193. حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان

【1】

حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان

سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب و فضائل بیشمار ہیں جتنی زیادہ حدیثیں آپ کی تعریف و توصیف اور فضیلت میں منقول ہیں اتنی صحابہ میں سے کسی کے حق میں منقول نہیں ہیں، اگرچہ ان میں سے بہت سے روایتیں موضوع (گھڑی ہوئی) بھی ہیں چناچہ حضرت شیخ مجد الدین شیرازی نے جس طرح ان بعض روایتوں کے بارے میں، کہ جو حضرت ابوبکر صدیق کے مناقب میں نقل کی گئی ہیں، یہ وضاحت کی ہے کہ یہ موضوع روایتیں ہیں کیونکہ ان کا بےاصل وبے بنیاد ہونا معمولی عقل وفہم رکھنے والا بھی جان سکتا ہے اسی طرح انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب کے مناقب میں لوگوں نے بیشمار جھوٹی حدیثیں بنالی ہیں اور ان جھوٹی حدیثوں کا سب سے بڑا ذخیرہ وہ ہے جس کو انہوں نے وصایا نامی کتاب میں جمع کیا ہے اور جس کی ہر حدیث یا علی کے الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔ ہاں ان میں سے صرف ایک حدیث یا علی انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ بیشک ایسی حدیث ہے جو ثابت ہے۔ بہرحال حضرت علی کی مناقب میں سے جو صحیح احادیث منقول ہیں ان کے بارے میں امام احمد اور امام نسائی وغیرہ نے کہا ہے کہ ان کی تعداد ان احادیث سے کہیں زیادہ ہے جو دوسرے صحابہ کے حق میں منقول ہیں اور سیوطی نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ متاخر ہیں اور ان کے زمانہ میں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ونزاع کی خراب صورت حال پیدا ہوگئی تھی بلکہ خود سیدنا علی کی مخالفت کرنے والوں کا ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوگیا تھا جنہوں نے ان کے خلاف جنگیں بھی لڑیں اور ان کی خلافت سے انحراف بھی کیا، لہذا علماء اور محدیثین نے مقام علی کی حفاظتی اور مخالفین علی کی تردیدوتغلیط کی خاطر منقبت علی سے متعلق احادیث کو چن چن کر جمع بھی کیا اور ان احادیث کو پھیلانے میں بہت سرگرم جدوجہد بھی کی، ورنہ جہاں تک خلفاء ثلاثہ کے مناقب کا تعلق ہے تو وہ حقیقت میں حضرت علی کے مناقب سے بھی زیادہ ہیں۔

【2】

نام ونسب

علی ابن ابی طالب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر ابن کنانہ۔ آپ کا نام حیدر بھی ہے، حیدر دراصل حضرت علی کے نانا اسد کا نام تھا، جب آپ پیدا ہوئے تو اس وقت آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے آپ کا نام اپنے باپ کے نام پر حیدر رکھا پھر بعد میں ابوطالب نے اپنی طرف سے بیٹے کا نام علی رکھا اور جیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے حضرت علی فرمایا کرتے تھے خود میرے نزدیک ابوتراب سے زیادہ پسندیدہ کوئی نام نہیں ہے۔

【3】

کنیت

ابو تراب سیدنا علی کی کنیت اس طرح پڑی کہ ایک دن رسول کریم ﷺ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت علی گھر نہیں ہیں۔ پوچھا علی کہاں ہیں ؟ حضرت فاطمہ نے جواب دیا میرے اور ان کے درمیان کچھ ان بن ہوگئی تھی، اسی غصہ میں گھر سے چلے گئے ہیں، آج تو انہوں نے اس گھر میں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے، آنحضرت ﷺ نے جبھی حضرت انس کو حکم دیا کہ جا کر دیکھو، علی کہاں ہیں، حضرت انس نے بتایا کہ یا رسول اللہ ﷺ ؟ وہ تو مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ فورا مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت علی مسجد کی دیوار سے لگے ہوئے ننگی زمین پر لیٹے محوخواب ہیں، چادر کاندھے سے کھسک کر الگ ہوگئی تھی اور پیٹھ وپہلو پر مٹی لگی ہوئی تھی، اس وقت آنحضرت ﷺ ان کے جسم کے اوپر سے مٹی صاف کرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے، اے ابوتراب اٹھو، جبھی سے حضرت علی کی کنیت ابوتراب مشہور ہوگئی۔

【4】

علی اور ہارون

حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا تھا (دنیا وآخرت میں قرابت و مرتبہ میں اور دینی مددگار ہونے کے اعتبار سے) تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ہارون (علیہ السلام) تھے بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ (بخاری ومسلم) تشریح آنحضرت ﷺ جب اپنی زندگی کے آخری غزوہ تبوک کے لئے تشریف لے جا رہے تھے تو حضرت علی کو اپنے اہل و عیال کی خبر گیری و حفاظت کے لئے مدینہ میں چھوڑ دیا تھا، اس پر منافقوں نے حضرت علی کو طعنہ دیا کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں بےقدر جان کر مدینہ میں چھوڑ گئے ہیں، حضرت علی نے منافقوں کا یہ طعنہ سنا تو بڑی غیرت محسوس کی اور فورا ہتھیار باندھ کر نکل کر کھڑے ہوئے اور جرف پہنچ گئے جو مدینہ سے تقریبا تین میل شمال میں واقعہ ایک جگہ ہے اور جہاں آنحضرت ﷺ اسلامی لشکر کے ساتھ پڑاؤ کئے ہوئے تھے، انہوں نے حضرت اقدس ﷺ میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! منافقین میرے بارے میں ایسی ایسی باتیں کہہ رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ جھوٹے ہیں میں نے تو تمہیں مدینہ میں اپنے اہل و عیال پر بھی میرا خلیفہ بن کر رہو اور پھر اسی وقت آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ علی ! کیا تم اس سے خوش نہیں ہو کہ تمہارا مجھ سے وہی تعلق ہے جو ہارون (علیہ السلام) کا موسیٰ سے تھا کہ جب موسیٰ چلا دینے کوہ طور پر گئے تھے تو اپنی قوم میں ہارون کو اپنا خلیفہ بنا کر چھوڑ گئے تھے۔

【5】

شیعوں کی کج رائی

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہے گئے آنحضرت ﷺ کے ان الفاظ کو شیعہ لوگ ماروگھٹنا پھوٹے آنکھ کے مصداق اپنے بےبنیاد عقیدے کی دلیل بنا کر بیٹھ گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر حضرت علی کو خلافت کا بار سونپا تھا۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد خلافت کا اولین استحقاق حضرت علی کا تھا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ روافض نے تو اس کج رائی کا شکار ہو کر تمام صحابہ کو کافر تک کہہ ڈالا ہے، اس وجہ سے کہ ان کے بقول ان صحابہ نے آنحضرت ﷺ کی وصیت سے انحراف کیا اور خلافت کے بارے میں حضرت علی پر دوسروں کو مقدم کیا، بلکہ ان میں سے بعض ستم ظریفوں نے تو حضرت علی کو بھی نہیں بخشا اور کہا ہے کہ حضرت علی نے چونکہ اپنا حق طلب نہیں کیا اور خلافت کا دعویٰ لے کر مضبوطی سے نہیں اٹھے اس لئے وہ بھی کافر ایسے نادانوں سے بس یہی کہنا چاہئے کہ تم سے بڑا کافر کون ہوسکتا ہے جو لوگ تمام امت کو کافر کہیں خصوصا طبقہ اول (صحابہ) پر کفر کا اطلاق کریں اور اس طرح گویا یہ ثابت کریں کہ وہ پوری شریعت کو غیر معتبر قرار دے رہے ہیں اور اسلام کی ساری عمارت کو ڈھا رہے ہیں تو ان کے کفر میں کس کو شک ہوگا۔ بہرحال اہل سنت والجماعت نے اس حدیث سے شیعوں کے مذکورہ استدلال کو دوراز کار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ الفاظ حدیث سے جو بات مفہوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کو اپنا خلیفہ محض اس عرصہ کے لئے بنایا تھا جو غزوہ تبوک کے سلسلہ میں آپ ﷺ نے مدینہ سے باہر گزارا تھا، جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اس عرصہ کے لئے اپنی قوم پر خلیفہ بنایا تھا، جو انہوں نے چلہ کے لئے کوہ طور پر گزارا تھا اگر اس عرصہ کے لئے حضرت علی کو اپنا خلیفہ بنانا سے آنحضرت ﷺ کا مقصد اس بات کی وصیت کرنا یا اس طرف اشارہ کرنا ہوتا کہ اسی طرح میرے وصال کے بعد بھی خلیفہ علی ہونگے تو آپ ﷺ اس موقع پر حضرت علی کو حضرت ہارون (علیہ السلام) سے تشبیہ نہ دیتے کیونکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ نہیں بنے تھے، وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے انتقال سے چالیس سال پہلے ہی وفات پاچکے تھے، علاوہ ازیں آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں اپنی عدم موجودگی اسی عرصہ میں امامت نماز کے لئے اپنا خلیفہ ایک دوسرے صحابی حضرت ام مکتوم کو بنایا تھا چناچہ اس عرصہ میں حضرت علی تو آنحضرت ﷺ کے اہل و عیال کی خبر گیری اور حفاظت کے فرائض انجام دیتے تھے اور حضرت ام مکتوم نماز میں لوگوں کی امامت کرتے تھے، اگر خلافت مطلق ہوتی تو اصول کے مطابق آنحضرت ﷺ امامت نماز کی ذمہ داری بھی یقینا حضرت علی ہی کو سونپ کر جاتے، اس کے لئے ایک دوسرے آدمی کو نامزد نہ فرماتے۔

【6】

وجہ تشبیہ

آنحضرت ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا تھا کہ تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ہارون (علیہ السلام) تھے ان الفاظ کے ذریعہ حضرت علی کو حضرت ہارون (علیہ السلام) سے تشبیہ دینا تو صاف سمجھ میں آتا ہے لیکن وجہ تشبیہ ظاہر نہیں ہوئی تھی کہ آپ ﷺ نے ان کو حضرت ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ کس اعتبار سے تشبیہ دی، اسی بات کی وضاحت کے لئے آپ ﷺ نے آگے فرمایا بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا یعنی اگر تم دونوں میں کچھ فرق ہے تو بس یہ ہے کہ ہارون (علیہ السلام) ایک نبی تھے اور تم نبی نہیں ہو، پس معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی باہمی قرابت و وابستگی کی مثال کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے اپنے اور حضرت علی کے درمیان جس قرابت و وابستگی کو ظاہر کیا وہ نبوت کے اعتبار سے نہیں تھی بلکہ خلافت کے اعتبار سے تھی جو مرتبہ میں نبوت کے قریب ہے، لیکن خلافت کا اعتبار بھی دونوں صورتوں کو محتمل ہوسکتا تھا کہ یا تو آپ ﷺ کی مراد اپنی زندگی میں ایک خاص عرصہ کے لئے حضرت علی کو اپنا خلیفہ بنا کر ان کے تئیں اپنی قربت و وابستگی اور اعتماد کو ظاہر کرنا تھا یا اپنی وفات کے بعد ان کے استحقاق خلافت کی طرف اشارہ کرکے قربت و وابستگی اور اعتماد کو ظاہر کرنا تھا جہاں تک اس دوسری صورت کا تعلق ہے تو یہ یوں خارج ازامکان قرار پائی جاتی ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے وفات پاگئے تھے اور وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد خلیفہ کب بنے تھے کہ ان کی مثال کے ذریعہ آنحضرت ﷺ اپنی وفات کے بعد حضرت علی کی خلافت کی طرف اشارہ کرتے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ آنحضرت ﷺ کے مذکورہ الفاظ سے جو مفہوم متعین طور پر ثابت ہوتا ہے وہ وہی ہے جو پہلی صورت میں بیان ہوا، یعنی یہ کہ آپ ﷺ نے اس موقعہ پر حضرت علی کو صرف اس عرصہ کے لئے خلیفہ بنانے کی بات کہی تھی جو غزوہ تبوک کے لئے آپ ﷺ نے مدینہ سے باہر گزارا، خلاصہ کے طور پر یہ بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کے مطابق حضرت علی کی وہ خلافت جزوی تھی جو آنحضرت ﷺ کی زندگی ہی میں ایک خاص عرصہ کے لئے عارضی اور وقتی انتظام کے طور پر عمل میں آئی تھی اس صورت میں کہ وہ عرصہ ختم ہونے پر یعنی عزوہ تبوک سے آنحضرت ﷺ کی واپسی کے بعد وہ خلافت ختم ہوگئی تھی، وہ جزوی خلافت آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ان کی کلی خلافت کی دلیل کیسے بن سکتی ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اس بات کی بھی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) جب آسمان سے اترینگے تو نبی کے طور پر نہیں اتریں گے بلکہ دین محمد ﷺ کانفاذ کرنے والے اور اسلامی امراء و حکام میں سے ایک امیر وحاکم بن کر اتریں گے اور ان کا کام ہی یہ ہوگا کہ لوگوں کو شریعت محمدی ﷺ کا پابندومتبع بائیں، لیکن ملا علی قاری کا کہنا ہے کہ حدیث کے الفاظ اس بات کے منافی نہیں ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نبی کی حیثیت میں اتریں اور ہمارے نبی کی ﷺ کی شریعت کے متبع کے طور پر دین محمدی کے اجراء ونفاذ اور اسوہ رسالت محمدی کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دیں اور اس میں بھی کوئی استبعاد نہیں کہ اس فریضہ کی ادائیگی میں ان کی راہنمائی وحی کے ذریعہ ہو، اس صورت میں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا کی مراد یہ بیان کی جائے گی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا اور آپ ﷺ خاتم النبیین اس اعتبار سے ہیں کہ نئے پیدا ہونے والے نبیوں کا سلسلہ آپ ﷺ پر ختم ہوگیا ہے، آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی اس دنیا میں نہیں آئے گا۔ اس حدیث میں حضرت علی کی جس بڑی فضیلت ومنقبت کی طرف اشارہ ہے فرمایا گیا کہ اگر آنحضرت ﷺ خاتم النبیین نہ ہوتے اور آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند نہ ہوگیا ہوتا تو حضرت علی بھی ایک نبی ہوتے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پھر یہ حدیث اس حدیث کے منافی ہوجائے گی جو صراحت کے حضرت عمر کے حق میں وارد ہوئی ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے درحقیقت ان دونوں حدیثوں کا مفہوم فرضی اور تقدیری ہے، یعنی آپ ﷺ نے ایک امر محال کو فرض کرکے گویا یوں فرمایا کہ اگر بالفرض میرے بعد اگر نبوت کا دروازہ کھلا رہتا تو میرے صحابہ میں سے متعدد لوگ نبی ہوتے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

