189. حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان

【1】

حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق (رض) کے مناقب و فضائل بیشمار ہیں ان کی عظیم ترین شخصیت و حیثیت اور ان کے بلند ترین مقام و مرتبہ کی منقبت میں یہی ایک بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پاک ﷺ دعا قبول کرکے ان کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور ان کے ذریعہ اپنے دین کو زبردست حمایت و شوکت عطا فرمائی۔ ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ منجانب اللہ راہ صواب ان پر روشن ہوجاتی تھی، الہام والقاء کے ذریعہ غیبی طور پر ان کی راہنمائی ہوتی تھی ان کے دل میں وہی بات ڈالی جاتی تھی جو حق ہوتی تھی اور ان کی رائے وحی الہٰی اور کتاب اللہ کے موافق پڑتی تھی اسی بناء پر علماء کرام نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے حق میں ان کی رائے خلافت صدیق کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ جیسا کہ حضرت عمار یاسر کی شہادت کو حضرت علی مرتضی کے حق ہونے کی دلیل مانا جاتا ہے۔ ابن مردویہ نے حضرت مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ (کسی مسئلہ و معاملہ میں) حضرت عمر فاروق جو رائے دیتے تھے اسی کے موافق آیات قرآنی نازل ہوتی تھیں، ابن عساکر نے سیدنا علی مرتضی کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں، قرآن حضرت عمر کی رائے میں سے ایک رائے ہے یعنی قرآنی آیات کا ایک بڑا حصہ حضرت عمر کی رائے کے موافق ہے۔ حضرت ابن عمر سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر (کسی مسئلہ میں اختلاف رائے ہو کہ) تمام لوگوں کی رائے کچھ ہو اور عمر کی رائے کچھ اور پھر (اس مسئلہ سے متعلق قرآن کی آیت نازل ہو تو وہ عمر کی رائے کے مطابق ہوگی اس روایت کو سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ موافقات عمر (یعنی عمر کی رائے سے قرآن کریم میں جہاں جہاں اتفاق کیا گیا ہے ایسے مواقع) بیس ہیں۔

【2】

حضرت عمر محدث تھے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے (سابقہ امتوں کے) لوگوں میں محدث ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی شخص محدث ہوا تو وہ بس عمر ہوں گے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح اگر میری امت میں کوئی محدث ہوا تو کا مقصود اس امت میں محدث کے وجود کو مشکوک ومشتبہ کرنا نہیں ہے، امت محمدی تو پچھلے تمام امتوں سے افضل واعلی ہے۔ اگر پچھلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے تو اس امت میں ان کا وجود یقینی بطریق اولیٰ ہوگا۔ پس ان الفاظ کا مقصد تاکید و تخصیص ہے، یعنی اس امت میں صرف عمر ان خصوصیات و اوصاف کے حامل ہیں جن سے ان کا محدث ہونا ظاہر ہوتا ہے، اس جملہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے مخلص ترین دوست کی خصوصی حیثیت کو اجاگر کرنے کے لئے کہے کہ دنیا میں اگر کوئی شخص میرا دوست ہے تو بس وہی ہے جس طرح اس جملہ کی مراد اس شخص کی دوستی کے درجہ کمال کو نہایت خصوصیت کے ساتھ بیان کرنا ہوتی ہے۔ اسی طرح حدیث کے مذکورہ بالا جملہ کی مراد مذکورہ وصف کے ساتھ حضرت عمر کی نہایت خصوصی نسبت کو بیان کرنا ہے۔

【3】

محدث کے معنی

محدث یہاں ملہم (صاحب الہام) کے معنی میں ہے، یعنی وہ (روشن ضمیر) جس کے دل میں غیب سے کوئی بات پڑے۔ اس کو محدث اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ گویا اس سے غیبی طاقت بات کرتی ہے، اس کو وہ بات بتاتی ہے، جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوتی اور پھر وہ شخص اس بات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ مجمع البحار میں لکھا ہے، محدث اس شخص کو کہتے ہیں جس کے دل میں ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) کوئی بات ڈالی جاتی ہے اور پھر وہ شخص ایمانی حد و فراست کے ذریعہ اس بات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اور یہ مرتبہ اسی شخص کو نصیب ہوتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نوازنا چاہے، بعض حضرات نے کہا ہے محدث وہ شخص ہے جس کا ظن، یعنی گمان (کسی بھی مختلف فیہ بات کے) اسی پہلوکو اختیار کرے جو صواب یعنی صحیح ہو اور آخر میں اس کی رائے اس طرح صائب ثابت ہو جیسے کسی جاننے والے نے اس کو بتا رکھا ہو۔ اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے۔ محدث کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جس کے فرشتے اس سے کلام کرتے ہوں، یہ قول غالباً اس بنیاد پر ہے کہ ایک روایت میں محدثوں کے بجائے متکلمون کا لفظ نقل ہوا ہے۔

【4】

حضرت عمر سے شیطان کی خوف زدگی

اور حضرت سعد ابن ابی وقاص بیان کرتے ہیں (ایک دن) حضرت عمر ابن خطاب نے حجرہ نبوی کے دروازے پر کھڑے ہو کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت آپ ﷺ کے پاس قریش کی چند خواتین یعنی ازواج مطہرات بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، ان کی باتوں کا موضوع (اس) خرچہ میں اضافہ کا مطالبہ تھا (جو آنحضرت ﷺ ان کو پہنچاتے تھے) اور وہ باتیں زور زور سے کررہی تھیں جب حضرت عمر اجازت طلب کرکے اندر داخل ہونے لگے تو وہ خواتین (چھپنے کے لئے) آنحضرت ﷺ کے پاس سے اٹھ کر پردہ کے پیچھے چلی گئیں۔ حضرت عمر اندر داخل ہوئے تو (دیکھا کہ) رسول کریم ﷺ مسکرا رہے ہیں، حضرت عمر نے (آپ ﷺ کی مسکراہٹ دیکھ کر) کہا اللہ آپ کے دانتوں کو ہمیشہ خندان رکھے (یعنی دانتوں کا کھلنا مسکراہٹ خوشی کی غماز ہوتی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ شاداں وفرحاں رکھے، لیکن آخر وہ کون سی بات ہے جس نے اس وقت آپ ﷺ کو خندان کردیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اس بات پر ہنسی آگئی کہ (وہ عورتیں (کہاں تو) میرے پاس بیٹھی ہوئی (شور مچا رہی) تھیں اور (کہاں) تمہاری آواز سنتے ہی (مارے ڈر کے) پردے کے پیچھے بھاگ گئیں، حضرت عمر (یہ سنا تو ان خواتین کو مخاطب کرکے) بولے اری اپنی جان کی دشمن عورتو ! (یہ کسی الٹی بات ہے کہ) مجھ سے تو اس قدر خوف کا اظہار ( کہ میری آواز سنتے ہی ڈر کر مارے پردے کے پیچھے جا چھپی ہو) اور رسول کریم ﷺ سے تم ذرا بھی نہیں ڈرتیں (کہ آپ کے پاس بیٹھ کر شور مچا رہی تھیں ؟ ) ان خواتین نے جواب دیا ہاں (تم سے ڈرنا ہی چاہے) کیونکہ تم نہایت سخت گو ہو (جب کہ رسول کریم ﷺ نہایت خوش مزاج اور خوش خلق ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان کا لعلیٰ خلق عظیم اور ولوکنت فظ غلیظ القلب لانفضومن خولک رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابن خطاب ! چھوڑو اور کوئی بات کرو (ان عورتوں نے جو جواب دیا ہے اس کو اہمیت دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (تم وہ شخص ہو کہ) شیطان تمہیں دیکھ لیتا ہے تو اس راستہ سے کترا کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ جس پر تم چلتے ہو، (بخاری ومسلم) اور حمیدی نے (اپنی کتاب جامع بین الصحیحین میں) کہا ہم برقانی نے (جوخوازم کے ایک گاؤں برقان کے رہنے والے تھے اور مشہور محدث ہیں) حضرت عمر کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ کس چیز نے آپ کو ہنسایا ہے ؟۔ تشریح اور باتیں بھی زور زور سے کررہی تھیں یعنی ان کی آواز پر حاوی تھی ! پس اس بارے میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب رسول کریم ﷺ کے سامنے شور مچانے یعنی آپ کی آواز اونچی آواز میں بولنے کی ممانعت قرآن میں نازل نہیں ہوئی تھی اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ ان سب کی آوازیں مل کر پر شور ہوگئی تھیں جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ اگر چند آدمی ایک ساتھ آہستہ آہستہ بھی بولتے ہیں تو سب کی آوازیں مل کر پر شور ہوجاتی ہیں، یہ صورت نہیں تھی کہ ان میں سے ہر ایک کی یا کسی ایک کو تنہا آواز اس حد سے بلند تھی جس کی ممانعت آئی ہے۔ ان دونوں احتمالوں کو ملاعلی قاری نے نقل کیا ہے اور پھر لکھا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ الفاظ حدیث سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی آوازاتنی زیادہ بلند تھی کہ آنحضرت ﷺ کی آواز سے اونچی ہوگئی تھی اور جب یہ بات ثابت ہی ہوتی تو پھر ارشاد ربانی یایہا الذین امنو لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی الایۃ کے تحت کوئی اشکال بھی وارد نہیں ہوتا، الفاظ حدیث سے جو بات مفہوم ہوتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ازواج مطہرات عام طور پر آنحضرت ﷺ کے سامنے جس دھیمے لب و لہجہ میں اور جس دھیمی آواز میں بات کیا کرتی تھیں اس موقع پر ان کی آواز اس عادت ومعمول سے ذرا کچھ بلند ہوگئی تھی جو نہ تو حد ادب سے تجاوز تھی اور نہ آنحضرت ﷺ خوش خلقی اور خوش مزاجی کی ناگواری کا باعث بنی تھی۔ اس راستہ سے کترا کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے مطلب یہ کہ تمہاری ہیبت اتنی ہے کہ شیطان تمہارے تصور سے بھی کانپتا ہے، اس کی اتنی مجال بھی نہیں ہوتی کہ تمہارے سامنے آجائے جس جگہ تم ہوگے وہاں شیطان کا گزر بھی نہیں ہوسکتا۔ چناچہ ایک روایت میں یوں آیا ہے شیطان عمر کے سایہ سے بھی بھاگتا ہے، واضح رہے کہ فج کے معنی کشادہ راستہ کے آتے ہیں اگرچہ احتمال یہ ہے کہ فج سے مطلق راستہ مراد ہے خواہ وہ تنگ ہو یا کشادہ تاہم زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ لفظ یہاں اپنے ظاہری معنی یعنی کشادہ راستہ کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اور اس میں یہ نکتہ پوشیدہ ہے کہ شیطان عمر کو چوڑے اور کشادہ راستہ پر بھی دیکھ کر کترا جاتا ہے اور دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے حالانکہ اگر وہ چاہے تو اس کشادہ راستہ کے کسی ایک کنارے سے گزر سکتا ہے لیکن اس پر تو عمر کا خوف اور ان کی ہیبت ہی اتنی سوار ہے کہ وہ سرے سے اس راستہ کی طرف آنے ہی سے گھبرا تا ہے، جس پر عمر چل رہے ہوں !

