190. حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے مناقب کا بیان

【1】

حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے مناقب کا بیان

بعض ایسی روایتیں منقول ہیں جن میں شیخین یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا ذکر ایک ساتھ ہوا ہے، اس لئے مؤلف مشکوٰۃ نے ان روایتوں پر مشتمل ایک الگ باب یہاں قائم کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دونوں حضرات اپنی اس مشترکہ خصوصیت کی بناء پر اکثر مواقع پر ایک ساتھ ذکر کئے جاتے تھے کہ دونوں آنحضرت ﷺ کے خصوصی معاون و مددگار، بارگاہ رسالت میں وقت بےوقت حاضری اور تقرب کی سعادت رکھنے والے تمام دینی وملی معاملات و مسائل کے مشیر وامین اور آنحضرت ﷺ کے تمام اوقات و احوال کے مصاحب وہمنشین تھے۔

【2】

ابو بکر وعمر ایمان ویقین کے بلند ترین مقام پر فائز تھے

حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک شخص ایک گائے کو ہانکتا ہوا لے جارہا تھا، جب وہ (چلتے چلتے) تھک گیا تو گائے پر سوار ہوگیا، گائے بولی، ہماری تخلیق اس کام (یعنی سواری) کے لئے نہیں ہوئی ہے، ہم تو زراعت وکاشت کاری کے کام میں آنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں لوگوں (یعنی حاضرین مجلس) نے (یہ سن کر اظہار تعجب کے طور پر) کہا سبحان اللہ، گائے بھی بات کرتی ہم (درآنحالیکہ وہ بےزبان چوپایہ ہے ؟ ) اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر وعمر بھی ایمان لاتے ہیں اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اس مجلس میں موجود نہیں تھے، نیز حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک شخص اپنی بکریوں کے ریوڑ کے درمیان تھا کہ ناگہاں ایک بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں ایک بکری اٹھا لے گیا بکری کے مالک نے بھیڑئیے کا تعاقب کرکے اپنی بکری اس سے چھڑالی بھیڑیا اس سے بولا (اب تو تم نے اپنی بکری مجھ سے چھڑالی ہے لیکن یہ بتاؤ) سبع کے دن بکریوں کا رکھوالا کون ہوگا، جب میرے سوا بکریوں کا چرانے والا کوئی نہ ہوگا لوگوں نے (یہ واقعہ سن کر اظہار تعجب کیا اور) کہا سبحان اللہ، بھیڑیا اور بات کرے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں اس پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر وعمر بھی ایمان لائے اس وقت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ (بخاری ومسلم) تشریح ہماری تخلیق اس کام کے لئے نہیں ہوئی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گائے پر سواری گانٹھنایا اس پر بوجھ لادنا موزوں نہیں ہے، چناچہ علامہ ابن حجر نے لکھا ہے کہ علماء نے حدیث کے ان الفاظ سے استدلال کیا ہے کہ چوپاؤں اور مویشیوں کو ان مقاصد کے علاوہ اور کسی کام میں نہ لانا چاہئے جو عام طور پر ان سے منسوب سمجھے جاتے ہیں اور جن کے لئے ان کا استعمال عادت پر معمول کے تحت ہوتا ہے، تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ اس بات کا منشاء محض اولیت وافضلیت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ حصر کرنا، یعنی افضل اور بہتر یہ ہے کہ چوپایہ ومویشی سے وہی کام لیا جائے جس کے لئے اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ اور جس کام میں استعمال ہونا اس کی عادت ومعمول میں شامل ہوچکا ہو۔ پس جن چوپاؤں کو حلال کرکے گوشت کھایا جاتا ہے ان کے ذبح کرنے پر کوئی اشکال نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ انسانی غذا کے لئے گوشت فراہم کرنا ان چوپایوں کے مقصد تخلیق میں شامل ہے اور ذبح کر کے ان کا گوشت کھانا عادت ومعمول کے مطابق ہے۔ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں یعنی میں اس بات میں اپنا کامل یقین ظاہر کرتا ہوں کہ اللہ کی قدرت اور اس کے حکم سے گائے انسان کی زبان میں بات کرسکتی ہے یا اس بات کو دل سے مانتا ہوں کہ گائے واقعۃً زراعت اور انسانی غذاؤں کی فراہمی کے مقاصد کے لئے پیدا کی گئی ہے نہ کہ سواری اور بار برداری کے لئے۔ اور ابوبکر وعمر بھی ایمان لاتے ہیں صرف انہی دو حضرات کے ذکر کئے جانے میں اس طرف اشارہ تھا کہ مضبوط ایمان و اعتقاد اور کامل یقین و اعتماد کا خصوصی درجہ کمال انہی کو حاصل ہے۔ یہاں یہ اشکال نہیں ہونا چاہئے کہ ابوبکر وعمر نہ وہاں موجود ہی تھے نہ انہوں نے اس واقعہ کو دیکھا، نہ سنا اور نہ اس پر اپنے یقین و اعتقاد کا اظہار ہی کیا تو پھر ان کے بارے میں کیونکر فرمایا کہ ابوبکر وعمر بھی ایمان لائے دراصل آپ ﷺ نے یہ اس معنی میں کہی تھی کہ یہ واقعہ یعنی گائے کا بات کرنا، ایک حقیقت ہے، جو اگر ابوبکر وعمر کے سامنے آئے تو وہ بھی فورًا اس پر ایمان لے آئیں۔ اس کی واقعیت میں ان دونوں کو ذرا بھی تردد اور شک نہیں ہوگا۔ ابوبکر وعمر اس مجلس میں موجود نہیں تھے یعنی آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کے بارے میں مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے تو اس وقت وہ دونوں ہی وہاں موجود نہیں تھے۔ پس ان کی عدم موجودگی میں آپ ﷺ کا اس طرح فرمانا درحقیقت ان دونوں کی قوت ایمانی اور ان کے درجہ کمال کی نہایت اعلی پیرایہ میں تعریف و توصیف کرنا تھا اس کو وضاحت کے ساتھ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان دونوں حضرات کو ایمان و اعتقاد اور کمال تعلق کے ساتھ بارگاہ رسالت میں تقریب اور حضوری کا جو خصوصی مقام حاصل تھا اس کی مدح و ستائش کی ایک عام صورت تو یہ تھی کہ دوسروں کے ساتھ یہ دونوں حضرات بھی اس وقت مجلس مبارک میں حاضر ہوتے اور آنحضرت ﷺ مذکورہ واقعہ پر اعتقاد و یقین کے اظہار میں اپنے ساتھ صرف ان دونوں کا ذکر کرکے ایمان و یقین کے تعلق سے ان کی خصوصی حیثیت اور ان کے خصوصی مرتبہ کو ظاہر فرماتے مگر جب آپ ﷺ نے ان دونوں کی غیر موجودگی میں مذکورہ الفاظ ارشاد فرماکر ان کی خصوصی حیثیت اور ان کے خصوصی مرتبہ کا اظہار فرمایا تو گویا ان کی مدح و ستائش کی وہ غیر معمولی صورت رونما ہوئی جس سے ان دونوں کا تمام صحابہ پر فضیلت و برتری رکھنا بھی معلوم ہوا اور صراحۃً یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ دونوں ایمان و یقین کے سب سے بلند درجہ پر ہیں۔ سبع کے دن یہ یوم السبع کا ترجمہ ہے اور سبع کا لفظ ب کے جزم کے ساتھ بھی نقل ہوا ہے اور پیش کے ساتھ بھی، نیز سبع کے دن کی وضاحت میں مختلف اقوال بیان ہوئے ہیں بعض حضرات نے لکھا ہے کہ سبع اور سباع کے معنی اچک لینا کے آتے ہیں یعنی کسی چیز کو بےکار ومہمل سمجھ کر چھوڑ دیا جائے اور کوئی اس کو اڑا کرلے جائے، چناچہ سبع کا لفظ بیکار ومہمل چیز کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اس اعتبار سے یوم السبع (ب کے جزم کے ساتھ) مراد فتنہ و فساد ہے یعنی جب لوگوں میں اختلاف و انتشار پھیل جائے گا اور آپس میں جنگ وجدال کرنے لگیں گے تو نہ کسی کو اپنے مویشیوں کا دھیان رہے گا اور نہ اپنی بکریوں کا اس وقت بکریاں اپنے گلہ بانوں کے بغیر ادھر ادھر ماری ماری پھریں گی، ان کا وارث نہیں ہوگا، پس بھیڑئیے نے قادر مطلق کے حکم سے انسانوں کی زبان میں چرواہے کو ان مصائب اور فتنوں سے آگاہ کیا جو آنے والے زمانوں میں وقوع پزیر ہونے والے تھے، بھیڑئیے نے طنز کیا کہ اس وقت دیکھوں گا تم میں کون شخص اپنی بکریوں کی حفاظت ونگہبانی کرتا نظر آئے گا۔ سب لوگ اپنے اپنے جھگڑوں میں مبتلا ہوں گے اور ان کی بکریوں کا میں نگہبان ہوں گا، مزے سے ان کو چٹ کروں گا اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یوم السبع (ب کے جزم کے ساتھ) ایک تہوار کو کہتے تھے جو زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کے یہاں منایا جاتا تھا، اس دن ایک خاص میلہ لگتا تھا اور تمام لوگ اس میلہ میں اس طرح آ آکر جمع ہوتے تھے کہ پھر ان کو کسی اور چیز کی کچھ خبر نہیں رہتی تھی، مویشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیتے تھے جو جنگل اور بیابانوں میں مارے مارے پھرتے تھے اور بھڑئیے بڑے اطمینان سے ان کو شکار بنا لیتے تھے، پس بھیڑئیے نے گویا زمانہ جاہلیت کے اسی تہوار کے دن کی یاد چرواہے کو دلائی کہ اس دن بکریوں کی رکھوالی کون کرتا تھا جو تم آج بڑے نگہبان اور رکھوالے بن کر آئے ہو یا یہ کہ عید کا دن تو اب بھی ہر سال آتا ہے، اب جب عید کا دن آئے گا اور تم عید کی مصروفیات میں لگے رہو گے تو پھر دیکھوں گا کہ تمہاری تمہاری بکریوں کی حفاظت کون کرتا ہے اور میرے چنگل سے کوئی بکری کیسے چھڑالی جائے گی۔ سبع (ب کے پیش کے ساتھ) کے معنی درندہ کے آتے ہیں اس صورت میں بھی یوم السبع کا مطلب مذکورہ بالامفہوم میں بیان کیا جاسکتا ہے یعنی یہ کہ جب فتنہ و فساد کا زور ہوگا اور لوگ اپنے اپنے جھگڑوں میں مبتلا ہوں گے یا فتنہ و فساد کے خوف سے مال اسباب چھوڑ کر اپنے گھروں سے بھاگ جائیں گے۔ توبکریاں اپنے وارث ولی کے بغیر پھریں گی، اس وقت درندہ یعنی بھیڑیا ہی ان کا نگہبان ہوگا اور مزے سے ان کو چٹ کرے گا، اس اعتبار سے وہ درندوں کا دن کہلائے گا اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ سبع (ب کے پیش کے ساتھ) کے معنی بھی تہوار کا دن کے آتے ہیں اور مشارق میں لکھا ہے کہ یہ لفظ دراصل یوم السبع (یعنی ب کے بجائے ی کے ساتھ) ہے جس سے مراد نقصان کا دن ہے کیونکہ سبع کا لفظ ضیاع (تلف ہوجانے، بےکار ہوجانے) کے معنی میں بھی آتا ہے۔

