197. مناقب کا جامع بیان

【1】

مناقب کا جامع بیان

اس باب میں مؤلف نے کسی خاص جماعت و زمرہ کی تخصیص کے بغیر اور الگ الگ باب قائم کرنے کے بجائے مجموعی طور پر کچھ مشاہیر صحابہ کے فضائل و مناقب پر مشتمل احادیث نقل کی ہیں ان مشاہیر میں خلفائے راشدین بھی ہیں اور اہل بیت بھی، عشرہ مبشرہ بھی ہیں اور ازواج مطہرات بھی مہاجرین بھی ہیں اور انصار بھی اور ان کے علاوہ دوسرے صحابہ بھی۔

【2】

عبداللہ بن عمر کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں میں نے ایک روز خواب میں دیکھا کہ گویا میرے ہاتھ میں ریشم کے کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے اور میں ریشمی ٹکڑے کے ذریعہ جنت کے جس محل کی طرف بھی جانا چاہتا ہوں وہ ٹکڑا مجھ کو اڑا کر وہاں تک پہنچا دیتا ہے یعنی مجھ کو ایسا لگا جیسے وہ ٹکڑا میرے لئے پنکھ بن گیا ہے اور میں جنت کے جس بلند درجہ و محل تک جانا چاہتا ہوں اس پنکھ کے ذریعہ اڑ کر پہنچ جاتا ہوں پھر میں نے یہ خواب اپنی بہن ام المؤمنین حفصہ (رض) سے بیان کیا اور انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ تمہارا بھائی مرد صالح ہے یا یہ الفاظ فرمائے حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ مرد صالح ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح گویا آپ ﷺ نے یہ تعبیر دی کہ وہ ریشمی ٹکڑا دراصل عبداللہ کے نیک اعمال اور اس کی پاکیزہ زندگی کے اوراق ہیں جو ان کو جنت کے بلند مراتب و مدارج تک پہنچائیں گے عبداللہ بن عمر (رض) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق (رض) کے بیٹے ہیں جس سال آنحضرت ﷺ نبوت سے سرفراز ہوئے اس سے ایک سال قبل ان کی ولادت ہوئی، چھوٹی ہی عمر میں انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت عمر (رض) کے ساتھ مکہ میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ غزوہ خندق کے بعد کے تمام عزوؤں میں شریک رہے ہیں علم و دانائی زہد ورع اور تقویٰ میں کامل جانے جاتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرمایا کرتے تھے۔ مامنا احد الا مالت بہ الدنیا ومال الیہا ما خلا عمر و ابنہ عبداللہ حضرت نافع (رض) بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے مرتے دم تک جن انسانوں غلاموں کو آزاد کیا ان کی تعداد ایک ہزار بلکہ اس سے بھی متجاوز ہے۔ ابتاع نبوی اور حب رسول میں ابن عمر (رض) کا امتیازی مقام ہے۔ وہ جب بھی حج کو جاتے تو ان مقامات پر کہ جہاں آنحضرت ﷺ حج میں ٹھہرا کرتے تھے جیسے عرفات وغیرہ تمام حاجیوں سے پہلے پہنچ جایا کرتے تھے۔ منقول ہے کہ ایک دن حجاج بن یوسف نے فجر یا عصر کی نماز میں تاخیر کی تو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے اس سے کہا کہ نماز پڑھ لو، ورنہ سورج تمہارا انتظار نہیں کرے گا حجاج کو ان کا یہ کہنا بہت ناگوار گزرا، چناچہ وہ بولا جی چاہتا ہے کہ تمہاری آنکھیں پھوڑ دوں یا یوں کہا کہ جی چاہتا ہے کہ تمہارا سر قلم کر دوں حضرت عبداللہ (رض) نے یہ سن کر فرمایا اگر تم ایسا کر گزرو تو کیا بعید کیونکہ تم تو ایک نادان حاکم کی صورت میں ہم پر مسلط ہو۔ اور بعض حضرات نے یہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے یہ بات آہستہ سے کہی تھی اور حجاج نے نہیں سنا تھا بہرحال حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی اس حق گوئی و صاف بیانی کے سبب یا کسی اور وجہ سے حجاج ان سے سخت ناراض ہوگیا اور اس نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ابن عمر (رض) کا نیزہ قبضہ میں لے کر ان کو نہتا کردو اور پھر اس نے نہ صرف یہ کہ راستہ میں ان پر پتھراؤ کرایا بلکہ زہر میں بجھے ہوئے حربہ سے ان کے پاؤں کی پشت میں کاری زخم لگوایا۔ اسی کے سبب حضرت ابن عمر (رض) چند روز سخت بیمار رہ کر انتقال فرما گئے۔ یہ واقعہ حضرت ابن زبیر (رض) کے حادثہ شہادت کے تین ماہ بعد ٧٣ ھ میں پیش آیا۔ اس وقت حضرت ابن عمر (رض) ٨٤ سال کی تھے ان کا جسد خاکی ذی طوی میں سپرد خاک کیا گیا۔

【3】

عبداللہ ابن مسعود کی فضیلت

اور حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ وقار، میانہ روی اور راست روی میں رسول کریم ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والا آدمی ام عبد کا بیٹا ہے، اس وقت سے کہ اپنے گھر سے باہر آتے ہیں اور اس وقت تک کہ جب وہ گھر میں جاتے ہیں۔ گھر والوں کے درمیان یعنی گھر میں اہل و عیال کے ساتھ یا تنہا وہ کس حال میں رہتے ہیں یہ ہم کو معلوم نہیں۔ (بخاری ) ۔ تشریح ام عبد کے بیٹے سے مراد حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ہیں۔ ان کی والدہ کی کنیت ام عبد تھی۔ دلّ کے معنی سیرت، حالت ہیبت کے بھی آتے ہیں اور بعض حضرات نے اس کے معنی خوش کلامی، خوش گوئی بھی بیان کئے ہیں کہ یہ لفظ گویا دلالت سے ماخوذ ہے اور جس کے ذریعہ کسی انسان کی اس ظاہری حالت و خوبی کو تعبیر کیا جاتا ہے جو اس کے حسن سیرت اور اس کی نیک خصلتی پر دلالت کرے قاموس میں لکھا ہے کہ دل کے قریب قریب وہ ہی معنی ہیں جو ھدی کے ہیں لیکن یہاں حدیث میں اس لفظ سے سکینت یعنی متانت وسنجیدگی وقار اور خوبصورتی کے معنی مراد ہیں۔ اور مجمع البحار میں لکھا ہے دل کا لفظ شکل و شمائل کے معنی رکھتا ہے سمت کے معنی ہیں راستہ، میانہ روی اور اس لفظ کا استعمال اہل خیر و صلاح کے طور طریق اور اس کی ہیت و حالت کے لئے بھی کیا جاتا ہے چناچہ قاموس میں سمت کے معنی طریق یعنی راستہ اور اہل خیر کی ہیئت کے لکھے ہیں۔ اور صراح میں لکھا ہے سمت کے معنی ہیں نیک راہ روش ھدی کے معنی طریقہ سیرت، اہل خیر کی ہیئت و حالت کے ہیں۔ حاصل یہ کہ یہ تینوں لفظ یعنی دل سمت ھدی معنی و مفہوم میں قریب قریب ہیں اور عام طور پر یہ تینوں ایک دوسرے کے ساتھ ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اس وقت سے ہی یعنی عبداللہ بن مسعود (رض) کی جو ظاہری زندگی ہمارے سامنے ہے اور ان کے جو احوال ہم پر عیاں ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہایت پاکیزہ نفس اور راست رو ہیں اور ہم ظاہری احوال ہی کے بارے میں گواہی دے سکتے ہیں باطن کا حال ہمیں معلوم نہیں، کہ اندر کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔

【4】

عبداللہ ابن مسعود کی فضیلت

حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی یمن سے مدینہ منورہ آئے تو یہاں در نبوت پر ایک عرصہ مقیم رہے، اس دوران ہم نے ہمیشہ یہی خیال کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نبی کریم ﷺ کے گھر والوں میں سے ایک آدمی ہیں، کیونکہ ہم ان کو اور ان کی والدہ کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بےوقت آتے جاتے دیکھا کرتے تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح ایک روایت میں آیا ہے آنحضرت ﷺ نے عبداللہ بن مسعود (رض) کو کہا تھا کہ اگر ایک آدمی میرے پاس دیکھو تو اجازت طلب کئے بغیر آ جایا کرو اور ایک روایت میں ضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے یوں بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے فرما رکھا تھا کہ جب پردہ نہ پڑا ہوا ہو اور تم میری آواز سنو تو بس یہی تمہارے لئے اجازت ہے، جب تک میں تمہیں منع نہ کروں اجازت طلب کئے بغیر آیا جایا کرو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ان کی کنیت ابوعبدالرحمن تھی، ہذلی ہیں۔ صاحب السواد والسواک کے لقب سے مشہور تھے ان کو ابتدائے دعوت ہی میں قبول اسلام کی توفیق نصیب ہوگئی تھی چناچہ آنحضرت ﷺ کے دار ارقم میں منتقل ہونے سے پہلے ہی مسلمان ہوگئے تھے۔ اس وقت تک حضرت عمر (رض) نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ چھٹے مسلمان ہیں، ان سے پہلے صرف پانچ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا قبول اسلام کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنے پاس رکھ لیا تھا اور اپنی متعدد خدمتیں ان کے سپرد کردی تھیں، چناچہ آپ ﷺ کی مسواک انہی کے پاس رہا کرتی تھی، آپ ﷺ کو جوتی پہنایا کرتے تھے۔ سفر میں آپ ﷺ کے لئے طہارت و وضو وغیرہ کا پانی رکھتے تھے اور جب آنحضرت ﷺ غسل فرماتے تو یہ پردہ کے لئے کھڑے ہوتے تھے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے حبشہ کو بھی ہجرت کی تھی اور پھر مدینہ کی بھی ہجرت کی بدر اور دوسرے غزوات و مشاہد میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہے آنحضرت ﷺ نے ان کو جنت کی بشارت کی تھی۔ اور فرمایا تھا میں اپنی امت کے لئے وہ چیز پسند کرتا ہوں جو ابن ام عبد ( عبداللہ بن مسعود) کو پسند ہے اور میں اپنی امت کے حق میں اس چیز کو ناپسند کرتا ہوں جو ام عبد کو ناپسند ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) گندم گوں تھے۔ اور ان کا جسم اس قدر دبلا و نحیف اور قد اتنا چھوٹا تھا کہ بیٹھا تھا کہ بیٹھا ہوا لانبا آدمی ان کے برابر نظر آتا تھا۔ ابتدائی عہد تک اسی منصب پر فائز رہے۔ پھر مدینہ آگئے تھے۔ اور مدینہ ہی میں ٣٢ ھ میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر کچھ اوپر ساٹھ سال تھی ان سے روایت حدیث کرنے والوں میں صحابہ وتابعین کی ایک بڑی جماعت کے علاوہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) ، بھی شامل ہیں۔ ہمارے ائمہ کا کہنا ہے کہ خلفائے اربعہ کے استثناء کے بعد تمام صحابہ میں سب سے بڑے فقیہہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ہی تھے۔

【5】

وہ چار صحابہ جن سے قرآن سیکھنے کا حکم آنحضرت ﷺ نے دیا

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرآن ان چار آدمیوں سے حاصل کرو اور ان سے پڑھو عبداللہ بن مسعود (رض) سے، ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم (رض) سے، ابی بن کعب (رض) سے اور معاذ بن جبل (رض) سے۔ (بخاری ومسلم) تشریح ان چاروں حضرات صحابہ نے قرآن کریم براہ راست سرکار دو عالم ﷺ سے حاصل کیا اور سیکھا تھا جب کہ اوروں نے دوسرے حضرات سے قرآن سیکھا اور حاصل کیا تھا۔ یہ چاروں حافظ قرآن بھی تھے اور صحابہ میں بڑے قاری بھی تھے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان چاروں کی خصوصی فضیلت سے لوگوں کو آگاہ فرمایا۔ حضرت سالم (رض) ان کا نام سالم بن معقل (رض) ہے حضرت حذیفہ بن عتبہ بن رببیعہ بن عبد شمس کے آزاد کردہ غلام ہیں فارس ایران کے شہر اصرخ یا اصطحرخ کے رہنے والے تھے ارباب فضل و کمال جلیل القدر اور بزرگ صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے غزوہ بدر میں شریک تھے مدینہ میں ان مہاجرین کی امامت نماز کا شرف انہی کو حاصل ہوتا تھا جو آنحضرت ﷺ سے پہلے ہجرت کر کے آگئے تھے باوجودیکہ ان میں عمر (رض) اور حضرت ابوسلمہ بھی موجود ہوتے تھے۔ حضرت اوحذیفہ (رض) کا اصل نام ہشام تھا۔ فضلائے صحابہ اور مہاجرین اولین میں ہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے دار ارقم میں آنے میں سے پہلے ہی مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ حضرت ابی بن کعب حضرت ابی بن کعب (رض) انصار صحابہ کرام میں سے ہیں بڑے قاری ہیں، ان کو سید القراء کہا جاتا تھا حضرت عمر (رض) ان کو سید المسلمین کے لقب سے یاد کرتے تھے آنحضرت ﷺ کے کاتب وحی ہیں۔ حضرت معاذ بن جبل (رض) بھی انصار سے ہیں۔ ان کے فضائل و مناقب بھی بیشمار ہیں آنحضرت ﷺ نے ان کے اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کے درمیان بھائی چارہ کرایا تھا۔

【6】

ابن مسعود، عمار اور حذیفہ کی فضیلت

اور حضرت علقمہ (رح) (تابعی) بیان کرتے ہیں کہ جب میں ملک شام پہنچا اور دمشق کی جامع مسجد میں حاضر ہوا تو وہاں دو رکعت نماز پڑھی اور پھر میں نے دعا مانگی کہ اے اللہ ! مجھ کو نیک ہمنشیں میسر فرما ! پھر میں ایک جماعت میں جا کر بیٹھا ہی تھا کہ اچانک ایک بزرگ آئے اور میرے پہلو میں بیٹھ گئے۔ میں نے (لوگوں سے پوچھا) کہ یہ بزرگ کون ہیں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ مشہور صحابی حضرت ابودرداء (رض) ہیں میں یہ سن کر خوشی سے کھل اٹھا اور حضرت ابودرداء (رض) سے بولا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ مجھ کو نیک ہمنشین میسر فرما اور اللہ تعالیٰ نے آپ جیسا نیک ہمنشین مجھ کو میسر فرمادیا یہ سن کر حضرت ابودرداء (رض) نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو ؟ میں نے جواب دیا کہ میں کوفہ کا رہنے والا ہوں اور وہیں سے آیا ہوں حضرت ابودرداء (رض) بولے کیا تمہارے یہاں (کوفہ میں) ابن ام عبد یعنی عبداللہ ابن مسعود (رض) نہیں ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ کی جوتیاں تکیہ اور چھاگل رکھنے کا شرف حاصل تھا کیا تمہارے یہاں وہ صاحب نہیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی لسان مبارک کے ذریعہ شیطان سے پناہ وامان عطا کی ہے، یعنی عمار اور کیا تمہارے یہاں وہ صاحب نہیں ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ کے اس راز کا محرم ہونے کا شرف حاصل ہے جس کو ان کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا ہے یعنی حذیفہ۔ (بخاری) تشریح نیک ہمنشیں میں نیک سے مراد یا تو عالم با عمل ہے یا وہ شخص کہ جو اللہ کے حقوق بھی ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے بھی آئے اور میرے پہلو میں بیٹھ گئے یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی دعا کا جواب کہ انہوں نے نیک ہمنشیں کی مخلصانہ درخواست کی اور حق تعالیٰ نے صحابی رسول جیسی جلیل القدر ہستی ان کے پاس بھیج دی یہاں وہ روایت مد نظر رہنی چاہئے کہ جس میں فرمایا گیا ہے۔ ان اللہ ملائکۃ تجر الا ہل الی الاہل۔ اور چھاگل رکھنے کا شرف حاصل تھا حضرت ابودرداء (رض) کی مراد حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ کرنا تھا کہ وہ سرکار دو عالم ﷺ کے ذاتی خادم ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ آپ ﷺ کی خدمت میں موجود رہتے تھے سفر وحضر میں آپ ﷺ کی ساتھ ساتھ رہتے، جب آنحضرت ﷺ سونے کا ارادہ فرماتے تو وہ آپ کا بستر ٹھیک کرتے اور آپ ﷺ کا تکیہ لا کر رکھتے جب آپ ﷺ وضو کے لئے اٹھتے تو وہ وضو کا پانی تیار رکھتے اور سفر وغیرہ میں آپ کے پانی کی چھاگل اپنے ساتھ رکھتے اور ضرورت کے وقت آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیتے۔ پس حضرت ابودرداء (رض) نے حضرت علقمہ (رض) کو گویا توجہ دلائی کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کو آنحضرت ﷺ کی صحبت و خدمت میں جس زبر دست قربت و وابستگی اور لزوم وتسلسل کے ساتھ رہنے کا موقع ملا ہے اس نے ان کو دین و شریعت کے علم میں یقینا اتنا لائق وفائق اور اتنا کامل بنادیا ہے کہ کوئی طالب علم ان کو چھوڑ کر کسی دوسرے صاحب علم کے پاس جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرسکتا۔ اس سے ایک تو اس بات کی تائید ہوتی ہے جو علماء نے طلب علم اور طالبان علم کے آداب میں بیان کی ہے کہ طالب علم کو پہلے اپنے شہر اور اپنے علاقہ کے علماء سے علم حاصل کرنا اور ان سے خوب استفادہ کرنا چاہئے اگر مزید علم حاصل کرنے کا ارادہ ہو تب دوسرے شہروں کو جائے اور سفر ومسافرت کے تعب و پریشانی میں مبتلا ہو۔ دوسرے یہ بات معلوم ہوئی کہ عالم کو چاہئے کہ اگر دوسرے عالم کو اپنے سے افضل جانتا ہے تو طالب علم کو اس کا حوالہ دیدے۔ یعنی عمار حضرت عمار (رض) کو آنحضرت ﷺ نے طیب اور مطیب (پاک اور پاکیزہ) سے تعبیر فرمایا تھا، ان کو جنت کی بشارت عطا فرمائی تھی اور جب دشمنان دین ان کو سخت اذیتیں پہنچایا کرتے تھے یہاں تک کہ ایک مرتبہ ان کو آگ میں ڈال دیا گیا تو اس وقت آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا، اے آگ ! عمار کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کا ذریعہ بن جا جیسا کہ تو ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کا ذریعہ بن گئی تھی، نیز ایک موقع پر آپ ﷺ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا تھا ! تم کو باغیوں کا گروہ قتل کرے گا۔ تم ان کو جنت کی طرف بلاؤ گے اور وہ تم کو آگ کی طرف لے جانا چاہیں گے، پس حضرت عمار (رض) کے حق میں آنحضرت ﷺ کے ان ارشادات اور بشارتوں کا مطلب یہ تھا کہ وہ راہ حق پر ثابت قدم رہیں اور شیطانی وسوسے ان کو بھٹکائیں نہیں۔ اور اسی کو حضرت ابودرداء نے اس بات سے تعبیر کیا کہ اللہ تعالیٰ عمار کو اپنے پیغمبر کی لسان مبارک کے ذریعہ شیطان سے پناہ وامان عطا کی ہے۔ حضرت عمار (رض) کے والد کا نام یاسر اور والدہ کا نام سمیہ ہے، یاسر کا وطن یمن تھا لیکن مکہ میں آکر رہ پڑے تھے اور یہاں انہوں نے ابوحذیفہ بن مغیرہ سے، جو بنو مخزوم میں سے تھے، حلف کی دوستی کرلی تھی اور انہی کی لونڈی سمیہ سے نکاح کرلیا تھا حضرت عمار انہی سمیہ سے پیدا ہوئے ان کے پیدا ہونے کے بعد ابوحذیفہ نے ان کو آزاد کردیا تھا۔ اور اسی اعتبار سے حضرت عمار بنو مخزوم کے آزاد کردہ غلام کہے جاتے ہیں۔ حضرت عمار بن یاسر (رض) ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کی طرف سبقت کی تھی، ابتدائے اسلام میں کفار مکہ جن کمزور و لاچار مسلمانوں کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بناتے تھے اور ان کو اسلام سے منحرف کرنے کے لئے نہایت سخت اور وحشیانہ اذیتیں پہنچاتے تھے اور ان میں حضرت عمار (رض) سر فہرست تھے۔ شقی القلب مشرک ان کو آگ کے عذاب میں مبتلا کیا کرتے تھے۔ اور آنحضرت ﷺ ان کے پاس پہنچتے تو ان کے سر اور جسم پر اپنا دست مبارک پھیرتے جاتے اور فرماتے جاتے۔ یانار کونی بردا وسلم ا علی عمار کما کنت علی ابراہیم (اے آگ ! عمار پر ٹھنڈی ہو جیسا کہ تو ابراہیم خلیل اللہ پر ٹھنڈی ہوگئی تھی) حضرت عمار اولین مہاجرین میں ہیں، غزوہ بدر اور دوسرے تمام جہادوں میں شریک ہوئے اور ٣٧ ھ میں جنگ صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور اس وقت ان کی عمر ٩٣ سال تھی۔ یعنی حذیفہ حضرت حذیفہ کو صاحب سر رسول اللہ ﷺ کہا جاتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ان پر وہ مختلف راز اور بھید منکشف فرما رکھے تھے جن کا عام انکشاف دینی وملی مصالح کے تحت مناسب نہیں تھا ان بھیدوں میں ایک بھید تو یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کو منافقین اسلام کے نام، ان کے نسب اور نفاق کی علامتیں بتادی تھیں، اس بناء پر ان کو پوری طرح معلوم تھا کہ کون شخص مخلص مسلمان نہیں ہے بلکہ منافق ہے، منقول ہے کہ ایک روز امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق نے پوچھا کہ اے حذیفہ کیا تم میرے اندر نفاق کی کوئی علامت دیکھتے ہو ؟ حضرت حذیفہ نے جواب دیا نہیں، اللہ کی قسم آپ میں مجھ کو نفاق کی کوئی علامت نظر نہیں آتی، ہاں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ کے دسترخوان پر رنگ برنگ کے کھانے موجود ہوتے ہیں لیکن جب اس کی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ دسترخوان پر کچھ انڈے رکھے ہوتے تھے جو توڑے جانے کے بعد زرد وسفید رنگ کی صورت میں الگ الگ چیز معلوم ہوتے تھے۔ حضرت حذیفہ نے ٣٥ ھ میں بمقام مدائن اور وہیں مدفون ہوئے۔

【7】

حضرت انس کی والدہ ام سلیم اور حضرت بلال کی فضیلت

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھ کو جنت دکھائی گئی تو میں نے اس میں ابوطلحہ (رض) کی بیوی کو دیکھا، پھر میں نے اپنے آگے قدموں کی چاپ سنی تو کیا تو دیکھتا ہوں کہ بلال ہیں (جو آگے آگے جنت میں چلے جا رہے ہیں ) ۔ (مسلم) تشریح ابو طلحہ (رض) کی بیوی سے مراد حضرت ام سلیم ہیں جو حضرت انس (رض) کی والدہ ماجدہ ہیں۔ ان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ ان کا پہلا نکاح مالک بن نضر سے ہوا تھا اور اسی سے حضرت انس (رض) پیدا ہوئے، مالک بن نضر مشرک تھا اور شرک ہی کی حالت میں مارا گیا، اس کے بعد ام سلیم مسلمان ہوگئیں اور ابوطلحہ (رض) نے ان سے نکاح کا پیغام دیا اس وقت تک ابوطلحہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا چناچہ حضرت ام سلیم نے ان کا پیغام رد کردیا اور ان کو اسلام کی دعوت دی ابوطلحہ نے اسلام قبول کیا تو حضرت ام سلیم (رض) نے ان سے نکاح کرلیا اور کہا کہ میں خود کو تمہارے اسلام کے عوض تمہاری زوجیت میں دیتی ہوں، تمہارا یہ اسلام قبول کرنا ہی میرا مہر ہے (رض) حضرت بلال (رض) ابورباح کے بیٹے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق کے آزاد کردہ غلام ہیں، نہایت قدیم الاسلام ہیں مکہ میں اپنے اسلام کا سب سے پہلے اعلان و اظہار کرنے والے یہی ہیں، آنحضرت ﷺ کے مؤذن خاص تھے انہوں نے غزوہ بدر اور اس کے بعد جہادوں میں شرکت کی، آخر میں شام چلے گئے اور وہیں کے سکونت پزیر ہوگئے تھے۔ ٢٠ ھ میں بمقام دمشق فوت ہوئے اور باب الصغیر میں دفن کئے گئے اس وقت ان کی عمر ٦٣ سال تھی انہوں نے اپنا کوئی وارث نہیں چھوڑا، صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کو ان سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہے، حضرت بلال (رض) بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو قبول اسلام کی پاداش میں کفار مکہ کے سخت ظلم وستم کا نشانہ بنے تھے۔ امیہ بن خلف ان کو نہایت سخت اذیتیں پہنچایا کرتا تھا اور تقدیر الہٰی سے ایسا ہوا کہ غزوہ بدر میں وہ موذی حضرت بلال ہی کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا، ایک روایت میں حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) فرمایا کرتے تھے۔ ابوبکر سیدنا واعتق سیدنا یعنی ابوبکر ہمارے آقا ہیں اور انہوں نے ہمارے آقا (بلال) کو آزاد کیا۔ امام احمد (رح) نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے جن لوگوں نے اسلام کا انکشاف و اظہار کیا وہ سات ہیں، رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمار (رض) ، کی والدہ حضرت سمیہ (رض) ، حضرت صہیب (رض) ، حضرت بلال (رض) اور حضرت مقداد (رض) ، پس اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو تو دشمنان دین کی اذیتوں سے آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کے ذریعہ محفوظ رکھا اور حضرت ابوبکر (رض) کو ان کے قبیلہ و خاندان کے سبب تحفظ حاصل رہا، باقی پانچوں کو مشرکوں نے کمزور و لاچار جان کر اپنا ہدف بنا لیا۔ وہ ظالم ان کو وحشیانہ سزائیں دیتے تھے، یہاں تک کہ ان کو لوہے کی زرہیں پہناکر تپتی ہوئی دھوپ میں ڈال دیا کرتے تھے۔ پھر ان پانچوں میں سے سوائے بلال (رض) کے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے پنجے سے نجات دلائی اور ان کو ذی عزت بنادیا۔ مگر بلال (رض) کمزور و لاچار ہی رہے، اللہ کی راہ میں مصائب وشدائد سے بچانے والی کوئی خاندانی وقبائلی طاقت ان کو حاصل نہیں ہوئی۔ مشرکین مکہ کی ظالمانہ گرفت ان پر سخت سے سخت ہوگئی، انہوں نے ان کو مکہ کے اوباش لونڈوں کے سپرد کردیا، وہ لونڈے ان کو (رسیوں میں جکڑ کر) مکہ کے گلی کوچوں میں گھسٹیتے پھرتے تھے اور ان کی زبان پر احد احد (اللہ ایک ہے) کا نعرہ ہوتا تھا۔

【8】

جن صحابہ کو قریش نے حقیر جانا ان کو اللہ تعالیٰ نے عزت عطا کی

اور حضرت سعد بن ابی وقاص (جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ چھ آدمی تھے (مکہ کے) مشرکین (میں سے بعض سرداروں نے) نبی کریم ﷺ سے مطالبہ کیا کہ تم ( اگر چاہتے ہو کہ ہم لوگ تمہارے پاس آئیں جائیں، تمہاری دعوتی باتیں سنیں اور قبول اسلام کے بارے میں سوچیں تو اپنے ساتھیوں میں سے) ان لوگوں کو ( جو آزاد کردہ غلام ہیں اور ہماری سماجی زندگی میں بےوقعت وبے حیثیت مانے جاتے ہیں اپنی مجلس سے) دور رکھو تاکہ یہ لوگ (ہمارے برابر میں بیٹھنے اور ہمارے ساتھ بات چیت میں شریک ہونے کا فائدہ اٹھا کر) ہم پر جری اور دلیر نہ ہوجائیں۔ حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ کہ ان چھ آدمیوں میں ایک تو میں تھا، ایک عبداللہ بن مسعود (رض) تھے، ایک قبیلہ ہذیل کا تھا اور دو آدمی اور تھے، جن کے نام میں نہیں بتاتا۔ (ان سرداروں کا مطالبہ سن کر) رسول کریم ﷺ کے خیال میں وہ بات آئی جو اللہ نے چاہا کہ آئے پھر آپ ﷺ نے (اس بارے میں سوچا ہی تھا کہ یہ آیت نازل ہوئی (وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه) 6 ۔ الانعام 52) یعنی ان لوگوں کو نہ ہٹائیے جو صبح وشام اپنے رب کو یاد کرتے اور پکارتے ہیں اور اس (عبادت وذکر) سے ان کا مقصد اپنے رب کی خوشنودی چاہنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ (مسلم) تشریح دو آدمی اور تھے کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ وہ دونوں آدمی حضرت خباب بن ارت اور حضرت عمار بن یاسر (رض) تھے اور بیان کرنے والے نے جو یہ کہا ہے کہ جن کے نام میں نہیں بتاتا تو یہ بات انہوں نے اس بناء پر کہی کہ اپنی کس مصلحت کے تحت وہ ان دونوں ناموں کا ذکر کرنا نہیں چاہتے تھے۔ یا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، انہوں نے یہ نام اس لئے نہیں بتائے کہ روایت حدیث کے وقت ان کو یاد نہیں رہا تھا کہ وہ دو آدمی کون تھے، تاہم روایت کے الفاظ سے پہلا ہی قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے خیال میں وہ بات آئی، یعنی وہ سرداران قریش چونکہ اپنی سماجی برتری و وجاہت کے زعم میں یہ بات گوارا نہیں کرتے تھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ ﷺ کی مجلس میں بیٹھیں تو اس مجلس میں وہ مسلمان بھی موجود ہوں اور برابری کی سطح پر شریک گفتگو رہیں جو کبھی غلام ہوا کرتے تھے اور اس اعتبار سے قریش مکہ کی سماجی زندگی میں ان کو حقیر و کمتر مانا جاتا تھا لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے اس لالچ میں کہ شائد ان سرداران قریش کو اسلام کی توفیق نصیب ہوجائے، ان کی بات رکھنے کا ارادہ فرمایا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسئلہ بہت اہم تھا۔ ایک طرف تو آپ ﷺ کی یہ شدید خواہش کہ اتنے بڑے بڑے سرداران قریش اسلام قبول کرلیں، دوسری طرف ان کا مطالبہ تھا جس سے بعض مخلص اور جان نثار مسلمانوں کی تحقیر ہوتی تھی، چناچہ آپ ﷺ کچھ اس طرح کی تدبیر سوچ رہے تھے جس سے ان سرداروں کی تالیف قلب بھی ہوجائے جو آخر کار ان کے قبول اسلام کا باعث بن سکے اور اسلام کی نظر میں ان مخلص مسلمانوں کو جو عزت و توقیر ہے اس کو بھی تحفظ حاصل رہے۔ اس کی صورت آپ ﷺ کے ذہن میں یہ آئی ہوگی کہ جب وہ سرداران قریش مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوں تو وہ مسلمان از خود مجلس میں نہ آئیں یا اگر وہ مجلس نبوی ﷺ میں پہلے سے ہی موجود ہوں اور سرداران قریش آجائیں تو از خود اٹھ کر چلے جائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان مخلص اور سچے مسلمانوں کو عزت و توقیر قائم کرنے کے لئے اس صورت کو بھی ناپسند فرمایا اور مذکورہ آیت کریمہ کے ذریعہ گویا واضح فرمایا کہ ان سرداران قریش کے مطالبہ کو کسی صورت میں قبول نہیں کرنا چاہئے۔

【9】

ابو موسیٰ اشعری کی فضیلت

اور حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا اے ابوموسیٰ ! تمہیں ایسی خوش آوازی عطا کی گئی ہے جو داؤد (علیہ السلام) کی خوش آوازی کا ایک حصہ ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح مزمار اصل میں تو ساز یعنی بانسری، دف اور طنبور وغیرہ کے ساتھ گانے کو کہتے ہیں نہ کہ محض آواز کے ساتھ گانے کو۔ لیکن یہاں حدیث میں اس لفظ سے خوش آوازی وخوش الحانی مراد ہے۔ نیز آل داؤد سے مراد خود حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ذات ہے اور آل کا لفظ زائد ہے کیونکہ خوش آوازی وخوش الحانی کی صفت حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ مشہور ہے نہ کہ آل داؤد کے ساتھ، بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہاں آل کا لفظ شخص واحد کے معنی میں ہے۔ اور وہ خود حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ذات ہے بہرحال مشہور پیغمبر حضرت داؤد (علیہ السلام) نہایت خوش آواز اور خوش الحان تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کو بھی خوش آوازی اور خوش الحانی کی بڑی صفت عطا فرمائی تھی، جب وہ اپنی پرسوز اور خوش الحان آواز میں کلام اللہ کی تلاوت کرتے تو آنحضرت ﷺ بھی نہایت شوق سے ان کی تلاوت سنتے تھے۔ حضرت ابوموسیٰ ان کا اصل نام عبداللہ بن قیس اشعری ہے، ابوموسیٰ کی کنیت سے مشہور ہیں، انہوں نے مکہ ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا اور حبشہ کو ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے بعد میں حبشہ سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اس وقت آئے جب آپ ﷺ خیبر میں تھے۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق (رض) نے ٢٠ ھ میں ان کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا تھا اور حضرت عثمان غنی (رض) کے شروع عہد خلافت تک بصرہ ہی میں مقیم رہے، پھر معزول ہو کر بصرہ کی سکونت ترک کی اور کوفہ آگئے۔ جب اہل کوفہ نے سعید بن عاص (حاکم کوفہ) کو وہاں سے نکال دیا اور حضرت عثمان (رض) سے درخواست کی کہ ابوموسیٰ کو ہمارا حاکم بنا دیجئے تو حضرت عثمان (رض) نے ان کو دوبارہ کوفہ کا حاکم بنادیا۔ حضرت عثمان (رض) کی شہادت کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کو معزول کردیا اور پھر واقعہ تحکیم کے بعد حضرت ابوموسیٰ (رض) مکہ مکرمہ میں منتقل ہوگئے اور وہیں ٥٢ ھ میں فوت ہوئے۔

