194. عشرہ مبشرہ کے مناقب کا بیان

【1】

عشرہ مبشرہ (رض) کے مناقب کا بیان

عشرہ مبشرہ ان دس جلیل القدر صحابہ کی جماعت کو کہتے ہیں جنہیں آنحضرت ﷺ نے خصوصی بشارت عطا فرمائی تھی اور وہ ہیں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح اور حضرت سعید بن زید، یہ سب حضرات قریشی ہیں اور ان کے لئے جو افضلیت، مناقب اور احادیث منقول ہیں وہ اوروں کے حق میں منقول نہیں ہیں یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ جنت کی یہ خصوصی بشارت صرف انہی دس صحابہ کے حق میں منقول نہیں ہے بلکہ اہل بیت نبوت یعنی آنحضرت ﷺ کی اولاد اور ازواج مطہرات کے حق میں بھی اور ان کے علاوہ کچھ دوسرے صحابہ کے حق میں بھی منقول ہے۔ صرف ان دس صحابہ کے ذکر کے لئے اس علیحدہ باب کے قائم کرنے کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ کسی ایک حدیث میں یا الگ الگ حدیثوں میں مختلف خصوصی حیثیتوں سے ان کا جو ذکر آیا ہے وہ یکجا ہوجائے تاہم اس باب میں اس طرف اشارہ ضرورپایا جاتا ہے کہ صحابہ کی اس مبارک جماعت (عشرہ مبشرہ) کو اس ترتیب کے ساتھ تمام صحابہ پر فضیلت و برتری حاصل ہے کہ پہلے خلفاء اربعہ سب سے افضل ہیں اور پھر باقی حضرات دیگر تمام صحابہ سے افضل ہیں۔

【2】

حضرت عمر کے نامزد کردہ مستحقین خلافت

حضرت عمر فاروق سے روایت ہے کہ انہوں نے (اپنی وفات کے وقت ارباب حل وعقد اور اصحاب شورٰی کو مستحقین خلافت کم بارے میں وصیت کرتے ہوئے) فرمایا تھا اس امر یعنی منصب خلافت کا ان لوگوں سے زیادہ کوئی مستحق نہیں جن سے رسول اللہ ﷺ راضی اور خوش اس دنیا سے تشریف لے گئے اور پھر حضرت عمر نے یہ نام لئے علی، عثمان، زبیر، سعد اور عبدالرحمن،۔ (بخاری ) تشریح راضی اور خوش اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ یوں تو آنحضرت ﷺ اپنے تمام ہی صحابہ سے راضی اور خوش تھے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں سے بہت زیادہ راضی اور خوش تھے اور ان سے آپ ﷺ کا راضی اور خوش ہونا یقینی طور پر سب کو معلوم بھی تھا، یا حضرت عمر کی مراد ان لوگوں کے تئیں آنحضرت ﷺ کی ایسی مخصوص رضا اور خوشنودی کی طرف اشارہ کرنا تھا جس کے سبب ان کا مستحقین خلافت ہونا ثابت ہوتا تھا۔ بہرحال ان الفاظ کا اصل مقصد مذکورہ حضرات کی ترجیح حیثیت کو ظاہر کرنا تھا جس کی بنیاد حضرت عمر نے گویا یہ بیان کی کہ ان لوگوں کے عشرہ مبشر میں سے ہونے کے سبب آنحضرت ﷺ اور صحابہ کی بہ نسبت ان لوگوں سے زیادہ راضی اور خوش تھے۔ حضرت عمر نے اس موقع پر عشرہ مبشرہ میں سے محض چھ حضرات کا ذکر اس لئے کیا کہ حضرت ابوبکر اور خود حضرت عمر کا سب سے زیادہ افضل ہونا تو سب کو معلوم تھا، اس بنا پر ان دونوں ناموں کے ذکر کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ تیسرے صاحب حضرت ابوعبیدہ بن الجراح، جن کو آنحضرت ﷺ نے امین امت اور امین حق الامین فرمایا تھا حضرت عمر سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے اور چوتھے صحابہ حضرت سعید بن زید چونکہ حضرت عمر کے بہنوئی تھے اس لئے حضرت عمر نے اس احتیاط کے مدنظر ان کا ذکر نہیں کیا کہ کہیں کوئی یہ تہمت نہ دھر دے کہ مستحقین خلافت کی فہرست میں سعید کا نام قرابت داری کی جہت سے آیا ہے، ویسے بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت عمر نے سعید کا نام ان لوگوں کے زمرہ میں تو ذکر کیا تھا جن سے رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے خوش وراضی تشریف لے گئے لیکن ارباب حل وعقد اور اصحاب شورٰی میں ان کا نام نہیں رکھا تھا۔

【3】

قیام خلافت

جاننا چاہئے کہ امامت و خلافت شرعی طور پر جائز اور قانونی (واجب التسلیم) یا تو اس صورت میں ہوئی ہے کہ ارباب حل وعقد اس شخص کو امام و خلیفہ تعین و صراحت کے ساتھ کسی ایسے شخص کو اپنا جانشین نامزد کر جائے جو منصب خلافت کی ذمہ ذاریاں نبھانے کی اہلیت و لیاقت رکھتا ہو جیسے حضرت ابوبکر کے نامزد کردینے سے حضرت عمر کی خلافت قائم ہوئی، نیز اگر کوئی ایسا شخص خلیفہ منتخب ومقرر ہوجائے جو اپنی وجاہت و حیثیت کے اعتبار سے منقول ہو اور اس سے افضل شخص موجود ہو تو اس کی خلافت شرعی اور قانونی طور پر جائز مانی جائے گی کیونکہ خلفاء راشدین کے بعد قریش میں سے ایسے بعض لوگوں کی خلافت پر علماء کا اجتماع ثابت ہے جو اپنے سے افضل لوگوں کی موجودگی میں خلیفہ مقرر ہوئے تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی ایک غیر افضل شخص ملکی وحکومتی اور سیاسی امور میں افضل شخص سے زیادہ با صلاحیت ثابت ہوتا ہے اور اس خصوصی صلاحیت کی بنا پر ایسا شخص دینی معاملات کی بہتر طور پر نگرانی رکھ سکتا ہے، کاربار حکومت کو کار گر طریقہ سے انجام دے سکتا ہے رعایا کی خبر گیری کرسکتا ہے، ملک وملت کو نقصان پہنچا نے والے فتنوں اور سازشوں سے مؤثر انداز میں نمٹ سکتا ہے اور یہ کہ ملکی وملی استحکام وسا لمیت کو اچھی طرح برقرار رکھ سکتا ہے۔ رہی بات کہ بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ امامت و خلافت کی سزا وار وہی ذات ہوسکتی ہے جو معصوم ہوہاشمی ہو اور اس کے ہاتھ پر کوئی ایسا معجزہ ظاہر ہو جس سے اس کی راستی اور سچائی جانی جائے تو یہ محض شیعوں کا خرافاتی نظر یہ ہے اور ان کی جہالت کا آئینہ دار بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہی نظریہ ان کی گمراہیوں کی تمہید اور مقدمہ ہے جن کے ذریعہ انہوں نے ملت اسلامیہ میں افتراق و انتشار اور طبقاتی وگروہی محاذ آرائی کی بنیاد ڈالی۔ ان میں سے ایک بڑی گمراہی تو ان کی یہی ہے کہ وہ حضرت علی کے علاوہ باقی تمام خلفاء کی امامت و خلافت کو بےاصل اور باطل مانتے ہیں۔

【4】

حضرت طلحہ کی جانثاری

اور حضرت قیس بن ابی حازم (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ کا وہ ہاتھ دیکھا جو (سالہا سال بعد بھی) بالکل بیکار اور شل تھا، انہوں نے اس ہاتھ سے غزوہ احد کے دن نبی کریم ﷺ کو (کفار کے حملوں سے) بچایا تھا۔ (بخاری) تشریح غزوہ احد کے دن حضرت طلحہ نے کمال جانثاری کا ثبوت دیا تھا اور آنحضرت ﷺ کو کفار کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لئے خود کو سپر بنالیا تھا، وہ تلواروں کو اپنے ہاتھ پر روک روک کر آنحضرت ﷺ کو گزند سے بچاتے تھے۔ چناچہ نہ صرف یہ کہ ان کا ہاتھ زندگی بھر کے لئے شل اور بےکار ہو کر رہ گیا تھا بلکہ ان کے پورے جسم پر اسی زخم لگے تھے اور عضو مخصوص بھی زخمی ہوگیا تھا صحابہ کر ام جب بھی غزوہ احد کے دن کا تذکرہ کرتے تو کہا کرتے تھے کہ وہ دن تو درحقیقت طلحہ کی جانثاری اور فدا کاری سے بھر پور دن تھا۔ حضرت طلحہ عبیداللہ کے بیٹے اور قریشی ہیں، کنیت ابومحمد (یا ایک قول کے مطابق ابوعمرو) تھی، قدیم الاسلام ہیں غزوہ بدر کے علاوہ اور تمام غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک رہے ہیں غزوہ بدر میں اس وجہ سے شریک نہیں ہوسکے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے کام سے کہیں گئے ہوئے تھے۔ حضرت طلحہ کا رنگ گندمی تھا اور بال کثرت سے تھے، بڑے وجہیہ اور خوبصورت آدمی تھے ٦٤ سال کی عمر میں جنگ جمل کے موقع پر ٢٠ جمادی الثانی ٣٦ ھ پنجشنبہ کے دن شہید ہوئے اور بصرہ میں دفن کئے گئے۔

【5】

حضرت زبیر کی فضیلت

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب (یعنی غزوہ خندق) کے موقع پر ایک دن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کون شخص ہے جو (دشمن کے) لوگوں کی خبر میرے پاس لائے ؟ زبیر بولے میں لاؤں گا۔ تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر نبی کے حواری (یعنی خاص دوست اور مددگار ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر ہیں (بخاری ومسلم) تشریح حزب کی جمع ہے جس کے معنی گروہ کے ہیں اس موقع پر چونکہ مختلف اسلام دشمن گروہ یعنی قریش اور غیر قریش کے قبائل اور مدینہ کے وہ یہودی جن کا تعلق بنوقریظہ اور جلاوطن بنونضیر سے تھا، متحد اور جمع ہو کر آنحضرت ﷺ سے لڑنے آئے تھے اس لئے اس غزوہ کو غزوہ احزاب کہا جاتا ہے اس غزوہ میں دشمن کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی اور مجاہدین اسلام کل تین ہزار نفر دشمن دراصل مرکز اسلام کو تاخت و تاراج کردینے کے منصوبے کے تحت حملہ آور ہوا تھا اور اس کا ٹڈی دل لشکر تقریبا ایک مہینہ تک مدینہ کو گھیرے پڑا رہا۔ آنحضرت ﷺ نے تمام مجاہدین اسلام کی مدد سے دفاعی کاروائی کے طور پر مدینہ شہر کے گرد خندق کھودی تھی اور اس مناسبت سے اس غزوہ کو غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے۔ وہ بڑے سخت دن تھے اور اہل اسلام نہایت پریشانیوں اور دشواریوں میں گھر کر رہ گئے تھے۔ باقاعدہ صف آرائی اور جنگ کی نوبت نہیں آئی، تاہم سنگ باری اور تیر انداز کے واقعات پیش آتے رہتے تھے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا لشکر نازل کیا اور ایسی آندھی بھیجی کہ دشمن کے خیمے اکھڑے گئے، چولہوں پر سے دیگچیاں اوندھی ہوگئیں جابجا ڈیروں میں آگ گل ہوگئی اور ہیبت ناک اندھیرا چھا گیا اور دشمن کا لشکر خوف و دہشت کے مارے راتوں رات بھاگ کھڑا ہوا۔ ان دنوں چونکہ یہودیوں اور منافقوں کے سبب مدینہ شہر کے اندر اور دشمن کے محاصرہ کے سبب باہر تک ہر طرف ایسی خطرناک صورت حال تھی کہ جنگی مصالح ومفاد سے متعلق معلومات فراہم کرنا اور دشمنوں کے بارے میں خبریں منگانا سخت دشوار مرحلہ تھا، اس لئے جب حضرت زبیر نے تمام خطرات اور دشواریوں کے باوجود اس خدمت کے لئے خود کو پیش کیا تو آنحضرت ﷺ نے ان کی زبردست تحسین فرمائی اور ان کو اپنا حواری ہونے کا اعزاز عطا فرمایا۔

