195. نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان

【1】

نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان

اہل بیت رسول ﷺ کا اطلاق کن کن پر ہوتا ہم اہل بیت یعنی آنحضرت ﷺ کے گھر والوں سے کون کون لوگ مراد ہیں ؟ اس بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ اہل بیت کا اطلاق ان لوگوں پر بھی آیا ہے جن کو زکوٰۃ کا مال لینا حرام ہے یعنی بنو ہاشم اور ان میں آل عباس، آل جعفر اور آل عقیل شامل ہیں۔ بعض روایتوں میں آنحضرت ﷺ کے اہل و عیال کو اہل بیت کہا گیا ہے جن میں ازواج مطہرات یقینی طور پر شامل ہیں، لہٰذا جو لوگ ازواج مطہرات کو اہل بیت سے خارج قرار دیتے ہیں وہ مکابرہ کا شکار ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت (لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا) 33 ۔ الاحزاب 23) ۔ سے اپنا اختلاف ظاہر کرتے ہیں کیونکہ جب اس سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ازواج مطہرات ہی کو مخاطب تو پھر ان کو (یعنی ازواج مطہرات کو) درمیان آیت کے مضمون (اہل البیت) اور اس کے مصداق میں شامل نہ کرنا آیت کو اس کے عبارتی تسلسل اور معنوی سیاق وسباق سے الگ کردینا ہے، چناچہ امام محمد فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ یہ آیت آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کو شامل ہے کیونکہ آیت کا سیاق وسباق پوری شدت سے اس کا مقاضی ہے پس ازواج مطہرات کو اہل بیت کے مصداق سے خارج کرنا اور ان کے علاوہ دوسروں کو اس مصداق کے ساتھ مختص کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ امام رازی آگے لکھتے ہیں۔ یہ کہنا زیادہ بہتر اور اولی ہے کہ اہل بیت کا مصداق آنحضرت ﷺ کی اولاد اور ازواج مطہرات ہیں اور ان میں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین بھی شامل ہیں، نیز حضرت علی بھی آنحضرت ﷺ سے خصوصی نسبت وتعلق اور خانگی قرب رکھنے کے سبب اہل بیت میں سے ہیں، تاہم بعض مواقع پر اہل بیت کا اطلاق اس طرح بھی آیا ہے کہ جس سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اس کا مصداق صرف فاطمہ زہرا، علی مرتضی، حسن اور حسین ہیں جیسے حضرت انس کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جب نماز فجر کے لئے مسجد میں آتے تو راستہ میں حضرت فاطمہ کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے یوں فرماتے الصلوۃ یا اہل البیت، انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہر کم تطہیرا۔ اس روایت، کو ترمذی نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح ام المؤمنین حضرت ام سلمہ روایت کرتی ہیں کہ (ایک دن) میں آنحضرت ﷺ کے پاس (گھر میں) بیٹھی ہوئی تھی کہ خادم نے آکر بتایا کہ علی اور فاطمہ باہر کھڑے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) مجھ سے فرمایا کہ تم کنارے ہوجاؤ چناچہ میں گھر کے گوشہ میں چلی گئی۔ علی اور فاطمہ اندر آگئے اور ان کے ساتھ حسن و حسین بھی تھے جو اس وقت ننھے منے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے حسن اور حسین کو آغوش مبارک میں بٹھا لیا اور ایک ہاتھ سے علی کو اور دوسرے ہاتھ سے فاطمہ کو پکڑ کر اپنے بدن سے چمٹایا، پھر آپ ﷺ نے أپنی کالی کملی اس سب پر لپیٹی جو جو اس وقت جسم مبارک پر تھی اور فرمایا خداوندا ! یہ میرے اہل بیت ہیں، مجھ کو اور میرے اہل بیت کو اپنی طرف بلانہ کہ آگ کی طرف اور حضرت ام سلمہ ہی سے یہ بھی منقول ہم کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا میری یہ مسجد ہر حائضہ عورت اور ہر جنبی مرد پر حرام ہے (جو عورت حیض کی حالت میں ہو یا جو مرد ناپاکی کی حالت میں ہو وہ میری مسجد میں ہرگز داخل نہ ہو) ہاں محمد اور محمد ﷺ کے اہل بیت پر کہ وہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں، حرام نہیں ہے اس روایت کو بیہقی نم نقل کیا ہے اور اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ بہر حال ایک طرف تو وہ روایتیں ہیں جن سے بنو ہاشم اور آنحضرت ﷺ کے اہل و عیال پر اہل بیت کا اطلاق ثابت ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ روایتیں ہیں جن سے اہل بیت کا مصداق صرف حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین معلوم ہوتے ہیں بلکہ ان ہی چہار تن پاک پر اہل بیت کا اطلاق شائع اور مشہور بھی ہے لہٰذا علماء نے ان تمام روایتوں میں تطبیق اور ان کے اطلاقات کی توجیہہ میں یہ کہا ہے کہ بیت کی تین نو عیتیں ہیں (١) بیت نسب (٢) بیت سکنی (٣) ولادت۔ پس بنوہاشم یعنی عبد المطلب کی او لاد کو تو نسب اور خاندان کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کا اہل بیت (اہل خاندان) کہا جائے گا۔ دراصل عرب میں جد قریب کی اولاد کو بیت (یعنی خاندان یاگھرانہ) یا خاندان سے اس شخص کے باپ اور دادا کی اولاد مراد ہوتی ھم آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کو اہل بیت سکنی (اہل خانہ) کہا جائے گا چناچہ عرف عام میں کسی شخص کی بیویوں کو اس کے اہل بیت یا گھروالی سے تعبیر کیا جانا مشہور ہی ہے اور آنحضرت ﷺ کی اولاد (ماجد کو اہل بیت ولادت کہا جائے گا اور اگرچہ آپ ﷺ کی تمام ہی اولاد پر اہل بیت ولادت کا اطلاق کیا جانا چاہئے لیکن تمام اولاد میں حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسنین کو جو خاص فضل وشرف اور آنحضرت ﷺ سے کمال قرب وتعلق حاصل تھا اور یہ کہ ان کے فضائل ومناقب جس کثرت سے احادیث میں وارد ہیں اس کی بناء پر اہل بیت ولادت کا خصوصی و امتیازی مصداق صرف یہی چار تن مانے جائیں گے۔ واضح ہو کہ اس باب میں مولف مشکوٰۃ نے جو احادیث اور روایات نقل کی ہیں، اہل بیت کی نسبت سے ان کا تعلق بعض بنوہاشم سے بھی ہے اور علی وفاطمہ اور حسن و حسین سے بھی اور ابراہیم بن رسول اللہ ﷺ سے بھی ہے۔ علاوہ ازیں اس ضمن میں حضرت زید بن حارثہ اور ان کے بیٹے حضرت اسامہ کا ذکر بھی آیا ہے اور ان دونوں کا ذکر یا تو غالباً اس بناء پر ہے کہ ان دونوں پر آنحضرت ﷺ کی بےانتہا محبت و عنایت تھی یا اس سبب سے ہے کہ شاید ان دونوں کو بھی مؤلف مشکوٰۃ نے اہل بیت میں شمار کا ہے اسی طرح مولف مشکوٰۃ نے جو اس باب میں ازواج مطہرات کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ ان کے لئے علیحدہ سے باب قائم کیا ہے تو اس کی وجہ سے بھی یا تو یہ ہے کہ ان کے مخصوص مناقب و فضائل کے اعتبار سے ان کا ذکر مستقل طور علیحدہ ہی باب میں کیا جانا موزوں جانا گیا یا عرف عام کی رعایت سے ان کا ذکر اہل بیت سے الگ کر کے کیا گیا کیونکہ عام طور سے اہل بیت کا اطلاق انھی چار تن پر ہوتا ہے۔

【2】

آیت مباہلہ اور اہل بیت

حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَا ءَنَا وَاَبْنَا ءَكُمْ وَنِسَا ءَنَا وَنِسَا ءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران 61) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلوایا اور کہا خداوندا ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ (مسلم) تشریح پوری آیت یوں ہے (فَمَنْ حَا جَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَا ءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَا ءَنَا وَاَبْنَا ءَكُمْ وَنِسَا ءَنَا وَنِسَا ءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران 61) پس جو شخص آپ ﷺ سے اس (قرآن یا دین) کے بارے میں (اب بھی) حجت کرے بعد اس کے کہ آپ ﷺ کے پاس علم قطعی آچکا ہے تو آپ ﷺ اس سے کہے کہ آجاو ہم اور تم بلالیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور خود اپنے تنوں کو اور تمہارے تنوں کو، پھر ہم (سب مل کر) خوب دل سے دعا کریں بایں صورت کہ اللہ کی لعنت بھیجیں ان پر جو (بارے میں) ناحق پر ہوں اس آیت کو آیت مباہلہ کہا جاتا ہے۔ مباہل کا لفظ بھل یا بھلۃ سے بنا ہے جس کے معنی لعنت بھیجنے اور لعنت کے ہیں مباہلہ کا مطلب ہوتا ہے ایک دوسرے پر لعنت بھیجنا اور ملعون ہوجانے لگا۔ جس میں تضرع، خشوع و خضوع اور عاجزی وفروتنی کی صورت بہت زیادہ اختیار کی گئی ہو بہرحال، عربوں کی یہ عادت تھی کہ جب کسی معاملہ میں دو فریق آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت و تکذیب کرتے اور ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کا الزام عائد کرتے تو آخر میں اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل کر کسی خاص جگہ پر جمع ہوتے اور ایک دوسرے کے خلاف بددعا کرتے ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے اور یوں دعا مانگتے یا اللہ ! ہم میں سے جو شخص ناحق پر ہو یا ظالم ہو اس پر لعنت بھیج پس جب نصاری (مسیحوں) نے دین اسلام یا قرآن کی حقانیت و صداقت کے بارے میں آنحضرت ﷺ سے بحث مباحثہ کا دروازہ کھولا اور پیغمبر اسلام کی مخالفت و تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مذکورہ بالا آیت کے ذریعہ حکم دیا کہ آپ ﷺ ان مسیحوں کو مباہلہ کو دعوت دیجئے اور ان سے کہے کہ آؤ برسرعام اپنا فیصلہ کرالیں کہ ہم میں سے کون حق پر ہے اور کون ناحق پر چناچہ روایتوں میں آتا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر آنحضرت ﷺ اپنے عزیز ترین اور قریب ترین اہل بیت کو لے کر مباہلہ کے لئے اس طرح نکلے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین کو جو اس وقت بہت چھوٹے چھوٹے تھے آپ نے گود میں اٹھا رکھا تھا، حضرت فاطمہ آپ ﷺ کے پیچھے تھیں اور حضرت علی حضرت فاطمہ کے پیچھے تھے، آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ میں جب مباہلہ میں دعا کروں تو تم سب مل کر آمین کہنا مسیحوں کے پیشوا کی نظر ان نورانی چہروں پر پڑی تو اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرکے بےاختیار بول اٹھا تم پر افسوس ہے میں نے تو ان نورانی چہروں کو ایسا دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ اللہ سے یوں درخواست کریں کہ پہاڑ کو اس کی جگہ سے اکھیڑ دے تو بالیقین اللہ (ان کی درخواست قبول کرکے) پہاڑ کو اس کی جگہ سے اکھیڑ دے گا پھر اس نے پر زور انداز میں اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ (ان لوگوں کے ساتھ مباہلہ ہرگز نہ کرنا ورنہ جڑ سے اکھاڑ دیئے جاؤ گے۔ آخر کار ان مسیحوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ مباہلہ نہیں کیا اور جزیہ قبول کرکے آنحضرت ﷺ کی سیاسی اطاعت پر مجبور ہوئے، لیکن ان کے اندر چونکہ اسلام اور پیغمبر اسلام سے قلبی وابستگی اور مناسبت نہیں تھی اس لئے اسلام میں داخل ہونے سے محروم رہے ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ بعد میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر وہ لوگ مباہلہ کرتے تو نتیجہ کے طور پر ان کی صورتیں مسخ ہو کر بندروں اور سوروں کی سی ہوجاتیں، تمام بیابان وجنگل آگ ہی آگ ہوجاتا اور وہ آگ نہ صرف ان کو بھسم کرکے سرے سے نیست ونابود کردیتی بلکہ درختوں پر پرندوں تک کو جلا دیتی۔

【3】

آیت قرآنی میں مذکور |" اہل بیت |" کا محمول ومصداق

اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن صبح کو نبی کریم ﷺ تشریف لائے، اس وقت آپ ﷺ کے بدن مبارک پر ایک سیاہ بالوں کی کملی تھی جس پر اونٹ کے کجاو وں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں اتنے میں حسن ابن علی، آگئے اور آپ ﷺ نے ان کو اپنی کملی کے اندر لے لیا پھر حسین آئے اور آپ ﷺ نے ان کو بھی حسن کے ساتھ کملی کے اندر لے لیا، پھر فاطمہ آئیں اور آپ ﷺ نے ان کو بھی کملی کے اندر لے لیا اور پھر علی آئے اور آپ ﷺ نے ان کو بھی کملی کے اندر لے لیا اور پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی (اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا) 33 ۔ الاحزاب 33) (یعنی اے اہل بیت) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم کو (گناہوں اور برائیوں کی) پلیدی (اور غیر اخلاقی وغیر انسانی باتوں کے میل کچیل میں آلود ہونے) سے بچائے (جیسا کہ اکثر لوگ آلودہ ہوجاتے ہیں) اور تم کو ایسا پاک صاف رکھے جیسا کہ پاک صاف رہنا چاہئے۔ ( مسلم) تشریح اس آیت کا سیاق وسباق پوری وضاحت کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ اس سے پہلی میں بھی ینسآء النبی لستن کا حد من النسآء کے ذریعہ ازواج مطہرات ہی کو خطاب کیا گیا ہے اور بعد کی آیت میں بھی واذکرن ما یتلی فی بیوتکن میں بھی انہی کا ذکر ہے۔ رہی یہ بات کہ پھر عنکم الرجس میں جمع مذکر کی ضمیر کیوں لائی گئی ہے تو اس کی وجہ یا تو اظہار عظمت ہے یا اہل بیت کے مردوں کی فوقیت و برتری کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔

【4】

ابر اہیم بن رسول اللہ ﷺ

اور حضرت براہ بن عازب کہتے ہیں کہ جب (حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے آنحضرت ﷺ کے فرزند) ابراہیم کا (شیرخوارگی کی عمر میں) انتقال ہوا تو رسول کریم نے فرمایا (ابراہیم کو جنت میں پہنچا دیا گیا ہے اور وہاں) اس کے لئے ایک دودھ پلانے والی یعنی دایہ (مقرر ہوگئی) ہے (جو اس کو دودھ پلانے کے زمانہ کو پورا کرے گی۔ (بخاری) تشریح بعض شارحین نے دودھ پلائے جانے سے یہ مراد لیا ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کی تمام نعمتیں مہیا کردی ہیں اور وہ بہشت میں مزے لوٹ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے جب کسی لفظ کے حقیقی معنی امکان وقوع رکھتے ہوں تو اس کے مجازی معنی مراد لینا جائز بھی نہیں ہے۔ لفظ مرضعا زیادہ تر نسخوں میں م کے پیش اور ض کے زبر کے ساتھ منقول ہے جس کے معنی دایہ کے ہیں اور ایک صحیح نسخہ میں م اور ض دونوں کے زبر کے ساتھ ہے جس کا لفظی ترجمہ دودھ پلانے کی جگہ ہے اس صورت میں مرضعا فی الجنۃ کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی شیر خوارگی کی مدت پوری ہونے کی جگہ جنت میں ہے ویسے مرضعا کو مصدر یعنی دودھ پلانا بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ حدیث ظاہرا اس بات کی دلیل ہے کہ پاک نفس وپاکباز لوگ مرنے کے بعد اسی وقت جنت میں پہنچادئیے جاتے ہیں اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ موعودہ جنت وجود میں آچکی ہے اور موجود ہے

【5】

حضرت فاطمہ کی فضیلت

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کی بیویاں (آپ کے مرض الموت سے کچھ ہی پہلے ایام مرض الموت کے دوران ایک دن) آپ ﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ فاطمہ آئیں۔ ان کی چال کی وضع اور ہیت رسول کریم ﷺ کی چال کی وضع اور ہیت رسول ﷺ کی چال کی واضع اور ہیت سے (ذرا بھی) مختلف نہیں تھی (یعنی آنحضرت ﷺ کے چلنے کا انداز اس قد ر یکساں تھا کہ کوئی بھی ان دونوں کی چال میں امیتاز نہیں کرسکتا تھا) بہرحال آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ کو (آتے) دیکھا تو فرمایا میری بیٹی مرحبا پھر آپ ﷺ نے ان کو (اپنے پاس) بٹھا لیا اور چپکے چپکے ان سے باتیں کیں، اتنے میں فاطمہ رونے لگیں اور زور زور سے رزئیں۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ فاطمہ بہت رنجیدہ ہوگئی ہیں تو پھر ان سے سرگوشی کرنے لگے اور فاطمہ اکدم کھلکھلا کر ہنس دیں پھر جب رسول اللہ ﷺ (استنجاء وغیرہ کے لئے یا نماز پڑھنے کے لئے وہاں سے) اٹھکر چلے گئے تو میں نے فاطمہ سے پوچھا کہ تم سے آنحضرت ﷺ سے چپکے چپکے کیا باتیں کررہے تھے ؟ فاطمہ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کا راز افشاء کرنے والی نہیں ہوں (اس وقت تو میں خاموش ہوگئی لیکن) جب آنحضرت ﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا تو (ایک دن) میں نے فاطمہ سے کہا کہ (ایک ماں ہونے کی حیثیت سے یا دینی اخوت اور باہمی محبت وتعلق رکھنے کے اعتبار سے) تم پر میرا جو حق ہے اس کا واسطہ اور قسم دے کر کہنا چاہتی ہوں کہ میں تم سے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگتی کہ مجھ کو اس سرگوشی کے بارے میں بتادو جو ( اس دن) آنحضرت ﷺ نے تم سے کی تھی فاطمہ بولیں ہاں اب (جب نبی کریم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں اس راز کو ظاہر کرنے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتے ہوئے) میں بتاتی ہوں کہ آنحضرت ﷺ نے جو پہلی بار مجھ سے سرگوشی کی تھی تو اس میں مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ جبرائیل (علیہ السلام) مجھ سے سال بھر میں ایک مرتبہ (یعنی رمضان میں) قرآن کا دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال (رمضان میں) انہوں نے مجھ سے دو بار دور کیا اور اس کا مطلب میں نے یہ نکالا ہے کہ میری موت کا وقت قریب آگیا ہے، پس (اے فاطمہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتی رہنا (یعنی تقویٰ پر قائم رہنا یا یہ کہ جہاں تک ہو سکے زیادہ تقوی اور پرہیز گاری اختیار کرنا) اور (اللہ کی اطاعت و عبادت میں مشغول رہنے اور معصیت سے بچنے کے لئے جو بھی تکلیف اور مشقتیں اٹھا نا پڑیں اور جو بھی آفت وحادثہ پیش آئے خصوصا میری موت کے سانحہ پر) صبر کرنا، بلاشبہ میں تمہارے لئے بالخصوص) بہترین پیش روہوں (یہ تو وہ بات تھی جس کو سن کر اور آنحضرت ﷺ کی جدائی کا احساس کرکے) میں رونے لگی تھی اور پھر جب آپ ﷺ نے مجھ کو زیادہ مضطرب اور بےصبر پایا تو دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور اس وقت یوں فرمایا اے فاطمہ ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم جنت میں (تمام) عورتوں یا (خاص طور پر اس امت کی عورتوں کی سردار بنائی جاؤ (یہ سن کر میں ہنسنے لگی تھی) اور ایک روایت میں حضرت فاطمہ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ جب آپ ﷺ نے (پہلی مرتبہ) مجھ سے سرگوشی کی تو اس میں یہ فرمایا تھا کہ آپ ﷺ اس بیماری میں وفات پاجائیں گے اور (یہ سن کر) میں رونے لگی تھی، (دوسری مرتبہ) آپ ﷺ نے مجھ سے سرگوشی کی اس میں مجھ کو یہ بتایا تھا کہ آپ ﷺ کے اہل بیت میں سب سے پہلے میں ہی آپ ﷺ سے جا کر ملوں گی (یعنی یہ تسلی دی تھی کہ مضطرب نہ ہوٍ ، میری وفات کے بعد بہت جلد تم بھی اس دنیا سے رخصت ہو کر میرے پاس آجاؤ گی) چناچہ (یہ سن کر) میں ہنسنے لگی تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح راز میں افشا کرنے والی نہیں ہوں یعنی جس بات کو آنحضرت ﷺ نے چھپایا اس کو میں کیسے ظاہر کردوں کیونکہ اگر آپ ﷺ کے نزدیک اس بات کا اظہار مناسب ہوتا تو مجھ کو چپکے چپکے نہ فرماتے بلکہ سب کے سامنے اونچی آواز میں فرماتے اس سے معلوم ہوا کہ اپنے بڑوں، عزیزوں اور دوستوں کا راز دوسروں سے چھپانا مستحب ہے۔ دوبار دور کیا) یعنی سال بھر میں جتنا قرآن نازل ہوتا تھا اس سب کا دور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رمضان میں آنحضرت ﷺ سے کرتے تھے تاکہ اول تو آپ ﷺ کے ذہن میں قرآن ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کے ساتھ پوری طرح محفوظ رہے اور دوسرے یہ ظاہر ہوجایا کرے کہ کون سی آیت ناسخ ہو کر نازل ہوئی ہے اور کون سی آیت منسوخ ہوگئی ہے حدیث کے اس اجزاء سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ قرآن کا دور (یعنی دو حافظوں کا ایک دوسرے کو قرآن حفظ سنانا مستحب ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ حدیث آنحضرت ﷺ کی عمر کے آخری رمضان کے بعد ارشاد ہوئی تھی۔ اس کا مطلب میں نے نکالا ہے یعنی ! جبرائیل (علیہ السلام) نے اس سال معمول کے خلاف جو دو بار دور کیا ہے وہ اس بات کی آگاہی ہے کہ قرآن کی صورت میں نزول ہدایت کا سلسلہ پایہ اتمام کو پہنچ گیا ہے اور تکمیل دین کی سرفرازی ونعمت عطا ہوگئی ہے۔ لہٰذا اب قرآن کو ذہن میں پوری طرح محفوظ کرلینا چاہئے اور اس کے احکام خوب یاد کرلینے چاہیئں۔ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو یعنی یہ بات جان کر کہ میں اس دنیا سے جلد ہی رخصت ہونے والا ہوں تمہیں تنگ دل اور مضطرب نہیں رہنا چاہئے، اللہ کے حکم اور فیصلہ پر راضی رہو اور اس بات پر اس کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں اتنا بڑا رتبہ اور اعزاز عطا کیا ہے۔

