188. حضرت ابوبکر کے مناقب وفضائل کا بیان

【1】

حضرت ابوبکر کے مناقب وفضائل کا بیان

حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا انسانوں میں سب سے زیادہ جس شخص نے میرا ساتھ دیا اور میری خدمت میں اور میری خوشنودی میں اپنا وقت اور اپنا مال سب سے زیادہ لگایا وہ ابوبکر یا بخاری کی روایت کے مطابق ابا بکر ہیں۔ اگر کسی شخص کو اپنا خلیل یعنی سچا دوست بناتا تو یقینا ابوبکر کو ایسا دوست بناتا تاہم اسلامی اخوت و محبت اپنی جگہ (بلندتر) ہے مسجد نبوی میں ابوبکر کے گھر کی کھڑکی یا روشندان کے علاوہ اور کوئی کھڑکی یا روشندان باقی نہ رکھا جائے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) اگر میں اللہ کے سوا کسی کو اپنا خلیل بناتا تو یقینا ابوبکر ہی کو خلیل بناتا۔ (بخاری ومسلم) تشریح وہ ابوبکر ہیں مطلب یہ کہ جس لگن اور تندہی کے ساتھ ابوبکر صدیق (رض) نے میری خدمت گزاری کی اور جس ایثار و اخلاص کے ساتھ میری ذات پر یا میری رضا و خوشنودی کے لئے دین کی راہ میں اپنا مال بےدریغ خرچ کیا وہ ان کا ایسا امتیازی وصف ہے جو میرے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور میری پوری امت میں ان کو سب سے بلندو برتر مقام عطا کرتا ہے خلیل کو اگر خلۃ سے مشتق مانا جائے تو اس کے معنی سچے اور جانی دوست کے ہوں گے۔ خلۃ کا لفظ دراصل سرایت کر جانے والی دوستی اور محبت کا مفہوم رکھتا ہے یعنی وہ سچی محبت جو محب کے دل کے اندر اس طرح سرایت کر جائے کہ محبوب کو محب کے ظاہر تو ظاہر باطن یعنی جذبات خیالات اور احساسات تک پر حکمران اور اس کا محرم اسرار بنا دینے کا تقاضا کرے۔ پس آنحضرت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر میرے لئے روا ہوتا کہ میں مخلوق میں سے کسی کو اس صفت کے ساتھ اپنا سچا جانی دوست بناؤں کہ اس کی محبت میرے دل کے اندر تک سرایت کر جائے اور میرا محرم اسرار بن جائے تو یقینا میں ابوبکر کو اپنا اسی طرح کا دوست بناتا کیونکہ وہ دوستی کی اس صفت کی استعداد اور اہلیت رکھتے ہیں لیکن اس درجہ وصف کی محبت کا میرا تعلق صرف اللہ کے ساتھ ہے۔ کہ اسی کی محبت میرے ظاہر پر بھی حکمران ہے اور میرے باطن پر بھی اور وہی میرا محرم اسرار ہے ہاں ظاہر دل کی محبت کا میرا جو تعلق تمام مسلمانوں کے ساتھ ہے اس میں ابوبکر (رض) کا مقام یقینا سب سے اونچا ہے۔ یا یہ کہ خلیل دراصل خلۃ سے مشتق ہے جس کے معنی احتیاج کے ہیں اس صورت میں ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہوگا کہ اگر میں کسی کو اپنا ایسا دوست بناتا کہ جس کی طرف میں اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے وقت رجوع کرتا اور اپنے معاملات ومہمات میں اس پر اعتماد و اعتبار کروں تو یقینا ابوبکر صدیق (رض) کو ایسا دوست بناتا لیکن ایسے تمام امور و معاملات میں میرا واحد رجوع اللہ کی طرف ہے اور تمام احوال ومہمات میں میرا واحد سہارا اور ملجا اسی کی ذات ہے۔ ہاں اسلامی اخوت و محبت کا جو میرا ظاہری وقلبی تعلق پوری امت کے ساتھ ہے۔ اس میں ابوبکر کا مقام یقینا سب سے بلند ہے۔ یہ دوسرے معنی اگرچہ سیاق حدیث سے زیادہ قربت و مناسبت رکھتے ہیں لیکن محدثین نے پہلے ہی معنی کو اوجہواولی قرار دیا ہے۔ ابوبکر کے گھر کی کھڑکی یا روشن دان کے علاوہ حدیث میں یہاں خوخۃ کا لفظ ہے جس کے معنی روشن دان کے ہیں۔ یعنی (سوراخ) جو گھر یا کمرہ کی روشنی کے لئے دیوار کھولا جاتا ہے۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ معنی دریچہ یعنی کھڑکی کے ہیں۔ ابتدا میں مسجد نبوی سے ملے ہوئے جو مکان تھے ان کی کھڑکیاں مسجد شریف کی جانب کھلی ہوئی تھیں جن کے ذریعہ مسجد آتے جاتے تھے، یہ ان مکانوں میں مسجد شریف کی جانب ایسے روشن دان کھلے ہوئے تھے۔ جن کے ذریعہ مسجد کا اندرونی حصہ نظر آتا تھا اور ان مکانوں کے مکین اپنے انہی روشن دانوں کے ذریعہ دیکھ لیا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ تشریف لائے ہیں یا نہیں۔ پس آنحضرت ﷺ نے مرض وفات میں جو آخری خطبہ ارشاد فرمایا اس میں یہ حکم دیا کہ مسجد کی جانب گھروں کی کھڑکیاں یا روشن دان بند کر دئیے جائیں صرف ابوبکر صدیق (رض) کے گھر کی کھڑکی یا روشن دان کھلا رہے۔ اس حکم کے ذریعہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت اور ان کی تکریم کا اظہار تو مقصود تھا ہی لیکن اصل میں یہ اس بات سے کنایہ بھی تھا کہ میرے بعد امت کی سر براہی و قیادت اور امامت کبریٰ یعنی خلافت کے لئے ابوبکر صدیق (رض) کو منتخب کیا جائے اور اس مسئلہ میں بحث و گفتگو اور اختلاف و نزاع کا دروازہ کسی طرف سے نہ کھولا جائے منقول ہے کہ آپ ﷺ کا یہ حکم سن کر جب کچھ لوگوں نے کلام کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کہی ہے۔ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے (یہ حکم سن کر) درخواست کی کہ مجھے اپنی دیوار میں ایک روشن دان کھلا رکھنے کی اجازت عطا فرمائی جائے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے مسجد میں آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری کا علم ہوجایا کرے تو آپ نے فرمایا نہیں سوئی کے ناکہ کے برابر سوراخ کھلا نہ رکھاجائے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت علی (رض) کے بارے میں روایتوں کا اختلاف حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) نے صحیح بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ متعدد طرق سے ایسی حدیثیں منقول ہیں جو بظاہر اس حدیث کے مخالف ومعارض نظر آتی ہیں جس میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں یہ حکم ہے کہ مسجد نبوی کی جانب ان کے گھر کی کھڑکی یا روشن دان کے علاوہ اور کوئی کھڑکی یا روشن دان باقی نہ رکھا جائے۔ ان میں ایک حدیث تو وہ ہے جو حضرت سعد ابن وقاص (رض) سے منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گھروں کے ان دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا جو مسجد کے جانب تھے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے گھر کے دروازے کو کھلا رہنے دیا اس حدیث کو احمد اور نسائی نے نقل کیا ہے اور اس کی اسناد کے قوی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ نیز طبرانی نے اوسط میں ثقہ رایوں کے حوالے سے یہ روایت نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جمع ہو کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ ! آپ نے اور صحابہ کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا لیکن علی کرم اللہ وجہہ کے دروزے کو کھلا رہنے دیا ہے ! آپ ﷺ نے فرمایا دروازے نہ میں نے بند کروائے ہیں نہ کھلا رہنے دیا ہے بلکہ اللہ نے بند کرائے ہیں اور کھلا رہنے دیا ہے درحقیقت اللہ کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ علی کے دروازے کے علاوہ سب کے دروازے بند کرادوں، اسی طرح کی روایت احمد اور نسائی نے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر سے نقل کی ہے۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ ان تین سے ہر ا کی حدث قابل حجت اور لائق استناد ہے خصوصا اس صورت میں کہ ان میں سے بعض حدیث کو بعض حدیث سے مزید قوت ملی ہوئی ہے۔ ابن حجر نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو حدیث حضرت علی کی شان میں وارد ہوتی ہے، اس کو ابن جوزی نے موضوع (گڑھی ہوئی) قرار دیا ہے اور اس کے بعض طرق میں اس بناء پر کلام کیا ہے کہ یہ حدیث ان صحیح احادیث کے معارض ہے۔ جو حضرت ابوبکر کی شان میں منقول ہیں اور کہا ہے کہ روافض نے حضرت ابوبکر کی شان میں منقول ہے احادیث کے مقابلہ پر حدیث وضع کی ہے لیکن ابن حجر نے ابن جوزی کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ محض اس مفروضہ کی بنا پر کہ یہ حدیث حضرت ابوبکر سے متعلق حدیث کے معارض ہے۔ اس کو موضوع قرار دینا مناسب نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت علی (رض) سے متعلق حدیث ایسے طرق کثیرہ سے منقول ہے جن میں سے بعض طرق حد صحت کو پہنچے ہوئے ہیں اور بعض مرتبہ حسن کو، دراصل ابن حجر بنیادی طور پر اس بات کو نہیں مانتے کہ ان دونوں حدیثوں کے مابین کوئی تعارض وتضاد ہے۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ حضرت علی (رض) سے متعلق اس حدیث اور حضرت ابوبکر کی شان میں منقول حدیث کے درمیان کسی طرح کا معارضہ نہیں ہے اور وجہ توافق انہوں نے یہ لکھی ہے کہ دوسرے صحابہ کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم اور حضرت علی کے دروازے کے کھلا رہنے اجازت اس ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے جب مسجد نبوی نئی نئی بنی تھی، حضرت علی کا مکان مسجد سے ملحق تھا اور اس مکان کا دروازہ مسجد کی طرف اس طرح تھا کہ حضرت علی مسجد میں سے گزر کر اپنے مکان میں آتے جاتے تھے۔ اور بطرق صحت منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کے سامنے فرمایا تھا، اس مسجد میں کوئی جنبی (ناپاکی کی حالت میں کوئی شخص) نہ آئے البتہ مجھے اور تمہیں اس مسجد میں سے گزر کر اپنے گھر آنے جانے کی اجازت ہے۔ رہی اس حدیث کی بات جس میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے علاوہ اور گھروں کی کھڑکیاں اور روشندان بند کرانے کا حکم منقول ہے، تو یہ ارشاد گرامی اس آخری زمانے کا ہے جب آنحضرت ﷺ مرض وفات میں تھے اور انتقال سے دو تین دن پہلے آپ ﷺ نے یہ حکم صادر فرمایا تھا اس بات کی اصل وہ روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کے علاوہ اور سب دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا تو حضرت حمزہ ابن عبد المطلب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، دراصل اس وقت حضرت حمزہ آشوب چشم میں مبتلا تھے اور ان کی آنکھوں میں پانی بہا کرتا تھا اور اسی بناء پر ان کی طرف سے آنحضرت ﷺ کے مذکورہ حکم کی تعمیل میں کچھ توقف ہوگیا تھا، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے اپنے چچا کو (یعنی مجھے) تو باہر کردیا اور چچا کے بیٹے (یعنی ابن ابوطالب ابن عبد المطلب) کو اندر رکھا ؟ آنحضرت ﷺ نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا چچا جان ! حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں میرا اختیار نہیں ہے، میں نے وہی کیا ہے، جو مجھے حکم دیا گیا ہے۔ پس اس واقعہ میں حضرت حمزہ کے ذکر سے ثابت ہوا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے متعلق مذکورہ حدیث بالکل ابتدائی زمانہ کی ہے کیونکہ حضرت حمزہ (رض) غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے جو ٣ ھ کا واقعہ ہے۔