【7】

ایک غلط فہمی کا ازالہ

ایک حدیث علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل ( میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے مانند ہیں) کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے اور اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہ واقعی حدیث ہے لیکن جیسا کہ حفاظ حدیث مثلا زرکشی عسقلانی دمیری سیوطی سے تصریح کی ہے اس کی کچھ اصل نہیں ہے۔

【8】

علی سے محبت ایمان کی علامت ہے

اور حضرت زربن حبیش (تابعی) کہتے ہیں کہ سیدنا علی نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو پھاڑا (یعنی اگایا) اور ذی روح کو پیدا کیا درحقیقت نبی امی ﷺ نے مجھ کو یقین دلایا تھا کہ جو (کامل) مؤمن ہوگا وہ مجھ سے (یعنی علی سے) محبت رکھے گا اور جو منافق ہوگا وہ مجھ سے عداوت رکھے گا۔ (مسلم) تشریح محبت سے مراد وہ محبت ہے جو شرعی تقاضوں کے ہم آہنگ واقع کے مطابق اور نقصان و زیادتی کے بغیر ہو پس جس طرح وہ لوگ کہ جو حضرت علی کے حقیقی مقام و مرتبہ کو گھٹاتے ہیں جیسے فرقہ خارجیہ کے لوگ حب علی کی محرومی کے سبب اس حدیث میں مذکورہ مؤمن کا مصداق نہیں بن سکتے اسی طرح وہ لوگ بھی کہ جو حضرت علی کی محبت میں غیرشرعی اور غیرحقیقی غلو کرتے ہیں اور اس غلو کے نتیجہ میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے بغض و عداوت رکھتے ہیں جیسے شیعوں کے بعض طبقے، اس حدیث میں مذکور مؤمن کا مصداق ہرگز نہیں ہوسکتے۔ بہرحال حضرت علی (رض) سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض و عداوت نفاق کی نشانی ہے ایک اور روایت میں جو حضرت علی ہی سے منقول ہے یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا من احبنی واحب ہذین واباہما وامہما کان معی فی درجتی یوم القیامۃ۔ جس شخص نے مجھ سے اور ان دونوں (حسن و حسین) سے اور ان دونوں کے باپ اور ان دونوں کی ماں سے محبت رکھی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا۔ (احمد و ترمذی ) لیکن آنحضرت ﷺ حضرت علی اور اہل بیت نبوی سے محبت کا عین تقاضہ یہ ہے کہ ان سب صحابہ سے محبت وعقیدت رکھنی چاہے جن سے آنحضرت ﷺ ، حضرت علی اور اہل بیت نبوی ﷺ محبت وتعلق رکھتے ہیں تھے جس طرح حضرت علی کی محبت ایمان کی علامت ہے اسی طرح تمام صحابہ کی محبت ایمان کی علامت ہے اور جس طرح حضرت علی (رض) سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے اسی طرح دوسرے کسی صحابی سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے، ابن عساکر نے حضرت جابر سے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے حب ابی بکر وعمر من الایمان وبغضہما کفر وحب الانصار من الایمان وبغضہم کفر وحب العرب من الایمان وبغضہم کفر ومن سب اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ ومن حفظنی فیہم انا احفظہ یوم القیامۃ۔ ابوبکر وعمر کی محبت جزو ایمان ہے اور ان سے بغض کفر ہے انصار کی محبت جزو ایمان ہے اور ان سے بغض کفر ہے اہل عرب کی محبت جز و ایمان ہے اور ان سے بغض کفر ہے اور جس شخص نے میرے صحابہ کو سب وشتم کیا اس پر اللہ کی لعنت ہو اور جس شخص نے صحابہ کو (دوسروں کے سب وشتم سے بچایا اس کو قیامت کے دن کی ہولنا کیوں اور سختیوں سے) میں بچاؤں گا۔

【9】

غزوئہ خیبر کے دن سرفرازی

اور حضرت سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا کل میں یہ جھنڈا (کہ جو کمانداری کی علامت ہے) ایسے شخص کو عطا کروں گا کہ جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عطافر مائے گا اور وہ شخص اللہ اور اللہ کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اور اللہ کا رسول اس کو دوست رکھتے ہیں چناچہ تمام صحابہ نے اس انتظار اور شوق میں پوری رات جاگ کر گزاری کہ دیکھئے کل صبح یہ سرفرازی کس کے حصہ میں آتی ہے اور جب) صبح ہوئی تو ہر شخص اس آرزو کے ساتھ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ جھنڈا اسی کو ملے، آنحضرت ﷺ نے (تمام صحابہ پر نظر ڈال کر فرمایا کہ علی ابن ابی طالب کہاں ہیں دراصل حضرت علی آشوب چشم میں مبتلا ہوگئے تھے اور اس وجہ سے اس وقت وہاں حاضر نہیں تھے) صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آنکھوں نے ان کو پریشان کر رکھا ہے (اور اس عذر کی بنا پر وہ یہاں موجود نہیں ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کسی کو بھیج کر ان کو بلوالو، چناچہ حضرت علی کو بلا کر لایا گیا، رسول کریم ﷺ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈالا اور وہ آنکھیں ایک دم اس طرح اچھی ہوگئیں جیسے ان میں کوئی تکلیف اور خرابی تھی نہیں، اس کے بعد آپ ﷺ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا۔ حضرت علی (اس سرفرازی سے بہت خوش ہوئے اور) بولے یا رسول اللہ ﷺ ! میں ان لوگوں (دشمنوں سے) اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہوجائیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جاؤ اور نرمی وبردباری کے ساتھ چل کر ان (دشمنوں) علاقہ میں پہنچو، پھر (سب سے پہلے) ان کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو اللہ کے وہ حقوق بتاؤ جو اسلام میں ان پر عائد ہوتے ہیں (اور پھر اگر وہ دعوت اسلام کو ٹھکرادیں تو ان سے جزیہ طلب کرو، اگر وہ جزیہ پر صلح کرنے سے انکار کردیں تو پھر آخر میں ان کے خلاف اعلان جنگ کرو اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائیں یا جزیہ دے کر اسلامی نظام کی سیاسی اطاعت قبول کرنے پر تیار نہ ہوجائیں) پس (اے علی) اللہ کی قسم، یہ بات کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ کسی ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے، تمہیں ملنے والے سرخ اور چوپائیوں سے کہیں بہتر ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح خیبر ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ سے ساٹھ میل دور ملک شام کی سمت واقع ہے، یہ غزوہ ٧ ھ میں پیش آیا تھا۔ پس (اے علی) اللہ کی قسم۔۔۔۔۔۔۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت عل کی جو راہ نمائی فرمائی تھی کہ کفار کو اپنے اسلام کی دعوت دیں تو اسی کی تاکید کے لئے آپ ﷺ نے آگے کے جملے قسم کھا کر ارشاد فرمائے، اس پر تاکید راہنمائی کی وجہ یہ احساس تھا کہ جنگ و قتال کی صورت میں اگرچہ مال غنیمت مثلا اعلی و عمدہ اونٹ اور چوپائے وغیرہ حاصل ہوتے ہیں لیکن اگر کفار کو نرمی وبردباری کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ دعوت اکثر بارآور ہوجاتی ہے اور مخالفین اسلام کی بڑی تعداد جنگ وجدل کے بغیر مسلمان ہوجاتی ہے جو اسلام کا اصل منشاء ومقصد ہے علامہ ابن ہمام نے اسی بنیاد پر بڑی پیاری بات کہی ہے کہ ایک مؤمن کا پیدا کرنا ہزار کفار کو معدوم کرنے سے بہتر ہے۔

【10】

کمال قرب وتعلق کا اظہار

حضرت عمران ابن حصین سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں نیز وہ علی تمام اہل ایمان کے دوست و مددگار ہیں۔ (ترمذی) تشریح علی مجھ سے ہیں۔۔۔۔۔ یہ ارشاد گرامی دراصل کمال قرب وتعلق اخلاص ویگانگت اور نسب ونسل میں باہم اشتراک سے کنایہ ہے وہ (علی) تمام اہل ایمان۔۔۔۔ ان الفاظ میں قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے (اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رٰكِعُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ 55) تمہارے دوست ومدد گار تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اہل ایمان ہیں جو اس طرح نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں کہ ان میں خشوع ہوتا ہے۔

【11】

کمال قرب وتعلق کا اظہار

اور زید ابن ارقم سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں جس کا دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں۔ تشریح اس حدیث کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کو علی بھی دوست رکھتے ہیں اور ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخص میرا حامی ومدد گار اور دوست ہے اس کے حامی ومدد گار اور دوست علی ہوتے ہیں، اس حدیث کی باقی وضاحت آگے تیسری فصل میں آرہی ہے۔

【12】

کمال قرب وتعلق کا اظہار

اور حضرت حبشی بن جنادہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں، میری طرف سے (نبذعہد کی ذمہ داری) کوئی ادا نہیں کرے علاوہ میرے اور علی کے (ترمذی اور احمد نے اس روایت کو ابوجنادہ سے نقل کیا ہے۔ تشریح کسی معاہدہ کو اس طرح توڑنا کہ فریق ثانی کو پہلے سے مطلع کردیا گیا ہو نبدعہد کہلاتا ہے دراصل اہل عرب میں یہ اصول رائج تھا کہ جب دو فریقوں کے درمیان کسی صلح اور مقفیہ باہمی کا وصل قرار ہوتا یا کسی صلح اور معاہدہ کو توڑنا ہوتا تو اس سلسلہ کی ضروری کاروائی اور بات چیت کی ذمہ داری ہر فریق میں سے صرف وہ شخص انجام دیتا ہے جو اپنی قوم و جماعت کا سردار اور سربراہ ہوتا، یا پھر اس کی عدم موجودگی میں اس کی نیابت صرف وہ شخص کرسکتا تھا جو اس (سردار وسربراہ) کا قریب ترین عزیزورشتہ دار ہوتا، اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد ٩ ھ کے حج کے موقع پر بعض اہم دینی وملی مصروفیات کے سبب آنحضرت ﷺ حج کے لئے تشریف نہ لے جاسکے تو آپ ﷺ نے اپنی جگہ حضرت ابوبکر کو امیر الحج بنا کر مکہ روانہ کیا حضرت ابوبکر کی روانگی کے بعد آنحضرت ﷺ پھر حضرت علی کو مکہ روانہ کیا اور ان کو اپنی طرف سے یہ ذمہ داری سپرد کی کہ وہ حج کے موقعہ پر اس صلح نامہ اور معاہدہ کی منسوخی کے فیصلہ کا اعلان کریں جو تین سال قبل ٦ ھ میں حدیبیہ کے مقام پر آنحضرت ﷺ اور قریش مکہ کے درمیان عمل میں آیا تھا، سورت براہ ( سورت توبہ) مشرکوں کو پڑھ کر سنائیں جس میں اس بات سے متعلق آیتیں نازل ہوئی تھیں اور یہ اعلان کردیں کہ مشرک نجس و ناپاک ہیں اس کے بعد کوئی مشرک مسجد حرام کے پاس نہ آئے اور اس ضمن میں جو دوسرے احکام و فرامین نازل ہوئے ہیں ان سے سب کو آگاہ کردیں اسی موقع پر آنحضرت ﷺ نے مذکورہ بالا حدیث ارشاد فرمائی جس کا مقصد حضرت علی کی عزت افزائی بھی تھا اور حقیقت میں مذکورہ ذمہ داری حضرت ابوبکر کے سپرد کئے جانے کا عذر بیان کرنا بھی تھا کہ امیر الحج ہونے کی حیثیت سے اس سفر حج میں دربار رسالت کانمائندہ اول تو ابوبکر ہیں لیکن عرب میں رائج اصول کی مجبوری کے تحت نقض عہد (معاہدہ کی منسوخی) کے اعلان کی ذمہ داری علی کے سپرد کی گئی ہے، اسی لئے حضرت ابوبکر نے حضرت علی (رض) سے اسی وقت وضاحت کرالی تھی جب وہ پیچھے سے آکر ان کے قافلہ میں شامل ہوئے کہ تم امیر ہو کر آئے ہو یا مامور ہو کر حضرت علی نے واضح کیا کہ میں امیر ہو کر نہیں آیا ہوں مامور ہو کر آیا ہوں۔ اس واقعہ سے محققین یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اس میں درحقیقت اس طرف اشارہ تھا کہ علی کی خلافت ابوبکر صدیق کی خلافت کے بعد قائم ہوگی۔

