186. قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق

【1】

قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر کا بیان

مناقب لفظ منقب کی جمع ہے جس کے معنی شرف اور فضیلت کے ہیں اور قریش عرب کے مشہور قبیلہ کا نام ہے ویسے قریش کے لغوی معنی ایک بڑے خطرناک اور طاقتور سمندری جانور کے ہیں لیکن اصل میں یہ نضر ابن کنانہ (یا فہر ابن مالک ابن نضر) کا لقب تھا جن کی اولاد مختلف شاخ در شاخ خاندانوں میں پھیلی اور ان سب خاندانوں پر مشتمل قبیلہ مورث اعلی کے لقب کی مناسبت سے قریش کہلایا قبائل لفظ قبیلہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ایک باپ کی اولاد اور قبائل کے ذکر سے مراد عرب کے مختلف قبیلوں کی خصوصیات اور ان کی اچھائیاں یا برائیاں بیان کرنا ہے۔

【2】

قریش کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس بات میں لوگ قریش کے تابع ہیں، قریش کے مسلمان (تمام غیرقریشی) مسلمانوں کے اور قریش کے کافر (تمام غیرقریشی) کافروں کے سردار ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے ظاہر سیاق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بات سے مراد دین و شریعت ہے خواہ اس کے وجود کا اعتبار ہو یا اس کے عدم کا۔ مطلب یہ کہ دین کے قبول یا عدم قبول یعنی ایمان وکفر کے معاملہ میں تمام لوگ قریش کے پیچھے ہیں اور قریش اقدامی و پیشوائی حیثیت رکھتے ہیں، بایں طور کہ ایک طرف تو دین کا ظہور سب سے پہلے قریش میں ہوا اور سب سے پہلے قریش کے لوگ ایمان لائے اور پھر ان کی اتباع میں دوسرے لوگوں نے بھی ایمان لانا شروع کیا، دوسری طرف وہ یعنی قریش ہی کے لوگ تھے جنہوں نے دین کی سب سے پہلے مخالفت کی اور مسلمانوں کی راہ روکنے کے لئے سب سے پہلے آگے آئے اس طرح اگر قریش کے کافروں کے تابعدار ہوئے چناچہ اسلام کی تاریخ جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے تمام اہل عرب، قریش مکہ کے اسلام لانے کا انتظار کرتے تھے، جب اہل اسلام کے ہاتھوں مکہ فتح ہوگیا اور قریش مکہ مسلمان ہوگئے تو تمام عرب کے لوگ بھی جماعت در جماعت اسلام میں داخل ہوگئے جیسا کہ سورت اذا جاء نصر اللہ سے واضح ہوتا ہے۔ بہرحال اس ارشاد کا مقصد قریش کی قائدانہ حیثیت کو بیان کرنا ہے کہ قیادت امارت کا جوہر انہی کو نصیب ہے خواہ وہ اپنے عہد جاہلیت سے وابستہ رہے ہوں یا عہد اسلام سے لیکن ان کی قیادت وامارت کو فضل وشرف کا اعتبار صرف اسلام کی صورت میں حاصل ہے نہ کہ کفر کی حالت میں۔ اور اگر فضل وشرف کی قید مقصود نہ ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں قریش مطلق قیادت وامارت کا ذکر ہے خواہ اس کا دنیاوی امور سے ہو خواہ مذہبی امور سے، چناچہ زمانہ جاہلیت میں بھی نہ صرف دنیاوی اعتبار سے قریش مکہ تمام عرب قبائل میں سردار قبیلہ کی حیثیت رکھتے تھے بلکہ اس وقت کے ان مذہبی معاملات جیسے اللہ کی تولیت وکلید داری اور پانی پلانے وغیرہ کی ذمہ داریوں کا اعزاز بھی انہی کو حاصل تھا۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس بات سے مراد امامت کبریٰ اور منصب خلافت ہے جیسا کہ دوسری حدیثوں میں وضاحت کے ساتھ منقول بھی ہے اور اس ارشاد گرامی کا مقصد قریش کی قیادت تسلیم کرنے اور ان کی اتباع کا حکم دینا ہے۔ پس اگر لوگ اس ارشاد گرامی کی روح اور اس سے اخذ شدہ حکم پر عمل نہ کرتے ہوئے قریش کی قیادت کو تسلیم نہ کریں اور ان کی اتباع سے انکار کریں تو یہ بات اس ارشاد گرامی کے اثبات کے منافی نہیں ہوگی، کیونکہ کسی بھی حکم کے اثبات کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ عملی اور واقعاتی طور پر اس کا ظہور بھی ہو حکم کا مقصد تو کسی چیز کو ثابت کرنا ہوتا ہے، اگر اس حکم پر عمل نہ کرے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ حکم اپنی قوت اثبات ونفاذ سے خالی ہے پس آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ قریش کی قیادت وامارت کو اختیار و قبول کرنے کا جو حکم دیا ہے اس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ قریش قیادت وامارت کا استحقاق اور اس کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں، خواہ کوئی ان کی قیادت وامارت کو تسلیم کرے اور ان کی تابعداری کرے یا نہ کرے۔

【3】

قریش ہی سردار ہیں

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لوگ خیر اور شر (دونوں حالتوں) میں قریش کے تابع ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح خیر سے مراد اسلام ہے اور شر سے مراد کفر ہے جیسا کہ اوپر کی حدیث کی تشریح میں تفصیل بیان ہوئی ہے۔

【4】

خلافت اور قریش

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ امر یعنی خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گا جب تک کہ ان میں سے دو آدمی بھی باقی رہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح ہمیشہ قریش میں رہے گا کا مطلب یہ ہے کہ خلافت کا استحقاق چونکہ قریش ہی سب سے زیادہ رکھتے ہیں اس لئے خلافت کا منصب جلیلہ قریش ہی کے پاس رہنا چاہئے اور غیر قریش کو خلیفہ بنانے کا فیصلہ شرعا جائز نہیں چناچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں اس پر اجماع تھا اور یہی ارشاد گرامی ان انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقابلہ پر مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دلیل کی بنا جنہوں نے خلافت کو انصار کا حق قرار دینا چاہا تھا۔ جب تک کہ ان میں دو آدمی باقی رہے یہ بات آپ ﷺ نے منصب خلافت کے تئیں قریش کے ترجیحی استحقاق کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنے کے لئے فرمائی کہ اگر قریش میں سے دو بھی باقی رہیں کہ ایک تو خلیفہ بن سکے اور دوسرا اس کا اطاعت گذار (یا یہ کہ خلیفہ کے علاوہ دو آدمی مراد ہیں) تو اس صورت میں بھی خلافت کو قریش ہی کا حق سمجھنا چاہئے۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی (رح) لکھتے ہیں یہ اور اس جیسی دوسری احادیث کو جن میں خلافت کا استحقاق قریش کے لئے ذکر کیا گیا ہے، اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ خلافت کا منصب قریش کے لئے مخصوص ہے غیر قریشی کو خلیفہ بنانا جائز نہیں ہے چناچہ اسی نکتہ پر نہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں بلکہ صحابہ کرام کے بعد بھی امت کا اجماع رہا ہے، اہل بدعت یعنی اہل سنت والجماعت کے متفقہ مسلک سے انحراف کرنے والوں میں سے جن لوگوں نے اس مسئلہ میں اختلاف و انکار کی راہ اختیار کی (ان کی بات کو نہ صرف یہ امت کے سواد اعظم نے تسلیم نہیں کیا) بلکہ ان کی ترید وتغلیط کے لئے یہی دلیل پیش کی گئی کہ قریش کے استحقاق خلافت پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع تھا امام نووی نے یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ یہ خبر دی ہے کہ یہ حکم (جس سے منصب خلافت کا قریش کے ساتھ مخصوص ہونا ظاہر ہوتا ہے) آخر زمانہ تک برابر جاری ونافذ رہے گا جب تک کہ اس دنیا میں دو آدمی بھی باقی رہیں پس آنحضرت ﷺ نے جو کچھ فرمایا اور جو خبر دی وہی واقعہ کے اعتبار سے ثابت بھی ہوا کہ آج تک قریش کی خلافت اور ان کی بالا دستی قائم ہے لیکن امام نووی (رح) کا یہ نتیجہ بیان کرنا تاریخی حقیقت کے مطابق نہیں ہے، ان کے زمانہ تک تو قریش کی خلافت قائم تھی لیکن بعد میں قریش کی خلافت و امامت تمام عالم اسلام پر زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہ سکی، ابتداء میں کچھ اوپر دو سو برس تک کا عرصہ تو ایسا گذرا کہ اس میں اکثر اسلامی علاقوں اور شہروں پر قریش کی خلافت وبالادستی قائم رہی مگر اس کے بعد خود مختاریوں کا دور شروع ہوگیا اور عالم اسلام میں مختلف حکمرانوں اور بادشاہوں کی اپنی اپنی حکومت وبالادستی قائم ہوگئی لہٰذا اس سلسلہ میں تحقیقی قول یہ ہے کہ یہ خبر دراصل امر یعنی حکم کے معنی میں ہے گویا آنحضرت ﷺ نے خبر کے اسلوب میں یہ حکم دیا ہے کہ جو بھی شخص ایمان واسلام سے بہرہ ور ہو اس پر لازم ہے کہ وہ قریش کو اپنا سردار مانے، ان کی اتباع کرے اور ان کی امامت و قیادت سے انحراف نہ کرے، ویسے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی اپنے ظاہری معنی ہی پر محمول ہے مگر مااقاموا الدین کے الفاظ کے ساتھ مقید ہے جو اگلی حدیث میں مذکور ہیں، اس صورت میں اس حدیث کا یہ مطلب ہوگا کہ منصب خلافت وامارت اس وقت تک برابر قریش میں رہے گا جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے چناچہ یہی ہوا کہ قریش نے جب تک کہ خلافت کو دین کے تابع رکھا اور اسلام کی خدمت و اشاعت میں مصروف رہے منصب خلافت ان کے ہاتھ سے نہیں گیا، لیکن جب انہوں نے نہ صرف یہ کہ دین کی طرف سے بےتوجہی اختیار کرلی بلکہ حرام و ناجائز امور میں مبتلا ہو کر دین کی بےحرمتی کا مظاہرہ کرنے لگے تو خلافت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ سے چھن کر غیر قریش میں پہنچ گئی۔

【5】

قریش کا استحقاق خلافت دین کے ساتھ مقید ہے

اور حضرت امیر معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا بلاشبہ یہ امر یعنی منصب خلافت، قریش میں رہے گا جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے جو بھی شخص ان (قریش) سے دشمنی و عداوت رکھے گا اس کو اللہ تعالیٰ الٹالٹکا دے گا یعنی ذلت و خواری کا طوق اس کے گلے میں ڈال دے گا۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ کہ خلافت کا اصل مقصد دین کو قائم کرنا اور اسلام کے جھنڈے کو سربلند رکھنا ہے اس لئے قریش جب تک دین و شریعت کی ترویج و اشاعت میں لگے رہیں گے اور اسلام کے جھنڈے کو سربلند رکھنے کی سعی و کوشش کرتے رہیں گے، وہ منصب خلافت کا استحقاق رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی سرداری و قیادت کو قائم رکھے گا لیکن جب وہ اپنے اصل فرض یعنی اقامت دین واسلام سے غافل ہوجائیں گے اور خلافت کے حقیقی تقاضوں کو پورا کرنا چھوڑ دیں گے تو مستوجب غزل ہوں گے اور خلافت وامارت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ سے چھن جائے گی اور بعض شارحین نے یہ لکھا ہے کہ دین قائم کرنے سے مراد نماز قائم کرنا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ما اقام الصلوۃ ہی کے الفاظ منقول بھی ہیں اور ویسے بھی بعض موقع پر دین اور ایمان کا اطلاق نماز پر آیا ہے، اسی بنیاد پر بغض حضرات کا کہنا ہے کہ اس ارشاد گرامی کا اصل مقصد قریش کو نماز قائم رکھنے کی تلقین و ترغیب اور اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر نماز قائم نہ رکھیں گے تو ہوسکتا ہم کہ منصب خلافت وامارت ان کے سے نکل جائے اور دوسرے لوگ ان پر غلبہ و تسلط کرلیں۔