【10】

چار حافظ قرآن صحابہ کا ذکر

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جن چار صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے قرآن کو جمع کیا یعنی پورا قرآن حفظ یاد کیا وہ ہیں، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید (رض) حضرت انس (رض) سے پوچھا گیا کہ ابوزید کون ہیں تو انہوں نے کہا، میرے ایک چچا ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح حضرت ابوزید (رض) کے نام میں اختلاف ہے۔ بعض حضرات نے سعید بن عمیر لکھا ہے اور بعض نے قیس بن سکن۔ یہ چاروں صحابہ انصار مدینہ کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں جو حضرت انس (رض) کا قبیلہ ہے، اس اعتبار سے کہنا چاہئے کہ حضرت انس (رض) نے جو بات کہی ہے وہ انہوں نے اظہار فخر کے طور پر کہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہمارے قبیلہ کے چار آدمیوں کو پورے کلام اللہ کا حافظ ہونے کا فخر حاصل تھا اور اگر ان کے الفاظ کو (اظہار فخر کے طور پر نہیں بلکہ) عام بیان پر بھی محمول کیا جائے تو بھی ان الفاظ میں ایسی کوئی تصریح نہیں ہے جس کی بنا پر کہا جاسکے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مذکوہ چار صحابہ کے علاوہ اور کوئی صحابی پورے کلام اللہ کا حافظ نہیں تھا۔ ایک بات تو یہ ہے کہ ایسے مواقع پر عدد کا مفہوم کوئی خاص اعتبار نہیں رکھتا دوسرے یہ کہ صحابہ کی ایک بڑی جماعت کا پورے کلام اللہ کا حافظ ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، ان میں سے ایک صحیح حدیث تو وہی ہے جس میں مذکور ہے کہ یمامہ میں جن ستر صحابہ کو شہید کیا گیا تھا وہ ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے پورا قرآن مجید حفظ یاد کر رکھا تھا، نیز خود خلفاء اربعہ بھی حفاظ قرآن صحابہ میں شامل ہیں۔

【11】

مصعب بن عمیر کی فضیلت

اور حضرت خباب بن ارت (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہمارا ہجرت کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے جذبہ کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں رکھتا تھا، چناچہ ہمارے اس عمل کا اجر وثواب اللہ کے نزدیک (محض اس کے فضل و کرم سے دنیا و آخرت میں) ثابت وقائم ہوگیا۔ پھر ہم میں سے بعض لوگ تو وہ ہیں جو (دنیا کا) کوئی بھی اجروانعام پائے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے، جن میں سے ایک مصعب بن عمیر (رض) ہیں وہ احد کے دن شہید ہوئے اور ان کے لئے کوئی ایسا کپڑا بھی میسر نہ ہوا جس میں ان کو (پوری طرح) کفنایا جاتا۔ (ان کے جسم پر) چیتے کی کھال جیسی سپید و سیاہ دھاریوں والی صرف ایک کملی تھی (اور وہ بھی اتنی مختصر کہ) جب ہم (اس کملی سے کفناتے وقت) مصعب کے سر کو ڈھانکتے تو پاؤں کھل جاتے تھے اور ان کے پاؤں کو ڈھانکتے تو ان کا سر کھل جاتا تھا۔ چناچہ (ان کے کفن کے سلسلہ میں ہماری اس پریشانی کو دیکھ کر) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کملی سے سر کی طرف کو ڈھانک دو اور پاؤں پر اذخر (گھاس) ڈال دو اور ہم میں سے بعض لوگ وہ ہیں جن کا پھل پختہ ہوگیا اور وہ اس پھل کو چن رہے ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح کوئی بھی اجروانعام پائے بغیر یعنی وہ لوگ دین کی راہ میں سخت جدوجہد اور قربانیوں کے بعد اس دنیا سے اس حال میں رخصت ہوگئے کہ ابھی اسلام کی فتوحات اور مسلمانوں کی کشور کشائیوں کا دور شروع نہیں ہوا تھا اور اس کے نتیجہ حاصل ہونے والے اس مال غنیمت سے ان کو کوئی حصہ نصیب نہیں ہوا جو اس زمانہ کے لوگوں کو مل رہا ہے۔ پس ان کا پورا اجر ان کو آخرت میں ملے گا۔ اور وہ اس پھل کو چن رہے ہیں یہ مال غنیمت سے کنایہ ہے، یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے فتوحات اور کشور کشائیوں کا زمانہ پایا اور اس نتیجہ میں جو مال غنیمت ملا اس میں سے اپنا حصہ حاصل کر رہے ہیں۔ حضرت خباب (رض) کا کہنے کا مطلب گویا یہ تھا کہ ہم میں بعض لوگ تو وہ ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا قربانیاں دیں اور پھر اسلام کی عظیم اور وسیع فتوحات کے بعد مال وزر کی فراوانی ہوئی تو اس سے ان کو مستفید ہونے کا موقع ملا اور اس طرح انہوں نے اپنے اجروثواب کا کچھ حصہ اسی دنیا میں حاصل کرلیا۔ اور ان کے مقابلہ میں بعض لوگ وہ ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی راہ میں جو بڑی سے بڑی قربانیاں دیں اور جو سخت سے سخت مصائب جھیلے ان کا کوئی ثمرہ اس دنیا میں حاصل کرنے سے پہلے ہی وہ اس دنیا سے چلے گئے اور اس طرح ان کا پورا ثواب باقی رہا جو ان کو آخرت میں ملے گا اور انہیں لوگوں میں مصعب بن عمیر بھی ہیں پس اس حدیث میں دراصل حضرت مصعب بن عمیر (رض) کی فضیلت کا بیان ہے۔ کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کا آخروی اجر وثواب جوں کا توں قائم ہے۔ اس میں سے کچھ کم نہیں ہوا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ مجاہدین کی جو بھی جماعت اللہ کی راہ میں جہاد کرتی ہے اور اس جہاد میں مال غنیمت پاتی ہے تو گویا دو تہائی ثواب اس دنیا میں مل جاتا ہے اور ایک تہائی ثواب باقی رہ جاتا ہے جو اس کو آخرت میں ملے گا۔ حضرت مصعب بن عمیر حضرت مصعب بن عمیر (رض) ، قرشی عبدری ہیں، اجلہ اور فضلاء صحابہ میں سے ہیں انہوں نے آنحضرت ﷺ کے دار ارقم میں آنے سے پہلے مکہ میں اسلام قبول کیا تھا اور اول ہجرت حبشہ کرنے والوں کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کی، پھر جنگ بدر میں شریک ہوئے، آنحضرت ﷺ نے ان کو عقبہ ثانیہ کے بعد مدینہ بھیجا تھا اور وہاں اہل مدینہ کو قرآن کی تعلیم دینے اور دین سکھانے کی خدمت ان کے سپرد فرمائی تھی، ہجرت نبوی سے قبل مدینہ میں جس نے سب سے پہلے جمعہ پڑھا وہ مصعب بن عمیر ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں حضرت مصعب بن عمیر (رض) بڑے عیش و آرام کی زندگی گزارتے تھے، اعلیٰ لباس زیب تن کرتے تھے، مگر جب مسلمان ہوگئے تو زہد اختیار کیا اور دنیا کی ہر عیش و آرام اور ہر راحت سے دست کش ہوگئے حدیث میں آیا ہے کہ ایک دن مصعب بن عمیر (رض) اس حال میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ (جسم پر ایک کملی تھی اور) کمر پر بکرے کے چمڑے کا تسمہ بندھا ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو دیکھ کر حاضرین مجلس سے فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو جس کا قلب اللہ تعالیٰ نے نور ایمان سے جگمگا رکھا ہے۔ میں نے اس شخص کو مکہ میں اس حال میں دیکھا کہ اس کے ماں باپ اس کو اعلی سے اعلی چیزیں کھلاتے پلاتے تھے اور میں نے اس کے جسم پر ایسا جوڑا دیکھا ہے جو دو سو درہم میں خریدا گیا تھا، مگر اب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت نے اس کو اس حالت میں پہنچا دیا ہے جو تم دیکھ رہے ہو، بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر (رض) کو عقبہ اولی کے بعد مدینہ بھیجا تھا، وہاں یہ اسلام کی دعوت لے کر انصار کے گھر گھر جاتے، ان کو تبلیغ کرتے اور ان کو مسلمان بنانے کی پوری پوری جدوجہد کرتے چناچہ ان کی اسی جدوجہد کے نتیجہ میں ایک ایک اور دو دو کرکے لوگ مسلمان ہوتے رہے، یہاں تک کہ مدینہ میں اسلام کا نور پھیل گیا اور اہل مدینہ کی بڑی تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی، تب انہوں نے مدینہ میں جمعہ قائم کرنے اور مسلمانان مدینہ کو نماز جمعہ پڑھانے کی اجازت آنحضرت ﷺ سے منگوائی، اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیر (رض) ستر آدمیوں کی وہ جماعت لے کر مکہ آئے جو عقبہ ثانیہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تھی قرآن کریم کی یہ آیت (مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ ) 33 ۔ الاحزاب 23) انہی حضرت مصعب بن عمیر (رض) کی شان میں نازل ہوئی۔

【12】

سعد بن معاذ کی فضیلت

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، سعد بن معاذ کے مرنے پر عرش ہل گیا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ سعد بن معاذ کے مرنے پر رحمن ہل گیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس بارے میں شارحین حدیث کے مختلف اقوال ہیں کہ عرش کے ہلنے کے کیا معنی ہیں اور اس کے ہلنے کا سبب کیا تھا ؟ ایک قول میں یہ معنی بیان کئے گئے ہیں کہ جب حضرت سعد (رض) کا انتقال ہوا تو عرش الہٰی اس خوشی میں کہ پاک روح آئی ہے واقعۃً جھوم اٹھا۔ اور ایک قول میں یہ کہا گیا کہ عرش ہل گیا کے الفاظ دراصل حضرت سعد (رض) کی پاک روح آنے کے سبب عرش الہٰی کے حقیقی یا مجازی فرح ونشاط سے کنایہ ہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ ہلنے کے لفظ کو حقیقی معنی پر محمول کیا جائے جیسا کہ پہلے قول سے ثابت ہوتا ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جمادات میں بھی علم وتمیز کا مادہ رکھا ہے، جس کا ثبوت قرآن کریم کے ان الفاظ وان منہالما یہبط من خشیۃ اللہ سے بھی ملتا ہے اور آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے بھی جو آپ ﷺ نے احد پہاڑ کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم کو محبوب رکھتا ہے۔ بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ عرش کے ہلنے سے تعبیر فرمایا۔ اور بعض حضرات نے لکھا ہے۔ یہ الفاظ حضرت سعد (رض) کے سانحہ موت کو عرش کے ہلنے سے تعبیر فرمایا۔ اور بعض حضرات نے لکھا ہے۔ یہ الفاظ حضرت سعد (رض) کی وفات کے عظیم الشان سے کنایہ ہیں۔ جیسا کہ جب کسی بہت ہی اہم اور بڑی شخصیت کا انتقال ہوجاتا ہے، تو کہہ دیتے ہیں کہ اس کی وفات سے دنیا میں اندھیرا چھا گیا، یا یوں کہتے ہیں کہ فلاں کے مرنے پر قیامت آگئی۔ حضرت سعد بن معاذ حضرت سعد بن معاذ بن نعمان مدینہ انصار میں سے ہیں اور اشہلی اوسی ہیں، ان کا شمار اجلہ اور اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مدینہ میں حضرت مصعب بن عمیر (رض) کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا جن کو آنحضرت ﷺ نے اپنی ہجرت سے پہلے دین کی تبلیغ وتعلیم کے لئے مدینہ بھیجا تھا۔ حضرت سعد (رض) کے اسلام لانے کے سبب بنی عبد الاشہل کا پورا خاندان دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو سید الانصار کا خطاب عطا فرمایا تھا جنگ بدر اور جنگ احد میں شریک ہوئے ہیں جنگ احد کے دن پوری جاں نثاری کے ساتھ ثابت قدم رہے اور آنحضرت ﷺ کے پاس سے ہرگز نہیں ہٹے غزوہ خندق کے موقع پر ان کی رگ ہفت اندام میں ایک تیر آکر لگا جس سے خون جاری ہوگیا اور کسی طرح رک نہ سکا یہاں تک کہ اسی کے سبب تقریبا ایک ماہ بعد ذیقعدہ ٥ ھ میں انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر ٣٧ سال کی تھی بقیع میں مدفون ہوئے، اسی موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا سعد کی موت پر ستر ہزار فرشتے اترے اور عرش الہٰی ہل گیا۔

【13】

حضرت سعد بن معاذ

اور براء بن عازب (جومشاہیر صحابہ میں سے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ (ایک عجمی ملک کے بادشاہ کی طرف سے) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ریشمی کپڑے کا جوڑا بطور ہدیہ پیش کیا گیا تو آپ ﷺ کے صحابہ اس جوڑے پر ہاتھ پھیرپھیر کر اس کی نرمی اور ملائمت پر تعجب اور حیرانی کا اظہار کرنے لگے۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم اس کپڑے کی نرمی اور ملائمت پر کیا تعجب کر رہے ہو جنت میں سعد بن معاذ کو جو رومال ملے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ نرم اور ملائم ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح تعجب اور حیرانی کا اظہار کرنے لگے ایک روایت میں آیا ہے کہ صحابہ نے چونکہ اتنا بیش قیمت اور ایسا نفیس جوڑا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اس لئے اس جوڑے کو دیکھ کر نہایت تعجب اور حیرانی کے ساتھ وہ یوں کہتے تھے کہ یہ جوڑا آنحضرت ﷺ پر آسمان سے نازل ہوا ہے۔ منادیل اصل میں مندیل کی جمع ہے اور مندیل اس رومال کو کہتے ہیں کہ جس سے ہاتھ وغیرہ پونچھنے کا کام لیا جاتا ہے پس اس موقع پر آپ ﷺ نے مبالغۃ ًمندیل کا ذکر کر کے گویا فرمایا واضح رہے کہ جب جنت کے کپڑوں کی ایسی چھوٹی موٹی چیزیں اس دنیا کے پیش قیمت اور نفیس ترین کپڑوں سے بھی اعلی و افضل ہوں گی تو وہاں کے اصل کپڑوں اور لباسوں کا کیا پوچھنا ہے۔

【14】

حضرت انس کے حق میں مستجاب دعا

اور حضرت ام سلیم (رض) سے (جو حضرت انس (رض) کی والدہ ہیں) روایت ہے کہ انہوں نے (جب اپنے بیٹے انس (رض) کو ان کی چھوٹی سی عمر میں آنحضرت ﷺ کی خدمت بابرکت میں پیش کیا تو اس وقت) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ انس ہے جس کو آپ ﷺ کا خادم بناکر آپ کی خدمت اقدس میں پیش کر رہی ہوں، تو (اس کو حصول ایمان اور آپ کی بابرکت صحبت و خدمت کے سبب آخرت کا اجر و انعام تو ملے ہی گا، رہی دنیاوی خوشحالی و برکت کی بات تو اس بارے میں) اس کے لئے دعا فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی خدایا، اس (انس) کے مال کو زیادہ کر، اس کی اولاد کو بڑھا اور (اپنی طرف سے) جو نعمتیں تو نے اس کو عطا کی ہیں ان میں برکت دے، حضرت انس (رض) کہتے تھے کہ اللہ کی قسم (آنحضرت ﷺ کی اسی دعا کے سبب) میرا مال نہایت بہتات اور نہایت برکت کے ساتھ ہے۔ اور میری (بلاواسطہ) اولاد اور میری اولاد کی اولاد آج شمار میں سے سو کے قریب ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح آج شمار میں سو کے قریب ہیں حضرت انس (رض) نے اپنی بلاواسطہ اور بالواسطہ اولاد کی یہ تعداد تو اس وقت بیان کی تھی جب انہوں نے اس بات کا ذکر کیا تھا، اس کے بعد ان کی اولاد میں اور بھی اضافہ ہوا، چناچہ ابن حجر (رح) نے حضرت انس (رض) کی وہ روایت نقل کی ہے جو انہوں نے اس دن کے کافی عرصہ بعد بیان کی تھی اور جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری اولاد کی اولاد کے علاوہ جو اولاد بلا واسطہ میری صلب سے مجھ کو عطا کی ہے۔ وہ تعداد میں ایک سو پچیس ہیں، جن میں دو لڑکیوں کے علاوہ باقی سب لڑکے ہیں اور (میرے مال میں بہتات و برکت کا یہ عالم ہے کہ) میرے باغات سال میں دو مرتبہ پھل دیتے ہیں۔ نیز حضرت انس (رض) کے ایک صاحبزادے نے بیان کیا کہ والد محترم حضرت انس (رض) کی صلبی اولاد میں سے جن کو میں نے دفنایا ہے۔ ان کی تعداد سو کے قریب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مال ومنال اور اولاد اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتیں ہیں بشرطیکہ وہ یاد الہٰی سے غفلت کا موجب اور گناہ و معصیت کا باعث نہ ہوں۔ اور امام نووی لکھتے ہیں یہ (حضرت انس (رض) کا اس قدر کثیرالاولاد ہونا اور کثیر المال ہونا) ہی دراصل آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ایک اعجاز ہے۔ نیز یہ حدیث ان حضرات کے حق میں جاتی ہے جو فقیر ومفلس پر غنی و مالدار کی فضیلت کے قائل ہیں۔ لیکن دوسرے حضرات کی طرف سے اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے۔ کہ اس معاملہ کی خصوصی نوعیت ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت انس (رض) کے حق میں دعا فرمائی اور اس دعا کی وجہ سے ان کے مال میں برکت ہوئی اور جب برکت (الہٰی کا دخل ہوا تو اس مال کا وہ پہلوجاتا رہا جس کو شریعت کی نظر میں فتنہ کہا جاتا ہے لہٰذا وہ مال حضرت انس (رض) کے حق میں نہ تو تقصیر اور برائی کا باعث بنا اور نہ دنیا سے تعلق رکھنے والی کسی چیز کی دعا مانگے تو اس دعا میں طلب برکت کو بھی شامل کرے یعنی اللہ سے اس چیز کو مانگنے کے ساتھ یہ بھی دعا مانگے کہ اللہ، اس چیز میں برکت عطا فرما اور مجھ کو اس کے فتنہ و آفات سے محفوظ رکھ۔ حضرت انس بن مالک بن نضر (رض) مدینہ کے باشندہ اور خزرجی ہیں، ابوحمزہ ان کی کنیت ہے ان کو ان کی والدہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں مدینہ میں اس وقت پیش کیا تھا جب وہ بارہ سال کے تھے انہوں نے حضرت عمر (رض) کے زمانہ خلافت میں بصرہ کی سکونت اس مقصد سے اختیار کرلی تھی کہ وہاں کے لوگوں کو دین کی تعلیم دیں گے اور بصرہ ہی میں ٩١ ھ میں انتقال کیا، اس وقت ان کی عمر ١٠٣ سال تھی بصرہ میں فوت ہونے والے صحابہ میں حضرت انس (رض) آخری صحابی ہیں۔ ابن عبد البر نے نقل کیا ہے کہ حضرت انس (رض) کے بیٹوں کی تعداد سو تھی اور یہی قول زیادہ صحیح ہے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ان کی اولاد کی تعداد اسی تھی جن میں اٹھتر بیٹے تھے اور دو بیٹیاں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابن حجر (رح) نے جو روایت نقل کی ہے ( اور جس میں حضرت انس (رض) کی اولاد کی تعداد ١٢٥ بیان ہوئی ہے) وہ نہ صرف ان روایتوں کے خلاف پڑتی ہے (کہ جن میں ان کی اولاد کی تعداد ایک سو یا اسی بیان کی گئی ہے) بلکہ مذکورہ بالا حدیث کے بھی مخالف نظر آتی ہے، کیونکہ اس حدیث کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) کی بلاواسطہ اور بالواسطہ اولاد کی مجموعی تعداد سو یا سو سے کچھ متجاوز تھی نہ کہ یہ تعداد صرف ان کی بلا واسطہ اولاد کی ہے۔ واللہ اعلم۔

【15】

عبداللہ بن سلام کی فضیلت

اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن سلام (رض) کے علاوہ کسی اور شخص کے بارے میں کہ جو زمین پر چلتا ہو، نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ وہ جنتی ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نہایت جلیل القدر صحابی ہیں ان کا سلسلہ نبوت حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملتا ہے، چناچہ یہ پہلے ایک یہودی تھے اور نہایت ممتاز درجہ کے علماء یہود میں شمار ہوتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت فرمائی اور انہوں نے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر اسلام اور مسلمانوں کی نمایاں خدمات انجام دیں، انہی حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے صرف ان کی نسبت آنحضرت ﷺ کی لسان مقدس سے یہ بشارت سنی ہے کہ عبداللہ بن سلام جنتی ہیں۔ جو زمین پر چلتا ہو یہ صفت اعترازیہ ہے، یعنی حضرت سعد (رض) نے یہ الفاظ اس لئے کہے تاکہ عشرہ مبشرہ میں سے ان حضرات کا استثناء ہوجائے جو حضرت عبداللہ بن سلام (رض) سے پہلے انتقال کرچکے تھے۔ گویا ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت روئے زمین پر جو لوگ زندہ ہیں ان میں صرف عبداللہ بن سلام وہ واحد شخص ہیں جن کی نسبت میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے اپنے کان سے سنا ہے کہ وہ جنتی ہیں۔ علامہ نووی (رح) لکھتے ہیں یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق (رض) وغیرہ دس صحابہ کی نسبت جنتی ہونے کی بشارت مذکور ہے کیونکہ حضرت سعد (رض) نے محض اپنے سننے کی نفی کی ہے، یعنی انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کی زبان سے یہ بشارت صرف عبداللہ بن سلام (رض) کے بارے میں سنی ہے اور کسی کے بارے میں نہیں سنی ہے۔ لہٰذا کسی اور کے بارے میں ان کا سننا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ جنتی ہونے کی بشارت عبداللہ بن سلام کے علاوہ اور شخص کو عطا نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ کسی واقعہ کے بارے میں نفی اور اثبات دونوں پہلوؤں کو ظاہر کرنے والی روایات موجود ہوں تو ترجیح اسی روایت کو ہوتی ہے جس سے اثبات ظاہر ہوتا ہے۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کے علاوہ اور بھی متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو جنتی ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے۔ جن میں سب سے زیادہ مشہور تو وہی دس صحابہ ہیں جن کو اسی بشارت کی بناء پر عشرہ مبشرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور خود حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بھی ان میں شامل ہیں۔ لہٰذا اس حدیث کے تحت جو اشکال واقع ہوتا ہے اس کا کچھ ازالہ تو مذکورہ بالا وضاحتوں سے ہوجاتا ہے، باقی کے لئے شارحین نے کچھ اور باتیں لکھی ہیں مثلا یہ کہ ہوسکتا ہے کہ جب حضرت سعد (رض) نے عبداللہ بن سلام (رض) کے علاوہ کسی اور کے حق میں مذکورہ بشارت سننے کی یہ نفی کی تھی اس وقت تک یہ بشارت آنحضرت ﷺ نے دوسروں کو عطا نہیں فرمائی تھی، یا یہ کہ حضرت سعد (رض) نے یہ نفی اس وقت کی ہوگی جب کہ باقی صحابہ مبشرین اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ چناچہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام ان صحابہ مبشرین کے بعد تک بقید حیات رہے اور جب ان کا انتقال ہوا تو عشرہ مبشرہ میں سے حضرت سعد اور حضرت سعید (رض) کے علاوہ کوئی زندہ نہیں تھا اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو دارقطنی نے نقل کی ہے اور جس میں حضرت سعد (رض) کے الفاظ یوں ہیں کہ میں نے عبداللہ بن سلام کے علاوہ کسی اور شخص کے بارے میں کہ جو اس وقت زندہ ہے اور چلتا پھرتا ہے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ وہ جنتی ہے، اب رہا یہ سوال کہ حضرت سعد (رض) نے یہ بات کہتے ہوئے خود اپنی ذات کو اور حضرت سعید (رض) کو ملحوظ کیوں نہیں رکھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے خود اپنا ذکر تو اس وجہ سے نہیں کیا کہ ان کو اپنے حق میں اس بشارت کا علم کسی دوسرے ذریعہ سے ہوا ہوگا، خود انہوں نے آنحضرت ﷺ سے یہ بشارت نہیں سنی ہوگی، یا یہ کہ انہوں نے کسر نفسی کے تحت اپنا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا ہوا ہوگا اور جہاں تک حضرت سعید (رض) کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں اشکال اس وضاحت سے صاف ہوجاتا ہے کہ حضرت سعد نے یمشی علی وجہ الارض (جو زمین پر چلتا ہو) کے جو الفاظ کہے ہیں ان سے مراد یہ ہے کہ جس وقت آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کے حق میں یہ بشارت ارشاد فرمائی تھی اس وقت وہ زمین پر چل رہے تھے جب کہ دوسروں کے حق میں یہ بشارت دوسری حالتوں میں ارشاد فرمائی گئی۔

【16】

حضرت عبداللہ بن سلام کا خواب اور ان کو جنت کی بشارت

اور حضرت قیس بن عباد (جو ایک ثقہ تابعی ہیں) بیان کرتے ہیں میں ( ایک روز) مدینہ کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک صاحب ( مسجد میں) آئے جن کے چہرہ سے خشوع (یعنی وقار و سکون اور قربت الہٰی کانور) ظاہر تھا (مسجد میں جو صاحبان موجود تھے ان میں سے) بعض نے کہا یہ صاحب جنتی ہیں، پھر ان صاحب نے (تحیۃ المسجد کی یا کوئی اور) دو رکعت نماز پڑھی اور دونوں رکعتیں ہلکی و مختصر پڑھیں اور پھر مسجد میں چلے گئے میں بھی (مسجد سے نکل کر) ان کے پیچھے پیچھے ہولیا اور (ایک جگہ پہنچ کر) ان سے بولا کہ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تھے تو بعض لوگوں نے کہا تھا کہ یہ صاحب جنتی ہیں ( اس بارے میں آپ مجھ کو بتانے کی زحمت گوارا فرمائے) ان صاحب نے کہا واللہ، (میں اس کی تصدیق نہیں کرسکتا کیونکہ) کسی شخص کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اس بات کو کہے جس کو نہیں جانتا اور میں تم کو اس (عدم تصدیق) کی وجہ بتاتا ہوں۔ (بات یہ ہوئی تھی کہ) رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ( ایک روز) میں نے ایک خواب دیکھا تھا اور وہ خواب میں نے آنحضرت ﷺ سے بیان کردیا تھا میں نے (خواب میں) دیکھا تھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں۔ پھر ان صاحب نے اس باغ کی وسعت و کشادگی اور تروتازگی وشادابی کا ذکر کیا اور (کہا کہ پھر میں نے دیکھا کہ) اس باغ کے بیچوں بیچ لو ہے کا ایک ستون ہے کہ جس کا نیچے کا سرا زمین کے اندر ہے اور اس کے اوپر کا سرا آسمان میں ہے اور اس ستون کے اوپر ایک حلقہ ہے، پھر مجھ سے کہا گیا کہ اوپر چڑھو ! میں نے کہا میں چڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا تب ایک خادم میرے پاس آیا جس نے پیچھے سے میرے کپڑے اٹھائے اور میں اوپر چڑھنے لگا، یہاں تک کہ میں اس ستون کی آخری بلندی تک پہنچ گیا اور اس حلقہ کو پکڑ لیا، پھر مجھ سے کہا گیا کہ اس حلقہ کو مضبوط پکڑے رہنا۔ اور پھر میری آنکھ کھل گئی اس حال میں کہ وہ حلقہ میرے ہاتھ میں تھا جب نبی کریم ﷺ کے سامنے میں نے یہ خواب بیان کیا تو آپ ﷺ نے (اس خواب کی تعبیر میں) فرمایا وہ باغ (جو تم نے نہایت وسعت و کشادگی اور تروتازی کے ساتھ دیکھا) دین اسلام ہے اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے (یعنی اسلام کے احکام وارکان سے عبارت ہے جن پر بنائے مسلمانی ہے) اور وہ حلقہ ( کہ جس کو تم نے دیکھا اور پکڑا) عروہ وثقی ہے پس (اس خواب میں اس طرف اشارہ ہے کہ) تم اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک اسلام پر ثابت قدم رہو گے اور (قیس بن عباد کہتے ہیں کہ) وہ صاحب حضرت عبداللہ بن سلام (رض) تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح کسی شخص کے لئے مناسب نہیں ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ ان صاحب یعنی عبداللہ بن سلام (رض) نے گویا ان لوگوں کی تصدیق کرنے سے انکار کیا جنہوں نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ صاحب جنتی ہیں اور علامہ نووی (رح) نے لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نے ان کی تصدیق سے یہ انکار اس جہت سے کیا کہ ان لوگوں نے قطعی و یقینی انداز میں ان کے جنتی ہونے کی بات کہی تھی۔ پس کہا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں نے تو یہ بات اس بناء پر کہی تھی کہ ان کے علم میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی وہ حدیث تھی جس میں آنحضرت ﷺ کی طرف سے عبداللہ بن سلام (رض) کو جنتی ہونے کی بشارت عطا کئے جانے کا ذکر ہے اور حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نے ان کی اس بات کی تصدیق اس لئے نہیں کی کہ انہوں نے اپنے بارے میں یہ بشارت نہیں سنی ہوگی اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی مذکورہ روایت ان تک نہیں پہنچی ہوگی۔ اور یہ بھی کہا سکتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کو بھی اپنے بارے میں مذکورہ بشارت کا علم تو تھا، لیکن انہوں نے کسر نفسی کے تحت اس وقت یہ پسند نہیں کیا کہ ان لوگوں کی تصدیق کر کے اپنی عظمت و بڑائی کے اظہار کا سبب بنیں اور اس بشارت کی بنیاد پر لوگوں میں شہرت حاصل کریں۔ گویا ان کے اس انکار کا مطلب یہ تھا کہ بلاشبہ آنحضرت ﷺ کی عطا کردہ بشارت کے تحت میں جنتی ہونے کی توقع رکھتا ہوں لیکن اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس بشارت کی بنا پر میری عظمت و بڑائی بیان کی جائے اور میری ذات کو شہرت دی جائے کیونکہ اس طرح کی بشارت میرے علاوہ اور لوگوں کو بھی عطا ہوئی، پھر مجھ میں ہی کیا خصوصیت ہے کہ میں اس بشارت کے ذریعہ مشہور و نمایاں کیا جاؤں اور جیسا کہ طیبی نے لکھا ہے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اپنے ان الفاظ اور میں تم کو اس کی وجہ بتاتا ہوں کے ذریعہ دراصل ان لوگوں کی تصدیق سے انکار کی طرف اشارہ کیا یعنی انہوں نے گویا یہ کہا کہ میں ان لوگوں کی تصدیق نہیں کرسکتا اور تصدیق نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے یہ خواب دیکھا اس خواب کو آنحضرت ﷺ سے بیان کیا اور آنحضرت ﷺ کی تعبیر میں یہ فرمایا میرے علم کی حد تک تو ساری بات بس اتنی ہی ہے اور یہ بات اس امر میں کہ میں یقینی طور پر جنتی ہوں میرے نزدیک آنحضرت ﷺ کی طرف سے نص قطعی کا درجہ ہرگز نہیں رکھتی جیسا کہ دوسروں کے حق میں اس طرح کی بشارت نص قطعی کی صورت میں مذکور ہے۔ اور بعض شارحین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مذکور الفاظ کے ذریعہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نے ان لوگوں کی بات کی تصدیق سے انکار نہیں کیا بلکہ دراصل انہوں نے ان کی بات کی تصدیق کی۔ یعنی انہوں نے گویا یہ کہا ہے کہ جو بھی شخص آنحضرت ﷺ کی صحبت سے فیضیاب ہوچکا ہے یا جو شخص آنحضرت ﷺ کی احادیث اور آپ ﷺ کے ارشادات سے باخبر ہے وہ ایسی کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتا جو اس کے علم سے باہر کی ہو، پس وہ لوگ اس بات کو جانتے ہی ہوں گے جو انہوں نے میرے متعلق کہا کہ میں جنتی ہوں اور خود میں بھی اس بارے میں تھوڑا بہت جو جانتا ہوں اس کو بیان کئے دیتا ہوں اور وہ یہ خواب ہے۔ اس حال میں کہ وہ حلقہ میرے ہاتھ میں تھا یعنی خواب میں اس حلقہ کو میں پکڑے ہی ہوئے تھا کہ اسی لمحہ میری آنکھ کھل گئی پس اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ آنکھ کھلنے کے بعد بھی وہ حلقہ ان کے ہاتھ میں تھا، ویسے اگر روایت کے الفاظ کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کیا جائے کہ بیدار ہونے کے بعد بھی وہ حلقہ ان کے ہاتھ میں تھا تو اس میں کچھ استبعاد بھی نہیں کیونکہ حق تعالیٰ کی قدرت میں ایسا ہونا ناممکن نہیں ہے بلکہ عام طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے اور نہ ان الفاظ سے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کی یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ اس خواب کا اثر جاگنے کے بعد بھی میرے ہاتھ میں باقی تھا، یعنی جب صبح ہوئی اور میری آنکھ کھلی تو میری مٹھی اسی حالت میں بند تھی جیسا کہ میں نے خواب میں اس حلقہ کو پکڑ رکھا تھا۔ اور وہ حلقہ عروہ ثقی ہے انہوں نے دراصل اللہ تعالیٰ کے ارشاد ویومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی ( اور جس شخص نے اللہ پر ایمان رکھا تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا) کی طرف اشارہ فرمایا کہ خواب میں تمہارے ستون کے اوپر چڑھنا اور اس کے حلقہ کو پکڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تمہارا ایمان و اخلاص کامل ہے اور تم نے دین اسلام کو اس مضبوطی سے تھام رکھا ہے کہ درجات و مراتب کی اپنی آخری بلندیوں تک پہنچ گئے ہو۔ وہ صاحب عبداللہ بن سلام (رض) تھے ظاہر تو یہی ہے کہ یہ الفاظ حضرت قیس بن عباد (رض) کے ہیں لیکن یہ بھی بعید نہیں کہ یہ خود حضرت عبداللہ بن سلام (رض) ہی کے الفاظ ہوں جن کے ذریعہ انہوں نے اپنے بارے میں وضاحت کی اور اپنے غائب سے تعبیر کیا۔

