199. یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب

【1】

یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا

یمن ان شہروں اور بستیوں کو کہتے تھے جن کا محل وقوع خانہ کعبہ کے دائیں سمت پڑتا تھا، اب ایک مشہور تاریخی ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جو جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مغربی گوشہ پر واقع ہے۔ گوموجود عہد میں یمن ان تمام خطوی پر مشتمل نہیں ہے، جن پر عہد سابق میں مشتمل تھا، تاہم اس وقت کے مرکزی اور بڑے حصے اب بھی یمن ہی میں شامل ہیں۔ جو چیز یا جو شخص یمن کی طرف منسوب ہو اس کو یمنی بھی کہتے ہیں، یمان بھی کہتے ہیں اور یمانی بھی بعض حضرات اس لفظ (یمانی) کوئی کی تشدید کے ساتھ یمانی بھی بیان کرتے ہیں۔ شام ان شہروں اور بستیوں کو کہا جاتا تھا جن کو محل وقوع خانہ کعبہ کے بائیں سمت پڑتا تھا کیونکہ عربی میں شام بائیں جانب کو کہتے ہیں جیسا کہ دائیں طرف یمین یا ایمن کہا جاتا ہے، شام اور مشام کا لفظ ہمزہ کے ساتھ بھی آتا ہے اور ہمزہ کے بغیر بھی، شام اب بھی ایک مشہور ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے قرن (ق اور ر کے زبر کے ساتھ) ایک بستی کا نام ہم جو یمن میں واقع ہے، یہ ایک شخص قرن بن رومان بن نامیہ بن مراد کے نام منسوب تھی، جو حضرت اویس قرنی کے اجداد میں سے تھا۔ ایک قرن اور ہے (جس کو اب قرن المنازل کہا جاتا ہے) لیکن یہ قرن ر کے جزم کے ساتھ قرن ہے، یہ دراصل ایک پہاڑی کا نام ہے جو مکہ سے تقریبا بیس میل کے فاصلے پر مشرقی جانب نجد جانے والے راستہ پر واقع ہے، اہل نجد کی میقات یہی قرن ہے، جوہری نے جو اس قرن کو ر کے زبر کے ساتھ لکھا ہے اور حضرت اویس قرنی کو اسی طرف منسوب کیا ہے وہ ان کی غلط فہمی ہے۔

【2】

حضرت اویس قرنی کی فضیلت

حضرت عمربن الخطاب سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایک شخص یمن سے تمہارے پاس آئے گا جس کا نام اویس ہوگا، وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا کسی کو نہیں چھوڑے گا، اس کے بدن میں سفیدی (یعنی برص کی بیماری) تھی۔ اس نے اللہ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بدن سے سفیدی کو ختم کردیا ہاں صرف ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر سفیدی باقی رہ گئی ہے۔ پس تم میں سے جو شخص اس (اویس) سے ملے اس کو چاہئے کہ اس سے اپنے لئے مغفرت کی دعا کرائے، ایک اور روایت میں یوں ہے کہ (حضرت عمر نے بیان کیا کہ) میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، تابعین میں بہتر شخص وہ ہم جس کا نام اویس ہے اس کی ایک ماں ہوگی اور اس کے بدن پر برص کا نشان ہے، پس تم اس سے اپنے لئے دعا مغفرت کرانا۔ (مسلم) تشریح وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا ان الفاظ سے آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اہل و عیال میں سے صرف ایک ماں کے علاوہ اور کوئی یمن میں اس کا نہیں ہے اور اسی ماں کی خدمت وخبر گیری نے اس کو یمن سے چل کر یہاں میری زیارت و ملاقات کے لئے آنے سے باز رکھا ہے۔ اگر اس کو اپنی ماں کی تنہائی اور بےکسی کا فکر نہ ہوتا تو وہ ضرور میری خدمت میں حاضر ہوتا اور میری زیارت و صحبت کا شرف حاصل کرتا۔ ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر یہاں راوی کو شک ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک درہم کے بقدر فرمایا تھا یا ایک دینار کے بقدر کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے، بہرحال دعا کے نتیجہ میں برص کا ختم ہوجانا اور ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر معمولی سا نشان باقی رہ جانا شاید قدرت کی اس مصلحت کے تحت ہوگا کہ اس مرض کی کچھ نہ کچھ علامت باقی رہے جیسا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا بہشتی لباس سفیدی اور چمک میں ناخن کی طرح تھا جو کبھی میلا نہیں ہوتا تھا پھر دنیا میں آنے کے بعد ان میں بھی اور ان کی نسل میں بھی اسی لباس کا ذراسا نشان ناخن کی صورت میں باقی رہ گیا اور یا اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم پر برص کا وہ تھوڑا سانشان اس مصلحت سے باقی رہنے دیا کہ وہ شرم کے مارے لوگوں میں خلط ملط رکھنے سے با زرہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اویس قرنی گوشہ نشینی اور گمنامی کو اختیار کئے ہوئے تھے، لوگوں کے درمیان خلط ملط رکھنے اور شہرت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ اور ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ خود انہوں نے دعا کی تھی کہ پروردگار ! میرے جسم پر اس مرض کا تھوڑا سا نشان باقی رکھئے تاکہ کر میں تیری نعمت کو یاد رکھوں اور اس کا شکر ادا کرتا رہوں کہ تو نے مجھے اس برے مرض سے نجات عطا فرمائی تابعین میں سے بہترین شخص حضرت اویس کو آنحضرت ﷺ نے بہترین تابعی اس اعتبار سے فرمایا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے اور عذر شرعی نے ان کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے سے باز رکھا تھا ظاہر ہے کہ ان الفاظ میں حضرت اویس کی مدح و تعریف ہے نیز اس ارشاد رسالت سے معلوم ہوا کہ اہل خیر وصلاح سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنی چاہئے اگرچہ درخواست کرنے والا ان اہل خیر وصلاح سے افضل ہو۔ اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ تعریفی الفاظ حضرت اویس قرنی کا دل خوش کرنے کے لئے ارشاد فرمائے تھے اور اس کا مقصد ان لوگوں کے واہمہ کا دفعیہ جو شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ اویس آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے اور شرف زیارت و صحبت حاصل کرنے سے قصدا اعراض کررہا ہے۔ حالانکہ خدمت رسالت میں ان کے حاضر نہ ہونے کی وجہ ماں کی دل داری اور ماں کی خدمت وخبر گیری کا عذر شرعی تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تابعین میں سب سے بہتر حضرت اویس قرنی ہیں جب کہ حضرت امام احمد بن حنبل سے منقول ہم کہ تابعین میں سب سے بہتر اور افضل سعید بن مسیب ہیں، لیکن ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ حضرت سعید بن مسیب تو علوم دین اور احکام شرائع کی معرفت سب سے زیادہ رکھنے کے سبب تابعین میں افضل ہیں اور اللہ کے نزدیک ثواب کی کثرت کے اعتبار سے حضرت اویس قرنی تابعین میں افضل ہیں اور قاموس میں جو یہ لکھا ہے کہ اویس قرنی سادات تابعین میں سے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ حدیث کے الفاظ بھی اسی معنی پر محمول ہیں۔ حضرت اویس قرنی کی شان میں جو اور آثار واخبار منقول ہیں اور جن کو سیوطی (رح) نے جمع الجوامع میں ذکر کیا ہم، ان کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ سیوطی کہتے ہیں کہ اسیر بن جابر نے بیان کیا ہے، جب تک حضرت اویس، حضرت عمر فاروق کے پاس نہیں پہنچے تھے، وہ (عمر فاروق) یمن سے آنے والے ہر اسلامی لشکر اور قافلے سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا تمہارے ہاں کوئی شخص اویس بن عامر ہے اور جب حضرت اویس دربار فاروقی میں پہنچے تو حضرت عمر نے ان سے پو چھا ! کیا تم اویس بن عامر ہو ؟ وہ بولے ہاں میں اویس بن عامر ہوں ! پھر حضرت عمر نے پوچھا کیا تم قبیلہ مراد سے تعلق رکھتے ہو اور قرنی ہو ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں حضرت عمر نے پوچھا کیا تم کو برص کا مرض لاحق تھا اور پھر تم اچھے ہوگئے سوائے ایک درہم کے بقدر نشان کے ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں حضرت عمر نے پوچھا کیا تمہاری ایک ماں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں ! تب حضرت فاروق اعظم نے فرمایا ! میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تمہارے پاس ایک شخص اویس بن عامر اہل یمن کے اسلامی لشکر اور قافلے کے ساتھ آئے گا جو قبیلہ مراد سے تعلق رکھتا ہوگا اور قرن کا ہوگا، اس کو برص کا مرض لاحق تھا جواب جاتا رہا ہے مگر ایک درہم کے بقدر نشان باقی رہ گیا ہے، اس کی ایک ماں ہے جن کی خدمت وخبر گیری میں مصروف ہے۔ (ان کی شان یہ ہے کہ) اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر کسی بات پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم سچی کرتا ہے، اگر تم سے ہوسکے اس سے درخواست کرنا۔ پس اے اویس میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے لئے دعاء مغفرت کرو، (یہ سن کر) حضرت اویس بولے امیر المؤمنین ! یہ آپ کیا فرما رہے ہیں مجھ جیسا آدمی آپ کے لئے دعا مغفرت کرے ؟ حضرت عمر نے فرمایا یقینا تمہیں میرے لئے دعا مغفرت کرنی ہے۔ تب حضرت اویس قرنی نے فاروق اعظم کے لئے دعاء مغفرت کی۔ پھر فاروق اعظم نے پوچھا کہ اویس ! اب بتاؤ کہاں جانا چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ میں کوفہ جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ حضرت عمر نے پوچھا کیا تمہارے بارے میں کوفہ کے حاکم کو کچھ لکھ دوں ؟ حضرت اویس بولے بس مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دیجئے، میں لوگوں سے دور اور درماندہ رہنا ہی اپنے لئے زیادہ اچھا سمجھتا ہوں اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دئیے۔ اگلے (کوفہ سے) ایک یمنی معزز شخص حج کے لئے آیا اور حضرت عمر کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو حضرت عمر نے اس سے حضرت اویس کے بارے میں پوچھا کہ کس حال میں ہیں ؟ اس شخص نے بتایا کہ میں نے ان کو بہت پھٹے پرانے کپڑوں اور بےسروسانی کی حالت میں چھوڑا ہے، حضرت عمر نے اس کے سامنے آنحضرت ﷺ کی مذکورہ حدیث پڑھی۔ چناچہ وہ شخص جب واپس حضرت اویس کے پاس پہنچا تو ان سے دعائے مغفرت کی درخواست کی حضرت اویس نے اس سے کہا کہ تم بھی میرے لئے دعاء مغفرت کرو کیونکہ تم نیک سفر سے واپس آئے ہو، اس شخص نے پھر کہا کہ آپ میرے لئے دعا مغفرت کیجئے اور اس کے ساتھ اس نے حضرت عمر کی روایت کردہ حدیث ان کے سامنے پڑھی، تب حضرت اویس نے اس کے لئے دعائے مغفرت کی، اس کے بعد جب لوگوں کو حضرت اویس کا مقام معلوم ہوا اور ان کی حقیقت حال کا چرچا ہوا تو وہاں سے چلے گئے۔ ایک اور روایت میں یوں ہے اسیر بن جابر نے بیان کیا کہ کوفہ میں ایک محدث تھے جو ہمارے سامنے احادیث بیان کرتے تھے، جب وہ حدیثیں بیان کرکے فارغ ہوتے تو لوگ منتشر ہوجاتے تھے مگر چند آدمی اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے تھے اور ان میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو بڑی عجیب و غریب باتیں کرتا تھا ویسی باتیں مجھ کو کسی زبان سے سننے کا موقع نہیں ملا تھا، چناچہ میں اس کے پاس بھی جا کر بیٹھ جایا کرتا تھا، ایک دن میں نے اس شخص کو اس کی جگہ پر نہیں پایا تو اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی شخص اس آدمی کو بھی جانتا ہے جو یہاں ہمارے پاس بیٹھا کرتا تھا اور بڑی عجیب و غریب باتیں کرتا تھا، ایک شخص بولا کہ ہاں میں اس آدمی کو جانتا ہوں، وہ اویس قرنی ہیں میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم ان کی قیام گاہ کو جانتے ہو ! وہ بولا کہ ہاں جانتا ہوں چناچہ میں اس شخص کے ساتھ ہولیا اور اویس قرنی کے حجرہ پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ باہر نکلے تو میں نے پوچھا کہ میرے بھائی ! ہمارے درمیان موجود رہنے سے کس چیز نے تمہیں باز رکھا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا عریانیت نے، یعنی میرے پاس اتنے کپڑے نہیں ہیں جس سے اپنے جسم اور ستر کو پوری طرح چھپائے رکھوں اور اسی وجہ سے تم لوگوں کے درمیان آنے سے بچ رہا ہوں، یہ حقیقت ہے کہ ان کے ہمو طن اور ان کے اردگرد کے لوگ ان کی خستہ حالی کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور ان کو ستانے سے بھی باز نہیں رہتے تھے۔ بہرحال میں نے اپنی چادر ان کو پیش کی اور کہا کہ لیجئے یہ چادر اوڑھ لیجئے، انہوں نے کہا کہ نہیں تم یہ چادر مجھ کو مت دو اور جب لوگ میرے جسم پر اس چادر کو دیکھیں گے تو میرا مذاق اڑائینگے اور مجھ کو ستائیں گے تاہم میں نے جب بہت زیادہ اصرار کیا تو انہوں نے وہ چادر لے کر اوڑھ لی اور پھر اپنے حجرہ سے نکل کر لوگوں کے درمیان باہر آئے، لوگوں نے ان کو چادر میں دیکھا تو کہنا شروع کیا کہ میاں کس کو دھوکہ دے دیا، کس سے یہ چادر ہتھیا لی ہے۔ حضرت اویس نے یہ سن کر مجھ سے کہا کہ تم دیکھ رہے ہو، لوگ کیا کہہ رہے ہیں اسی خوف سے میں چادر نہیں لے رہا تھا، میں نے ان لوگوں کو ڈانٹا کہ آخر تم اس درویش سے کیا چاہتے ہو، کا ہے کو اس کو ستا رہے ہو یہ بھی ایک انسان ہے جو کبھی بےلباس رہنے پر مجبور ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو لباس میں نظر آنے لگتا ہے، غرضیکہ میں نے ان لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر ہٹا دیا، پھر ایسا اتفاق ہوا کہ کچھ دنوں بعد کوفہ سے چند لوگ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے ان میں ایک وہ شخص بھی تھا جو حضرت اویس قرنی کا مذاق اڑایا کرتا تھا، حضرت عمر نے دوران گفتگو ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کا تعلق قرن سے ہو ان لوگوں نے اس شخص کو آگے کردیا جو حضرت اویس قرنی کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ حضرت عمر نے پہلے تو اس کے سامنے وہ حدیث پڑھی جو آنحضرت ﷺ نے حضرت اویس کی شان میں فرمائی تھی اور پھر اس شخص سے بولے کہ میں نے سنا ہے کہ وہ یمنی شخص (یعنی حضرت اویس قرنی) کوفہ میں تم لوگوں کے ہاں پہنچا ہوا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا کہ ہمارے تو ایسا شخص کوئی نہیں ہے اور نہ ہم کو کسی ایسے شخص کو پہچانتے ہیں، حضرت عمر نے فرمایا کہ تمہیں معلوم نہیں ہوگا لیکن وہ شخص تمہارے ہی ہاں ہے اور پھر اس کی علامت بتلائی کہ وہ اس طرح خراب وخستہ حال ہے تب اس شخص نے کہا کہ ہاں ایک شخص ہمارے ہاں ہے، اس کا نام اویس ہے اور ہم اس کا مذاق بھی اڑایا کرتے ہیں حضرت عمر نے اس شخص سے فرمایا اب تو کوفہ جاؤ تو اس شخص سے ضرور ملنا (اور اپنی گستاخیوں وبے ادبیوں کی معافی چاہ کر اس سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا) اگرچہ مجھ کو شبہ ہے کہ اب تم اس کو نہیں پاؤگے یا نہیں، بہرحال وہ شخص کوفہ روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اپنے گھر والوں کے پاس بعد میں گیا، پہلے حضرت اویس قرنی کی خدمت میں پہنچا۔ حضرت اویس نے اس شخص کو دیکھا تو بولے میرے تئیں تمہارے رویہ میں یہ تبدیلی کیسی ؟ اس شخص نے کہا میں نے آپ کی تعریف امیر المؤمنین سے سنی ہے آپ کے بارے میں انہوں نے مجھ کو سب کچھ بتادیا ہے للہ ! آپ مجھے معاف فرمادیجئے، مذاق اڑانے گستاخی کرنے والے اور بےادبی کے ساتھ پیش آنے کی صورت میں میں نے آپ کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہے اس سے درگزر فرمائے اور میرے لئے دعائے مغفرت کیجئے۔ حضرت اویس قرنی نے اس سے کہا کہ میں تمہارے لئے دعائے مغفرت کئے دیتا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ تم نے میرے بارے میں امیر المؤمنین حضرت عمر سے جو کچھ سنا ہے اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گے، اس کے بعد انہوں نے دعائے مغفرت کی۔ اسیر ابن جابر جو اس کے راوی ہیں بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت اویس کا مقام کوفہ والوں کو معلوم ہوا۔ ایک اور روایت میں حضرت یحییٰ بن سعید المسیب سے اور حضرت امیر المؤمنین عمر فاروق سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے بیان کیا ایک دن رسول کریم ﷺ نے مجھ کو آواز دی کہ اے عمر ! میں بولا، یا رسول اللہ ﷺ میں حاضر ہوں، جو حکم ہو بجالانے کو تیار ہوں، حضرت عمر کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے جب مجھ کو آواز دی تو میں نے گمان کیا کہ آپ ﷺ کسی کام سے مجھ کو کہیں بھیجیں گے، لیکن پھر آپ ﷺ نے مجھ سے یوں فرمایا اے عمر ! میری امت میں ایک شخص جس کو اویس کہا جائے گا، اس کے بدن کو ایک بلا یعنی برص کی بیماری لاحق ہوگی، وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی اس بیماری کو دور کردے گا مگر اس کا کچھ داغ اس کے پہلو پر باقی رہ جائے گا تم اس کو دیکھو گے تو تمہیں عزوجل یاد آجائے گا۔ جب تم اس سے ملنا تو اس کو میرا سلام پہنچانا اور اس سے اپنے لئے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا کیونکہ وہ اپنے پروردگار کے ہاں ایسا معزز اور ایسا بزرگ ہے کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر کسی بات پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم سچی کرے وہ اللہ تعالیٰ سے اتنے زیادہ لوگوں کی شفاعت کرے گا جتنے ربیعہ اور مضر جیسے کثیر القوم قبیلوں میں بھی افراد نہیں ہیں حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ یہ ارشاد رسالت سننے کے بعد میں نے اس شخص کی تلاش آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی کی مگر اس شخص کو نہیں پاسکا، پھر میں نے حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں بھی اس شخص کی ٹوہ میں رہا، مگر اس تک نہیں پہنچ سکا اور پھر جب میرا عہد امارت و خلافت آیا تو میں اور زیادہ تلاش و جستجو میں لگ گیا یہاں تک کہ مختلف شہروں اور علاقوں سے جو بھی قافلے آتے تو میں ہر ایک سے یہی سوال کرتا کہ کیا تم میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کا نام اویس ہو، قبیلہ مراد سے تعلق رکھتا ہو اور قرن کا ہو، اسی تلاش و جستجو کے دوران قرن سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ امیر المؤمنین آپ جس شخص کو پوچھتے ہیں وہ میرے چچا کا بیٹا ہے لیکن وہ تو نہایت خستہ حال کم رتبہ اور بےحیثیت شخص ہے، بھلا وہ اس درجہ کا کب ہے کہ آپ جیسی ہستی عظیم اس کا حال دریافت کرے۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ مجھ کو ایسا لگ رہا ہے کہ تو اس آدمی کی شان میں ایسے حقارت آمیز الفاظ استعمال کرکے ان لوگوں میں سے ہے جو اس کے تئیں گستاخانہ رویہ اختیار کرنے کے سبب ہلاکت میں پڑنے والے ہیں۔ میں اس شخص سے یہ کہہ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک اونٹ آتا دکھائی دیا جس پر ایک بوسیدہ پالان بند ھا ہوا تھا اور اس پالان میں ایک ایسا شخص بیٹھا ہوا تھا جس نے پھٹے پرانے کپڑوں سے اپنے جسم کا کچھ حصہ ڈھک رکھا تھا، اس کو دیکھتے ہی میرے دل میں آیا کہ یہی شخص اویس ہے، پھر میں اس کی طرف لپکا اور اس سے پوچھا بندہ خدا ! کیا تم ہی اویس قرنی ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا ہاں ! میں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے تمہیں سلام کہا ہے تھا وہ شخص بولا علی رسول اللہ ﷺ السلام وعلیک یا امیر المؤمنین، اس کے بعد میں نے کہا آنحضرت ﷺ کا یہ حکم ہے کہ تم میرے لئے دعائے مغفرت کرو۔ اس کے بعد میرا معمول ہوگیا کہ ہر سال حج کے موقع پر اویس سے ملاقات کرتا اپنے احوال و اسرار ان سے بیان کرتا اور وہ اپنے حال و اسرار مجھ سے بیان کرتے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت حسن بصری نے بیان کیا جب حج کے دنوں میں قرن کے لوگ آئے تو امیر المؤمنین عمر نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں کوئی شخص اویس نامی ہے، ان میں سے ایک شخص بولا کہ امیر المؤمنین، بھلا اس شخص سے آپ کو کیا واسطہ ؟ وہ تو ایک ایسا شخص ہے جو کھنڈرات میں پڑا رہتا ہے اور لوگوں کے درمیان آنے جانے سے اجتناب کرتا ہے، حضرت عمر نے فرمایا جب تو واپس جاؤ تو اس کو میرا سلام پہنچانا اور اس سے کہنا کہ مجھ سے ملاقات کرے، اس شخص نے واپس جا کر حضرت عمر کا پیغام پہنچادیا اور حضرت اویس امیر المؤمنین ! حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عمر نے ان سے پوچھا اویس تم ہی ہو ؟ وہ بولے ہاں اے امیرالمؤمنین ! حضرت عمر نے پوچھا کیا تمہارے بدن پر سفیدی تھی اور تم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اس سفیدی کو تمہارے بدن سے دور کردیا تھا اور پھر تم نے یہ دعا کی تھی کہ اس سفیدی کا کچھ نشان باقی رہے ؟ اویس بولے ہاں لیکن اے امیر المؤمنین یہ سب کچھ آپ کو کس نے بتایا ؟ حضرت عمر نے کہا مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا تھا اور مجھ کو حکم دیا تھا کہ میں تم سے اپنے لئے دعائے مغفرت کی درخواست کروں، چناچہ حضرت اویس نے حضرت عمر کے لئے مغفرت کی دعا کی اور پھر بولے کہ اے امیر المؤمنین ! آپ سے بس اتنا چاہتا ہوں کہ آپ میری شخصیت اور میرے احوال کو پوشیدہ رکھیں اور مجھ کو یہاں سے واپس جانے کی اجازت عطا فرمائیں، چناچہ حضرت اویس نے ہمیشہ آپنے آپ کو چھپائے رکھا تاآنکہ جنگ نہاوند میں شہید ہوئے۔ ایک روایت میں سعید بن مسیب نے اس طرح بیان کیا کہ (ایک سال حج کے موقع پر) امیر المؤمنین حضرت عمر نے منیٰ میں منبر پر کھڑے ہوئے آواز دی اے اہل قرن ! معمر قرنی لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے ہم حاضر ہیں اے امیر المؤمنین ! کیا حکم ہے امیر المؤمنین عمر نے پوچھا، کیا قرن میں کوئی ایسا شخص ہے جس کا نام اویس ہے ؟ ان میں سے ایک معمر شخص نے جواب دیا، ہم لوگوں کے درمیان رہنے والا کوئی شخص اس نام کا نہیں ہے، ہاں ایک دیوانہ صفت کا نام اویس ضرور ہے جو جنگلوں میں رہتا ہے نہ کوئی اس کے ساتھ الفت وموانست رکھتا ہے اور نہ خود وہ کسی کے ساتھ صحبت و اختلاط کا روادار ہے۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا بس وہی شخص میرا مطلوب ہے، جب تم قرن واپس جاؤ تو اس شخص کو تلاش کرکے میرا سلام اس کو پہنچا دینا اور کہنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو تمہارے تئیں خوشخبری دی ہے اور مجھ کو حکم دیا تھا کہ میں تم تک رسول اللہ ﷺ کا سلام پہنچاؤں، چناچہ جب وہ لوگ قرن پہنچے تو اویس کو تلاش کیا وہ ریگستانوں میں پڑے ہوئے پائے گئے، ان لوگوں نے ان کو حضرت عمر کا سلام اور ان کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ کا سلام پہنچا دیا، حضرت اویس بولے، امیرالمؤمنین نے تو میرا چرچا کردیا اور میرا نام کو شہرت دے دی۔ اسلام علی رسول اللہ ﷺ وعلی آلہ اور یہ کہہ کر لق ودق جنگل میں جاگھ سے اور مدتوں کسی نے ان کا نام ونشان نہیں پایا یہاں تک کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہد خلافت میں پھر نمودار ہوئے اور ان کی طرف سے لڑتے ہوئے جنگ صفین میں شہید ہوگئے۔ صعصہ بن معویہ (رض) کی روایت میں اس طرح ہے کہ انہوں نے بیان کیا اہل کوفہ کا کوئی بھی قافلہ جب حضرت عمر فاروق کے پاس آتا تو وہ اس سے پوچھتے کہ کیا لوگ اویس بن عامرقرنی کو جانتے ہو، اہل قافلہ جواب دیتے ! ہم میں سے کوئی اس نام کے شخص کو نہیں جانتا اور حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں حضرت اویس کوفہ کی ایک مسجد میں پڑے رہتے تھے وہاں سے نہ باہر نکلتے تھے اور نہ کسی سے کچھ تعارف رکھتے تھے، ان کا ایک چچا زاد بھائی تھا جوان کو ستایا کرتا تھا۔ اتفاق کی بات کہ کوفہ کے ایک قافلہ میں وہ بھی شریک ہو کر ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق کے ہاں پہنچا تو حضرت عمر فاروق نے حسب معمول اہل قافلہ سے سوال کیا ! کیا تم لوگ حضرت اویس بن عامر قرنی کو جانتے ہو ؟ یہ سوال سن کر حضرت اویس کا وہی چچا زاد بھائی اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا کہ یا امیر المؤمنین ! اویس اس درجہ کا آدمی نہیں ہے کہ آپ اس کے بارے میں پوچھیں اور اس کا تعارف حاصل کریں، وہ تو نہایت کمتر اور بےحیثیت انسان ہے اگرچہ وہ میرا چچازاد بھائی ہے حضرت عمر نے اس شخص کی زبان سے یہ تحقیری کلمات سنے تو فرمایا تجھ پر افسوس، تو نے اویس کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرکے اپنی ہلاکت مول لے لی ہے پھر حضرت عمر نے وہ حدیث پڑھی جو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے حضرت اویس کی شان میں سنی تھی، اس کے بعد حضرت عمر نے اس شخص سے فرمایا کہ جب تم واپس پہنچو تواویس کو میرا سلام کہنا، اس واقعہ کے بعد حضرت اویس کی شخصیت مشہور ہوگئی لیکن وہ عام نظروں سے پوشیدہ ہوگئے۔ اس سلسلہ میں ایک روایت حضرت ابن عباس (رض) سے بھی منقول ہے، انہوں نے بیان کیا کہ پہلے تو دس سال تک حضرت عمر فاروق نے اویس قرنی کے بارے میں کوئی تلاش و جستجو نہیں کی، پھر انہوں نے ایک سال حج کے دوران اہل یمن کو آواز دے کر کہا کہ تم میں جو لوگ قبیلہ مراد سے تعلق رکھتے ہوں وہ کھڑے ہوجائیں چناچہ قبیلہ مراد کے لوگ کھڑے ہوگئے اور باقی لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہے، حضرت عمر نے ان (قبیلہ مراد کے لوگوں) سے پوچھا ! کیا تم میں کوئی شخص اویس نام کا ہے ؟ یہ سن کر ایک شخص بولا کہ اے امیر المؤمنین ! ہمیں نہیں معلوم آپ کس اویس کو پوچھ رہے ہیں، ہاں میرا ایک بھتیجا ہے جس کو لوگ اویس اویس کہہ کر پکارتے ہیں اور وہ اس درجہ کا پست وبے حیثیت انسان ہے کہ آپ جیسی ہستی کو اس سے کیا سروکار ہوگا۔ حضرت عمر نے پوچھا کیا وہ حدود حرم میں موجود ہے ؟ اس نے کہا ہاں، میدان عرفات سے متصل اراک جھاڑیوں میں لوگوں کے اونٹ چرارہا ہے (گویا حضرت اویس اپنی شخصیت چھپانے کے لئے لوگوں کے اونٹ چرا رہے تھے تاکہ ایک چرواہے سے زیادہ کوئی اہمیت ان کو نہ دی جائے) حضرت عمر نے یہ سنا تو حضرت علی کو اپنے ساتھ لیا اور دونوں ایک گدھے پر سوار ہو کر اراک کی طرف روانہ ہوگئے، وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اویس کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں اور اپنی نظریں سجدہ گاہ پر گاڑے ہوئے ہیں ان کو اس حالت میں دیکھ کر حضرت عمر اور حضرت علی نے آپس میں کہا کہ جس شخص کی تلاش میں ہم لوگ ہیں ہو نہ ہو یہ وہی شخص ہے، حضرت اویس کے کانوں میں جب ان دونوں کی آہٹ پڑی تو انہوں نے نماز کو مختصر کردیا اور فارغ ہو کر ان کی طرف متوجہ ہوئے ان دونوں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے دونوں کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا علیکم السلام ورحمتہ اللہ۔ پھر حضرت عمر اور حضرت علی مرتضیٰ نے پوچھا برادرم ! تمہارا نام کیا ہے اللہ کی رحمت و سلامتی نازل ہو تم پر ! اویس بولے میں عبداللہ ہوں سیدنا علی المرتضیٰ نے کہا، ہمیں معلوم ہے، آسمانوں میں اور زمین پر جو بھی متنفس ہے، وہ عبداللہ ہے۔ میں تم کو پروردگار کعبہ اور پروردگار حرم کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، تمہارا وہ نام کیا ہے جو تمہاری ماں نے رکھا ہے۔ حضرت اویس نے کہا تم لوگ مجھ سے آخر چاہتے کیا ہو، میر انام اویس بن مراد ہے۔ حضرت عمر اور حضرت علی نے کہا ذرا اپنا بایاں پہلو کھول کر دکھاؤ، حضرت اویس نے اپنا بایاں پہلو کھول دیا، ان دونوں نے دیکھا کہ اس جگہ ایک درہم کے بقدر سفیدی کا نشان موجود ہے۔ دونوں تیزی کے ساتھ اویس کی طرف لپکے تاکہ اس نشان کو بوسہ دیں اور بولے کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم آپ ﷺ کا سلام تمہیں پہنچائیں اور یہ کہ تم سے اپنے لئے دعاء مغفرت کی درخواست کریں۔ حضرت اویس نے کہا میں تو مشرق ومغرب کے ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے دعا گو ہوں۔ ان دونوں نے فرمایا ہم خاص طور پر اپنے لئے دعائے مغفرت کے طلب گار ہیں۔ چناچہ حضرت اویس نے بالخصوص ان دونوں کے لئے اور بالعموم تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعائے مغفرت کی، اس کے بعد حضرت عمر نے فرمایا میں اپنی جیب خاص سے یا (بیت المال کے) اپنے عطیہ سے تمہیں کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں حضرت اویس بولے یہ پھٹے پرانے کپڑے میرے پاس ہیں میری دونوں پاپوشیں گانٹھ دی گئی ہیں، چار درہم بھی میرے پاس ہیں جب یہ اثاثہ ختم ہوجائے گا تو آپ کا عطیہ قبول کرلوں گا اور انسان کی بات تو یہ ہے کہ جو کوئی ہفتہ بھر کے لئے آرزو کرتا ہے اس کی آرزو مہینہ بھر تک کے لئے دراز ہوجاتی ہے اور جو کوئی مہینہ بھر کے لئے آرزو کرتا ہے اس کی آرزو سال سال بھر تک کے لئے دراز ہوجاتی ہے (یعنی انسان اگر قناعت کا دامن چھوڑ دے تو پھر اس کی آرزوئیں اور حرصیں بڑھتی چلی جاتی ہیں) اس کے بعد حضرت اویس نے اونٹوں کو ان کے مالکوں کے حوالے کیا اور خود وہاں سے ایسے روپوش ہوئے کہ پھر کبھی نہیں دیکھے گئے۔