【6】

حضرت زبیر

حضرت زبیر عوام کے بیٹے اور ابوعبداللہ قرشی کی کنیت سے مشہور ہیں۔ ان کی والدہ حضرت صفیہ بنت عبد المطلب آنحضرت ﷺ کی حقیقی پھوپھی تھیں، زبیربن العوام قدیم الاسلام ہیں یعنی ابتداء ہی میں اسلام کی دولت سے بہرہ مند ہوگئے تھے اور اس وقت سولہ سال کے تھے۔ اس چھوٹی سی عمر میں جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے چچا نے ان پر بڑے ظلم ڈھائے یہاں تک کہ ان کو دھوئیں میں بند کردیا گیا تاکہ اس عذاب سے گھبرا کر اسلام ترک کردیں لیکن انہوں نے نہایت استقامت کے ساتھ اس سخت عذاب کو برداشت کیا اور اسلام سے پھیرے نہیں۔ آنحضرت ﷺ کے ہمراہ تمام غزوات میں شریک ہوئم اور سب سے پہلے اسلام کی راہ میں تلوار کھینچنے والے یہی زبیر بن العوام تھے۔ غزوہ احد کے دن بڑے استقلال اور ثابت قدمی سے آنحضرت ﷺ کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہے اور شجاعت وجانثاری کے جوہر دکھائے۔ حضرت زبیر طویل قامت قدرے نحیف الجثہ اور گورے رنگ کے تھے۔ ٣٦ ھ میں جنگ صفین سے واپسی پر راستہ ہی میں بصرہ کے علاقہ میں سفوان پر عمر و بن جرموز نے ان کو شہید کردیا، اس وقت ان کی عمر ٦٤ سال کی تھی وادی اسباع میں دفن کئے گئے پھر نعش مبارک بصرہ منتقل کردی گئی اور مشہور ہے کہ ان کی قبر وہیں (بصرہ) میں ہے۔

【7】

حضرت زبیر کی قدر ومنزلت

اور حضرت زبیر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کون ہے جو بنی قریظہ (کے یہودیوں) میں جائے اور ان کے بارے میں ضروری معلومات لا کر مجھے دے، چناچہ (آپ ﷺ کا یہ ارشاد سن کر) میں روانہ ہوگیا اور جب ان کے بارے میں معلومات حاصل کرکے واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ماں باپ دونوں پر جمع کردیئے، چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا میرے ماں باپ تم پر صدقے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح بنوقریظہ کے یہودیوں نے غزوہ احزاب کے موقع پر ایسی عہد شکنی اور بد معاملگی کا ارتکاب کیا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کی سرکوبی ضروری سمجھا اور غزوہ احزاب سے فارغ ہوتے ہی ان کی طرف متوجہ ہوئے، آپ ﷺ نے پندرہ روز تک (ایک تاریخی روایت کے مطابق پچیس روز) ان کا محاصرہ کئے رکھا اور آخر کار ان کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ پس اسی موقع پر آپ ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ کون بہادر ہے جو بنوقریظہ کے بارے میں جنگی معلومات فراہم کرکے میرے پاس لائے یا یہ کہ غزوہ احزاب میں بھی بنوقریظہ دشمن کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے خلاف جنگی کاروائیوں میں شامل تھے ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر بنوقریظہ کے بارے میں ضروری معلومات آپ ﷺ کو درکار ہوں اور آپ ﷺ نے یہ بات فرمائی ہو۔ میرے ماں باپ تم پر صدقے۔ یہ بارگاہ رسالت کی طرف سے حضرت زبیر کی قدر منزلت کی توثیق کرنا اور ان کے اس کارنامہ پر ان کو زبردست اعزاز عطا کرنا تھا جو انہوں نے نہایت جرأت وبہادری کے ساتھ انجام دیا تھا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی بھی شخص یہ الفاظ اسی ہستی کے حق میں استعمال کرتا ہے جس کو وہ نہایت معزز ومکرم سمجھتا ہے اور اس کی تعظیم کرتا ہے اس اعتبار سے حضرت زبیر کی شان میں آنحضرت ﷺ نے دو مرتبہ اپنے ماں باپ دونوں مجھ پر جمع کئے (یعنی یوں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر صدقے) ایک مرتبہ تو جنگ احد کے موقع پر اور دوسری مرتبہ بنو قریظہ کے خلاف کاروائی کے موقع پر ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت زبیر نے اپنے بیٹے حضرت عروہ سے کہا برخوردار ! میرے بدن کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو رسول اللہ ﷺ کی معیت میں (جنگوں کے دوران) زخمی نہ ہوا ہو۔

【8】

حضرت سعد کی فضیلت

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کسی کے لئے ماں باپ کو جمع کرتے نہیں سنا علاوہ سعد بن مالک کے۔ چناچہ جنگ احد کے دن (جبکہ سعد دشمن کافروں کو آنحضرت ﷺ تک پہنچنے سے روکنے کے لئے جواں مردی کے ساتھ تیر مار مار کر ان کو پیچھے ہٹا رہے تھے میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا سعد ! چلاؤ اور تیر چلاؤ میرے ماں باپ تم پر صدقے۔ (بخاری ومسلم) تشریح سعد بن مالک سے مراد سعد بن ابی وقاص ہیں، دراصل ابی وقاص کا نام مالک ابن وہب تھا اور اس اعتبار سے سعد بن ابی وقاص کو سعد بن مالک بھی کہا جاتا تھا۔ اوپر کی حدیث میں آنحضرت ﷺ کا اپنے ماں باپ کو جمع کرنا، حضرت زبیر کے حق میں بھی منقول ہے جبکہ یہاں حضرت علی یہ فرما رہے ہیں کہ سعد بن مالک کے علاوہ اور کسی کے لئے آنحضرت ﷺ نے اپنے ماں باپ کو جمع نہیں کیا۔ لہٰذا اوپر کی حضرت زبیر کی روایت اور حضرت علی کی اس روایت دونوں کے درمیان مطابقت کی خاطر یہ کہا جائے گا کہ دراصل حضرت علی کو معلوم نہیں تھا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر کے حق میں بھی یہ جملہ ارشاد فرمایا یا کہ حضرت علی کی مراد یہ تھی کہ خود میں نے کسی واسطہ کے بغیر آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے جملہ سعد کے علاوہ اور کسی کے حق میں نہیں سنا پس ان کا یہ کہنا اس بات کے منافی نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے یہ جملہ حضرت زبیر کے حق میں بھی فرمایا ہو اور اس کا علم حضرت علی کو بالواسطہ طور پر ہوا ہو۔

【9】

حضرت سعد بن ابی وقاص

حضرت سعد کی کنیت ابواسحاق ہے اور زہری وقرشی کرکے مشہور ہیں۔ قدیم الاسلام ہیں یعنی آغاز دعوت اسلام ہی میں سترہ سال کی عمر میں مشرف با اسلام ہوگئے تھے۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں تیسرا مسلمان ہوں مجھ سے پہلے صرف دو آدمی اسلام لائے تھے اور اللہ کی راہ میں اسلام کی طرف سے سب سے پہلے تیر چلانے والا میں ہوں۔ حضرت سعد آنحضرت ﷺ کے ہمراہ تمام غزوات میں شریک ہوئے ہیں اور مستجاب الدعوات مانے جاتے تھے۔ ان کی حیثیت عوام و خواص میں اس قد ر مشہور تھی کہ لوگ ان کی بدعا سے ڈرتے تھے اور ان کی نیک دعاؤں کے طلب گار رہا کرتے تھے۔ دراصل ان کو یہ مقام اس بنا پر حاصل ہوا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے حق میں دعا فرمائی تھی اے اللہ ! سعد کی دعائیں قبول فرما۔ حضرت زبیر کے علاوہ صرف حضرت سعد ہی وہ خوش نصیب ہستی ہیں جن کے لئے آنحضرت ﷺ نے اپنے ماں باپ کو جمع کیا، یعنی الگ الگ موقعوں پر ان دونوں کو مخاطب کرکے فرمایا تھا میرے ماں باپ تم پر صدقے، یہ عظیم اعزاز ان دونوں کے علاوہ اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ حضرت سعد کا رنگ گندمی تھا اور ان کے بدن پر بہت بال تھے ٥٥ ھ میں اس محل میں ان کا انتقال ہوا جو انہوں نے مدینہ شہر کے قریب وادی عتیق میں بنوایا تھا، جنازہ مدینہ منورہ لایا گیا اور اس وقت کے حاکم مدینہ ابن الحکم نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی اس وقت حضرت سعد کی عمر کچھ اوپر ستر سال کی تھی اور عشرہ مبشرہ میں سب کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ حضرت عمر نے ان کو کوفہ کا حکم مقرر کیا تھا، پھر بعد میں حضرت عثمان نے بھی اس منصب پر ان کو دوبارہ کوفہ بھیجا تھا۔ صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت کو ان سے احادیث کی سماعت اور روایت کا شرف حاصل ہے۔

【10】

اللہ کی راہ میں سب سے پہلا تیر حضرت سعد نے چلایا

اور حضرت سعد ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں پہلاعرب مسلمان ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر پھینکا۔ (بخاری ومسلم) تشریح یعنی میں وہ شخص ہوں جس نے اسلام میں سب سے پہلے اللہ کے دشمنوں پر تیر چلایا مجھ سے پہلے کسی نے اللہ کی راہ میں تیر نہیں چلایا تھا۔ یہ ١ ھ کا واقعہ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوعبیدہ بن الحارث کی سر کردگی میں ساٹھ سواروں کا ایک چھوٹا سا لشکر ابوسفیان بن حرب اور اس کے ساتھ مشرکین کے مقابلہ پر روانہ فرمایا تھا، جنگ کی نوبت نہیں آئی، صرف اتنا ہوا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے ان دشمنان اسلام کی طرف ایک تیرپھینکا اور یہ سب سے پہلا تیر تھا جو اہل اسلام کی طرف سے دشمنان اسلام پر چلایا گیا۔