【17】

حضرت ثابت بن قیس کو جنت کی بشارت

اور حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس انصار کے خطیب تھے (یعنی انصار میں یہ وہ شخص تھے جن کی بات چیت فصاحت و بلاغت سے پُر ہوتی تھی اور جو نثر کے مانے ہوئے ادیب وخطیب تھے) جب یہ آیت نازل ہوئی (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْ ا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ) 49 ۔ الحجرات 2) (یعنی اے ایمان والو، اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرو الخ) تو ثابت اپنے گھر میں بیٹھے رہے اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آنا جانا بند کردیا، نبی کریم ﷺ نے (ایک دن) سعد بن معاذ (رض) سے (جوانصار کے سردار تھے) پوچھا کہ ثابت کو کیا ہوا (کہ انہوں نے آنے جانے بند کر رکھا ہے اور کہیں دکھائی نہیں دیتے) کیا وہ بیمار ہیں ؟ سعد (چپ رہے انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ خود ان کو ثابت کے بارے میں معلوم نہیں تھا اور تحقیق کئے بغیر کوئی جواب دینے سے قاصر تھے، چناچہ وہ تحقیق حال کے لئے) ثابت کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے رسول کریم ﷺ کے الفاظ نقل کئے (کہ آنحضرت ﷺ تمہیں پوچھ رہے تھے اور فرمایا کہ کیا ثابت بیمار ہیں جو ہمارے پاس نہیں آتے) ثابت نے (یہ سن کر) کہا کہ یہ آیت (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْ ا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ) 49 ۔ الحجرات 2) نازل ہوئی (جو آنحضرت ﷺ کے سامنے بلند آواز میں بات چیت کرنے سے منع کرتی ہے) اور تم جانتے ہی ہو کہ تم میں سب سے زیادہ میری ہی آواز رسول کریم ﷺ کی آواز بلند ہے، لہٰذا میں تو دوزخی ہوں، سعد (رض) نے آکر نبی کریم ﷺ سے ثابت کے الفاظ نقل کئے اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ ثابت تو جنتی ہے۔ (مسلم) تشریح کیا وہ بیمار ہیں ؟ ظاہر یہ ہے کہ حضرت ثابت (رض) کے صدق حال نے تاثیر کی اور آنحضرت ﷺ کے دریافت کرنے کا باعث ہوا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں پوچھا اور تشویش ظاہر فرمائی کہ وہ کہیں بیمار تو نہیں ہیں جو ہماری مجلس میں ان کا آناجانا بند ہے حالت خویش چہ حاجت کہ بوئے شرح دہم گر مرا سوز دلی ہست اثر خواھد کرد میں تو دوزخی ہوں دراصل حضرت ثابت طبعی و جبلی طور پر بلند آواز تھے اور خطابت کے وصف نے ان کی آواز اور ان کے لب و لہجہ کو اور زیادہ جاندار اور بلند کردیا تھا چناچہ بات چیت میں ان کی آواز بلاقصد بھی بلند ہوجایا کرتی تھی۔ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو وہ یہ سمجھے کہ میں اپنی آواز کو پست رکھنے پر چونکہ قادر ہی نہیں ہوں اور آنحضرت ﷺ کے سامنے بھی میری آواز لا محالہ بلند رہتی ہے اس لئے میں اس آیت کے عدم تعمیل کا مرتکب ہوں اور اسی کے سبب میرے سارے اعمال برباد ہوگئے، میں دوزخی ہوگیا، انہوں نے یہ نہیں جانا کہ اس آیت کی مراد آنحضرت ﷺ کے سامنے اس اونچی آواز میں گفتگو کرنے سے منع کرنا ہے جو قصد واختیار کے تحت ہو اور جس سے بےادبی ظاہر ہوتی ہو۔ ثابت توجنتی ہے یعنی ثابت نے میرے ادب و احترام میں جس شدت سے احتیاط کا پہلواختیار کیا کہ طبعی و جبلی بلند آواز کو بھی ناجائز رکھا اس کی بناء پر اس نے جنت کا استحقاق پیدا کرلیا ہے وہ جنت میں جائے گا، چناچہ حضرت ثابت بن قیس (رض) کا جنتی ہونا واقعاتی طور پر بھی اس طرح ثابت ہوا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ جنگ یمامہ میں شرکت کی اور جام شہادت نوش کیا، منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صد یق (رض) نے جب مسلیمہ کذاب کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور مجاہدین اسلام کو تیاری کا حکم دیا تو حضرت ثابت بن قیس (رض) نے اپنا کفن تیار کرایا اور اسی کفن کو پہن کر جنگ یمامہ میں مسلیمہ کذاب کے خلاف لڑے، یہاں تک کہ وہی کفن پہنے ہوئے شہید ہوئے۔ اس حدیث کے تحت ایک اشکال بھی واقع ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مذکورہ آیت کا ٩ ھ میں نازل ہونا بیان کیا جاتا ہے جب کہ حضرت سعد بن معاذ اس سے پہلے ٥ ھ ہی میں وفات پاچکے تھے ؟ اس کا جواب شارحین نے یہ لکھا ہم کہ اس حدیث میں حضرت ثابت کے تعلق سے جس آیت کا ذکر ہے وہ بس وہی ہے جس میں فقط آواز بلند نہ کرنے کا حکم مذکور ہے یعنی (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْ ا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ) 49 ۔ الحجرات 2) نہ کہ سورت کی پہلی آیت یعنی (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُ قَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ ۔ الخ) 49 ۔ الحجرات 1) کا پس سورت کی یہ پہلی آیت تو ٩ ھ میں نازل ہوئی ہوگی اور حدیث میں مذکورہ آیت حضرت سعد بن معاذ (رض) کے انتقال سے پہلے نازل ہوچکی ہوگی۔

【18】

حضرت سلمان فارسی کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک سورت جمعہ نازل ہوئی اور جب یہ آیت آئی (وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) 62 ۔ الجمعہ 3) (اور ان میں کچھ دوسرے لوگ وہ ہیں جو ابھی ان سے آکر نہیں ملے ہیں) تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! وہ کون لوگ ہیں (جو ابھی آکر نہیں ملے ہیں ؟ ) حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ اس وقت ہمارے درمیان سلمان فارسی (رض) بھی تھے۔ نبی کریم ﷺ نے (صحابہ کا یہ سوال سن کر) اپنا ہاتھ سلمان پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی ہوتا تو بلاشبہ ان لوگوں میں کتنے ہی اس کو پالیتے اور حاصل کرتے ، (بخاری ومسلم) تشریح پوری آیت اپنے سیاق کے ساتھ یوں ہے۔ (هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّ نَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِه وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ۔ وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ۔ ) 62 ۔ الجمعہ 3-2) (اللہ) ہی تو ہے جس نے (عرب کے) امی لوگوں میں ان ہی (کی قوم) میں سے (یعنی عرب میں سے) ایک پیغمبر ﷺ جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو (برے عقائد اور بری عادتوں سے) پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب و دانائی (کی باتیں) سکھاتے ہیں۔ اور یہ لوگ (ان پیغمبر ﷺ کی بعثت سے) پہلے کھلی گمراہی میں تھے اور ان میں سے (کہ جن میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجا ہے) دوسرے لوگ وہ ہیں جو ابھی ان میں آکر شامل نہیں ہوئے ہیں اور وہ (اللہ) زبر دست حکمت والا ہے۔ اس آیت میں (امی یعنی ناخواندہ لوگوں) سے مراد اہل عرب ہیں اور اشارہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف ہے جنہوں نے گمراہی و جہالت کا راستہ چھوڑ کر نبی آخر الزمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ آخرین (دوسرے لوگوں ) سے مراد وہ لوگ ہیں جو نزول قرآن کے وقت موجود نہیں تھے بلکہ بعد کے زمانہ میں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وقت اسلام لانے والوں میں شامل ہوئے، گویا تابعین کی طرف اشارہ ہے اور تابعین بھی خاص طور پر وہ جن کا تعلق غیر عرب یعنی عجم سے ہے، چناچہ تابعین کی اکثر تعداد عجمیوں ہی پر مشتمل ہے جیسا کہ چند کو چھوڑ کر باقی سب صحابہ عرب سے ہیں بہرحال آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں گویا حضرت سلمان (رض) کی تعریف کی جو غیر عرب یعنی عجمی ہیں اور ان کی نسبت سے واضح فرمایا کہ آیت میں آخرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس وقت تو دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہیں یا تو اس وجہ سے کہ وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں اور یا اس وجہ سے کہ ان تک ابھی دعوت اسلام نہیں پہنچی ہے لیکن بعد میں یہ تمہارے پاس آئیں گے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوں گے اور ان میں سے اکثر عجمی ہوں گے۔ وہ لوگ دین اور علم کے ایسا جو یا ہوں گے کہ اگر دین و ایمان اور علم کا سرمایہ ثریا کی بلندی پر پہنچ جائے تو وہ اس کو وہاں سے بھی حاصل کریں گے چناچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان تابعین نے جس جستجو و محنت سے دین و ایمان حاصل کیا اور علم و اجتہاد کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ صحابہ کے بعد صرف انہی کا وصف ہے۔ حضرت سلمان فارسی (رض) کا نام سلمان اور کنیت ابوعبداللہ ہے ان کا وطنی تعلق فارس (ایران) سے تھا اس لئے فارسی کی نسبت سے مشہور ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام ہیں کیونکہ آپ ﷺ نے ان کو ایک یہودی سے خرید کر آزاد کیا تھا حضرت سلمان کا شمار نہایت جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے بیان کیا جاتا ہے کہ یہ فارس کے مشہور نسل رام ہرمزم سے ہیں جو مذہبًا مجوسی تھیں اور ابلق گھوڑوں کی پچاری سمجھی جاتی تھی حضرت سلمان شروع ہی سے دین حق کی جستجو میں لگ گئے تھے اسے سلسلے میں انہوں نے اپنا آبائی مذہب ترک کرکے عیسائیت کو اختیار کرلیا تھا اور اس کی مذہبی کتابوں کا علم حاصل کیا ان کے والد اور اعزاواقرابا کو ان کا عیسائی بن جانا پسند نہیں آیا، چناچہ ان سب نے ان کو سخت سزائیں اور اذیتیں دیں مگر انہوں نے ہر سختی اور ہر اذیت کو برداشت کیا اور عیسائیت کو ترک نہیں کیا۔ پھر یہ اپنا ملک و وطن چھوڑ کر شام آگئے اور یہاں عرب سے آئے ہوئے بعض لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے، جنہوں نے ان کو مدینہ لا کر ایک یہودی کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں حضرت سلمان فارسی (رض) یکے بعد دیگرے دس آدمیوں کے ہاتھوں بیچے گئے۔ اور ان سب کی غلامی میں رہے۔ تاآنکہ نبی کریم ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو یہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا سلمان جنتیوں میں سے ہے اور ان میں سے ایک ہیں جن کو جنت کا اشتیاق وانتظا رہے حضرت سلمان (رض) کی عمر بہت طویل ہوئی۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ وفات کے وقت ان کی عمر ساڑھے تین سو سال کی تھی اور بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے ڈھائی سو سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور زیادہ صحیح یہی قول ہے انہوں نے یہ طویل عمر دین حق کی جستجو میں کھپائی یہاں تک کہ آخر میں نبی آخر الزمان ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر گوہر مقصود کو پہنچ گئے۔ حضرت سلمان محنت ومشقت کرکے اپنی روزی کماتے تھے اور اپنی کمائی کا زیادہ سے زیادہ حصہ اللہ کے راستہ میں خرچ کردینا ان کا معمول تھا۔ ان کے فضائل ومناقب بیشمار ہیں، سرکار دو عالم ﷺ نے ان کی بہت زیادہ مدح و تعریف فرمائی ہے۔ ٣٥ ھ میں بمقام مداین میں ان کا انتقال ہوا۔

【19】

حضرت ابوہریرہ کے حق میں دعائے محبوبیت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے دعا فرمائی اے اللہ ! اپنے اس چھوٹے سے بندے یعنی ابوہریرہ اور اس کی ماں کو اپنے مؤمن بندوں کا محبوب بنا اور اہل ایمان کو ان کا محبوب بنا دے۔ (رواہ مسلم) تشریح یعنی اے اللہ ! ایسا کر کہ یہ دونوں، جو نہایت غریب ونادار اور لاچار وبیکس ہیں، تیرے مؤمن بندوں کی نظر میں محبت و توجہ کا مرکز بن جائیں اور خود یہ بھی تیرے مسلمان بندوں کو اپنا محبوب، دوست اور غم خوار سمجھتے رہیں۔

【20】

کمزوروں اور لاچاروں کی عزت افزائی

اور حضرت عائذ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ( امیر معاویہ (رض) کے والد) ابوسفیان (جب مدینہ آئے اور ایک موقع پر) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسی، صہیب رومی اور بلال حبشی (رض) کے سامنے سے گزرے تو ان تینوں نے (ابو سفیان کو دیکھ کر) کہا کیا اللہ (کے ان بندوں) کی تلواروں نے ( کہ جو اللہ کے حکم کی تعمیل میں سر گرم رہتے ہیں) ادائے حق میں دشمن اللہ کی گردن ابھی نہیں اڑائی ؟ حضرت ابوبکر صدیق (رض) (نے یہ سنا تو ان تینوں حضرات کو مخاطب کر کے) بولے ! تم قریش کے اس بڑے آدمی کے بارے میں ایسی بات کہہ رہے ہو جو اپنی قوم کا سردار بھی ہے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی، آنحضرت ﷺ نے (ساری تفصیل سنکر) فرمایا ابوبکر ! تم نے شاید ان تینوں کو ناراض کردیا ہے اور اگر تم نے ان کو ناراض کیا ہے تو اللہ کی قسم تم نے اپنے پروردگار کو ناراض کردیا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ( یہ سنتے ہی کانپ اٹھے اور فورا بھاگے ہوئے) ان تینوں کے پاس آئے اور بولے اے میرے بھائیو ! کیا تم مجھ سے غصہ اور ناراض ہوگئے ہو ؟ ان تینوں نے جواب دیا اے میرے بھائی اللہ آپ کو معاف کرے ( ہم آپ سے ناراض نہیں ہوئے ہیں ) ۔ ( مسلم) تشریح مدینہ میں ابوسفیان کی آمد کا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور صلح نامہ حدیبیہ کی تجدید کے مشن پر قریش مکہ کے نمائندہ کے طور پر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے تھے۔ قریش مکہ دعوت اسلام کی راہ میں جس جارحانہ مزاحمت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اہل اسلام کو جس بےدردی کے ساتھ اور جس ظالمانہ طریقہ سے ستاتے اور تکلیف پہنچاتے تھے۔ اور خود صلح نامہ حدیبیہ کی پامالی اور عہد شکنیوں کے جس طرح مرتکب ہوئے تھے اس بناء پر دین کے ان تینوں پر جوش اور مخلص خادموں یعنی سلمان، صہیب اور بلال کا ابوسفیان کو مدینہ میں دیکھ کر اس تاسف کا اظہار کرنا کہ اتنابڑا مشرک ابھی تک ہمارے ہاتھ سے نہیں مارا گیا۔ بالکل فطری امر تھا۔ تاہم ان تینوں کے اس طرح کے جذبات کے برملا اظہار پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے جس ناگواری کا اظہار فرمایا وہ بھی تدبر اور مصلحت وقت کا تقاضا تھا کیونکہ اول تو ابوسفیان اس وقت ایک سفارتی مشن پر مدینہ آئے ہوئے تھے اور ان کو جان ومال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت حاصل تھی اور اس ضمانت (امان) کا لحاظ کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری تھا۔ دوسرے دین کی طرف مائل کرنے کے لئے اور مصالح کے تحت ابوسفیان کی دلجوئی کا مقصد بھی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے سامنے تھا جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ بھی ایسے مواقع پر بعض مشرک سرداروں کے ساتھ خیر سگالی اور دلجوئی کا سلوک فرماتے تھے۔ تم نے شائد ان تینوں کو ناراض کردیا ہے یعنی تم نے ان تینوں کی بات پر جو مخالفانہ رد عمل ظاہر کیا ہے وہ چاہے تدبر اور مصلحت کے تحت تھا لیکن یہ بات نہ بھو لو کہ وہ تینوں دین کے مخلص خادم ہر حالت میں اللہ کے محب اور محبوب ہیں اور انہوں نے ابوسفیان کے تئیں جو کچھ کہا وہ صرف اللہ اور اللہ کے دین کی محبت میں اور ایک دشمن دین و خدا کی نفرت میں کہا، لہٰذا اس جہت سے تم نے ان تینوں کی مخالفت کر کے اگر ان کو ناراض کردیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اللہ کے محبوب بندوں کے مقابلہ پر ایک دشمن دین کے پہلو کی رعایت کرنے کا مرتکب ہوگئے جس کا سبب گویا تم نے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے لی ہے۔ لہٰذا تم فورا ان تینوں کے پاس جاؤ، ان سے معذرت کرو، اگر وہ ناراض ہوگئے ہیں تو ان کی ناراضگی کو دور کرو۔ نہیں اے میرے بھائی ظاہری اسلوب کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہاں یا اخانا (اے ہمارے بھائی) کہا جاتا، تاہم ہوسکتا ہے کہ یا اخی (اے میرے بھائی) کا لفظ ان تینوں کی طرف سے نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک کی طرف سے نقل کیا گیا ہے یعنی ان تینوں میں سے ہر ایک نے الگ الگ یوں کہا کہ نہیں اے میرے بھائی (میں آپ سے ناراض نہیں ہوں) واضح ہو کہ مشکوٰۃ کے بہت سے نسخوں میں یہ لفظ ہمزہ کے پیش کے ساتھ بصیغہ تصغیر یعنی اخی نقل ہوا ہے اور ایک نسخہ میں ہمزہ کے زیر اور ی کے جزم کے ساتھ بھی مذکور ہے ویسے ہمزہ کے زبر کے ساتھ بھی یہ لفظ کوئی قباحت نہیں رکھتا۔ مذکورۃ الصدر تینوں حضرات یعنی سلمان فارسی صہیب رومی اور بلال حبشی صحابہ کے اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو غلامی کی نسبت سے غیر مسلم سماج میں کمتر و پست سمجھے جاتے تھے اور معاشی و اقتصادی طور پر بھی نہایت غریب اور مفلوک الحال تھے۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ ان حضرات کی دلداری و دلجوئی کا بڑا لحاظ رکھتے تھے۔ اور ایسی کوئی بات نہیں ہونے دیتے تھے۔ جس سے ان مخلصوں کو اپنی کمزوری و لاچاری کا احساس ہوا اور ان کی عزت ونفس کو دھکا لگے جس کی ایک مثال یہی حدیث ہے۔ چناچہ اس حدیث سے نہ صرف یہ کہ سماجی ومعاشی طور پر مفلس و کمزور صحابہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے بلکہ آنحضرت ﷺ نے گویا اس طرف توجہ دلائی کہ ان کی تعظیم و تکریم اور ان کی رعایت خاطر کو ہر حالت میں ملحوظ رکھا جائے۔ حضرت صہیب رومی صہیب بن سنان عبداللہ بن جدعان تیمی کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ ابویحییٰ کنیت ہے یہ اصل میں دجلہ وفرات کے درمیان موصل کے رہنے والے تھے۔ جب رومی فوجوں نے اس علاقہ پر دھاوا بولا اور لوٹ مار کی تو صہیب بھی ان لوگوں میں تھے جن کو رومی فوج نے قیدی بنا رکھا تھا اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ اس وقت یہ چھوٹی عمر کے تھے جب بڑے ہوئے تو شکل وشباہت سے بالکل رومی لگنے لگے۔ بعد میں قبیلہ کلب کے کچھ لوگوں نے ان کو رومیوں سے خرید لیا اور ان کو مکہ لے آئے۔ پھر عبداللہ بن جدعان نے ان کو خریدا اور آزاد کردیا۔ عبداللہ بن جدعان کی موت تک حضرت صہیب اسی کے ساتھ رہے۔ ایک روایت یہ ہے کہ صہیب جب روم میں رہتے ہوئے بڑے ہوگئے اور عقل وسمجھ آگئی تو وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور مکہ آگئے۔ مکہ میں عبداللہ بن جدعان کے پاس پہنچے اور اس کے حلیف بن کر اسی کے ساتھ رہنے لگے۔ حضرت صہیب قدیم ا الا سلام ہیں۔ انہوں نے دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ ہی میں مکہ میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت صہیب اور حضرت عمار بن یاسر (رض) نے ایک ہی دن اسلام قبول کیا تھا جب کہ رسول اللہ ﷺ دار ارقم میں مقیم تھے۔ اور اس وقت تک کچھ اوپر تیس آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت صہیب بھی ان کمزور و لاچار مسلمانوں میں ہیں جن کو اللہ کی راہ میں سخت ترین آزمائشوں سے گزرنا پڑا اور جو قریش مکہ کے بہت زیادہ ظلم وستم کا نشانہ بنے۔ بعد میں انہوں نے مکہ چھوڑ دیا اور ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ ٨٠ ھ میں بعمر ٧٠ سال مدینہ میں ان کا انتقال ہوا اور بقیع میں مدفون ہوئے۔ قرآن کی آیت (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْ تِغَا ءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) 2 ۔ البقرۃ 207) انہی کی شان میں نازل ہوئی تھی۔

【21】

انصار کی فضیلت

اور حضرت انس (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا (یعنی کمال ایمان) کی نشانی (تمام) انصار سے محبت رکھنا۔ اور نفاق کی نشانی انصار سے بغض و دشمنی رکھنا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح انصار کا لفظ لغوی طور پر ناصر یا نصر کی جمع ہے اور اصطلاحا اس لفظ کا اطلاق مدینہ کے ان لوگوں پر ہوتا ہے جو آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے اور جان ومال سے آپ ﷺ کی مدد کی دراصل مدینہ میں دو قبیلے آباد تھے۔ ایک کے مورث اعلی کا نام اوس اور دوسرے کامورث اعلی کا نام خزرج تھا اوس و خزرج دونوں بھائی تھے اور آگے چل کر ان دونوں کی نسلوں نے دو زبر دست قبیلوں کی صورت اختیار کرلی۔ مدینہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی آمد سے پہلے یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے خلاف بھیانک مخاصمت و دشمنی رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ہجرت نبوی کے وقت تک مسلسل ایک سو بیس سال سے ان دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ و عداوت چلی آرہی تھی، لیکن جوں ہی انہوں نے اسلام و توحید اور پیغمبر اسلام ﷺ سے تعلق قائم کیا ان کی باہمی عداوت ومخاصمت، باہمی محبت وموانست میں بدل گئی۔ آنحضرت ﷺ نے ان دونوں قبیلوں کو انصار کا لقب عطا فرمایا اور اسی لقب کے ذریعہ ان قبیلوں کے لوگ ممتاز ہوئے۔ ان کے بعد ان کی اولاد، ان کی نسلوں اور ان کے آزاد کردہ غلاموں کے لئے بھی یہ لقب باقی رہا۔ انصار کے فضائل ومناقب کا کوئی ٹھکانہ نہیں، اسلام میں بلند تر، شرف و اعزاز ان کو حاصل ہے قرآن کریم میں ان کی تعریف مذکور ہے اور یہ عظیم تر رتبہ ان کو اس بناء پر حاصل ہوا کہ انہوں نے نہایت مخلصانہ طور پر پیغمبر اسلام کو ٹھکانا دیا۔ جان ومال سے آپ ﷺ کی مدد کی اور آپ ﷺ کے دعوتی مشن کے نہایت زبردست اور موثر و معاون بنے۔ اور چونکہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی معاونت کر کے تمام عرب وعجم کے دشمنان دین کی عداوت مول لی۔ اس لئے ضروری ہوا کہ ان کی محبت کو ایمان کی علامت اور ان کی عداوت کو کفر ونفاق کی علامت، اسی طرح ان کے تئیں کمال محبت کو کمال ایمان کا موجب اور ان کے تئیں نقصان محبت کو نقصان ایمان کا موجب قرار دیا جائے بلکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی شخص اس بناء پر ان سے عدوات رکھے کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے معاون و مددگار بنے تو وہ شخص یقینی طور پر حقیقی کافر ہے۔

【22】

انصار کو محبوب رکھنے والا اللہ کا محبو ب

اور حضرت براء بن عازب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے تھے سنا انصار سے وہی محبت رکھتا ہے جو (کامل) مؤمن ہم اور انصار سے وہی شخص عداوت و دشمنی رکھتا ہے جو ( حقیقی) منافق یا مجازی منافق یعنی فاسق ہے۔ بس جو شخص انصار کو محبوب رکھے گا اللہ اس کو محبوب رکھے گا۔ اور جو شخص انصار سے دشمنی رکھے گا اللہ اس سے دشمنی رکھے۔ (بخاری ومسلم )

【23】

بعض انصار کے شکوہ پر آنحضرت ﷺ کا پر اثر جواب

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ انصار کے بعض لوگوں نے اس وقت شکوہ کا اظہار کیا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو قبیلہ ہوازن کا وہ مال غنیمت عطا کرنا تھا اور آنحضرت ﷺ نے قریش میں کے کئی لوگوں کو سو سو اونٹ دینا شروع کئے چناچہ انصار میں سے ان بعض لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو بخشے آپ ﷺ قریش کو تو (اتنا زیادہ) عطا کر رہے ہیں اور ہم کو زیادہ نہیں دے رہے ہیں۔ حالانکہ ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے، چناچہ رسول کریم ﷺ کے علم میں جب ان لوگوں کا یہ شکوہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے ان تمام انصار کو بلا بھیجا اور ان کو اپنے اس خیمہ میں جمع کیا جو چمڑے کا بنا ہوا تھا۔ ان کے ساتھ کسی دوسرے کو نہیں بلایا گیا تھا۔ (یعنی صرف انصار ہی کو جمع کیا گیا، ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہیں بلایا گیا تھا) جب سب انصار جمع ہوئے تو رسول کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا وہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھ کو پہنچائی گئی ہے ؟ ان (انصار) میں جو عقل مند ودانا لوگ تھے وہ بولے یا رسول اللہ ﷺ ! ہم میں سے عقلمند اور ذی رائے لوگوں نے کچھ نہیں کہا ہاں ہم میں سے کچھ نوعمر اور نوجوان لوگوں نے (نا سمجھی سے یہ بات ضرور کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو بخشے۔ آپ ﷺ قریش کو تو (اتنا زیادہ) عطا کر رہے ہیں اور ہم انصار کو (زیادہ) نہیں دے رہے ہیں۔ حالانکہ ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ابھی ابھی (چند ہی روز پہلے) کافر تھے انہی کو میں (اس مال میں سے) دے رہا ہوں ( اور اس طرح) ان کا دل ملاتا ہوں (یعنی ان کو زیادہ دینے کا واحد مقصد تالیف قلوب ہے۔ تاکہ وہ اسلام پر قائم رہیں) اس کے علاوہ اور کوئی مقصد یا جذبہ کار فرما نہیں ہے۔ اور اے انصار ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ (تمہارے علاوہ وہ) لوگ (کہ جو مولفتہ القلوب ہیں) مال و اسباب لے کر یہاں لوٹیں اور تم لوگ رسول اللہ ﷺ کو لے کر اپنے مکانوں کو واپس جاؤ۔ انصار (آپ ﷺ کا یہ پر اثر ارشاد سن کر) بول اٹھے ہاں یا رسول اللہ ﷺ ! ہم اس پر راضی ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح وہ مال غنیمت عطا کیا جو عطا کرنا تھا اس جملہ میں کثرت اموال کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس موقع پر بنو ہوازن سے جو مال غنیمت حاصل ہوا تھا وہ بہت زیادہ تھا۔ چناچہ روایتوں میں اس مال غنیمت کی جو تفصیل آئی ہے اس کے مطابق چھ ہزار قیدی، چوبیس ہزار اونٹ، چار ہزار اوقیہ چاندی (ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا ہے) اور چالیس ہزار سے زاید بکریاں ہاتھ آئی تھیں اور ایک روایت میں تو یہ ہے کہ بکریوں کی تعداد شمار سے باہر تھی۔ سو سو اونٹ دینا شروع کئے جن لوگوں کو آپ ﷺ زیادہ اونٹ وغیرہ دئیے وہ دراصل مکہ کے لوگ تھے جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے اور دائرہ اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے ان لوگوں کے اندر ایمان نے ابھی پوری طرح جگہ نہیں پکڑی تھی اور مولفۃ القلوب کا مصداق تھے چناچہ آنحضرت ﷺ نے تالیف قلوب کے تحت ان کو سو سو اونٹ دینا شروع کئے تھے۔ تاکہ اسلام کی طرف ان کا میلان اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی وابستگی مضبوط ہوجائے۔ امیر معاویہ (رض) کے والد ابوسفیان بھی ان لوگوں میں شامل تھے۔ مہاجرین و انصار میں سے جو باقی مخلص وصادق مسلمان تھے ان کو آپ ﷺ سو سو سے کم اونٹ عطا فرما رہے تھے مال غنیمت کی تقسیم کا یہ واقعہ مقام جعرانہ کا ہے جہاں آپ ﷺ نے (٨ ھ) فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین نامی جنگ میں بنوہوزان وغیرہ کو پسپا کر کے ان سے حاصل شدہ تمام مال و اسباب جمع کرادیا تھا اور پھر طائف سے واپس آکر اس مال غنیمت کو مجاہدین اسلام کے درمیان تقسیم فرمایا ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے ان لوگوں کا اشارہ ان غزوات اور معرکہ آرائیوں کی طرف تھا جن میں انصار نے پوری پامردی وجانثاری کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے دوش بدوش مشرکین قریش کے خلاف نبرد آزمائی کی۔ اللہ کی راہ میں ان کا خوان بہایا۔ ان لوگوں نے دراصل اس خیال کے تحت یہ بات کہی کہ آنحضرت ﷺ قومی تعلق اور قرابت داری کے تقاضہ سے قریش کے لوگوں کو زیادہ عطا کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ رعایت کر رہے ہیں۔ اور تم لوگ رسول اللہ ﷺ کو لے کر یعنی اگر ان کو مکہ والوں کو زیادہ مال و اسباب مل گیا تو کیا ہوا یہ لوگ تو دنیاوی مال ومتاع لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں گے جب کہ تم لوگ رسول اللہ ﷺ کی بابرکت ذات کو لے کر اپنے گھروں کو واپس جاؤ گے۔ اب تم خود ہی سوچ لو کہ دنیاوی مال ومتاع تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے یا اس مال ومتاع کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ کی ذات زیادہ بہتر اور زیادہ قیمتی ہے۔ ہم اس پر راضی ہیں بلاشبہ ان سعید روحوں کو یہی جواب دینا تھا رسول اللہ کی ذات کے مقابلہ پر دنیاوی مال ومتاع کی بڑی سے بڑی تعداد بھی ان کی نظروں میں ہیچ تھی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے رضینا قسمۃ الجبار فینا لنا علم وللا عداء مال فان المال یفنی عن قریب وان العلم باق لا یزال