【3】

اہل یمن کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ (جب یمن سے ابوموسیٰ اشعری (رض) اور ان کی قوم کے لوگ خدمت رسالت پناہ میں حاضر ہوئے تو) آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے پاس یمن کے لوگ آئے ہیں جو (تمہارے پاس آنے والے اور لوگوں کی بہ نسبت) زیادہ رقیق القلب اور زیادہ نرم دل ہیں ایمان یمن کا ہے اور حکمت بھی یمنی ہے اور فخر (یعنی اپنے مال ومنصب وغیرہ کے ذریعہ اپنی بڑائی مارنا) اور تکبر کرنا اونٹ والوں میں سے ہے، جب کہ اطمینان و تحمل اور وقار بکری والوں میں ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح ارق افئدۃ میں ارقکالفظ رقۃ سے ہے جس کے معنی نرمی اور رحم و شفقت کے ہیں اور جو قساوت یعنی سنگ دلی وبے رحمی اور غلاظت یعنی سختی و کثافت کی ضد ہے۔ افئدۃ جمع ہے فؤ اد کی جس کے معنی دل کے ہیں بعض حضرات کا تو یہ کہنا ہے کہ فؤ اد دل کے باطن کو کہتے ہیں جب کہ بعض حضرات کے نزدیک اس لفظ کا اطلاق ظاہر طور پر ہوتا ہے۔ بہرحال ارق افئدۃ کا مطلب یہ ہے کہ اہل یمن باطن کی حیثیت سے نرمی و شفقت اور رحم ومروت کا مادہ بہت زیادہ رکھتے ہیں اور الین قلوبا (نرم دل ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہل یمن بحسب ظاہر کے نصیحت وموعظت کا اثر اور لوگوں کی بہ نسبت جلد قبول کرلیتے ہیں قبول حق کی استعداد اور لوگوں کی بہ نسبت ان کے دل میں زیادہ ہے۔ اور حضرت شیخ عبد الحق دہلوی (رح) نے لکھا ہے کہ افئدۃ جمع ہے فؤ اد کی جس کے معنی دل کے ہیں اور قلوب جمع قلب کی، جو تقلب سے ہے اور جس کے معنی ہیں، پلٹنا یعنی ایک حالت چھوڑ کر دوسری حالت کی طرف آنا، چونکہ اکثر اہل لغت نے فواد اور قلب کا ذکر ایک ہی معنی میں کیا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ حدیث میں ان دونوں کا ذکر تاکید کے لئے ہے۔ واضح ہو کر یہ حدیث باب وفاۃ النبی ﷺ کی تیسری فصل میں بھی نقل ہوئی ہے لیکن وہاں صرف ارق افئدۃ کے الفاظ ہیں لین قلوبا کے الفاظ نہیں ہیں اور اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ معنی کے اعتبار سے یہ دونوں جملے یکساں ہیں بعض حضرات نے کہا ہے کہ فواد اصل میں دل کے پردہ کو کہتے ہیں جب یہ پردہ باریک ہوتا ہے تو حق بات اس میں داخل ہوتی ہے اور دل تک پہنچ جاتی ہے اور پھر جب دل نرم ہوتا ہے تو وہ حق بات اس کے اندر بھی داخل ہوجاتی ہے پس رقت غلظت کی ہے اور لین صلابت کی۔ اور یہ دونوں اسلامی دل کی ایک خاص کیفیت وحالت کا نام ہیں جب انسان کا دل اللہ کی اتاری ہوئی آیتوں اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے پندونصائح سے متاثر نہیں ہوتا تو اس کو غلظت وصلابت کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اور جب انسان کا دل ان سے متاثر ہوتا ہے اس کو رقت اور لین کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے یہاں علامہ طیبی (رح) کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ حدیث میں رقت سے مراد جودت فہم ہو اور لین سے مراد حق بات کا قبول کرنا ہو، ایمان یمن کا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔ یہاں یمانیۃ کا لفظ بعض روایتوں میں ی کی تشدید کے ساتھ یمانیۃ بھی منقول ہے، بہرحال آنحضرت ﷺ نے ایمان و حکمت کو یمن کے ساتھ اس اعتبار سے منسوب فرمایا کہ اس وقت کے دوسرے اہل مشرق کے مقابلے میں یمن کے لوگ سب سے زیادہ کمال ایمان کے ساتھ متصف تھے اور جیسا کہ باب بدء الخلق کی روایت میں گذرا یہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ہی تھے، جنہوں نے قبول اسلام کے لئے بمعنی لوگوں کی سربراہی کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری کے موقع پر آنحضرت ﷺ سے آفرنیش عالم، ابتدائے کائنات اور اس سلسلے کے حکم و اسرار کے بارے میں سوال کرکے حکمت و دانائی سے یمنی لوگوں کی فطری وابستگی کا اظہار فرمایا اور یہ پھر حکمت و دانائی کا کمال انہی کا طفیل اور انہی کی وراثت تھی جس کا ظہور حضرت ابوالحسن اشعری کی ذات میں ہوا جو اہل سنت والجماعت آئمہ میں سے ہیں اور حضرت موسیٰ اشعری کی اولاد میں سے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ یہاں حکمت سے مراد رفقہ فی الدین ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ حکمت سے مراد منہ سے صرف ایسی نیک بات نکلنا ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں مفید ہو اور ہلاکت و تباہی سے بچانے والی ہو۔ اور فخر اور تکبر کرنا اونٹ والوں میں سے۔۔۔۔۔ اس ارشاد گرامی سے معلوم ہوا کہ حیوانات اور جانوروں کی مخالطت انسان کی طبیعت وسرشت پر اثر انداز ہوتی ہے جو انسان جس جانور کے ساتھ اپنا وقت زیادہ گزارتا ہے اس کے اندر وہ خصلت خود سرایت کر جاتی ہے جو اس جانور کی طبیعت وطینت کا خاصہ ہوتی ہے۔ مثلا کوئی شخص اونٹوں کے درمیان رہتا ہے اور اونٹ چرانے کا کام کرتا ہے تواونٹ کی سرشت میں قساوت وغلظت ہے اس لئے اس شخص کی خو اور اس کی عادات واطوار میں بھی قساوت اور غلظت آجاتی ہے، اسی طرح بکری ایسا جانور ہے جس کی طبیعت میں تحمل نرمی اور مسکینی ہوتی ہے، پس جو شخص بکریاں پالتا ہے، بکر یاں کے درمیان رہتا ہے اور بکریاں چراتا ہے تو اس کی خو اور اس کے عادات واطوار میں تحمل نرمی اور مسکین آجاتی ہے، اسی پر دوسرے جانوروں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے اور بعض حضرات نے یوں لکھا ہے کہ بکریاں پالنے والے اور بکریاں چرانے والے آبادی کے قریب رہتے ہیں اور بستی والوں سے خلط ملط رکھتے ہیں کیونکہ بکریاں پانی کے بغیرصبر نہیں کرسکتیں اور جاڑے وغیرہ کے سخت موسم کو برداشت کرنے کی تاب ان میں نہیں ہوتی۔ اور اس بناء پر وہ آبادی سے دور ویرانوں اور بےآب وگیاہ میدانوں میں نہیں جاتیں جو اس بات کی علامت ہے کہ ان کی سرشت میں نرمی اور مسکینی اور کمزوری شامل ہوتی ہے اور یہ بعض آبادیوں میں اور لوگوں کے درمیان رہنا ایسی چیز ہے جو طبیعت میں نرمی ومروت پیدا کرتی ہے اور اطاعت و فرمانبرداری کی طرف لے جاتی ہے اور اپنے حاکم کی سرکشی سے باز رکھتی ہے، اس کے برخلاف اونٹ ایک ایسا سخت طبیعت جانور ہوتا ہے جو آبادیوں اور بستیوں سے دور میدانوں اور صحراؤں میں زیادہ رہتا ہے اور اسی سبب سے اونٹ والوں کو بھی آبادی سے دور رہنا پڑتا ہے اور لوگوں سے ان کا ملنا جلنا کم ہی ہوتا ہے اور یہ چیز ایسی ہے جو طبیعت میں سختی ودرشتی، طغیانی و سرکشی اور حاکم کی اطاعت و فرمانبرداری سے انحراف کا مادہ پیدا کردیتی ہے، اس جملہ کی وضاحت میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اونٹ مالیت کے اعتبار سے بڑا اور قیمتی اثاثہ ہوتا ہے اس کے برخلاف بکری کم قیمت اثاثہ ہوتی ہے ظاہر جس شخص کے پاس اونٹ ہوں گے وہ اپنے کو زیادہ مالدار سمجھے گا اور یہ چیز اس میں غرور وتکبر پیدا کرنے والی ہوگی اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں گی وہ اپنے کو زیادہ مالدار نہیں سمجھے گا اور یہ چیز اس کے اندر نرمی و قناعت اور مسکینی پیدا ہونے کا باعث بنے گی۔