【5】

جنت میں عمر کا محل جو حضور ﷺ نے فرمایا

اور حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (معراج کی رات میں) جب میں جنت میں داخل ہوا تو اچانک دیکھا کہ میرے سامنے رمیصا زوجہ ابوطلحہ موجود ہیں۔ پھر میں نے قدموں کی چاپ سنی اور پوچھا کہ یہ کون شخص ہے (جس کے چلنے پھرنے کی آواز آرہی ہے) مجھے (جبرائیل یا کسی اور فرشتہ نے یا دورغہ جنت نے) بتایا کہ یہ بلال ہیں اس کے بعد (ایک جگہ پہنچ کر) میں نے ایک عالیشان محل دیکھا، جس کے ایک گوشہ میں (یاصحن میں) ایک نوجوان عورت (یعنی حور جنت) بیٹھی ہوئی تھی، میں نے پوچھا ! یہ کس کا ہے ؟ (اور ہمہ انواع کی یہ نعمتیں جو اس محل میں اور اس محل کے اردگرد ہیں کس کے لئے ہیں) مجھ کو جنتیوں نے (یا اس محل پر متعین فرشتوں نے) بتایا کہ یہ (محل اپنے تمام سازوسامان اور نعمتوں سمیت) عمر ابن خطاب کا ہے (یہ سن کر) میں نے چاہا کہ محل میں جاؤں اور اس کو اندر سے بھی دیکھوں لیکن پھر ( اے عمر) مجھے غیرت کا خیال آگیا (کہ تمہارے محل کے اندر داخل ہونا تمہاری غیرت وحمیت کے منافی ہوگا اس لئے میں اندر جانے سے اجتناب کیا) حضرت عمر نے (یہ سنا تو) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں نے آپ ﷺ (کے داخل ہونے) سے غیرت کروں گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح رمیصا حضرت ابوطلحہ انصاری کی بیوی اور حضرت انس بن مالک کی والدہ ماجدہ ہیں، پہلے یہ مالک ابن نضر کے نکاح میں تھیں جن سے حضرت انس پیدا ہوئے مالک کے بعد ابوطلحہ نے ان سے عقد کرلیا تھا، ان کے اصل نام کے بارے میں اختلاف ہے ام سلیم بھی کہی جاتی تھیں اور رمیصاء بھی ایک مشہور نام غمیصاء بھی ہے، رمیصاء دراصل رمص سے ہے، جس کے معنی اس سفید چیپڑ (میل کچیل) کے ہیں جو آنکھ کے کونے میں جمع ہوجاتا ہے۔ اور غمیصاء غمص سے ہے اس کے معنی ہیں آنکھ سے چیپڑبہنا۔ کیا میں آپ ﷺ سے غیرت کروں گا یہ اعلیک اغارکا ترجمہ ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس جملہ میں قلب الفاظ ہے یعنی اصل جملہ یوں ہے اغار منکنیز بعض روایات میں یہ ہے کہ حضرت عمر نے (آنحضرت ﷺ ارشاد سن کر) یہ بھی کہا وہل رفعنی اللہ الابک وہل ہک انی اللہ الا بک یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ جو بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے وہ محض آپ کے طفیل سے ہے مجھے اللہ تعالیٰ نے ہدایت وراستی اور سرفرازی تک آپ ﷺ ہی کے ذریعہ پہنچایا ہے۔

【6】

دین کی شان وشوکت سب سے زیادہ حضرت عمر نے دوبالا کی

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (ایک دن) جب کہ میں سو رہا تھا تو (خواب میں) کیا دیکھتاہوں کہ (میری امت کے) کچھ لوگوں کو میرے سامنے پیش کیا جارہا ہے، وہ سب کرتا پہنے ہوئے تھے ہوئے تھے جن میں بعض کے کرتے تو ان کے سینے تک تھے اور بعض کے کرتے ان سے بھی چھوٹے تھے۔ پھر جب عمر بن خطاب میرے سامنے پیش ہوئے تو ان کا کرتا اتنا لمبا تھا کہ زمین سے گھسٹ رہا تھا بعض صحابہ نے (یہ سن کر) پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! (عمر کے اس لمبے کرتے کی) تعبیر آپ ﷺ کیا بیان فرماتے ہیں ؟ فرمایا دین و مذہب ! (بخاری ومسلم ) تشریح اور بعض کے کرتے ان سے بھی چھوٹے تھے یعنی بعض لوگوں کے جسم کے کرتے تو اتنے تھے جو سینے تک پہنچتے تھے۔ اور بعض لوگوں کے کرتے اتنے چھوٹے تھے کہ ان کے سینے تک بھی نہیں پہنچتے تھے بلکہ سینے سے اوپر تھے۔ ومنہا مادون ذلک کا مطلب عام طور پر یہی بیان کیا گیا ہے مگر ملا علی قاری نے اس جملہ کی وضاحت کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہ معنی بھی ہیں اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کے کرتے ان کے کرتوں سے لمبے تھے۔ حضرت عمر کے کرتے کی درازی کی تعبیر میں دین و مذہب کے ذکر سے یہ مراد ہے کہ عمر کی ذات سے دین کو تقویت حاصل ہوگی اور کیونکہ ان کی خلافت کا زمانہ طویل ہوگا لہٰذا ان کے زمانہ میں دین کی شان و شوکت نہایت درجہ دوبالا ہوگی، بیشمار شہر وملک فتح ہوں گے اور ان فتوحات کے نتیجہ میں بیت المال کی آمدنی وسیع تر ہوجائے گی، یا یہ کہ دین کو کرتے کے ساتھ تشبیہ دینا گویا اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ جس طرح انسان کا لباس نہ صرف یہ کہ اس کے وجود کی زیبائش و آرائش اور مختلف پر مضر اثرات سے حفاظت و آرام کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ حقیقت میں اس کے جسم کا لازمی تقاضہ بھی ہوتا ہے اسی طرح دین نہ صرف یہ کہ انسان کی تہذیب وشائستگی اور اس کے روحانی اطمینان و سکون کا ذریعہ اور دونوں جہاں میں اس کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے بلکہ حقیقت میں انسانیت کا لازمی جزء اور انسانی فطرت سلیم کا عین تقاضا بھی ہے۔

【7】

حضرت عمر کی علمی بزرگی

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا میں سو رہا تھا کہ (خواب میں) دودھ سے بھرا ہوا پیالہ لا کر مجھے دیا گیا، میں نے اس دودھ کو پیا، پھر میں نے دیکھا کہ (زیادہ ہونے کے سبب اس دودھ کی) تری اور تازگی میرے ناخنوں سے پھوٹ رہی ہے اور پھر میں نے بچایا ہوا دودھ عمر بن الخطاب کو (پینے کے لئے) دے دیا، بعض صحابہ نے (یہ سن کر) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اس دودھ کی تعبیر میں آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں فرمایا علم !۔ (بخاری ومسلم ) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ علم کی صورت مثالیہ عالم بالا میں دودھ ہے، اسی لئے اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ دودھ پی رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ قرار پاتی ہے۔ کہ اس شخص کو خالص ونافع علم نصیب ہوگا علم اور دودھ کے درمیان وجہ مشابہت یہ ہے کہ جس طرح دودھ انسانی جسم کی پہلی غذا اور بدن کی اصلاح وتقویت کا بنیادی ذریعہ اسی طرح انسانی روح کی پہلی غذا اور اس کی اصلاح وتقویت کا بنیادی ذریعہ ہے۔ بعض عارفین نے یہ لکھا ہے کہ عالم مثال سے تجلی علم کا انعکاس صرف چار چیزوں یعنی پانی، دودھ شراب اور شہد کی صورت میں ہوتا ہے اور یہی وہ چار چیزیں ہیں جن کی نہرین بہہ رہی ہیں۔ قرآن کریم نے ان چارنہروں کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے آیت (مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِيْهَا اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّا ءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُه وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ڬ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى) 47 ۔ محمد 15) جنت جس کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اس کی صفت یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بو نہیں کرے گا اور دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہیں بدلے گا اور شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لئے (سراسر) لذت ہیں اور شہد مصفا کی نہریں۔ پس جس شخص نے (خواب میں) پانی پیا اس کو علم لدنی عطا ہوگا، جس شخص نے دودھ پیا اس کو اسرار شریعت کا علم عطا ہوگا، جس شخص نے شراب پی اس کو علم کمال عطا ہوگا اور جس نے شہد پیا اس کو بطریق وحی علم عطا ہوگا۔ اور عارفین ہی میں سے بعض نے اس ضمن میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ جنت کی یہ چاروں نہریں درحقیقت چاروں خلفاء سے عبارت ہیں اور اس عتبار سے حدیث بالا میں دودھ کی نسبت سے صرف حضرت عمر کا ذکر ہونا نہایت موزوں ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر حضرت عمر کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے میں عرب کے تمام قبائل (کے اہل علم) کو جمع کرکے رکھا جائے اور پھر وزن کیا جائے تو حضرت عمر کے علم کے علم کا پلڑا ان سب کے علم سے وزن میں بھاری رہے گا اور اسی وجہ سے تمام صحابہ کا اعتقاد تھا کہ دس حصوں میں سے نوحصے علم تنہا حضرت عمر پاگئے ہیں۔

