196. نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے مناقب کا بیان

【1】

نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے مناقب کا بیان

نبی کریم ﷺ نے پہلا نکاح مکہ میں حضرت خدیجہ (رض) بنت خویلد سے کیا، اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر ٢٥ سال اور حضرت خدیجہ (رض) کی عمر ٤٠ سال کی تھی، حضرت خدیجہ (رض) نے ہجرت سے تین سال قبل وفات پائی اور ان کے بعد مکہ ہی میں آپ ﷺ نے ایک پچاس سالہ خاتون حضرت سودہ بنت زمعہ (رض) سے نکاح کیا، اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر بھی تقریبا ٥٠ سال ہی کی تھی، حضرت سودہ (رض) کا سن وفات ٥٤ ھ یا ایک قول کے مطابق ٤١ ھ ہے حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابوبکر (رض) سے آپ ﷺ کا نکاح مکہ میں ١٠ نبوی میں ہوا جب کہ وہ چھ برس کی تھیں اور جب ١ ھ میں وہ رخصت کرا کر حضور ﷺ کے ہاں آئیں اس وقت ان کی عمر ٩ سال کی تھی ان کا سن وفات ٥٥ ھ یا ٥٨ ھ ہے حضرت حفصہ بنت عمر (رض) سے آپ ﷺ کا نکاح ٢ ھ یا ٣ ھ میں ہوا اور انہوں نے ٤١ ھ یا ٤٥ ھ میں وفات پائی حضرت زینب بنت خزیمہ (رض) ٣ ھ میں آپ کے نکاح میں آئیں اور نکاح سے کچھ ہی ماہ بعد ٤ ھ میں (اور ایک روایت کے مطابق ٣ ھ ہی میں) انتقال کر گئیں حضرت ام سلمہ (رض) بنت امیہ فخرومی سے آپ ﷺ نے ٣ ھ یا ٤ ھ میں نکاح کیا اور ان کا انتقال ٥٩ ھ میں ہوا اور ایک قول کے مطابق ٦٢ ھ میں ہوا۔ حضرت زینب بنت جحش (رض) ٥ ھ میں آپ کی زوجیت میں آئیں اور ٢٠ ھ یا ٢١ ھ میں انتقال کیا، آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد سب سے پہلے جس زوجہ مطہرہ نے انتقال کیا وہ حضرت زینب (رض) ہی ہیں۔ حضرت ام حبیبہ (رض) جو ابوسفیان کی بیٹی اور معاویہ (رض) کی بہن ہیں پہلے عبداللہ بن جحش (رض) کے نکاح میں تھی، دونوں میاں بیوی مکہ سے ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے، وہاں عبداللہ بن جحش نے عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا اور وہیں مرگیا تھا، حضرت ام حبیبہ (رض) اپنے مذہب (اسلام) پر قائم رہیں ، ٦ ھ میں نجاشی بادشاہ حبشہ نے ان کا نکاح آنحضور ﷺ سے کیا اور اپنے پاس سے ان کا مہر جو چار ہزار درہم مقرر ہوا تھا ادا کیا، حضرت ام حبیبہ (رض) نے ٤٤ ھ میں انتقال کیا، حضرت جویرہ (رض) غزوہ مریسیع میں جس کو عزوہ بنی المصطلق بھی کہتے ہیں اور جو ٦ ھ میں ہوا تھا اسیر ہو کر آئیں آنحضرت ﷺ نے ان کو آزاد کیا اور پھر ان سے نکاح کرلیا ان کا انتقال ٥٦ ھ میں ہوا حضرت میمونہ (رض) جو حضرت ابن عباس (رض) کی خالہ ہیں ٧ ھ میں آنحضرت ﷺ کی زوجیت کے شرف سے سرفراز ہوئیں ان کا انتقال ٦١ ھ یا ١٥ ھ میں ہوا، حضرت صفیہ بنت حی ابن اخطب ٧ ھ میں جنگ خبیر میں اسیر بنائی گئیں اس وقت ان کی عمر ١٧ سال کی تھی آنحضرت ﷺ نے ان کو آزاد فرمایا اور پھر ان سے نکاح کرلیا، انہوں نے ٥٠ ھ یا ایک روایت کے مطابق ٥٢ ھ میں وفات پائی آنحضرت ﷺ کی گیارہ ازواج مطہرات کی یہ وہ تعداد ہے جس پر روایات کا اتفاق ہے بارہویں زوجہ مطہرہ یعنی حضرت ریحانہ کے بارے میں اختلاف ہے، بعض حضرات نے ان کو حرم (کنیز) قرار دیا ہے، لیکن بعض دوسری روایتوں میں ہے کہ ریحانہ جو ایک یہودی خاندان کی خاتون تھیں جنگی اسیر ہو کر آئی تھیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کو آزاد کیا اور ٦ ھ میں ان سے نکاح کرلیا بہر حال آنحضرت ﷺ نے ان تمام خواتین سے، جو امت کی مائیں ہیں، نکاح کیا اور سب کے ساتھ دخول بھی فرمایا۔ بیس یا بیس سے زائد خواتین بھی تھیں جن سے نکاح کی بات چیت چلی لیکن ان سے نکاح نہیں کیا اسی طرح بعض روایتوں میں ایسی عورتوں کا بھی ذکر آتا ہے جو آپ ﷺ کے نکاح میں تھیں اور جب یہ آیت کریمہ (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ ) 33 ۔ الاحزاب 59) نازل ہوئی تو انہوں نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دی اور آپ سے جدائی اختیار کرلی۔ جہاں تک آنحضرت ﷺ کی حرموں (کنیزوں) کا تعلق ہے تو ان کی تعداد چار بیان کی جاتی ہے جن میں سے مشہور ماریہ قبطیہ ہیں جن کے بطن سے ابراہیم بن رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے تھے ان کا انتقال ١٦ ھ میں ہوا دوسری وہی حضرت ریحانہ بنت سمون یا بنت زید ہیں جن کے بارے میں بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ آپ ﷺ کے نکاح میں نہیں تھیں حرم تھی ان کو آپ نے آزاد نہیں کیا تھا اور بسبب ملک یمین ان سے مجامعت فرمائی، باقی دو میں سے ایک تو وہ کنیز تھیں جو ام المؤمنین زینب بنت جحش (رض) نے بطور ہدیہ آپ کی خدمت میں پیش کی تھی اور ایک کنیز وہ تھیں جو کسی غزوہ میں اسیر ہو کر آئی تھیں۔ مذکورہ بالا تفصیل شیخ عبد الحق دہلوی کی شرح مشکوٰۃ سے ماخوذ ہے، جو انہوں نے جامع الاصول کے حوالہ سے جمع کی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کی تعداد، ان کے نکاح کی ترتیب آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد انتقال کرنے والی ازواج مطہرات کے سنین وفات، جن ازواج کے ساتھ دخول نہیں کیا یا جن خواتین کے ہاں پیغام دیا مگر ان کے ساتھ نکاح نہیں ہوا ان سب کی تعداد کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں اور عام روایتوں میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔

【2】

خدیجۃ الکبری کی فضیلت

حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا مریم بنت عمران اپنی امت میں سب سے بہتر عورت ہیں اور خدیجہ بن خویلد اپنی امت میں سب سے بہتر عورت ہیں (بخاری ومسلم) اور ایک روایت میں ابوکریب نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت وکیع (رض) نے (جو حفاظ حدیث میں سے ہیں اور حضرت امام مالک اور ان کے ہم عصروں کے ہم پلہ ہیں) آسمان اور زمین کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا کہ اس حدیث کے مطابق یہ دونوں خواتین اپنی امتوں میں دنیا بھر کی عورتوں سے افضل و اشرف ہیں۔ تشریح اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت مریم جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ہیں اپنی امت میں اور ام المؤمنین حضرت خدیجہ (رض) اپنی امت (امت محمدیہ) میں سب عورتوں سے افضل ہیں لیکن اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ خود ان دونوں میں کون کس سے افضل ہے، حضرت خدیجہ (رض) سے افضل ہیں یا حضرت خدیجہ حضرت مریم سے افضل ہیں تاہم تفسیر نسفی میں لکھا ہے کہ صحیح قول کے مطابق حضرت مریم علی السلام حضرت خدیجہ (رض) اور حضرت عائشہ (رض) افضل ہیں کیونکہ حضرت مریم پیغمبر تو ہیں نہیں اور یہ بھی طے ہے کہ یہ امت مرحومہ دوسری تمام امتوں سے بہتر و افضل ہے تو اس بارے میں علماء کے اختلافی اقول ہیں اسی طرح حضرت عائشہ (رض) پر حضرت فاطمہ (رض) کی فضیلت بھی مختلف فیہ ہے اور امام مالک کا یہ قول ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) پیغمبر کی جگر پارہ ہیں اور میں جگر پارہ پیغمبر پر کسی خاتون کو فضیلت نہیں دیتا۔

【3】

خدیجۃ الکبری کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ ابھی خدیجہ (مکہ سے چل کر غار حرا میں) آرہی ہیں، ان کے ساتھ ایک برتن ہے جس میں سالن ( اور روٹی) ہے جب وہ آپ کے پاس پہنچ جائیں تو آپ ﷺ ان کے پروردگار کی طرف سے اور میری طرف سے بھی سلام کہہ دیجئے اور ان کو جنت میں ایک محل کی خوش خبری سنا دیجئے جو خولدار موتی ہے اور اس موتی میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و تکان ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب آنحضرت ﷺ خلوت کے لئے غار حرا چلے جاتے تھے اور کئی کئی دن تک وہاں عبادت اور ذکر الہٰی میں مشغول رہتے تھے۔ آپ ﷺ اپنے ساتھ کھانے پینے کی کچھ چیزیں (جیسے ستو) اور پانی وغیرہ لے لیتے تھے تاکہ بھوک اور پیاس کا غلبہ خلوت گزینی میں مخل نہ ہو، ایک دن خدیجۃ الکبریٰ (رض) آپ ﷺ کے کھانے پینے کا کچھ سامان خود لے کر غار حرا پہنچیں اور مذکورہ سعادت و بشارت سے سرفراز ہوئیں۔ واضح ہو کہ عام طور پر ثابت تو یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا خلوت گزینی کے لئے غار حرا میں جانا اور وہاں عبادت و ذکر میں مشغول رہنا اس زمانہ کا معمول تھا جب کہ آپ خلعت نبوت سے سرفراز نہیں ہوئے تھے اور آپ کے پاس حضرت جبرائیل کا آنا جانا شروع نہیں ہوا تھا، لیکن اس میں کجھ استبعاد نہیں کہ مرتبہ نبوت پر فائز ہوتے اور حضرت جبرائیل کی آمد شروع ہوجانے کے بعد بھی کچھ دنوں تک آپ نے یہ معمول جاری رکھا ہو اور انہی دنوں حضرت خدیجہ (رض) کسی دن آپ کے لئے کھانا لے کر غار حرا میں گئی ہوں۔ ان کو سلام کہہ دیجئے علماء نے لکھا ہے کہ رب العلمین کا سلام ایسا شرف ہے جو حضرت خدیجہ (رض) کے سوا دنیا کی کسی عورت کو حاصل نہیں ایک مرتبہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے حضرت عائشہ (رض) کو بھی سلام کہلایا تھا لیکن صرف اپنی طرف سے اسی لئے اس حدیث کو حضرت عائشہ (رض) پر حضرت خدیجہ (رض) کی فضیلت کی دلیل قرار دیا جاتا ہے۔ جو خولدار موتی کا ہے قصب کا اطلاق اس موتی پر ہوتا ہے جو بہت بڑا ہو اور اندر سے خالی ہو روایتوں میں آتا ہے کہ جنت کے محلات پر جو گنبد ہوں گے وہ دراصل قبہ جسے بڑے بڑے موتی ہوں گے جن کے اندر سے خلا ہوگا۔ لہٰذا اس جملہ کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس محل کا گنبد ایک پورا موتی ہوگا، یا یہ کہ وہ پورا محل موتی کا ہوگا یعنی ایک اتنا بڑا موتی ہوگا جس کے اندر کا خلاء ایک پورے محل پر محیط ہوگا۔ اس محل میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف اور تکان ہے بطور خاص ان دونوں چیزوں کی نفی اس اعتبار سے کی گئی ہے کہ دنیاوی گھروں میں رہنے والوں کو دو ناگوار چیزوں کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے ایک تو شور و غل کا اور دوسرے اس محنت و مشقت اور تکلیف و تکان کا جو گھروں کو بنانے، سنوارنے اور سجانے میں ہوتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جنت کے محلات ان ناگوار اور تکلیف دہ چیزوں سے خالی ہوں گے نیز علماء نے لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ (رض) کے حق میں یہ بشارت گو اس مقام کا اعلان تھا جو ان کو اس بات کے بدلہ میں عطا ہوا کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی دعوت اسلام کو سب سے پہلے بطیب خاطر اور بخوشی قبول کرلیا تھا انہوں نے خدائی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنا آبائی مذہب یک لخت اس طرح ترک کردیا کہ نہ تو کسی طرح کا شور شرابہ ہونے دیا نہ بحث و تکرار اور لڑنے جھگڑنے کے تعب میں پڑیں