【2】

حضرت ابوبکر افضل صحابہ ہیں

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا، تاہم ابوبکر میرے بھائی ہیں اور میرے رفیق و ساتھی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے صاحب کو (یعنی مجھ کو) اللہ نے اپنا خلیل بنا لیا ہے ۔ (مسلم) تشریح امام احمد ابن حنبل کی روایت میں یوں ہے کہ (اخی فی الدین وصاحبی فی الغار ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں اور میرے یار غار ہیں اور مسند ابولیلی میں حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں ابو بکر صاحبی ومونسی فی الغار سدوا کل خوخۃ فی المسجد غیرخوخۃ ابی بکر۔ ابوبکر میرے غار کے رفیق اور مونس ہیں، مسجد کی جانب تمام کھڑکیاں یا روشن دان بند کردئیے جائیں علاوہ ابوبکر کی کھڑکی یا روشن دان کے۔ اس روایت کو ابوحاتم نے بھی نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد سدوا الخ دراصل اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ میرے بعد خلافت کا پہلا استحقاق ابوبکر کا ہے ان کے علاوہ باقی تمام لوگوں کی آرزوئے خلافت کا دروازہ بند ہے۔ اللہ نے اپنا خلیل بنالیا ہے پہلی حدیث سے تو یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے اللہ کو اپنا خلیل بنایا ہے اور یہاں اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے آنحضرت ﷺ کو اپنا خلیل بنایا، اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جو شخص محبت میں صادق وخالص ہوتا ہے وہ خود مرتبہ محبوبیت کو پہنچ جاتا ہے یحبہم ویحبونہ۔ ہر کہ اور درعشق صادق آمدہ است برسرش معشوق عاشق آمدہ است دراصل آنحضرت ﷺ حبیب اللہ تھے اور حبیب اس محبت کو کہتے ہیں جو مرتبہ محبوبیت کو پہنچ جائے بعض حضرات خلت کو اعلی اخص قرار دیتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کو مرتبہ محبت اور خلت کا جامع کہتے ہیں۔ نیز امام غزالی (رح) نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خلت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خلت سے زیادہ کامل اور اتم ہے، بہرحال مذکورہ بالا حدیث اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) افضل صحابہ ہیں۔

【3】

حضرت ابوبکر کے حق میں خلافت کی وصیت

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے مرض وفات میں (ایک دن) مجھ سے فرمایا کہ اپنے باپ ابوبکر اور اپنے بھائی (عبد الرحمن) کو میرے پاس بلوا لو کہ میں ایک تحریر لکھوا دوں دراصل مجھ کو اندیشہ ہے کہ (اگر میں نے ابوبکر کی خلافت کے بارے میں نہ لکھوایا تو) کہیں خلافت کی کوئی آرزو نہ کرے اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ (خلافت کا مستحق) میں ہوں حالانکہ (ابوبکر کی موجود گی میں کوئی بھی شخص خلافت کا مستحق نہیں ہوسکتا) ابوبکر کے علاوہ کسی کی خلافت کو نہ اللہ چاہے گا اور نہ اہل ایمان تسلیم کریں گے، (مسلم) اور کتاب حمیدی میں انا ولا کے بجائے انا اولی (خلافت کا سب سے بڑا مستحق میں ہوں) کے الفاظ ہیں۔ تشریح طیبی نے قاضی عیاض کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ روایت اجود ہے اور اس میں آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ رہا روافض کا یہ کہنا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت پر نص وارد ہے اور آنحضرت ﷺ نے ان کے استحقاق خلافت کی وصیت کی تھی تو یہ بالکل بےاصل بات ہے اور ایک لغو و باطل دعویٰ ہے تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں نہ کوئی نص وارد ہے اور نہ آنحضرت ﷺ نے کوئی زبانی یا تحریری وصیت کی تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس دعویٰ کی سب سے پہلی تردید خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے ہوئی تھی۔ جب کسی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو قرآن میں موجود نہیں ہے ؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جواب دیا نہیں میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ وہی ہے جو اس صحیفہ میں موجود ہے، اگر ان کے پاس کوئی نص موجود ہوتی تو وہ یقینا اس کو ظاہر کرتے۔

