت میں تھے آنحضرت ﷺ نے ان کو خدیجہ الکبری سے مانگا تو انہوں نے زید کو بطور ہبہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور پھر آپ نے ان کو آزاد کردیا۔ حضرت ام ایمن حبشی النسل تھیں اور صحابی عورتوں اونچا مقام رکھتی تھیں، آنحضرت ﷺ ان کی بڑی عزت و توقیر فرماتے تھے۔ ام ایمن بھی اسلام اور مسلمانوں کی محبت سے پوری طرح سرشار تھیں، میدان جنگ میں مجاہدین اسلام کو پانی پلانا اور زخمی ہوجانے والوں کی دوادارو اور دیکھ بھال کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا تھا، حضرت عمر فاروق کے انتقال کے بیس دن بعد ان کی وفات ہوئی۔

【22】

مسجد نبوی کے منبر پر آخری خطبہ

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنے مرض وفات میں (ایک دن) اپنے حجرہ سے نکل کر مسجد نبوی میں تشریف لائے جہاں ہم (پہلے سے) بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت آپ ﷺ نے اپنے سر کو کپڑا باندھ رکھا تھا (جیسا کہ درد سر کا مریض اپنے سر کو باندھے رکھتے ہے) پھر آپ ﷺ منبر کی طرف چلے اور اس پر کھڑے ہوئے، آپ ﷺ کے ساتھ ہم بھی آگے بڑھ کر آپ ﷺ کے سامنے) بیٹھ گئے اس وقت آپ ﷺ نے (حمد وثنا کے بعد) فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اس وقت اپنی جگہ (یعنی اس منبر پر کھڑا ہوا حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں پھر فرمایا ایک بندہ ہے جس کے سامنے (فانی دنیا اور دنیا کی (فانی) بہاریں پیش کی گئیں لیکن اس نے (مٹ جانے والی دنیا پر) آخرت (کی کبھی نہ مٹنے والی تعمتوں) کو ترجیح دے دی ہے حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے رمز سوائے ابوبکر کے کوئی نہ سمجھ سکا، (زبان رسالت سے یہ الفاظ سن کر) ابوبکر کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اور وہ رونے لگے، پھر بولے (نہیں) یا رسول اللہ ﷺ ! (نہیں، ایسی دلدوز بات نہ فرمائیے) ہم اپنے باپوں کو، ماؤں کو، اپنی جانوں کو اور اپنے مالوں کو آپ ﷺ پر سے صدقہ کردیں گے۔ حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ منبر پر سے اتر کر تشریف لے گئے اور اس وقت تک پھر کبھی اس منبر پر نہ کھڑے نہ ہوئے (یعنی اس دن آپ کا منبر پر کھڑا ہونا آخری کھڑا ہونا تھا ) ۔ (دارمی) تشریح دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل نے آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چاہے آپ ﷺ دنیا میں ابھی اور رہیں اور ہم دنیا کے خزانے آپ ﷺ کے سپرد کریں اور ان پہاڑوں کو آپ کے لئے سونا چاندی کا بنادیں بغیر اس کے کہ ہمارے ہاں (آخرت میں) آپ کے لئے جو درجہ اور اجر و انعام مقرر ہے اس میں ذرہ برابر کمی ہو اور چاہے آپ ﷺ ہمارے پاس آجائیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے سرجھکا لیا (جیسا کہ کسی اہم فیصلہ کا اعلان کرنے سے پہلے ارباب غور وفکر سرجھکا کر سوچنے لگتے ہیں) اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ کے غلاموں میں سے ایک غلام وہاں موجود تھا اس نے جو یہ بات سنی کہ آپ ﷺ کو دولت وزر کی اتنی زبردست پیشکش کے ساتھ دنیا میں رہنے کا اختیار دیا جارہا ہے) تو وہ بولا یا رسول اللہ ﷺ ! اس میں کیا حرج ہے اگر آپ ﷺ کچھ مدت اور دنیا میں رہنا منظور فرما لیں، آپ ﷺ کے طفیل میں حاصل ہونے والے مال وزر سے ہم لوگ بھی آرام و آسائش کی زندگی گزار لیں گے، آنحضرت ﷺ نے اس غلام کی بات پر توجہ دینے کے بجائے نگاہ اٹھا کر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف دیکھا اور جاننا چاہا کہ پیشکش اور اختیار کا اصل مقصد کیا ہے اور (جب سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ اصل مقصد اپنے پاس بلانا ہے تو) فرمایا میں وہاں آنا چاہتا ہوں اس طرح آپ ﷺ نے آخرت کو اختیار کرلیا جس کو فنا نہیں، زوال نہیں اور دنیا کو ٹھکرا دیا جس کا انجام فنا اور زوال کے علاوہ کچھ نہیں اسی بنا پر بعض نے بہت خوب کہا ہے کہ اگر کسی سمجھ دار کو ایسے دو پیالوں میں سے کسی ایک پیالہ کو چن لینے کا اختیار دیا جائے جن میں سے ایک پیالہ تو مٹی کا ہو لیکن پائیدار رکھتا ہو اور دوسرا پیالہ سونے کا ہو مگر پائداری نہ رکھتا تو وہ سمجھدار یقینا اس پیالہ پر کہ جو سونے کا ہم مگر جلد ہی ختم ہوجانے والا ہے اس پیالہ کو ترجیح دے گا جو مٹی کا ہونے کے باوجود پائیدار اور باقی رہنے والا ہے اور کہیں صورت حال اس کے برعکس ہو یعنی سونے کے پائیدار پیالہ اور مٹی کے پائیدار پیالہ اور مٹی کے غیر پائیدار پیالہ میں سے کسی ایک پیالہ کو پسند کرلینے کا اختیار ہو تو پھر کوئی انتہائی نادان اور بیوقوف ہی شخص ہوگا جو پائیدار سونے کے پیالہ کو چھوڑ کر جلد ضائع ہوجانے والے مٹی کے پیالہ کو پسند کرے گا۔ پس جان لینا چاہئے کہ آخرت کی مثال اس پیالہ کی سی ہے جو پائیدار بھی ہے اور سونا کا بھی ہے جب کہ دنیا کی مثال اس پیالہ کی ہے جو نہ صرف مٹی کا ہے بلکہ جلد ضائع اور فنا ہوجانے والا ہے، قرآن کریم میں اسی حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے والاخرۃ خیروابقی اور آخرت ہی بہتر واعلی بھی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والا بھی۔

