198. اہل بدر میں سے ان صحابہ کے ناموں کا ذکر جو جامع بخاری میں مذکور ہیں

【1】

مخصوص اہل بدر کے اسماء گرامی

نبی کریم محمد بن عبداللہ ہاشمی ﷺ ، عبداللہ بن عثمان جو ابوبکر صدیق کی کنیت سے مشہور ہیں اور قریشی ہیں، عمر بن الخطاب عدوی، عثمان بن عفان قریشی جن کو نبی کریم ﷺ نے اپنی بیمار بیٹی رقیہ کی تیمارداری کے لئے مدینہ میں چھوڑ دیا تھا اور پھر جنگ بدر کے مال غنیمت میں ان کا حصہ لگایا تھا، علی ابن ابی طالب ہاشمی، ایاس بن بکیر، بلال بن رباح جو ابوبکر صدیق کے آزاد کردہ غلام ہیں، حمزہ بن عبد المطلب ہاشمی، حاطب بن ابی بلتعہ، قریش کے حلیف، ابوحذیفہ ابن عقبہ بن ربیع قریشی، حارثہ بن ربیع انصاری جو جنگ بدر میں شہید ہوئے اور اس کا اصل نام حارثہ بن سراقہ ہے، نیز یہ صاحب جنگ میں شریک نہیں تھے بلکہ دشمنوں پر نظر رکھنے اور ان کو خبر دینے پر مامور تھے، خبیب بن عدی انصاری، خنیس بن خذافہ سہمی، رفاعہ بن رافع انصاری، رفاعہ بن عبد المنذر، ابولبابہ انصاری، زبیر بن عوام قریشی، زید بن سہل، ابوطلحہ انصاری، ابوزید انصاری، سعد بن مالک زہری، سعد بن خولہ قریشی، سعید بن عمر وبن نفیل قریشی، سہل بن حنیف انصاری، ظہیر بن رافع انصاری، ظہیربن رافع کے بھائی، عبداللہ بن مسعود ہذلی، عبدالرحمن بن عوف زہری، عبیدہ بن حارث قریشی، عبادہ بن صامت انصاری، عمر و بن عوف، بنوعامر لوی کے حلیف، عقبہ بن عمر و انصاری، عامر بن ربیعہ عنزی، عاصم بن ثابت انصاری، عویم بن ساعدہ انصاری، عتبان ابن مالک انصاری، قدامہ بن مظعون، قتادہ بن نعمان انصاری، معاذ بن عمرو بن الجموع، معوذ بن عفراء معوذ بن عفراء کے بھائی مالک بنربیعہ ابواسید انصاری، مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب بن عبد مناف، مرارہ بن ربیع انصاری، معن بن عدی انصاری، مقداد بن عمرو کندی، جو بنو زہرہ کے حلیف، حلال بن امیہ انصاری، رضوان اللہ علہیم اجمعین اللہ ان سب سے راضی اور خوش ہوا۔ تشریح ان مبارک ناموں کے ذکر کی ابتداء آنحضرت ﷺ کے اسم پاک سے یا تو خیر و برکت حاصل کرنے کے لئے کی گئی ہے یا آپ ﷺ کا نام ذکر کرنا اس لئے بھی ضروری تھا اس مخصوص فہرست میں آپ ﷺ کا اسم مبارک نہ پاکر یہ خیال نہ کر بیٹھے کہ آنحضرت ﷺ جنگ بدر میں بنفس نفیس شریک نہیں تھے آنحضرت ﷺ کے بعد خلفاء اربعہ کے اسماء ہیں اور پھر باقی حضرات کے نام حروف تہجی کی ترتیب سے ذکر کئے گئے ہیں اس باب میں مذکورہ بدری حضرات سے سوانحی خاکہ بطریق اختصار و اجمال پیش کئے جاتے ہیں ،

【2】

النبی محمد بن عبداللہ الہاشمی ﷺ

آنحضرت ﷺ کی ولادت پاک مکہ میں واقعہ فیل کے سال ہوئی اور عمر مبارک کو جب چالیسواں سال لگا تو بعثت، ہوئی، یعنی اللہ تعالیٰ نے مرتبہ نبوت اور رسالت سے سرفراز کیا، آپ ﷺ کی نبوت کا زمانہ ٢٣ سال اور کل عمر مبارک ٦٣ سال کی ہوئی آپ ﷺ تمام رسولوں کے سردار اور خاتم النبین ﷺ ہیں واعلی آلہ وا صحابہ واتباعہ واجزابہ اجمعین

【3】

ابوبکرصدیق

اسلامی نام عبداللہ ہے، باپ کا نام عثمان تھا ابوبکر کنیت ہے اور صادق لقب سے قریشی ہیں اور تمیم بن مرہ کے سلسلے سے ہیں مرہ پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) آنحضرت ﷺ سے نسب میں مل جاتے ہیں زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبد رب الکعبہ تھا جن کو بدل کر آنحضرت ﷺ نے عبداللہ نام رکھا تھا اور ایک نام عتیق بھی عطا فرمایا تھا، اسی طرح ان کی کنیت ابوبکر بھی آنحضرت ﷺ ہی نے رکھی تھی، ایک قول یہ ہے کہ عتیق حضرت ابوبکر (رض) کا قدیمی نام ہے اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) چونکہ بہت حسین وخوبرو اور نہایت شریف النسل تھے اس لئے ان کو عتیق کہا جاتا تھا کیونکہ عتیق کے ایک معنی کرم و جمال اور نجابت کے بھی آتے ہیں اور روایتوں میں آتا ہے کہ ان کی ماں کے ہاں بچہ جیتا نہیں تھا اور جب حضرت ابوبکر (رض) پیدا ہوئے تو ان کی ماں ان کو لے کر کعبہ اقدس کے سامنے پہنچیں اور دعا کی کہ خدایا ! اس بچہ کو موت سے آزاد رکھ اور مجھ کو مرحمت فرما تمام امت محمدی کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر کا لقب صدیق ہے کیونکہ انہوں نے بےخوف ہو کر آنحضرت ﷺ کی بلا تامل تصدیق کی فرمائی اور ہر حالت میں صدق کو اپنے لئے لازم رکھا، معراج کی متعلق بھی انہوں نے کفار کے مقابلہ میں ثابت قدمی دکھائی اور آنحضرت ﷺ کے قول کی فورا تصدیق فرمائی، ان کے والد عثمان اپنی کنیت ابوقحافہ کے ساتھ مشہور ہیں، ابوقحافہ نے فتح مکہ کے سال اسلام قبول کیا اور شروع ١٤ ھ میں حضرت ابوبکر کی وفات چھ ماہ اور چند روز کے بعد ٩٧ سال کی عمر میں فوت ہوئے آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد ربیع الاول ١١ ھ میں تمام امت نے بالا اتفاق حضرت ابوبکر کو خلیفہ اول مقرر کیا اور ٢٢ اور ٢٣ جمادی الثانی ١٣ ھ کی درمیانی شب میں انہوں نے بعمر ٦٣ سال داعی اجل کو لبیک کہا، اس طرح دو سال اور تین ماہ سے کچھ اوپر ان کی خلافت رہی۔ حضرت ابوبکر صدیق متوسط القامت، خوش رو، آئینہ جمال، نحیف البدن اور ہلکے رخساروں والے تھے، ان کے رخساروں پر نیل گوں رگیں نمایاں تھیں۔ (رض) ۔

【4】

عمر فاروق

حضرت عمر بن الخطاب (رض) عدی بن کعب کی اولاد سے ہیں اور قریشی ہیں ابوحفصہ کنیت ہے، پانچویں پشت پر ان کا اور آنحضرت ﷺ کا سلسلہ نسب ایک ہوجاتا ہے زمانہ اسلام سے پہلے بھی حضرت عمر (رض) کا شمار نہایت اہم عمائدین قریش میں ہوتا تھا اور اس زمانہ میں اہل مکہ کی طرف سے سفارت ونمائیدگی کی ذمہ داری انہی کے سپرد تھی، یعنی جب بھی کسی موقع پر اہل مکہ اور قریش دوسرے قبائل کے سرداروں یا دوسری جگہ کے چودھریوں کے پاس اہم پیغام یا مشن بھیجتے تو اس کے لئے حضرت عمر (رض) ہی کا انتخاب کیا جاتا تھا حضرت عمر (رض) بہت گورے چٹے تھے، نہایت سفید وچمکدار آنکھیں سرخ اور قد اتنا بلند اور پر شکوہ تھا کہ جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ اونٹ پر سوار ہیں اور دوسرے لوگ اپنے پیروں پر کھڑے ہیں، وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ تورایت میں حضرت عمر (رض) کی تعریف ان الفاظ میں ہوئی ہے قرن حدید شدید امین یعنی وہ پہاڑ کی چوٹی بلند پر شکوہ ہے، تیز ہے، سخت ہے اور امانت دار ہے، اسلام میں حضرت عمر (رض) کا لقب فاروق ہے کیونکہ ان کی ذات حق و باطل اور کفر کے درمیان فرق کردینے والی معیار تھی، ان کی ہیبت اتنی زبر دست تھی کہ ان کی بڑی سے بڑی مخالفت طاقت بھی ان سے لرزاں رہتی تھی انہوں نے آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے پہلے آنحضرت ﷺ کے حکم پر راہ ہجرت اختیار کی تھی۔ منقول ہے کہ جب فاروق اعظم (رض) نے ہجرت کے ارادہ سے مکہ کو چھوڑنا چاہا تو تلوار گلے میں ڈالی، کمان کا چلہ چڑھایا اور تیر ہاتھ میں لئے ہوئے کعبہ میں آئے جہاں قریش کے تمام سردار اور کفار مکہ عمائدین پہلے سے موجود تھے، فاروق اعظم نے ان سب کے سامنے کعبہ اقدس کا طواف کیا دو رکعت نماز پڑھی اور پھر قریش و کفار مکہ کے سرداروں کی ایک ٹولی کے پاس الگ الگ آئے اور ان کو مخاطب کرکے بولے، تمہارے چہروں پر پھٹکار بر سے تم میں سے جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ اس کی ماں زندگی بھر اس کو روتی رہے اس کا بیٹا یتیم ہوجائے اور اس کی بیوی اپنا سہاگ گنوا بیٹھے تو وہ میرے تعاقب میں نکلے اور اس وادی یعنی مکہ شہر سے باہر مجھ سے ملے لیکن ان میں سے کسی کو فاروق اعظم (رض) کے تعاقب کی ہمت نہ ہوئی۔ حضرت عمر فاروق (رض) اسلام کے دوسرے خلیفہ ارشد ہیں ان کی خلافت کی مدت ساڑھے دس سال ہے اور مشہور قول کے مطابق ان کی عمر تریسٹھ سال کی ہوئی، (رض) ۔