【24】

انصار کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں کا ایک آدمی ہوتا۔ اگر لوگ ایک وادی میں (یعنی حسی یا معنوی راستہ پر) چلیں اور انصار کسی دوسرے راستہ پر چلیں۔ یا یہ فرمایا کہ ( اور انصار) کسی دوسرے پہاڑی درہ میں چلیں تو میں اسی راستہ پر یا اسی پہاڑی درہ میں چلوں جو جماعت انصار کا راستہ ہے۔ انصار تو شعار کے مانند ہیں اور دوسرے لوگ دثار کے مانند (اے انصار) ! تم میرے بعد دیکھو گے کہ دوسرے لوگوں کو تم پر بلا استحقاق فضیلت دی جائے گی تو تم صبر کئے رہنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر آکر ملو۔ (بخاری) تشریح تو میں بھی انصار میں کا ایک آدمی ہوتا اس سے نسب ولادی (پیدائشی نسب ونسل) میں تبدیلی کی خواہش یا تمنا کا اظہار مقصود نہیں ہے۔ کیونکہ اول تو نسب ولادی میں تبدیلی حرام ہے دوسرے یہ کہ خود آنحضرت ﷺ کا نسب چونکہ دنیا کے تمام نسبوں اور نسلوں سے اعلی و اشرف ہے اس لئے اس نسب ونسل کی نسبت چھوڑ کر کسی دوسرے نسب ونسل کی طرف نسبت کی خواہش یا تمنا کے اظہار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں یہاں نسب بلادی یعنی وطنیت وشہریت کی نسبت ضرور مراد ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہجرت کا تعلق اگر دین سے نہ ہوتا اور اس کی طرف منسوب ہونا ضروری نہ ہوتا تو میں اس بات کو پسند کرتا کہ اپنی اصل وطنی وشہری نسبت کو ترک کرکے انصار کے شہر کی طرف اپنے کو منسوب کرتا اور مہاجر کہلانے کی بجائے انصار کہلاتا۔ لیکن ہجرت چونکہ بجائے خود ایک بہت بڑا دینی شرف ہے اور اس کی طرف منسوب ہونا بڑی فضیلت کی بات ہے اس لئے میں اپنی اس خواہش یا تمنا کی تکمیل نہیں کرسکتا پس اس ارشاد گرامی میں اگرچہ انصار کا اکر ام اور ان کی زبر دست عزت افزائی نیز نصرت کی طرف منسوب ہونے کی بڑی فضیلت ہے، لیکن اس میں ہجرت کی افضلیت اور رتبہ مہاجرین کی برتری کی طرف بھی ارشاد ہے کیونکہ مہاجرین تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں اپنا وطن ودیار، اپنا گھر بار اپنے اہل و عیال اور اپنے قرابتداروں کو چھوڑ دینے کی بےمثال قربانی دی۔ جب کہ انصار نے گو اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کی مدد ونصرت اور اس راہ میں بےپناہ ایثار کی فضیلت کاملہ حاصل کی لیکن وہ بہرحال ترک وطن، ترک قبیلہ اور ترک اہل و عیال جیسی عقوبت سے دوچار نہیں ہوئے۔ لہٰذا نصرت کی فضیلت ہجرت کی بعد کی اور انصار کی فضیلت مہاجرین کے بعد کی ہے اور بعض حضرات نے اس ارشاد گرامی کی مراد یہ بیان کی ہے کہ جو چیز مجھ کو انصار سے ممتاز کرتی ہے وہ ہجرت کی فضیلت ہے۔ اگر ہجرت کا شرف اور اس کی فضیلت میرے ساتھ نہ ہوتی۔ تو پھر میں بھی انصار کے ایک فرد کی طرح ہوتا اور رتبہ میں ان کے برابر اور ان کی مثل ہوتا، اس صورت میں کہا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے لئے تو تواضع اور کسر نفی کا پہلو اختیار فرمایا اور انصار کا دل ملانے کے لئے ان کی رفعت ومنزلت ظاہر فرمائی۔ یا یہ فرمایا کہ یہاں روای کو شک ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہاں یا تو وادیاً کا لفظ فرمایا تھا یا شعبا کا اصل میں وادی تو اس قطعہ زمین یا اس راستہ کو کہتے ہیں جو دو پہاڑوں یا دو ٹیلوں کے درمیان ہو جس کو عربی میں فرجہ بھی کہتے ہیں اور فارسی میں کا واک اور شعب اس راستہ کو کہتے ہیں جو کسی پہاڑ کے اندر ہو کر گزرتا ہے۔ حجاز میں چونکہ پہاڑ اور پہاڑیاں بہت ہیں اس لئے وادیاں اور شعب یعنی درے اور گھاٹیاں بھی کثرت سے ہیں۔ اس زمانہ میں ہوتا یہ تھا کہ کسی قافلہ یا قبیلہ کا سردار جس درے یا گھاٹی میں ہو کر گزرنا چاہتا سارا قافلہ اور سارا قبیلہ اس کے پیچھے پیچھے اسی درے یا گھاٹی میں داخل ہوتا اور پھر وہاں سے گزر کر سب اپنی منزل یا کھلے راستہ پر پہنچ جاتے۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کبھی ایسا ہو کہ تمام لوگ دو گرہوں میں بٹ کر کسی منزل کی طرف چلیں، ان میں سے ایک گروہ انصار پر مشتمل ہو اور دوسرا گروہ باقی لوگوں پر اور ان دونوں گروہوں کے راستے الگ الگ ہوں تو میں دوسرے گروہ کا راستہ چھوڑ کر اس راستہ پر چلوں گا جو انصار نے اختیار کیا ہوگا، اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس ارشاد گرامی ﷺ کا مقصد انصار کے تئیں آنحضرت ﷺ کے کمال تعلق وارتباط اور ان پر آپ کے کمال عنایت و شفقت کا اظہار ہے اس میں دوسرا قول یہ ہے کہ وادی اور شعب کے جو معنی یہاں مراد ہیں وہ مسلک اور رائے کے ہیں مطلب یہ کہ کسی معاملہ میں لوگوں کے درمیان رائے اور مسلک کے اختلاف کا اظہار ہو تو میں اسی رائے اور مسلک کو اختیار کروں گا، جو انصار کا اختیار کردہ ہوگا اور انہی کی موافقت کا اظہار کروں گا۔ اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ اس ارشاد گرامی سے آپ ﷺ کا مقصد انصار کے ساتھ حسن موافقت ومرافقت کا اظہار کرنا ہے کیونکہ انصار نے بھی آپ ﷺ کے تئیں حسن وفا اور اچھی خدمت گزاری کا ثبوت دیا ہے۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے انصار کی اتباع اور ان کی طرف احتیاج کا اظہار کیا ہے کیونکہ آپ ﷺ کی ذات تو متبوع مطلق ہے اور سب آپ کے تابع ہیں۔ شعار اور دثار شعار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو پہننے میں جسم اور شعر یعنی بالوں سے لگا ہو جیسے کرتا وغیرہ اور دثار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو پہنے ہوئے کپڑوں کے اوپر رہتا ہے جیسے چادر وغیرہ۔ پس آپ ﷺ نے انصار کو شعار کے ساتھ اس اعتبار سے تشبیہہ دی کہ صدق ایمان اور خلوص محب کا جوہر ان میں پیوست ہے گویا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ انصار میرے خاص اعتباری اور راز دار لوگ ہیں سب لوگوں میں باعتبار قدرو منزلت کے مجھ سے بہت قریب یہی لوگ ہیں۔ دوسرے لوگوں کو تم پر بلا استحقاق فضیلت دی جائے گی اَثرۃً یا اُثرۃً یا اِثرۃً کے معنی ہیں حق تلفی اور بلا استحقاق دوسرے کسی شخص کو عہدہ یا منصب یا عطا میں فضیلت دینا۔ چناچہ آپ ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ میرے بعد وہ زمانہ آئے گا جب لوگ عہدہ ومنصب کی تقسیم میں اپنی ذات کو مقدم رکھیں گے اور تم پر ترجیح دینگے، امارت و حکومت پر خود فائز کریں گے اور ایسے ایسے لوگ کہ جو حقیقی مرتبہ ومنزلت کے اعتبار سے کم رتبہ ہوں گے اعلی عہدہ ومناصب حاصل کرلینے کے سبب تم سے بالا تر و افضل بن جائیں گے، چناچہ مخبر صادق ﷺ نے جو کچھ فرمایا تھا وہ پورا ہو کر رہا، خصوصا حضرت امیر المؤمنین عثمان غنی (رض) کے عہد خلافت میں بعض عمال خلافت کی طرف سے اور اموی دور حکومت میں عام طور پر انصار کی بڑی حق تلفیاں کی گئیں۔ ان کے فضل وشرف کو نظر انداز کیا گیا اور حکومت وامارت کے مناصب سے ان کو محروم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ یا اس ارشاد گرامی سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ فتوحات میں حاصل ہونے والا مال غنیمت امراء و حکام خود بانٹ لیا کریں گے اور عطا کے مال میں تمہارے حق میں نظر انداز کر کے اپنی ذات کو یا تم سے کم تر لوگوں کو تم پر فضیلت و ترجیح دیں گے۔ یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملو یعنی حق تلفی کی صورت میں تمہیں جس دل شکستگی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا اگر تم نے اس پر صبر کیا اور تمامتر شکایات کے باوجود نہ تو حاکم وقت سے بغاوت کے مرتکب ہوئے اور نہ ملی شیرازہ بکھرنے کا سبب بنے تو اس کا اجر تم کو اس وقت ملے گا جب حشر کے دن تم حوض کوثر پر آکر مجھ سے ملوگے، کہ میری زیارت اور وہاں کی لازوال نعمتیں تمہیں باغ باغ کردیں گی، پس یہ ارشاد گرامی دراصل انصار کے اس صبر کے عوض ان کے لئے سرفرازی جنت کی بشارت ہے منقول ہے کہ امیر معاویہ (رض) کے عہد حکومت میں ایک دن بعض انصار کے پاس بعض مہاجرین کی شکایت لے کر آئے، حضرت امیر معاویہ (رض) ان کی شکایت کا ازالہ نہ کرسکے۔ اس پر انصار نے امیر معاویہ (رض) کو مخاطب کرکے کہا کہ سرکار دوعالم ﷺ نے سچ ہی فرمایا تھا کہ (اے انصار) تم میرے بعد دیکھوگے کہ دوسرے لوگوں کو تم پر بلا استحقاق ترجیح دی جائے گی (یہ سن کر) امیر معاویہ (رض) نے پوچھا پھر اس وقت کے لئے آنحضرت ﷺ نے تمہیں کیا حکم دیا تھا، انصار نے کہا صبر کرنے کا، حضرت امیر معاویہ (رض) بولے تو پھر (شکوہ شکایت کے بجائے ) تمہیں صبر ہی کرنا چاہئے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں اسی بات کا حکم دیا ہے۔

【25】

انصار سے کمال قرب وتعلق کا اظہار

اور حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں فتح مکہ کے دن ہم لوگ رسول کریم ﷺ کی معیت میں تھے ( اس دن) آپ ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ مشرکین میں سے جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے وہ امن میں ہے اور (مشرکین میں سے) جو شخص ہتھیار ڈال دے وہ امن میں ہے (بعض) انصار (یہ اعلان سن کر آپس میں) کہنے لگے کہ اس شخص (یعنی آنحضرت ﷺ پر اپنی قوم کے تئیں مروت و مہربانی اور اپنی بستی والوں (یعنی مکہ) کے تئیں رغبت و چاہت کا جذبہ (طبعی طور پر) غالب آگیا چناچہ رسول کریم ﷺ پر وحی نازل ہوئی (جس کے ذریعہ آپ کو مطلع کیا گیا کہ انصار اس اس طرح کہہ رہے ہیں اس پر آپ نے انصار کو بلایا) اور (ان سے) فرمایا تم نے یہ کہا ہے کہ اس شخص پر اپنی قوم کے تئیں مروت و مہربانی اور اپنی بستی والوں کے تئیں رغبت و چاہت کا جذبہ غالب آگیا ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور اللہ کا رسول ہوں میں نے اللہ کی طرف (یعنی اللہ کے حکم سے اور اللہ کے اجر و انعام حاصل کرنے کے لئے) اور تمہاری طرف (یعنی تمہارے دیار کی طرف) ہجرت کی ہے اب تو زندگی بھی تمہاری زندگی کے ساتھ ہے اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے (یہ سن کر) ان انصار نے (معذرت کا اظہار کرتے ہوئے) عرض کیا واللہ ہم نے یہ بات صرف اس لئے کہی کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ ہم کو بخل تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہیں راست گومانتے ہیں اور تمہاری یہ معذرت قبول کرتے ہیں۔ (مسلم) تشریح وہ امن میں ہے یعنی جو مشرک ابوسفیان کے گھر میں پہنچ جائے اور جو مشرک ہتھیار ڈال دے اس کو جان کی امان دی جاتی ہے، کوئی مسلمان اس پر تلوار نہ اٹھائے، اس کو مارے نہیں۔ ابوسفیان بن صخر بن حرب، امیر معاویہ کے والد ہیں۔ قریش کے بڑے سرداروں اور زعماء میں سے تھے۔ فتح مکہ کے دن انہوں نے اسلام قبول کیا اور جنگ حنین میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔ چونکہ یہ مولفۃ القلوب تھے اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس جنگ کے مال غنیمت میں سے ان کو حصہ سے زائد عطا کیا جیسا کہ روایتوں میں آتا ہے کہ ایک سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی ان کو دی گئی۔ محاصرہ طائف کے دوران ان کی ایک آنکھ بےکار ہوگئی تھی اور ہمیشہ کے لئے کانے ہوگئے تھے، پھر جنگ یرموک میں ان کی دوسری آنکھ بھی پتھر کی چوٹ سے پھوٹ گئی تھی۔ ٣٤ ھ میں مدینہ میں ان کا انتقال ہوا اور بقیع میں مدفون ہوئے۔ روایتوں میں آیا ہے کہ فتح مکہ کے دن جب ابوسفیان نے اسلام قبول کرلیا تو حضرت عباس (رض) نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ شخص عزت اور بڑائی کی چاہ رکھتا تھا، اس لئے اس کو ایسی عزت بخش دیجئے جس کو یہ اپنے لئے باعث فخر سمجھے۔ چناچہ حضرت عباس (رض) کے اسی مشورہ پر آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے وہ امن میں ہے۔ اور بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی مکی زندگی میں جب قریش آپ ﷺ کی ایذاء رسانی کے درپے رہتے تھے، ایک دن ابوسفیان نے آپ ﷺ کو امن (تحفظ) دیا۔ اور اپنے گھر لے آئے تھے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے دن ان کے گھر کو جو دارالامن قرار دیا وہ ان کے اسی دن کے عمل کا بدلہ تھا۔ رغبت و چاہت کا جذبہ غالب آگیا ہے دراصل انصار نے جب یہ دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نے اس ابوسفیان کو اتنی بڑی عنایت وعزت اور رعایت سے نوازا ہے جو اتنے طویل عرصہ تک آنحضرت ﷺ مسلمانوں اور اسلام کا سخت ترین معاندودشمن رہا ہے تو ان کو سخت حیرت ہوئی۔ اور یہ بات ان کو اپنی غیرت وحمیت کے منافی محسوس ہوئی چناچہ اسی حمیت و غیرت کے تحت سادگی اور ناسمجھی میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے یعنی حقیقت میں وہ بات نہیں ہے جو تمہارے خیال میں آئی ہے کہ میں نے ابوسفیان کو اس طرح کی عزت عطا کر کے گویا اس امر کا اظہار کیا ہے کہ میں اب مکہ ہی میں رہ پڑوں گا اور مدینہ واپس نہیں جاؤں گا، بلکہ میری ہجرت آخری اور حتمی ہے اور وہ ہجرت چونکہ اللہ کے حکم سے اور خالص اللہ کے لئے ہوئی ہے، لہٰذا اس سے پھر نے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں اللہ کا بندہ اور اللہ کا رسول ہوں یعنی میری اس حیثیت اور میرے اس منصب کا تقاضا ہی یہ ہے کہ اب میں اس شہر کا تصور ہی نہ لاؤں جس کو میں نے اللہ کی خاطر چھوڑ دیا تھا اور اپنے اس سابقہ وطن میں ذرا بھی رغبت اور دلچسپی ظاہر نہ کروں جہاں سے میں اللہ کے لئے ہجرت کرچکا ہوں۔ اور میں تمہاری طرف یعنی اصل میں تو میری ہجرت اللہ کی طرف تھی اور یہ اسی کے حکم پر منحصر تھا کہ کون سا دیار میرا دارالہجرت بنتا ہے پس پس چونکہ تم لوگ میرے اور مہاجرین کے تئیں قلبی تعلق ومیلان رکھتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے والذین تبوء الدار والایمان من قبلہم یحبون من ہاجر الیہم لہٰذا اللہ نے تمہارے دیار کو میرا دار الہجرت قرار دیا اور میں اپنے قبیلہ اور اپنی قوم کا دیار چھوڑ کر تمہارے دیار وطن میں آگیا۔ اور میرا مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے یعنی زندگی اور موت کسی حال میں تم سے جدا نہیں ہوں گا تم میرے ساتھ ہو اور میں تمہارے ساتھ رہوں گا، جب تک زندہ ہوں تمہارے ہی شہر میں رہوں گا اور مروں کا بھی تمہارے شہر میں، اس بارے میں خاطر جمع رکھو۔ اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ ہم کو بخل تھا یعنی یہ بات ہم نے محض اس وجہ سے کہی ہے کہ آپ ﷺ کی میزبانی اور آپ ﷺ کی ہمسائیگی وقرب کا جو عظیم تر اعزاز اور فضل وشرف ہمیں اللہ اور اللہ کے رسول نے عطا کیا ہے اس میں کسی اور کی شرکت ہمیں گوارا نہیں ہے یہ بات ہماری غیرت کو ابھارنے والی ہے۔ کہ آپ ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کا میلان دوسروں کی طرف ظاہر ہو، جو ہمیں آپ ﷺ کی عنایت و شفقت آپ ﷺ کی محبت وقربت اور آپ ﷺ کی ہمسائیگی و صحبت سے محروم کر دے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی غیرت وحمیت محبت کو مستلزم ہے اور محبت کو ہرگز گوارا نہیں ہوتا کہ محبوب غیروں کی طرف توجہ والتفات کی نظر سے دیکھے غیر تم با تو چنا نست کہ گر دست دہد نہ گزارم کہ در آئے بہ خیال دیگراں انصار کی اس مراد کو دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ جیسی نعمت ہمیں عطا کی ہے۔ چونکہ آدمی اپنے اقا رب اور اپنے وطن کی محبت پر مجبور ہے اس لئے ہمیں خدشہ ہوا کہ شائد آپ ﷺ اپنی صحبت وقربت سے ہمیں محروم کرکے اہل مکہ کو نوازنا چاہتے ہیں اور اس خوف نے ہمیں اتنا مضطر کردیا کہ ایسے الفاظ اپنی زبان سے نکال بیٹھے اس صورت میں ان انصار پر اعتراض وارد نہیں ہوتا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم لاتجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا کے باوجود ایسا معمولی جملہ زبان سے کیوں ادا کیا۔

【26】

انصار کی فضیلت

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے (انصار کے) بچوں اور عورتوں کو کسی شادی وغیرہ کی دعوت طعام سے واپس آتے دیکھا تو نبی کریم ﷺ (ان کے راستہ میں، یا ان سے ملنے کے لئے ایک جگہ پر) کھڑے ہوگئے اور (ان سے مخاطب کرکے) فرمایا خداوند (میں تجھ کو گواہ کرکے انصار کی ان عورتوں اور بچوں سے کہتا ہوں کہ اے انصار) تمام لوگوں میں تم میرے نزدیک محبوب ترین ہو، خداوند ! (میں تجھ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ اے انصار) تمام لوگوں میں تم میرے نزدیک محبوب ترین ہو، آنحضرت ﷺ کی مراد تمام انصار سے تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح تمام لوگوں میں تم میرے نزدیک محبوب ترین ہو یہ بات دو بار آپ ﷺ نے تاکیدًا فرمائی اور صحیح بخاری کی روایت میں ان الفاظ کا تین بار فرمانا نقل ہوا ہے نیز بعض نسخوں میں الی کے لفظ کو زیادہ صحیح ظاہر کرتا ہے۔ اللہم (خداوند) کا لفظ یا تو قسم کے معنی میں استعمال ہوا ہے یا اس معنی میں اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں یہ بات صدق دل سے کہہ رہا ہوں۔ گویا آنحضرت ﷺ نے جب عورتوں اور بچوں کو خوش خوش آتے دیکھا تو ان کی نظر پڑتے ہی آپ ﷺ باغ باغ ہوگئے اور ان کے تئیں آپ ﷺ کے جذبات محبت امڈ پڑے جن کا اظہار آپ ﷺ نے مذکورہ الفاظ میں کیا اور کمال عنایت ومکرمت کے سبب ان جذبات و احساسات پر حق سبحانہ تعالیٰ کو گواہ کیا۔

【27】

انصار کی فضیلت

اور حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ (آنحضرت ﷺ کے مرض وفات کے دوران ایک دن) حضرت ابوبکر اور حضرت عباس (رض) انصار کی ایک مجلس کے پاس سے گذرے تو ( دیکھا کہ) وہ اہل مجلس ہمیں یاد آگئی تھی۔ (یہ سن کر) ان دونوں میں ایک صاحب (یعنی یا تو حضرت ابوبکر یا حضرت عباس (رض) ما) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کو اس بات سے آگاہ کیا۔ کہ (انصار کی جماعت آپ ﷺ کی مجلس مبارک کو یاد کر کے رو رہی ہے) چناچہ نبی کریم ﷺ اس حالت میں حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے کہ (درد سر کو کم کرنے کے لئے) چادر کا ایک کونہ بطور پٹی سر مبارک پر باندھ رکھا تھا، پھر آپ ﷺ (خطبہ دینے کے لئے منبر پر چڑھے اور اس دن کے بعد پھر آپ ﷺ کو منبر پر چڑھنا نصیب نہیں ہوا۔ پہلے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی کامل ثنا بیان کی اور پھر فرمایا (اے مہاجرو) میں تم کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ ان کے ساتھ رعایت و حمایت اور سلوک کا رویہ اختیار کئے رہنا) کیونکہ انصار میرا معدہ اور میری گٹھری ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان پر جو حق تھا اس کو انہوں نے ادا کردیا اور جو کچھ ان کا ہے (یعنی اجروثواب اور سرفرازی جنت) وہ اللہ کے ہاں باقی ہے پس ان کے نیک لوگوں کا عذر (کہ جو اپنی لغزش اور کوتاہی کے سلسلہ میں بیان کریں) قبول کرو اور ان کے برے لوگوں برے کاموں سے (کہ جن کا عذر پیش کرنے سے وہ عاجز ہوں) درگزر کرو (بخاری) تشریح کرش ( اور ایک نسخہ کے مطابق کرش) اصل میں چوپایوں (یعنی بیل اور گائے وغیرہ) کے کوٹھے یا اوجھ کو کہتے ہیں جو آدمیوں کے لئے معدہ کہلاتا ہے اور عیبہ جامہ دانی یعنی بغچی یا گٹھری کو کہتے ہیں۔ پس انصار میرا معدہ اور میری گٹھری ہیں سے مراد یہ ہے کہ انصار میرے راز دار، ولی دوست اور تمام امور میں میرے محرم اسرار اور معتمد علیہ ہیں۔ گویا آپ ﷺ نے انصار کو ان چیزوں سے مشابہت اس بناء پر دی کہ جیسے اوجھ یا معدہ میں چارہ اور کھانا جا کر جمع ہوجاتا ہے اور جامہ دانی میں کپڑے محفوظ رکھے جاتے ہیں، اسی طرح آنحضرت ﷺ کی راز کی باتیں اور امانتیں انصار کے پاس رہتی ہیں۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ لغت میں کرش کے ایک اور معنی عیال، چھوٹے بچوں اور جماعت کے بھی آتے ہیں لہٰذا حدیث میں مذکورہ کرش کا لفظ اس معنی پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ انصار میری جماعت میرے اصحاب ورفیق اور میرے لئے میرے عیال اور میرے چھوٹے بچوں کی مانند ہیں۔ جن پر میری شفقت و مہربانی ہے۔ اور جن کا میں غمخوار ہوں۔ ان پر جو حق تھا میں حق سے مراد جان ومال سے امداد ومعاونت اور خیرخواہی ہے۔ اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ انصار کے نمائندوں نے مدینہ سے مکہ پہنچ کر لیلۃ العقبہ میں میرے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرتے ہوئے جو وعدہ اور جو عہد کیا تھا کہ اللہ کی راہ میں جان مال سے ہر طرح میری مدد کریں گے۔ اور اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا تھا۔ جیسا کہ اس موقع پر نازل ہونے والی اس آیت (اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ) 9 ۔ التوبہ 111) سے واضح ہے، تو اپنے اس عہد کو انصار نے کماحقہ پورا کردیا ہے۔

【28】

انصار کی فضیلت

اور حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی اس بیماری کے دوران کہ جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی، (ایک دن) حجرہ مبارک سے باہر آئے اور منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ اول آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا بعد ازاں جان لو، لوگو یعنی مسلمانوں کی تعداد ( روز بروز) بڑھے گی (جن میں کا معتد بہ حصہ اپنے اپنے وطن چھوڑ کر بہ نیت ہجرت مدینہ میں آئے گا) اور انصار کی تعداد کم ہوجائے گی یہاں تک دوسرے لوگوں میں ان (انصار) کا تناسب کھانے میں نمک کے برابر رہ جائے گا، پس (اے مہاجرین) تم میں سے جو شخص کسی بھی طرح کے اقتدار کا مالک بنے اور اس کے سبب وہ کچھ لوگوں یعنی نیکوکاروں کو فائدہ پہنچانے اور کچھ لوگوں یعنی بدکاروں کو نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہو اس شخص کو چاہئے کہ انصار کے نیکو کاروں (کی نیکی) کو قبول کرے اور ان کے بدکاروں (کی برائی) سے درگزر کرے۔ (بخاری) تشریح اور انصار کی تعداد کم ہوجائے گی یعنی انصار چونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس جماعت سے عبارت ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کو اپنے یہاں ٹھکانہ دیا اور جان ومال سے آپ ﷺ کی اور مسلمانوں کی مدد کی اس لئے انصار ہونا ایک ایسا وصف ہے جو ایک خاص زمانہ میں جن لوگوں کا نصیب بننا تھا بن گیا، اب آگے یہ وصف کسی کو حاصل نہیں ہوگا اور اس اعتبار سے انصار کی جماعت میں اضافہ کا کوئی سوال نہیں، جب کہ ہجرت کا وصف باقی ہے۔ اور باقی رہے گا جوں جوں لوگ اللہ کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑ کر اور ہجرت کر کے مدینہ آتے رہیں گے ویسے مہاجرین کی جماعت مدینہ میں بڑھتی رہے گی۔ پس ظاہر یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان الفاظ کے ذریعہ گویا یہ پیشین گوئی فرمائی کہ مہاجرین تو بڑھتے رہیں گے، ان کی اولاد کا سلسلہ بھی بہت پھیلے گا اور وہ نہ صرف یہ کہ مختلف شہروں اور علاقوں میں وسیع بنیادوں پر سکونت اختیار کریں گے۔ بلکہ ملکوں کی حکمرانی وجہانبانی بھی انہی کے حصہ میں آئے گی۔ ان کے برخلاف انصار کا طبقہ روز بروز محدود ہوتا جائے گا اور پوری ملت میں ان کا وجود نہایت محدود تعداد میں رہ جائے گا۔ چناچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ واقع میں وہی ہوا جو مخبر صادق ﷺ نے خبر دی تھی۔ کھانے میں نمک کے برابر اس تشبیہہ میں بھی انصار کے کم ہوجانے کی خبر ہے۔ اور ان کی تعریف کی طرف اشارہ بھی ہے یعنی جس طرح نمک کھانے کا ذائقہ سنوارتا، بناتا ہے۔ اسی طرح انصار کا وجود اہل اسلام کے سنوار اور بناؤ کا باعث ہوگا۔

【29】

انصار اور ان کی اولاد در اولاد کے حق میں دعا

اور حضرت زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے دعا فرمائی اے اللہ ! انصار کے بیٹوں کو اور انصار کے پوتوں کو بخش دے۔ (مسلم) تشریح پہلے درجہ والے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوئے دوسرے درجہ والے تابعین اور تیسرے درجہ والے تبع تابعین ہوئے، پس آنحضرت ﷺ نے انصار کے تینوں قرنوں کے حق میں دعا فرمائی جو خیر القرون کا مصداق ہیں اور یہ بھی بعید نہیں کہ بیٹوں اور پوتوں سے ان کی قیامت تک کی نسلیں مراد ہوں جن میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی شامل ہوں کیونکہ ابناء کا لفظ اولاد کے معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے۔

【30】

انصار کے بہترین قبائل

اور حضرت ابی اسید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ؟ انصار کے بہترین گھر یعنی ان کے افضل قبائل بنونجار پھر بنوعبد الاشہل پھر بنوحارث اور پھر بنو ساعدہ ہیں اور انصار کے تمام ہی قبیلوں میں بھلائی اور نیکی ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اور انصار کے تمام قبیلوں میں میں تعمیم بعد تخصیص ہے۔ یعنی پہلے تو آپ ﷺ نے بعض خاص خاص قبیلوں کی فضیلت کا ذکر فرمایا اور پھر مجموعی طور پر تمام ہی قبیلوں کے بارے میں فرمایا کہ انصار کے سارے ہی قبائل خیر و بھلائی کی فضیلت رکھتے ہیں۔ اور ان کے سب قبیلے دوسرے تمام اہل مدینہ سے افضل ہیں۔ عسقلانی نے لکھا ہے کہ پہلے جو خیر کا لفظ ہے وہ تو افضل کے معنی میں ہے اور دوسرا خیر فضل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ یوں تو انصار کے تمام ہی قبائل کو خیر و بھلائی حاصل ہے۔ لیکن مراتب کے اعتبار سے ان میں تفاوت ہے۔ اور علماء لکھتے ہیں کہ یہ تفاوت قبول اسلام میں سبقت کے اعتبار سے یعنی جس قبیلے نے قبول اسلام میں جس قدر سبقت کی تھی اسی قدر اس کی فضیلت بڑھی ہوئی ہے واضح ہو دار (یعنی گھر) سے مراد قبیلہ ہے۔ انصار کے تمام قبائل مدینہ کے اپنے الگ الگ محلوں میں رہتے تھے۔ اور جس محلہ میں جو قبیلہ رہتا تھا وہ اسی قبیلہ کی نسبت سے دار بنو فلاں کے نام سے جانا جاتا تھا۔ چناچہ اس اعتبار سے کہ قبیلہ کا اصل نام بنو فلاں کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا تھا، بہت سی روایتوں میں بنو فلاں کا لفظ دار کے بغیر ہی نقل ہوا ہے۔ اسی حدیث سے معلوم ہوا کہ اقوام و قبائل اور اشخاص میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دینا اور اس افضلیت کو بیان کرنا جائز ہے، اس کا شمار غیبت میں نہیں ہوگا۔ بشرطیکہ اس کی بنیاد کسی کی عداوت یا تنقیص اور خواہش نفس نہ ہو۔