【4】

کفر کی چوٹی مشرق کی طرف ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کفر کا سرا مشرق کی طرف ہے۔ فخر وتکبر گھوڑے والوں اور اونٹ والوں اور چلانے والوں میں ہے جو اونٹ کے بالوں کے خیموں میں رہتے ہیں (یعنی وہ لوگ جو آبادیوں میں سے دور جنگلات اور صحراؤں میں رہتے ہیں اور اس طرح کے لوگ اس زمانہ میں زیادہ تر اونٹ کے بالوں سے بنے خیموں میں رہتے تھے) اور نرمی ومسکینی بکری والوں میں ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح کفر کی چوٹی سے مراد بڑا کفر ہے جیسا کہ علامہ سیوطی (رح) نے لکھا ہے۔ اور یہ مفہوم مراد لینا زیادہ صحیح ہے کہ کفر پیدا ہونے اور ظاہر ہونے کی جگہ مشرق ہے، چناچہ علامہ طیبی (رح) نے کہا ہے کہ یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے رأس الامر الاسلام (دین کی چوٹی اسلام ہے) گویا کفر کی چوٹی مشرق کی طرف ہے کا مطلب یہ ہوا کہ کفر کا زیادہ ظہور مشرق کی سمت ہے اور ابن ملک نے یہی معنی لکھے ہیں کہ کفر اور دجال اور یاجوج و ماجوج جیسے بڑے فتنے مشرق کی طرف ظاہر ہوں گے اور علامہ نووی (رح) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کفر کو مشرق کے ساتھ مختص کرنے کا مطلب اہل مشرق پر شیطان کے زیادہ تسلط کو ظاہر کرنا ہے اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے اعتبار سے ہے (یعنی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مشرقی اقوم کفر وشرک میں بہت زیادہ مبتلا تھیں جیسا کہ تاتار ہندوستان چین اور جاپان وغیرہ کے لوگ اور یہ ممالک عرب سے مشرق کی جانب واقع ہیں) نیز اس کا اطلاق بایں اعتبار زمانہ آئندہ پر بھی ہوسکتا ہے کہ دجال کا خروج ظہور اس علاقہ سے ہوگا جو عرب کے مشرق میں ہے پس آخر زمانہ میں بھی عرب کا مشرق سب سے بڑے فتنہ کے ظاہر ہونے کی جگہ ہوگا اور سیوطی نے باجی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ یہاں مشرق سے مراد فارس (ایران) ہے یا نجد اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس میں ابلیس کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ روایتوں میں آتا ہے کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے (یعنی جب مشرق میں سورج طلوع ہوتا ہے تو اس وقت شیطان اپنا سر سورج کے قریب کردیتا ہے تاکہ سورج پرستوں کا سجدہ اسی کے لئے ہوجائے۔

【5】

فتنوں کی جگہ مشرق ہے

اور حضرت ابومسعود (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن) آپ ﷺ نے مشرق کی سمت ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ فتنے اس جگہ سے آئے ہیں اور بد زبانی و سنگدلی چلانے والوں اور خیمہ نشینوں میں ہے جو (اپنے مویشیوں کو چرانے کے لئے) اونٹوں اور گایوں کی دموں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، یہ لوگ ربیعہ اور مضر قبائل میں ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح فتنے اس جگہ سے آئے ہیں یعنی وہ فتنہ جو دین کے استحکام و ترقی میں خلل ڈالے گا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائے گا اور لوگوں کو دینی زندگی کے لئے امتحان و آزمائش کا موجب بنے گا، ان علاقوں اور ملکوں سے اٹھے گا جو عرب کی مشرقی سمت میں واقع ہیں۔ چلانے والوں اور خیمہ نشینوں سے مراد یا تو اعراب ہیں یا دوسرے غیر مہذب قبائلی اور جنگلی لوگ، ان کی مذمت اس اعتبار سے فرمائی گئی کہ اس طرح کے لوگ مہذب ومتمدن دنیا سے دور، شہروں اور آبادیوں سے بیگانہ پہاڑوں اور جنگلوں میں پڑے رہتے ہیں جس کے سبب نہ ان کو علم کی روشنی میسر آتی ہے اور نہ تہذیب و تمدن کی خوشبو ان میں ہوتی ہے جبکہ شہروں اور آبادیوں میں رہنے سے اہل علم اور نیک بندوں کی صحبت نصیب ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ دین و شریعت کے علوم و احکام حاصل ہوتے ہیں بلکہ اخلاق و کردار اور مہذب اور نیک پاکیزہ بنتے ہیں، ایسے ہی غیر مہذب قبائلی اور جنگلی لوگوں کے بارے میں حق تعالیٰ نے فرمایا الاعراب اشد کفرا ونفاقا واجدر الا یعلموا حدود ما انزل اللہ علی رسولہ جو اعراب (یعنی غیر مہذب دیہاتی اور جنگلی لوگ) ہیں وہ کفر اور نفاق میں بہت سخت ہیں ان کا حال ایسا ہونا ہی چاہیے کہ ان کو ان احکام کا علم نہیں ہے جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں۔

【6】

سنگدلی وبدزبانی مشرق والوں میں ہے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سنگدلی اور سخت گوئی مشرق میں ہے (کیونکہ کفر اور فتنوں کا مصدر و مرکز اسی طرف کے علاقے ہیں) اور ایمان حجاز والوں میں سے۔ (مسلم ) ۔ تشریح حجاز سے مراد مکہ مدینہ طائف اور ان سے متعلق شہر و آبادیاں ہیں جب کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہاں حجاز والوں سے مراد انصار ہیں۔ حجاز ملک عرب (جزیرۃ العرب) کے اس خطہ کو کہتے ہیں جو نجد اور تہامہ کے درمیان ہے اور اس خطہ کا نام حجاز اس اعتبار سے پڑا کہ یہ خطہ نجد اور تہامہ کے درمیان حاجز یعنی حائل ہے، نجد جزیرۃ العرب کے شمالی اور جنوبی ریگستانوں یعنی النفوذ اور الرابع الخالی کے درمیان تقریبا آٹھ سو میل طویل اور سوا دو سو میل عریض اس خطہ کو کہتے ہیں جو سطح مرتفع پر مشتمل ہے نجد کے معنی بلند زمین کے ہیں اس کے مقابلہ پر اس ملک کا جو حصہ نشیب میں ہے اس کو تہامہ کہا جاتا ہے تہامہ کے معنی پست زمین کے ہیں۔

【7】

شام اور یمن کی فضیلت

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے یوں دعا فرمائی خدایا ! ہمیں ہمارے (ملک) شام میں برکت عطا فرما اور خدایا ! ہمیں ہمارے (ملک) یمن میں برکت عطا فرما۔ یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمارے نجد کے بارے میں بھی (دعا فرمائیے تاکہ ہمیں اس علاقہ کی طرف سے بھی برکت حاصل ہو) لیکن آنحضرت ﷺ نے پھر یہی دعا فرمائی خدایا ! ہمیں ہمارے شام میں برکت عطا فرما اور خدایا ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (دوبارہ) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے نجد کے بارے میں بھی (یہی دعا فرمائیے) راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ تیسری بار آنحضرت ﷺ نے (پھر انہی الفاظ میں دعا کی اور نجد کے بارے میں) فرمایا وہاں زلزلے ہوں گے فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہوتا ہے۔ (بخاری) تشریح دعا میں شام کے ذکر کو یمن کے ذکر پر مقدم رکھنا شاید اس بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد الذی بارکنا حولہ کے بموجب شام کی سر زمین جہاں فلسطین واقع ہے اپنی اصل کے اعتبار سے بابرکت ہے اور چونکہ یہی سر زمین بہت زیادہ انبیاء کرام کی آخری آرام گاہ ہے اس نسبت سے اس کا ذکر پہلے ہونا ضروری تھا، واضح ہو کہ شام میں برکت سے مراد یا تو وہاں کی برکتوں میں اضافہ ہے یا ایسی برکت کہ جو اہل مدینہ اور تمام مؤمنین کو بالخصوص حاصل ہو، اسی طرح یمن میں برکت سے ظاہری اور معنوی دونوں طرح کی برکتیں مراد ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو ظاہر میں بھی خوشحال، پرامن اور فائدہ مند بنائے اور دینی و روحانی طور پر بھی وہاں کے لوگ دیندار اور صالح رہیں، چناچہ یمن کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ مادی طور پر خوشحال اور زرخیز ملک بنایا بلکہ وہاں کی سر زمین نے بہت زیادہ اولیاء اور علماء بھی پیدا کئے۔ ایک قول کے مطابق ان دونوں ملکوں کے لئے برکت کی دعا کا ظاہری داعیہ یہ بھی ہے کہ اہل مدینہ کے لئے غلہ اور دوسری غذائی اشیاء انہی دونوں ملکوں سے آتی تھیں اور ایک شارح نے یوں لکھا ہے آنحضرت ﷺ نے یمن اور شام کے لئے برکت کی دعا اس بناء پر فرمائی کہ آنحضرت ﷺ کی ولادت اور ظہور رسالت کی جگہ مکہ مکرمہ ہے اور مکہ مکرمہ یمن سے قرابت رکھتا ہے جب کہ آنحضرت ﷺ کا مسکن اور مدفن مدینہ منورہ ہے اور مدینہ منورہ شام سے قرابت رکھتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہی چیز یعنی یمن کی قربت مکہ سے اور شام کی قربت مدینہ سے ان دونوں کی فضیلت کے لئے کافی ہے اور اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ان دونوں ملکوں کی اضافت اپنی طرف کر کے ہمارا شام اور ہمارا یمن فرمایا اور ان کی شان بڑھانے کے لئے ضمیر جمع استعمال فرمائی، نیز ان کے حق میں آپ ﷺ نے تین بار برکت کی دعا فرمائی۔ وہاں زلزلے ہوں گے …۔۔ میں وہاں کا مطلب نجد کی سمت ہے اور نجد کی سمت سے مراد وہی حجاز کی مشرقی سمت ہے جس کا ذکر پیچھے حدیث میں نحو المشرق کے الفاظ میں آیا ہے زلزلے سے مراد ظاہری زلزلہ بھی ہے اور معنوی زلزلہ بھی، معنوی زلزلہ کا مطلب ہے وہاں کے لوگوں کے دلوں کا اتھل پتھل ہونا، بےقرار ہونا اور روحانی چین و سکون کا ختم ہوجانا فتنوں سے مراد وہ آفات اور مصائب ہیں جن سے دین میں ضعف و کمزوری اور نیکی ودیانت میں کمی ہوجائے۔ اور وہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہوتا ہے کا مطلب یہ تھا کہ نجد ہماری اس سمت میں واقع ہے جدھر کفر اور فتنوں کا زور ہے اور گویا نجد اس علاقہ میں ہے جہاں شیطان کی جماعت اور اس کے مدد گاروں کا ظہور زیادہ ہے، لہذا ایسے علاقہ کے بارے میں برکت کی دعا کرنا موزوں نہیں ہے۔

【8】

اہل یمن کے بارے میں دعا

حضرت انس حضرت زید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے یمن کی سمت نظر اٹھائی اور پھر یوں دعا فرمائی خدایا اہل یمن کے دلوں کو متوجہ فرما اور ہمارے صاع اور ہمارے مد میں ہمارے لئے برکت عطا فرما۔ (ترمذی) تشریح اہل یمن کے دلوں کو متوجہ فرما یعنی ان کے دلوں میں ہماری محبت اور ہمارے پاس آنے کا خیال ڈال دے تاکہ وہ یہاں مدینہ آنے پر آمادہ و تیار ہوجائیں۔ واضح ہو کہ آنحضرت ﷺ نے یہ دعا اس پس منظر میں فرمائی کہ اس وقت مدینہ کی غذائی ضروریات کے لئے غلہ یمن ہی سے آیا کرتا تھا اسی لئے آپ ﷺ نے بعد میں غلہ کے لئے صاع اور مد میں برکت کی دعا فرمائی، تاکہ زیادہ سے زیادہ غلہ یمن سے آئے۔ صاع اور مد اس وقت کے دو پیمانوں کے نام ہیں جن کے ذریعہ غلہ کا لین دین ہوتا تھا صاع میں تقریبا ساڑھے تین سیر غلہ آتا تھا اور مد میں اس کا چوتھائی اور یہاں صاع اور مد میں برکت سے مراد غلہ میں برکت ہے گویا ظرف بول کر مظروف مراد لیا گیا ہے۔ تورپشتی نے اس دعا کی وضاحت میں یہ لکھا ہے کہ دعا کے دونوں حصوں ہی سے تنگ حال اور تنگ معاش چلے آرہے تھے، اب جب آنحضرت ﷺ نے اہل یمن کے حق میں دعا فرمائی کہ وہ اپنا وطن چھوڑ کر دار الہجرت مدینہ چلے آئیں تو چونکہ ان کی تعداد زیادہ تھی اور آپ ﷺ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اتنے زیادہ لوگوں کے آجانے سے مدینہ کی معاشی حالت اور زیادہ تنگ وخستہ ہوسکتی ہے اس لئے آپ ﷺ نے اہل مدینہ کی غذائی ضرورت یعنی غلہ میں برکت کی دعا فرمائی تاکہ اہل مدینہ کو بھی معاش کی فراخی حاصل ہو اور ان لوگوں کو بھی جو اپنے وطن سے ہجرت کر کے مدینہ آنے والے ہوں اور اس طرح نہ تو مدینہ میں رہنے والے نئے آنے والوں کی وجہ سے تنگ و پریشان ہوں اور نہ ان لوگوں کے لئے مدینہ کا قیام دشواری و پریشانی کا سبب بنے جو ہجرت کرکے مدینہ آئیں۔

【9】

اہل شام کی خوش بختی

اور حضرت زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا کہ خوش بختی ہو اہل شام سے ہم نے پوچھا کہ وہ کس وجہ سے یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمایا اس وجہ سے کہ رحمن کے فرشتے شام کی سر زمین اور اس کے رہنے والوں پر بازو پھیلائے ہوئے ہیں (تاکہ وہ سر زمین اور اس کے لوگ کفر سے محفوظ رہیں۔ (ترمذی) تشریح رحمن کے فرشتے کی لفظی ترکیب اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہاں فرشتوں سے مراد رحمت کے فرشتے ہیں اور حضرت شیخ عبدالحق نے یہ لکھا ہے کہ یہ جملہ فرشتے اپنے بازو پھیلائے ہوئے ہیں اس بات سے کنایہ ہے کہ مخصوص اہل شام یعنی اس ملک میں رہنے والے ابدال پر یا تمام اہل شام پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و راحت چھائی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ فرشتوں کے بازو سے مراد صفات وقوائے ملکیہ ہیں ان کے بازوؤں کو اس دنیا کے پرندوں کے بازوؤں پر قیاس نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ کسی پرندے کے تین چار سے زائد بازو نہیں ہوتے چہ جائیکہ چھ سو بازو جو آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے دیکھے تھے حاصل یہ ہے کہ یہ تو ماننا اور ثابت کرنا چاہئے کہ فرشتوں کے بازو ہوتے ہیں لیکن ان بازوؤں کی ماہیت و حقیقت اور کیفیت کی بحث اور بیان میں نہ پڑنا چاہئے۔