【23】

حضرت فاطمہ سے وفات کی پیش بیانی

اور حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب سورت اذا جاء نصر اللہ والفتح نازل ہو تو رسول کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ کو بلایا اور ان سے فرمایا مجھ کو میری موت کی خبر دی گئی ہے حضرت فاطمہ (یہ سنتے ہی آپ ﷺ کی دائمی جدائی کا احساس کرکے) رونے لگیں آپ ﷺ نے فرمایا (میری بیٹی) روؤ نہیں، میرے اہل بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے ملوگی (یہ سن کر مارے خوشی کے) حضرت فاطمہ ہنسنے لگیں، (وہاں موجود) بعض ازواج مطہرات نے حضرت فاطمہ سے اس طرح (پہلے روتے اور پھر ہنستے) دیکھا تو پوچھا کہ فاطمہ ! یہ کیا بات ہے کہ ہم نے پہلے تو تمہیں روتے دیکھا اور ہنستے دیکھا ؟ حضرت فاطمہ بولیں آنحضرت ﷺ نے پہلے مجھے یہ بتایا تھا کہ آپ ﷺ کو آپ کی کی موت کی خبر دے دی گئی ہے، یہ سن کر رونے لگی تھی اور پھر جب آپ نے یہ فرمایا کہ روؤ نہیں، میرے اہل بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے ملوگی تو میں ہنسنے لگی اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور (مکہ کی) فتح حاصل ہوگی اور یمن کے لوگ آگئے جو دل کے نرم ہیں، ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے۔ (دارمی) تشریح مجھ کو میری موت کی خبر دے دی گئی گویا آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ سورت دراصل اس دنیا سے میری رحلت کا اعلامیہ ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت اور فتح کامرانی اور دین میں لوگوں کے جوق در جوق داخل ہونے کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی تسبیح وتحمید کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ دنیا میں میرے رہنے اور میری بعثت کا جو مقصود ہے یعنی اتمام دعوت اور تکمیل دین وہ پورا ہوگیا ہے اب مجھے تسبیح وتحمید اور ذات حق کی طرف کامل توجہ واستغراق کے ذریعہ سفر آخرت کی تیاری کرنی چاہیے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے ملوگی یہ الفاظ حضرت فاطمہ کی محض تسلی کے لئے نہیں تھے بلکہ ان کے سامنے اس حقیقت کی پیش گوئی کے طور پر تھے کہ میری رحلت کے بعد میرے اہل بیت میں سے جس کی موت سب سے پہلے ہوگی وہ تم ہی ہو اور میری جدائی کا غم تمہیں زیادہ دن برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی رحلت کے چھ ماہ بعد ایک روایت میں تین یا دو مہینے بعد اور ایک روایت میں ستر روز بعد ان کی وفات کا ذکر ہے۔ بعض ازواج مطہرات سے مراد حضرت عائشہ مراد ہیں جیسا کہ طیبی نے لکھا ہے لہٰذا کہا جائے گا کہ فقلن تو انہوں نے کہا جمع کا صیغہ حضرت عائشہ کی تعظیم شان کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ تاہم یہ بعید نہیں ہے کہ اس موقع پر حضرت عائشہ کے علاوہ کچھ دوسری ازواج مطہرات بھی موجودہوں اور ان سب نے حضرت فاطمہ کو پہلے روتے اور پھر ہنستے دیکھ کر ان سے صورت حال کے بارے میں سوال کیا ہو بلکہ ظاہری عبادت بعض یعنی ازواج النبی اور فقلن کے الفاظ سے یہی احتمال زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے، نیز آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ سے مذکورہ بات چونکہ بہت چپکے سے کہی تھی اس لئے حضرت فاطمہ کے علاوہ اور کسی نے اس بات کو نہیں سنا اور اسی لئے انہوں نے حضرت فاطمہ سے دریافت کیا، بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت فاطمہ نے ان ازواج مطہرات کے پوچھنے پر بھی اس وقت اصل بات نہیں بتائی تھی، بلکہ صرف یہ جواب دیا تھا کہ میرے اور رسول اللہ کے درمیان ایک راز ہے میں کسی اور کو نہیں بتاؤں گی۔ اور پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد انہوں نے یہ بات بتائی تھی۔ اور یمن کے لوگ آگئے اس کے ذریعہ آپ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور ان کی قوم کے لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا، نحوی طور پر وجاء اہل الیمن کا عطف جاء نصر اللہ پر ہے اور اصل میں یہ جملہ (کہ اور اہل یمن آگئے (مذکورہ سورت کے ان الفاظ ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا، کی وضاحت و تفسیر ہے، مطلب یہ کہ اس آیت میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ نے لوگوں کو دین میں داخل ہوتے دیکھ لیا تو لوگوں سے مراد اہل یمن ہیں۔ جو دل کے نرم ہیں یہ الفاظ آپ نے اہل یمن کی مدح و تعریف میں فرمائے کہ وہ لوگ احکام و ہدایات کو بہت جلد مان لیتے ہیں ان کے دل وعظ و نصیحت سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں، قبول حق کی استعداد ان میں زیادہ ہے اور قلب کی قساوت سے وہ محفوظ ہیں۔ ایمان یمنی ہے یعنی ایمان کا لفظ یمن سے نکلا ہے جو ملک یمن سے لفظی ہی نہیں بلکہ معنوی مناسبت بھی رکھتا ہے۔ دراصل یہ جملہ بھی اہل یمن کی مدح میں یعنی ان کے درجہ کمال کو ظاہر کرنے کے لئے ہے جو وہ ایمان واسلام اور اطاعت وانقیاد میں رکھتے ہیں۔ اور حکمت بھی یمنی ہے کا مطلب یہ ہے کہ علم و حکمت کو جو حقائق اشیاء اور ان کے احوال و خواص کی معرفت سے عبارت ہے اہل یمن سے خصوصی نسبت حاصل ہے کیونکہ وہ تحقیق و جستجو کا خاص ذہن فکر رہتے ہیں۔ ان الفاظ کے ذریعہ دراصل آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کے ان سوالات کی طرف اشارہ فرمایا جو انہوں نے احوال مبداء ومعاد اور ابتدائے پیدائش کے حقائق و معارف سے متعلق آنحضرت ﷺ سے کئے تھے یہ روایت جس میں ابوموسیٰ اشعری کے سوالات اور آنحضرت ﷺ کے جواب ہیں، کتاب بدء الخلق کے شروع میں پیچھے گزر چکی ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ایمان اور حکمت کی نسبت یمن کی طرف اس اعتبار سے کی ہے کہ ایمان مکہ سے شروع ہوا اور مکہ تہامہ کی زمین سے ہے اور تہامہ کا تعلق یمن سے بھی ہے، اسی لئے کعبہ کو کعبہ یمانیہ بھی کہا جاتا ہے اور بعض حضرات کا کہنایہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ حدیث تبوک میں ارشاد فرمائی جو ملک شام کا علاقہ ہے اور وہاں سے مکہ و مدینہ کی سمت وہی ہے جو یمن کی ہے، پس آپ ﷺ نے اشارہ تو یمن کی طرف کیا لیکن مراد آپ ﷺ کی مکہ اور مدینہ سے تھی۔ اور ابوعبید کا قول یہ ہے کہ یمن سے مراد انصار مدینہ ہیں جن کا اصل وطن یمن تھا، پس انصار مدینہ کی تعریف و توصیف کو پر زور انداز میں بیان کرنے کے لئے ایمان و حکمت کی نسبت یمن کی طرف کی گئی ہے۔ بہرحال اس حدیث کا مقصد محض یہ ظاہر کرنا ہے کہ یمنی لوگ یمنی لوگ کامل ایمان رکھتے ہیں اور اس سے چونکہ کسی دوسرے کے ایمان کی نفی ظاہر نہیں ہوتی اس لئے حدیث اور اس روایت کے درمیان منافات نہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ الایمان فی اہل الحجاز (اہل حجاز میں ایمان ہے) نیز اس ارشاد گرامی ﷺ سے یمن کے وہ کلمہ گوم مراد ہیں جو اس زمانہ میں تھے نہ کہ ہر زمانہ کے اہل ایمان یمن مراد ہیں۔ واضح رہے کہ سیاق حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی کو جو ایک دوسری حدیث کا ٹکڑا ہے، وہاں سے اٹھا کر یہاں نقل کردیا ہے۔ حکمت کے معنی حکمت کے لغوی معنی عقل و دانائی کے ہیں، بعض حضرات کہتے ہیں حکمت ہر چیز کی حقیقت دریافت کرنے کے علم کو کہتے ہیں۔ طیبی کا قول ہے کہ حکمت کا لفظ خوب علم حاصل کرنے اور خوب عمل کرنے سے عبارت ہے۔ قرآن کریم میں حکمت کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا اور (حقیقت تو یہ ہے کہ) جس کو حکمت ملی اس کو بڑی خیر کی مل گئی۔ حضرت انس فرماتے ہیں الحکمۃ تزید الشریف شرفا وترفع العبد المملوک حتی تجلسہ مجالس الملوک۔ حکمت وہ جوہر ہے جو عزت دار وشریف کی عزت وشرف کو زیادہ کرتا ہے اور ایک مملوک غلام کے مرتبہ و حیثیت کو بڑھا کر بادشاہوں کی مجلسوں میں بیٹھنے کے قابل بنا دیتا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) منقول ہے کہ حکمت کے دس حصے ہیں ان میں سے نوحصے تو عزلت یعنی گوشہ نشینی میں ہیں اور ایک حصہ خاموشی میں۔