【31】

حاطب بن ابی بلتعہ کا واقعہ

اور حضرت علی کرم اللہ علیہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو، زبیر کو اور مقداد کو اور ایک روایت میں مقداد کے بجائے ابومرثد کا ذکر کیا۔ روانگی کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم لوگ (تیز رفتاری سے) سفر کرکے روضہ خاخ پہنچو، وہاں ایک عورت ملے گی جو اونٹ کی سواری پر کجاوہ میں بیٹھی ہوگی، اس کے پاس ایک خط ہوگا، تم لوگ وہ خط اس سے حاصل کر کے لے آؤ۔ چناچہ ہم (فورًا) روانہ ہوگئے۔ اور اپنے گھوڑوں کو تیزی سے دوڑاتے ہوئے روضہ خاخ پہنچے اور اس عورت کو جالیا۔ ہم نے (اس عورت سے) کہا لاؤ، خط نکال کر ہمارے حوالہ کرو ! وہ عورت بولی میرے پاس کوئی خط وط نہیں ہے۔ ہم نے (ذرا تیز ہو کر) کہا تو خط نکالتی ہے یا ہم تیرے کپڑے اتروائیں (یعنی اگر تو نے خط نکال کر نہیں دیا تو مجبورًا تجھ کو ننگی کرنا پڑے گا تاکہ وہ خط برآمد ہوجائے) تب اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کر ہمارے حوالہ کردیا اور ہم اس خط کو لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس آئے، (جب وہ خط کھول کر دیکھا گیا تو) اس میں لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ میں مشرکین کے نام اور پھر آگے حاطب نے مشرکین مکہ کو رسول اللہ ﷺ کے بعض اہم اقدامات اور منصوبوں کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے (حاطب کو طلب کیا اور اس سے) فرمایا ارے حاطب ! یہ کیا ہے ؟ (مجھے بتا تو نے یہ کیا حرکت کی ہے اور کیوں کی ہے) حاطب بولا، یا رسول ! میرے بارے میں عجلت نہ کیجئے (یعنی میری پوری بات سنے بغیر اس حرکت کی پاداش میں میرے متعلق کفر اور سزا کا فیصلہ نہ کیجئے) دراصل میں ایک ایسا شخص ہوں جو قریش کے لوگوں میں باہر سے آکر مل گیا ہے (یعنی قریش سے میرا کوئی نسبی اور قرابتی تعلق نہیں ہے، بلکہ باہر سے آکر ان میں شریک ہوگیا ہوں اور محض ان کا حلیف ہوں، جب کہ میں آپ ﷺ کے ساتھ جو (دوسرے) مہاجرین ہیں وہ مکہ والوں سے قرابت رکھتے ہیں اور مشرکین مکہ اس قرابت کا لحاظ کرکے مکہ میں ان مہاجرین کے مال وجائداد اور ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال رکھتے ہیں، پس اس بناء پر کہ میرے اور مشرکین مکہ کے درمیان نسبی وقرابتی تعلق معدوم ہے میں نے چاہا کہ ان کے لئے کوئی ایسا کارنامہ انجام دوں جس کے بدلے میں وہ مکہ میں میرے قرابتداروں کی حفاظت کریں (آپ کو صدق دل سے یقین دلاتا ہوں کہ) میں نے یہ حرکت اس وجہ سے نہیں کی کہ میں (سرے سے دائرہ ایمان واسلام میں داخل ہی نہیں ہوا تھا اور) کافر ہوں، نہ اس وجہ سے کہ میں (پہلے مسلمان تو ہوگیا تھا لیکن اب دائرہ اسلام سے نکل گیا ہوں اور نہ اس وجہ سے کہ اسلام کے بعد اب کفر مجھ کو اچھا لگتا ہے (اور نور ایمان سے تعلق توڑ کر کفر کے اندھیرے میں جانا چاہتا ہوں) (حاطب کا یہ پورا بیان سن کر) رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حاطب نے تمہارے سامنے بالکل سچابیان دیا ہم (حقیقت حال یہی ہے جو اس نے بتائی ہے) لیکن عمر فاروق (رض) نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! مجھ کو اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑادوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اس طرح مت سوچو اور) اس حقیقت پر نظر رکھو کہ حاطب غزوہ بدر میں شریک ہوا ہے (اس پر حضرت عمر فاروق (رض) بولے ہوں گے کہ یہ اگر غزوہ بدر میں شریک ہوا ہے تو ہوا کرے۔ اب تو اس نے جاسوسی کر کے گویا غداری کا ارتکاب کیا ہے اور اس پر قرار واقعی سزا کا مستوجب ہوگیا ہے۔ تب آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہوگا) اور تمہیں حقیقت حال کا کیا علم ہے (یعنی تم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہو کہ حاطب مستوجب قتل ہوگیا ہے) ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو اپنی خصوصی نظر و کرم و مغفرت سے نواز رکھا ہو۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تم جو چاہو کرو، حقیقت تو یہ ہے کہ جنت تمہارے لئے واجب ہوگئی ہے اور ایک روایت میں ( تمہارے لئے جنت واجب ہوچکی ہے کہ بجائے) یہ ہے کہ میں تم کو بخش چکا ہوں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے (حاطب اور اس جیسے لوگوں کو اس طرح مذموم حرکت کے خلاف متنبہ کرنے کے لئے) یہ آیت نازل فرمائی (جس کا ترجمہ ہے ) اے ایمان والو ! میرے اور اپنے دشمنوں کو (یعنی وہ لوگ کہ جن کو میں دشمن رکھتا ہوں یا جن سے تم دشمنی رکھتے ہو، ان کو) اپنا دوست نہ سمجھو الخ۔ (بخاری ومسلم) تشریح مقداد کے بجائے ابومرثد کا ذکر ہے یعنی اس روایت میں تو یہ ہے کہ اس مہم پر بھیجے جانے والوں میں حضرت علی کے ساتھ حضرت زبیر اور حضرت مقداد، تھے، جب کہ دوسری روایت میں حضرت علی کے ساتھ حضرت زبیر اور حضرت مرثد (رض) کا بھیجا جانا مذکور ہے، بہرحال حضرت مقداد تھے عمروکندی کے بیٹے ہیں۔ نہایت قدیم الا سلام ہیں، ایک روایت کے مطابق یہ چھٹے مسلمان ہیں، ان سے پہلے صرف پانچ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا ان کا انتقال ٣٥ ھ میں مدینہ سے تین کوس کے فاصلہ پر مقام جوف میں ہوا اور ان کا جسد خاکی وہاں سے مدینہ منورہ لا کر بقیع میں دفن کیا گیا اس وقت ان کی عمر ٧٠ سال تھی۔ اور حضرت ابومرثد بھی جو حصین غنوی کے بیٹے ہیں، کبار صحابہ میں سے ہیں غزوہ بدر میں انہوں نے بھی شرکت کی تھی اور ان کے بیٹے حضرت مرثد بھی شریک تھے، ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت مرثد غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق اور دوسرے تمام غزوات میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے ان کا انتقال مدینہ میں بعہد خلافت ابوبکر ١٢ ھ میں کے وقت چھیاسٹھ برس کے تھے۔ روضہ خاخ پہنچو روضہ خاخ ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ سے مکہ کے راستہ پر مدینہ کے قریب ہی واقع ہے دراصل روضہ تو باغ اور سبزہ زار کو کہتے ہیں اور خاخ ایک پھل شفتالو کہا جاتا ہے اس مقام پر شفتالو کے درخت بہت تھے اس مناسبت سے وہ جگہ روضہ خاخ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وہاں ایک عورت ملے گی اس عورت کا نام سارہ تھا اور بعض حضرات نے ام سارہ لکھا ہے وہ قریش میں کی ایک آزاد کردہ باندی تھی اور مشرکین مکہ کے نام ایک خط لے کر مکہ کو جارہی تھی، یہاں آنحضرت ﷺ کا یہ معجزہ ثابت ہوا کہ جاسوسی کی اتنی بڑی کاروائی آپ ﷺ پر بغیر کسی مادی وسیلہ و ذریعہ کے منکشف ہوگئی۔ وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کر اور ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ اس نے وہ خط اپنی کمر سے نکال کردیا تھا پس اس دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق یہ ہے کہ اس کی چوٹی خاص دراز ہوگی جو کمر تک پہنچتی ہوگی اور اس خط کو اس نے چوٹی کے نچلے حصہ میں باندھ کر کمر میں اڑس رکھا ہوگا بعض اہم اقدامات اور منصوبوں کے بارے میں وہ اقدامات اور منصوبے فتح مکہ کے لئے لشکر کشی سے متعلق جن کو آنحضرت ﷺ نے جنگی مصالح کے تحت پوشیدہ رکھا تھا۔ اس قصہ کی اصل یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے قصد سے مسلمانوں کو سفر اور لڑائی کی تیاری کا حکم دیا تو ساتھ ہی آپ ﷺ نے جنگ کی اس تیاری اور اصل منصوبہ کو پوشیدہ رکھنے کی تاکید بھی مجاہدین اسلام کو فرمائی تھی۔ بلکہ ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے قصد تو مکہ کا کیا تھا اور روانگی خیبر کے لئے ظاہر فرمائی تھی یہ احتیاط خالص جنگی مصالح کے تحت تھی اور اس وقت کے حالات میں اس جنگی منصوبہ کا پوشیدہ رکھا جانا نہایت ضروری تھا۔ حاطب بن ابی بلتعہ ایک صحابی تھے، وہ اس منصوبہ کو جانتے تھے۔ انہوں نے اپنے مفاد کی خاطر آنحضرت ﷺ کے اصل منصوبہ کی اطلاع قریش مکہ کو دینی چاہی اور نہایت خفیہ طور پر ایک خط مذکورہ عورت کے ہاتھ مکہ روانہ کردیا، اس خط میں انہوں نے اہل مکہ کو مطلع کیا تھا کہ پیغمبر اسلام اپنے لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کے لئے آرہے ہیں، ہوشیار رہنا۔ لیکن اس عورت کے روانہ ہوتے ہی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کیا کہ ایک عورت ایسا خط لے کر مکہ جاری ہے اور روضہ خاخ تک پہنچ چکی ہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ وغیرہ کو اسی وقت روانہ فرمایا اور خط منگوا کر ملاحظہ کیا، یہاں یہ معلوم ہوا کہ جاسوسوں کی پردہ دری اور ان کے خطوط پڑھنا جائز ہے، اسی طرح کسی بھی مفسد کی پردہ دری جائز ہے جب کہ مصلحت اس کی متقاضی ہو یا پردہ پوشی کسی مفسدہ کو جنم دینے کا باعث بنتی ہو۔ ان کے لئے کوئی ایسا کارنامہ انجام دوں الخ اپنے آخر تک یہ جملہ اس عبارت کا تر جمہ ہے ان اتخذفیہم یدا یحمون بہا قرابتی اور طیبی نے لکھا ہے کہ یحموں صفت ہے یداً کی اور ید (ہاتھ) سے مراد یا تو انعام عطا کرنے والا ہاتھ ہے یا مدد پہنچانے والی طاقت وقدرت، اس طرح اس عبارت کا لفظی ترجمہ یوں ہوگا (میں نے چاہا کہ) ان سے یہ انعام یا ایسی طاقت وقدرت حاصل کروں کہ وہ لوگ میری قرابت یا قرابتداروں کی مدد و حمایت کریں۔ حاطب کا مطلب یہ تھا کہ اس حرکت بیجا سے میری اصل غرض وغایت اپنے قرابتداروں کا تحفظ حاصل کرنا تھی۔ میں اتنی مفید معلومات فراہم کر کے قریش مکہ کو خوش کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ میری اس خوشامد کے سبب مکہ میں میرے قرابتداروں کی دیکھ بھال رکھ سکیں، واضح رہے کہ حاطب نے اہل مکہ کو جو خط بھیجنا چاہا تھا اس سے ان کو مقصد آنحضرت ﷺ کو زک اور ایذاء پہنچانا ہرگز نہیں تھا، اگر ان کا مقصد یہ ہوتا تو پھر ان کے کافر ہوجانے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا، حقیقت یہی ہے کہ وہ اپنے طور پر یہ خیال کر کے کہ میرے اس خط لکھنے سے آنحضرت ﷺ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی، اس حرکت کے ارتکاب کی نادانی کر بیٹھے تھے۔ چناچہ جب انہوں نے اپنا مقصد بیان کیا جو ان کے خط لکھنے کا محرک بنا تھا، تو آنحضرت ﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی۔ اگر ان کی نیت اور ان کے مقصد میں آنحضرت ﷺ کو تکلیف یا نقصان پہنچانے کا ارادہ شامل ہوتا تو لسان نبوت ان کے بیان کی تصدیق ہرگز نہ کرتی۔ ہاں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک بڑے اجتہادی قصور میں مبتلا ہوئے بایں طور کہ انہوں نے اپنے اس معاملہ کو چھپایا اور آنحضرت ﷺ سے اجازت لئے بغیر ایسا کام کیا۔ اس منافق کی گردن اڑادوں اس عبارت کے تحت ملا علی قاری نے تو یہ لکھا ہے کہ رسول ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرکے حاطب کے بیان عذر کی تصدیق فرمائی لیکن اس کے باوجود حضرت عمر نے جو یہ بات کہی تو اس کا محرک دین کے تئیں وہ شدت اور سخت گیری تھی جو حضرت عمر کی ذات کا خاصہ تھا۔ وہ دین و مذہب کے معاملات میں ذرا بھی نرمی اور رعایت کے قائل نہیں تھے اور پھر حاطب کا معاملہ تو ویسے بھی بڑی سنگین نوعیت کا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس زمانہ میں بعض لوگ تھے بھی اس طرح کہ ان کی طرف نفاق کی نسبت کی جاتی تھی، چناچہ انہوں نے یہی سوچا کہ جس شخص نے نبی کریم ﷺ کی مخالفت کی ہے وہ قتل کا مستوجب ہوگیا لیکن اس سوچ میں چونکہ خود ان کے نزدیک بھی یقین کا پہلو غالب نہیں تھا اس لئے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے حاطب کے قتل کی اجازت مانگی۔ رہی یہ بات کہ انہوں نے حاطب پر منافق کا اطلاق کس وجہ سے کیا تو ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر نے اس بارے میں بھی سوچا ہو کہ حاطب نے شائد صحیح بات نہیں بتائی ہے، ان کے دل میں کچھ اور ہے اور بیان انہوں نے کچھ اور دیا ہے، ان کا مذکورہ عذر محض بات بنانے کے لئے ہے اور حضرت شیخ عبد الحق لکھتے ہیں ہوسکتا ہے کہ اس واقعہ کو بیان کرنے میں کچھ تقدیم و تاخیر ہوگئی ہو۔ ورنہ آنحضرت ﷺ کی تصدیق کے بعد حضرت عمر کا یہ بات کہنا مستبعد معلوم ہوتا ہے، گویا حضرت شیخ کے نزدیک اس بات کا قوی احتمال ہے کہ حضرت عمر نے یہ بات پہلے ہی کہی ہو اور آنحضرت ﷺ کی تصدیق کا جزء بعد کا ہو۔ تم جو چاہو کرو یہ اہل بدر ہی کو خطاب ہے اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ عملی زندگی میں تمہیں پوری طرح آزادی دے دی گئی ہے کہ اچھا برا جو بھی چاہو کرو اور فرائض وارکان دین کی بجاآوری میں بھی ہر تقصیر و کوتاہی تمہارے لئے معاف ہے بلکہ اس ارشاد قدسی کی اصل مراد اہل بدر کے تئیں حق تعالیٰ کے خصوصی کرم اور اس کی خصوصی عنایت کو ظاہر کرنا اور ان کے اس خصوصی مرتبہ کی نشاندہی کرنا ہے کہ غزوہ بدر میں شرکت کے عوض تمہیں آخرت کے تمام بلند مراتب و درجات حاصل ہوگئے ہیں وہاں کی تمہاری اعلی حیثیت متعین ہوگئی ہے۔ اب تمہیں اجازت ہے کہ اعمال صالحہ اور افعال نافلہ میں سے چاہے تھوڑا کرو چاہے بہت کرو، جو بھی کر لوگے کافی ہوجائے گا۔ جنت تمہارے لئے واجب ہوگئی ہے یعنی یہ ثابت ہوگیا کہ تم جنت میں جاؤ گے یا یہ کہ حق تعالیٰ کے وعدے کے بموجب تمہارے لئے جنت واجب ہوچکی ہے۔ نیز طیبی نے لکھا ہم کہ آنحضرت ﷺ نے پہلے لعل (ممکن ہے) کا جو لفظ استعمال فرمایا وہ اپنے اعتبار سے نہیں فرمایا بلکہ اس میں ترجی اور امید رکھنے کے معنی حضرت عمر کی طرف راجع ہیں، کیونکہ آنحضرت ﷺ کے نزدیک تو یہ بات محقق اور یقینی تھی۔ اور زیادہ قرین یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اہل بدر کی طرف کے جنتی اور مغفور ہونے کے پہلو کو لفظ لعل کے ساتھ اس لئے بیان فرمایا تاکہ اہل بدر اس پر اس طرح اعتماد اور بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں کہ فرائض و واجبات تک سے غفلت اختیار کرلیں اور اعملوا ماشئتم (تم جو چاہو کرو) سے یہ نتیجہ اخذ کرلیں کہ ہر فعل وعمل کی آزادی ہمیں مل گئی ہے۔ اب جو چاہے کرتے پھریں میں تم کو بخش چکا ہوں یعنی، میں نے تم لوگوں کو اپنی نظر رحمت و مغفرت سے نواز دیا ہے۔ اہل بدر کے حق میں اس عفو و مغفرت کا تعلق صرف آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا سے بھی، مطلب یہ کہ ان میں سے اگر کوئی شخص کسی ایسے فعل کا مرتکب ہوجائے جس پر حد وغیرہ جاری ہوتی ہے تو وہ مستوجب مواخذہ ہوگا، چناچہ ایک صحابی مسطح بن اثاثہ حالانکہ اہل بدر میں سے تھے لیکن جب انہوں نے حضرت عائشہ پر افتراب اندھا اور قرآن کریم نے ان کے افترا کا پردہ چاک کرکے عائشہ صدیقہ کی پاکدامنی کی تصدیق کی۔ تو آنحضرت ﷺ نے مسطح کو مستوجب مواخذہ گرانا اور ان پر حد افترا قائم فرمائی۔ یہ آیت نازل فرمائی اس سے سورت ممتحنہ کی وہ ابتدائی آیتیں مراد ہیں جن کا شان نزول حاطب کا یہی قصہ ہے یہ آیتیں یوں ہے (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَا ءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَا ءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَا ءَ مَرْضَاتِيْ ڰ تُسِرُّوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ڰ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَا اَخْفَيْتُمْ وَمَا اَعْلَنْتُمْ وَمَنْ يَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَا ءَ السَّبِيْلِ اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَا ءً وَّيَبْسُطُوْ ا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ وَاَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوْ ءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ ۔ لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ ڔ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ڔ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۔ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَه اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰ ؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَا ءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَه اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَاِلَيْكَ اَنَبْنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ ۔ ) 60 ۔ الممتحنہ 1 تا 4) اے ایمان والو ! تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو حالانکہ تمہارے پاس جو دین آچکا ہے وہ منکر ہیں، رسول کو اور تم کو اس بناء پر کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لے آئے شہر بدر کرچکے ہیں، اگر تم میرے رستہ پر جہاد کرنے کی غرض سے اور میری رضا مندی سے ڈھونڈنے کی غرض سے (اپنے گھروں سے) نکلے ہو، تم چپکے چپکے دوستی کی باتیں کرتے ہو حالانکہ مجھ کو سب چیزوں کا خوب علم ہے تم جو کچھ چھپا کر کرتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو (یاد رکھو) جو شخص تم میں سے ایسا کرے گا تو راہ راست سے بھٹکے گا اگر ان کو تم پر دسترس ہوجائے تو ( فورًا) اظہار عداوت کرنے لگیں (بایں طور کہ) تم پر برائی کے ساتھ دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں، وہ اس بات کے متمنی ہیں کہ تم کافر ہوجاؤ تمہارے رشتہ دار اور اولاد قیامت کے دن تمہارے کام نہ آویں گے اللہ تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کو خوب دیکھتا ہے، تمہارے لئے ابراہیم (علیہ السلام) میں اور ان لوگوں میں جو کہ ان کے ساتھ تھے ایک نمونہ ہے۔ جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن کو تم اللہ کے سوا معبود سمجھتے ہو ان سے بیزار ہیں، ہم تمہارے منکر ہیں اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لئے عداوت اور بغض ظاہر ہوگیا جب تک تم واحد پر ایمان نہ لاؤ، لیکن ابراہیم (علیہ السلام) کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے (استغفار سے زیادہ) مجھ کو اللہ سے آگے کسی بات کا اختیار نہیں۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم آپ پر توکل کرتے ہیں اور آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آپ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ آیات کریمہ اگرچہ حاطب کے سلسلہ میں نازل ہوئی تھی لیکن خطاب عمومی طور پر ہے تاکہ حاطب جیسے لوگ بھی اس کے تحت آجائیں، اسی لئے کہا گیا ہے العبرۃ بعموم اللفظ لابخصوص السبب یعنی یہ اصولی قاعدہ ہے کہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے نہ کہ خصوص سبب کا۔ مطلب یہ کہ کوئی آیت مثلا کسی خاص واقعہ کے سلسلہ میں یا کسی خاص شخص کے متعلق نازل ہوئی تو یہ نہیں کہ وہ آیت بس اسی واقعہ یا اسی شخص کے ساتھ مخصوص سمجھی جائے گی بلکہ اس کا مصداق ومحمول عمومی نوعیت کا ہوگا کہ جو بھی شخص اس آیت کے مفہوم و مضمون سے مطابقت رکھے گا وہ اس آیت کے تحت آئے گا اور یہ سمجھاجائے گا کہ گویا یہ آیت اسی شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے۔

【32】

اصحاب بدر کا مرتبہ

اور حضرت رفاعہ بن رافع بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور پوچھا کہ غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں کو آپ اپنوں میں سے کس طبقہ کے لوگوں میں شمار کرتے ہیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہم ان کو سب سے اعلی وسب سے بہتر مسلمانوں میں شمار کرتے ہیں، یا آپ ﷺ نے اسی طرح کے کچھ الفاظ میں جواب دیا ( اور ظاہر یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یوں فرمایا ہوگا ہم افضل المسلمین یعنی وہ اصحاب بدر سب سے اعلی وسب سے بہتر مسلمان ہیں) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) (یہ سن کر) بولے ایسا ہی ان فرشتوں کے بارے میں (ہم سمجھتے ہیں) جو غزوہ بدر میں (اہل اسلام کی مدد کے لئے) شریک ہوئے تھے۔ (بخاری) تشریح حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا مطلب یہ تھا کہ آپ ﷺ اصحاب بدر کو دوسرے تمام مسلمانوں سے افضل جانتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا خیال بھی یہی ہے کہ فرشتوں میں سے جو فرشتے غزوہ بدر میں شریک ہوئے وہ ان تمام فرشتوں سے افضل ہیں جن کو اس غزوہ میں شرکت کا موقع نصیب نہیں ہوا۔

【33】

اصحاب بدر وحدیبیہ کی فضیلت

اور ام المؤمنین حضرت حفصہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں امید رکھتا ہوں کہ جو شخص بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوا وہ انشاء اللہ دوزخ کی آگ میں داخل نہ ہوگا، میں نے (یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو دوزخ پر وارد نہیں ہو ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا تم نے یہ نہیں سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اس کے بعد) یہ بھی فرمایا ہے کہ پھر ہم ان لوگوں کو دوزخ میں جانے سے بچائیں گے جنہوں نے تقوی اختیار کیا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اصحاب شجرہ میں سے کوئی شخص انشاء اللہ دوزخ کی آگ میں داخل نہ ہوگا اور اصحاب شجرہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے (حدیبیہ کے مقام پر) درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح ان منکم الا واردہا یہ قرآن کی آیت کے الفاظ ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کو پل صراط سے گزرنا ہوگا اور پل صراط چونکہ دوزخ کے اوپر قائم کیا جائے گا اس لئے دوزخ کا سامنا لامحالہ ہر شخص کو کرنا پڑے گا اور علامہ نووی نے لکھا ہے کہ دوزخ پر وارد ہونے مراد پل صراط سے گزرنا ہے، بہر حال جب پل صراط پر سے گزرنے کا مرحلہ سلامتی کے ساتھ طے کرلیں گے۔ اور جنت میں چلے جائیں گے۔ لیکن حضرت حفصہ کے خیال میں یہ بات تھی کہ قرآن کے ان الفاظ میں واردہا کے معنی داخلہا (اور دوزخ میں داخل ہونے) کے ہیں، چناچہ انہوں نے سوچا کہ جب قرآن کے ان الفاظ کے مطابق دوزخ میں داخل ہونے سے کوئی بھی شخص مستثنیٰ نہیں ہوگا تو اہل بدر و حدیبیہ کے حق میں دخول دوزخ کی نفی کا مصداق ومحمول کیا ہوسکتا ہے اس پر آنحضرت ﷺ نے ان کو سمجھایا کہ خود اسی آیت میں ان الفاظ کے بعد (ثُمَّ نُ نَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِيْنَ فِيْهَا جِثِيًّا) 19 ۔ مریم 72) کے جو الفاظ ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر شخص دوزخ میں داخل نہیں ہوگا بلکہ وہی لوگ دوزخ میں جائیں گے جو نجات کے مستحق نہیں ہونگے بلکہ مستوجب عذاب قرار دئیے جاچکے ہوں گے اور یہ کہ واردہا کے معنی دوزخ میں داخل ہونے کے نہیں بلکہ دوزخ کے اوپر سے گذرنے کے ہیں واضح رہے کہ حضرت حفصہ نے آنحضرت ﷺ کا ارشاد سن کر جو کچھ کہا وہ مناظرہ بازی کے انداز میں اور اعتراض کے طور پر نہیں تھا بلکہ اصل میں جب حضرت حفصہ نے آنحضرت ﷺ کے ارشاد کو اپنے خیال کے مطابق بظاہر آیت قرآنی کے موافق نہیں پایا تو ان کو حدیث کا مفہوم سمجھنے میں دقت ہوئی اور تب انہوں نے بغرض استفادہ مذکورہ الفاظ میں آنحضرت ﷺ سے سوال کیا۔ گویا حضرت حفصہ کا یہ سوال اس حکم کی تعمیل میں تھا کہ اگر کسی آیت یا کسی حدیث کے معنی سمجھ میں نہ آئیں، یا کسی آیت اور حدیث کے درمیان تطبیق سمجھ میں نہ آئے اور یا کوئی بھی دینی بات سمجھ میں نہ آتی ہو تو اس کو کسی عالم سے پوچھ لینا چاہئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( فَسْ َ لُوْ ا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) 16 ۔ النحل 43) (پس تم اہل ذکر یعنی اہل علم سے دریافت کرلو اگر تم ناواقف اور لاعلم ہو) ۔

【34】

اہل حدیبیہ کی فضیلت

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے موقع پر ہماری تعداد ایک ہزار اور چار سو تھی (اور) ہمارے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا، آج کے دن تم زمین والوں میں سب سے بہتر لوگ ہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح ایک ہزار چار سو حدیبیہ کے موقع پر موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی تعداد کے بارے میں جو اختلافی روایتیں ہیں اور ان مختلف روایتوں کے درمیان جو وجہ تطبیق بیان کی جاتی ہے اس کا ذکر پیچھے ہوچکا ہے۔ اسی حدیث کے مطابق بعض حضرات نے جن میں علامہ سیوطی (رح) بھی ہیں لکھا ہے کہ صحابہ میں سب سے افضل خلفائے اربعہ ہیں۔ پھر عشرہ مبشرہ، پھر اہل بدر اور پھر اہل احد اور پھر اہل حدیبیہ۔

【35】

اصحاب بدر کا مرتبہ

اور حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ (حدیبیہ کے سفر کے دوران) رسول کریم ﷺ نے جب یہ فرمایا کہ ثنیۃ المرار پر جو چڑھے گا اس کے گناہ اسی طرح معاف کردیئے جائیں گے جیسے اسرائیل کے گناہ معاف کردئیے گئے تھے تو سب سے پہلے جو لوگ اس (ثنیۃ المرار) پر چڑھے وہ ہمارے گھوڑے یعنی قبیلہ خزرج کے (گھوڑ سوا ر) تھے۔ اس کے بعد آگے پیچھے سب لوگ چڑھے۔ پس رسول کریم ﷺ نے فرمایا سب کو بخش دیا گیا علاوہ اس شخص کے جو سرخ اونٹ والا ہے (یعنی منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی) (آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سن کر) ہم اس (سرخ اونٹ والے شخص یعنی عبداللہ بن ابی) کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ آؤ ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم رسول اللہ ﷺ سے تمہارے حق میں بخشش و مغفرت کی درخواست کریں، مگر وہ (بدبخت) بولا حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی گم شدہ چیز پاجاؤں، یہ میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے کہ تمہارے صاحب میرے لئے بخشش و مغفرت چاہیں۔ (مسلم) اور حضرت انس کی حدیث قال رسول اللہ ﷺ لابی بن کعب ان اللہ امرنی ان اقرء علیک فضائل قرآن کے بعد والے باب میں نقل کی جاچکی ہے (یعنی صاحب مصابیح نے اس حدیث کو یہاں اس باب میں نقل کیا تھا لیکن اس حدیث میں چونکہ قرآن کا ذکر تھا اس لئے مؤلف مشکوٰۃ نے اس کو وہاں نقل کیا ہے) ۔ تشریح ثنیۃ المرار میں ثنیۃ سے مراد پہاڑ کے درمیان (گھاٹی) کا راستہ ہے۔ اور مرار) ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان اس راستہ پر واقع ہے جو حدیبیہ کو ہو کر گزرتا ہے۔ یہ ارشاد گرامی اس وقت کا ہے جب آپ ﷺ ٦ ھ میں عمرہ کی نیت سے مکہ کو روانہ ہوئے تھے لیکن حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر رک گئے تھے اور صلح حدیبیہ کا مشہور واقعہ پیش آیا تھا، اسی سفر کے دوران جب آپ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ رات میں ثنیۃ المرار (مرار کی گھاٹی) پر پہنچے تو لوگوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ اور حوصلہ بڑھانے کی ضرورت یا تو اس لئے پیش آئی تھی کہ وہ گھاٹی نہایت دشوار گزار تھی اور اوپر چڑھنا کوئی آسان کام نہیں تھا، یا یہ کہ آپ ﷺ کو چونکہ یہ اندیشہ تھا کہ اس گھاٹی کے پیچھے شاید اہل مکہ گھاٹ لگائے بیٹھے ہوں اور منصوبہ بند طریقہ سے رات کی تاریکی میں اچانک حملہ آور ہوجائیں اس لئے صورت حال کی ٹوہ لینا ضروری تھا اور اس مقصد کے لئے اوپر چڑھنا ظاہر ہے جان جوکھوں کا کام تھا۔ جیسے بنی اسرائیل کے گناہ معاف کردیئے تھے ان الفاظ کے ذریعہ بنی اسرائیل سے متعلق قرآن کریم کے ان الفاظ وقولوا حطۃ نغفرلکم خطایا کم کی طرف اشارہ ہم۔ اصل قصہ یوں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں جب بنی اسرائیل میدان تیہ میں چالیس سال تک پریشان و سرگرداں پھرتے رہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے ازراہ کرم و عنایت ان کو بادل کا سایہ مہیا کیا اور ان کے کھانے کو من وسلوی نازل فرمایا اور پھر ان کو ملک شام کے ایک شہر اریحا جانے کا حکم دیا گیا۔ اس وقت ان کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اس شہر میں داخل ہوتے وقت عجز و انکساری اور فروتنی اختیار کرنا اور حطۃ (توبہ ہے، توبہ ہے) کہتے ہوئے داخل ہونا، اگر تم نے ہماری اس ہدایت پر عمل کیا اور توبہ انابت اور استغفار کرتے ہوئے اس شہر میں داخل ہوئے تو ہم تمہارے پچھلے گناہوں کو معاف کردیں گے اور تمہیں مغفرت و بخشش سے نوازینگے۔ لیکن بنی اسرائیل نے نہ صرف یہ کہ اس خدائی حکم و ہدایت پر عمل نہیں کیا بلکہ یہ شرارت بھی کی کہ شہر میں داخل ہوتے وقت اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اس لفظ کو جو طلب توبہ و استغفار کے معنی رکھتا تھا، بدل کر ایک ایسا لفظ بولنے لگے جو ان کی دنیاوی طلب و خواہش کے معنی رکھتا تھا، اس کی پاداش میں ان پر طاعون کا سخت عذاب نازل کیا گیا جس نے ان کو ستر ہزار آدمیوں کو ہلاک کرڈالا پس آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ جیسے بنی اسرائیل کے گناہ معاف کردئیے گئے تھے تو گناہ معاف کئے جانے سے مراد گناہ معاف کرنے کا وعدہ ہے گویا آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح بنی اسرائیل سے مغفرت کا وعدہ کیا گیا تھا اور اگر وہ اس وقت خدائی حکم و ہدایت پر عمل کرلیتے تو ان کے تمام گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔ وہ ہمارے گھوڑے یعنی قبیلہ خزرج خزرج انصار مدینہ کا ایک قبیلہ تھا اور حضرت جابر (رض) اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے یہ بات پہلے بتائی جاچکی ہے کہ اوس اور خزرج دو بھائی تھے اور آگے چل کر ان دونوں کی اولاد اور نسلیں دد الگ الگ قبیلوں میں تبدیل ہوگئیں اور یہ دونوں قبیلے اپنے اپنے مورث اعلی کے نام سے موسوم ہوئے۔ چناچہ انصار مدینہ میں سے کچھ لوگ تو قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور کچھ لوگ قبیلہ خزرج سے۔ میں اپنی گم شدہ چیز پاجاؤں بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت عبداللہ بن ابی کا وہی سرخ اونٹ ادھر ادھر ہوگیا ہوگا، یا اس کی کوئی اور چیز گم ہوگئی ہوگی۔ چناچہ صحابہ نے اس سے کہا کہ چلو ہم رسول اللہ ﷺ سے درخواست کرتے ہیں کہ تمہارے حق میں بھی استغفار کریں اور تمہاری بخشش کی دعا کریں تو اس نے نہایت بےاعتنائی سے کہا کہ اس وقت تمہارے صاحب ( رسول اللہ ﷺ کے پاس مجھے جانے کی فرصت کہاں ہے، اپنی گم شدہ چیز کو تلاش کرنا اور پالینا میرے نزدیک اس بات سے زیادہ اہم اور زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں طلب مغفرت کے لئے تمہارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤں، عبداللہ ابن ابی کے یہ الفاظ یقینی طور پر اس کے صریح کفر کے غماز تھے۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ وہ خبث باطن کے سبب راندہ درگاہ ہی رہا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اسی کی طرف اشا رہ کرتے ہوئے فرمایا واذا قیل الہم تعالوا یستغفر لکم رسول اللہ ﷺ لووا رء وسہم ورایتہم یصدون وہم مستکبرون سواء علیہم استغفرت لہم ام لم تستغفرلہم لن یغفر اللہ لہم۔ (الا یۃ) اور جب ان (منافقوں) سے کہا جاتا ہے کہ آؤ ( رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو) تاکہ رسول اللہ ﷺ تمہارے لئے استغفار کردیں تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں اور آپ ﷺ ان کو دیکھیں گے کہ وہ (اس ناصح سے اور تحصیل استغفار سے ) تکبر کرتے ہوئے بےرخی کرتے ہیں۔ (جب ان کے کفر کی یہ حالت ہے تو) ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں خواہ ان کے لئے استغفار کریں یا ان کے لئے استغفار نہ کریں۔ (اور) اللہ تعالیٰ ہرگز ان کی مغفرت نہیں فرمائیں گے۔

【36】

شیخین اور ابن مسعود کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم ان دونوں کی پیروی جو میرے صحابہ میں سے ہیں اور میرے بعد خلیفہ ہوں گے، وہ ابوبکر اور عمر ہیں، عمار بن یاسر کی سیرت اور ان کی راہ روش اختیار کرکے سیدھی سچی راہ پر چلو اور ام عبد کے بیٹے ( عبداللہ ابن مسعود) کے عہد کو مضبوط پکڑو اور ایک دوسری روایت میں، جو حضرت حذیفہ (رض) سے مروی ہے ام عبداللہ کے بیٹے کے عہد کو پکڑو کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ ابن مسعود تم سے جو حدیث بیان کریں (اور دین کے احکام و مسائل سے متعلق جو بات بتائیں) اس میں ان کو راست گو جانو۔ (ترمذی) تشریح اور میرے بعد خلیفہ ہوں گے یہ ترجمہ حضرت شیخ عبد الحق کے ترجمہ کے مطابق ہے۔ جب کہ ملا علی قاری کے مطابق ترجمہ یوں ہونا چاہئے کہ تم میری وفات کے بعد یا میری پیروی کے بعد ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے صحابہ میں سے ہیں اور وہ ابوبکر وعمر ہیں پس نحوی اعتبار سے ابوبکر و عمر بدل یا بیان ہم الذین کا۔ سیدھی سچی راہ پر چلو واضح ہو کر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے تعلق سے تو اقتدا کا لفظ لایا گیا ہے جب کہ حضرت عماربن یاسر کے تعلق سے اہتدا کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے اقتداء میں اہتداء سے زیادہ عمومیت ہے بایں جہت کہ اقتداء میں قول اور فعل، دونوں کا لحاظ ہوتا ہے جب کہ اہتدا کا تعلق صرف فعل سے ہوتا ہے گویا اقتداء تو مطلق پیروی کرنے کو کہتے ہیں خواہ فعل میں ہو یا قول میں اور اہتداء فقط فعل کی پیروی کو کہتے ہیں۔ حدیث کے ان الفاظ میں نہ صرف یہ کہ حضرت عمار بن یاسر کی فضیلت و کمال کو ذکر ہے کہ ان کا کوئی بھی فعل وعمل جادہ حق سے ہٹا ہوا نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ اس سے امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا برحق اور مبنی بر صداقت ہونا بھی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ امیر المؤمنین حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان جو معرکہ آرائی پیش آئی تھی اس میں حضرت عمار سیدنا حضرت علی کے ساتھ تھے۔ ام عبد کے بیٹے کے عہد میں عہد سے مراد قول اور وصیت ہے، یعنی عبداللہ ابن مسعود دینی احکام و مسائل میں جو بات کہیں اور جو تلقین و وصیت کریں اس کو پلے باندھ لو اور اس پر پوری طرح عمل کرو، چناچہ یہی وہ حکم رسول ہے جس کو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اپنی فقہ کی ایک مضبوط بنیاد بتایا ہے۔ استنباط مسائل میں حضرت امام اعظم، خلفاء اربعہ کے بعد تمام صحابہ میں سے سب سے زیادہ جس صحابی کی روایت اور قول کو اختیار کرتے ہیں وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ہی ہیں جس کے کمال فقاعت اور اخلاص وصیت میں کسی کو شبہ نہیں تورپشتی نے بھی عہد کے تقریبا یہی معنی بیان کئے ہیں لیکن انہوں نے اپنے نزدیک اس بات کو اولی قرار دیا ہے کہ ام عبد کے عہد سے مراد خلافت کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود کی رائے اور ان کا فیصلہ ہے گویا اس ارشاد رسالت کے ذریعہ امت کو ہدایت کی گئی کہ وصال نبوی کے بعد خلافت کے بارے میں عبداللہ ابن مسعود اپنی جس رائے اور جس فیصلہ کا اظہار کریں اسی سے تم سب لوگ رہنمائی حاصل کرو، چناچہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر کی خلافت کی حقانیت و صحت کی گواہی سب سے پہلے حضرت عبداللہ ابن مسعود ہی نے دی اور تمام اکابر صحابہ کی رائے اور مشورہ خلافت صدیق کے قیام میں شامل رہا، ان کی گواہی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ استحقاق خلافت میں ہم اس ہستی کو پیچھے کیسے رکھ سکتے ہیں جس کو رسول اللہ ﷺ نے (اپنے مرض وفات میں ہماری نماز کی امامت کے لئے) آگے کیا تھا یہ ممکن ہی نہیں کہ جس شخص کو آنحضرت ﷺ نے (امامت نماز کی صورت میں) ہمارے دینی پیشوائی کے لئے منتخب کیا تھا اس کو ہم (بصورت خلافت) اپنی دنیاوی قیادت کے لئے منتخب نہ کریں۔ اسی طرح کا مضمون سید نا علی کرم اللہ وجہہ سے بھی منقول ہے، بہرحال حدیث کے اول اقتدوا بالذین من بعد ای ابوبکر وعمر اور آخری جز تمسکوا بعہد ابن ام عبد کے درمیان جو مناسبت ہے اس کو تو تورپشتی کے اسی قول کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن دوسری روایت میں حضرت حذیفہ نے جو الفاظ نقل کئے ہیں ان سے اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ عہد سے مراد قول اور وصیت ہے۔

【37】

عبداللہ بن مسعود کی فضیلت

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک موقعہ) پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا اگر میں مشورہ کے بغیر کسی کو امیر وحاکم بناتا تو لوگوں کا امیر وحاکم ام عبد کے بیٹے یعنی عبداللہ ابن مسعود کو بناتا۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح یعنی عبداللہ ابن مسعود ایسی صلاحیت و کمال رکھتے ہیں کہ ان کو امیر وحاکم بنانے میں کسی مشورہ اور غور وفکر کی حاجت نہیں ہے، علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے یہ بات کسی خاص لشکر کا امیر و سردار بنانے کے سلسلہ میں کہی تھی یا اپنی حیات ہی میں کسی خاص معاملہ کی ذمہ داری سونپنے کے سلسلہ میں کہی تھی بہرصورت آپ کے ارشاد کا مطلب اس خلافت عامہ سے ہرگز نہیں تھا۔ جو وصال نبوی کے بعد قائم ہوئی۔ خلافت کی ایک بڑی شرط قریشی النسل ہونا تو آپ ﷺ خود بیان فرما چکے تھے اور حضرت عبداللہ ابن مسعود قریش میں سے نہیں تھے۔