【6】

فاطمہ زہرا کی افضیلت

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت فاطمہ تمام عورتوں سے افضل ہیں یہاں تک حضرت مریم (علیہ السلام) حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ پر بھی ان کو خاص شخصیت حاصل ہے، چناچہ سیوطی نے یہی لکھا ہے رہی اس حدیث کی بات جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فاطمہ زہرا) حضرت مریم بن عمران (علیہ السلام) کے علاوہ باقی تمام عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں یا ایک وہ حدیث ہے کہ جس میں فرمایا گیا ہے کہ اس امت میں فاطمہ کا وہی مرتبہ ہے جو مریم (علیہ السلام) کو اپنی قوم میں حاصل ہے یعنی جس طرح حضرت مریم (علیہ السلام) اپنی قوم کی تمام عورتوں سے افضل ہیں اسی طرح اس امت کی تمام عورتوں میں سب سے افضل فاطمہ ہیں توروایتوں کا اختلاف شاید اس سبب سے نظر آتا ہے کہ حضرت فاطمہ کا رتبہ تدریجی طور پر بڑھتا رہا ہوگا اور اسی تدریج کے ساتھ ان کی افضلیت کی اطلاع اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی اور اس کے فرشتہ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کو ملتی رہی ہوگی جس کا اظہار مختلف احادیث کے ذریعہ ہوتا رہا اور پھر جب آخر میں حضرت فاطمہ کا رتبہ آخری درجہ تک بڑھ گیا تو بلا استثناء عالم کی تمام عورتوں پر ان کی افضلیت ثابت ہوگئی بعض علماء نے حضرت عائشہ کو حضرت فاطمہ سے افضل قرار دیا ہے اور دلیل میں یہ بات پیش کی ہے کہ جنت میں حضرت عائشہ تو آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہوں گی جب کہ حضرت فاطمہ، حضرت علی کے ساتھ ہوں گی اور یہ ظاہر ہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا درجہ اور محل حضرت علی کے درجہ اور محل سے اعلی و اشرف ہوگا۔ لیکن یہ دلیل ان حدیثوں کے سامنے بےمعنی ہوجاتی ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ کو خطاب کرکے فرمایا میں تم، علی، حسن اور حسین جنت میں ایک درجہ اور ایک ہی محل میں ہوں گے۔ حضرت عائشہ کی افضلیت کے قائلیں کی طرف سے ایک دلیل یہ بھی دیجاتی ہے کہ ان کو اجتہاد کا مقام حاصل تھا، مجتہد تسلیم کی جاتی تھیں اور خلفاء اربعہ کے زمانہ میں فتوی دیا کرتی تھیں سیوطی نے فتاوی میں لکھا ہے کہ ! اس مسئلہ میں (فاطمہ افضل ہیں یا عائشہ) تین مسلک ہیں اور ان تینوں مسلکوں میں سب سے صحیح مسلک یہ ہے کہ فاطمہ عائشہ سے افضل ہیں۔ بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ فاطمہ اور عائشہ دونوں کا رتبہ یکساں ہے جب کہ کچھ حضرات اس بارے میں خاموش رہنے ہی کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں ان میں بعض حنفی اور بعض شافعی علماء خصوصیت سے اس طرف مائل ہیں حضرت امام مالک کے متعلق منقول ہے کہ جس ان سے پوچھا گیا کہ آپ حضرت فاطمہ کو افضل سمجھتے ہیں یا حضرت عائشہ کو ؟ تو انہوں نے جواب دیا فاطمہ پیغمبر کے گوشت کا ٹکڑا ہیں اور میں رسول اللہ ﷺ کے گوشت کے ٹکڑے پر کسی کو فضیلت نہیں دیتا امام سبکی نے لکھا ہے کہ ! ہمارے نزدیک اور ہمارے مسلک کے اعتبار سے جو بات زیادہ معتبر اور زیادہ صحیح ہے وہ یہ ہے کہ سب سے افضل حضرت فاطمہ ہیں، ان کے بعد ان کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ اور ان کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ ویسے حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ کے بارے میں بھی علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ بعض نے حضرت خدیجہ کو افضل کہا ہے اور بعض نے حضرت عائشہ کو بہرحال ان مذکورہ جلیل القدر خواتین اسلام کی الگ الگ حیثیتیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک اس کی اپنی حیثیت وخصوصیت کے اعتبار سے فضیلت و برتری حاصل ہے، تاہم بعض حضرات نے کثرت ثواب کو افضلیت کی بنیاد بنایا ہے جس کا علماء کے ہاں اعتبار بھی ہے اور اس حیثیت سے حضرت فاطمہ چاہے سب سے افضل نہ ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ شرف ذات پاگیزگی طینت اور تقدس جوہر کے اعتبار سے کوئی بھی حضرت فاطمہ، حضرت حسن، افضل و برتر نہیں ہوسکتا۔

【7】

فاطمہ زہرا

حضرت فاطمہ زہرا، ام المؤمنین حضرت خدیجہ کے بطن سے رسول اللہ ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں تمام عالم کی عورتوں کی سردار ہیں ٢ ھ کے رمضان میں حضرت علی (رض) سے ان کا نکاح ہوا اور ذی الحجہ میں رخصت ہو کر حضرت علی کے گھر میں آئیں ان کے بطن سے حسن، حسین، زینب، ام کلثوم اور رقیہ پیدا ہوئیں، آنحضرت ﷺ کے وصال کے چھ ماہ بعد یا ایک قول کے مطابق تین ماہ بعد مدینہ میں حضرت فاطمہ کا انتقال ہوا اور اس وقت ان کی عمر اٹھائیس سال کی تھی۔ حضرت علی نے غسل دیا اور نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت فاطمہ سے جن حضرات نے احادیث روایت کی ہیں ان میں حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین اور دوسرے بہت سے لوگ شامل ہیں حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں میں نے فاطمہ سے زیادہ صادق القول ان کے باپ (رسول اللہ ﷺ کے علاوہ اور کسی کی نہیں دیکھا۔

【8】

جس نے فاطمہ کو خفا کیا اس نے مجھ کو خفا کیا

اور حضرت مسور ابن مخرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو خفا کیا اس نے مجھے خفا کیا اور ایک روایت میں یہ لفظ (بھی) ہیں جو چیز فاطمہ کو بری معلوم ہوتی ہے وہ مجھ کو بھی بری معلوم ہوتی ہے اور جو چیز فاطمہ کو دیکھ دیتی ہے وہ مجھ کو بھی دکھ دیتی ہے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح اس نے مجھ کو خفا کیا یعنی فاطمہ چونکہ میرے گوشت پوست کا ایک حصہ ہے اور اس اعتبار سے میرے اور اس کے درمیان جو یگانگت اور یک پن ہے اس کی بناء پر فاطمہ کو خفا کرنا، یا فاطمہ کو دکھ پہنچانا گویا مجھ کو خفا کرنا اور دکھ پہنچانا ہے۔ پس اس ارشاد گرامی میں دراصل اس طرح کی بلیغ تشبیہ ہے اور اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ بعض علماء کا اس حدیث سے یہ استدلال کرنا ناموزوں ہے کہ جس نے فاطمہ کو برا کہا وہ کافر ہوگیا، کیونک اس طرح کی احادیث کا اصل محمول کمال اتحاد و اختلاط اور نہایت تعلق کا اظہار ہے چناچہ اسی قبیل سے وہ روایت بھی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے کسی مسلمان کو دکھ دیا اس نے گویا مجھ کو دکھ دیا اور جس نے مجھ کو دکھ دیا اس نے (گویا) اللہ تعالیٰ کو دکھ پہنچایا وہ روایت کہ جس میں آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے انصار کو عزیز و محبوب رکھا اس نے اللہ تعالیٰ کو عزیز و محبوب رکھا اور جس شخص نے انصار سے دشمنی رکھی اس نے اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھی۔ اسی طرح آپ کا یہ ارشاد گرامی کہ قریش کو دوست رکھنا ایمان ہے اور ان سے دشمنی رکھنا کفر ہے نیز عربوں کو دوست رکھنا ایمان ہے اور ان سے دشمنی رکھنا کفر ہے، جس شخص نے عربوں کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس شخص نے عربوں سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔ وہ مجھ کو دکھ دیتی ہے بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ابوجہل کے بھائی حارث بن ہشام نے چاہا تھا کہ ابوجہل کی بیٹی غورا کا نکاح حضرت علی (رض) سے کردے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ خود حضرت علی کی خواہش تھی کہ غوراء سے نکاح کریں بہرحال جب اس بارے میں آنحضرت ﷺ سے طلب اجازت کا مرحلہ آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس بات کی اجازت کبھی نہیں دوں گا اور پھر یہ حدیث ارشاد فرمائی، نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار نہیں دیتا لیکن یہ ضرور ہے کہ اللہ کی دوست کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ہرگز یکجا نہیں ہوسکتیں۔ حضرت علی نے آنحضرت ﷺ کے یہ سخت تاثرات سنے تو فورا خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اظہار معذرت کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میں وہ کام کبھی نہیں کروں گا جو آپ ﷺ کو پسند نہ ہو۔ واضح ہو کہ حضرت مسور کی یہ حدیث مختلف طرق سے منقول ہے، چناچہ ایک روایت میں اس حدیث کو اس طرح نقل کیا گیا ہے حضرت مسور کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر کھڑے ہوئے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہشام ابن مغیرہ کے بیٹے حارث مجھ سے اس بات کی منظوری چاہتے تھے کہ ابوجہل کی بیٹی کا نکاح علی ابن طالب سے کردیں لیکن میں اس بات کو منظور نہیں کرتا اور مکرر کہتا ہے ہوں کہ میں منظور نہیں کروں گا ہاں اگر ابن ابی طالب نے ارادہ ہی کرلیا ہے تو وہ میری بیٹی کو طلاق دیدیں اور ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرلیں۔ فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو خفا کیا اس نے مجھے خفا کیا۔

【9】

فاطمہ کی موجودگی میں علی کو کسی اور عورت سے نکاح کی ممانعت

شرح مسلم میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کوئی ایسا کام کرنا جس سے نبی کریم ﷺ کو دکھ پہنچے بہر صورت حرام ہے اگرچہ وہ کام مباح ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے ہے آنحضرت ﷺ حضرت علی کو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کی جو اجازت نہیں دی تو اس کی دو وجہیں تھیں، ایک تو یہ کہ اس نکاح سے حضرت فاطمہ کو خفگی ہوتی اور ایک طرح سے ان کو دکھ پہنچتا اور حضرت فاطمہ کے دکھی ہونے سے آنحضرت ﷺ کی دکھ ہوتا اور یہ بات حضرت علی کے لئے تباہی کا باعث بنتی لہٰذا خود حضرت علی کے حق میں خیرخواہی اور آنحضرت ﷺ کی شفقت کا تقاضا یہی تھا کہ ان کو اس نکاح سے باز رکھا جائے دوسری وجہ آنحضرت ﷺ کا یہ خوف تھا کہ اس نکاح سے حضرت فاطمہ کی غیرت وحمیت کے منافی ہونے کے سبب کہیں وہ سخت آزمائش اور ابتلاء سے دوچار نہ ہوجائیں۔ بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ میں اس بات کو منظور نہیں کرتا سے آنحضرت ﷺ کی مراد یہ نہیں تھی کہ حضرت فاطمہ کی موجودگی میں کسی اور عورت سے نکاح کرنا علی کے لئے ممنوع ہے بلکہ ان الفاظ کے ذریعہ دراصل آپ ﷺ نے اس بات کا اعلان کیا کہ قضاء وقدر الہٰی یوں ہے کہ علی کے نکاح میں فاطمہ اور بنت اور ابوجہل ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ لیکن دوسری روایتوں اور اقوال سے اس قول کی تائید نہیں ہوتی مثلا یحییٰ بن سعید بن القطان سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا میں نے عبداللہ بن داؤد سے آنحضرت ﷺ کے ان الفاظ میں اس بات کو منظور نہیں کرتا ہاں اگر ابن ابی طالب نے ارادہ کر ہی لیا ہے تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرلیں کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علی پر حرام تھا کہ وہ فاطمہ کی زندگی میں ان کے ساتھ کسی اور عورت کو اپنے نکاح میں رکھنی اور یہ حرمت قرآن کی آیات وما اتٰکم فخذوہ ومانہکم عنہ فانتہوا (اے اہل ایمان ! رسول اللہ ﷺ جو کچھ تمہیں دیں اس کو قبول کرو اور جس بات سے تم کو منع کریں اس سے باز رہو) سے ثابت ہوتی ہے۔ جب آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں منظور نہیں کرتا تو علی کے لئے حلال اور جائز نہیں رہا تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی اجازت اور منظوری کے علی الرغم فاطمہ کی موجودگی میں کسی اور عورت سے نکاح کریں۔ اسی طرح یحییٰ ابن سعید سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے کہا میں نے عمربن داؤد سے سنا، وہ کہتے تھے کہ جب آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جو چیز فاطمہ کو بری معلوم ہوتی ہے وہ مجھ کو بھی بری معلوم ہوتی ہے اور جو چیزفاطمہ کو دکھ دیتی ہے وہ مجھ کو بھی دکھ دیتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت علی پر حرام ہوگیا تھا کہ وہ فاطمہ کی موجود گی میں کسی اور عورت سے نکاح کرکے آنحضرت ﷺ کو دکھ پہنچائیں جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے ماکان لکم ان توذوا رسول اللہ ﷺ ( تمہارے لئے قطعی روا نہیں کہ رسول اللہ کو دکھ پہنچاؤ) یحییٰ بن سعید کی ان دونوں روایتوں کی حافظ اور ابوالقاسم دمشقی نے نقل کیا ہے۔ ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو چیز فاطمہ کو دل گرفتہ بناتی ہے وہ مجھ کو بھی دل گرفتہ کردیتی ہے اور جو چیز فاطمہ کو شگفتہ دل بناتی ہے شگفتہ دل کردیتی ہے۔ جان لو قیامت کے دن نسبی رشتے کٹ جائیں گے صرف میرا نسبی اور سسرالی رشتہ باقی رہے گا ایک اور روایت میں، جو حضرت ابوایوب سے منقول ہے، یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن (ایک مرحلہ پر) عرش میں سے ایک آواز آوے گی جیسے منادی کرنے والا منادی کررہا ہے۔ یا اہل الجمع نکسوارء وسکم وغضوا ابصارکم حتی مرت فاطمۃ بنت محمد علی الصراط۔ اے اہل محشر ! اپنے سرجھکالو اور اپنی آنکھیں بند کرلو تاآنکہ محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ پل صراط پر سے گزر جائیں، اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا فتمرمع سبعین الف جارئۃ من الحورالعین کمر البرق۔ پس فاطمہ ستر ہزار حورمین باندیوں کے جلو میں پل صراط پر سے اس طرح گزر جائے گی جیسے بجلی گزر جاتی ہے۔ روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ سفر پر روانہ ہوتے تو سب سے رخصت ہونے کے بعد آخر میں حضرت فاطمہ سے ملنے کو آتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لاتے۔

【10】

ایک وضاحت

یہاں یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو حضرت علی کو حضرت فاطمہ کی خفگی کے پیش نظر دوسرا نکاح کرنے سے منع کیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی کی بیوی اپنے خاوند کے دوسرے نکاح کرنے سے ناراض اور خفا ہو تو وہ دوسرا نکاح نہ کرے یہ صرف آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے ہے یعنی معاملہ کی اس مخصوص نوعیت کے پیش نظر کہ آنحضرت ﷺ کو دکھ نہ پہنچے حضرت علی کے حق میں ممنوع تھا جیسا کہ بعض روایتوں سے واضح ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں نہ کوئی عورت حضرت فاطمہ کے برابر ہے اور نہ کسی عورت کا باپ حضرت فاطمہ کے باپ سرور کائنات کے برابر ہوسکتا ہے کہ جس کی ناراضگی کے سبب دوسرا نکاح کرنا کسی کا جائز نہ ہو۔ پس نکاح ثانی کا جو جواز قرآن کریم کی اس آیت ( فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَا ءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ) 4 ۔ النساء 3) عورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چار چار عورتوں سے) ثابت ہے وہ اپنی جگہ سب سے بڑی دلیل ہے اور یہ عمومی جو از حدیث بالا میں مذکور مخصوص اور منفرد نوعیت سے متاثر نہیں ہوگا