【4】

حضرت ابوبکر کے حق میں خلافت کی وصیت

اور حضرت جبیر ابن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور کسی معاملہ میں آپ ﷺ سے گفتگو کی (یعنی یا تو اس نے مسئلہ پوچھا یا کسی حاجت کی طلب گار ہوئی) آپ ﷺ نے اس کو حکم دیا کہ وہ کسی اور وقت آپ کے پاس آئے (تاکہ اطمینان سے اس کی بات کا جواب دیں یا اس کی حاجت پوری کریں) اس عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! (میرا مکان مدینہ سے دور ہے شاید دوبارہ آنے کا موقع نہ مل سکے اس لئے بعد میں) اگر میں آئی اور آپ کو نہ پایا تو (پھر) کیسے بات بنے گی۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کہنے سے اس عورت کا مقصد آپ ﷺ کے انتقال کی طرف اشارہ کرنا تھا (یعنی بظاہر یہ معلوم ہوتا کہ خدمت اقدس میں اس عورت کے آنے کا یہ واقعہ اس وقت کا جب آپ ﷺ مرض وفات میں مبتلا تھے اور اس کو خدشہ تھا کہ اگر میں کچھ دنوں بعد آئی تو شاید آپ ﷺ اس دنیا میں موجود نہیں ہوں گے) آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا اگر تم مجھ کو نہ پاؤ تو ابوبکر صدق (رض) کے پاس چلی جانا۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہ حدیث بلاشبہ اس امر کی طرف واضح اشارہ تھا کہ آپ کے بعد خلیفہ اول ابوبکر ہوں کے اگرچہ اس بارے میں اس حدیث کو نص قطعی کا درجہ نہیں دیا جاسکتا لیکن حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت ومنقبت کی بین دلیل ضرور ہے ، واضح رہے جمہور علماء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک نص قطعی کسی کی بھی خلافت کے میں خق میں وارد نہیں ہے اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت کی حقانیت و صحت اس دلیل کے تحت ہے کہ ان کے خلافت پر صحابہ کا اجماع تھا ویسے علامہ ابن ہمام (رح) نے مشائرہ میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت کے حق میں نص کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے اس دعویٰ کو ثابت بھی کیا ہے۔ اسمٰعیلی نے اپنی معجم میں حضرت سہل ابن ابی حثمہ کی روایت نقل کی ہے کہ ایک اعرابی نے آنحضرت ﷺ کو کچھ اونٹ اس وعدے پر بیچے کہ ان کی قیمت بعد میں لے لیگا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس اعرابی سے کہا کہ آنحضرت ﷺ سے جا کر پوچھو کہ اونٹوں کی قیمت لینے کے لئے اگر میں اس وقت آیا کہ آپ اس دنیا میں موجود نہ ہوں تو پھر قیمت کی ادئیگی کون کرے گا ؟ اعرابی نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر تمہیں قیمت ادا کردیں گے۔ وہ اعرابی لوٹ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آیا اور آنحضرت ﷺ کا جواب ان کو بتایا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس سے کہا کہ اب پھر جاؤ اور پوچھو کہ اگر میں ابوبکر (رض) کے پاس بھی اس وقت آیا کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں تو پھر قیمت کی ادائیگی کون کرے گا ؟ اعرابی نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا عمر تمہیں قیمت ادا کریں گے وہ اعرابی لوٹ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آیا اور آنحضرت ﷺ کا جواب ان کو بتایا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس سے کہا کہ اب پھر جاؤ اور آنحضرت ﷺ سے حضرت عمر فاروق (رض) کے بعد کے بارے میں پوچھو چناچہ اعرابی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت عمر فاروق (رض) کے بعد کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ عثمان تمہیں قیمت ادا کریں گے، اعرابی نے آکر یہ جواب بتایا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس سے کہا کہ اب جا کر یہ پوچھو کہ اگر میں عثمان غنی (رض) کے پاس ان کے انتقال کے بعد آیا تو پھر قیمت کی ادائیگی کون کرے گا ؟ اعرابی نے حاضر ہو کر آپ ﷺ سے یہ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا جب ابوبکر مرجائیں گے، عمر بھی مرجائیں گے اور عثمان بھی مرجائیں گے تو پھر تم ہی زندہ رہ کر کیا کروگے۔

【5】

مردوں میں سب سے زیادہ محبت کہہ کر ابوبکر سے تھی

اور حضرت عمرو ابن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان کو ایک لشکر کا امیر (کمانڈر) بنا کر ذات السلاسل بھیجا جو ایک جگہ کا نام ہے) وہ بیان کرتے ہیں کہ (لشکر کی روا انگی سے پہلے یا واپسی کے بعد) جب میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا کہ آپ ﷺ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے آپ ﷺ نے فرمایا عائشہ سے (کہ عورتوں میں وہی محمد ﷺ کو سب سے زیادہ عزیز اور محبوب ہیں) میں نے عرض کیا میرا سوال مردوں کے بارے میں تھا (کہ مردوں میں سب سے زیادہ عزیز اور محبوب آپ ﷺ کے نزدیک کون ہے) آپ ﷺ نے فرمایا عائشہ کے باپ یعنی ابوبکر صدیق (رض) ، میں نے پوچھا ان کے بعد پھر کون (آپ کو زیادہ عزیز و محبوب ہے ؟ ) فرمایا عمر اس کے بعد (میرے پوچھنے کے مطابق) آپ ﷺ نے متعدد لوگوں کا ذکر کیا اور پھر میں خاموش ہوگیا کہ کہیں میرا نام سب سے آخر میں نہ آئے (یعنی جب آپ ﷺ نے میرے پوچھنے پر دوسرے لوگوں کے نام لیتے رہے تو پھر میں نے آگے نہ پوچھنا ہی بہتر جانا کہ میرا نام کہیں آخر میں نہ آئے ) ۔ (بخاری ومسلم ) تشریح میرا سوال مردوں کے بارے میں تھا یعنی حضرت عمرو ین العاص کی مراد یا تو ان سب مردوں سے تھی جو آپ ﷺ کے زمانے میں تھے یا یہ کہ اس لشکر کے لوگ مراد تھے جس کا امیر ان کو بنایا گیا تھا۔ حضرت عمرو بن العاص کے اس سوال کا سبب دراصل یہ تھا کہ جب ان کو مذکورہ لشکر کا امیر بنا کر دشمن کے مقابلہ پر بھیجا گیا تو بعد میں ان کی مدد کے لئے دو سو مجاہدین اسلام کا ایک اور لشکر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی کمانڈری میں روانہ کیا گیا ان دو سو مجاہدین میں انصار و مہاجرین میں سے جو بڑے بڑے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے ان میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) بھی شامل تھے اور لشکر کی امامت نماز حضرت عمر فاروق (رض) فرمایا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مجاہدین اسلام کو فتح عطا فرمائی اور دشمنان دین بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس موقعہ پر حضرت عمرو بن العاص (رض) کے خیال میں یہ بات آئی کہ اس لشکر کے تمام لوگوں میں میرا مرتبہ سب سے بلند ہے جبھی تو مجھ کو ان سب کا امیر بنایا گیا ہے۔ اور ان کو میری کمان میں دشمن کے مقابلہ پر بھیجا گیا۔ چناچہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ فتح یاب ہو کر واپس آئے تو آنحضرت ﷺ سے مذکورہ سوال کیا، آنحضرت ﷺ نے ان کو جواب دیا اس سے ان کو معلوم ہوگیا کہ میرے خیال میں جو بات آئی وہ صحیح نہیں تھی۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا احتمال زیادہ قوی ہے یعنی یہ کہ حضرت عمروبن العاص (رض) کے سوال کی مراد اس لشکر کے لوگوں سے تھی، لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کے پہلی مرتبہ پوچھنے پر جو جواب دیا۔ اس سے پہلے احتمال کی تائید ہوتی ہے کہ ان کی مراد آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے تمام لوگوں سے تھی۔