【24】

حضرت ابوبکر کی خلافت کے بارے میں وصیت

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے (ایک دن) رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے اپنے سردرد کی شدت کا اظہار کرتے ہوئے) کہا ہائے میرا سر پھٹا جا رہا ہے) رسول کریم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا (عائشہ ! ) وہ (یعنی تمہاری موت) اگر ایسی صورت میں آئی کہ میں زندہ رہا تو تمہارے لئے (سیأات سے) مغفرت و بخشش کی دعا مانگوں گا اور تمہارے (درجات و مراتب کی بلندی) کے لئے بھی دعا کروں گا، حضرت عائشہ بولیں ہائے میرے درد کی مصیبت اللہ کی قسم میرا تو خیال ہے کہ میری موت کو پسند فرماتے ہیں ؟ اگر ایسا ہوا (کہ میں مرگئی) تو آپ ﷺ اسی دن کے آخری حصہ میں اپنی کسی بیوی کے ساتھ شب باشی فرمائیں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (عائشہ ! چھوڑو اس بات کو اور سنو) میرا قصد تھا۔ یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ میرا ارادہ تھا کہ میں (تمہارے والد) ابوبکر اور ان کے بیٹے (یعنی تمہارے عزیز بھائی عبدالرحمن) کو بلا بھیجوں اور ان کے حق میں وصیت کردوں تاکہ پھر کہنے والے کچھ نہ کہیں یا آپ نے یہ فرمایا کہ تاکہ متمنی لوگ (ابو بکر کے بجائے خود اپنے لئے یا کسی اور کے لئے خلافت کی) تمنا کا اظہار نہ کریں، پھر میں نے اپنے دل میں کہا خود اللہ تعالیٰ (ابوبکر کے علاوہ کسی دوسرے کی خلافت کو) منظور نہیں کرے گا) اور مسلمان بھی مدافعت کریں گے یا آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ خود اللہ تعالیٰ مدافعت کرے گا اور مسلمان بھی نہیں مانیں گے۔ (بخاری ) تشریح ہائے میرا سر بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کے مرض الموت ہی کے زمانہ کا واقعہ ہے، کسی دن حضرت عائشہ کے سر میں شدید سردرد ہوا ہوگا اور انہوں نے اس شکایت کا اظہار آنحضرت ﷺ کے سامنے ان الفاظ میں کیا ہوگا اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ سر سے مراد ذات ہے جس کے ذریعہ حضرت عائشہ اپنی موت کی طرف اشارہ کیا۔ واثکلیا ہائے میرے سردرد کی مصیبت لفظ ثکل (ث کے زبر اور پیش دونوں کے ساتھ) اصل معنی لڑکے یا دوست کے مرنے کے ہیں اور یہاں اس لفظ سے حضرت عائشہ نے خود اپنی ذات مراد لی ہے۔ کہ مرض کا ذکر موت کی یاد دلاتا ہے ویسے یہ ایک محاوراتی لفظ ہے، جوہر اضطراب و پریشانی کے وقت اہل عرب کی زبان پر آتا ہے خواہ اس کے حقیقی معنی مراد ہوں، یا مراد نہ ہوں۔ آپ ﷺ میری موت کو پسند فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرکے حضرت عائشہ نے یہ الفاظ اس ناز ونیاز اور پیارومحبت کے طور پر کہے جوان کے اور آنحضرت ﷺ کے درمیان تھا گویا حضرت عائشہ نے یہ کہا کہ میں مرگئی تو آپ کی بلا سے آپ ﷺ تو مجھے فورا بھلادیں گے اور اپنی دوسری بیویوں میں مشغول ہوجائیں گے۔ میرے سر کے درد اور میری موت کا ذکر کرو یعنی یہ تم اپنے سرکے درد اور اپنی موت کا ذکر لے کر کیوں بیٹھ گئیں، تمہیں تو میرے سرکے درد اور میرے بارے میں سوچنا چاہے۔ میں جو اس دنیا سے رخت سفر باندھ رہا ہوں، تمہیں تو ابھی بہت زندہ رہنا ہے اور میرے بعد بھی بہت زمانہ تک اس دنیا میں رہنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کو وحی کے ذریعہ پتہ چل گیا تھا کہ درد سر دراصل میرا مرض الموت ہے جب کہ عائشہ کا درد سراتفاقی ہے اور ان کی زندگی ابھی بہت باقی ہے آنحضرت ﷺ اور حضرت عائشہ کی مرض کی اس یکسانیت میں اس کمال محبت کی طرف محبت کی طرف لطیف اشارہ ہے جوان دونوں کے درمیان تھا۔ میرا قصد تھا جب آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ کے سامنے اپنی موت کا ذکر فرمایا توقدرتی طور پر اس بات کی طرف متوجہ کرنا ضروری تھا کہ آپ کے بعد کون شخص ملت کی دینی و دنیاوی قیادت سنبھالے گا ؟ چناچہ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف واضح اشارہ فرمایا اور اس کا مقصد حضرت عائشہ کی دلجوئی اور ان کو ان کے باپ کے لئے اس عظیم دولت ونعمت کی بشارت دینا بھی تھا تاکہ پھر کہنے والے کچھ نہ کہیں ان یقول القائلین کا ترجمہ تو یہی ہے اور اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ابوبکر کو اپنا ولی عہد بنا کر ان کی خلافت کو وصیت کردینے سے پھر بعد میں لوگوں کو کچھ کہنے سننے کا موقع نہ رہے گا۔ اور ایک ترجمہ یہ ہوگا کہ کبھی کہنے والے کچھ کہیں اس صورت میں آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ میرے اس ارادہ کی بنیاد یہ تھی کہ اگر میں نے ابوبکر کے لئے خلافت کبریٰ (ملت کی دینی و دنیاوی قیادت ) کی وصیت نہ کی تو شاید لوگ یہ کہنے لگیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر کے لئے خلافت صغریٰ (نماز کی امامت) ہی پر اکتفا کرلیا، ان کے لئے خلافت کبریٰ کی واضح وصیت کیوں نہ کی، باوجودیکہ خلافت صغریٰ میں خلافت کبریٰ کا اشارہ بھی موجود ہے۔ پھر میں نے (اپنے دل میں) کہا یہاں سے آنحضرت ﷺ نے اپنے مذکورہ ارادہ پر عمل نہ کرنے کا سبب بیان فرمایا کہ اول تو اللہ کا فیصلہ یہی ہوگا۔ کہ میرے بعد پہلے خلیفہ ابوبکر ہوں۔ دوسرے یہ کہ مسلمان بھی ابوبکر کی خلافت کو برضا ورغبت قبول کریں گے کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ میں نے اپنی بیماری کی حالت میں نماز کی امامت کے لئے ابوبکر کو منتخب کیا جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی قیادت عظمی (منصب خلافت) کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی سب سے زیادہ ابوبکر میں ہے۔ پس جب کہ تقدیر الہٰی بھی یونہی ہوگی اور عام مسلمان بھی ابوبکر کے علاوہ کسی دوسرے کی خلافت پر تیار نہیں ہوں گے، تو میں سمجھتا ہوں کہ ابوبکر کی خلافت کے لئے باقاعدہ وصیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا فرمائے کہ خلیفہ اول ابوبکر ہی منتخب ہوئے اور جب بعض لوگوں کی طرف سے اس بارے میں کسی قدر اختلاف رائے کا اظہار ہوا تو حضرت علی نے حضرت ابوبکر کے حق میں اسی خلافت صغریٰ (امامت نماز) سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا جب آنحضرت ﷺ نے ابوبکر کو ہمارے دین کے معاملہ میں منتخب فرمایا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ان کو اپنی دنیا کے معاملہ میں منتخب نہ کریں دراصل مسئلہ خلافت میں حضرت ابوبکر کے حق میں اس سے بڑی دلیل اور کوئی ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ اور مسلمان بھی نہیں مانے گے اس جملہ میں نہ صرف یہ کہ حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے بلکہ اس میں ان لوگوں کی تکفیر کی طرف بھی اشارہ ہے جو حضرت ابوبکر کی خلافت کو برحق نہیں مانتے۔