【11】

سعد کی کمال وفاداری

اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ (ایک مرتبہ کسی غزوہ سے) مدینہ میں (واپس) آکر (دشمنان دین سے خطرہ کے سبب رات میں سوئے نہیں اور پھر آپ ﷺ فرمانے لگے کہ کاش کوئی نیک بخت مرد (آج کی رات) میری نگہبانی کرتا آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہی تھا کہ اچانک ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی (جیسے کوئی شخص تلوار وکمان سنبھالے باہر چوکی پہرے پر ہو اور اس کے ہتھیار کھڑکھڑا رہے ہوں) آپ ﷺ نے (یہ آواز سن کر) پوچھا کون ہے ! جواب ملا میں سعد ہوں ! آنحضرت ﷺ نے سوال کیا (اتنی رات گئے) یہاں تم کیسے آگئے ؟ سعد بولے میرے دل میں رسول اللہ ﷺ کی نسبت خوف پیدا ہوا (کہ کہیں دشمنان دین آپ کو ضرر نہ پہنچائیں) لہٰذا میں یہاں حاضر ہوگیا ہوں کہ آپ ﷺ کی نگہبانی کروں (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے سعد کو دعائیں دیں اور (اطمینان سے) سوگئے۔ (بخاری ومسلم )

【12】

ابو عبیدہ کو |" امین الامت |" کا خطاب

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے (کہ وہ اللہ اور اللہ کے بندوں کے حقوق میں اور اپنے نفس کے بارے میں خیانت نہیں کرتا) اور اس امت کے آمین ابوعبیدہ ابن الجراح ہیں۔ (بخاری ومسلم ) تشریح اگرچہ تمام ہی صحابہ وصف امانت کے حامل تھے لیکن صرف حضرت ابوعبیدہ کو اس امت کا امین اس اعتبار سے فرمایا گیا کہ یا تو ان میں یہ وصف دوسرے صحابہ کی بہ نسبت زیادہ غالب تھا یا یہ کہ خود ان کے دوسرے اوصاف کی بہ نسبت یہ وصف ان پر زیادہ غالب تھا۔ بہرحال حضرت ابوعبیدہ اپنے ذاتی محاسن و کمالات کی بنا پر بڑے شان والے صحابی ہیں اور ان کے مناقب و فضائل میں اور بھی بہت سی رواتیں منقول ہیں۔ ان کے جو مختلف پندونصائح مختلف کتابوں میں مذکور ہیں ان میں سے ایک یہ نصیحت نہایت قیمتی ہے۔ بادروا السیأات القد یمات بالحسنات الحادثات والا رب مبیض لثیابہ مدلس لدینہ والا رب مکرم لنفسہ وہو لہا مہین پچھلے گناہوں پر ( خمیازہ بھگتنے سے پہلے) نئی نیکیاں بڑھالو اور یاد رکھو ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی پوشاک تو اجلی رکھتے ہیں لیکن اپنا دین میلا رکھتے ہیں اور یہ بھی یاد رکھو کہ بعض لوگ اپنے آپ کو عزت دار محسوس کرتے ہیں حالانکہ انجام کے اعتبار سے وہ خود کو ذلت و خواری میں ڈالنے والے ہیں۔

【13】

حضرت ابوعبیدہ

حضرت ابوعبیدہ کا اصل نام عامر بن عبداللہ بن جراح ہے فہری قرشی کہلاتے ہیں، آپ حضرت عثمان بن مظعون کے ساتھ دائرہ اسلام و ایمان میں داخل ہوئے تھے، پہلے حبشہ کو ہجرت کی پھر دوسری بار ہجرت کرکے مدینہ آگئے تھے، آپ تمام غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ہمراہ شریک ہوئے ہیں اور غزوہ احد میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ میدان جنگ میں ثابت قدم رہے۔ جب اس غزوہ میں آنحضرت ﷺ زخمی ہوئے اور خود کی کڑیاں آپ ﷺ کے چہرہ مبارک میں پیوست ہوگئیں تو حضرت ابوعبیدہ ہی نے ان کڑیوں کو اپنے دانتوں سے پکڑ کر کھینچا اور اس کی وجہ سے ان کے سامنے کے دو دانت گرپڑے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ دراز قد خوب رو اور ہلکے بدن کے تھے۔ ١٨ ھ میں طاعون اسو اس میں مبتلا ہو کر اردن میں واصل بحق ہوئے اور نبی ان کے مقام پر دفن کئے گئے اس وقت آپ کی عمر اٹھاون سال کی تھی اور نماز جنازہ حضرت معاذ بن جبل نے پڑھائی۔

【14】

حضرت ابوعبیدہ کی فضیلت

اور حضرت ابن ابی ملیکہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) اس وقت سنا جب ان سے پوچھا گیا کہ (فرض کیجئے) اگر رسول اللہ ﷺ خلافت کے لئے (صراحتہ) کسی کو نامزد فرماتے تو آپ کی نگاہ انتخاب کس پر جاتی ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا حضرت ابوبکر پر ! پھر ان سے پوچھا گیا حضرت ابوبکر کے بعد کس کو نامزد فرماتے ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا عمر کو پھر پوچھا گیا اور حضرت عمر کے بعد کس کا نمبرآتا ؟ حضرت عائشہ بولیں ابوعبیدہ بن الجراح کا۔ (مسلم) تشریح ابوعبیدہ چونکہ امین الامت تھے اور منصب کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اہلیت و لیاقت رکھتے تھے اس لئے ان کا مستحقین خلافت میں شمار ہونا عین موزوں تھا چناچہ وصال نبوی کے بعد جب آنحضرت ﷺ کے جانشین اور خلیفہ کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا حضرت ابوبکر نے فرمایا تھا کہ ! بار خلافت اٹھانے کے لئے مجھے آگے کیوں کرتے ہو تمہارے درمیان یہ عمر ہیں علی ہیں یہ ابوعبیدہ بن الجراح ہیں ان میں سے جس کو چاہو خلیفہ منتخب کرلو لیکن حل وعقد اور عمائدین ملت کا کہنا تھا کہ آپ سے زیادہ اہل ولائق اور کون ہوسکتا ہے، جب آنحضرت ﷺ نے اپنے مرض الموت میں ہماری دینی قیادت (یعنی نماز کی امامت کے لئے) آپ ہی کو آگے کیا تھا تو پھر کس کی مجال ہے کہ ہماری دنیاوی وملی قیادت کے لئے آپ کو ترجیح نہ دے بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ اس نظریہ کی حامل تھیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے بعد باقی اصحاب شوریٰ میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ہی خلافت کے سب سے زیادہ اہل اور مستحق تھے۔

【15】

حرا پہاڑ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور پانچ شہید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان غنی حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر، حراء پہاڑ پر کھڑے تھے کہ (ان کے پیروں کے نیچے کا) پتھر حرکت کرنے لگا۔ رسول کریم ﷺ نے (اس پتھر کو مخاطب کرکے فرمایا ٹھہر جا تیرے اوپر کوئی دوسرا نہیں کھڑا ہے۔ یا نبی ہے یا صدیق ہے یا شہداء ہیں اور بعض راویوں نے اور سعد بن ابی وقاص کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے اور علی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تشریح شہداء سے مراد حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر تھے، چناچہ ان سب حضرات کو شہادت ہی کی موت ملی، ان میں سے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر جنگ جمل کے موقع پر شہیدکئے گئے اور اگرچہ ان کی موت عین جنگ کے دوران واقعہ نہیں ہوئی ہوئی تھی بلکہ جنگ سے باہر ظلما مارے گئے تھے لیکن چونکہ یہ ثابت ہے کہ جس شخص کو ظلما قتل کردیا جائے وہ شہید ہوتا ہے اس لئے ان دونوں کو بھی شہادت کا مرتبہ نصیب ہوا۔ اور علی کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے پہلے جملہ میں زاد کا لفظ کسی ناقل روایت کے تسامح کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ اس راوی کی روایت میں حضرت علی کے بجائے حضرت سعد بن ابی وقاص کا ذکر معاوضہ اور مبادلہ کی صورت ہے نہ کہ اضافہ کی۔ بہر حال اس ورایت میں، کہ جس میں حضرت سعد بن ابی وقاص کا ذکر ہے۔ یہ اشکال پیش آتا ہے کہ ان کو تو شہادت کی موت نہیں بلکہ وادی عقیق واقع اپنے محل میں فوت ہوئے تھے ! اس اشکال کو دور کرنے کے لئے یا تو یہ توجیہ کی جائے گی کہ آپ ﷺ نے ان سب حضرات کو تغلیبا شیہدا فرمایا تھا گویا آپ ﷺ کی مراد یہ تھی ایک نبی اور ایک صدیق کے علاوہ باقی وہ لوگ ہیں جن میں سے اکثر وبیشتر شہید ہوں گے یا جیسا کہ سید جمال الدین نے لکھا ہے، یہ کہا جائے گا کہ حضرت سعد کی موت کسی ایسے مرض کے سبب واقع ہوئی تھی جس میں مبتلا ہو کر مرنے والا شہید کے حکم میں ہوتا ہے، جیسے پیٹ کی بیماری وغیرہ۔ ۔

【16】

عشرہ مبشرہ

حضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ابوبکر جنت میں ہیں، عمر جنت میں ہیں، عثمان، جنت میں ہیں، علی جنت میں ہیں، طلحہ جنت میں ہیں، عبدالرحمن بن عوف جنت میں ہیں، سعد بن ابی وقاص جنت میں ہیں، سعید ابن زید جنت میں ہیں اور ابوعبیدہ بن الجراح جنت میں ہیں ،۔ (ترمذی) اور ابن ماجہ کی روایت کو سعید ابن زید سے نقل کیا ہے۔ ۔ تشریح حضرت سعید بن زید جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ایک ہیں، حضرت عمر فاروق کے بہنوئی تھے، حضرت عمر کی بہن حضرت فاطمہ ان سے منسوب تھی اور یہی وہ فاطمہ ہیں جو حضرت عمر کے قبول اسلام کا ذریعہ بنی تھی۔ حضرت سعید ٥١ میں بعمر ستر سال واصل بحق ہوئے اور بقیع میں دفن کئے گئے۔ حدیث میں مذکورہ یہ دس جلیل القدر صحابہ جنت کی بشارت کے ساتھ جو بہت زیادہ مشہور اور ممتاز ہیں۔ تو اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ ان سب حضرات کے حق میں جنت کی بشارت ایک سات ایک حدیث میں بیان فرمائی گئی ہے، ورنہ یہ بات نہیں ہے کہ جنت کی اس طرح مخصوص بشارت ان کے علاوہ اور کسی کے لئے منقول نہیں ہے، اوروں کو بھی اس بشارت سے نوازا گیا ہے۔

