20. گرہن کے متعلق احادیث کی کتاب

【1】

نماز خسوف کا بیان

مشہور اہل لغت اہل علم کا قول یہ ہے کہ خسوف چاند گرہن کو فرماتے ہیں کہ کسوف سورج گرہن کو۔ اس باب میں جتنی احادیث نقل کی جائیں گی سب کی سب سورج گرہن سے متعلق ہیں۔ ہاں صرف ایک حدیث جو پہلی فصل کی دوسری حدیث ہے اس کے بارے میں احتمال ہے کہ وہ چاند گرہن سے متعلق ہے لہٰذا مولف مشکوٰۃ کے لئے بہتر یہ تھا کہ وہ اس باب کا نام الصلوٰۃ الخسوف کی بجائے باب صلوٰۃ الکسوف رکھتے۔ بعض علماء نے لفظ کسوف دونوں جگہ استعمال کیا ہے سورج گرہن میں بھی چاند گرہن میں بھی، اسی طرح بعض حضرات نے لفظ خسوف کو بھی دونوں جگہ استعمال کیا ہے۔ سورج گرہن کی نماز بالا تفاق جمہور علماء کے نزدیک مسنون ہے۔ حنفیہ کے نزدیک سورج گرہن کی نماز دو رکعت باجماعت بغیر خطبہ کے ہے۔ چاند گرہن کی نماز میں دو رکعت ہے مگر اس میں جماعت نہیں ہے بلکہ ہر آدمی الگ الگ یہ نماز پڑھے حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک دونوں میں جماعت اور خطبہ ہے۔

【2】

سورج گرہن کے وقت رسول اللہ کی نماز

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانہ مبارک میں (ہجرت کے بعد ایک مرتبہ) سورج گرہین ہوا چناچہ آپ ﷺ نے ایک منادی والے کو (لوگوں کے درمیان) بھیجا کہ وہ منادی کر دے کہ الصلوٰۃ جامعۃ یعنی نماز جمع کرنے والی ہے چناچہ ( جب لوگ جمع ہوگے تو) آپ ﷺ آگے بڑھے اور دو رکعت نماز پڑھائی جن میں چار رکوع کئے اور چار سجدے کئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ (جتنے طویل رکوع اور سجدے میں نے اس دن نماز خسوف میں کئے) اس سے زیادہ طویل میں نے نہ کبھی رکوع کیا اور نہ کبھی سجدہ کیا۔ ( صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح نماز خسوف میں لوگوں کو جمع کرنے کے لئے الصلوٰۃ جامعۃ پکار کر کہنا سنت ہے خاص طور پر جب کہ لوگ اس نماز کے لئے جمع نہ ہوئے ہوں۔ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ نماز جماعت کے ساتھ جامع مسجد میں یا عید گاہ میں پڑھی جائے نیز یہ نماز اوقات مکروہہ میں نہ پڑھی جائے۔ فصلی اربع رکعات الخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے چار رکوع اور چار سجدے کئے یعنی ہر رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے کئے لیکن امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک میں دوسری نمازوں کی طرح اس نماز میں بھی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع ہے ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن سے ایک ہی رکوع کرنا ثابت ہے بلکہ اس باب میں ایک حدیث قولی بھی منقول ہے اور یہ کلمہ ہے کہ جہاں قول اور فعل ثابت ہوتے ہیں تو فعل پر قول کو ترجیح دی جاتی ہے۔

【3】

نماز خسوف کی قراءت

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں یہ رسول اللہ ﷺ نے نماز خسوف یعنی چاند گرہن کی نماز میں قرأت بآواز بلند پڑھی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