【25】

مرض وفات کی ابتداء

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ (مدینہ کے قبرستان) بقیع میں ایک جنازہ کو دفن کرکے میرے پاس تشریف لائے تو مجھ کو اس حالت میں پایا کہ میں سرکے درد میں مبتلا تھی اور میں کہہ رہی تھی ہائے میرا سر (پھٹا جارہا ہے) آپ نے مجھے اس حالت میں دیکھ کر اور میرے یہ الفاظ سن کر فرمایا عائشہ (تم اپنے کو کیا کہہ رہی ہو) میں کہتا ہوں کہ میرا سر درد کررہا ہے (پھر بڑے پیار سے از راہ مذاق) آپ نے فرمایا اس میں نقصان کیا ہے۔ اگر تم مجھ سے پہلے مرجاؤ تو میں تمہیں غسل دوں گا میں کفناؤں گا میں تمہاری نماز جنازہ پڑھوں گا اور تمہیں دفناؤں گا یہ سن کر میں نے کہا اللہ کی قسم یہ تو مجھے آپ ﷺ کے بارے میں ابھی سے نظر آرہا ہے کہ آپ ﷺ نے ایسا کیا یعنی ایسی نوبت آئی کہ میں آپ ﷺ کے سامنے مرگئی اور آپ ﷺ نے میری تجہیزوتکفین اور تدفین وغیرہ کی تو آپ ﷺ ان سب امور سے فارغ ہو کر میرے گھر واپس آتے ہی اپنی کسی بیوی کے ساتھ شب باش ہوجائیں گے آنحضرت ﷺ میرے ان الفاظ کو سن کر جو میری غیرت وحمیت پر دلالت کرتے تھے مسکرائے اور پھر اسی دن سے آپ ﷺ کی اس بیماری کا سلسلہ شروع ہوا جس میں آپ نے وفات پائی (درامی) تشریح اور میں تمہیں دفناؤں گا آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر حضرت عائشہ ذات رسالت مآب کی موجودگی میں وفات پاجائیں تو یقینا ان کو سعادت و سرفرازی کا وہ خصوصی مرتبہ حاصل ہوتا تو آنحضرت ﷺ کے بعد زندہ رہنے اور وفات پانے کی صورت میں ان کو حاصل نہیں ہوا۔