【17】

ایک نکتہ جو بہت اہمیت کا حامل ہے

یہاں اس نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ احادیث میں جہاں بھی خلفاء اربعہ کا ذکر آیا ہے وہ اسی ترتیب کے ساتھ آیا ہے جو اوپر کی حدیث سے ظاہر ہے یعنی پہلے ابوبکر کا نام، پھر حضرت عمر کا نام پھر حضرت عثمان کا نام پھر حضرت علی کا نام۔ اس سے اہل سنت والجماعت کے عقیدہ ومسلک کا درست اور برحق ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ گمان کرنا کہ شاید احادیث کے راویوں نے اپنے عقیدہ ومسلک کی رعایت کرتے ہوئے ان احادیث میں خلفاء اربعہ کے ذکر کی ترتیب میں ردوبدل کردیا ہو، بدترین درجہ کی ناانصافی ہوگی۔ حاشاوکلا کہ اگر راوی کسی موقع پر حدیث کے ترتیب بیان میں تھوڑی تبدیلی اور معمولی تقدیم و تاخیر ضروری سمجھ کر کرتے بھی ہیں تو اسی صورت میں جبکہ حدیث کے مفہوم اور مقصد ومنشاء میں ہلکا سا بھی فرق پیدا نہ ہو ایسی صورت میں تصور بھی، نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اتنے اہم معاملہ میں کسی تبدیلی اور تقدیم و تاخیر کے روا دار ہوسکتے ہیں زبان رسالت سے جس ترتیب کے ساتھ خلفاء اربعہ کا ذکر ہوتا ہے۔ بعینہ اسی ترتیب کے ساتھ راوی بیان کرتے ہیں۔

【18】

چند صحابہ (رض) اجمعین، کی خصوصی حیثیتوں کا ذکر

اور حضرت انس نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت میں ابوبکر ہی میری امت کے لوگوں کے حق میں سب سے زیادہ مہربان اور سب سے بڑے درد مند ہیں (کہ وہ نہایت لطف و مہربانی اور درد مندی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور ان کو فلاح ونجات کے راستہ پر لگاتے ہیں) اور میری امت کے لوگوں میں عمر اللہ کے دین کے معاملات میں سب سے زیادہ سخت ہیں (کہ نہایت سختی اور مضبوطی کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں) اور میری امت کے لوگوں میں عثمان سب سے سچے حیادار ہیں اور میری امت کے لوگوں میں سب سے بڑے فرائض داں زید بن ثابت ہیں اور میری امت کے لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والے اور سب سے بڑے ماہر تجوید قرآن ابی ابن کعب ہیں اور میری امت میں حلال و حرام کو سب سے زیادہ جاننے والے معاذ بن جبل ہیں اور ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین عبیدہ بن الجراح ہیں۔ (احمد و ترمذی) اور ترمذی نے کہا ہے کہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس حدیث کو معمر نے بھی قتادہ سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اور (معمر کی) اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ میری امت کے لوگوں میں حق کے مطابق سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔ تشریح ۔۔۔۔ عثمان سب سے سچے حیادار ہیں۔ حیاء کا وصف، کہ جو ایمان کی ایک بڑی شاخ ہے۔ حضرت عثمان کے ساتھ ایک طرح کی خصوصی اور امتیازی نسبت رکھتا ہے تھا اور ان کی حیاداری اور غیرت مندی کو مثالی حیثیت حاصل تھی رہی یہ بات کہ سچی حیاداری سے کیا مراد ہے تو اس میں دراصل اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بسا اوقات حیاء اور غیرت کا اظہار طبعی تقاضہ کے تحت ایسے موقع پر بھی ہوتا ہے جو شرعی نکتہ نظر سے حیاء اور غیرت کا تقاضا نہیں کرتا پس حضرت عثمان اسی سچی اور معتبر حیاء کے حامل تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ سب سے بڑے فرائض داں زید بن ثابت ہیں۔ یعنی فرائض اور میراث کا علم فنی اور تحقیقی مضبوطی کے ساتھ زید بن ثابت میں بہت زیادہ ہے بلاشبہ حضرت زید بن ثابت بڑے فقہا، صحابہ میں سے تھے اور علم فرائض کے ماہر سمجھے جاتے تھے کاتب وحی ہونے کا شرف بھی ان کو حاصل تھا اور انہوں نے حضرت ابوبکر اور پھر حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں قرآن کو لکھنے اور جمع کرنے کی خدمت بڑی خوبی کے ساتھ انجام دی۔ ۔۔۔۔۔۔۔ سب سے بڑے ماہر تجوید قرآن ابی بن کعب ہیں۔ حضرت ابی بن کعب انصاری خزرجی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے ایک کاتب وحی بھی تھے جن چھ صحابہ نے حضور ﷺ کے عہد مبارک میں پورا قرآن کریم حفظ کیا تھا ان میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ان کو سید القراء کہا جاتا تھا اور خود سرکار ﷺ نے ان کو سید الانصار کا لقب دیا تھا۔ حضرت عمر فاروق سید المسلمین کے لقب سے پکارتے تھے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ جب سورت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے ابی بن کعب (رض) سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہ سورت تمہارے سامنے پڑھوں اور تمہیں سناوں۔ ابی نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں اللہ نے تمہارا نام لیا ہے۔ یہ سن کر ابی رونے لگے اور ان کے ساتھ آنحضرت ﷺ بھی رو دئیے۔ ان کی وفات ١٩ ھ میں مدینہ میں ہوئی۔ ایک بہت بڑی جماعت کو ان سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہے۔ حلال و حرام کو سب سے زیادہ جاننے والے معاذ بن جبل انصار میں سے ہیں اور ان ستر خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جو آنحضرت ﷺ کی ہجرت مدینہ سے پہلے مکہ آئے تھے اور بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے، مدینہ میں آنحضرت ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان جو عام بھائی چارہ کرایا تھا اس کے تحت حضرت معاذ بن جبل کا بھائی چارہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے یا ایک روایت کے مطابق حضرت جعفر بن ابی طالب سے قائم ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے آپ کو قاضی اور معلم بنا کر یمن بھیجا تھا اس وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال کی تھی طاعون عمو اس میں بعمر اڑتیس سال ١٨ ھ میں آپ نے انتقال کیا، انتقال کے وقت آپ بار بار کہتے تھے الہٰی ! یہ (سخت ترین طاعون بعض اعتبار سے) درحقیقت تیرے بندوں پر تیری رحمت ہے الہٰی ! معاذ اور معاذ کے اہل و عیال کو اس رحمت سے محروم نہ رکھ۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ دم رخصت حضرت معاذ کی زبان پر کچھ اس طرح کے الفاظ تھے الہٰی ! موت کی سختی کم کردے جتنا تو چاہے قسم ہے تیری عزت کی تو خوب جانتا ہے کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ہم معاذ بن جبل کو اس آیت (اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا) 16 ۔ النحل 120) ۔ کے مضمون میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے ساتھ تشبیہ دیا کرتے تھے حضرت معاذ بن جبل کی علمی فضیلت و بزرگی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں فتویٰ دینے کی اہم ذمہ داری آپ کے سپرد تھی اور حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں بھی۔ جب معلم وقاضی ہو کر یمن چلے گئے تو حضرت عمر فاروق فرمایا کرتے تھے معاذ نے یمن جا کر اہل مدینہ میں فقہ کا خلاء پیدا کردیا ہے حضرت معاذ جنگ بدر میں بھی شریک تھے اور دوسری جنگوں میں بھی مجاہدین اسلام کے دوش بدوش رہے۔ منقول ہے کہ رحلت کے وقت آپ کے ساتھی رونے لگے تو ان سے پوچھا تم لوگ کیوں رو رہے ہو ؟ ان سب نے کہا کہ ہم علم کو رو رہے ہیں جو آپ کی موت کے سبب منقطع ہوا چاہتا ہے، حضرت معاذ نے کہا علم اور ایمان لازوال ہیں قیامت تک باقی رہنے والے ہیں، حق جس سے بھی ملے حاصل کرو باطل پر جو بھی اس کی تردید و مخالفت کرو۔ اس امت کے امین ابوعبیدہ بن الجراح ہیں۔ حضرت عبیدہ بن الجراح نے اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت کا سب سے بڑا کامیاب امتحان اپنے باپ کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتار کردیا جو دشمنان اسلام کی طرف سے اہل اسلام کے خلاف میدان جنگ میں آیا تھا جنگ احد میں پامردی اور ثابت قدمی کے ساتھ میدان کارزار میں ڈٹے رہے اور ذات رسالتماب ﷺ کو دشمن کے حملوں سے بچانے میں فدا کاری کے جوہر دکھائے۔ خلافت صدیقی میں آپ بیت المال کے مہتمم اور افسر اعلی تھے حضرت عمر فاروق نے آپ کو حضرت خالد بن ولید کی جگہ اسلامی فوج کا سپہ سالار اعظم مقرر کیا اور شام و فلسطین کی اکثر فتوحات آپ ہی کے زیر کمان حاصل ہوئیں۔ حضرت عمر نے اپنی وفات کے دن فرمایا تھا اگر آج ابوعبیدہ زندہ ہوتے تو اس معاملہ (یعنی خلافت) کی زمام کار (یا یہ کہ انتخاب خلیفہ کے لئے مشاورت کا انتظام واختیار) میں انہی کو سونپ جاتا۔ حضرت ابوعبیدہ زہد و قناعت کے جس درجہ کمال کے حامل تھے ان کا اندازہ اس روایت سے کیا جاسکتا ہے جو بعض مستند کتابوں میں عروہ بن زبیر سے منقول ہے کہ جب امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق شام و فلسطین کے دورہ پر آئے تو اس خطہ کے مختلف علاقوں میں تعینات اسلامی افواج کے کمانڈر اور بڑے بڑے عمال و حکام امیر المؤمنین کے استقبال کے لئے موجود تھے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح جو شام و فلسطین میں اسلامی افواج کے سپہ سالار اعظم تھے، اس وقت تک وہاں نہیں پہنچے تھے، حضرت عمر نے استقبال کرنے والے امراء اور عمائدین سے پوچھا کہ میرا بھائی کہاں ہے ؟ لوگوں نے پوچھا کون آپ کا بھائی ؟ فاروق اعظم نے فرمایا ابوعبیدہ بن الجراح ! لوگوں نے کہا وہ آتے ہی ہوں گے۔ جب ابوعبیدہ آگئے تو امیرالمؤمنین سواری سے اترے اور ان کو گلے لگایا، پھر ان کے گھر گئے، انہوں نے سپہ سالاراعظم ابوعبیدہ کے گھر میں پہنچ کر دیکھا تو وہاں ان کو ایک چھوٹی سی تلوار، ایک سپر کے علاوہ اور کوئی سامان نظر نہ آیا۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ امیر المؤمنین نے حضرت ابوعبیدہ سے کہا کہ چلو ہمیں اپنے گھر لے چلو اور پھر امیر المؤمنین حضرت ابوعبیدہ کے گھر آئے اور اندر پہنچ کر دیکھا تو پورا مکان خالی نظر آیا کہیں کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ امیر المؤمنین حیرت سے پوچھا ابوعبیدہ ! تمہارے سامان کہاں ہے، یہاں تو ایک نمدہ، ایک رکابی اور ایک تلوار کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے حالانکہ تم تو اس علاقہ کے حاکم اعلی اور اسلامی افواج کے سپہ سالاراعظم ہو، کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو بھی ہے یا نہیں ؟ حضرت ابوعبیدہ یہ سن کر گھر کے ایک کونے میں گئے اور وہاں سے روٹی کے چند خشک ٹکڑے اٹھا کر لائے، فاروق اعظم نے یہ دیکھا تو بےاختیار رونے لگے اور بولے ابوعبیدہ ! بس تم ہی ایک مرد افگن نکلے، باقی ہم سب کو تو دنیا نے اپنے فریب کا شکار بنا لیا۔ ۔۔۔۔ حق کے مطابق سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے حضرت علی ہیں ، بلاشبہ حضرت علی اس امت کے سب سے بڑے قاضی ہیں، قضایا نمٹانے اور حق بجانب فیصلہ کرنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا اسی لئے حضرت عمر ان کے مشورہ اور ان کے فتوے کے بغیر کوئی حکم اور فیصلہ صادر نہیں کرتے تھے، اگر حضرت علی موجود نہ ہوتے تو ان کے آنے تک فیصلہ کی کاروائی ملتوی رکھتے تھے۔ بہرحال حدیث کے الفاظ اقضاہم کے بظاہر یہی معنی ہیں کہ علی فیصلہ طلب مقدموں اور قضیوں کے شرعی اور عدالتی احکام و قوانین سب سے زیادہ جانتے ہیں اور سب سے اچھا فیصلہ دیتے ہیں تاہم اس سے حضرت عمر اور حضرت عمر پر حضرت علی کی افضلیت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حضرت علی کی جزئی فضیلت ہے اور جزئی فضیلت کلی فضیلت کے منافی نہیں ہوتی، جبکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی شان میں جو نصوص موجود ہیں ان سے علی الترتیب ان دونوں حضرات کا تمام امت سے افضل ہونا ثابت ہے۔ حضرت ابوبکر کی افضلیت کی ایک صریح دلیل تو ایک یہی آیت ہے (لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ اُولٰ ى ِكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا) 57 ۔ الحدید 10) یہ آیت خاص حضرت ابوبکر ہی کے حق میں نازل ہوئی ہے کیونکہ صرف انہوں نے ہی فتح مکہ سے پہلے اپنا مال جہاد میں لگا یا تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کوئی مسلمان ان کے برابر نہیں ہوسکتا، اس میں بھی کوئی شبہ کہ اس بارے میں حدیثیں متعارض اور دلیلیں متناقض ہیں اور روایت و دلائل کا یہ تعارض وتناقض اس بات کا متقضی ہے کہ اس نکتہ کو تسلیم کیا جائے جس پر جمہور صحابہ نے اتفاق کیا ہو۔ پس جس نکتہ پر جمہور صحابہ نے اتفاق کیا ہے وہ وہی ہے جس پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے یعنی یہ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اجر وثواب کی کثرت کے اعتبار سے حضرت ابوبکر افضل ہیں پھر حضرت عمر، پھر حضرت عثمان اور پھر حضرت علی۔

