191. حضرت عثمان کے مناقب کا بیان

【1】

حضرت عثمان کے مناقب کا بیان

ام المؤمنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں (ایک دن) رسول کریم ﷺ اپنے گھر میں اپنی رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے لیٹے تھے کہ حضرت ابوبکر نے حاضری کی اجازت چاہی، آپ ﷺ نے انہیں اندر بلالیا اور اسی حالت میں لیٹے رہے، حضرت ابوبکر (کچھ دیر تک بیٹھے) آپ ﷺ سے باتیں کرتے رہے پھر حضرت عمر نے حاضری کی اجازت چاہی، آپ ﷺ نے انہیں اندر بلالیا اور اسی طرح لیٹے رہے حضرت عمر (بھی کچھ دیر تک بیٹھے) آپ ﷺ سے باتیں کرتے رہے اور پھر جب حضرت عثمان نے حاضری کی اجازت چاہی ( اور اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئے) تو رسول کریم ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کپڑوں کو درست کرلیا (یعنی رانیں یا پنڈلیاں ڈھک لیں) جب حضرت عثمان ( اور خدمت اقدس میں حاضر دوسرے لوگ) چلے گئے تو عائشہ نے عرض کیا کہ حضرت ابوبکر اندر تو آپ نے نہ جنبش کی اور نہ ان کی پرواہ کی، (بلکہ اسی طرح لیٹے رہے اور اپنے کپڑے بھی درست نہیں کئے نہیں) اسی طرح حضرت عمر اندر آئے تو آپ ﷺ نے اس وقت بھی نہ حرکت کی اور نہ ان کی پرواہ کی، مگر جب حضرت عثمان اندر داخل ہوئے تو آپ فورًا اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کرلئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے حیاء کرتے ہیں اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ عثمان بہت حیادار آدمی ہیں میں نے محسوس کیا کہ اگر میں نے عثمان کو اسی حالت میں بلالیا (کہ میری رانیں یا پنڈلی کھلی ہوئی ہوں) تو وہ مجھ سے اپنا مقصد پورا نہیں کریں گے یعنی اگر وہ مجھ کو اس حالت میں دیکھیں کے تو غلبہ ادب اور شرم وحیا سے میرے پاس نہیں بیٹھیں گے اور جس مقصد سے یہاں آئے ہیں اس کو پورا کئے بغیر واپس چلے جائیں گے۔ (مسلم ) تشریح اپنی رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے حدیث کی شرح میں اس عبارت کے تحت امام نووی نے لکھا ہے کہ مالکی اور دوسرے حضرات نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ران جسم کا وہ حصہ ہے جس کو ستر میں شمار کیا جائے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ اول تو یہی بات یقینی نہیں ہے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ اپنی رانیں کھولے ہوئے لیٹے تھے اگر یہ یقینی ہوتا تو حدیث کے راوی کو اپنی رانیں یا پنڈلیاں کے الفاظ سے یہ شک وتردد ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کہ اس وقت آنحضرت ﷺ اپنے جسم مبارک کا جو حصہ کھولے ہوئے لیٹے تھے وہ رانیں تھیں یا پنڈلیاں ؟ جب الفاظ حدیث سے رانوں کا کھولنا یقینی طور پر ثابت نہیں تو پھر رانوں کا ستر نہ ہونا یعنی رانیں کھولنے کا جواز اس حدیث سے ثابت کرنا غیرموزوں بات ہے دوسرے اس بات کا قریبی امکان ہے کہ رانیں کھولنے سے مراد رانوں پر سے کرتے کا دامن ہٹا ہونا ہو یعنی ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ﷺ کی رانیں بالکل کھلی ہوئی تھیں کہ ان پر نہ تہبند تھا اور نہ کرتے کا دامن بلکہ یہ مطلب ہے کہ آپ ﷺ نے تہبند تو باندھ رکھا تھا جس میں رانیں چھپی ہوئی تھیں مگر رانوں کے اوپر سے کرتے کا دامن ہٹا ہوا تھا، اس کی تائید نہ صرف یہ کہ آگے کی عبارت سے سمجھ میں آتی ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کی عادت، مزاج اور اس معمول کے پیش بھی یہی بات زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے جو آل واصحاب کے ساتھ مخالطت ومجالست کے مواقع پر آپ ﷺ کا تھا۔ اور کپڑوں کو درست کرلیا ان الفاظ میں اس طرف واضح اشارہ ہے کہ آپ ﷺ رانوں یا پنڈلیوں میں سے کوئی بھی عضو پوری طرح کھولے ہوئے نہیں لیٹے تھے بلکہ تہبند کے علاوہ اور کوئی کپڑا رانوں یا پنڈلیوں پر نہیں تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رانیں پوری طرح کھلی ہوئی ہوتیں تو یہاں وسوی ثیابہ (اور کپڑوں کو درست کرلیا) کے بجائے یہ الفاظ ہوتے کہ وستر فخذیہ (اور اپنی رانوں کو ڈھک لیا ) ۔ جس سے فرشتے حیاء کرتے ہیں امام نووی نے لکھا ہے کہ یہ ارشاد گرامی حضرت عثمان کی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ حیاء فرشتوں کی ایک اعلی صفت ہے جو مذکورہ الفاظ کے ذریعہ حضرت عثمان میں ثابت کی گئی ہے اور مظہر نے لکھا ہے یہ الفاظ حضرت عثمان کی اس عزت و توقیر کو ظاہر کرتے ہیں، جو آنحضرت ﷺ کے نزدیک تھی لیکن اس سے نہ تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے اس مقام و مرتبہ پر کوئی فرق پڑتا ہے جو بارگاہ رسالت ﷺ میں ان کو حاصل تھا اور نہ یہ لازم آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان کی بہ نسبت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی، دراصل حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو تعلق، محبت اور قربت کا جو خصوصی مقام بارگارہ رسالت میں حاصل تھا وہ اسی بےتکلفی کا متقاضی تھا، جس کا اظہاران دونوں کی آمد پر آنحضرت ﷺ نے کیا کہ جس طرح لیٹے تھے اسی طرح لیٹے رہ گئے۔ سب جانتے ہیں، جیسا کہ کہا گیا ہے اذا حصلت الالفۃ بطلت الکفۃ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ حدیث فضیلت عثمان کے موضوع سے زیادہ فضیلت ابوبکر وعمر کے موضوع سے تعلق رکھتی نظر آتی ہے مگر حدیث کا ظاہری مفہوم اور اس کا سیاق وسباق چونکہ حضرت عثمان کی تعظیم و توقیر پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس حدیث کو حضرت عثمان کے مناقب کے باب میں ذکر کرنا ہی زیادہ موزوں ہے یہ حقیقت بھی ذہن میں رہنے چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کے رفقاء و صحابہ میں سے جو شخص جس صفت کا زیادہ حامل ہوتا تھا اور جس کی طبیعت ومزاج پر جس خصلت و خوبی کا غلبہ ہوتا تھا آپ اسی صفت وخصلت کی رعایت سے اس کے ساتھ سلوک فرماتے تھے، چناچہ حضرت عثمان پر چونکہ صفت حیاء کا غلبہ تھا اس لئے آپ ہمیشہ ان کا حجاب ولحاظ کرتے تھے جب کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر چونکہ آپ سے بہت بےتکلف تھے اس لئے ان کے ساتھ بےتکلفی کا معاملہ رکھتے تھے۔ فرشتوں نے حضرت عثمان سے جن مواقع پر حیاء کی ہے ان میں سے ایک یہ نقل کیا گیا ہے کہ مدینہ میں ایک قضیہ کے دوران حضرت عثمان جو آگے بڑھے تو ان کا سینہ کھل گیا اور فرشتے فورا پیچھے ہٹ گئے۔ اسی وقت آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان کو متوجہ کیا کہ اپنا سینہ ڈھک لیں۔ اس کے بعد فرشتے اپنی جگہ واپس آگئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان فرشتوں سے ان کے پیچھے ہٹنے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ عثمان کی حیاء سے ہم پیچھے ہٹ گئے تھے اور جب انہوں نے آپ ﷺ کے توجہ دلانے پر اپنا سینہ ڈھک لیا تو ہم اپنی جگہ پر واپس آگئے۔