【26】

وصال نبوی ﷺ کے بعد حضرت خضر (علیہ السلام) کی تعزیت

اور حضرت امام جعفر صادق ابن محمد (رح) اپنے والد (حضرت امام باقر) سے روایت کرتے ہیں کہ قریش میں سے ایک شخص ان کے والد حضرت امام علی زین العابدین ابن حسین (نبی رہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ) کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت امام علی زین العابدین (رح) نے اس سے کہا کہ کیا میں تمہارے سامنے رسول کریم ﷺ کی حدیث بیان کروں اس شخص نے کہا ہاں ہمارے سامنے حضرت ابوالقاسم محمد ﷺ کی حدیث ضرور بیان کیجئے۔ چناچہ امام علی زین العابدین (رح) نے بیان کیا جب رسول کریم ﷺ بیمار ہوئے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) (عیادت کرنے اور پیغام الٰہی پہنچانے کے لئے) آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ہے اور یہ تعظیم و تکریم (جس بات کی صورت میں ہے وہ صرف) آپ ﷺ کے لئے مخصوص ہے (اور وہ بات یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے وہ چیز دریافت کرتا ہے جس کو وہ آپ ﷺ سے زیادہ جانتا ہے (کیونکہ ظاہر و باطن کون سی چیز اس سے پوشیدہ ہے) تاہم وہ دریافت کرتا ہے کہ آپ ﷺ کہ آپ ﷺ اپنے کو کیسا پاتے ہیں یعنی آپ کا کیا حال ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جبرائیل (علیہ السلام) میں نے اپنے آپ کو مغموم پاتا ہوں اور اے جبرائیل (علیہ السلام) میں اپنے آپ کو مضطرب و پریشان پاتا ہوں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) (یہ جواب لے کر چلے گئے اور) پھر دوسرے دن آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہی الفاظ کہے جو پہلے دن کہے تھے، نبی کریم ﷺ نے بھی جواب میں وہ بات کہی جو پہلے کہی تھی، تیسرے دن حضرت جبرائیل (علیہ السلام) پھر آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور وہی الفاظ کہے جو پہلے تھے، نبی کریم ﷺ نے بھی جواب میں وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی اور اسی دن یا اس کے بعد کسی اور دن حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ ایک اور فرشتہ بھی تھا جس کو اسماعیل کہا جاتا ہے اور ایسے ایک لاکھ فرشتوں کا افسر ہے جن میں ایک ایک فرشتہ ایک ایک لاکھ فرشتوں کا افسر ہے، اس اسماعیل فرشتے نے آپ کی خدمت میں باریاب ہونے کی اجازت مانگی، آنحضرت ﷺ نے اسماعیل فرشتہ کو باریابی کی اجازت دی اور پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے (کچھ لمحے توقف کے بعد) کہا کہ یہ موت کا فرشتہ (عزرائیل) بھی حاضر ہے اور باریابی کی اجازت چاہتا ہے، حالانکہ اس فرشتہ موت نے نہ تو کبھی آپ ﷺ سے پہلے کسی شخص سے اجازت مانگی ہے اور نہ کبھی آپ ﷺ کے بعد کسی شخص سے اجازت مانگے گا (یعنی یہ صرف آپ ﷺ کا اعزازوشرف ہے کہ اس کو آپ ﷺ سے اجازت مانگنے کی ضرورت ہوئی ہے) ورنہ دوسرے آدمیوں کے پاس تو اچانک پہنچتا ہے اور روح قبض کرلیتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس کو اجازت دے دو چناچہ حضرت جبرائیل نے فرشتہ موت کو اجازت سے آگاہ کیا اور اس نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا (اور آپ ﷺ اپنی روح قبض کرنے کا حکم دیں تو قبض کرلوں اور اگر آپ یہ حکم دیں کہ میں آپ کو چھوڑ دوں گا آپ نے فرمایا اے فرشتہ موت کیا تم (وہی) کروگے (جو میں تمہیں حکم دوں گا) فرشتہ موت نے جواب دیا بیشک مجھے تو حکم ہی یہ دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کو اختیا ردیدوں) اور آپ ﷺ جو کچھ فرمائیں اس کی اطاعت کروں۔ امام علی زین العابدین کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرشتہ موت کی یہ بات سن کر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف دیکھا (گویا ان سے مشورہ چاہا کہ بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہے) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا اے محمد حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی ملاقات کے مشتاق ہیں آنحضرت ﷺ نے یہ سنا توبلاتامل فرشتہ موت سے فرمایا کہ جس بات کا تم کو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرو، چناچہ فرشتہ موت نے آپ ﷺ کی پاک روح قبض کرلی۔ جب رسول کریم ﷺ کا وصال ہوگیا اور ایک تعزیت کرنے والا (اہل بیت کو تسلی دینے) آیا تو لوگوں نے گھر کے ایک گوشہ سے آتی ہوئی آواز سنی کہ کوئی شخص کہہ رہا ہے اے اہل بیت اور وہ لوگ جو یہاں موجود ہیں تم پر سلامتی ہو۔ اللہ کی مہربانی اور اس کی برکتیں نازل ہوں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی کتاب یا اللہ کے دین میں ہر مصیبت کے وقت تسکین و تسلی کا سامان موجود ہے، اللہ تعالیٰ ہر ہلاک ہونے والی چیز کا بدلہ عطا کرنے والا اور ہر فوت ہونے والی چیز کا تدارک کرنے والا ہے جب صورت یہ ہے تو اللہ کی مدد سے تقویٰ اختیار کرو، اس سے امید رکھو مصیبت زدہ حقیقت میں وہ شخص ہے ؟ جو ثواب سے محروم کردیا گیا، حضرت علی نے کہا تم لوگ جانتے ہو (تعزیت و تسلی کے الفاظ کہنے والا) یہ کون شخض ہے ؟ یہ حضرت خضر (علیہ السلام) ہیں۔ (روایت کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے ) تشریح اپنے آپ کو مضطرب و پریشان پاتا ہوں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے سامنے اپنے جس غم وکرب اور اضطراب و پریشانی کا اظہار کیا اس کا تعلق امت کے مستقبل سے تھا میری امت نہ معلوم کن حالات سے دو چار ہو اور مسلمانوں کو کن نقصانات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑے۔ اسماعیل فرشتہ کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ یہ آسمان دنیا کا درواغہ ہے۔ نیز حدیث میں جس طرح اسماعیل فرشتہ کے آنے کا ذکر ہے۔ اسی طرح فرشتہ موت یعنی عزارئیل کی آمد کا ذکر نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت فرشتہ موت کا آنا بالکل ظاہر بات ہے۔ جس کو بیان کرنے کی حاجت نہیں تھی یا یہ کہ فرشتہ موت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور اسماعیل فرشتہ کے آنے کے بعدعین اسی وقت حاضر ہوا ہوگا جب حضرت جبرائیل نے اس کی حاضری کی اطلاع اور اس کی طرف سے اجازت باریابی کی درخواست آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کی اور سیوطی نے بیہقی ہی سے یہ روایت نقل کی ہے تیسرے دن جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے تو ان کے ساتھ فرشتہ موت بھی تھا اور ان دونوں کے ساتھ ہوا میں ایک اور فرشتہ تھا جس کو اسماعیل (علیہ السلام) کہا جاتا ہے اور جو ایسے ستر ہزار فرشتوں پر حاکم مقرر ہے جن میں ایک ایک فرشتہ دوسرے ستر ہزار فرشتوں کا افسر اعلیٰ ہے۔ چناچہ فرشتہ موت نے آپ ﷺ کی روح قبض کرلی کے تحت شیخ عبد الحق لکھتے ہیں۔ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ فرشتہ موت اور ایک تیسرا فرشتہ حضرت اسماعیل آئے اور مذکورہ گفتگو پوری ہوگئی تو اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو تھوڑی دیر مہلت ملی اور اس مہلت میں آپ ﷺ نے صحابہ کو اس سارے واقعہ اور گفتگو کی خبردی اور پھر اس کے بعد فرشتہ موت نے آپ ﷺ کی روح قبض کی یا یہ ہوا کہ عالم غیب کا یہ سارا واقعہ اور گفتگو بعض ان صحابہ پر بھی منکشف ہوئی جو اس وقت آپ ﷺ کے پاس موجود تھے اور انہی صحابہ میں سے کسی نے امام علی زین العابدین سے یہ واقعہ بیان کیا جن کو امام زین العابدین نے روایت کے شروع میں قریش میں سے ایک شخص سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن ہمارا دل یوں کہتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) ایک قریشی شخص کی صورت میں حضرت امام زین العابدین کے پاس آئے تھے اور انہوں نے یہ حدیث ان سے بیان کی اسی لئے امام زین العابدین نے راوی کا ذکر مبہم الفاظ میں کیا ایک روایت میں حضرت ام سلمہ (رض) سے منقول ہے کہ انتقال کے وقت نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک پر وصیت و نصیحت کے جو الفاظ بہت زیادہ تھے وہ یہ تھے۔ الصلوۃ وماملکت ایمانکم نماز اور اپنے ملوک غلاموں کا خاص خیال رکھنا۔ ان فی اللہ عزائ کے معنی ومطلب میں شارحین حدیث کے مختلف اقول ہیں) مثلا ایک قول یہ ہے کہ فی اللہ (اللہ میں) کے الفاظ دراصل فی کتاب اللہ (اللہ کی کتاب میں) کا مفہوم رکھتے ہیں مطلب یہ مصیبت وغم کے موقع پر تسلی و تسکین دینے یا حاصل کرنے کی راہنمائی کتاب اللہ میں موجود ہے، پس ان الفاظ میں گویا اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے (الَّذِيْنَ اِذَا اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْ ا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ 256) اور آپ ﷺ ایسے صابرین کو بشارت سنا دیئجے (جن کی یہ عادت ہے) کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ کے ہی ملک ہیں اور اسی کے پاس جانے والے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ فی اللہ دراصل فی دین اللہ (اللہ کے دین میں) کے معنی میں ہے اور مطلب یہ کہ اللہ کے دین میں ہر مصیبت وغم کے موقع پر اس صبر کی صورت میں تسلی کا سامان موجود ہے جس کی تلقین شارح (علیہ السلام) نے کی ہے۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اللہ میں تسکین و تسلی کا سامان موجود ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مصیبت وغم کے وقت صبر اور تسکین و تسلی عطا کرنے والا ہے۔ گویا علم بیان کی اصطلاح میں یہ بات تجرید کے طور پر کہی گئی ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ عربی میں کہا جاتا ہے رأیت فی زید اسد۔ میں نے زید میں شیر دیکھا۔ اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے زید کو شیر کی طرح طاقتور اور بہادر پایا۔ یہ احتمال پایا۔ یہ احتمال ما بعد عبارت کے اعتبار سے زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ خلفا من کل ہالک ودرکا من کل فائت کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمہ میں مذکورہ ہوئے کہ اللہ ہر بلاک ہونے والی چیز کا بدلہ عطا کرنے والا اور ہر فوت ہونے والی شئے کا تدارک کرنے والا ہے اور ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اللہ کے دین یا اللہ کی کتاب میں وہ تعلیمات مذکور ہیں کہ ان پر عمل کرکے انسان بڑی سے بڑی محرومی امربڑے سے بڑے نقصان کو اپنے حق میں نعم البدل یعنی اخروی اجر و انعام کا باعث بنا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد سے تقویٰ اختیار کرو یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم و فیصلہ کو خوش دلی کے ساتھ قبول کر کے اور اس کی مدد توفیق کے ذریعہ صبر و استقامت اختیار کرو، رونے دھونے اور بےصبری وبے قراری سے دور رہو، ان الفاظ میں گویا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرنے کی تلقین ہے کہ واصبروما صبرک الا باللہ۔ اور صبر کرو اور تمہارا صبر کرنا اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ اور ایک روایت میں یہاں (فاتقوا یعنی تقویٰ اختیار کرو کے بجائے فتقوا کا لفظ ہے (جیسا کہ حصن حصین میں بھی منقول ہے) اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اللہ پر اعتماد کرو اور کہا جائے گا کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہے کہ وتوکل علی الحی الذی لایموت۔ اور اسی حی لایموت (اللہ) پر توکل رکھو۔ اسی سے امید رکھو کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی سے اپنی امیدیں وابستہ نہ کرو کیونکہ امید اسی ذات سے وابستہ کی جاسکتی ہے جو معبود ہو اور معبود اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ صبر پر تمہارے لئے اللہ کے ہاں جو اجر وثواب ہے اس کی پوری پوری امید رکھو۔ جو ثواب سے محروم کردیا گیا کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی مصیبت زدہ وہ شخص نہیں ہے جو کسی دنیاوی مصیبت میں مبتلا ہو کیونکہ کسی دنیاوی مصیبت پر صبر کرکے بحسب مرتبہ بڑے سے بڑا ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ حقیقی مصیبت زدہ تو وہ ہے جو مصیبت پر صبر نہ کرے اور پھر اخروی اجر وثواب سے محروم قرار پائے واضح رہے کہ اللہ کے نزدیک وہی صبر معتبر ہم جو مصیبت و صدمہ کے وقت شروع ہی میں حاصل ہوجائے۔ حضرت علی نے کہا تم لوگ جانتے ہو ؟ یہ اس نامعلوم آواز کی وضاحت تھی جو گھر کے ایک گوشہ سے آرہی تھی، چناچہ حضرت علی نے بتایا یہ آواز دراصل حضرت خضر (علیہ السلام) کی ہے، جو اہل بیت نبوی اور صحابہ کرام سے تعزیت کے لئے یہاں آئے ہیں۔ نیز عبارت کے ظاہری سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں علی سے مراد امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات ہم جو اس وقت وہاں موجود تھے۔ تاہم اس احتمال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حدیث کے روای امام علی زین العابدین ہی مراد ہوں اور انہوں نے یہ حدیث روایت کرتے وقت اس آواز کی وضاحت میں یہ بات کہی ہو۔ ۔ حصن حصین میں رمز مستدرک کے ساتھ یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی روح عالم بالا کو پرواز کرگئی تو فرشتوں نے (غیبی آواز کی صورت) صحابہ اور اہل بیت نبوی سے تعزیت کی تعزیت کے وہی الفاظ نقل کرنے کے بعد جو اوپر حدیث میں نقل ہوئے ہیں، ایک اور روایت یوں نقل کی ہے (آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد) ایک سفید ریش شخص، جو نہایت تنومند اور خوش شکل تھا۔ اچانک (حجرہ نبوی میں داخل ہوا صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر یہ الفاظ کہے فی اللہ عزاء۔ اللہ کی کتاب یا اللہ کے دین میں ہر مصیبت حادثہ کے وقت تسکین و تسلی کا سامان موجود ہے۔ حضرت علی اور حضرت ابوبکر نے وہاں موجود لوگوں کو بتایا کہ حضرت خضر (علیہ السلام) ہیں۔ اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اوپر کی حدیث میں علی سے مراد حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ مراد ہیں۔