【19】

سیدنا علی اور امیر معاویہ کا معاملہ

یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ سیدنا علی اور امیر معاویہ کے درمیان جو محاذ آرائی اور جنگ وحصومت واقع ہوئی اس کو اجتہادی اختلاف) پر محمول کرنے چاہیے۔ حضرت علی نے دینی وشرعی طور پر اپنے خلافت کا مستحق سمجھا جبکہ امیر معاویہ اپنی خلافت کو برحق جانتے تھے، دونوں نے اپنے اپنے حق میں اجتہاد کیا یہ اور بات ہے کہ سیدنا علی کا اجتہاد درست ظاہر ہوا اور ثابت ہوگیا کہ اس وقت تمام لوگوں میں امت اسلامیہ کے سب سے بڑے آدمی اور سب سے افضل وہی تھے، ان کے برخلاف امیر معاویہ اپنے اجتہاد میں درست ثابت نہیں ہوئے کیونکہ حضرت علی کی موجودگی میں وہ خلافت کے ہرگز مستحق نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود فریقین میں سے کسی نے بھی اپنے مخالف فریق کو کافر نہیں کہا دونوں فریق الگ الگ جماعتوں میں بٹے ہوئے تھے، دونوں کے درمیان زبر دست معرکہ آرائی بھی ہوئی، دونوں فریقوں میں سے کچھ لوگوں نے ایک دوسرے کو برا بھی کہا، ایک دوسرے کے خلاف سب وشتم بھی کیا مگر ان میں سے کسی نے کسی کو دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا، اگرچہ ان میں سے بعض لوگ جہالت ونادانی اور تعصب میں مبتلا ہونے کے سبب ایسے امور کے مرتکب ہوئے جن سے ان کا گناہ گار ہونا یقینا ثابت ہوتا ہے، پس کسی مؤمن کو ہرگز روا نہیں کہ ان میں سے کسی کی بھی طرف کفر کی نسبت کرے اور ان کے بارے میں ایسا عقیدہ و خیال رکھے جو ایک مؤمن کے حق میں رکھ ہی نہیں سکتا۔

【20】

طلحہ کے لئے جنت کی بشار ت

اور حضرت زبیر کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن نبی کریم ﷺ کے جسم پر دو زرہیں تھیں (دوران جنگ ایک موقع پر) آپ ﷺ نے ایک چٹان چڑھنا چاہا (تاکہ دشمن کے لشکر کا جائزہ لیں اور مجاہدین اسلام کو بلندی پر سے دکھائی دیں) لیکن (دونوں زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے) اوپر چڑھنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ طلحہ نے (آپ ﷺ کو چٹان پر چڑھنے کی کوشش کرتے اور پھر کامیاب نہ ہوتے دیکھا تو فورا) آپ ﷺ کے نیچے بیٹھ گئے تاآنکہ آنحضرت ﷺ ان کے اوپر چڑھ کر چٹان پر پہنچ گئے اور میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا طلحہ نے (جنت کو واجب کرلیا۔ (ترمذی) تشریح اللہ تعالیٰ کے ارشاد خذوا حذرکم (اے ایمان والو ! اپنی احتیاط رکھو) کی زیادہ سے زیادہ تعمیل کی خاطر آپ ﷺ نے دو زرہیں اس دن پہن رکھی تھیں کیونکہ زرہ اور سپر جیسی چیزیں سامان جنگ میں سے ہیں اور میدان جنگ میں دشمن کے حملوں سے بچاؤ کے لئے لازمی ذریعہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ دشمن کے مقابلہ پر ہتھیاروں کا استعمال اور تحفظ کے مادی ذرائع اختیار کرنا تو کل کے منافی نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر دو زرہیں پہن کر گویا امت کو بتایا کہ دشمن کے مقابلہ پر اپنے بچاؤ کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرنی چاہئے۔ طلحہ نے (جنت کو) واجب کرلیا۔ جنت کا لفظ بعض روایتوں میں صریح آیا ہے اس جملہ کا مطلب یہ تھا کہ طلحہ نے اپنے اس ایک عمل کے ذریعہ یا اپنے ان مجاہدانہ کارناموں کے ذریعہ جو انہوں نے اس جنگ میں انجام دئیے ہیں اپنے لئے جنت کا استحقاق اور وجوب پیدا کرلیا ہے، بلاشبہ اس جنگ میں حضرت ابوطلحہ کی جانثاری وفدا کاری اسی طرح کی تھی کہ آنحضرت ان کو اس بشارت سے نوازتے۔ انہوں نے جان کی بازی لگا کر اپنے جسم کو آنحضرت ﷺ کی ڈھال بنالیا تھا اور آنحضرت کی طرف آنے والے تمام تیر اپنے بدن پر روک رہے تھے، ان کا پورا جسم زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا، ان کا ہاتھ تو زندگی بھر معطل اور شل رہا۔ اسی ٨٠ سے اوپر زخم ان کے بدن پر شمار کئے گئے تھے یہاں تک کہ ان کا عضو مخصوص بھی زخمی ہونے سے نہیں بچا تھا۔ بعد میں صحابہ کرام جب بھی عزوہ احد کا ذکر کرتے تو کہا کرتے تھے کہ جنگ کا وہ پورا دن طلحہ کی سرفروشی اور فدا کاری کا دن تھا۔

【21】

جنگ احد کے دن آنحضرت ﷺ پر کیا گزری

حضرت ابوسعید خدری نے ایک روایت میں بیان کیا ہے کہ جنگ احد کے دن ایک دشمن دین عتبہ بن وقاص نے آنحضرت ﷺ کو ایک پتھر پھینک کر مارا جس کی چوٹ سے آپ ﷺ کا دائیں طرف کا دندان مبارک شہید ہوگیا اور نیچے کا ہونٹ زخمی ہوگیا ایک اور بدبخت عبداللہ بن شہاب زہری کے حملہ کے نتیجہ میں آپ ﷺ کی مبارک پیشانی پر سخت زخم آیا اور خود کی دو کڑیاں رخسار مبارک میں پیوست ہوگئیں۔ دشمنوں نے میدان جنگ میں پوشیدہ طور پر کچھ گڑھے کھود کر ان کو اوپر سے اس طرح برابر کردیا تھا کہ نادانستگی میں جس مسلمان کا پیر اس کے اوپر پڑھے وہ گڑھے میں گرجائے چناچہ ایسے ہی ایک گڑھے میں آنحضرت ﷺ بھی گرپڑے تھے، فورا حضرت علی نے آگے بڑھ کر آپ ﷺ کا دست مبارک تھاما اور پھر حضرت طلحہ بن عبیداللہ نے آپ ﷺ کو اٹھایا اور گڑھے سے باہر نکال کر کھڑا کیا چہرہ مبارک کے زخموں سے جو خون نکل رہا تھا اس کو ابوسعید خدری نے اپنے منہ سے چوسا اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص نے میرا خون چوس کر صاف کیا ہے۔ اس کو دوزخ کی آگ چھونے بھی نہیں پائے گی۔

【22】

حضرت طلحہ کی فضیلت

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے طلحہ بن عبیداللہ کی طرف (محبت بھری نظروں سے) دیکھا اور فرمایا جس شخص کی خواہش ہو کہ اس انسان کو دیکھے جو زمین پر چلتا پھرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ مردہ ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اس انسان (طلحہ) کو دیکھے۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص ایسے شہید کا دیدار کرنا چاہے جو زمین پر چلتا پھرتا ہے تو وہ طلحہ بن عبیداللہ کو دیکھے۔ (ترمذی) تشریح حقیقت میں وہ مردہ ہے یہ قضی نحبہ کا ترجمہ ہے۔ اصل میں تو نحب کے معنی ہیں منت ماننا، نذر کرنا، عہد کرنا۔ لیکن اس کے ایک معنی موت اور اجل کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن کریم کی اس آیت ! (مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَه وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ) 33 ۔ الاحزاب 23) من مفسرین نے قضی نحبہ کی تفسیر میں دونوں معنی مرادلئے ہیں۔ اس لحاظ سے اس حدیث میں بھی قضی نحبہ کو اگرچہ دونوں معنی پر محمول کیا جاسکتا ہے لیکن دوسرے معنی (موت کے مفہوم میں) مراد لینا زیادہ صحیح اور زیادہ موزوں ہے جیسا کہ دوسری روایت شہید یمشی علی وجہ الارض سے بھی ہے۔ بہرصورت اس ارشاد گرامی سے آنحضرت ﷺ کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ طلحہ وہ شخص ہے جس نے اللہ کی راہ میں اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے سرفروشی اور فدا کاری کا جو عہد کیا تھا اس کو پورا کردیا اور میدان جنگ میں اس نے جان سپاری کے ذریعہ درحقیقت موت کا مزہ چکھ لیا یہ اور بات ہے کہ وہ ابھی زندہ نظر آتا ہے، یہ معلوم ہی ہے کہ جنگ احد کے دن حضرت طلحہ نے خود کو آنحضرت ﷺ کی ڈھال بنا لیا تھا اور اس کے نتیجہ میں ان کے جسم کو کوئی حصہ کوئی عضو زخمی ہونے سے نہیں بچا تھا۔ بعض حضرات نے لکھا ہے اس حدیث میں حضرت طلحہ کے تعلق سے جو کچھ فرمایا گیا اس میں درحقیقت اس اختیاری موت کی طرف اشارہ ہے جو اہل سلوک اور ارباب فناہ کو حاصل ہوتی ہے یا مردہ ہونے سے ذات باری تعالیٰ کی طرف انجذاب اور ذکر الہٰی اور مشاہدہ ملکوت میں پوری طرح مستغرق ہونے کے سبب عالم شہادت سے غائب ہونا ہے جو دراصل (اختیاری موت) کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے مردہ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہو کہ مال کار حضرت طلحہ کو شہادت کی موت اور حسن خاتمہ کی سعادت نصیب ہوگی۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت طلحہ جنگ جمل میں شہید ہوئے۔