【4】

حضرت خدیجہ (رض) کی خصوصی فضیلت

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی بیویوں میں جتنی غیرت اور جتنا رشک میں حضرت خدیجہ (رض) سے کرتی تھی اتنا کسی بیوی سے نہیں، حالانکہ میں نے حضرت خدیجہ (رض) کو دیکھا بھی نہیں تھا، البتہ آنحضرت ﷺ ان کو بہت یاد کرتے تھے اکثر ایسا ہوتا تھا کہ آپ ﷺ بکری ذبح کرتے اور اس کا عضو کاٹ کر بوٹیا بناتے پھر اس گوشت کو ان عورتوں کے ہاں بھجواتے جو حضرت خدیجہ (رض) کی سہیلیاں تھیں، اکثر اوقات میں آپ سے کہہ دیا کرتی تھی کہ (آپ ﷺ تو خدیجہ (رض) کے تئیں اس قدر شائستگی اور محبت ظاہر کرتے ہیں) جیسے دنیا میں ایک خدیجہ کے علاوہ اتنی خوبیوں والی اور کوئی عورت ہی نہیں آپ (میری اس بات کے جواب میں) فرماتے وہ واقعی اس طرح کی تھیں اور ایسی ہی تھیں اور پھر میری اولاد بھی تو انہی کے بطن سے ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح ایسی ہی تھیں یعنی وہ بڑی عابدہ زاہدہ تھیں روزے رکھا کرتی تھیں، شب بیدار رہتی تھیں، میری خدمت اور میری امداد و راحت رسانی میں بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتی تھیں، حسن سلوک اور احسان کیا کرتی تھیں وغیرہ وغیرہ حضرت خدیجہ (رض) کی ان خوبیوں کو صریحا ذکر کرنے کے بجائے مبہم فرمانے سے آپ ﷺ کا مقصد ان کی حیثیت و فضیلت کو زیادہ بلیغ انداز میں پیش کرنا اور اس طرف اشارہ کرنا ہوتا تھا کہ ان کے اوصاف اور خوبیاں حد شمار و قیاس سے باہر ہیں۔ میری اولاد بھی تو انہی کے بطن سے ہے اس سے حضرت خدیجہ (رض) کی اس خاص فضیلت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا تھا جس کی ہمسری کا دعوی آنحضرت ﷺ کی کوئی بھی زوجہ مطہرہ نہیں کرسکتی تھیں، چناچہ آنحضرت ﷺ کی تمام اولاد امجاد حضرت خدیجہ (رض) ہی کے بطن سے ہوئی، سوائے ابراہیم بن محمد ﷺ کے جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے اور وہ آپ کی حرم تھیں اور اولاد بھی ایسی کہ جس میں حضرت فاطمہ زہرا جیسی بیٹی بھی شامل ہیں، جن کے فضائل و مناقب کا کوئی ٹھکانا نہیں باقی ازواج سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، دوسری طرف یہ نکتہ موجود ہے کہ عورتوں سے خاص تر غرض اور ان کا سب سے بڑا فائدہ ان سے اولاد کا ہونا ہے۔ خدیجہ الکبری ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری (رض) خویلد بن اسد کی بیٹی ہیں جو عرب کے مشہور تاجر اور قریش کے معزز و نامور فرد تھے حضرت خدیجہ (رض) کا پہلا نکاح ابن ہالہ بن زرارہ سے ہوا تھا، اس کے فوت ہوجانے کے بعد دوسرا نکاح عتیق بن عائد سے ہوا تھا ان کا تیسرا نکاح جب آنحضرت ﷺ سے ہوا تو اس وقت ان کی عمر ٤٠ سال تھی اور نبی کریم ﷺ کا یہ پہلا نکاح تھا آپ نے نہ تو ان سے پہلے کسی عورت سے نکاح کیا تھا اور نہ ان کی موجودگی میں کسی اور سے نکاح کیا۔ حضرت خدیجہ (رض) کو اول مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہے یعنی تمام مردوں اور عورتوں میں سب سے پہلے انہوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کا انتقال بعمر ٦٥ سال آنحضرت ﷺ کی ہجرت مدینہ سے پانچ سال قبل مکہ معظمہ میں ہوا۔ بعض حضرات نے ان کا سن وفات ہجرت سے چار سال قبل اور بعض نے تین سال قبل یعنی ١٠ نبوی لکھا ہے۔ آنحضرت سے ان کی رفاقت کی مدت ٢٤ سال چھ ماہ یا پانچ ماہ ہے

【5】

حضرت عائشہ کی فضیلت

اور حضرت ابوسلمہ (تابعی) سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے (ایک روز مجھ سے) فرمایا عائشہ ! یہ جبرائیل (علیہ السلام) (یہاں میرے سامنے) ہیں تم کو سلام کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے (اس سلام کے جواب میں) کہا وعلیہ السلام و رحمتہ اللہ (اور جبرائیل تم پر بھی اللہ کی سلامتی اور راحت نازل ہو) حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ ان (جبرائیل) کو دیکھ رہے تھے اور میں ان کو نہیں دیکھ رہی تھی۔ (بخاری ومسلم )