【5】

عثمان غنی

حضرت عثمان غنی بن عفان قریشی ہیں، ان کی ولادت واقعہ فیل کے چھٹے سال ہوئی اور انہوں نے اس وقت اسلام قبول کرلیا تھا جب آنحضرت ﷺ دار ارقم میں قیام پذیر نہیں ہوئے تھے، ان سے پہلے حضرت ابوبکر (رض) حضرت علی اور حضرت زید ابن حارثہ (رض) مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے، انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی دعوت و ترغیب پر اسلام قبول کیا تھا اور منقول ہے کہ جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور ان کے چچا حکم بن العاص بن امیہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے ان کو باندھ کر قید میں ڈال دیا اور بولا کہ تو نے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کرنیا دین اختیار کرلیا ہے اللہ کی قسم تجھے اس وقت تک اس قید سے رہا نہیں کروں گا جب تک کہ تو اس نئے دین کو چھوڑ نہیں دیتا، حضرت عثمان نے جواب دیا تو پھر چچاجان آپ بھی سن لیجئے کہ میں ہرگز نہیں چھوڑوں گا جو آپ کے جی میں آئے کیجئے، حکم بن ابوالعاص نے جب حضرت عثمان کی اس سختی اور مضبوطی کو دیکھا تو ان کو رہا کردیا۔ آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ حضرت عثمان کے نکاح میں تھیں، جنگ بدر کے دنوں میں وہ سخت بیمار تھیں، جب آنحضرت ﷺ بدر کو روانہ ہونے لگے تو حضرت عثمان (رض) کو حکم دیا کہ تم ہمارے ساتھ چلو، مدینہ میں رہ کر رقیہ کی تیمار داری کرو اور اس کی دیکھ بھال رکھو، چناچہ حضرت عثمان جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے، لیکن چونکہ آنحضرت ﷺ کے حکم پر ان کو مدینہ میں رہ جانا پڑا تھا، اس لئے آنحضرت ﷺ نے جنگ بدر میں حاصل ہونے والے مال غنیمت میں ان کا حصہ بھی لگایا اور اس اعتبار سے ان کو اصحاب بدر میں شمار کیا۔ اسی بیماری میں حضرت رقیہ کا انتقال ہوگیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو میں اس کو بھی حضرت عثمان کے نکاح میں دے دیتا، حضرت عثمان (رض) کے علاوہ اور کوئی ایسا نہیں گزرا جس کے نکاح میں کسی پیغمبر کی دو بیٹیاں آئی ہوں اور اس اعتبار سے ذوالنورین حضرت عثمان (رض) کا لقب قرار پایا۔ حضرت عثمان (رض) میانہ قد، خوش رو، بزرگ ریش اور سرخ سفید رنگت کے تھے ان کے منہ پر چیچک کے نشان تھے ان کا سراپا نہایت دلکش، جاذب نظر اور پر جمال تھا، منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی بیٹی ام کلثوم کو مخاطب کرکے فرمایا تھا میں نے اس شخص کے ساتھ تمہارا نکاح کیا جو تمہارے دادا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور تمہارے باپ محمد ﷺ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ حضرت عثمان (رض) شرم وحیا کے مثالی پیکر تھے روایتوں میں آتا ہے کہ گھر کے اندر دروازہ بند کر کے غسل کرتے تھے کیا مجال جو کوئی پیٹ اور پیٹھ بھی عریاں دیکھ لے یہ بھی منقول ہے کہ حضرت عثمان (رض) حیاء کے مارے اپنی پیٹھ سیدھی نہیں کرسکتے تھے۔ عثمان غنی (رض) اسلام کے تیسرے خلیفہ راشد ہیں، ٣٥ ھ میں ایام تشریق کے دوران شہید ہوئے اور ان کی خلافت تیرہ سال رہی، عمر مبارک ٨٢ سال کی ہوئی، بعض حضرات نے ٨٣ سال اور بعض نے ٨٦ سال کی عمر لکھی ہے۔ (رض)

【6】

علی کرم اللہ وجہہ

حضرت علی بن ابی طالب (رض) آنحضرت ﷺ کے چچا زاد ہیں اور نہ صرف اس اعتبار سے آنحضرت ﷺ کے بھائی ہیں، بلکہ آنحضرت ﷺ کا ان کے ساتھ بھائی چارہ بھی ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ کی لاڈلی فاطمہ زہرا (رض) کے خاوند ہیں، حسن اور حسین کے باپ ہیں اور پہلے شخص ہیں جو باپ کی طرف سے بھی ہاشمی ہیں اور ماں کی طرف سے بھی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو قدیم الاسلام ہونے کا بھی شرف حاصل ہے اور ایک بڑی جماعت کے بقول صحابہ میں سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں علماء نے لکھا ہے کہ پیر (دوشنبہ) کے دن آنحضرت ﷺ منصب نبوت سے سرفراز ہوئے اور اگلے ہی دن یعنی منگل کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسلام قبول کرلیا اس وقت ان کی عمر تین سال تھی اور بعض روایتوں کے مطابق سات سال کی تھی۔ اسلام میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے جو بہت سارے لقب ہیں ان میں سے ہیں، امین شریف، ہادی، مہدی یعسوب المسلمین، ابوالریجانین اور ابوتراب۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ میانہ قد تھے، رنگ گندم گوں مائل بسرخی تھا، کشادہ دہن چہرہ ایسا روشن وتاباں جیسے چودھویں کا چاند آنکھیں بڑی بڑی اور نہایت سیاہ داڑھی بہت زیادہ گھنی، پیٹ نکلا ہوا جسم بھاری بھرکم، یہ ہے سراپا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ علم و معرفت اور عقل و دانائی میں اپنی صف کے یکتا، زہد وتقوی کے پیکر، سخی النفس، قوی دل اور نہایت بہادر وشجاع تھے، منصور بھی تھے یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد ان کو حاصل ہوتی تھی اور ہر مہم میں فتح یاب ہوتے تھے ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ بدر کے دن علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ ﷺ کا نیزہ لیا تھا اور ایک روایت میں آیا ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ نے غزوہ بدر میں اور دوسرے غزوات میں بھی آنحضرت ﷺ کا نیزہ لیا تھا۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اسلام کے چوتھے خلیفہ ارشد ہیں، ان کی خلافت کا زمانہ پانچ سال رہا اور ٤١ ھ میں سترہویں رمضان کو شب جمعہ میں بوقت سحر شہید ہوئے، صحیح و مختار قول کے مطابق ان کی عمر ٦٣ سال کی ہوئی۔ (رض) ۔

【7】

ایاس بن بکیر

ایاس بن بکیر (رض) ان کا نام ایا س ہے اور بکیر کے بیٹے ہیں، بعض نسخوں میں (بکر کی تصغیر) کا لفظ لام کے ساتھ، البکیر بھی مذکور ہوا ہے اور بعض حضرات نے بخاری کی روایت کے حوالہ سے اس لفظ کو بکیر بھی نقل کیا ہے، بہر حال ایاس کا شمار مہاجرین اولین میں ہوتا ہے، غزوہ بدر میں بھی شریک تھے اور پھر بعد کے دوسرے جہادوں میں شریک ہوئے، انہوں نے اور ان کے بھائی عامر بن بکیر نے مکہ میں اس زمانہ میں اسلام قبول کیا تھا جب آنحضرت ﷺ دارارقم میں قیام پذیر تھے۔ ان کی وفات ٣٤ ھ میں ہوئی۔ (رض) ۔

【8】

بلال بن رباح

یہ مشہور صحابی حضرت بلال (رض) ہیں جو آنحضرت ﷺ کے مؤذن تھے، ان کے باپ کا نام رباح اور ماں کا نام طمامہ تھا، حضرت ابوبکر صدیق کے آزاد کردہ غلام ہیں، ان کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے بعض حضرات نے ابوعبداللہ بعض نے ابوعبد الکریم اور بعض نے ابوعامر بھی کنیت لکھی ہے۔ حضرت بلال قدیم الاسلام ہیں سب سے پہلے انہوں نے ہی مکہ میں اسلام کا اظہار کیا تھا جس کے سبب اللہ کے دین کی راہ میں ان کو نہایت سخت عذاب جھیلنا پڑے، اس زمانہ میں حضرت بلال (رض) ایک دشمن دین امیہ بن خلف عجمی کے غلام تھے۔ امیہ ان کو نہایت ہولناک اذیتیں پہنچایا کرتا تھا، وہ ان کو لوہے کی زرہ میں کس کر جلتی دھوپ میں ڈال دیتا تھا، لکڑی کے موصل سے ان کی پٹائی کرتا تھا، آخر کار حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان کو اس کو ظالم مالک سے بھاری قیمت کے عوض خرید کر آزاد کیا اور پھر جنگ بدر میں وہی امیہ انہی حضرت بلال (رض) کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو حکم دیا تھا کہ خانہ کعبہ میں اذان دیں، حضرت بلال (رض) کے فضائل ومناقب بیشمار ہیں ان کی فضیلت و بزرگی کے اظہار کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا سابقین چار ہیں، میں سابق عرب ہوں، بلال سابق حبشہ ہیں، صہیب سابق روم ہیں اور سلمان سابق فارس ہیں، حضرت بلال (رض) کا رنگ گندم گوں تھا دراز قد تھے، جسم پر بال بہت زیادہ تھے، انہوں نے دمشق میں ٢٠ ھ میں وفات پائی اور ایک قول یہ ہے کہ ان کی وفات ١٨ ھ میں ہوئی۔ وفات کے وقت کچھ اوپر ساٹھ سال کے تھے، بعض حضرات نے ان کی عمر ٧٠ سال لکھی ہے (رض) ۔