【11】

اس عذاب سے ڈور جو اہل بیت کے حقوق کی کوتاہی کے سبب ہوگا

اور حضرت زید ابن ارقم کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ایک دن مکہ و مدینہ کے درمیان پانی والے مقام پر کہ جس کو خم کہا جاتا تھا خطاب عام کے لئے ہمارے سامنے کھڑے ہوئے پہلے اللہ کی حمد وثنا کی، پھر لوگوں کو (اچھی باتوں اور اچھے اعمال کی) نصیحت فرمائی، ان کو اللہ کا ثواب و عذاب یاد دلایا (اور غفلت و کوتاہی کے خلاف خبردار کیا اور پھر فرمایا بعد ازاں۔ اے لوگو ! آگاہ ہو، میں تمہارے ہی مانند ایک انسان ہوں (اس امتیاز کے ساتھ کہ اللہ نے تمہاری ہدایت کے لئے مجھ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا اور مجھ پر وحی آتی ہے) وہ وقت قریب ہے جب پروردگار کا فرستادہ (یعنی ملک الموت عزرائیل (علیہ السلام) مجھ کو اس دنیا سے لے جانے کے لئے یا تو تنہایا جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ) آئے اور میں اپنے پروردگار کا حکم قبول کروں میں تمہارے درمیان دو عظیم بانفیس چیزیں چھوڑ جاؤں گا، جن میں سے ایک کتاب اللہ ہے جس میں ہدایت (یعنی دین ودنیا کی فلاح و کامیابی تک لیجانے والی راہ راست کا بیان) اور نور ہے پس تم کتاب اللہ کو مضبوط پکڑ لو (یعنی اپنے مسائل کا حل اسی کی روشنی میں ڈھونڈو اسی کو اپنا رہنما اور مستدل بناؤ، اس کو یاد کرکے اپنے سینوں میں محفوظ کرو اور اس کے علوم و معارف کو حاصل کرو) غرض کہ آپ ﷺ نے لوگوں کو کتاب اللہ تئیں خوب جوش دلایا اور اس کی طرف راغب کیا، پھر فرمایا اور (ان دو عظیم چیزوں میں سے دوسری چیز) میرے اہل بیت ہیں میں تمہیں اللہ کا وہ عذاب یاد دلاتا ہوں جو میرے اہل بیت کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی اور تقصیر کے سبب ہوگا میں (دوبارہ) تمہیں اللہ کا عذاب یاد دلاتا ہوں جو میرے اہل بیت کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کے سبب ہوگا اور ایک روایت میں (جن میں سے ایک کتاب اللہ ہے کی جگہ) یہ الفاظ ہیں کتاب اللہ، اللہ کی رسی ہے، جو شخص کتاب اللہ کی اطاعت کرے گا (یعنی اس پر ایمان لائے گا اس کو، یاد کرے گا، اخلاص کے ساتھ اس کا علم حاصل کرے گا اور اس پر عمل پیرا رہے گا تو وہ راست پر رہے گا اور جو شخص اس کو چھوڑ دے گا (یعنی نہ تو اس پر ایمان لائے گا، نہ اس کو یاد کرے گا، نہ اس کے علم وعمل میں مخلص ہوگا) تو وہ گمراہ رہے گا۔ (مسلم ) تشریح خم مکہ اور مدینہ کے درمیان حجفہ کے قریب ایک مشہور جگہ کا نام ہے جس کو غدیر خم بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل غدیر پانی کے حوض کو کہتے ہیں اور اس جگہ کسی حوض یا تلاب کی شکل میں پانی موجود رہا ہوگا، اس مناسبت سے اس جگہ کو غدیر خم کہا جانے لگا جیسا کہ حضرت علی کے مناقب کے بیان مینگزر چکا ہے، خطاب عام کی یہ صورت اس وقت پیش آئی تھی جب آپ ﷺ حجۃ الوداع سے فارغ ہو کر مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹ رہے تھے اور غدیر خم پر پڑاؤ ڈالا گیا تھا۔ اور میں اپنے پروردگار کا حکم قبول کروں یہ اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ اس دنیا سے آپ ﷺ کی رخصت کا وقت قریب آچکا ہے، چناچہ یہ بات آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے سفر واپسی کے دوران آخر ماہ ذی الحجۃ ١٠ ھ میں فرمائی تھی اور تقریبا تین ماہ بعد ربیع الاول ١١ ھ میں آپ ﷺ کا وصال ہوا۔ دو عظیم یا نفیس چیزیں یہ ثقلین کا ترجمہ ہے۔ ثقل (ث کے زیر کے ساتھ) کے معنی تو بھاری اور بوجھ کے ہیں اور ثقل (ث وق) کے زبر کے ساتھ) مسافر کے سامان اور حشم وخدم اور کسی بھی اعلی ونفیس چیز کو کہتے ہیں یہاں حدیث میں اس لفظ کے یہی معنی نفیس مراد ہیں۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ ثقلین سے دو عظیم چیزیں مراد ہیں اور کتاب اللہ اور اہل بیت کو دو عظیم چیزیں یا تو ان کے عظیم المرتبت ہونے کے اعتبار سے فرمایا گیا یا اس سبب سے کہا گیا کہ ان پر عمل کرنا مشکل اور بھاری ہے، ہر شخص ان کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا جن وانس کو بھی ثقلین اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کے بوجھ میں یعنی جس طرح جانور کی پشت پر بوجھ لادتے ہیں اسی طرح زمین نے ان دونوں (جن وانس کا بوجھ اپنی پشت پر اٹھا رکھا ہے بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ دونوں یعنی کتاب اللہ اور اہل بیت دین کی متاع ہیں کہ ان کے ذریعہ دین کی اصلاح، درستی اور آبادی ہوتی ہے جیسے ثقلین یعنی جن وانس زمین کی متاع ہیں کہ انہی سے دنیا کی آبادی ہے۔ جس میں ہدایت اور نور ہے یعنی کتاب اللہ میں ان احکام و اعمال کا بیان ہے جن سے راہ حق روشن ہوتی ہے اور جو طالب کو منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں اور اس کے علم وعرفان میں وہ نور حق ہے جو ذہن وفکر کی استقامت و سلامتی کا ذریعہ بنتا ہے اور یہی نور قیامت کے دن رہنمابنے گا واضح رہے کہ نور قرآن کا ایک نام بھی ہے۔ کتاب اللہ کو مضبوط پکڑ لو یعنی اپنے فکر ونظر، اعتقاد وانقیاد اور عمل و کردار کی بنیاد کتاب اللہ کو قرار دو ، اسی میں عقیدہ و یقین رکھو اور اسی پر عمل کرو یہ بات ذہن نشین رہے کہ احادیث رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنا بھی منجملہ کتاب اللہ ہے، کیونکہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے ما اتکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا۔ (اے اہل ایمان ! رسول جو کچھ تمہیں دیں اس کو قبول کرو اور جس بات سے تمہیں منع کریں اس سے بازرہو) اور فرمایا ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ (او رجس شخص نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی) اور فرمایا قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۔ (آپ فرمادیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے) ایک روایت میں یہاں حدیث کا یہ فقرہ یوں نقل کیا گیا ہے فتمسکوا بکتاب اللہ وخذوا (پس کتاب اللہ کو مضبوط پکڑ لو اور اس کو اختیار کرو) خوب جوش دلایا یعنی حاضرین کو اس امر کی جانب بہت تاکید اور شد ومد کے ساتھ متوجہ کیا کہ کتاب اللہ پڑھنے) اس کو حفظ کرنے، اس کے الفاظ ومعانی کے آداب وقواعد کی رعایت ملحوظ رکھنے اور جو احکام و مضامین اس میں ہیں ان پر عمل کرنے میں ذرا غفلت و کوتاہی نہ کی جائے۔ راغب کیا یعنی آپ ﷺ نے کتاب اللہ کی طرف راغب کرنے والی باتوں کا ذکر کیا جو شخص اللہ کی کتاب کو مضبوط پکڑے رہے گا اور اپنی تمام تر فکری اعتقادی اور عملی زندگی کا محور اسی کو بنائے رہے گا اس کو دین ودنیا کی فلاح و کامرانی حاصل ہوگی اور اس کو بلند تر مراتب و درجات حاصل ہونگے یہاں اگرچہ یہ احتمال بھی ہے کہ آپ ﷺ نے راغب کرنے والی اور بشارت دینے والی باتوں کے ساتھ اس عذاب سے ڈرانے والی باتیں بھی ذکر کی ہوں جو کتاب اللہ کے احکام پر عمل نہ کرنے والوں کو ہوگا تاہم یہ ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے صرف بشارت دینے والی باتوں پر اکتفا کرکے وسعت رحمت باری، اپنی شان رحمۃ اللعالمین اور اپنی امت کے امت مرحومہ ہونے کی طرف اشارہ کیا ہو۔ میں (دوبارہ) تمہیں اللہ کا وہ عذاب یاددلاتا ہوں یہ جملہ آپ ﷺ نے تاکید اور زیادہ سے زیادہ اہمیت ظاہر کرنے کے لئے دو مرتبہ ارشاد فرمایا تاہم یہ بات بھی بعید ازامکان نہیں ہے کہ ایک بار کے جملہ، اہل بیت، سے مراد اولاد ہو اور دوسری باری کے جملہ میں ازواج مطہرات مراد ہوں، چناچہ پہلے بیان بھی کیا جا چکا ہے کہ اہل بیت کا اطلاق اولاد اور ازواج دونوں پر ہوتا ہے ایک روایت میں یہاں قال ثلاث مرات کے الفاظ ہیں، یعنی آپ ﷺ نے یہ جملہ تین بار ارشاد فرمایا۔ کتاب اللہ اللہ کی رسی ہے حبل کے لغوی معنی رسی کے ہیں اور اس سے مراد ہے عہد امان اور وہ چیز جو بندہ کو اس کے رب کی طرف لے جائے اور اس کے قرب ورضا کا وسیلہ ہو مطلب یہ کہ قرآن بندہ کی فلاح و کامیابی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے عہد و اقرار ہے، اس کے عذاب سے امان ہے اور اس کے قرب کا وسیلہ ہے اس کو مضبوط پکڑنے والا عذاب سے محفوظ ہوجاتا ہے، قرب الٰہی کی سرفرازی پاتا ہے اور اخروی فلاح اور کامرانیوں کے بلند درجات تک پہنچتا ہے اس کے برخلاف جو شخص اپنی اعتقادی وعملی زندگی کا محور نہیں پاتا پس قرآن کریم دونوں اعتبار سے رسی کی مانند ہے، کہ ہدایت چاہنے والے کو ترقی درجات تک پہنچاتا ہے اور سرکشی کرنے والے کو محرومیوں اور نامرادیوں کی نچلی سطح تک گرا دیتا ہے یضل بہ کثیرا ویہدی بہ کثیرا۔ چناچہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ القرآن حجۃ لک اوعلیک یعنی قرآن شریف یا تو تیری سند ہے (تجھ کو نجات (دلائے گا) یا تیرے مقابلہ میں سند بنے گا (تجھ کو عذاب میں گرفتار کرائے گا۔ اور خود باری تعالیٰ فرماتا ہے۔ وننزل من القران ماہو شفاء ورحمۃ للمؤمنین ولا یزید الظٰمین الا خسارا ( اور ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں کہ وہ ایمان والوں کے حق میں تو شفاء ورحمت ہے اور ناانصافوں کو اس سے اور الٹا نقصان بڑھتا ہے )

【12】

حضرت جعفر کا لقب

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ (یعنی ابن عمر) جب حضرت جعفربن ابی طالب کے صاحبزادے عبداللہ کو سلام کرتے تو یوں کہتے اے دو بازوؤں والے کے بیٹے تجھ پر سلامتی ہو۔ (بخاری) تشریح دو بازوؤں والے یہ ذوالجناحین کا ترجمہ اور ذالجناحین حضرت جعفر طیار کا لقب تھا جو ابوطالب کے بیٹے اور آنحضرت ﷺ کے چچازاد بھائی ہیں۔ حضرت جعفر جنگ موتہ (٨ ھ) میں نہایت بہادری اور پامردی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے، یہ جنگ عیسائیوں کے خلاف مسلمانوں کے پہلی جنگ تھی جو شام کے علاقہ (موتہ) میں ہوئی تھی اور قیصر روم کا لشکر جرار مقابلہ پر تھا، اس جنگ کے دوران ایک دن آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں اپنی نگاہ اعجاز سے دیکھا کہ جعفر کو دس بازو عطاکئے گئے ہیں جن کے ذریعہ فرشتوں کے ساتھ اڑتے پھر رہے میں آنحضرت ﷺ سخت حیران ہوئے کہ اس نظارہ کا کیا مطلب ہے اور پھر جب ان کی شہادت کی خبر مدینہ پہنچی تو عقدہ کھلا، چناچہ اس دن سے ان کو (جعفر طیار کہا جانے لگا اور ذوالجناحین کا لقب دیا گیا۔ اور ایک روایت میں یوں بھی آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں نے جعفر کو جنت کو فضاؤں میں فرشتوں کے ساتھ اڑتے دیکھا ہے۔ چناچہ اس دن سے وہ ذوالجناحین اور طیار کے لقب سے موسوم ہوگئے۔ حضرت جعفر طیار قدیم الا سلام ہیں، ان سے پہلے صرف اکتیس آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت جعفر اپنے بھائی حضرت علی بن ابی طالب سے دس سال بڑے تھے اور خلقا وخلقا آنحضرت ﷺ سے بہت مشابہ تھے ٨ ھ میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے، اس وقت ان کی عمر اکتالیس سال کی تھی۔ پورے بدن پر تیر اور تلواروں کے نوے زخم آئے تھے حضرت جعفر طیار سے احادیث روایت کرنے والوں میں دوسرے صحابہ کے علاوہ ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بھی شامل ہیں۔

【13】

حسن کے لئے دعا

اور حضرت برائ کہتے ہیں کہ میں نے (ایک دن) نبی کریم ﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ حسن ابن علی آپ ﷺ کے کاندھے پر سوار تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے، اے اللہ ! میں اس سے (بہت) محبت رکھتا ہوں، تو بھی اس سے محبت رکھ۔ (بخاری ومسلم ) تشریح تو بھی اس سے محبت رکھ بلاشبہ آنحضرت ﷺ کی یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت حسن کو اپنا اور اور چہیتا بنایا بس جب اللہ نے اور اللہ کے رسول نے حضرت حسن کو محبوب رکھا تو ہر مسلمان کو لازم ہے کہ حسن کی محبت سے اپنے دل و دماغ کی دنیا معمور رکھے۔

【14】

حسن وحسین

حضرت حسن حضرت فاطمہ زہرائ کے بطن سے حضرت علی کے صاحبزادے اور رسول اللہ ﷺ کے نواسے، آپ ﷺ کیا آنکھوں کی ٹھنڈک اور آپ ﷺ کے آنگن پھول تھے۔ اور تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں حضرت حسن کی کنیت ابومحمد تھی۔ صحیح تر روایت کے مطابق سن تین ہجری کے ماہ رمضان کی پندرہ تاریخ کو پیدا ہوئے اور سن پچپن میں وفات ہوئی۔ بعض حضرات نے سن وفات ٥٨ ھ اور بعض نے ٤٩ ھ اور بعض ٤٤ ھ لکھا ہے بقیع میں دفن کئے گئے ان سے ایک بڑی جماعت کو شرف روایت حاصل ہے جس میں ان کے صاحبزادے حضرت حسن ابن حسن اور حضرت ابوہریرہ بھی شامل ہیں تاریخی روایت کے مطابق حضرت علی کی شہادت (رمضان ٤٠ ھ) کے بعد کوفہ میں جن لوگوں نے حضرت حسن کو خلیفہ بنایا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی ان تعداد چالیس ہزار تھی لیکن وہ امت کو افراق و انتشار سے بچانے کی خاطر چھ ماہ بعد ہی ١٥ جمادی الاول ٤١ ھ کو حضرت امیر معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے۔ سید الشہداء حضرت حسین کی کنیت ابوعبداللہ ہے، سن چار ہجری کے ماہ شعبان کی پانچ تاریخ کو پیدا ہوئے اپنے بڑے بھائی حضرت حسن سے صرف ١٠ ماہ ٣٠ دن چھوٹے تھے ١٠ محرم ٦١ ھ جمعہ کے دن کربلا (عراق) کی سر زمین پر یزید ابن معاویہ کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے ایک روایت تو یہ ہے کہ سنان ابن انس نخعی نے آپ کو شہید کیا جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ شمرذی الجوش نے شہید کیا اور آپ کی نعش مبارک اور آپ کے اہل بیت کو میدان کربلا سے عبداللہ ابن زیاد کے پاس خولی ابن یزید اصبحی لے کر آیا روایتوں میں آتا ہے کہ کربلا کے میدان میں حضرت حسین کے ساتھ آپ کی اولاد، آپ کے بھائیوں اور اہل بیت میں سے ٢٣ مردوں کو شہید کیا گیا شہادت کے دن حضرت حسین کی عمر اٹھاون سال کی تھی۔

【15】

حسن سے آنحضرت ﷺ کا تعلق خاطر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دن کے ایک حصہ میں باہر نکلا جب آپ ﷺ حضرت فاطمہ (رض) کے گھر میں پہنچے تو پوچھا کیا یہاں منا ہے کیا یہاں منا ہے آپ ﷺ کی مراد حضرت حسن (رض) سے تھی (جن کو ڈھونڈتے ہوئے آپ ﷺ آئے تھے) ابھی آپ نے چند ہی لمحے گزارے تھے کہ حسن دوڑتے ہوئے آئے، پھر حسن (رض) آنحضرت کے گلے سے اور آنحضرت ﷺ حسن کے گلے سے لپٹ گئے اور پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا خدایا ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی اس سے محبت رکھ اور اس شخص سے بھی محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے۔ بخاری ومسلم ) تشریح اس حدیث سے ایک تو معانقہ کا جائز ہونا ثابت ہوا، دوسرے جیسا کہ نووی نے لکھا ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ بچوں سے محبت و شفقت اور نرمی و مہربانی کا برتاؤ کرنا یعنی ان کے گلے لگانا، گود میں اٹھا لینا اور ان کو پیار کرنا مستحب ہے نیز بچوں اور اپنے چھوٹوں کے سامنے بھی انکساری و فروتنی اختیار کرنا اور ان کی خاطر داری کرنا مستحب ہے۔