【6】

افضلیت صدیق کی شہادت حضرت علی کی زبان سے

اور حضرت محمد ابن حنفیہ (جو حضرت فاطمہ زہرا (رض) کے علاوہ دوسری بیوی کے بطن سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزند ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد (حضرت علی کرم اللہ وجہہ) سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کون شخص سب سے بہتر و افضل ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ! میں نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بعد کون شخص سب سے بہتر و افضل ہے ؟ انہوں نے فرمایا حضرت عمر (محمد ابن حنفیہ کہتے ہیں کہ) مجھے یہ خدشہ ہوا کہ (اگر میں نے پوچھ لیا کہ حضرت عمر (رض) کے بعد کون شخص سب سے بہتر و افضل ہے تو کہیں وہ یہ نہ کہہ دیں کہ حضرت عثمان (رض) لہٰذا میں نے (سوال کا عنوان بدل کریوں) کہا کہ پھر (حضرت عمر کے بعد) سب سے بہتر و افضل آپ ہیں ! انہوں نے (یہ سن کر) فرمایا میں تو بس ایک مسلمان مرد ہوں۔ (بخاری ) تشریح میں تو بس ایک مرد ہوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ ارشاد تواضع اور انکسار پر مبنی تھا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جب کہ ان سے یہ سوال کیا گیا تھا یعنی حضرت عثمان غنی (رض) کے سانحہ شہادت کے بعد پوری ملت اسلامیہ میں سب سے بہتر و افضل انہی کی ذات والا صفات تھی۔

【7】

زمانہ نبوی میں تمام صحابہ کے درمیان حضرت ابوبکر کی افضیلت مسلم تھی

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم یعنی صحابہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں (صحابہ میں سے) کسی کو بھی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے برابر نہیں سمجھتے تھے (بلکہ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ان کو فضیلت دیتے تھے) ان کے بعد حضرت عمر (رض) کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے اور ان کے بعد حضرت عثمان (رض) کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے اور پھر حضرت عثمان (رض) کے بعد نبی کریم ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔ کہ ان کے درمیان کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دیتے تھے۔ (بخاری) اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے کہا ہم رسول کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں کہا کرتے تھے نبی کریم ﷺ کی امت میں آپ کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر ہیں پھر عمر اور پھر عثمان۔ تشریح ان کے درمیان کسی کو کسی پر فضیلت نہ دیتے سے مراد یہ ہے کہ جو صحابہ ایک طرح کی حیثیت اور یکساں خصوصیت و مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کے درمیان کسی کو کسی پر فضیلت نہ دیتے تھے۔ ورنہ جہاں تک بعض صحابہ کا بعض صحابہ پر افضل ہونے کا سوال ہے تو یہ بات ثابت ہے کہ اہل بدر اہل احد، اہل بیت الرضوان اور اہل علم صحابہ باقی تمام صحابہ پر فضیلت رکھتے ہیں۔ ویسے اس احتمال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ شائد تفاضل بین الاصحاب مراد ہو یعنی (حضرت عثمان کے بعد) پھر کسی اور صحابی کو کسی دوسرے صحابی پر ہم فضیلت نہیں دیتے تھے۔ واضح رہے کہ اہل بیت نبوی کی حیثیت اخص ہے اور اسی وجہ سے ان کا حکم دوسرے تمام صحابہ سے بالکل جدا گانہ نوعیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی مخصوص نسبت کے اعتبار سے بلاشبہ وہ مخصوص فضیلت رکھتے ہیں جو ان کے علاوہ دوسروں کو حاصل نہیں اور ان کا اپنی مخصوص فضیلت رکھنا اظہر من الشمس ہے، لہٰذا یہاں یہ اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ حضرت عثمان کے بعد حضرت علی کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا ہے یا حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین، آنحضرت ﷺ کے دونوں چچاؤں یعنی حضرت امیر حمزہ اور حضرت عباس کی فضیلت کا بیان کیوں نہیں ہوا۔ ایک شارح نے لکھا ہے، یہاں صحابہ سے حضرت ابن عمر کی مراد وہ بوڑھے اور عمر رسیدہ صحابہ ہیں جو بارگاہ رسالت میں اصحاب الرائے اور اصحاب مشورہ کی حیثیت رکھتے تھے اور جن سے آنحضرت ﷺ پیش آمدہ معاملات و مسائل میں مشورہ فرمایا کرتے تھے جہاں تک حضرت علی کا تعلق ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جوان اور نوعمر تھے اور اس اعتبار سے مذکورہ صحابہ کے زمرہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ اسی بناء پر حضرت ابن عمر نے ان کا ذکر نہیں کیا ورنہ تو حضرت عثمان کے بعد تمام صحابہ پر ان کی فضیلت کا کوئی منکر نہیں ہے اور صحابہ کے درمیان تفاضل بلاشبہ ثابت ہے جیسے اہل بدر، اہل بیت رضوان اور علماء صحابہ کو اور تمام صحابہ پر فضیلت و برتری حاصل ہے۔ امام احمد نے حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں یوں نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ہم نے حضرت ابوبکر کو (آنحضرت ﷺ کے بعد سب سے بہتر و افضل انسان جانتے تھے اور ان کے بعد حضرت عمر کو رہی حضرت علی کی بات تو حقیقت یہ ہے کہ ان کو وہ تین عظیم خصوصیتیں حاصل ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھے حاصل ہو تو میں خود کو دنیا ومافیہا سے بہتر و افضل جانوں آنحضرت ﷺ نے ان سے اپنی عزیز ترین بیٹی یعنی حضرت فاطمہ کا نکاح کیا اور آپ ﷺ کی نسل انہی کے ذریعہ چلی۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے دروازے کے علاوہ اور سب کے دروازے (مسجد نبوی کی طرف) بند کرا دئے تھے، آنحضرت ﷺ نے جنگ خیبر کے دن اپنا نیزہ ان کو عطا کیا اور نسائی کی روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) سے حضرت عثمان اور حضرت علی (رض) کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے مذکورہ بالا حدیث بیان کی اور اس کے بعد کہا علی کی شان میں مت پوچھو اور نہ ان پر کسی کو قیاس کرو) (ان کا مقام تو یہ ہے کہ) ان کے علاوہ اور سب کے دروازے بند کردیئے گئے تھے۔