【9】

حمزہ بن عبد المطلب

حضرت حمزہ بن عبد المطلب (رض) ہاشمی آنحضرت ﷺ کے چچا ہیں ان کو سید الشہداء کا لقب عطا ہوا تھا بعض حضرات نے اسد اللہ کا لقب بھی لکھا ہے، ان کی ماں کا نام ہالہ بنت وہب ہے جو آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی بہن ہیں اور اس اعتبار سے حضرت حمزہ (رض) آنحضرت ﷺ کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ سید الشہداء حضرت حمزہ (رض) شجاع قومی اور دل اور انسان تھے، ان کی شجاعت وبہادری کے واقعات سے اسلامی تاریخ وسیر کی کتابیں بھری ہیں، ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں نے دیکھا کہ فرشتے حمزہ بن عبد المطلب اور حنظلہ بن راہب کو غسل دے رہے ہیں اور یہ بھی حدیث میں آیا ہے کہ حمزہ اللہ کے نزدیک ساتویں آسمان پر یوں لکھے ہوئے ہیں۔ حمزۃ بن عبد المطلب اسد اللہ واسد رسولہ (حمزہ بن عبد المطلب، جو اللہ کا اور اللہ کے رسول کا شیر ہے ) ۔ (رض)

【10】

حاطب بن بلتعہ

ان کی کنیت ابو عبیداللہ ہے۔ عزوہ بدر میں بھی شریک تھے اور غزوہ خندق میں بھی اور اس کے بعد کے چاروں میں بھی شریک ہوئے۔ ان سے جو ایک لغزش ہوئی تھی کہ انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر مدینہ منورہ سے ایک خفیہ خط اہل مکہ کے نام روانہ کیا تھا جس میں آنحضرت ﷺ کے ایک جنگی منصوبہ کا انکشاف تھا اور پھر وہ راستہ ہی میں پکڑ کر آنحضرت ﷺ کے پاس واپس لایا گیا تھا، اس کا تفصیلی ذکر پیچھے آچکا ہے، انہوں نے ٣٠ ھ میں مدینہ میں بعمر ٦٥ سال وفات پائی۔

【11】

ابو حذیفہ بن عتبہ

حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ قریشی کے اصل نام میں اختلاف ہے مشہور قول کے مطابق ان کا نام ہشام ہے باپ کا نام عتبہ ہے جو ربیعہ بن عبد الشمس کا بیٹا ہے، حضرت حذیفہ اجلہ اور فضلاء صحابہ میں سے ہیں، ان کا شمار مہاجرین اول میں ہوتا ہے یہ ان اہل اسلام میں سے ہیں جنہیں دونوں قبلوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ حضرت ابوحذیفہ کی ہجرتیں بھی دو ہوئیں۔ یعنی حبشہ ہجرت کرنے والوں میں بھی شامل تھے اور پھر مدینہ کو ہجرت کی۔ انہوں نے مکہ میں اس وقت اسلام قبول کرلیا تھا جب آنحضرت ﷺ دار ارقم میں قیام پذیر نہیں ہوئے تھے، ان کو غزوہ بدر میں بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور اس کے بعد جہادوں میں بھی جنگ یمامہ میں جام شہادت سے سرفراز ہوئے اس وقت ان کی عمر ٥٣ سال یا ٥٤ سال کی تھی۔ (رض)

【12】

حارثہ بن ربیع انصاری

ربیع (یا ایک روایت کے مطابق ربیع) اصل میں حضرت حارثہ کی ماں کا نام ہے ان کے باپ کا نام سراقہ تھا۔ حضرت حارثہ جنگ بدر میں شہید ہوگئے تھے اگر یہ میدان جنگ میں نہیں تھے بلکہ اس دستہ میں شامل تھے جو دشمنوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے میدان جنگ سے الگ ایک جگہ پر مامور تھا تاکہ وہ دشمنوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں اور جو کچھ دیکھیں آکر خبر دیں، انہی صحابہ میں حضرت حارثہ بھی تھے جو جوان العمر اور بڑے چاق وچوبند تھے، یہ جنگ کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس جگہ کھڑے تھے کہ اچانک کسی کا ایک تیر آکر ان کے حلق میں لگا اور حضرت حارثہ اس کاری زخم کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے۔ بعد میں ان کی ماں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور بولیں کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ جانتے ہی ہیں میری نظر میں حارثہ کی کیا حیثیت تھی مجھ کو اس سے کتنا لگاؤ تھا، کتنا پیار تھا مجھ کو بتائیے کہ وہ جنت میں گیا ہے یا دوزخ میں، اگر جنت میں گیا ہے تو صبر کروں اور اگر دوزخ میں گیا ہے تو پھر جتنا رو سکتی ہوں روؤں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا حارثہ کی ماں ! وہاں ایک جنت نہیں ہے اوپر تلے کئی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا فردوس اعلی میں ہے۔ حارثہ کی ماں نے یہ سن کر کہا ! میں اس پر صبر کروں گی۔

【13】

خبیب بن عدی انصاری

حضرت خبیب جنگ بدر میں شریک تھے پھر ٣ ھ میں جب غزوہ رجیع میں گئے تو وہاں مشرکوں نے ان کو قیدی بنا لیا اور مکہ لے کر آئے یہاں مکہ میں ان کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خرید لیا، حارث بن عامر مکہ کا وہ مشرک تھا جس کو حضرت خبیب نے جنگ بدر میں جہنم رسید کیا تھا اور اس کا بدلہ چکانے کے لئے حارث کے بیٹوں نے ان کو خریدا، چناچہ انہوں نے پہلے تو حضرت خبیب کو قید میں ڈالے رکھا اور پھر مقام تنعیم میں ان کو سولی پر لٹکا کر شہید کردیا، حضرت خبیب پہلے مسلمان ہیں جن کو سولی پر کھینچا گیا۔ اور انہوں ہی نے مقتل میں قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنے کا طریقہ جاری کیا، ایک روایت میں آیا ہے کہ جب ان کو سولی پر کھینچا جانے لگا تو یہ الفاظ ان کی زبان پر تھے کہ خدایا ! یہاں میں کسی ایسے شخص کو نہیں پارہا ہوں جو پیغمبر اللہ ﷺ کو میرا سلام پہنچا دے، خدایا تو ہی میرا سلام پیغمبر اللہ ﷺ کو پہنچا۔ چناچہ منقول ہے کہ جب جبرائیل (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور خبیب کا سلام پہنچا یا۔ (رض) ۔

【14】

خنیس بن خدافہ سہمی

حضرت خنیس بن خدا فہ سہمی قریشی ہیں اور مہاجرین میں سے ہیں۔ انہوں نے حبشہ کو ہجرت کی تھی اور وہیں سے آکر جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے، پھر جنگ احد میں بھی شریک ہونے کے لئے وہاں آئے اور اس کے بعد حبشہ جانے کے بجائے مدینہ منورہ آگئے، اس جنگ میں یہ زخمی ہوگئے تھے اور آخر کار اس زخم سے جان بر نہ ہوسکے اور انتقال کر گئے۔ حضرت عمر فاروق کی صاحبزادی حضرت حفصہ پہلے انہیں خنیس کے نکاح میں تھیں اور ان کے انتقال کے بعد آنحضرت ﷺ کی زوجیت میں آئیں۔

【15】

رفاعہ بن رافع انصاری

حضرت رفاعہ بھی اصحاب بدر میں سے ایک ہیں ان کا تعلق انصار مدینہ سے ہے ان کے باپ قبیلہ وقوم کے سردار تھے۔ حضرت رفاعہ نے بدر کے بعد اور تمام جہادوں میں بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ شرکت کی۔ انہوں نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں بھی حضرت علی کی طرف سے شرکت کی تھی ان کا انتقال امارت معاویہ کے ابتدائی دنوں میں ہوا۔ (رض) ۔

【16】

رفاعہ بن عبد المنذر ابولہ انصاری

حضرت رفاعہ بن عبد المنذر ابولبابہ بھی انصار مدینہ میں سے ہیں اور قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے ہیں سرداروں میں سے تھے، ایک قول یہ ہے کہ یہ جنگ بدر میں شریک نہی ہوئے تھے بلکہ آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنے پیچھے امیر و والی بنا کر مدینہ میں چھوڑ گئے تھے اور پھر بدر کے مال غنیمت میں ان کا بھی حصہ لگایا تھا جیسا کہ حضرت عثمان غنی (رض) کا حصہ لگایا تھا۔ ان کی وفات حضرت علی کی خلافت کے زمانہ میں ہوئی، حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر کے اس قصہ کے ذکر کا یہاں موقع نہیں ہے جو مدینہ کے یہودیوں بنونضیر کے خلاف آنحضرت ﷺ کی کاروائی کے موقعہ پر حضرت رفاعہ کی تقصیر سے توبہ کی قبولیت تک انہوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ایک ستوں سے باندے رکھا تھا، بعد میں مسجد نبوی کے اس ستوں کو حضرت رفاعہ کی کینت کی نسبت سے ابولبابہ کہا جانے لگا۔

【17】

زبیر بن عوام

حضرت زبیر بن عوام عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، چوتھی پشت قصی پر پہنچ کر ان کا اور آنحضرت ﷺ کا سلسلہ نسب ایک ہوجاتا ہے، ان کی والدہ ماجدہ حضرت صفیہ عبد المطلب کی بیٹی اور آنحضرت ﷺ کی پھوپھی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی ایک صاحبزادی حضرت اسماء ان کی زوجیت میں تھیں، انہوں نے اور ان کی والدہ حضرت صفیہ نے ایک ساتھ حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر ١٦ سال اور ایک روایت کے مطابق ٢٥ سال تھی، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے چچا نے ان کو سخت اذیتیں پہنچائیں، یہاں تک کہ وہ ان کو دھوئیں میں بند کر کے ستایا تھا اور کہتا تھا کہ جب تک تم اسلام کو ترک نہیں کرو گے اسی طرح تم پر ظلم ڈھاتا رہونگا، مگر ان کے پائے استقامت میں ذرا لغزش نہیں آئی اور ہر سختی ان کے قدم کو راہ اسلام پر اور زیادہ مضبوطی سے جماتی رہی، ان کی پہلی ہجرت حبشہ کو ہوئی تھی، انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر اور دوسرے غزوات میں شرکت کی غزوہ احد میں جب کہ دشمن نے چاروں طرف سے یلغار کر رکھی تھی اور اسلامی لشکر افراتفری کے عالم میں تھا، حضرت زبیر نہایت بہادری اور پامردی کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے پاس ڈٹے رہے، منقول ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس شخص نے اللہ کی راہ میں تلوار سونتی حضرت زبیر ابن عوام ہیں۔ حضرت زبیر کا رنگ گورا، چہرہ پر جمال و روشن تھا، دراز قد تھے جسم پر گوشت ہلکا تھا، بال بہت تھے اور رخسار ہلکے تھے، حضرت زبیر ٣٦ ھ میں جنگ جمل کے دوران شہید ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر ٦٤ سال تھی پہلے جسد خاکی کو دار السباع میں دفن کیا گیا پھر بصرہ لایا گیا اور وہیں ان کو آخری آرام گاہ بنی منقول ہے کہ حضرت زبیر بن عوام (رض) نماز کی حالت میں تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر کے ایک شخص ابن جرموز نے ان پر حملہ کیا اور شہید کر ڈالا، بعد میں ابن جرموز حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آیا اور بولا کہ آپ کو خوش خبری ہو میں نے زبیر کو قتل کر ڈالا ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ و جہہ نے جواب دیا اور تو بھی خوش خبری سن لے کہ دوزخ تیرا انتظار کر رہی ہے۔