【27】

آنحضرت ﷺ نے کوئی مالی وصیت نہیں کی

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی وفات کے بعد نہ کوئی دینار چھوڑا اور نہ کوئی درہم نہ کوئی بکری چھوڑی اور نہ آپ نے کسی چیز کی وصیت کی۔ (مسلم) تشریح اور نہ آپ ﷺ نے کسی چیز کی وصیت کی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے از قسم مال کسی چیز کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی کیونکہ جب آپ ﷺ سرے سے کوئی جائیداد چھوڑ کر ہی نہیں جارہے تھے تو وصیت کی نوبت کیوں آتی رہا بنو نضیر اور فدک وغیرہ کی زمین و جائداد کا معاملہ تو اس کو آپ ﷺ نے اپنی حیات ہی میں تمام مسلمانوں کے لئے کردیا تھا صرف اپنے اہل و عیال کے نفقہ کے بقدر اس میں سے لیتے تھے۔ اس موقع پر علامہ نووی (رح) لکھتے ہیں ایک روایت میں منقول ہے کہ جب لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے سامنے یہ ذکر کیا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا وصی بنایا، تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے (حیرت سے) فرمایا آپ ﷺ نے کب وصیت فرمائی تھی ؟ میں (تو آخر وقت تک آپ ﷺ کے پاس رہی اور) جب تک کہ آپ ﷺ کی روح پرواز نہیں کرگئی آپ ﷺ کا تکیہ بنی بیٹھی رہی اور (اگر آپ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حق میں کوئی وصیت کی ہوتی اور ان کو اپنا وصی یعنی اپنے مال و جائیداد کا وارث یا نگران بنایا ہوتا تو اس کا علم مجھ سے زیادہ کس کو ہوتا۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں غلط کہتے ہیں، آپ ﷺ نے کسی کو وصی نہیں بنایا پس حدیث کے الفاظ والا اوصی بشی کا موضوع مالی وصیت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نہ تو اپنے مال کے تہائی حصہ کی وصیت نہ تہائی سے زیادہ یا کم کی، کیونکہ آپ ﷺ کے پاس نہ کوئی مال تھا نہ جائیداد کہ اس کے بارے میں وصیت کرتے اسی طرح آپ ﷺ نے نہ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حق میں کوئی وصیت کی اور نہ کسی دوسرے کے حق میں جیسا کہ شیعوں کا غلط گمان ہے۔ جہاں تک ان احادیث صحیحہ کا تعلق ہے جن میں کتاب اللہ کے متعلق وصیت کرنے یا غیر قوموں کے ایلچیوں اور وفدوں کی خاطر داری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرنے کا ذکر ہے تو وہ دوسرا موضوع ہے۔ جو حدیث کے مذکورہ الفاظ ولاوصی بشئی کی مراد نہیں ہے بعض سیرت نگاروں نے جو یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس بہت اونٹ تھے، دس اونٹنیاں تھیں اور اونٹنیوں اور اونٹوں کو نواح مدینہ میں رکھا جاتا تھا جہاں سے اونٹنیوں کا دودھ نکال کر لوگ روزانہ رات میں لایا کرتے تھے، نیز آپ ﷺ کے پاس سات بکریاں بھی تھی جن کا دودھ آپ ﷺ پیا کرتے تھے۔ تو یہ روایت تو اس حیثیت کی نہیں ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کی معارض بن سکے دوسرے اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس بات پر محمول ہوگی کہ وہ اونٹ وغیرہ صدقہ کا مال تھے اور ان کے ذریعہ جو دودھ حاصل ہوتا اس کو اصحاب صفہ اور دوسرے غیر مستطیع لوگ پیا کرتے تھے۔