【2】

حضرت عثمان آنحضرت ﷺ کے رفیق جنت ہیں

حضرت طلحہ ابن عبیداللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر نبی کا ایک رفیق (یعنی ہمراہی اور مہربان ساتھی ودوست) ہوتا اور میرے رفیق، یعنی جنت میں عثمان ہیں، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور ابن ماجہ نے بھی یہ روایت حضرت ابوہریرہ (رض) نقل کی ہے نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ اور اس کی اسناد قوی نہیں ہے اور یہ منقطع ہے۔ تشریح یعنی جنت میں یعنی فی الجنت یہ جملہ معترضہ ہے جو مبتدا اور خبر کے درمیان واقع ہوا ہے اور یہ آنحضرت ﷺ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ یا تو خو حضرت طلحہ نے یا کسی اور راوی نے کسی قرینہ کی بنیاد پر ان الفاظ کے ذریعہ یہاں پر وضاحت کی کہ میرے رفیق عثمان ہیں سے آنحضرت ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جنت میں میرے رفیق عثمان ہیں، بہرحال الفاظ حدیث سے یہ بات ہرگز مفہوم نہیں ہوتی کہ حضرت عثمان کے علاوہ اور کسی کو آنحضرت ﷺ نے اپنا رفیق قرار نہیں دیا تھا اور اسی لئے اس حدیث کو اس روایت کے منافی نہیں کہا جاسکتا ہے جو طبرانی نے حضرت ابن مسعود (رض) نقل کی ہے اور جس کا بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر نبی اپنے اصحاب میں سے کسی کو اپنا مقرب اور مخصوص دوست بنالیتا ہے، میرے اصحاب میں سے میرے مقرب اور مخصوص دوست ابوبکر اور عمر ہیں ہاں یہ بات ضرور معلوم ہوئی کہ ہر نبی ایک ہی رفیق رکھتا تھا جب کہ آنحضرت ﷺ کے متعدد رفیق تھے۔ یہ حدیث غریب ہے کہ یہ غرابت مضمون حدیث کے صحیح ہونے کے منافی نہیں ہے اسی لئے ترمذی نے وضاحت کی کہ اس کی اسناد میں ضعف ہے اور باعتبار اسناد کے اس کو منقطع کہا گیا ہے بہرحال ترمذی کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ روایت ضعیف ہے لیکن فضائل کے باب میں ضعیف روایت کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس حدیث کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس کو ابن عساکر نے حضرت ابوہریرہ (رض) نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا لکل نبی خلیل فی امتہ وان خلیلی عثمان ابن عفان۔ ہر نبی اپنی امت میں سے کسی کو اپنا مخصوص دوست بنا لیتا ہے اور میرے مخصوص دوست عثمان ابن عفان ہیں۔

【3】

راہ اللہ میں مالی ایثار

اور حضرت عبدالرحمن ابن خباب بیان کرتے ہیں اس وقت میں بھی نبی کریم ﷺ کی مجلس مبارک میں حاضر تھا جب آپ جیش عسرۃ (جنگ عسرۃ) کی مالی امداد کے لئے لوگوں کو جوش دلا رہے تھے۔ حضرت عثمان (آپ ﷺ کی پر جوش تلقین سن کر) کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ کی راہ میں کام آنے کے لئے سو اونٹ مع ان کی جھولوں اور پالانوں کے میں اپنے ذمہ لیتا ہوں (یعنی اس جنگ کے لئے میں اللہ کی راہ میں سو اونٹ مع ان کے سازو و سامان کے پیش کرتا ہوں) اس کے بعد (اسی مجلس میں یا کسی اور موقع پر) آنحضرت ﷺ نے پھر لوگوں کو اس جنگ کے لئے امداد ومعاونت کی طرف متوجہ اور راغب کیا تو حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ (پہلے سو اونٹوں کے علاوہ مزید) دو سو اونٹ مع ان کی جھولوں اور پالانوں کے اللہ کی راہ میں اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ پس (حضرت عبدالرحمن ابن خباب کہتے ہیں کہ) میں نے دیکھا رسول کریم ﷺ منبر سے اترتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اس عمل کے بعد اب عثمان جو بھی کریں ان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا، اس کے بعد اب عثمان جو بھی کریں ان سے ان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ (ترمذی ) تشریح جیش عسرۃ اس اسلامی لشکر کو کہتے ہیں کہ جو غزوہ تبوک کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ دراصل عسرۃ تنگی اور مالی اور بدحالی کو کہتے ہیں اور وہ زمانہ کہ جنگ تبوک کا مرحلہ درپیش تھا مسلمانوں کے لئے سخت عسرت وتنگی کا تھا، ایک طرف تو خشک سالی اور قحط نے نہ صرف یہ کہ غذا اور پانی کی کمیابی کے سبب انسانوں کو درخت کے پتے کھانے اور منہ کی خشکی دور کرنے کے لئے اونٹوں کی اوجھڑی نچوڑنے پر مجبور کر رکھا تھا، دوسری طرف مسلمانوں کی کمی اور ان کے مقابلہ پر دشمنوں کی کثرت، محاذ جنگ کی نہایت دوری سامان جنگ اور زاد راہ کی کمی، شدید گرمی اور دھوپ اور بےسروسامانی کی پریشانی نے نہایت سخت صورت حال پیدا کر رکھی تھی۔ اس لئے جنگ تبوک کے لشکر کا نام جیش عسرۃ (پریشان حال لشکر) ہوگیا۔ اس روایت کے مطابق حضرت عثمان نے چھ سو اونٹ اس لشکر کے لئے اللہ کی راہ میں پیش کئے، پہلی مرتبہ سو اونٹ پیش کئے، پھر دو سو اونٹ اور پھر تین سو اونٹ، اس طرح کل ملا کر چھ سو اونٹ کی پیش کش ان کی طرف سے ہوئی۔ اور بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت عثمان نے غزوہ تبوک کے ساڑھے نوسو اونٹ اپنی طرف سے پیش کئے تھے۔ اور ہزار کا عدد پورا کرنے کے لئے پچاس گھوڑے بھی دئیے تھے۔ حضرت عثمان کے اس زبردست مالی ایثار اور ان کے حوصلہ پر آنحضرت ﷺ نے جو الفاظ ارشاد فرمائے اور اہمیت ظاہر کرنے کے لئے بار بار ارشاد فرمائے ان کا حاصل یہ تھا کہ عثمان کا یہ عمل نہ صرف یہ کہ ان کے گزشتہ گنا ہوں اور لغزشوں کا کفارہ بن گیا ہے بلکہ آئندہ بھی بالفرض ان سے کوئی خطا صادر ہو تو وہ اس عمل کے سبب معاف ہوجائے گی پس ان الفاظ میں گویا اس بشارت کی طرف اشارہ تھا کہ عثمان کو خاتمہ بخیر کی سعادت حاصل ہوگی۔ اور ایک شارح نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اس عمل کے بعد عثمان اب اگر از قسم نفل (نہ کہ ازقسم فرض) کوئی عبادت اور کوئی نیک کام نہ کریں تو ان کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ ان کا یہ عظیم عمل تمام نفل عبادتوں اور نیکیوں کے واسطے کافی ہوگیا ہے۔