【18】

زید بن سہل

حضرت زید بن سہل انصاری (رض) ہیں ابوطلحہ (رض) کی کنیت سے مشہور ہیں یہ ان ستر آدمیوں میں شامل تھے جو ہجرت نبوی سے پہلے مدینہ سے چل کر مکہ آئے تھے اور عقبہ میں آنحضرت ﷺ کی زیارت اور بیعت سے مشرف ہوئے تھے۔ انہوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی اور ان کے بعد کے جہادوں میں بھی، حضرت طلحہ، زید بن سہل، حضرت ام سلیم کے خاوند ہیں جو حضرت انس بن مالک کی والدہ ماجدہ ہیں۔ ان کا شمار انصار کے عمائدین اور روساء میں ہوتا تیر اندازی میں بہت مشہور تھے آنحضرت ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ تنہا ابوطلحہ کی آواز لشکر میں ایک جماعت کی آواز سے بہتر ہے۔ ایک روایت میں سو مردوں کے آواز سے بہتر ہے کے الفاظ ہیں اور ایک اور روایت میں یہ ہے کہ ہزار مردوں کی آواز سے بہتر ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کا بھائی چارہ حضرت ابوعبیدہ (رض) سے کرایا تھا۔ ان کی وفات ٣١ ھ بعمر ٧٠ سال ہوئی۔ (رض) ۔

【19】

ابوزیدانصاری

حضرت ابوزید انصاری ان صحابہ میں سے ایک ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں قرآن جمع کیا تھا۔ یہ حضرت انس کے ایک چچا ہیں، جنگ بدر میں شریک تھے سعد قاری کے نام سے زیادہ مشہور تھے ان کے اصل نامی اختلافی اقوال ہیں، بغض نے سعد بن عمیر لکھا ہے اور بعض نے قیس بن سکن۔ (رض) ۔

【20】

سعد بن مالک زہری

یہ مشہور صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص ہیں جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اصل میں ابی وقاص کا نام مالک تھا اس لئے ان کو سعد بن مالک بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت سعد زہری قریشی ہیں، انہوں نے ابتداء اسلام ہی میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر ١٧ سال یا ایک روایت کے مطابق ١٩ سال تھی۔ خود حضرت سعد کا بیان ہے کہ میں تیسرا مسلمان ہوں، یعنی مجھ سے پہلے صرف دو آدمی مسلمان ہوئے تھے اور میں وہ شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے تیر اندازی کی۔ یہ غزوہ بدر اور تمام غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک تھے، غزوہ احد کے دن آنحضرت ﷺ نے ان پر اپنے ماں باپ کو جمع کرکے فرمایا تھا تیر پہ تیر چلائے جاؤ، تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں، گندم گوں رنگت، چھوٹا قد، فربہ بدن، بڑا سر، سخت انگلیاں ہلکی ناک اور جسم پر بال کی کثرت، یہ حضرت سعد کا سراپا تھا، ان کا انتقال بعہد امارت معاویہ ٥٥ ھ یا ٥٨ ھ میں دفن کیا گیا انہوں نے کچھ اوپر ستر سال اور ایک روایت کے مطابق ٨٢ سال کی عمر پائی، عشرہ مبشرہ میں سب سے پیچھے انہیں کی وفات ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ فتوحات اسلام میں حضرت سعد کی جنگی مہارت اور بےپناہ شجاعت وبہادری کا بڑاحصہ ہے، عجم کے نامعلوم کتنے شہر اور کتنے بڑے بڑے علاقے ان کے ہاتھ پر فتح ہوئے۔ ایران کو اسلام کے زیر نگیں کرنے والے اور کسری کی عظیم ترطاقت کو پاش پاش کرنے والے سب سے بڑے سپہ سالار یہی حضرت سعد بن ابی وقاص ہیں اس کے علاوہ بھی ان کے فضائل اور مناقب کچھ کم نہیں ہیں۔ (رض) ،

【21】

سعد بن خولہ

حضرت سعد بن خولہ کا تعلق قریش مکہ سے ہے، بنو عامر لوی میں سے ہیں ایک قول یہ ہے کہ بنو عامر بن لوی سے ان کا نسبی تعلق نہیں ہے بلکہ ان کے حلیف تھے۔ یہ ان مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے دوسری بار مکہ سے حبشہ ہجرت کی تھی۔ جنگ بدر میں شریک تھے اور حجۃ الوداع کے زمانہ میں مکہ میں ان کا انتقال ہوا۔ (رض) ،

【22】

سعید بن زید

حضرت سعید بن زید بن نفیل قریشی عدوی ہیں۔ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور حضرت عمر فاروق کے بہنوئی تھے، قدیم الاسلام ہیں یعنی انہوں نے مکہ میں اس وقت اسلام قبول کرلیا تھا، جب آنحضرت ﷺ دار ارقم میں قیام پذیر نہیں تھے۔ انہوں نے تمام غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شرکت کی ہے غزوہ بدر کے موقع پر یہ طلحہ بن زبیر کے ساتھ قریش کے قافلہ کی خبر لانے کی مہم پر گئے تھے۔ حضرت سعید بن زید گندم گوں اور دراز قد تھے، گیارہویں پشت میں کعب بن لوی پر ان کا اور آنحضرت ﷺ کا سلسلہ نسب ایک ہوجاتا ہے۔ انہوں نے جب اسلام قبول کیا تھا تو اس وقت ان کی عمر بیس سال کی تھی۔ خود ان کا بیان ہے کہ جب عمر کو میرے قبول اسلام کی خبر ہوئی تو انہوں نے مجھ کو باندھ کر ڈال دیا تھا، ان کی بیوی حضرت فاطمہ بنت خطاب بھی اپنے بھائی حضرت عمر سے پہلے مشرف باسلام ہوچکی تھیں، حضرت سعید کا انتقال ٥١ ھ یا ٥٢ ھ میں مدینہ کے قریب وادی عقیق میں ہوا۔ ان کی عمر کچھ اوپر ٧٠ برس کی ہوئی۔ ان کے باپ زید بن نفیل نے زمانہ جاہلیت میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا دین اختیار کرلیا تھا اور مشرکوں کے ذبیحہ سے پرہیز کرتے تھے، انہوں نے قبل بعثت آنحضرت ﷺ سے بھی ملاقات کی تھی، ان کو موحد الجاہلیۃ کہا جاتا ہے۔

【23】

سہل بن حنیف

حضرت سہل بن حنیف انصاری ہیں، بدر اور احد اور دوسرے جہادوں میں شریک ہوئے اور غزوہ احد کے دن آنحضرت ﷺ کے ساتھ میدان کار زار میں ڈٹے رہے، آنحضرت ﷺ کے بعد سیدنا علی کے خاص مصاحبین میں شامل ہوگئے تھے، سیدنا علی نے ان کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا، پھر فارس ایران کی گورنری پر ان کو فائز کیا۔ ان کا انتقال کوفہ میں ٣٨ ھ میں ہوا اور سیدنا علی نے نماز جنازہ پڑھائی۔

【24】

ظہیر بن رافع اور ان کے بھائی

ظہیر بن رافع (یاملا علی قاری کے بموجب ظہیر) کے باپ کا نام رافع تھا، انصار مدینہ میں سے ہیں ان کے بھائی کا نام خدیج بن رافع ہے۔ جب کہ ملا علی قاری نے ظہیر نام لکھا ہے یہ دونوں بھائی بدری ہیں، ان دونوں نے جنگ بدر میں اور اس کے بعد کے دوسرے جہادوں میں شرکت کی تھی ،

【25】

عبداللہ بن مسعود ہزلی

ہزلی ایک قبیلہ ہزیل کی طرف نسبت ہے، جو غیرقریش قبائل میں سے ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود کی کنیت ابوعبدالرحمن تھی، صاحب السواد والسواک کے لقب سے مشہور تھے۔ ان کا انتقال مدینہ میں ٣٢ ھ میں ہوا کچھ اوپر ساٹھ سال عمر پائی،۔