【6】

قریش میں سے بارہ خلفاء کا ذکر

اور حضرت جابر ابن سمرۃ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اسلام کو بارہ خلفاء تک قوت و غلبہ حاصل رہے گا اور سب قریش میں سے ہوں گے ایک روایت میں یوں ہے کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) لوگوں کے (دینی ومذہبی امور میں استقامت ملی وملکی معاملات میں استحکام اور عام نظم ونسق میں عدل و انصاف اور حق وراستی پر مبنی) نظام کار کا سلسلہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ ان کے حاکم وہ بارہ شخص ہوں گے جن کا تعلق قریش سے ہوگا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ ( آپ ﷺ نے فرمایا) دین برابر قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت آئے اور لوگوں پر ان بارہ خلیفہ کی حکومت قائم ہوگی جو قریش میں سے ہوں گے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث کے معنی و مفہوم کے تعین میں مختلف اقوال بھی ہیں اور علماء نے اشکال کا اظہار بھی کیا ہے۔ اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث سے بظاہر جو بات مفہوم ہوتی ہے وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد متصلا یکے بعد دیگرے بارہ خلفاء ہوں گے جن کے زمانہ خلافت میں دین کا نظام مستحکم و برقرار رہے گا، ان کے وجود سے اسلام کو شان و شوکت حاصل ہوگی اور نہ صرف یہ کہ خود وہ تمام بارہ خلفاء دین و مذہب کے سچے پابند وتابعدار ہوں گے بلکہ ان کی خلافت و عدالت سے حق و انصاف کے مطابق احکام و ہدایات کا اجراء ونفاذ ہوگا حالانکہ تاریخی اور واقعاتی طور پر جو کچھ پیش آیا ہے وہ اس بات کی شہادت نہیں دیتا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے منصب خلافت وامارت پر فائز ہونے والوں میں بنی مروان میں کہ وہ خلفاء وامراء بھی تھے جو نہ صرف یہ کہ اپنی سیرت اور طور طریقون کے اعتبار سے دین و مذہب سے مناسبت نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کی ظالمانہ اور مفسدانہ کاروائیوں سے اسلام اور مسلمانوں کو شدید نقصانات اور مصائب برداشت کرنا پڑے علاوہ ازیں وہ صحیح حدیث بھی ہے جس کے مطابق آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد تیس سال تک خلافت کا نظام قائم رہے گا اور اس کے بعد ظلم و زیادتی پر مبنی بادشاہت آجائے گی چناچہ تمام علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تیس برس کے عرصہ یعنی خلافت راشدہ کے بعد جو نظام حکومت ظاہر ہوا اس کو خلافت نہیں بلکہ بادشاہت وامارت کہنا چاہئے یہ ایک اہم اشکال ہے اور اسی بناء پر علماء کرام نے اس حدیث کی توجیہ و تاویل میں مختلف اقوال پیش کئے ہیں ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ بارہ خلیفوں سے مراد وہ بارہ لوگ ہیں جو آنحضرت ﷺ کے بعد سریر آرائے خلافت اور حکومت و سلطنت ہوئے اور ان کے زمانہ اور اقتداروحکومت میں مسلمانوں کے ظاہری حالات و معاملات اور رعایا کے مفاد کے اعتبار سے سلطلنت و حکومت کا نظام مستحکم ومتوازن رہا اگرچہ ان میں سے بعض برسر اقتدار لوگ ظلم و بےانصافی کے راستہ پر بھی چلے، باہمی اختلاف ونزاع اور خرابیوں کا بھیانک ظہور ولید بن یزید بن عبد الملک بن مروان کے عہد اقتدار میں ہوا جو ان میں بارہواں شخص تھا، اس شخص کی امارت اس وقت قائم ہوئی جب اس کے چچا ہشام ابن عبد الملک کا انتقال ہوا پہلے تو لوگوں نے ولید ابن یزید کی امارت پر اتفاق کیا اور ان کا اتفاق چار برس تک قائم رہا لیکن چار برس کے بعد لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کو مار ڈالا، اس دن سے صورت حال میں تغیر پیدا ہوگیا اور فتنہ و فساد پوری طرح پھیل گیا یہ قول قاضی عیاض مالکی کی طرف منسوب ہے اور علامہ ابن حجر عسقلانی (رح) نے اس قول کی تحسین کی ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی جتنی توجیہات کی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں جتنے اقوال منقول ہیں ان سب میں یہی قول سب سے زیادہ مناسب اور سب سے زیادہ قابل ترجیح ہے اور اس کی تائید ان الفاظ سے ہوتی ہے جو اسی حدیث کے جزء کے طور پر بعض صحیح طرق میں منقول ہیں کہ کلہم یجتمع علیہ امر الناس اور جمع سے مراد ان خلفاء کی بیت پر لوگوں کا اتفاق و اجتماع اور ان کی قیادت وسرداری کو قبول کرنا ہے اگرچہ کراہت کے ساتھ ہو۔ نیز اس حدیث سے ان خلفاء کی جو مدح و توصیف مفہوم ہوتی ہے وہ دین عدالت اور حقانیت کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ سیاسی وانتظامی معاملات میں استحکام واستواری اور حکومت وامارت کے تئیں اتفاق و اتحاد کے اعتبار سے ہے رہی اس صحیح حدیث کی بات جس میں آپ ﷺ نے خلافت کو تیس سال میں منحصر بیان فرمایا ہے تو وہاں خلافت سے مراد خلافت کبریٰ ہے جو اصل میں خلافت نبوت ہے جب کہ اس حدیث میں خلافت امارت مراد ہے چناچہ خلفائے راشدین کے بعد جو امراء (سربراہان حکومت) گذرے ان کو بھی خلیفہ ہی کہا جاتا ہے، اگرچہ ان کو خلیفہ کہنا مجازی معنی کے اعتبار سے ہے مذکورہ بالا پہلے قول کو اگرچہ علامہ ابن حجر نے اولی وارجح قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ لایزال الاسلام عزیزا اور لایزال الدین قائما کے ساتھ یہ قول کھلی ہوئی عدم مناسبت کا حامل ہے کیونکہ یہ الفاظ ان بارہ خلفاء کی اس مدح و تعریف کا صریح مظہر ہیں کہ ان کے زمانہ خلافت وامارت میں دین کو استحکام حاصل رہے گا حق کا بول بالا ہوگا اور ان کے عدل و انصاف کے ذریعہ اسلام کی شان و شوکت اور قوت کا اظہار ہوگا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ خلفاء سے مراد عادل و انصاف پرور خلفاء اور نیک طینت وپاکباز امراء ہیں جو اپنے ذاتی اوصاف حمیدہ کی بناء پر خلافت کا صحیح مصداق اور منصب امارت کے اہل ہوں، اس صورت میں حدیث کا لازمی مطلب یہ بیان کرنا نہیں ہوگا کہ یہ بارہ خلفاء آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے بعد متصلاً یکے بعد دیگرے منصب خلافت وامارت پر متمکن ہوں گے جب کہ ہوسکتا ہے کہ اصل مقصد اس طرح کے خلفاء وامراء کی محض تعداد بیان کرنا ہو خواہ ان کا ظہور کسی بھی عہد و زمانہ میں ہو اور بارہ کا عدد قیامت تک کسی وقت جا کر پوراہو تورپشتی کے مطابق اس حدیث اور اس بارے میں منقول دوسری احادیث کے مفہوم ومعنی کے تعین میں یہی قول زیادہ بہتر و مناسب اور قابل ترجیح ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں اس طرح کے ان بارہ خلفاء وامراء کا ذکر مراد ہے جو حضرت مہدی (علیہ السلام) کے زمانہ کے بعد منصب خلافت وامارت پر فائز ہوں گے گویا مخبر صادق ﷺ نے پیش خبری فرمائی کہ آخر زمانہ میں قریش سے نسبی تعلق رکھنے والے ایسے بارہ افراد مسلمانوں کی ملی وملکی اور حکومتی قیادت کے امین بنیں گے جن کے زمانہ اقتدار وامارت میں دین و مذہب کو عروج حاصل ہوگا اور اسلام کی شان و شوکت دوبالا ہوگی ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب مہدی کا انتقال ہوگا تو قیادت و اقتدار کے مالک، یکے بعد دیگرے جو پانچ آدمی ہوں گے وہ سبط اکبر یعنی حضرت امام حسن (رض) کی اولاد میں سے ہوں گے، ان کے بعد قیادت و اقتدار کی باگ ڈور یکے بعد دیگرے ان پانچ آدمیوں کے ہاتھ میں آئے گئی جو سبط اصغر حضرت سیدنا حسین (رض) شہید کی اولاد میں سے ہوں گے اور ان میں آخری شخص اپنا ولی عہد ایسے شخص کو بنائے گا جو حضرت امام حسن (رض) کی اولاد میں ہوگا اور مملکت وملت کی امامت وسربراہی کے سلسلہ کا گیارہواں فرد ہوگا پھر جب یہ گیارہواں شخص اپنا زمانہ اقتدار پورا کرکے انتقال کرے گا تو اس کا جانشین اس کا بیٹا ہوگا اور مسند اقتدار کا مالک بنے گا، اس طرح بارہ کا عدد پورا ہوجائے گا اور ان بارہ میں کا ہر شخص امام عادل اور ہادی مہدی ہوگا جس کی عدالت انصاف پسندی، دینداری اور رعایا سے اسلام اور مسلمانوں کو زبردست شان و شوکت اور سربلندی وہردلعزیزی حاصل ہوگی اگر یہ حدیث صحیح ہے تو پھر مذکورہ بالا دوسرے قول کو ایک معقول اور بہترین توجیہ قرار دیا جاسکتا ہے ویسے ایک روایت حضرت ابن عباس (رض) کی بھی نقل کی جاتی ہے جس میں انہوں نے حضرت امام مہدی کے اوصاف و محاسن بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (امام مہدی) کے وجود سے ہر رنج وفکر کو دور کر دے گا اور ان کے عدل وفتنہ کا سد باب ہوجائے گا ان کے زمانہ کے بعد پھر قیادت و اقتدار کی باگ ڈور ان بارہ آدمیوں کے ہاتھ میں آجائے گی جو یکے بعد دیگرے ڈیڑھ سو سال تک مملکت کی زمام کار سنبھالے رہیں گے۔ اور چوتھا قول یہ ہے کہ اصل مراد ایک ہی زمانہ میں بارہ خلفاء کا پایا جانا ہے جو اپنی اپنی جگہ خود مختیار حیثیت کا دعوی کریں گے اور ان میں سے ہر ایک کی اطاعت کرنے والے لوگوں کا الگ الگ گروہ ہوگا اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ (ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا) وہ وقت آنے والا ہے جب میرے بعد خلیفہ ہوں گے اور بہت ہونگے اس ارشاد گرامی سے آنحضرت ﷺ کا اصل مقصد یہ خبر دینا تھا کہ میرے بعد نت نئے فتنوں کا ظہور ہوگا اور طرح طرح کے اختلافی ونزاعی معاملات اٹھ کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ ایک زمانہ میں بارہ خلفاء اپنی الگ الگ خلافت کا دعویٰ کریں گے اس آخری قول کے مطابق حدیث کی مراد گویا یہ ہوگی کہ بیک وقت بارہ خلفاء کے وجود کے زمانہ سے پہلے کے زمانہ تک تو مسلمانوں کی موثر اجتماعی وتنظیمی حیثیت برقرار رہے گی دین کا نظام مستحکم و استوار رہے گا اور اسلام کی عزت و شوکت بڑھتی رہے گی لیکن اس زمانہ میں (جب کہ بیک وقت بارہ خلفاء ہوں گے) اختلاف ونزاع کا فتنہ پھوٹ پڑے گا اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی منتشر ہونے لگے گی۔ لیکن پہلے اقوال کے مطابق حدیث کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان بارہ خلفاء کے زمانہ تک اسلام اور مسلمانوں کا نظام ملک وملت مستحکم و استوار رہے گا اس نظام میں جو خلل و اضطراب پیدا ہوگا وہ اس زمانہ کے بعد ہوگا۔ شیعوں نے اس حدیث میں بارہ خلفاء کے ذکر کو اس پر محمول ومنطبق کیا ہے کہ وہ اہل بیت میں سے ہوں گے خواہ وہ منصب خلافت پر حقیقۃ فائز ہوں خواہ خلافت کا استحقاق رکھنے کے باوجود منصب خلافت پر فائز نہ ہوسکیں ان شیعوں کے مطابق سب سے پہلے خلیفہ حضرت علی ہیں، پھر حضرت حسن، پھر حضرت حسین، پھر حضرت زین العابدین، پھر حضرت محمد باقر، پھر حضرت جعفر صادق، پھر حضرت موسیٰ کا ظم، پھر حضرت علی رضا، پھر حضرت محمد تقی، پھر حضرت حسین عسکری، پھر حضرت محمد مہدی۔