【23】

طلحہ اور زبیر کی فضیلت

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے رسول کریم ﷺ کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے سنے طلحہ اور زبیر جنت میں میرے پڑوسی ہیں۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح ان الفاظ کے ذریعہ کنایۃ اس کمال قرب وتعلق کو ظاہر کیا گیا ہے جو ان دونوں حضرات اور نبی کریم ﷺ کے مابین تھا۔

【24】

سعد کے لئے دعا

اور حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے (ان کے حق میں) اس دن یعنی غزوہ احد کے دن دعا فرمائی خداوندا ! اس (سعد) کی تیر اندازی میں شدت وقوت عطا فرما اور اس کی دعا قبول کر۔ (شرح السنۃ) تشریح اس موقع پر تیر اندازی میں شدت وقوت کے ساتھ اجابت دعا کر ذکر اس مناسبت سے تھا کہ عرف عام میں تیر اور دعا کے درمیان گہرا تعلق ہے، تیر کا دعا سے استعارہ کیا جاتا ہے اور تیر دعا دعا کا تیر بہدف ہونا بڑا مشہور محاروہ تو خود اردو زبان میں بھی ہے اس مناسبت سے بطور نکتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حضرت سعد کا مستجاب الدعوات بن جانا گویا اس تیر کا اثر تھا جو انہوں نے اللہ کی راہ میں اسلام میں سب سے پہلے تیر چلایا تھا

【25】

سعد کے لئے دعا

اور حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے دعا فرمائی تھی خداوندا ! سعد جب تم سے دعا مانگے تو اس کو قبول فرما۔ (ترمذی )

【26】

سعد کی فضیلت

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے ماں باپ کو سعد کے علاوہ کسی کے لئے جمع نہیں کیا چناچہ غزوہ احد کے دن ان کو مخاطب کرکے فرمایا تھا تیر چلائے جا، تجھ پر میرے ماں باپ صدقے۔ نیز ( اس دن) آپ ﷺ نے سعد کو مخاطب کرکے یوں بھی فرمایا تھا تیر پھینکے جا اے جواں مرد۔ (ترمذی) تشریح اور اس جواں مرد نے جب ابوبکر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا تو اس وقت اس کی عمر ١٧ سال کی تھی۔ ان کے کچھ حالات پیچھے گزر چکے ہیں، انہوں نے اپنے زمانہ اسلام کے ہر اہم معاملہ اور واقعہ میں سرگرم حصہ لیا تھا اور دین کی سربلندی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں آخر میں جب ملت انتشار وتنازعہ کی صورت حال سے دوچار تھی اور خلافت و اقتدار کے مسئلہ پر مختلف گروہوں کی محاذ آرئیاں ہورہی تھیں تو انہوں نے تمام معاملات سے کامل یکسوائی اختیار کرلی تھی اور خود کو گھر کے اندر محصور کرکے ایک قبر تک محدود کرلیا تھا اور اپنے گھر کے لوگوں کو ہدایت دیدی تھی کہ باہر کی کوئی خبر مجھ تک نہ پہنچائی جائے تاآنکہ امت کسی ایک امام پر متفق ومتحد ہوجائے

【27】

سعد کی فضیلت

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ (ایک دن سعد بن ابی وقاص (مجلس مبارک میں) آئے تو نبی کریم ﷺ نے (ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ میرے ماموں ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسا ماموں رکھتا ہے تو وہ مجھ کو دکھائے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ سعد (قریش کے ایک قبیلہ) بنی زہرہ سے تھے اور (چونکہ آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ بھی بنی زہرہ ہی سے تھیں) اس اعتبار سے آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا یہ میرے ماموں ہیں نیز مصابیح میں فلیرنی (تو وہ مجھ کو دیکھائے) کے بجائے فلیکرمن (تو وہ اپنے اس ماموں کی تکریم کرے) کے الفاظ نقل کئے گئے ہیں، لیکن ابن حجر نے اس تبدیلی کو تصحیف کہا ہے بلکہ ملاعلی قاری نے تو تحریف قرار دیا ہے۔ تشریح ۔۔۔۔۔۔ تو وہ مجھ کو دکھائے یعنی اگر کوئی شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ اس کا ماموں میرے ماموں جیسا ہے نہیں ہوسکتا۔ زہرہ عورت کا نام ہے جو کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب کی بیوی تھی، اس کی اولاد کو بنوزہرہ کہا جاتا ہے اور یہ قریش کی ایک مشہور شاخ تھی۔ آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص کا نسبی تعلق اسی شاخ سے تھا اور اس اعتبار سے حضرت آمنہ اور سعد بن وقاص بہن بھائی ہوئے۔

【28】

اسلام میں سب سے پہلا تیر سعد نے چلایا

حضرت قیس بن ابی حازم (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو یہ فرماتے سنا یقینا میں عرب میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور ہم نے وہ (زمانہ دیکھا ہے جب ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ مصروف جہاد رہا کرتے تھے اور ہمارے پاس خوراک نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی، ہاں کیکر کی پھلیاں (جو لوبیہ کے مشابہ ہوتی ہیں اور کیکر کی پتیاں ضرور مل جاتی تھیں (جنہیں ہم پیٹ میں پہنچا کر بھوک کی آگ ٹھنڈی کرلیتے تھے) اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ہم لوگ بکری کی مینگنیوں کی مانند خشک پاخانہ پھرتے تھے جس میں رکوبت اور چپچپاہت کا نام تک نہ ہوتا تھا پھر (اب وہ زمانہ بھی دیکھنا پڑ رہا ہے کہ بنو اسد مجھ کو اسلام (یعنی نماز) کے بارے میں نصیحت (یا تنبیہ) کرتے ہیں (بخدا اگر میں اب بھی بنو اسد کی نصیحت کا محتاج اور دین کے بارے میں ان سے کمتر ہوں) تو پھر اس میں کیا شبہ کہ میں حرماں نصیب ہی رہا اور میرا کیا دھرا کارت ہوا۔ (یہ سعد نے اس وجہ سے کہا کہ) بنو اسد نے حضرت عمر فاروق سے سعد کی چغل خوری اور شکایت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ نماز اچھی طرح نہیں پڑھتے۔ (بخاری ومسلم) تشریح بنواسد سے زبیر بن العوم بن خویلد بن اسد کی اولاد اور اہل خاندان مراد ہیں۔ دراصل اس زمانہ میں جبکہ حضرت سعد بن ابی وقاص امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق کی طرف سے کوفہ کی گورنری کے منصب پر فائز تھے، بنواسد لوگوں کی زبانی یاتحریری طور پر حضرت عمر کے پاس یہ شکایت بھیجا کرتے تھے کہ سعد نماز اچھی نہیں پڑھتے یعنی یا تو نماز کی شرائط اور ارکان اور یا سنن کی ادائیگی خوب طرح نہیں کرتے اور اس کے آداب و محاسن کی رعایت ملحوظ نہیں رکھتے۔ اس شکایت پر حضرت عمر نے سعد سے جواب طلب کیا اور ان کو تنبیہ وتہدید بھیجی، حضرت سعد نے صورت حال کی وضاحت کی اور امیر المؤمنین کو بتایا کہ میں آنحضرت ﷺ کی نماز کے مطابق ہی لوگوں کو نماز پڑھاتا ہوں، چناچہ پہلی دونوں رکعتیں تو طویل رکھتا ہوں اور بعد کی دونوں رکعتوں کو مختصر کرتا ہوں۔ حضرت عمر نے حضرت سعد کی وضاحت کو قبول کیا۔ نماز پڑھانے کے ان کے طریقہ کی تصویب کی اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ تم نے جو بیان کیا ہے وہ صحیح ہے بنو اسد کا حضرت سعد کے خلاف دربار خلافت میں شکایت پہنچانا اور اچھی طرح نماز نہ پڑھنے کا الزام ان پر عائد کرنا یقینا ایک غیر معمولی واقعہ تھا جس نے حضرت سعد کے جذبات و احساسات کو زبردست ٹھیس پہنچائی اور مجبورا انہیں اپنے اس افتخار کا اظہار کرنا پڑا کہ انہیں پیغمبر اسلام ﷺ کے ساتھ دور اول کی اس انقلابی جدوجہد میں بھر پور شرکت کا اعزاز حاصل ہے جو اسلام کے نام لیواؤں کے لئے سراسر مشقت، جان کا ہی اور سخت جسمانی و روحانی آزمائشوں کا موجب تھی۔ حضرت سعد نے گویا اس تاثر کا اظہار کیا کہ جب سخت ترین دور بھی میری دینی زندگی میں کوئی اضمحلال اور تساہلی پیدا نہ کرسکا اور بڑی سے بڑی پریشانی اور سختی برداشت کرکے بھی میں نے اسلام کے فرائض کو کماحقہ، ادا کیا تو اب نماز جیسی سب سے اہم عبادت میں کسی سہل انگاری یا تساہلی کاروادار کیسے ہوسکتا ہوں یہ کتنی ناانصافی کی بات ہے کہ بنواسد نے قبول اسلام میں میری سبقت اسلام کے لئے میری جدوجہد اور قربانیاں اور دین کے راستہ میں میری ثابت قدمی اور میری تمام طاعات و عبادات کو نظر انداز کرکے مجھ پر ایسا الزام عائد کیا جو میرے لئے عار کا باعث ہے اور مجھے سخت ذہنی و روحانی اذیت میں مبتلا کردینے والا ہے حضرت سعد نے جن الفاظ میں اپنے احساسات کا اظہار کیا اس سے معلوم ہوا کہ دینی مصلحت کے تحت اور معاندانہ عیب جوئی وتنقیص کے ازالہ کی خاطر اپنے علم وفضل اور اوصاف کمالات کا واقعاتی اور حقیقی پیرایہ بیان میں فخریہ اظہار شریعت میں جائز ہے۔ چناچہ یہ ثابت ہے کہ صحابہ کرام صالح اور صحت منداغراض کے تحت اپنے اوصاف و کمالات کا آپس میں فخریہ اظہار کیا کرتے تھے۔