【16】

امام حسن کی فضیلت

اور حضرت ابوبکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے) دیکھا کہ حسن بن علی (رض) آپ ﷺ کے (دائیں یا بائیں) پہلو میں تھے کبھی تو آپ ﷺ (وعظ و نصیحت میں تخاطب کے لئے) لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی (پیار و محبت بھری نظروں سے) حسن بن علی (رض) کی طرف دیکھنے لگتے اور فرماتے کہ یہ میرا بیٹا سید ہے امید رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ (بخاری ) تشریح سید کے معنی اس شخص کے ہیں جو نیکی میں فائق ہو اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ سید اس شخص کو کہتے ہیں جو غصہ سے مغلوب نہ ہوتا ہو یعنی حلیم الطبع ہو ویسے سید کا اطلاق کئی معنوں پر ہوتا ہے مثلا مربی، مالک، شریف، فاضل، کریم، حلیم، اپنی قوم کی ایذاء پر تحمل کرنے والا، رئیس، سردار اور پیشواء۔ دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا، یہ ارشاد نبوت دراصل ان واقعات و حالت کی سچی پیش گوئی تھا جو حضرت علی (رض) کی خلافت کے ظہور پذیر ہوئے۔ اس وقت ملت اسلامیہ کا بڑا حصہ واضح طور پر دو طبقوں میں بٹ گیا تھا ایک طبقہ حضرت امام حسن (رض) کی خلافت و امارت کا قائل تھا اور دوسرے طبقہ نے حضرت امیر معاویہ (رض) کی امارت و حکمرانی کو تسلیم کیا تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں خلافت و امارت کے سب سے بڑے حقدار حضرت حسن (رض) ہی تھے کیونکہ نہ صرف ذاتی، نسبی اور دینی عظمت و حشمت و بزرگی اور فضیلت و برتری ان کو حاصل تھی اور جس کی ایک بڑی دلیل یہی حدیث ہے کہ لسان نبوت نے ان کو سید فرمایا بلکہ ملی و سیاسی سطح پر بھی ان کو زبردست حمایت و طاقت حاصل تھی اور چالیس ہزار جوان مردوں کا لشکر جان کی بازی لگا دینے کا عہد کر کے اور امیر معاویہ سے لڑنے مارنے مرنے کا حلف اٹھائے ہوئے ان کی پست پر تھا، لیکن اس استحقاق اور طاقت کے باوجود انہوں نے محض اس خوف سے کہ نانا جان کی امت افتراق و انتشار اور باہمی خونریزی کا شکار ہوجائے گی، حکمرانی اور ملکی و دنیاوی سیادت کو ٹھکرا دیا اور آخرت کی فلاح و کامرانی کو اپنا منتہائے مقصود سمجھا چناچہ انہوں نے کسی کمزوری کے تحت نہیں، بلکہ اتحاد امت کے مقصد کے تحت اپنی مرضی اور خوش دلی کے ساتھ امیر معاویہ (رض) سے صلح کرلی اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے حضرت امام حسن (رض) اس زمانہ میں فرمایا کرتے تھے، اللہ کی قسم، مجھ کو یہ گوارا نہیں کہ امت محمدیہ میں سے کسی کے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرے۔ امت کو خونزیزی سے بچانے کے لئے خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ حضرت امام حسن (رض) کے بہت سے ساتھیوں کے لئے ناقابل قبول تھا، بعض انتہا پسندوں نے سیدنا حسن (رض) کو اس حد تک ملامت بنایا کہ ان کی مجلس میں پہنچ کر ان کو یوں مخاطب کرتے اسلام علیک یا عار المؤمنین۔ اور سیدنا حسن (رض) نہایت تحمل و بردباری کے ساتھ ان سے فرماتے العار خیر من النار اور سیدنا حسن (رض) نہایت و بردباری کے ان سے فرماتے العار خیر من النار (عار، نار سے بہتر ہے) حضرت حسن (رض) کے حق میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی (اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا) اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ دونوں ہی فرقے (یعنی امیر معاویہ کے پیرو اور سیدنا علی (رض) اور ان کے بعد سیدنا حسن (رض) کے پیرو) ملت اسلامیہ کا جزاء اور مسلمان تھے باوجودیکہ ان میں سے ایک فرقہ مصیب تھا اور ایک مخطی۔ نیز سیدنا حسن (رض) کا امیر معاویہ (رض) کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوجانا اور ان سے صلح کرلینا اہل سنت و جماعت کے نزدیک اس امر کی دلیل ہے کہ اس صلح کے بعد حضرت امیر معاویہ (رض) کی خلافت و امارت شرعی طور پر قانونی اور جائز تھی یہاں یہ انتباہ ضروری ہے کہ اس زمانہ میں جو کچھ ہوا یعنی صحابہ کے درمیان اختلاف و نزاع کی جو صورت پید اور بعض مواقع پر ان کے درمیان جنگ و جدل کی جو نوبت آئی اور جس کو مشاجرات صحابہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کے بارے میں تمام سلف اور بزرگان دین نے ہمیشہ اپنی زبان بند رکھی صحابہ (رض) کی مقدس ہستیوں کو ہدف بنانا تو کجا، ان سے متعلق ان واقعات و حالات کو تنقید و تبصرہ کا موضوع بنانا بھی اسلاف میں عالم اور بزرگ کر گوارہ نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو ان کے خون سے دور رکھا ہے تو پھر ہم اپنی زبانوں کو ان پر تنقید و تبصرہ اور ان کی نکتہ چینی سے کیوں ملوث کریں۔ بہر حال سیدنا حسن (رض) کا فضل و شرف اس بات سے عیاں ہے کہ سرکار دو عالم نے ان کو سید فرمایا۔ حضرت ابوبکر (رض) ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھانے میں مشغول ہوتے تھے کہ حسن (رض) عنہ، جو اس وقت چھوٹے سے تھے، مسجد میں آجاتے اور جب آنحضرت ﷺ سجدہ میں جاتے تو وہ آپ ﷺ کی گردن اور پیٹھ پر چڑھ جاتے تھے۔ پھر آنحضرت ﷺ سجدہ سے سر اس قدر آہستگی اور احتیاط سے اٹھاتے کہ حسن نیچے اتر جاتے (ایک دن) بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ ﷺ کو اس منے کے ساتھ وہ معاملہ کرتے دیکھتے ہیں جو کسی اور کے ساتھ کرتے نہیں دیکھا ! آپ ﷺ نے جواب دیا یہ منا میری دنیا کا پھول ہے، بلاشبہ میرا یہ بیٹا سید ہے امید رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو فرقوں کے درمیان صلح کرائے گا اور امام احمد نے حضرت امیر معاویہ (رض) کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حسن (رض) کی زبان یا ان کے ہونٹ چوسا کرتے تھے اور اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس زبان یا ہونٹ کو عذاب سے ہرگز دو چار نہیں کرے گا جس کو رسول اللہ ﷺ نے چوسا ہو۔

【17】

حسن وحسین میری دنیا کے دو پھول ہیں

اور حضرت عبدالرحمن بن ابی نعم کہتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا جبکہ (اہل کوفہ میں سے) کسی شخص نے ان سے محرم کے بارے میں پوچھا تھا (اس روایت کو حضرت عبدالرحمن (رض) روایت کرنے والے راوی) حضرت شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ پوچھنے والے نے مکھی کو مار ڈالنے کا حکم دریافت کیا تھا۔ اس پر حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا عراق یعنی کوفہ کے لوگ مجھ سے مکھی مار ڈالنے کے بارے میں شرعی حکم دریافت کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کے بیٹے کو مار ڈالا جن کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ یہ دونوں میری دنیا کے دو پھول ہیں۔ (بخاری ) تشریح کسی کوفی نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا ہوگا کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص محرم ہو یعنی حج کا احرام باندھے ہوئے ہو اور اس حالت میں وہ مکھی مار ڈالے تو اس کا بدلہ کیا ہے، آیا اس پر دم لازم ہوگا یا صدقہ اور یا کچھ لازم نہیں ہوگا ؟ اس پر حضرت ابن عمر (رض) نے بڑا گہرا طنز فرمایا کہ یہ کوفہ والے مجھ سے مکھی مار ڈالنے کے بارے میں شرعی حکم دریافت کر کے گویا یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم کو شرع کا بہت پاس لحاظ ہے اور تقوی و احتیاط کا دامن کسی حال میں ہاتھ سے نہیں چھوڑتے حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نہایت بےدردی سے نواسہ رسول (حسین (رض) کو شہید کر ڈالا اور اپنا نام ظالموں کی فہرست میں سب سے اوپر لکھوایا۔ میری دنیا کے دو پھول ہیں۔ لغت میں ریحان کے کئی معنی آتے ہیں رحمت، راحت روزی، رزق، چین اور آسائش۔ اور اسی مناسبت سے بیٹے کو بھی ریحان کہتے ہیں کہ اس کے دل کو راحت اور آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے، نیز خوشبو دار گھاس اور پھول کو بھی ریحان کہا جاتا ہے اور از راہ تشبیہ اس معنی کا بھی اطلاق بیٹے اور اولاد پر ہوسکتا ہے کیونکہ جس طرح خوشبو دار چیز یعنی پھول وغیرہ کو سونگھا جاتا ہے اسی طرح لوگ اولاد کو بھی سونگھتے اور چومتے ہیں اور طرح اپنا دل خوش کرتے ہیں۔

【18】

سرکار رسالت سے حسنین کی جسمانی مشابہت

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والا حسن بن علی (رض) کے علاوہ کوئی نہیں تھا نیز حضرت انس (رض) نے حضرت حسین (رض) کے بارے میں بھی کہا کہ وہ بھی رسول اللہ ﷺ سے بہت زیادہ مشابہ تھے (بخاری ) تشریح آگے دوسری فصل میں حضرت علی (رض) کی روایت آرہی ہے جس میں انہوں نے تفصیل بیان فرمائی ہے کہ سر سے سینہ تک تو حسن آنحضرت ﷺ سے زیادہ مشابہ تھے اور باقی نیچے کے جسم میں حسنین (رض) آنحضرت ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے ،

【19】

ابن عباس کے لئے دعاء علم وحکمت

اور حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ کو سینہ مبارک سے لپٹا کر یوں دعا فرمائی تھی اس کو حکمت عطا فرما اور ایک روایت میں (دعا کے) یہ الفاظ آئے ہیں کہ خداوندا اس کو کتاب اللہ کا علم عطا فرمائیے۔ (بخاری) تشر یح سینہ سے لپٹانا دراصل اس طرف اشارہ تھا کہ علم کا منبع ومصدر اور حکمت کا مخزن و معدن سینہ مبارک ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ حکمت سے مراد حکمت فلسفہ نہیں بلکہ اتفاق علم و عمل یعنی علم میں تمام اوصاف و محاسن کے ساتھ تکمیل کرنا اور امور دین میں فہم صحیح مراد ہے۔ اور انسان کے لئے یہ وہ نعمت عظمی ہے جس کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے آیت (یوتی الحکمۃ من یشاء ومن یوتی الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا) ۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ مذکورہ دعا میں حکمت سے مراد حقائق اشیاء کا پہنچانا اور اس چیز پر عمل کرنے ہے جو سزا وار عمل ہو۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ حکمت سے مراد صحت کردار اور درست گفتار ہے اور بعض نے حکمت کا مصداق سنت نبوی (اقوال و افعال اور تقریر) کو قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے آیت ( وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ) 2 ۔ البقرۃ 129) الغرض آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے لئے علم و حکمت اور فہم کتاب کی دعا فرمائی ہے اور وہ اس امت کے جلیل القدر عالم تھے ان کے علم و فضل اور حکمت و دانشمندی کا بڑے بڑے صحابہ کرام نے اعتراف و اقرار کیا ہے کہ اور نبی کریم ﷺ نے ان کے لئے علم و حکمت کی دعا فرمائی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ہجرت سے تین سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے اور جب رسول کریم ﷺ کا وصال ہوا اس وقت ابن عباس (رض) تیرہ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت پندرہ برس کے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے وقت دس سال کے تھے انہوں نے دو بار جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا ہے اور دو بار آنحضرت ﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی ہے۔ آخری عمر میں آنکھوں سے نابینا ہوگئے تھے وہ ٦٨ ھ میں مقام طائف میں فوت ہوئے ابن زبیر (رض) کا دور حکومت تھا اور انہوں نے اکہتر سال عمر پائی۔

【20】

آپ ﷺ کا دعا دینا

اور ان ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ بیت الخلا میں داخل ہوئے تو میں نے آپ ﷺ کے لئے وضو کا پانی رکھا پس جب آپ ﷺ نکلے تو فرمایا یہ (پانی) کس نے رکھا ہے ؟ آپ ﷺ کو خبر دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ اس کو دین کی سمجھ عطا کر دے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح یہ واقعہ اس رات کا ہے کہ جس رات حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اپنی خالہ میمونہ ام المؤمنین کے گھر ٹھہرے تھے تاکہ وہ آنحضرت ﷺ کی نماز تہجد کا طریقہ معلوم کرسکیں چناچہ یہ پورا واقع باب قیام اللیل (نماز تہجد کے بیان) میں گزر چکا ہے۔ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ان (ابن عباس (رض) کو ایسا عالم بنا دے جو دین کے اصول و فروع اور اس کے کلیات و ضربات اچھی طرح جان و پہچان لیں اور انہیں اعلی درجہ کی عملی مہارت و فقاہت اور دین میں سمجھ بوجھ حاصل ہو۔ اس فقہ سے مراد صرف وہ متعارف فقہ نہیں ہے جس کا تعلق فروعی مسائل و معاملات، صوری عبادات اور فصل خصومات سے ہے بلکہ اس سے دین کی مکمل سمجھ بوجھ اور کامل مہارت مراد ہے امام نووی فرماتے ہیں اس حدیث سے فقہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور غائبانہ دعا کا مستحب ہونا واضح ہوتا ہے اور جو شخص کوئی خدمت انجام دے یا کوئی بھلائی کرے اس کے حق میں دعا کرنے کا استحباب مفہوم ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی دعا کی برکت سے ابن عباس (رض) کو علم میں بلندو اعلی رتبہ عطا فرمایا اور یہ آپ کی خدمت کا صلہ تھا کہ مرداں زخدمت بجائے رسند

【21】

اسامہ بن زید اور امام حسن کے حق میں دعا

اسامہ بن زید سے منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ اسامہ کو اور امام حسن (رض) کو پکڑ کر فرماتے اے اللہ ان دونوں سے محبت فرما کہ میں بھی ان دونوں سے محبت کرتا ہوں اور ایک روایت میں ہے کہ اسامہ (رض) نے کہا رسول اللہ ﷺ مجھے پکڑ کر اپنی ران مبارک پر بٹھاتے اور حضرت حسن بن علی (رض) کو دوسری ران مبارک پر بٹھا کر ان دونوں کو ملا کر فرمایا کرتے تھے اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما کہ میں بھی ان پر مہربان ہوں۔ (بخاری) تشریح حضرت اسامہ (رض) کے والد ماجد حضرت زید بن حارثہ (رض) آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور آپ ﷺ کے متبنی (منہ بولے بیٹے) تھے آپ ﷺ نے ان کا عقد اپنی خادمہ خاص (بر کہ) ام ایمن (رض) سے کردیا تھا یہ خاتون آپ کے والد عبداللہ بن عبد المطلب کی آزاد کردہ تھیں ان کے بطن سے حضرت زید بن حارثہ (رض) کے بیٹے اسامہ (رض) تھے آپ ﷺ کو زید اور اس کے بیٹے اسامہ سے بےحد محبت تھی۔ حضرت اسامہ (رض) کو جن کے والدین پر غلامی کا دور گزر چکا تھا انہیں اپنے نواسے کے ساتھ اپنی ران مبارک پر بیٹھا کر دعائیں دینا جہاں آپ کی شان رحیمی کو واضح کرتا ہے وہاں ان دو حضرات کی رفعت جلالت شان اور عظمت کی آپ کے اس طرز عمل سے نشان دہی ہوتی ہے بیت زانکہ ترابر من مسکیں نظر ست آثارم از آفتاب مشہور ترست آنحضرت ﷺ کے وصال اور دنیا سے رخصت ہونے کے وقت اسامہ (رض) کی عمر بیس برس کے قریب تھی وہ وادی القراء میں سکونت پذیر ہوگئے تھے اور وہاں ہی حضرت عثمان (رض) کی شہادت کے بعد انہوں نے وفات پائی ہے۔ بعض کا قول ہے کہ انہوں نے ٥٤ ھ میں وفات پائی ہے اور علامہ ابن عبد البر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔

【22】

اسامہ بن زید کو آپ ﷺ کا امیر لشکر بنانا

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک فوج روانہ کی اور اس پر اسامہ بن زید (رض) کو امیر بنا کر بھیجا تو کچھ لوگوں نے اس کی امارت پر طعنہ زنی کی پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم لوگ اس (اسامہ) کی امارت پر معترض ہوئے ہو تو اس سے پہلے تم اس کے باپ (زید) کی امارت پر بھی طعنہ زنی (اور اعتراض) کرچکے ہو اور اللہ کی قسم وہ (زید) امارت کے قابل بھی تھا اور تمام لوگوں سے مجھے محبوب و عزیز تر بھی تھا اور اس کے بعد یہ (اسامہ) بھی مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب و عزیز تر ہے بخاری ومسلم اور مسلم کی ایک روایت میں اسی طرح ہے اور اس کے آخر میں اتنا اضافہ بھی کہ لوگوں میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ یقینا یہ تمہارے نیک لوگوں میں سے ہے۔ تشریح طعنہ دینے اور اعتراض کرنے والے لوگ یا تو منافق تھے جن کا شیوہ ہی یہ تھا کہ وہ کوئی موقع ہاتھ آنے کی انتظار میں رہتے تھے اور جہاں انہیں کوئی موقع ملا زبان کو بےلگام کردیا اور یا پھر طعنہ دینے والے نو مسلم تھے جو زمانہ جاہلیت کے طور طریقوں کے عادی چلے آئے تھے اور ان کے نزدیک انسان کی قدر و قیمت صلاحیت و علمی و عملی قابلیت کی بجائے خاندانی وجاہت اور اہل و دولت کی بنیاد پر تسلیم کی جاتی تھی۔ اسامہ کے باپ حضرت زید بن حارثہ (رض) نہایت جلیل القدر صحابی اور سابق الایمان بزرگ تھے آنحضرت ﷺ کو ان سے بےحد محبت تھی اور ذاتی طور پر بھی وہ نہایت قابل شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی عسکری صلاحیت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) سے منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب بھی کوئی فوج روانہ کی جس میں زید بن حارثہ (رض) کو روانہ کیا تو آپ ﷺ نے انہیں امیر ہی بنا کر روانہ کیا۔ ٨ ھ میں شام کی سرحد پر رومی افواج جمع ہوچکی تھیں اس لئے آپ ﷺ نے ایک فوج اس طرف روانہ کی اور اس پر حضرت زید (رض) کو امیر بنا کر روانہ فرمایا۔ یہ شام گئے نصرانی کفار سے مقابلہ ہوا حضرت زید (رض) ، حضرت جعفر طیار اور عبداللہ بن رواحہ شہید ہوئے اس جنگ کو جنگ موتہ کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر لوگوں نے حضرت زید (رض) کی امارت پر اعتراض کیا تھا اگلے سال آپ نے حضرت زید (رض) شہید کے صاحبزادے حضرت اسامہ (رض) کو امیر فوج بنا کر سرحد پر روانہ کیا تو کچھ لوگوں نے پھر اعتراض کیا اور اس بات کو اعتراض کی بنیاد بنایا کہ ایک تو کم سن ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کے والدین پر غلامی کی حالت گزر چکی ہے بالخصوص جب منافقین نے یہ دیکھا کہ اسامہ (رض) کی ماتحتی میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابی موجود ہیں تو انہیں اور بھی اعتراض کا موقع ہاتھ آگیا۔ انہیں کیا معلوم کہ اسلام رنگ و نسل و مال و دولت کے تمام عارضی امتیازات کو مٹا کر شرافت و بزرگی کی بنیاد پر ذاتی قابلیت، علم و عمل اور تقوی و پرہیزگاری و اعلیٰ اخلاق کو قرار دیتا ہے اللہ کی قسم وہ امارت کے قابل تھے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیت تقویٰ و پرہیزگاری سبقت اسلام اور میری اطاعت و محبت کی بنیاد پر یقینا امارت کے اہل اور سیادت کے لائق تھے اور ان کے بعد اسامہ (رض) بھی اس قابل ہیں کہ انہیں ملکی مہمات اور اہم خدمات پر مامور کیا جائے کہ وہ بھی اپنے باپ کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز اور میرے نزدیک اس عہدہ کے قابل اور زیادہ قابل وثوق ہیں۔

【23】

زید بن محمد کہنے کی ممانعت

اور یہ بھی عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا ہم لوگ اس (زید) کو صرف زید بن محمد ہی کہہ کر بلایا کرتے تھے یہاں تک کہ قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تم ان کو ان کے باپوں کے ناموں سے پکارا اور بلایا کرو۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت براء (رض) کی حدیث جس میں آپ ﷺ نے حضرت علی (رض) کو فرمایا انت منی (تم مجھ سے ہو) بلوغ صغیر اور (اس کی حضانت کے باب میں گزر چکی ہے ) تشریح مکمل آیت اس طرح ہے (مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِه وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ اڿ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَا ءَكُمْ اَبْنَا ءَكُمْ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ وَاللّٰهُ يَ قُوْلُ الْحَ قَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيْلَ ۔ اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَا ى ِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْ ا اٰبَا ءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ ) 33 ۔ الاحزاب 4) ۔ اور اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے نہیں قرار دیا یہ تو تمہارے اپنے ہی منہ کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ درست بات کہتا ہے اور صحیح راہ دکھاتا ہے تم ان کو ان کے باپوں کے نام کی نسبت سے پکارا و بلایا کرو اس لئے کہ یہ بات اللہ کے نزدیک زیادہ عدل و انصاف کی مظہر ہے اور اگر ان کے باپ تمہیں معلوم نہ ہوں تو پھر وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد انہیں زید بن حارثہ (رض) کہنے لگے۔ اس روائیداد سے بھی بخوبی واضح ہوتا ہے کہ رحمت عالم ﷺ کے ساتھ زید بن حارثہ (رض) کو کسی قدر رتبہ محبت و قرب حاصل تھا۔