【8】

حضرت ابوبکر کی افضلیت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایسا کوئی شخص نہیں جس نے ہمیں کچھ دیا ہو ہماری امداد کی ہو اور ہم نے اس کا (جوں کا توں یا اس سے بھی زیادہ) بدلہ اس کو نہ دے دیا ہو علاوہ ابوبکر کے یہ حقیقت ہے کہ ابوبکر نے ہمارے ساتھ عطاء و امداد کا جو عظیم سلوک کیا ہے اس کا بدلہ (یعنی کامل بدلہ) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہی ان کو عطا کرے گا کسی شخص کے مال نے مجھ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ اگر میں کسی کو خلیل یعنی جانی دوست بناتا تو یقینا ابوبکر کو اپنا خلیل بناتا۔ یاد رکھو تمہارے صاحب (یعنی رسول اللہ ﷺ اللہ کے خلیل ہیں (کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی کو حقیقی دوست نہیں رکھتے۔ (ترمذی) تشریح ید سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے فائدہ حاصل کیا جاسکے، اس اعتبار سے یہ لفظ مال و دولت، جان اور آل اولاد سب کو شامل ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ اور رسول کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے حضرت ابوبکر نے اپنا یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں اور اللہ کے رسول کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ فان لہ عندنا یدا یکافہ اللہ الخ کے ذریعہ حضرت ابوبکر کے جس عطاء و امداد کے عظیم سلوک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے ان کا وہ عظیم مالی ایثار مراد ہے جو انہوں نے حضرت بلال کو کافروں سے خرید کر اللہ کے رسول کی خوشنودی کی راہ میں آزاد کردینے کی صورت میں کیا تھا۔ اور جس کی طرف قرآن کریم نے بھی اس آیت میں اشارہ کیا ہے۔ (وَسَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى 17 الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَه يَتَزَكّٰى 18) 92 ۔ الیل 18-17) اور اس (دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ) سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہے اور جو اپنا مال اس غرض سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے کہ (گناہوں سے) پاک ہوجائے۔ جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے اس کی سب سے بڑی دلیل وہ واقعہ ہے کہ جب ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ سے اللہ کی راہ میں مالی امداد و تعاون کے لئے کہا تو ہر شخص نے اپنی اپنی حیثیت واستطاعت کے مطابق جو کچھ مناسب سمجھا لا کردیا اور حضرت ابوبکر گھر کا سارا اثاثہ و سامان سمیٹ کرلے آئے اور آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا، اپنی اور اپنے اہل و عیال کی بڑی سے بڑی ضرورت کا بھی کوئی سامان گھر میں نہیں رہنے دیا۔ یہاں تک کہ جب تمام مال و سامان اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اور بدن کے کپڑوں تک کے لئے کچھ نہ رہا، تو کملی کو بدن پر اس طرح لپیٹ لیا کہ کانٹے لگا کر اس کا خرقہ سابنا لیا۔ اسی مناسبت سے حضرت ابوبکر کا ایک لقب ذوالخلال بھی ہے، خلال کانٹے کو کہتے ہیں۔ ریاض الصالحین میں یہ روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کسی شخص کے مال نے مجھ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے تو (یہ سن کر) حضرت ابوبکر رونے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میری جان اپنی ہے، نہ میرا مال اپنا ہے، میرے پاس جو کچھ بھی ہے سب آپ ہی کی ملکیت ہے۔۔ موافقات میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کسی مسلمان شخص کا مال میرے لئے ابوبکر کے مال سے زیادہ نافع نہیں ہے، نیز حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ پر چالیس ہزار درہم خرچ کئے، عروہ کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نے اسلام قبول کیا تو اس وقت ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے اور وہ سب انہوں نے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں فی سبیل اللہ خرچ کئے۔ عروہ ہی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر نے وہ سات غلام خرید کر اللہ کی راہ میں آزاد کئے جو (قبولیت اسلام) کی وجہ سے اپنے آقاؤں اور مالکوں کی طرف سے سخت ظلم وتشدد کا شکار تھے۔ حضرت بلال اور حضرت عامر ابن فہیرہ ان ہی سات میں سے ہیں۔

【9】

حضرت ابوبکر صحابہ کے سردار ہیں

اور حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا حضرت ابوبکر (حسب و نسب کے اعتبار سے) ہمارے سردار ہیں، (علم وعمل اور کار خیر کے اعتبار سے) ہم سے افضل ہیں اور رسول کریم ﷺ کے سب سے زیادہ چہیتے ہیں۔ (ترمذی )

【10】

یارغار رسول

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر سے (ایک دن) یوں فرمایا تم میرے یار غار یعنی غار کے رفیق و ساتھی ہو اور حوض کوثر پر میرے مصاحب ہوگے۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ تھا کہ تم میرے دنیا کے بھی رفیق و ساتھی ہو اور آخرت کے بھی، واضح رہے کہ غار سے مراد مکہ سے تین میل دور واقع جبل ثور کا وہ غار ہے جہاں سفر ہجرت کے ابتدائی مرحلہ میں آنحضرت ﷺ ابوبکر صدیق کے ساتھ چھپے تھے اور اس آیت کریمہ (ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِه لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا) 9 ۔ التوبہ 40) میں حضرت ابوبکر کی صحابیت ورفاقت کی طرف اشارہ ہے اور علماء و مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ اس آیت میں صاحبہ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق کی ذات ہے، اسی بنیاد علماء کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کے خلاف دوسروں یعنی حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی، وغیرہ کی صحابیت کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا، بہرحال آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ ابوبکر ! تم میرے ایسے دوست رفیق ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دوستی ورفاقت کی گواہی دی ہے اور غالباً اسی بنا پر یار غار کا لفظ سچے اور پکے دوست ورفیق کے معنی میں محاورۃً استعمال ہونے لگا ہے۔

【11】

افضلیت ابوبکر

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس قوم و جماعت میں ابوبکر موجود ہوں اس کے لئے موزوں نہیں ہے کہ اس کی امامت ابوبکر کے علاوہ کوئی شخص کرے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح یہ حدیث امامت کے بارے میں ایک اصولی حکم کی بھی حیثیت رکھتی ہے کہ کسی بھی جماعت کی امامت کا سزاوار وہ شخص ہے جو اس جماعت میں سب سے افضل ہو اور اس کو اس بات کی واضح دلیل بھی قرار دیا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر تمام صحابہ میں سب سے افضل ہیں، جب یہ بات ثابت ہوئی تو یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد خلافت کے اصل مستحق وہی تھے، کیونکہ فاضل کی موجودگی میں کسی مفضول کو خلیفہ بنانا غیرموزوں بات ہے اسی لئے حضرت علی نے حضرت ابوبکر کو مخاطب کرکے فرمایا تھا، جب آنحضرت ﷺ نے آپ کو (نماز کا امام بنا کر) ہمارے دین کا پیشوا بنایا تو پھر ہماری دنیا کے معاملہ (یعنی خلافت) میں کون شخص آپ کو پس پشت ڈال سکتا ہے۔