【29】

حضرت سعد کا افتخار

اور حضرت سعد نے کہا میں اپنے بارے میں (دوسروں سے زیادہ) زیادہ جانتا ہوں، اسلام کی فہرست میں میرا نمبر تیسرا ہے اور (مجھ سے پہلے مشرف باسلام ہونے والے ان دونوں میں سے بھی) کوئی شخص اس دن سے دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوا تھا جس دن کہ میں نے اسلام قبول کیا تھا اور پھر سات دن تک میں اسلام کا تہائی حصہ بنا رہا۔ (بخاری) تشریح حضرت سعد کا مطلب یہ تھا سب سے پہلے دن تین آدمیوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ان میں سے دو تو حضرت خدیجہ اور ابوبکر تھے اور تیسرا آدمی میں خود تھا اس طرح اگرچہ حضرت خدیجہ اور حضرت ابوبکر نے مجھ سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن ہم تینوں کے اسلام قبول کرنے کا دن بہرحال ایک ہی تھا، پھر میرے قبول اسلام کے بعد سات دنوں تک کسی شخص نے اسلام قبول نہیں کیا۔ میرے بعد جو لوگ مسلمان ہوئے وہ سب ان سات دنوں کے بعد ہی ہوئے یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حضرت سعد کی مراد یہ تھی کہ آزاد اور بالغ لوگوں میں ہم تین آدمیوں کے علاوہ اور کوئی شخص ان سات دنوں میں مسلمان نہیں ہوا۔ یا یہ کہ حضرت سعد کو شاید اور لوگوں کے اسلام کی خبر نہ ہوئی ہوگی۔ اس وضاحت سے نہ تو یہ اشکال پیدا ہوگا کہ جب حضرت علی (جو قبول اسلام کے وقت نابالغ تھے اور حضرت زید بن حارثہ (غلام کے بارے میں ثابت ہے کہ ان دونوں نے بھی پہلے ہی دن اسلام قبول کرلیا تھا تو حضرت سعد نے یہ بات کہی اور نہ حضرت عمار کی اس روایت سے حضرت سعد کی اس روایت کا تنافض لازم آئے گا جس میں انہوں نے (یعنی عمار نے کہا جب میں نے (پہلی مرتبہ) رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی تو اس وقت پانچ غلاموں، دو عورتوں اور ایک ابوبکر کے علاوہ اور کوئی شخص آپ ﷺ کے ساتھ مسلمان نہیں تھا۔

【30】

حضرت عبدالرحمن بن عوف کی فضیلت

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ نے جو اپنی بیویوں سے فرمایا تمہارا معاملہ کچھ اس نوعیت کا ہے کہ مجھ میرے بعد کے فکر میں ڈالتا ہے اور تمہارے خرچہ پر وہی جو صبر کریں گے (صابر ہیں اور صدیق ہیں حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ (صابر اور صدیق سے) آنحضرت ﷺ کی مراد وہ لوگ ہیں جو صدقہ دینے والے اور کار خیر کرنے والے ہیں پھر حضرت عائشہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے بیٹے حضرت ابوسلمہ تابعی کے سامنے (ان کے والد بزرگوار کے زبردست مالی ایثار پر اظہار تشکر اور جذبہ منت گزاری کے تحت) کہا اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کو جنت کی سلسبیل سے سیراب فرمائے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف نے آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات (کے خرچہ) کے لئے ایک باغ دیا تھا جو چالیس ہزار دینار کو بیچا گیا تھا۔ تشریح جو صابر ہیں یعنی وہ لوگ کہ جو اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اپنا مال اور اپنی دولت خرچ کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کے ذریعہ اس دنیا کی پونجی کو تو کم کرتے ہیں مگر آخرت کے سرمایہ میں اضافہ کرتے ہیں اور اس طرح مال و دولت کے خرچ ہونے پر نفس کو جو ناگواری ہوتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔ صدیق ہیں یعنی وہ لوگ جو صدقہ معاملہ میں کامل ہیں، ادائے حقوق میں سب سے آگے ہیں اور جود وسخا میں کثیر الصدق ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ازواج مطہرات سے جو کچھ فرمایا اس کا حاصل یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں اختیار دیا تھا کہ چاہے تو زوجیت رسول کے شرف کی صورت میں آخرت کو اختیار کرلو، چاہو آسائش و آرام کی زندگی گزارنے کی خاطر اس شرف کو چھوڑ دینا اختیار کرلو تو اس وقت تم نے اگرچہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دی تھی اور میری رفاقت وزوجیت میں رہنے کے فیصلہ کو اس کامل یقین کے ساتھ برقرار رکھا تھا کہ اس عظیم ترین شرف و اعزاز کی خاطر دنیا کے بڑے مصائب اور بڑی سے بڑی سختی کو بھی خوش دلی سے انگیز کروگی، تاہم مجھ کو کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ تمہارے لئے میراث چھوڑ کر نہیں جارہا ہوں، نہ معلوم میری وفات کے بعد تمہیں کن حالات سے دوچار ہونا پڑے۔ تمہارے ساتھ لوگ کیا معاملہ اور کیسا سلوک رکھیں گے کون شخص تمہارے گزارے کا متکفل بنے گا اور کس شخص کو تمہاری خبر گیری کی توفیق نصیب ہوگی اور جو تمہارے مصارف کے لئے اپنے مال اور اپنی جائداد کا نذرانہ پیش کریں گے ان کا وہی مقام و مرتبہ ہوگا جو اللہ کے نزدیک صابر اور صدیق کا ہوتا ہے حضرت عائشہ نے ارشاد نبوت کے سیاق میں، صابر اور صدیق کے معنی بیان کئے اور پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف کے حق میں، ان کے بیٹے کے سامنے، جو دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے اس سے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی وہ فضیلت ظاہر ہوئی جو انہوں نے ازواج مطہرات کے لئے اپنی بڑی ایک جائداد کا نذرانہ پیش کرکے اس حدیث کے مطابق حاصل کی۔ اللہ کی راہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف کی مالی قربانیاں حدیث بالا میں یہ ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے باغ ازواج مطہرات کے لئے دیا تھا وہ چالیس ہزار دینار کو بیچا گیا، لیکن ترمذی ہی کی ایک روایت میں، جس کو ترمذی نے حسن غریب کہا ہے یوں ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ازواج مطہرات کے مصارف کے لئے اپنا پورا باغ اللہ کی راہ میں دیدیا تھا جو چار لاکھ درہم یا دینار کو بیچا گیا۔ یہ تو ابن عوف کی مالی قربانیوں کی صرف ایک مثال ہے، وہ بہت بڑے تاجر تھے اور وسیع بنیادوں پر پھیلی ہوئی اپنی تجارت کے ذریعہ جتنا زیادہ مال و اسباب پیدا کرتے تھے اتنا ہی اللہ کی راہ میں خرچ بھی کرتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ان کی زندگی اور ان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مطلقا مبالغہ نہ ہوگا کہ ان کی تمام تر تجارت اور کسب مال کا مقصد ہی اللہ کی راہ میں اور دین کی سربلندی کے لئے خرچ کرنا تھا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک مرتبہ اپنے آدھے مال و اسباب اور چار ہزار دینار یادرہم یا درہم نقد کا نذرانہ پیش کیا، پھر انہوں نے چالیس ہزار دینار تصدق کئے، پھر پانچ سوگھوڑے جہاد کے لئے اللہ کے کی راہ میں دئیے اور پھر جہاد ہی کے لئے اللہ کی راہ میں انہوں نے ڈیڑھ ہزار اونٹنیاں پیش کیں اور ان تمام مال و اسباب میں سے اکثر حصہ ان کے تجارتی مال و سرمایہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق ایک دن حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ایک سو پچاس ہزار یعنی ڈیڑھ لاکھ دینار اللہ کی خوشنودی کے لئے صحابہ کرام کو دیئے، پھر جب رات آئی تو گھر میں قلم کاغذ لے بیٹھے اور اپنا تمال مہاجرین و انصار صحابہ میں تقسیم کرنے کے لئے ایک فہرست مرتب کی، اس فہرست میں انہوں نے اپنے بدن کے کپڑوں تک کے بارے میں لکھا کہ میرے بدن پر جو قمیص ہے وہ فلاح صاحب کے لئے ہے اور میرا عمامہ فلاں صاحب کے لئے اس طرح انہوں نے اپنے مال و اسباب میں سے کچھ باقی نہیں رہنے دیا، ایک ایک چیز حاجتمندوں کے نام لکھ دی، اس کام سے فارغ ہو کر سوگئے صبح ہوئی تو نماز فجر کے لئے مسجد پہنچے اور آنحضرت ﷺ کے پیچھے نماز ادا کی اتنے میں حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اے محمد ﷺ ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبدالرحمن کو میری طرف سے سلام کہو اور وہ فہرست (جو انہوں نے آج رات میں بنائی ہے) ان سے قبول کرکے پھر ان کو واپس کردو اور ان سے کہو کہ اللہ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا، اس سارے مال و اسباب میں تم اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے وکیل ہو، اپنی مرضی سے اس میں سے لین دین کرو اور اپنے سابقہ حق تصرف کے ساتھ چاہو خرچ کرو، اس کا تم سے کوئی حساب نہیں لیا جائے گا اس کے ساتھ ہی ان کو جنت کی بشارت عطا کی گئی۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ انہوں نے تیس ہزار غلام آزاد کئے۔ پسماندگان میں انہوں نے چار بیویاں چھوڑی تھیں اور منقول ہے کہ ایک ایک بیوی کے حصہ میں اسی اسی ہزار درہم آئے تھے بلکہ ایک روایت میں یوں ہے کہ عبداللہ بن عوف کا تر کہ سولہ سہام پر تقسیم، ہوا اور ہر بیوی کے حصہ دو دو لاکھ درہم آئے۔

【31】

خداوندا! عبدالرحمن بن عوف کو جنت کی نہر سے سیراب فرما

اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی بیویوں سے یوں فرماتے سنا، حقیقت یہ ہے کہ میری وفات کے بعد جو شخص مٹھیاں بھر بھر کر تم پر خرچ کرے گا یعنی پوری فراخ دلی اور کامل سخاوت کے ساتھ تمہارے مصارف میں اپنا مال خرچ کرے گا وہ صادق الایمان صحاب احسان ہے خداوندا ! عبدالرحمن بن عوف کو جنت کی نہر سلسبیل سے سیراب کر۔ (احمد) تشریح ظاہر تو یہ ہے کہ دعائیہ الفاظ حضرت ام سلمہ کے اپنے ہیں جیسا کہ پچھلی روایت میں حضرت عائشہ (رض) نقل ہوا لیکن بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ دعائیہ الفاظ بھی آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا حصہ ہیں۔ دراصل آنحضرت ﷺ کو پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا کہ عبدالرحمن بن عوف میری بیویوں کے ساتھ کتنا بڑا احسان کریں گے اور اس لئے آپ ﷺ نے ان کے حق میں یہ دعا فرمائی۔ اس اعتبار سے یہ حدیث آنحضرت ﷺ کے اعجاز کو ظاہر کرتی ہے۔