【8】

حضرت عمر سے متعلق آنحضرت ﷺ کا ایک اور خواب

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا میں سو رہا تھا کہ (خواب میں) میں دیکھا میں ایک بغیر من کے کنویں پر ہوں جہاں ایک ڈول بھی رکھا ہوا ہے میں نے (ڈول کے ذریعہ) اس کنویں سے پانی کھینچا جس قدر کہ اللہ نے چاہا، میرے بعد ابن ابوقحافہ یعنی ابوبکر نے ڈول سنبھالا اور کنویں سے پانی کھینچنے لگے لیکن وہ ایک یا دو ڈول سے زائد پانی نہیں کھینچ سکے، دراصل پانی کھینچنے میں وہ سست اور کمزور پڑ رہے تھے اور ان کی سستی و کمزوری کو اللہ تعالیٰ معاف کرے پھر وہ ڈول ایک چرس (یعنی بڑے ڈول) میں تبدیل ہوگیا اور عمر ابن خطاب نے اس کو لے لیا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے کسی جوان اور قوی تر شخص کو ایسا نہیں پایا جو عمر کی طرح اس چرس کے ذریعہ پانی کھینچتا ہو، چناچہ (انہوں نے اتنا پانی کھینچا کہ نہ صرف تمام لوگ سیر اب ہوئے اور انہوں نے اپنے اونٹوں کو سیراب کیا بلکہ) لوگوں نے (پانی کی فراوانی کے سبب) اس جگہ کو اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنا لیا۔ ابن عمر کی روایت میں یوں ہے کہ پھر ابوبکر کے ہاتھ سے اس ڈول کو عمر ابن خطاب نے لے لیا۔ جو ان کے ہاتھ میں پہنچ کر چرس بن گیا حقیقت یہ ہے کہ میں نے کسی جوان اور قوی تر شخص کو ایسا نہیں پایا جو پانی کھینچنے کے اس کام میں عمر کی طرح چاق وچوبند اور کار گزار ہو، چناچہ انہوں نے (اتنا پانی کھینچا کہ) لوگوں کو سیراب کرڈالا اور (پانی کی فراوانی کے سبب) لوگوں نے اس جگہ کو اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنا لیا۔ (بخاری ومسلم ) تشریح قلیب اس کنویں کو کہا جاتا ہے جس پر من یعنی منڈیر نہ بنی ہو، اس کے برخلاف جس کنویں پر پتھر اور اینٹ کی من بنی ہوتی ہے اس کے لئے طوی کا لفظ آتا ہے۔ علماء نے یہ نکتہ لکھا ہے کہ خواب میں طوی کے بجائے قلیب کا نظر آنا اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اہل دین کا عزم و حوصلہ حقیقی مطلوب و مراد پر موقوف ہوتا ہے، نہ کہ اوپر بنے ہوئے قوالب پر۔ ایک یا دو ڈول سے زائد یہاں راوی کو شک ہوا کہ آپ نے ذنوبا (ایک ڈول) کا لفظ فرمایا تھا یا ذنوبین (دوڈول) کا، تاہم صحیح یہ ہے کہ یہاں اصل لفظ ذنوبین (ایک دو ڈول) ہے۔ اس لفظ میں حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ خلافت کا اشارہ پوشیدہ ہے جو کچھ اوپر دو سال سے زائد نہیں ہوا۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ذنوبا اور ذنوبین میں حرف او دراصل بل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس صورت میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ یہاں راوی اصل لفظ یاد رکھنے سے چوک گیا جس کی بناء پر اس نے اپنے شک کو ظاہر کرتے ہوئے دونوں لفظ نقل کردئے۔ وہ سست اور کمزور پڑ رہے تھے ان الفاظ میں حضرت ابوبکر کے مرتبہ ومقام کی تنقیص نہیں ہے اور نہ الفاظ کا مقصد حضرت ابوبکر صدیق پر حضرت عمر کی فضیلت و برتری کو ثابت کرنا ہے بلکہ اصل مقصد اس طرف اشارہ کرنا تھا کہ ابوبکر کا زمانہ امارت و خلافت بہت مختصر ہوگا جب کہ عمر کا زمانہ امارت و خلافت بہت طویل ہوگا اور اس زمانہ میں مخلوق اللہ کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا بعض شارحین نے ضعف کا ترجمہ سستی اور کمزوری کے بجائے نرمی ومروت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف کرے اس دعائیہ جملہ کا بھی مقصد حضرت ابوبکر کی طرف گناہ اور تقصیر کی نسبت ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا جملہ ہے جو محاورۃ زبان زد خاص وعام ہے جیسا کہ کسی شخص کا کوئی کام یا قول بیان کرتے ہوئے یوں کہہ دیا جائے ! اس نے یہ کام کیا یا یہ بات کہی اللہ اس کی مغفرت کرے۔ اس جگہ کو اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنالیا عطن اصل میں اس جگہ کو کہا جاتا تھا جہاں پانی جمع ہوتا تھا اور اس کے ارد گرد اونٹ بیٹھا کرتے تھے، واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس خواب میں مختلف چیزوں کی طرف اشارہ تھا یعنی کنواں دین کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جس طرح کنواں اس پانی کا منبع ہے جو دنیاوی زندگی کی حیات وبقاء کا بنیادی وسیلہ اور ہر جاندار کے کے معاش ومعیشت کی اساس ہے، اسی طرح دین بھی ان حقائق کا سرچشمہ ہے جن پر انسانیت کی حیات وبقاء کا انحصار ہے اور جو انسان کی تہذیبی فکری اور روحانی اقدار کی بنیاد ہیں۔ کنویں سے پانی کھینچنا اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ دین کی زمام کا رسول کریم ﷺ سے حضرت ابوبکر کو اور ان سے حضرت عمر کو منتقل ہوگی، حضرت ابوبکر کا کنویں سے ایک یا دو ڈول کھینچنا اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کا زمانہ خلافت بہت قلیل ہوگا، یعنی دین اور اس کے توسط سے ملت کی قیادت وزمام کار ان کے ہاتھوں میں ایک سال یا دو سال رہے گی اور پھر حضرت عمر کو منتقل ہوجائے گی جن کی مدت خلافت حضرت ابوبکر کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہوگی چناچہ حضرت عمر دس سال تین ماہ خلیفہ رہے۔ پانی کھینچنے میں حضرت ابوبکر کا سست و کمزور پڑنا یا تو اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے زمانہ خلافت میں دین کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی جیسا کہ بعض عرب قبائل کے ارتداد کی صورت میں اضطراب واختلاف کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔ یا اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ابوبکر چونکہ فطرتا نرم مزاج، بردبار اور بامروت واقع ہوئے ہیں اس لئے ملکی حکومتی معاملات میں رعب ودبدبہ سے زیادہ کام نہیں لینگے، اس کی تائید آپ ﷺ کے ارشاد ان اللہ یغفرلہ ضعفہ (ان کی سستی و کمزوری کو اللہ تعالیٰ معاف کرے) سے ہوتی ہے تاہم یہ جملہ دعائیہ معترضہ ہے جس کا مقصد یہ واضح کردینا ہے کہ ان کی یہ سستی و کمزوری یا نرمی ومروت ایسی چیز ہے جو اللہ کے نزدیک قابل عفودرگزر ہے۔ اور جس سے ان کے مرتبہ و مقام پر ذرا بھی فرق نہیں پڑتا اور ڈول کا حضرت عمر کے ہاتھ تک پہنچ کر چرس بن جانا، اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ دین کو چار دانگ عالم میں پھیلانے، بڑھانے اور مضبوط کرنے میں ایسی سعی و کوشش کریں گے جس کا اتفاق نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کسی اور کو حاصل ہوگا، امام نووی نے لکھا ہے آنحضرت ﷺ کے ارشاد میں نے اس کنویں سے پانی کھینچا جس قدر اللہ نے چاہا اور میرے بعد میرے بعد ابن ابوقحافہ یعنی ابوبکر نے ڈول سنبھالا اس میں آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر کی خلافت ونیابت اور اس دنیا سے رخصت ہوجانے کی صورت میں آنحضرت ﷺ کے دنیا کے رنج وآلام اور شدائد و تکالیف سے راحت پانے کی طرف اشارہ ہے نیز آنحضرت ﷺ کے ارشاد پھر اس ڈول کو ابوبکر کے ہاتھ سے عمر بن خطاب نے لے لیا اور لوگوں نے اس جگہ کو اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنا لیا میں اس طرف اشارہ ہے کہ مرتدوں کی سرکوبی اور اہل اسلام کو مجتمع رکھنے کی صورت میں دین کو مضبوط رکھنے اور فتوحات اسلام کی جو ابتداء حضرت ابوبکر نے کی وہ حضرت عمر کے زمانہ میں اپنے ثمرات کے ساتھ عروج پر پہنچ گئی اور ایک شارح نے لکھا ہے حضرت عمر اتنا زیادہ پانی کھینچنا اس طرف اشارہ کرتا تھا کہ ان کا زمانہ خلافت، ہر خاص وعام اور ہر چھوٹے بڑے کے لئے دینی و دنیاوی فوائد ومصالح سے بھر پور ہوگا۔

【9】

حضرت عمر کا وصف حق گوئی

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر اور ان کے قلب میں حق و صداقت جاری فرمادیا ہے۔ (ترمذی ) تشریح اور ابوداؤد کی روایت میں جو حضرت ابوذر (رض) مروی ہے یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے اسی لئے وہ حق بات کہتے ہیں (حق کے علاوہ اور کوئی بات ان کے منہ سے نہیں نکلتی۔

【10】

عمر کی باتوں سے لوگوں کو سکینت وطمانیت ملتی تھی

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ (اہل بیت یا جماعت صحابہ) اس بات کو بعید نہیں جانتے تھے کہ حضرت عمر کی زبان پر سکینت و طمانیت جاری ہوتی ہے۔ (اس روایت کو بیہقی نے دالنبوۃ میں نقل کیا ہے ) ۔ تشریح حضرت علی کا مطلب یہ تھا کہ حضرت عمر فاروق اعظم کو یہ خصوصیت حاصل کہ وہ جب بھی کوئی مسئلہ و معاملہ میں اظہار خیال کرتے ہیں تو ایسی بات کہتے ہیں جس سے سننے والوں کو اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔ اور مضطرب سے مضطرب دل کو بھی قرار آجاتا ہے۔ یا سکینہ سے مراد فرشتہ بھی ہوسکتا ہے جو حق اور موزوں بات دل میں ڈالتا ہے اور پھر وہی بات زبان سے ادا ہوتی ہے۔ اس کی تائید حضرت علی کی ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے جس کو طبرانی نے اوسط میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا لوگو ! جب صالحین کا تذکرہ کرو تو عمر کے تذکرہ کو مقدم رکھو۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ ان کا قول الہام ہو اور وہ فرشتہ کی زبانی بیان کررہے ہوں۔ اس سلسلے میں اس روایت کو بھی سامنے رکھنا چاہئے جس میں منقول ہے کہ حضرت ابن مسعود نے فرمایا میں نے جب بھی عمر کو دیکھا تو (ایسا محسوس ہوا کہ) ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان فرشتہ موجود ہے جوان کو صحیح راستہ بتارہا ہے۔

【11】

عمر کے اسلام کی دعائے نبوی ﷺ

اور حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک رات) آپ ﷺ نے دعا فرمائی الہٰی ! ابوجہل ابن ہشام یا عمر ابن الخطاب کے ذریعے اسلام کو سربلند و غالب کردے (یعنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو مسلمان بننے کی توفیق عطا فرما دے تاکہ ان کے سبب دین اسلام کو طاقت نصیب ہو) چناچہ اگلے ہی دن جب صبح ہوئی تو عمر ابن الخطاب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان بن گئے اور پھر آنحضرت ﷺ نے مسجد حرام میں علانیہ نماز پڑھی۔ (احمد، ترمذی) تشریح دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب قریش مکہ نے داعی حق ﷺ اور حق کے نام لیواؤں کے خلاف ظالمانہ محاذ قائم کر رکھا تھا۔ اور اہل اسلام کو تشدد آمیز کار روائیوں کے ذریعے مجبور وہراساں کرتے تھے تو مکہ میں کوئی مسلمان علانیہ نماز نہیں پڑھ سکتا تھا۔ آنحضرت ﷺ دارارقم میں رہا کرتے تھے اور اسی مکان میں پوشیدہ طور پر اللہ کا نام لیا جاتا تھا، اللہ کی بندگی کی جاتی تھی اور اللہ کا رسول اللہ ﷺ کا دین زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی تدبیر میں لگا رہتا تھا۔ آنحضرت ﷺ جانتے تھے کہ زعماء قریش میں دو آدمی یعنی ابوجہل اور عمر اس حیثیت کے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی اسلام قبول کرکے ہمارے ساتھ آجائے تو اسلام جو آج قریش مکہ کے ظلم وستم کی وجہ سے دارارقم میں محدود ہو کر رہ گیا ہے اتنی طاقت پاجائے گا کہ مسلمانوں کو چھپ کر اللہ کا نام لینے اور اللہ کی عبادت کرنے پر مجبور نہیں ہونا پڑے گا، وہ علانیہ نماز پڑھنے لگیں گے اور کھلے طور اسلام کی دعوت پیش کرسکیں گے۔ چناچہ آپ ﷺ نے مذکورہ دعا کی یہ دعا کس طرح قبول ہوئی اور حضرت عمر کس طرح مشرف باسلام ہوئے اس کی تفصیل ایک روایت میں جس کو ابوحاکم عبداللہ نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ابوجہل نے اعلان کیا کہ جو شخص محمد ﷺ کو قتل کردے اس کو انعام میں اس سو اونٹنیاں اور ہزار چاندی میں دوں گا۔ عمر (یہ سن کر) بولے الضمان صحیح یعنی تاوان صحیح ہے ! ابوجہل نے کہا ہان فورًا ادا کروں گا، ذرا بھی تاخیر نہیں ہوگی ! عمر وہاں سے اٹھ کر چل پڑے۔ راستے میں اس ایک شخص مل گیا، اس نے پوچھا عمر ! خیر تو ہے کہاں کے ارادے سے چلے ؟ عمر نے جواب دیا، محمد ﷺ کی طرف جارہا ہوں، ارادہ ہے کہ آج ان کا کام تمام کردوں۔ اس شخص نے کہا کیا (محمد کے خاندان) بنی ہاشم (کے انتقام) کا کوئی خوف نہیں ہے ؟ عمر بولے معلوم ہوتا ہے تم نے بھی اپنا دھرم تیاگ دیا (جبھی تو بن ہاشم کے انتقام سے ڈرا کر مجھے محمد کے قتل سے باز رکھنا چاہتے ہو) اس شخص نے کہا اس سے زیادہ حیرتناک بات تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ تمہارے بہن اور بہنوئی نے اپنا پرانا مذہب چھوڑ دیا ہے اور محمد ﷺ کے ساتھ مل گئے ہیں (یہ سنتے ہیں) عمر اپنی بہن کے گھر کی طرف مڑ گئے، وہاں پہنچے تو اس وقت ان کی بہن گھر کے اندر قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول تھیں اور سورت طہ پڑھ رہی تھیں عمر نے کچھ دیر تو دروازے پر کھڑے ہو کر ان کو پڑھتے ہوئے سنا پھر دروازہ کھٹکھٹا یا جب اندر داخل ہوئے تو بہن کو دیکھتے ہی سوال کیا پڑھنے کی یہ آواز کیسی آرہی تھی ؟ بہن نے ان کو پوری بات اور ان پر واضح کردیا کہ ہم صدق دل سے مسلمان ہوگئے ہیں (اب تم یا کوئی چاہے جتنی سختی کرے، جو دین ہم نے قبول کرلیا ہے اس سے دستبردار نہیں ہوں گے) عمر (کے لئے یہ صورت انتہائی پریشان کن اور اضطراب انگیز تھی، ایک طرف تو فوری اشتعال نے انہیں بیاہی بہن اور عزیزبہنوئی کو مارنے پیٹنے پر مجبور کردیا دوسری طرف خود ان کی زندگی میں آنے والا انقلاب ان کے دل و دماغ پر دستک دے رہا تھا، اس سخت) اضطرابی کیفیت میں رات بھر مبتلا رہے۔ ادھر رات میں ان کے بہن وبہنوئی (معمول کے مطابق) اٹھے اور عبادت الٰہی و تلاوت قرآن کریم میں پھر مشغول ہوگئے انہوں نے طہ ماانزلنا علیک القرآن لتشقی (طہ ہم نے آپ ﷺ پر قرآن مجید اس لئے نہیں اتار کہ آپ ﷺ تکلیف اٹھائیں) سے پڑھنا شروع کیا۔ (اب عمر سے رہا نہیں گیا، ایسا معلوم ہوا جیسے تلاوت قرآن کریم کی اس آواز نے ان کی روح کو آخری طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے) کلام اللہ ابدی صداقت ان کے دل و دماغ پر چھانے لگی، بڑی بےتابی کے ساتھ بولے لاؤ یہ کتاب مجھے دو ذرا میں بھی تو (پڑھ کر) دیکھوں۔ (بہن نے محسوس کرلیا کہ بھیا کا وہ سخت دل جس کو کفر وشرک نے پتھر بنادیا تھا، پگھل رہا ہے، خدائی پکار کی طرف متوجہ ہورہا ہے چناچہ انہوں نے کہا کہ ایسے نہیں، اس مقدس کتاب کو تو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھوسکتے ہیں۔ عمر نے غسل کیا، پاک ہوئے اور کلام اللہ کو ہاتھ میں لے کر بیٹھ گئے جب طہ سے پڑھنا شروع کیا اور جب اس آیت (اَللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ لَهُ الْاَسْمَا ءُ الْحُسْنٰى) 20 ۔ طہ 8) (اللہ ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے اچھے اچھے نام ہیں) پر پہنچے تو بےاختیار بول اٹھے بار خدایا بلاشبہ تو ہی عبادت کا سزاوار ہے، تیرے علاوہ اور کوئی نہیں جس کو معبود بنایا جائے اشہد ان لاالہ الا اللہ واشہد وان محمد الرسول اللہ پھر وہ پوری رات انہوں نے اسی طرح جاگ کر گذاری کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد واشوقاہ واشوقاہ کا نعرہ مارتے۔ جب صبح ہوئی تو خباب ابن ارت (جو اس گھر میں پہلے سے موجود اور عمر کے داخل ہوتے ہی کہیں چھپ گئے تھے، اب جو انہوں نے دیکھا کہ عمر کی دنیا ہی بدل چکی ہے، کفر وشرک کا اندھیرا چھٹ گیا ہے اور اسلام کی روشنی نے ان کے وجود کو جگمگا دیا ہے تو) عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے عمر مبارک ہو اللہ نے تمہیں اپنے دین اسلام سے سرفراز کیا، شاید تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے پوری رات جاگ کر اس دعا میں گذاری تھی کہ الہٰی ! ابوجہل یا عمر بن الخطاب کے ذریعے اسلام کو سربلند و غالب کردے ! میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آنحضرت ﷺ کی دعا ہی تھی جو تمہارے قبول اسلام کا پیش خیمہ بنی ہے۔ اس کے بعد عمر تلوار گلے میں ڈال کر آنحضرت ﷺ کی قیام گاہ ( دارارقم) کی طرف روانہ ہوئے، وہاں پہنچے تو آنحضرت ﷺ نے بنفس نفیس باہر تشریف لا کر ان کا استقبال کیا اور دعوت اسلام پیش کی عمر ! معبود ان باطل کو چھوڑ کر خدائے واحد کی چوکھٹ پر جھک جاؤ سرخروئی اسی میں ہے کہ اسلام قبول کرلو، ورنہ تم پر بھی دنیا وآخرت کی ذلت و رسوائی کا وہی عذاب نازل ہوگا جو ولید ابن مغیرہ پر نازل ہوا۔ عمر ( یہ پرُ جلال آواز رسالت سن کر) تھر تھر کانپنے لگے، لرزتے مونڈھوں اور تھر تھر اتے ہاتھوں سے تلوار گر پڑی بےساختہ زبان سے نکلا اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمد الرسول اللہ ﷺ اور پھر انہوں نے کہا جب ہم لات وعزیٰ کی پرستش کی پوجا پہاڑوں پر اور وادیوں میں (کھلم کھلا) کرتے تھے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ کی عبادت ہم ڈر چھپ کر کریں ! انہیں، اللہ کی قسم آج کے بعد اللہ کی عبادت ہم چھپ کر ہرگز نہیں کریں گے۔ اس کے بعد عمر تمام مسلمانوں کو لے کر کعبہ اقدس میں پہنچے اور وہاں علی الاعلان نماز و عبادت ہوئی (اور اس طرح اللہ نے حضرت عمر کے ذریعے اسلام کو طاقت و شوکت عطا فرمائی )