【13】

کمال قرب وتعلق کا اظہار

اور حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کرایا، تو حضرت علی اس حال میں (آنحضرت ﷺ کے پاس) آئے کہ آنکھوں سے آنسوجاری تھے اور عرض کیا کہ آپ ﷺ نے اپنے اور صحابہ کے درمیان تو بھائی چارہ قائم فرما دیا لیکن کسی سے میرا بھائی چارہ قائم نہیں کیا ؟ (یہ سن کر) رسول کریم ﷺ نے (ان سے) تم میرے بھائی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تشریح آنحضرت ﷺ نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پر سب سے پہلے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ دی وہ باشندگان مدینہ یعنی انصار اور مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین کے درمیان برادرانہ بنیادوں پر مخلصانہ ومستحکم تعلق قائم کرانا تھا، چناچہ مدینہ پہنچنے کے پانچویں ہی ماہ آپ ﷺ نے ایک دن تمام انصار اور مہاجرین کو جمع کر کے اخوت اسلامی کا آفاقی فلسفہ پیش کیا اور انفرادی سطح پر عموماً ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا۔ حضرت علی ان چند صحابہ میں سے ایک تھے جن کا کسی کے ساتھ بھائی چارہ قائم نہیں ہوا تھا اس پر حضرت علی کو سخت ملال ہوا اور وہ سمجھے کہ شاید مجھے نظر انداز کردیا گیا ہے، لہٰذا وہ روتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور شکوہ کیا کہ آپ ﷺ نے دوسرے صحابہ جیسے ابوبکر اور خارجہ ابن انصاری کے درمیان حضرت عمر فاروق اور حضرت عتبان بن مالک انصاری کے درمیان حضرت عثمان بن عفان اور حضرت ثابت بن منذر انصاری کے درمیان اور حضرت سلمان اور حضرت ابودرداء انصاری وغیرہ وغیرہ کے درمیان تو بھائی چارہ قائم کرکے ان کو ایک دوسرے کا دینی بھائی بنادیا ہے لیکن کسی انصاری صحابی کے ساتھ میرا بھائی چارہ قائم نہیں فرمایا اس پر آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہارا بھائی موجود ہوں، دنیاوی رشتہ و قرابت کے اعتبار سے بھی، تو پھر تمہیں کیا ضروت ہے کہ کسی کے ساتھ تمہارا بھائی چارہ قائم کراؤں۔

【14】

علی اللہ کے محبوب ترین بندے

اور حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ کے سامنے (بھنایاپکا ہوا) پرندہ رکھا ہوا تھا، آپ ﷺ نے دعا مانگی اے اللہ ! تیری مخلوق میں جو بہت زیادہ تجھ کو محبوب ہو اس کو میرے پاس بھیج دے تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندہ کا گوشت کھائے پس حضرت علی آئے اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ کھایا، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح ابن جوزی کا کہنا تو یہ ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے لیکن حاکم نے اس کو موضوع قرار دیا ہے نیز مختصر ع میں یہ لکھا ہے کہ یہ روایت گوبہت سے طرق سے منقول ہے مگر وہ سارے طرق ضعیف ہیں، بہر حال یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اللہ کے نزدیک اس کی مخلوق میں محبوب ترین بندے تھے۔ تاہم شارحین نے حدیث کا یہ مطلب بعض تخصیصات وقیود کے ساتھ بیان کیا ہے مثلا یہ کہ سیدنا علی اللہ کے محبوب ترین بندے تھے، سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ترین بندوں میں سے ایک تھے یا یہ کہ آنحضرت ﷺ کے غم زادوں یا آپ ﷺ کے قریب ترین رشتہ داروں میں اللہ کے محبوب ترین بندے سیدنا علی تھے اور یا یہ مراد ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حسن سلوک اور احسان کا ترجیحی بنیاد پر سب سے زیادہ استحقاق رکھنے والوں میں اللہ کے نزدیک اس کے محبوب ترین بندے سیدنا علی تھے۔ ان تحقیقات اور قیود سے شارحین کا مقصد غالباً یہ ہے کہ الفاظ حدیث سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکے کہ سیدنا علی، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے بھی زیادہ محبوبیت رکھتے تھے، حالانکہ حقیقت میں ان تخصیصات وقیود کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اول تو یہ یقینی بات ہے کہ حدیث میں مخلوق سے علی العموم تمام مخلوق مراد نہیں ہے، اگر علی العموم تمام مخلوق مراد لی جائے تو یہ مطلب ہوگا کہ سیدنا علی کا مرتبہ آنحضرت ﷺ سے بھی بڑھا ہوا تھا جو نہ صرف یہ کہ علی الطلاق محبوب ترین بندے ہیں بلکہ سید المحبوبین اور افضل المخلوقین بھی ہیں، اس لئے آنحضرت ﷺ پر سیدنا علی کو کیا کسی کو بھی فضیلت نصیب نہیں ہوسکتی، دوسرے یہ کہ اگر کسی خاص نسبت اور کسی مخصوص حیثیت کے اعتبار سے سیدنا علی کا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے بھی محبوب تربندہ ہونا ثابت ہو تو بجمیع وجوہ مراد نہ ہونے کے سبب اس کو ابوبکر وعمر پر علی کی جزوی فضیلت کہیں گے اور یہ جزوی فضیلت ان دونوں کی اس کلی فضیلت کے منافی ہرگز نہیں ہوگی جو کثرت اجر اور ثواب کی بنا پر اور بجمیع وجوہ ان کو حاصل ہے، لہٰذا روافض اگر اس حدیث سے حضرت علی کی خلافت بلافصل پر دلیل لیتے ہیں اور حضرت ابوبکر وحضرت عمر پر ان کی کلی فضیلت و برتری ثابت کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی نادانی ہے۔ ان کو دیکھنا چاہے کہ اس طرح کے الفاظ حضرت عمر کی منقبت میں بھی مقبول ہیں جیسے ایک حدیث میں فرمایا گیا ما طلعت الشمس علی خیرمن عمر (عمر سے بہتر کسی انسان پر سورج طلوع نہیں ہوا) یا ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں ارفع درجۃ فی الجنۃ عمر (جنت میں عمر کا درجہ بلند تر ہوگا) تو کیا ان حدیث کے الفاظ کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہوئے روافض وشیعہ یہ تسلیم کریں گے کہ علی العموم تمام انسانوں میں سب سے زیادہ افضل واعلی حضرت عمر ہیں کیونکہ ان حدیث سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ روئے زمین پر عمر سے بہتر کوئی انسان نہیں اور جنت میں کسی کا بھی درجہ عمر سے بلند نہیں ہوگا، ظاہر ہے اہل رفض و تشیع اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ یہ مطلب تو اہل سنت والجماعت بھی مراد نہیں لیتے بلکہ چند تحصیصات وقیود کے ساتھ الفاظ حدیث کا مطلب بیان کرتے ہیں تو پھر حضرت علی (رض) سے متعلق اس روایت کو مطلق اس کے ظاہری معنی پر محمول کرکے ان کی علی الاطلاق افضلیت پر ان روافض اور شیعوں کو اصرار کیوں ہے، ایک بات اہل سنت سے بھی کہہ دینا ضروری ہے کہ افضلیت کا مسئلہ طنی ہے اس کو ایمان وکفر کا معاملہ نہ بنانا چاہئے، اسی طرح اس روایت کو موضوع قرار دینے پر زور صرف کرنا چاہئے، فنی اور تحقیقی طور پر کتنا ہی درست ہو مگر ظاہری طور پر اس کو شدت وتنگی بلکہ تعصب پر محمول کیا جانا مستبعد نہیں ہے۔

【15】

عطاء وبخشش کا خصوصی معاملہ

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ سے جب بھی کچھ مانگتا تو آپ ﷺ عطا فرما دیتے اور جب میں خاموش رہتا یعنی مانگنے سے حجاب برتتا تو آپ ﷺ از خود دے دیتے تھے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【16】

علی علم وحکمت کا دروازہ ہیں

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے میں حکمت و دانائی کا گھر ہوں اور علی اس گھر کا دروازہ ہیں اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض راویوں نے اس حدیث کو شریک تابعی سے نقل کیا ہے لیکن ان کی اس حدیث کی اسناد میں صنابحی کا ذکر نہیں ہے (جیسا کہ ان کی اور روایتوں کے سلسلہ اسناد میں اس کا نام کا ذکر آتا ہے) نیز اس روایت کو ثقات میں شریک کے علاوہ اور کسی سے ہم نہیں جانتے۔ تشریح ایک روایت میں یوں آیا ہے انا مدینۃ العلم وعلی بابہا (یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہرکا دروازہ ہیں) ایک اور روایت میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں فمن اراد العلم فلیاتہ من بابہ (یعنی پس جو شخص حصول علم کا آرزومند ہو اس کو اس دروازہ کے ذریعہ آنا چاہئے۔ بہرحال علی دروازہ ہیں سے یہ مراد نہیں ہے کہ تنہا علی ہی دروازہ ہیں، بلکہ یہ معنی مراد ہیں کہ علی دروازوں میں سے ایک دروازہ ہیں تاہم اس معنی میں بھی صرف حضرت علی کا ذکر ان کی فضیلت اور تکریم کا ظاہر کرتا ہے اور واقع میں حضرت علی ایسا رتبہ رکھتے بھی ہیں، اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ طبقہ صحابہ میں علم و حکمت کا جو خصوصی درجہ کمال سیدنا علی کو حاصل ہے وہ چند ہی صحابہ کو نصیب ہوا اور اس اعتبار سے سیدنا علی کو اگر اکثر صحابہ کی بہ نسبت سب سے زیادہ علمی فضیلت و بزرگی رکھنے والا کہا جائے تو غیر موزوں نہیں ہوگا۔ رہی یہ بات کہ اس روایت کے ظاہری معنی کے مطابق تنہا علی کو دروازہ کیوں قرار دیا جائے اور دوسرے صحابہ کو بمنزلہ اور دروازہ کیوں مانا جائے، تو اس سلسلہ میں اس حقیقت کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ آنحضرت ﷺ سے اکتساب فیض کرنے والے تمام ہی صحابہ امت کے لے مدار علم ہیں امت تک دین کا جو بھی علم پہنچا ہے وہ تمام صحابہ نے مشترک طور پر پہنچایا ہے، کسی بھی صحابی کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس امت کو علم نبوت تنہا اسی نے منتقل کیا ہے اور آنحضرت ﷺ کے بعد علوم دین کا واحد مدار اسی کی ذات ہے۔ اس کی دلیل میں بہت سی حدیثیں پیش کی جاسکتی ہیں ان میں سے ایک حدیث تو آنحضرت ﷺ کا یہی ارشاد ہے کہ اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیم میرے تمام صحابہ آسمان ہدایت کے ستارے ہیں ان میں سے جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پاؤ گے علاوہ ازیں یہ بات تاریخی اور واقعاتی طور پر ثابت شدہ ہے کہ تابعین نے دین و شریعت کے جو مختلف علوم وفنون اخذکئے جیسے قرأۃ تجوید، تفسیر، حدیث اور فقہ وغیرہ، وہ سب انہوں نے تنہا حضرت علی (رض) سے اخذ نہیں کئے بلکہ تمام صحابہ سے اخذ کئے ہیں لہٰذا اس کے علاوہ چارہ نہیں کہ بابیت یعنی علم و حکمت کے شہر کے دروازہ ہونے) کو تنہا حضرت علی کے حق میں منحصر نہ رکھا جائے۔ ہاں اگر قضا (عدالت ومنصفی) کا علم وفن کے ساتھ مخصوص کرکے حضرت علی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ان کی ذات بےمثال تھی اور اس باب میں وہ تمام صحابہ پر فضیلت و برتری رکھتے تھے تو یقینا بجا ہوگا کیونکہ ان کے حق میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے انہ اقضاکم علی سب سے بڑے قاضی ہیں جیسا کہ حضرت ابی کے حق میں فرمایا انہ اقراء کم (ابی تم میں سب سے بڑے قاری ہیں) اور حضرت معاذ بن جبل کے حق میں فرمایا انہ اعلمکم بالحلال والحرام تم میں حلال و حرام کا علم سب سے زیادہ رکھنے والے ہیں۔ علامہ طیبی لکھتے ہیں شیعہ اس حدیث میں مذکورتمثیل سے تمسک کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے علم و حکمت پہنچنے کا واحد ذریعہ حضرت علی ہیں ان کے واسطہ کے بغیر کسی کو اس (علم و حکمت) میں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ گھر میں داخل ہونے کا اصل ذریعہ دروازہ ہی ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے وا تو البیوت من ابوبہا اور چونکہ آنحضرت ﷺ نے خود کو علم و حکمت کا گھر بتایا ہے اور اس گھر کا دروازہ حضرت علی کو قرار دیا ہے، اس لئے حضرت علی وہ دروازہ ہیں جس کے ذریعہ علم و حکمت کے گھر میں رسائی ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیعہ جو کچھ کہتے ہیں اس کی ذرہ برابر دلیل اس حدیث میں نہیں ہے، بلاشبہ حضرت علی کو علم و حکمت کا گھر جنت کے گھر سے زیادہ وسیع وفراخ نہیں ہے ؟ جب جنت کے آٹھ دروازے ہیں تو علم و حکمت کے گھر کے دروازے اس سے زیادہ کیوں نہیں ہوسکتے۔ آخر میں یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ اس حدیث کا اصل ناقل ابی الصلت عبد السلام بن صلاح ہر وی ہے جو اگرچہ شیعہ ہے لیکن محدیثن کے نزدیک راست گو ہے علاوہ ازیں اس حدیث کے بارے میں محدیثن کم اختلافی اقوال ہیں بعض محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے تو بعض نے حسن۔ اسی طرح بعض نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے تو بعض نے کہا ہے کہ منکر ہے یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ اس حدیث کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور کچھ لوگوں نے اس کو موضوع قرار دینے کی بھی کو شس کی ہے تاہم حافظ ابوسعید نے وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث کی باعتبارطرق کے حسن ہے نہ صحیح ہے نہ ضعیف اور نہ موضوع، نیز محدیثن نے اس حدیث کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے انا مدنیۃ العلم و ابوبکر اساسہا وعمر حیطانہا و عثمان سقفہا وعلی بابہا یعنی علم کا شہر ہوں، ابوبکر اس شہر کی بنیاد ہیں، عمر اس شہر کی فصیل ہیں عثمان اس شہر کی چھت ہیں اور علی اس شہرکا دروازہ ہیں۔