【28】

حضور ﷺ نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا

اور حضرت عمروا بن حارث جو (صحابی ہیں اور) ام المؤمنین حضرت جویریہ (رض) کے بھائی ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی دینار چھوڑا، نہ درہم چھوڑا نہ غلام چھوڑا، نہ لونڈی چھوڑی اور نہ کوئی اور چیز چھوڑی، البتہ آپ کا ایک سفید خچر تھا (جس کو دلدل کہا جاتا تھا اور جو مقوقس حاکم اسکندریہ نے تحفہ کے طور پر آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا) آپ ﷺ کے کچھ ہتھیار تھے اور آپ ﷺ کی کچھ زمین تھی اس کو بھی آپ ﷺ نے صدقہ کردیا تھا۔ (بخاری) تشریح نہ غلام چھوڑا نہ کوئی لونڈی چھوڑی۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے پاس کوئی لونڈی اور غلام نہیں تھا جو رق یعنی بطور مملوک آپ ﷺ کی غلامی میں رہے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض روایتوں میں آنحضرت ﷺ کے بردوں (لونڈی غلاموں) کا جو ذکر آیا ہے وہ سب آپ ﷺ کی حیات ہی میں مرگئے ہوں گے یا آپ ﷺ نے ان کو آزاد کردیا ہوگا۔ آپ ﷺ کے کچھ ہتھیار تھے۔ میں ہتھیار سے مراد وہ ہتھیار ہیں جو خاص آپ ﷺ کے استعمال میں رہتے تھے جیسے تلوار، نیزے، زرہ، خود اور بھالدار عصا، یعنی برچھا۔ اور ایک روایت میں صرف ایک زرہ کا ذکر ہے جو وفات کے وقت آپ ﷺ نے چھوڑی تھی اور وہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ حدیث میں جو حصر ہے (کہ وفات کے وقت آپ ﷺ کے پاس صرف یہ چند چیزیں تھیں) وہ اضافی ہے اور اس بات پر مبنی ہے کہ استعمال کے کپڑے اور معمولی گھریلوسامان جیسی چھوٹی موٹی چیزوں کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا اور نہ ان چیزوں کا مال و جائیداد میں شمار ہوتا ہے، چناچہ ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے کچھ کپڑے وغیرہ چھوڑے تھے۔ اس کو بھی آپ ﷺ نے صدقہ کردیا تھا۔ کے بارے میں ایک شارح نے لکھا ہے کہ جعلہا کی ضمیر تمام مذکورہ چیزوں یعنی خچر ہتھیار اور زمین کی طرف راجع ہے جب کہ بظاہر یہ متبادر ہوتا ہے کہ جعلہا کی ضمیر صرف زمین کی طرف راجع ہے نیز عسقلانی (رح) نے لکھا ہے اس کو صدقہ کردیا تھا کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے زمین کی منفعت کو صدقہ کردیا تھا یعنی یہاں صدقہ وقف کے حکم میں ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس زمین کو، اس کے باقی وقائم رہنے تک اپنی حیات ہی میں صدقہ جاریہ باقیہ کردیا تھا، اس طرح وہ زمین جب تک باقی رہے گی اس کے صدقہ کا ثواب آنحضرت ﷺ کو ملتا رہے گا پس یہ بات اس کے منافی نہیں ہے کہ جو باقی چیزیں آپ ﷺ کے پاس تھیں وہ آپ ﷺ کی وفات ہوتے ہی خود بخود صدقہ ہوگئیں۔ علامہ کرمانی (رح) شرح بخاری میں لکھتے ہیں (حدیث میں۔ زمین کا جو ذکر ہے تو اس سے) وادی قریٰ کی آدھی زمین خیبر کی زمین کا پانچواں حصہ اور بنونضیر کی زمین جائیداد کا وہ حصہ مراد ہے جو آپ ﷺ نے اپنے لئے مخصوص کرلیا تھا، جعلہا کی ضمیر حدیث میں مذکورہ تینوں چیزوں (یعنی خچر ہتھیار اور زمین) کی طرف راجع ہے نہ کہ زمین کی طرف اور یہ بات آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے ثابت ہوتی ہے کہ ہماری انبیاء (علیہم السلام) کی جماعت میراث نہیں چھوڑتی ہے ہمارا جو کچھ ترکہ ہوتا ہے وہ سب صدقہ ہوجاتا ہے۔

【29】

حضور ﷺ کا ترکہ وارثوں کا حق نہیں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری وفات کے بعد میرے وارث دینار نہیں بانٹیں گے، میرا جو کچھ بھی ترکہ ہوگا وہ عورتوں کے خرچ اور عامل کی اجرت کے بعد باقی سب صدقہ ہوگا، (بخاری ومسلم ) تشریح میرے وارث دینار نہیں بانٹیں گے یہ آنحضرت ﷺ کا حقیقی طور پر خبر دینا ہے کہ میں اپنے ترکہ میں کوئی دینار و درہم نہیں چھوڑوں گا اور جب میں کوئی دینار و درہم چھوڑوں گا ہی نہیں تو میرے مرنے کے بعد میرے ورثاء کے درمیان دینار و درہم تقسیم ہونے کی نوبت بھی نہیں آئے گی یا یہ کہ جملہ ظاہری اسلوب کے اعتبار سے تو خبر دینے کے طور پر ہے مگر حقیقت میں نہی (ممانعت) کا مفہوم رکھتا ہے جس کا مطلب یہ ہوگا میں جو کچھ چھوڑ کر جاؤں اس کو میرے ورثاء آپس میں تقسیم نہ کریں اور پھر آگے اس کی ممانعت کی علت بیان فرمائی کہ میرا سارا ترکہ میری بیویوں کے مصارف اور میرے عاملوں کی اجرت کے بعد باقی سب صدقہ ہوگا۔ واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کا حکم وہ نہیں جو عدت والی عورتوں کا ہوتا ہے کیونکہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد کسی اور سے نکاح کرلینا جائز نہیں تھا، اس لئے ان کے خرچ کی کفالت اور ان کا نفقہ پورا آپ ﷺ کے ترکہ سے متعلق رہا۔ نیز عامل سے مراد وہ حضرات ہیں جو آپ ﷺ کے بعد مسند خلافت پر فائز ہوئے۔ پس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہوا کہ میرے ترکہ میں سے میری بیویوں کا نفقہ پورا کیا جائے اور میرے خلفاء بھی اپنے مصارف میں خرچ کریں اور پھر جو باقی رہے اس کو فقراء ومستحقین پر صرف کیا جائے جیسا کہ میں صرف کیا کرتا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنے اہل و عیال کا نفقہ صفایا کی آمدنی سے پورا کرتے تھے۔ جو بنی نضیر کی جائیداد میں سے آپ ﷺ کے حصے اور فدک کی زمین پر مشتمل تھا، بقدر نفقہ لینے کے بعد آمدنی کا باقی تمام حصہ مسلمانوں کے مصالح ومصارف میں خرچ فرماتے تھے۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد مذکورہ زمین جائیداد کے متولی حضرت عثمان غنی خلیفہ ہوئے اور وہ اپنے ذاتی مال و دولت کی وجہ سے اس زمین جائیداد کی آمدنی سے مستغنی رہے۔ تو انہوں نے وہ ساری زمین جائیداد اپنے اقا رب میں سے مروان وغیرہ کو عطا کردی، جس پر وہ لوگ قابض رہے یہاں تک حضرت عمر ابن عبد العزیز خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مروان وغیرہ کے ورثاء سے اس زمین جائیداد کو واپس لے کر حسب سابق مصارف کے لئے مخصوص کردیا۔