【6】

عائشہ کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا خواب

اور حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک روز) مجھ سے فرمایا کہ تین رات مسلسل تمہیں میرے خواب میں لایا گیا جس کی صورت یہ تھی کہ ایک فرشتہ نہایت شاندار ریشمی کپڑے پر تمہاری تصویر کو میرے سامنے لاتا اور مجھ سے کہتا کہ یہ (تصویر) تمہاری (ہونے والی) بیوی کی ہے اور جب میں (تصویر کا) پردہ اٹھا کر تمہارا چہرہ دیکھتا تو ہو بہو تمہارا ہی چہرہ ہوتا تھا پھر میں (فرشتہ کے جواب میں کہہ دیا کرتا تھا اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو وہ خود ہی اس کو پورا کرے گا یعنی اس معاملہ کو تکمیل تک وہی پہنچائے گا اور اس عورت سے میرے نکاح کے اسباب پیدا فرما دے گا۔ تشریح ریشمی کپڑے پر تمہاری تصویر کو ایک اور روایت میں حضرت عائشہ (رض) نے یوں بیان فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ مجھ (عائشہ) سے نکاح کریں تو حضرت جبرائیل اپنی ہتھیلی پر میری تصویر (آنحضرت ﷺ کے خواب میں) لے کر آئے پس ان دونوں روایتوں میں وجہ تطبیق یہ ہے کہ تصویر کپڑے پر تھی اور وہ ریشمی کپڑا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی ہتھیلی پر تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے حضرت عائشہ (رض) کی تصویر دو بار لا کر دکھائی ہو، ایک بار تو ریشمی کپڑے پر اور ایک بار ہتھیلی پر اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت جبرائیل تو اپنی ہتھیلی پر تصویر لائے تھے اور کوئی دوسرا فرشتہ ریشمی کپڑے پر لے کر آیا تھا۔ فاذا انتھی الخ۔ کا ایک ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر لکھا گیا، اس کا دوسرا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ (نکاح و شادی کے بعد) جب میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ یہ تو وہی چہرہ ہے جو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اگر یہ خواب اللہ کی طرف ہے یہاں اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ اس خواب کے بارے میں شک کا اظہار کیا معنی رکھتا ہے کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) خصوصاً آنحضرت ﷺ کا خواب وحی کی ایک صورت ہے جس کی تحقیق میں کسی شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں تو اس کا جواب علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر خواب کے اس واقعہ کو آنحضرت ﷺ کے مرتبہ نبوت پر فائز ہونے سے پہلے کا مانا جائے تو پھر یہ اشکال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہاں اس صورت میں یہ سوال اٹھے گا کہ فرشتہ کا آنا اس بات کے منافی ہے کہ آپ ﷺ نے یہ خواب نبوت سے پہلے دیکھا تھا لیکن اگر ذہن میں یہ بات ہو کہ فرشتہ کو دیکھنا خصوصًا خواب میں دیکھنا ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے نبی کے ساتھ جو چیز مخصوص ہے وہ فرشتہ کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لانا ہے تو یہ سوال بھی کوئی معنی رکھے گا۔ اور اگر یہ واقعہ و خواب مرتبہ نبوت پر فائز ہونے کے بعد کا ہے تو کہا جائے گا کہ آپ نے یہ الفاظ اظہار شک کے لئے نہیں بلکہ اس کے وقوع کے یقینی ہونے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے فرمائے تھے دراصل اس طرح کا جملہ استعمال ہی ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کوئی بات متحقق اور ثابت شدہ ہوتی ہے جیسے کوئی حاکم یوں کہے اگر میں حاکم ہوں تو دیکھنا میں کیا کچھ نہیں کروں گا اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ اس جملہ میں جو شک ہے وہ اصل خواب سے متعلق نہیں ہے بلکہ تعبیر سے متعلق ہے کہ نہ معلوم ظاہر کے مطابق مراد سامنے آئے یا ظاہر کے خلاف کچھ اور یا یہ کہ نہ معلوم بیوی سے مراد دنیا کی بیوی ہے یا آخرت کی بیوی۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عائشہ صدیقہ (رض) حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی بیٹی ہیں، نبی کریم ﷺ نے پیغام ڈالا اور ہجرت سے تین سال قبل شوال ١٠ نبوی میں مکہ میں ان سے نکاح کیا، حضرت عائشہ (رض) جب شوال ٢ ھ میں رخصت کرا کر مدینہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئیں تو اس وقت ان کی عمر ٩ سال تھی بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے مدینہ آنے کے سات مہینے بعد حضرت عائشہ (رض) رخصت کرا کر مدینہ منورہ آپ ﷺ کے گھر آئیں، سرکار دو عالم ﷺ کی رفاقت ان کو ٩ سال حاصل رہی، آنحضرت ﷺ کے وصال وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی امہات المؤمنین میں یہی وہ طیبہ ہیں جن کا پہلا نکاح آنحضرت ﷺ سے ہوا آنحضرت ﷺ نے ان کے علاوہ اور کسی باکرہ (کنواری) سے نکاح نہیں کیا۔ حضرت عائشہ (رض) علم و دانائی اور ذاتی محاسن و کمالات کے اعتبار سے منفرد مقام رکھتی تھیں، زبردست عالمہ فاضلہ فصیحہ اور فقیہہ تھیں آنحضرت ﷺ کی بیشمار احادیث ان کو یاد تھیں، بہت زیادہ حدیثیں روایت کرتی ہیں، شعر و ادب کا بھی اعلی ذوق رکھتی تھیں نامور شعراء عرب کے کلام پر ان کی پوری نظر تھی اور اشعار ادبیات کی ایک بڑی تعداد ان کے حافظہ میں تھی، ان سے احادیث روایت کرنے والوں کی تعداد صحابہ اور تابعین کی ایک بہت بڑی جماعت پر مشتمل ہے ١٧ رمضان ٥٧ ھ یا ٥٨ ھ اور ایک روایت کے مطابق ٢٧ رمضان ٥٧ ھ منگل کی شب میں بعمر ٦٣ سال مدینہ منورہ میں وفات ہوئی انہوں نے رات میں دفن کئے جانے کی وصیت کی تھی چناچہ رات ہی میں جنت البقیع میں ان کو دفن کیا گیا اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے نماز جنازہ پڑھائی، اس وقت امیر معاویہ (رض) کی جانب سے مروان مدینہ کا گورنر تھا۔