【4】

ایثار عثمان

اور حضرت عبدالرحمن ابن سمرۃ کہتے ہیں کہ اس وقت جب کہ جیش عسرۃ یعنی لشکر تبوک کا سامان جہاد تیار اور فراہم کیا جارہا تھا حضرت عثمان ایک ہزار دینار اپنے کرتہ کی آستین میں بھر کر نبی کریم ﷺ کے پاس لائے اور ان کو آپ ﷺ کی گود میں بکھیردیا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ ان دیناروں کو اپنی گود میں الٹ پلٹ کر دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔ آج کے اس مالی ایثار کے بعد عثمان سے اگر کوئی گناہ بھی سرزد ہوجائے تو ان کا کچھ نہیں بگڑے گا، یہ الفاظ آپ ﷺ نے دو مرتبہ ارشاد فرمائے۔ (احمد) تشریح ایک روایت عبدالرحمن ابن عوف سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے بیان کیا میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر تھا جب حضرت عثمان جیش عسرۃ کے لئے سونے کے نوسو اوقیہ لے کر آئے اس طرح جیش عسرۃ کے لئے حضرت عثمان کی مالی امداد ومعاونت کے سلسلہ میں متعدد روایتیں ہوجاتی ہیں جو باہم مختلف ہیں۔ اور جن سے تناقض کا گمان ہوسکتا ہے اس لئے ان روایتوں میں تطبیق کی خاطر یہ وضاحت ضروری ہے کہ دراصل حضرت عثمان نے پہلے تو چھ سو اونٹ مع ان کے سازو سامان کے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کئے۔ جیسا کہ پہلی حدیث میں گزرا، پھر اہل لشکر کی دوسری ضروریات کی فراہمی کے لئے انہوں نے کچھ نقد امداد دینا بھی ضروری سمجھا اور ایک ہزار دینار لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اس کے بعد انہوں نے محسوس کیا ہوگا کہ اہل لشکر کے لئے سواری کے مزید انتظام کی ضرورت ہے۔ اور دوسری ضروریات کی فراہمی کے لئے مزید نقدی بھی درکار ہوگی تو انہوں نے ایک طرف تو مزید اونٹ اور پچاس گھوڑے پیش کرکے ہزار کا عدد پورا کردیا اور دوسری طرف مزید نوسواوقیہ سونا دے کر ایک ہزار دینار میں بھی اضافہ کردیا۔

【5】

حضرت عثمان کی ایک فضیلت

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بیت رضوان کا حکم دیا تو اس وقت حضرت عثمان غنی رسول کریم ﷺ کے نمائندہ خصوصی کی حیثیث سے مکہ گئے ہوئے تھے۔ چناچہ آپ ﷺ نے لوگوں سے (جاں نثاری کی) بیعت لی اور (جب تمام مسلمان بیعت کرچکے اور حضرت عثمان وہاں موجود نہیں تھے تو) رسول کریم ﷺ نے فرمایا عثمان ! اللہ (کے دین) اور اللہ کے رسول کے کام پر گئے ہوئے ہیں اور (یہ کہہ کر) آپ ﷺ نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا پس رسول کریم ﷺ کا وہ ہاتھ جو حضرت عثمان کی طرف سے تھا باقی تمام صحابہ کے ان ہاتھوں سے کہیں افضل و بہتر تھا جو ان کے اپنی طرف سے تھے۔ (ترمذی) تشریح بیعت رضوان اس بیعت کو کہتے ہیں جو مکہ سے تقریبا پندرہ سولہ میل کے فاصلہ پر مقام حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر آنحضرت ﷺ نے تمام مسلمانوں سے لی تھی۔ یہ نام قرآن کریم کی اس آیت سے ماخوذ ہے جو اسی واقعہ سے متعلق نازل ہوئی تھی۔ (لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ) 48 ۔ الفتح 18) بالتحقیق اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے خوش ہوا جب کہ یہ لوگ آپ ﷺ سے درخت (سمر) کے نیچے بیعت کررہے تھے۔ اس واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ ذی قعدہ ٦ ھ میں آنحضرت ﷺ اہل اسلام کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ عمرہ کے لئے مکہ روانہ ہوئے جب حدیبیہ کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ قریش مکہ نے مسلمانوں کو عمرہ کے لئے مکہ میں داخل ہونے کی اجازت سے انکار کردیا ہے آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان کو اپنا نمائندہ خصوصی بنا کر قریش مکہ کے پاس روانہ کیا تاکہ وہ ان کو سمجھائیں۔ کہ مسلمانوں کی آمد کا مقصد جنگ وجدال نہیں ہے بلکہ صرف عمرہ کرنا ہے لہٰذا اہل مکہ کو چاہئے کہ مسلمانوں کو عمرہ کے لئے مکہ میں داخل ہونے دیں، حضرت عثمان اپنے مشن پر مکہ میں تھے کہ یہاں حدیبیہ میں مشہور ہوگیا کہ حضرت عثمان کو اہل مکہ نے قتل کردیا ہے یہ شہرت سن کر۔ یہ شہرت سن کر مسلمانوں میں سخت اضطراب وہیجان پیدا ہوگیا اور طے ہوا کہ خون عثمان کا بدلہ لیا جائے گا، چناچہ اسی موقع پر آنحضرت ﷺ نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تمام مسلمانوں سے اس بات کا عہد و اقرار لیا کہ اپنی جانوں کی بازی لگا کر خون عثمان کا بدلہ اہل مکہ سے لیں گے، صحابہ میں ایک ایک آدمی آتا تھا اور آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مار کر بیعت کرتا تھا، جب سب لوگ بیعت کرچکے تو آنحضرت ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ کو حضرت عثمان کے ہاتھ کے قائم مقام کیا اور اس ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ پر مار کر گویا حضرت عثمان کی طرف سے بیعت کی۔ اس طرح حضرت عثمان کو خصوصی فضیلت حاصل ہوئی، کہ اگر وہ خود اس موقعہ پر موجود ہوتے اور اپنا ہاتھ آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر مار کر بیعت کرتے جیسا کہ اور لوگوں نے کیا تو ان کو یہ شرف نصیب نہ ہوتا کہ آنحضرت ﷺ کا دست مبارک ان کے ہاتھ کے قائم مقام ہوا اور اس بناء پر ان کی طبیعت گویا سب لوگوں کی طبیعت سے افضل و اشرف رہی۔ پس اس موقع پر ان کا غیر موجود ہونا ان کے مرتبہ میں نقصان کا باعث نہ ہوا بلکہ فضیلت اور منقبت کا سبب بن گیا بعض حضرات کا کہنا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے جس ہاتھ کو حضرت عثمان کے ہاتھ کے قائم مقام کیا تھا وہ بایاں ہاتھ تھا لیکن زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ وہ دایاں ہاتھ تھا۔