【7】

چند عرب قبائل کا ذکر

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (قبیلہ) غفار کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے (قبیلہ) اسلم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے اور (قبیلہ) عصیہ (تو وہ قبیلہ) جو اللہ اور اللہ کے رسول کی معصیت میں مبتلا ہوا۔ (بخاری ومسلم) تشریح غفار عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے، ممتاز صحابی حضرت ابورذر غفاری (رض) اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ قبیلہ حاجیوں کا مال چرایا کرتا تھا اور اپنی اس برائی کے سبب عام قبائل میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اسی پر آنحضرت ﷺ نے اس قبیلہ کے حق میں دعا فرمائی کہ اس قبیلہ کے دامن پر جو پہلا داغ لگا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کو مٹائے اور قبیلہ والوں کو مغفرت و بخشش سے نوازے کیونکہ اب اسی قبیلہ کے لوگ خوشی خوشی اسلام میں داخل ہوگئے ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی دعائیہ جملہ کے بجائے جملہ خبریہ ہے یعنی آپ ﷺ نے ان الفاظ کے ذریعہ خبردی کہ اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کی جاہلی زندگی کے واقعات کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور اب اہل قبیلہ کو ان کے ایمان واسلام کی بدولت مغفرت و بخشش سے نوازدیا ہے۔ اسلم بھی ایک قبیلہ کا نام ہے اس قبیلہ کے لوگوں نے چونکہ لڑائی کے بغیر اسلام قبول کرلیا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس قبیلہ کے لوگوں کو سلامت رکھے اس قبیلہ کے بارے میں مذکورہ جملہ بھی جملہ خبریہ کا احتمال رکھتا ہے یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس جملہ کے ذریعہ یہ خبر دی ہو کہ یہ وہ قبیلہ ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو پسند نہیں کیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کے لوگوں کو قتل و تباہی سے سلامت و محفوظ رکھا۔ عصیہ اس بدنصیب قبیلہ کا نام ہے جس نے مسلمان قاریوں کو بیر معونہ پر مکروفریب کے ذریعہ بڑی بےدردی کے ساتھ شہید کردیا تھا آنحضرت ﷺ کو اس پر بڑا رنج ہوا تھا اور آپ ﷺ قنوت میں اس قبیلہ کے لوگوں پر لعنت اور بددعا فرمایا کرتے تھے۔ اس قبیلہ کے حق میں مذکورہ حدیث کے الفاظ صرف جملہ خبریہ کے طور پر ہیں، ان میں جملہ دعائیہ کا کوئی احتمال نہیں ہے تاہم ان الفاظ میں اس قبیلہ کا ذکر جس طرح شکوہ کو ظاہر کرتا ہے وہ بجائے خود بددعا کو مستلزم ہے لیکن اس مفہوم میں نہیں کہ اہل قبیلہ گناہ و معصیت میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہوں بلکہ اس مفہوم میں کہ قبیلے والوں نے جس عظیم معصیت اور سرکشی کا ارتکاب کیا اس پر ان کو دنیا وآخرت میں ذلت و خواری نصیب ہو۔

【8】

چند قبائل کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قریش (کے مسلمان یعنی اہل مکہ وغیرہ) انصار (یعنی اہل مدینہ) قبیلہ جہینہ (کے مسلمان) قبیلہ غفار (کے مسلمان) اور قبیلہ اشجع (کے مسلمان) میرے دوست اور مددگار ہیں ان کا مددگار اور دوست اللہ اور اللہ کے رسول کے سوا کوئی نہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح لفظ موالی متکلم کی طرف مضاف ہے اور مولیٰ کی جمع ہے اور ایک روایت میں یہي لفظ (یہ متکل کے بغیر) موالٍ منقول ہے اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ (ان قبائل کے مسلمان) آپس میں ایک دوسرے کے معین اور مددگار اور دوست ہیں۔

【9】

دوحلیف قبیلوں کا ذکر

اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اسلم غفار مزینہ اور جہنینہ یہ سب قبیلے بنوتمیم سے اور دونوں حلیف قبیلوں یعنی بنواسد اور غطفان سے بہتر ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح دونوں حلیف قبیلے بنواسد اور غطفان بھی دو قبیلوں کے نام ہیں یہ دونوں قبیلے آپس میں ایک دوسرے کے حلیف تھے اور جیسا کہ اس زمانہ میں عرب کا عام دستور تھا ان دونوں نے ایک دوسرے کے سامنے قسم کھا کر عہد و پیمان کر رکھا تھا کہ باہم ایک دوسرے کے مددگار ومعین رہیں گے۔ حدیث میں مذکورہ قبیلوں کو اس لئے بہتر فرمایا کہ ان قبائل کے لوگوں نے قبول اسلام میں سبقت کا شرف حاصل کی اور اپنے اچھے احوال و معاملات کا قابل تحسین مظاہرہ کیا۔

【10】

بنوتمیم کی تعریف

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں بنوتمیم کو اس وقت سے ہمیشہ عزیز اور دوست رکھتا ہوں جب سے میں نے ان کی تین خاص خوبیوں کا ذکر رسول کریم ﷺ سے سنا ہے (چنانچہ ان کی پہلی خوبی کے بارے میں) آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت میں سے بنوتمیم ہی وہ لوگ ہوں گے جو دجال کے مقابلے پر سخت سے زیادہ سخت اور بھاری ثابت ہوں گے حضرت ابوہریرہ (رض) نے (ان کی دوسری خوبی کے بارے میں یہ) بیان کیا کہ (ایک مرتبہ سی تمیم کی طرف سے) صدقات (یعنی زکوٰۃ کے اموال ومویشی وغیرہ) آئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ ہماری قوم کی طرف سے آئے ہوئے صدقات ہیں اور (ان کی تیسری خوبی اس طرح ظاہر ہوئی کہ) بنی تمیم سے تعلق رکھنے والی ایک لونڈی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے پاس تھی، اس بارے میں آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے فرمایا کہ اس لونڈی کو آزاد کردو کیونکہ یہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح سب سے زیادہ سخت اور بھاری ثابت ہوں گے یعنی جب دجال لعین کا ظہور ہوگا تو بنی تمیم ہی کے لوگ سب سے زیادہ اس کا مقابلہ کریں گے اس کے توڑ میں سب سے زیادہ سعی و کوشش کریں گے اور اس کی تردید وتغلیط میں سب سے آگے رہیں گے اس طرح ان الفاظ میں بنوتمیم کی خصوصیت و فضیلت کا تو ذکر ہم ہی لیکن اس کے ساتھ یہ پیشین گوئی بھی ہے کہ بنوتمیم کی نسل کے لوگ اسی کثرت کے ساتھ ظہوردجال کے زمانہ میں بھی ہونگے۔ یہ ہماری قوم کے صدقات ہیں ان الفاظ کے ذریعہ آپ ﷺ نے بنوتمیم کو اس طرح شرف و فضیلت سے نوازا کہ ان کو اپنی طرف منسوب کر کے ان کی قوم کو اپنی قوم فرمایا۔ یہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہے کا مطلب یہ تھا کہ یہ لونڈی بنو تمیم میں سے ہونے کی بناء پر عربی النسل ہے اور عرب چونکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اس لئے یہ لونڈی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہوئی اگرچہ یہ نسلی وصف تمام عرب کا مشترک وصف ہے، صرف بنوتمیم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لیکن آپ ﷺ نے بنو تمیم کو ایک طرح سے فضل وشرف عطا فرمانے کے لئے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔

【11】

قریش کو ذلیل نہ کرو

اور حضرت سعد نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے قریش کی ذلت و خواری چاہی، اس کو اللہ تعالیٰ ذلیل و خوار کرے گا۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ قریش کی عزت اور ان کا احترام ہر صورت میں لازم ہے ان کی عزت کے درپے ہونا اور ان کی ذلت و رسوائی چاہنا اللہ کی ناراضگی کو مول لینا ہے، خواہ وہ امامت کبریٰ یعنی منصب خلافت پر فائز ہوں یا فائز نہ ہوں۔ ان کے خلیفہ و امیر ہونے کی صورت میں ان کی اہانت و بےعزتی کرنے کی ممانعت اور تہدید کی وجہ تو ظاہر ہے، رہی وہ صورت جب کہ وہ خلافت وامارت کے منصب فائز نہ ہوں تو اس صورت میں بھی ان کی اہانت و بےعزتی کرنے کی ممانعت اس اعتبار سے سمجھی جائے گی کہ ان کو آنحضرت ﷺ کی نسبت حاصل ہے اور ان کا یہ خصوصی فضل وشرف اسی بات کا متقاضی ہے۔

【12】

قریش کے حق میں دعا

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے دعا کی اے اللہ ! تو نے قریش کو ابتداء میں (غزوہ بدر اور غزوہ احزب کے موقع پر شکت و تباہی کا) عذاب چکھایا (جب کہ انہوں نے دین حق کی مخالفت اور تیرے رسول کا راستہ اختیار کر رکھا تھا) پس اب (جب کہ انہوں نے اسلام قبول کرکے اور تیرے رسول کی اطاعت اختیار کرکے دین اور مسلمانوں کو تقویت ومدد پہنچائی ہے تو) آخر میں ان کو عطاء و بخشش سے نوازدے۔ (ترمذی )

【13】

دویمنی قبیلوں کی خوبیاں اور ان کی تعریف

اور حضرت ابوعامر اشعری ( جو حضرت ابوموسیٰ اشعری کے چچا ہیں) بیان کرتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا اسد اور اشعریب ہت اچھے قبیلے ہیں، یہ دونوں نہ کفار کے مقابلہ پر جنگ سے بھاگتے ہیں اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرتے ہیں وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح اسد یمن کے ایک قبیلہ کے مورث اعلی کا نام ہے اور یہ قبیلہ اسی کے نام سے مشہور و متعارف ہوا، اسی قبیلہ کو ازد اور ازد شنوہ بھی کہا جاتا ہے تمام انصار مدینہ اسی قبیلہ سے نسلی تعلق رکھتے تھے اشعر دراصل عمرو ابن حارثہ اسدی کا لقب تھا جو اپنے زمانہ میں یمن کا ایک ممتاز اور سربر آوردہ شخص تھا یہ بھی اپنے قبیلہ کا مورث اعلی تھا اور اس کے لقب کی نسبت سے اس کا قبیلہ اشعری کہلاتا تھا اس قبیلہ کے لوگوں کو اشعریون اور اشعرون بھی کہا جاتا ہے، مشہور صحابی حضرت موسیٰ اشعری (رض) اور ان کی قوم کے لوگ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ مجھ سے ہیں کا مطلب یہ تھا کہ وہ میری اتباع کرنے والے اور میری سنت اور میرے اسوہ پر چلنے والے لوگ ہیں، یا یہ کہ ان قبیلوں کے لوگ میرے دوستوں اور مدد گاروں میں سے ہیں اسی طرح میں ان کا ہوں کا مطلب یہ تھا کہ میں بھی ان کا دوست اور ان کا مددگار ہوں گویا ان الفاظ کے ذریعہ اس طرح اشارہ کیا گیا کہ ان قبیلوں کے مؤمن و مسلمان تقوی و پرہیز گاری کے مقام پر ہیں اور یہ بات قرآن کریم کے ان الفاظ سے ثابت ہوتی ہے کہ وان اولیاؤہ الا المتقون۔ اور ان کے (یعنی محمد ﷺ کے) جو بھی دوست ورفیق ہیں سب متقی و پرہیز گار ہیں۔ ازد، ازد اللہ ہیں اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قبیلہ ازد کے لوگ، روئے زمین پر اللہ کے ازد (یعنی اللہ کا شکر اور اس کے دین کے معاون و مددگار) ہیں لوگ اس قبیلہ کو ذلیل و خوار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے برخلاف اس قبیلہ کے لوگوں کو عزت و بلندی عطا کرنا چاہتے ہیں یقینا لوگوں پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب آدمی یہ کہتا نظر آئے گا کہ کاش میرا باپ ازدی ہوتا اور کاش میری ماں قبیلہ ازد سے ہوتی اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح قبیلہ ازد کی نسبت اللہ کی طرف کرکے ان کو ازد اللہ کہنا یا تو ان کو اس لقب کے ساتھ متعارف کرانا تھا یا اس اعتبار سے کہ اس قبیلہ کے لوگ اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کے معاون و مددگار ہونے کی حیثیت سے اللہ کا لشکر تھے، ان کے فضل وشرف کو ظاہر کرنے کے لئے ان کے قبیلے کی نسبت اللہ کی طرف کی اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ازد اللہ دراصل اسد اللہ (اللہ کے شیر) کے معنی میں استعمال ہوا ہے مطلب یہ کہ قبیلہ ازد کے لوگ معرکہ شجاعت ودل اوری کے شیر ثابت ہوتے ہیں۔ کاش میرا باپ ازدی ہوتا مطلب یہ کہ ایک زمانہ میں اس قبیلہ کا مرتبہ ایسا وقیع ہوتا اور اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے باعزت وسربلند ہوں گے کہ دوسرے قبائل کے لوگ ان پر رشک کریں گے اور اس آرزو کا اظہار کرتے نظر آئیں گے کہ ہم بھی اس قبیلہ کے ہوتے۔