【17】

خاص فضیلت

اور حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ غزوہ طائف کے دن رسول اللہ ﷺ نے علی کو بلایا اور اس سے سرگوشی کرنے لگے (یعنی ایسا نظر آرہا تھا جیسے کسی خاص مسئلہ پر ان کے ساتھ چپکے چپکے باتیں کررہے ہیں اور جب ان باتوں کا سلسلہ کچھ دراز ہوگیا تو (منافقین نے یا صحابہ میں عام) لوگوں نے کہا اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ تو رسول اللہ نے بڑی دیر تک کانا پھوسی کی ؟ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سنا تو) فرمایا علی کے ساتھ میں نے سرگوشی نہیں کی بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے۔ (ترمذی) تشریح بلکہ اللہ نے سرگوشی کی یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا تھا کہ بعض باتیں چپکے چپکے علی تک پہنچا دوں، اس لئے حکم الہٰی کی تعمیل میں میں نے ان کے ساتھ چپکے چپکے باتیں کی ہیں نہ کہ میں ان کے ساتھ وہ کانا پھوسی کررہا تھا جو آداب مجلس کے خلاف ہے اور چونکہ وہ سرگوشی اللہ کے حکم کی تعمیل میں تھی لہٰذا اس صورت میں گویا اللہ نے ان سے سرگوشی کی، مصداق کے اعتبار سے یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسا ایک آیت قرآن کا یہ فقرہ ( وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى) 8 ۔ الانفال 17) اور آپ ﷺ نے خاک کی مٹھی نہیں پھینکی بلکہ وہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی اس سلسلہ میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ حضرت علی (رض) سے آنحضرت ﷺ کی اس سرگوشی کا موضوع دراصل اس غزوہ کی بابت کچھ ایسے نقطے اور راز کی باتیں تھیں جن کا تعلق دین کے ضمن میں آنے والے دنیاوی انتظام و معاملات سے تھا اور جن کا برسر عام تذکرہ حکمت وپالیسی کے خلاف تھا یہ نہیں کہ آپ ﷺ نے منجانب اللہ نازل شدہ دین کی کوئی بات یا دینی امور سے متعلق کچھ احکام سب لوگوں سے چھپا کر حضرت علی کو دئیے خود حضرت علی نے اس طرح کے خیال کے مبنی برحقیقت ہونے کی تردید کی ہے چناچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ جب کچھ لوگوں نے حضرت علی (رض) سے سوال کیا کہ آپ ﷺ کے پاس کوئی ایسی چیز (یعنی کوئی ایسا خدائی حکم و فرمان) ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے ! حضرت علی نے جواب دیا اس ذات کی قسم جس نے زمین سے دانہ اگایا اور ذی روح کو پیدا کیا، میرے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو قرآن میں موجود ہے ہاں کتاب اللہ کی وہ سمجھ مجھے حاصل ہے جو (حق تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم کے تحت) کسی کو حاصل ہوتی ہے اور یہ ایک صحیفہ میرے پاس ہے (جس میں وراثت ودیت وغیرہ کے کچھ احکام لکھے ہوئے ہیں ) ۔

【18】

خصوصی فضیلت

اور حضرت سعید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا تھا اے علی ! میرے اور تمہارے سوا کسی کو جائز نہیں کہ وہ جنابت یعنی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں آئے علی بن منذر کا بیان ہے کہ میں نے ضرار ابن صرد سے پوچھا کہ اس حدیث کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے بتایا (اس کے معنی یہ ہیں کہ) میرے اور تمہارے سوا کسی شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ جنابت یعنی ناپاکی کی حالت میں مسجد کو گزر گاہ بنائے اور اس کے اندر سے آئے جائے، اس کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے (لیکن جزری کا کہنا یہ ہے کہ متفقہ طور پر تمام محدثین نے اس حدیث کو ضغیف قرار دیا ہے ) ۔ تشریح اتفاق سے آنحضرت ﷺ اور حضرت علی کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی کے اندر واقع تھے اور اپنے اپنے گھر میں آنے جانے کے لئے ان کو مسجد میں سے گزرنا پڑتا تھا۔ علی ابن منذر تیسری ہجری کی ایک مشہور ہستی ہیں اور اونچا علمی مقام تو رکھتے ہی تھے لیکن عابد وزاہد ہونے کے اعتبار سے بھی امتیازی شخصیت کے مالک تھے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پچپن حج کئے۔ ائمہ حدیث کی ایک جماعت سے حدیث سننے اور روایت کا شرف ان کو حاصل ہے، اگرچہ شیعہ تھے لیکن مستند فقیہ اور محدثین کی اصطلاح میں صدوق مانے گئے ہیں اور ابن حبان نے ان کا ذکر ثقہ راویان حدیث میں کیا ہے۔

【19】

محبوب رسول خدا

اور حضرت ام عطیہ کہتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ نے کسی جنگی مہم پر ایک لشکر روانہ فرمایا تو اس میں حضرت علی بھی شامل تھے ام عطیہ کا بیان ہے کہ اس موقعہ پر (جب کہ آپ ﷺ لشکر کو رخصت کر رہے تھے یا لشکر کی واپسی کا دن قریب تھا) میں نے رسول کریم ﷺ کو ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگتے سنا ! الہٰی مجھ کو اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ تو علی کو (عافیت و سلامتی کے ساتھ واپس لاکر) مجھ کو نہ دکھا دے۔ (ترمذی) تشریح اس حدیث سے اس چیز کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ کو سیدنا علی سے کس درجہ تعلق اور کتنی شدید محبت تھی کہ ان کی جدائی سے آپ ﷺ دل گرفتہ ہوجاتے تھے۔

【20】

علی سے بغض رکھنے والا منافق ہے

حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا علی سے منافق محبت نہیں رکھتا اور (کامل) مؤمن علی سے بغض اور دشمنی نہیں رکھتا، اس روایت کو احمد و ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث باعتبار اسناد کے غریب ہے۔

【21】

علی کو برا کہنا حضور ﷺ کو برا کہنا ہے

اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے (نسب ونسل کے اعتبار سے) علی کو برا کہا اس نے درحقیقت مجھ کو برا کہا ) ۔ (احمد) تشریح مطلب یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں بدگوئی اور فحش کلامی کرنا گویا آنحضرت ﷺ کی شان میں بدگوئی اور فحش کلامی کرنا ہے پس حدیث کا متقضی یہ ہے کہ جو شخص حضرت علی کی شان میں بدگوئی کرے اس کو کافر قرار دیا جانا چاہئے یا یہ کہا جائے کہ یہ حدیث دراصل تہدیدو وعید پر محمول ہے یا یہ کہ بدگوئی کرنے والے کو کافر اس صورت میں قرار دیا جائے گا جبکہ وہ ان کی شان میں بدگوئی کو حلال جانے۔ اس روایت کو حاکم نے بھی نقل کیا ہے نیز طبرانی نے حضرت ابن عباس کے حوالہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ من سب اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین جس نے میرے صحابہ کی شان میں بدگوئی کی اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت۔ اور طبرانی ہی نے حضرت علی (رض) سے یوں نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا من سب الانبیاء قتل ومن سب اصحابی جلد انبیاء کی شان میں بد گوئی کرنے والے کو قتل کردیا جائے اور میرے صحابہ کی شان میں بدگوئی کرنے والے کو کوڑے لگائے جائیں۔

【22】

ایک مثال ایک پیش گوئی

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے مجھ کو فرمایا تم میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے ایک طرح کی مشابہت ہے یہودیوں نے ان (عیسیٰ (علیہ السلام) سے بغض رکھا تو اتنا زیادہ رکھا کہ ان کی ماں (مریم (علیہ السلام) پر (زنا کا) بہتان باندھا اور عیسائیوں نے ان سے محبت و وابستگی قائم کی تو اتنی (زیادہ اور غلو کے ساتھ قائم کی) کہ ان کو اس مرتبہ ومقام پر پہنچا دیا جو ان کے لئے ثابت نہیں ہے (یعنی ان کو اللہ یا ابن اللہ قرار دے ڈالا) یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضرت علی نے کہا (مجھے یقین ہے کہ اس ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح میرے بارے میں بھی) دو شخص یعنی دو گروہ اس طرح ہلاک (یعنی گمراہ) ہوں گے کہ ان میں سے ایک تو جو مجھ سے محبت رکھنے والا ہوگا اور اس محبت میں حد سے متجاوز ہوگا، مجھ کو ان خوبیوں اور بڑائیوں کا حامل قرار دے گا جو مجھ میں نہیں ہونگی اور ایک جو مجھ سے بغض وعناد رکھنے والا ہوگا، میری دشمنی سے مغلوب ہو کر مجھ پر بہتان باندھے گا۔ (احمد ) تشریح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں جو پیش گوئی فرمائی اور جس کی طرف خود حضرت علی نے واضح طور پر اشارہ کیا وہ پوری ہو کر رہی۔ روافض اور شیعوں نے حب علی میں حد سے اس قدر تجاوز کیا کہ تمام صحابہ پر یہاں تک کہ انبیاء پر ان کی فضیلت کے قائل ہوئے بلکہ بعض طبقوں (جیسے نصیریوں وغیرہ) نے تو حضرت علی کو مقام الوہیت تک پہنچا دیا، ان کے مقابلہ پر دوسرا گروہ وہ خارجیوں کا پیدا ہوا، وہ حضرت علی کی دشمنی میں حد تک بڑھ گئے کہ کوئی بڑے سے بڑا بہتان ایسا نہیں چھوڑا جو ان کی پاکیزہ شخصیت پر انہوں نے نہ باندھا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ محبت وعقیدت وہی مستحسن و مطلوب ہے جو حد سے زیادہ متجاوز نہ ہو اور عقل و شریعت کے مسلمہ اصول کے مطابق ہو، ایسی محبت وعقیدت جو حد سے متجاوز ہو درحقیقت گمراہی کی طرف لے جاتی ہے اور غیر معتدل ہونے کے سبب راہ مستقیم سے باہر کردیتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی محبت وعقیدت رکھنے والے شخص کو جو اگرچہ بظاہر مسلمان ودیندار نظر آتا ہے گمراہ انسان کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اہل سنت والجماعت کو جس چیز نے راہ مستقیم پر گامزن کر رکھا ہے وہ محبت وعقیدت کے باب میں ان کا اعتدال و توازن ہے کہ وہ افراط اور تفریط دونوں سے محفوظ ہیں، بہرحال اہل ایمان واسلام کی زندگی کا سرمایہ سعادت دو چیزیں ہیں ایک تو خاندان نبوت کی محبت اور دوسری اصحاب نبی ﷺ کی تعظیم جو شخص اس سرمایہ سعادت کو حاصل کرکے اپنی اور عقبی بنانا چاہئے اس کو لازم ہے کہ ان دونوں کے درمیان اعتدال و توازن رکھے اور اسی اعتدال و توازن کے ساتھ ان دونوں کی محبت کو اپنے اندر جمع کرے۔ امام احمد نے ایک روایت نقل کی ہے کہ سیدنا علی نے فرمایا یحبنی اقوام حتی یدخلوا النار فی حبی ویبغضنی اقوام حتی یدخلوا النار فی بغضی۔ کچھ گروہ مجھ سے محبت رکھیں گے یہاں تک کہ میری محبت (میں غلو) کے سبب ان کو دوزخ میں ڈالا جائے گا اور کچھ کروں مجھ سے دشمنی رکھیں گے یہاں تک کہ میری دشمنی کے سبب وہ دوزخ میں جائیں گے۔ امام احمد نے حضرت علی کی یہ دعا نقل کی ہے۔ اللہم العن کل مبغص لنا وکل محب لنا غال الہٰی ! ہم سے دشمنی رکھنے والوں پر لعنت کر اور ہمارے غالی محبین پر بھی لعنت کر۔