【24】

زید بن محمد کہنے کی ممانعت

حضرت جابر (رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا میں رسول اللہ ﷺ کو آپ کے حج کے موقع پر عرفہ کے دن اپنی قصواء نامی اونٹنی پر خطبہ دیتے سنا کہ فرمایا لوگو ! میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میری اولاد، میرے اہل بیت۔ (ترمذی) تشریح قصواء اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جس کے کان کا کوئی کونہ کٹا ہوا ہو۔ آنحضرت ﷺ کی اونٹنی کا کان پیدائشی طور پر ایسا ہی تھا اور کٹا ہوا نہ تھا یہ وجہ تسمیہ بھی ہوسکتی ہے کہ قصواء بمعنی بعید ہو۔ چناچہ منقول ہے کہ آپ ﷺ کی یہ اونٹنی نہایت تیز رفتار تھی اور دور دور تک تیز رفتار سے چلتی جاتی تھی۔ اخذتم بہ تم مضبوطی سے پکڑے رہو۔ پکڑنے سے مراد اطاعت اور عمل و پیروی ہے ابن مالک نے کہا کہ کتاب کو پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور عترت و اولاد کو پکڑنے کا مفہوم یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے ان کی سیرت اختیار کی جائے اور ان کو قولا فعلاً کسی طرح بھی ایذاء نہ دی جائے۔ عترت سے آپ کی اولاد مراد ہے اور اہل بیت سے مراد آپ کے قرابت دار اور جد قریب کی اولاد بھی ہے اور آپ کی ازواج مطہرات بھی رضو ان اللہ علیہم۔ آج عالم اسلام میں جس قدر پریشانیاں موجود ہیں ان کا واحد حل صرف اور صرف یہ ہے کہ اہل اسلام حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان کو بالکل بھول چکے ہیں۔

【25】

حضور اکرم ﷺ کی وصیت

حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں میرے بعد جب تک تم انہیں پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے ایک ان میں دوسری سے عظیم تر ہے۔ وہ ایک تو اللہ کی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ کی آسمان سے زمین کی طرف پھیلی ہوئی رسی ہے اور دوسری میری اولاد میرے گھر والے ہیں اور وہ الگ الگ نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وہ میرے پاس آپہنچیں گے پس تم لوگ سوچ لو کہ تم میرے بعد ان سے کیا معاملہ کرتے ہو اور کیسے پیش آتے ہو۔ (ترمذی) تشریح اس واقعہ کے بیان کرنے والے زید بن ارقم الانصاری الخزرجی مشہور صحابی ہیں غزوہ احد میں بوجہ کمسنی کے حضور ﷺ نے ان کو شریک نہیں فرمایا۔ غزوہ خندق اور اس کے بعد تمام غزوات میں شریک رہے انہوں نے عبداللہ بن ابی بن سلول کے منافقانہ اقوال (جن کا ذکر قرآن پاک میں آیۃ کریمہ (لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منہا الاذل میں ہے) کو حضرت سے نقل کیا تھا مگر عبداللہ انکار کر گیا اور زید کو صحابہ (رض) نے سچا نہ جانا اس کے بعد سورت منافقین نازل ہوئی جس میں زید کی تصدیق کی گئی تھی زید حضور انور ﷺ کے ساتھ سترہ غزوات میں شریک ہوئے ٢٢ ھ میں وفات پائی۔ تمام کتب صحاح میں آپ کی بکثرت احادیث مروی ہیں مختصر یہ کہ آپ ایک بہت بڑے پائے کے صحابی ہیں۔ اس حدیث میں بھی کتاب اللہ (قرآن مجید) کی طرف اپنی توجہ دلائی ہے اور اپنے اہل کے حقوق بھی یاد دلائے اور اہل بیت کی عظمت بیان فرما دی کہ تم لوگ میری نسبت کے خیال سے ان کے حقوق کی ادائیگی میں جتنے زیادہ سرگرم رہو گے او ان کی ہر طرح کی خبر گیری میں جنتا زیادہ حصہ لو گے اتنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہوگا اور تمہیں دنیا و آخرت میں خیر و عافیت نصیب ہوگی آپ ﷺ کا یہ فرمانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص باپ دم رخصت اپنی اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ میں یہ اپنی اولاد چھوڑ کر جار ہا ہوں تم ان کی خوب دیکھ بھال کرنا اور ان کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرنا۔ اور یہ دونوں الگ الگ نہیں ہوں گی یعنی قیامت کے تمام مواقف و مراحل پر ان دونوں یعنی کتاب اللہ اور عترت رسول کا ساتھ رہے گا، کہیں بھی یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی۔ یہاں تک کہ یہ دونوں مل کر حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گی اور دنیا میں جس جس نے ان دونوں کے حقوق اچھی طرح ادا کئے ہوں گے اس کا نام لے کر میرے سامنے شکریہ ادا کریں گی اور پھر میں بدلہ میں ان سب کے ساتھ نہایت اچھا سلوک اور احسان کروں گا اور اللہ تعالیٰ بھی ان سب کو کامل جزا اور انعام عطا فرمائیں گے اور ان لوگوں نے دنیا میں ان دونوں کی حق تلفی کی ہوگی اور دونوں کے ساتھ کفران نعمت کیا ہوگا ان کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ ہوگا۔ پس تم دیکھو کہ یعنی میں نے ان دونوں کو حیثیت و اہمیت تمہارے سامنے واضح کردی ہے۔ اب تمہیں خود اپنا احتساب کرنا ہے کہ ان دونوں یعنی کتاب اللہ اور میری عزت کے تئیں تم میرے خلف الصدق ثابت ہوتے ہو یا ناخلف۔ اگر تم نے میرے بعد دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رکھا اور ان کے ساتھ وابستگی رکھی جو ان کا حق تو میرے خلف الصدق قرار پاؤ گے اور اگر ان کے ساتھ اچھی وابستگی نہ رکھی اور ان کے تئیں اچھا رویہ اختیار نہ کیا تو ناخلف سمجھے جاؤ گے۔

【26】

چہار تن پاک کا دشمن گویا آنحضرت ﷺ کا دشمن

اور حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت علی، فاطمہ، حسن، حسین (رض) ، کے حق میں فرمایا کہ جو کوئی ان سے لڑے میں اسے لڑونگا اور جو کوئی ان سے مصالحت رکھے میں اس سے مصالحت رکھوں گا۔ (ترمذی) تشریح اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جس نے ان چہار تن پاک کو دوست اور محبوب رکھا، اس نے آنحضرت ﷺ کو دوست و محبوب رکھا۔ اور جس نے ان چاروں کو دشمن رکھا اس نے آنحضرت کو دشمن رکھا ایک روایت میں حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس نے مجھ کو دوست رکھا، ان دونوں یعنی حسن و حسین (رض) کو دوست رکھا اور ان دونوں کے باپ اور ان دونوں کی ماں یعنی علی (رض) اور فاطمہ (رض) کو دوست رکھا تو وہ قیامت کے دن میرے درجہ میں میرے ساتھ ہوگا۔ احمد اور ترمذی نے بھی یہ روایت نقل کی ہے جس کے آخری الفاظ یوں ہیں۔ تو وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔

【27】

علی و فاطمہ (رض) کی فضیلت

اور حضرت جمیع بن عمیر (تابعی) کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں اپنی پھوپی کے ساتھ ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا، رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی ؟ حضرت عائشہ (رض) نے جواب دیا فاطمہ (رض) سے میں نے جواب دیا فاطمہ (رض) سے پھر میں نے پوچھا اور مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے تھی ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا فاطمہ (رض) کے شوہر (علی المرتضیٰ ) سے۔ (ترمذی) تشریح یہاں حضرت عائشہ (رض) کی منصف مزاجی اور صدق گوئی نوٹ کرنے کے قابل ہے انہوں نے اخلاص کے ساتھ سچی بات بیان کردی۔ حالانکہ اگر وہ چاہتیں تو کہہ سکتی تھیں کہ آنحضرت ﷺ کو سب سے زیادہ محبت مجھ سے اور میرے باپ سے تھی۔ اور اس میں شک نہیں کہ اگر یہی سوال حضرت فاطمہ (رض) سے کیا جاتا تو ان کا جواب یہ ہوتا کہ آنحضرت ﷺ کو سب سے زیادہ محبت عائشہ (رض) اور ان کے باپ سے تھی۔ اب اس حدیث کے آئینہ میں ذرا وہ متعصب اور کجرو اپنا چہرہ دیکھیں جو حضرت عائشہ (رض) اور حضرت فاطمہ (رض) کے درمیان اختلاف وعناد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ سب سے زیادہ محبوب ہونے کا مطلب سب سے افضل ہونا ہرگز نہیں ہے اولاد اور نزدیگی اقا رب سے زیادہ محبت ہونا ایک طبعی چیز ہے ایک شخص یقینی طور پر جانتا ہے کہ غیر اولاد میں فلاں فلاں آدمی اس کی اولاد سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود اپنی ہی اولاد سے زیادہ محبت رکھتا ہے۔ ہاں اپنی اولاد کا غیر افضل ہونا اس بات کو لازم کرتا ہے کہ اس سے محبت بھی زیادہ ہو۔

【28】

جس نے میرے چچا کو ستا یا اس نے مجھ کو ستا یا

اور حضرت عبد المطلب بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت عباس (رض) غصہ میں بھرے ہوئے آئے (یعنی کسی نے کوئی ایسی حرکت کردی تھی یا کوئی اسی بات کہہ دی تھی جس سے حضرت عباس (رض) کو غصہ آ رہا ہے ؟ حضرت عباس (رض) بولے اے اللہ کے رسول ! ہمارے (یعنی بنی ہاشم) اور (باقی) قریش کے درمیان کیا (بیگانگی) ہے کہ جب وہ (قریش) آپس میں ملتے ہیں تو کشادہ روئی سے ملتے ہیں اور جب ہمارے ساتھ ملتے ہیں تو اس طرح نہیں ملتے رسول کریم ﷺ (نے حضرت عباس (رض) سے یہ بات سنی تو ان قریش کے اس برے رویہ پر) سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ غصہ کی شدت سے آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا پھر) حضرت عباس (رض) سے مخاطب ہو کر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوگا اگر وہ تم (اہل بیت) کو اللہ اور اللہ کے رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دوست نہیں رکھے گا۔ اور پھر فرمایا لوگو ! جان لو) جس شخص نے خصوصا) میرے چچا کو ستایا اس نے (گویا) مجھ کو ستایا، کیونکہ کسی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے (ترمذی) اور مصابیح میں عبد المطلب بن ربیعہ کی جگہ) مطلب بن ربیعہ ہے (جبکہ صحیح عبد المطلب بن ربیعہ ہی ہے جو ترمذی نے نقل کیا ہے۔ تشریح ایمان داخل نہیں ہوگا یا تو مطلق ایمان مراد ہے اس صورت میں ارشاد گرامی کو شدید ترین وعید پر محمول کیا جائے گا یا کامل ایمان مراد ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا مقصد سخت تاکید کے ساتھ اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ دل و دماغ کو اہل بیت کی محبت و عقیدت سے معمور کئے بغیر ایمان کامل کی دولت نصیب نہیں ہوسکتی۔ قریش کی جو متعدد شاخیں تھیں ان میں سے بنو ہاشم (آنحضرت ﷺ کا خاندان) سب سے باعزت شاخ تھی ایسے اکثر مناصب جو سماجی عزت وجاہت عطا کرتے تھے۔ اسی شاخ کے افراد کے سپرد تھے۔ پھر سب سے بڑا شرف یعنی نبوت و رسالت کا منصب عظمی بھی اسی شاخ کا نصیب بنا۔ ان وجوہ سے قریش کی دوسری شاخیں بنو ہاشم سے ایک پرخاش رکھتی تھیں اور ان کو اپنا حریف قرار دیتی تھیں۔ چناچہ ابوجہل آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے یہی کہا کرتا تھا کہ مکہ اور قریش کی سرداری بنو ہاشم نے لے رکھی ہے حاجیوں کو زمزم پلانے کے اعزاز پر بنو ہاشم نے قبضہ کر رکھا ہے اگر بنو ہاشم میں نبوت و رسالت بھی آجائے تو پھر باقی قریش کے پاس کیا رہ جائے گا۔

【29】

حضرت عباس کی فضیلت

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عباس مجھ سے ہیں اور میں عباس سے ہوں۔ (ترمذی) تشریح عباس مجھ سے ہیں یعنی میرے خاص قرابتیوں میں سے ہیں یا یہ کہ میرے اہل بیت میں سے ہیں علماء لکھتے ہیں کہ فضل و شرف اور شرف اور نبوت کے اعتبار سے تو آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اصل ہے جب کہ نسب اور چچا ہونے کے اعتبار سے حضرت عباس (رض) اصل ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ مذکورہ ارشاد گرامی دراصل کمال محبت وتعلق، یک جہتی و یگانگت اور اخلاص و اختلاط سے کنایہ ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے حضرت علی (رض) کے حق میں بھی فرمایا تھا کہ (اے علی) میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو۔ حضرت عباس بن عبد المطلب آنحضرت ﷺ کے چچا ہیں ان کی ولادت واقعہ فیل سے ایک سال قبل ہوئی ان کی والدہ قبیلہ نمر بن قاسط سے تعلق رکھتی تھیں اور وہ پہلی عرب خاتون ہیں جس نے کعبہ اقدس پر حریر و دیباج اور نوع بہ نوع قیمتی کپڑوں کا غلاف چڑھایا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عباس (رض) بچپن میں کہیں گم ہوگئے تھے اور تلاش بسیار کے بعد ہاتھ نہیں لگے تو ان کی والدہ نے منت مانی کہ اگر میرا بیٹا مل جائے گا تو میں بیت الحرام پر غلاف چڑھاؤں گی۔ چناچہ جب حضرت عباس (رض) کا سراغ لگ گیا اور وہ گھر آگئے تو ان کی والدہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ منت پوری کی۔ حضرت عباس (رض) زمانہ جاہلیت میں بھی مکہ اور قریش میں زبردست اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ اور ایک بڑے سردار تسلیم کئے جاتے تھے۔ عمارۃ اور سقایۃ کے اہم مناصب ان کے سپرد تھے وہ آنحضرت ﷺ سے دو سال بڑے تھے اور چچا ہونے کے باوجود آنحضرت ﷺ کا غیر معمولی ادب احترام کرتے تھے منقول ہے کہ ایک دن کسی نے ان سے سوال کیا انت اکبر او النبی ﷺ (آپ بڑے ہیں یا آنحضرت ﷺ ؟ تو انہوں نے جواب دیا ہو اکبر وانا اسن (بڑے تو آنحضرت ﷺ ہی ہیں ہاں عمر میری زیادہ ہے ) حضرت عباس (رض) نے اسلام تو بہت پہلے قبول کرلیا تھا لیکن بعض مصالح کے تحت اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرتے تھے چناچہ جنگ بدر میں وہ بڑی کراہت کے ساتھ اور مجبوری کے تحت مشرکین مکہ کے ساتھ شریک تھے اور آنحضرت ﷺ نے مجاہدین اسلام سے فرما دیا تھا کہ جس شخص کا سامنا عباس (رض) سے ہوجائے وہ ان کو قتل نہ کرے کیونکہ وہ مجبوراً اس جنگ میں مشرکین مکہ کی طرف سے شریک ہیں جنگ کے خاتمہ پر حضرت عباس (رض) بھی قیدیوں میں شامل ہوئے اور ابوالیسیر بن کعب بن عمر نے ان کو قید کیا۔ پھر انہوں نے فدیہ (مالی معاوضہ) ادا کر کے رہائی حاصل کی اور مکہ واپس آگئے بعد میں وہاں سے باقاعدہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے ٣٦ ھ میں ١٢ رجب جمعہ کے دن ان کی وفات ہوئی اس وقت ان کی عمر ٨٨ سال کی تھی اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی وفات کے وقت کے ستر غلام آزاد کئے۔

【30】

عباس (رض) اور اولاد عباس (رض) کے لئے دعا

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ نے (میرے والد) حضرت عباس (رض) سے فرمایا کہ پیر کے دن صبح کے وقت تم اپنی اولاد کو لے کر آنا تاکہ میں تمہارے لئے دعا کروں جس کے سبب اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری اولاد کو نفع پہنچائے چناچہ (جب پیر کا دن آیا تو) صبح کے وقت حضرت عباس (رض) اور ان کے ساتھ ہم سب (ان کی اولاد) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آنحضرت ﷺ نے اپنی چادر مبارک ہم سب کو اڑھائی اور پھر یوں دعا فرمائی خداوندا ! عباس (رض) کو ان کی اولاد کو بخش دے اور ظاہر و باطن کی ایسی بخشش عطا فرما جو کوئی گناہ باقی نہ چھوڑے۔ الہٰی ! عباس (رض) کو ان کی اولاد میں قائم و محفوظ رکھو۔ ترمذی اور رزین نے اس دعاء کے آخر میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ امارت و بادشاہی کو ان کی اولاد میں باقی رکھ ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح اپنی چادر مبارک ہم سب کو اڑھائی یہ اس بات سے کنایہ تھا کہ جس طرح میں نے ان سب پر یہ چادر پھیلائی ہے اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا سایہ ان سب پر پھیلائے۔ عباس (رض) کو ان کی اولاد میں قائم و محفوظ رکھ یعنی اے اللہ ! تو عباس (رض) کو عزت و شوکت عطا فرما اور ان کو تمام آفات و بلیات سے محفوظ رکھ تاکہ یہ اپنے اولاد کے حقوق و مفاد کا تحفظ کرسکیں۔ امارت و بادشاہی کو ان کی اولاد میں باقی رکھ یعنی طویل مدت تک اولاد عباس (رض) کو تخت حکمرانی اور سیادت و ثروت سے نوازے رکھ چناچہ یہ دعا مقبول ہوئی کہ وہ زمانہ آیا جب کئی صدیوں تک خلافت و حکمرانی کا اعزاز عباسیوں میں رہا یا یہ دعائیہ الفاظ دراصل امت کے لئے ایک ہدایت تھی کہ خلافت و امارت کا استحقاق اولاد عباس (رض) کو بھی حاصل ہے۔ خلیفہ و امیر منتخب کرتے وقت ان کے ترجیح استحقاق کو مد نظر رکھنا چاہئے۔