【14】

ازد، ازد اللہ ہیں

حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قبیلہ ازد کے لوگ روئے زمین پر اللہ کے ازد (یعنی اللہ کا شکر اور اس کے دین کے معاون و مددگار) ہیں لوگ اس قبیلہ کو ذلیل و خوار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے برخلاف اس قبیلہ کے لوگوں کو عزت و بلندی عطا کرنا چاہتے ہیں یقینا لوگوں پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب آدمی یہ کہتا نظر آئے گا کہ کاش میرا باپ ازدی ہوتا اور کاش میری ماں قبیلہ ازد سے ہوتی، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح قبیلہ ازد کی نسبت اللہ کی طرف کرکے ان کو ازد اللہ کہنا یا تو ان کو لقب کے ساتھ کے ساتھ متعارف کرانا تھا یا اس اعتبار سے کہ اس قبیلہ کے لوگ اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کے معاون مددگار ہونے کی حیثیت سے اللہ کا لشکر تھے ان کے فضل وشرف کو ظاہر کرنے کے لئے ان کے قبیلے کی نسبت اللہ کی طرف کی اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ازد اللہ دراصل اسد اللہ (اللہ کے شیر) کے معنی میں استعمال ہوا ہے مطلب یہ کہ قبیلہ ازد کے لوگ معرکہ شجاعت ودل اوری کے شیر ثابت ہوتے ہیں۔ کاش میرا باپ ازدی ہوتا مطلب یہ ہے کہ ایک زمانہ میں اس قبیلہ کا مرتبہ ایسا وقیع ہوتا اور اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے باعزت وسربلندہوں گے کہ دوسرے قبائل کے لوگ ان پر رشک کریں گے اور اس آرزو کا اظہار کرتے نظر آئیں گے کہ کاش ہم بھی اس قبیلہ کے ہوتے

【15】

تین قبیلوں کے بارے اظہارناپسندیدگی

اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ تین قبیلوں، ثقیف، بنوحنیفہ اور بنوامیہ، سے ناخوش اس دنیا سے تشریف لے گئے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح مذکورہ بالا تینوں قبیلوں میں ایسے افراد پیدا ہوئے جن سے اسلام کے مخالفین کو فائدہ پہنچا اور مسلمانوں کو شدید رنج والم اور مصائب سے دوچار ہونا پڑا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آگاہ کردیا تھا کہ آگے چل ان قبائل سے کیسے کیسے فتنے اور کیسے کیسے ظالم لوگ پیدا ہوں گے اس لئے آنحضرت ﷺ ان تینوں قبیلوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، چناچہ ثقیف تو وہ قبیلہ ہے جس میں حجاج ابن یوسف جیسا مشہور شخص پیدا ہوا، بنوحنیفہ وہ قبیلہ ہے جس میں مسیلمہ کذاب جیسے فتنہ ساز کو جنم دیا اور بنوامیہ وہ قبیلہ ہے جس میں عبیداللہ ابن زیاد پیدا ہوا، یہ وہی عبیداللہ ابن زیاد ہے جو یزید ابن معاویہ کی طرف سے کوفہ وبصرہ کا گورنر تھا اور جس نے محض دربار امارت میں خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی ماتحت فوج سے حضرت سید الشہداء امام حسین کو شہید کرایا، عبید ابن زیاد انتہائی بدبخت اور کمینہ شخص تھا، منقول ہے کہ جب اس کی فوج کے لوگ میدان کربلا سے حضرت سید الشہداء حضرت حسین کا سر مبارک لے کر اس کے پاس آئے تو اس نے سر مبارک کو ایک طشت میں رکھوایا اور ایک چھڑی کے ذریعہ اس پر ضربیں لگاتا جاتا اور جگر گوشہ رسول ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات بکتا جاتا، لیکن اس بدنصیب کا انجام بھی بہت برا ہوا، نہایت بےدردی کے ساتھ ایک جنگ میں مارا گیا اور ترمذی نے اپنی جامع میں عمارہ ابن عمیر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا ہے کہ، جب عبیداللہ ابن زیاد میدان جنگ میں مارا گیا تو (اس کی دشمن فوج نے اس کی بےسر لاش کو نذر آتش کردیا پھر) اس کے فوجی اس کا سر لے کر شہر میں آئے اور مسجد کے چبوترے پر رکھ دیا جہاں اس کے دوسرے ساتھی اور حوالی موالی بیٹھے ہوئے تھے، عمارہ ابن عمیر کہتے ہیں کہ اس موقع پر میں بھی وہاں پہنچ گیا، پھر میں نے دیکھا کہ اس کے ساتھیوں نے چلانا شروع کیا وہ آیا وہ آیا (میں نے حیرت کے ساتھ دیکھا تو) اچانک ایک سانپ آتا ہوا دکھائی دیا اور پھر وہ سانپ (بڑی تیزی کے ساتھ عبیداللہ ابن زیاد کے سر کی طرف بڑھا اور) اس کی ناک میں گھس گیا، تھوڑی سی دیر اندر رہا اور پھر باہر نکل کر چلتا بنا یہاں تک کہ نظروں سے غائب ہوگیا (یہ ششدرکن منظر دیکھ کر ابھی لوگوں پر حیرانی و سراسیمگی طاری ہی تھی کہ) اچانک انہوں نے پھر شور کیا، وہ آیا دیکھو وہ سانپ پھر آرہا ہے اتنے میں وہ سانپ سر کے پاس پہنچ کر پھر نتھنے میں گھس کر اندر چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد باہر نکل کر چلتا بنا اسی طرح دو یا تین بار ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں حدیث کی وضاحت میں بنو امیہ کے تحت صرف عبیداللہ ابن زیاد کا ذکر کیوں کیا گیا ہے حالانکہ یزید ابن معاویہ بھی بنوامیہ میں سا تھا اور اس اعتبار سے اس کا ذکر کرنا زیادہ ضروری تھا کہ عبیداللہ ابن زیاد اسی کا مقرر کردہ گورنر اور اس کا ماتحت تھا اور عبیداللہ ابن زیاد نے جو کچھ کیا یزید کے حکم اور اس کی رضامندی سے کیا، لیکن اس بات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے بنوامیہ کے باقی لوگوں نے اپنی بدذاتیوں میں کونسی کسر اٹھا رکھی تھی، دولت و اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہو کر انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی حرکت جو جو حرکتیں کیں وہ سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہیں ایک یزید ابن معاویہ یا عبیداللہ ابن زیاد ہی کو کیا کہا جائے، مقصدت بنوامیہ کی برائی بیان کرنا تھا، علامتی طور پر عبیداللہ ابن زیاد کا ذکر کردیا گیا اب اور سب کو اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ کچھ بندر مسجد نبوی کے منبر شریف پر کھیل تماشہ دکھا رہے ہیں، آپ ﷺ نے اس خواب کی تعبیر میں بنوامیہ کا ذکر کیا

【16】

بنوثقیف کے دو شخصوں کے بارے میں پیش گوئی

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قبیلہ ثقیف میں انتہادرجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک انتہا درجہ کا مفسد وہلاکو حضرت عبداللہ عصمہ تابعی (اس جھوٹے شخص کے تعین کے بارے میں) کہتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے جھوٹے شخص سے مراد مختار ابن عبید اور مفسدوہلاکو سے مراد حجاج ابن یوسف (مشہور ظالم ) ہے۔ اور ہشام ابن حسان (جو اونچے درجہ کے فقیہہ اور علم حدیث میں زبردست ادرک ومہارت رکھنے والے ایک مشہور متقی و بزرگ ہیں اور جن کا شمار ائمہ حدیث میں ہوتا ہے) کا بیان ہے کہ حجاج ابن یوسف نے جس قدر لوگوں کو (جنگ ومعر کہ میں نہیں بلکہ) یوں ہی پکڑ پکڑ کر قید خانہ میں ڈال کر قتل کیا ہے ان کی تعداد لوگوں نے شمار کی ہے جو ایک لاکھ بیس ہزار ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حجاج ابن یوسف نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کو شیہد کردیا تو حضرت اسماء نے ( جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی والدہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی ہیں) کہا ہم نے رسول کریم ﷺ نے بیان کیا ہے کردیا تھا کہ قبیلہ ثقیف میں ایک انتہادرجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک بڑا مفسد وہلاکو پس جہاں تک جھوٹے شخص کا تعلق ہے تو اس کو دیکھ چکے اب رہی مفسد وہلاکو کی بات، تو میرا خیال ہے کہ اے حجاج وہ مفسد وہلاکو تو ہی ہم یہ پوری حدیث فصل میں آرہی ہے۔ تشریح حجاج لغوی طور پر تو حاج کا اسم مبالغہ ہے جس کے معنی ہیں بحث کرنے والا حجت یعنی دلیل و ثبوت لانے والا حجاج ابن یوسف تاریخ اسلام کا مشہور ظالم شخص ہے جس نے ہزار ہاہزار اچھے اور نیک لوگوں کو جن میں صحابہ وتابعین بھی شامل ہیں، ناحق موت کے گھاٹ اتار، عبداللہ ابن زبیر کو شہید کیا اور ہزاروں بےخطا انسانوں کو قید وبند میں ڈالے رکھا کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو اس نے کسی معرکہ آرائی اور جنگ وجدل کے بغیر یوں ہی پکڑ پکڑ کر جیل خانہ میں ڈالا اور پھر ان کو قتل کرادیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے جو لوگ جنگوں اور جھگڑوں میں مارے گئے ان کی تعداد علیحدہ ہے، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے قید خانہ سے پچاس ہزار آدمیوں کی ایک بڑی تعداد تو ایک ہی وقت میں نکلی تھی اور اس شخص کی سنگدلی کا اندازہ لگانے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس نے قیدخانہ بنوا رکھا تھا اس میں چھت کا کوئی نام ونشان نہیں تھا اس کے تمام قیدی کھلے آسمان کے نیچے گرمی وسردی اور دھوپ وبارش کی صعوبتیں جھیلتے تھے، حجاج ابن یوسف ثقفی دراصل اموی امیر عبد الملک ابن مروان کا زبردست معتمدوبہی خواہ تھا اور امارت و سلطنت کے معاملات میں بڑا اثر ورسوخ رکھتا تھا عبد الملک ابن مروان نے اس کو عراق وخراسان کا حاکم اعلی (گورنر) بنا رکھا تھا اور عبداللہ ابن زبیر کی شہادت کے بعد حجاز کا والی بھی بنا، عبد الملک ابن مروان کے بعد ولید عبد الملک کے زمانہ امارت میں بھی عراق وخراسان پر اس کا اقتدار برقرار رہا، اس کے ظلم وستم کے واقعات اور وحشیانہ کاروائیوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں، وسط شوال ٩٥ ھ میں بعمر ٥٤ سال اس کا انتقال ہوا۔ مختار ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی کا بیٹا تھا مختار کی ولادت ہجرت کے پہلے سال ہوئی اس کو آنحضرت ﷺ کی صحبت و روایت یعنی صحابیت کا شرف حاصل نہیں ہوا، ابتدا میں یہ شخص علم وفضل اور نیکی وتقوی کے ساتھ مشہور تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ خبث باطن کا شکار ہے اور محض دنیا سازی کے لئے علم وتقوی کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا پہلے یہ شخص اہل بیت نبوت سے سخت بغض وعناد رکھتا تھا پھر اچانک اس میں ایسا انقلاب آیا کہ اہل بیت نبوت کی محبت کا دم بھرنے لگا اور اس بارے میں صحیح فکر و عقیدے کا حامل نظر آنے لگا اہل بیت کے تئیں اس کی یہ ظاہری محبت اتنی بڑھی کہ حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد یزیدیوں کا کھلم کھلا دشمن ہوگیا اور ان میں سے بہت لوگوں کو اس نے خون حسین کے قصاص میں موت کے گھاٹ بھی اتارا، غرضیکہ اس نے طلب دنیا اور حب جاہ میں بہت چولے بدلے، اپنی نت نئی حرکتوں سے طرح طرح کے فتنے جگائے حضرت عبداللہ ابن زبیر کے خلاف عراق میں علم بغاوت بلند کیا مکروفریب اور عیاریوں کے ذریعہ جاہل اور کمزور عقیدہ لوگوں پر اپنی نام نہاد روحانی بزرگی و کر امت کا ایسا سکہ جمایا کہ اس کے حامیوں کی اور معتقدوں کی ایک بہت بڑی جماعت اس کے گرد جمع ہوگئی اس کا حلقہ اثر جوں جوں بڑھتا گیا اتنا ہی وہ عقیدہ کی خرابی رائے و خیال کی گمراہی اور نفس کی خواہشات کا شکار ہوتا گیا جھوٹ اور فریب کاری کے سہارے اس نے پوری خلافت اسلامیہ پر قبضہ کرلینے کا منصوبہ بنایا اور اپنی فتنہ انگیزیوں کے ذریعہ کوفہ پر قابض بھی ہوگیا، نبوت کا مدعی بھی بنا اور اس بات کا دعویٰ کرنے لگا کہ جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس وحی لے کر آتے ہیں آخر کار حضرت مصعب ابن زبیر نے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی طرف بصرہ کے گورنر تھے اپنی فوج لے کر کوفہ پر چڑھائی کی مختار نے بھی مقابلہ کیا مگر شکست کھا گیا اور پھر ١٤ رمضان ٢٧ ھ کو مقتول ہوا مختار کے انہی فریب اور جھوٹ سے بھرے حالات کی بناء پر علماء نے اس کو کذابوں میں سے ایک بڑا کذاب شمار کیا ہے اور حدیث کے الفاظ یخرج من ثقیف کذاب ومبیر (قبیلہ ثقیف میں ایک انتہا درجہ کا جھوٹا اور ایک انتہادرجہ کس مفسد وہلاکو کو پیدا ہوگا) کا مصداق ومحمول مختار اور حجاج کو قرار دیا ہے۔