【30】

نبی کے ترکہ میں میراث جاری نہی ہوتی

اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ہم (انبیاء علیہم السلام) جو کچھ (زمین جائیداد یا مال) چھوڑتے ہیں اس میں میراث جاری نہیں ہوتی بلکہ وہ صدقہ ہے۔ (بخاری ومسلم ) تشریخ مطلب یہ ہے کہ انبیاء از قسم مال جائیدادجو کچھ چھوڑجاتے ہیں وہ میراث کے طور پر ان کے پسماندگاں کا حق نہیں ہوتا بلکہ صدقہ کا مال ہوتا ہم جس کا مصرف فقراء و مساکین ہوتے ہیں اور صوفیہ کے نزدیک فقیر کی تعریف یہ ہے کہ وہ شخص جو کسی چیز کا مالک نہ ہو۔ پس انبیاء علہیم السلام کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ بظاہر ان کا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں امانت یا وقف اور صدقہ کے طور پر ان کے پاس رہتا ہے اور جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے اسی وجہ سے نہ انبیاء (علیہم السلام) کی مالی میراث جاری ہوتی ہے اور نہ کوئی شخص ان کا وارث قرار پاتا ہے اور جب ان کی وراثت ہی قائم نہی ہوتی تو ان کے ورثاء اور پسماندگان میں کسی کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ ان کا ترکہ پانے کی تمنا میں ان کی موت سے خوش ہو تفصیلی روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ حدیث اس وقت بیان کی تھی جب حضرت فاطمہ الزہراء (رض) کی طرف سے میراث کا مطالبہ سامنے آیا تھا، انہوں نے حضرت فاطمہ الزہراء (رض) سے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ ہوں، میں آپ ﷺ کا ترکہ انہی مصارف میں خرچ کرتا ہوں جہاں آنحضرت ﷺ خرچ فرمایا کرتے تھے اور اسی اعتبار سے میں تمہاری غمخواری بھی اسی طرح کرتا ہوں جس طرح آنحضرت ﷺ تمہاری غمخواری کرتے تھے یہ حدیث میں نے خود آنحضرت ﷺ سے سنی ہے کہ ہم انبیاء (علیہم السلام) کی (مالی) وراثت قائم نہیں ہوتی۔ یہ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ بات صرف فاطمہ الزہراء (رض) سے نہیں کہی تھی بلکہ ازواج مطہرات سے بھی کہی تھی جنہوں نے میراث کا مطالبہ کیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ فیصلہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کی مالی میراث قائم نہیں ہوگی، تنہا اپنی مرضی سے نہیں دیا تھا بلکہ انہوں نے تمام بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بلا کر مشورہ کیا اور سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہی کہا کہ آپ ﷺ کی وراثت قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم نے خود آنحضرت ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مذکورہ فیصلہ دیا۔

【31】

امت مرحومہ کے نبی اور امت غیر مرحومہ کے نبی کی وفات کے درمیان امتیاز

اور حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس امت کو اپنی رحمت و مہربانی سے نوازنا چاہتا ہے اس امت کے نبی کو اس امت (مجموعی ہلاکت) سے پہلے اٹھا لیتا ہے، اس طرح اللہ تعالیٰ اس نبی کو اس امت کا میر منزل اور پیش رو بنا دیتا ہے۔ (یعنی اگر وہ نبی اپنی امت سے راضی اور خوش جاتا ہے تو آخرت میں اپنی امت کا شافع ہوتا ہے) اور جب اللہ تعالیٰ کسی امت کو ہلاک کردینا چاہتا ہے تو اس امت پر اس نبی کی زندگی ہی میں عذاب مسلط کردیتا ہے، چناچہ امت ہلاکت و تباہی کا شکار ہوجاتی ہے اور وہ نبی اپنی امت کی ہلاکت و تباہی کو اپنی نظروں سے دیکھتا ہے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے یعنی خوش ہوتا ہے کیونکہ وہ امت اپنے نبی کو جھٹلاتی تھی اور اس کے احکام کی نافرمانی کرتی تھی۔ (مسلم )

【32】

ذات رسالت ﷺ سے امت کی عقیدت ومحبت کی پیش خبری

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے، ایک دن تم لوگوں پر ایسا آئے گا جو شخص مجھ کو نہیں دیکھے گا، اس کو میرا دیکھنا اس سے کہیں زیادہ پسند ہوگا وہ اپنے اہل و عیال اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے مال ومتاع کو دیکھے۔ (مسلم) تشریح یا تو آپ ﷺ کے اس ارشاد کا تعلق آپ ﷺ کی حیات میں آپ ﷺ کو دیکھنا اور آپ ﷺ کی محبت اختیار کرنے سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مجھ سے اتنی زیادہ محبت اور تعلق ہے کہ اگر وہ مجھ کو ایک دن نہ دیکھیں اور میری صحبت سے محروم رہیں تو ان کا اشتیاق و اضطراب کہیں بڑھ جائے، اس صورت میں وہ اپنے اہل و عیال اور اپنے مال ومتاع کو دیکھنے اور ان کے پاس رہنے سے زیادہ اس بات کو پسند کریں گے کہ میرا دیدار کریں اور میری صحبت میں رہیں یا اس ارشاد گرامی میں دراصل اس بات کی پیش خبری ہے کہ میرے تئیں میری امت کی عقیدت و محبت میری وفات کے بعد بھی کم نہیں ہوگی بلکہ مسلمان اپنے اہل و عیال اور اپنے مال ومتاع کی طرف رغبت وتعلق رکھنے سے کہیں زیادہ یہ چاہیں گے کہ کسی بھی طرح خواہ خواب میں خواہ بیداری میں، میرا دیدار کرلیں، مجھے دیکھ لیں، سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے یہی مطلب زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے پس یہی وہ کیفیت ہے جو ان مشتاقان جمال کا سرمایہ حیات بنی رہتی ہے جو ذات رسالت پناہ ﷺ کے جمال و کمال کے تصور میں مستغرق رہتے ہیں۔