【10】

حضر موت کا ذکر

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عنقریب حضرموت کی سمت سے یا یہ فرمایا کہ حضرموت سے ایک آگ نمودار ہوگی اور وہ آگ لوگوں کو جمع کرے گی اور ہانک کرلے جائے گی۔ (یہ سن کر) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! پھر ہمارے بارے میں کیا حکم ہے یعنی اس وقت ہمیں کیا کرنا چاہئے اور کہاں چلے جانا چاہئے۔ آپ نے فرمایا تمہیں شام میں چلے جانا چاہئے۔ (ترمذی) تشریح یا یہ فرمایا یہ راوی کا شک ہے کہ آنحضرت ﷺ نے من نحو حضرموت کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے یا من حضرموت فرمایا تھا تاہم اگر آپ ﷺ نے نحو کا لفظ ظاہر میں استعمال نہیں فرمایا تو بھی من نحوہا یا من جانبہا کا ہی مفہوم مراد تھا، آگ سے یا تو حقیقت میں یہی ظاہر آگ مراد ہے، یا اس سے فتنے اور شرور مراد ہیں، حضرموت اس وقت ایک شہر کا نام تھا جو یمن میں شامل تھا لیکن اب یہ ایک پورے علاقے کا نام ہے جس کی سرحدیں یمن کے قریب سے شروع ہو کر عمان کے قریب تک چلی گئی ہیں۔ تمہیں شام میں چلے جانا چاہئے کیونکہ شام کی سر زمین کو رحمت کے ملائکہ گھیرے ہوئے ہیں اس لئے وہاں کے رہنے والوں کو اس آگ سے خواہ وہ حسی یعنی ظاہری آگ ہو یا معنوی وحکمی آگ یعنی فتنے اور شرور، کوئی ضرر نہیں پہنچے گا واضح ہو کہ پیچھے قیامت سے متعلق ایک باب کی حدیث میں آگ کا ذکر آیا تھا جو لوگوں کو جمع کر کے محشر کی طرف لے جائے گی۔ اس میں محشر سے مراد شام کی سر زمین ہے اور اس حدیث سے بظاہر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت لوگ براہ راست آگ کے اثر کے تحت ہوں گے شام کی طرف جانے میں ان کو اپنا اختیار نہیں ہوگا جب کہ یہاں تمہیں شام چلے جانا چاہئے کے الفاظ یہ مفہوم واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ شام کی طرف جانے میں ان کے اختیار کو دخل ہوگا۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حدیث میں حضرموت کی طرف سے نمودار ہونے والی آگ مراد نہیں ہے بلکہ وہ فتنے اور شرور مراد ہیں جو آخر زمانہ میں رونما ہوں گے جن کو آگ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

【11】

شام کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہجرت کے بعد ہجرت ہوگی، پس بہترین شخص وہ ہوگا جو اس جگہ ہجرت کر کے جائے گا جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہجرت کر کے گئے تھے۔ (یعنی شام میں اور یہاں وہ اس وقت ہجرت کر کے آئے تھے، جب انہوں نے اپنے آبائی ملک عراق سے ترک وطن کیا تھا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ روئے زمین کے بہترین لوگ وہ ہوں گے جو اس جگہ ہجرت کرکے جانے کو خوب لازم پکڑیں گے جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہجرت کر کے گئے تھے (یعنی ملک شام) اور (اس وقت) روئے زمین پر اس کے بدترین لوگ یعنی کفار وفجار رہ جائیں گے جن کو ان کے ملک سے نکال پھینکیں گے، اللہ کی ذات ان کو پلید سمجھے گی اور آگ ان کو سوروں اور بندروں کے ساتھ اکٹھا کرکے ہانک لے جائے گی اور وہ آگ انہیں کے ساتھ رات گزارے گی جہاں ان کی رات آئے گی اور ان کے ساتھ قیلولہ کرے گی جہاں وہ قیلولہ کریں گے۔ (ابو داؤد) تشریح ہجرت کے بعد ہجرت ہوگی یعنی ایک ہجرت تو یہ ہے کہ لوگ اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینہ آگئے ہیں اور پھر آخر زمانہ میں ایک ہجرت اس وقت ہوگی جب لوگ اپنے اپنے دین کی حفاظت اور اللہ کی رحمت حاصل کرنے کے لئے ملک شام کو ہجرت کریں گے اور بعض حضرات نے یہ مطلب لکھا ہے کہ مدینہ کی یہ ہجرت کوئی آخری ہجرت نہیں ہے، ہجرتیں بار بار ہوں گی اور بہت ہوں گی، حدیث کے الفاظ وسباق کی روشنی میں یہ مطلب زیادہ موزوں اور نہایت صحیح معلوم ہوتا ہے گویا اس زمانہ کی طرف اشارہ مقصود ہے جب قیامت بالکل قریب ہوگی، ہر سو فتنوں اور شرور کا دور دورہ ہوگا، شہروں اور آبادیوں میں اہل کفر وفسق کا غلبہ ہوجائے گا، اسلامی ممالک میں بھی دین کے حامی نیکی کے حامل اور خدائی احکام و ہدایات پر قائم رہنے والے بہت کم رہ جائیں گے، یہاں تک کہ شام کے شہر و قریہ ایک محفوظ ومامون قلعہ کی مانند باقی بچیں گے جن کی حفاظت پر اسلام کے لشکر مامون ہونگے۔ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کرے گا اور حق کو مدد پہنچائے گا اور آخر کار اسی لشکر کے لوگ دجال کا مقابلہ کر کے اس کو نیست ونابود کردیں گے پس اس زمانہ میں جو شخص اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھنا چاہے گا وہ ملک شام کو ہجرت کر کے اس کے کسی شہر یا قریہ میں جاب سے گا۔ پس بہترین شخص وہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ یہ گویا ماسبق جملہ میں جو اجمال تھا اس کی تفصیل ہے، مطلب یہ کہ دین و ایمان کی حفاظت کے لئے ملک شام کو ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگا تو جن علاقوں اور شہروں میں اہل کفر و فسق کا غلبہ و تسلط ہوچکا ہوگا، وہاں کے اللہ ترس دین پسند اور اپنے ایمان کو ہر حالت میں محفوظ رکھنے والے بہترین لوگ اپنا اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کر جائیں گے، ہاں جن لوگوں کے ایمان میں ضعف ہوگا اور جو دین کے اعتبار سے ناکارہ و کمزور ہوں گے وہ اپنے گھر بار اپنی جائداد و دولت وغیرہ کی محبت وطمع میں اور اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف لڑائی سے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے وطن ہی میں پڑے رہیں گے اور ہجرت کرکے چلے جانے والوں کے وارثو جانشین بن جائیں گے پس وہ اپنی طبیعتوں اور نفسوں کی خست اور اپنے دین کی کمزوری کے سبب نہ صرف پاکیزہ نفسوں کے نزدیک ایک گھناؤنی و ذلیل چیز کی مانند ہوں گے، بلکہ ان کی زمینیں ان کا ملک اور ان کا وطن تک ان سے بیزار ہوجائے گا کہ انہیں کسی جگہ سکون وقرار نہیں ملے گا ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر مارے مارے پھریں گے، ان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہوگی کہ خود حق تعالیٰ تو ان کو نہایت ناپسند رکھے گا ان کو اپنی رحمت سے دور کردے گا اپنے محل کرامت سے ان کا تعلق منقطع کردے گا اور ان کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو کوئی شخص کسی ایسی چیز کے ساتھ کرتا ہے جس سے وہ گھن کھاتا ہے اور جس سے اس کی طبیعت نفرت کرتی ہو اور یہ اسی کا نتیجہ ہوگا کہ ان لوگوں کو ہجرت کی توفیق نصیب نہیں ہوگی اور اللہ ان کو انہی کے ملکوں اور شہروں میں دشمنان دین (کفار) کے ساتھ پڑا رہنے دے گا گویا حق تعالیٰ کی طرف سے ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوگا جو قرآن کریم کی اس آیت میں فرمایا گیا ہے۔ ولکن کرہ اللہ انبعاثہم فثبطہم وقیل اقعدوا مع القعدین لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے جانے کو پسند نہیں کیا اس لئے ان کو توفیق نہیں دی اور (بحکم تکوینی) یوں کہہ دیا گیا کہ اپاہج لوگوں کے ساتھ تم بھی یہاں ہی دھرے رہو۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ان کو پلید سمجھے گی اور آگ۔۔۔۔ ان کے معنی ملا علی قاری نے تو یہ لکھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ان کو سخت ناپسند رکھے گی اور آگ کو ان پر مسلط کردے گی جو دن رات ان کے ساتھ رہے گی اور ان کو کافروں کے ساتھ کہ اپنے بڑھاپے کے اعتبار سے سوروں اور بندروں کی مانند ہوں گے جمع کرے گی اور ہانک کر چلے گی اور حضرت شیخ نے یہ لکھا ہے ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ سخت ناپسند رکھے گا اور فتنے کی آگ کہ جو ان کے اعمال بد کا نتیجہ ہوگی یا آگ کہ جو اس وقت بندروں اور سوروں کے ساتھ پیدا ہوگی ان سب کو ناپسند کرے گی اور ہانک کرلے چلے گی، نیز سوروں اور بندروں سے یا تو ان کی حقیقت اور صورت مراد ہے یا ان کی سیرت وخصلت اور ان کے عادات واطوار کا اختیار کرنا مراد ہے اور زیادہ بدخو وبد کردار اور کفار مراد ہیں جو بندر اور سور کی مانند ہیں ، اور ان کے ساتھ قیلولہ کرے گی۔۔۔۔۔۔ قیلولہ دوپہر کے سونے کو کہتے ہیں، حاصل یہ ہے کہ وہ آگ شب وروز ان کے ساتھ رہے گی اور کسی بھی وقت ان سے جدا نہیں ہوگی خواہ وہ کسی حالت میں ہوں۔

【12】

شام، یمن اور عراق کا ذکر

اور حضرت ابن حولہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ زمانہ قریب ہے جب دین اور ملت کا یہ نظام ہوگا کہ تم مسلمانوں کے جدا جدا کئی لشکر ہوجائیں گے ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں اور ایک لشکر عراق میں، (یہ سن کر) ابن حولہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (اگر اس زمانہ میں میں ہوا تو) فرمائیے کہ میں کون سا لشکر اختیار کروں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سر زمین اللہ کی زمینوں میں سے برگزیدہ سر زمین ہے (یعنی اللہ نے آخر زمانہ میں دینداروں کے رہنے کے لئے شام کی سر زمین ہی کو پسند فرمایا ہے پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا اور دیکھنا تم (جب شام میں جاؤ تو اپنے آپ کو بھی اور اپنے جانوروں کو بھی اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض میری وجہ سے میری امت کے حق میں یہ ذمہ لیا ہے کہ وہ (کفار کے فتنہ و فساد اور ان کے غلبہ سے) شام اور اہل شام کو مامون و محفوظ رکھے گا۔ (احمد، ابوداؤد) تشریح جنودا مجندۃ (جدا جدا کئی لشکر) کے الفاظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کے وہ تمام لشکر کلمہ اسلام کی بنیاد پر تو باہم متحدد و متفق ہوں گے لیکن دینی اور ملی احکام و مسائل کی ترجمانی اور ان کے اختیار کرنے میں جدا جدا نقطہ نظر کے حامل ہوں گے۔ عراق سے مراد یا تو اس کا وہ عرب علاقہ ہے جس میں بصرہ اور کوفہ وغیرہ شامل ہیں یا اس کا وہ غیر عرب علاقہ مراد ہے جس میں خراسان اور ماورالنہر کو چھوڑ کر باقی دوسرے عجمی حصے شامل تھے۔ تو اپنے یمن کو اختیار کرنا اس میں یمن کی اضافت ان ( حضرت ابن حولہ کے واسطہ سے عرب سامعین کی طرف اس بنا پر کی کہ اس وقت اس ارشاد رسالت کے براہ راست مخاطب عرب تھے اور یمن کا جغرافیائی اور علاقائی تعلق ملک عرب ہی سے تھا، واضح ہو کہ فاما ان ابیتم (پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا) کے الفاظ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں جو اس ارشاد رسالت کے ایک ہی سلسلہ کے دو حکم یعنی علیک بالشامتو (شام کو اختیار کرنا) اور واسقوا من غدرکم (اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا) کے درمیان واقع ہوا ہے، گویا اصل عبارتی تسلسل یوں تھا کہ تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سر زمین اللہ کی زمینوں میں سے برگزیدہ سر زمین ہے اور دیکھنا تم (جب شام میں جاؤ تو) اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا، اس عبارت کے درمیان آپ نے جملہ معترضہ کے طور پر یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی وجہ سے شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو پھر اپنے یمن ہی کو اختیار کرنا ، اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا غدر (اصل میں غدیر کی جمع ہے جس کے معنی حوض کے ہیں اس حکم کا مطلب یہ تھا کہ شام میں پہنچ کر اس بات کا دھیان رکھنا کہ وہاں کے ملکی وملی امن و انتظام میں تمہاری وجہ سے کوئی خرابی پیدا نہ ہو، لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد سے اجتناب کرنا، مثلا پانی کی فراہمی کے سلسلہ میں جو ذریعہ تمہارے لئے مخصوص ہو اسی سے اپنے لئے پانی حاصل کرنا کسی دوسرے کے حصہ میں سے پانی لے کر دوسروں سے مزاحمت اور معارضہ کی صورت ہرگز پیدا نہ ہو خصوصا ان لوگوں سے جو دشمنان دین سے اسلامی مملکت کو محفوظ رکھنے کے لئے اسلامی سرحد پر مامور و متعین ہوں تاکہ تم آپس میں نزع واختلاف اور فتنہ انگیزی کا سبب نہ بن جاؤ۔

【13】

اہل شام پر لعنت کرنے سے حضرت علی کا انکار

حضرت شریح بن عبید تابعی (رح) روایت کرتے ہیں کہ (ایک موقعہ پر) سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے اہل شام کا ذکر کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ اے امیر المؤمنین ! شام والوں پر لعنت کیجئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا نہیں (میں اہل شام پر لعنت نہیں کرسکتا) حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے ابدال شام میں ہوتے ہیں اور وہ چالیس مرد ہیں، جب ان میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اللہ اس کی جگہ دوسرے شخص کو مقرر کردیتا ہے ان (ابدال) کے وجود و برکت سے بارش ہوتی ہے، ان کی مدد سے دشمنان دین سے بدلہ لیا جاتا ہے اور انہیں کی برکت سے اہل شام سے (سخت) عذاب کو دفع کیا جاتا ہے۔ تشریح اہل شام کا ذکر کیا گیا ہے، میں اہل شام سے مراد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مخالفین یعنی حضرت معاویہ (رض) اور شام والوں میں سے حضرت معاویہ (رض) کے حامی ومدد گار ہیں، حضرت معاویہ (رض) امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانے میں ملک شام کے حاکم (گورنر) مقرر ہوئے تھے اور آخر تک وہ شام پر حکومت کرتے رہے، انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا تھا اور شام میں خود مختیار حکومت کے مالک ہوگئے تھے، انہی حضرت معاویہ (رض) اور ان کے شامی حامیوں کا ذکر برائی کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے کیا ہوگا اور کہا کہ آپ اپنے ان مخالفین اہل شام پر لعنت کیجئے۔ ابدال شام میں ہوتے ہیں حضرت علی (رض) کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بھلا میں اہل شام پر لعنت کیسے کرسکتا ہوں شام تو وہ سر زمین ہے جہاں ابدال ہوتے ہیں، اگر میں نے اہل شام پر لعنت کی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان اہل شام کے ضمن میں ابدال بھی آجائیں علماء اہل سنت کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کا یہ کہنا درحقیقت محاذ آرائی سے بچنے کے لئے اس وقت اہل شام پر لعنت کرنے سے گریز کرنا تھا تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ابدال کو مستثنیٰ کر کے باقی اہل شام پر لعنت کرنے کو حضرت علی (رض) جائز سمجھتے تھے جیسا کہ ان کے مذکورہ الفاظ سے ابتداء مفہوم ہوتا ہے اور حضرت علی (رض) کے بارے میں تو ایسا تصور بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ خود انہی امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ یہ (اہل شام) تو ہمارے بھائی ہیں جو ہم سے منحرف ہوگئے ہیں، اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی (رض) کے لشکر والے اپنے مخالفین یعنی حضرت معاویہ (رض) کے لشکر والوں میں سے ایک شخص کو پکڑ کر حضرت علی (رض) کی خدمت میں لائے تو اس کو دیکھ کر وہاں موجود ایک شخص بولا کتنی عجیب بات ہے (کہ یہ شخص مخالفین علی کے لشکر میں شامل ہے ) میں تو اس آدمی کو اچھا مسلمان سمجھتا تھا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو فرمایا یہ تم کیا کہہ رہے ہو، اب بھی تو یہ شخص مسلمان ہی ہے، ان کے علاوہ اور بھی ایسے آثار واخبار منقول ہیں جن سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی نظر میں حضرت معاویہ (رض) اور ان کے حامی اہل شام کا مسلمان ہونا ثابت ہے۔ اور انہی کی برکت سے اہل شام سے عذاب کو دفع کیا جاتا ہے یہاں اہل شام کی تخصیص اس بناء پر ہے کہ ان ابدال کا جسمانی وجود اہل شام کے درمیان ہوتا ہے اور اس سبب سے اہل شام ان کی قربت اور ان کے ارتباط میں سب سے زیادہ رہتے ہیں ورنہ عمومی طور پر تو ان ابدال کی برکت ونصرت تمام عالم کو ہوتی ہے۔ واضح ہو کہ ابدال کے وجود کا ذکر اس حدیث میں بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حوالہ سے مذکور ہے شیخ ابن حجر (رح) نے ان حدیثوں کو نقل کیا ہے اور پھر ایک حدیث حضرت ابن عمر (رض) کی روایت سے نقل کی ہے جس میں حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خیار امۃ یعنی امت کے نیک ترین لوگ جو اس امت میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں ان کی تعداد پانچ سو ہے اور ابدال چالیس کی تعداد میں رہتے ہیں، نہ پانچ سو کی تعداد کم ہوتی ہے اور نہ چالیس کی، جب کوئی ابدال مرجاتا ہے تو اس کی جگہ اللہ تعالیٰ ان پانچ سو خیار امت میں سے کسی ایک کو مقرر کردیتا ہے (یہ سن کر) صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں بھی بتا دیجئے (کہ آخر وہ کیا عمل کرتے ہیں جس کے سبب ان کو یہ مرتبہ ومقام ملتا ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ اس شخص کو معاف کردیتے ہیں جو ان پر ظلم کرتا ہے، اس شخص کے ساتھ بھی نیک سلوک کرتے ہیں جو ان کے ساتھ براسلوک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو جو کچھ بھی دیتا ہے اس کے ذریعہ وہ فقراء و مساکین کی خبر گیری کرتے ہیں اور اس کی تصدیق قرآن کریم کی اس آیت سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ الکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسین۔ (اعلیٰ درجہ کے اہل ایمان لوگ تو وہ ہیں) جو غصہ کے ضبط کرنے والے اور لوگوں (کی تقصیرات) سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں کو محبوب رکھتا ہے۔ اور روایت ابن عساکر نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے حوالہ سے نقل کیا ہے اس میں عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ کی طرف سے چالیس ایسے آدمی مقرر ہوتے ہیں جن کے قلوب حضرت آدم (علیہ السلام) کے قلب پر ہیں اور اس کی طرف سے سات ایسے آدمی مقرر ہوتے ہیں جن کے قلوب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قلب پر ہیں اور اس کی طرف سے پانچ ایسے آدمی مقرر ہوتے ہیں جن کے قلوب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے قلب پر ہیں اور اس کی طرف سے تین ایسے لوگ مقرر ہوتے ہیں جن کے قلب میکائیل کے قلب پر ہیں اور اس کی طرف سے ایک ایسا آدمی مقرر ہوتا ہے جس کا قلب اسرافیل کے قلب پر ہے پس جب وہ آدمی مرجاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ ان پانچ آدمیوں سے کسی کو مقرر کردیتا ہے اور جب ان پانچ آدمیوں میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ ان سات آدمیوں سے کسی ایک کو مقرر کردیتا ہے اور جب ان سات آدمیوں میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ ان چالیس آدمیوں سے کسی ایک کو مقرر کردیتا ہے اور جب ان چالیس آدمیوں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس جگہ پر اللہ تعالیٰ ان تین سو آدمیوں میں سے کسی ایک کو مقرر کردیتا ہے اور جب ان تین سو آدمیوں میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ عوام میں سے کسی ایک آدمی کو مقرر کردیتا ہے اور ان سب آدمیوں کے وجود کے سبب سے ہر بلا و آفت دفع کی جاتی ہے۔ اس حدیث کے ضمن میں بعض عارفین نے لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے یہ ذکر نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا آدمی بھی مقرر ہوتا ہے جس کا قلب آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک پر ہو اس کی وجہ سے زیادہ عزیز، زیادہ باشرف اور زیادہ لطیف و پاکیزہ ہو، لہٰذا اللہ کے برگزیدہ ترین بندوں میں سے کسی کا قلب آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک کے برابر و مقابل نہیں ہے، خواہ وہ ابدال ہوں یا اقطاب۔