【4】

سورج گرہن کا حقیقی سبب

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا، آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ ( اس طرح) نماز پڑھی کہ سورت بقرہ کی قرأت کی بقدر طویل قیام فرمایا (یعنی اتنی دیر تک قیام میں کھڑے رہے جتنی دیر تک سورت بقرہ پڑھی جاسکتی ہے) پھر آپ ﷺ نے رکوع کیا، رکوع بھی اتنا طویل تھا، رکوع سے سر اٹھایا اور بڑی دیر تک کھڑے رہے لیکن یہ قیام پہلے قیام سے کم تھا، پھر (دوبارہ) رکوع کیا، یہ رکوع بھی طویل تھا مگر پہلے رکوع سے کم، پھر کھڑے ہوئے اور سجدہ کیا، پھر (دوسری رکعت کے لئے) کھڑے ہوئے اور بہت طویل قیام کیا مگر یہ قیام پہلی رکعت کے قیام سے کم تھا، پھر رکوع میں گئے یہ رکوع بھی طویل تھا مگر پہلے رکوع سے کم، پھر کھڑے اور دیر تک کھڑے رہے مگر یہ قیام پہلے قیام سے کم تھا، پھر رکوع میں گئے یہ رکوع بھی طویل تھا مگر پہلے رکوع سے کم پھر کھڑے ہوئے اور سجدہ کیا اس کے بعد (یعنی التحیات اور سلام کے بعد) نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہوچکا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا سورج اور چاند اللہ کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ! یہ نہ کسی مرنے کی وجہ سے گرہن ہوتے ہیں اور نہ کسی کے پیدا ہونے کی وجہ سے جب تم یہ دیکھو کہ (یہ گرہن میں آگئے ہیں) تو اللہ کی یاد میں مشغول ہوجاؤ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ( نماز کے دوران) ہم نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنی جگہ سے کسی چیز کو لینے کا ارادہ کیا پھر ہم نے آپ ﷺ کو پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (جب تم نے مجھے کسی چیز کے لینے کیلئے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تھا تو اس وقت) میں نے جنت کو دیکھا تھا اور اس میں سے خوشہ انگور لینے کا ارادہ کیا تھا، اگر میں خوشہ انگور لے لیتا تو بلا شبہ تم اسے رہتی دنیا تک کھاتے اور جب تم نے مجھے پیچھے ہٹے ہوئے دیکھا تھا (اس وقت) میں نے دوزخ دیکھی تھی (اس کی گرمی کے پہنچنے کے ڈر سے پیچھے ہٹ گیا تھا) چناچہ آج کے دن کی طرح کسی دن میں نے ایسی ہو لناک جگہ کبھی نہیں دیکھی اور دوزخ میں میں نے زیادہ عورتیں ہی دیکھی ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کس وجہ سے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ان کے کفر کی وجہ سے صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا عورتیں اللہ کے کفر میں مبتلا ہیں۔ ؟ فرمایا نہیں بلکہ وہ شوہروں کی نعمتوں اور احسان کا کفران کرتی ہیں (یعنی شوہروں کی ناشکر و نافرمائی کرتی ہیں اور کسی کا احسان نہیں مانتیں) چناچہ تم ان میں سے کسی کے ساتھ مدتوں تک بھلائی کرتے رہو مگر جب کبھی وہ کسی چیز کو اپنی مرضی کے خلاف پائے گی تو یہی کہے گئے کہ میں نے کبھی تمہارے یہاں بھلائی نہیں دیکھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح آیتان من ایت اللہ کا مطلب یہ ہے کہ سورج و چاند اللہ کی الوہیت اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے اس بات کی دو نشانیاں ہیں کہ یہ دونوں رب قدوس کے تابعدار اور فرمانبردار پیدا کئے گئے ہیں انہیں اپنی طرف سے کسی کو نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت تو کیا ہوتی ہے ان میں اتنی بھی طاقت نہیں ہے کہ اپنے اندر کسی قسم کے پیدا ہوئے نقصان اور عیب کو ختم کرسکیں۔ لہٰذا کیسے بد عقل و کند فہم اور کور بخت ہیں وہ لوگ جو اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہوئے چاند و سورج کو معبود قرار دیتے ہیں ان کے سامنے اپنی پیشانی جھکاتے ہیں ؟ اس کے بعد آپ ﷺ نے اہل جاہلیت کے اس عقیدہ کو ختم فرمایا کہ کس عظیم حادثہ مثلاً کسی بڑی آدمییت کے مرنے اور وباء عام یعنی قحط وغیرہ کی وجہ سے سورج و چاند گرہن میں آتے ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے آگاہ فرمایا کہ یہ خیالات باطل اور اعتقادات فاسد ہیں حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ ان دونوں کو گرہن میں مبتلا کر کے صرف اپنی قدرت کا اظہار کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔ فاذکروا اللہ کا مطلب یہ ہے کہ چاند و سورج گرہن کے وقت اگر نماز کے وقت مکروہ نہ ہوں تو کسوف و خسوف کی نماز پڑھو اور اگر اوقات مکروہ ہوں تو پھر نماز نہ پڑھو بلکہ پروردگار کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر نیز استغفار میں مشغول ہوجاؤ۔ لیکن یہ بات جان لو کہ یہ حکم امراستحبابی کے طور پر ہے وجوب کے طور پر نہیں ہے کیونکہ نماز کسوف و خسوف واجب نہیں ہے۔ بلکہ بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک سنت ہے۔ رہتی دنیا تک کھاتے یعنی جیسا کہ بہشت کے میووں کی خاصیت ہے، انگور کے اس خوشہ میں سے جو دانہ کھاتے اس کی جگہ دوسرا دانہ پیدا ہوجاتا اسی طرح وہ خوشہ رہتی دنیا تک چلتا رہتا۔ جنت کے اس خوشہ انگور کو رسول اللہ ﷺ کے نہ لینے کا سبب یہ تھا کہ اگر آپ ﷺ اسے لئے لیتے اور لوگ اسے کچھ لیتے تو ایمان بالغیب کی کوئی حقیق و اہمیت باقی نہ رہ جاتی۔