【7】

عائشہ کی امتیازی فضیلت

اور حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ لوگ اس بات کو ترجیح دیتے تھے کہ وہ اپنے ہدیئے اور تحائف اس دن پیش کریں جو عائشہ (رض) کی باری کا دن ہو یعنی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ہدیئے اور تحائف لانے والے دن کا انتظار کرتے تھے جس روز کہ آپ ﷺ میرے ہاں تشریف فرما ہوتے تھے اور اس سے ان کا مقصد صرف رسول اللہ ﷺ کی (زیادہ سے زیادہ) رضا و خوشنودی حاصل کرنا ہوتا تھا حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی بیویاں دو ٹولیوں میں منقسم تھیں اور ان میں سے ہر ٹولی یکساں مزاج، یکساں طرز معاشرت و اختلاط رکھنے والی بیویوں پر مشتمل تھی) ایک ٹولی تو وہ تھی جس میں عائشہ (رض) ، حفصہ، صفیہ اور سودہ (رض) تھیں اور دوسری ٹولی وہ تھی جس میں ام سلمہ (رض) اور رسول اللہ ﷺ کی باقی بیویاں تھیں پس (ایک روز) ام سلمہ (رض) سے بات چیت کی اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ سے عرض کرو کہ آپ ﷺ لوگوں سے یہ فرما دیں کہ کوئی ہدیہ و تحفہ پیش کرنا چاہئے وہ (عائشہ (رض) کی باری کے دن کی تخصیص نہ کرے بلکہ) پیش کر دے چاہے آپ کسی جگہ ہوں (خواہ عائشہ کے گھر میں ہوں خواہ کسی اور بیوی کے گھر میں تاکہ عائشہ (رض) اور دوسری بیویوں کے درمیان سے وہ امتیاز اٹھ جائے جس سے ان بیویوں کو غیرت محسوس ہوتی ہے) چناچہ ام سلمہ (رض) نے اس بارے میں آنحضرت ﷺ سے گفتگو کی اور آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم مجھ کو عائشہ (رض) کے معاملہ میں تکلیف نہ پہنچاؤ (تم شاید نہیں جانتیں کہ) اس وقت میرے پاس وحی نہیں آتی جب میں کسی بیوی کے لحاف میں یا چادر میں ہوتا ہوں سوائے عائشہ (رض) کے ام سلمہ (رض) (یہ سن کر) بولیں یا رسول اللہ ﷺ ، میں اللہ کے حضور اس بات سے توبہ کرتی ہوں کہ آپ ﷺ کو تکلیف پہنچاؤں ( یا کسی ایسے کام کا ارادہ بھی کروں جو آپ کو تکلیف پہنچانے کا باعث ہو) پھر ام سلمہ (رض) کی ٹولی کی عورتوں نے فاطمہ (رض) کو بلوایا اور ان کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا (تاکہ اس بارے میں اب وہ آنحضرت ﷺ سے بات کریں) چناچہ فاطمہ (رض) نے اس بارے میں آپ سے گفتگو کی اور ہوسکتا ہے کہ وہ اس بات سے لاعلم ہی ہوں کہ اس سے پہلے ام سلمہ (رض) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں جا چکی ہیں اور آنحضرت ﷺ ان کو کن الفاظ میں جواب دے چکے ہیں، بہرحال آنحضرت ﷺ نے فاطمہ (رض) کی گفتگو سن کر ان سے فرمایا میری بیٹی ! کیا تو اس سے محبت نہیں رکھتی جس سے میں محبت رکھتا ہوں فاطمہ (رض) بولیں کیوں نہیں (یقینا میں ہر اس ذات سے محبت رکھتی ہوں اور محبت اور محبت رکھوں گی جس سے آپ محبت رکھتے ہیں) آپ نے فرمایا تو پھر تم عائشہ (رض) سے محبت رکھو اور کسی ایسی بات کا ذکر نہ کرو جس سے عائشہ (رض) کو ناگواری ہو) بخاری ومسلم اور حضرت انس (رض) کی روایت کردہ حدیث فضل عائشۃ علی النساء کفضل الثرید علی سائر الاطعمہ باب بدا الخلق میں ابوموسیٰ کی روایت سے نقل کی جا چکی ہے تشریح حضرت عائشہ (رض) کی ٹولی میں جو ازواج مطہرات تھیں ان کی سردار حضرت عائشہ (رض) تھیں کیونکہ تمام ازواج مطہرات میں آنحضرت ﷺ کی سب سے چہیتی حضرت عائشہ (رض) ہی تھیں یہ نکتہ نوٹ کرنے کا ہے کہ ام المؤمنین حضرت حفضہ بن عمر (رض) بھی نہ صرف یہ کہ حضرت عائشہ (رض) کی ٹولی میں تھی بلکہ اس کے درمیان وہی کامل رفاقت و دوستی اور اتفاق و اتحاد تھا جو ان دونوں کے باپوں یعنی حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق (رض) کے درمیان تھا، حضرت ام سلمہ (رض) کی ٹولی میں جو امہات المؤمنین تھیں ان کی سردار حضرت ام سلمہ (رض) ہی تھیں یہاں یہ وضاحت کردینا ضروری ہے کہ لوگوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ہدیئے اور تحائف پیش کرنے کے لئے حضرت عائشہ (رض) کی باری کے دن کی جو تخصیص کر رکھی تھی وہ آنحضرت ﷺ کے کسی حکم اور ایماء کے تحت نہیں تھی اور چونکہ بہ معاملہ ازواج مطہرات کے حقوق سے متعلق نہیں تھا اس لئے آنحضرت ﷺ لوگوں کو اس سے منع بھی نہیں کرتے تھے۔ سوائے عائشہ کے یعنی صرف عائشہ (رض) ہی میری ایک ایسی بیوی ہے کہ اگر میں ان کے لحاف اور بستر میں ہوتا ہوں تو اس وقت بھی مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے چناچہ حضرت عائشہ (رض) ایک روایت میں فرماتی ہیں کہ آیت کریمہ (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ ) 28 ۔ القصص 56) نازل ہوئی تو اس وقت میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ اپنے لحاف میں تھی۔ اور حضرت انس (رض) کی روایت کردہ حدیث یعنی صاحب مصابیح نے اس حدیث کو حضرت انس (رض) کی روایت سے یہاں اس باب میں نقل کرایا تھا جب کہ صاحب مشکوٰۃ نے اس کو حضرت ابوموسیٰ کی روایت سے باب بدء الخلق میں شامل کیا ہے واضح ہو کہ اس حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ عائشہ (رض) کی فضیلت دوسری عورتوں پر تو پیچھے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ عورتوں سے کیا مراد ہے ؟ ایک قول تو یہ ہے کہ عورتوں کی جنس یعنی کل عورتیں مراد ہیں ایک قول یہ ہے کہ ازواج مطہرات مراد ہیں اور اس میں بھی اختلافی اقول ہیں کہ آیا تمام ازواج مطہرات مراد ہیں یا حضرت خدیجہ (رض) کے علاوہ باقی ازواج مطہرات تاہم زیادہ صحیح یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) تمام عورتوں سے افضل ہیں اور حضرت عائشہ (رض) کے علمی و عملی کمالات کا جامع ہونے کے سبب کہ جس کو آپ نے ثرید کی مشابہت کے ذریعہ واضح فرمایا ہے ظاہر اطلاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔ ابتداء باب میں ازواج مطہرات کے متعلق کچھ باتیں ذکر کی جا چکی ہیں پھر حضرت خدیجہ (رض) اور حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں قدرے تفصیل بھی گزر چکی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ باقی ازواج مطہرات کے بھی کچھ احوال ذکر کر دئیے جائیں۔

【8】

حضرت سودہ (رض)

حضرت سودہ (رض) حضرت سودہ بنت زمعہ سکران بن عمرو بن عبدور کے نکاح میں تھیں جو ان کے عم زاد تھے انہوں نے اسلام قبول کیا پھر ان کی ترغیب پر سکران بھی مسلمان ہوگئے اور دونوں میاں بیوی ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے حبشہ میں سکران کا انتقال ہوگیا تو آنحضرت ﷺ نے ان کی دلداری کے لئے حضرت خدیجہ (رض) کی وفات کے بعد ١٠ نبوی میں ان سے نکاح کرلیا اس وقت تک آپ نے حضرت عائشہ (رض) سے نکاح نہیں کیا تھا اور حضرت سودہ (رض) کی عمر پچاس سال تھی ایک زمانہ میں آنحضرت ﷺ نے بعض حالات کے تحت ان کو طلاق دینی چاہی مگر پھر ان کی درخواست پر آپ ﷺ نے اپنا ارادہ منسوخ کردیا تھا اور اسی وقت سے انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کو دے دی تھی ان کا انتقال ١٩ ھ کے ماہ شوال میں مدینہ میں ہوا جب کہ ایک روایت میں ان کا سن وفات ٥٤ اور ایک روایت میں ٤١ منقول ہے۔