【6】

باغیوں سے جراتمندانہ خطاب

اور حضرت ثمامہ ابن حزن قشیری بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت حضرت عثمان کے مکان پر موجود تھا (جب اس کو مفسدوں اور باغیوں کی ایک بڑی جماعت نے محاصرہ میں لے رکھا تھا اور اندر گھس کر حضرت عثمان کو قتل کردینا چاہتے تھے) حضرت عثمان نے اوپر سے جھانک کر ان باغیوں کو مخاطب کیا اور فرمایا میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم لوگوں سے پوچھتا ہوں، کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب رسول کریم ﷺ (مکہ سے ہجرت فرما کر) مدینہ میں تشریف لائے تھے تو اس وقت مدینہ میں رومہ کے کنویں کے علاوہ میٹھے پانی کا کنواں نہ تھا، پھر آنحضرت ﷺ نے جب یہ فرمایا تھا کہ کون شخص ہے جو رومہ کے کنویں کو خریدے اور اپنے ڈول کو مسلمانوں کا ڈول بنادے اس نیکی اور بہتر اجر کے بدلہ میں جو اس (کنویں کو خرید کر وقف کرنے والے) کو اس کنویں کے سبب جنت میں ملے گا۔ تو میں ہی تھا جس نے (آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر) اپنے اصل اور خالص مال سے اس کنویں کو خریدا اور آج مجھ کو اس کنویں کا پانی پینے سے روک رہے ہو یہاں تک کہ میں سمندر کا (یعنی سمندر جیسا کھاری (پانی پینے پر مجبور ہورہا ہوں، لوگوں نے (یہ سن کر) کہا ہاں اے اللہ ! ہمیں اس کا علم ہے (کہ عثمان ہی نے اس کنویں کو خرید کر وقف کیا تھا) پھر حضرت عثمان نے فرمایا میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب مسجد نبوی نمازیوں کی زیادتی کے سبب تنگ پڑنے لگی تھی تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کون شخص ہے جو فلاں شخص کی اولاد کی زمین خریدے اور اس کے ذریعہ مسجد کی توسیع کردے اس نیکی اور بہتر اجر کے بدلہ میں جو اس (زمین کو خرید کر مسجد کی توسیع کے لئے وقف کرنے والے) کو اس زمین کے سبب جنت ملے گی، پس یہ میں تھا جس نے اس زمین کو اپنے اصل اور خالص مال سے خریدا اور آج تم مجھ کو اسی زمین پر (چہ جائیکہ اصل مسجد میں) دو رکعت نماز پڑھنے سے روکتے ہو، لوگوں نے (یہ سن کر) کہا ہاں اے اللہ ! ہمیں اس کا علم ہے پھر حضرت عثمان نے فرمایا میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ میں ہی تھا جس نے جیش عسرۃ (یعنی غزوہ تبوک میں جانے والے لشکر) کی تیاری اپنے مال سے کرائی تھی (اور میری اس مالی خدمت پر آنحضرت ﷺ نے میرے حق میں جو قیمتی الفاظ ارشاد فرمائے تھے وہ میرے حسن حال اور حسن مال پر دلالت کرتے ہیں) لوگوں نے (یہ سن کر) کہا ہاں اے اللہ ! ہمیں معلوم ہے، پھر حضرت عثمان نے فرمایا میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں، کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ مکہ کی پہاڑی پر ثبیر پر کھڑے تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور میں بھی تھا اور جب وہ پہاڑی (اپنے اوپر آنحضرت ﷺ کو۔۔۔۔۔۔ باوجود کو دیکھ کر جوش مسرت سے) ہلنے لگی اور اس کے ہلنے سے پہاڑی پر پتھر نیچے کی سمت اور دامن کوہ میں گر نے لگے تو آنحضرت ﷺ نے پہاڑی کو ٹھوکر ماری اور فرمایا (اے ثبیر ! ٹھہر جا حرکت نہ کر، اس وقت تیرے اوپر ایک نبی ہے ایک صدیق ہے اور دو (حقیقی) شہید ہیں، لوگوں نے (یہ سن کر) کہا ہاں، اے اللہ ! ہمیں اس کا علم ہے اور پھر حضرت عثمان نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور کہا ان لوگوں نے میری باتوں کی تصدیق کی ہے رب کعبہ کی قسم میں یقینا شہید ہوں، یہ الفاظ انہوں نے تین بار فرمائے۔ (ترمذی، نسائی، دارقطنی) تشریح بئر رومہ کا کنواں یہ مدینہ کے اس بڑے کنویں کا نام ہے جو وادئ عقیق میں مسجد قبلتین کے شمالی جانب واقع ہے۔ اس کنویں کا پانی نہایت شریریں، لطیف اور پاکیزہ ہے۔ اس مناسبت سے کہ آنحضرت ﷺ کی بشارت کے مطابق اس کنویں کو خریدنے اور وقف کرنے کے سبب حضرت عثمان کا جنتی ہونا ثابت ہوا، اس کنویں کا ایک نام بئر جنت یعنی جنتی کنواں بھی مشہور ہے، اس زمانہ میں حضرت عثمان نے اس کنویں کو ایک لاکھ درہم کے عوض خریدا تھا۔ اور اپنے ڈول کو مسلمانوں کا ڈول بنا دے یہ وقف کرنے سے کنایہ ہے یعنی جو شخص اس کنویں کو خریدے اور اس کو اپنی ذاتی ملک قرار نہ دے بلکہ رفاعہ عام کے لئے وقف کردے تاکہ جس طرح خود وہ شخص اس کنویں سے فائدہ اٹھائے اسی طرح دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں اس سے۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ سقایات (یعنی کنواں، تالاب اور حوض وغیرہ) وقف کرنا جائز ہے اور یہ کہ وقف کی ہوئی چیز وقف کرنے والے کی ملکیت سے نکل جاتی ہے۔ ہاں، اے اللہ ان الفاظ کے ذریعہ ان لوگوں نے حضرت عثمان کی تصدیق کی کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس کی صداقت میں ہمیں ذرہ برابر شبہ نہیں ہے پہلے اللہم (اے اللہ) کا لفظ اسم الہٰی کے ساتھ حصول برکت کے لئے بھی تھا اور اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لئے بھی۔ فلاں شخص کی اولاد سے مراد انصار سے تعلق رکھنے والے خاندان کے وہ افراد تھے جو مسجد نبوی کے قریب آباد تھے اور ان کی ملکیت میں ایسی زمین تھی جس کو مسجد نبوی میں شامل کردینے سے مسجد شریف وسیع اور کشادہ ہوجاتی، لہٰذا آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو متوجہ کیا کہ جو شخص ہمت واستطاعت رکھتا ہو وہ اس زمین کو خرید کر مسجد میں شامل کرنے کے لئے وقف کردے اور حضرت عثمان غنی نے آنحضرت ﷺ کی خواہش کے مطابق اس زمین کو بیس ہزار یا پچیس ہزار درہم کے عوض خرید کر مسجد نبوی میں شامل کرنے کے لئے وقف کردیا، مسجد نبوی کی اصل تعمیر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہوئی تھی جب آنحضرت ﷺ نے ہجرت کے پہلے سال صحابہ کرام کے ساتھ ملکر اپنے دست مبارک سے اس مسجد کی تعمیر کی اور پھر ہجرت کے ساتویں سال آپ ﷺ نے اس مسجد میں اضافہ فرما کر مربع شکل میں کردیا۔ اس وقت اس کی دیواریں اینٹ کی تھیں اور چھت کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں سے بنائی گئی تھی۔ اور اس کے ستون کھجور کے تنوں پر مشتمل تھے۔ حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں اس مسجد میں کوئی ترمیم وتوسیع نہ ہوئی، پھر ١٧ ھ میں حضرت عمر فاروق نے اس کی مرمت کرائی اور اضافہ بھی فرمایا۔ اس کے بعد ٢٩ ھ میں حضرت عثمان نے اس کی از سر نو تعمیر کرائی اور اس کے وسعت و کشادگی کو بھی بڑھایا۔ انہوں نے اس کی دیواریں اور ستون منقش پتھروں اور چونے سے بنوائے اور چھت ساکھو کی لکڑی کی کروائی۔ حضرت عثمان کے بعد خلفاء اور بادشاہ اپنے اپنے دور میں اضافے اور مرمت کراتے رہے یہاں تک کہ ١٢٦٥ ھ میں سلطان عبد المجید عثمانی نے نئے انداز پر اس مسجد کی پر شکوہ تعمیر کرائی۔ اور پھر اس تعمیر کی دوبارہ تجدید اور توسیع ١٣٧٢ ھ میں شاہ ابن سعودمرحوم کے حکم سے کی گئی۔ اور دو ( حقیقی) شہید ہیں یعنی آپ ﷺ نے گویا پیشین گوئی فرمائی کہ اس وقت یہاں پہاڑی پر جو چار آدمی موجود ہیں ان میں میرے اور ابوبکر صدیق کے علاوہ باقی دو آدمیوں یعنی عمر اور عثمان کو شہادت حقیقی حاصل ہوگی۔ چناچہ یہ دونوں حضرات حقیقی معنی میں شہید ہوئے کہ ایک ( حضرت عمر) نے تو قاتلانہ حملہ کے نتیجہ میں خنجر کے زخم سے شہادت پائی اور دوسرے (حضرت عثمان) کو باغیوں نے گھر میں گھس کر نہایت بےرحمی کے ساتھ قتل کرکے جام شہادت پلایا۔ پس حدیث کے یہ الفاظ اس بات کے منافی نہیں ہیں کہ شہادت حکمی آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر کو حاصل ہوئی کیونکہ آنحضرت ﷺ کی موت اس زہر کے اثر عود کرنے سے ہوئی تھی جو آپ ﷺ کو کافی عرصہ پہلے غزوہ خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت نے بکری کے گوشت میں ملا کردیا تھا اور حضرت ابوبکر کی موت اس سانپ کے زہر کے اثرات عود کرنے سے ہوئی تھی جس نے ان کو سفر ہجرت کے دوران غار ثور میں ڈس لیا تھا اللہ اکبر کا نعرہ لگایا یعنی حضرت عثمان (رض) نے اس موقع پر پہلے اللہ اکبر کہا اور پھر بعد میں مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے اور یہ اللہ اکبر کہنا اپنے باغیوں اور دشمنوں پر زیادہ سے زیادہ حجت قائم کرنے کی نیت سے بھی تھا اور اس امر پر اظہا رتعجب کے لئے بھی کہ یہ لوگ ایک طرف تو میری باتوں کی تصدیق کررہے ہیں اور خود زبان سے ان حقائق کو تسلیم کررہے ہیں جن سے میری منقبت ظاہر ہوتی ہے اور دوسری طرف اپنی مفسدانہ اور باغیانہ کاروائیوں میں بدستور لگے ہوئے ہیں اور فتنہ و فساد پھیلانے اور مجھے ہلاک کردینے کے عزائم سے باز آنے پر تیار نہیں ہیں۔