【5】

سورج گرہن کا حقیقی سبب

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے (بھی) حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی مذکورہ بالا روایت کی طرح روایت منقول ہے چناچہ انہوں نے یہ (بھی) فرمایا ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ سجدہ میں گئے تو بڑا طویل سجدہ کیا پھر نماز سے فارغ ہوئے تو (آفتاب) روشن ہوچکا تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے (لوگوں کے سامنے) خطبہ ارشاد فرمایا چناچہ (پہلے) آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور پھر فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، نہ تو کسی کی موت کی وجہ انہیں گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے چناچہ جب تم گرہن دیکھو تو اللہ سے دعا مانگو، تکبیر کہو اور نماز پڑھو نیز اللہ کی راہ میں خیرات کرو۔ پھر فرمایا کہ اے امت محمد ﷺ ! قسم ہے پروردگار کی اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے۔ جب کہ اس کا کوئی بندہ زنا کرتا ہے یا اس کی کوئی بندی زنا میں مبتلاء ہوتی ہے اور اے امت محمد ﷺ ! قسم ہے خد ا کی، اگر تم لوگ وہ چیز جان لو جو میں جانتا ہوں (یعنی یوم آخرت کی ہو لنا کی اور پروردگار کا غضب) تو اس میں کوئی شک نہیں تمہارا ہنسنا کم اور تمہارا رونا زیادہ ہوجائے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس روایت میں سجدہ کی طولات، خطبہ، دعا، تکبیر، نماز اور خیرات کرنے کا ذکر و حکم اور حدیث کے آخری الفاظ مزید منقول ہیں جب کہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی روایت میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ غیرت کے اصل معنی ہیں اپنے حق میں کسی غیر کی شرکت کو برا جاننا۔ اور اللہ تعالیٰ کی غیرت کا مطلب ہے اپنے احکام میں بندوں کی نافرمانی اور امرو نہی کے خلاف کرنے کو برا جاننا۔ ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا کوئی بندہ یا اس کی کوئی بندی جب زنا میں مبتلا ہوتی ہے تو اس معاملہ میں تمہیں جتنی غیرت محسوس ہوتی ہے اور ان دونوں سے تمہیں جتنی نفرت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی غیرت اس سے کہیں زیادہ شدید اور اس کی نفرت تمہاری نفرت سے کہیں زیادہ سخت ہوتی ہے۔

【6】

گرہن کے وقت آنحضرت ﷺ کی کیفیت

اور حضرت ابوموسی (رض) فرماتے ہیں کہ (جب) سورج گرہن ہو تو رسول اللہ ﷺ گھبرائے ہوئے کھڑے ہوگئے اور آپ ﷺ پر ایسا خوف طاری ہوا جیسے قیامت ہوگئی ہو۔ چناچہ آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور طویل قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی میں نے اس طرح کبھی آپ ﷺ کو (اتنا طویل قیام و رکوع اور سجود) کرے ہوئے نہیں دیکھا پھر آپ ﷺ نے فرمایا یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ نہ تو کسی کے مرنے کے سبب سے ( ظاہر ہوتی) ہیں اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے، ہاں اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، لہٰذا جب تم ان نشانیوں میں سے کوئی نشانی دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کا ذکر کرنے، اس سے دعا مانگنے اور استغفار کرنے میں مصروف ہوجاؤ۔ (صحیح مسلم صحیح البخاری تشریح الفاظ یخشی ان تکون الساعۃ دراصل راوی نے بطریق تمثیل استعمال کئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس موقع پر اس طرح گھبرائے ہوئے اور خوف زدہ تھے جیسا کہ کوئی آدمی قیامت شروع ہوجانے پر گھبرا جائے اور خوف زدہ ہوجائے۔ آپ ﷺ کا یہ خوف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپ ﷺ یہ سمجھے ہوں کہ قیامت شروع ہوگئی ہے چونکہ آپ ﷺ پوری طرح جانتے تھے کہ جب تک کہ میں لوگوں میں موجود ہوں قیامت نہیں آسکتی۔ بہر حال، رسول اللہ ﷺ اللہ کی نشانیوں کے ظہور مثلاً سورج و چاند گرہن، زلزے، آندھی و طوفان اور چمک و کڑک کے وقت جو گھبراتے اور ڈرتے تھے تو اس میں صرف زمین کے اوپر بسنے والے انسانوں کی شفقت کا جذبہ کار فرما تھا چناچہ آپ ﷺ اپنی ذات کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا والوں کی طرف سے خوف زدہ ہوجایا کرتے تھے کہ کہیں یہ اپنے دامن میں دنیا والوں کی تباہی و بربادی کا پیغام نہ لئے ہو اور اس صورت میں لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل نہ ہوجائے۔ وقال ھذہ الا یات کا مطلب یہ ہے کہ چاند و سورج گرہن ہونا، زلزلوں اور آندھی اور طوفانوں کا آنا اور بجلی کی کڑک وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور انسانوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو میں تغیر حالت، قسمت کے چھین لینے اور عذاب نازل کرنے پر کیسا قادر ہوں ؟