【12】

ابو بکر یہاں بھی سبقت لے گئے

اور حضرت عمر فاروق (رض) بیان کرتے ہیں (ایک موقع پر) رسول کریم ﷺ نے صدقہ (یعنی اللہ کی راہ میں اپنے اپنے مال کا کچھ حصہ پیش کرنے) کا حکم ہمیں دیا اور آپ کا یہ حکم مال کے اعتبار سے میرے موافق پڑگیا (یعنی حسن اتفاق سے اس وقت میرے پاس بہت مال ودھن تھا) لہٰذا میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر میں کسی دن ابوبکر سے بازی لے جاسکتا ہوں تو وہ آج کا دن ہے کہ ( اپنے مال کی زیادتی وفراوانی سے فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ اللہ کے راستہ میں پیش کروں گا اور) اسے معاملہ میں ان کو پیچھے چھوڑ دوں گا۔ حضرت عمر کہتے ہیں، پس میں نے آدھا مال لا کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا، رسول کریم ﷺ نے ( اتنا زیادہ مال و اسباب دیکھ کر) مجھ سے پوچھا گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا، جتنا لایا ہوں اتنا ہی گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا ہوں، اس کے بعد حضرت ابوبکر آئے اور ان کے پاس جو کچھ تھا سب لا کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا، آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے جواب دیا، ان کے لئے اللہ اور اللہ کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔ (حضرت عمر کہتے ہیں کہ) میں نے دل میں کہا ابوبکر پر میں کبھی بھی سبقت نہیں لے جا سکوں گا۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح اور ان کے پاس جو کچھ تھا ان الفاظ سے اشارۃ یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ حضرت عمر اپنے مال کا جو آدھا حصہ لے کر آئے تھے وہ شائد مالیت و مقدار کے اعتبار سے حضرت ابوبکر کے مال و اسباب سے زیادہ تھا لیکن اس اعتبار سے کہ حضرت عمر اپنا آدھا مال تو گھر والوں کے لئے چھوڑ آئے تھے اور حضرت ابوبکر اپنے گھروالوں کے لئے کچھ بھی چھوڑے بغیر سب کچھ لے کر آگئے تھے فضیلت کا مقام حضرت ابوبکر ہی کو حاصل ہوا حقیقت یہ ہے کہ اصل قیمت جذبہ ایثار کی ہوتی ہے۔ ایک شخص کے پاس دس لاکھ روپے ہوں اور ان میں سے پانچ لاکھ روپے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو یقینا اس کو بڑا مرتبہ ومقام ملے گا لیکن اس سے بڑا مقام و مرتبہ اس شخص کا ہوگا جس کی کل کائنات پانچ سو روپے ہو اور وہ ان پانچ سو روپیوں کو اس بات سے بےنیاز ہو کر اللہ کی راہ میں خرچ کردے کہ بعد میں اس کی اور اہل و عیال کی ضرورت کا کیا ہوگا، اسی حقیقت کے پیش نظر ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے افضل الصدقہ جہد المقل (افضل صدقہ وہ ہے جو کم مال والا ایثار کرکے نکالے ) ۔ اللہ اور اللہ کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہون اس جواب کے ذریعہ حضرت ابوبکر نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا و خوشنودی ہی میرے اور میرے اہل و عیال کے لئے دونوں جہاں کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، اس سرمایہ کا مقابلہ میں دنیاوی مال و اسباب کی بڑی سے بڑی پونجی بےوقعت ہے۔ یا حضرت ابوبکر کے جواب کا یہ مطلب تھا کہ میرے گھر میں جو کچھ مال و اسباب تھا وہ سب میں لے کر آیا ہوں اور اللہ کی راہ میں پیش کردیا ہے جہاں تک گھر والوں کی ضروریات کا سوال ہے تو اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان، اس کی رزاقیت اور اس کے رسول کی امداد واعانت کا یقین ان کے لئے کافی ہے۔ اگر حضرت ابوبکر کا تمام مال حضرت عمر کے آدھے مال سے زیادہ تھا تو اس میں فضیلت ابوبکر بلاشک وشبہ ظاہر ہوجاتی ہے اور اگر ان کا مال حضرت عمر کے مال سے کم بھی رہا تو بھی ان کی فضیلت اس اعتبار سے تسلیم کی جائے گی کہ انہوں نے اپنا سب کچھ لا کر اللہ کی راہ میں پیش کردیا تھا۔ میں ابوبکر پر کبھی بھی سبقت نہ لے جاسکوں گا، حضرت عمر نے سوچا تھا کہ ہر نیک کام میں ابوبکر مجھ پر سبقت لے جاتے ہیں آج ایسا موقع ہے کہ میں ان کو پیچھے چھوڑ دوں گا، مگر جب انہوں نے حضرت ابوبکر کا کامل جذبہ ایثار و اطاعت دیکھا تو بول اٹھے کہ سبقت لے جانے کا اتنا بھرپور ذریعہ موجود ہونے کے باوجود اگر میں آج بھی ان سے پیچھے رہ گیا ہوں تو یقین ہے کہ اب کبھی بھی میں ان پر سبقت نہیں لے جاسکوں گا بعض روایتوں میں آیا ہے کہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے دونوں کو مخاطب کرکے فرمایا ما بینکم کما بین کلمتکما (مرتبہ ومقام کا) تمہارے درمیان وہی فرق ہے جو تم دونوں کے (مذکورہ) الفاظ میں پایا جاتا ہے۔

【13】

عتیق نام کا سبب

اور حضرت عائشہ (رض) سے اور روایت ہے (ایک دن) حضرت ابوبکر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا تم دوزخ کی آگ سے اللہ کے آزادہ کردہ ہو اسی دن سے ان کا ایک نام عتیق پڑگیا۔ (ترمذی ) تشریح عتیق کے معنی بری اور آزادہ کے ہیں۔ حضرت ابوبکر کا نام عتیق بھی مشہور ہے اور اس نام کی وجہ تسمیہ یہ حدیث بیان کر رہی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان کو عتیق اللہ من النار فرمایا تھا۔ بعض حضرات نے اس نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ عتیق چونکہ حسن و جمال، شرافت ونجابت اور صاحب خیر کے معنی میں بھی آتا ہے اور یہ تمام خوبیاں حضرت ابوبکر کی ذات میں موجود تھیں اس لئے ان کو عتیق کہا جاتا ہے لیکن خود حدیث نے چونکہ اس نام کی وجہ تسمیہ کی صراحت کردی ہے کہ عتیق سے مراد دوزخ کی آگ سے آزاد شخص ہے۔ اس لئے کوئی دوسری وجہ تسمیہ بیان کرنا معتبر نہیں ہوگا ایک اور روایت میں بھی آیا ہے قال ﷺ من اراد ان ینظر بنظر الی عتیق من النار فلینظر الی ابی بکر۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دوزخ کی آگ سے بری اور آزاد شخص کے دیدار کی تمنا رکھتا ہو وہ ابوبکر دیکھ لے۔

【14】

اصل نام ونسب

حضرت ابوبکر کا اصل نام عبداللہ ہے اور ابوقحافہ عثمان کے بیٹے ہیں۔ سلسلہ نسب عبداللہ ابن ابوقحافہ عثمان ابن عامر ابن عمرو ابن کعب ابن سعد ابن تمیم ابن مرہ جو ساتویں پشت میں جا کر نبی کریم ﷺ کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے حضرت ابوبکر وہ پہلے مرد ہیں جنہوں نے سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کی تصدیق کی اور ایمان واسلام سے مشرف ہوئے۔ حیات نبوی ﷺ کا ایسا غزوہ اور اہم واقعہ نہیں ہے جس میں ان کی شرکت، رفاقت اور ہمراہی کا شرف حاصل نہ ہوا ہو، یہ واحد شخص ہیں جو نہ تو اپنے زمانہ جاہلیت میں آنحضرت ﷺ سے جدا رہے اور نہ زمانہ اسلام میں کبھی جدا ہوئے۔ جو خود بھی صحابی ہو اس کے ماں باپ بھی صحابی ہوں۔ اس کی اولاد بھی صحابی ہو اور اولاد کی اولاد بھی صحابی ہو، یہ عظیم تر خصوصیت اگر کسی صحابی کو حاصل ہے تو وہ صرف حضرت ابوبکر صدیق ہیں، حضرت ابوبکر نہ صرف سیرت اور باطن کے اعتبار سے تمام صحابہ میں بےمثال تھے بلکہ ان کا سراپا اور ظاہری جمال بھی مثالی تھا۔ سفید رنگت ہلکا جسم، ابھری ہوئی پیشانی، خفیف ر خسارے اور خوبصورت آنکھیں، ان سب نے ملکر ان کی شخصیت کو بڑی دل آویز اور پرکشش بنادیا تھا۔ واقعہ فیل کے دو سال چار ماہ اور کچھ روز بعد مکہ شریف میں پیدا ہوئے اور جمادی الثانی ١٣ ھ کی بائیسویں تاریخ (یا آٹھویں) کو منگل کے دن مغرب و عشاء کے درمیان بعمر ٦٣ سال مدینہ منورہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ حضرت ابوبکر نے وصیت کی تھی کہ میری میت کو میری بیوی اسمابنت عمیس غسل دیں چناچہ حضرت اسماء نے آپ کو غسل دیا اور حضرت عمر فاروق نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ دو سال چار ماہ آپ کی خلافت رہی، صحابہ اور تابعین کی بہت بڑی تعداد کو آپ سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہے۔ لیکن رحلت رسالت مآب ﷺ کے بعد چونکہ تھوڑے دن زندہ رہے۔ اس کی وجہ سے آپ کی روایتوں کی تعداد بہت قلیل ہے۔

【15】

آنحضرت کے بعد سب سے پہلے ابوبکر قبر سے اٹھیں گے

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ان لوگوں کا سب سے پہلا شخص میں ہونگا جو زمین سے برآمد ہوں گے (یعنی قیامت کے دن جب تمام خلقت اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کر میدان حشر میں آئے گی تو سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی اور اپنی قبر سے اٹھنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا) میرے بعد ابوبکر اور ان کے بعد عمر (اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے) پھر میں بقیع قبرستان کے مدفونوں کے پاس آؤں گا اور ان کو ان کی قبروں سے اٹھا کر میرے ساتھ جمع کیا جائے گا اور پھر میں اہل مکہ کا انتظار کروں گا تاآنکہ مجھے حرمین یعنی اہل مکہ اور اہل مدینہ کے درمیان حشر میں پہنچایا جائے گا۔ (ترمذی) تشریح قیامت کے دن سب سے پہلے آنحضرت ﷺ اپنی قبر سے اٹھیں گے، آپ ﷺ کے بعد سب سے پہلے اٹھنے والے حضرت ابوبکر ہوں گے اور پھر حضرت عمر اٹھیں گے آنحضرت ﷺ اپنی قبر سے اٹھ کر بقیع قبرستان پہنچیں گے، وہاں اہل بقیع آپ ﷺ کے سامنے اپنی اپنی قبروں سے باہر آکر آپ ﷺ پاس جمع ہوں گے، اسی جگہ آپ اہل مکہ کا انتظار کریں گے جن کو اپنی اپنی قبروں سے اٹھا کر یہاں لایا اور آپ ﷺ کے پاس جمع کیا جائے گا پھر اہل مکہ مدینہ کے ساتھ آپ میدان حشر کا رخ کریں گے اور وہاں تمام خلقت کے ساتھ جمع ہوں گے۔