【14】

دمشق کا ذکر

صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ زمانہ قریب ہے جب ملک شام کے شہر اور علاقہ (اسلامی لشکر کے ذریعہ) فتح کئے جائیں گے پس جب تمہیں ان شہروں اور علاقوں میں مکانات بنانے اور رہائش پزیر ہونے کا اختیار دیا جائے تو تم اس شہر کو اختیار کرنا لازم جاننا جس کو دمشق شہر) مسلمانوں کے لئے لڑائیوں سے پناہ کی جگہ ہے اور دمشق ایک جامع شہر ہے اور دمشق کی زمینوں (یعنی علاقوں) میں سے ایک زمین (یا علاقہ) ہے جس کو غوطہ کہا جاتا ہے (ان دونوں روایتوں کو امام احمد نے نقل کیا ہے) تشریح صحابہ میں سے ایک شخص اس حدیث کو جن صحابی نے روایت کیا ہے ان کا نام معلوم نہیں ہوسکا لیکن اس سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ تمام ہی صحابہ عدول ہیں اور کسی صحابی راوی کے نام کا معلوم نہ ہونا مطلق نقصان دہ نہیں ہے۔ دمشق اکثر قول کے مطابق د کے زیر اور میم کے زبر ساتھ ہی فصیح تر ہے۔ یہ شام کا مرکزی شہر اور پایہ تخت ہے۔ لڑائیوں سے پناہ کی جگہ لفظ معقل کے معنی پناہ گاہ اور قلعہ کے ہیں، یہ لفظ عقل سے بنا ہے جس کے معنی ہیں روک رکھنا، باندھنا اور ملاحم جمع ہے ملحمۃ کی، جس کے معنی جنگ وجدل اور قتل و قتال کے ہیں، اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ دمشق کے مسلمانوں کے لئے ایک مضبوط قلعہ اور پناہ گاہ ہے، جو مسلمان اس شہر میں داخل ہوجاتے ہیں وہ دشمنان دین کے غلبہ و تسلط اور ان کے قتل و قتال سے اپنے آپ کو مامون بنا لیتے ہیں، جس طرح کوئی بکری خود کو اپنے دشمن سے محفوظ رکھنے کے لئے پہاڑوں پر چڑھ جاتی ہے اور کسی پہاڑی چوٹی کو اپنی پناہ گاہ بنا لیتی ہے۔ دمشق ایک جامع شہر ہے فسطاط (بعض روایتوں کے مطابق فسطاط) جامع شہر کو کہتے ہیں یعنی ایسا شہر جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے اندر جمع کرے، اسی لئے مصر کو بھی فسطاط کہتے ہیں ویسے فسطاط خیمہ اور ڈیرے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ جس کو غوطہ کہا جاتا ہے غوط ان باغات اور پانی کے چشموں کا نام ہے جو شہر دمشق کے گردا گرد ہیں اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ دمشق شہر کے قریب ایک بستی کا نام غوطہ ہے۔

【15】

خلافت مدینہ میں اور ملوکیت شام میں

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خلافت مدینہ میں ہے اور ملوکیت یعنی بادشاہت شام میں تشریح خلافت مدینہ میں ہے کا مطلب یہ ہے کہ خلافت کا پائیہ تخت غالب عرصہ تک مدینہ میں رہے گا غالب عرصہ کی قید اس لئے ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اپنا پایہ تخت کوفہ کو بنا رکھا تھا، یا پھر اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ خلافت مستقرہ مدینہ میں ہے۔ ملوکیت یعنی بادشاہت شام میں ہے اس جملہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام حسن (رض) نے جب خلافت سے دست کشی اختیار کرلی اور امور مملکت امیر معاویہ (رض) کے سپرد کر آئے تو بھی امیر معاویہ (رض) خلیفہ نہیں ہوئے۔ اس کی تائید میں اس روایت کو پیش کیا جاسکتا ہے جو احمد، ترمذی، ابولیلی اور ابن حبان نے نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا میرے بعد میری امت میں خلافت کا زمانہ بس تیس سال تک رہے گا اس کے بعد پھر ملوکیت وبادشاہت آجائے گی ، بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت اور حضرت امیر معاویہ کی ملوکیت وبادشاہت کی طرف اشارہ ہے واضح ہو کہ ایک اور حدیث میں ملک یعنی ملوکیت وبادشاہت کا ذکر آنحضرت ﷺ کے خصائص و اوصاف میں ہوا ہے اس میں یوں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا مولد یعنی جائے پیدائش تو مکہ ہے آپ ﷺ کا مہاجر یعنی جائے ہجرت مدینہ ہے اور آپ ﷺ کا ملک یعنی آپ ﷺ کی بادشاہت شام میں ہے، تو اس حدیث میں ملک سے مراد نبوت ودین ہے، مطلب یہ کہ یوں تو آپ ﷺ کی نبوت اور آپ کا دین تمام عالم پر ظاہر ہوگا، لیکن آپ کی نبوت کا فیضان اور آپ کا دین آخر میں جس جگہ سب سے غالب صورت میں ظاہر ہوگا وہ ملک شام ہے اور بعض حضرات نے آپ ﷺ کا ملک یعنی بادشاہت شام میں ہے کی مراد یہ بیان کی ہے کہ آپ ﷺ کے دین کی سربلندی کے لئے جہاد و قتال کی سب سے بڑی جگہ ملک شام ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل شام دشمنان دین کے خلاف برسر پیکار اور مصروف جہاد ہوں گے اور اس طرح اس جملہ میں مسلمانوں کے لئے ترغیب ہے کہ وہ آخر زمانہ میں جہاد اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی فضیلت وسعادت کے جو یا ہوں تو شام کی راہ پکڑیں ،

【16】

شام کی فضیلت

اور حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے (خواب میں) دیکھا کہ نور کا ایک ستون میرے سر کے نیچے سے برآمد ہوا، اوپر کو بلند ہوا اور پھر ملک شام میں جا کر نصب ہوگیا ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ آپ ﷺ کا دین بہت تیزی کے ساتھ ملک شام میں پہنچے گا، اس کے برکات و اثرات بہت مضبوطی کے ساتھ اس سر زمین پر قائم رہیں گے اور اس ملک میں اس کو سربلندی و شوکت اور غلبہ حاصل ہوگا، اسی مفہوم میں اس روایت کو لینا چاہئے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ولادت کے وقت آپ کی والدہ ماجدہ کے پیٹ سے ایک نور نکلا جس کی روشنی سے شام کے محلات ومکانات منور ہوگئے۔

【17】

دمشق کا ذکر

اور حضرت ابودرداء (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (دجال کے خلاف) فوجی کاروائی اور جنگ وجدال کے دنوں میں مسلمانوں کے جمع ہونے کی جگہ غوطہ ہے جو شام کے اس شہر کا نواحی علاقہ ہے جس کو دمشق کہا جاتا ہے اور دمشق شام کے شہروں میں سے بہترین شہر ہے۔ (ابوداؤد) تشریح من خیر مدائن الشام کے الفاظ دمشق کی صفت ہے جس کو ترجمہ میں واضح کردیا گیا ہے اور جیسا کہ پچھلی حدیث میں گزرا غوطہ بھی دمشق کے قریب واقع ہے اور ان دونوں حدیثوں میں بظاہر ایک فرق نظر آتا ہے کہ وہاں تو دمشق کو فسطاط کہا گیا تھا اور یہاں غوطہ کو فسطاط کہا گیا ہے، لیکن غوطہ چونکہ دمشق کے قریب اور اسی کا نواحی علاقہ ہے، اس لئے حقیقت میں ان دونوں کے درمیان کوئی تضاد اور فرق نہیں ہے۔

【18】

وہ عجمی حکمران جو دمشق پر تسلط نہیں پائے گا

اور حضرت عبدالرحمن بن سلیمان (رح) تابعی سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا وہ زمانہ آنے والا ہے، جب عجم کے حکمرانوں میں سے ایک حکمران چڑھائی کرے گا، وہ تمام شہروں پر غلبہ حاصل کرلے گا سوائے (شام کے شہر) دمشق کے۔ (ابوداؤد) تشریح شارحین حدیث نے اس روایت کا مصداق متعین نہیں کیا ہے کہ عجم کا وہ کون سا حکمران ہوسکتا ہے جو دمشق کے علاوہ تمام شہروں پر غلبہ و تسلط حاصل کرنے والا ہوگا، بہرحال یہ واضح کردینا نہایت ضروری ہے کہ شام و فلسطین بیت المقدس، صخرہ، عسقلان، قزوین، اندلس، دمشق اور ان کے علاوہ کچھ شہروں کی فضیلت میں متعدد حدیثیں منقول ہیں لیکن ائمہ حدیث نے ان میں سے اکثر کو ضعیف قرار دیا ہے۔

【19】

اس امت کے ثواب کا بیان

اس امت سے مراد امت محمدیہ ﷺ ہے، یعنی وہ جماعت یا وہ گروہ جو اجابت اور متابعت دونوں کا جامع ہے۔ جس نے حضرت محمد ﷺ کو اللہ کا نبی و رسول بھی مانا اور آپ ﷺ کی اتباع و پیروی بھی کی چناچہ اس جماعت کو فرقہ ناجیہ، (نجات یافتہ گروہ سے تعبیر کیا جاتا ہے) پس تنقیح میں لکھا ہے کہ مبتدع ( یعنی وہ شخص کہ جو بدعت نکالے اور بدعت اختیار کرے) علی الاطلاق امت میں سے نہیں ہے اور جیسا کہ توضیح میں، علی الاطلاق امت میں سے اہل سنت والجماعت ہیں اور وہ لوگ ہیں جن کے دین پر چلنے کا راستہ رسول اللہ ﷺ اور رسول اللہ کے صحابہ کا راستہ کے مطابق ہے اور صاحب تلویح نے لکھا ہے کہ مبتدع کو علی الاطلاق امت میں سے خارج اس لئے کہا جاتا ہے کہ اگرچہ وہ اہل قبلہ میں سے ہوں مگر وہ امت دعوت ہی کے حکم میں ہوں گے جیسا کہ کفار امت دعوت ہیں ان کا شمار امت اجابت میں نہیں ہوگا۔ امت محمدیہ ﷺ دوسری تمام امتوں اور ملتوں کے مقابلہ میں اس امت مرحومہ کے فضائل و مناقب اور اس کے اجروثواب کی کثرت حد حصر سے خارج اور حیطہ بیان سے باہر ہے، بلاشبہ یہ امت رسول ﷺ تمام دوسری امتوں سے افضل اور برتر ہے، اس امت کی فضیلت وبر تری کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم میں خالق کائنات عزوجل کا یہ ارشاد کافی ہے۔ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس۔ (اے امت محمدیہ) تم لوگ سب سے اچھی امت ہو جس کو لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ظاہر کیا گیا ہے۔ اور یہ ارشاد کہ وکذلک جعلنکم امۃ وسطالتکونوا شھداء علی الناس۔ اور اسی لئے ہم نے تم کو (اے امت محمد یہ) ایسی امت بنایا ہے جو ہر پہلو سے نہایت اعتدال پر ہے تاکہ تم (مخالف) مقابلے میں گواہ ہو۔ اور اس امت کی تعریف میں خود یہی ایک بات سب سے بھاری ہے کہ وہ محمد ﷺ کی امت ہے جو خاتم النبین سیدالمر سلین اور افضل الخلائق ہیں اور یہ کہ تمام انبیاء اور رسولوں نے آ رزو کی کہ کاش وہ محمد ﷺ کا زمانہ پاتے اور آپ ﷺ کی امت کا ایک فرد ہونے کا شرف حاصل کرتے اس کے علاوہ اس کے خصائص و کمالات اور کرامات و فضائل میں ایسی چیزیں ثابت ہیں جو پچھلی امتوں میں سے کسی بھی امت کے لئے ثابت نہیں ہیں اللھم اجعلنا من امۃ وارزقنا محبتہ وتوفنا علی دینہ وملتہ برحمتک یا ارحم الراحمین۔