【7】

نماز کسوف میں رکوع و سجود کی تعداد

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جس دن رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا سورج گرہن ہوا، چناچہ آپ ﷺ نے لوگوں کو چھ رکوع اور چار سجدے کے ساتھ نماز پڑھائی۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت ابر اہیم رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے تھے جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے ٨ ھ میں پیدا ہوئے تھے اور ١٠ ھ میں حالت شیر خوارگی میں وفات پاگئے تھے، ان کی عمر صرف اٹھارہ مہینے یا اس سے کچھ زیادہ ہوئی تھی۔ جس دن ان کا انتقال ہوا اس دن سورج کو گرہن لگا۔ چناچہ لوگوں نے کہا کہ سورج گرہن ان کی وفات ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ جس کی رسول اللہ ﷺ نے تردید فرمائی جیسا کہ گذشتہ روایتوں میں معلوم ہوچکا ہے۔ چھ رکوع اور چار سجدے کے ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی اور ہر رکعت میں تین تین رکوع اور دو دو سجدے کئے۔ جیسا کہ اس باب کی احادیث میں اس نماز کے رکوع کی تعداد مختلف بیان ہوئی ہے۔ لہٰذا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے ان احادیث کو ترجیح دی ہے جن میں ہر رکعت میں صرف ایک رکوع کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ اصل یہی ہے کہ ہر رکعت میں ایک رکوع ہو بلکہ اس بارے میں قولی اور فعلی دونوں طرح کی احادیث منقول ہیں۔ پھر یہ کہ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کی مستدل روایت کے علاوہ حضرت امام شافعی (رح) اور دوسرے اکثر اہل علم حضرات کے یہاں یہ بھی مسئلہ ہے کہ اگر گرہن دیر تک رہے تو یہ جائز ہے کہ ہر رکعت میں تین یا چار یا پانچ رکوع بھی کئے جاسکتے ہیں۔

【8】

نماز کسوف میں رکوع و سجود کی تعداد

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے سورج گرہن کے وقت دو رکعت نماز آٹھ رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ اس طرح پڑھائی کہ ہر رکعت میں چار چار رکعت اور دو دو سجدے کئے) اور اسی طرح حضرت علی المرتضیٰ (رض) سے بھی منقول ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح وعن علی مثل ذلک کا مطلب یہ ہے کہ یا تو حضرت علی المرتضیٰ (رض) نے بھی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح نماز ادا فرمائی یا پھر یہ کہ حضرت علی المرتضیٰ (رض) کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے بھی اس طرح نماز ادا فرمائی۔

【9】

سورج گرہن کے وقت رسول اللہ ﷺ کا طریقہ

اور حضرت عبدالرحمن ابن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کے زمانہ حیات میں اپنے تیروں سے تیراندازی کیا کرتا تھا چناچہ ایک دن میں تیراندازی میں مشغول تھا) کہ سورج گرہن ہوا، میں نے تیروں کو پھینک دیا اور (دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم میں یہ ضرور دیکھوں گا کہ سورج گرہن ہونے سے رسول اللہ ﷺ کی کیا حالت ہوتی ہے (یعنی یہ دیکھوں گا کہ آپ ﷺ اس وقت کیا کرتے ہیں ؟ ) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ (یہ سوچ کر) میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ( میں نے سنا کہ) آپ ﷺ سبحان اللہ لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد اللہ پڑھنے اور دعا مانگنے لگے، یہاں تک سورج گرہن سے نکل آیا۔ جب سورج سے ظلمت دور ہوئی تو آپ ﷺ نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعت نماز ادا فرمائی (یعنی آپ ﷺ نے نماز کی دو رکعتیں پڑھیں جن میں دو سورتوں کی قرأت کی ) ۔ یہ حدیث صحیح مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں عبدالرحمن ابن سمرہ سے نقل کی ہے نیز شرح السنۃ میں بھی ( یہ روایت) اسی طرح ( عبدالرحمن ابن سمرہ سے) منقول ہے اور مصابیح کے نسخوں میں یہ روایات جابر ابن سمرہ سے نقل کی گئی ہے۔ تشریح وھو قائم فی الصلوۃ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے نماز کے سے انداز قبلہ کی طرف رخ کئے ہوئے کھڑے تھے اور لوگ صف باندھے کھڑے تھے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ یہاں صلوٰۃ یعنی نماز سے مراد دعا ہے۔ یہ تاویل اس لئے کی جاتی ہے کہ یہ کسی بھی مسلک سے معلوم نہیں ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ سورج گرہن کے وقت حالت نماز میں اذکار کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، نماز کسوف کے رکوع کی تعداد کے بارے میں مختلف احادیث مروی ہیں چناچہ جن روایتوں سے ہر رکعت میں کئی کئی رکوع کا اثبات ہوتا ہے۔ وہ سب مضطرب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں خود راوی بھی مضطرب ہیں کہ بعض نے تین تین رکوع بیان کئے ہیں، بعض نے چار چار رکوع اور بعض نے پانچ رکوع تک کی تعداد اور روایت کی ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ اضطراب موجب ضعف ہوتا ہے لہٰذا روایتوں کا ترک کرنا واجب ہوا جو تعداد رکوع کو ثابت کرتی ہیں اسی لئے حضرت امام ابوحنیفہ (رح) نے انہیں روایات کو اپنا مستدل قرار دیا ہے۔ جن سے ہر رکعت میں ایک ایک رکوع کرنا ثابت ہے۔