【12】

سیدنا فاروق اعظم حضرت عمر کا نسب نامہ یہ ہے

عمر بن خطاب بن فضیل بن عبد العزی بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی کعب پر پہنچ کر یہ سلسلہ نسب آنحضرت ﷺ کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے حضرت عمر کی کنیت ابوحفص اور لقب فاروق ہے امام نووی کی تحقیق کے مطابق آپ کی ولادت واقعہ فیل سے تیرہ سال بعد ہوئی اور جیسا کہ ذہبی نے لکھا ہے۔ بعمر ١٧ سال ٦ ھ نبوی میں مشرف بہ اسلام ہوئے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضرت عمر فاروق ٥ ھ نبوی میں اسلام لائے اس وقت تک چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ آپ کو فاروق کا لقب اس واقعہ کے بعد ملا کہ ایک یہودی اور ایک منافق کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوا اور تصفیہ کے لئے یہودی نے آنحضرت ﷺ کو ثالث بنانے کی تجویز رکھی، منافق مشرکین قریش کے اس سردار کعب بن اشرف کو ثالث بنانے پر مصر تھا، کافی حیل وحجت کے بعد دونوں نے آنحضرت ﷺ کو ثالث بنانا مان لیا۔ چناچہ وہ دونوں اپنا قضیہ لے کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آنحضرت ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا کیونکہ اس کا حق پر ہونا ثابت تھا لیکن منافق نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور کہنے لگا کہ اب ہم عمر کو ثالث بنائیں گے، وہ جو فیصلہ دیں گئے ہم دونوں کے لئے واجب التسلیم ہوگا۔ یہودی نے معاملہ کو نمٹانے کی خاطر منافق کی یہ بات بھی مان لی اور اس ساتھ حضرت عمر کے پاس گیا۔ یہودی نے حضرت عمر بتایا کہ ہم دونوں پہلے محمد ﷺ کو ثالث مان کر ان کے پاس گئے تھے اور انہوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا تھا مگر یہ شخص (منافق) محمد ﷺ کے فیصلے پر راضی نہ ہوا اور اب مجھے تمہارے پاس لے کر آیا ہے۔ حضرت عمر نے منافق سے پوچھا اس (یہودی) نے جو بیان کیا ہے وہ صحیح ہے ؟ منافق نے تصدیق کی کہ ہاں اس کا بیان بالکل درست ہے۔ حضرت عمر نے کہا تم دونوں یہیں ٹھہرو، جب تک میں نہ آؤں واپس نہ جانا۔ یہ کہہ کر گھر میں گئے اور تلوار لے کر باہر نکلے اور پھر اس تلوار سے منافق کی گردن اڑا دی اور کہا جو شخص اللہ اور اللہ کے رسول کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے اس کے حق میں میرا فیصلہ یہی ہوتا ہے اسی پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْ ا اِلَى الطَّاغُوْتِ ) 4 ۔ النساء 60) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور اس کتاب پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئی وہ اپنے مقدمے شیطان کے پاس لے جانا چاہتے ہیں (حالانکہ ان کو یہ حکم ہوا ہے کہ اس کو نہ مانیں ) ۔ اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر کہا عمر، حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں اس دن سے حضرت عمر کا لقب فاروق مشہور ہوگیا۔

【13】

حضرت عمر کی فضیلت وبرتری

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ (ایک دن) سیدنا عمر فاروق نے سیدنا ابوبکر صدیق کو ان الفاظ میں مخاطب کیا، اے وہ ذات گرامی جو رسول اللہ ﷺ کے بعد سب انسانوں سے بہتر ہے ؟ سیدنا ابوبکر صدیق نے (یہ سن کر) فرمایا عمر ! اگر تم میرے بارے میں یہ کہتے ہو (کہ آنحضرت ﷺ کے بعد سب سے بہتر انسان ہوں) تو تم (خود اپنے بارے میں بھی) جان لو کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، آفتاب کسی ایسے شخص پر طلوع نہیں ہوا جو عمر سے بہتر ہو اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح حضرت عمر کے حق میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی یا تو ان کے ایام خلافت پر محمول ہے یعنی وہ (عمر) اپنے زمانہ خلافت میں تمام انسانوں سے بہتر تھے اور اس حقیقت کو آنحضرت ﷺ نے پہلے بیان فرمادیا تھا ! یا یہ کہ اس ارشاد گرامی میں ابوبکر کے بعد کے الفاظ محذوف ومقدر ہیں یعنی آنحضرت ﷺ نے گویا یہ فرمایا کہ آفتاب کسی ایسے شخص پر طلوع نہیں ہوا جو ابوبکر کے بعد عمر سے بہتر ہو اور یا یہ کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا مقصد عدالت اور سیاست کے باب میں حضرت عمر کی فضیلت و برتری کو ظاہر کرنا ہے غرض یہ کہ حدیث چونکہ ان احادیث کے بظاہر معارض نظر آتی ہے۔ جن سے حضرت ابوبکر کی فضیلت و برتری ثابت ہوتی ہے اس لئے ان حدیثوں کے درمیان تطبیق کی خاطر مذکورہ بالا توجیہات یا اسی طرح کی کوئی اور توجیہہ بیان کرنی پڑے گی۔

【14】

حضرت عمر کی انتہائی منقبت

اور حضرت عقبہ ابن عامر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح اس طرح کی بات امر محال میں بھی مبالغہ کہی جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اگر بالفرض والتقدیر میرے بعد کوئی نبی آتا تو وہ عمر ہوتے، لیکن حقیقت چونکہ یہ ہے کہ نبوت کا دروازہ مجھ پر بند ہوچکا ہے اور میرے بعد کسی اور نبی کے آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے عمر مرتبہ نبوت پر تو فائز نہیں ہوسکتے اور نہ صاحب وحی بن سکتے ہیں لیکن ان میں بعض خصوصیات ایسی ضرور ہیں جو انبیاء کے علاوہ اور تمام انسانوں کے درمیان ان کی ممتاز ومنفرد حیثیت کو نمایاں کرتی ہیں اور عالم وحی سے ان کی ایک طرح کی مناسبت کو ظاہر کرتی ہیں مثلا یہ کہ اللہ کی طرف سے ان کو الہام ہوتا ہے اللہ کے فرشتہ ان کے دل وماغ میں حق القاء کرتا ہے اور غیبی طور سے راہ حق ان پر روشن ہوجاتی ہے۔