【7】

راست روی کی پیشن گوئی

اور حضرت مرہ ابن کعب کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کے وہ ارشادات (اپنے کانوں سے) سنے جن میں آپ ﷺ نے (زمانہ نبوت کے بعد وقوع پذیر ہونے والے پر فتن حادثات کا (بطور پیشین گوئی) ذکر فرمایا تھا، آپ ﷺ نے ان فتنوں کا تعلق بالکل قریبی زمانہ سے قائم کیا (یعنی یہ بھی فرمایا کہ یہ فتنے مستقبل قریب ہی میں وقوع پزیر ہونے والے ہیں نیز عین اس وقت کہ آپ کے ان ارشادات کا سلسلہ جاری تھا) ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے سامنے سے گزرا تو آنحضرت ﷺ نے (اس کی طرف اشارہ کرکے) فرمایا یہ شخص ان ( پر فتن وپر آشوب) ایام میں راہ راست پر ہوگا حضرت مرہ کہتے ہیں کہ (آنحضرت ﷺ کے یہ الفاظ سن کر میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اس شخص کی طرف بڑھا (کہ دیکھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کون شخص ہے) تو دیکھا کہ وہ حضرت عثمان ابن عفان ہیں، حضرت مرہ کا بیان ہے کہ پھر میں نے حضرت عثمان کا چہرہ گھما کر آنحضرت ﷺ کو دکھلایا اور پوچھا کہ کیا یہی صاحب ہیں (جن کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ان پر فتن ایام میں یہ شخص راہ راست پر ہوگا ؟ (آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہاں اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

【8】

|" خلافت کی پیشین گوئی اور منصب خلافت سے دستبر دار ہونے کی ہدایت :

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے (حضرت عثمان سے) فرمایا کہ اے عثمان ! اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ شائد تمہیں ایک کرتہ (یعنی خلعت خلافت) پہنا دے۔ پس اگر تمہارے لوگ اس کرتہ کو اتروانا چاہیں اور تمہیں اس پر مجبور کریں تو ان کی وجہ سے اس کرتہ کو ( ہرگز) نہ اتارنا، اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے اس حدیث کے ضمن میں ایک طویل (درد ناک) داستان ہے۔ تشریح اگر لوگ اس حدیث کا مطلب یہ تھا کہ اگر لوگ تمہاری خلافت و حکومت کے تئیں باغیانہ اور معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے تم سے مطالبہ کریں کہ منصب خلافت چھوڑ دو تو ان لوگوں کے کہنے میں ہرگز نہ آنا اور محض ان کے مفسدانہ مطالبہ پر خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ سے نہ جانے دینا کیونکہ وہ لوگ باطل پر ہوں گے اور تم حق وراستی پر ہوگے، ان کا مقصد تمہاری خلافت کا خاتمہ کرکے ملت اسلامیہ میں افتراق و انتشار پھیلانا ہوگا، جب کہ تمہاری خلافت حق و صداقت کی سربلندی اور ملت کی شیرازہ بندی کی علامت ہوگی پس یہی وہ حدیث تھی جس نے حضرت عثمان کو خلافت کے باغیوں اور مفسدوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے باز رکھا۔ انہوں نے ان ظالموں کے محاصرہ میں جام شہادت نوش کرنے کو ترجیح دی مگر آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہزار اصرار اور ہزار مطالبوں کے باوجود منصب خلافت سے دستبرداری اختیار نہیں کی۔ ایک طویل داستان ہے ان الفاظ کے ذریعہ ترمذی نے ان پر فتن حادثات و واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جو حضرت عثمان کی خلافت کے آخری زمانے میں پیش آئے تھے اور جن سے اسلام کی شوکت اور مسلمانوں کا شیرازہ بندی کو بڑا نقصان پہنچا مصر میں حضرت عثمان غنی (رض) کے مقرر کردہ گورنر ( عبداللہ ابن ابی سرح) کے خلاف مصریوں کا شکایت لے کر حضرت عثمان کے پاس آنا، مصریوں کی شکایت اور۔۔۔۔۔۔ صحابہ کے مشورہ پر حضرت عثمان کا عبداللہ ابن سرح کو معزول کردینا اور محمد ابن ابی بکر کو نیا گورنر مقرر کرکے مصر روانہ کرنا، مروان کی سازش اور جعلسازی کے نتیجہ میں محمد ابن ابی بکر کا مصر نہ پہنچنا اور اثناء راہ سے واپس آجانا، اس کے نتیجہ میں مصریوں اور ان کے ہمنواؤں کا مشتعل ہو کر حضرت عثمان کے مکان کا محاصرہ کرنا اور پھر ان کے ہاتھوں حضرت عثمان کا مظلومانہ طور پر شہید ہوجانا، وہ المناک اور لرزہ خیز واقعات ہیں جن پر وہ درد ناک طویل داستان مشتمل ہے اور جو دراصل اسلام اور ملت اسلامیہ کی تاریخ میں فتنہ و فساد کی ابتداء مانے جاتے ہیں ان کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔

【9】

مظلومانہ شہادت کی پیشین گوئی

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے (مستقبل قریب میں وقوع پذیر ہونے والے) پر فتن حادثات کا ذکر کیا اور حضرت عثمان کے حق میں فرمایا کہ یہ شخص ان حادثات میں مظلومانہ طور پر مارا جائے گا اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث اسناد کے اعتبار سے حسن غریب ہے۔