【10】

سورج گرہن میں غلام آزاد کرنا چاہیے

اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی صاحبزادی حضرت اسماء (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن میں غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری)

【11】

نماز کسوف کی قرار بآواز بلند ہو یا آہستہ آواز سے ؟

حضرت سمرہ ابن جندب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ہمیں سورج گرہن کے وقت ( اس طرح) نماز پڑھائی (کہ) ہم آپ ﷺ کی آواز نہیں سنتے تھے۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد و، سنن نسائی، ابن ماجہ) تشریح یہ حدیث اور اسی قسم کی اور احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز کسوف میں امام بآوازبلند قرأت نہ کرے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہ ہے۔ صحیح البخاری و صحیح مسلم نیز دوسری کتابوں میں ایسی روایات بھی منقول ہیں کہ جن سے نماز کسوف کی قرأت کا بآواز بلند ہونا ثابت ہوتا ہے۔ روایات کے اس تعارض کے پیش نظر حضرت ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ جب روایتوں میں تعارض پیدا ہوا تو ان روایتوں کو ترجیح دینا ضروری ہوا جن سے قراء کا بآواز آہستہ ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ دن کی نماز میں قرأت کا بآواز آہستہ ہونا اصل ہے۔

【12】

کرشمہ خداوندی کے ظہور کے وقت سجدہ

اور حضرت عکرمہ (رض) راوی ہیں کہ (جب) حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے یہ کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے فلاں زوجہ مطہرۃ (یعنی حضرت صفیہ (رض) انتقال فرما گئیں (تو) وہ (اس عظیم حادثہ کی خبر سنتے ہی) سجدہ میں گرپڑے ( یا یہ کہ انہوں نے نماز پڑھی) ان سے پوچھا گیا آپ اس وقت سجدہ (کیوں) کرتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ جب تم کوئی نشانی (یعنی کرشمہ خداوندی) دیکھو تو سجدہ کرو اور رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کی دائمی جدائی سے زیادہ بڑی نشانی اور کیا ہوسکتی ہے ؟ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد) تشریح حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے لوگوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ اس وقت بلا سبب سجدہ کیوں کرتے ہیں جب کہ بلاوجہ سجدہ کرنا ممنوع ہے ؟ اس کا جواب انہوں نے دیا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم بلاؤں اور مصیبتوں کے آنے کی صورت میں اللہ کے کرشموں میں سے جن کہ ذریعہ اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے کوئی کرشمہ دیکھو تو بارگاہ الٰہی میں فوراً سجدہ ریز ہوجاؤ اور ظاہر ہے کہ اللہ کا کون سا کرشمہ اس سے زیادہ ڈرانے والا عظیم اور سخت تر ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات اس دنیا سے رخصت ہوجائیں، کیونکہ ان مقدس ماؤں کو رسول اللہ ﷺ کی زوجیت میں ہونے اور آپ ﷺ سے انتہائی ارتباط و اختلاط کی وجہ سے جو عظمت و فضیلت حاصل تھی دوسروں کو حاصل نہیں تھی۔ لہٰذا جس طرح ان کی حیات دنیا اور دنیا والوں کے لئے امن و برکت کے سبب کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوجانے کے خوف کا باعث ہے اس لئے ان کی برکت کے منقطع ہوجانے کے وقت اللہ کی یاد میں مشغول اور بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوجانا ہی بہتر ہے کہ اللہ کے ذکر اور سجدہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا عذاب دفع ہوجائے۔ علماء لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد فاسجدوا (سجدہ کرو) کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھو جب کہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس ارشاد سے صرف سجدہ کرنا ہی مراد ہے۔ علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ ارشاد نبوی میں لفظ آیۃ مطلق ہے اس لئے اس کو اگر چاند و سورج گرہن پر محمول کیا جائے تو سجدہ سے نماز مراد ہوگی اگر اس کے علاوہ دوسری نشانیوں مثلاً طوفان آندھی یا زلزلہ وغیرہ پر اطلاق کیا جائے تو پھر سجدہ سے سجدہ ہی مراد ہوگا اگرچہ اس صورت میں بھی نماز مراد لی جاسکتی ہے کیونکہ یہ منقول ہے کہ جب ایسی کوئی صورت پیش آتی تو رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگئے تھے۔ حضرت ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ یہ منقول ہے کہ سخت طوفان، آندھی اور ظلمت چھا جانے کے وقت نماز پڑھنا ہی اچھا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے بارے میں بھی مروی ہے کہ انہوں نے بصرہ میں زلزلہ کے وقت نماز پڑھی تھی۔