【15】

حضرت عمر کا وہ رعب ودبدبہ جس سے شیطان بھی خوف زدہ رہتا تھا

اور حضرت بریدہ اسلمیٰ کا بیان ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ جہاد میں تشریف لے گئے تھے، جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام چھوکری (جو یا تو سیاہ رنگت ہی رکھتی تھی یا حبشی النسل تھی) خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو (اس سفر جہاد سے) فتح و سلامتی کے ساتھ واپس لائے گا تو میں آپ ﷺ کے سامنے دف بجاؤں گی اور (فتح و سلامتی کی شادمانی کے گیت) گاؤں گی۔ آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا ! اگر تم نے واقعی منت مان رکھی ہے تو دف بجالو ورنہ ایسا مت کرو اس چھوکری نے (چونکہ واقعی منت مان رکھی تھی اس لئے) دف بجانا شروع کردیا۔ اتنے میں ابوبکر (مسجد نبوی میں) داخل ہوئے لیکن وہ چھوکری دف بجانے میں مشغول رہی۔ پھر علی آئے اور وہ اس وقت بھی دف بجاتی رہی۔ پھر عثمان آئے تب بھی اس نے اپنا دف بجانا جاری رکھا اور پھر جب عمر آئے تو اس نے (ان کی ہیبت کے مارے جلدی سے) دف کو اپنے کو لہوں کے نیچے سرکا دیا اور کو لہوں کے بل (اس طرح) بیٹھ گئی (کہ دف نیچے چھپ کر رہ جائے اور عمر کی نظر اس پر نہ پڑے) اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا عمر ! تم سے شیطان بھی خوف زدہ رہتا ہے۔ یہ چھوکری میری موجودگی میں دف بجا رہی تھی، پھر ابوبکر آئے تو اس وقت بھی دف بجاتی رہی، پھر علی آئے تو اس وقت بھی دف بجاتی رہی۔ پھر عثمان آئے تو اس وقت بھی دف بجاتی رہی، مگر اے عمر جب تم آئے تو اس چھوکری نے دف کو اٹھا کر چھپا دیا اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح دف کا لفظ زیادہ صحیح تو دال کے پیش کے ساتھ (دف) ہے لیکن بعض روایتوں میں دال کے زبر کے ساتھ (دف) بھی منقول ہوا ہے اور دف سے مراد وہ گول باجا ہے جو چھلنی کی وضع کا اور ایک طرف سے منڈھا ہوا ہو اور اس میں جھانج نہ ہو۔ اگر تم نے واقعی منت مان رکھی ہے یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نذر (منت) کا پورا کرنا کہ جس میں اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہو واجب ہے۔ آنحضرت ﷺ کی مراجعت پر اور خصوصا اس سفر جہاد سے باعافیت مراجعت پر کہ جس میں جانیں چلی جاتی ہیں، مسرت و شادمانی کا اظہار کرنا یقینا ایسی چیز تھی جس سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ ورنہ ایسا مت کرنا اس سے ثابت ہوا کہ ویسے تو دف بجانا جائز نہیں ہے لیکن اس طرح کے مواقع پر جائز ہے جن میں شارع (علیہ السلام) کی اجازت منقول ہوئی ہے جیسے مذکورہ نوعیت کی نذر پوری کرنا یا نکاح کا اعلان کرنا۔ پس بعض علاقوں (جیسے یمن) کے بعض مشائخ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حالت ذکر میں دف بجاتے تھے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جانا چاہئے۔ ان کا وہ فعل حدیث کے بالکل معارض تھا واضح رہے کہ ملا علی قاری نے اس حدیث کے جملہ اور گاؤں گی کے تحت جو کچھ لکھا ہے کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کا ایسا گانا (یا ترانہ) سننا کہ (جو نہ ساز کے ساتھ ہو نہ فحش اور غیر اخلاقی مضامین پر مشتمل ہو اور) اس سے کسی چھوٹی یا بڑی برائی میں مبتلا ہونے کا خدشہ بھی نہ ہو جائز ہے اور اسی طرح بعض حضرات نے عرسوں اور عید وغیرہ (جیسی تقریبات اور خوشی ومسرت کے مواقع پر) اس کو جائز و مختار کہا ہے، لیکن یہ بات فقہ حنفی کی روایتوں کے خلاف ہے کیونکہ بحسب ظاہر روایت فقہاء مطلق راگ (گانا) حرام ہے جیسے کہ درمختار اور بحرالرائق وغیرہ میں لکھا ہے بلکہ ہدایہ میں تو اس کو گناہ کبیرہ لکھا ہے اگرچہ وہ راگ محض اپنا دل خوش کرنے کے لئے ہو۔ ان فقہاء کے نزدیک جواز کی حدیثیں منسوخ ہیں۔ تم سے تو شیطان بھی خوفزدہ رہتا ہے میں شیطان سے یا مراد سیاہ فام چھوکری تھی، جس نے ایک شیطانی کام کرکے شیطان الانس (انسانی شیطان) کا مصداق بن گئی تھی۔ یا وہ شیطان مراد ہے جو اس چھوکری پر مسلط تھا جس نے اس کو ایک غیر مناسب اور مکروہ فعل پر ابھارا تھا اور وہ مکروہ فعل دف بجانے اور گانے میں وہ حد سے زائد انہماک تھا جس نے اس کو تفریح طبع کے لئے لہو کی حد تک پہنچا دیا تھا۔ ایک اشکال اور اس کا جواب یہ تو حدیث کی اجزائی وضاحت تھی اس سے قطع نظر اگر حدیث کے مجموعی سیاق وسباق میں دیکھا جائے تو ذہن میں ایک اشکال ابھر تا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس چھوکری نے آپ ﷺ کے سامنے دف بجانے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اجازت دے دی پھر اس نے دف بجانا شروع کیا تو آپ ﷺ خاموش رہے۔ نہ پسندیدگی کا اظہار کیا اور نہ ناگواری کا (گویا وہ صورت رہی جس کو اصطلاح حدیث میں تقریر کہا جاتا ہے) اور یہی صورت اس وقت بھی رہی جب حضرت ابوبکر آئے پھر حضرت علی آئے اور پھر عثمان آئے لیکن جب حضرت عمر آئے اور اس چھوکری نے دف بجانا بند کردیا تو آخر میں آپ ﷺ نے اس کو شیطان سے تعبیر کیا، آخر ایسا کیوں ؟ اسی خلجان کی راہ روکنے کے لئے علماء نے لکھا ہے بات یہاں سے چلی کہ آنحضرت ﷺ سفر جہاد کو نکلے تو اس چھوکری نے انتہائی عقیدت و محبت کے تحت آپ ﷺ کی فتح و سلامتی کی دعا مانگی، جب آپ ﷺ فتح و سلامتی کے ساتھ واپس لائے تو اس چھوکری نے اس باعافیت مراجعت کو اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت سمجھا جو اس کے نزدیک یقینا شکرگزاری کا موجب بھی تھی اور اظہار خوشی ومسرت کی متقاضی بھی۔ اسی بناء پر آنحضرت ﷺ نے اس کو نذر پوری کرنے کی اجازت دے دی۔ پس اس کے ایک اچھی نیت اور اچھے جذبے پر مبنی ہونے کی وجہ سے اور آنحضرت ﷺ کی مخصوص اجازت کے تحت، یہ دف بجانا لہو کے حکم سے نکل کر حقانیت کے حکم میں اور کراہیت کی صورت سے نکل کر استحباب کی صورت میں داخل ہوگیا لیکن ایسا ہونا اس پر منحصر تھا کہ یہ عمل (دف بجانا) بہت محدود وقت اور اتنی کم سے کم حد تک رہتا جس سے ایفاء نذر کا مقصد پورا ہوجاتا۔ مگر ہوا یہ کہ اس چھوکری نے دف بجانا شروع کیا تو اتنی منہمک ہوئی کہ اس حد سے گذر گئی اور اس کا یہ عمل کراہت کے دائرہ میں داخل ہوگیا لیکن اتفاق سے جس وقت وہ حد سے متجاوز ہوئی عین اسی وقت حضرت عمر آگئے۔ پس آنحضرت ﷺ نے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ جن میں اس طرف اشارہ تھا کہ یہ کام بس اتنا ہی جائز ہے جتنے کی اجازت دی گئی ہے اس سے زیادہ ممنوع ہے اور بلاضرورت بجانا (یعنی محض تفریح اور شوق کی خاطر تو) اس کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ آپ ﷺ نے صریحا ً اس چھوکری کو منع کیوں نہیں فرمایا تو اس میں یہ نکتہ تھا کہ صریحاً منع کردینے سے حد تحریم کو پہنچ جاتا۔ اس احتمال کو بھی بعید از قیاس قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس زمانہ میں ضرورت کے تحت جتنی دیر تک دف بجایا جاتا تھا ارجو جواز کے دائرہ میں آتا تھا، بس اتنے ہی وقت کے برابر تھا جو اس چھوکری کے دف بجانے کی ابتداء سے مجلس نبوی میں حضرت عمر کی آمد کے وقت تک پر مشتمل تھا، چناچہ حضرت عمر کی آمد سے پہلے تک اس دف کا بجانا چونکہ جواز کی حد میں تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے اتنی دیر تک تو خاموشی اختیار کئے رکھی لیکن جوں ہی وقت جواز کی حد ختم ہوئی اور کراہت کی حدشروع ہوگئی حضرت عمر کی آمد اس چھوکری کے لئے بروقت تنبیہ ثابت ہوئی۔ کچھ تو اس احساس کے تحت کہ وہ آنحضرت ﷺ کے سامنے حد سے متجاوز ہورہی تھی اور کچھ حضرت عمر کی ہیبت سے اس چھوکری نے گھبرا کر دف کو اپنے کو لہوں کے نیچے چھپالیا۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عمر ! تم سے تو شیطان بھی اتنا خوفزدہ رہتا ہے کہ جدہر کو تمہارے قدم اٹھے ادھر سے وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے اب اسی وقت شیطان اس لڑکی کو ورغلا رہا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ اتنی دیر تک دف بجاتی رہے جس سے اس کا یہ فعل برائی کے دائرہ میں داخل ہوجائے مگر تمہارے آتے ہی شیطان بھاگ کھڑا ہوا اور اس چھوکری نے دف بجانا فورا روک دیا۔ ایک توجیہہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ دراصل حضرت عمر اس مباح چیز کو بھی پسند نہیں کرتے تھے جو برائی کے مشابہ ہو اگرچہ کسی جہت سے اس میں اچھائی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی تائید متعد دروایتوں سے ہوتی ہے جن کو صاحب مرقاۃ نے نقل کیا ہے۔ پس دف کے مسئلہ میں اگرچہ ضرورت کے تحت جواز کی گنجائش نکلتی ہے اور اسی لئے آنحضرت ﷺ نے اس چھوکری کو اجازت دی کہ وہ اپنی نذر پوری کرنے کے لئے دف بجا لے مگر دف بجانا بہر حال ایک ممنوع چیز (باجا بجانے) کی صورت رکھتا ہے اس لئے حضرت عمر اس کو کیسے گوارا کرلیتے یہی بات جانتے ہوئے اس چھوکری نے حضرت عمر کو آتا دیکھ کر نہ صرف یہ کہ دف بجانا روک دیا بلکہ اس دف کو ان کی نظروں سے چھپالیا اور آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کی اسی خصوصیت کے پیش نظر مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے۔