【38】

چند مخصوص صحابہ کے فضائل

اور حضرت خیثمہ بن ابی سبرۃ (جو کبار تابعین اور ثقات میں سے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ میں جب مدینہ آیا تو میں نے اللہ سے دعا مانگی کہ مجھ کو نیک ہمنشین میسر ہو ( یعنی مجھ کو کوئی ایسا نیک بخت مل جائے جو ہمنشین بننے کی کامل استعداد و صلاحیت رکھتا ہو اور اس کی ہمنشینی سے استفادہ کیا جاسکتا ہو) چناچہ حق تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ جیسی ہستی مجھ کو میسر فرمائی جن کی صحبت و ہم نشینی میں نے اختیار کی اور (بغرض استفادہ ان کی خدمت میں حاضری دینے لگا) میں نے (ایک دن ان سے) عرض کیا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ مجھ کو نیک ہمنشین میسر ہو اور اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرکے آپ جیسا ہمنشین مجھ کو میسر فرمایا حضرت ابوہریرہ (رض) نے پوچھا، تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟ میں نے عرض کیا میں کوفہ کا رہنے والا ہوں اور (کوفہ سے چل کر) یہاں اس لئے آیا ہوں کہ (نیک وبابرکت ہمنشینی کے ذریعہ) خیر کا جو یا اور (اپنے نفس کے لئے) خیر کا طلب گار ہوں، (یہ سن کر) حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کیا تمہارے درمیان (یعنی تمہارے شہر میں) سعد بن مالک نہیں ہیں جو مستجاب الدعوات ہیں کیا تمہارے یہاں عبداللہ ابن مسعود نہیں ہیں جو رسول اللہ ﷺ (کے خادم خاص ہونے کی حیثیت سے سفرو حضر میں آپ کے ساتھی ہیں) کہ مسواک ونعلین مبارک (اور تکیہ وچھاگل وغیرہ) اپنے رکھا کرتے تھے، کیا تمہارے پاس حذیفہ نہیں ہیں (جو منافقین وغیرہ کے متعلق) رسول اللہ ﷺ کے محرم اسرار تھے، کیا تمہارے یہاں عمار جیسی ہستی نہیں ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی زبان مبارک کے ذریعہ شیطان سے امن و تحفظ عطا کیا۔ اور کیا تمہارے ہاں سلمان نہیں ہیں جو دو کتابوں یعنی انجیل اور قرآن کے ماننے والے ہیں ؟ (جب خیر و برکت اور علم وفضل رکھنے والی اتنی بڑی بڑی ہستیاں خود تمہارے شہر میں موجود ہیں تو محض صحبت وہمنشینی کے ذریعہ طلب خیر اور استفادہ علم کی خاطر تمہیں اپنا شہر چھوڑ کر یہاں آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ) ۔ (ترمذی) تشریح اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرکے یہفوفقت لیکا تو ضیحی ترجمہ ہے۔ وققتاصل میں وفق سے صیغہ مجہول ہے جس کے معنی ہیں موافق ہونا سازو وار پڑنا، واضح ہو کہ مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں فوفقت لیسے پہلے فیسرلی کے الفاظ منقول ہیں۔ خیرکا جو یا اور میں خیر سے مراد علم وعمل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں حکمت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ومن یوتی الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا۔ سعد بن مالک یہ وہی سعد بن ابی وقاص ہیں جن کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے اور جن کا مستجاب الدعوات ہونا بھی بیان ہوا ہے اور وقاص کا اصل نام ملک تھا اور اسی وجہ سے حضرت سعد کو سعد بن ابی وقاص بھی کہا جاتا ہے اور سعد بن مالک بھی۔ حضرت عمار کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے چونکہ یہ دعا جاری ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ عمار کو شیطان اور شیطان کی پیروی سے محفوظ رکھے اور یہ دعا قبول ہوئی اس لئے حضرت عمار گویا آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک کے طفیل میں شیطان اور شیطان کی ذریات سے امن و پناہ میں ہیں۔ جو دو کتابوں یعنی انجیل اور قرآن کے ماننے والے ہیں یعنی حضرت سلمان چونکہ اسلام کی روشنی تک پہنچنے سے پہلے عیسائیت کے پیرو تھے انہوں نے انجیل پڑھی اور اس پر ایمان لائے اور پھر اسلام پاتے ہی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اسلام لائے، قرآن پڑھا اور قرآن پر عمل پیرا ہوئے، اس اعتبار سے وہ دونوں کتابوں کے ماننے والے ہوئے، حضرت سلمان کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ انہوں نے ڈھائی سو سال کی طویل عمر پائی ان کا لقب سلمان الخیر تھا۔ ان کے باپ کا نام کوئی نہیں جانتا تھا اگر کوئی شخص ان سے ان کا نسب اور ان کے باپ کا نام پوچھتا تو وہ جواب دیتے انا ابن اسلام یعنی میں اسلام کا بیٹا ہوں۔

【39】

چند صحابہ کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابوبکر بھی کیا اچھا آدمی ہے، عمر بھی کیا اچھا آدمی ہے، ابوعبیدہ بن الجراح بھی کیا اچھا آدمی ہے اسید بن حضیر بھی کیا اچھا آدمی ہے، ثابت بن قیس بن شماس بھی کیا اچھا آدمی ہے، معاذ بن جبل بھی کیا اچھا آدمی ہے، عمر وبن الجموع بھی کیا اچھا آدمی ہے۔ روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث غریب ہے تشریح سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا ابوعبیدہ، سیدنا ثابت بن قیس اور سیدنا معاذ بن جبل کا ذکر پیچھے ہوچکا ہے۔ سیدنا اسید بن حضیر انصار مدینہ میں ہے سے ہیں اور قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے ہیں۔ بیت عقبہ میں حاضر ہونے والوں اور غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں میں شامل ہیں بعد کے غزوات میں بھی شریک ہوئے صحابہ کی ایک جماعت نے ان سے احادیث کی روایت کی ہے۔ مدینہ میں ٢٠ ھ میں ان کا انتقال ہوا اور بقیع میں مدفون ہوئے۔ سیدنا عمر وبن الجموح بھی انصار مدینہ میں سے ہیں لیکن ان کا تعلق قبیلہ خزرج سے ہے، یہ بھی بیعت عقبہ میں حاضر تھے اور بدری ہیں۔ ان کا انتقال حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں ہوا۔ بہرحال حدیث میں مذکورہ تمام صحابہ کبار مہاجرین و انصار میں سے ہیں، غالباً یہ سب حضرات کسی موقع پر آنحضرت ﷺ کی مجلس مبار میں یکجا رہے ہوں گے۔ کہ آپ ﷺ نے ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ مدح وثنا سے مشرف فرمایا یا مذکورہ تعریفی الفاظ میں ان سب کو الگ الگ ذکر کا کوئی خاص سبب بیش آیا ہوگا۔

【40】

وہ تین صحابہ، جنت جن کی مشتاق ہے

اور حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ جنت میں تین آدمیوں کی (بہت) مشتاق ہے اور وہ علی عمار اور سلمان ہیں۔ (ترمذی) تشریح اس ارشاد گرامی کا اصل مقصد ان تینوں حضرت کے جنتی ہونے کو زیادہ سے زیادہ بلیغ اور زور دار انداز میں بیان کرنا ہے۔ گویا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ یہ تینوں شخص ایسے جنتی ہیں کہ خود جنت بھی ان کی بہت مشتاق ہے اور تیار ہو کر ان کے انتظار میں ہے کہ کب یہ لوگ میرے اندر آتے ہیں اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ جنت کے مشتاق ہونے سے مراد اہل جنت یعنی ملائکہ اور حوروغلمان وغیرہ کا مشتاق ہونا ہے۔ نیز طیبی نے لکھا ہے کہ ان تینوں کے تئیں جنت کا مشتاق ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ پیچھے ایک حدیث میں حضرت سعد بن معاذ کے انتقال پر عرش کے ہلنے کا ذکر آیا ہے

【41】

حضرت عمار کی فضیلت

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) عمار نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضری کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کو اندر آنے دو ، پاک و پاکیزہ شخص کو خوش آمدید۔ (ترمذی) تشریح طیب سے تو حضرت عمار کے جوہر ذات کی پاکیزگی کی طرف اشارہ ہے اور مطیب سے ان کی اس پاکیزگی و بزرگی کی طرف اشارہ ہے جو تہذیب اخلاق وصفات کے ذریعہ ان کو حاصل ہوئی۔ اور ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ حضرت عمار کے نفس کی پاکی اور ان کے اخلاق و کردار کی پاکیزگی کو تعریف وتحسین کے نہایت بلیغ انداز میں بیان کرنے کے لئے طیب مطیب کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں جیسا کہ سایہ کو مبالغۃ بیان کرنے کے لئے ظل ظلیل کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔

【42】

حضرت عمار کی فضیلت

اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عمار کو جب کبھی دو کاموں میں سے کسی ایک کام کا اختیار دیا گیا تو اس نے ہمیشہ سخت ترین اور مشکل کام کو اختیار کیا۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ کہ ان دونوں میں سے جو کام طبیعت پر بہت بھاری اور نفس کے لئے دشوار ہوتا تھا اور اسی اعتبار سے زیادہ فضیلت بھی اسی کام کی ہوتی تھی تو عمار اسی کو اختیار کرتے جیسا کہ سالکان راہ قرب و ولایت کا طریقہ ہے۔ رہا آنحضرت ﷺ کا معاملہ کہ آپ ﷺ دو اختیاری کاموں میں سے اسی کام کو اختیار کرتے تھے جو سب سے آسان اور ہلکا ہوتا تھا تو اس کا مقصد امت کے لئے آسانی اور سہولت پیدا کرنا ہوتا تھا۔ ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ عمار کو جب کبھی دو کاموں میں سے کسی ایک کام کا اختیار دیا گیا تو انہوں نے اسی کام کو اختیار کیا، جو زیادہ آسان ہوتا تھا، چونکہ ان دونوں روایتوں میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے، اس لئے علما نے لکھا ہے کہ اوپر والی روایت کا معنی تو یہ ہے کہ خود حضرت عمار کس کام کو سخت ترین اور دشوار سمجھتے تھے، چناچہ وہ جس کام کو دوسرے کام کی بہ نسبت زیادہ سخت اور دشوار سمجھتے تھے، اسی کو اختیار کرتے تھے اور اس دوسری روایت کو مبنی یہ ہے کہ ان کے علاوہ دوسرا آدمی کس کام کو زیادہ سخت اور دشوار سمجھتا تھا، یعنی دوسرا آدمی تو یہ سمجھتا تھا کہ عمار نے جس کام کو اختیار کیا ہے وہ آسان اور سہل ہے لیکن حقیت میں حضرت عمار کے نزدیک وہی کام زیادہ سخت اور دشوار ہوتا تھا۔

【43】

حضرت سعد بن معاذ کی فضیلت

اور حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب سعد بن معاذ کا جنازہ اٹھا کر لوگ چلے ( اور ان کو وہ جنازہ ہلکا لگا) تو منافقوں نے کہا کہ اس کا جنازہ کتنا ہلکا اس فیصلہ کی وجہ سے ہے جو اس نے بنوقریظہ کے بارے میں دیا ہے تھا۔ منافقوں کی یہ بات نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کے جنازے کو فرشتے اٹھائے لئے جا رہے تھے۔ (ترمذی) تشریح اس فیصلہ کی وجہ سے ہے قصہ یہ ہوا تھا کہ مدینہ کے یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ نے جب عزوہ خندق (ذیقعدہ ٥ ھ) کے موقع پر آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ بدعہدی اور اعتماد شکنی کا بدترین مظاہر کیا تو آنحضرت ﷺ نے اس غزوہ سے فارغ ہوتے ہی بنوقریظہ کو رخ کیا اور ان کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا تاکہ ان کی مسلسل ریشہ دوانیوں، سازشوں اور بدعہدیوں کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ کردیا جائے، بنوقریظہ کے یہودی نہ تو اپنے قلعہ سے باہر آکر مجاہدین اسلام کے مقابلہ کی ہمت پاتے تھے اور نہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت قبول کرنے پر آمادہ تھے۔ آخر کار جب یہ محاصرہ پچیس روز تک جاری رہا اور قلعہ کے اندر محصور یہودیوں کو کوئی راہ نجات نظر نہیں آئی تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم اپنے آپ کو اس شرط پر آپ ﷺ کے سپرد کرتے ہیں کہ سعد بن معاذ ہمارے لئے جو سزا تجویز کریں وہی سزا ہم کو دی جائے چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس کو قبول فرمالیا اور حضرت سعد بن معاذ کو حکم دیا کہ ان کے حکم میں ازراہ عدل و انصاف جو سزا ہم کو دی جائے چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس کو قبول فرما لیا اور حضرت سعد بن معاذ نے معاملہ کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد فیصلہ سنایا کہ بنوقریظہ کے تمام مرد قتل کردئیے جائیں ان کی عورتوں اور ان کے بچوں کے ساتھ اسیران جنگ کا سلوک کیا جائے اور ان کے اموال واملاک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے، آنحضرت ﷺ نے اس فیصلہ پر عمل کیا اور حضرت سعد بن معاذ سے فرمایا کہ تمہارا یہ فیصلہ حق تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق ہے جو اس نے ساتوں آسمانوں کے اوپر صادر کیا۔ پس جب حضرت سعد بن معاذ کا انتقال ہوا اور ان کا جنازہ لے جایا جانے لگا تو ان منافقین نے کہ جو ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام سے پوشیدہ دشمنی اور دشمنان دین سے خفیہ ساز باز اور ہمدری رکھتے تھے، حضرت سعد بن معاذ کے متعلق زبان اعتراض کھولنے کا موقع پایا اور ان پر طعن کیا کہ سعد یہ جنازہ اس سبب سے ہلکا پڑگیا ہے کہ انہوں نے بنوقریظہ کے بارے میں غیر منصفانہ فیصلہ دیا تھا۔ گویا ان منافقین نے حضرت سعد کی طرف ظلم کی نسبت کی اور ان کے فیصلہ کو ایک ظالمانہ فیصلہ قرار دیا، حالانکہ یہ ان منافقوں کا خبث باطن تھا جو انہوں نے اسلام اور مسلمانوں سے عناد کے تحت حضرت سعد کے نہایت موزوں اور مبنی برحقیقت فیصلہ کو ظالمانہ فیصلہ سمجھا اور ان کے جنازہ کے سبک ہونے کو مذکورہ فیصلہ سے جوڑ کر نہایت بیہودہ اور لغوبات کہی۔ ان کے جنازہ کو فرشتے اٹھائے لئے جا رہے تھے یعنی سعد کے جنازہ کا سبک وہلکا ہونا اس بات سے کوئی مناسبت ہی نہیں رکھتا جو ان جاہل منافقوں کے ذہن میں ہے اور جس کا اظہار بھی انہوں نے کیا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ سعد کے جنازہ کو اٹھا کر چلنے والوں میں فرشتے بھی شامل تھے اور چونکہ وہ جنازہ فرشتوں نے اٹھا رکھا تھا اس لئے لوگوں نے ہلکا اور سبک لگ رہا تھا۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے کہ میت کا (نعش کا ہلکا وسبک ہونا بذات خوداچھی علامت ہے جب کہ اس کا بھاری لگنا کچھ اچھی علامت نہیں سمجھا جاتا۔ عارفین کا کہنا ہے کہ میت کا بھاری ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ شخص دنیا میں زیادہ رغبت وتعلق رکھتا تھا جب کہ میت کا ہلکا اور سبک ہونا دنیا سے اس کی بےرغبتی، آخرت اور مولیٰ کے تئیں اس کے کمال اشتیاق اور مقصد اعلی کی طرف اس کی روح کے جلد پرواز کرنے کو ظاہر کرتا ہے، بہرحال منافقوں نے مذکورہ بات چونکہ حضرت سعد کی حقارت وسب کی ملحوظ رکھ کر کہی تھی اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس طرح جواب دیا کہ جنازہ کے ہلکا ہونا وسبک ہونے سے حضرت سعد کی شان و حیثیت کا بڑھنا اور ان کی عظمت کا ظاہر ہونا لازم آجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (للہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین ولکن المنافقین لایعلمون (عزت تو اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے رسول کے لئے اور مؤمن بندوں کے لئے لیکن منافق نہیں جانتے )

【44】

حضرت ابوذر کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے سنا ابوذر (رض) بڑھ کر سچی زبان کے آدمی نیلگوں آسمان نے سایہ کیا اور نہ غبار آلود زمین نے ان سے بڑھ کر کر سچے آدمی کو اٹھایا۔ (ترمذی) تشریح حضرت ابوذر غفاری ان بزرگان صحابہ میں سے ہیں جو زہد و قناعت، فقر واستغناء اور تجرد کی زند گی گزارنے کے سبب دنیا کی ہر لذت ونعمت سے اپنے کو دور رکھتے تھے۔ ان کا ذکر پیچھے اپنے موقع پر ہوچکا ہے۔ یہاں حضرت ابوذر کے ذکر میں جو حصر ہے اس سے تاکید اور مبالغہ مراد ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ علی الا طلاق سب سے بڑھ کر سچی زبان والے تھے اور کوئی بھی شخص ان سے زیادہ سچا نہیں تھا۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ حضرت ابوبکر اس امت کے صدیق ہیں اور نبی کریم ﷺ کے بعد اس امت کے سب سے افضل واعلی شخص ہیں لہٰذا یہ کہنا موزوں نہیں ہوسکتا کہ حضرت ابوذر، حضرت ابوبکر صدیق سے بھی بڑھ کر سچی زبان والے تھے اور پھر خود رسول کریم ﷺ اور انبیاء (علیہم السلام) یقینی طور پر حضرت ابوذر (رض) کہیں زیادہ سچے اور ان سے کہیں بڑھ کر سچی زبان والے تھے۔

【45】

حضرت ابوذر کی فضیلت

حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی ایسے بولنے والے پر نہ تو نیلگوں آسمان نے سایہ کیا اور نہ زمین نے اس کو اٹھایا جو ابوذر (رض) زیادہ راست گو ہو اور اللہ اور اللہ کے رسول کا حق ابوذر (رض) زیادہ ادا کرنے والاہو۔ وہ ابوذر جو عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے مشابہ ہیں یعنی زہد میں۔ (ترمذی) تشریح اوفی کا ترجمہ بعض شارحین نے یہ کیا ہے کہ جو کلام و گفتگو کا حق ابوذر (رض) زیادہ ادا کرنے والا ہو اور کلام کا ایک حق تو یہ ہے کہ صحیح، سچی اور نیک بات کے علاوہ اور کچھ زبان پر نہ لایا جائے اور ایک حق یہ ہے کہ تلفظ کی ادائیگی، جملوں کی ساخت الفاظ کے استعمال اور مفہوم ومعنی کے اظہار میں کوئی فروگزاشت نہ ہو پس حدیث کا حصل یہ ہے کہ ابوذر اظہار حق میں ذرا بھی چشم پوشی ومداہنت نہیں کرتے ہمیشہ راست گفتاری وصاف گوئی سے کام لیتے ہیں جس بات کو حق اور سچ سمجھتے ہیں برملا کہہ دیتے ہیں چاہے وہ کیسی ہی تلخ ہو اور کسی کے لئے کتنی ہی ناگوار ہو نیز وہ اللہ اور اللہ کے رسول کے پکے مطیع و فرمانبردار ہیں، یا یہ کہ وعدہ اور عہد کو پورا کرتے ہیں اور یہ کہ اپنی بات کو بڑی وضاحت اور فصاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں غرضیکہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کوئی شخص ابوذر کے برابر راست گو اور اپنی بات کا پورا، یا اللہ اور اللہ کے رسول کا حق ادا کرنے والا فصیح اللسان نہیں ہے۔ جو عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے مشابہ ہیں ان الفاظ میں حضرت ابوذر کے کمال زہد ودرع اور ان کے تجرد کی طرف اشارہ ہے چناچہ ان کے زہد اور دنیا سے ان کی بےتعلقی وبے رغبتی کا عالم یہ تھا کہ دنیا کی ناجائز ومباح لذتوں سے بھی اپنے آپ کو محروم رکھتے تھے، تجرد کی بےکیف زندگی پر پوری طرح قانع وصابر تھے مال جمع کرنا ان کے نزدیک حرام تھا، چاہے وہ کتنے ہی جائز ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو اور زکوٰۃ وغیرہ کتنی ہی پابندی و احتیاط سے ادا گئی ہو۔ منقول ہے کہ ایک دن حضرت ابوذر ہاتھ میں عصا لئے ہوئے سیدنا عثمان غنی کی مجلس میں آئے تو وہاں کعب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ سیدنا عثمان غنی نے حضرت کعب سے پوچھا، کعب (تمہیں معلوم ہی ہے) عبدالرحمن بن عوف اس حال میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں کہ ان کے پاس مال و دولت کی فروانی تھی۔ ان کا ترکہ نہایت کثیر مقدار سونے چاندی اور دوسرے مال و اسباب پر مشتمل ہے اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے (مال و دولت کی اس قدر کثرت وفراوانی عبدالرحمن کے درجہ کمال کی راہ میں کسی نقصان کا باعث تھی یا نہیں) حضرت کعب بولے اگر عبدالرحمن اس مال و دولت میں اللہ کا حق یعنی زکوٰۃ وغیرہ ادا کرتے تھے تو پھر اس مال و دولت میں ان کے لئے کوئی نقصان اور خدشہ کی کوئی بات نہیں، حضرت ابوذر نے حضرت کعب کی جو یہ بات سنی تو اپنا عصا اٹھا کر ان کو مارا اور بولے میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر میں پاس اس پہاڑ (یعنی احد پہاڑ) کے برابر سونا ہو اور میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کروں تو اس کے باوجود کہ میرا وہ خرچ کرنا قبول کرلیا جائے میں بالکل پسند نہیں کروں گا کہ میں اس میں سے چھ اوقیہ (دوسوچالیس درہم کے برابر) بھی سونا چھوڑ جاؤں، پھر حضرت ابوذر نے حضرت عثمان غنی کو مخاطب کرکے کہا کہ میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ بتاؤ تم نے بھی آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سنا ہے ؟ ابوذر نے یہ بات تین مرتبہ کہی، حضرت عثمان غنی نے جواب دیا۔ ہاں آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے میں نے بھی یہ ارشاد سنا ہے۔ بہرحال حضرت ابوذر چونکہ کامل درویش اور تارک الدنیا تھے اور زہد وفقر پر سختی سے کار بند تھے اس لئے ان کا مسلک یہ تھا روپیہ پیسہ اور مال وزر جمع کرنا، بچا کر رکھنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جو کچھ دے سب اسی کی راہ میں خرچ کردینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ان کے مزاج میں اتنی شدت تھی کہ دولت کے جواز میں کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے تھے چناچہ جب حضرت کعب نے حضرت عبدالرحمن کی دولت کے جواز میں بات کہی تو حضرت ابوذر پر ان کا یہی سخت جذبہ غالب آگیا اور انہوں نے حضرت کعب پر اپنا عصا کھینچ مارا۔ لیکن جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے تو جمہور کا مسلک یہی ہے کہ اگر زکوٰۃ وغیرہ ادا کی جاتی رہے تو مال و دولت جمع کرنے اور بچا کر رکھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو رہی آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کی بات جو حضرت ابوذر نے بیان کیا تو اس سے مال و دولت کی برائی یا مال و دولت جمع کرنے کے عدم جواز کا کوئی پہلو نہیں نکلتا جیسا کہ شائد حضرت ابوذر سمجھتے تھے آنحضرت ﷺ نے تو محض اپنے جذبہ انفاق فی سبیل اللہ اور دنیاوی مال و دولت سے اپنی بےرغبتی کا اظہار فرمایا تھا نہ کہ اس دولت کے جمع کرنے اور رکھنے کے عمومی عدم جواز کا اظہار مقصود تھا جو جائز وسائل و ذرائع سے آتی ہو۔ اور جس کے حق (یعنی زکوٰۃ وغیرہ) کی ادائیگی کا اہتمام رکھا جاتاہو۔ یعنی زہد میں یہ الفاظ کسی روای کے ہیں، اصل روایت کا جزء نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ صاحب استیعاب نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول کریم ﷺ کے یہ الفاظ بیان کئے گئے ہیں۔ جو شخص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تواضع و انکسار کے دیکھنے کی خواہش وسعادت حاصل کرنا چاہتا ہو وہ ابوذر کو دیکھ لے اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حدیث بالا میں آنحضرت ﷺ نے ابوذر کی جس صفت میں حضرت عیسیٰ کے مشابہ فرمایا ہے وہ تواضع اور انکسار ہے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ جس روای نے یعنی فی الزہد کے الفاظ میں مشاہبت کی توضیح کرنی چاہی ہے ان کے علم میں یہ حدیث نہیں تھی، جس کو صاحب استیعاب نے نقل کیا ہے اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ زہد اور تواضع کے درمیان کوئی منافات نہیں یہ دونوں صفتیں ایک ساتھ ہوسکتی ہیں بلکہ جو شخص زاہد ہوگا وہ متواضع ومنکسر المزاج بھی یقینا ہوگا۔ علاوہ ازیں یعنی فی الزہد کے الفاظ اصل کتاب یعنی مصابیح میں موجود نہیں ہیں بلکہ صاحب مشکوٰۃ کے بڑھائے ہوئے ہیں۔

【46】

علمی بزرگی رکھنے والے چار صحابہ

اور حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ جب ان کی موت کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ علم چار آدمیوں سے حاصل کرو، عویمر سے جن کی کنیت ابودرداء ہے سلمان فارسی سے، عبداللہ بن مسعود سے اور عبداللہ بن سلام سے جو یہودی تھے۔ اور پھر انہوں نے اسلام قبول کیا میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ وہ ( عبداللہ بن سلام) جنت کے دس شخصوں میں سے دسواں شخص ہے۔ (ترمذی) تشریح علم چار آدمیوں سے حاصل کرو میں علم سے مرادیا تو عمومی طور پر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کا علم ہے یا اس علم کمال کا وہ خاص فن کہ جس سے حلال و حرام امور کی معرفت و پہچان حاصل ہوتی ہے اور یہ دوسرا احتمال زیادہ قوی اور زیادہ واضح ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد اعلمکم بالحلال والحرام معاذ بن جبل (حلال و احرام امور کا علم تم میں سے سب سے زیادہ معاذ بن جبل کو حاصل ہے) کے بموجب اسی خاص علم وفن سے حضرت معاذ بن جبل کو مناسبت تامہ بھی حاصل ہے اور اسی سے ان کی وجہ خصوصیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ جن کی کنیت ابودرداہ ہے ان کا اصل نام عویمر ہی تھا لیکن مشہور اپنی کنیت ابودرداء کے ساتھ تھے درداء ان کی بیٹی کا نام تھا۔ حضرت عویمر یعنی حضرت ابودرداء انصاری خزرجی ہیں، زبر دست فقیہہ، بلند پایہ عالم، بزرگ مرتبہ زاہد اور نہایت اونچے درجہ کے حکیم ودانا تھے۔ اصحاب صفہ میں سے ہیں اور آنحضرت ﷺ نے ان کے اور حضرت سلمان فارسی کے درمیان بھائی چارہ کرایا تھا۔ بعد میں انہوں نے ملک شام میں سکونت اختیار کرلی تھی اور ٣٢ ھ میں بمقام دمشق ان کا انتقال ہوا۔ اور پھر انہوں نے اسلام قبول کیا حضرت عبداللہ بن سلام پہلے یہودی تھے اور دین موسوی کے زبر دست عالم مانے جاتے تھے تورات کے علوم پر پورا عبور رکھتے تھے۔ اور اس کے رموز واشارات سے پوری طرح واقف تھے اس آسمانی کتاب میں آنحضرت ﷺ سے متعلق جتنی پیشنگوئیاں اور ہدایات تھیں ان کو پوری طرح سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کو ابتداء ہی سے آنحضرت ﷺ کی بعثت کا انتظار اور آپ ﷺ کے دیدار کا اشتیاق پوری شدت کے ساتھ تھا، چناچہ جب آنحضرت ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو پہلے ہی دن انہوں نے خدمت اقدس میں حاضری دی اور اسی وقت مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ دس شخصوں میں سے دسواں شخص ہے ان الفاظ سے بظاہریہ مفہوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن سلام عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے، اس لئے ان الفاظ معنی یوں بیان کئے جائیں گے کہ عبداللہ بن سلام گو یا ان دس شخصوں میں سے دسویں شخص کی مانند ہیں جن کو جنت کی بشارت ہوئی اور ایک شارح نے اس جملہ کے یہ معنی لکھے ہیں کہ عبداللہ بن سلام صحابہ میں کے نو شخصوں کے بعد بہشت میں داخل ہوں گے۔ یعنی صحابہ جس ترتیب کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے اس میں دسواں نمبر عبداللہ بن سلام کا ہوگا۔ لیکن اس معنی میں یہ خرابی ہے کہ اس سے عبداللہ بن سلام کا بعض عشرہ مبشرہ سے پہلے جنت میں داخل ہونا لازم آتا ہے، بہرحال اس جملہ کے ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام ان دس یہودیوں میں کے دسویں شخص ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا یا یہ معنی مراد ہیں کہ عشرہ مبشرہ کے بعد جو پہلے دس شخص جنت میں داخل ہوں گے ان میں کے دسویں شخص عبداللہ بن سلام ہیں اس طرح صحابہ جس ترتیب کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے ان میں عبداللہ بن سلام کا نمبر انیسواں ہوگا۔

【47】

حذیفہ اور ابن مسعود کی فضیلت

اور حضرت حذیفہ بن الیمان بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) چند صحابہ بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ ﷺ اپنے سامنے ہی صحابہ میں سے کسی کو اپنا خلیفہ مقرر فرما دیتے تو اچھا ہوتا (یا یہ معنی ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اگر آپ ﷺ خود کسی کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے تو وہ کون ہوتا ! ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر میں کسی کو تمہارے اوپر خلیفہ مقرر کردوں اور پھر تم اس کی نافرمانی کرو تو تم عذاب میں پکڑے جاؤگے، تاہم (میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ) حذیفہ تم سے جو کچھ کہیں یا جو حدیث بیان کریں اس کو سچ جانو اور عبد بن مسعود تم کو جو کچھ پڑھائیں اس کو پڑھو۔ (ترمذی) تشریح آنحضرت ﷺ نے جس انداز میں جواب دیا، اس کا تعلق حکیمانہ اسلوب سے ہے آپ ﷺ نے گویا یوں فرمایا کہ یہ بات تمہارے لئے اتنی ضروری نہیں ہے کہ ابھی سے خلافت کی فکر میں لگ جاؤ اور منصب خلافت کے لئے کسی کو نامزد یا مقرر کرنے کی درخواست مجھ سے کرو۔ کیونکہ یہ تو وہ معاملہ ہے جو اللہ کے حکم سے اپنے وقت پر تمہارے سامنے بہرصورت ظاہر ہوجائے گا، بایں طور کہ تم جس اہل وموزوں شخص پر اتفاق واجماع کر لوگے وہی خلیفہ بن جائے کا۔ علاوہ ازیں، میری طرف سے منصب خلافت کے لئے کسی کی نامزدگی یا تقرری میں ایک مانع یہ بھی ہے کہ فرض کرو کہ میں نے تمہاری درخواست پر کسی کو ابھی سے خلیفہ متعین یا نامزد کردیا اور پھر میرے بعد تم نے اس خلیفہ کی نافرمانی کی یا اس کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا تو بالیقین اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب میں پکڑے جاؤگے۔ لہٰذا تو خلافت کی فکر چھوڑو اور کتاب وسنت پر عمل پیرا اور ان کے راستہ پر مضبوطی سے گامزن رہنے کی دھن باندھو کہ یہی بات تمہارے لئے سب سے اہم اور سب سے ضروری ہے۔ حذیفہ تم سے جو کچھ کہیں یہاں خاص طور پر انہی دونوں صحابہ یعنی حضرت حذیفہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود کا ذکر اس سبب سے ہوا کہ اول تو علم و یقین میں ان کو ممتاز حیثیت اور ان کی بڑھی ہوئی فضیلت کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا دوسرے یہ کہ کسی صاحب ایمان کو جس چیز سے اجتناب و پرہیز سب سے زیادہ کرنا چاہئے وہ نفاق ہے اور جس چیز کو سب سے زیادہ ماننا اور بجا لانا چاہئے وہ احکام شریعت ہیں چناچہ پہلی چیز یعنی نفاق کا علم و ادراک رکھنے والے سب سے اہم صحابی حضرت حذیفہ تھے کہ ان کو صاحب سر رسول اللہ ﷺ کا خصوصی درجہ حاصل تھا اور منافقوں کے بارے میں جتنا کچھ وہ جانتے تھے اتنا کوئی صحابی نہیں جانتا تھا۔ دوسری چیز یعنی احکام شریعت کا بہت زیادہ علم رکھنے والے صحابی حضرت عبداللہ ابن مسعود تھے جن کے بارے میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے رضیت لامتی مارضی بہ ابن ام عبد (میری امت کے لئے ابن عبد یعنی عبداللہ بن مسعود کی پسند میری پسند ہے) نیز آپ ﷺ نے فرمایا تمسکوا بعہدابن عبد (اے مسلمانو ! ابن عبد یعنی عبداللہ بن مسعود کی تلقین و نصیحت اور ان کی رائے پر پوری طرح عمل کرو) یہاں علماء نے بطور نکتہ لکھا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں اور اسی طرح اس فصل کی پہلی حدیث میں ایک طرح سے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کا بیان بھی ہے چناچہ روایتوں میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد جب خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ درپیش تھا۔ تو حضرت عبداللہ ابن مسعود نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ بنانے کی رائے دیتے ہوئے کہا تھا ابوبکر وہ شخص ہیں جن کو آنحضرت ﷺ نے ہماری پیشوائی (یعنی امامت نماز کے لئے) آگے کیا تھا اس لئے ہمیں اپنی دنیاوی قیادت کے لئے بھی انہی کو آگے رکھنا چاہئے۔