【31】

ابن عباس (رض) کی فضیلت

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں دو بار حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اور رسول کریم ﷺ نے ان کے حق میں دو مرتبہ دعا فرمائی۔ (ترمذی ) تشریح دو بار حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اس سلسلہ کی تفصیلی روایت سیوطی نے جمع الجوامع میں اس طرح نقل کی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا ایک دن میں بہت سفید کپڑے پہنے ہوئے آنحضرت ﷺ کے پاس سے گزرا تو دیکھا آپ ﷺ دحیہ کلبی سے سرگوشی کر رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں وہ دحیہ کلبی نہیں تھے بلکہ ان کی صورت میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے، لیکن اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ جبرائیل ہیں میں وہاں سے گزرتا چلا گیا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ سے بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ ابن عباس (رض) اگر ہمیں سلام کرتا تو میں اس کے سلام کا جواب دیتا۔ ابن عباس (رض) تو بہت سفید کپڑوں میں ہے مگر اس کے بعد اس کی اولاد سیاہ کپڑے پہننے پر مجبور ہوگی۔ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آسمان پر چلے گئے تو آنحضرت ﷺ وہاں سے لوٹ کر آئے اور مجھ سے فرمایا ہمارے پاس سے گزرتے وقت تم نے ہمیں سلام کیوں نہیں کیا تھا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ اس وقت دحیہ کلبی سے بات چیت اور سرگوشی میں مصروف تھے میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ آپ میرے سلام کا جواب دیں اور اس طرح میں آپ کے سلسلہ گفتگو میں رکاوٹ بنوں تب آنحضرت ﷺ نے مجھے بتایا کہ وہ دحیہ کلبی نہیں تھے۔ ابن عباس نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ واقعہ دو مرتبہ پیش آیا۔ حضرت عبد الحق محدث دہلوی اس موقع پر لکھتے ہیں یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی آمد عام طور دحیہ کلبی کی شکل و صورت میں ہوتی تھی اور دوسرے صحابہ بھی ان کو دیکھا کرتے تھے۔ تو پھر خاص طور پر حضرت ابن عباس (رض) کے بارے میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ کس وجہ سے بیان کی گئی کہ انہوں نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دو بار دیکھا پھر اس کا جواب حضرت شیخ نے یہ لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بھی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان دونوں مرتبہ دحیہ کلبی ہی کی شکل میں دیکھا تھا لیکن ان کا دیکھنا عالم ملکوت میں تھا جبکہ ان کے علاوہ کسی صحابی نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) عالم ملکوت میں نہیں دیکھا۔ دوسرے صحابہ ان کو عالم تاسوت میں دیکھا کرتے تھے ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ابن عباس (رض) سے فرمایا تھا کہ نبی و رسول کے علاوہ جس انسان نے بھی جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اس کی بینائی جاتی رہی، لہٰذا اے ابن عباس (رض) تمہارے بینائی بھی چلی جائے گی۔ لیکن موت کے دن تمہاری بینائی پھر تمہارے پاس آجائے گی۔ چناچہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نابینا ہوگئے تھے اور یہ منقول ہے کہ جب ان کی وفات ہوئی اور ان کا جسد خاکی کفن میں لپیٹ دیا گیا تو اچانک ایک سفید پرندہ نمودار ہوا اور ان کی میت کے پاس آ کر کفن کے اندر گھسا اور غائب ہوگیا۔ لوگوں نے ہرچند تلاش کیا اور ادھر ادھر دیکھا لیکن اس سفید پرندہ کا سراغ نہیں لگا۔ بالاخر حضرت ابن عباس (رض) کے آزاد کردہ غلام حضرت عکرمہ نے کہا کہ کیا تم لوگ احمق ہوگئے ہو) وہ واقعۃ ً پرندہ نہیں تھا بلکہ ان کی بینائی تھی جس کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ موت کے دن ان کے پاس واپس آجائے گی روایت میں بھی آیا ہے کہ جب حضرت ابن عباس (رض) کو لحد میں رکھ دیا گیا تو غائب کی طرف سے ایک آواز آئی جس کو سب نے سنا آیت (یایتہا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ) (اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے ) اور ان کے حق میں دو مرتبہ دعا فرمائی ایک بار تو وہ دعا فرمائی جس کا ذکر پیچھے الفصل الاول کی ایک حدیث میں گزرا کہ آنحضرت ﷺ حضرت ابن عباس (رض) کو اپنے (صفحہ نمبر ٧٢٥۔۔۔۔۔۔۔۔ ) یہ دعا دی اللہم علمہ الحکمۃ (اے اللہ اس کو حکمت عطا فرما) یا یوں فرمایا تھا اللہم علمہ الکتاب (اے اللہ اس کو کتاب اللہ کا علم عطا فرما) دوسری مرتبہ کی دعا وہ ہے جس کے بارے میں بھی حضرت ابن عباس (رض) کی روایت پیچھے گزر چکی ہے کہ آنحضرت ﷺ استنجاء کے لئے تشریف لے گئے تو میں نے وضو کے لئے پانی بھر کر رکھ دیا جب آپ کو بتایا گیا کہ ابن عباس (رض) نے رکھا ہے تو اس وقت آپ ﷺ نے یہ دعا دی اللہم فقہ فی الدین (خداوندا ! ابن عباس (رض) کو دین کا فقیہ بنا دے) تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ ایک مرتبہ کی دعا توہ مراد ہو جو آپ ﷺ نے پانی رکھنے پر خوش ہو کردی تھی اور دوسری مرتبہ کی دعا سے وہ دعا مراد ہو جو آنحضرت ﷺ نے حضرت عباس (رض) اور ان کی اولاد کے حق میں فرمائی تھی۔

【32】

ابن عباس کو عطائے حکمت کی دعا

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول کریم ﷺ نے میرے لئے دو مرتبہ یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو حکمت عطاء فرمائے۔ (ترمذی) تشریح یعنی اس مفہوم کی دعا کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو دین و شریعت کا علم اصول و فروع عطا فرمائے، ایک مرتبہ تو لفظ حکمت کے ساتھ کی اور ایک مرتبہ لفظ فقہ کے ساتھ اور ظاہر یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ دونوں دعائیں الگ الگ دو موقعوں پر کیں جیسا کہ پیچھے گزرا۔

【33】

حضرت جعفر کی کنیت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب مساکین (رض) سے (بہت محبت رکھتے تھے، وہ ان کے پاس اٹھتے بیٹھتے اور ان سے (دلجوئی و غمخواری کی) باتیں کرتے اور مساکین ان سے (اپنے دکھ درد کی) باتیں کیا کرتے تھے۔ اور رسول کریم ﷺ نے (اسی بناء پر) ان کی کنیت ابوالمساکین رکھ چھوڑی تھی۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ کہ حضرت جعفر چونکہ بہت زیادہ مساکین نواز تھے اور ان کے ساتھ بہت زیادہ اٹھنا بیٹھنا رکھتے تھے اسی مناسبت سے آنحضرت ﷺ نے ان کی کنیت ابوالمساکین رکھ دی تھی جیسا کہ حضرت علی (رض) کی کنیت ابوتراب اس مناسبت سے رکھ دی تھی کہ وہ بیٹھنے اور لیٹنے کے لئے فرش خاک زیادہ پسند کرتے تھے اور مٹی پر بلاتکلف بیٹھ یا لیٹ جایا کرتے تھے یا جیسا کہ مسافر کو ابن السبیل اور صوفی کو ابوالوقت مخصوص معنوی مناسبت سے کہا جاتا ہے۔

【34】

حضرت جعفر کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! میں نے جعفر کو جنت میں فرشتوں کے ساتھ اڑتے ہوئے دیکھا ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح حضرت جعفر جنگ موتہ میں اسلامی لشکر کے کماندار تھے اور اسلام کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔ اس جنگ میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ اصل میں تو اس جنگ کے اسلامی کماندار حضرت زید بن حارثہ (رض) تھے لیکن دوران جنگ ان کے شہید ہوجانے کے بعد اسلامی لشکر کی کمانداری اور اسلام کا جھنڈا حضرت جعفر کے ہاتھ میں آیا چناچہ حضرت جعفر کمال مردانگی کے ساتھ اللہ کی راہ میں لڑے پہلے ان کا ایک ہاتھ کام آیا، پھر دوسرا ہاتھ بھی کام آگیا اور پھر ٹانگیں بھی قربان ہوگئیں۔ یہاں تک کہ شہید ہوگئے ادھر تو میدان جنگ میں حضرت جعفر شہید ہوئے، ادھر مدینہ منورہ میں آنحضرت ﷺ کو حالت مکاشفہ میں یا خواب میں دکھایا گیا کہ جعفر کے دو پنکھ ہیں جو خون میں لتھڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ان پنکھوں کے ذریعہ فرشتوں کے ساتھ جنت میں اڑے اڑے پھر رہے ہیں۔

【35】

بہشت کے جوانوں کے سردار

اور حضرت سعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حسن اور حسین دونوں بہشت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ (ترمذی) تشریح طیبی کے مطابق الفاظ حدیث کی مراد یہ ہے کہ حسن اور حسین ان تمام اہل اسلام سے افضل ہیں جو اللہ کی راہ میں جوانی کی حالت میں مرے لیکن یہ بات محل کلام ہے کیونکہ ان دونوں کو صرف ان تمام اہل اسلام سے افضل قرار دینے کی وجہ تخصیص نہیں ہے جو جوان مرے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حسن و حسین ان بہت سے اہل اسلام سے بھی افضل ہیں جو بڑی عمروں میں مرے پس بعض حضرات کا یہ قول زیادہ صحیح ہے کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ حسن اور حسین تمام اہل جنت کے سردار ہیں کیونکہ تمام اہل جنت جوان ہوں گے۔ لیکن انبیاء اور خلفاء راشدین مستثنیٰ ہیں یعنی ان سے یہ دونوں افضل نہیں ہوں گے۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ یہاں شباب یعنی جوان کا لفظ جوان العمر کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ فتوت یعنی جوانمرد سخی اور کریم کے معنی میں ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ دونوں تمام جوان مردوں کے سردار ہیں علاوہ انبیاء اور خلفاء راشدین کے یا یہ کہ جنت کے جوانوں سے مراد تمام اہل جنت ہیں اور ان کو شباب کے لفظ سے تعبیر کرنا۔ اظہار محبت و شفقت کے تحت ہے جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے کا ذکر کرتا ہے تو اس کا لڑکا، بچہ، وغیرہ کے الفاظ ہی سے تعبیر کرتا ہے خواہ وہ کتنا ہی مسن اور عمر رسیدہ ہو۔

【36】

حسن وحسین میری دنیا کے دو پھول ہیں

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ حسن و حسین میری دنیا کے دو پھول ہیں (ترمذی) یہ حدیث فصل اول میں گزر چکی ہے۔ تشریح سید جمال الدین نے یہ حدیث فصل اول میں گزر چکی ہے کے بارے میں لکھا ہے کہ صاحب مشکوٰ ۃ شریف کے ان الفاظ میں صاحب مصابیح پر اعتراضات کی طرف اشارہ ہے لیکن ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ اعتراض (کہ مصابیح نے ایک روایت کو مکرر نقل کردیا ہے) اس طرح کالعدم قرار پا جاتا ہے فصل اول کی روایت بخاری کی ہے جو اپنی جگہ پر نقل ہوئی ہے اور یہ روایت ترمذی کی ہے جس کو اس کی جگہ پر نقل کیا گیا ہے جب کہ ان دونوں روایتوں کے الفاظ میں فی الجملہ تغایر بھی ہے۔

【37】

حسین سے محبت وتعلق

حضرت اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنی کسی ضرورت سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ (اپنے گھر کے اندر سے) اس حال میں باہر تشریف لائے کہ کسی چیز کو اپنے ساتھ لپٹیے ہوئے تھے اور میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا چیز تھی پھر جب میں اپنی ضرورت کو عرض کرچکا تو پوچھا کہ یہ کیا چیز آپ ﷺ نے لپیٹ رکھی ہے آپ ﷺ نے اس چیز کو کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حسن و حسین ہیں جو آپ ﷺ کی دونوں کو کھوں پر تھے (یعنی آپ ﷺ نے ان دونوں کی طرف گود میں لے کر چادر سے لپیٹ رکھا تھا) اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا دونوں (حکماً ) میرے بیٹے ہیں اور (حقیقۃً ) میری بیٹی کے بیٹے ہیں خداوندا ! میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں، تو بھی ان کو محبوب رکھ اور ہر اس شخص کو محبوب رکھ جو ان دونوں کو محبوب رکھے۔ (ترمذی) تشریح یہ دونوں (حکماً ) میرے بیٹے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ بیٹی کا بیٹا اپنے ہی بیٹے کے حکم میں ہوتا ہے جیسا کہ بیٹے کا بیٹا یعنی پوتا اپنے بیٹے کے حکم میں ہوتا ہے۔ نیز اس حدیث کو اس بات کی بھی دلیل بنایا جاسکتا ہے کہ نسب کا شرف ماں کی طرف سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ حضرت اسامہ (رض) کے سامنے آنحضرت ﷺ کا مذکورہ دعا فرمانا شاید ان کو اور دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ اور راغب کرنے کے لئے تھا کہ حسنین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ محبت اور قلبی تعلق رکھیں۔

【38】

شہادت حسین اور ام سلمہ کا خواب

اور حضرت سلمی (جو حضرت ابورافع (رض) کی زوجہ ہیں) بیان کرتی ہیں کہ (ایک دن) میں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئی کیا دیکھتی ہوں کہ وہ رو رہی ہے میں نے پوچھا کیوں رو رہی ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا ! میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا یعنی خواب میں اس حالت میں دیکھا کہ آپ ﷺ کا سر اور داڑھی گرد آلود ہے پھر جب میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ، آپ ﷺ گرد آلود کیوں ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا میں ابھی حسین کے قتل گاہ میں موجود تھا اور وہاں دیکھ رہا تھا کہ میرے جگر کے ٹکڑے کو ظالموں نے کس بےدردی کے ساتھ شہید کیا) اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے تشریح ام المؤمنین حضرت ام سلمہ (رض) کی وفات ٥٩ ھ میں ہوئی اور بعض حضرات نے ان کا سن وفات ٦٣ ھ لکھا ہے لیکن زیادہ صحیح قول پہلا ہی ہے۔ ادھر حضرت امام حسین کی شہادت عظمی کا سانحہ ٦١ ھ میں پیش آیا ہے حضرت ام سلمہ (رض) کے سن وفات کے بارے میں اگر دوسرے قول کو صحیح مانا جائے تو اس حدیث کے تحت کوئی اشکال لازم نہیں آتا ہاں پہلے قول کو صحیح ماننے کی صورت میں تھوڑا اشکال لازم آتا ہے مگر اس تاویل سے یہ بھی رفع ہوجاتا ہے کہ حضرت امام حسین (رض) کی شہادت کا سانحہ پیش آنے سے پہلے ہی حضرت ام سلمہ (رض) کے خواب میں اس کا وقوع دکھا دیا گیا تھا اس سورت میں لفظ انفاً (ابھی) کے استعمال کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ اس لفظ کا استعمال اس صورت حال کی تحقیق کے اعتبار سے ہے جو بصورت شہادت حسین آنحضرت ﷺ کے خواب میں اس وقت دکھائی گئی تھی۔

【39】

آنحضرت ﷺ کو اپنے اہل بیت میں سب سے زیادہ محبت حسن و حسین سے تھی

اور حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ کے اہل بیت میں سے کون شخص آپ کو سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا حسن اور حسین اور (انس (رض) نے یہ بیان کیا کہ) آنحضرت ﷺ (کسی وقت حسن و حسین کو گھر میں نہ دیکھتے تو) حضرت فاطمہ (رض) سے فرماتے کہ میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ۔ پھر (جب حسن و حسین آجاتے تو) آپ ﷺ ان دونوں کے جسموں کو سونگھتے (کیونکہ وہ آپ ﷺ کے پھول تھے) اور ان کو اپنے گلے سے لگاتے ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【40】

حسنین سے کمال محبت کا اظہار

اور حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین آگئے وہ دونوں سرخ کرتے پہنے ہوئے تھے اور (کم سنی ناطاقتی کے سبب) اس طرح چل کر آ رہے تھے کہ گر گرپڑتے تھے چناچہ رسول کریم ﷺ (ان کو دیکھ کر منبر سے اتر آئے اور ان دونوں کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور پھر ان کو اپنے پاس بٹھا کر فرمایا اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے کہ آیت (انما اموالکم واولادکم فتنۃ) میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا (کہ ان سے چلا نہیں جا رہا ہے اور) گرتے پڑتے چلے آ رہے ہیں تو (ان کی محبت میں) مجھ کو صبر نہ ہوسکا اور میں نے اپنی بات دینی وعظ و نصیحت اور بیان احکام و مسائل کا سلسلہ منقطع کیا اور منبر سے اتر کر) ان کو گود میں اٹھا لیا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی) تشریح آنحضرت ﷺ کا خطبہ کے درمیان منبر سے اتر کر حسنین کو اٹھانا دراصل ایک ایسا عمل تھا جس کا تحرک شفقت و ترحم اور رقت و محبت کا وہ جذبہ تھا جو ان شاہزادوں کو اس حال میں دیکھ کر قلب نبوت میں امنڈ آیا تھا چونکہ اولاد اور بچوں پر شفقت و مہربانی کرنا ایک مستحسن و مستحب اور پسندیدہ حق چیز ہے اور خطبہ کے دوران خطیب کا کچھ لمحات کے لئے کسی نیک عمل کی طرف متوجہ ہوجانا جائز ہے اس خطبہ کے دوران آنحضرت ﷺ کے اس عمل کو تداخل فی العبادات کی ایک قسم کہا جائے گا آپ ﷺ نے اپنے اس عمل کو جو عذر بیان فرمایا وہ ایک تو کسر نفسی کے تحت تھا۔ دوسرے سامعین و حاضرین کو متنبہ کرنا بھی مقصود تھا کہ میرے اس عمل کو مستقل میں دلیل بنا کر خود کو عادی نہ بنالیں اور یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ جب میں نے ایسا کیا ہے تو ہر شخص جب چاہے ایسا کرسکتا ہے۔

【41】

حسنین سے کمال محبت کا اظہار

اور حضرت یعلی بن مرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حسین (رض) مجھ سے ہے اور میں حسین (رض) سے ہوں اور جس شخص نے حسین سے محبت رکھی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت رکھی حسین اسباط میں سے ایک سبط ہے۔ (ترمذی) تشریح ایک شارح نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ جس وقت یہ الفاظ ارشاد فرما رہے تھے اس وقت آپ ﷺ نے گویا نور نبوت سے اس المیہ کے پہلے ہی ادراک کرلیا تھا جو تقریبا نصف صدی بعد یزیدیوں کی طرف سے حضرت حسین (رض) کی شہادت کی صورت میں پیش آنے والا تھا۔ لہذا آپ نے اس ارشاد گرامی میں خاص طور صرف حضرت حسین (رض) کا ذکر کیا اور واضح کیا کہ میں اور میرا حسین (رض) ایک جان دو قالب ہیں ہم دونوں کے درمیان ایسا جسمانی و روحانی قرب و اتصال ہے کہ جس طرح مجھ سے محبت رکھنا واجب ہے۔ اسی طرح حسین سے محبت رکھنا واجب اور جس طرح مجھ سے مخالفت و مخاصمت رکھنا اور مجھ سے لڑنا حرام ہے۔ اسی طرح حسین سے مخالفت و مخاصمت رکھنا اور حسین سے لڑنا حرام ہے۔ اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت رکھی کیونکہ حسین سے محبت رکھنا رسول ﷺ سے محبت رکھنا اور رسول سے محبت رکھنا اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنا ہے واضح ہو کہ احب اللہ میں اگر ہ کو زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا ترجمہ وہی ہوگا جو اوپر مذکور ہوا اور اگر ہ کو پیش کے ساتھ پڑھا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا کہ (جس شخص نے حسین سے محبت رکھی) اس سے اللہ تعالیٰ محبت رکھے گا۔ حسین اسباط میں سے ایک سبط ہے یعنی حسین میرا بیٹا ہے ۔ سبط (س کے زیر کے ساتھ) کا ماخذ اصل میں سبط ہے اور سبط اس درخت کو کہتے ہیں جس کی جڑ تو ایک ہو مگر اس کی شاخیں بہت ہوں۔ پس گویا درخت کی مانند ہو اور اولاد اس کی شاخوں کی مانند۔ بعض حضرات نے سبط من الاسباط کے معنی یہ لکھے ہیں کہ حسین امتوں میں سے ایک امت ہے خیر و بھلائی اور شرف وسعادت کے اعتبار سے ایک پوری امت کے برابر ہے ایک شارح لکھتے ہیں سبط کا لفظ ولد کے معنی میں ہے اس صورت مذکورہ میں جملہ کا ترجمہ یہ ہوگا کہ حسین میری اولاد ہے سبط کے ایک معنی قبیلہ کے بھی آتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ایک آیت ہے (وَقَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا) 7 ۔ الاعراف 160) (یعنی ! اور ہم نے ان کو بارہ خاندانوں یا قبیلوں میں تقسیم کردیا) اس معنی کی مناسبت سے کہا جاسکتا ہے کہ اس جملہ سے شاید یہ مراد ہو کہ حسین ایک قبیلہ اور بڑی نسل کے مورث بنیں گے، اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں بہت برکت دے گا اور ان کی اولاد سلسلہ در سلسلہ نہ صرف یہ کہ بہت پھیلے گی بلکہ قائم و باقی رہے گی چناچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت حسین (رض) کی نسل بہت پھیلی، بہت بڑھی، ان کی اولاد میں بیشمار صحیح النسب سادات موجود ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ سبط س کے زیر اور ب کے جزم کے ساتھ) کے معنی ہیں اولاد (یعنی بیٹے یا بیٹی) کی اولاد۔ اسباط اسی کی جمع ہے۔ جیسا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی ساری اولاد کو اسباط کہا جاتا ہے۔ در اصل یہودیوں کے لئے اسباط کا لفظ معنی مستعمل ہوتا ہے جس معنی میں عرب کے لئے قبیلہ کا لفظ۔ اور سبط ب کے زبر کے ساتھ) کے معنی اس درخت کے ہیں جس کی ڈالیاں اور شاخیں بہت ہوں اور جڑ ایک ہو۔ پس حضرت حسن (رض) کو سبط سے تعبیر کرنا اس طرف اشارہ ہے ان کی نسل سے بیشمار لوگ پیدا ہوں گے۔