【17】

قبیلہ ثقیف کے حق میں بددعا کے بجائے دعاء ہدایت

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) کچھ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ قبیلہ ثقیف کے تیروں نے ہم کو بھون ڈالا ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بددعا کیئجے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! ثقیف کو (قبول اسلام اور اطاعت احکام کی) ہدایت و توفیق عطا فرماء۔ (ترمذی )

【18】

قبیلہ حمیرکے لئے دعا

اور حضرت عبد الرزاق ابن ہمام (جو جلیل القدر عالم وفقیہ اور کثیر والتصانیف بزرگ ہیں) اپنے والد مکرم (حضرت ہمام ابن نخعی تابعی) سے اور وہ حضرت مینا سے اور وہ حضرت ابوہریرہ (رض) نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے (یعنی حضرت ابوہریرہ (رض) نے) بیان کیا (ایک دن) ہم لوگ نبی کریم ﷺ کی مجلس مبارک میں حاضر تھے کہ ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آیا، جس کے بارے میں میرا گمان ہم کہ وہ قبیلہ قیس سے تعلق رکھتا تھا، اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! قبیلہ حمیر پر لعنت فرمائیے یعنی ان کے حق میں بددعا فرمائے کہ اللہ تعالیٰ اس قبیلہ کے لوگوں کو اپنی رحمت سے دور رکھے آنحضرت ﷺ نے (یہ سنا تو) اس شخص کی طرف سے منہ پھیرلیا وہ شخص پھر دوسری طرف سے آپ ﷺ کے سامنے آیا آپ ﷺ نے ادھر سے بھی منہ پھیرلیا پھر وہ شخص دوسری طرف سے آپ ﷺ کے سامنے آیا تو آپ ﷺ نے اس طرف سے بھی منہ پھیرلیا (یعنی آپ ﷺ کسی طرح بھی اس کی طرف متوجہ ہونے اور اس کی بات ماننے پر تیار نہیں ہوئے) اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ حمیر پر اپنی رحمت نازل فرمائے ان کے منہ سلام ہیں، ان کے ہاتھ طعام ہیں اور وہ اہل امن بھی ہیں اور اہل ایمان بھی اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اس روایت کو ہم عبد الرزاق ابن ہمام کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے نہیں جانتے اور مینا سے نقل کی جانے والی روایتیں منکر ہیں (مطلب یہ کہ اگرچہ عبدالرزاق ابن ہمام مسلمہ فقیہ ومحدث اور قوی ثقہ راوی ہیں مگر مینا ایک ضعیف راوی ہیں ) تشریح ان کے منہ سلام ہیں اور ان کے ہاتھ طعام ہیں کے ذریعہ حمیر کی دو بڑی خوبیوں کی طرف اشارہ کیا فرمایا ایک تو یہ کہ ان کے ہاں سلام کا بہت چرچا ہے، جب بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں ان کے منہ سے سلام علیک ضرور نکلتا ہے اور دوسری خوبی یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے لوگوں کو کھانا خوب کھلاتے اور خوب تقسیم کرتے ہیں اس اعتبار سے یہ لوگ انکساری اور سخاوت جیسی دونوں عظیم صفتوں کے جامع ہیں اور جو اس بات کی علامت ہے کہ ان کو فضیلت و بزرگی کا مقام اور حقوق العباد کی ادائیگی کی سعادت حاصل ہے۔ وہ اہل امن بھی ہیں اور اہل ایمان بھی یعنی یہ لوگ کامل و پختہ ایمان کے حامل بھی ہیں اور ہر قسم کی آفات وبلیات اور مضرات سے محفوظ ومامون بھی ہیں۔

【19】

حضرت ابوہریرہ اور ان کا قبیلہ دوس

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے مجھ سے پوچھا تم کس قبیلہ سے ہو ؟ میں نے عرض کیا (یمن کے مشہور قبیلہ ازد کی ایک شا) دوس سے تعلق رکھتا ہوں، آپ ﷺ نے (حیرت ظاہر کرتے ہوئے) فرمایا مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ قبیلہ دوس میں کوئی ایسا شخص بھی ہوسکتا ہے جس میں نیکی و بھلائی ہو (ترمذی) تشریح اس حدیث میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی تعریف وتحسین ہے اور ان کے قبیلہ دوس کی مذمت، کہ اگر ابوہریرہ نہ ہوتے تو اس قبیلہ میں کوئی بھی خوبی و بھلائی نہ ہوتی۔

【20】

اہل عرب سے دشمنی آنحضرت ﷺ سے دشمنی رکھنا ہے

اور حضرت سلمان فارسی کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ مجھ سے فرمانے لگے، مجھ سے دشمنی نہ رکھنا ورنہ تم اپنے دین سے جدا ہوجاؤ گے میں نے (یہ سنا تو حیرت سے) عرض کیا بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ ﷺ سے دشمنی تو دشمنی، دشمنی کا تصور بھی رکھوں ! درآنحالیکہ (آپ ﷺ اللہ کے حبیب ہیں اپنی پوری امت کے محبوب ہیں اور آپ ﷺ کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں (اسلام کا اور اچھے کاموں کا) سیدھا راستہ دکھایا آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم عرب سے دشمنی رکھوگے تو گویا مجھ سے دشمنی رکھوگے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم عام طور پر تمام اہل عرب سے بغض و عداوت اور دشمنی رکھوگے تو چونکہ میں بھی عرب میں شامل ہوں اس لئے مجھ سے بھی تمہارا دشمنی رکھنا لازم ہوگا پس ایسی سے میں نے کہا کہ تم مجھ سے دشمنی نہ رکھنا، اس سے معلوم ہوا کہ اہل عرب سے بغض و عداوت رکھنے سے بہرصورت اجتناب کرنا چاہئے تاکہ اتنی بڑی خرابی میں پڑنے کی نوبت نہ آئے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان چونکہ عجمی اور فارسی النسل تھے اس لئے اس پرانی اور اصل وطنی نسبت کے تحت ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جایا کرتی ہوگی یا ان سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہوجاتی ہوگی جس سے تمام عرب یا کچھ عرب کے تئیں حقارت یا بےادبی کا اظہار ہوتا ہوگا، ورنہ جہاں تک حقیقی بغض و عداوت رکھنے کا تعلق ہے تو حضرت سلمان کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ عرب کے تئیں اس طرح کے جذبات رکھتے ہونگے تاہم ان کی اس طرح کی بات یا حرکت چونکہ صورۃ ًبغض و عداوت ہی کی مظہر ہوتی تھی اس لئے آنحضرت ﷺ نے ان کو متنبہ فرمایا کہ اس بارے میں احتیاط رکھیں اور اپنی زبان یا اپنے عمل سے کسی ایسی بات کا ارتکاب نہ کریں جس سے حقیقتہً نہ سہی صورۃ ہی عرب دشمنی کا اظہار ہوتا ہو کیونکہ اگر اس کا سلسلہ حققۃ بغض و عداوت رکھنے تک پہنچ گیا تو یہ چیز مجھ سے بغض و عداوت رکھنے کے مترادف ہوجائے گی۔

【21】

اہل عرب سے فریب ودغابازی آنحضرت ﷺ کی شفاعت خاص سے محرومی کا باعث ہے

اور حضرت عثمان ابن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اہل عرب سے فریب ودغابازی کرے گا وہ میری شفاعت میں داخل نہیں ہوگا اور نہ اس کو میری دوستی کی سعادت حاصل ہوگی، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اس روایت کو ہم حصین ابن عمر کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے نہیں جانتے اور محدیثن کے نزدیک وہ (حصین ابن عمر) اس درجہ کے قوی نہیں ہیں۔ (ترمذی) تشریح غش (فریب ودغابازی) کا مطلب ہے، دھوکا دینا، دل میں تو کچھ ہو مگر زبان سے کچھ اور کہنا خیرخواہی نہ کرنا، کینہ رکھنا اور کسی کو اس بات پر ابھارنا جو اس کے مفاد و مصلحت کے خلاف ہو شفاعت سے شفاعت صغریٰ یعنی خصوصی شفاعت مراد ہے نہ کہ شفاعت کبریٰ جو بہرحال ہر ایک امتی کے لئے ہوگی۔ دوستی کی سعادت حاصل نہ ہونے سے یا تو یہ مراد تھی کہ اس شخص کو کبھی یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوسکتا کہ میں اس کو اپنا دوست رکھوں یا آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ اس شخص کو کبھی یہ سعادت حاصل نہیں ہوسکتی کہ وہ مجھے اپنا دوست و محبوب رکھے بہرحال دونوں صورتوں میں مراد نفی کمال ہے۔ اور وہ اس درجہ کے قوی نہیں ہیں امام ترمذی (رح) کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہوا کہ عمران ابن حصین (رح) چونکہ روایت حدیث میں قوی نہیں سمجھے جاتے اس لئے ان کی روایت کردہ یہ حدیث ضعیف کہلائے گی، لیکن اول تو یہ فضائل کے سلسلہ میں ضعیف حدیث بھی معتبر مانی جاتی ہے دوسرے یہ کہ اس روایت کی تائید ان بہت سی حدیثوں سے ہوتی ہے جو تواتر معنوی کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں، مثلا حاکم نے حضرت انس (رض) سے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ۔ حب العرب ایمان وبغضہم نفاق۔ اہل عرب کی دوستی ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے طبرانی نے اوسط میں حضرت انس (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے حب قریش ایمان وبغضم کفر وحب العرب ایمان وبغضم کفرفمن احب العرب فقد احبنی ومن ابغض العرب فقدابغضنی۔ قریش سے دوستی رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے نیز عرب سے محبت رکھنا ایمان ہے، عرب سے بغض رکھنا کفر ہے پس جس نے عرب سے محبت رکھی اس نے درحقیقت مجھ سے محبت رکھی اور جس نے عرب سے بغض رکھا اس نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا۔ ۔ علامہ طبرانی نے کبیر میں حضرت سہل ابن سعد سے یہ حدیث نقل کیا ہے احبوا قریشافانہ من احبہم احبہ اللہ۔ قریش کو دوست رکھو کیونکہ جس نے قریش کو دوست رکھا اس کو اللہ دوست رکھے گا۔ حاکم مستدرک میں حضرت ابوہریرہ (رض) آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ احبوالفقراء وجالسوہم واحبوا العرب من قلبک ویسرک من الناس ماتعلم من نفسک۔ فقراء و مساکین سے محبت رکھو اور ان میں بیٹھا کرو اور اہل عرب سے دلی محبت رکھو اور چاہئے کہ وہ عیوب کہ جو تم خود اپنے میں پاتے ہو تمہیں دوسروں کی گیری سے باز رکھیں۔

【22】

ایک پیشین گوئی

اور حضرت ام حریر رحمہا اللہ تعالیٰ علیہ (تابعیہ) جو ایک صحابی حضرت طلحہ ابن مالک کی آزاد کردہ باندی ہیں کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آقا (حضرت طلحہ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت اہل عرب کا ہلاک ہوجانا ہے۔ (ترمذی) تشریح اہل عرب سے مراد یا تو مسلمان عرب ہیں یا جنس عرب (یعنی تمام عرب خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان) بہرحال مطلب یہ ہے کہ جب اہل عرب اس دنیا سے اٹھ جائیں تو سمجھو کہ قیامت آیا چاہتی ہے، اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ عرب کو قیادت وسیاست کا مقام حاصل ہے، تمام غیر عرب ان کے تابع ہیں واضح رہے کہ جب قیامت آئے گی تو اس وقت صرف بدکار (برے لوگ ہی) اس دنیا میں ہونگے کوئی بھی کلمہ گو (توحید و رسالت پر ایمان و اعتقاد رکھنے والا) موجود نہیں ہوگا۔