【48】

حضرت محمد بن مسلمہ کی فضیلت

اور حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ جب ( دنیا بدامنی و انتشار اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف وافتراق کا) فتنہ لوگوں کو گھیرے گا تو مجھ کو خوف ہے کہ کوئی شخص اس کے اثر سے محفوظ نہ رہے گا علاوہ محمد بن مسلمہ کے چناچہ میں نے رسول کریم ﷺ کو (محمد بن سلمہ سے) یہ فرماتے سنا ہے کہ فتنہ تم کو ضرر نہ پہنچائے گا اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے تاہم (نامور محدث) عبد العظیم مندری نے اس حدیث کو ثابت کیا ہے۔ تشریح حضرت محمد بن مسلمہ انصاری خزرجی اشہلی، بلند پایہ صحابی ہیں انہوں نے مدینہ میں حضرت مصعب بن عمیر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے ہیں اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر انہی کو مدینہ میں اپنا خلیفہ چھوڑا تھا، آنحضرت ﷺ کے حکم کے مطابق انہوں نے باہمی اختلاف و انتشار کے ہر فتنہ سے اپنا دامن بچائے رکھا، جب بھی اس طرح کا کوئی ناگوار موقع آتا تھا۔ حضرت محمد بن مسلمہ گوشہ نشین ہوجاتے تھے اور اس طرح فتنہ و فساد کے شرر وضرر سے محفوظ رہتے تھے باختلاف روایات ٤٣ ھ یا ٤٦ ھ میں واصل بحق ہوئے۔ اور اس کے بارے میں سکونت اختیار کیا ہے یعنی امام ابوداؤد نے اس حدیث کو نہ مطعون کیا ہے اور نہ اس کی تصحیح وتحسین کی ہے واضح ہو کہ جس حدیث کے بارے میں امام ابوداؤد نے سکوت اختیار کیا ہو اس کے متعلق محدثین کے اختلافی اقوال ہیں۔ بعض حضرات ایسی حدیث کو صحیح کا درجہ دیتے ہیں بعض حضرات حسن کہتے ہیں اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ حدیث ضعیف ہے مگر لائق استناد ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں رواہ کے بعد جگہ خالی چھوٹی ہوئی ہے۔ اور حاشیہ پر مذکورہ بالا عبارت جزری کے حوالہ سے لکھی ہوئی ہے۔

【49】

عبداللہ بن زبیر

اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ (ایک رات کو خلاف معمول) نبی کریم ﷺ نے زبیر کے گھر میں چراغ جلتے دیکھا تو فرمایا کہ عائشہ ! میرے خیال میں اسماء کے بچہ پیدا ہوا ہے (کیونکہ ان کے ہاں ولادت قریب تھی اور اس وقت خلاف معمول چراغ کا جلنا اس بات کی علامت ہے) تم لوگ اس بچہ کا نام نہ رکھنا جب تک کہ میں نام نہ رکھوں چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس بچہ کا نام عبداللہ رکھا اور کھجور کے ذریعہ اپنے دست مبارک سے اس بچہ کو تحنیک کیا۔ (ترمذی) تشریح تحنیک کے معنی ہیں کچاچبا کر بچہ کے منہ میں دینا، چناچہ کھجور یا کوئی میٹھی چیز چبا کر نومولود بچہ کے منہ میں دینا یا اس کے تالوں کو لگانا مستحب ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کے یہاں بچہ پیدا ہو تو اس کو چاہئے کہ کسی نیک و صالح شخص سے اس بچہ کا نام رکھوائے اور کھجور یا شہد اور یا کسی بھی میٹھی چیز کے ساٹھ اس کی تحنیک کرائے جس سے اس کو برکت حاصل ہو۔ حضرت زبیر بن العوام، آنحضرت ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ کے بیٹے اور حضرت ابوبکر صدیق کے داماد ہیں۔ حضرت عائشہ کی بہن حضرت اسماء ان کے نکاح میں تھیں۔ بڑی قدر منزلت رکھتے والے صحابی ہیں اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ حضرت عبداللہ، حضرت زبیر، وحضرت اسماء کے بیٹے ہیں، سرکار دوعالم ﷺ نے ان کی کینت ان کے نانا حضرت ابوبکر صدیق کی کنیت پر رکھی تھی اور ان کا نام بھی نانا ہی کے نام پر رکھا تھا، ہجرت کے بعد مدینہ میں مہاجرین کے یہاں جو لڑکے پیدا ہوئے ان میں سب سے پہلے حضرت عبداللہ بن زبیر ہی ١ ھ میں پیدا ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق نے ان کے کان میں اذان دی، حضرت اسماء ان کو آنحضرت ﷺ کے پاس لائیں اور آپ ﷺ کی بابرکت گود میں دیا، آنحضرت ﷺ نے کھجور منگائی اور اس کو اپنے منہ میں ڈال کر چبایا پھر اپنا مبارک لعاب دہن ان کے منہ میں ڈالا اور ان کو تحنیک کیا، اس طرح حضرت عبداللہ کے پیٹ میں جو چیز سب سے پہلے داخل ہوئی وہ آنحضرت ﷺ کا مبارک لعاب دہن تھا، اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان کے لئے خیر و برکت کی دعا کی فرمائی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نہایت پاکباز اور پاک نفس انسان تھے، روزے بہت رکھتے تھے اور نمازیں بھی بہت پڑھتے تھے۔ صلہ رحمی کا بہت خیال رکھتے تھے اور ناطے داروں سے حسن سلوک میں مشہور تھے۔ نہایت بہادر اور زبردست سپہ سالار تھے، میدان جنگ میں ان کی شجاعت اور شہ سواری تمام قریش میں ضرب المثل اور وجہ افتخار تھی حق گوئی ان کا طرہ امتیاز تھا، نہایت خوش تقریر اور جہر الصوت تھے، جب بولتے تھے تو آواز پہاڑوں سے جا کر ٹکرایا کرتی تھی، ایک بہت بڑی جماعت کو ان سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے امیر معاویہ کی وفات کے بعد یزید بن معاویہ کی امارت وحکمرانی کو تسلیم نہیں کیا تھا اور امارت معاویہ کے مقرر کردہ حاکم مدینہ کے تسلط سے نکل کر مکہ مکرمہ آگئے تھے، یہاں مکہ کے شرفاء اور عمائدین کی اکثریت پہلے ہی سے یزید کے خلاف تھی، ان سب نے حضرت عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پر بیعت کرکے مکہ پر ان کی حکومت قائم کرادی اور یزید اپنی سخت ترین کوششوں کے باوجود اپنی پوری مدت حکومت میں مکہ پر کبھی بھی اپنا تسلط قائم نہ کر پایا، یزید کی موت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر نے ٦٤ ھ میں باقاعدہ اپنی خلافت کا اعلان کیا اور عام لوگوں سے بیعت لی، جس کے بعد بہت جلد شام کے بعض مقامات کے سوا تمام عالم اسلام نے ان کی خلافت کو تسلیم کرلیا اور تقریبا نوسال تک حجاز عراق، یمن اور خراسان وغیرہ ممالک ان کی خلافت کے تحت رہے۔ جمادی الاول ٧٢ ھ میں دمشق (شام) کے اموی حکمران عبد الملک نے مشہور ظالم حجاج بن یوسف ثقفی کی کمانڈاری میں ایک زبردست لشکر حضرت عبداللہ بن زبیر کے خلاف مکہ پر چڑھائی کے لئے روانہ کیا۔ اس لشکر نے پہلے طائف پر قبضہ کیا اور یہاں سے حضرت عبداللہ بن زبیر کے خلاف جنگی کاروائیاں جاری کیں، جن کا سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا پھر حجاج نے عبد الملک سے مزید کمک منگوائی اور زبردست جنگی تیاریوں کے ساتھ رمضان المبارک ٧٦ ھ میں بہت بڑا حملہ کرکے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا، یہ محاصرہ بھی کئی ماہ تک جاری رہا، جس کے دوران حجاج کی فوجیں شہر مکہ اور کعبۃ اللہ پر منجنیق سے سنگ باری کرکے تباہی پھیلاتی رہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر اپنی محدود فوجی طاقت کے ساتھ حجاج کا مقابلہ بڑی بہادری اور جانبازی سے کرتے رہے، ایک ایک کر کے ان کے تمام سپاہی کام آگئے، یہاں تک کہ دنیا کا عظیم الشان بہادر و متقی انسان تن تنہا داد شجاعت دیتا ہوا اس ظالم فوج کے ہاتھوں شہید ہوا۔ حجاج نے اس مردہ شیر کا سرتن سے جدا کر کے لاش کو ایک دار پر لٹکوایا اور پھر کافی دنوں بعد اس نے لاش کو دفن کرنے کی اجازت دی۔

【50】

حضرت معاویہ

اور حضرت عبدالرحمن بن عمیرہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت معاویہ کے حق میں یوں دعا فرمائی اے اللہ ! اس کو راہ راست دکھانے والا اور راہ راست پایا ہوا بنا اور اس کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت عطا فرما۔ (ترمذی) تشریح اس میں شک نہیں کہ آنحضرت ﷺ کی دعا مستجاب ہے پس جس شخص کے حق میں آپ ﷺ نے یہ مستجاب دعا فرمائی ہو اس کے بارے میں کسی طرح کا شک وشبہ کرنا اور کوئی برا خیال قائم کرنا ہرگز روا نہیں ہے۔ حضرت معاویہ اموی قریشی ہیں ان کی ماں کا نام ہندہ ہے جو قریش کے ایک بڑے سردار کی بیٹی تھیں اور ان کے والد ابوسفیان ہیں جو خود قریش کے ایک بڑے سردار تھے جن لوگوں نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا ابوسفیان ان میں سے ایک ہیں۔ مسلمان ہوجانے کے بعد یہ ابوسفیان کچھ دنوں تک مؤ لفۃ القلوب میں شمار ہوئے پھر اسلام اور مسلمانوں کے جاں نثار اور وفا شعا رخادم بنے حضرت معاویہ ان صحابہ میں سے ایک ہیں جو آنحضرت ﷺ کے کاتب وحی تھے، لیکن بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وحی کی کتابت انہوں نے مطلق نہیں کی البتہ خطوط نویسی کا کام ان کے سپرد تھا گویا آنحضرت ﷺ کے منشی تھے حضرت عمر فاروق کے دور میں شام کے حاکم مقرر ہوئے اور تقریبا بیس سال یعنی حضرت عثمان غنی کے آخر میں عہد خلافت تک اسی عہدہ پر رہے۔ پھر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت اور معاویہ کی حکومت شام کے درمیان ٹکراؤ رہا اور باقاعدہ جنگوں تک کی نوبت آئی۔ حضرت علی کی وفات کے بعد جب سیدنا امام حسن اور امیر معاویہ کے درمیان مصالحت ہوگئی تو تمام عالم اسلام نے امیر معاویہ کو خلیفہ وقت تسلیم کیا اور تقریبا بیس سال تک تمام اسلامی دنیا کے خلیفہ و امیر رہے ماہ رجب ٦٠ ھ میں بعمر اٹھتر سال دمشق میں ان کا انتقال ہوا آخر عمر میں ان کو لقوہ ہوگیا تھا اپنے آخر زمانہ میں بڑی حسرت سے فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں قریش کے معمولی فرد کی طرح (مکہ کے ایک مقام) ذی طویٰ میں پڑا رہتا اور اس حکومت و خلافت کی کوئی چیز نہ دیکھتا، منقول ہے کہ حضرت امیر معاویہ کے پاس آنحضرت ﷺ کے کچھ تبرکات محفوظ تھے جن میں آپ ﷺ کی ایک چادر، ایک تہبند اور ایک کرتا تھا، ان مبارک کپڑوں کے علاوہ آپ ﷺ کے کچھ موئے مبارک اور ناخن بھی تھے مرتے وقت حضرت امیر معاویہ نے وصیت کی کہ آنحضرت ﷺ کے کرتے میں مجھ کو کفنایا جائے، آپ ﷺ کی چادر میں مجھ کو لپیٹا جائے آپ ﷺ کے تہبند کو میرا ازار بنایا جائے۔ اور آپ ﷺ کے جو موئے مبارک اور ناخن ہیں ان میں سے کچھ کو میرے حلق کے گڑھے میں بھر دیا جائے اور کچھ کو میرے سجدے کی جگہوں پر باندھ دیا جائے اور پھر میرے ارحم الراحمین کے درمیان تخلیہ کردیا جائے، یعنی دفنا کر کے مجھ کو میرے اللہ کے سپرد کردیا جائے۔

【51】

حضرت عمر وبن العاص

اور حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لوگوں نے تو اسلام قبول کیا اور عمرو بن العاص ایمان لائے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد قوی نہیں۔ تشریح لوگوں نے اسلام قبول کیا میں لوگوں سے مکہ اور قریش کے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے دن اس حالت میں اسلام قبول کیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا جب اسلام ایک فاتح طاقت کی حیثیت سے ان پر غالب آگیا تھا اور پیغمبر اسلام کے دامن عاطفت میں پناہ لینے کے علاوہ اور کوئی راستہ ان کے سامنے نہیں رہ گیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پھر ان کا ایمان مضبوط اور کامل ہوا اور وہ سب مخلص مؤمن و مسلمان بن گئے ان لوگوں کے برخلاف حضرت عمرو بن العاص فتح مکہ سے ایک سال پہلے برضا ورغبت ایمان لے آئے تھے، اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت میں اپنا پیارا وطن مکہ چھوڑ کر ہجرت کی اور مدینہ منورہ آگئے تھے پس آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان گویا یہ جتلانا ہے کہ اہل قریش میں سے جو لوگ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے، انہوں نے تو ڈر کی وجہ سے اسلام قبول کیا تھا۔ جب کہ عمر و بن العاص برضا ورغبت اور اخلاص و یقین کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ ایک شارح نے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر خاص طور سے عمر و بن العاص کے برضا ورغبت ایمان لانے کا ذکر اس پس منظر کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے کیا جو ان کے قبول اسلام کا محرک وسبب بنا۔ ہوا یہ تھا کہ حضرت عمر وبن العاص کو مکہ اور قریش کے سرداروں نے اپنا خصوصی نمائندہ بنا کر حبش کے بادشاہ نجاشی کے پاس اس مشن پر بھیجا تھا کہ وہ ان مسلمانوں کو حبش سے مکہ واپس لائیں جو مکہ سے ہجرت کرکے حبش چلے گئے تھے اور نجاشی کی پناہ میں تھے، عمر وبن العاص نے اپنے اس مشن کے تحت جب نجاشی سے ان مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو نجاشی نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا اور ان سے کہا عمر و ! مجھے بڑی حیرت ہے کہ محمد ﷺ تمہارے چچا کے بیٹے ہیں اور تم ان کی حقیقت سے بیخبر ہو ! اللہ کی قسم، وہ اللہ کے سچے رسول ہیں عمر و ( یہ سن کر) بولے آپ ایسا کہتے ہیں ؟ نجاشی نے کہا ہاں اللہ کی قسم یہ میں کہہ رہا ہوں تم میری بات کو سچ مانو، بس اسی وقت ان کے دل و دماغ میں نور ایمان کی کرن پھوٹی اور وہ اپنے مشن سے دست بردار ہو کر بار ادہ ایمان وہاں سے لوٹ پڑے کسی نے ان کو ایمان کی دعوت نہیں دی کسی نے ان کو اسلام کی طرف نہیں بلایا از خود ان کی فطرت سلیم بیدار ہوگئی اپنے آپ قبول ایمان کا جذبہ ان میں امڈ پڑا اور وہ ڈورتے بھاگتے ہوئے مدینہ چلے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مشرف بایمان ہوئے اور مخلص وصادق مسلمان بن گئے، آنحضرت ﷺ نے ان کی بڑی پذیرائی کی، یہاں تک کہ مسلمان ہوتے ہی ان کو ایسے لشکر کا سردار بنادیا جس میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی شامل تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو یہ اعزاز اور یہ فضیلت اس بنا پر عطا فرمائی کہ وہ چونکہ قبول اسلام سے پہلے آنحضرت ﷺ سے سخت عداوت رکھتے تھے اور آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے آزاروہلاکت کے بہت درپے رہتے تھے، اس لئے قبول اسلام کے بعد وہ اپنے ماضی کے تئیں نہ صرف بہت دہشت زدہ بھی تھے بلکہ مسلمانوں کے درمیان خود کو اپنی نظر میں اجنبی اجنبی سا بھی محسوس کررہے تھے لہذا آنحضرت ﷺ نے ان کو ایک دم اتنا بڑا اعزاز عطا فرمایا تاکہ ان کے دل و دماغ سے اس اجنبیت و وحشت کا اثر بھی زائل ہوجائے اور آنحضرت ﷺ کی طرف سے اپنے کو مطمئن ومامون سمجھیں نیز اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں، ایک روایت میں آیا ہے کہ عمر و بن العاص جب قبول اسلام کے ارادہ سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خود ان کی درخواست پر آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا یا تاکہ وہ دست مبارک پر بیعت کرکے ایمان لائیں تو معًا انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آنحضرت ﷺ نے پوچھا، عمرو ! تم نے اپنا ہاتھ کیوں کھینچ لیا، عمر و بولے میں کچھ شرط کرنا چاہتا ہوں۔ آنحضور ﷺ نے پوچھا کیا شرط ہے ؟ انہوں نے کہا میں اس شرط پر ایمان لاتا ہوں کہ میں نے پہلے جو گناہ کئے ہیں ان کو معاف کردیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا عمر و ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ان تمام گناہوں کو ڈھانپ لیتا ہے جو قبول اسلام سے پہلے کئے گئے ہوں اور ہجرت ان تمام گناہوں کو ڈھانپ لیتی ہے جو اس ہجرت سے پہلے کئے گئے ہوں اوکما قال، ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا عمروبن العاص اور ان کے بھائی ہشام بن العاص دونوں (مخلص وصادق) مؤمن ہیں ایک حدیث میں فرمایا گیا عمر و بن العاص، قریش میں سے ہیں ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عمروبن العاص کو مخاطب کرکے فرمایا انک الرشید ( بلاشبہ تم ہدایت یافتہ ہو) اور یہ بھی آنحضرت ﷺ ہی کا ارشاد ہے کہ عمر وبن العاص اوروں سے بہتر صدقہ لے کر آئے ہیں۔ حضرت عمرو بن العاص نہایت ذکی اور ذہین اور عقلمند انسان تھے۔ تمام عرب میں ان کی دانائی اور ان کے تدبر کا لوہا مانا جاتا تھا، حضرت عمر فاروق جب کسی احمق مالدار کو دیکھتے مالدار کو دیکھتے تو کہتے سبحان اللہ جس ذات نے اس شخص کو پیدا کیا ہے اسی نے عمر و بن العاص کو بھی پیدا کیا منقول ہے کہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حضرت عمر وبن العاص پر خوف، بےتابی اور بےقراری کا زبردست غلبہ ہوگیا تھا خشیت الہٰی کا غیر معمولی اثر ان پر نمایاں رہتا تھا ان کی یہ حالت دیکھ کر ایک دن ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر وبولے ! بابا جان، آپ کو رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل ہے نگاہ رسالت میں آپ کو اعتبا رواعتماد کا بلند مقام حاصل تھا، جہادوں میں آپ رسول اللہ ﷺ رہا کرتے تھے پھر آپ پر آخر اتنی گھبراہٹ اور اتنا خوف کیوں طاری ہے ؟ حضرت عمرو بن العاص نے (یہ سن کر) کہا جان پدر ! تم جانتے ہو میری پوری زندگی تین مرحلوں پر گزری ہے پہلے میں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کا سخت معاند اور دشمن رہا۔ پھر اللہ نے مجھے ہدایت فرمائی اور میں مسلمان ہو کر رسول اللہ ﷺ کے فیض سے بہرہ ور ہوتا رہا۔ اور پھر میری امارت وحکمرانی کا دور آیا کہ اسلامی حکومت کی طرف سے مختلف علاقوں میں عامل وحاکم کی حیثیت سے سرفراز رہا اور اس کے سبب دنیا سے جو کچھ حصہ مجھے ملنا تھا ملا، اب میں نہیں جانتا کہ ان تینوں مرحلوں میں کس مرحلہ کے مطابق میرے ساتھ سلوک ہونا ہے اور کس طرح کا انجام میرے سامنے آنے والا ہے (اسی فکر میں ہر وقت لرزاں وترساں رہتا ہوں ) ۔

【52】

حضرت جابر کے والد کی فضیلت

اور حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ سے میری ملاقات ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا جابر ! کیا بات ہے کہ میں تم کو افسردہ و غمگین دیکھ رہا ہوں ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے والد (حضرت عبداللہ) کو غزوہ احد میں شہید کردیا گیا اور وہ (ایک بڑا) کنبہ اور قرضہ چھوڑ گئے ہیں، گویا میری پریشانی اور افسردگی کے کئی سبب پیدا ہوگئے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا میں اس معاملہ کی خبر دے کر تمہیں خوش نہ کردوں جو اللہ نے تمہارے والد کے ساتھ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ﷺ ! (مجھ کو خوش خبری سے ضرور نوازئیے) آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی سے کلام کیا ہے۔ حجاب کے پیچھے سے کیا ہے، مگر تمہارے والد کو اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا اور پھر ان سے رودبرو کلام فرمایا (یعنی اللہ تعالیٰ اور تمہارے والد کے درمیان نہ کوئی حجاب حائل تھا اور نہ کوئی دوسرا واسطہ) اور فرمایا اے میرے (خاص) بندے میرے فضل و کرم کے سہارے آرزو کر (یعنی جس چیز کی خواہش ہو مجھ سے مانگ) میں تجھ کو عطا کروں گا (یہ سن کر) تمہارے والد گویا ہوئے، میرے پروردگار ! (میں بس یہ چاہتا ہوں کہ) مجھ کو زندہ کرکے دنیا میں بھیج دے تاکہ تیری راہ میں لڑتا ہوا ایک مرتبہ پھر مارا جاؤں (اور تیری رضا و خوشنودی مزید حاصل کرنے کا ایک اور وسیلہ مجھ کو مل جائے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس بارے میں یہ حقیقت محلوظ رہنی چاہئے کہ میرا یہ حکم پہلے سے نافذ ہے کہ جو مرچکے ہیں دنیا میں لوٹ کر نہیں آئیں گے اور پھر (انہی تمہارے والد اور دوسرے شہداء احد کے حق میں) یہ آیت نازل ہوئی (جس کا ترجمہ ہے) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہیں ان کو مردہ مت خیال کرو الخ۔ (ترمذی) تشریح اور تمہیں خوش نہ کردوں آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ دنیا کی جو پریشانی آتی ہے اور جو بھی غم پڑتا ہے وہ دیر سویر زائل ہوجاتا ہے اور آسانی کی راہ نکل ہی آتی ہے۔ تمہارے والد نے جو بڑا کنبہ چھوڑا ہے اللہ اس کے تکفل کا انتظام کرادے گا اور جو قرضہ وہ چھوڑ گئے ہیں اللہ کے فضل سے اس کی ادائیگی بھی ہوجائے گی۔ لہٰذا اس وقت جس دنیاوی غم واندوہ کا تمہیں سامنا ہے اس کا صبر وشکر کے ساتھ انگیز کرنا چاہئے اور محض اس کی وجہ سے اپنے آپ کو غمگین ودل گیر نہ رکھنا چاہئے، بلکہ تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو شہادت کا مرتبہ عظمی عطا فرمایا اور اس سعادت سے مشرف فرمایا جو مولیٰ کی رضا وقرب اور مولیٰ کے کرم کو ظاہر کرتی ہے۔ پس اس ارشاد گرامی میں ایک تو اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اولاد سیدھی راہ پر ہو تو باپ کی فضیلت و بزرگی اس میں بھی سرایت کرتی ہے اور دوسرے اس طرف اشارہ ہے کہ باپ کو حاصل ہونے والی خوشی وسعادت پر اولاد کو بھی خوش ہونا چاہئے۔ اللہ نے جب بھی کسی سے کلام کیا یعنی تمہارے والد سے پہلے جس کسی سے بھی اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تو رودر رو کلام نہیں کیا بلکہ پردہ کے پیچھے سے کیا۔ ان الفاظ میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ وہ (یعنی جابر کے والد) بالخصوص ان تمام شہیدوں سے افضل ہیں جو ان سے پہلے شہید ہوئے کیونکہ ان میں سے جس کسی سے بھی اللہ تعالیٰ نے کلام کیا ہوگا وہ پردہ کے پیچھے سے کیا ہوگا۔ واضح ہو کر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورآء حجاب (الایۃ) یہ تو اس کا تعلق صرف اس دنیا سے ہے نہ کہ آخرت سے تمہارے والد کو اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہیدوں کے بارے میں جب یہ فرمایا کہ بل احیاء عندہم (بلکہ وہ شہداء اپنے رب کے پاس زندہ ہیں) تو پھر حضرت جابر (رض) کے شہید والد کے متعلق آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا کیا معنی رکھتا ہے ! اس کا جواب ایک شارح نے یوں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روح کو سبز جانور کے قلب میں منتقل کیا اور پھر اس جانور کو اس روح کے ذریعہ حیات عطا کی جیسا کہ ہر شہید کے ساتھ ہوتا ہے، پس آنحضرت ﷺ نے ان کو اسی حیات عطا کئے جانے کو زندہ کیا سے تعبیر فرمایا اور ایک جواب یہ لکھا ہے کہ یہاں زندہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روح کو اتنی قوت عطا فرمائی جس سے ان کو روبرو کلام میں دیدار الہٰی کا تحمل حاصل ہوا۔ دنیا میں لوٹ کر نہیں آئیں گے یعنی یہ تو اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ جو مرچکے ہیں ان کو اس دنیا میں اس طرح دوبارہ زندگی نہیں ملے گی کہ پھر وہ مدت دراز تک جیتے رہیں اور اس مدت میں نیکیاں کرتے ہیں۔ اس وضاحت کی روشنی میں یہ ارشاد گرامی اس بات کے منافی ہوگا کہ بعض مردوں کا دوبارہ اسی دنیا میں جی اٹھنا ثابت ہے جیسا کہ مثلا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ اعجاز منقول ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کچھ عرصہ کے لئے مردوں کو دوبارہ زندہ کردیتے تھے اور اس سے بھی زیادہ وضاحت یہ ہے کہ یہ حق تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ جو لوگ ایک مرتبہ مرچکے ہیں وہ درخواست یا آرزو کرکے اس دنیا میں دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتے اس صورت میں شہید دجال والی روایت کے تحت بھی اس ارشاد گرامی پر کوئی اشکال لازم نہیں آئے گا، نیز سید جمال الدین نے یوں لکھا ہے کہ انہم لایرجعون (وہ دنیا میں لوٹ کر نہیں آئیں گے) میں انہم کی ضمیر کا مرجع صرف شہداء میں اور شہداء سے بھی چاہے جنگ احد کے شہداء مراد لئے جائیں یا مطلق شہداء اور یہ خاص مرجع متعین کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کے واقعہ کی بنا پر اس ارشاد گرامی میں اشکال واقع نہ ہو۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی اور پوری آیت یوں ہے (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ) 3 ۔ ال عمران 169) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہیں ان کو مردہ مت خیال کرو، بلکہ اپنے رب کے پاس (ایک ممتاز حیات کے ساتھ) زندہ ہیں، ان کو رزق بھی ملتا ہے (اور) وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔

【53】

حضرت جابر

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے میرے لئے پچیس مرتبہ مغفرت کی دعا مانگی ہے۔ (ترمذی) تشریح ایک احتمال تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جابر کے حق میں مغفرت کی دعا پچیس بار ایک ہی وقت میں مانگی اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ مختلف اوقات اور مختلف مواقع پر مجموعی طور سے پچیس بار مغفرت کی دعا مانگی لیکن حضرت جابر (رض) ہی کی ایک اور روایت سے پہلے احتمال کی تائید ہوتی ہے، اس روایت کے الفاظ ہیں استغفرلی رسول اللہ ﷺ لیلۃ البعیر خمسا وعشرین۔ ( رسول کریم ﷺ نے جس رات کو میرا اونٹ خریدا میرے لئے پچیس بار مغفرت کی دعا مانگی ) ۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) مشہور صحابی ہیں انصار مدینہ میں سے ہیں اور سلمی ہیں، ان سے بہت زیادہ روایتیں نقل کی جاتی ہیں، غزوہ بدر میں شریک تھے اور اس کے بعد تقریبا اٹھارہ غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے شام ومصر کی مہمات میں بھی شامل تھے۔ ان سے روایت حدیث کرنے والوں کی تعداد کثیر ہے۔ اخیر عمر میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے، ان کا انتقال مدینہ میں ٧٤ ھ میں ہوا اس وقت ان کی عمر چورانوے سال تھی۔ ایک قول کے مطابق مدینہ میں وفات پانے والے آخری صحابی یہی جابر بن عبداللہ ہیں۔

【54】

حضرت براء بن مالک

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کتنے ہی لوگ ہیں جو (بظاہر تو) پراگندہ حال، خاک آلودہ بال اور دو پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہوتے ہیں ( اور اپنی اس ظاہری حالت کے سبب اس طرح حقیر سمجھے جاتے ہیں کہ) کوئی نہ ان کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ان کی طرف ملتفت ہوتا ہے لیکن (ان کے باطن کا یہ حال ہوتا ہے کہ) اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ ان کو اس قسم میں سچا کرتا ہے (یعنی اگر وہ قسم کھا کر کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کی لاج رکھتا ہے اور ویسا ہی کرتا ہے۔ یا یہ کہ اگر وہ اپنے کسی کام کے بارے میں قسم کھا کر کہہ دیتے ہیں کہ ہم فلاں کام کر کے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ اس کام کے ذرائع و اسباب مہیا فرما دیتا ہے اور ان کو اس کام کے کرنے کی توفیق و طاقت عطا فرما دیتے ہے) اور ایسے ہی لوگوں میں سے ایک براء بن مالک بھی ہیں اس روایت کو ترمذی نے اور دلائل النبوۃ میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔ تشریح حضرت براء بن مالک (رض) حضرت انس بن مالک (رض) کے حقیقی بھائی ہیں، فضلاء صحابہ میں سے ہیں عرب کے نامور دلیروں اور پہلوانوں میں شمار ہوتے ہیں احد اور اس کے بعد غزوات میں شریک ہوئے، اللہ نے اتنی شجاعت اور طاقت عطا فرمائی تھی کہ باقاعدہ مقابلہ کی صورت میں انہوں نے ایک سو دشمنوں کو تنہا موت کے گھاٹ اتارا دوسروں کے ساتھ مل کر جن دشمنوں کو انہوں نے جہنم رسید کیا ان کی تعداد اس کے علاوہ ہے جنگ یمامہ میں (بعہد خلافت صدیق) انہوں نے بےپناہ شجاعت وبہادری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اور ٢٠ ھ میں شہید ہوئے۔

【55】

اہل بیت اور انصار

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جان لو میرے خاص لوگ اور میرے محرم اسرار و امین کہ جن کے درمیان میں ٹھکانا حاصل کرتا ہوں میرے اہل بیت ہیں اور میرے ولی و دوست انصار ہیں۔ پس تم ان (انصار) کے خطا کاروں کی خطاؤں سے چشم پوشی کرو اور ان کے نیکو کاروں کے عذر کو قبول کرو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ تشریح لفظ عیبہ کی تفصیلی و وضاحت اول میں حضرت انس (رض) کی روایت کے تحت ہوچکی ہے اس روایت میں یہ لفظ انصار کی تعریف میں نقل ہوا ہے۔ لیکن یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ ان کے علاوہ بھی کسی کی تعریف میں یہ لفظ منقول ہو خصوصا اہل بیت کی تعریف میں کہ جو اس لفظ سے بہت ہی خاص مناسبت رکھتے ہیں۔

【56】

انصار کی فضیلت

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ انصار سے بغض و عداوت نہیں رکھتا، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

【57】

ابو طلحہ کی قوم کی فضیلت

اور حضرت انس (رض) (اپنے سوتیلے باپ) حضرت ابوطلحہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا رسول کریم ﷺ نے مجھ کو فرمایا تھا کہ تم اپنی قوم کو میرا سلام پہنچا دو ، کیونکہ جہاں تک مجھ کو علم ہے کہ وہ پاکباز اور صابر لوگ ہیں۔ (ترمذی )

【58】

اہل بدر کی فضیلت

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ (ایک دن) حاطب بن ابی بلتعہ کا غلام نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ ﷺ سے حاطب کی سخت شکایت کی اور بولا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! حاطب (چونکہ مجھ پر بڑی سختیاں کرتے ہیں اس لئے وہ) ضرور دوزخ میں جائیں گے، رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا تو اپنی اس بات میں کہ (حاطب ضرور دوزخ میں جائیں گے) جھوٹا ہے، حاطب دوزخ میں نہیں جائیں گے کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک رہے ہیں۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ کہ جو لوگ جنگ بدر میں شریک ہوئے ہیں یا حدیبیہ میں آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر اللہ کی راہ میں جاں نثاری کی بیعت کرنے والوں میں شامل تھے ان کے بارے یہ یقین ہے یا قوی امید ہے کہ وہ دوزخ کی آگ سے محفوظ ومامون رہیں گے۔ اور حاطب بھی چونکہ بدر و حدیبیہ میں شریک تھے اس لئے ان کے بارے میں جزم و یقین کے ساتھ یہ کہنا کہ وہ دوزخ میں جائیں گے، کذب گوئی ہے، علاوہ ازیں حاطب کا صاحب ایمان ہونا خود قرآن کی اس آیت (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَا ءَ ) 60 ۔ الممتحنہ 1) سے ثابت ہوتا ہے جس کے پہلے مخاطب حاطب ہی ہیں اور جو ان کی ایک بڑی غلطی پر سرزنش کے نازل ہوئی تھی، لہٰذا کسی صاحب ایمان کو یقینی طور پر دوزخی کہنا صریحا کذب گوئی اور لغوبات ہے۔

【59】

سلمان فارسی اور اہل فارس

اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے یہ آیت وان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لایکونوا امثالکم تلاوت فرمائی تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! وہ کون لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر ہم روگردانی کریں تو ان کو ہماری جگہ کھڑا کردیا جائے اور وہ ہماری طرح نہ ہوں ؟ ( یہ سن کر) آنحضرت ﷺ نے سلمان فارسی کی ران پر ہاتھ مارا اور فرمایا وہ لوگ، یہ سلمان اور اس کی قوم والے (یعنی اہل عجم اور اہل فارس) ہیں اگر دین ثریا (کی بلندی) پر بھی ہو تو ان (اہل فارس میں سے) کتنے لوگ اس کو وہاں سے بھی حاصل کرنے سے باز نہ رہتے۔ (ترمذی) تشریح فرس سے یا تو مطلق اہل عجم یعنی عرب مراد تھے یا وہ لوگ مراد تھے جن کی زبان فارسی تھی اور یا یہ کہ صرف وہ لوگ مراد تھے جن کا نسلی و وطنی تعلق فارس (ایران) سے تھا اور زیادہ صحیح پہلا احتمال ہے کیونکہ اس کی تائید اگلی حدیث سے ہوتی ہے۔