【23】

غدیر خم کا واقعہ

حضرت براء بن عازب اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جب غدیر خم میں پڑاؤ کیا تو آپ ﷺ نے (صحابہ کو جمع کیا اور جیسا کہ ایک روایت میں ہے، اونٹوں کے پلانوں کا منبر بنا کر اس پر کھڑے ہوئے اور پھر) حضرت علی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا ( اے میرے اصحاب ! ) یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ اہل ایمان کے نزدیک میں ان کی جانوں سے زیادہ عزیز ہوں ؟ سب نے عرض کیا جی ہاں، اس کے بعد آپ ﷺ نے یوں فرمایا تم تو جانتے ہی ہو کہ میں ایک ایک مؤمن کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ عزیز و محبوب ہوں ! صحابہ نے عرض کیا جی ہاں تب آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! جس شخص کا میں دوست ہوں علی اس کا دوست ہے۔ الہٰی تو اس شخص کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور تو اس شخص کو اپنا دشمن قرار دے جو علی سے دشمنی رکھے اس واقعہ کے بعد حضرت عمر جب حضرت علی (رض) سے ملے تو ان سے بولے ابن ابی طالب مبارک ہو تم تو صبح کے وقت بھی اور شام کے وقت بھی (یعنی ہر آن وہرلمحہ) ہر مسلمان مرد و عورت کے دوست و محبوب ہو۔ (احمد ) تشریح غدیرخم ایک مقام کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے مابین حجفہ کے قریب واقع ہے، مکہ سے حجفہ کا فاصلہ تقریبا ٥٠، ٦٠ میل ہے اور حجفہ سے غدیرخم تین چار میل کے فاصلے پر ہے۔ ١٠ ھ میں رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے سفر واپسی میں یہاں قیام فرمایا تھا اور اس وقت صحابہ کی بہت بڑی تعداد آپ ﷺ کے ہمراہ تھی جن کو آپ ﷺ نے جمع کرکے حضرت علی کے حق میں مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ اہل ایمان کے نزدیک۔۔۔۔ ان الفاظ کے ذریعہ آپ ﷺ نے صحابہ کو قرآن کریم کی اس آیت (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ) 33 ۔ الاحزاب 6) (نبی اہل ایمان کے نزدیک خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز و محبوب ہیں) کی طرف متوجہ کیا، نیز ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ تین بار ارشاد فرمائے تھے۔ میں ایک ایک مؤمن کے نزدیک۔۔۔۔۔ پہلے آپ ﷺ نے علی العموم اہل ایمان کا لفظ ارشاد فرمایا تھا، پھر اسی بات کو دوہرانے کے لئے اور زیادہ وضاحت کی خاطر ایک ایک مؤمن کا لفظ استعمال فرمایا۔ بہرحال ان الفاظ کے ذریعہ آپ ﷺ نے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ ایک ایک مؤمن جو مجھ کو اپنی جان سے بھی زیادہ رکھتا ہے تو اس کی ایک خاص یہ ہے کہ میں اہل ایمان کی انہی باتوں کا حکم دیتا ہوں جوان کی دینی یا دنیاوی بھلائی و بہتری اور فلاح ونجات کی ضامن ہیں جب کہ ان کا اپنا نفس، بتقضائے بشریت ان کو برائی اور بگاڑ کی طرف بھی لے جانا چاہتا ہے اور یہ انسان کی فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے کہ وہ جس ذات کو ہر آن اپنا خیرخواہ پاتا ہو اس کو ذات سے زیادہ عزیز و محبوب رکھے جوہر آن یا کبھی کبھار ہی سہی بدخواہی پر آمادہ پائی جاتی ہو۔ الہٰی تو اس شخص کو دوست رکھ۔۔۔۔۔ ایک روایت میں یہاں آپ ﷺ کے الفاظ یوں منقول ہیں الہم احب من حبہ وابغض من ابغضہ وانصر من انصرہ واخذل من خذلہ وادر الحق معہ حیث دار۔ الہٰی تو اس شخص کو محبوب رکھ جو علی کو محبوب رکھے اور اس شخص سے بغض رکھ جو علی سے بغض رکھے اور اس شخص کی مدد کر جو علی کا مددگار ہو اس شخص کی مدد نہ کر جو علی کی مدد نہ کرے اور حق کو علی کے ساتھ رکھ کہ جدھر علی رہے ادھر ہی حق رہے۔

【24】

شیعوں کا استدلال

شیعہ جماعت جن احادیث اور روایتوں سے حضرت علی کی خلافت بلافصل اور ان کی اولیت وافضلیت پر استدلال کرتی ہے ان میں سے اس حدیث کو وہ نہایت مضبوط اور قوی تر دلیل دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ مولا کے معنی عزیز و محبوب اور مددگار کے نہیں ہیں بلکہ دراصل یہ لفظ اولی بالخلافت کے معنی میں ہے، وہ اپنی دلیل میں ماقبل عبارت کے الفاظ انی اولی بالمؤمنین پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے بارے میں جو یہ الفاظ فرمائے تھے ان کے معنی یہ ہیں کہ میں اہل ایمان پر خود ان کے نفس سے زیادہ تصرف و حکومت کا حق رکھتا ہوں وہ کہتے ہیں کہ اگر ان الفاظ کے معنی اہل ایمان کے نزدیک ان کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز و محبوب مراد ہوتے تو محض اس بات کو بیان کرنے کے لئے صحابہ کو اس قدر اہتمام سے جمع کرنے ان کو اتنی اہمیت کے ساتھ اور اس پر زور انداز میں مخاطب کرنے اور حضرت علی کے حق میں مذکورہ دعا کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ بات اتنی واضح اور عام تھی کہ تمام صحابہ جانتے اور مانتے تھے۔ علاوہ ازیں جو دعا آپ ﷺ نے حضرت علی کے حق میں کی وہ اس ذات کے علاوہ اور کسی کے حق میں ہو ہی نہیں سکتی جو امام معصوم مفروض الطاعتہ ہو۔ اس طرح شیعہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس حدیث سے آنحضرت ﷺ نے پوری امت کم حق میں جو ولا اپنے لئے بیان کیا وہی ولا حضرت علی کے لئے بھی واضح طور پر ثابت ہوا پس یہ حدیث حضرت علی کی خلافت بلافصل کے حق میں نص وقطعی وصریح ہے۔

【25】

الزامی جواب

ماننا چاہیے کہ یہ حدیث صحیح ہے، ائمہ حدیث مثلا امام ترمذی، امام نسائی اور امام احمد وغیرہ کی ایک جماعت نے اس کو نقل کیا ہے، اس کے طرق بھی بہت ہیں اور متعدد سلسلہ اسناد سے منقول ہے اور ان میں سے اکثر سلسلہ اسناد صحاح اور حسان ہیں۔ سولہ صحابہ اس حدیث کے روای ہیں بلکہ امام احمد نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی نے اپنا زمانہ خلافت میں ایک موقع پر جب کہ ان کے مخالفین کا گروہ ان کی خلافت کو نزاعی مسلہ بنائے ہوئے تھا، لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرکے ان سے فرمایا کہ میں تم سے ہر ایک کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم نے غدیر خم کے مقام پر رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ سنا تھا وہ بیان کرو تو اس پر تیس صحابہ نے کھڑے ہو کر یہ حدیث بیان کی اور خلافت علی کے حق میں شہادت دی۔ لہٰذا اس بات کی زیادہ اہمیت نہیں ہے کہ بعض حضرات نے اس حدیث کے صحیح ہونے میں کلام کیا ہے یا یہ کہا ہے کہ حدیث کا آخری حصہ الہم وال من والاہ الخ حقیقت میں اس حدیث کا جزء نہیں ہے بلکہ من گھڑت ہے اور بعد میں اس حدیث کا جزء بنایا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ حصہ بھی حدیث کا جزء ہے اور اس کو متعدد طرق سے نقل کیا گیا ہے جن میں اکثر کو دہبی نے صحیح قرار دیا ہے لیکن جہاں تک اس حدیث سے شیعوں کے مذکورہ استدلال کا تعلق ہے تو اس کی یقینا کوئی بنیاد نہیں ہے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کو ان سمجھی یا دانستہ طور پر غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا، لزامی جواب کے طور پر سب سے پہلی بات تو شیعوں سے یہ کہی جاسکتی ہے کہ خود تم اس بات پر متفق ہو کہ امامت کے مسئلہ میں دلیل کے نقطہ نظر سے تواتر کا اعتبا رہے یعنی امامت و خلافت کا استحقاق ثابت کرنے کے لئے وہی حدیث معتبر قرار پاسکتی ہے جو متواتر ہو جو حدیث متواتر نہیں ہے اس کے ساتھ صحت امامت پر استدلال نہ کرنا چاہئے جب کہ یہ حدیث جس کو تم لوگ نص قطعی وصریح قرار دے کر اپنا مستدل بناتے ہو، یقینی طور پر متواتر نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے تو صحیح ہونے میں بھی اختلاف ہے یہ دوسری بات ہے کہ اس اختلاف کو قبول نہیں کیا گیا جن حضرات نے اس حدیث کو مطعون قرار دیا ہے ان میں ابوداؤد سجستانی اور ابوحاتم رازی جیسے ائمہ حدیث اور ارباب عدل بھی شامل ہیں جن کی طرف علم حدیث میں رجوع کیا جاتا ہے اور جن کی ذات محدثین کے ہاں مرجع مانی جاتی ہے، علاوہ ازیں اہل حفظ واتقان مثلا بخاری، ومسلم۔ واقدی اور دوسرے اکابر محدثین میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو نقل نہیں کیا ہے جب کہ یہ حضرات حدیث کی طلب و جستجو میں شہر شہر قریہ قریہ پھرتے تھے اور صحیح احادیث کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرتے تھے گویا بات نہ فنی طور پر اس حدیث کی صحت رخنہ ڈالتی ہے اور نہ ہم اس حدیث کے صحیح ہونے سے انکار کرتے ہیں لیکن کیا یہ حیرت واستعجاب کی بات نہیں ہے کہ ایسی حدیث کو حدیث متواتر قرار دینے کی کوشش کی جائے جب شیعہ صحت امامت کی دلیل میں حدیث متواتر کا ہونا شرط مانتے ہیں تو اس کا صاف مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہوا کہ وہ اس حدیث کو نص قطعی وصریح مان کر گویا اس حدیث کو متواتر قرار دے رہے ہیں۔