【23】

خلافت وامارت قریش کو سزاوار ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خلافت و بادشاہی قریش میں ہے، قضاء انصار میں اذان حبشیوں میں ہے، امانت ازد (یعنی شنود) میں ہے (جو یمن کا ایک قبیلہ ہے یا یہ کہ) ازد سے آپ ﷺ کی مراد تمام اہل یمن تھے ایک روایت میں ہے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ (رض) کی موقوف حدیث کے طور پر منقول ہے اور امام ترمذی (رح) نے جو اس روایت کو کے عاقل ہیں کہا ہے کہ یہی بات زیادہ صحیح ہے (یعنی سند کے اعتبار سے وہ روایت زیادہ صحیح ہے جو حدیث موقوف کے طور پر نقل ہوئی ہے) ۔ تشریح قضا سے مراد نقابت ہے نقابت کے معنی ہیں نقیب بننا، یعنی نگران حال، خبر رکھنے والا، نبی کریم ﷺ نے لیلۃ العقبہ میں انصار کی ہر شاخ و قبیلہ کا ایک نقیب مقرر کردیا تھا جس کا کام یہ تھا کہ وہ اپنے قبیلہ میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرے لوگوں کو سمجھا بجھا کر اسلام کی طرف مائل کرے اور جو لوگ مسلمان ہوجائیں ان کے حالات و معاملات کا نگران رہے چناچہ ان نقیبوں نے اپنے فرائض منصبی کو نہایت خوش اسلوبی ہوشیاری اور پوری تندہی کے ساتھ انجام دیا اور دربار رسالت سے تعریف وتحسین کے مستحق قرار پائے۔ اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں قضاء کا لفظ اپنے معروف معنی ہی میں استعمال ہوا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ کو جو جلیل القدر صحابی ہیں، یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا، یہ قول زیادہ واضح اور زیادہ قرین قیاس ہے۔ اذان حبشیوں میں ہے کا مطلب یہ تھا کہ اذان دینے کی خدمت حبشی لوگ زیادہ عمدگی اور زیادہ موزونیت کے ساتھ انجام دیتے ہیں، آپ ﷺ نے یہ بات حضرت بلال (رض) کو سامنے رکھ فرمائی جو آپ ﷺ کے مؤذنوں کے سردار تھے اور وہ حبشی تھے۔ امانت ازد میں ہے میں ازد کے لفظ سے کیا مراد ہے اس بارے میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے یمن کا وہی مشہور قبیلہ مراد ہے جس ازدشنوہ کہا جاتا ہے اور ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ امانت کی ذمہ داری نہایت اطمینان بخش طور پر قبیلہ ازد شنوہ کے یمنی لوگ انجام دیتے ہیں اور دوسرا قول اس راوی کا ہے کہ جنہوں نے روایت میں یعنی الیمن کے الفاظ کا اضافہ کر کے یہ بتایا ہے کہ ازد سے یمن کا صرف ایک قبیلہ ازد شنوہ مراد نہیں ہے بلکہ بالعموم تمام اہل یمن مراد ہیں جیسا کہ ایک روایت میں اہل یمن کے بارہ عمومی طور پر فرمایا گیا ہے کہ وہ رقیق القلب ہیں اہل امن اور اہل ایمان ہیں۔ بہرحال حدیث کا مجموعہ حاصل یہ ہے کہ ان مناصب یعنی قضایا نقابت، مؤذنی اور امانت کے لئے افراد کا انتخاب کرتے وقت مذکورہ قبائل کے لوگوں کو ترجیح دینی چاہئے کیونکہ ان قبائل کے لوگوں میں ان مناصب کی ذمہ داری و خدمت انجام دینے کی مخصوص صلاحیت اور اس سلسلہ میں ان کو ایک خاص نسبت حاصل ہے۔

【24】

قریش کے بارے میں ایک پیش گوئی

حضرت عبداللہ ابن مطیع تابعی (جوسادات قریش میں سے ہیں) اپنے والد (حضرت مطیع صحابی) جن کا اصل نام عاصی یا عاص تھا اور اور آنحضرت ﷺ نے ان کا نام تبدیل کرکے مطیع رکھ دیا تھا) روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول کریم ﷺ کو فتح مکہ کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (فتح مکہ کے دن) کے بعد سے قیامت کے دن تک کسی قرشی کو حبس وقید کر کے نہیں مارا جائے گا (یہ اور بات ہے کہ دشمن کے مقابلہ پر جنگ وجدل میں مارے جائیں ) ۔ (مسلم ) تشریح حبس وقید کرکے نہیں مارا جائے گا سے کیا مراد ہے، اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں ملا علی قاری نے طیبی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہاں نفی سے نہی مراد ہے مطلب یہ کہ اس ارشاد گرامی سے آنحضرت ﷺ کا مقصد مختلف اعتراض کرکے اس کو بگاڑ دیا ہے اور پھر حمیدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بعض محدیثن نے اس ارشاد گرامی کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے معنی یہ ہے کہ آج فتح مکہ کے دن کے بعد سے قیامت کے دن تک ایسی نوبت کبھی نہیں آئے گی کہ کوئی قریشی شخص اسلام سے مرتد ہوجائے اور پھر اسلامی قانون کے مطابق اس کو حبس وقید میں ڈال دیا جائے اور وہ ارتداد (یعنی کفر) پر ثابت وقائم رہے یہاں تک کہ اس کو قتل کردیا جائے اس تاویل کی بنیاد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ بعد کی ایسی مثالیں تو موجود ہیں جب کسی قریشی شخص کو اس بناء پر قیدوبند میں ڈال کر موت کے گھاٹ اتارا گیا کہ وہ اسلام سے کفر و انکار اور اسلام دشمنی پر قائم تھا لیکن کوئی ایسی مثال نہیں پائی جاتی جب کوئی قریشی مسلمان مرتد ہوگیا ہو اور اس بنا پر اس کو قید وبند میں ڈال کر قتل کردیا گیا ہو کہ وہ اپنے ارتداد سے باز نہیں آیا اور کفر پر قائم وثابت رہا، لہٰذا اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ قریش کے دلوں میں دین و ایمان اس طرح راسخ کردے گا اور ان کو اسلام کے راستہ پر اس مضبوطی سے لگا دے گا کہ کبھی بھی ان میں کا کوئی شخص مرتد نہیں ہوگا، جس کے سبب اس کو قید وبند میں ڈال کر قتل کردینے کی نوبت آئے اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ ان الشیطان قد ایس من جزیرۃ العرب (حقیقت یہ ہے کہ شیطان جزیرۃ العرب سے مایوس ہوگیا ہے) ۔