【60】

اہل عجم پر اعتماد

اور حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ (ایک موقع پر) رسول کریم ﷺ کے سامنے عجمی لوگوں کا ذکر ہوا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں (دین کی مخالفت اور دیانتداری کے معاملہ میں) ان عجمی لوگوں یا ان میں سے بعض لوگوں پر تم (اہل عرب) سے یا تمہارے بعض لوگوں سے زیادہ اعتماد و بھروسہ رکھتا ہوں۔ (ترمذی) تشریح طیبی کا کہنا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کے مخاطب عرب کے ایک خاص قبیلہ کے لوگ تھے جن کو آنحضرت ﷺ نے جہاد میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا تھا اور انہوں نے اس حکم کی تعمیل میں سستی وکاہلی دکھائی تھی۔ بہرحال اس حدیث میں اہل عجم کی تعریف اور ان کے تئیں آنحضرت ﷺ کی شفقت و عنایت اور توجہ التفات کا اظہار ہوتا ہے۔

【61】

آنحضرت ﷺ کے نجباء ورقباء

حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر نبی کو سات نہایت مخصوص و برگزیدہ ترین لوگ اور اس کی ہر حالت میں نگہبانی و حفاظت کرنے والے عطا کئے جاتے تھے لیکن مجھ کو ایسے لوگ چودہ (یعنی دوچند) عطاکئے گئے ہیں (روای کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ہمارے سامنے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا تو) ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ چودہ کون کون ہیں ؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جواب دیا ایک تو میں ہوں اور میرے دونوں بیٹے (حسن و حسین (رض) ہیں۔ جعفر بن ابی طالب ہیں (رض) ، حمزہ بن عبد المطلب (رض) ہیں، ابوبکر (رض) ہیں، عمر (رض) ، مصعب بن عمیر (رض) ہیں، سلمان (رض) ہیں، عمار (رض) ہیں، عبداللہ ابن مسعود (رض) ہیں، ابوذر (رض) ہیں اور مقداد ہی (رض) ،۔ (ترمذی) تشریح حضرت حمزہ (رض) کے علاوہ باقی حضرات کے اجمالی احوال پیچھے بیان ہوچکے ہیں حضرت حمزہ بن عبد المطلب آنحضرت ﷺ کے چچا ہیں، ان کی کنیت ابوعمارہ تھی۔ ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے آنحضرت ﷺ کو بھی دودھ پلایا تھا۔ اور حضرت حمزہ (رض) کو بھی اس لئے آنحضرت ﷺ اور حمزہ دودھ شریک بھائی بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت حمزہ (رض) عمر میں آنحضرت ﷺ سے چار سال بڑے تھے، لیکن ابن عبد البر نے لکھا ہے کہ میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ جب ثوبیہ نے دونوں کو دودھ پلایا ہے تو عمروں کا یہ تفاوت کیسے ہوسکتا ہے ہاں اگر یہ مانا جائے کہ ثوبیہ نے دونوں کو الگ الگ زمانوں میں دودھ پلایا ہے تو عمروں کا تفاوت ممکن ہے۔ اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے حضرت حمزہ دو سال بڑے تھے۔ سیدنا حمزہ نہایت بہادر اور جری انسان تھے ان کا لقب اسد اللہ ہے۔ قدیم الاسلام ہیں ایک قول کے مطابق انہوں نے نبوت کے دوسرے سال اسلام قبول کیا تھا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت حمزہ نے ٦ نبوی میں اسلام قبول کیا جب کہ آنحضرت ﷺ دار ارقم میں قیام پذیر تھے ان کے مسلمان ہونے سے اسلام کو زبردست طاقت و شوکت حاصل ہوئی اور اللہ نے ان کے ذریعہ اپنے دین کو بہت سربلند کیا، جنگ بدر میں شریک تھے اور جنگ احد میں وحشی بن حرب کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

【62】

حضرت عمار بن یاسر

اور حضرت خالد بن ولید (رض) کہتے ہیں کہ (ایک موقع پر کسی معاملہ میں) میرے اور عماربن یاسر کے درمیان گفتگو چل رہی تھی کہ میں نے ان کے خلاف ایک سخت بات کہہ دی۔ چناچہ عمار میری شکایت لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور نبی کریم ﷺ سے شکایت کر رہے تھے کہ ادھر سے خالد بھی آگئے۔ راوی کا بیان ہے کہ (دربار رسالت میں اپنی شکایت سن کر) خالد (کو غصہ آگیا اور وہ) عمار کو سخت سست کہنے لگے اور ان کی سخت کلامی ودرشت گوئی میں اضافہ ہوتا رہا، اس وقت نبی کریم ﷺ چپ چاپ بیٹھے سن رہے تھے، ایک حرف زبان سے نہ فرماتے تھے (یہ صورت حال دیکھ کر کہ خالد کی سخت گوئی بڑھتی جارہی ہے اور آنحضرت ﷺ خاموش بیٹھے ہیں) عمار (مارے غصہ کے صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور بےاختیار) رونے لگے اور (بلکتے ہوئے) بولے یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ ﷺ دیکھ نہیں رہے (کہ خالد کیا کر رہے ہیں اور آپ کے سامنے مجھ کو کیا کیا کہہ رہے ہیں ؟ ) نبی کریم ﷺ نے (یہ سن کر) اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا جو شخص عمار سے (زبان کی) دشمنی رکھے گا، اس کو اللہ دشمن رکھے گا اور جو شخص عمار سے (دل کا) بغض رکھے گا اللہ اس سے بغض رکھے گا حضرت خالد کہتے کہ (آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی سنتے ہی ہوش ٹھکانے آگئے اور میں نے یہ طے کر کے آپ کی مجلس سے) باہر آیا (کہ جس طرح بھی ہوگا عمار کو خوش اور راضی کروں گا) اور اس وقت کوئی چیز میری نظر میں عمار کے راضی وخوش ہوجانے سے زیادہ پسندیدہ اور بہتر نہیں تھی پھر یہ ہوا کہ میں نے عمار کو راضی وخوش کرنے کے لئے ان کے ساتھ ایسا سلوک اور ایسا رویہ اختیار کیا کہ وہ مجھ سے راضی وخوش ہوگئے (یعنی میں نے ان سے معافی کی تلافی کی، ان کے گلے لگا، ان کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آنے لگا اور ان کو تحفے تحائف بھیجے اور ان سب باتوں نے ان کی ناراضگی اور ان کے غصہ کو زائل کردیا اور وہ مجھ سے بالکل خوش ہوگئے ) ۔ تشریح خالد بھی آگئے یہ الفاظ اس راوی کے ہیں جس نے حضرت خالد سے اس روایت کو نقل کیا ہے اور فجاء خالد سے پہلے قال کا لفظ محذوف ہے، اس کی تائید آگے عبارت میں قال خالد فخرجت کے الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔ تاہم ایک شارح کے مطابق یہ احتمال بھی ہے کہ یہ الفاظ خود حضرت خالد کے ہوں اور بیان حال میں یہاں انہوں نے اسلوب بدل دیا ہو۔

【63】

حضرت خالد |" سیف اللہ |"

اور حضرت ابوعبیدہ (رض) سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا خالد، اللہ بزرگ و برتر کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، وہ اپنے قبیلہ (بنی مخزوم) کا (جو قریش کی ایک شاخ ہے) بہترین جوان ہے، ان دونوں روایتوں کو احمد نے نقل کیا ہے۔ تشریح اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار یعنی خالد ایک ایسی تلوار کی طرح ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے خلاف نیام سے باہر نکالا ہو اور کفار کے سروں پر مسلط کیا ہو یا یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خالد کو صاحب شمشیر بنایا ہے۔ بہر صورت ان الفاظ کے ذریعہ حضرت خالد کی شجاعت وبہادری کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں دشمنان دین سے خوب لڑے ہیں۔

【64】

علی، ابوذر، مقداد، سلمان

اور حضرت بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ کو چار آدمیوں سے (علی الخصوص) محبت رکھنے کا حکم دیا اور یہ بتایا کہ وہ (اللہ سبحانہ وتعالیٰ ) بھی ان چاروں سے محبت رکھتا ہے (یہ ارشاد سن کر) صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہمیں بھی ان چاروں کے نام بتادیجئے (تاکہ ہم بھی ان سے اس بناء پر محبت رکھیں کہ اللہ اور اللہ کا رسول ان سے محبت رکھتا ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا ان میں سے ایک تو علی ہیں، یہ الفاظ آپ نے تین مرتبہ فرمائے (تاکہ لوگ جان لیں کہ ان چاروں میں سے سب سے افضل علی ہیں یا اس طرف اشارہ کرنے کے لئے یہ الفاظ تین بار فرمائے کہ جتنی محبت مجموعی طور پر باقی تینوں سے رکھی جائے اتنی تنہا علی سے رکھنی چاہئے) ایک ابوذر ہیں ایک مقداد ہیں اور ایک سلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں ان چاروں سے محبت رکھوں اور یہ بتایا کہ وہ بھی ان چاروں سے محبت رکھتا ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب حسن ہے۔

【65】

ابو بکر بزبان عمر

اور حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) فرمایا کرتے تھے، ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار کو آزاد کیا ہے یعنی بلال کو۔ (بخاری) تشریح حضرت عمر فاروق (رض) کا حضرت بلال (رض) کو سردار کہنا ان کی کسرنفسی تھا ورنہ حقیقت میں حضرت عمر (رض) ان سے افضل ہیں اور اس پر تمام امت کا اجماع ہے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ان الفاظ سے حضرت عمر (رض) کی مراد اس طرف اشارہ کرنا تھا کہ بلال بھی اہل اسلام کے سرداروں میں سے ایک سردار ہیں اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ سیادت (سرداری) افضلیت کو مستلزم نہیں، اس لئے حضرت عمر (رض) کے ان الفاظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت بلال (رض) حضرت عمر فاروق (رض) سے افضل ہوں اور شارح نے یوں لکھا ہے کہ ایک تو یہ کہ ضمیر متکلم مع الغیر، ضروری نہیں کہ ہر حال میں سب کو شامل ہو بلکہ اکثر کے اعتبار سے بھی اس کا مدعا و مرجع پورا ہوجاتا ہے، دوسرے یہ کہ سیدنا میں نا کی ضمیر سے صحابہ کی طرف اشارہ ہے پس پہلے سیدنا میں تو نا کی ضمیر مع الغیر سب صحابہ کو شامل ہے اور دوسرے سیدنا میں نا کی ضمیر اکثر صحابہ کو شامل ہے نیز اس سیدنا میں جو اضافت سے وہ تخصیص کے لئے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ حضرت عمر (رض) نے گویا فرمایا اور انہوں نے یعنی ہم سب کو سردار ابوبکر (رض) نے اس شخص یعنی بلال (رض) کو آزاد کیا جو ہم میں سے اکثر صحابہ کا سردار ہے۔

【66】

حضرت بلال

اور حضرت قیس بن ابی حازم (تابعی) سے روایت ہے کہ حضرت بلال (رض) نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے کہا تھا کہ اگر آپ نے اپنی ذاتی خوشی کے لئے مجھ کو خریدا تھا تو مجھ کو اپنے پاس رکھ لیجئے ( اور جس خدمت پر چاہیں مامور کردیجئے) لیکن اگر آپ نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے خریدا تھا تو پھر مجھ کو اللہ کے کام کے لئے آزاد چھوڑ دیجئے۔ (بخاری) تشریح حضرت ابوبکر (رض) سے حضرت بلال (رض) کی اس گفتگو کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت بلال (رض) پہلے ایک غلام تھے اور دشمنان دین کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ایک بڑی رقم خرچ کر کے ان کو خریدا اور آزاد کردیا، اس کے بعد وہ نبی کریم ﷺ کے خصوصی خادموں میں شامل ہوئے اور آنحضرت ﷺ نے ان کو اذان دینے کی خدمت پر مامور کردیا اور وصال نبی تک حضرت بلال (رض) یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ جب آنحضرت ﷺ کا وصال ہوا تو عشق نبوی سے سرشار حضرت بلال (رض) کے لئے مدینہ کا قیام ایک بڑی آزمائش بن گیا۔ اس تصور ہی سے ان کا پیمانہ صبر چھلک جاتا تھا کہ آنحضرت ﷺ موجود نہ ہوں اور وہ مسجد نبوی کی طرف دیکھیں اور اس میں جا کر اذان دیں، چناچہ انہوں نے ملک شام چلے جانا کا ارادہ کرلیا، حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے حضرت بلال (رض) کو روکنا چاہا اور ان سے درخواست کی کہ آپ یہیں میرے پاس رہیں اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ کی طرف مسجد نبوی میں اذان دیتے رہے، اس وقت حضرت بلال (رض) نے یہ بات کہی کہ اگر آپ نے مجھ کو اس لئے خریدا تھا کہ میں آپ کی خوشی اور آپ کی خواہش کی تکمیل کرتا رہوں تو میں آپ کی بات ماننے پر مجبور ہوں جو بھی خدمت آپ میرے سپرد کریں گے اس کو انجام دینا اپنا فرض سمجھوں گا لیکن اگر آپ نے مجھ کو اس مقصد کے نہیں خریدا تھا بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی خاطر خریدا اور آزاد کیا تو پھر میں چاہوں گا کہ آپ مجھ کو اپنا پابند نہ بنائیں، مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے کہ میں جہاں چاہوں چلا جاؤں اور مخلوق سے کوئی سروکار نہ رکھتے ہوئے اپنے خالق کے کاموں میں ہمہ تن اور ہمہ مصروف رہوں۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت بلال نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھ کو گوارا نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بغیر اس طرف نظر اٹھاؤں جہاں آنحضرت ﷺ رہا کرتے تھے آپ ﷺ کے بغیر اب یہاں رہنا میرے لئے ناممکن ہے۔ چہ مشکل ترا زین بر عاشق زار کے بےدلدار بیند جائے دلدار اس کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت بلال (رض) کو مدینہ میں روکنے کی کوشش نہیں کی اور وہ اس لشکر میں شامل ہو کر سوئے دمشق روانہ ہوگئے جو شام جارہا تھا، پھر آخر عمر تک وہیں قیام پذیر رہے یہاں تک کہ ١٨ ھ یا ایک روایت کے مطابق ٢٠ ھ میں واصل بحق ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ روایت کے بالکل بےبنیاد ہے جس میں حضرت بلال (رض) کے شام جانے اور پھر وہاں خواب میں آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر مدینہ لوٹ آنے اور مسجد نبوی میں اذان دینے اور اتنے دنوں بعد ان کی آذان سن کر مدینہ اور اہل مدینہ کے لرز جانے کا ذکر ہے۔

【67】

حضرت ابوطلحہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں (ایک دن) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا کہ میں نہایت پریشان حال اور تکلیف ومشقت میں گرفتار ہون (یعنی فقر و افلاس نے مجھ کو گھیر رکھا ہے اور بھوک سے پریشان حال ہو کر اس امید پر یہاں آیاں ہوں کہ آپ ﷺ کھانے کو کچھ عطا فرمائیں گے (یہ سن کر) آنحضرت ﷺ نے کسی آدمی کو اپنی بیوی کے پاس بھیجا (اور کہلایا کہ اگر گھر میں کچھ موجود ہو تو اس مصیبت زدہ شخص کے لئے بھیج دیں) انہوں نے جواب میں بھیجا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میرے پاس ایک پانی کے سوا (کھانے پینے کی) اور کوئی چیز موجود نہیں ہے پھر آپ ﷺ نے ایک دوسری بیوی کے پاس آدمی بھیجا اور انہوں نے بھی وہی جواب بھجوایا جو پہلی بیوی نے بھیجا تھا اور اس طرح (آپ ﷺ نے ایک ایک کرکے اپنی تمام بیویوں کے پاس آدمی بھیجے اور) سب بیویوں کے ہاں ایسا ہی جواب آیا، تب رسول کریم ﷺ نے (حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ جو شخص اس آدمی کو مہمان بنائے گا اس پر اللہ تعالیٰ اپنی (خاص) رحمت نازل فرمائے گا، (یہ سنتے ہی) انصار میں کے ایک شخص کو جن کو۔۔۔۔۔ ابوطلحہ کہا جاتا تھا، کھڑے ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اس آدمی کو میں اپنا مہمان بناؤں گا اور پھر ابوطلحہ (رض) اس شخص کو ساتھ لے کر اپنے گھر چلے گئے (گھر پہنچ کر) انہوں نے اپنی بیوی (ام سلمہ) سے دریافت کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے ؟ ان کی بیوی بولیں بس اتنا ہے کہ جو بچوں کی ضرورت کو ایک حد تک پورا کردے۔ حضرت ابوطلحہ (رض) نے کہا بچوں کو کسی طرح بہلا پھسلا کر سلائے رکھنا۔ اور جب ہمارا مہمان کھانے کے لئے گھر میں آئے ( اور دسترخوان پر بیٹھے) تو ایسا ظاہر کرنا کہ گویا ہم بھی اس کے ساتھ (اسی کھانے میں) کھا رہے ہیں اور جوں ہی ہمارا مہمان لقمہ اٹھانے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھائے تو تم یہ ظاہر کرکے کہ جیسے چراغ کی بتی کو ٹھیک کرنے اور اس کی روشنی بڑھانے کا ارادہ ہے چراغ کی طرف جانا ( اور آہستہ سے پھونک مار کر یا کسی اور طرح سے) چراغ گل کردینا۔ (تاکہ اندھیرا ہوجائے اور مہمان پر یہ ظاہر نہ ہو کہ ہم کھانا نہیں کھا رہے ہیں) چناچہ ان کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور یہ ہوا (کہ دسترخوان پر) بیٹھے تو وہ تینوں (یعنی ابوطلحہ ان کی بیوی اور مہمان) لیکن کھانا صرف مہمان نے کھایا، ان دونوں میاں بیوی نے بھوکے رات گزاری، پھر جب صبح ہوئی اور ابوطلحہ (رض) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت ﷺ کو (چونکہ بذریعہ کشف یا بذریعہ وحی یہ سارا قصہ معلوم ہوچکا تھا اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا ! فلاں مرد (یعنی ابوطلحہ) اور فلاں عورت (یعنی ابوطلحہ کی بیوی ام سلیم) کا یہ کام اللہ تعالیٰ کو بہت پسند لگا یا یہ فرمایا کہ (ان دونوں کے) اس کام پر اللہ تعالیٰ کو ہنسی آگئی (مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ اس عمل پر ان دونوں سے بہت خوش ہوا) ابوہریرہ ہی کی ایک دوسری روایت میں ( جو لفظ ومعنا اسی روایت کی طرح ہے) ابوطلحہ کے نام کا ذکر نہیں ہے (یعنی اس میں یقال لہ ابوطلحہ کے الفاظ نہیں ہے) نیز اس روایت کے آخر میں یہ بھی ہے کہ اسی واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ہوئی (وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰ ي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ) 69 ۔ الحشر 9) یعنی اور وہ لوگ جو اپنے آپ پر دوسروں کو (یعنی اپنے مہمانوں کو یا کسی بھی حاجب مند کو) ترجیح دیتے ہیں اگر وہ خود حاجت مند اور بھوکے ہوں الخ۔ (بخاری ومسلم) تشریح سب بیویوں کے ہاں سے ایسا ہی جواب آیا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ فتح خیبر اور غنائم و اموال کی آمد شروع ہوجانے سے پہلے کا ہے، جب کہ آنحضرت ﷺ اور تمام ازواج مطہرات کا بہت ہی تنگی ترشی کے ساتھ گزارا ہوتا تھا اور زیادہ تر بےسروسامانی کی حالت رہا کرتی تھی جو بچوں کی ضرورت کو ایک حد پورا کردے مطلب یہ کہ اس وقت گھر میں کھانے کی قسم سے جو کچھ ہے وہ بس اس قلیل مقدار کی صورت میں ہے جو چھوٹے بچوں کے لئے اس ضرورت سے اٹھا کر رکھ دیا گیا ہے کہ رات یا دن میں ان کو بار بار بھوک لگتی ہے اور وہ کسی وقت بھی کھانا مانگنے لگتے ہیں یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ وہ کھانا بچوں کو اسی وقت کے کھانے کے لئے ہوتا تو پھر مہمان کو نہیں کھلا سکتے تھے، کیونکہ بچوں کو بھوکا رکھ کر مہمان کو کھلانا جائز نہیں ہے ،۔ کسی طرح بہلا پھسلا کر سلائے رکھنا یعنی بچے اگر جاگ رہے ہوں تو ان کو بہلا پھسلا کر جلدی سے سلا دو یہ کہ بچے اگر سو رہے ہوں تو کوشش کرنا کہ وہ جاگنے نہ پائیں تاکہ مہمان کو کھاتے دیکھ کر اس کھانے میں سے کچھ مانگنے نہ لگیں جیسا کہ چھوٹے بچوں کی عادت ہوتی ہے ، گویا ہم بھی اس کے ساتھ کھا رہے ہیں حضرت ابوطلحہ نے یہ بات اس لئے کہی کہ کھانا اتنی مقدار میں تو تھا نہیں کہ مہمان کے ساتھ وہ دونوں بھی کھا سکتے، ادھر اگر وہ دونوں مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھتے تو مہمان کو کھانے میں تکلف ہوتا، کیونکہ مہمان اگر دیکھتا ہے کہ صاحب خانہ اس کے ساتھ کھانے میں شریک نہیں ہے، تو وہ کھاتے ہوئے جھجک محسوس کرتا اور اس کو خلجان ہوتا ہے کہ کہیں کھانے کی کمی کی وجہ سے تو صاحب خانہ میرے ساتھ نہیں کھارہا ہے، واضح رہے کہ یہ واقعہ غالباً پردہ کا حکم نافذ ہونے سے پہلے کا ہے اسی لئے حضرت ابوطلحہ کو اپنے مہمان کو گھر میں لانے اور بیوی کے سامنے کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہوا۔

【68】

حضرت خالد بن ولید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ (ایک سفر کے دوران) ہم لوگوں نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک مقام پر پڑاؤ کیا تو اس وقت (جب کہ رسول کریم ﷺ اپنے خیمہ کے اندر آرام فرما رہے تھے اور میں خیمہ کے باہر تھا) لوگ (آنحضرت ﷺ کے خیمہ کے سامنے سے) ادھر ادھر آنے جانے لگے، چناچہ رسول کریم ﷺ (جب خیمہ کے باہر کسی شخص کے گزرنے کی آہٹ پاتے تو) پوچھتے، ابوہریرہ ! گزرنے والا کون شخص ہے اور میں آپ ﷺ کو بتاتا کہ فلاں شخص ہے، پھر آپ ﷺ (اس شخص کا نام سن کر) فرماتے کہ یہ اللہ کا اچھا بندہ ہے۔ یا (کسی شخص کے بارے میں) آپ ﷺ پوچھتے کہ یہ کون شخص ؟ ہے اور میں بتاتا کہ فلاں شخص ہے تو آپ ﷺ (اس شخص کا نام سن کر) فرماتے یہ اللہ کا برا بندہ ہے۔ (یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا) یہاں تک کہ جب خالد بن ولید گزرے اور آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے تو میں نے بتایا کہ خالد بن ولید ہیں آپ ﷺ نے ان کا نام سن کر) فرمایا خالد بن ولید اللہ کا اچھا بندہ ہے، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ (ترمذی) تشریح یہ اللہ کا برا بندہ یہ آپ ﷺ کسی ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہوں گے جس کا منافق ہونا آپ ﷺ کے علم میں ہوگا، ورنہ کسی مؤمن کے بارے میں تو اس طرح فرمانا آپ ﷺ کی شان سے بعید معلوم ہوتا ہے اور نہ کہیں یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے کسی بھی مؤمن کے بارے میں اس طرح کے الفاظ فرمائے ہوں خواہ کوئی برے ہی راستہ پر آپ ﷺ کو کیوں نہ نظر آیا ہو۔ علاوہ ازیں اس وقت کے اہل ایمان میں اس طرح کے برے لوگ تھے بھی نہیں کہ آپ ﷺ کسی کے حق میں ایسی بات فرماتے اور اگر کوئی ایسا رہا بھی ہوتا توشاذ ونادر رہا ہوگا۔

【69】

انصار کے ساتھ شفقت وعنایت

اور زیدابن ارقم کہتے ہیں کہ (ایک موقع پر) انصار نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! جس طرح ہر نبی کے کچھ تابعدار تھے اسی طرح آپ ﷺ کے (سچے وپ کے) تابعدار ہم لوگ ہیں، آپ ﷺ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تابعداروں کو بھی ہم میں سے کردے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کے لئے دعا کردی۔ (بخاری) تشریح یعنی ہمارے اخلاف وموالی کا بھی ہمارے ہی زمرہ میں شمار ہو بایں طور کہ ان کو بھی انصار کہا جائے تاکہ آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ احسان اور اچھے سلوک کی جو تلقین و وصیت عام مسلمانوں کو کی ہے اس میں ہمارے وہ اخلاف وموالی بھی شامل رہیں جیسے آپ ﷺ نے عام مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اوصیکم بالانصار یعنی (اے مسلمانو ! ) میں تم کو انصار کے تئیں اچھے سلوک اور احسان و اکرام کا برتاؤ کرنے کی) تلقین و وصیت کرتا ہوں یا آپ نے فرمایا ان (انصار) کے نیکوکاروں کی معذرت قبول کرو اور ان کے بدکاروں سے چشم پوشی کرو۔ غرض کہ جو بھی مناقب و فضائل آپ ﷺ نے ہمارے حق میں ارشاد فرمائے ہیں اور اپنی جن خصوصی عنایتوں مہربانیوں اور عزت افزائیوں سے ہمیں نوازا ہے ان کے فضل وشرف اور ان کی برکات کے تحت ہمارے اخلاف وموالی بھی آجائیں یا انصار کا یہ مطلب تھا کہ آپ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تابعداروں یعنی ہمارے اخلاف وموالی اور ہماری اولاد کو ہمارا واقعی تابعدار اور سچا پیرو کار بنادے بایں طور کہ جس نیک اور سیدھے راستہ پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں گامزن کیا ہے اسی پر وہ چلیں اور ہماری روش و سیرت اور ہمارے طور طریقوں کی پیروی کریں۔

【70】

انصار کی فضیلت

اور حضرت قتادہ (تابعی) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا قبائل عرب میں سے کسی قبیلہ یا قوم کے بارے میں ہمیں یہ علم نہیں کہ اس کے شہیدوں کی تعداد انصار کے شہیدوں سے زیادہ ہو اور قیامت کے دن انصار سے زیادہ باعزت مانے جائیں حضرت انس کا بیان ہے کہ احد کی جنگ میں ستر انصار شہید ہوئے، بیر معونہ میں ستر انصار (جوقراء تھے) شہید ہوئے اور یمامہ کی جنگ میں جو حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں (مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی) ستر انصار شہید ہوئے۔ (بخاری) تشریح انصار سے زیادہ وہ باعزت مانے جائیں مطلب یہ کہ جس قبیلہ کے شہیدوں کی تعداد زیادہ عزت ملے گی لہٰذا ہمارے علم کے مطابق انصار ہی چونکہ ایک ایسا قبیلہ اور ایسی قوم ہے جس کے افراد نے اللہ کی راہ میں سب سے زیادہ اپنی جانیں قربان کی ہیں اور اس اعتبار سے ان کے شہیدوں کی تعداد الگ الگ سب قبیلوں اور قوموں کے شہیدوں سے زیادہ ہے اس لئے قیامت کے دن وہ عزت کہ جو اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کے لئے اللہ کے ہاں مقرر ہے سب سے زیادہ انصار ہی کو ملے گا۔ احد کی جنگ میں ستر انصار شہید ہوئے یہاں مراد یہ ہے کہ جنگ احد میں جو ستر اہل ایمان شہید ہوئے تھے ان میں چند کو چھوڑ کر سب ہی انصار تھے، یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ حدیث وتاریح اور سیر کی مستند روایتوں کی مطابق جنگ احد میں کل ستر مسلمان شہید ہوئے تھے جن میں سے چونسٹھ انصار میں سے تھے اور چھ مہاجرین میں سے۔

【71】

انصار کی فضیلت

اور حضرت قیس بن ابی حازم (رح) (تابعی) کہتے ہیں کہ جو لوگ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے ان میں سے ہر ہر شخص کا وظیفہ پانچ پانچ ہزار درہم تھا جو بیت المال سے ادا کیا جاتا تھا اور حضرت عمر نے فرمایا تھا میں جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کو (مرتبہ میں) دوسرے تمام لوگوں پر ترجیح دیتا ہوں۔ (بخاری) تشریح جنگ بدر میں شریک ہونے والے ہر صحابی کے لئے حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں بیت المال سے پانچ ہزار درہم سالانہ کا وظیفہ مقرر ہوا تھا جو مقدار میں دوسرے تمام لوگوں کے وظائف سے زیادہ تھا، حضرت عمر فاروق نے اپنے عہد خلافت میں وظائف کے جو منضبط درجات قائم کئے اس میں بھی چند مخصوص لوگوں (جیسے حضرت عباس اور ازواج مطہرات) کو چھوڑ کر تمام درجات کے وظائف کی تعداد اصحاب بدر کے وظائف کی تعداد سے کم ہی رکھی اور اس طرح حضرت عمر فاروق نے بھی نہ صرف یہ کہ عملی طور پر اصحاب بدر ہی کا درجہ ورتبہ دوسرے تمام لوگوں سے بلندو برتر رکھا بلکہ مذکورہ بالا الفاظ کے ذریعہ گویا وضاحت بھی کردی کہ اگرچہ آنحضرت ﷺ کی مخصوص نسبت کا لحاظ کرکے میں نے بعض وظائف اصحاب بدر کے وظائف سے زائد مقرر کئے ہیں لیکن جہاں تک درجاتی رتبہ کا تعلق ہے تو میرے نزدیک بھی اصحاب بدر ہی کا درجہ دوسرے تمام لوگوں کے درجات سے بلند ہے اور ان کے وظائف دوسرے تمام درجات کے وظائف سے زیادہ ہونے چاہئیں۔ اہل بدر میں سے ان صحابہ کے ناموں کا ذکر جو جامع بخاری میں مذکور ہیں واضح ہو کہ امام بخاری نے جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ میں سے کچھ مخصوص صحابہ کے اسماء اپنی کتاب بخاری شریف کے ایک الگ باب میں بطریق اجمال مفصل ذکر کئے ہیں یہ بدری صحابہ وہ ہیں جن کے بدری ہونے کا ذکر بخاری میں آیا ہم اور جن کی روایتیں اس کتاب (بخاری) میں نقل ہوئی ہے اور ایک الگ باب میں ان مخصوص بدری صحابہ کے اسماء کے ذکر سے امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے تمام بدری صحابہ پر ان مخصوص صحابہ کی فضیلت سبقت اور برتری کا اظہار ہو اور ان کے حق میں الگ سے بطور خاص دعاء رحمت ورضوان کی جائے یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے، علماء نے لکھی ہے کہ بخاری شریف کے اس باب اصحاب بدر کے جو اسماء مذکور ہیں ان کے ذکر وبیان کے وقت جو بھی دعا مانگی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول فرماتا ہے۔ امام بخاری اس باب میں سب سے پہلے سرکار دوعالم ﷺ کا اسم مبارک، پھر خلفاء اربعہ کے اسماء گرامی لائے ہیں اور پھر باقی صحابہ کے نام حروف تہجی کی ترتیب سے ذکر کئے گئے ہیں۔ امام بخاری کے مقصد اور ان کی اتباع کی برکت حاصل کرنے کے لئے مشکوٰۃ المصابیح کے مؤلف نے بھی ان اسماء مبارک کو جوں کا توں یہاں نقل کیا ہے۔ اور ملاعلی قاری نے لکھا ہے اس باب میں ان اصحاب بدر کے ناموں کا ذکر ہے جن کے حقیقۃ یا حکما ً بدری ہونے کا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے ارویہ (حقیقۃً یا حکماً کی قید) اس لئے ہے تاکہ اس زمرہ میں حضرت عثمان غنی کا نام شامل کرنا درست مانا جائے (جو آنحضرت ﷺ کے حکم سے حقیقۃً تو جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن حکماً ان کو بھی بدری مانا جاتا ہے پس اس باب میں ان بدری صحابہ کے نام نہیں ہے جو نہ تو بخاری نے اپنے اس باب میں بیان کئے ہیں اور نہ سرے سے ان کا ذکر بخاری میں آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام بخاری نے اصحاب بدر کی فہرست پر مشتمل اپنے اس باب میں صرف ان بدری صحابہ کے نام ذکر کئے ہیں جن کے متعلق صحیح بخاری شریف میں صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے کہ انہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی ہے خواہ خود ان صحابہ نے اپنے بارے میں صراحۃ ً ایسا بیان کیا ہو یا دوسروں نے جنگ بدر میں ان کے شریک ہونے کو صراحت کے ساتھ روایت کیا ہو۔ اس طرح ان بدری صحابہ نے اپنے بارے میں صراحۃً ایسا بیان کیا ہو یا دوسروں نے جنگ بدر میں ان کے شریک ہونے کو صراحت کے ساتھ روایت کیا ہو۔ اس طرح ان بدری صحابہ کے نام اس باب میں ذکر نہیں ہوئے ہیں جن کا ذکر گو صحیح بخاری شریف میں آیا ہے، مگر اس صراحت کے ساتھ نہیں آیا ہے کہ وہ جنگ بدر میں شریک تھے۔ اس وضاحت کی روشنی میں اس بات پر حیرت واشکال کا موقع نہیں رہ جاتا کہ مخصوص بدری صحابہ کی فہرست پر مشتمل اس باب میں ایک جلیل القدر بدری صحابی حضرت ابوعبیدۃ الجراح کا اسم گرامی ذکر نہیں ہوا ہے۔ حضرت عبیدہ بلاشبہ جنگ بدر میں شریک تھے اور اس پر تمام ہی محدثین اور اصحاب سیر کا اتفاق ہے، علاوہ ازیں بخاری شریف میں متعدد مواقع پر ان کا ذکر بھی آیا ہے مگر بخاری کی کسی روایت میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوا ہے کہ وہ جنگ بدر میں شریک تھے۔