【26】

لفظ |" مولا |" کے معنی

اب آئیے یہ دیکھیں کہ شیعہ جس لفظ مولا کی بنیاد پر اس حدیث کو حضرت علی کے استحقاق خلافت بلافصل پر نص صریح قرار دیتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے مولا کے ایک دو نہیں کئی معنی ہیں رب، مالک، آقا، مددگار، دوست، تابع، پیروی کرنے والا، پڑوسی، چچازاد بھائی، حلیف، داماد، آزاد کردہ غلام اور احسان مند وغیرہ وغیرہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر کسی کلام میں کوئی ایسا لفظ لایا گیا ہو جو مختلف معانی رکھتا ہو اور ان میں سے کچھ معنی ایک دوسرے سے ترادف و اشتراک بھی رکھتے ہوں تو ان میں سے کسی خاص معنی کو متعین اور مراد لینا اس صورت میں معتبر ہوگا جب کہ اس کی کوئی دلیل اور اضح قرینہ موجود ہو، یا اگر وہ لفظ متنازعہ بن گیا ہو تو اس معنی کو مراد لینا زیادہ صحیح مانا جاتا ہے جس میں قدر مشترک پایا جاتا ہو اس اصول کے تحت اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ لفظ مولا کے معنی حاکم و والی مراد لینا صحیح نہیں ہے، صحیح تو دوست و مددگار مراد لینا ہیں کیونکہ اول تو سیاق حدیث کا واضح قرینہ اور دلیل اس معنی کے حق میں ہے، دوسری دلیل یہ کہ لفظ مولا کا امام یعنی حاکم والی کے معنی میں مستعمل ہونا معہود ومعملوم نہیں ہے نہ لغت میں اور نہ شرع میں اور ائمہ لغت میں سے کسی نے بھی یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ مفعل بمعنی (اولی) میں آتا ہے یعنی یہ تو کہا جاتا ہے کہ یہ چیز فلاں چیز سے اولی ہے یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ چیز فلاں چیز سے مولا ہے دوسرے یہ کہ خود شیعہ حضرت علی کو پوری امت کا دوست و محبوب و مددگار ہیں پس اس قدر مشترک کے اعتبار سے اس لفظ کے یہ معنی مراد لینا زیادہ موزوں ہے۔ رہی یہ بات کہ اگر آنحضرت ﷺ نے یہی مفہوم مراد لیا تھا تو پھر اس کو اتنے اہتمام سے بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی جب کہ یہ بات سب ہی کو معلوم تھی تو اس موالات کے بیان کرنے سے آنحضرت ﷺ کا اصل مقصد لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ کوئی بھی شخص علی سے بغض وعناد نہ رکھے۔ اس تنبیہ کے اظہار کے لئے ضروری تھا کہ لوگوں کو جمع کیا جاتا اور پھر علی کی عظمت و بزرگی ثابت کرنے کے لئے ان الفاظ میں ان کی منقبت بیان کی جاتی۔ اسی لئے آپ ﷺ نے پہلے یوں فرمایا الستم تعلممون انی والی بالمؤمنین اور پھر بعد میں جو دعا فرمائی وہ بھی انہی الفاظ کی جہت و مناسبت سے رکھی، واضح ہو کہ یہ روایت جن دوسرے طرق سے منقول ہے ان میں سے بعض طرق میں پہلے تو اہل بیت نبوت کا عموماً ذکر ہے اور پھر حضرت علی کا خصوصی ذکر ہے، اس سے یہی ثابت ہوتا ہم کہ آپ ﷺ کا اصل مقصد تمام اہل بیت خصوصا حضرت علی کی محبت و توقیر کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا اور اس بارے میں تاکید کرنا تھا بعض روایتوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ یہ ارشاد نبوت دراصل اس ضرورت کے تحت تھا کہ بعض صحابہ کو اس شکوہ پر تنبیہ کی جائے جس کا انہوں نے حضرت علی کے خلاف اظہار کیا تھا۔ یہ وہ صحابہ تھے جو ایک خاص مشن پر حضرت علی کے ساتھ یمن گئے تھے۔ جب یہ صحابہ بشمول حضرت علی حجۃ الوداع کے موقعہ پر یمن سے آکر آنحضرت ﷺ کے شریک حج ہوئے تو انہوں نے حضرت علی کی نسبت بعض معاملات میں آنحضرت ﷺ سے کچھ شکایات بیان کیں جو اہل یمن کی بعض غلط فہمیوں کے سبب پیدا ہوئی تھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ بعض صحابہ نے حضرت علی کی کسی بات کا انکار بھی کیا تھا ان صحابہ میں ایک صحابی بریدہ اسلمی بھی تھے، صحیح بخاری کی روایت میں جس کو ذہبی نے بھی صحیح قرار دیا ہے یوں سے کہ جب آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کی شان میں ان صحابہ کے شکایتی الفاظ سنے تو (غصہ کے مارے) آپ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا اور فرمایا اے بریدہ ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اہل ایمان کے نزدیک میں ان کی جانوں سے زیادہ عزیز ہوں اور پھر آپ ﷺ نے وہی الفاظ ارشاد فرمائے جو اوپر حدیث میں ہیں، بات چونکہ بہت اہم تھی اس لئے آپ ﷺ نے تمام صحابہ جمع کیا اور تاکیداً ان کے سامنے مذکورہ حدیث ارشاد فرمائی۔

【27】

دعویٰ پھر بھی ثابت نہیں ہوتا

علماء اہل سنت والجماعت کہتے ہیں چلئے ہم نے مانا کہ اس حدیث میں مولا کا لفظ اولی کے معنی میں ہے، لیکن یہ کہاں لازم آتا ہے کہ امامت و حکومت خلافت میں اولی سے مراد ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرابت اور اتباع میں اولی کے معنی مراد ہوں، اس کا قرینہ قرآن کی اس آیت میں موجود ہے۔ آیت (اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ ) 3 ۔ آل عمران 68) حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ سب سے زیادہ خوصیت اور قرابت وہ لوگ رکھتے ہیں تھے جنہوں نے ان کا اتباع کیا تھا۔ اور شیعوں کے پاس دلیل قاطع تو درکنار کوئی ظاہر تر دلیل بھی ایسی نہیں ہے جو اس احتمال کو نفی کرنے والی ہو اور پھر چلئے ہم نے یہ بھی مان لیا کہ امامت و حکومت میں اولی مراد ہے لیکن یہ تو بتایا جائے کہ اس لفظ (اولی) سے بلا کسی مزید صراحت کے فی الحال اور بلا فصل کی قید کا لزوم کس دلیل کے تحت مان لیا گیا ہے۔ ایسی کوئی بھی دلیل اور واضح قرینہ موجود نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ اگر اس لفظ سے آنحضرت ﷺ نے اولی بالحکومت مراد لیا تھا تو آپ ﷺ کی مراد یہ بھی تھی کہ علی اس وقت سے میرے ولی عہد ہیں اور میرے پہلے جانشین مقرر ہوگئے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے مال کے اعتبار سے اولی بالحکومت مراد لیا ہو یعنی آپ نے اس لفظ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا ہو کہ کبھی نہ کبھی ایک ایسا وقت آئے گا جب علی ہی تمام مسلمانوں میں سب سے افضل و برتر ہوں گے اور امامت و خلافت کی باگ ڈور سنبھالیں گے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس معنی میں تو اہل سنت والجماعت بھی حضرت علی کو اولی بالخلافت تسلیم کرتے ہیں۔ جب ان کا وقت آیا تو مسلمانوں کے ارباب حل وعقد نے ان کو والی بالخلافت قرار دے کر منصب خلافت راشدہ پر انھی کو متمکن کیا اور اس وقت اہل اسلام میں سب سے افضل و برتر وہی قرار پائے، مختصر یہ کہ مولا کو اولی کے معنی میں مان لینے کے بعد بھی شیعوں کا دعوی کسی طرح ثابت نہیں ہوتا۔

【28】

خود حضرت علی سے کس کی تائید حاصل ہوتی ہے

شیعوں کی بات تو بعد کی ہے کہ وہ اس حدیث کو حضرت علی کی خلافت بلافصل پر نص قطعی مانتے ہیں اور لفظ مولیٰ کے وہ معنی مراد لیتے ہیں جو لغوی نقلی اور عقلی طور پر کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتے۔ ان سے پہلے تو حضرت علی کی ذات ہے کہ اس حدیث کا براست تعلق بھی انہی سے ہے اور وہی صاحب معاملہ بھی ہیں لہٰذا دیکھنا چاہئے کہ خود حضرت علی نے بھی اس حدیث کا وہی مفہوم مراد لیا ہے جو شیعہ علماء بیان کرتے ہیں یا ان کے نزدیک حدیث کے وہ معنی ہیں جو اہل سنت والجماعت مراد لیتے ہیں، جہاں تحقیق ودرایت کا تعلق ہے تو بلاشبہ یہی نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ حضرت علی کے نزدیک اس حدیث کا وہ مفہوم ومطلب نہیں تھا جو شیعہ علماء بیان کرتے ہیں پہلی دلیل تو یہ ہے کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان علی الترتیب تینوں کی خلافت، جو حضرت علی کی خلافت سے مقدم تھی، اجماع امت کے تحت قائم ہوئی تھی اور حضرت علی اس اجماع میں شامل تھے قطع نظر اس بات کے کہ بعض صریح روایتوں سے آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر کا خلیفہ اور جانشین رسول ظاہر ہونا تھا اگر زیر بحث حدیث حضرت علی کی خلافت بلافصل اور آنحضرت ﷺ کے بعد تمام امت پر ان کی افضلیت و برتری کی طرف کسی بھی صورت میں صراحت یا اشارہ کرتی تو حضرت علی کسی بھی طرح اس اجماع امت میں شامل نہ ہوتے جس نے نہ صرف حضرت ابوبکر کا خلیفہ اول مقرر کیا بلکہ بعد میں حضرت عمر اور پھر حضرت عثمان کی خلافت قائم کی۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر بقول شیعہ علماء یہ حدیث حضرت علی کے لئے خلافت بلافصل کی نص قطعی ہوتی تو حضرت علی یا حضرت عباس اور یا خاندان نبوت کا کوئی فرد آنحضرت ﷺ کے وصال کے فوراً بعد، جب کہ آنحضرت ﷺ کی خلافت اور جانشینی کا مسئلہ زیر مشورہ آیا، اس حدیث کو پیش کرتے اور اس کی بنیاد پر استحقاق علی کا دعویٰ کرتے لیکن ہوا یہ کہ حضرت علی نے تقویت و حمایت حاصل کرنے کے لئے اس حدیث کو بطور دلیل پیش بھی کیا تو اس وقت پیش کیا جب وہ مسند خلافت پر فائز ہوچکے تھے اور گروہ ان کی خلافت سے انحراف کررہا تھا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت علی خوب جانتے تھے کہ یہ حدیث آنحضرت ﷺ کے فورًا وصال کے بعد ان کے استحقاق خلافت پر نص پیش نہیں کرتی۔ تیسری دلیل یہ کہ بعض صحیح روایتوں کے مطابق خود حضرت علی نے وضاحت کی تھی کہ آنحضرت ﷺ سے ایسی کوئی چیز منصوص نہیں ہے جس سے ان کی یا کسی دوسرے کی خلافت ثابت ہوتی ہو، یہاں صرف اس نکتہ پر مرکوز رہنا چاہئے کہ حضرت علی اس حدیث کو اپنی خلافت بلا فصل پر نص نہیں مانتے تھے اور چوتھی دلیل وہ روایت ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں آئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے آخر مرض الموت میں ایک دن جب حضرت علی اور حضرت عباس آپ ﷺ کے پاس آئے تو حضرت عباس نے حضرت علی (رض) سے کہا کہ آنحضرت ﷺ سے اس امر یعنی خلافت کی درخواست کرکے دیکھ لو، اگر یہ اعزاز ہمارے خاندان میں رہنے والا ہم تو اچھا ہے کہ ہمیں اس کا علم خود آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے ذریعہ ہوجائے لیکن حضرت علی نے حضرت عباس کی بات کو نہیں مانا اور صاف انکار کردیا کہ میں ایسی کوئی درخواست آنحضرت ﷺ سے نہیں کروں گا، اس سے بھی بخوبی ثابت ہوا کہ شیعوں کا دعوی سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، اگر یہ حدیث حضرت علی کی خلافت بلافصل کے حق میں نص ہوتی تو اس بارے میں آنحضرت ﷺ کی طرف رجوع کرنے اور پوچھنے کی ضرورت کا ہے کو پیش آتی اور حضرت عباس یہ بات کیوں کہتے کہ اچھا ہے اس کا علم خود آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے ذریعہ ہوجائے، درآنحالیکہ اس حدیث اور غدیرخم کا واقعہ دو ڈھائی ماہ پہلے ہی پیش آیا تھا اور بالکل قریبی عرصہ کی بات ہونے کے سبب ان دونوں حضرات کے ذہن میں پوری طرح مستحضر تھا۔