【26】

عبد الرحمن بن عوف زہری

حضرت عبدالرحمن بن عوف زہری، زہرہ بن کلاب کی اولاد سے ہیں، کلاب بن مرہ پر ان کا اور آنحضرت ﷺ کا سلسلہ نسب ا کی ہوجاتا ہے۔ دور جاہلیت میں ان کا نام عبد الکعبہ تھا، ان کی ولادت واقعہ فیل کے دس سال بعد ہوئی ابتداء اسلام ہی میں انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا، ان کی والدہ بھی مسلمان ہوگئی تھیں، حبشہ کی طرف انہوں نے دوہجرتیں کیں، جنگ بدر میں شریک ہوئے اور دوسرے تمام غزوات میں بھی آنحضرت ﷺ کے دوش بدوش رہے، جنگ احد میں کے دن میدان کار زار میں پوری ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہنے والوں میں عبدالرحمن بن عوف بھی تھے، اس دن انہوں نے بیس سے زیادہ زخم کھائے تھے۔ ایک سفر میں آنحضرت ﷺ نے ان کے پیچھے نماز ادا کی تھی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف غزوہ تبوک میں نہیں جاسکتے تھے اور اس کی تلافی انہوں نے اس طرح کی تھی کہ چار ہزار دینار اللہ کی راہ میں صدقہ کئے، پھر چالیس ہزار دینار اور اللہ کی راہ میں خرچ کئے، پانچ سو گھوڑے مجاہدین اسلام کے لئے پیش کئے اور اسی طرح پانچ سو اونٹ دئیے، آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد ازواج مطہرات کی خبر گیری اور ان کے اخراجات زندگی کا تکفل حضرت عبدالرحمن نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عبدالرحمن کو اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ مال و دولت سے نوازا تھا اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا حوصلہ بھی اتنا ہی زیادہ ان کو عطا کیا تھا، تجارت ان کا پیشہ تھا اور ان کا بیشتر مال وزر تجارت ہی سے ان کو حاصل ہوا تھا، منقول ہے کہ یہ جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے تو بالکل مفلس وقلاش تھے اور پھر اس پاک شہر میں ان کو خیر و برکت حاصل ہونی شروع ہوئی تو اللہ نے وہم و گمان سے زیادہ ان کو نوازا بیان کیا جاتا ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے چار بیویاں تھیں اور ان کو ترکہ کے آٹھویں حصہ کے چوتھائی پر مصالحت کرنی پڑی اور اس صورت میں بھی ان کے حصہ میں اسی ہزار درہم یا دینار آئے۔ حضرت عبدالرحمن کی میراث ایک ہزار ساٹھ آدمیوں کے درمیان تقسیم ہوئی اور ہر ایک کو اسی اسی ہزار درہم ملے۔ یہ منقول ہے کہ انہوں نے اپنی میراث میں سے ہر بدری صحابی کو چار چار سو دینار دینے کی وصیت کی تھی جو پوری کی گئی۔ روایت ہے کہ ایک دن ام المؤمنین حضرت عائشہ نے حضرت عبدالرحمن (رض) بیان کیا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا میں نے عبدالرحمن کو بہشت میں جاتے ہوئے دیکھا اور وہ بہشت میں اسی طرح گھس رہے تھے جیسے کوئی بچہ سرین یا ہاتھ پاؤں کے بل چلتا ہے، جس دن حضرت عائشہ نے عبدالرحمن کو یہ حدیث سنائی اسی دن ان کا ایک تجارتی قافلہ سات سو اونٹوں پر مال لادے ہوئے ملک شام سے چل کر مدینہ پہنچا تھا، انہوں نے اپنے بارے میں دخول جنت کی یہ بشارت سن کر شکرانہ میں وہ تمام لدے پھندے اونٹ مع ان کو پالانوں اور جھولوں کے اللہ کی راہ میں صدقہ کردئیے روایت ہے کہ وفات کے وقت حضرت عبدالرحمن بےہوش ہوگئے تھے جب کچھ دیر کے لئے ہوش میں آئے تو بولے ابھی میرے پاس دو فرشتے آئے تھے جو بڑے سخت اور درشت خومعلوم ہوتے تھے انہوں نے میری طرف اشارہ کرکے آپس میں کہا کہ ہم اس شخص کو حاکم امین عزیز کے حضور لے جا رہے ہیں، اتنے میں دو فرشتے آگئے اور ان دونوں نے پہلے فرشتوں سے پوچھا کہ اس شخص کو کہاں لے جا رہے ہو ؟ وہ دونوں بولے ! حاکم امین عزیز کے حضور۔ نو وارد فرشتوں نے کہا یہ تو وہ شخص ہے جس میں سعادت ونیک بختی نے اسی وقت گھر کرلیا تھا جب یہ ماں کے پیٹ میں تھا، حضرت عبدالرحمن کی علمی حیثیت بھی بہت بلند تھی، فقہی تبحر اور دینی احکام و مسائل پر عبور رکھنے کے سبب صحابہ میں نہایت ممتاز درجہ رکھتے تھے، چناچہ حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان تینوں کے عہد خلافت میں فتوی دینے کی بڑی ذمہ داری انہی کے سپرد تھی۔ حضرت عبدالرحمن کی رنگت سرخ سفید تھی، قد دراز تھا، چہرہ چھوٹا تھا اور پاؤں کو تیر لگنے سے جو نقصان پہنچا تھا اس کے سبب لنگڑے ہوگئے تھے ان کی وفات حضرت عثمان کے عہد خلافت میں ہوئی ،

【27】

عبیدہ بن حارث

حضرت عبیدہ بن حارث قریشی ہیں ان کے باپ حارث، مطلب بن عبد مناف کے بیٹے تھے۔ حضرت عبیدہ کی کنیت ابوالحارث تھی اور بعض حضرات نے ابومعاویہ کنیت لکھی ہے، یہ آنحضرت ﷺ سے دس سال بڑے تھے، انہوں نے آنحضرت ﷺ کے دار ارقم میں آنے سے پہلے ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ یہ اور ان کے دو بھائی، جن کے نام طفیل اور حصین تھے، ایک ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تھے، جنگ بدر میں ان کا مقابلہ ولید بن عتبہ سے ہوا تھا اور دونوں کے درمیان دو دو چوٹیں ہوئیں، اس مقابلہ میں حضرت عبیدہ شیہد ہوگئے لیکن ولید بھی اسی دن مارا گیا۔

【28】

عبادہ بن صامت

حضرت عبادہ بن صامت انصار مدینہ میں سے ہیں اور ان کا شمار سرداروں میں ہوتا ہے تھا۔ عقبہ اولی، عقبہ ثانیہ اور عقبہ ثالثہ، تینوں میں یہ موجود تھے، انہوں نے جنگ بدر اور دوسرے جہادوں میں شرکت کی یہ ان صحابہ میں سے ایک ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے عہد میں قرآن جمع کیا تھا۔ حضرت عبادہ دراز قد اور خوبصورت جسم کے تھے، حضرت عمر نے اپنے عہد خلافت میں ان کو شام کا قاضی ومعلم بنا کر بھیجا تھا، چناچہ انہوں نے حمص میں اقامت اختیار کرکے اپنے فرائض انجام دئیے پھر بعد میں فلسطین چلے گئے تھے اور وہیں رملہ میں وفات پائی، بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ان کی وفات بیت المقدس میں ٣٤ ھ میں ہوئی تھی، اس وقت ان کی عمر ٧٢ سال کی تھی، ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت عبادہ، حضرت معاویہ کے زمانہ تک زندہ رہے۔

【29】

عمر و بن عوف

حضرت عمرو بن عوف انصاری ہیں یہ بنو عامر لوی کے حلیف تھے اور مدینہ کی سکونت اختیار کر رکھی تھی، انہوں نے بدر میں شرکت کی ان کا انتقال امیر معاویہ کے آخرعہد امارت میں مدینہ میں ہوا اور لاولد اس دنیا سے رخصت ہوگئے، انہوں نے بہت پہلے اسلام قبول کرلیا تھا، اس لئے ان کو قدیم الاسلام کہا جاتا ہے، یہ ان مقدس ہستیوں میں سے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ فرمایا تری اعینہم تفیض من الدمع انہوں نے آنحضرت ﷺ سے وہ حدیث روایت کی ہے جس میں آپ ﷺ نے (اہل اسلام کو مخاطب کرکے فرمایا مجھ کو تمہارے فقر و افلاس سے کوئی خوف نہیں ہے میں تو اس وقت سے ڈرتا ہوں جب دنیا (اپنے مال وزر کے ساتھ) تم پر کشادہ وفراخ ہوجائے گی ،

【30】

عقبہ بن عمرو انصاری

حضرت عقبہ بن عمر و انصاری مشاہیر صحابہ میں سے ہیں بدری ہیں، عقبہ ثانیہ میں موجود تھے، جمہور علماء کا کہنا ہے کہ ان کو بدری اس نسبت سے کہا جاتا ہے کہ یہ بدر میں رہا کرتے تھے نہ کہ اس اعبتار سے کہ انہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی ان کی وفات حضرت علی کی عہد خلافت میں ہوئی، لیکن بعض حضرات کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٤١ ھ یا ٤٢ ھ میں وفات پائی۔

【31】

عامر بن ربیعہ غنری

غنری اصل میں ایک شخص غنرہ کی طرف نسبت ہے جو حضرت عامر بن ربیعہ کے اجداد میں سے تھا، جامع الاصول میں یہ لفظ غنوی لکھا ہوا ہے، حضرت عامر چونکہ بنوعدد کے حلیف تھے اس لئے ان کو عددی بھی کہا جاتا ہے اور کاشف میں یہ لکھا ہے کہ حضرت عامر آل خطاب کے حلیف تھے۔ حضرت عامر نے دو ہجرتیں کیں، جنگ بدر میں بھی شریک تھے اور دوسرے جہادوں میں بھی۔ انہوں نے حضرت عمر سے پہلے اسلام قبول کیا تھا، ان کی وفات ٣٢ ھ یا ٤٣ ھ یا ٣٥ ھ میں ہوئی۔

【32】

عاصم بن ثابت انصاری

حضرت عاصم بن ثابت انصاری نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی، یہ حضرت عاصم بن عمر فاروق کے جد مادری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر ان کی جان کو مشرکوں سے جس طرح بچایا تھا وہ ایک بہت ہی غیر معمولی واقعہ ہے، ہوا یہ تھا کہ غزوہ ذات الرجیع میں انہوں نے ایک بڑے مشرک سردار کو قتل کردیا تھا سارے مشرک اپنے سردار کا بدلہ لینے کے لئے حضرت عاصم بن ثابت کی تاک میں لگ گئے اور موقع پاکر ان کو گھیر لیا اور قریب تھا کہ ان کا سر کاٹ لیں مگر اسی وقت اللہ کی مدد حاصل ہوئی۔ دراصل حضرت عاصم نے خدائے عزوجل سے دعا مانگی تھی کہ کسی مشرک کا ہاتھ مجھ تک نہ پہنچے اور ان کی یہ دعا مقبول تھی، چناچہ جب مشرک حضرت عاصم کا سر کاٹنے کے لئے بڑھے تو اچانک ایسا لگا کہ بھڑوں کا ایک چھتہ ٹوٹ کر ان مشرکوں پر گرا ہو اور پھر ان بھڑوں نے حضرت عاصم کو ان کے ہاتھوں سے بچالیا۔

【33】

عویم بن ساعدہ انصاری

حضرت عویم بن ساعدہ انصاری عقبہ ثانیہ میں مدینہ سے مکہ آکر آنحضرت ﷺ کی زیارت وبیعت کرنے والوں میں شریک تھے، انہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی ہے اور دوسرے جہادوں میں بھی ان کا انتقال آنحضرت ﷺ کی حیات میں ہوگیا تھا انہوں نے ٦٥ یا ٦٦ سال کی عمر پائی۔

【34】

عتبان بن مالک انصاری

حضرت عتبان بن مالک انصاری خزرجی ہیں جنگ بدر میں شریک تھے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے احادیث روایت کی ہیں اور ان سے جن لوگوں نے احادیث نقل کی ہیں ان میں حضرت انس بن مالک اور محمود بن ربیع شامل ہیں، حضرت عتبان نابینے تھے، صحیح بخاری کی ایک روایت میں ان کے متعلق یہ مذکور ہے کہ انہوں نے نماز کے لئے مسجد میں آنے سے اپنا عذر بیان کیا تو آنحضرت ﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں ایک جگہ نماز پڑھی تاکہ عتبان اسی جگہ کو اپنی نماز پڑھنے کے لئے مختص کرلیں۔ انہوں نے حضرت معاویہ کے زمانہ میں وفات پائی