【20】

اس امت پر خصوصی فضل خداوندی

حضرت ابن عمر (رض) رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ( ہم مسلمانوں کو مخاطب کر کے) فرمایا دوسری امتوں کے لوگوں کے مقابلہ میں تمہارا عرصہ حیات اتنا ہے جتنا کہ ( سارے دن کے مقابلہ میں) نماز عصر کے بعد سے غروب افتاب تک کا درمیانی وقت، علاوہ ازیں ( اللہ رب العزت کے ساتھ) تمہارا معاملہ اور یہود و نصاری کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص اجرت پر کام کرنے کے لئے کچھ مزدوروں کو طلب کرے اور ان سے کہے کہ کوئی ہے جو دوپہر تک میرا کام کرے اور میں (اتنے عرصہ کام کرنے کی اجرت کے طور پر) ہر شخص کو ایک ایک قیراط دوں گا۔ چناچہ اس اجرت کو منظور کر کے) یہود نے دوپہر تک ایک ایک قیراط پر کام کیا، پھر اس شخص نے کہا کوئی ہے جو دوپہر سے عصر تک میرا کام کرے اور میں ہر شخص کو ایک ایک قیراط دوں گا چناچہ یہود کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے لوگوں نے یعنی) انصاری نے دوپہر سے عصر کے وقت ایک ایک قیراط پر کام کیا اور پھر اس شخص نے کہا کوئی ہے جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک میرا کام کرے اور میں ہر شخص کو دو دو قیراط دوں گا (اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ہم مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا) جان لو ( اس مثال میں) تم ہی وہ لوگ ہو جو عصر کی نماز سے غروب آفتاب تک کام کرنے والے ہیں، یاد رکھو تمہارا اجر دوگنا ہے اور اسی وجہ سے ( کہ تمہارے کام کی مدت تو کم ہے لیکن مستحق دوگنے اجر کے قرار پائے ہو) یہود و نصاری بھٹرک اٹھے اور بو لے کہ عمل کے اعتبار سے تو ہم بہت بڑھے ہوئے ہیں اجر وثواب میں ہمارا حصہ بہت کم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ کیا میں نے تمہارے ساتھ کچھ ظلم کیا ہے یعنی میں نے تمہاری جو اجرت مقرر کی تھی اور تمہیں جو کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا کیا اس میں کچھ کمی کی ہے، یہود و نصاری نے کہا ! نہیں ( ہمارے حق میں تو نے کچھ کم نہیں کیا ہے لیکن تیری طرف سے یہ تفاوت اور تفر یق کیسی ہے ؟ ) پروردگار نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ یہ زیادہ اجر دینا میرا فضل و احسان ہے میں جس کو چاہوں زیادہ دوں ( میں فاعل مختار ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں ) ۔ (بخاری) تشریح اجل کسی چیز کی مدت متعینہ کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لتبلغوا اجلا مسمی اور کبھی اس لفظ ( اجل کا اطلاق انسان کی موت پر کیا جاتا ہے، چناچہ کہا جاتا ہے دنا اجلہ اس شخص کی موت قریب آگئی۔ یہ ملا علی قاری نے طیبی کے حوالہ سے لکھا ہے اور اس کے بعد کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اجل کے لفظ سے کبھی تو اس پوری مدت کو تعبیر کیا جاتا ہے جو عمر کے لئے متعین ہوتی ہے خواہ وہ معلق ہو یا مبر) جیسا کہ اللہ کے اس ارشاد ثم قضی اجلا وا جل مسمی عندہ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور کبھی اس لفظ کا اطلاق مدت عمر کے خاتمہ اور زندگی کے آخری لمحہ پر ہوتا ہے جیسا کہ حق تعالیٰ کے ارشاد اذا جاء اجلھم لا یستاخر ون سا عۃ ولا یستقدمون میں اس لفظ کے یہی معنی مراد ہیں پس یہاں حدیث کے الفاظ انما اجلکم فی اجل من خلا من الامم الخ میں لفظ اجل کے پہلے معنی مراد ہیں یعنی پورا عرصہ حیات پوری مدت عمر اس روشنی میں حدیث گرامی کے ان الفاظ کی وضاحت یہ ہوگی کہ ! اے مسلمانو ! پچھلی امتوں کے لوگوں کی لمبی عمروں کے مقابلہ میں تمہاری کم عمروں کا تناسب وہی ہے جو دن کے آ غاز سے نماز عصر تک وقت کے مقابلہ میں عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک کے وقت کا ہے، لیکن اس کے باوجود تمہارے اجر وثواب کی مقدار زیادہ متعین ہے جب کہ ان لمبی لمبی عمروں والوں کے لئے اجروثواب کی مقدار کم رکھی گئی، یہ تمہارا شرف و اعزاز ہے کہ تمہارے عمل کا عرصہ کم ہے مگر اجروثواب کہیں زیادہ۔ قیراط ایک وزن کو کہتے ہیں جو درہم کے بارہویں حصہ یا دینار کے بیسویں یا چوبیسویں حصہ کے برابر ہوتا ہے۔ یہود نے دوپہر تک ایک ایک قیراط پر کام کیا یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ما ننے والے اور ان کی اتباع کرنے والوں نے اپنی اپنی لمبی لمبی عمروں میں کم ثواب پر زیادہ عمل کیا اور اس طرح وہ ان مزدوروں کے مشابہ ہوئے جنہوں نے صبح سے دوپہر تک ایک ایک قیراط پر کام کیا ہو۔ اسی طرح جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ما ننے والوں اور ان کی اتباع کرنے والوں کا زمانہ آیا تو انہوں نے بھی اپنے عرصہ حیات میں کم ثواب پر زیادہ عمل کیا اور وہ ان مزدوروں کے مشابہ ہوئے جنہوں نے دوپہر کے بعد سے عصر تک ایک ایک قیراط پر کام کیا ہو۔ یاد رکھو تمہارا اجر دوگنا ہے یعنی یہود و نصاری کے ساتھ تو یہ معاملہ تھا کہ وہ جتنا کرتے تھے اسی کے برابر اجروثواب کے مستحق ہوتے تھے۔ لیکن تمہارا اعزاز یہ ہے کہ ان کی بہ نسبت تم کو دوگنا اجر وثواب ملتا ہے گو یا حدیث کا یہ مضمون اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ما خوذ ہے کہ یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وامنو برسولہ یوتکم کفلین من رحمتہ۔ اے (عیسی (علیہ السلام) پر) ایمان رکھنے والو ! تم اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول محمد ﷺ پر ایمان لاؤ۔ اللہ تعالیٰ رحمت سے تمہیں دگنا ثواب دے گا۔ پس اس امت کے لوگوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے نبی کو مانا اور اس کی تصدیق کی بلکہ پچھلے نبیوں اور رسولوں پر بھی ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی لہذا دوگنے اجر اور دوہرے ثواب کے مستحق ہوئے۔ لیکن اجر وثواب میں ہمارا حصہ بہت کم ہے یہود و نصاری کی اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں ادا کیا جاسکتا ہے کہ پروردگار ! یہ کیا ہے کہ محمد ﷺ کی امت کا کام کم اس کے اعمال قلیل، لیکن اس کا اجر بہت اس کا ثواب زیادہ، اس امت کے مقابلہ میں ہمارا کام کہیں زیادہ ہمارے اعمال بہت کثیر، مگر ہمارا اجر کہیں کم اور ہمارا ثواب بہت قلیل ؟ یہاں دونوں احتمال ہیں، یہ بات یہود و نصاری یا تو قیامت کے دن کہیں گے جب وہ امت محمدیہ کو اجر وثواب کے اعتبار سے اپنے مقابلہ کہیں زیادہ آ گے پائیں گے، یا اس طرح کی بات انہوں نے اس وقت کہی ہوگی جب ان کو اپنے اپنے زمانہ میں اپنی آسمانی کتابوں کے ذریعہ اور اپنے رسولوں کی زبانی اس امت محمدیہ کے ایسے فضائل و خصائص معلوم ہوئے ہوں گے۔ بہر صورت اس حدیث میں اس بات کی جہت سے، کیونکہ بندہ اپنے مولیٰ کے نزدیک اس وجہ سے ثواب کا مستحق نہیں ہوتا کہ اس نے کوئی عبادت کی ہے، کوئی کار گزاری دکھائی ہے، بلکہ مولیٰ اپنے محض فضل و احسان کی جہت سے بندہ کو ثواب سے نوازتا ہے اور مولیٰ کو اس کا پورا اختیار ہے کہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے زیادہ سے زیادہ ثواب عطا فرمائے فانہ یفعل ما یشاء ویحکم ما یرید۔ واضح ہو کہ حدیث میں مذکور یہود و نصاری سے مرا دوہ یہود نصاری ہیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں ( رسول کو مانا) اس پر ایمان لائے، اس کی لائی ہوئی کتاب اور شر یعت کی پیروی کی اور آخر دم تک اپنے اپنے دین حق پر قائم رہے، رہی ان یہود و نصاری کی بات ثواب ہی سے محروم رہے علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ نصاری جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل مقدس پر ایمان رکھتے ہیں، باوجودیکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور توریت پر بھی ایمان لائے تھے لیکن ان کو یہود کی بہ نسبت زیادہ ثواب نہیں ملا، جو صرف اپنے ہی رسول اور اپنی ہی کتاب یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور توریت پر ایمان لائے تھے۔ ایک اور بات اس حدیث سے حنفی علماء نے عصر کے وقت کے بارے میں حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کو اور مضبوط بنانے کے لئے استدلال کیا ہے، حضرت امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ عصر کا وقت جب شروع ہوتا ہے کہ ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل یعنی دوگنا ہوجائے۔ چناچہ ان حنفی علماء کا کہنا ہے کہ نصاری کے عرصہ عمل کا اس امت کے عرصہ عمل سے زیادہ ہونا اسی صورت میں سمجھا جاسکتا ہے جب کہ حدیث میں مذکور مثال کے مطا بق ان کے کام ( عمل) کی مدت دوپہر کے بعد سے ہر چیز کا سا یہ دو مثل یعنی دوگنا ہوجانے تک رہے۔

【21】

بعد کے زمانہ کے اہل ایمان کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حقیقت تو یہ ہے کہ میری امت میں مجھ سے نہایت شدید اور نہایت اچھی محبت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو میری وفات کے بعد پیدا ہوں گے ان میں کوئی تو یہ آ رزو کرے گا کہ کاش وہ مجھ کو دیکھ لے اپنے اہل و عیال اور اپنا مال وا ثاثہ سب کچھ مجھ پر قربان کر دے۔ (مسلم) تشریح یعنی میرے تئیں شدت محبت اس کو اس آرزو میں مبتلا رکھے گی کہ اگر میری زیارت اور میرے دیدار کا موقع اس کو نصیب ہوجائے تو وہ مجھ تک پہنچے اور اپنے اہل و عیال، اپنا گھر بار اپنا مال و اثاثہ سب کچھ مجھ پر فدا کر دے، واضح ہو کہ اس حدیث سے اور اس جیسی دوسری حدیثوں سے بظاہر یہ مفہوم نکلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد ہوسکتا ہے کہ بعضے لوگ ایسے اس امت میں پیدا ہوں جو فضیلت میں صحابہ کرام کے برابر ہوں یا ان سے بھی افضل ہوں چناچہ محدثین میں کی ایک مشہور شخصیت علام ابن عبد البر کا رجحان اسی طرف ہے انہوں نے اسی طرح کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اس کا ذکر شیخ ابن حجر مکی (رح) کی صواعق محرقہ میں موجود ہے، لیکن جمہور علماء کا اجماع و اتفاق اسی پر ہے کہ امت کے افضل ترین افراد صحابہ کرام ہی ہیں کوئی بھی غیر صحابی خواہ دین و شریعت علم و معرفت، ولایت و بزرگی اور تقوی و تقدس میں کتنا ہی اونچا مقام رکھتا ہو، صحابی کی منزل اور اس کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا، ان جمہور علماء نے ان احادیث کے بارے میں کہ جن سے ابن عبد البر نے استدلال کیا ہے کہا ہے کہ ان احادیث کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ جو بات ثابت کی جاسکتی ہے وہ کسی غیر صحابی کی کسی ایک گوشہ سے جزوی فضیلت ہے لیکن جہاں تک کلی فضیلت کا تعلق ہے، کہ جو کثرت ثواب سے عبارت ہے تو وہ صرف صحابہ کے لئے ہے۔ ان علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ اس گفتگو میں صحابہ سے مراد وہ خاص الخاص صحابہ ہیں جن کو آنحضرت ﷺ کی صحبت ومعیت میں طویل عرصہ تک رہنے کا شرف نصیب ہوا ہو، جنہوں نے آنحضرت ﷺ سے بہت زیادہ اکتساب علم وفیض کیا ہو اور جو آنحضور ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئے ہوں، رہے وہ عام العوام صحابہ جن کو ایک آ دھ ہی مرتبہ زیارت نبوی ﷺ کا موقع ملا ہو اور بعض تو ایسے بھی ہیں جن کو پوری عمر میں بس ایک ہی مر تبہ چہرہ اقدس کا دیدار نصیب ہوا تو ان کا مسئلہ محل توقف وتردد اور محل نظر ہے، لیکن حق یہ کہ آنحضرت ﷺ کی صحابیت کا وہ شرف و فضل جو کسی بھی صحابی کو کسی بھی غیر صحابی سے افضل و برتر مقام عطا کرتا ہے، ہر صحابی کو حاصل ہے، اگرچہ کسی صحابی کو صرف ایک ہی بار آنحضرت ﷺ کے چہرہ اقدس کے دیدار کا موقع ملا ہو اور اس فضل وشرف میں تو کوئی بھی کسی صحابی کا ہمسر و شریک نہیں ہوسکتا، ہا علمی وعملی فضیلت میں گفتگو کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے لیکن اس جہت سے بھی زیادہ بحث کی بجائے یہی کہنا اولی ہے کہ صحابہ پوری امت میں علی الا طلاق افضل و اشرف ہیں۔

【22】

یہ امت اللہ کے سچے دین پر قائم رہنے والوں سے کبھی خالی نہیں رہے گی

اور حضرت معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا رہے گا جو اللہ کے حکم پر قائم ہوگا، اس گروہ (کے دینی وجماعتی نظم اور معاملات کو) نہ وہ شخص نقصان پہنچا سکے گا جو اس کی تائید واعانت ترک کرچکا ہو اور نہ وہ شخص ضرر پہنچائے گا جو ( موافقت کی بجائے) اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا ہو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آن پہنچے گا اور وہ اپنے اسی راستہ پر یعنی احکام الٰہی اطاعت اور دین کی خدمت واعانت پر قائم ہوں گے۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت انس (رض) کی روایت کردہ حدیث ان من عباد اللہ لو اقسم علی اللہ لابرہ کتاب القصاص میں نقل کی جاچکی ہے۔ تشریح اللہ کے حکم پر قائم ہوگا۔۔۔ یعنی اس گروہ کی اعتقادی اور عملی زندگی پوری عمارت ودینی فرائض اور شرعی احکام پر استوار ہوگی جو کتاب اللہ کو یاد کرنے حدیث کا علم حاصل کرنے کتاب سنت سے استباط کرنے، فی سبیل اللہ جہاد کرنے مخلوق اللہ کی خیر خواہی میں لگے رہنے اور جتنے فرض کفایہ ہیں سب کے تئیں اپنی ذمہ داری نبھا نے سے عبارت ہے اور جس کی طرف اللہ تعالیٰ کا ارشاد اشارہ کرتا ہے ولتکن منکم امۃ ید عون الی الخیر و یا مرون بلمعروف وینھون عن المنکر۔ اور تم میں ( ہمیشہ) ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے جو ( دوسروں کو بھی) خیر کی طرف بلا یا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں۔ بہرحال اس حدیث سے وا ضح ہوا کہ روئے زمین ایسے صلحا اور پاکیزہ نفس لوگوں سے کبھی خالی نہیں رہے گی جو احکام خداوندی کی پیروی میں ثابت قدم رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے دور رہتے ہیں، دین و شریعت پر ہر حالت میں عمل کرتے ہیں اور بہر صورت اسلام کی بقاء وسر بلندی کے لئے سر گرم رہتے ہیں، خواہ مدد و اعانت کرنے والے ان کی مدد و اعانت کریں یا مخالفت پر کمربستہ لوگ ان کی مخالفت و برائی کریں۔ حتی یاتی امر اللہ (یہاں تک کہ اللہ کا حکم آن پہنچے گا) میں (امر اللہ) اللہ کے حکم) سے موت اور انقضائے عہد مراد ہے تاہم شارح نے اس سے قیامت مراد لی ہے لیکن اس قول پر اس حدیث کی رو شنی میں یہ اشکال واقع ہوتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے لا تقوم الساعۃ حتی لا یکون فی الا رض من یقول اللہ (روئے زمین پر جب تک ایک بھی اللہ کا نام لیوا موجود رہے گا قیامت نہیں آئے گی) اسی طرح قائمۃ بامر اللہ ( اللہ کے حکم پر قائم ہوگا) کے معنی ایک شارح نے اللہ کے دین پر سختی سے عمل کرنا لکھے ہیں، نیز بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حدیث میں مذکورہ گروہ سے مراد اہل علم کی وہ جماعت ہے جو ہر زمانہ میں حدیث کی تعلیم اور دینی علوم کی تدریس وا شاعت کے ذریعہ سنت کی ترویج اور دین کی تجدید و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتی رہے گی اور ایک شارح کہتے ہیں گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اور ہر حالت میں اسلام پر قائم رہیں گے۔ ایک اور شارح لکھتے ہیں، ہوسکتا ہے اس حدیث کا مطلب یہ ہو کہ روئے زمین سے اہل اسلام کی شوکت و عظمت کبھی فنا نہیں ہوگی۔ اگر روئے زمین کے کسی علا قہ اور کسی خطہ میں اسلام اور مسلمانوں کو ضعف واضمحلال لاحق ہوگا تو کسی دوسرے علاقہ اور خطہ میں اسلام کا بول بالا اور مسلمانوں کو شوکت و عظمت حاصل رہے گی جو اعلاء کلمۃ اللہ اور اسلام کا پرچم سر بلند کرنے میں مستعدی سے لگے ہوں گے اور اکثر اقوال کا خلاصہ یہ کہ گروہ سے مراد غازیان اسلام کی جماعت ہے جس کا کام دشمنان دین اسلام سے جہاد کر کے دین کو مضبوط و سر بلند کرنا ہے اور پھر یہی جماعت آخر زمانہ میں اسلامی سرحدوں کی حفا ظت و نگہبانی کرے گی، بعض روایتوں میں وھم بالشام کے الفاظ بھی آئے ہیں یعنی اس گروہ کا مستقر ملک شام ہوگا اور بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی ہیں حتی یقاتل اخر ھم مسیح الدجال ( یہاں تک کہ اس گروہ کے آخری افراد جال کو قتل کریں گے) گو یا یہ روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ گروہ سے مراد غازیان اسلام ہی کی جماعت ہے لیکن حدیث کے ظاہری مفہوم سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ عمومی طور پر ہر وہ جماعت اور ہر وہ طبقہ مراد ہے جو اللہ کے سچے دین پر قائم ہو اور اللہ دین کی خدمت و اشاعت میں اور اسلام کی سر بلندی کے لئے کسی بھی صورت سے مصروف عمل ہو۔