【13】

نماز کسوف کے رکوع و سجدہ اور تلاوت

رکعت کے لئے کھڑے ہوئے تو (اس میں بھی) طویل سورتوں میں سے ایک سورت کی قرأت فرمائی اور پانچ رکوع و دو سجدے کئے پھر اسی طرح (یعنی بہت دیر تک) قبلہ رخ بیٹھے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ آفتاب روشن ہوگیا۔ (ابوداؤد)

【14】

حنفیہ کی مستدل حدیث

اور حضرت نعمان ابن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ ﷺ نے دو دو رکعت نماز پڑھنی شروع کی) یعنی دو رکعت نماز پڑھ کر دیکھتے اگر گرہن ختم نہ ہوتا تو پھر دو دو رکعت نماز پڑھتے اسی طرح گرہن تک نماز پڑھتے رہے) اور ( اللہ تعالیٰ سے یہ دعا) مانگتے ( کہ یا اللہ آفتاب روشن کر دے یا یہ کہ ہر دو دو رکعت کے بعد لوگوں سے گرہن کے بارے میں پوچھتے کہ گرہن ختم ہوا یا نہیں ؟ اگر لوگ کہتے کہ ابھی گرہن باقی ہے تو پھر نماز میں مشغول ہوجاتے) جہاں تک کہ آفتاب روشن ہوگیا۔ (ابوداؤد) اور سنن نسائی کی روایت ہے کہ جب سورج گرہن ہوا تو آپ ﷺ نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی جس میں رکوع و سجدہ کرتے تھے سنن نسائی کی ایک دوسری روایت کے لفاظ یہ ہیں کہ ایک روز جب کہ سورج کو گرہن ہوا تھا رسول اللہ ﷺ عجلت کے ساتھ مسجد میں تشریف لائے اور نماز پڑھی یہاں تک کہ آفتاب روشن ہوگیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ زمین پر رہنے والے بڑے آدمیوں میں سے کسی بڑے آدمی کے مرجانے کی وجہ سے سورج اور چاند کو گرہن لگتا ہے، حالانکہ (حقیقت یہ ہے کہ) سورج و چاند نہ تو کسی کے مرجانے کی وجہ سے گرہن میں آتے ہیں اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے۔ یہ دونوں محض اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے دو مخلوق ہیں، اللہ جو چاہتا ہے اپنی مخلوق میں تغیر (مثلاً گرہن، روشنی اور اندھیرا) پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا جب ان میں سے کوئی گرہن میں آئے تو تم نماز پڑھنی شروع کردو یہاں تک کہ وہ روشن ہوجائے یا اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم ظاہر ہوجائے (یعنی عذاب آجائے یا قیامت شروع ہوجائے ) ۔ (سنن نسائی) تشریح حدیث کے الفاظ ہماری نماز کی طرح کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نماز کسوف کی ہر رکعت میں کئی کئی رکوع نہیں کئے بلکہ جس طرح کہ ہم روز مرہ نماز پڑھتے ہیں اسی طرح آپ ﷺ نے بھی اس وقت نماز پڑھی اور ہر رکعت میں ایک ایک رکوع اور دو دو سجدے کئے۔ یہ حدیث حنیفہ کے مسلک کی دلیل ہیں اس کے علاوہ اور احادیث بھی منقول ہیں جو اس مسئلہ میں حنیفہ کے مسلک کی تائید کرتی ہیں۔