【9】

حضرت حفصہ (رض)

حضرت حفصہ (رض) حضرت حفصہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق (رض) کی بیٹی ہیں ان کی ماں کا نام زینب بنت مظعون تھا یہ پہلے جیش بن عقافہ سہمی کے نکاح میں تھیں اپنے خاوند حضرت جیش کے ساتھ مکہ سے ہجرت کی اور مدینہ آگئی تھیں غزوہ بدر میں حضرت جیش (رض) شیہد ہوگئے۔ تو حضرت عمر (رض) نے ان کا نکاح حضرت ابوبکر (رض) یا حضرت عثمان (رض) سے کرنا چاہا لیکن ان دونوں نے انکار کردیا تب رسول اللہ ﷺ نے اپنا پیغام ڈالا اور شعبان ٣ ھ میں ان کا نکاح کیا ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے ان کو ایک طلاق دیدی تھیں لیکن جب آپ کے پاس وحی آئی کہ حفصہ (رض) سے رجوع کرلیجئے کیونکہ وہ بہت عبادت گزار بہت روزہ دار عورت ہے اور وہ جنت میں آپ کی زوجہ ہے تو آنحضرت ﷺ نے رجوع کرلیا صحابہ تابعین کی ایک جماعت ان سے آنحضرت ﷺ کی احادیث نقل کرتی ہے انہوں نے بعمر ٦٠ سال شعبان ٤٥ ھ میں وفات پائی

【10】

حضرت زینب بنت خزیمہ (رض)

حضرت زینب بنت خزیمہ (رض) یہ زمانہ جاہلیت ہی سے ام المساکین کے لقب سے یاد کی جاتی تھیں ان کا پہلا نکاح عقیل سے اور دوسرا عبیدہ سے ہوا ان دونوں کے بعد تیسرا نکاح حضرت عبداللہ بن جحش (رض) سے ہوا عبداللہ بن جحش (رض) جنگ احد میں شہید ہوگئے تو ٣ ھ میں آنحضرت ﷺ نے زینب (رض) سے نکاح کرلیا لیکن نکاح کے چند ہی ماہ بعد انتقال کر گئیں۔

【11】

حضرت ام سلمہ (رض)

حضرت ام سلمہ (رض) ان کا اصل نام ہند تھا نبی کریم ﷺ سے پیشتر حضرت ابوسلمہ (رض) عبداللہ بن الاسد کے نکاح میں تھیں ابوسلمہ کی وفات کے بعد جنگ احد کے زخموں کی تاب نہ لا کر موت شہادت سے ہمکنار ہوئے تھے۔ اسی سال یا ٤ ھ میں آنحضرت ﷺ نے ام سلمہ (رض) سے نکاح کیا ان کا انتقال بعمر ٨٤ سال مدینہ منورہ میں ٥٩ یا ایک روایت کے مطابق ٢٢ ھ اور ایک روایت کے مطابق ٦٠ ھ میں ہوا اور بقیع میں دفن کی گئیں۔

【12】

حضرت زینب بنت حجش (رض)

حضرت زینب بنت جحش (رض) ان کی والدہ امیمہ عبد المطلب کی بیٹی اور آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں یہ پہلے حضرت زید بن حارثہ (رض) کے نکاح میں تھیں جو آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے، زید کے طلاق دینے کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان سے نکاح کیا ان کا اصل نام برہ تھا جس کو بدل کر آنحضرت ﷺ نے زینب نام رکھا تھا ان کا انتقال ٥٢ سال یا ایک روایت کے مطابق ٥٧ سال کی عمر میں مدینہ میں ہوا ان کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا کہنا تھا میں نے کوئی عورت نہیں دیکھی جو دین میں زینب (رض) سے بہتر اور اللہ کا خوف ان سے زیادہ رکھنے والی ہو ان سے زیادہ سچ بولنے والی ہو، ناطے داروں سے ان سے زیادہ حسن سلوک کرنے والی ہو، اللہ کی راہ میں اور اللہ کی رضا وخو شنودی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال اور اپنا نفس ان سے زیادہ لگانے والی ہو۔

【13】

حضرت ام حبیبہ (رض)

حضرت ام حبیبہ (رض) ان کا اصل نام رملہ تھا ابوسفیان بن صخر کی بیٹی ہیں ان کی ماں کا نام صفیہ بنت ابوالعاص تھا جو حضرت عثمان بن عفان (رض) کی پھوپھی ہیں ان کے پہلے شوہر عبیداللہ بن جحش کے انتقال کے بعد جو حبشہ جا کر عیسائی ہوگیا تھا اور بحالت ارتداد وہیں فوت ہوا حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ٦ ھ میں ان کا نکاح آنحضرت ﷺ سے کیا ان کا انتقال ٤٤ ھ میں مدینہ منورہ میں ہوا۔

【14】

حضرت جویریہ (رض)

حضرت جویریہ (رض) حضرت جویرہ بنت الحارث (رض) جب غزوہ مریسیع میں اسیر ہو کر آئیں تو حضرت ثابت بن قیس کے حصہ میں آئی تھیں کیونکہ انہوں ہی نے ان کو اسیر کیا تھا پھر حضرت ثابت بن قیس نے ان کو مکاتب کردیا تھا، آنحضرت ﷺ نے ان کو زر کتابت ادا کر کے ان کو آزاد کردیا اور پھر ان سے نکاح کرلیا، ان کا اصل نام برہ تھا جس کو آنحضرت ﷺ نے تبدیل کر کے جویرہ کردیا تھا ٥٦ ھ میں بعمر ٦٥ سال ان کی وفات ہوئی۔

【15】

حضرت صفیہ (رض)

حضرت صفیہ (رض) حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب بن شعبہ سبط ہارون (علیہ السلام) سے ہیں، ان کا پہلا نکاح کنانہ بن ابی الحقیق یہودی سے ہوا تھا جنگ خیبر (محرم ٧ ھ) میں کنانہ مارا گیا اور صفیہ اسیر ہو کر آئیں تو آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنے لئے مخصوص کرلیا لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ حضرت دحیہ کلبی کے حصے میں آئی تھیں بعد میں آنحضرت ﷺ سے ان کو دحیہ کلبی سے خرید لیا پھر انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور آنحضرت ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا ان کی آزادی کو آنحضرت ﷺ نے ان کا مہر قرار تھا ٥٠ ھ میں ان کا انتقال ہوا اور بقیع میں مدفون ہوئیں۔

【16】

حضرت میمونہ (رض)