【23】

امت محمدی ﷺ کی مثال

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری امت کا حال بارش کے حال کی طرح ہے جس کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا اول بہتر یا اس کا آخر بہتر ہے۔ (ترمذی) تشریح بارش کی مثال کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کا ذکر جس انداز میں کیا اس سے بظاہر تو شک وتردد اور عدم یقین اس میں سمجھا جاتا ہے کہ معلوم نہیں کہ اس امت کے پہلے لوگ بہتر تھے یا بعد کے لوگ بہتر ہیں، لیکن حقیقت میں حدیث سے یہ مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ بارش کی مثال کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ پوری امت اچھی ہے جیسا کہ سوکھے اور خشک موسم میں جب باران رحمت نازل ہوتی ہے تو وہ پوری بارش ہی اچھی اور نافع مانی جاتی ہے، اس طرح امت محمدی ﷺ میں پہلے زمانہ سے تعلق رکھنے والے اور بعد کے زمانوں کے سچے اور نیک مسلمان بھی خیر یعنی اچھا ہونے اور فائدہ پہنچانے کے اعتبار سے برابر ہیں، پس لفظ خیر دین کے اعتبار سے فضیلت ظاہر کرنے والے اسم تفصیل کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے۔ رہا یہ سوال کہ امت کے اول اور آخر دونوں سے تعلق رکھنے والے اچھا اور نافع ہونے میں برابر کیسے ہیں ؟ تو وہ یوں کہ دور اول کے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت ورفاقت کا شرف پایا، آنحضرت ﷺ کی ہر حالت میں اتباع کی، آپ ﷺ کی دعوت اسلام دوسروں تک پہنچائی، آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت اور آپ ﷺ کے پیش کئے ہوئے دین کے فوائد و ہدایات کی بنیاد رکھی۔ آپ ﷺ کے دین متین کو اعانت وتقویت پہنچائی اور آنحضرت ﷺ کی ہر طرح سے مدد و حمایت کی تو بعد کے امتیوں نے آنحضرت ﷺ کی نبوت اور رسالت اور آپ ﷺ کی شریعت کو جو کا توں تسلیم کیا، رسالت و شریعت کے ہر جز پر مضبوط عقیدے کے ساتھ جمے رہے، آپ ﷺ کے دین کی حفاظت اور دین کو استحکام و رواج دیا دینی قواعد و ہدایات کی بنیاد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، یا دین و شریعت کے ارکان کو مضبوط ومستحکم کیا، اسلام کے جھنڈے کو سر بلند کیا، اسلام کی روشنی کو چار دانگ عالم میں پھیلایا اور اس کے برکات و اثرات تمام عالم پر ظاہر کئے اور اگر لفظ خیر کو اسم تفضیل کے معنی پر محمول کیا جائے تو بھی اس اعتبار سے درست ہوسکتا ہے کہ خیر (بہتر ہونے) کے وجوہ اور اسباب متعدد ہوتے ہیں جن اسباب و وجوہ کے اعتبار سے دور اول کے امتی بہتر تھے، ان کے علاوہ بعض اور اسباب و وجوہ سے بعد کے زمانہ کے امتی بہتر ہیں گو یا حاصل یہ نکلا کہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نافع اور اچھا ہونے کے اعتبار سے پوری امت یکساں اور برابر ہے اور اس پر بھی دلالت کرتی ہے، کہ وجوہ و اسباب کے تعدد وا ختلاف کے مد نظر دور اول کے امتی اپنے اعتبار سے بہتر ہیں اور بعد کے زمانہ کے امتی اپنی نو عیت سے بہتر ہیں، لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ طے شدہ ہے کہ جہاں تک کلی فضیلت کا تعلق ہے وہ صرف دور اول کے امتیوں یعنی صحابہ کے لئے مخصوص ہے۔ اگرچہ یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ کسی خاص درجہ و نوعیت کے تحت بعد کے امتیوں میں سے کسی کے لئے جزوی فضیلت ثابت کی جائے اور یہ بات ذہن میں رہے کہ کلی فضیلت سے مراد اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ثواب پانا ہے۔ اور تور پشتی نے لکھا ہے یہ حدیث بعد کے امتیوں پر دور اول کے امتیوں کی فضیلت و برتری میں شک وتردد پر ہرگز محمول نہیں ہے کیونکہ قرن اول ( صحابہ کا زمانہ) تمام قرنوں سے بلا شک وشبہ افضل ہے پھر اس کے بعد کے قرن کے امتی اپنے بعد والے تمام قرنوں سے افضل ہیں اور پھر اس کے بعد کے قرن کے امتی اپنے بعد والے تمام قرنوں سے افضل ہیں پس اس حدیث کی مراد بس یہ بیان کرنا ہے کہ دین و شر یعت پھیلا نے کے اعتبار سے پوری امت نافع ہے۔ اسی طرح کی بات قاضی نے بھی ایک طویل عبارت میں لکھی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح بارش کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا کون سا حصہ زیادہ مفید اور نفع بخش ہے اور کس وجوہ سے خیر کا وجود ہے اور کن افراد میں خیر کا وجود نہیں ہے، کیونکہ وجود خیر کی مختلف جہتیں اور مختلف نوعیتیں ہوتی ہیں اور اس اعتبار سے امت کا ہر دور اپنی اپنی حیثیت اور جہت سے وجود خیر کا حامل ہوگا، تاہم الفضل للمتقدم کے اصول کے تحت فضیلت انہی امتیوں کے لئے ہے جو دور اول میں تھے، یعنی صحابہ اور یہ حدیث بعد کے زمانے والے امتیوں کے لئے تسلی کا مصدر ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ رب العلمین کی رحمت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور اس کی بار گاہ سے حصول فیض کی توقع ہر حال میں باقی ہے۔ اس حدیث کی شرح میں طیبی لکھتے ہیں، امت کو بارش کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے وہ محض ہدایت اور علم کو سامنے رکھ کردی گئی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں بارش کو ہدایت اور علم کے مشابہت دی ہے پس حدیث مذکورہ میں امت جس کو بارش کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے اس سے مراد علماء کاملین ہیں کہ جو خود بھی کامل ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی درجہ کمال تک پہنچاتے ہیں، یہ وضاحت بھی گویا اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خیر سے نفع کے معنی مراد لئے جائیں جس سے فضیلت میں پوری امت کا یکساں ہونا لازم نہیں آتا، خلا صہ کلام یہ کہ امت محمدی اپنے کسی دور میں خیر سے خالی نہیں رہے گی، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے پوری امت کو امت مرحومہ فرمایا ہے اور یہ ثمرہ ہے اس بات کا کہ اس امت کا نبی نبی رحمت ہے بخلاف دوسری امتوں کے کہ ان کے ہاں خیر کا وجود صرف ابتدائی دور میں رہا اور پھر بعد والوں میں شر آگیا اور اس طرح آیا کہ انہوں نے اپنی مقدس آسمانی کتابوں تک کو بدل ڈالا اور تحریفیں کر کر کے اپنے دین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جس پر ان کے دور اول کے لوگ تھے۔

【24】

امت محمدی ﷺ کا حال

حضرت امام جعفر صادق اپنے والد (حضرت امام محمد باقر) سے اور وہ امام جعفر کے دادا ( یعنی اپنے والد حضرت امام زین العابدین علی بن حسین بن علی) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خوش ہوجاؤ اور خوش ہوجاؤ، بات یہ ہے کہ میری امت اجابت کے افراد کا حال ( حصول منفعت کے اعتبار سے) بارش کے حال کی مانند ہے جس کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا اخیر بہتر ہے یا اس کا اول بہتر ہے، یا میری امت کی مثال ایک باغ کی مانند ہے جس ( کے کچھ حصوں سے) ایک سال ایک جماعت نے کھایا یعنی نفع اٹھایا اور اس (کے کچھ حصوں سے) دوسرے سال ایک اور جماعت نے کھایا، ممکن ہے وہ جماعت جس نے آخر میں باغ سے کھایا ( پہلی جماعت کے مقابلہ میں) چوڑائی اور گہرائی میں زیادہ ہو اور خوبیوں میں بھی اس سے بہتر ہو، بھلا وہ امت کیونکر ہلاک ( یعنی نیست و نابود) ہو جس کا اول میں ہوں جس کے وسط میں مہدی ہوں گے اور جس کے آخر میں مسیح ہوں گے، ہاں ان زمانوں کے درمیان ایک کج رو ( یعنی گمراہ) جماعت پیدا ہوگی، اس جماعت کے لوگ میرے راستہ و طریقہ پر چلنے والے اور میرے متبعین میں سے نہیں ہوں گے اور نہ میں ان سے ہوں یعنی میں ان سے راضی اور ان کا حامی و مددگار نہیں بلکہ ان کی سرکشی اور ان کے فسق کے سبب ان سے اپنی نا راضگی اور بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔ (رزین) تشریح خوش ہو اور خوش ہو۔۔۔ یہ الفاظ آپ ﷺ نے دو بار یا تو تاکید کے لئے فرمائے یا اس تکرار میں یہ نقطہ ملحوظ تھا کہ ایک بشارت تو دین کے اعتبار سے ہے اور ایک بشارت آخرت کے اعتبار سے۔ چوڑائی اور گہرائی میں۔۔۔ یہاں چوڑائی اور گہرائی سے جماعت کی کثرت اور لوگوں کی بڑی تعداد کے معنی مراد ہیں، اس جملہ میں طول، (لمبائی) کا ذکر اس لئے نہیں ہے کہ عرض اور عمق طول کے بعد ہوتا ہے، جب عرض اور عمق کا ذکر آگیا تو گویا طول کا بھی ذکر ہوگیا۔

【25】

ایمان بالغیب کے اعتبار سے تابعین کی فضیلت

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( ایک دن صحابہ سے) پو چھا ! بتاؤ، ایمان کے اعتبار سے تم مخلوق میں کس کو زیادہ پسند کرتے ہو، یعنی اللہ کی مخلوقات میں کس مخلوق کے ایمان کو تم بہت قوی اور بہت اچھا سمجھتے ہو ؟ بعض صحابہ نے جواب دیا، ہم تو فرشتوں کے ایمان کو بہت اچھا اور قوی سمجھتے ہیں ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا فرشتوں کے ایمان میں کیا عجوبہ پن ہے۔ وہ تو اپنے پروردگار کے پاس ہی رہتے ہیں یعنی فرشتے مقرب بارگاہ الٰہی ہیں اور عالم جبروت کے عجائب وغرائب کا ہمہ وقت مشاہدہ کرتے رہتے ہیں اگر ان کا ایمان قوی ہے تو اس میں کیا عجیب و غریب بات ہے۔ انہی صحابہ نے یا دوسرے بعض صحابہ نے عرض کیا ! تو پھر وہ پیغمبر ہیں کہ ہمارے نزدیک ان کا ایمان بہت اچھا ہے اور قوی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بھلا وہ شک و شبہ سے دور اور قوی ایمان کے حامل کیوں نہیں ہوں گے، آسمان سے وحی اترتی ہی ان کے اوپر ہے، اب صحابہ نے کہا ! تو پھر ہم لوگ ہیں ( جو آپ ﷺ کے صحابہ ہیں، لہذا کہنا چاہئے کہ ہمارا ایمان اچھا اور قوی ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے ہی ایمان میں کیا عجوبہ پن ہے جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! حقیقت یہ ہے کہ میرے نزدیک ایمان کے اعتبار سے تمام مخلوق میں بڑے اچھے لوگ وہ ہیں جو میرے ( زمانہ حیات) کے بعد پیدا ہوں گے ( یعنی تابعین اور ان کی اتباع کرنے والے کہ جو نسل در نسل قیامت تک اس درمیان میں آتے رہیں گے وہ لوگ احکام دین کے مجموعہ مصحف یعنی قرآن پاک پائیں گے اور اس میں جو کچھ مذکور ہے سب پر ایمان لائیں گے۔ تشریح جواب دینے والے صحابہ نے بہت اچھے اور بہت قوی ایمان کے اعتبار سے جو پہلے فرشتے کا ذکر کیا اور پھر انبیاء پر فرشتوں کی فضیلت لازم نہیں آتی۔ اللہ کے ہاں کثرت ثواب کے اعتبار سے جو فضیلت انبیاء کو حاصل ہے وہ اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس میں شک وشبہ نہیں۔ آسمان سے وحی اترتی ہی ان کے اوپر ہے۔۔۔ یعنی انبیاء کرام (علیہم السلام) کو تو ایمان کا اور سب سے اچھا اور سب سے قوی ایمان کا حامل ہونا ہی چاہئے۔ کیونکہ اس دنیا میں ایمان اور دین وشر یعت کے اتر نے کا اصل ذریعہ وحی ہے اور وحی انبیاء ہی پر اترتی ہے فرشتہ روح الامین ( جبرائیل) آسمان سے آتا ہے اور حق تعالیٰ کا پیغام براہ راست ان کو پہنچاتا ہے۔ وہ فرشتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور ان کے انوار کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ لغت میں وحی کے معنی ہیں، پیغام، دل میں پو شیدہ بات ڈالنا ہر وہ چیز جو دوسرے کو معلوم ہونے کے لئے تم پیش کرو اور آواز اور اصطلاح شرع میں وحی اللہ کے اس پیغام کو کہتے ہیں جو جبرائیل امین (علیہ السلام) پیغمبروں کے پاس لائیں۔ جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔۔۔ اور تم وحی اور ایمان کے آ ثار و انوار کا مشاہدہ کرتے ہو، نبوت کی نشانیاں اور معجزے دیکھتے ہو، میرے جمال باکمال سے انوار حق کا دیدار کرتے ہو، میری صحبت وہم نشینی کے ذر یعہ تم میں اسرار حقیقت سرایت کرتے ہیں اور میرے باطنی تصرف اور میرے ارشاد و اقوال سے تمہارے ظاہر و باطن میں کمالات و کرامات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں اللہ پر ایمان لا نے، اللہ کے اتارے ہوئے دین و شریعت کے احکام میں یقین رکھنے اور اللہ کے بتائے ہوئے اوا امر و نواہی کو ماننے میں تمہارے لئے شک وتردد کا کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ سب پر ایمان لائیں گے۔۔۔ یعنی ان کا ایمان بالغیب ہوگا، نہ انہوں نے اپنے نبی کو دیکھا ہوگا، نہ نبی کی صحبت کے ذریعہ انوار حق کا مشاہدہ کیا ہوگا اور نہ نبوت کے آ ثار و معجزات کو اپنی نظروں کے سا منے پایا ہوگا۔ وہ اپنے بڑوں (صحابہ) سے اخبار و آثار کی صورت میں جو کچھ سنیں گے اسی پر اعتماد و یقین کر کے اللہ پر، اللہ کے رسول پر، اللہ کی کتاب پر اور اللہ کے اتارے ہوئے دین پر ایمان لائیں گے اور اس ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو یہ فرمایا ہے کہ یو منون بالغیب تو اس کی مراد بھی بعض تفسیری جہات سے یہی ہے اور اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھیوں نے ان کے سامنے محمد ﷺ کے صحابہ اور ان کے ایمان کا ذکر کیا تو حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا حق تو یہ ہے کہ محمد ﷺ کی حقیقت و حیثیت، ان کی دعوت اسلامی اور ان کا سارا معاملہ ہر اس شخص پر پوری طرح روشن اور واضح تھا جس نے آپ ﷺ کو دیکھا اور آپ ﷺ کی صحبت وہم نشینی کا شرف پایا، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کسی ایمان والے کا ایمان ایمان بالغیب سے افضل نہیں اور پھر حضرت ابن مسعود (رض) نے یہی آیت یو منون بالغیب پڑھی۔ بہر حال آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک سے متصل ہونے کے سبب اور آنحضرت ﷺ کے بابرکت صحابہ کی رفاقت و صحبت پانے کی وجہ سے اگرچہ تابعین پر بھی آثار و انوار حقانیت ہویدا اور آنحضرت ﷺ کا صدق وا ضح تھا لیکن اس کے باوجود یہی کہا جائے گا کہ، ازدیدہ بسے فرق بود تا بشنیدہ۔ اور حاصل یہ کہ اگرچہ صحابہ کا ایمان بھی بالغیب تھا لیکن ان کا ایمان بالغیب انہی چیزوں میں تھا جن پر ایمان لازم فرض ہے، جیسے اللہ کی ذات، ملائکہ اور امور آخرت وغیرہ جب کہ اور بہت سی چیزیں ان کی آنکھوں دیکھی ہوئی تھیں ان کے مشاہدہ میں آئیں۔ ان کے برخلاف تابعین اور ان کے بعد اہل ایمان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا سارا ایمان بالغیب ہے کوئی چیز ان کی آنکھوں دیکھی ہوئی نہیں ہے، کوئی چیز ان کے مشاہدہ میں نہیں آئی پس اس اعتبار سے ان کے ایمان کو افضل اور پسندیدہ تر فرمایا گیا۔

【26】

ایک جماعت کے بارے میں پیشین گوئی

اور حضرت عبدالرحمن بن علاء حضرمی کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے یہ حدیث بیان کی جس نے نبی کریم ﷺ سے سنا تھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ وہ ( زمانہ آ نے والا ہے جب اس امت کے آخری دور میں ایک جماعت ہوگی جس کا ثواب اس امت کے ابتدائی دور کے لوگوں ( یعنی صحابہ) کے ثواب کی مانند ہوگا، اس جماعت کے لوگ مخلوق اللہ کو (ان) شرعی امور کی تلقین و تبلیغ کریں گے ( جن کا وجود دین میں پایا جاتا ہے) اور ان باتوں سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے جو خلاف شرع ہیں ( اور جن کا دین سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں) نیز وہ لوگ فتنہ پردازوں ( یعنی اسلام اور مسلمانوں سے منحرف ہوجانے والوں، خارجیوں، رافضیوں اور تمام بد عتیوں) سے لڑیں گے (خواہ اسلحہ و طاقت کے ذریعہ لڑیں خواہ زبان و قلم کے ذریعہ) ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔

【27】

آنحضرت ﷺ کو بغیر ایمان لا نے والے امتیوں کی فضیلت

اور حضرت ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مبارک باد دی ہے اس شخص کو جس نے مجھ کو دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات بار مبارک باد دی ہے اس شخص کو جس نے مجھ کو نہیں دیکھا اور پھر مجھ پر ایمان لایا، میری نبوت کی تصدیق کی۔ (احمد) تشریح اور سات بار مبارک باد دی ہے۔۔۔ اس سے ان امتیوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، جو آنحضرت ﷺ کی ذات پر اور آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر غائبانہ ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں سات کے عدد کا تعین کس معنی میں اس کا علم اللہ اور اللہ کے رسول ہی کے سپرد کرنا پڑتا ہے ایسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بات کو زیادہ سے زیادہ بلیغ انداز میں بیان کرنے کے لئے اور اس کی تکثیر کی خاطر چونکہ یہی سات کا عدد بابرکت مشہور و متعارف ہے اس لئے آپ ﷺ کی ذات رسالت پناہ پر ایمان بالغیب رکھنے والوں کو سات بار مبارک باد دی ہے، پس اس عدد سے تکثیر مراد لینی چاہئے نہ کہ تحدید۔

【28】

زما نئہ رسالت کے بعد کے امتیوں کی فضیلت

اور حضرت ابن محیریز (رح) ( تابعی) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوجمعہ سے جو صحابہ میں سے ایک شخص ہیں، درخواست کی کہ آپ ہمارے سا منے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جو آپ نے خود رسول کریم ﷺ کی لسان مبارک سے سنی ہو، حضرت ابوجمعہ نے کہا ہاں میں تمہارے سا منے ایک بڑی عمدہ حدیث بیان کروں گا ( جو بہت فائدہ پہنچائے گی اور تمہیں خیر و فضیلت کی بشارت بھی عطا کرے گی، تو سنو) ایک دن ہم صبح کے کھانے پر رسول کریم ﷺ کے ساتھ تھے ہمارے درمیان ( مشہور صحابی) حضرت ابوعبیدہ بن الجراح بھی تھے ( جو عشرۃ مبشرہ میں سے ہیں) ابوعبیدہ (رض) نے ( نعمت الہیٰ کے شکر اور ذات رسالت پناہ کے انعام و احسان کے ذکر کے طور پر) کہا کہ یا (رسول اللہ ! کیا کوئی شخص ہم سے بھی بہتر ہوسکتا ہے ہم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ( آپ ﷺ کے ہاتھ پر) ایمان واسلام قبول کیا اور آپ ﷺ کے شانہ بشانہ دشمنان دین کے خلاف جہاد کیا، آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا ہاں تم سے بھی بہتر لوگ ہیں اور وہ لوگ وہ ہیں جو تمہارے بعد پیدا ہوں گے اور مجھ پر ایمان لائیں گے جب کہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہوگا اس روایت کو احمد اور دارمی نے نقل کیا ہے، نیز رزین نے اس روایت کو حضرت ابوعبیدہ (رض) سے ان کے اپنے الفاظ سے آخر تک نقل کیا ہے ( یعنی رزین کی نقل کردہ حدیث میں ابن محیریز اور ابوجمعہ کے مکالمہ کا ذکر نہیں ہے۔ تشریح ہاں تم سے بھی بہتر لوگ ہیں یعنی وہ لوگ اس جہت سے تم سے بہتر ہیں کہ وہ مجھے بغیر دیکھے مجھ پر ایمان لائیں گے، اگرچہ اس حیثیت سے کہ تمہیں سبقت اسلام میری صحبت و زیارت اور میرے ساتھ جہاد میں شریک ہونے کی سعادت عظمی حاصل ہے ان لوگوں پر تمہاری فضیلت و برتری مسلم ہے۔