【25】

حجاج کے سامنے حضرت اسماء کی حق گوئی

حضرت ابونوفل معاویہ ابن مسلم تابعی (رح) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن زبیر (رض) (کی نعش) کو مدینہ (کے راستہ پر واقع مکہ) کی گھاٹی میں (ایک سولی پر لٹکے ہوئے) دیکھا ابونوفل کہتے ہیں کہ قریش کے لوگوں نے اس نعش کے پاس آنا جانا شروع کیا اور دوسرے لوگ بھی آتے جاتے رہے یہاں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) بھی وہاں آئے اور نعش کے سامنے کھڑے ہو کر یوں گویا ہوئے السلام علیک اے ابوخبیب ! السلام علیک اے ابوخبیب السلام علیک ابوخبیب ! اگاہ ہو، اللہ کی قسم میں تم کو منع نہیں کرتا تھا آگاہ ہو اللہ کی قسم، میں تم کو اس کام سے منع کرتا تھا، میں تم کو اس کام سے منع کرتا تھا، (تین مرتبہ یہ الفاظ کہنے کے بعد پھر انہوں نے کہا) آگاہ ہو اللہ کی قسم، بلاشبہ تم وہ شخص تھے جس کو میں جانتا تھا کہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے بہت زیادہ شب بیدار وشب خیز اور اہل قرابت سے بہت زیادہ احسان و سلوک کرنے والے ہو، آگاہ ہو اللہ کی قسم وہ گروہ جس کی نظر میں تم برے ہو یقینا ایک برا اور بدترگروہ ہے اور ایک روایت میں لامۃ سوئ کے بجائے لامۃ خیر کے الفاظ ہیں اس کے بعد حضرت ابن عمر وہاں سے چلے گئے، پھر جب یہ خبر حجاج کے پاس پہنچی کہ عبداللہ ابن زبیر کی نعش کے پاس) کھڑے ہو کر ایسا ویسا کہا ہے تو اس نے (فورا) ایک آدمی بھیجا اور نعش کو اس لکڑی (یعنی سولی) پر سے اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں ڈلوادیا پھر حجاج نے ابن زبیر کی والدہ حضرت اسماء (دختر حضرت ابوبکر صدیق) کے پاس ایک آدمی بھیجا ( اور ان کو طلب کیا) حضرت اسماء نے اس کے ہاں آنے سے انکار کردیا، حجاج نے دوبارہ آدمی بھیجا اور کہلایا کہ یا تو فوراچلی جاؤ ورنہ پھر ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جو تمہاری چوٹی پکڑ کر کھنچتا ہوا یہاں لائے گا، ابونوفل کہتے ہیں کہ حضرت اسماء نے پھر انکار کردیا اور حجاج کو کہلابھیجا کہ اللہ کی قسم میں تیرے پاس ہرگز نہیں آوں گا اب تو تو کسی ایسے آدمی کو بھیج کر دیکھ لے جو میری چوٹیاں پکڑ کر مجھے کھینچتا ہوا لے جائے، روای کہتے ہیں کہ حجاج (نے یہ سنا تو آگ بگولا ہوگیا اور بڑے غضب ناک انداز میں) لاؤ میری جوتیاں میرے سامنے رکھو، پھر اس نے اپنی جوتیاں پیروں میں ڈالیں اور اکڑتا اتراتا ہوا تیز تیز چل کر حضرت اسماء کے ہاں پہنچا اور (زہریلے لہجہ میں) ان سے بولا کہ (ذرا بتانا) تم نے اس دشمن اللہ (یعنی اپنے بیٹے ابن زبیر) کے ساتھ سلوک کرنے میں مجھے کیسا پایا ! حضرت اسمائ بولیں میں نے تو ایسا پایا کہ تو نے اس کی دنیا تباہ کردی اور اس نے تیری عاقبت کا ستیاناس کردیا (یعنی اس ظالمانہ قتل نے تجھے عذاب دوزخ کا مستوجب بنادیا ہے اور ہاں مجھے معلوم ہے کہ تو میرے بیٹے ابن زبیر کو (اس کی زندگی میں یا اس کی شہادت کے بعد) دو کمر بند والی عورت کا بیٹا کہہ کر مخاطب کرتا تھا ؟ (تو سن لے) اللہ کی قسم میں بلاشبہ دو کمربند والی عورت ہوں، ایسے دو کمر بند کہ جن میں ایک کمربند تو وہ تھا جس کے ذریعہ میں آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر کھانا جانوروں سے محفوظ رکھتی تھی اور دوسرا کمر بند عورت کا وہ کمربند تھا جس سے کوئی عورت بےپرواہ نہیں ہوسکتی اور یاد رکھ ہم سے رسول کریم ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی کہ قبیلہ ثقیف میں ایک نہایت درجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک درجہ کا مفسد وہلاکو، تو تیرے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ مفسدوہلاکو، جس کی خبر آنحضرت ﷺ نے دی تھی تو ہی ہے، راوی ابونوفل کا بیان ہے کہ (یہ الفاظ سن کر) حجاج حضرت اسمائ کے پاس سے اٹھ کھڑا ہوا اور ان کو کوئی جواب نہیں دیا (مسلم) تشریح مدینہ کی گھاٹی سے مراد مکہ شہر کا بالائی سرا ہے جو مشرقی سمت واقع ہے، مدینہ کا راستہ چونکہ اسی جگہ سے گزرتا ہے اور مدینہ سے آنے والے یہیں سے مکہ شہر میں داخل ہوتے تھے اس مناسبت سے اس کو مدینہ کی گھاٹی سے تعبیر کیا گیا جب ظالم حجاج ابن یوسف نے اپنے لشکر جرار کے ذریعہ حضرت عبداللہ ابن زبیر کو مسجد حرام میں محصور کرکے نہایت بےدردی سے شہید کیا تو بعد میں اس نے نعش مبارک کو مذکورہ جگہ ایک سولی پر لٹکا دیا تھا اور پھر اسی جگہ کے قریب حجون یعنی جنت المعلاۃ میں ان کی تدفین عمل میں آئی لیکن اب تو ان کی قبر کا کوئی نشان باقی بھی نہیں ہے اور نہ کوئی یہ بتاسکتا ہے کہ ان کی قبر کس جگہ تھی، اسی طرح جنت المعلی میں اور جو صحابہ کرام مدفون ہوئے ان کی قبریں بھی متعین و معلوم نہیں ہیں حضرت خدیجہ الکبری کی قبر بھی اسی جنت المعلاۃ میں ہے مگر ان کی قبر بھی اسی طرح غیر معلوم تھی، ایک زمانہ میں کسی بزرگ نے خواب کی بنیاد پر ان کی قبر کا تعین کیا تھا اور اس قبر پر قبہ بھی بنایا گیا تھا اب وہ بھی بےنشان ہے۔ میں نے تم کو اس کام سے منع کیا تھا میں کام سے مراد یزید ابن معاویہ سے خروج اور اپنی خلافت وامارت کا دعویٰ ہے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر نے کیا تھا اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ کے بعد ان کا بیٹا یزید تخت خلافت وامارت پر بیٹھا تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے ان کی اطاعت وبیعت سے انکار کردیا اور مکہ مکرمہ کے لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کی خلافت کا اعلان کردیا۔ حضرت عبداللہ ابن زبیر نے چونکہ جلیل القدر صحابی اور بلند وبالانسبتوں کے اعتبار سے بہت زیادہ عزت ومنزلت رکھتے تھے اس لئے جلد ہی ان کی خلافت کو قبول کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہوگیا اور مختلف علاقوں اور خطوں پر کنڑول حاصل ہوگیا بلکہ جیسا کہ مؤرخین لکھتے ہیں شام کے علاوہ تقریبا ًتمام ہی عالم اسلام میں وہ خلیفہ تسلیم کرلئے گئے۔ یزید کے بعد پھر مروان ابن حکم اور اس کے بعد عبد الملک ابن مروان کی امارت کو بھی تسلیم نہیں کیا اور بدستور اپنی خلافت کے دعوے اور اقتدار پر قائم رہے لیکن عبد الملک ابن مروان نے ان کے خلاف زبردست فوجی کاروائی کی اور حجاج ابن یوسف ثقفی کو لشکر جرار کے ساتھ مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا، حضرت عبداللہ ابن زبیر نے اپنے قلیل ترین ساتھیوں کے ساتھ حجاج کی زبردست فوج کا جس بہادری وپامردی کے ساتھ مقابلہ کیا وہ شجاعت وبہادری اور عزیمت وجرأت کی تاریخ کانادرالمثال کارنامہ ہے آخر کار جام شہادت نوش کیا، بدبخت حجاج نے ان کا سرتن سے جدا کرکے مدینہ منورہ روانہ کیا اور باقی جسم سولی پر لٹکا دیا، اس سے پہلے یہی لشکر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا تھا، اس وقت یزید زندہ تھا (اس لشکر نے مدینہ منورہ کو جس طرح تباہ و برباد کیا اور وہاں کے لوگوں کا جس طرح قتل عام کیا وہ واقعہ حرہ کے نام سے اپنی لرزہ خیز تفصیل کے ساتھ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ پس حضرت عبداللہ ابن عمر نے سولی پر لٹکی ہوئی حضرت زبیر کی نعش کے سامنے کھڑے ہو کر انہی دلدوز واقعات اور ظالم وفاسد لوگوں کے اس گروہ کی وحشیانہ کاروائیوں پر تاسف وتحسر کا اظہار کرتے ہوئے حضرت ابن زبیر کو مخاطب کیا اور کہا کہ میں نے تمہیں پہلے ہی منع کیا کرتا تھا کہ تم ان ظالموں اور بد کر داروں کے مقابلے نہ آؤ اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرکے یکسو ہوجاؤ مگر تم نہ مانے حق کی حکمرانی قائم کرنے کے تمہارے اس پاک جذبے نے تمہیں خلافت کے دعوے پر مجبور رکھا اور تم نتائج سے بےپرواہ ہو کر ان دنیا دار اور مفسد حکمرانوں کے خلاف ڈٹے رہے آخر کار تمہیں اس لرزہ خیز انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ تم بہت زیادہ روزے رکھنے والے بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر بہت ہی زیادہ روزے رکھا کرتے تھے ایسا بھی ہوتا تھا کہ پندرہ پندرہ دن تک مسلسل روزے سے رہا کرتے تھے جس کو طے روزے کہا جاتا ہے اور پوری پوری رات نوافل، تلاوت اور ذکر اللہ میں گزارا کرتے تھے قرابتداروں سے حسن سلوک کے معاملہ میں امتیازی شہرت رکھتے تھے حضرت عبداللہ ابن عمر نے اس موقع پر حضرت ابن زبیر کے ان اوصاف کا ذکر اس لئے کیا کہ حجاج ان کو عدو اللہ (اللہ کا دشمن) اور ظالم کہا کرتا تھا اور نہ معلوم کیا کیا واہی تباہی بکا کرتا تھا لہٰذا حضرت عبداللہ ابن عمر نے ضروری سمجھا کہ حضرت ابن زبیر کی وہ خوبیاں اور نیکیاں بیان کریں جن سے حجاج کو لغو وبے ہودہ باتوں کی تردید ہو اور عام لوگوں پر واضح ہوجائے کہ ابن زبیر کس پایہ کے عابد وزاہد اور بلند مرتبہ مسلمان تھے۔ اور ایک روایت لامۃ خیر کے الفاظ ہیں، یعنی اصل روایت میں تو یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر نے حجاج ابن یوسف اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں میں واضح الفاظ کے ذریعہ اپنا یہ تاثر بیان کیا کہ جو گروہ عبداللہ ابن زبیر کو برا اور حق سے ہٹا ہوا سمجھتا ہے۔ دراصل خود وہی گروہ اپنی بد اعتقادی اور اپنے خیال فاسد کی بناء پر ایک برا اور بدتر گروہ ہے کہ تم جیسے شخص کو شریر اور فسادی لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔ لیکن ایک روایت میں یہاں ایک برا اور بدتر گروہ ہے کے بجائے یہ ہے کہ وہ کیا ہی اچھا گروہ ہے ان الفاظ میں بھی اسی تاثر کا اظہار مقصود ہے جو اصل روایت سے ظاہر ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اس دوسری روایت کے مطابق حضرت ابن عمر نے گویا طنزوتعریض اور استہزاء کا اسلوب اختیار کیا جیسا کہ عام طور پر کسی برے اور فسادی شخص کی شرارت اور بدطینی پر چوٹ کرنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ واہ میاں تم بھی کیا خوب ہو آپس میں تفرقہ ڈلواتے ہو، تاہم زیادہ موزوں اور قریب الفہم وہی الفاظ ہیں جو اصل روایت میں مذکور ہیں۔ یہودیوں کے قربستان میں ڈلوادیا یعنی مکہ میں رہنے والے یہودی یا باہر سے آئے ہوئے اتفاقا مکہ میں مرجانے والے یہودی جس جگہ دفن کئے جاتے ہیں وہاں حجاج نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کی نعش ڈلوادی تھی۔ لیکن یہ بات اس کے منافی نہیں کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر کی تدفین جنت المعلاۃ میں عمل میں آئی تھی، کیونکہ یہ صورت حال ابتداء پیش آئی تھی کہ ان کی نعش یہودیوں کے قبرستان میں ڈلوادی گئی تھی، لیکن پھر بعد میں ان کی نعش مبارک کو وہاں سے اٹھا کر جنت المعلاۃ میں دفن کیا گیا تھا، واضح رہے کہ اب تو بہت زمانہ سے وہ جگہ متعارف نہیں ہے جہاں یہودیوں کا قبرستان یا ان کی قبریں تھیں لیکن اس زمانہ میں ایسی کوئی جگہ ضرور تھی جو یہودیوں کی قبروں کے لئے مخصوص تھی اور اسی لئے حجاج نے حکم دیا تھا کہ عبداللہ ابن زبیر کی نعش کو سولی سے اتار کریہودیوں کے قبرستان میں ڈال دیا جائے۔ لاؤ میری جوتیاں میرے سامنے رکھو یہ ارونی سبتی کا مطلب ترجمہ ہے۔ سبتی دراصل ی متکلم کے ساتھ سبتیۃ کا تثنیہ ہے اور سبتیۃ اس پاپوش کو کہتے تھے جو دباغت دئیے ہوئے اور بال وغیرہ سے بالکل صاف نرم چمڑے کا بنا ہوتا تھا، اس زمانہ میں امراؤسلاطین اور عیش پسند لوگ اسی طرح کے جوتے پہنا کرتے تھے۔ دو کمر بند والی عورت ذات النطاقین کا ترجمہ ہے اور یہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق کا لقب تھا جو آنحضرت ﷺ نے ایک خاص واقعہ کی بناء پر مرحمت فرمایا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ جب آنحضرت ﷺ ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق کے ہمراہ ان کے مکان سے روانہ ہو رہے تھے تو حضرت اسماء نے ان دونوں کے لئے کچھ توشہ تیار کیا تھا۔ توشہ دان باندھنے کے لئے انہیں کوئی تسمہ وغیرہ نہیں ملا تو انہوں نے اپنا کمر بند پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے کئے، ایک ٹکڑے سے توشہ دان باندھا اور دوسرے ٹکڑے کو اپنی کمر پر لپیٹ لیا۔ دراصل نطاق کا ترجمہ کمربند کے بجائے کمر پٹہ کرنا زیادہ موزوں ہے، اس زمانہ میں جب کہ عرب عورتوں میں پاجامہ وشلوار جیسی چیز کا زیادہ رواج نہیں تھا، وہ اپنے تہ بند کے اوپر کمر پٹہ استعمال کیا کرتی تھیں تاکہ کام کاج کرتے وقت تہ بند کے کھلنے کا امکان نہ رہے، بہرحال اس موقع پر حضرت اسماء نے جس بےساختگی کے ساتھ اپنا کمرپٹہ کھول کر اس کے دو حصے کرکے گویا دو نطاق بنائے اس کی مناسبت سے آنحضرت ﷺ نے ان کو ذوالنطاقین کے لقب سے نوازا۔ اس اعتبار سے یہ لقب خود ان کے لئے توفخر کا موجب تھا کہ اپنی کوئی چیز آنحضرت ﷺ کے استعمال وکام میں آجائے اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہوسکتی ہے لیکن نادان حجاج ان کے اس لقب کو ان کی حقارت پر محمول کرتا تھا کہ ان کو ایک چیز کے ذریعہ ملقب کیا گیا جو عام طور پر گھروں کا کام کاج کرنے والی عورتوں اور باہر نکلنے والی خادماؤں کی علامت ہے۔ ہاں، اللہ کی قسم میں دو کمربند والی عورت ہوں ذوالنطاقین کا لقب حجاج کے خیال فاسد کے برخلاف حضرت اسماء کے لئے چونکہ تفاخر دارین کا موجب تھا اس لئے انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس لقب کو فخر کے ساتھ قبول و تسلیم کیا اور حجاج کے سامنے اس کا برملا اظہار و اعتراف بھی کیا بلکہ اس کے بعد وہ وجہ بیان کی جس نے ان کو اس اعزاز تک پہنچایا۔ چناچہ انہوں نے واضح کیا کہ میں نے اپنے ایک کمر بند کے جو دو کمر بند کرلئے تھے ان میں ایک کے ذریعہ تو آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر کا کھانا دسترخوان میں لپیٹ کر کسی اونچی جگہ لٹکا دیتی تھی، تاکہ جانوروں یعنی چوہے اور چیونٹی وغیرہ سے محفوظ رہے اور دوسرا کمر بند اس کام کے لئے تھا جس سے کوئی عورت بےپرواہ نہیں ہوسکتی ، بےپرواہ نہیں ہوسکتی کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بھی عورت کی تعریف وتحسین اسی صورت میں ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کا کام کاج پوری لگن اور پوری ذمہ داری کے ساتھ کرتی ہو، نطاق یعنی کمر بند یا کمر پٹہ کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ عورت اس اپنے تہبند پر باندھ لے تاکہ اس کو تہ بند کھل جانے کا خوف نہ ہو اور وہ اپنے گھر کا کام کاج پورے اطمینان سے کرسکے پس حضرت اسماء نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جو عورت اپنے گھر سے اور اپنے گھر کے کام کاج سے دلچسپی رکھتی ہو وہ نفاق سے بےنیاز نہیں ہوسکتی، دوسرا مطلب یہ ہے کہ عورتوں میں نطاق کا ایک استعمال اس مقصد کے لئے بھی ہوتا تھا کہ پیٹ بڑھنے نہ پائے۔ جیسا کہ ایک زمانے میں عورتوں میں اس کا رواج تھا کہ وہ اپنے پیٹ کی ہیت درست رکھنے کے لئے چمڑے کا کمر پٹہ استعمال کرتی تھیں بلکہ مالدار عورتیں تو سونے چاندی کے کام کا کمر پٹہ باندھتی تھیں، پس حضرت اسماء نے اس طرف اشارہ کیا کہ دوسرا انطاق میں اس مقصد کے لئے استعمال کرتی تھی اور یہ ایک ایسا مقصد تھا جس سے کوئی عورت بےپرواہ نہیں ہوسکتی تھی۔ اور ان کو کوئی جواب نہیں دیا یہ بہادر خاتون حضرت اسماء کی جرأت وبے با کی اور حق گوئی کا اثر تھا کہ ظالم حجاج جیسا شخص ان کی باتیں سن کر خاموش ہوگیا اور ان کا جواب دینے کی جرات نہ کرسکا، منقول ہے کہ حضرت اسماء اپنے بیٹے عبداللہ ابن زبیر کے سانحہ شہادت کے بیس دن بعد انتقال کر گئیں اس وقت ان کی عمر سو سال تھی اور ان کا ایک بھی دانت نہیں ٹوٹا تھا۔ علامہ نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کی نعش کے سامنے کھڑے ہو کر ان کو جو سلام کیا اس سے معلوم ہوا کہ میت کو سلام کرنا اور ایک سے زائد مرتبہ کرنا مستحب ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کے سامنے ان خوبیوں اور اصاف کو بیان کرنا جن کے ذریعہ وہ مشہور تھا جائز ہے۔ اس حدیث سے حضرت عبداللہ ابن عمر کی بھی زبردست فضیلت وخصوصیت واضح ہوتی ہے کہ وہ حق بات کہنے سے باز نہ رہے باوجودیکہ وہ جانتے تھے کہ یہاں میں جو کچھ کہوں گا اس کا ایک ایک لفظ حجاج تک پہنچے گا۔