حضرت میمونہ (رض) ان کا اصل نام بھی ہرہ تھا جس کو آنحضرت ﷺ نے بدل دیا اور میمونہ نام رکھا یہ پہلے مسعود بن عمرو ثقفی کے نکاح میں تھیں، کچھ دونوں بعد مسعود بن عمرو نے ان کو چھوڑ دیا تو پھر ابودرہم کے مرنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان سے مکہ سے دس کوس کے فاصلہ پر مقام سرف میں نکاح کیا جب کہ آپ عمرۃ القضا کے سفر میں تھے اور اتفاق کی بات ہے کہ ٦١ ھ یا ایک روایت کے مطابق ٥١ ھ میں ان کا انتقال بھی اس مقام سرف میں ہوا ام المؤمنین حضرت میمونہ (رض) آنحضرت ﷺ کی آخری زوجہ مطہرہ ہیں ان کی ایک بہن تو ام الفضل ہیں جو حضرت عباس (رض) کی بیوی اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی والدہ ہیں ایک اور بہن حضرت اسماء بن عمیس ہیں جو حضرت جعفر طیار کے گھر میں تھیں۔

【17】

خواتین عالم میں سے چار افضل ترین خواتین

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمام جہان کی عورتیں میں سے چار عورتوں کے مناقب و فضائل کا جان لینا تمہارے لئے کافی ہے اور وہ مریم بنت عمران یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد ﷺ ، فرعون کی بیوی آسیہ۔ (ترمذی) تشریح ظاہر یہ ہے کہ تمام جہان کی عورتوں میں سے افضل ترین چار خواتین کا ذکر اس حدیث میں جس ترتیب سے ہوا ہے وہی ترتیب ان چاروں کے درمیان فرق مراتب کی بھی رہی یہ بات کہ اس موقع پر حضرت عائشہ (رض) کا ذکر کیوں نہیں ہوا تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا بھی افضل ترین خواتین سے ہونا چونکہ بعض دوسری حدیثوں میں مذکور ہے اس لئے یہاں ان کے لئے ان کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آپ نے یہ حدیث شاید اس وقت ارشاد فرمائی ہوگی کہ جب تک حضرت عائشہ (رض) کو وہ مقام کمال اور آنحضرت ﷺ کے وصال کا شرف حاصل نہیں ہوا ہوگا جس سے ان کی افضلیت کا تعین ہونا ہے تاہم یہاں وہ حدیث بھی سامنے رہنی چاہئے جس کو احمد، بخاری، مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بطریق مرفوع نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مردوں میں تو بہت سے لوگ درجہ کمال کو پہنچے لیکن عورتوں میں سے فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران کے علاوہ کوئی کامل نہیں ہوئی اور اس میں تو کچھ شبہ نہیں کہ تمام عورتوں میں عائشہ (رض) کی افضلیت اور عورتوں پر ایسی ہی ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر۔ سیوطی نے نقایہ میں لکھا ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام جہاں کی عورتوں میں سب سے افضل مریم (علیہا السلام) اور فاطمہ ہیں اور آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات میں سب سے افضل خدیجہ (رض) اور عائشہ (رض) میں سے کون زیادہ افضل ہے اس بارے میں ایک قول تو حضرت خدیجہ (رض) کی افضلیت کا ہے اور دوسرا قول حضرت عائشہ (رض) کی افضلیت کا ہے اور تیسرا قول توقف کا ہے ملا علی قاری نے سیوطی کے ان الفاظ کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے اور میرا کہنا ہے کہ صرف حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ (رض) ہی کے بارے میں نہیں بلکہ ان سب مذکورہ خواتین کے بارے میں توقف یعنی سکوت کرنا اولی ہے کیونکہ اس مسئلہ میں کوئی قطعی دلیل وارد نہیں ہے جس کی بنیاد پر حتمی طور سے کہا جاسکے کہ ان میں سے فلاں خاتون زیادہ افضل ہے اور جو ظنی دلیلیں موجود بھی ہیں وہ باہم متعارض ہیں اور ان کا عقائد کے باب میں کہ جو یقنیات پر مبنی ہیں کوئی فائدہ نہیں۔

【18】

حضرت عائشہ کی فضیلت

اور حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سبز ریشمی کپڑے پر ان کی یعنی حضرت عائشہ (رض) کی تصویر رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دکھانے لائے اور کہا کہ یہ تمہاری بیوی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ (الترمذی) تشریح سبز ریشمی کپڑے پر اس سے معلوم ہوا کہ پیچھے کی حدیث میں خرقۃ من حریر کے جو الفاظ گزرے اس کی واحد مراد سفید ریشمی کپڑا لینا ٹھیک نہیں ہے جیسا کہ بعض حضرات نے بیان کیا ہے ہاں اگر یہ کہا جائے کہ اس طرح کا خواب آپ نے متعدد بار دیکھا تو پھر اس مراد میں کوئی اشکال وارد نہیں ہوگا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک روایت سرقہ من حریر کے الفاظ اور ایک روایت میں خرقۃ من حریر کے الفاظ نقل ہونا راوی کا اشتباہ ہے۔

【19】

حضرت صفیہ کی دلداری

اور حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت صفیہ (رض) کو معلوم ہوا کہ ام المؤمنین حضرت حفصہ (رض) نے ان کو یہودی کی بیٹی کہا ہے تو وہ رونے لگیں اور جب رسول کریم ﷺ ان کے ہاں تشریف لے آئے تو وہ اس وقت بھی رو رہی تھیں، آپ نے ان سے پوچھا کیوں رو رہی ہو انہوں نے کہا میرے بارے میں حفصہ (رض) نے کہا ہے کہ میں یہودی کی بیٹی ہوں یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم ان کے کہنے کا غم نہ کرو حقیقت تو یہ ہے کہ تم پیغمبر کی بیٹی ہو تمہارا چچا بھی پیغمبر تھا اور اب تم ایک پیغمبر کی یعنی میری بیوی ہو پھر آپ نے حفصہ (رض) کو متنبہ کیا کہ اے حفصہ، تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ (ترمذی، نسائی) تشریح حضرت حفصہ (رض) کا باپ حیی بن اخطب دراصل حضرت ہارون پیغمبر (علیہ السلام) کی اولاد سے تھا اور حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے بھائی تھے اس اعتبار سے حضرت صفیہ (رض) کے باپ یعنی جد اعلی پیغمبر ہوئے اور ان کے چچا بھی پیغمبر ہوئے یا یہ بات اپنے جد اکبر یعنی حضرت اسحاق کے اعتبار سے فرمائی کہ گویا حضرت صفیہ (رض) کو حضرت اسحاق کی بیٹی کہا اور حضرت اسماعیل کو ان کا چچا کہا اور اب تم ایک پیغمبر کی بیوی ہو یعنی حفصہ کو سوچنا چاہئے کہ تمہاری ان سب اعلی و اشرف نسبتوں کے مقابلہ پر خود ان کو اور کون سی اس سے بھی بڑی نسبت حاصل ہے اور ایسی کون سی بڑی فضیلت ان میں ہے کہ وہ تم پر فخر کرتی ہیں۔ اور نسب و نسل میں تمہیں اپنے سے کمتر سمجھتی ہیں واضح ہو کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا مقصد حضرت صفیہ (رض) کی دلداری اور اس تنقیص و تحقیر کا ازالہ کرنا تھا جو حضرت حفصہ (رض) کے الفاظ سے حضرت صفیہ (رض) نے محسوس کی تھی جب کہ وہ صفیہ نہ صرف اپنی ذات کے اعتبار سے ایک سردار خاندان کی معزز خاتون تھیں بلکہ اپنے دینی محاسن اور اوصاف کے اعتبار سے بھی ایک جامع شخصیت تھیں یہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت صفیہ (رض) کے حق میں یہ باتیں دوسری ازواج مطہرات پر ان کو کسی فضیلت و بڑائی کو ظاہر کرنے کے لئے فرمائی تھیں کیونکہ نسبتوں کا یہ شرف تنہا حضرت صفیہ (رض) کا حصہ نہیں تھا۔ اس شرف میں تو دوسری ازواج مطہرات بھی اس اعتبار سے شریک ہیں کہ وہ بھی تو ایک پیغمبر حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت اسحاق کے بھائی تھے اور وہ سب بھی آنحضرت ﷺ کی بیویاں ہیں۔ تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے یعنی صفیہ کی مخالفت یا عداوت کے جذبہ سے تمہیں ایسی باتیں زبان سے نہیں نکالنی چاہئیں جو زمانہ جاہلیت کی یاد گار ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ کسی حالت میں پسند نہیں کرتا۔