【16】

محمد ﷺ کے غلاموں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر جنت سے سرفراز ہوں گے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے فرمایا جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پھر انہوں نے مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھلایا جس سے میری امت کے لوگ جنت میں داخل ہوں گے حضرت ابوبکر نے (یہ ارشاد سن کر) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میرے دل میں یہ حسرت بھری خواہش مچل رہی ہے کہ کاش اس وقت میں آپ ﷺ کے ساتھ ہوتا تو مجھے بھی جنت کا دروازہ دیکھنا نصیب ہوجاتا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابوبکر آگاہ رہو کہ میری امت میں سے جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ ان میں سب سے پہلے شخص تم ہی ہوگے۔ ( ابوداؤد) تشریح مجھے جنت کا دروازہ دکھلایا یا تو یہ شب معراج کا واقعہ ہے، جس کا آپ نے اس موقع پر ذکر فرمایا یا کسی اور وقت کا واقعہ ہے جب آپ ﷺ کو جنت کی سیر کرائی گئی ہوگی ، ان میں سب سے پہلے شخص تم ہی ہوگے یعنی تم جنت میں تو جاؤہی گے اور سب سے پہلے جاؤ گے تو اسی وقت جنت کا دروازہ بھی دیکھ لینا یا ان الفاظ میں سے آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جنت کا دروازہ دیکھنے کی کیا آرزو کرتے ہو، تمہارے لئے تو وہ چیز مقدر ہے جو اس سے کہیں اعلی و افضل ہے، یعنی میرے ساتھ تمہارا جنت میں داخل ہونا، بہرحال یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق امت محمدی میں سب سے افضل شخص ہیں، اگر ان کو فضیلت حاصل نہ ہوتی تو امت کے لوگوں میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے کا شرف ان کے لئے کیوں مقدر ہوتا۔