【16】

جلال فاروقی

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ ( میرے پاس) بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک پر شور اواز ہمارے کانوں میں آئی، پھر ہم نے بچوں کا شور وغل سنا۔ رسول کریم ﷺ (یہ جاننے کیلئے کہ کیسا شوروغل ہے) کھڑے ہوگئے آپ ﷺ نے دیکھا (باہر) ایک حبشی عورت اچھل کود رہی ہے اور اس کے چاروں طرف بچے کھڑے ہوئے (تماشہ دیکھ رہے) ہیں آپ ﷺ نے (مجھ کو مخاطب کرکے) فرمایا کہ عائشہ ! آؤ یہ تماشہ تم بھی دیکھو۔ چناچہ میں اٹھ کر آنحضرت ﷺ کے پاس کھڑی ہوگئی اور اپنا گال رسول کریم ﷺ کے کندھے پر رکھ کر آپ ﷺ کے کندھے اور سر کے درمیان سے اس عورت کا تماشہ دیکھنے لگی، تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آنحضرت ﷺ مجھ سے پوچھتے کیا تمہارا جی نہیں بھرا، کیا ابھی تمہارا جی نہیں بھرا ؟ اور میں جواب دیتی نہیں ابھی میرا جی نہیں بھرا ؟ دراصل میں یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ آنحضرت ﷺ کے دل میں میرا کیا مقام ہے اور آپ ﷺ مجھ سے کتنی زیادہ محبت کرتے ہیں، پھر اچانک عمر نمودار ہوئے اور پھر وہ لوگ جو اس عورت کا تماشہ دیکھ رہے تھے (محض ان کی ہیبت سے یا اس ڈر سے کہ عمر اس تماش بینی کو پسند نہیں کریں گے، ان کو دیکھتے ہی) ادھر ادھر منتشر ہوگئے۔ یہ دیکھ کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ انسانوں اور جنوں کے شیطان عمر کے خوف سے (کس طرح) بھاگ رہے ہیں حضرت عائشہ کہتی ہیں اس کے بعد میں بھی وہاں سے ہٹ گئی، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح دراصل میں معلوم کرنا چاہتی تھی یعنی میرے اس جواب کا یہ مطلب نہیں تھا کہ واقعۃً میرا جی نہیں بھرا تھا اور اس تماش بینی کا مجھے کچھ زیادہ شوق تھا بلکہ میں تو صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ آنحضرت ﷺ کو مجھ سے کتنا تعلق ہے اور آپ ﷺ کے دل میں میری چاہت اور محبوبیت کا کتنا بلند مقام ہے۔ انسانوں اور جنوں کے شیطان سے مراد وہ بچے تھے جو اس حبشی عورت کی اچھل کود کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور ان کو ان الفاظ سے تعبیر کرنا ایک تو انہی بچوں کی شرارتوں اور شوروغل کے اعتبار سے تھا جیسا کہ عام طور پر شور وغل مچاتے ہوئے بچوں کو کہہ دیتے ہیں کہ کیسے شیطان بچے ہیں جو اتنا شور وشغب کررہے ہیں اور دوسرے اس عورت کی کرتب بازی اور تماشہ آرائی کی اس ظاہری صورت کے اعتبار سے جو لہو ولعب کی صورت سے مشابہ تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ حقیقت کے اعتبار سے بھی وہ سب کچھ لہو ولعب ہی کے حکم میں تھا اگر ایسا ہوتا تو آنحضرت ﷺ خود کیوں دیکھتے اور حضرت عائشہ کو کیوں دکھاتے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دراصل وہ عورت نیزہ وغیرہ کے ذریعہ مشاقی دکھا رہی تھی جو جہاد کے لئے کار آمد چیز تھی اور اسی لئے آنحضرت ﷺ نے اس کی وہ مشاقی خود بھی دیکھی اور حضرت عائشہ کو بھی دکھلائی، لیکن اس مشاقی میں مقصدیت اسی وقت تک رہی جب تک اس کا مظاہرہ ضرورت کے تحت ہوتا رہا اور وہ ضرورت ایک محدود وقت میں پوری ہوجاتی تھی، لیکن عین اس وقت جب کہ وہ مشاقی، ضرورت اور وقت ازحد سے متجاوز ہو کر لہو ولعب اور شیطانی کام کے دائرہ میں داخل ہورہی تھی، حضرت عمر وہاں آگئے اور شیطان کو اپنا داؤ چلنے کا موقعہ نہ مل سکا پس حضرت عمر کے آنے سے پہلے وہ مشاقی، حد جواز میں تھی جس کو آنحضرت ﷺ نے اور حضرت عائشہ نے بھی دیکھا اور اس سے پہلے کہ شیطانی اثرات اپنا کام کرتے اور اس عورت کے اردگرد موجود بچے اور لوگ ان اثرات کا شکار ہوتے حضرت عمر کی پر ُ جلال آمد نے ان سب شیطانوں کو بھاگنے پر مجبور کردیابہر حال توجیہہ کچھ بھی کی جائے، ایک بات جو حدیث سے واضح طور پر ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پر صفت جمال کا غلبہ تھا جس نے آپ ﷺ کی خوش اخلاقی، خوش طبعی اور مروت وبردباری کو درجہ کمال تک پہنچا دیا تھا جبکہ حضرت عمر پر صفت جلال کا غلبہ تھا جس نے ان کی شخصیت کو اتنا رعب اور اتنی پرہیبت بنادیا تھا۔ کہ ان کہ سامنے برائی اور کراہت کا شائبہ رکھنے والا بھی کوئی فعل سرزد نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ حدیث صحیح غریب ہے کے تحت یہ بات مدنظر رہنی چاہے کہ حبشیوں کے اچھل کود اور مشاقی کے مظاہرہ سے متعلق ایک اور دوسرے طریق سے صحیحین (بخاری ومسلم) میں بھی منقول ہے جس کا بیان کیا گیا ہے کہ ایک دن کچھ حبشی لوگ مسجد نبوی میں نیزہ بازی کے کرتب کا مظاہرہ دکھا رہے تھے اور آنحضرت ﷺ حضرت عائشہ کو ان کرتب کا مظاہرہ دکھا رہے تھے کہ حضرت عمر آگئے انہوں نے ان حبشیوں کو اس مظاہرہ بازی سے روکنا چاہا بلکہ ان کی طرف کچھ پتھر اچھالے (تاکہ وہ بھاگ جائیں) تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عمر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو آج عید کا دن ہے (یعنی عید کے دن اس طرح کی تھوڑی سی تفریح طبع میں کوئی حرج نہیں ہے) اوپر کی حدیث میں چونکہ عورت اور تماش بین بچوں کا ذکر ہے اس لئے نہ تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ نے اجنبیوں کو دیکھا اور نہ یہ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ اس وقت خود ان کی عمر چھوٹی تھی اور اجنبی مردوں کی طرف دیکھنا ان کے لئے ممنوع نہیں تھا نیز بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ترمذی کی نقل کردہ روایت میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ اس واقعہ کے علاوہ ہے جس کا ذکر بخاری ومسلم کی روایت میں ہوا ہے۔

【17】

موافقات عمر

حضرت انس اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا تین باتوں میں میرے پروردگار کا حکم میری رائے کے مطابق نازل ہوا۔ پہلی بات تو یہ کہ میں نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ ﷺ اگر مقام ابراہیم کو ہم نماز پڑھنے کی جگہ بنائیں تو بہتر ہو (یعنی طواف کعبہ کے بعد کی دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اگر وہ مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جائیں تو زیادہ بہتر رہے گا) پس یہ آیت نازل ہوئی ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى) 2 ۔ البقرۃ 125) اور بناؤ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ۔ اور (دوسری بات یہ کہ) میں نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کو پردہ میں رہنے کا حکم فرمادیں (تاکہ غیر محرم لوگوں کے سامنے ان کا آنا بند ہوجائے) تو بہتر ہو۔ پس (میرے اس عرض کرنے پر) پردہ کی آیت نازل ہوئی۔ اور (تیسری بات یہ کہ) جب نبی کریم ﷺ کی بیبیوں نے رشک و غیرت والے معاملہ پر اتفاق کرلیا تھا۔ تو میں نے (ان سب کو مخاطب کر کے) کہا تھا اگر آنحضرت ﷺ تمہیں طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار جلد تمہارے بدلے ان کو اچھی بیبیاں دے دے گا پس میرے انہی الفاظ و مفہوم میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں یوں ہے کہ انہوں نے بیان کیا حضرت عمر نے فرمایا تین باتوں میں میرے پروردگار کا حکم میری رائے کے مطابق نازل ہوا، ایک تو مقام ابراہیم (کو نماز ادا کرنے کی جگہ قرار دینے) کے بارے میں دوسرے (آنحضرت ﷺ کی بیبیوں کے) پردے کے بارے میں اور تیسرے بدر کے قیدیوں کے بارے میں۔ (بخاری ومسلم) تشریح حافظ عسقلانی نے لکھا ہے کہ یہاں صرف تین باتوں کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ موافقات عمر کی تعداد تین سے زائد نہ ہودر حقیت ان مواقع کی تعداد تین سے کہیں زیادہ ہے جن میں حضرت عمر کی رائے اور مشورہ کے مطابق حکم الہٰی نازل ہوا ان میں جو زیادہ مشہور ہیں وہ تو ایک بدر کے قیدیوں ہی کا معاملہ ہے، ایک منافقوں کی نماز جنازہ پڑھنے والا واقعہ بھی ہے اسی طرح بعض محققین نے تلاش و جستجو کے بعد جن موافقات عمر کو جمع کیا ہے ان کی تعداد پندرہ سے زائد ہوتی ہے (جیسا کہ علامہ سیوطی نے بیس موافقات عمر کا ذکر کیا ہے) مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدم مبارک کا نشان بطور معجزہ پڑگیا تھا اور جس پر کھڑے ہو کر آپ بیت اللہ کی چنائی کرتے تھے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کا ہاتھ پکڑ کر بتایا کہ مقام ابراہیم ہے اس وقت حضرت عمر نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم اس مقام کو نماز پڑھنے کی جگہ بنالیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھے اس بارے میں کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اور پھر اسی دن آفتاب غروب بھی نہیں ہوا تھا کہ مذکورہ آیت نازل ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر طواف کے بعد جو دو رکعتیں پڑھنی واجب ہیں وہ مقام ابراہیم کے پاس (اس طرح) پڑھا کرو (کہ مقام ابراہیم بھی سامنے رہے اور بیت اللہ بھی) اس آیت میں امر کا صیغہ استحباب کے لئے ہے اور بعض حضرات نے وجوب کے لئے کہا ہے، یعنی طواف کے بعد دو رکعتیں پڑھنی تو واجب ہیں لیکن مستحب یہ ہے کہ یہ دونوں رکعتیں خاص مقام ابراہیم کے پیچھے متصلاً پڑھی جائیں۔ ہاں جس شخص کو خاص مقام ابراہیم کے پیچھے جگہ نہ ملے اور حرم میں کسی بھی جگہ یہ رکعتیں پڑھ لے تو اس حکم کی پوری تعمیل ہوجائے گی۔ امام شافعی کے مسلک میں ان دو رکعتوں کے وجوب کے بارے میں دو قول ہیں۔ پس پردہ کی آیت نازل ہوئی اور آیت یہ ہے۔ (فَسْ َ لُوْهُنَّ مِنْ وَّرَا ءِ حِجَابٍ ) 33 ۔ الاحزاب 53) اور جب تم ان ( ازواج النبی ﷺ سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو۔ واضح رہے کہ ازواج مطہرات پر جو یہ پردہ واجب ہوا تھا وہ اس ستر عورت کے علاوہ ہے جو اور تمام عورتوں پر واجب ہے یعنی اس آیت کے ذریعہ ان ازواج مطہرات کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ غیر محرموں کے سامنے بالکل نہ آئیں اگرچہ کپڑوں میں لپٹی اور چھپی ہوئی ہی کیوں نہ ہوں یہ حکم خاص طور پر صرف ازواج مطہرات کو دیا گیا تھا، جب کہ اور عورتوں کو اجازت ہے کہ اگر اپنے جسم کو خوب ڈھانک چھپا کر وہ باہر نکلنا چاہیں تو نکل سکتی ہیں۔ رشک و غیرت والے معاملہ پر اتفاق کرلیا تھا اس سے آنحضرت ﷺ کے شہد پینے سے متعلق مشہورواقعہ مراد ہے آنحضرت ﷺ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد کھڑے کھڑے اپنی ازواج کے پاس تشریف لاتے تھے۔ ایک مرتبہ اسی معمول کے مطابق آپ ﷺ ایک زوجہ مطہرہ حضرت زینب کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے کہیں سے آیا ہوا شہد آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا جو آپ ﷺ کو بہت مرغوب تھا اور اسی وجہ سے حضرت زینب نے آپ ﷺ کے لئے رکھ چھوڑا تھا، شہد پینے میں آپ کو کچھ وقت لگا۔ اور اس سبب سے حضرت زینب کے یہاں آپ ﷺ معمول سے زیادہ ٹھہرے رہے۔ یہ بات حضرت عائشہ اور بعض دوسری مطہرات کے لئے رشک و غیرت کا باعث بن گئی، ام المؤمنین حضرت عائشہ نے ام المؤمنین حضرت حفصہ (بنت عمر) سے مشورہ کیا اور دونوں اس رائے پر متفق ہوگئیں کہ آنحضرت ﷺ ہم جس کے پاس بھی تشریف لائیں وہ یوں کہے کہ آپ ﷺ میں سے مغافیر کی بوآرہی ہے۔ اور پھر جب آنحضرت ﷺ ان کے ہاں تشریف لائے تو ان میں سے ہر ایک نے یوں ہی کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں نے تو مغافیر کو ہاتھ بھی نہیں لگایا، صرف شہد پیا تھا، پھر مغافیر کی بو کہاں سے آئی انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس شہد کی مکھیاں مغافیر پر بیٹھ گئی ہوں، جس کے سبب اس شہد میں مغافیر کی بو شامل ہوگئی ہو۔ اس بات سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ شہد پینے کے لئے آئندہ حضرت زینب کے یہاں نہ ٹھہریں۔ مگر آنحضرت ﷺ نے ان کی بات کو صداقت پر محمول کیا اور احتیاط شہد پینا اپنے اوپر حرام کرلیا۔ پھر بعد میں سارا بھید کھلا کہ یہ تو سوکنا پے کا چکر تھا جس میں آنحضرت ﷺ کو مبتلا کیا گیا اور ایک بدنما صورت حال پیدا ہوئی۔ اسی موقعہ پر حضرت عمر نے ان ازواج مطہرات کو تنبیہ وتہدید کرتے ہوئے مذکورہ الفاظ کہے اور پھر جب قرآن میں اس واقعہ سے متعلق فرمان الہٰی نازل ہوا تو اس میں حضرت عمر کے الفاظ اور مفہوم کو جوں کا توں شامل کیا گیا۔ سورة تحریم میں ہے۔ (عَسٰى رَبُّه اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَه اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ ) 66 ۔ التحریم 5) اگر آنحضرت ﷺ تم عورتوں کو طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار بہت جلد تمہارے بدلے ان کو تم سے اچھی بیبیاں دیدے گا۔ بدر کے قیدیوں کے بارے میں یعنی غزوہ بدر میں فتح یابی کے بعد جنگی قیدیوں کے متعلق آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے مشورہ فرمایا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہو اور ان کا معاملہ کس طرح نمٹایا جائے تو حضرت ابوبکر نے رائے دی کہ فدیہ لے کر ان کو رہا کردیا جائے۔ لیکن حضرت عمر کی رائے یہ تھی کہ ان دشمنان اسلام کو قتل کردیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر کی رائے کو پسند فرمایا اور ان قیدیوں کو ان کی حیثیت واستطاعت کے مطابق فدیئے لے کر رہا کردیا۔ لیکن جب قرآن کریم میں اس کے متعلق آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر کی رائے کے مطابق نکلی۔ اس کی تفصیل اگلی حدیث میں آرہی ہے۔