【29】

لفظ |" مولی |" کے معنی تمام صحابہ نے کیا سمجھے

واقعہ غدیر خم کے دن تقریباً سوالاکھ مؤمنین کا جم غفیر اس موقع پر موجود تھا اور اس اجتماع عظیم میں بکثرت وہ صحابہ کرام بھی موجود تھے جن کے ایمان وعمل اور صدق و امانت کی شہادت کلام اللہ اور کلام رسول میں کثرت کے ساتھ وارد ہے، اس تمام جماعت مسلمین کی مادری زبان عربی ہی تھی اور اس جماعت میں بڑے بڑے فصحاء و ادبا اور نکتہ دانان الفاظ ومعانی بھی موجود تھے، بڑا اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان سب نے یہ حدیث آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے سنی تو اس کا کیا مطلب اخذ کیا گیا تھا جو اہل سنت والجماعت بیان کرتے ہیں، یعنی حضرت علی کی محبت ومودت کی تاکید، یا وہ مطلب سمجھا گیا تھا جو شیعہ بیان کرتے ہیں، یعنی آنحضرت ﷺ کی خلافت بلافصل اور رسول اللہ ﷺ کی جانشینی ولی عہدی کا اعلان ! اس سوال کا واضح جواب ناقابل تردید وجوہ کی بناء پر یہ ہے کہ واقعہ غدیر کے تمام حاضرین نے اس حدیث کے یہ مطلب اور لفظ مولا کے معنی وہی سمجھے تھے جو اہل سنت والجماعت بیان کرتے ہیں ان تمام لوگوں نے رسول مقبول ﷺ کی وفات کے بعد جو متفقہ طور پر حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کی، ان کو آنحضرت ﷺ کا جانشین اول تسلیم کیا اور حضرت علی کی بیعت خلافت کا انہوں نے کوئی ذکر ہی نہیں کیا تو یہ اس بات کی مضبوط ترین دلیل ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس حدیث سے حضرت علی کی خلافت بلافصل مراد نہیں ہے۔ نہ تو بات قرین قیاس ہے کہ واقعہ غدیر کے محض دو ڈھائی ماہ بعد ہی تقریبا سوا لاکھ آدمیوں کی پوری جماعت حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرتے وقت اس حدیث کو سرے سے بھول گئی ہو اور نہ عقل اس کو تسلیم کرسکتی ہے کہ سوالاکھ اہل ایمان اور ارباب دین ودیانت میں سے سب کے سب اس ارشاد رسول ﷺ ہوگئے ہوں، یا انہوں نے دیدہ دانستہ اس حدیث کو پردہ غفلت میں رہنے دیا ہو۔ علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی جاہئے کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ واقعہ غدیر کے بعد ایک دن رسول کریم ﷺ نے صحابہ کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی شان و فضیلت اور ان کے استحقاق کو آشکارا کرتے ہوئے ان دونوں کو مخاطب کرکے فرمایا میرے بعد تم پر کوئی حاکم حکومت نہ کرے گا ظاہر ہے کہ اگر مذکورہ حدیث سے آپ ﷺ کی مراد حضرت علی کو اپنا جانشین اور خلیفہ نامزد کرنا ہوتا تو پھر بعد میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمرخ کو مخاطب کرکے یوں ہرگز نہ فرماتے کہ میرے بعد تم پر کوئی حاکم حکومت نہ کرے گا۔ واضح دلائل اور براہین کے ذریعہ ثابت ہے کہ اس حدیث سے آنحضرت ﷺ کا اصل مقصد حضرت علی کی محبت اور ان سے حسن تعلق قائم رکھنے کی تلقین و تاکید کرنا ہے اور اہل بیت نبوت کے بارے میں اس طرح کی تلقین و تاکید آپ ﷺ نے متعدد مواقع پر ارشاد فرمائی ہے لیکن محبت اور خلافت کے درمیان بہرحال فرق ہے وہ اہل نظر سے مخفی نہیں۔

【30】

تمام صحابہ پر ارتداد کا الزام

شیعوں کا کہنا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد اور حضرت ابوبکر کی بیعت کے موقع پر یہ حدیث تمام صحابہ کے ذہن میں تھی کوئی اس کو بھولا نہیں تھا لیکن ان سب نے ظلم وتعدی بغض وعناد اور مکابرہ کے فاسد جذبات سے مغلوب ہو کر اس ارشاد رسول سے صریح انحراف کیا دراصل شیعوں کا ایک مستقل عقیدہ ہے وہ صحابہ گمراہ کہتے ہیں بلکہ روافض تو ان کے ارتداد اور کفر کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی وفات ہوتے ہی تمام مسلمان مرتد ہوگئے تھے اور علی اور ان کے چند رفقاء کے علاوہ باقی سب صحابہ اس دنیا سے کفر کی حالت میں رخصت ہوئے۔ (معاذاللہ )

【31】

حضرت علی پر تہمت

شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امیر المؤمنین حضرت علی نے خلفاء ثلاثہ کی بیعت میں جو شرکت کی یا انہوں نے اس موقع پر اپنی خلافت کا جو دعویٰ نہیں کیا اور یا انہوں نے خلافت بلافصل کا اپنا حق ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے جو استدلال نہیں کیا تو اس کا سبب تقیہ تھا یعنی انہوں نے ظلم کے ڈر سے حق پوشی کی مجبورًا اور بکراہت خلفا ثلاثہ کی بیعت میں شامل ہوئے اور عامہ مسلمین کے سماجی و سیاسی دباؤ کے تحت غاصبین کا یعنی ابوبکر، عمر اور عثمان کی خلافت سے انحراف نہیں کیا اور اسی طرح معاذ اللہ یہ نادان کذب وافتراء کے ذریعہ سیدنا علی کی ذات پر بزدلی اور کم ہمتی اور نفاق کی تہمت دھرنے کے مرتکب ہوئے کیونکہ سیدنا علی جتنی زبردست افرادی وذاتی قوت رکھتے تھے اور جس بےمثال شجاعت و مردانگی کے حامل تھے اس کی بنا پر یہ بات محالات میں سے ہے کہ انہوں نے اپنی خلافت بلافصل کے لئے یہ نص سنی ہو اور موقع پر اس کو پیش کرنے اور اس پر عمل کرنے سے باز رہے ہوں۔

【32】

ان کو یہ احساس نہیں کہ صحابہ کی آڑ میں بات ذات رسالت تک پہنچتی ہے

صحابہ کرام اور صدر اول کے اہل ایمان کے بارے میں اس قدر جارحانہ اور انتہا پسندانہ عقیدہ و نظریہ رکھنے کی صورت میں) روافض نے جن نکتہ نظر اختیار کیا ہے اس کے سبب دین واسلام کو کلیۃ باطل قرار دینا لازم آتا ہے کیونکہ وہ عظیم ہستیاں جو دین و شریعت کے نقل و روایت کا مدار ہیں، اگر شیعہ اور رافضی جماعت کے بقول محض نفسیاتی جذبات و خواہشات کے تحت نصوص کو چھپا سکتی ہیں ظلم وتعدی کی راہ اختیار کرسکتی ہیں، حق پر کذب وافتراء کا پردہ ڈال سکتی ہیں تو پھر کیا چیز باقی رہ جاتی ہے جو واضح طور پر ثابت کردے کہ ان ہستیوں نے جو اسلام ہم تک پہنچایا ہے اور احادیث و روایات کی صورت میں دین و شریعت کا جو بنیادی سرمایہ ہم تک منتقل کیا ہے وہ سب لغو و باطل اور جھوٹ کا پلندہ نہیں ہے معاذاللہ بلکہ حقیقت میں تو بات ذات رسالت پناہ تک پہنچتی ہے کہ (معاذاللہ) غیر معتبر، بددیانت اور ایسے بےکردار لوگوں کا اتنا بڑا گروہ آپ ﷺ کے دامن صحبت میں مدتوں رہا جس کو آپ ﷺ کی ایک ربع صدی کی مسلسل تبلیغی مساعی اور تربیتی جدوجہد بھی دین و مذہب اور اخلاق و کردار کی راہ مستقیم پر گامزن رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکی واللہ ان ہذا لشیء عجاب اور پھر جیسا کہ پہلے ذکر ہوا خود سیدنا علی کی ذات کہاں محفوظ رہی ایک بڑا الزام تو ان پر بھی آتا ہے کہ انہوں نے حق کی تاکید کرنے اور حق مانگنے میں سستی و کمزوری دکھائی اور مداہنت کا راستہ اختیار کیا۔

【33】

فاطمہ زہراء کا نکاح

اور حضرت بریدہ کہتے ہیں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے فاطمہ سے نکاح کا پیغام دیا تو رسول کریم ﷺ نے کہہ دیا کہ وہ کمسن ہے اور پھر جب حضرت علی نے فاطمہ سے اپنے نکاح کا پیغام دیا تو آپ ﷺ نے ان سے فاطمہ کا نکاح کردیا۔ (نسائی) تشریح کہہ دیا کہ وہ کمسن ہے اور ایک روایت میں فسکت کے الفاظ ہیں، یعنی آپ ﷺ نے ان دونوں کا پیغام آنے پر سکوت اختیار فرمایا کوئی جواب نہیں دیا پس ہوسکتا ہے کہ یہ جواب دینے کی صورت دوسری مرتبہ پیغام دینے پر پیش آئی ہو یعنی پہلی مرتبہ کے پیغام پر تو آپ ﷺ نے سکوت اختیار فرما لیا ہو اور جب انہوں نے دوسری مرتبہ پیغام دیا تو آپ ﷺ نے یہ جواب دیا ہو کہ فاطمہ کمسن ہے۔ پھر جب حضرت علی نے۔۔۔۔۔۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ام ایمن نے حضرت علی (رض) سے کہا کہ فاطمہ کے لئے آنحضرت ﷺ سے تم کیوں نہیں درخواست کرکے دیکھتے، تم تو آنحضرت ﷺ کے چچا کے بیٹے ہو، تمہاری درخواست قبول ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ حضرت علی نے یہ سن کر جواب دیا آنحضرت ﷺ سے بات کہتے ہوئے مجھ کو حجاب آتا ہے پھر کسی ذریعہ سے یہ بات آنحضرت ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے رضامندی کا اظہار فرمایا اور جب حضرت علی کو آنحضرت ﷺ کی رضا مندی معلوم ہوئی تو انہوں نے اپنی درخواست آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کی اور آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ کا نکاح ان سے کردیا۔ ایک اور روایت میں جو ابوالخیر قزوینی حاکمی نے حضرت انس بن مالک (رض) نقل کی ہے۔ حضرت فاطمہ کے نکاح کا واقعہ تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ پہلے حضرت ابوبکر نے فاطمہ کے لئے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی تو آپ ﷺ نے ان کو جواب دیا کہ اے ابوبکر ! فاطمہ کے بارے میں ابھی تک فیصلہ الٰہی نازل نہیں ہوا پھر حضرت عمر نے اور بعض دوسرے قریش نے یہی درخواست اپنی طرف سے پیش کی تو آنحضرت ﷺ نے ان سب کو وہی جواب دیا جو حضرت ابوبکر کو پہلے دے چکے تھے، پھر بعد میں کچھ لوگوں نے حضرت علی (رض) سے کہا کہ فاطمہ کے لئے اگر تم آنحضرت ﷺ سے درخواست کرو تو امید ہم کہ آنحضرت ﷺ ان کا نکاح تمہارے ساتھ کردیں گے، حضرت علی نے کہا جب قریش کے معززین حضرات کی یہ درخواست شرف قبولیت نہیں پاس کی تو بھلا میں اپنی درخواست کے بارے میں کیسے امید رکھوں۔ آخر کار حضرت علی نے پیغام ڈال دیا اور ان کے پیغام پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا میرے بزرگ و برتر پروردگار نے مجھ کو اس کا حکم دے دیا ہے۔ حضرت انس آگے بیان کرتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد آنحضرت ﷺ نے مجھ کو طلب کیا اور فرمایا کہ جاؤ اور ابوبکر، عمر بن الخطاب، عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، طلحہ، زبیر اور انصار کے فلاں فلاں کو میرے پاس بلالاؤ۔ انس کہتے ہیں کہ میں ان سب کو بلا لایا اور یہ حضرات آآ کر آنحضرت ﷺ کے سامنے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے، اس وقت حضرت علی کہیں کام سے گئے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے یہ خطبہ پڑھا الحمد اللہ المحمود بنعمۃ المعبود بقدرتہ المطاع بسلطانہ المرہوب من عذابہ وسطوتہ النفذ امرہ فی سماہ وارضہ الذی خلق الخلق بقدرتہ ومیزہم باحکامہ واعزہم بدینہ واکرمہم بنبیہ محمد ﷺ ان اللہ تبارک وتعالیٰ اسمہ وعظمتہ جعل المصاہرۃ سببا لا حقاوامرامفترضا اوشج بہ الارحام والزمہ للانام فقال عزمن قائل وہو الذی خلق من الماء بشرا فجعلہ نسبا وصہرا وکان ربک قدیرا وامر اللہ تعالیٰ یجری الی قضاؤہ یجری الی قدرہ لکل قضاء قدرولکل قدر اجل ولکل اجل کتاب یمحو اللہ ما یشاء ویثبت وعندہ ام الکتاب پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں اپنی بیٹی فاطمہ بنت خدیجہ کا نکاح علی بن ابی طالب سے کردوں، پس تو لوگ گواہ رہو کہ میں نے فاطمہ سے علی کا نکاح چار سو مثقال چاندی پر کردیا ہے اگر علی راضی ہوں، پھر آپ ﷺ نے چھوہاروں کا ایک طباق منگا کر ہمارے سامنے رکھا اور فرمایا کہ لوٹ لو، ہم نے وہ چھورہاے لوٹے ابھی ہم ان چھوہاروں کو لوٹ ہی رہے تھے کہ اچانک حضرت علی بھی آکر آنحضرت ﷺ کے قریب بیٹھ گئے، آپ ﷺ ان کو دیکھ کر مسکرائے اور پھر ان کو دیکھ کر فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حکم دیا کہ تمہارے ساتھ فاطمہ کا نکاح چار سو مثقال چاندی پر کردوں، اگر تم راضی ہو، حضرت علی نے جواب دیا، یقینا میں اس پر راضی ہوں یا رسول اللہ ﷺ ! اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے دعا فرمائی جمع اللہ شملکما واسعد جدکما وبارک علیکما واخرج منکما کثیرا طیبا۔ اللہ تعالیٰ تم دونوں کو دلجمعی اور حسن رفاقت عطا کرے، تم دونوں کو نصیبہ ور بنائے، تم دونوں پر برکتیں نازل فرمائے اور تم دونوں کو نہایت پاکیزہ نفس اولاد سے بہرور کرے۔ حضرت انس کہتے تھے کہ اللہ کی قسم (آنحضرت ﷺ کی اسی دعا کے طفیل) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو نہایت پاکیزہ نفس اولاد سم سرفراز کیا۔