【3】

قدم قدم کے ساتھی اور شریک

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ (حضرت عمر فاروق کی وفات کے دن) اس وقت میں بھی ان لوگوں کے درمیان کھڑا تھا، جب حضرت عمر کا جسد خاکی (نہلانے کے لئے) تختہ مرگ پر رکھا ہوا تھا اور لوگ (یعنی حضرت عمر کے قریبی ساتھی واعزاء) کھڑے ہوئے ان کے حق میں دعائے خیرومغفرت کررہے تھے، اسی دوران اچانک میں نے محسوس کیا کہ میرے پیچھے کھڑے ہوئے کسی شخص نے اپنی ٹھوڑی میرے مونڈھے پر رکھی ہے۔ پھر اس شخص نے (حضرت عمر کو مخاطب کر کے) کہنا شروع کیا اللہ تعالیٰ کو رحمت آپ پر نازل ہو، بیشک میں پوری امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ (قبر میں یا جنت میں) آپ کو آپ کے دونوں دوستوں (یعنی آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر) کے ساتھ ہی رکھے گا، کیونکہ میں رسول کریم ﷺ کی زبان سے اکثر یہی الفاظ سنتا تھا کہ میں (فلاں جگہ) تھا اور ابوبکر وعمر بھی ( میرے ساتھ تھے) میں نے (امور عبادت سے معمولات زندگی میں فلاں کام) کیا اور ابوبکر و عمر بھی (میرے شریک کار تھے) میں (فلاں مقام پر) گیا اور ابوبکر وعمر بھی ( میرے ساتھ تھے) میں (فلاں مسجد یا فلاں مکان میں) داخل ہوا اور ابوبکر و عمر بھی (میرے ساتھ تھے) میں (فلاں مکان یا فلاں جگہ سے) باہر آیا اور ابوبکر و عمر بھی (میرے ساتھ تھے) میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ الفاظ کہنے والے علی ابن ابی طالب تھے (بخاری ومسلم )

【4】

ابو بکر و عمر علیین میں بلند تر مقام پر ہوں گے

اور حضرت ابوسعید خدری راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنتی لوگ علیین والوں کو (نہایت بلندی پر) اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم کنارہ آسمان کے بہت روشن ستارہ کو دیکھتے ہو۔ اور ابوبکر وعمر علیین والوں میں سے ہیں، بلکہ (اپنے عزاز ورتبہ کے اعتبار سے) ان سے بڑھے ہوئے ہیں اس روایت کو بغوی نے (اپنی اسناد کے ساتھ) شرح السنۃ میں نقل کیا ہے، نیز اسی طرح کی روایت ابوداؤد ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے۔ تشریح علیین ساتویں آسمان پر ایک مقام کا نام ہے جہاں نیک بندوں کی ارواح چڑھ کر جاتی ہیں اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ علیین ملائکہ حفظہ کے دفتر کا نام ہے جہاں نیک لوگوں کے اعمال پہنچائے جاتے ہیں یا یہ کہ علیین جنت کے اس درجہ اور مقام کو کہتے ہیں جو تمام درجات سے زیادہ بلند اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ قریب ہے۔ بہت روشن ستارہ یہ الکوکب الدری کا ترجمہ ہے دری میں ی نسبت کی ہے اور در کے معنی بڑے موتی کے ہیں ستارہ کو بڑے موتی سے موسوم کرنا اس کی روشنی چمک اور صفائی کے اعتبار سے ہے۔

【5】

اہل جنت کے سردار

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں جتنے بھی ادھیڑ عمر والے ہوں، خواہ وہ اگلوں میں کے ہوں یا پچھلوں میں کے، ان سب کے سردار ابوبکر وعمر ہوں گے۔ سوائے نبیوں اور رسولوں کے (ترمذی) ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت علی (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح ظاہر ہے جنت میں تو کوئی بھی ادھیڑ عمر کا نہیں ہوگا سب جوان ہوں گے اس لئے ادھیڑ عمر والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ادھیڑ عمر میں اس دینا سے رخصت ہوں گے۔ اگلوں سے مراد گزشتہ امتوں کے لوگ مراد ہیں جن میں اصحاب کہف، آل فرعون کے اہل ایمان اور حضرت خضر بھی شامل ہیں بشرطیکہ وہ قول صحیح ہو جس کے مطابق حضرت خضر، نبی نہیں ولی ہیں اور پچھلوں سے مراد اس امت کے لوگ ہیں جن میں تمام اولیاء اللہ اور شہداء بھی شامل ہیں۔ سوائے نبیوں اور رسولوں کے کی قید سے حضرت عیسیٰ اور دوسرے نبیوں رسولوں کا بھی استثناء ہوگیا اور ان حضرات کے مطابق حضرت خضر بھی مستثنیٰ ہوگئے جن کا کہنا ہے کہ حضرت خضر نبی ہیں۔