【18】

وہ چار باتیں جن میں عمر کو فضیلت حاصل ہوئی

اور حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ حضرت عمر ابن خطاب کو دوسروں پر چار باتوں کے سبب خصوصی فضیلت حاصل ہے۔ ایک بات تو جنگ بدر کے قیدیوں کے بابت ان کی رائے تھی، یہ کہنا تھا کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِ يْمَا اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ) 8 ۔ الانفال 68) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہو چکتا ( کہ خطاء اجتہادی کا مرتکب مستوجب عذاب نہیں ہوگا یا کوئی بری سزا واقع ہوتی۔ دوسری بات پردہ کی بابت ان کا مشورہ دینا تھا۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کو پردہ (میں رہنے) کی طرف متوجہ کیا تھا اور (ان کے توجہ دلانے پر) ام المؤمنین حضرت زینب نے ان سے کہا تھا کہ اے عمر ابن خطاب ! پردہ میں رہنے کی بات ہم سے تم کہہ رہے ہو حالانکہ وحی ہمارے گھروں میں اترتی ہے ؟ اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل فرمائی (فَسْ َ لُوْهُنَّ مِنْ وَّرَا ءِ حِجَابٍ ) 33 ۔ الاحزاب 53) (یعنی اور جب تم ان (ازواج النبی) سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو) تیسری بات وہ دعا ہے تھی جوان کے حق میں نبی کریم ﷺ نے مانگی تھی کہ الہٰی عمر کے ذریعہ اسلام کو تقویت عطا فرما۔ اور چوتھی بات ابوبکر کے حق میں ان کی رائے تھی کہ انہوں نے (حضرت ابوبکر کو خلیفہ اول بنانے کی تجویز پیش کرکے بڑے نازک وقت میں تمام مسلمانوں کی بروقت راہنمائی کی اور اپنی زبردست قوت اجتہاد کے ذریعہ انہی کو خلافت اول کا اہل و مستحق جان کر) سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیت کی (اور پھر ان کی پیروی میں اور سب لوگوں نے خلافت صدیق پر بیت کی) (احمد ) تشریح جنگ بدر کے قیدیوں کی بابت ان کی رائے تھی اس کی تفصیل خود حضرت عمر ایک روایت میں جو ریاض الصالحین میں منقول ہے۔ یوں بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن (جب اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو فتح و غلبہ عطا فرمایا اور قیدیوں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے ہاتھ لگی تو) رسول اللہ ﷺ کی مجلس مشاورت منعقد کی اور ان قیدیوں کے بارے میں مشورہ چاہا۔ حضرت ابوبکر نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ان قیدیوں میں سب اپنے ہی رشتے ناطے کے لوگ ہیں، کوئی چچا کا بیٹا ہے تو کوئی بھائی کا بیٹا ہے، کوئی خاندان کا فرد ہے تو کوئی قبیلے کا، اگر ہم ان سب سے فدیہ (مالی معاوضہ) لے کر ان کو رہا کردیں تو اس سے ہمیں دشمنان دین کے مقابلہ کے لئے اگلی تیاریوں میں بڑی مدد ملے گی اور ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رہا ہونے والوں کو ہدایت فرمادے اور یہ اسلام قبول کرکے ہمارے معاون ومدد گار بن جائیں۔ آنحضرت ﷺ نے (ابو بکر کی یہ رائے سن کر) فرمایا کہ عمر ! اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں ابوبکر کی رائے کو موزوں نہیں سمجھتا، دراصل یہ سارے قیدی کفر و ضلالت کی پیشوائی کرنے والے اور دشمنان دین کے سردار ہیں، ان کو زندہ چھوڑ نا دینا خطرہ مول لینا ہے، ان سب کی گردنیں اڑا دینا ہی مناسب ہے آخر کار آنحضرت ﷺ نے ابوبکر کی رائے کو پسند فرمایا اور فدیہ لے کر ان قدیوں کو رہا کردیا۔ اگلے دن صبح کو جب میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ اور ابوبکر گریاں ولرزاں بیٹھے ہوئے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ خیر تو ہے ! آپ ﷺ کے یہ رفیق (ابو بکر) رو کیوں رہے ہیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا عمر ! (کیا پوچھتے ہو، سمجھو بس اللہ نے خیر ہی کردی، نہیں تو) عذاب تو میرے سامنے اس درخت سے بھی قریب آگیا تھا (جو بالکل سامنے نظر آرہا ہے) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے (مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَه اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67 لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِ يْمَا اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 68) 8 ۔ الانفال 68-67) پیغمبر کو شایاں نہیں کہ ان کے قیدی باقی رہیں (بلکہ قتل کردیئے جائیں) جب تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح (دشمنان دین کی) خونریزی نہ کرلیں۔ تو تم دنیا کے مال و اسباب چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ آخرت (کی مصلحت) کو چاہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ بڑے زبردست اور بڑے حکمت والے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہوچکتا تو جو امر تم نے اختیار کیا ہے اس کے بارے میں تم پر کوئی بڑی سزا واقع ہوتی۔ اس سے واضح ہوا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں انسب رائے وہی ہے تھی جو حضرت عمر نے ظاہر کی تھی۔ حضرت ابوبکر کی رائے اس مصلحت پر مبنی تھی کہ اس وقت اہل اسلام کے لئے مالی تنگیوں اور پریشانیوں کا بڑا نازک مرحلہ درپیش ہے۔ دشمنان دین اس جنگ میں ہزیمت خورہ ہونے کے باجود اپنی معاندانہ روش کو ترک نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کے خلاف ان کے جارحانہ عزائم جوں کے توں ہیں اور وہ اپنی مالی وانسانی قوت کو مجتمع کرکے اہل اسلام کو پھر میدان جنگ میں لانے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا مناسب یہ ہے کہ اپنے خونی رشتہ داروں اور اعزاواقرباء کو اپنے ہاتھوں قتل کیا گیا۔ اور ہوسکتا ہے کہ اس احسان کو خود یہ قیدی محسوس کریں اور ان کو ایمان قبول کرنے اور ہمارا مددگار بن جانے کی توفیق مل جائے دوسری طرف فدیہ کی شکل میں ان سے حاصل ہونے والا مال و اسباب ہماری بڑی مدد کرے گا اس کے ذریعہ ہم اپنی طاقت بڑھائیں گے اور دشمنان دین سے لڑنے کے لئے جنگی وسائل و ذرائع فراہم کریں گے ایک اعتبار سے یہ رائے حضرت ابوبکر کی صفت جمال کا مظہر بھی تھی اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں جن حضرات کے مزاج میں نرمی اور مروت کا زیادہ دخل تھا ان سب نے بھی اس رائے کی تائید کی۔ دوسری طرف حضرت عمر کی رائے ان کی صفت جلال کا مظہر تھی اور جن صحابہ پر اس صفت کا غلبہ تھا انہوں نے حضرت عمر کی رائے کی تائید کی نبی رحمت ﷺ اگرچہ تمام صفات و کمالات کے جامع تھے مگر واقعہ یہ کہ آپ ﷺ مائل صفت جمال ہی کی طرف تھے اور اسی وجہ سے اس موقع پر آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر کی رائے کو پسند فرمایا۔ تاہم اللہ کی علیم وخبیر ذات کے علاوہ اور کون اس فیصلہ کے اصل عواقب و نتائج کو جان سکتا تھا، اس کی بارگاہ حکمت میں قیدیوں کی رہائی کا یہ فیصلہ غیرموزوں قرار پایا اور اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں جن سے حضرت عمر کی اصابت رائے کی توثیق ہوئی۔

【19】

عمر جنت میں بلند ترین مقام پائیں گے

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ شخص میری امت میں جنت کا بلند ترمقام و مرتبہ رکھنے والا ہے ابوسعید کا بیان ہے کہ اس شخص (جس کا ذکر رسول کریم ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا) کے بارے میں واللہ ہمارا خیال اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ اس سے عمر ابن خطاب کی ذات مراد ہے اور حضرت عمر جب تک اس دنیا میں رہے ہم اپنے خیال پر قائم رہے۔ ( ابن ماجہ ) تشریح وہ شخص یہ بات آپ ﷺ نے مبہم کہی اور تعیین نہیں فرمائی کہ وہ شخص کون ہے اور اس ابہام سے مقصود یہ تھا کہ امت کا ہر شخص طاعات و عبادات سے زیادہ جدوجہد اور محنت کے ساتھ برابر لگا رہے اور اخلاق و کمالات سے متصف ہو کر اس کا استحقاق پیدا کرے یا یہ ہوسکتا ہے کہ مجلس نبوی ﷺ میں کسی ایسے شخص کا آیا ہو جو مذکورہ اوصاف سے متصف تھا اور اس ضمن میں آنحضرت ﷺ نے اشارہ فرمایا ہو کہ جو شخص بھی ان اوصاف کا حامل ہوگا اس کا جنت میں بلند تردرجہ ملے گا۔ اور حضرت عمر جب تک اب دنیا میں رہے یہ الفاظ اس شک کے دفعیہ کے لئے ہیں کہ شائد وقتی طور حضرت عمر کی طرف لوگوں کا خیال چلا گیا ہو اور پھر بعد میں وہ خیال بدل گیا ہو۔ یہاں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوسعید کے الفاظ سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت عمر حضرت ابوبکر سے افضل تھے۔ حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا ؟ اس کا جواب الفاظ حدیث کی مذکورہ بالا وضاحت سے مل جاتا ہے یعنی یہ کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد میں مبہم اشارہ کا مقصد اس طرف متوجہ کرنا تھا کہ امت کا ہر فرد شریعت کی اطاعت و فرمانبرداری اور اچھے کاموں میں لگن، محنت اور اخلاص کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جدوجہد اور کوشش کرے تاکہ اس بلند ترمقام کو پہنچے۔ وہ بلند ترمقام اسی شخص کو نصیب ہوسکتا ہے۔ جو طاعات و عبادت میں کوشاں رہے، اخلاص کے ساتھ متصف ہو، دین میں خوب غور کے ذریعہ اجتہاد کرے اور اچھے کاموں میں لگا رہے، پس جن لوگوں نے یہ خوبیاں جتنی زیادہ، جتنی بھر پور اور جتنی موثر حضرت عمر کی ذات تھی نہ کہ کسی اور کی۔ اگر اخفاء لیلۃ القدر کا مسئلہ ذہن میں رہے تو پھر یہ بات آسانی سے سمجھ آسکتی ہے کہ اس روایت میں حضرت عمر کے ذکر سے حضرت ابوبکر پر ان کی فضیلت کا مفہوم لازم نہیں آتا۔ حاصل کلام یہ کہ اس شخص سے حضرت عمر کا مراد ہونا ایک ظنی بات ہے اور وہ بھی بعض حضرات کے نزدیک نہ کوئی یقینی بات ہے لہٰذا اس روایت سے یہ استدلال کرنا صحیح نہیں ہوگا کہ حضرت عمر حضرت ابوبکر افضل تھے، جب کہ جمہور علماء کا اتفاق حضرت ابوبکر کی فضیلت پر ثابت بھی ہے اور اہل سنت و جماعت کا متفقہ اعتقاد بھی اسی پر ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابوسعید نے حضرت عمر کے بارے میں یہ بات حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت عمر کے زمانے کو سامنے رکھ کر کہی تھی کہ اس وقت آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا مصداق حضرت عمر سے بڑا اور کسی کو نہیں سمجھا جاتا تھا تو پھر اصل حدیث کے بارے میں کوئی اشکال ہی پیدا نہیں ہوگا کیونکہ اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عمر بلاشبہ سب سے افضل تھے۔

【20】

نیک کاموں میں سب سے زیادہ سر گرم کار

اور حضرت اسلم (جو حضرت عمر فاروق کے آزاد کردہ غلام اور تابعی ہیں ) کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے (ایک دن) مجھ سے حضرت عمر فاروق کے کچھ احوال وخصائل جاننے چاہے تو میں نے ان کو (بہت سی باتیں) بتائیں اور کہا ہے کہ رسول کریم ﷺ (کی رحلت) کے بعد میں نے حضرت عمر سے بڑھ کر کسی شخص کو نہیں دیکھا جو اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اچھے کاموں میں سب سے زیادہ سرگرم کار اور سب سے زیادہ نیک رہا ہوں۔ (بخاری ) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ اس روایت کو حضرت عمر فاروق کے زمانہ خلافت پر محمول رکھا جائے تاکہ اس کے الفاظ سے جو عموم مفہوم ہوتا ہے اس سے حضرت ابوبکر کی ذات مستثنیٰ رہے۔