【15】

سجدہ شکر کا بیان

علماء کے یہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ خارج از نماز صرف سجدہ کرنا جائز ہے مسنون اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ یا نہیں ؟ چناچہ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ نماز کے علاوہ دوسرے اوقات میں صرف سجدہ کرنا بدعت محض اور حرام ہے اور شریعت میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اسی بنا پر نماز وتر کے بعد کے دونوں سجدوں کی حرمت بیان کی جاتی ہے۔ دوسرے حضرات کے نزدیک جائز اور کراہت کے ساتھ مشروع ہے۔ اس مسئلہ کی حقیقت اور تفصیل یہ ہے کہ خارج از نماز سجدہ کئی طرح کا ہوتا ہے۔ ایک تو سجدہ سہو ہے یہ نماز ہی کے حکم میں ہے اس کے بارے میں تو کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔ دوسرا سجدہ تلاوت ہے ظاہر ہے کہ اس کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تیسرا سجدہ مناجات ہے جو خارج از نماز ہے اس کے بارے میں اکثر علماء کے ظاہری اقوال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سجدہ مکروہ ہے چوتھا سجدہ شکر ہے جو حصول نعمت اور خاتمہ مصیبت و بلا پر کیا جاتا ہے۔ اس سجدہ میں علماء کے یہاں اختلاف ہے چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے یہاں یہ سجدہ سنت ہے۔ حنیفہ میں سے حضرت امام محمد (رح) کا بھی یہی قول ہے اس مسلک کی تائید میں آثار و احادیث بھی بکثرت منقول ہیں حضرت امام مالک اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے یہاں یہ سجدہ مکروہ ہے۔ یہ حضرات اپنی دلیل کے طور پر یہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ان گنت ہیں جن کا شمار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ظاہر ہے کہ بندہ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہر ہر نعمت کا شکر بھی ادا کرسکے اس لئے اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت کے حصول پر سجدہ شکر کا حکم دینا اسے ایسی تکلیف و مشقت میں مبتلا کردینا ہے جس برداشت کرنا اس کی طاقت سے باہر ہے۔ لیکن جو حضرات سجدہ شکر کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو نئی ہوں کہ کبھی کبھی حاصل ہوتی ہوں وہ نعمتیں مراد نہیں جو مستقل اور دائمی، ہوں جیسے خود انسان کا وجود اس کے توابع اور اس کے لوازمات کہ یہ بھی درحقیقت اللہ کی عظیم نعمتیں ہیں جو بندہ کو مستقل طور پر حاصل ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں مروی ہے کہ جب آپ ﷺ کو ابوجہل لعین کے قتل ہوجانے کی خبر ملی تو آپ ﷺ نے سجدہ شکر کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے مسیلمہ کذاب کے مرنے کی خبر سن کر سجدہ کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جب ذی الثدیہ خارجہ قتل کردیا گیا تو انہوں نے سجدہ شکر کیا۔ اسی طرح مشہور صحابی حضرت کعب ابن مالک (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے قبول توبہ کی خوشخبری کے وقت سجدہ شکر کیا۔ وھذا الباب خال عن اَلْفَصْلُ الْاَوَّلُ و الثالث اور اس باب میں پہلی فصل اور تیسری فصل نہیں ہے

【16】

خوشی کے وقت رسول اللہ ﷺ کا سجدہ شکر

حضرت ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو جب خوشی کا امر پیش آتا۔ یا راوی نے لفظ سرور کی بجائے یسربہ کہا ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی ایسا امر پیش آتا جس سے آپ ﷺ خوش ہوتے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ میں گرپڑتے۔ اور جامع ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی) تشریح علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے حدیث کے ظاہری مفہوم کو دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ حصول نعمت پر سجدہ شکر مشروع ہے جب کہ دوسرے علماء نے اس سے اختلاف کیا ہے اور حدیث کے مفہوم کے بارے میں کہا ہے یہاں دراصل سجدہ سے مراد نماز ان کی اس تاویل کی دلیل یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کے وقت دو رکعت نماز پڑھی جب کہ آپ ﷺ کو جنگ میں فتح کی خوشخبری دی گئی یا یہ کہ ابوجہل کا سر کاٹ کر لا گیا۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر بندہ ہر نئی حاصل ہونے والی نعمت پر سجدہ کو لازم قرار دے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل بھی سجدہ سے خالی نہ ہو کیونکہ انسانی زندگی کا کوئی بھی پل ایسا نہیں آتا جو اپنے دامن میں اللہ تعالیٰ کی نعمت نہ لئے ہوئے ہو۔ پھر یہ کہ انسان کی زندگی خود اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ ہر سانس کا باہر آنا اور اندر جانا اور آنے والا ہر لمحہ اور ہر پل ایک نعمت ہے، چونکہ اس طرح نہ صرف یہ کہ لوگ بہت زیادہ مشقت اور تکلیف میں مبتلا ہوجائیں گے بلکہ انسانی زندگی کا پورا نظم معطل ہو کر رہ جائے گا اس لئے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک سجدہ شکر سنت نہیں ہے۔

【17】

کسی مبتلائے بلا کو دیکھ کر اپنی عافیت پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے

اور حضرت ابوجعفر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بونے (پست قد آدمی) کو دیکھا تو سجدہ میں گر پڑھے۔ دارقطنی نے یہ روایت بطریق ارسال نقل کی ہے اور شرح السنہ میں مصابیح کے الفاظ میں (منقول ہے) ۔ تشریح نغاش اور نغاشی اس آدمی کو فرماتے ہیں جو بہت ہی پستہ قد، ناقص الخلقت اور ضعیف الحرکت ہو ایسے ہی ایک آدمی کو جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو بارگاہ رب العزت میں سجدہ ریز ہوگئے۔ مظہر فرماتے ہیں کہ یہ مسنون ہے کہ جب کسی ایسے آدمی کو دیکھا جائے جو مبتلائے بلا ہو تو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ شکر کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بلا سے محفوظ رکھا ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں یہ خاص ادب ہے کہ یہ سجدہ شکر پوشید طور پر کیا جائے تاکہ وہ مبتلائے بلا رنجیدہ نہ ہو۔ لیکن کسی فاسق کو دیکھ کر اس بات کا سجدہ شکر کرنا کہ اللہ نے مجھے اس فسق سے محفوظ رکھا ہے علانیہ طور پر فاسق کے سامنے ہی ہونا چاہیے تاکہ اسے ندامت اور شرمندگی ہو اور وہ اپنے فسق سے باز آجائے۔ چناچہ حضرت شبلی (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے جب ایک ایسے آدمی کو دیکھا جو دنیا کی لذتوں میں اپنے آپ کو گم کرچکا تھا تو اس کے سامنے ہی فرمایا کہ الحمد اللہ الذی عافانی مما ابتلاک بہ یعنی اس اللہ کے لئے تعریف ہے جس نے مجھے اس بلا سے محفوظ رکھا جس میں تم مبتلا ہو۔

【18】

امت کے حق میں رسول اللہ ﷺ کی شفقت

اور حضرت سعد ابن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کے ہمراہ مدینہ کے ارادہ سے مکہ سے روانہ ہوئے، جب ہم عزوازا کے قریب ( جو مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ایک مقام ہے) پہنچے تو رسول اللہ ﷺ (اونٹنی سے) اترے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر تھوڑی دیر تک اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے (دعا مانگتے) رہے، پھر سجدہ میں گرپڑے۔ اور دیر تک سجدہ میں رہے پھر کھڑے ہوئے اور تھوڑی دیر تک اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگتے رہے۔ پھر سجدہ میں گرپڑے۔ پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور اپنی امت (کے گناہوں کی بخشش، عیوب کی پردہ پوشی اور بلندی درجات) کے لئے شفاعت کی، چناچہ مجھے تہائی امت (کی مغفرت) عطا فرما دی گئی، میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ میں گرپڑا۔ پھر میں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے پروردگار سے اپنی امت کے لئے (اس کی رضا اور مغفرت کی) درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اور تہائی امت (کی مغفرت) عطا فرما دی میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ میں گرپڑا، پھر میں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے پروردگار سے اپنی امت کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے باقی تہائی امت (کی بھی مغفرت) عطا فرما دی، چناچہ میں اپنے پروردگار کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ میں گرپڑا۔ (احمد بن حنبل، ابوداؤد) تشریح پہلی مرتبہ میں سابقین یعنی ان لوگوں کی مغفرت عطا فرمائی گئی جو بھلائی کرنے میں سبقت اور پیش روی کرتے ہیں اعمال میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کرتے، دوسری مرتبہ میں مقتصدین یعنی اوسط درجہ والوں کی مغفرت عطا فرمائی گئی۔ اور تیسری مرتبہ میں ان لوگوں کی بھی مغفرت عطا فرما دی گئی جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں یعنی معصیت و گناہ میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کتنی آیات اور احادیث سے تو یہ ثاب ہوچکا ہے جو لوگ گناہ کبیرہ میں مبتلا رہتے ہیں انہیں آخرت میں عذاب دیا جائے گا لیکن یہاں اس حدیث سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ان لوگوں کو عذاب نہیں دیا جائے گا کیونکہ تمام ہی امت کی مغفرت عطا فرما دی گئی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں دعا، شفاعت اور حق تعالیٰ کی جانب سے مغفرت سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعا و سفارش سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی امت کو خسف و مسخ اور ان جیسے دوسرے عذابوں سے پروانہ امن دے دیا ہے کہ جس طرح پہلی امتوں کے لوگ اپنی بد کرداری اور بد اعمالی کی وجہ سے ان جیسے ہولناک عذاب میں اس دنیا میں مبتلا کر دئے جاتے تھے امت محمدی ﷺ کو اس دنیا میں ان عذاب سے دو چار نہیں کیا جائے گا لہٰذا۔ یہاں مغفرت کا تعلق آخرت کے اس عذاب سے نہیں ہے جو ہر گنہگار کو اس کی بد عملی و بد کرداری کی مناسبت سے دیا جائے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعا اور سفارش سے امت مرحومہ کو دائمی عذاب سے پروانہ امن دے دیا گیا ہے کہ امت کے گناہگار و بد کردار لوگ دائمی طور پر دوزخ میں نہیں رہیں گے۔ بلکہ اپنے اپنے جرم کی مناسبت سے سزا پا کر رسول اللہ ﷺ کی سفارش سے دوزخ سے نکال لئے جائیں گے اور پھر دائمی طور پر جنت میں داخل کر دئے جائیں گے۔