【17】

حضرت ابوبکر کے دو عمل جو دوسروں کی ساری زندگی پر بھاری ہیں

سیدنا عمر فاروق (رض) سے روایت ہے کہ (ایک دن) ان کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق کا ذکر چھڑ گیا تو وہ (ان کی پاکیزہ وبلند قدر زندگی کو یاد کر کے) رونے لگے اور پھر بولے مجھ کو آرزو ہے کہ کاش میری پوری زندگی کے اعمال (قدروقیمت کے اعتبار سے) حضرت ابوبکر کے صرف اس ایک دن کے عمل کے برابر ہوجاتے جو (آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات کے) دنوں میں سے ایک دن تھا۔ یا اس ایک رات کے عمل کے برابر ہوجاتے جو (آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات کی) راتوں میں سے ایک رات تھی یہ ان کی اس رات کا ذکر ہے جس میں وہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے اور غار ثور ان کی پہلی منزل بنا تھا، جب آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر اس غار میں پر پہنچے ( اور آنحضرت ﷺ نے غار میں داخل ہونا چاہا) تو حضرت ابوبکر نے کہا اللہ کے واسطے آپ ﷺ اس غار میں ابھی داخل نہ ہوں پہلے میں اندر جاتا ہوں تاکہ اگر اس میں کوئی موذی چیز (جیسے سانپ بچھو وغیرہ) ہو اور وہ ضرر پہنچائے تو مجھ کو ضرر پہنچائے نہ کہ آپ ﷺ کو۔ اور یہ (کہہ کر) حضرت ابوبکر (آنحضرت ﷺ سے پہلے غار میں داخل ہوگئے اور اس کو جھاڑ جھٹک کر صاف کیا۔ انہوں نے غار کے ایک کونے میں کئی سوراخ بھی دیکھے تھے ان میں سے بیشتر سوراخوں کو انہوں نے اپنے تہبند سے چیتھڑے پھاڑ کر بند کردیا اور جو دو سوراخ (اس وجہ سے) باقی رہ گئے تھے (ان کو بند کرنے کے لئے تہبند کے چیتھڑوں میں سے کچھ نہیں بچا تھا) ان کے منہ میں وہ اپنے دونوں پاؤں (کی ایڑیاں) اڑا کر بیٹھ گئے (تاکہ کسی زہر یلے اور موذی جانور کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہ رہے) پھر انہوں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ اب اندر تشریف لے آئیے ! چناچہ رسول کریم ﷺ غار میں داخل ہوئے اور اپنا سر مبارک حضرت ابوبکر کی گود میں رکھ کر سوگئے، اسی دوران ایک سوراخ کے اندر سے سانپ نے حضرت ابوبکر کے پاؤں کو کاٹ لیا لیکن (وہ اسی طرح بیٹھے رہے اور) اس ڈر سے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کی کہ کہیں رسول کریم ﷺ جاگ نہ جائیں۔ آخر (شدت تکلیف سے) ان کی آنکھوں سے بےاختیار آنسونکل گئے اور رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر گرے (جس سے آپ ﷺ کی آنکھ کھل گئی) آپ ﷺ نے (ان آنکھوں میں آنسو دیکھے تو) پوچھا ابوبکر ! یہ تمہیں کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے (کسی زہریلے جانور یعنی سانپ نے) کاٹ لیا ہے آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) اپنا مبارک لعاب دہن (ان کے پاؤں میں کاٹی ہوئی جگہ پر) ٹپکا دیا اور (تکلیف واذیت کی) جو کیفیت ان کو محسوس ہورہی وہ فورا جاتی رہی۔ اسی سانپ کا وہ زہر تھا جو حضرت ابوبکر پر دوبارہ اثر انداز ہوا اور اسی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی اور ان کا وہ دن (کہ جس کے بارے میں میری آرزو ہے کہ کاش میرے زندگی بھر کے اعمال ان کے صرف اس دن کے عمل کے برابر قرارپائیں) وہ دن تھا جب رسول کریم ﷺ نے اس دنیا سے رحلت فرمائی تھی۔ اور بعض عرب قبائل مرتد ہوگئے تھے ان (قبائل کے) لوگوں نے کہا تھا کہ ہم زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر کا کہنا تھا کہ اگر یہ لوگ ( زکوٰۃ میں اونٹ کے پاؤں باندھنے کے بقدر) رسی بھی دینے سے انکار کریں گے تو یقینا میں ان سے جہاد کروں گا۔ میں نے (ان کا یہ فیصلہ سن کر) عرض کیا تھا اے خلیفہ رسول اللہ ﷺ ! (یہ بڑا نازک موقع ہے) آپ کو لوگوں سے الفت و خیر سگالی کا برتاؤ اور نرمی کا سلوک کرنا چاہئے۔ حضرت ابوبکر نے ( بڑے تیکھے لہجہ میں) مجھے جواب دیا تھا کیا تم اپنے زمانہ جاہلیت ہی میں غیور وبہادر اور قوی وغصہ ور تھے ؟ اور اب اپنے زمانہ اسلام میں بزدل وپست ہمت ہوگئے ہو ؟ اس حقیقت کو نہ بھولو کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے اور دین کامل ہوچکا ہے۔ ایسی صورت میں دین کمزور وناقص ہوجائے، جسے میں اپنی زندگی میں ہرگز نہیں ہونے دوں گا (رزین ) تشریح اور اسی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی یعنی اس رات میں غار ثور کے سوارخ سے سانپ نے حضرت ابوبکر کے پاؤں کو جو ڈسا تھا اس وقت تو اس کے زہر کا اثر آنحضرت ﷺ کے لعاب مبارک کی برکت سے زائل ہوگیا تھا۔ لیکن پھر اس واقعہ کے عرصہ دراز کے بعد حضرت ابوبکر کی آخر عمر میں اس زہر کے اثرات نے عود کیا اور آخر کار اسی کے سبب سے ان کی موت ہوئی۔ اس طرح حضرت ابوبکر کو وہ مرتبہ ملا جو اللہ کی راہ میں شہید ہونے والے کو ملتا ہے کیونکہ جس زہر کے اثر سے ان کا انتقال ہوا وہ ان کو اس وقت پہنچا تھا۔ جب انہوں نے اللہ اور اللہ کے رسول کی خوشنودی کے لئے سفر ہجرت میں اللہ کے رسول کی معیت اختیار کی اور اللہ کے رسول کو کسی بھی ضرر وگزند سے محفوظ رکھنے کے لئے خود کو ہر ضرر وگزند کے آگے کردیا تھا، اثرات کے عود کرنے ایسا ہی قصہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا، غزوہ خیبر کے موقع پر بھنی ہوئی بکری کے گوشت میں زہر ملا کر آپ ﷺ کو دیا گیا تھا، اس وقت تو اللہ تعالیٰ نے اس زہر کے مضرات سے آپ ﷺ کو محفوظ رکھا لیکن مرض الموت میں پھر اسی زہر کے اثرات ظاہر ہوگئے تھے ہم زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے ان قبائل کا زکوٰۃ ادا کرنے کے بارے میں یہ کہنا، انکار کے طور پر تھا یعنی یا تو وہ سرے سے وجوب زکوٰۃ ہی کے منکر ہوگئے تھے، یا علی الاعلان وہ تارک زکوٰۃ ہوگئے تھے۔ اس کی تفصیل پیچھے کتاب ال زکوٰۃ میں گزر چکی ہے۔ ہمارے بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کو شرعی طور پر حکم دیا جائے کہ زکوٰۃ ادا کرو اور وہ شخص جواب دے کہ نہیں، میں زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، تو وہ شخص کافر ہوجائے گا۔ اگر یہ لوگ رسی بھی دینے سے مجھے انکار کریں گے یہ لومنعونی عقالا کا ترجمہ ہے ! عقال دراصل اس رسی کو کہتے ہیں جس سے اونٹ کے پاؤں باندھے جاتے ہیں اگر کسی شخص کے پاس اونٹ ہوں اور ان اونٹوں میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہو اور پھر وہ نصاب کے مطابق ایک یا ایک سے زائد اونٹ زکوٰۃ میں نکالے۔ تو اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ محصل زکوٰۃ کو عقال سمیت اونٹ سپرد کرے۔ کیونکہ مالک ( زکوٰۃ ادا کرنے والے) کو لازم ہے کہ وہ زکوٰۃ میں نکالی گئی چیز (خواہ روپیسہ ہو یا کوئی جانور وغیرہ) زکوٰۃ لینے والے کے قبضہ اور سپردگی میں دے، ظاہر ہے کہ اونٹ پوری طرح قبضہ وسپردگی میں اسی وقت آسکتا ہے۔ جب وہ عقال کے ساتھ (یعنی رسی وغیرہ سے بندھا ہوا) لیا جائے۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے۔ عقال اصل میں اونٹ یا بکری کی ایک سال کی زکوٰۃ کو کہتے ہیں، ویسے تو لغت میں عقال کے یہ دونوں معنی آئے ہیں لیکن زیادہ مشہور و متعارف معنی اول یعنی رسی ہی ہے۔ صاحب قاموس نے اس لفظ کو دوسرے معنی میں ذکر کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ حضرت ابوبکر کے الفاظ لو منعونی عقالا میں عقل کے یہی معنی مراد ہیں یعنی اونٹ یا بکری کی ایک سال کی زکوٰۃ، ایک روایت میں عقالا بجائے عناقا کا لفظ نقل کیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں بکری کا وہ بچہ جو پورے ایک سال کانہ ہوا ہو۔ بزدل وپست ہمت ہوگئے ہو ان الفاظ کے ذریعہ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی رائے کے خلاف گویا شدید ناگواری کا اظہار کیا ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب مسلمان نہیں ہوئے تھے اور تمہارا زمانہ جاہلیت تھا اس وقت تو تم بڑے بہادر بھی تھے اور غیور بھی، ذرا ذرا سی بات پر تمہیں اتنا غصہ آجاتا تھا کہ تلوار سونت کر کھڑے ہوجاتے تھے مگر اب تمہیں کیا ہوا ہے کہ اسلام کے اتنے بڑے حکم سے انکار کرنے والوں کے تئیں نرمی ومروت کا رویہ اختیار کرنے کا مشورہ مجھے دے رہے ہو اور ان مرتدوں کے خلاف تلوار اٹھانے سے مجھے روکنا چاہتے ہو۔ یہ مشورہ تم جیسے بہادر اور غیور مسلمان کے شایان شان نہیں ہے، یہ تو نری بزدلی اور مداہنت کی بات ہے ان عرب قبائل کے بارے میں حضرت ابوبکر کا یہ سخت رویہ اور ان کا بعزیمت فیصلہ دراصل ان کی بےمثال شجاعت وبہادری اور ان کی زبردست دینی حمیت و غیرت کا غمازہ ہے اگرچہ حضرت عمر کی مذکورہ رائے میں حضرت علی بھی شریک تھے، لیکن اس کے باوجود حضرت ابوبکر کی باکمال بصیرت اور دور اندیشی نے اس رائے کو اہمیت نہیں دی اور پوری جرأت کے ساتھ ان مرتدوں کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ کیا ان کی پختگی و مضبوطی کو دیکھ کر حضرت عمر کو اپنی رائے بدلنا پڑی اور نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اسی موقع پر برملا اعتراف کیا کہ اب اللہ نے میرا سینہ کھول دیا ہے۔ اور مجھے یقین ہوگیا ہے کہ وہی بات صحیح وصواب ہے جو حضرت ابوبکر کے فیصلہ کی صورت میں سامنے آئی ہے بلکہ وہ اس واقعہ کے بعد بھی اکثر حضرت ابوبکر کے اس باعزمیت فیصلہ کی تعریف کیا کرتے تھے اور جیسا کہ اس حدیث میں ہے، یہاں تک کہا کرتے تھے کہ حضرت ابوبکر کی زندگی کا محض یہی ایک فیصلہ اتنا عظیم کارنامہ ہے کہ اگر میری پوری زندگی کے نیک اعمال ان کے اس ایک عمل کے برابر قرار پاجائیں تو میں اپنی بڑی خوش بختی تصور کروں۔ وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور یہ بات حضرت ابوبکر نے اس معنی میں کہی کہ پہلے تو آنحضرت ﷺ اس دنیا میں موجود تھے، دینی ہدایت و راہنمائی براہ راست وحی کی صورت میں حاصل ہوجایا کرتی تھی، مگر اب صورت حال بدل چکی ہے، اجتہاد کے علاوہ کوئی ایسا ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے جو ہمیں کسی ایسے پیش آمدہ کے مسئلہ میں کہ جو قرآن و حدیث میں واضح طور پر مذکور نہ ہو صحیح فیصلہ پر پہنچا سکے، لہٰذا کسی بھی دینی معاملہ و مسئلہ میں رائے دیتے وقت اچھی طرح غور وفکر کرلینا چاہئے اور معاملہ کے تمام پہلوؤں کو ذہن میں رکھ کر بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ اجتہاد کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم کے مطابق دین چونکہ اللہ کے رسول کے ذریعہ اپنی مکمل صورت میں ہم تک پہنچا ہے اس لئے خلیفہ رسول ہونے کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے کہ دین کی اس کی اصل اور مکمل صورت کے ساتھ حفاظت کروں اور کسی بھی ایسے فتنہ کو سر نہ اٹھانے دوں جس سے دین کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