【6】

ابوبکر وعمر کی خلافت حکم نبوی ﷺ کے مطابق تھی

اور حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (ایک دن) فرمانے لگے مجھے نہیں معلوم تمہارے درمیان میری زندگی اب کتنی باقی رہ گئی ہے (ابھی کچھ دن اور جینا مقدر ہے یا وقت موعود قریب آگیا ہے) لہٰذا (آگاہ کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ) تم لوگ میرے بعد ان دونوں کی پیروی کرنا (جو یکے بعد دیگرے میرے جانشین اور خلیفہ ہوں گے) اور وہ ابوبکر وعمر ہیں۔ (ترمذی ) ۔

【7】

ایک اور خصوصیت

اور حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو (پاس ادب سے سب کی نگاہیں نیچی ہوجاتی تھیں یا یہ کہ آپ کی ہیبت سے) کوئی اپنا سر اوپر نہیں اٹھا سکتا تھا سوائے ابوبکر وعمر کے (صرف یہی دو اصحاب تھے جو روئے مبارک کی طرف نظر اٹھانے کی تاب رکھتے تھے) یہ دونوں آپ ﷺ کو دیکھتے ہی مسکرانے لگتے تھے اور آنحضرت ﷺ ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا ٹھتے تھے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح یہ محبت کی خاصیت اور باہم محبت رکھنے والوں کی عادت ہے کہ جب آپس میں ایک دوسرے پر نظر پڑتی ہے تو بےاختیار مسکرانے لگتے ہیں اور شاداں وفرحاں ہوجاتے ہیں۔

【8】

قیامت کے دن ابوبکر وعمر حضور کے ساتھ اٹھینگے

اور حضرت ابن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ حجرہ شریف سے نکل کر مسجد میں داخل ہوئے کہ ابوبکر وعمر (رض) میں سے ایک صاحب آپ کی دائیں طرف تھے اور ایک صاحب بائیں طرف اور آپ ﷺ نے ان دونوں کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھے اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہمیں اسی طرح اٹھایا جائے گا، (یعنی ہم تینوں اپنی قبروں سے اسی طرح ایک ساتھ اٹھیں گے اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے میدان حشر تک پہنچیں گے) اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【9】

خصوصی حیثیت واہمیت

اور حضرت عبداللہ ابن حنطب (رح) (تابعی) کی روایت ہے کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کو دیکھ کر فرمایا یہ دونوں بمنزلہ، کان اور آنکھ کے ہیں۔ اس روایت کو ترمذی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ تشریح مطلب یہ کہ جس طرح جسم کے اعضاء کان اور آنکھ اپنی خصوصی اہمیت و حیثیت کی بناء پر سب سے زیادہ خوبی و عمدگی رکھتے ہیں اسی طرح یہ دونوں (حضرت ابوبکر وعمر (رض) اپنی خصوصی اہمیت و حیثیت کے اعتبار سے ملت اسلامیہ میں سب سے زیادہ شرف و فضیلت رکھتے ہیں۔ اور بعض حضرات نے تقریبا یہی مطلب یوں لکھا ہے کہ دین میں ان دونوں کی وہی حیثیت و اہمیت ہے جو اعضاء جسم میں کان اور آنکھ کی، یا اس ارشاد گرامی ﷺ کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں میرے لئے بمنزلہ کان اور آنکھ کے ہیں کہ میں ان کے واسطہ سے دیکھتا ہوں اور ان کے واسطہ سے سنتا ہوں۔ یہ مطلب اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپ ﷺ نے ان دونوں حضرات کو اپنے کان اور اپنی آنکھ سے تعبیر کرکے گویا یہ واضح فرمایا کہ یہ دونوں میرے وزیر، میرے نائب اور میرے وکیل ومشیر ہیں۔ اور یا یہ کہ ان دونوں کو بمنزلہ کان اور آنکھ کے قرار دینا درحقیقت اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ حق سننے اور اس کی اتباع کرنے اور ذات و کائنات میں حق کا مشاہدہ کرنے میں یہ دونوں بہت حریص ہیں۔