【42】

حسنین کی حضور ﷺ سے مشابہت

اور حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا حسن تو رسول اللہ ﷺ کے سر سے لے کر سینہ تک کے حصہ میں بہت مشابہ ہیں اور حسین نبی کریم ﷺ کے سینہ کے بعد سے جسم کے باقی حصہ (یعنی پنڈلی اور پاؤں وغیرہ) میں بہت مشابہ ہیں۔ (ترمذی) تشریح گویا دونوں شاہزادے مل کر آنحضرت ﷺ کی پوری شبیہ تھے اور آنحضرت ﷺ کا جسم مبارک ان دونوں کے درمیان منقسم۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا۔

【43】

فاطمہ اور حسنین کی فضیلت

اور حضرت حذیفہ بن الیمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ (ایک روز) میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں آج مغرب کی نماز جا کر رسول کریم ﷺ کے ساتھ پڑھوں اور پھر آنحضرت ﷺ سے درخواست کروں کہ وہ میرے اور آپ کے لئے بخشش و مغفرت کی دعا فرمائیں چناچہ (میری والدہ نے مجھے اجازت دے دی اور) میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی آپ ﷺ (مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد) نوافل پڑھتے رہے یہاں تک کہ پھر عشاء کی نماز پڑھی اور جب آپ ﷺ نے میری آواز (یعنی میرے قدموں یا جوتوں کی آواز) سن لی (یا یہ کہ میں نے کسی سے کوئی بات کی جس کی آواز آپ نے بھی سن لی، چناچہ آپ ﷺ نے پوچھا کون ہے (جو اس وقت اپنے گھر جانے کے بجائے میرے پیچھے پیچھے آ رہے ہو) اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو عفو و بخشش سے نوازے (دیکھو) یہ ایک فرشتہ ہے جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا، اس (فرشتہ) نے اپنے پروردگار سے اس بات کی اجازت لی ہے کہ (زمین پر) آ کر مجھ کو سلام کرے اور مجھ کو یہ خوشخبری سنائے کہ فاطمہ (رض) جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسن و حسین (رض) جنتی جوانوں کے سردار ہیں اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح مجھے اجازت دیجئے شاید حذیفہ (رض) کا مکان مسجد نبوی سے خاصے فاصلہ پر رہا ہوگا اور ان کی والدہ یا تو خود اپنی تنہائی کی وجہ سے یہ حذیفہ کے تئیں احتیاط کے پیش نظر ان کو اس وقت اتنی دور جانے سے منع کر رہی ہوگی۔ یہاں تک کہ پھر عشاء کی نماز پڑھی اس سے مغرب و عشاء کے درمیان نوافل میں مشغول رہنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جس کو مشائخ کے ہاں احیاء ما بین العشائین کہا جاتا ہے۔ پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا اس میں اس مقصد کی اہمیت و عظمت کی طرف اشارہ ہے جس کے لئے وہ فرشتہ زمین پر اترا تھا۔

【44】

اچھی سواری، اچھا سوار

اور حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ (ایک روز) رسول کریم ﷺ حسن بن علی (رض) کو اپنے کندھے پر بٹھائے ہوئے تھے کہ ایک شخص بولا اے (خوش نصیب) منے ! کیسی اچھی سواری پر تم سوار ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا اور سوار بھی تو کتنا اچھا ہے۔ (ترمذی) تشریح آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ سواری تو اچھی ہے ہی لیکن خود سوار بھی بہت اچھا ہے پس ان الفاظ سے حضرت حسن (رض) کی کمال توصیف و منقبت اور نہایت فضیلت کا اظہار ہوتا ہے۔

【45】

حضرت اسامہ کی فضیلت

اور حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے (اپنے زمانہ خلافت میں) اسامہ بن زید (رض) کی سالانہ تنخواہ تین ہزار پانچ سو درہم مقرر کی اور اپنے فرزند عبداللہ کی تین ہزار درہم۔ اس پر عبداللہ نے اپنے باپ سے عرض کیا کہ آپ نے اسامہ (رض) کو مجھ پر کیوں ترجیح دی (کہ میری تنخواہ ان سے پانچ سو درہم کم رکھی) حالانکہ واللہ اسامہ (رض) نے کسی مشہد میں مجھ پر سبقت و بازی حاصل نہیں کی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ اسامہ (رض) کا باپ (زید) رسول کریم ﷺ کو تمہارے باپ (یعنی مجھ سے) زیادہ عزیز و محبوب تھے لہذا میں نے رسول کریم ﷺ کے محبوب (اسامہ) کو اپنے محبوب (یعنی تم) ترجیح دی۔ (ترمذی) تشریح مشہد کے معنی ہیں حاضر ہونے کی جگہ جہاں کسی اچھے کام یا اچھی بات میں حصہ لیا جائے لیکن یہاں یہ لفظ شہید ہونے کی جگہ یعنی میدان جنگ اور معرکہ جنگ کے معنے میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کا شکوہ اس احساس کی بناء پر تھا کہ جب اسامہ (رض) کی تنخواہ میری تنخواہ سے زیادہ مقرر کی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسامہ (رض) کو مجھ پر فضیلت و برتری حاصل ہے، حالانکہ علمی، دینی اور خدماتی لحاظ سے اسامہ (رض) کا مرتبہ میرے مرتبہ سے یقینا کم ہے، اس پر حضرت عمر (رض) نے ان کو سمجھایا کہ اسامہ کی تنخواہ اس لئے زیادہ ہے کہ وہ باعتبار علم و عمل اور خدمات کے تم سے افضل ہیں بلکہ اس محبت خاص کی رعایت سے ہے جو ان سے رسول کریم ﷺ کو تھی اور کسی کا دوسروں کے مقابلہ پر زیادہ محبوب ہونا اس بات کو مستلزم نہیں ہوتا کہ وہ ان دوسروں سے افضل بھی ہو، رہی یہ بات کہ حضرت اسامہ (رض) اور ان کے والد حضرت زید (رض) آنحضرت ﷺ کو زیادہ عزیز و محبوب تھے تو اس کی ایک ظاہر سی وجہ تو یہی ہے کہ وہ دونوں اس اعتبار سے آنحضرت ﷺ کے اہل بیت میں سے تھے کہ آپ ﷺ کے آ زاد کردہ غلام تھے اور کسی شخص کا آزاد کردہ غلام اس کے افراد خانہ میں شمار ہوتا ہے۔

【46】

حضرت زید کا آنحضرت ﷺ کو چھوڑ کر اپنے گھر جانے سے انکار

اور حضرت جبلہ بن حارثہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے بھائی زید کو میرے ساتھ بھیج دیجئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ زید موجود ہے (اور اپنی مرضی کا مختار ہے) اگر یہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو میں اس کو منع نہیں کرتا، زید نے یہ سن کر) کہا یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ کی قسم میں آپ ﷺ (کی صحبت و خدمت میں رہنے کی سعادت) پر کسی کو بھی ترجیح نہیں دیتا (خواہ وہ بھائی یا والدین ہی کیوں نہ ہوں) جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے (زید کا یہ فیصلہ سنا تو) مان لیا کہ میرے بھائی کی عقل میری عقل سے بڑھی ہوئی ہے۔ (ترمذی) تشریح میں اس کو منع نہیں کرتا یعنی جب میں اس کو آزاد کرچکا ہوں تو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق اس کو مل گیا ہے اب نہ تو میں اس کو جانے سے روک سکتا ہوں اور نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ چلے جاؤ وہ جانا چاہے تو چلا جائے اور نہ جانا چاہے تو شوق سے میرے پاس رہے۔ میری عقل سے بڑھی ہوئی ہے جبلہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ پہلے تو میری رائے یہ تھی کہ زید کو میرے اپنے گھر واپس چلنا چاہئے مگر زید کا فیصلہ سننے کے بعد ان کی رائے کی اصابت اور برتری کا میں قائل ہوگیا۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کی صحبت و خدمت میں رہنے والا کوئی بھی صاحب ایمان اس دنیاوی و آخروی سعادت و عظمت اور خیر و بھلائی کو چھوڑنے پر آمادہ ہو ہی نہیں سکتا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حضرت زید (رض) کے بھائی کے آمد اور ان کو اپنے ساتھ وطن لے جانے کی درخواست پیش کرنے کا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حضرت زید غلام نہیں رہ گئے تھے بلکہ آنحضرت ﷺ ان کو خلعت آزادی سے سرفراز فرما چکے تھے اور اپنی مرضی کے پوری طرح مختار تھے، لیکن ظاہر ہے کہ خدمت بابرکت اور صحبت پر سعادت کی لذت ان کو کہاں جانے دیتی تھی۔ حضرت زید بن حارثہ (رض) کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے وہ یمن کے باشندہ تھے بچپن میں جب کہ ان کی عمر آٹھ سال کی تھی کچھ قریش مکہ ان کو پکڑ کر لائے تھے اور بطور غلام بازار میں فروخت کر ڈالا تھا، حضرت خدیجہ (رض) کے بھتیجے حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ (رض) کے لئے ان کو خرید لیا تھا۔ جب حضرت خدیجہ (رض) آنحضرت ﷺ کے نکاح میں آئیں تو انہوں نے زید (رض) کو بطور ہدیہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ اور اپنی آزاد کردہ لونڈی ام یمن سے ان کا نکاح کردیا، ام یمن کے بطن سے حضرت اسامہ (رض) پیدا ہوئے، بعد ازاں آنحضرت ﷺ نے زید (رض) کا دوسرا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش (رض) سے کیا جن کو کچھ دنوں بعد حضرت زید (رض) نے طلاق دے دی بعض حضرات کے قول کے مطابق بیس سال چھوٹے تھے۔ بدر اور دوسرے غزوں میں شریک ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں ان کا بھائی چارہ حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) کے قائم کیا تھا غزوہ موتہ ٨ ھ بعمر ٥٥ سال شہید ہوئے۔

【47】

اسامہ کے تئیں شفقت ومحبت کا اظہار

اور حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان دنوں جب کہ رسول کریم ﷺ (مرض وفات میں) بہت زیادہ کمزور اور نحیف ہوچکے تھے، میں اور دوسرے لوگ مدینہ میں اترے، میں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ ﷺ پر خاموشی طاری تھی (یعنی شدت مرض و ضعف کے سبب طاقت گویائی بھی باقی نہیں رہ گئی تھی) چناچہ (مجھ کو دیکھ کر) آپ ﷺ زبان سے کچھ نہیں بولے تاہم رسول کریم ﷺ نے یہ ضرور کیا کہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر مجھ پر رکھتے اور پھر اٹھاتے (نور ولایت اور ظہور فراست کے سبب) میں سمجھ گیا کہ آنحضرت ﷺ میرے حق میں دعا فرما رہے ہیں، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح آنحضرت ﷺ نے حضرت اسامہ (رض) کی ماتحتی میں مہاجرین و انصار کا ایک لشکر تیار کیا تھا جو محاذ جنگ کو روانہ ہونے کے لئے مدینہ سے باہر پڑاؤ ڈالے ہوئے لیکن آنحضرت ﷺ کی مرض وفات کی خبر سن کر یہ لشکر مدینہ میں واپس آگیا تھا، اسی موقعہ کا ذکر حضرت اسامہ (رض) نے کہا ہے۔ مدینہ میں آنے کو حضرت اسامہ (رض) نے جو ہبوط سے تعبیر کیا ہے جس کے معنی اوپر سے نیچے اترنے کے ہیں تو وہ اس مناسبت سے ہے کہ لشکر نے جس جگہ پڑاؤ ڈال رکھا تھا وہ نواح مدینہ کے بالائی حصہ میں واقع تھی جس کو جوف کہا جاتا تھا جیسا کہ میدان عرفات مکہ کے بالائی نواح میں واقع ہے اہل عرب کا یہ اسلوب ہے کہ وہ ایسے مواقع پر گفتگو و کلام میں بلندی و نشیب کی لفظی رعایت رکھتے، چناچہ اگر ان کو یہ کہنا ہو کہ ہم عرفات گئے (تو یوں کہیں گے ہبطنا الی مکۃ یعنی ہم مکہ سے عرفات کو چڑھے اسی طرح مدینہ سے جوف کو جانا صعود (چڑھنے) سے تعبیر کیا جاتا تھا اور جوف سے مدینہ میں آنے کو ہبوط سے تعبیر کرتے تھے اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد حرام کے اندر سے باب السلام کی طرف جاتا ہے جو عرفات کی سمت میں ہے تو یوں کہتا ہے۔ صعدنا الی باب السلام۔ ملا علی قاری نے ہبطت وہبط الناس المدینۃ کا ترجمہ یہ بیان کیا ہے کہ میں اپنے مکان سے (جو نواح شہر کے بالائی حصہ میں تھا) مدینہ میں اترا اور دوسرے لوگ بھی اپنے مکانوں سے مدینہ میں اترے۔ میرے حق میں دعا فرما رہے ہیں یعنی آنحضرت ﷺ کے دل میں اسامہ (رض) کی جو محبت اور ان کی خدمت اطاعت کی جو قدر تھی اس کی بناء پر آپ ﷺ نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ اس سے حضرت اسامہ (رض) کے تئیں آنحضرت ﷺ کے کمال کرم و عنایت اور شفقت و مہربانی کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایسے سخت و نازک وقت میں بھی ان کو اپنی دعاؤں سے نوازا۔

【48】

اسامہ کے تئیں شفقت ومحبت کا اظہار

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے حضرت اسامہ (رض) (کے بچپن میں ان) کی رینٹ کو صاف کرنا چاہا (جیسا کہ بچوں کی ناک صاف کردیا کرتے ہیں) تو میں نے (اس بات کو خلاف ادب جان کر کہ میری موجودگی میں اسامہ کی رینٹ کو آنحضرت ﷺ صاف کریں) عرض کیا کہ آپ رہنے دیجئے یہ کام میں کر دوں گی آپ ﷺ نے فرمایا عائشہ ! تم اسامہ سے محبت رکھو کیونکہ میں اس کو عزیز و محبوب رکھتا ہوں۔ (ترمذی) تشریح آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) کو گویا اس طرف متوجہ فرمایا کہ اگر اسامہ (رض) سے تم کو طبعا محبت و انسیت نہ بھی ہو تو بھی اس بناء پر کہ محبوب بھی محبوب ہوتا ہے اسامہ کو عزیز و محبوب رکھو کیونکہ میں اس کو عزیز محبوب رکھتا ہوں حقیقت میں کمال محبت یہی ہے کہ محبوب سے گزر کر اس کے متعلقین اور اس سے وابستہ چیزوں تک سرایت کر جائے خواہ وہ آدمی ہوں یا دیار وطن وغیرہ۔

【49】

اسامہ کے تئیں شفقت ومحبت کا اظہار

اور حضرت اسامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) میں (آنحضرت ﷺ کے دروازہ پر) بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) آئے جو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری کی اجازت کے طلب گار تھے چناچہ ان دونوں نے اسامہ (رض) سے (جو ان دنوں چھوٹی عمر کے تھے) کہا کہ تم رسول کریم ﷺ سے ہمارے لئے حاضری کی اجازت طلب کرو میں نے (گھر کے اندر جا کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) حاضری کی اجازت کے طلب گار ہیں آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) مجھ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو یہ دونوں کس مقصد سے آئے ہیں ؟ میں نے عرض کیا مجھ کو معلوم نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا لیکن میں جانتا ہوں، جاؤ ان دونوں کو اندر بلا لاؤ چناچہ دونوں حضرات اندر آئے اور بولے کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ کی خدمت میں یہ سوال لے کر آئے ہیں کہ آپ ﷺ کے اہل بیت میں سے کون شخص آپ ﷺ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میری بیٹی فاطمہ بنت محمد ﷺ مجھ کو زیادہ محبوب ہے ان دونوں حضرات نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا تعلق آپ کے گھر والوں یعنی اولاد و ازواج سے نہیں ہے (بلکہ آپ کے دوسرے اقا رب و متعلقین سے ہے) آپ نے فرمایا میرے گھر والوں میں سے وہ شخص میرے نزدیک زیادہ عزیز و محبوب ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام و فضل کیا اور میں نے بھی اس کو انعام و احسان سے نواز اور وہ اسامہ بن زید (رض) ہے حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) نے پوچھا پھر اسامہ (رض) کے بعد کون شخص (آپ ﷺ کو زیادہ محبوب و عزیز ہے) آپ ﷺ نے فرمایا پھر علی بن ابی طالب (یہ سن کر) حضرت عباس (رض) بولے یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے اپنے چچا (یعنی مجھ کو) اپنے گھر والوں میں آخر میں رکھا ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا علی (رض) نے ہجرت میں تم پر سبقت کی ہے (ترمذی) اور روایت ان عم الرجل صنو ابیہ (جو حضرت عباس (رض) کی منقبت میں ہے) پیچھے کتاب الزکوۃ میں نقل کی جا چکی ہے۔ تشریح اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام و فضل کیا ہے اور میں نے بھی اللہ تعالیٰ کے انعام و فضل سے تو مراد قبول اسلام کی توفیق ملنا ہدایت و راستی کی دولت سے سرفراز ہونا اور عزت و اکرام کا ملنا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے انعام و احسان ہیں سے مراد خلعت آزادی سے سرفراز ہونا، متبنی رسول کا شرف حاصل ہونا اور پروردہ تربیت یافتہ رسول کا اعزاز ملنا ہے جاننا چاہئے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے یہ وہ انعام و احسان ہیں جو اصل میں تو حضرت اسامہ (رض) کے والد حضرت زید (رض) کی نسبت ہے قرآن کریم میں مذکور ہیں لیکن باپ کو حاصل ہونے والے انعامات چونکہ اس کے بیٹے تک بھی بہر صورت پہنچتے ہیں اس اعتبار سے آنحضرت ﷺ نے اس آیت کریمہ اگرچہ زید کے حق میں نازل ہوئی ہے مگر اس میں جن انعامات کا ذکر ہے وہ زید کو حاصل تھے ہی لیکن زید کا بیٹا اور اس کا تابع ہونے کی حیثیت سے وہ انعامات اسامہ کو بھی حاصل ہیں اور اسی لئے دونوں ہی باپ بیٹا مجھ کو زیادہ عزیز و محبوب ہیں۔ پھر علی بن ابی طالب (رض) یعنی آپ ﷺ نے اپنے نزدیک عزیز و محبوب ہونے میں حضرت علی (رض) کو حضرت اسامہ (رض) کے بعد درجہ دیا اور یہ اہل سنت و جماعت کے اس مسلک کی واضح دلیل (نص جلی) ہے کہ زیادہ عزیز و محبوب ہونا افضلیت کے مترادف نہیں ہے، یعنی جو شخص اسامہ (رض) سے افضل ہیں، علاوہ ازیں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت اسامہ (رض) کے زیادہ عزیز اور محبوب ہونا کی جو وجہ بیان فرمائی اس کی بنا پر یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ محبت وتعلق میں آنحضرت ﷺ کے نزدیک حضرت اسامہ (رض) کو حضرت علی (رض) پر علی الاطلاق فوقیت و ترجیح حاصل تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں تعدد وجوہ و حیثیات کا اعتبار مدنظر رکھنا ضروری ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت اسامہ (رض) تو بسبب خدمت گزاری وغیرہ کے زیادہ محبوب تھے اور حضرت علی (رض) قرابت اور علم و فضل کے اعتبار سے زیادہ محبوب تھے، پس آنحضرت ﷺ بعض جہات سے حضرت اسامہ (رض) کو زیادہ محبوب رکھتے تھے اور بعض جہات سے حضرت علی (رض) کو آپ ﷺ نے اپنے چچا کو۔ حضرت عباس (رض) کا مطلب یہ تھا کہ اب اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ پھر علی (رض) کے بعد اہل بیت میں سے کون شخص آپ ﷺ کو عزیز و محبوب ہے، تو یقینا آپ کا جواب میرے بارے میں ہوگا جس کے معنی یہ ہیں کہ میرا درجہ علی (رض) کے بھی بعد کا ہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے واضح کیا کہ تم سے پہلے علی (رض) کا میرے نزدیک زیادہ عزیز و محبوب ہونا قرابت و رشتہ داری کے کسی طبعی تقاضہ کی بناء پر نہیں بلکہ ان کی اس فضیلت کی بناء پر ہے کہ انہوں نے جس طرح قبول اسلام میں تم پر سبقت حاصل کی تھی اسی طرح ہجرت میں بھی ان کو تم پر سبقت حاصل ہے۔ اس کی نظیر وہ روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک روز حضرت عباس (رض) ، حضرت ابوسفیان (رض) ، حضرت بلال حبشی (رض) اور حضرت سلمان فارسی (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) ، کے ہاں آئے اور دروازے پر کھڑے ہو کر اندر آنے کی اجازت چاہی، خادم نے اندر جا کر حضرت عمر فاروق (رض) عنہ، کو ان حضرات کی آمد کی اطلاع دی اور پھر باہر آ کر بولا کہ (پہلے) بلال کو اندر جانے کی اجازت ہے۔ حضرت ابوسفیان (رض) (کو یہ بات ناگوار ہوئی کہ میری اور عباس کی موجودگی میں پہلے بلال کو اندر جانے کی اجازت کیسے مل گئی چناچہ وہ) حضرت عباس (رض) سے بولے کہ تم نے دیکھا، عمر آزاد کردہ غلاموں کو ہم پر فوقیت دیتے ہیں، حضرت عباس (رض) نے جواب دیا کہ ہم (قبول اسلام اور ہجرت میں) جو پیچھے رہ گئے تھے یہ اسی کا نتیجہ ہے۔