【32】

حضرت ابوعبیدہ کی فضیلت

اور حضرت حذیفہ بن الیمان (جو کبار صحابہ میں سے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے محرم راز تھے) کہتے ہیں کہ نجران کے لوگوں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے پاس (حاکم وقاضی بنا کر) ایسے شخص کو بھیجئے جو امانت دار ہو یعنی ہمارے حقوق میں کوئی خیانت نہ کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا یقینا میں ایک ایسے شخص کو (حاکم یا قاضی بنا کر تمہارے ہاں بھیجوں گا جو امین ہے اور اس لائق ہے کہ امانت دار کہا جائے۔ (یہ سن کر) لوگ اس شرف کے حصول کی تمنا اور انتظار کرنے لگے (کہ دیکھیں کون شخص اس منصب کا شرف و امتیاز حاصل کرتا ہے) حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ابوعبیدہ بن الجراح کو بھیجا۔ (بخاری ومسلم ) تشریح نجران یمن میں ایک جگہ کا نام ہے جس کو ١٠ ھ میں فتح کیا گیا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ نجران حجاز اور شام کے درمیان واقع ایک جگہ کا نام ہے۔۔۔۔۔۔ تمنا اور انتظار کرنے لگے اس تمنا اور اظہار کا تعلق جاہ طلبی کے جذبہ اور حصول منصب کی خواہش سے ہرگز نہیں تھا بلکہ اس تمنا واشتیاق کی بنیاد صفت امانت سے متصف قرار پانے کی طلب و خواہش تھی۔

【33】

امارت وخلافت کے بارے میں آنحضرت ﷺ سے ایک سوال اور اس کا جواب

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ کسی نے سوال کیا یا رسول اللہ ! آپ ﷺ کے بعد ہم کس کو اپنا امیر وسربراہ بنائیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم میرے بعد ابوبکر کو اپنا امیر وسربراہ بناؤ گے تو ان کو امانت دار، دنیا سے بےپرواہ اور آخرت کی طرف راغب پاؤ گے۔ اگر عمر کو اپنا امیر وسربراہ بناؤ گے تو ان کو (بار امانت اٹھانے میں) بہت مضبوط، امین اور ملامت کرنے والے کی ملامت سے بےخوف پاؤ گے اور اگر علی کو اپنا امیر وسربراہ بناؤ گے، درآنحالیکہ میرے خیال میں تم ان کو ( اختلاف ونزاع کے بغیر) اپنا امیر وسربراہ بنانے والے نہیں ہو۔ تاہم جب بناؤ گے تو ان کو راہ راست دکھانے والا (یعنی مکمل مرشد) بھی پاؤ گے اور کامل ہدایت یافتہ بھی) جو صراط مستقیم پر چلائیں گے۔ (احمد) تشریح امانت دار دنیا سے بےپرواہ یعنی حقوق دین کی ادائیگی میں ان سے کوئی خیانت نہیں ہوگی۔ وہ دین وملت کے معاملہ میں جو بھی حکم و فیصلہ صادر کریں گے، اس کی بنیاد میں عدل اور دیانت ہی کی کار فرما ہوگی۔ اسی طرح ان کو دنیا سے کوئی محبت نہیں ہوگی بلکہ ان کی تمام تر توجہ اور دلچسپی آخرت کی طرف ہوگی۔ ان الفاظ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ میرے بعد خلافت وامارت کا استحقاق کے لئے ان اوصاف کو پہلا معیار بنانا چاہیے، کیونکہ جس شخص میں یہ اوصاف ہوں گے وہ دراصل اخلاص کے درجہ کمال پر فائز ہوگا اور اخلاص ہی وہ جوہر ہے جو خلاص یعنی نجات کو لازم کرتا ہے ایک روایت میں تجدوہ مسلما امینا (تو تم ان کو امانتدار مسلمان پاؤ گے) کے الفاظ ہیں اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں تجد وہ قویا فی امر اللہ ضیعفا فی نفسہ۔۔۔۔ ( تو تم ان کو ایسا انسان پاؤ گے جو اللہ کے معاملہ میں تو سخت اور مضبوط ہوگا اور اپنی ذات کے معاملہ میں کمزور و ضعیف ہوگا۔ ملامت کرنے والے کی ملامت سے بےخوف۔ یعنی دین کے معاملہ میں وہ کسی بھی خارجی خوف و مصلحت سے بےنیاز ہوں گے، شریعت کے نفاذ و اشاعت میں کوئی رورعایت نہیں کریں گے۔ دین وملت کے مفاد میں جو بھی قدم اٹھائیں گے اور جو بھی کاروائی کریں گے اس میں پوری مضبوطی اور استقلال کا ثبوت دیں گے، نہ کسی مخالف کی مخالفت انہیں خوف زدہ کرے گی، نہ کسی نکتہ چیں کی نکتہ چینی ان کو متاثر کر پائے گی نہ کسی معترض کا اعتراض ان کو ڈگمگائے گا اور نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت ان کے پائے استقلال میں لغزش پیدا کرسکے گی اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں تجدوہ قویا فی امر اللہ قویا فی نفسہ۔ (تم ان کو اللہ کے معاملہ میں بھی مضبوط پاؤ گے اور خود ان کی ذات کے معاملہ میں بھی ) ۔ اس حدیث میں حضرت عثمان کا ذکر نہیں ہے یا تو آنحضرت ﷺ نے ان کا ذکر ہی نہیں کیا تھا یا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے تو ذکر کیا تھا لیکن راوی ان کا ذکر کرنا بھول گئے۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابوبکر کا ذکر کرنا خلافت کے بارے میں ان کے تقدم اور ان کی فوقیت کی طرف اشارہ کرتا ہے نیز آپ ﷺ نے اگرچہ حضرت عثمان کا ذکر صریحا نہیں کیا لیکن حضرت علی کے ذکر میں لااراکم فاعلین (میرے خیال میں تم ان کو اپنا امیروسربراہ بنانے والے نہیں ہو) کے الفاظ میں حضرت علی پر حضرت عثمان کے تقدم کی طرف اشارہ ضرور ملتا ہے۔ ویسے ان الفاظ (لااراکم فاعلین کا ایک مطلب تو وہی ہے جس کی طرف ترجمہ میں بین القوسین اشارہ کیا گیا، یعنی یہ کہ میرا خیال ہے کہ ان کی خلافت پر تمام مسلمانوں کا اجماع نہیں ہوگا بلکہ ان سے اختلاف کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بھی موجود رہے گی اور ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرا خیال ہے کہ تم لوگ میری وفات کے بعد سب سے پہلے علی کو خلیفہ اور امیر نہیں بناؤ گے کیونکہ قضاء قدر الہٰی سے مجھ کو معلوم ہوگیا ہے کہ علی کی عمر طویل ہوگی اور وہ مذکورہ دونوں آدمیوں یعنی ابوبکر اور عمر سے زیادہ جئیں گے۔ اگر میرے بعد سب سے پہلے علی ہی خلیفہ و امیر بنائے جائیں تو ان دونوں کی خلافت قائم ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے جو علی سے پہلے فوت ہونے والے ہیں جبکہ ان لوگوں کا خلیفہ ہونا مقدر ہوچکا ہے۔ یہ مطلب مراد لینے کی صورت میں خیال میں (ظن) کو یقین کے معنی میں لیا جائے گا۔ یعنی آپ ﷺ نے گویا یہ فرمایا مجھے یقین ہے کہ تم میرے بعد سب سے پہلے علی کو خلیفہ اور امیر نہیں بناؤ گے۔ بہرحال آنحضرت ﷺ نے سائل کے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا حاصل یہ تھا کہ اے مسلمانو ! میرے بعد اہل اسلام کی قیادت اور ملی سربراہی (یعنی خلافت وامارت) کا معاملہ درحقیقت خود تمہارے اوپر موقوف ہے تم دین وملت کے بارے میں امین بھی ہو اور مجتہد بھی، اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتنی بصیرت اور حق تک پہنچنے کی ایسی ایمانی قوت عطا فرمائی ہے کہ حالات اور تقاضوں کا جائزہ لے کر صحیح فیصلہ پر پہنچ سکتے ہو پس میرے بعد تم اپنے اجتہاد کے ذریعہ جس شخص کی بھی امارت و خلافت پر متفق اور متحد ہوجاؤ گے وہی تمہارا برحق امیر و خلیفہ ہوگا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم لوگوں کا اجماع و اتحاد حق و سچائی کے علاوہ کسی بات پر نہیں ہوسکتا حضرت شیخ عبد الحق دہلوی نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نص صریح کو صورت میں یہ تعیین کے ساتھ کسی کو بھی اپنا جانشین نامزد مقرر نہیں فرمایا۔

【34】

چاروں خلفاء کے فضائل

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابوبکر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ انہوں نے اپنی بیٹی (عائشہ) کا نکاح مجھ سے کردیا اپنی اونٹنی پر سوار کرکے مجھ کو دار ہجرت (یعنی مدینہ) لے آئے (سفر ہجرت کے دوران) غار ثور میں میرے ساتھ رہے اور اپنے مال سے بلال کو (خرید کر) آزاد کیا (اور میری خدمت میں دیدیا) اللہ تعالیٰ عمر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، وہ جو بات کہتے ہیں خواہ کسی کو تلخ ہی کیوں نہ لگے اور حق گوئی نے ان کو اس حال پر پہنچا دیا کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، ان سے تو فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ علی پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، اے اللہ (حق کو علی کے ساتھ رکھ کہ جدھر علی رہے ادھر ہی حق رہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہم کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح اپنی اونٹنی پر سوار کرکے بعض روایتوں میں آیا ہم کہ حضرت ابوبکر نے (٢) اونٹنیاں پال کر تیار کر رکھی چھوڑی تھیں کہ نامعلوم کب ہجرت کا حکم آجائے چناچہ جب ہجرت کا حکم آگیا تو وہ ایک اونٹنی لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! سفر ہجرت میں سواری کے لئے اس اونٹنی کو قبول فرمائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں اس اونٹنی کو اپنی سواری کے لئے اس صورت میں لوں گا کہ تم اس کو میرے ہاتھ فروخت کردو۔ آخر کار حضرت ابوبکر نے اس اونٹنی کو آپ کے ہاتھ فروخت کیا اور آپ ﷺ نے آٹھ سو درہم قرض کے عوض اس اونٹنی کو خرید لیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ان کا کوئی دوست نہیں یعنی ان کا کوئی ایسا دوست نہیں جو دوستی کے ناطے ان سے رعایتی سلوک اور مداہنیت کی توقع رکھے ورنہ جہاں تک مطلق دوستی کا تعلق ہے تو سارے ہی مخلص اور سچے مسلمان ان کے دوست تھے اور سب سے بڑھ کر تو صدیق اکبر ہی ان کے صدیق (دوست) تھے۔ جدھر علی رہے ادھر ہی حق رہے یہ الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے ایک اور روایت میں کہ جس کو سیوطی نے جمع الجوامع میں نقل کیا ہے فرمایا گیا ہے القران مع علی وعلی مع القران۔ (یعنی قرآن علی کے ساتھ ہے اور علی قرآن کے ساتھ )