【26】

خلافت کا دعویٰ کرنے سے حضرت عبداللہ بن عمر کا انکار

اور حضرت نافع (جو حضرت عبداللہ ابن عمر کے آزاد کردہ غلام ہیں) روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر سے متعلق ہنگامہ آرائی کے زمانہ میں (ان کی شہادت سے پہلے) دو شخص حضرت عبداللہ ابن عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں نے (خلافت وامارت کے بارے میں اختلاف ونزاع اور ہنگامہ آرائی کی صورت میں) جو کچھ کیا ہے وہ آپ نے دیکھ ہی لیا آپ حضرت عمر فاروق کے بیٹے ہیں ( جو خلیفہ تھے) نیز آپ ﷺ کے صحابی بھی ہیں (اس اعتبار عبد الملک ابن مروان کے مقابلہ پر آپ کہیں زیادہ مستحق ہیں کہ خلافت کا دعویٰ کریں جس کی نااہلیت کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ اس کے امراء اور گونروں میں حجاج ابن یوسف جیسا ظالم شخص ہے) پھر آخر کیا چیز مانع ہے کہ آپ (خلافت وامارت کے دعوے اور ظالموں سے بدلہ لینے کے اعلان کے ذریعہ) خروج نہیں کررہے ہیں ! حضرت عبداللہ ابن عمر نے (یہ سن کر) فرمایا ! جو چیز میرے لئے مانع ہے، وہ میرا یہ علم ہے کہ مسلمان بھائی کا خون بہانا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حرام قرار دیا ہے، ان دونوں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ وقاتلوہم حتی لاتکون فتنۃ (یعنی لڑو تم لوگوں سے یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے) ! حضرت عبداللہ ابن عمر نے فرمایا ہم (آنحضرت ﷺ اور خلفاء راشدین کے ساتھ) ان لوگوں سے یقینا لڑے یہاں تک کہ فتنہ یعنی کفر وشرک کا خاتمہ ہوگیا اور صرف اللہ کا دین اسلام رہ گیا اور (اب) تم یہ چاہتے ہو کہ تم جنگ وجدال کرو یہاں تک ان (مسلمانوں) میں فتنہ پھیل جائے اور غیر اللہ کا دین قائم ہوجائے۔ (بخاری) تشریح اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حرام قرار دیا ہے اس جملہ کے ذریعہ حضرت عبداللہ ابن عمر کا مقصد اس بات کو اہمیت اور تاکید کے ساتھ بیان کرنا تھا کہ خون ریزی سے اجتناب اور مسلمانوں کے درمیان باہمی جنگ وجدل سے گریز ہیں اپنے لئے ہر حالت میں ضروری سمجھتا ہوں اور خاص طور پر اس صورت میں جب کہ مسئلہ خلافت وامارت کی طلب و خواہش کا ہو پس اس جملہ میں علی (میرے لئے) کا لفظ اس مقصد کے تحت استعمال ہوا ہے ورنہ اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مسلمان بھائی کا خون بہانا تو ہر شخص کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور غیر اللہ کا دین قائم ہوجائے دراصل ان دونوں شخصوں کا خیال یہ تھا کہ اول تو حضرت عبداللہ ابن عمر اپنی خلافت کا دعویٰ کریں لیکن اگر وہ اس پر تیار نہ ہوں تو پھر ان کو کم سے کم یہ چاہئے کہ ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائیں جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی خلافت تسلیم نہیں کرتے اور ان کے مقابلہ پر ظالموں اور نااہلوں کی امارت کے وفادار ہیں۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن عمر کا خیال یہ تھا کہ عام مسلمانون کو باہمی اختلاف ونزاع اور جنگ وجدل سے بچانے کے لئے ایسا کوئی اقدام مناسب نہیں ہے کیونکہ مسلمان کا مسلمان کے خلاف تلوار اٹھانا اور وہ بھی اقتدار وامارت کے سلسلہ میں آخر کار باہمی افتراق و انتشار کی ایک صورت حال کے پیدا ہونے کا موجب بن سکتا ہے جو اسلام کے نظام دین و شریعت کے منرول اور مسلمانوں کی ملی زندگی کو کمزور بنادے، یہاں تک کہ اسلام دشمن طاقتوں کو اپنا غلبہ و تسلط جما لینے کا موقع مل جائے، اسی احساس کے تحت حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت ابن زبیر کے حق میں یہی بہتر سمجھتے تھے کہ وہ خلافت کے مسئلہ میں قتل و قتال کو ترک کردیں اور یکسوئی اختیار کرکے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔

【27】

قبیلہ دوس کے حق میں دعا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں طفیل ابن دوسی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ (یا رسول اللہ ﷺ مجھے یقین ہے کہ قبیلہ دوس ہلاک ہوگیا (یعنی اس قبیلہ کے لوگوں نے قبول اسلام اور اطاعت دین سے انکار کرکے خود کو ہلاکت و تباہی کا مستوجب بنا لیا ہے) لہٰذا آپ سے قبیلہ کے لئے بددعا کیئجے (کہ اللہ تعالیٰ اس پر عذاب مسلط کرے) لوگوں نے (تو یہ سن کر) خیال کیا کہ آنحضرت ﷺ اس قبیلہ کے لئے بددعا کریں گے لیکن (آنحضرت ﷺ تو رحمتہ اللعلمین ہیں اور لوگوں کو راہ راست دکھا کر فلاح ونجات سے ہمکنار کرنے کے لئے اس دنیا میں مبعوث ہوئے نہ کہ بددعا کرکے تباہ و برباد کرنے کے لئے، اس لئے) آپ ﷺ نے دعا فرمائی الہٰی قبیلہ دوس کو راہ راست دکھا اور اس قبیلہ کے لوگوں کو (مدینہ کی جانب) لا یعنی ان کو قبول اسلام کے بعد ہجرت کی بھی توفیق عطا فرمایا یہ کہ ان کو اہل اسلام کے طور طریقوں کی طرف مائل فرما اور ان کے دلوں کو قبول اسلام کی طرف پھیر دے۔ (بخاری ) تشریح حضرت طفیل ابن عمر دوسی جلیل القدر صحابی ہیں، قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور اہل حجاز میں شمار ہوتے تھے، مکہ میں مشرف باسلام ہوئے اور پھر اپنے قبیلہ میں واپس چلے گئے۔ جب آنحضرت ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو بعد میں انہوں نے بھی اپنا قبیلہ اور وطن چھوڑ کر ہجرت کی اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں موقع پر حاضر ہوا جب آپ ﷺ خیبر میں تھے اور پھر آپ ﷺ کے رحلت فرمانے تک مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کے پاس رہے ان کو ذو النور کا لقب حاصل تھا اور یہ لقب اس بناء پر مشہور ہوا تھا کہ جب آنحضرت ﷺ نے ان کو اسلام کی تبلیغ کے لئے ان کے قبیلہ کی طرف روانہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرمادیجئے جس کو دیکھ کر لوگ میری تصدیق کریں، آپ ﷺ نے دعا فرمائی، الہٰی اس کو نور عطا فرما ! اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان نور جگمگا اٹھا۔ اب انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے خوف ہے کہ لوگ اس نور کو میری بدہیئی پر محمول کرنے لگیں گے اس کے بعد وہ نور اس جگہ سے ان کی کوڑی پر منتقل ہوگیا۔ اندھیری رات میں ان کے سینہ کا یہ حصہ اس طرح جگمگا تا جیسے ان کے سینہ پر مشعل روشن ہو حضرت طفیل اپنے قبیلہ میں پہنچ کر اسلام کی دعوت و تبلیغ کے کام میں منہمک ہوگئے ان کے باپ تو ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے تھے لیکن ان کی ماں کو ایمان کی ہدایت نصیب نہیں ہوئی۔

【28】

عربوں سے محبت کرنے کی وجوہ

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تین اسباب کی بناء پر تمہیں عرب سے محبت رکھنی چاہئے ایک تو اس وجہ سے کہ میں عرب میں سے ہوں (اور ظاہر ہے کہ جو چیز حبیب کی طرف سے منسوب ہوتی ہے اس کو محبوب ہونا چاہئے) دوسرے اس وجہ سے کہ قرآن عربی زبان میں ہے (یعنی قرآن کریم اس زبان میں اترا ہے جو عرب کی زبان ہے اور ان کی زبان ولغت ہی کے ذریعہ اس کی فصاحت و بلاغت جانی جاتی ہے) اور تیسرے اس وجہ سے کہ جنتیوں کی زبان عربی ہے (اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے ) تشریح جنتیوں کی زبان عربی ہے سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ دوزخیوں کی زبان عربی نہیں ہوگی، بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عرب اور اہل عرب کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ فضیلت و برتری حاصل ہے نیز اس حدیث میں محبت کرنے کے صرف وہ تین اسباب بیان کئے گئے ہیں جو اس بارے میں نہایت اعلی ہیں ورنہ ان کے علاوہ اور بھی اسباب و وجوہ ہیں جن کے بناء پر عرب اور اہل عرب سے محبت کرنا یا محبت ہونا لازمی چیز ہے مثلا ً یہ کہ اہل عرب ہی نے شارع (علیہ السلام) سے براہ راست دین و شریعت کا علم حاصل کیا اور پھر اس علم کو ہم تک پہنچا یا انہوں نے آنحضرت ﷺ کے اقوال، افعال، عادات اور معجزات کو منضبط و محفوظ کیا اور اس سرمایہ کو ہم تک منتقل کیا، عرب اور اہل عرب دراصل اسلام کے مددگار اور ہماری ملی زندگی کی جوہری توانائی ہیں انہوں نے اسلام کی خاطر دنیا بھر سے لوہا لیا بڑی بڑی طاقتوں سے جنگیں کیں، جان ومال کی قربانیاں دے کر بڑے بڑے علاقے فتح کئے شہرشہر، قریہ قریہ، اسلام پھیلایا، اطراف عالم میں دین کا جھنڈا بلند کیا اور مسلمانوں کو جو عزت، برتری اور شان و شوکت حاصل ہوئی وہ انہی کی جدو جہد اور کوششوں کا نتیجہ ہے ہماری ملی تاریخ کی تمام تر عظمت وسربلندی انہی کی مرہون منت ہے، اہل عرب حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہیں، ان کی نسلی وانسانی خصوصیات اور خوبیوں کے امین ہیں اور نہ صرف یہ کہ ان کی زبان اہل جنت کی زبان ہوگی، بلکہ قبر میں منکر نکیر کا سوال بھی انہی کی زبان میں ہوگا اور انہی اسباب کی بناء پر کہا گیا ہے۔ من اسلم فہوعربی۔ جو بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوا وہ عربی۔