【21】

دین وملت کی غم گساری

اور حضرت مسور ابن مخرمہ کہتے ہیں حضرت عمر فاروق (ابو لؤلؤ کے خنجر سے) زخمی ہوئے تو کرب یا بےچینی کا اظہار کرنے لگے (یعنی ان کی عیادت کے لئے آنے والوں کو ایسا لگتا تھا جیسے فاروق اعظم زخم کی اذیت سے شدید کرب اور بےچینی میں ہیں جس کا اظہار کراہ وغیرہ کی صورت میں ہورہا ہے) چناچہ حضرت عبداللہ ابن عباس نے (یہ صورت دیکھ کر) گویا حضرت عمر کو فزع اور بےصبری کی نسبت دی (یا یہ کہ حضرت عمر کو تسلی وتشفی دی) اور کہا کہ امیرالمؤمنین ! یہ سب (یعنی جزع وفزع اور بےقراری وبے صبری کا اظہار آپ کی شان کے شایاں) نہیں ہے آپ تو وہ ہستی ہیں جس کو رسول کریم ﷺ کی صحبت ورفاقت کا شرف حاصل ہوا اور بہت اچھی صحبت حاصل ہوئی (بایں طور کہ) آپ نے رفاقت رسول کا کامل حق ادا کیا اور تمام تر آداب و شرائط پورے کرکے آنحضرت ﷺ کی صحبت و خدمت سے فیضیاب ہوئے اور رسول کریم ﷺ اس حال میں آپ سے ہوئے کہ آپ سے راضی وخوش تھے (جس کا ثبوت یہ ارشاد رسول ﷺ ہے کہ فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے) پھر ابوبکر کی رفاقت ومجالست آپ کو نصیب ہوئی اور ان کے ساتھ بھی آپ کی رفاقت بہت اچھی رہی یہاں تک کہ جب وہ آپ سے جدا ہوئے تو آپ سے خوش تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے آپ ہی کو اپنا نے جانشین نامزد فرمایا اور پھر (اپنی خلافت کے زمانہ میں) آپ مسلمانوں کو خدمت ورفاقت کا موقع ملا اور ان کی خدمت ورفاقت کا فریضہ بھی آپ نے بڑی اچھی طرح نبھایا (کہ مسلمانوں کے ساتھ عدل و انصاف، رعایا پروری اور کامیاب ترین حکمرانی میں آپ کے نام کا ڈنکا چار دوانگ عالم میں بج اٹھا) اب اگر مسلمانوں سے جدا ہونگے تو اس حال میں جدا ہوں گے کہ تمام مسلمان آپ سے راضی وخوش ہیں۔ فاروق اعظم نے ( یہ سن کر) فرمایا (اے عباس) تم نے آنحضرت ﷺ کی صحبت اور آپ ﷺ کی رضا و خوشنودی کا جو ذکر کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا احسان ہے جو اس نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھ پر کیا ہے، اسی طرح تم نے حضرت ابوبکر کی صحبت ورفاقت اور ان کی خوشنودی کا جو ذکر کیا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ایک بڑا احسان ہے جس کے ذریعہ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے سرفراز کیا۔ رہی میری بےصبری وبے قراری جو تم دیکھ رہے ہو تو (اس کا تعلق زخم کی تکلیف اور درد وبے چینی پر جزع ونزع سے نہیں ہے بلکہ درحقیقت) یہ تمہارے اور تمہارے دوستوں اور ساتھیوں کے سبب سے ہے۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس تمام زمین کے برابر سونا ہو تو میں اس کو اللہ کے عذاب کے بدلے میں قربان کردوں اس سے پہلے کہ میں اللہ کو (یا اللہ کے عذاب کو) دیکھوں۔ (بخاری) تشریح حضرت ابن عباس نے گویا اس طرف اشارہ کیا کہ جب اللہ کا رسول آپ سے راضی وخوش گیا اللہ کے رسول کا چہیتا آپ سے راضی وخوش ہے اور آپ اپنے اللہ سے راضی وخوش ہیں اس صورت میں تو آپ اس ارشاد ربانی کی بشارت کا مصداق ہیں یایتہا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ۔ اے اطمینان والی روح تو اپنے پروردگار (کے جوار رحمت) کی طرف چل اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش۔ پھر آپ اتنا پریشان کیوں ہیں، اتنی بےقراری کیوں ہے، اس زخم کی تکلیف نے آپ کو بےچین کردیا ہے یا موت کے تصور نے ؟ موت تو مؤمن کے لئے تحفہ ہے وہ تحفہ جو مقام اعلی میں بندہ کو اپنے آقا سے ملائے گا، رضائے مولیٰ کی ابدی نعمتوں اور سعادتوں تک پہنچائے گا۔ حضرت عمر نے حضرت ابن عباس کو جو جواب دیا اس کا حاصل یہ تھا کہ محض تمہارا خیال ہے کہ میری بےچینی وبے قراری زخم کی تکلیف یا موت کے خوف سے ہے، درحقیقت میرا یہ سارا اضطراب اور اظہار کرب تم لوگوں (اہل اسلام) کے مستقبل کے بارے میں چند خطرات وخدشات کا احساساتی تاثر ہے۔ میں ڈرتا رہا ہوں کہ کہیں میرے بعد فتنے سر نہ ابھارنے لگیں، اختلاف و انتشار اور دین سے بےتوجہی کی خرابیاں مسلمانوں میں نہ درآئیں، فتنہ و فساد کے وہ دروازے جن کو میں نے ملت اسلامیہ پر بڑی مضبوطی سے بند کر رکھا تھا ڈھیلے نہ پڑجائیں علاوہ ازیں خود اپنے بارے میں آخرت کا خوف بھی میرے لئے کچھ کم اضطرب انگیز نہیں ہے بیشک حق تعالیٰ نے مجھے بڑی بڑی سعادتوں سے نوازا اور اس دنیا میں مجھ پر بےپایاں فضل و انعام فرمایا لیکن میں نے حق تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی میں جو جو کو تاہیاں کی ہیں ان پر آخرت میں مواخذہ بھی ہوسکتا ہے، اگر عدل الٰہی نے مجھے مستوجب عذاب گردان دیا تو کیا حشر ہوگا، استیعاب میں منقول ہے کہ حضرت عمر فاروق جب زخمی ہو کر گرے تو اپنے بیٹے حضرت عبداللہ ابن عمر کی گود میں سر رکھے پڑے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے ظلوما لنفسی غیرانی مسلم اصلی صلاتی کلہا واصوم میں نے اپنے نفس پر بڑا ہی ظلم کرنے والا ہوں باوجودیکہ میں مسلمان ہوں، تمام نمازیں بھی پڑھتا ہوں اور روزے بھی رکھتا ہوں۔

【22】

قاتلانہ حملہ اور شہادت

مدینہ منورہ میں ایک پارسی غلام فیروز نام کا تھا جس کی کنیت ابولؤلؤ تھی، اس نے ایک دن حضرت عمر فاروق کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے آقا مغیرہ ابن شعبہ کی شکایت کی کہ انہوں نے مجھ پر بہت بھاری ٹیکس عائد کر رکھا ہے آپ کم کرا دیجئے۔ حضرت عمر نے اس ٹیکس کی مقدار اور اس کے کام کی صلاحیت وآمدنی وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل کر کے اس سے کہا کہ یہ ٹیکس کچھ زائد نہیں ہے، ابولؤلؤ یہ سن کر دل میں سخت ناراض ہوا اور حضرت عمر کے پاس سے واپس چلا گیا۔ دوسرے دن ابولؤلؤ ایک زہر الود دو دھاری خنجر لے کر اندھیرے منہ مسجد میں آکر ایک کونے میں چھپ گیا اور جب حضرت عمر فجر کی نماز کے لئے تشریف لائے اور امامت کے لئے آگے بڑھنے لگے تو اس نے دفعۃ ً گھات میں سے نکل کر ان پر خنجر کے چھ وار کئے، جن میں سے ایک ناف کے نیچے پڑا زخم اتنا کاری تھا کہ حضرت عمر تاب نہ لا کر فورًا گرپڑے، حضرت عبدالرحمن ابن عوف نے چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھ کر جلدی جلدی نماز پڑھائی، نماز کے بعد حضرت عمر کو اٹھا کر گھر لایا گیا۔ حملہ کے تین دن کے بعد حضرت عمر نے جان جاں آفریں کے سپرد کی اور محرم ٢٤ ھ کی پہلی تاریخ شنبہ کے دن مدفون ہوئے حضرت صہیب نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ بعض حضرات نے حملہ کا واقعہ ذی الحجہ ٢٣ ھ کی ٢٧ تاریخ چہار شنبہ کے دن کا لکھا ہے اور تاریخ مدفون ١٠ محرم ٢٤ ھ بروز یکشنبہ بیان کی ہے، حضرت عمر کی خلافت سارھے دس سال رہی اور عمر تحقیقی قول کے مطابق ٦٣ سال کی ہوئی، صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت نے ان سے احادیث روایت کی ہیں جن میں حضرت ابوبکر اور باقی عشرہ مبشرہ صحابہ بھی شامل ہیں۔

【23】

حضرت عمر کی ایک بڑی کرامت

مستند کتابوں میں معتبر وثقہ راویوں کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو وہاں کے عام (گورنر) حضرت عمر وبن العاص مقرر ہوئے ان سے ایک دن مصریوں نے آکر کہا کہ زمانہ قدیم سے دریائے نیل ہر سال ایک کنواری نوجوان لڑکی کی بھینٹ لیتا چلا آیا ہے، جب تک یہ بھینٹ نہیں دی جاتی پانی جاری نہیں ہوتا۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ہر سال چاند کی گیارہویں کی رات کو ایک نوجوان لڑکی کو اس کے والدین کی رضا مندی کے ساتھ بیش بہا کپڑے اور عمدہ زیور پہنا کر اور خوب بناؤ سنگھار کرکے دریا میں ڈال دیتے ہیں، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو دریا خشک ہونے لگتا ہے اور پھر شہروں اور دیہاتوں میں پانی کی کمی کے سبب قحط پڑجاتا ہے، حضرت عمروبن العاص نے مصریوں سے کہا کہ یہ ایک بےہودہ رسم ہے چونکہ اسلام میں اس طرح کی لغویات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا چناچہ اس سال یہ رسم نہیں کی گئی اور دریائینیل تقریباً سوکھ گیا، پورے مصر میں قحط وخشک سالی کی سی کیفیت پیدا ہوجانے کے سبب اہل مصر ترک وطن پر مجبور ہونے لگے۔ حضرت عمر و بن العاص نے صورت حال کی تفصیلی رپورٹ حضرت عمر فاروق کی خدمت میں روانہ کی فاروق اعظم نے یہ رپورٹ دیکھی اور عمر وبن العاص کو لکھا کہ تم نے اس رسم پر عمل کرنے کی اجازت نہ دے کر بالکل ٹھیک کیا، واقعی اسلام اس طرح کی رسوم کی بیخ کنی کرتا ہے میں ایک پر چہ بھیج رہا ہوں تم اس کو دریائے نیل میں ڈال دینا اس پر چہ میں لکھا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم بندہ اللہ عمر بن الخطاب امیر المؤمنین کی جانب سے دریائے نیل کے نام۔ بعد حمد وصلوۃ (اے دریائے نیل ! ) اگر تو اپنے اختیار اور اپنی قوت سے بہتا ہے تو مجھ کو تجھ سے کچھ نہیں کہنا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مرضی سے تو بہتا ہے تو میں اللہ واحدوقہار کے نام پر تجھ کو حکم دیتا ہوں کہ جاری اور رواں ہوجا، عمر و بن العاص عامل مصر نے اس پر چہ کو دریائے نیل میں ڈال دیا اور صبح اٹھ کر لوگوں نے دیکھا کہ ایک ہی رات میں دریائے نیل سولہ ہاتھ اوپر آگیا ہے اور پورے زور شور کے ساتھ رواں ہے اور پھر ہر سال چھ ہاتھ بڑھتا رہا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے باشندگان مصر کی اس قدیم رسم کا خاتمہ کردیا اور اس دن سے اب تک دریائے نیل برابر جاری ہے۔