192. ان تینوں (یعنی خلفاء ثلاثہ) کے مناقب کا بیان

【1】

ان تینوں (یعنی خلفاء ثلاثہ) (رض) کے مناقب کا بیان

پہلے حضرت ابوبکر صدیق کے مناقب پر مشتمل احادیث نقل ہوئیں، پھر حضرت عمر فاروق کے مناقب سے متعلق احادیث کو نقل کیا گیا، اس کے بعد ایک الگ باب قائم کر کے وہ احادیث نقل کی گئیں جن میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے مناقب کا ایک ساتھ ذکر تھا پھر حضرت عثمان غنی کے مناقب کے حدیثیں گزشتہ باب کے تحت نقل کی گئیں اور چونکہ بعض ایسی احادیث بھی منقول ہیں جن میں ان تینوں حضرات یعنی سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان کے مناقب ایک ساتھ مذکور ہیں، لہٰذا ان احادیث کو نقل کرنے کے لئے مذکورہ بالا باب قائم کیا گیا ہے۔

【2】

ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید

حضرت انس (رض) روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان (رض) (مدینہ کے مشہور پہاڑ) احد پر چڑھے تو وہ (خوشی کے مارے) ہلنے لگا، آنحضرت ﷺ نے اپنا پیر اس پر مارا اور فرمایا ارے احد، تھم جا، تیرے اوپر ایک نبی ہے، ایک صدیق اور دو شہید ہیں (بخاری )

【3】

تینوں کو جنت کی بشارت

اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے ایک باغ میں تھا کہ اچانک ایک شخص (باہر پھاٹک پر) آیا (جس کے بارے میں اس وقت تک ہمیں کچھ نہیں معلوم تھا کہ کون شخص ہے) پھر اس نے پھاٹک کھولنے کے لئے کہا نبی کریم ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا کہ جاؤ پھاٹک کھول دو اور آنے والے شخص کو جنت کی (یعنی جنت کے اعلی درجات کی) بشارت دے دو میں نے جا کر پھاٹک کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ابوبکر ہیں۔ میں رسول کریم ﷺ کے کہنے کے مطابق ان کو جنت کی بشارت سنائی اور انہوں نے (اس نعمت عظمیٰ کی بشارت سن کر) اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، (کچھ دیر بعد) پھر ایک شخص نے آکر پھاٹک کھلوایا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ پھاٹک کھول دو اور آنے والے شخص کو جنت کی بشارت دے دو میں نے جا کر پھاٹک کھولا تو دیکھا کہ وہ حضرت عمر تھے، میں نے نبی کریم ﷺ کے کہنے کے مطابق ان کو جنت کی بشارت سنائی اور انہوں نے بھی (یہ بشارت سن کر) اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر (کچھ دیر بعد) ایک اور شخص نے آکر پھاٹک کھلوایا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ پھاٹک کھول دو اور آنے والے شخص کو ان عظیم آفات و مصائب کے بعد جنت کی بشارت دے دو ۔ جن کا وہ (اپنی زندگی میں) شکار ہوگا میں نے جا کر پھاٹک کھولا تو دیکھا کہ وہ حضرت عثمان تھے چناچہ میں نے ان کو وہ بات سنائی جو نبی کریم ﷺ نے فرمائی تھی، حضرت عثمان نے (اس بات کو سن کر پہلے تو) اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور پھر کہا اللہ ہی سے مدد طلب کی جانی چاہئے (یعنی میں اللہ تعالیٰ سے مدد کا طلب گار ہوں کہ ان آفات و مصائب کے وقت یہی صبر و استقامت عطا فرمائے گا) بخاری ومسلم )

【4】

زمانہ نبوت میں ان تینوں کا ذکر کس ترتیب سے ہوتا تھا

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ حیات میں ہم یوں کہا کرتے تھے ابوبکر اور عمر اور عثمان، اللہ ان سے راضی ہو۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ کہ یہ تینوں صحابی بارگاہ رسالت میں سب سے زیادہ تقرب ومنزلت رکھتے تھے اور اپنی حیثیت کی بناء پر تمام ہی صحابہ میں ممتاز ومنفرد شہرت کے حامل تھے، صحابہ کی مجلسوں میں کثرت سے ان کا چرچا ہوا کرتا تھا ان کے اوصاف و محاسن کے تذکرے کئے جاتے تھے۔ اور اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے جب بھی کسی مسئلہ و معاملہ کا ذکر ہوتا تو سب سے پہلے ان تینوں کا ذکر آتا اور جب بھی ان تینوں کا ذکر آتا تو ان کے نام اس ترتیب سے لئے جاتے کہ پہلے حضرت ابوبکر، پھر حضرت عمر اور پھر حضرت عثمان کا نام آتا۔

【5】

خلفاء ثلاثہ کی ترتیب خلافت کا غیبی اشارہ

حضرت جابر سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ فرمانے لگے کہ آج کی رات ایک نیک شخص کو خواب میں دکھلایا گیا کہ جیسے ابوبکر رسول کریم ﷺ کے ساتھ لٹکے ہوئے یعنی جڑے ہوئے ہیں اور عمر، ابوبکر کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں اور عثمان، عمر کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں، حضرت جابر کہتے ہیں جب ہم لوگ (یہ سن کر) رسول کریم ﷺ کی مجلس مبارک سے اٹھے تو (اپنے اجتہاد اور ظن غالب کے مطابق) ہم نے (آپس میں) کہا کہ نیک شخص سے مراد تو خود رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی ہے اور رہا بعض کا بعض کے ساتھ لٹکنا یعنی جڑنا تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ تینوں حضرات (یعنی ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) ، مذکورہ ترتیب کے مطابق یکے بعد دیگرے) اس مشن کے سربراہ ہوں گے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو اس دنیا میں بھیجا ہے۔ (ابو داؤد )