【35】

قتادہ بن نعمان انصاری

یہ وہ قتادہ نہیں ہیں جو اہل علم اور محدثین میں بہت مشہور ہیں، وہ تابعی تھے، بصرہ کے تھے، بینائی سے اللہ تعالیٰ نے محروم کر رکھا تھا۔ لیکن علم و معرفت کی دولت وافر ان کو عطا فرمائی تھی۔ وہ حافظ تھے، مفسر تھے، محدث تھے اور ان کا حافظہ اتنا قوی تھا کہ جو کچھ ایک بار سن لیتے تھے اس کو کبھی نہیں بھولتے تھے۔ حضرت انس بن مالک حضرت حسن بصری اور حضرت سعید بن مسیب سے روایت کرتے تھے اور یہ قتادہ بن نعمان جن کا یہاں ذکر ہے، صحابی ہیں، انصاری ہیں، عقبہ میں موجود تھے جنگ بدر میں شریک تھے اس کے بعد دوسرے جہادوں میں شریک ہوئے، ان کا شمار فضلاء صحابہ میں ہوتا ہے ان کا انتقال ہوا اور حضرت عمر نے نماز جنازہ پڑھائی۔

【36】

معاذ بن عمرو بن الجموع

حضرت معاذ عمر وبن الجموع کے بیٹے ہیں، عقبہ میں موجود تھے، جنگ بدر میں یہ بھی شریک تھے اور ان کے باپ عمر وبن الجموع بھی، یہ وہی نوعمر معاذ بن عمر و ہیں جنہوں نے جنگ بدر میں ابوجہل پر پہلے حملہ کیا اور اس کا ایک پاؤں کاٹ ڈالا تھا اور پھر بعد میں معاذ ومعوذ بن عفراء نے اس کا کام تمام کیا تھا ،

【37】

معوذ بن عفرائ اور ان کے بھائی

حضرت معوذ بن عفراء اور ان کے بھائی حضرت معاذ بن عفراء دونوں جنگ بدر میں شریک تھے عفراء ان دونوں کی ماں کا نام ہے، ان کے باپ حارثہ بن رفاعہ انصاری ہیں، یہ معوذہی تھے جنہوں نے جنگ بدر میں اپنے بھائی معاذ بن عفراء کی مدد سے ابوجہل کو قتل کیا تھا۔ معوذ اس جنگ میں شہید ہوگئے تھے، لیکن معاذ باقی رہے اور انہوں نے دوسرے جہادوں میں بھی شرکت کی معوذ اور معاذ کے ایک بھائی عوف بن عفر اء بھی جنگ بدر شریک تھے اور ان کو بھی اس جنگ میں شہادت نصیب ہوئی تھی۔

【38】

مالک بن ربیعہ ابواسید انصاری

اصل نام مالک بن ربیعہ ہے اور ابواسید کنیت ہے نام کے بجائے کنیت سے زیادہ مشہور ہیں، جنگ بدر میں اور دوسرے تمام غزوات میں شریک ہوئے، قبیلہ سے مساعدی ہیں۔ ٦٠ ھ میں ان کی وفات ہوئی اس وقت ان کی عمر ٧٧ سال یا ٧٨ سال اور نابیناء ہوچکے تھے، اصحاب بدر میں سب کے بعد انہیں کا انتقال ہوا۔

【39】

مسطح بن اثاثہ

حضرت مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب بن عبد المناف، جنگ بدر اور جنگ احد میں شریک تھے اور بعد کی جنگوں میں بھی شریک ہوئے۔ یہ وہی مسطح ہیں جنہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کی ذات پر بہتان باندھا تھا اور ان پر حد قدف (زنا کا جھوٹا الزام لگانے کی سزا) نافذ ہوئی تھی اور ان کو درے لگائے گئے تھے۔ یہ واقعہ افک کے نام سے مشہور ہے، بعض حضرات نے لکھا ہے کہ مسطح ان کا لقب ہے، اصل نام عوف ہے، ان کا انتقال ٣٤ ھ بعمر ٥٦ سال ہوا۔

【40】

مرارہ بن ربیع انصاری

حضرت مرارہ بن ربیع انصار ی، بنوعمر وبن عوف میں سے ہیں، جنگ بدر میں شریک تھے، یہ ان تین صحابہ میں سے ہیں جو غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ مشہور حضرت کعب بن مالک ہیں دوسرے حضرت ہلال بن امیہ اور تیسرے یہ حضرت مرارہ۔ اللہ تعالیٰ نم ان تینوں کی توبہ قبول فرمائی تھی اور ان کے حق میں قرآن کی آیتیں نازل فرمائیں اور اسی مناسبت سے اس سورت کا نام توبہ رکھا جس میں یہ آیتیں شامل ہیں۔

【41】

معن بن عدی انصاری

حضرت معن بن عدی انصاری بنوعمر و بن عوف کے حلیف ہیں اور اسی سبب سے ان کا شمار انصار میں ہوتا ہے۔ یہ عقبہ موجود تھے، جنگ بدر میں بھی شریک تھے اور اس کے بعد کے دوسرے جہادوں میں شریک ہوئے، آنحضرت ﷺ نے ان کا بھائی چارہ حضرت زید بن خطاب سے کردیا تھا جو حضرت عمر کے بھائی ہیں اور ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت صدیق اکبر کے عہد خلافت میں یہ دونوں ایک ساتھ جنگ یمامہ میں شیہد ہوئے

【42】

مقداد بن عمرکندی

حضرت مقداربن عمرو کندی کو مقداد بن اسود بھی کہا جاتا تھا، کندی تو ان کو اس نسبت سے کہتے تھے کہ ان کے باپ عمرو کندہ کے حلیف تھے اور مقداد چونکہ بنوزہرہ میں سے ایک شخص اسود بن یغوث زہری کے حلیف بن گئے تھے، اس لئے ان کو زہری کہا جاتا تھا اور اسی نسبت سے مقداد بن اسود ان کا دوسرانام پڑگیا تھا، حضرت مقداد قدیم الاسلام ہیں اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہ چھٹے مسلمان ہیں یعنی ان سے پہلے پانچ آدمی مسلمان ہوئے تھے۔ ان کا شمار آنحضرت ﷺ کے نہایت نیک و بزرگ صحابہ میں ہوتا تھا۔ ان سے روایت حدیث کرنے والوں میں حضرت علی بن ابی طالب اور طارق بن شہاب شامل ہیں، ٣٣ ھ میں ان کا انتقال مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام جرف میں ہوا تھا وہاں سے ان کی میت مدینہ لائی گئی اور پھر بقیع میں ان کو دفن کردیا گیا۔ نماز جنازہ حضرت عثمان بن عفان نے پڑھائی، ان کی عمر ٦٠ سال کی ہوئی۔

【43】

ہلال بن امیہ انصاری

حضرت ہلال بن امیہ انصاری ان تین صحابہ میں سے ہیں جو غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تھی۔ انہوں نے اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگایا تھا اور لعان کیا تھا، یہ جنگ بدر میں شریک تھے، ان سے جو حضرات حدیث روایت کرتے ہیں ان میں حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت عبداللہ بن عباس شامل ہیں۔

【44】

اہل بدر کی تعداد

اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ جنگ بدر کے اسلامی لشکر میں کتنے مجاہد تھے، بعض حضرات نے اصحاب بدر کی مقدار تین سو پندرہ لکھی ہے اور بعض نے تین سوتیرہ۔ ابتداء باب میں ایک روایت تین سے پندرہ کی نقل کی جا چکی ہے اور ایک روایت میں تین سو سترہ کا ذکر ہے، صاحب استیعاب نے اپنی کتاب میں تین سوتیرہ کی تعداد بیان کی ہے، جن میں سے پینتالیس تو یہی ہیں جن کا اس باب میں ذکر ہوا ہے اور باقی دوسرے ہیں، جعفر بن حسن بن عبد الکریم برزنجی نے اصحاب بدر کے اسماء مبارک اور ان کے فضائل و فوائد پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام بجالیۃ الکرب باصحاب سید العجم والعرب ہے اس کتاب میں برزنجی نے متعدد کتابوں کے حوالہ سے اصحاب بدر کو ٣٢٥ کی تعداد میں ذکر کیا ہے، لیکن انہوں نے وضاحت کردی ہے کہ اس سلسلہ میں راجح قول یہی ہے کہ اصحاب بدر ٣١٣ ہیں جیسا کہ صاحب استیعاب نے لکھا ہے۔

【45】

اہل بدر کے فضائل

اصحاب بدر کے فضائل میں سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی ﷺ کی لسان مبارک کے ذریعہ جنت کی بشارت دی ہے چناچہ فرمایا کہ وجبت لکم الجنۃ (اے اصحاب بدر تمہارے لئے جنت واجب ہوگئی) ان حضرات کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں یہاں تک کہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ان میں سے کوئی کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہوگا تو اس کو توبہ کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ تو پہلے بخشا جا چکا ہے اور اس کا جنت میں جانا طے ہوچکا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ اس کا وہ گناہ اس دنیا میں شرعی سزا کا متقاضی پا گیا ہو اور اس پر اس دینا میں اس شرعی سزا کانفاذ بھی کیا گیا ہو۔ یہ بھی انہی کے فضائل میں سے ہے کہ جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نازل کیا اور ان فرشتوں نے اصحاب بدر کے ساتھ مل کر دشمنان دین سے جنگ کی اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، تمام ہی علماء اس پر متفق ہیں جب کہ دوسرے غزوات مثلا احد اور حنین کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔

【46】

اہل بدر کے اسماء کے خواص وبرکات

اللہ تعالیٰ نے اصحاب بدر کے اسماء اور ان کے ذکر میں عجیب خواص اور برکتیں رکھیں ہیں ان اسماء کے ذکر کے ساتھ مانگی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے، چناچہ برہان حلبی نے سیرت کی اپنی کتاب میں لکھا ہے اور دوانی نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے مشائخ حدیث سے سنا اہل بدر کے اسماء کے ذکر کے ساتھ جو دعا مانگی جاتی ہے، مقبول ہوتی ہے اور یہ تجربہ سے ثابت ہے۔ شیخ عبدالطلیف نے اپنا رسالہ میں لکھا ہے۔ بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ کتنے ہی اولیاء اللہ کو اہل بدر کے اسماء کی برکت سے والایت کا مرتبہ ملا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جن مریضوں نے اہل بدر کے وسیلہ سے اپنے شفا کی دعا مانگی، اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا عطا فرمائی، ایک عارف باللہ کا بیان ہے کہ میں نے جب بھی کسی بیمار کے سر ہاتھ رکھ کر اخلاص کے ساتھ اہل بدر کے نام پڑھے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا عطا فرما دی، بلکہ اگر موت کا وقت آگیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس میں بھی نرمی اور رعایت کا معاملہ فرماتا۔ ایک اور عارف کا بیان ہے، میں نے امور مہم میں اہل بدر کے اسماء کے ذکر کا تجر بہ زبان سے پڑھ کر اور لکھ کر کیا، تو حقیقت یہ ہے کہ میں نے کوئی دعا اس سے جلد قبول ہونے والی نہیں پائی۔ حضرت جعفر بن عبداللہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا، میرے والد نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سے محبت رکھوں اور یہ کہ اپنی تمام مہمات میں اہل بدر کے وسلیہ سے دعا مانگوں، چناچہ والد ماجد نے فرمایا تھا کہ بیٹے ! اہل بدر کے اسماء مبارک کے ذکر کے ساتھ جو دعا مانگی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جب کوئی بندہ اہل بدر کے اسماء کا ذکر کرتا ہے، یا یہ فرمایا تھا کہ جب کوئی بندہ اہل بدر کے اسماء کے ساتھ دعا مانگتا ہے تو اس وقت مغفرت، رحمت، برکت رضا اور رضوان اس بندہ کو گھیر لیتی ہیں، علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص روزانہ ان اسماء کا ذکر کرے اور ان اسماء کے وسیلہ سے اپنی حاجت براری کی دعا کے وقت ان اسماء کا وسیلہ پکڑنے والے کے لئے بہتر ہے کہ ہر نام کے بعد (رض) ضرور کہے مثلا ً یوں کہے محمد رسول اللہ ﷺ ابوبکر صدیق (رض) ، عمر بن الخطاب (رض) ، اس طرح آخر تک ہر نام کے بعد (رض) کہے۔ مؤلف کتاب رحمتہ اللہ نے اس موقع پر تمام اہل بدر کے اسماء مبارک کتاب استیعاب سے نقل کرکے لکھے ہیں اور ان کے امور کا ذکر دن الفاظ، جس ترتیب اور دعاء توسل کے جن الفاظ کے ساتھ صاحب استیعاب نے کیا ہے اسی کو مؤلف نے اختیار کیا ہے۔ البتہ صاحب استیعاب نے ان اسماء کے بعد جو دعا لکھی تھی وہ چونکہ طویل اور مشکل المعانی تھی اس لئے مؤلف نے اس دعا کے بجائے ایک ایسی مختصر جامع دعا لکھی ہے جو احادیث میں آتی ہے، دعا، توسل کے الفاظ کے ساتھ اصحاب بدر کے نام یوں ہیں ، بسم اللہ الرحمن الرحیم الہم اسالک بسیدنا محمدن المہاجری ﷺ وب سیدنا عبداللہ ابن عثمان ابی بکر ن الصدیق القریشی وب سیدنا عمر بن الخطاب العدوی وب سیدنا عثمان ابن عفان القریشی خلفہ النبی ﷺ علی ابنتہ وضرب لہ بسہمہ وب سیدنا علی ابن ابی طالب ن الہاشمی وب سیدنا ایاس بن البکیر بسیدنا بلال بن رباح مولیٰ ابی بکرء الصدیق القرشی وب سیدنا حمزۃ بن عبد المطلب الہاشمی وب سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ حلیف لقریش وب سیدنا ابی حذیفۃ بن عتبۃ بن ربیعۃ القرشی وب سیدنا خبیب بن عدی الانصاری وب سیدنا خنیس بن حذافۃ السہمی وب سیدنا رفاعۃ بن رافع ن الانصاری وب سیدنا رفاعۃ بن عبد المنذر ابی لبابۃ الانصاری وب سیدنا الزبیر بن العوام القرشی وب سیدنا زید بن سہل ابی طلحۃ الانصاری وب سیدنا ابی زید الانصاری وب سیدنا سعد بن مالک ن الزہری وب سیدنا سعد ابن خولۃ القرشی وب سیدنا ظہیربن رافع ن الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن مسعود ن الہذلی وب سیدنا عتبۃ بن مسعود ن الہذلی وب سیدنا عبدالرحمن بن عوف ن الزہری وب سیدنا عبیدۃ بن الحارث القرشی وب سیدنا عبادۃ بن الصامت الانصاری وب سیدنا عمروبن عوف حلیف بنی عامر بن لؤی وب سیدنا عقبہ بن عمرون الانصاری وب سیدنا عامر بن ربیعۃ العنزی وب سیدنا عاصم بن ثابت نالانصاری وب سیدنا عویم بن ساعدۃ ن الانصاری وب سیدنا عتبان بن مالک ن الانصاری وب سیدنا وب سیدنا قدامۃ بن مظعون وب سیدنا قتادۃ بن النعمان الانصاری وب سیدنا معاذ بن عمروبن الجموع وب سیدنا معوذ بن عفراء واخیہ مالک بن ربیعۃ وب سیدنا ابی اسید ن الانصاری وب سیدنا مسطح بن اثاثہ بن عباد بن المطلب بن عبد مناف وب سیدنا مرارۃ بن الربیع الانصاری وب سیدنا معن بن عدی ن الانصاری وب سیدنا مقداد بن عمرون الکندی حلیف بنی زہرۃ وب سیدنا ہلال بن امیہ الانصاری وب سیدنا ابی عمر و بن سعد بن معاذ ن الاشہلی الانصاری وب سیدنا اسید بن حضیر ن الانصاری الاشہلی وب سیدنا اسید بن ثعلبۃ الانصاری وب سیدنا انیس بن قتادۃ الانصاری وب سیدنا انس بن معاذ ن النجاری وب سیدنا انس بن اوس ن الانصاری الاشہلی وب سیدنا اوس بن ثابت ن النجاری الانصاری وب سیدنا اوس بن خولی ن الانصاری وب سیدنا اوس بن الصامت الخزرجی الانصاری وب سیدنا اسعد ابن زرارہ النجاری الانصاری الخزرجی وب سیدنا الاسود بن زید بن عنم ن الانصاری۔ وب سیدنا ایاس بن ودفۃ الانصاری من بنی سالم بن عوف ن الخزرجی وب سیدنا الارقم بن ابی الارقم الہاشمی وب سیدنا براء بن عازب ن الخزرجی الانصاری وب سیدنا بشربن البرآء بن معرورن الانصاری الخزرجی وب سیدنا بشیر بن سعد ن الخزرجی الانصاری وب سیدنا بشیربن ابی زید ن الانصاری و بسیدنابحیر ابن ابی بحیر الجہنی النجاری وب سیدنا بشعس ابن عمرو ن الخزرجی الانصاری و بسید نابج اس بن ثعلبۃ الانصاری الخزرجی وب سیدنا تمیم بن یعار الانصاری الخزرجی وب سیدنا تمیم ن الانصاری مولیٰ بنی غنم وبیسدنا تمیم مولیٰ خراش بن الصمۃ وب سیدنا ثابت بن الجذع الانصاری الاشہلی وب سیدنا ثابت بن خالد بن عمرو بن النعمان النجاری الانصاری وب سیدنا ثابت بن الخشآء النجاری الانصاری وب سیدنا ثابت بن اقرم الانصاری حلیف بنی عمرو بن عوف وب سیدنا ثابت بن زید ن الاشہلی الانصاری وب سیدنا ثابت بن ربیعۃ الانصاری وب سیدنا ثعلبۃ بن غنمۃ الانثاری وب سیدنا ثلعبۃ بن ساعدۃ الساعدی الانصاری وب سیدنا ثعلبۃ بن عمرون النجاری وب سیدنا ثعلبۃ بن حاطب الانصاری وب سیدنا ثقف بن عمرو ن الاسلمی وب سیدنا جابر بن خالد بن مسعود ن الانصاری النجاری الاشہلی وب سیدنا جابر ابن عبداللہ الحرامی الانصاری وب سیدنا جبار بن صخرن الانصاری وب سیدنا جبیر بن ایاس الانصاری الزرقی وب سیدنا حارثہ بن النعمان النجاری الانصاری وب سیدنا حارثہ بن مالک ن الانصاری الزرقی وب سیدنا حارث بن حمیر ن الاشجعی الانصاری وب سیدنا وب سیدنا حارثہ بن حمیر ن الانصاری وب سیدنا حارث بن ہشام المخزومی القرشی وب سیدنا الحارث بن عتیک ن النجاری وب سیدنا الحارث بن قیس ن الانصاری وب سیدنا الحارث بن اوس ن الانصاری وب سیدنا الحارث بن انس ن الاشہلی الانصاری وب سیدنا الحارث بن النعمان القیسی وب سیدنا الحارث بن النعمان ابن خرمۃ الخزرجی الانصاری وب سیدنا حریث بن زید ن الخزرجی الانصاری وب سیدنا الحکم بن عمرو ن الثمالی وب سیدنا حبیب مولیٰ الانصار وب سیدنا الحصین ابن الحارث المطلبی وب سیدنا حاطب بن عمرو الاوسی وب سیدنا حرام بن ملحان النجاری وب سیدنا الخباب بن المنذر الانصاری السلمی وب سیدنا خالد بن البکیر وب سیدنا خالد بن العاصی قتل یوم بدر وب سیدنا خالد بن قیس ن الا زدی العجلانی وب سیدنا خلاد بن رافع ن العجلانی الانصاری وب سیدنا خلاد بن سوید ن الانصاری الخزرجی وب سیدنا خلاد بن عمرو ن الانصاری السملی وب سیدنا خزیمۃ بن ثابت ن الانصاری وب سیدنا خارجۃ بن زید الانصاری الخزرجی وب سیدنا خارجۃ بن حمیر الاشجعی وب سیدنا خباب بن الارت الخزاعی