【10】

ارشاد نبوی کی تعمیل میں صبر وتحمل کا دامن پکڑے رہے

اور (حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام) حضرت ابوسہلہ بیان کرتے ہیں کہ دار کے دن حضرت عثمان نے مجھ سے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ کو وصیت کی تھی (کہ مفسدین و مخالفین کے مطالبہ پر منصب خلافت سے دستبردار نہ ہونا، یا یہ کہ قوم کی جفا کاریوں سے مشتعل ہو کر ان کے خلاف تلوار نہ اٹھانا بلکہ صبر و تحمل کا دامن پکڑے رہنا) پس میں اسی وصیت کے مطابق صبر و تحمل اختیار کئے ہوئے ہوں، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے تشریح دار کے دن سے مراد وہ پر آشوب دن ہے جس دن حضرت عثمان کو مظلومانہ شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا تھا۔ اس دن کو یوم الدار یعنی دار (گھر) کا دن اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ مفسدوں نے حضرت عثمان کے گھر کا سخت محاصرہ کئے رکھا اور اسی محاصرہ کے دوران گھر کے اندر گھس کر ان کو شہید کیا۔ صبروتحمل اختیار کئے ہوئے ہوں یہ الفاظ اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگر آنحضرت ﷺ کی وصیت نہ ہوتی اور حضرت عثمان چاہتے تو طاقت کے ذریعہ ان مفسدوں کی سرکوبی کرسکتے تھے چناچہ بعض صحابہ نے ان کو مشورہ بھی دیا تھا کہ آپ خلیفہ وقت ہیں مسلمانوں کی بڑی طاقت آپ کی پشت پر ہے گھر سے باہر نکلئے اور ان مفسدوں کے خلاف تلوار اٹھالیجئے، یہ لوگ آپ کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی نہیں پائیں گے۔ لیکن حضرت عثمان نے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا اور صبر و تحمل کا دامن پکڑے رہے یہاں تک کہ ان مفسدوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔

【11】

مخالفین عثمان کو ابن عمر کا مسکت جواب

اور حضرت عثمان ابن عبداللہ ابن موہب (تابعی) بیان کرتے ہیں کہ ایک مصری شخص حج بیت اللہ کے ارادہ سے (مکہ) آیا، اس نے (ایک جگہ) کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ اس کو بتایا گیا کہ یہ اکابرین قریش ہیں، پھر اس نے پوچھا، ان کا شیخ (یعنی علم وفضل اور شیخصیت کے اعتبار سے ان میں سب سے بڑا کون ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا عبداللہ ابن عمر ! تب اس مصری شخص نے (حضرت عبداللہ ابن عمر کی طرف متوجہ ہو کر) کہا اے ابن عمر میں تجھ سے کچھ سوالات کرنا اور ان کے جواب پانا چاہتا ہوں، کیا تم کو معلوم ہے کہ عثمان جنگ احد کے دن بھاگ کھڑے ہوئے تھے (درآنحالیکہ کفار کے مقابلے سے بھاگ پڑنا بہت برا ہے ؟ ) حضرت ابن عمر نے جواب دیا ہاں ایسا ہی ہوا تھا (کہ اس دن عثمان مورچہ سے ہٹ گئے تھے) پھر اس شخص نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ عثمان جنگ بدر میں غائب رہے تھے اور معرکہ میں شریک نہیں ہوئے (جس کی بنا پر ان کو وہ اعزاز حاصل نہیں ہوا جس سے اہل بدر سرفراز ہوئے) حضرت ابن عمر نے جواب دیا ہاں (عثمان جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے) پھر وہ شخص بولا کیا تمہیں معلوم ہے کہ عثمان (حدیبیہ میں) بیعت رضوان کے موقع پر غائب تھے اور اس بیعت میں شریک نہیں ہوئے ؟ حضرت ابن عمر نے کہا ہاں (عثمان بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوسکے تھے) اس شخص نے (جو دراصل حضرت عثمان کے بارے میں برے خیالات رکھتا تھا، جب دیکھا کہ حضرت ابن عمر نے اس کے ایک ایک بات کی تصدیق کردی ہے تو اس حیرت اور خوشی کے اظہار کے طور پر کہ حضرت عثمان پر وارد ہونے والے اعتراضات اتنی عظیم اور معتبر ہستی کے ذریعہ ثابت ہوگئے ہیں زور دار آواز میں کہا اللہ اکبر لیکن (جبھی) حضرت ابن عمر نے اس سے فرمایا ( دراصل تم احمقانہ خیالات کا شکار ہو، جن باتوں کو تم عثمان کی تنقیص کی دلیل سمجھتے ہو اور جن کی واقعاتی تصدیق تم نے مجھ سے کرائی ہے وہ اس طرح نہیں ہے جیسا کہ تم سمجھ رہے ہو، حقائق کچھ اور ہی ہیں اور اگر ان حقائق کو تم جاننا جاہتے ہو تو) آؤ میں تمہیں وضاحت کے ساتھ بتاتا ہوں جنگ احد کے دن عثمان کے بھاگ کھڑے ہونے کے بارے میں تو میں گواہی دیتا ہوں کہ ان کی اس بات کو اللہ تعالیٰ معاف کرچکا ہے ( اور یہ سب کو معلوم ہے کہ جو بات معاف کی جاچکی ہو اس پر عیب جوئی یا نتقیص کی بنیاد رکھنا نری حماقت ہے) اور جنگ بدر میں عثمان جو شریک ہوئے تھے تو اس کی وجہ پیش آئی تھی کہ رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں تھیں اور ان دونوں وہ سخت بیمار تھیں پس رسول اللہ ﷺ نے عثمان (جنگ بدر میں جانے سے روک دیا تھا اور ان) سے فرمایا تھا کہ تمہیں بھی وہی ثواب اور حصہ ملے گا جو اس جنگ میں شریک ہونے والوں میں کسی ایک شخص کو مل سکتا ہے، اب رہا بیعت رضوان میں عثمان کا شریک نہ ہونا تو (پہلے اس حقیقت کو مد نظر رکھو کہ) اگر صحابہ میں) کوئی شخص (خاندانی طاقت اور وجاہت کے اعتبار سے) مکہ میں عثمان سے زیادہ عزت واثر رکھنے والا ہوتا تو آنحضرت ﷺ یقینا اسی کو ( اپنا نمائندہ خصوصی بنا کر اہل مکہ کے پاس) بھیجتے (لیکن خاندانی عزت و اثرات کے اعتبار سے چونکہ کوئی اور شخص مکہ والوں کی نظر میں حضرت عثمان سے زیادہ بھاری بھر کم نہیں تھا بلکہ بعض صحابہ نے تو یہی کہہ کر اس مشن پر مکہ جانے سے معذرت کردی تھی کہ وہاں ہمارے ایسے حامیوں اور عزیزوں کا کوئی جتھہ نہیں ہے جو ہماری مدد کرے اور ہمارا پشت پناہ بن کر ہماری محفاظت کرے) اس کے لئے رسول اللہ ﷺ نے عثمان کو مکہ روانہ کیا اور عثمان کے مکہ جانے کے بعد بیعت رضوان کا واقعہ پیش آیا پھر (بیعت رضوان کے وقت) رسول کریم ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ یہ میرا ہاتھ عثمان کے ہاتھ قائم مقام ہے اور پھر آپ ﷺ نے اپنا وہ (دایاں) ہاتھ اپنے بائیں پر مار کر فرمایا یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے اس کے بعد حضرت ابن عمر نے اس مصری شخص سے کہا (تمہارے سوالات کے جواب میں) اب میں نے جو کچھ کہا ہے اس کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ (بخاری) تشریح ان کی اس بات کو اللہ تعالیٰ معاف کرچکا ہے حضرت ابن عمر نے ان الفاظ کے ذریعہ گویا اس آیت کی طرف اشارہ کیا (اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّ يْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْھُمْ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ) 3 ۔ آل عمران 155) یقینا تم میں جن لوگوں نے پشت پھیر دی تھی جس روز کہ دونوں جماعتیں باہم مقابل ہوئیں اس کے سوا اور کوئی اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ ان کو شیطان نے لغزش دی ان کے بعض اعمال کے سبب سے اور یقین سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا واقعی اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں بڑے حلم والے ہیں۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ جنگ احد کے دن آنحضرت ﷺ نے کچھ صحابہ کے ایک دستہ کو، جن میں حضرت عثمان بھی تھے، ایک بہت اہم اور نازک مورچہ پر کھڑا کردیا تھا اور ان کو حکم دیا تھا کہ اس مورچہ کو کسی حالت میں خالی نہ چھوڑاجائے اور ہر شخص اپنی جگہ پر جما رہے۔ مگر جب دشمن کو شکست ہوگئی اور وہ بھاگنے لگا تو اسلامی مجاہدین نے ان کا تعاقب شروع کیا، دشمن کے فرار اور مجاہدین اسلام کے تعاقب کو دیکھ کر اس مورچہ پر متعین دستہ یہ سمجھا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے اور دشمن پوری طرح بھاگ کھڑا ہوا ہے۔ اور پھر اس دستہ کے اکثر مجاہد بھی مورچہ کو چھوڑ کر بھاگتے ہوئے دشمن کا تعاقب کرنے اور اس کا مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مشغول ہوگئے، بھاگتے ہوئے دشمن کے ہوشیار کمانڈر جو اس مورچہ کی اہمیت کو پہلے ہی تاڑے ہوئے تھے اب انہوں نے اس کو خالی دیکھا تو اپنے فوجیوں کے ساتھ تقریبا ایک میل کا چکر کاٹ کر پیچھے سے اس مورچہ پر پہنچ گئے اور وہاں مجاہدین اسلام پر گھات لگا کر ٹوٹ پڑے، عقب سے دشمن کے اس اچانک حملہ نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا اور فتح مسلمانوں کے ہاتھ آکر چھن گئی۔ مورچہ چھوڑ کر ہت جانا چونکہ رسول برحق ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی تھی اور ان مجاہدین کی کمزوری اور کوتاہی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے تنبیہ وتہدید فرمائی لیکن اپنے فضل و کرم سے اس کوتاہی کو معاف بھی فرمادیا۔ پس عثمان سے عناد رکھنے والوں نے اس واقعہ کو حضرت عثمان کی تحقیروتنقیص کا ذریعہ بنایا حالانکہ اول تو جب اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے درگزر فرما دیا تو اب دوسروں کو مواخذہ یا طعن کرنے کا کیا حق رہ گیا، دوسرے اس واقعہ میں صرف حضرت عثمان ہی ذات تو ماخوذتھی نہیں، مورچہ چھوڑنے والے سارے صحابہ اس میں شامل تھے جب کوتاہی ہوئی تو سب سے ہوئی اور پھر معافی ملی تو سب کو ملی، لہٰذا تنہا حضرت عثمان کو نشانہ بنانا ویسے بھی غیر منصفانہ بات ہے۔ تمہیں بھی وہی ثواب اور حصہ ملے گا آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جنگ بدر میں تمہارا شریک نہ ہونا چونکہ عذر اور میرے حکم کے تحت ہے اس لئے تم دنیا اور آخرت دونوں کے اعتبار سے ان لوگوں کے حکم میں سمجھے جاؤ گے جو اس جنگ میں شریک ہوں گے، پس حضرت عثمان کا جنگ بدر میں شریک نہ ہونا، ان کے حق میں نقصان کا موجب ہرگز نہ ہوا اور نہ اس بنیاد پر ان کی تنقیص کرنے کا حق کسی کو پہنچتا ہے، اس جنگ میں ان عدم شرکت ایسی ہی ہے جیسے غزوہ تبوک کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لئے مدینہ میں چھوڑ دیا تھا اور وہ اسلامی لشکر کے ساتھ تبوک نہیں گئے تھے، تاہم یہ بات تحقیقی طور پر معلوم نہیں ہوئی کہ آنحضرت ﷺ نے جنگ بدر کے مال غنیمت میں حضرت عثمان کا حصہ لگا یا تھا یا نہیں۔ حضرت رقیہ آنحضرت ﷺ کی صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں، جنگ بدر کے دنوں میں وہ سخت بیمار تھیں اور آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان کو حکم دیا تھا کہ وہ بدر میں شامل نہ ہوں بلکہ رقیہ کی تیمارداری اور خبر گیری کے لئے مدینہ ہی میں رہیں، آنحضرت ﷺ کو حضرت عثمان سے کس قدر تعلق خاطر تھا اور ان سے آپ ﷺ کس قدر راضی وخوش تھے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی بیٹی ان کے نکاح میں دی اور پھر اس بیماری میں جب حضرت رقیہ کا انتقال ہوگیا تو اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم کا بھی نکاح حضرت عثمان سے کردیا، اسی سبب حضرت عثمان ذوالنورین کے لقب سے مشہور ہوئے اور پھر جب حضرت ام کلثوم کا بھی انتقال ہوگیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا، اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی حضرت عثمان سے کردیتا، ایک روایت میں جس کو طبرانی نے نقل کیا ہے، آپ نے یہ بھی فرمایا میں نے عثمان سے اپنی دونوں پیاری بیٹیوں کا نکاح وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم آنے پر کیا تھا۔ عثمان کو مکہ روانہ کیا حضرت عثمان کو اس مشن پر روانہ کیا گیا تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے اہل مکہ سے گفتگو کریں اور ان کو اس پر آمادہ کریں کہ وہ آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو عمرہ کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے نہ روکیں، جن مصالح کو سامنے رکھ کر اس مشن کے لئے حضرت عثمان کا انتخاب ہوا تھا وہ درست ثابت ہوئے مکہ میں اسلام اور اہل اسلام کے معاندین و مخالفین کو حضرت عثمان کے خلاف کسی ایسے اقدام کی جرأت نہیں ہوئی جس سے بعض صحابہ نے خطرہ کا اظہار کیا تھا، حضرت عثمان کے اعزاء اور متعلقین نے مکہ میں ان کی آمد کی اطلاع پاکر ان کا پر تپاک استقبال کیا، سواری پر بٹھا کر ان کو اپنے آگے کیا اور جلوس کی شکل میں لے کر چلے، ان سب لوگوں نے یہ اعلان بھی کردیا کہ عثمان ہمارے معزز مہمان اور ہماری پناہ میں ہیں، کوئی ان سے تعرض کی جرأت نہ کرے نہ صرف یہ بلکہ ان لوگوں نے حضرت عثمان سے کہا کہ تم عمرہ کی نیت سے خانہ کعبہ کا طواف بھی کرسکتے ہو تمہیں کوئی نہیں منع کرے گا، مگر حضرت عثمان نے ان کی اس پیش کش کو شکریہ کے ساتہ رد کردیا اور فرمایا نہیں، میں آنحضرت ﷺ کے بغیر اور آپ ﷺ کی عدم موجودگی میں تنہا طواف ہرگز نہیں کروں گا۔ عثمان کے مکہ جانے کے بعد یعنی بیعت رضوان کا واقعہ حضرت عثمان کی موجودگی میں پیش ہی نہیں آیا تھا کہ ان میں ان کی شرکت یا عدم شرکت کی بحث کھڑی ہوئی۔ صورت یہ ہوئی تھی کہ جب حضرت عثمان مکہ پہنچ گئے اور وہاں مصالحتی گفتگو شروع ہوئی تو اس نے طول کھینچا اور حضرت عثمان کی واپسی میں تاخیر ہوگئی، اس سے مسلمانوں میں بےچینی تو پیدا ہو ہی گئی تھی مستزاد یہ کہ کہیں سے یہ خبر آکر مشہور ہوگئی کہ نہ صرف حضرت عثمان کا مصالحتی مشن ناکام ہوگیا ہے بلکہ اہل مکہ اس حد تک آمادہ شر ہیں کہ وہ اپنا لشکر جمع کرکے مسلمانوں پر حملہ کی نیت سے حدیبیہ کی طرف بڑھ رہے ہیں بلکہ ایک یہ خبر بھی آئی کہ حضرت عثمان کو اہل مکہ نے قتل کردیا ہے، اس پر آنحضرت ﷺ نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور دشمنان دین کے مقابلہ کی تیاری شروع کردی، آپ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے ایک ایک مسلمانوں سے یہ بیعت لی کہ کوئی یہاں سے بھاگے گا نہیں، بلکہ اپنی جان گنوا کر بھی دشمن کا مقابلہ کرے گا اور اگر عثمان واقعۃ قتل کردئیے ہیں تو ان کے خون کا بدلہ لے گا۔ اس کو اپنے ساتھ لے جاؤ یعنی عثمان کے بارے میں اگر تم مجھ سے کچھ معلومات جمع کرکے لے جانا جاہتے ہو تو میری ان باتوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ تمہارے سوالات اور میرے جواب اگر کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں تو تمہیں ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ کہ ہمیں یا ان الفاظ سے حضرت ابن عمر کی مراد یہ تھی کہ اگر تم حق کے متلاشی اور سچائی جاننے کے خواہش مند ہو تو میں نے تفصیلی طور اب جو حقائق تمہارے سامنے بیان کئے ہیں ان کو پلے باندھ لو اور دل و دماغ میں رکھ کرلے جاؤ اور عثمان کے حق میں جو برے خیالات اور بدگمانیاں رکھتے ہو ان سے اپنا ذہن پاک وصاف کرلو۔