【34】

مسجد میں علی کا دروازہ

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ( مسجد نبوی کے اندر) حضرت علی کے دروازہ کے علاوہ اور سب دروازوں کو بند کرا دیا تھا، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح بعض صحابہ کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی کے اندر تھے اس احتیاط کے پیش نظر کہ کوئی حائضہ عورت یا کوئی جنبی مرد ان دروازوں کے ذریعہ اپنے گھروں میں آنے جانے کے لئے مسجد کے اندر نہ آئے۔ آپ ﷺ نے ان سب صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھروں کے ان دروازوں کو جو مسجد کے اندر واقع ہیں بند کردیں، ہاں حضرت علی کو آپ ﷺ نے اس حکم سے مستثنیٰ رکھا اور ان کا دروازہ مسجد کے اندر کھلارہنے دیا۔ اس طرح آنحضرت ﷺ کے حکم کے تحت ان کو یہ خصوصی اجازت حاصل رہی کہ وہ جنابت یعنی ناپاکی کی حالت میں مسجد کے اندر سے گزر سکتے ہیں۔ رہی اس حدیث کی بات جو مناقب ابوبکر کے باب میں پیچھے نقل ہوئی ہے اور جس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے دریچہ کے علاوہ اور صحابہ کے گھروں کے ان دریچوں کو بند کردینے کا حکم دیا دو مسجد نبوی میں کھلے ہوئے تھے تو اس حدیث اور اس حدیث کے مابین کوئی تضاد اور منافات نہیں ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر سے متعلق اس بات کی وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے وہ حکم اپنے زمانہ مرض الموت میں دیا تھا جب کہ حضرت علی (رض) سے متعلق اس حدیث میں ایسی کوئی وضاحت نہیں ہے، اس لئے یہی کہا جائے گا کہ یہ حکم آپ ﷺ نے کبھی پہلے دیا تھا اور یہی بات کہ حضرت ابوبکر کی فضیلت وخصوصیت کو ظاہر کرنے والا حکم زمانہ مرض الموت کا ہے۔ علماء کے اس قول کو مضبوط بناتی ہے کہ اس حکم کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کا اصل مقصد حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ کرنا تھا، علاوہ ازیں حضرت ابوبکر سے تعلق رکھنے والی حدیث زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے کیونکہ اس کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے جب کہ حضرت علی (رض) سے تعلق رکھنے والی اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے، خواہ متن اسناد کے اعتبار اس کو انہوں نے غریب قرار دیا ہو یا معنی و مفہوم کے اعتبار سے۔ ملاعلی قاری نے اس حدیث کے تحت جو بحث کی ہے اس کو ترمذی کا اس حدیث کو غریب کہنا محل نظر معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے امام احمد وغیرہ کے حوالہ سے حضرت زید بن ارقم کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا درحقیقت مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ علی کے دروازہ کے علاوہ اور سب دروازوں کو بند کرادوں۔ ریاض کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اس میں احمد نے حضرت زید بن ارقم سے یوں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کے دروازے مسجد کو ان کی گزر گاہ بنائے ہوئے تھے، چناچہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ علی کے سوا اور تمام دروازے بند کردئیے جائیں۔ زید نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ حکم سن کر چند لوگوں نے کچھ کلام کیا تو آنحضرت ﷺ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور حمد وثناء کے بعد فرمایا حقیقت یہ ہے کہ مجھ کو (اللہ کی طرف سے) حکم ہوا ہے کہ علی کے دروازہ کے علاوہ اور سب دروازوں کو بند کرادوں، اب تم میں سے کچھ لوگوں نے اس بارے میں کلام کیا ہے تو میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نہ میں نے اس کو بند کرنے کا حکم اپنی طرف سے دیا ہے اور نہ کسی دروازے کو کھلا رکھنے کا استثناء اپنی طرف سے کیا ہے مجھ کو جو حکم جس طرح دیا گیا ہے اسی طرح میں نے نافذ کردیا ہے، نیز ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے کہ اوپر کی حدیث ابن عباس کی علاوہ حضرت جابر سے بھی منقول ہے۔ تاہم ملاعلی قاری نے وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے صحیح وہی حدیث ہے جو ابوسعید (رض) سے بخاری ومسلم نے نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابوبکر کے دروازہ یا دریچہ کے علاوہ اور کوئی دروازہ یا دریچہ مسجد نبوی میں کھلا نہ چھوڑا جائے ! اور حضرت علی (رض) سے تعلق رکھنے والی حدیث صحیح بھی ہو تو ان دونوں حدیثوں کو الگ الگ حالات اور مصالح پر محمول کیا جائے گا تاکہ ان دونوں کے درمیان تضاد اور منافات معلوم نہ ہو۔

【35】

قربت اور بے تکلفی کا خصوصی مقام

اور حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ کی نظر میں مجھ کو ایک ایسی قدر ومنزلت حاصل تھی جو خلقت میں کسی کو حاصل نہیں ہوئی، میں آپ ﷺ کے ہاں علی الصبح (بالکل اندھیرے منہ) پہنچ جاتا تھا (پہلے دروازہ پر کھڑے ہو کر طلب اجازت کے لئے) کہتا السلام علیک یا نبی اللہ ! اگر آنحضرت ﷺ (میرا سلام سن کر) کھنگار دیتے تو میں (یہ سمجھ کر کہ اس وقت آپ ﷺ کسی مشغولیت میں ہیں اور کوئی شرعی یا عرفی رکاوٹ ایسی ہے جس کے سبب مجھ کو اندر نہیں جانا چاہئے) اپنے گھر واپس چلا آتا اور اگر آپ ﷺ نہ کھنگارتے تو میں (بےتکلف) آنحضرت ﷺ کے پاس چلا جاتا د۔ (نسائی) تشریح علماء کے اس قول کے مطابق کہ کسی کے گھر میں داخلے کی اجازت چاہنے کے لئے جو سلام کیا جاتا ہے اس کے جواب میں سلام کرنا صاحب خانہ کے لئے ضروری ہے یہ وضاحت کی جائے گی کہ حضرت علی کا سلام سن کر آنحضرت ﷺ پہلے ان کے سلام پر جوابی سلام کرتے اور پھر کھنکارتے تھے اور جن علماء کے مطابق صاحب خانہ پر جوابی سلام ضروری نہیں ہے، ان کے نزدیک اس وضاحت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ سیدنا علی نے اس روایت کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ اپنی جس قربت اور بےتکلفی کا ذکر کیا ہے وہ یقینا انہی کا خصوصی مرتبہ تھا جو ان کے علاوہ اور کسی کو حاصل نہیں تھا کیونکہ وہ حضرت فاطمہ کی نسبت سے اور آنحضرت ﷺ کے چچازاد بھائی ہونے کی حیثیت سے آنحضرت ﷺ کے گھر میں بےتکلفا آمد ورفت اور غیر معمولی مخالطت ومجالست کا حق سب سے زیادہ رکھتے تھے،

【36】

وہ دعا جو مستجاب ہوئی

اور حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں سخت بیمار ہوگیا اور (حسن اتفاق سے) رسول کریم ﷺ میرے پاس سے گزر رہے تھے جب میں (مرض کی شدت سے بےتاب ہو کر بآوازبلند) یہ دعا مانگ رہا تھا الہٰی اگر میری موت کا وقت آپہنچا تو مجھ کو (موت دے کر مرض کی اذیت سے نجات اور ابدی) سکون عطاء فرما اور اگر ابھی وقت نہیں آیا ہے تو (صحت بحال کر کے مجھ کو راحت و کشادگی (یعنی صحت و تندرستی کی خوشی) عطا فرما اور اگر یہ بیماری امتحان و آزمائش ہے تو مجھے صبر و آزمائش کو برداشت کی قوت دے (تاکہ میں بےتابی وبے قراری کا اظہار نہ کروں) رسول کریم ﷺ نے (مجھے یوں دعا مانگتے سنا تو) فرمایا کہ تم کیا دعا مانگ رہے تھے ؟ میں نے دعا کے الفاظ آپ ﷺ کے سامنے دوہرادئیے۔ آپ ﷺ نے (دعا کے الفاظ سننے کے بعد) اپنے پاؤں سے علی کو ٹھوکا دیا اور پھر یوں دعا فرمائی الہٰی ! اس (علی) کو عافیت عطا فرما یا یہ فرمایا کہ اس کو شفا بخش یہ راوی کا اظہار شک ہے حضرت علی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی اس دعا کے بعد پھر مجھ کو وہ بیماری کبھی لاحق نہیں ہوئی، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح فارفغنی ف کے زبر اور غین کم جزم ساتھ منقول ہے جو رفاغۃ سے ہے اور جس کے معنی کشادگی اور فراغت کے ہیں اور ایک صحیح نسخہ میں یہ لفظ عین کے ساتھ فارفغنی منقول ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے پاؤں سے علی کو ٹھوکا دیا تاکہ وہ اس معاملہ میں اپنی غفلت پر متنبہ ہوں، حرف شکایت زبان پر لانے سے باز رہیں پائے مبارک کی ضرب کی برکت سے بہرمند ہوں اور ذات رسالت پناہ کی قدم بقدم کمال متابعت ان کو حاصل ہو۔ یہ راوی کا شک ہے یہ جملہ بعد کے کسی راوی کا ہے جس نے واضح کیا ہے کہ اس موقع پر پہلے راوی نے اپنا شک ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یا تو اللہم عافہ (الہٰی) اس کو عافیت عطا فرما، کے ارشاد فرمائے تھے یا اللہم اشعفہ الہٰی ! اس کو شفا بخش) کے الفاظ، بہرحال آنحضرت ﷺ کی اس دعا میں یہ تعلیم اور تلقین پوشیدہ ہے کہ مریض کو بس یہ دعا مانگنی چاہئے کہ اے اللہ ! مجھ کو عافیت عطا فرمایا اے اللہ ! مجھ کو شفا بخش دعا میں تردید کا پہلو اعتبار کرنا یعنی یوں کہنا کہ یا یہ کر یا وہ کر، جیسا کہ حضرت علی کی دعا تھی غیر مناسب بات ہے کیونکہ تردید کا پہلو ایک طرح سے جبر اور دباؤ کا مفہوم ظاہر کرتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ پر جبر کرنے اور دباؤ ڈالنے والا کوئی نہیں ہے۔

【37】

سوانحی خاکہ

امیرالمؤمنین سیدنا علی ابن ابوطالب قریشی ہیں کنیت ابوالحسن بھی تھی اور ابوتراب بھی کم عمروں میں اسلام لانے والے سب سے پہلے شخص ہیں، قبول اسلام کے وقت عمر کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں، ایک قول یہ ہے کہ قبول اسلام کے دن آپ کی عمر پندرہ سال تھی، بعض حضرات نے آٹھ سال اور بعض نے دس سال بیان کی ہے سیدنا علی غزوہ تبوک کے علاوہ اور سب عزو وں میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے ہیں غزؤہ تبوک کے لئے جاتے ہوئے آنحضرت ﷺ ان کو اپنے اہل و عیال پر خلفیہ مقرر کرکے مدینہ چھوڑ کر گئے تھے اور ان سے فرمایا تھا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ میرے نزدیک تمہارا وہی درجہ ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک ہارون (علیہ السلام) کا تھا، حضرت علی گہرے گندمی رنگ کے تھے آنکھیں بڑی بڑی تھیں، قد میانہ مائل بہ پستی تھا، پیٹ بڑا اور سر کے بال کسی قدر اڑے ہوئے تھے، داڑھی گھنی اور لمبی تھی، دہن کشادہ تھا اور سر اور داڑھی کے بال سفید ہوگئے تھے۔ ١٨ ذی الحجہ ٣٥ ھ جمعہ کے دن جو حضرت عثمان کا یوم شہادت ہے، حضرت علی مسند آرائے خلافت ہوئے اور ١٧ رمضان المبارک ٤٠ ھ جمعہ کے دن فجر کی نماز کے وقت مسجد میں ایک شقی، عبدالرحمن ابن ملجم نے تلوار سے قاتلانہ حملہ کیا جس کے صدمہ سے تین راتوں کے بعد واصل بحق ہوگئے اور مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوئے بعض مؤرخین نے تاریخ وفات ١٧ رمضان المبارک ٤٠ ھ لکھی ہے اور قاتلانہ حملہ کا وقوع اس تاریخ سے دو دن پہلے کا بیان کیا ہے غسل دینے والوں میں دونوں صاحبزادوں حسن اور حضرت حسین کے علاوہ حضرت عبداللہ بن جعفر بھی شامل تھے، حضرت حسن نے نماز جنازہ پڑھائی اور منہ اندھیرے تدفین عمل میں آئی، حضرت علی کی عمر تریسٹھ سال کی اور بعض حضرات کے مطابق پینسٹھ سال کی اور ایک قول کے مطابق ستر سال کی ہوئی، ان کی خلافت چارسال نوماہ رہی۔