【20】

حضرت مریم (علیہ السلام) بنت عمران کا ذکر

اور حضرت ام سلمہ (رض) کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے ساتھ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ (رض) کو اپنے قریب بلایا اور ان سے چپکے چپکے کچھ باتیں سن کر رونے لگیں پھر آنحضرت ﷺ نے دوبارہ ان سے اسی سرگوشی کے سے انداز میں باتیں کیں تو اب وہ ہنسنے لگیں اور پھر جب رسول اللہ ﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرما لیا تو ایک روز میں نے ان کے اس دن کے رونے اور پھر ہنسنے کا سبب دریافت کیا انہوں نے بتایا کہ پہلے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی موت کے بارے میں مجھ کو آگاہ کیا تھا جس کو سن کر میں رونے لگی تھیں پھر آپ نے جب مجھ کو بتایا کہ میں مریم بنت عمران کے سوا جنت کی ساری عورتوں کی سردار ہوں تو ہنسنے لگی تھی، (ترمذی) تشریح اسی طرح کی روایت پیچھے گزر چکی ہے جس میں حضرت عائشہ (رض) کا ذکر ہے کہ انہوں نے جب حضرت فاطمہ (رض) سے رونے اور ہنسنے کا ماجرا پوچھا تو انہوں نے بتانے سے انکار کردیا تھا لیکن حضور ﷺ کے بعد حضرت فاطمہ (رض) نے بتایا تھا اور یہاں بھی حضرت ام سلمہ (رض) نے بھی ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد فاطمہ (رض) نے بتایا، تاہم اس حدیث میں حضرت ام سلمہ (رض) کا اس واقعہ کو فتح مکہ کے سال کا ذکر کرنا بڑا سہو ہے کیونکہ تحقیقی اور تاریخی طور پر اس قصہ کا وقوع فتح مکہ کے سال میں ثابت نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ یا تو آنحضرت ﷺ کے حجۃ الوداع کے زمانہ کا ہے یا مرض الموت کے دوران کا دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں حضرت فاطمہ (رض) کے یہ الفاظ کہ آپ نے مجھ کو جب یہ بتایا کہ میں مریم بنت عمران کے سوا جنت کی ساری عورتوں کی سردار ہوں تو ہنسنے لگی مذکورہ سابق روایت کے منافی نہیں ہیں جس میں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ (رض) سے یہ بھی کہا تھا کہ میرے اہل بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملو گی۔ اس روایت کے تحت ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث کو اس باب سے کیا مناسبت ہے اس میں چونکہ حضرت فاطمہ (رض) کی منقبت و فضیلت کا ذکر ہے، لہٰذا یہ حدیث مناقب اہل بیت کے باب میں نقل کی جانی چاہئے تھی نہ کہ اس باب میں جو ازواج مطہرات کے مناقب کے ساتھ مخصوص ہے تو واقعہ یہ ہے کہ ظاہری طور پر کوئی مناسبت سمجھ میں نہیں آتی بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ روایت ضمنا اس روایت سے متعلق ہے جو اس فصل دوم کی پہلی روایت ہے اور جس میں حضرت خدیجہ اور حضرت مریم کے ساتھ حضرت فاطمہ (رض) کا بھی ذکر ہے اس کو یوں کہہ لیجئے کہ اس فصل کے شروع میں جو روایت نقل کی گئی اس کے بعض حصہ کے بارے میں چونکہ کچھ مزید باتیں اس حدیث سے معلوم ہوتی تھیں اس لئے اس کو یہاں نقل کردیا گیا اگرچہ حدیث اصلا اس سے تعلق نہیں رکھتی اور یہ بھی بعید نہیں کہ اس حدیث کو اس باب میں نقل کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہو جو حضرت مریم (علیہ السلام) کے بارے نقل ہوئی ہے کہ وہ جنت میں آنحضرت ﷺ کی بیوی ہوں گی۔

【21】

حضرت عائشہ کی علمی عظمت

حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول اللہ ﷺ کو جب بھی کسی حدیث یا دینی مسائل سے تعلق کسی بات میں کوئی اشکال پیش آتا تو ہم حضرت عائشہ (رض) سے رجوع کرتے اور ہمیں اس حدیث یا مسئلہ سے متعلق کافی علم حضرت عائشہ (رض) سے مل جاتا اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے جو بےپناہ علم آنحضرت ﷺ سے سن کر اپنی قوت اجتہاد سے حاصل کیا تھا اس کے ذریعہ وہ صحابہ کے مشکل علمی سوال حل کردیتی تھیں اور حدیث وغیرہ کے بارے میں جو بھی اشکال ان کو پیش آتا تھا اس کو دور کردیتی تھیں۔

【22】

عائشہ (رض) سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں پایا

اور حضرت موسیٰ بن طلحہ تابعی کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں پایا اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تشریح ابن طلحہ نے یہ بات یا تو حضرت عائشہ (رض) کی انتہائی تعریف میں کہی ہے یا واقعۃً انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے زیادہ فصیح کوئی شخص نہ دیکھا اور نہ پایا ہو۔