وب سیدنا خباب بن مولیٰ عقبہ بن عزوان وب سیدنا خزیم بن فاتک الاسدی وب سیدنا خراش بن الصمۃ الانصاری السلمی وب سیدنا خولی بن خولی العجلی الجعفی وبسدنا خبیب بن اساف الانصاری وب سیدنا خوات بن جبیر الانصاری وب سیدنا خثیمۃ بن الحارث الانصاری وب سیدنا خلیفۃ بن عدی الانصاری وب سیدنا خلیدۃ بن قیس الانصاری وب سیدنا ذکوان بن عبد قیس الانصاری وب سیدنا ذی مخبر ن الجثمی وب سیدنا ذی الشمالین الخزامی وب سیدنا رافع بن مالک ن الانصاری الخزرجی وب سیدنا رافع بن الحارث الانصاری وب سیدنا رافع بن المعلی بن زیدن الانصاری وب سیدنا رفاعۃ بن عمر و الجہنی وب سیدنا ربیعۃ بن اکثم الانصاری وب سیدنا ربیع بن ایاس ن الانصاری واخیہ وب سیدنا رجیلۃ بن ثعلبۃ الانصاری البیامی وب سیدنا زیدابن الخطاب العدوی وب سیدنا زید بن حارثہ الکلبی وب سیدنا زید بن اسلم العجلانی الانصاری وب سیدنا زید بن الدثنہ الانصاری البیاضی وب سیدنا زید بن عاصم المازنی الانصاری وب سیدنا زید بن لبید ن الانصاری البیاضی وب سیدنا زیاد بن عمرو ن الانصاری وب سیدنا زیاد بن کعب الانصاری وب سیدنا زاہر بن حرام ن الاشجعی وب سیدنا طلیب بن عمر والقرشی وب سیدنا الطفیل بن الحارث المطلبی واخیہ قتل یوم بدر وب سیدنا الطفیل بن مالک ن الانصاری وب سیدنا کعب ابن عمرو ن الانصاری السلمی وب سیدنا کعب بن زید ن النجاری الانصاری وب سیدنا کعب بن حمار ن الانصاری وب سیدنا کفاز بن حصن الانصاری وب سیدنا محمد بن مسلمۃ الانصاری وب سیدنا معاذ بن عفراء الانصاری وب سیدنا عوف بن العفراء وقتل یوم بدر وب سیدنا معوذ وب سیدنا معاذ بن ماعض الانصاری وب سیدنا وب سیدنا مالک بن عمیلۃ العبدری وب سیدنا مالک بن قدامۃ الانصاری وب سیدنا مالک بن رافع العجلانی وب سیدنا مالک بن عمرو ن السلمی وب سیدنا مالک بن امیۃ بن عمرون السلمی وب سیدنا مالک ابن ابی خولی العجلانی وب سیدنا مالک بن نمیلۃ الانصاری وب سیدنا معمر بن الحارث الجمہی وب سیدنا محرزبن الضلۃ الاسدی وب سیدنا محرزبن عامر ن الانصاری وب سیدنا وب سیدنا معن بن یزید السلمی وب سیدنا معبد ابن قیس ن الانصاری وب سیدنا وب سیدنا المنذربن عمرون الانصاری الخزرجی وب سیدنا المنذر بن الاوسی الانصاری وب سیدنا المنذر بن قدامۃ الانصاری وب سیدنا معتب بن حمراء الانصاری وب سیدنا معتب بن بشیر ن الانصاری وب سیدنا مصعب ابن عمیر ن القرشی وب سیدنا مبشر بن المنذر الاوسی وب سیدنا ملیل بن وبدۃ الانصاری وب سیدنا مہجع بن صالح عمر بن الخطاب وب سیدنا مدراج بن عمرو ن السلمی وب سیدنا نوفل بن ثعلبہ الانصاری وب سیدنا النعمان بن عبد ن النجاری وب سیدنا النعمان بن ابی خزمۃ الانصاری وب سیدنا النعمان بن عمرون الانصاری وب سیدنا النعمان ابن ابی خزمۃ الانصاری وب سیدنا النعمان بن سنان ن الانصاری وب سیدنا نضربن الحارث الانصاری الظفری وب سیدنا نحات بن ثعلبۃ الانصاری وب سیدنا نعیمان بن عمرو النجاری وب سیدنا صہیب بن سنان الرومی وب سیدنا صفوان ابن امیۃ بن عمرو و السلمی واخیہ مالک بن امیہ وب سیدنا الضحاک بن حارثۃ الانصاری وب سیدنا الضحاک بن عبد الانصاری النجاری وب سیدنا عبداللہ بن ثعلبۃ الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن جبیر ن الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن الحمیر الاسبعی وب سیدنا عبداللہ بن رواحۃ الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن رافع ن الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن ربیع ن الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن طارق بن الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن کعب ن الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن مظعون الجمحی وب سیدنا عبداللہ بن النعمان الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن عبداللہ بن سلول الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن عمر و بن حرام ن الانصاری وب سیدنا عبداللہ ابن عامر ن الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن عمیر ن الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن عبیس الخزرجی وب سیدنا عبداللہ بن سعد، ن الانصاری وب سیدنا عبداللہ بن سلمہ لعجلانی وب سیدنا عبدالرحمن بن کعب ن المازنی وب سیدنا عبدالرحمن بن جبیر ن الانصاری وب سیدنا عبدالرحمن بن عبد ن الانصاری وب سیدنا عبدالرحمن بن سہل ن الانصاری وب سیدنا عبیدین اوس وب سیدنا عبیدین زید ن الانصاری وب سیدنا عبد ربہ ابن حق ن الانصاری وب سیدنا عباد بن عبید ن التہیان اوس وب سیدنا عبدیا لیل بن ناشب ن اللیثی وب سیدنا عباد بن قیس ن الانصاری وب سیدنا حمیر بن حرام ن الانصاری وب سیدنا عمر و ابن قیس ن الانصاری وب سیدنا عمرو بن ثعلبۃ الانصاری وب سیدنا سفیان بن بشر ن الانصاری وب سیدنا سالم بن عتیک ن الانصاری وب سیدنا سہیل ابن رافع ن الانصاری وب سیدنا السائب بن مظعون الجمعی وب سیدنا ابی بن کعب ن الانصاری النجاری وب سیدنا ابی معاذ النجاری وب سیدنا اسیرۃ بن عمر ن الانصاری النجاری وب سیدنا عبداللہ بن عامر ن الانصاری وب سیدنا عکاشۃ بن محصن ن الاسدی وب سیدنا عتیک بن التہیان الانصاری وب سیدنا عشرۃ السلمی وب سیدنا عاقل بن البکیر وب سیدنا فروۃ بن عمرو ن الانصاری وب سیدنا عنام بن اوس ن الانصاری وب سیدنا الفاکہ بن بشر ن الانصاری وب سیدنا قیس بن مخلد ن الانصاری وب سیدنا قیس بن محصن الانصاری وب سیدنا قیس بن ابی ضعصۃ الانصاری وب سیدنا وب سیدنا قطبۃ بن عامر ن الانصاری وب سیدنا سعد بن خیثمۃ الانصاری وب سیدنا سعد بن عثمان الانصاری الزرقی وب سیدنا سعد بن زید ن الانصاری الاشہلی وب سیدنا سفیان بن بشر ن الانصاری وب سیدنا سالم بن عمیر ن العوفی وب سیدنا سلیم بن عمر ن الانصاری وب سیدنا سلیم بن الحارث الانصاری وب سیدنا سلیم ابن قیس بن فہد ن الانصاری وب سیدنا سلیم بن ملحان الانصاری وب سیدنا سلمہ ابن سلامۃ الانصاری الاشہلی وب سیدنا سہیل بن عمرون الانصاری وب سیدنا سلمہ بن ثابت ن الانصاری الاشہلی وب سیدنا سہیل بن بیضآء القرشی الفہری وب سیدنا سوید بن مخشی الطآئی وب سیدنا سلیط بن عمرون العامر القرشی وب سیدنا سلیط بن قیس ن الانصاری النجاری وب سیدنا سراقۃ بن کعب الانصاری النجاری وب سیدنا سراقۃ بن عمرون الانصاری النجاری وب سیدنا سواد بن غزبۃ الانصاری السلمی وب سیدنا سعید بن سہیل ن الانصاری الاشہلی وب سیدنا شماس بن عثمان المخزومی وب سیدنا شجاع بن ابی وہب ن الاسدی حلیف عبد شمس وب سیدنا ہانیء بن نیار ن الاسدی وب سیدنا ہلال بن المحلی الانصاری وب سیدنا ہلال بن خولی الانصاری وب سیدنا ہمام بن الحارث وب سیدنا وہب ابن شرح ن الفہرن القرشی وب سیدنا ودیعۃ بن عمرو ن الانصاری وب سیدنا یزید بن الحارث الانصاری وب سیدنا یزید بن ثابت ن الانصاری وب سیدنا ابی ایوب الانصاری وب سیدنا ابی الحمرآء مولیٰ ال عفراء وب سیدنا ابی الخالد الحارث بن قیس ن الانصاری وب سیدنا ابی خذیمۃ بن اوس ن الانصاری وب سیدنا سلیم ابی کبثۃ مولیٰ رسول اللہ ﷺ دوسی وب سیدنا ابی ملیل ن الضبعی وب سیدنا ابی المنذر ابن یزید بن عامر ن الانصاری وب سیدنا ابی نملۃ الانصاری وب سیدنا ابی عبیدۃ بن الجراح الفہری القرشی وب سیدنا ابی عبدالرحمن بن یزید بن ثعلبۃ الانصاری وبسیدناابی عیش ن الحارثی الانصاری وب سیدنا وب سیدنا یزید بن الخنس السلمی وب سیدنا ابی اسید ن الساعدی وب سیدنا ابی اسرائیل الانصاری وب سیدنا ابی الاعور بن الحارث الانصاری النجاری وب سیدنا سعد بن سہیل ن الانصاری وب سیدنا سعد بن خولۃ من المہاجرین الاولین وب سیدنا سعد بن خولی مولیٰ حاطب بن ابی بلتعۃ وب سیدنا سالم مولیٰ ابی حذیفۃ وب سیدنا سلمہ بن حاطب ن الانصاری وب سیدنا ابی مرثد ن الغنوی وب سیدنا ابی مسعود ن الانصاری وب سیدنا ابی فضالۃ الانصاری وب سیدنا عمار بن یاسر ن المہاجری بسیدنا طلحۃ بن عبیداللہ القرشی وب سیدنا سماک بن سعد ن الخزرجی (رض) ۔ اللہم لاتدع لنا ذنبا الا غفرتہ ولا ہما الا فرجتہ ولا دینا الا قضیتہ ولا حاجۃ من حوائج الدنیا والا خرۃ الا قضیتہا یا ارحم الراحیم۔