【29】

ار حدیث کی فضیلت

حضرت معاویہ بن قرۃ سے روایت ہے جو اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اہل شام تباہ ہوجائیں تو پھر تم میں بھلائی نہ ہوگی اور میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی رہے گی جس کو ( دشمنان دین کے مقابلہ پر غالب رہنے کے لئے اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہوگی، اس جماعت کو وہ شخص کچھ نقصان و ضرر نہ پہنچا سکے گا جو اس کی تائید واعانت ترک کر دے (کیو ن کہ اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کی عنایت بیشمار ہوگی) تاآنکہ قیامت قائم ہو اور علامہ ابن مدینی (رح) ( جو اکابر محدثین میں سے ہیں) کہتے ہیں کہ اس جماعت سے مراد ارباب حدیث ہیں اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح حضرت معاویہ بن قرہ کے والد کا نام قرہ بن ایاس ہے جو صحابی ہیں۔ خود حضرت معاویہ بن قرہ (رح) ایک تابعی ہیں، ان کا شمار اہل علم و عمل میں ہوتا ہے۔ بلند پایہ فقیہہ کی حیثیت سے بھی مشہور ہیں جنگ جمل کے دن ان کی ولادت ہوئی تھی اور ١١٣ ھ میں واصل بحق ہوئے۔ تو پھر تم میں بھلائی نہ ہوگی۔۔۔ یعنی جب اہل شام میں بھی فساد و تباہی پھیل جائے گی تو اس وقت شام میں سکونت اختیار کرنا یا اپنے وطن سے ہجرت کر کے ملک شام میں جانے میں کوئی بھلائی نہیں رہے گی۔ اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) نے یوں وضاحت کی ہے کہ ان الفاظ کی بظاہر مراد یہ ہے کہ آخر زمانہ میں اہل شام اللہ کے سچے دین پر قائم ہو نگے اور خیر امت ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیں گے اور پھر آخر کار ان میں بھی تباہی آجائے گی اور یہ اس وقت ہوگا جب قیامت آئے گی تو اس دنیا میں صرف بدکار لوگ موجود ہوں گے چناچہ اہل شام کے تباہ ہونے کے ساتھ ہی اس روئے زمین سے خیر کا وجود اٹھ جائے گا جو اس بات کا نتیجہ ہوگا کہ اس وقت اہل خیر میں سے کوئی بھی اس دنیا میں باقی نہیں ہوگا۔ تا آ ن کہ قیامت قائم ہو۔۔۔ میں قیامت قائم ہونے سے مراد قائم ہونے کا وقت بالکل قریب آجانا ہے کیونکہ یہ تو اوپر ہی بتایا جا چکا ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو اس وقت روئے زمین پر کوئی کلمہ گو باقی نہیں ہوگا۔ اس جماعت سے مراد ارباب حدیث ہیں۔۔۔ یعنی وہ محدثین اور اہل علم کہ جو حدیث کے حفاظ ہیں، حد یثوں کے راوی ہیں، سنت نبوی ﷺ پر جو کہ کتاب اللہ کی ترجمان اور شارح ہے عمل کرنے اور جو درس و تدریس، تصنیف وتا لیف، تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ احادیث نبوی ﷺ اور علوم نبوی ﷺ کی خدمت اور اس کے سیکھنے سکھانے میں لگے ہوئے ہیں اور گویا وہ گروہ جن کو اہل سنت والجماعت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

【30】

اس امت سے خطا و نسیان معاف ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطاء و نسیان کو معاف کردیا ہے اور اس گناہ سے بھی معافی عطا فرما دی ہے جس میں زبر دستی مبتلا گیا ہو۔ بیہقی) تشریح خطا (جو مقصو اور ممدود دونوں طرح یعنی مد کے بغیر بھی اور مد کے ساتھ بھی آتا ہے) اپنے مفہوم میں صواب کی ضد ہے اس کے معنی میں چوک جانا چناچہ صراح میں لکھا ہے ! خطاء بمعنی نا راست جو صو اب (درست وراست) کا برعکس مفہوم ہے۔ اسی مصدر سے نکلا ہوا لفظ خطیہ ہے جس کے معنی گناہ کے ہیں، یا ایک قول کے مطابق وہ گناہ جو غیر ارادی طور پر یعنی بلا قصد سرزد ہوا ہو اس کے لئے اخطاط کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مخطی اس شخص کو کہتے ہیں جو ارادہ تو صواب یعنی راست و درست عمل کا کرے مگر مبتلا غیر صواب یعنی نا راست وغیر درست عمل میں ہوجائے۔ اس شخص نے خطا کی، یا اس شخص سے خطا ہوگئی، یہ بات ایسے آ دمی کے بارے میں کہی جاتی ہے جس نے قصدا ارادہ تو کسی درست عمل کا کیا تھا لیکن اچانک اس سے وہ عمل واقع ہوگیا ہو جو غیر درست تھا، مثلا اس نے شکار کو نشانہ بنا کر بندوق چلائی تھی مگر بندوق کی گولی اچانک کسی انسان کو لگ گئی اور اس طرح وہ اس انسان کے قتل خطا کا مرتکب ہوگیا، یا یہ کہ مثلاً وہ آ دمی روزہ سے تھا، کلی کرنے کے قصد سے اس نے منہ میں پانی لیا اور وہ پانی اچانک حلق میں اتر گیا، پس اس حدیث میں خطاء کے یہی معنی مراد ہیں۔ نسیان اپنے مفہوم میں حفظ کی ضد ہے اس کے معنی ہیں بھو لنا سہو کا لفظ نسیان کے معنی میں آتا ہے جیسے کہا جاتا ہے، اس شخص نے فلاں کام میں سہو کیا۔ یعنی وہ اس کام کو بھول گیا اس سے غافل رہا اس کا دھیان کسی اور کام میں الجھ گیا تھا، ان لفظی وضاحتوں کے بعد اب سمجھئے کہ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت سے خطاء ونسیان کو معاف کردیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خطاء ونسیان کے تحت کوئی غیر درست ناروا فعل سرزد ہوجائے تو اس پر گناہ نہیں ہوتا، اس فعل کا مرتکب گناہ گار نہیں ہوگا، یہ مطلب نہیں کہ خطار ونسیا کے تحت سرزد ہونے والا ہر فعل دنیاوی طور پر بھی کسی شرعی قائدے و قانون کی گرفت میں نہیں آتا، چناچہ خود قتل خطاء پر دیت اور کفارہ کا واجب ہونا ثابت ہے، اسی طرح کسی ایسی چیز کا خطاء ارتکاب ہوجائے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو اس روزہ کی قضا واجب ہوتی ہے۔ ہاں نسیان کی صورت میں روزے کی قضاء واجب نہیں ہوتی کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے اس میں رعایت دی ہے جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ روزہ میں اگر بھولے سے کوئی چیز کھالی یا کوئی چیز پی لی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ تم اپنے اس روزہ کو پورا کرو کیونکہ تمہارا وہ کھانا پینا اللہ ہی کی طرف سے ہے، نیز نماز میں اگر نسیان اور سہو واقع ہوجائے تو اس پر سجدہ واجب ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص اگر کسی کا مال سہواً تلف کر دے تو اس پر ضمان ( معاوضہ) واجب ہوتا ہے۔ اور اس گناہ سے بھی معافی عطا فرما دی۔۔۔ اس جملہ میں وما استکر ھوا علیہ کا لفظ صیغہ مجہول کے ساتھ ہے، یعنی وہ گناہ جو زور و زبردستی سے کرائے گئے ہوں۔ مطلب یہ کہ اگر کسی شخص کو کسی ایسے فعل کے ارتکاب پر مجبور کیا گیا ہو جس کو وہ گناہ ہونے کی وجہ سے قطعی ناپسند کرتا ہوا اور اس کے ارتکاب میں اس کے اپنے قصد و ارادہ کو ذرا دخل نہ ہو تو وہ شخص گناہ گار نہیں ہوگا اگرچہ اس کو مجبور کرنے کے لئے قتل یا ضرب شدید جیسی کسی سخت دھمکی کا استعمال نہ کیا گیا ہو، تاہم اس ( زور و زبردستی سے کرائے گئے گناہوں اور جرائم کے) سلسلہ میں حق اللہ اور حق العباد کے تعلق سے شرعی احکام و قوانین کی الگ الگ نوعیتیں اور شقیں ہیں جن کی تفصیل اصول کی کتابوں میں مذکور ہے۔

【31】

اس امت کی انتہائی فضیلت

اور حضرت بہز بن حکیم بن معاویہ بن حیدہ قشیری بصری اپنے والد (حضرت حکیم بن معاویہ) سے اور وہ بہز کے دادا ( اور اپنے والد حضرت معاویہ ابن حیدہ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کنتم خیر امۃ اخرجت للناس کی تفسیر میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ( اے اہل اسلام) تم ستر امتیوں کو تمام کرتے ہو اور اللہ کے نز دیک تم ان امتوں میں سب سے بہتر اور گرامی قدر ہو۔ اس روایت کو ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ تشریح کنتم خیر امۃ اخرجت للناس کا ترجمہ ہے امتوں میں سب سے بہتر امت تم تھے جسے لوگوں ( کی ہدایت و بھلائی) کے لئے پیدا کیا گیا۔ پس کنتم ( تم تھے) سے مراد یہ ہے کہ اپنی اس خصوصیت اور وصف کے ساتھ تم روز اول سے اللہ کے علم و ارادہ میں تھے جس کا ظہور اس دنیا میں اب میرے آ نے کے بعد ہوا ہے۔ یا یہ کہ لوح محفوظ میں اس وصف و خصوصیت کے ساتھ تمہارا ذکر روز اول ہی آگیا۔ اور یا یہ کہ گز شتہ امتوں کے درمیان تمہارا ذکر اسی وصف و خصوصیت کے ساتھ یعنی خیر امت کی حیثیت سے ہوتا تھا۔ بہر حال خیر امت میں اس امت سے مراد اس امت کے تمام ہی اہل ایمان مراد ہیں خواہ وہ عام امتیوں میں سے ہو یا خواص میں سے۔ حقیقت یہ ہے کہ حسن اعتقاد، ایمان کی راہ میں ثابت قدم رہنے، آنحضرت ﷺ کے تئیں بہت زیادہ محبت وتعلق رکھنے، ایمان سے نہ پھر نے، اسلام کی غلامی کے دائرہ سے اپنے کو باہر نہ رکھنے اور ان جیسی دوسری خصوصیات و صفت رکھنے کے سبب ہر امتی اس فضیلت میں شامل ہے جو پچھلی تمام امتوں کے مقابلہ میں اس امت مرحومہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی ہے، تاہم بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ خیر امت کا مصداق مخصوص طور پر اس امت کی وہ جماعت ہے جو خواص سے تعبیر کی جاتی ہے یعنی علماء صادقین شہداء اسلام اور صالحین امت ان حضرات کے نز دیک خیر سے مراد خیر تامہ کا ملہ مخصوصہ ہے اسی طرح بعض حضرات نے اس کا مصداق مہاجرین کی جماعت کو قرار دیا ہے، لیکن یہ حضرات خیرامت کے مفہوم کو ایک محدود دائرہ تک کیوں رکھتے ہیں اور اس کے مصداق کو کسی خاص طبقہ میں منحصر کیوں کرتے ہیں اس کی وجہ ظاہر نہیں ہے۔ لہٰذا حق یہ ہے کہ خیر امت کے مفہوم کو مخصوص کرنے کے بجائے عام رکھا جائے۔ سترا امتوں میں ستر کا عدد تحد ید کے لئے نہیں، بلکہ تکیثر کے لئے ہے، کیونکہ اس عدد کا ذکر اظہار تکثیر کے موقعوں پر زیادہ آتا ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ستر امتوں سے مراد وہ گزشتہ امتیں ہیں جو بڑی بڑی تھیں اور جن کا عدد ستر تک پہنچتا ہے اور انہیں کے ضمن میں تمام چھوٹی چھوٹی امتیں بھی آجاتی ہیں۔ تم ستر امتوں کو تمام کرتے ہو۔۔۔ میں اتمام در اصل ختم کے معنی میں ہے مطلب یہ کہ جس طرح تمہارے پیغمبر ﷺ خاتم النبین اور تمام رسولوں کے سردار ہیں اسی طرح تم بھی تمام امتیوں کے خاتم، تمام امتوں سے زیادہ گرامی قدر اور اتم ہو، پچھلی تمام امتوں پر امت محمدی کی فضیلت و برتری کے اظہار کے لئے بغوی (رح) نے ایک اور روایت اپنی سند کے ساتھ بطریق مر فوع نقل کی ہے جس کے الفاظ ہیں۔ قال ان الجنۃ حرمت علی الانبیاء کلھم حتی ادخلھا و حرمت علی الا مم حتی تد خلھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ کہ جنت تمام انبیاء پر حرام ہے جب تک کہ میں اس میں نہ پہنچ جاؤں اور جنت تمام امتوں پر حرام ہے جب تک کہ میری امت اس میں داخل نہ ہوجائے۔ اور یہ چیز اس امت کے حسن خاتمہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اس کے حسن بدأت پر مبنی ہے اس کی طرف اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد انالذین سبقت لھم منا الحسنی بھی اشارہ کرتی ہے پس یہ امت محمدی اس دنیا میں آ نے کے اعتبار سے اگرچہ سب کے بعد ہے لیکن فضل و شرف اور مقام و مرتبہ میں سب سے اعلی ہے والحمد للہ الذی جعلنا من اھل الا سلام وعلی دین نبینا ﷺ والحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات و بشکرہ تزید البرکات والخیرات۔

【32】

خاتمہ کتا ب

یہ حدیث مشکوہ المصا بیح کی آخری حدیث ہے، مؤ لف مشکوٰۃ کا اپنی اس عظیم کتاب کو اس حدیث پر ختم کرنا گو یا اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ کتاب کا تمام ہونا، ختم ہونا اور پایہ تکمیل کو پہنچنا درحقیقت ختم کرنے والے یعنی اللہ رب العزت کے کرم، اس کی عنایت، اس کی مدد اور توفیق کا ثمرہ ہے، نیز اس سے پہلے کی حدیث ان اللہ تجاوز عن امتی الخطاء والنسیان بھی کتاب کی تالیف و تحریر میں واقع ہونے والے کسی بھی سہو و نسیان سے معذرت کے ساتھ بڑی مناسبت رکھتی ہے ختم اللہ لنا بالحسن و تجاوز عنا ما وقع من السھو والنسیان بحرمۃ نبی اخر الزمان ﷺ وعلی الہ وا صحابہ ذوی الفضل والاحسان۔ وا ضح رہے کہ مشکوٰ ۃ کی شرحوں میں تو اسی حدیث پر مشکوٰۃ تمام ہوئی ہے، لیکن مشکوٰۃ المصابیح کے نسخوں میں اس حدیث کے بعد یہ عبارت بھی ہے۔ ثم قال مولف الکتاب شکر اللہ سعیہ واتم علیہ نعمتہ و وقع الفراغ من جمع الاحادیث النبویۃ ﷺ اخر یوم الجمعۃ من رمضان عند رو یۃ ھلال شوال سنۃ سبع وثلا ثین وسبع مائۃ بحمد اللہ وحسن توفیقہ والحمد للہ رب العلمین وا لصلو ۃ والسلام علی محمد والہ وصحبہ اجمعین۔۔۔

【33】

آخر میں کتاب مشکوٰۃ المصابیح کا مولف

اور اللہ اس کی سعی کی قدر دانی کرے اور اس پر اپنی تمام نعمتوں کو کامل فرمائے کہتا ہے کہ ان احادیث نبوی ﷺ کی جمع و ترتیب سے ٧٣٥ ھ کے رمضان کے آخری جمعہ کی آخری ساعتوں میں شوال کا چاند دکھائی دینے سے کچھ ہی پہلے اللہ کی حمد وثنا اور اس کی نیک توفیق کے ساتھ فراغت ہوئی۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو عالموں کا پروردگار ہے اور درود وسلام محمد ﷺ پر آپ ﷺ کی اولاد پر، آپ ﷺ کے اصحاب پر سب پر الحمد اللہ کثیرًا مبارکاً فیہ۔ مظاہر حق کے مؤلف نواب قطب الدین دہلوی کہتے ہیں تمام ہوا یہ ترجمہ بکرم و عنایت پروردگار متعال کے اے مولیٰ میرے کیا بعید ہے تیری رحمت واسعہ سے کہ اس میری سعی کو قبول فرما دے اور اس عاجز و ضعیف ونحیف کی تقصیرات اور بھول چوک سے درگزر فرما دے اور مجھ کو اور میرے استاد اور ماں باپ کو روز قیامت بخش دے اور نہ ذلیل فرمایا رب العلمین مکرر سہ کرر یہی عرض ہے کہ مجھ شرم سار کو اور میرے استاد مولانا اسحق صاحب مہاجر فی سبیل اللہ (رح) کو اور میرے ماں باپ اور سب مسلمانوں کو مغفور و مرحوم کر اور تیری شان ستاری کا ظہور ہمارے حال پریشان بال پر ہو۔ اللھم اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الا خرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار اللھم لا تدع لنا ذنباً الا غفرتہ ولا ھما الا فرجتہ ولا دینا الا قضیتہ ولا حاجۃ من حوائج الدنیا والاخرۃ الا قضیتھا یا ارحم الرحمین اللھم انا نسالک من خیر ماسالک منہ نبیک محمد ﷺ ونعوذبک من شر ما استعاذ منہ نبیک محمد ﷺ انت و المستعان وعلیک البلاع ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ بیت ازگدا یان توام شاہ بفر ما مددے کہ چون مرغان حرم درحرمت جا گیرم الھی نجنی من کل ضیقٍ بجاہ المصطفیٰ مولیٰ الجمیع وہب لی فی مدینتہ قرارًا بایمان و دفنٍ بالبقیع ربنا ھب لنا من ازوجنا وذریتنا قرۃ اعین واجعلنا للمتقین اماماً ۔ اللھم صل وسلم علی سیدنا محمدن النبی الامی وعلی الہ وا صحابہ وا ھل بیتہ وبارک وسلم۔ اللھم صل وسلم علیہ وعلیھم اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین۔ مظاہر حق جدید کا مرتب عبداللہ جاوید بن مولا نا محمد عبد الحق غازی پوری، اللہ اس پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے اس کی خطاؤں اور لغزشوں سے درگزر فرمائے، کہتا ہے کہ رب کریم کی عنایت اور اس کی مدد توفیق سے کتاب مظاہر حق جدید پایہ تکمیل کو پہنچی اور رمضان المبارک ١٤٠٠ ھ کے اٹھا رہویں روزے جمعہ کی شب میں اس کی تسوید سے فراغت ہوئی۔ پاک پروردگار اپنے محبوب ﷺ کے طفیل میں کہ جس کی طرف اس کتاب کے الفاظ ومعانی کی نسبت ہے، مجھ ناچیز کی اس سعی کو قبول فرمائے، مجھ کو میرے اساتذہ و شیوخ کو میرے ماں باپ کو، میرے اہل و عیال کو، میرے تمام اعزا وا حباب کو، اس کتاب کی ترتیب وتسوید اور طباعت و اشاعت میں میرے معاونوں اور رفیقوں کو اور اس کتاب کے قارئین کو روز حشر اپنے محبوب ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے اور اپنے فضل و احسان سے نوازے (آمین)