【12】

جان دے دی مگر آنحضرت ﷺ کی وصیت سے انحراف نہیں کیا

اور حضرت عثمان (رض) کے آزاد کردہ غلام حضرت ابوسہلہ کہتے ہیں کہ (ایک دن کا واقعہ ہے) نبی کریم ﷺ حضرت عثمان سے چپکے چپکے کچھ باتیں کررہے تھے اور ( ان باتوں کو سن سن کر) حضرت عثمان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوتا جار ہا تھا (اس وقت تو یہ راز کسی پر نہ کھلا کہ آنحضرت ﷺ چپکے چپکے حضرت عثمان کو بتا رہے تھے کہ تمہارے زمانہ میں کس طرح فتنہ و فساد برپا ہوگا کیسی کیسی مفسدہ پردازیاں ہوں گی، تمہارے مخالفین و معاندین کس ظالمانہ طریقہ سے تمہیں قتل کرنا چاہیں گے اور انہی کے ہاتھوں تمہیں شہادت ملے گی۔ اور اس کے ساتھ آنحضرت ﷺ ان کو تلقین و وصیت فرما رہے تھے کہ ان فتنوں اور ہنگاموں میں صبر کا دامن ہاتھ سے ہرگز نہ چھوڑنا اور سخت سے سخت حالات میں بھی مشتعل نہ ہونا بلکہ اپنی مظلومیت کو برقرار رکھنا) چناچہ جب دار کا دن آیا ( اور مفسدوں نے مکان کا محاصرہ کرکے حضرت عثمان کا چراغ زندگی گل کردینا چاہا) تو ہم نے (حضرت عثمان سے) عرض کیا کہ (اس خلف کو شار کو روکنے اور مفسدوں کے خطر ناک عزائم کی راہ مارنے کے لئے) کیا ہمارے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم ان لوگوں سے لڑیں، حضرت عثمان نے جواب دیا نہیں ( میں لڑائی ہرگز نہیں چاہتا) رسول کریم ﷺ نے مجھے ایک بات کی وصیت کی تھی اور میں اپنے آپ کو اس وصیت پر صابر وشاکر رکھے ہوئے ہوں۔

【13】

عثمان کی اطاعت کا حکم نبوی ﷺ

اور حضرت ابوحبیبہ (تابعی) سے روایت کہ وہ حضرت عثمان (رض) کے گھر میں اس وقت گئے تھے جب حضرت عثمان (رض) اس گھر میں محصور کر دئیے گئے تھے انہوں نے سنا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) حضرت عثمان (رض) سے (یا خود ان کی خدمت میں کچھ عرض کرنے کی یا گھر کا محاصرہ کئے ہوئے مفسدوں کے سامنے) کچھ باتیں کہنے کی اجازت مانگ رہے ہیں، حضرت عثمان نے ان کو اجازت دی (کہ کہو کیا کہنا چاہتے ہو) تب حضرت ابوہریرہ (رض) کھڑے ہوئے اور (جیسا کہ خطبہ وتقریر کا قاعدہ ہے) پہلے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور پھر کہا (ایک دن) میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے بعد تم لوگ فتنوں اور باہمی اختلافات کی آزمائش سے دوچار ہوگے، یا آپ ﷺ نے پہلے اختلافات کا اور پھر فتنوں کا لفظ ارشاد فرمایا۔ (یہ ارشاد گرامی سن کر) وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! پھر (ان فتنوں اور اختلافات کے زمانہ میں) ہمارا کون ہوگا ؟ (یعنی اس وقت ہمیں کس شخص کی حمایت اور پیروی کرنی چاہیے۔ کہ جس سے ہمارہ دین ودنیا کا فائدہ ہو اور ہم خرابی و نقصان سے بچ سکیں) آنحضرت ﷺ نے فرمایا امیر اور اس کے رفیقوں کی اطاعت و پیروی تم پر لازم ہے اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے (امیر کے لفظ پر زور دیتے ہوئے) حضرت عثمان کی طرف اشارہ کیا۔ ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح حضرت عثمان کی طرف اشارہ کیا یعنی حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ اس وقت مسلمانوں کے امیر چونکہ حضرت عثمان ہیں اس لئے ہر حالت میں ان کی اطاعت ہر مسلمان پر لازم ہے۔ مختصر سوانحی خاکہ سیدنا عثمان غنی عام فیل کے چھٹے سال پیدا ہوئے، دعوت اسلام کے آغاز ہی میں دولت ایمان سے بہرہ ور ہوگئے تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، اس وقت تک نبی کریم ﷺ دار ارقم میں نہیں گئے تھے۔ حضرت عثمان نے دو مرتبہ ہجرت کی، پہلے حبشہ اور پھر مدینہ، آپ میانہ قد، گوری رنگت خوبصورت گھنی داڑھی اور دلکش خدوخال کے مالک اور پرکشش شخصیت کے حامل تھے۔ سیدنا عمر ف اور ق کے بعد تیسرے خلیفہ ہوئے اور محرم ٢ ھ کی پہلی تاریخ کو خلافت کی باگ ڈور سنبھالی، سخت خلفشار اور ہنگامہ کے دوران ٣٥ ھ میں ذی الحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو مصر کے بلوائیوں اور مفسدوں میں سے ایک شخص اسود بحنسی نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ محصور گھر کی دیوار کود کر آپ کو اس وقت شہید کیا جب آپ تلاوت کلام اللہ میں مصروف تھے۔ بعض حضرات نے آپ کے قاتل کا نام دوسرا بیان کیا ہے۔ تین دن تک آپ کی لاش بےگور کفن پڑی رہی۔ آخر بعض صحابہ کی کوشش سے تین دن کے بعد رات کے وقت عشاء مغرب کے درمیان تدفین عمل میں آئی حضرت جبیر ابن مطعم نے نماز جنازہ پڑھائی، بغیر غسل کے انہی کپڑوں میں جو جام شہادت نوش کرتے وقت پہنے ہوئے تھے دفن کئے گئے۔ اس وقت حضرت عثمان کی عمر ٨٢ سال، یا ایک قول کے مطابق ٨٨ سال تھی۔ آپ کی خلافت کچھ دن کم بارہ سال رہی اور صحابہ وتابعین کی ایک بڑی جماعت نے آپ سے احادیت نبوی روایت کی ہیں۔