【50】

حسن آنحضرت ﷺ سے بہت مشابہ تھے

حضرت عقبہ بن حارث (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) (اپنے زمانہ خلافت میں یا اس سے پہلے ایک دن) عصر کی نماز پڑھ کر باہر نکلے اور (کہیں جانے کے لئے) چلنے لگے، اس وقت ان کے ساتھ حضرت علی (رض) بھی تھے (راستہ میں) حضرت ابوبکر (رض) نے جب حسن (رض) کو دیکھا جو بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو ان کو اٹھا کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا (از راہ خوش طبعی) بولے میرا باپ قربان ہو، یہ (حسن) نبی کریم ﷺ سے بہت مشابہ ہیں علی (رض) کے مشابہ نہیں ہے (یہ سن کر) حضرت علی (رض) (اظہار خوشی کے طور پر) ہنسنے لگے۔ (بخاری )

【51】

شہید اعظم کے سر مبارک کے ساتھ ابن زیاد کا تمسخر و استہزا ء

اور حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت حسین (رض) کا سر مبارک ( تن پاک سے جدا کر کے) عبیداللہ بن زیاد کے سامنے لا کر ایک طشت میں رکھا گیا تو وہ بدبخت اپنی چھڑی سے اس سر مبارک کو چھڑنے لگا (یعنی حضرت حسین (رض) کے تئیں اپنی نفرت و حقارت ظاہر کرنے کے لئے چھڑی کا سرا بار بار ناک وغیرہ پر مارتا رہا) پھر اس نے ان کے حسن کے بارے میں کچھ کہا حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے (اس شقی کی یہ حرکت دیکھ کر اور اس کے الفاظ کو سن کر) کہا، اللہ کی قسم یہ مقدس انسان ہے جو اہل بیت میں سے سب سے زیادہ رسول کریم ﷺ سے مشابہ تھا اس وقت حضرت حسین (رض) کا سر مبارک وسمہ سے رنگا ہوا تھا (بخاری) اور ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت انس (رض) نے بیان کیا اس وقت میں ابن زیاد کے پاس موجود تھا میں نے کہا تجھے معلوم بھی ہے، یہ وہ شخص ہے جو رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھا۔ ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح حسن غریب ہے۔ تشریح اور طبرانی نے حضرت انس (رض) کے الفاظ یوں نقل کئے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اپنی چھڑی سے جو اس کے ہاتھ میں تھی حضرت حسین (رض) کی آنکھ اور ناک کو کو چنے لگا تو میں نے کہا (ارے بدبخت) اپنی چھڑی ہٹا لے، جن جگہوں کو تو اپنی چھڑی سے کوچ رہا ہے، وہاں میں نے رسول اللہ ﷺ کا منہ رکھا ہوا دیکھا ہے اور براز کی روایت میں حضرت انس (رض) کے الفاظ یوں ہیں کہ میں نے عبیداللہ بن زیاد کو مخاطب کر کے کہا، جہاں تو اپنی چھڑی سے کوچ رہا ہے وہاں میں نے رسول اللہ ﷺ کو سونگھتے دیکھا ہے، میرے یہ کہنے پر ابن زیاد نے اپنی چھڑی ہٹا لی۔ بہرحال عبیداللہ بن زیادہ وہ شخص ہے جو کوفہ میں یزید بن معاویہ کا گورنر تھا اور یزید نے اسی کو اس لشکر کا کماندار بنایا تھا جو حضرت حسین (رض) کو شہید کرنے کے لئے متعین ہوا تھا، اس شخص نے جس بےدردی سے حضرت حسین (رض) اور ان کے رفقاء و اعزاء کو قتل کرایا اور پھر بعد میں حضرت حسین (رض) کے سر مبارک کے ساتھ جس تمسخر و استہزا بلکہ حقارت و تنفر کا سلوک کیا وہ اس کی شقاوت قلبی کا ثبوت ہے چناچہ خود اس کو قدرت کے انتقام کا اس طرح شکار ہونا پڑا کہ ٦٦ ھ میں مختیار بن عبید کے زمانہ میں بمقام موصل ابراہیم بن مالک ابن الاشتر النخعی کے ہاتھوں اپنے بہت سارے لوگوں کے ساتھ موت کے گھاٹ اترا اور ذخائر میں عمارۃ بن عمیر کی روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا جب میدان جنگ سے ابن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سرتن سے جدا کر کے شہر کی جامع مسجد میں لائے گئے تو اس وقت مسجد کے چبوترہ پر میں بھی موجود تھا، ابن زیاد کا کٹا ہوا سر وہأں رکھا ہوا تھا، اچانک لوگوں نے ایک طرف کو دیکھ کر چلانا شروع کیا وہ آیا وہ آیا، میں نے جو دیکھا تو ایک سانپ تیزی سے ابن زیاد کے سر کی طرف چلا آ رہا تھا اور آنا فانا اس کے نتھنے میں گھس گیا، کچھ دیر وہ اندر رہا پھر وہ باہر نکل کر چلا گیا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ آیا وہ آیا کا شور پھر بلند ہوا اور وہ سانپ تیزی سے آ کر ابن زیاد کے نتھنے میں گھس گیا اور کچھ دیر رہ کر پھر نکلا اور چلا گیا، یہ عجیب و غریب ماجرا دو یا تین بار پیش آیا۔ پھر اس نے اس کے حسن کے بارے میں کچھ کہا اس جملہ کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ ابن زیاد نے حضرت حسین (رض) کا سر مبارک دیکھ کر ان کے حسن اور ان کی خوبصورتی کے بارے میں کوئی عیب جو نہ بات کہی، لیکن ایک مطلب جو ترمذی کی روایت سے ظاہر بھی ہوتا ہے یہ ہوسکتا ہے کہ ابن زیاد نے اس وقت حضرت حسین (رض) کے حسن و جمال کے بارے میں تعریف و تحسین کے اس طرح مبالغہ آمیز الفاظ استعمال کئے جسے کوئی مذاق اڑانے والا کیا کرتا ہے وہ الفاظ ظاہر تو تعریف کے تھے مگر حقیقت میں اس خوشی کے اظہار کے لئے جو اس بدبخت کو حضرت حسین (رض) کے قتل سے حاصل ہوئی تھی تمسخر و استہزاء کے طور پر تھے۔

【52】

ایک خواب جس میں ولادت حسین کا مثردہ تھا ایک پیشن گوئی جس میں قتل حسین کی پیش خبری تھی

اور حضرت ام فضل بنت حارث سے جو حضرت عباس کی زوجہ اور آنحضرت ﷺ کی چچی ہیں روایت میں ہے کہ وہ (ایک روز) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر بولیں کہ یا رسول اللہ ﷺ آج کی رات میں نے ایک ڈراؤ نا خواب دیکھا ہے (نہ تو میں اس کو بیان کرنا پسند کرتی ہوں اور نہ آپ اس کو سن کر پسند کریں گے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا (مجھ کو سناؤ تو سہی آخر وہ کیا ہے، ام فضل (رض) نے کہا میں نے دیکھا کہ گویا آپ کے جسم مبارک سے ایک ٹکڑا کاٹا گیا ہے اور میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔ ( یہ سن کر) رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم نے تو بہت اچھا اور مبارک خواب دیکھا ہے ( اس کی تعبیر یہ ہے) کہ انشاء اللہ فاطمہ (رض) کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور اس لڑکے کو تمہاری گود میں دیا جائے گا (کیونکہ خاندان کی عورتوں میں تمہارا ہی رشتہ بڑا ہے اور تم اس لڑکے کی زیادہ بہتر طور پر تربیت کرسکو گی) چناچہ فاطمہ (رض) کے ہاں لڑکا (حسین) پیدا ہوا اور جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا اس لڑکے کو میری گود میں دیا گیا۔ پھر ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور حسین (رض) آپ کی گود میں دے کر ذرا دوسری طرف متوجہ ہوگئی اور پھر (مڑ کر میں نے جو آپ ﷺ کی طرف نظر اٹھائی) تو کیا دیکھتی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو جاری ہیں، ام فضل (رض) کہتی ہیں میں نے (گھبرا کر) پوچھا اے اللہ کے نبی، میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، آپ ﷺ کو کیا ہوا (جو رو رہے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا (ابھی میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امت (یعنی مسلمانوں ہی میں سے بعض لوگوں کی جماعت) میرے اس بیٹے کو (نہایت ظالمانہ طریقے سے) عنقریب قتل کر دے گی، میں نے (بڑی حیرت سے ساتھ) پوچھا کیا اس بیٹے کو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں (اسی بیٹے کو) بلکہ جبرائیل تو میرے پاس اس خاک زمین سے کچھ مٹی بھی لے کر آئے تھے ( جہاں میرے اس جگر پارے کا خون بہایا جائے گا) اور وہ مٹی سرخ تھی۔ تشریح ایک روایت ذخائر میں سلمی سے منقول ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک روز میں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئی تو دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں میں نے رونے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے (خواب میں) رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ آپ کے سر اور ریش مبارک پر خاک اور دھول جمی ہوئی تھی جب میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ اس حالت میں کیوں ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا میں ابھی قتل گاہ حسین سے ہو کر آ رہا ہوں اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے نیز بغوی نے بھی یہ روایت حسان میں نقل کی ہے۔

【53】

شہادت حسین اور ابن عباس کا خواب

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا ایک دن دوپہر میں میں نے نبی کریم ﷺ کو اس طرح دیکھا جیسے کوئی سونے والا کسی کو دیکھتا ہے (یعنی خواب دیکھا) کہ آپ ﷺ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلودہ ہیں اور آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک بوتل ہے جو خون سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان یہ کیا ہے (یعنی حادثہ پیش آیا ہے کہ آپ نہایت پریشان حال اور گرد آلود ہیں اور ایک خون بھری بوتل ہے) آپ ﷺ نے فرمایا یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے جس کو میں نے آج قتل گاہ حسین میں صبح سے اب تک اس بوتل میں اکٹھا کیا کرتا رہا ہوں، حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ (اس خواب کے بعد میری آنکھ کھل گئی) اور پھر میں نے اس وقت کو یاد رکھا ( جس وقت یہ خواب دیکھا تھا) چناچہ (جب قتل حسین کی خبر آئی) تو میں نے پایا کہ شہادت حسین کا المیہ (اسی دن اور اسی وقت پیش آیا تھا) جب میں نے مذکورہ خواب دیکھا تھا) ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں اور اس دوسری روایت کو احمد نے بھی نقل کیا ہے۔

【54】

اہل بیت کو عزیز ومحبوب رکھو

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اللہ سے محبت رکھو کیونکہ وہی تمہیں اپنی نعمتوں سے رزق پہنچاتا ہے اور تمہاری پرورش کرتا ہے اور اس بناء پر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو مجھ سے محبت رکھو اور میرے اہل بیت کو میری محبت کی وجہ سے عزیز و محبوب رکھو۔ (ترمذی) تشریح اپنی نعمتوں سے رزق پہنچاتا ہے یعنی تمہیں ایسی طرح طرح کی نعمتوں سے نوازتا ہے جن سے تمہاری پرورش بھی ہوتی ہے اور تمہیں نوع بنوع لذتیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمتوں کے دروازے نہ کھولے اور اپنے خزانہ قدرت سے تمہارا رزق نہ دیتا ہے تو نہ تم زندہ رہ سکتے ہو اور نہ کھانے پینے کی کوئی لذت حاصل کرسکتے ہو تم جو کچھ کھاتے پیتے ہو وہ سب اسی کی طرف سے تمہیں پہنچتا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے آیت (فمابکم من نعمۃ فمن اللہ) حاصل یہ کہ اگر تم اللہ سے محبت صرف اس بناء پر رکھ سکتے ہو کہ وہ تمہارا پالن ہار ہے اور تمہیں نعمتیں پہنچاتا ہے تو اس کو ضرور دوست رکھو، ورنہ اللہ تعالیٰ سبحانہ عارفین محبین کے نزدیک محبوب لذاتہ وصفاتہ ہے، اس سے ہر حالت میں محبت رکھنی چاہئے خواہ وہ نعمتیں عطا کرے یا نہ کرے پس یہ حدیث معنوی اسلوب و انداز کے اعتبار ایسی ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد آیت (فلیعبدوا رب ہذا البیت) اور اس بناء پر کہ تم اللہ سے محبت رکھتے ہو یعنی جب وہ سبب ثابت و ظاہر ہوگیا جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنا لازمی ہوجاتا ہے اور اسی سبب سے تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو پھر مجھ سے بھی محبت رکھو کیونکہ محبوب کا محبوب اپنا محبوب ہوتا ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے آیت (قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ) حضرت شیخ عبد الحق دہلوی نے اپنی شرح میں لحب اللہ کے تحت یوں لکھا ہے کہ تم مجھ سے اس بناء پر محبت رکھو کہ تم اللہ سے محبت رکھتے ہو، یا یہ کہ تم مجھ سے اس بناء پر محبت رکھو کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت رکھتا ہے۔ میرے اہل بیت کو میری محبت کی وجہ سے اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ چونکہ میں اپنے اہل بیت کو عزیز و محبوب رکھتا ہوں لہٰذا تم بھی میرے اہل بیت کو عزیز و محبوب رکھو اور دوسرا مطلب یہ کہ چونکہ تم مجھ کو عزیز و محبوب رکھتے ہو لہٰذا میرے اہل بیت کو بھی عزیز و محبوب رکھو۔

【55】

اہل بیت اور کشتی نوح میں مماثلت

اور حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ (ایک دن) انہوں نے کعبہ کے دروازہ کو پکڑ کر یوں بیان کیا میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یاد رکھو، تمہارے حق میں میرے اہل بیت کی وہی اہمیت ہے جو نوح کی کشتی میں سوار ہوگیا اس نے نجات پالی اور جو شخص اس کشتی میں سوار ہونے سے رہ گیا وہ ہلاک ہوا۔ (احمد) تشر یح مطلب یہ کہ جس طرح طوفان نوح کے وقت وہی شخص زندہ سلامت بچا اور اس دنیا میں باقی رہا جو نوح (علیہ السلام) کی کشتی میں سوار ہوگیا تھا اور جو کشتی میں سوار نہیں ہوا وہ ہلاک ہونے سے بچ نہیں سکا، طوفان کی بلا خیز موجوں نے اس کا نام و نشان تک مٹا کر رکھ دیا ٹھیک اسی طرح امت محمدیہ کے حق میں اہل بیت محمد ﷺ ایک ایسی پناہ گاہ ہیں کہ جو شخص ان کے دامان عاطفت سے وابستہ ہوگیا، جس نے ان کے اکرام و احترام اور ان کی محبت و متابعت کو لازم پکڑ لیا اس نے دارین میں نجات پالی اور جو شخص ان کے دامن محبت و متابعت سے وابستہ نہیں ہوسکا وہ دونوں جہاں میں ہلاک ہونے سے بچ نہیں سکتا خواہ وہ کتنا مال لٹا دے، کیسی ہی عزت و جاہ کا سہارہ لے لے، کتنی بڑی طاقت سے اپنے آپ کو وابستہ کرلے پس آنحضرت ﷺ نے گویا دنیا اور دنیا کی چیزوں یعنی یہاں کی فریب کاریوں، کفر و شرک کی گمراہوں، بدعات و جہالت کے اندھیروں اور فاسد و بیہودہ خواہشات و آرزؤں کو ایسے گہرے اور بھپرے ہوئے سمندر سے مشابہت دی جس کی سطح پر تہ در تہ موجوں کی بلا خیزی ہو اس کے اوپر فضا میں گھنے اور کالے بادلوں کا جماؤ ہو، چاروں طرف تاریکی ہو اور سمندر نے ساری آبادیوں اور زمینوں کو گھیر رکھا ہو اور پھر آپ ﷺ نے آگاہ کیا کہ اس سمندر کی بلا خیزی اور ہلاکت آمیزی سے وہی شخص زندہ سلامت بچ سکتا ہے، نجات پاسکتا ہے جو میرے اہل بیت کی محبت کی کشتی میں سوار ہوجائے اس معنوی سیاق میں دیکھا جائے تو اس حدیث کہ جس میں فرمایا گیا ہے اصحابی مثل النجوم من اقتدی بشیء منہ اہتدی (او کما قال) اور اس کے ارشاد گرامی کہ میرے اہل بیت نوح کشتی کی مانند ہیں کے درمیان گہرا اور لطیف ربط خود بخود سمجھ میں آجاتا ہے اور اسی ربط کو سامنے رکھ کر امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ ہم اہل سنت و جماعت الحمد اللہ اہل بیت کی محبت کی کشتی میں سوار ہوئے اور راہ ہدایت کے ستاروں یعنی اصحاب محمد ﷺ کے ذریعہ راہ یاب ہوئے چناچہ ہم قیامت کی ہولنا کیوں، تاریکیوں اور دوزخ کی ہلاکت خیزیوں سے نجات کی اور درجات نجات اور وہاں کی ابدی نعمتوں تک پہنچنے کا راستہ پانے کی امید رکھتے ہیں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص اس کشتی میں سرے سے سوار ہی نہیں ہوا جیسے خوارج تو وہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اول دہلہ ہی میں ہلاک ہوگیا اور جو شخص اس کشتی میں سوار تو ہوا لیکن ہدایت کے ستاروں کے ذریعہ راستہ پانے سے محروم رہا جیسے روافض تو وہ گمراہی اور تاریکیوں میں اس طرح پھنس کر رہ گیا کہ اس کا زندہ سلامت بچ کر نکلنا ناممکن ہے۔