【10】

وزراء رسالت

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں۔ پس آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر تو جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر وعمر (رض) ہیں۔ (ترمذی) تشریح آسمان والوں سے مراد فرشتے ہیں، ان فرشتوں میں سے جو دو فرشتے نبی اور رسول کے وزیر مقرر ہوتے ہیں ان کا کام عالم ملکوت سے اس نبی اور رسول کی امداد واعانت کرنا ہوتا ہے۔ زمین والوں سے مراد اس نبی اور رسول کی امت کے لوگ اور اس کے رفقاء اور محبین ہیں، ان رفقاء ومحبین میں سے دو آدمی اس نبی اور رسول کے بہت قریب اور بہت زیادہ دانا دور اندیش اور با صلاحیت ہوتے ہیں ان کا وہی مقام و مرتبہ ہوتا ہے جو کسی بادشاہ کے وزیروں کا ان دونوں وزیروں کا کام اس عالم ناسوت میں اپنے نبی و رسول کی خدمت و نصرت کرنا ہوتا ہے اور جب کوئی مشورہ طلب مسئلہ پیش آتا ہے تو نبی و رسول ان سے مشورہ کرتا ہے۔ اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور حضرت میکائیل (علیہ السلام) (بلکہ تمام فرشتوں) سے افضل و اعلی ہیں اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل واعلی ہیں جب کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تمام لوگوں میں سب سے افضل واعلی ہیں نیز ابوبکر وعمر (رض) کے الفاظ اس حقیقت کی دلیل ہیں کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر (رض) سے افضل ہیں کیونکہ ان الفاظ میں حرف و اگرچہ مطلق جمع کے لئے ہے لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ صاحب حکمت و دانائی کا کلام ہے اور ممکن نہیں کہ ان دونوں ناموں کے ذکر میں مذکورہ ترتیب (کہ پہلے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا نام آیا اور پھر حضرت عمر (رض) کا) حکمت و مصلحت سے خالی ہو اور حکمت و مصلحت اس کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے کہ جب دو ناموں کا ایک ساتھ ذکر کیا جاتا ہے تو پہلے وہی نام آتا ہے جو دوسرے سے افضل واعلی ہوتا ہے۔

【11】

خلافت نبوت ابوبکر وعمر پر منتہی

اور حضرت ابی بکرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک شخص نے عرض کیا کہ میں خواب میں دیکھا کہ گویا ایک ترازو آسمان سے اتری اور (اس ترازو میں) آپ ﷺ کو اور ابوبکر (رض) کو تولا گیا تو آپ کا وزن زیادہ رہا پھر ابوبکر اور عمر (رض) کو تولا گیا تو ابوبکر (رض) کا وزن زیادہ رہا اور پھر عمر اور عثمان (رض) کو تولا گیا، تو عمر (رض) کا وزن زیادہ رہا۔ اس کے بعد ترازو کا اٹھا لیا گیا۔ رسول کریم ﷺ اس شخص کے اس خواب سے غمگین ہوگئے، یعنی اس خواب نے آپ ﷺ کو رنجیدہ بنادیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا یہ خلافت نبوت ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا ملک عطا فرما دے گا۔ (ترمذی ) تشریح غمگین ہوگئے یعنی آپ ﷺ نے اس خواب کو سن کر یہ تعبیر لی کہ عمر (رض) کی خلافت کے بعد فتنوں کا دور شروع ہوجائے گا، دینی وملی امور میں انتشار واضمحلال آجائے گا اور عالم اسلام کی اس شان و شوکت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں اپنا اثر دکھانے لگیں گے جو خلافت عمر (رض) میں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہوں گی۔ یہ خلافت نبوت ہے یعنی ابوبکر اور عمر (رض) کی خلافت ہی حقیقی معنی میں خالص خلافت نبوت کہلانے کی مستحق ہوگی جس میں بادشاہت وملوکیت کی ذرا بھی آمیزش نہیں ہوگی اور ان کی خلافت کا زمانہ ابوبکر وعمر (رض) پر کامل ومنتہی ہوگا عمر (رض) کے بعد خلافت کا جو دور آئے گا اس میں ملوکیت (بادشاہت) کی آمیزش در آئے گی۔ نبوت اور خلافت نبوت کے منہاج کے خلاف کچھ باتیں شامل ہوجائیں گی اور حکومت وملت کے انتظامی ڈھانچے میں بعض بےقاعدگیاں راہ پاجائیں گی اور پھر خلافت اربعہ کے بعد تو پوری طرح ملوکیت قائم ہوجائے گی جس کو گزندہ بادشاہت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ رہی بات کہ ترازو کے اٹھ جانے سے مذکورہ تعبیر کس بناء پر سمجھی گئی تو اس کو اس سیاق میں دیکھنا چاہیے کہ ایک دوسرے کے ساتھ انہی چیزوں کو تولا جاتا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے لگ بھگ ہوں، جو چیز آپس میں بعید ومتبائن (ان میل) ہوں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ تولنا کوئی معنی نہیں رکھتا اس لئے ترازو کا اٹھا لیا جانا اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تولنے کا سلسلہ موقوف ہوجانا اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ جو چیزیں آپس میں ایک دوسرے کے لگ بھگ ہوسکتی ہیں اور جن کا تولا جانا مقصود ہوسکتا ہے وہ ختم ہوچکی ہیں اسی بنیاد پر آنحضرت ﷺ نے تعبیر لی کہ یہ خواب ابوبکر اور عمر (رض) کے بعد امر خلافت میں انحطاط کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ابوبکر (رض) کا وزن زیادہ رہا سے یہ مطلب نکلا کہ حضرت ابوبکر حضرت عمر (رض) سے افضل ہیں، اسی طرح عمر کا وزن زیادہ رہا کا یہ مطلب ہوا کہ حضرت عمر حضرت عثمان سے افضل ہیں۔ خواب دیکھنے والے نے حضرت عثمان اور حضرت علی (رض) کا تولا جانا نہیں دیکھا۔ یہ طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت عثمان اور حضرت علی (رض) کا تفاضل کا مسئلہ سلف کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے کہ جیسا کہ بعض کتب کلامیہ مذکور بھی ہے۔

【12】

ابو بکر وعمر کے جنتی ہونے کی شہادت

حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ (ایک دن) فرمانے لگے (دیکھو ابھی) تمہارے سامنے ایک شخص آئے گا جو جنتیوں میں سے ہے پس (آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہی تھا کہ) حضرت ابوبکر سامنے سے آتے ہوئے نظر آئے۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا (دیکھوابھی) تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آئے گا جو جنتیوں میں سے ہے پس (آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہی تھا کہ) حضرت عمر سامنے سے آتے نظر آئے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح جنت کی بشارت مختلف احادیث میں متعدد صحابہ کے لئے آئی ہے، اس حدیث میں یہ بشارت چونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے لئے ایک ساتھ مذکور ہے اس لئے اس حدیث کو یہاں نقل کیا گیا۔

【13】

حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی نیکیاں

اور حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک چاندنی رات میں جب کہ رسول کریم ﷺ کا سر مبارک میری گود میں تھا میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ! کیا کسی کی اتنی نیکیاں بھی ہیں جتنے آسمان پر ستارے ہیں ؟ آپ ﷺ فرمایا ہاں وہ عمر ہیں ( جن کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں) پھر میں نے عرض کیا کہ ابوبکر کی نیکیوں کا کیا حال ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا عمر کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی کے برابر ہیں۔ (رزین) تشریح ایک نیکی کے برابر ہیں مطلب یہ کہ ابوبکر کی نیکیاں عمر کی نیکیوں سے کہیں زیادہ ہیں اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ عمر کی نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں سے کہیں زیادہ ہیں تو بھی ابوبکر افضل ہیں کیونکہ ان کو کمال اخلاص اور شہود معرفت کا جو خصوصی مرتبہ حاصل ہے اس نے ان کی نیکیوں کو کیفیت و حیثیت کے اعتبار سے سب سے زیادہ گرانقدر اور بلند مرتبہ بنادیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے ابوبکر کو تم پر فضیلت و برتری حاصل ہے وہ اس بناء پر نہیں ہے کہ ان کی نمازیں تمہاری نمازوں سے زیادہ ہیں اور ان کی روزے تمہارے روزوں سے زیادہ ہیں بلکہ اس جو ہر کی بناء پر ہے جو ان کے دل میں رکھا گیا ہے۔