21. نماز استسقاء کا بیان

【1】

نماز استسقاء کا بیان

استسقاء کے لغوی معنی ہیں پانی طلب کرنا اور اصطلاح شریعت میں اس کا مطلب ہے قحط اور خشک سالی میں طلب بارش کے لئے بتائے گئے طریقوں کے مطابق نماز پڑھنا اور دعا کرنا۔

【2】

رسول اللہ ﷺ کی نماز استسقائ

اور حضرت عبداللہ ابن زید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ لوگوں کے ہمراہ طلب بارش کے لئے عید گاہ تشریف لئے گئے۔ چناچہ آپ ﷺ نے وہاں دو رکعت نماز پڑھائی جس میں بلند آواز سے قرأت فرمائی اور قبلہ رخ ہو کر دعا مانگی نیز آپ ﷺ نے (دعا کے لئے) اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے اور قبلہ رخ ہوتے وقت اپنی چادر پھیر دی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) فائدہ حضرت امام شافعی اور صاحبین (حضرت امام یوسف اور حضرت امام محمد) کے نزدیک استسقاء کی نماز عید کی نماز کی طرح ہے اور حضرت امام مالک (رح) کا مسلک یہ ہے کہ استسقاء کی دو رکعت نماز اسی طرح پڑھی جائے جیسا کہ دوسری نماز پڑھی جاتی ہے۔ نماز استسقاء کے بارے میں حنفیہ کا مسلک نماز استسقاء کے سلسلہ میں خود حنفیہ کے یہاں دو قول ہیں، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ استسقاء نماز نہیں ہے بلکہ دعا و استغفار ہے وہ فرماتے ہیں کہ جن اکثر احادیث میں استسقاء کا ذکر آیا ہے ان میں نماز مذکور نہیں ہے بلکہ صرف دعا کرنا مذکور ہے۔ پھر حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں صحیح روایت منقول ہے۔ کہ انہوں نے استسقاء کے لئے صرف دعا و استغفار پر اکتفا فرمایا نماز نہیں پڑھی، اگر اس سلسلہ میں نماز مسنون ہوتی تو وہ ترک نہ کرتے۔ اور ایسے ضروری مشہور واقعات کا انہیں معلوم نہ ہونا جب کہ زمانہ نبوت کو بھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے بعید ہے اور معلوم ہونے کی صورت میں اسے ترک کرنا حضرت عمر کی (رض) شان سے بعید تر ہے۔ صاحبین کا مسلک اس کے خلاف ہے۔ ان حضرات کے نزدیک نہ صرف یہ کہ استسقاء کے لئے نماز منقول اور مسنون ہے بلکہ اس نماز میں جماعت اور خطبہ بھی مشروع ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے قول لا صلوۃ فی الاستسقاء (یعنی استسقاء کے لئے نماز نہیں ہے) کی مراد یہ ہے کہ اس نماز کے لئے جماعت خطبہ اور خصوصیت سنت و شرط نہیں، اگر ہر آدمی الگ الگ نفل نماز پڑھے اور دعا و استغفار کرے تو بہتر ہے۔ اس وقت حنفیہ کے یہاں فتوی صاحبین کے قول پر ہے کیونکہ نماز استسقاء رسول اللہ ﷺ سے ثابت اور منقول ہے جس کا ایک واضح ثبوت مذکورہ بالا حدیث ہے۔ نماز استسقاء کے سلسلہ میں یہ افضل ہے کہ اس کی دونوں رکعتوں میں سے پہلی رکعت سورت ق یا سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں اقتربت الساعۃ یا سورت غاشیہ کی قرأت کی جائے۔ چادر پھیرنا دراصل تغیر حالت کے لئے اچھا شگون لینے کے درجہ میں ہے جس طرح چادر الٹ پلٹ دی گئی ہے اسی طرح موجودہ حالت میں بھی تبدیلی اور تغیر ہوجائے بایں طور کہ قحط کے بدلہ ارزانی ہوجائے اور خشک سالی کی بجائے باران رحمت سے دنیا سیراب ہوجائے۔ چادر پھیرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے لے جا کر دائیں ہاتھ سے چادر کی بائیں جانب کے نیچے کا کونا پکڑا جائے اور بائیں ہاتھ سے چادر کی دائیں جانب کے نیچے کا کونا پکڑ لیا جائے پھر دونوں ہاتھوں کو پیٹھ کے پیچھے اس طرح پھیرا اور پلٹا جائے کہ دائیں ہاتھ چادر کا پکڑا ہوا کونا دائیں مونڈھے پر آجائے اور بائیں ہاتھ میں چادر کا پکڑا ہوا کونا بائیں مونڈھے پر آجائے اس طریقہ سے چادر کو دایاں کونا تو بائیں ہوجائے گا اور بایاں کونا دائیں ہوجائے گا۔ نیز اور اوپر نیچے پہنچ جائے گا اور نیچے کا حصہ او پر جائے گا۔

【3】

رسول اللہ ﷺ نماز استسقاء میں دعا کے وقت ہاتھ زیادہ بلند کرتے تھے

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ استسقاء کے علاوہ اور کسی موقع پر دعا کے لئے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے چناچہ ( استسقاء کے لئے دعا کے وقت) آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ اتنے (زیادہ) بلند کرتے تھے کہ آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت انس (رض) کے ارشاد کی مراد استسقاء کے علاوہ کسی دوسرے موقع پر دعا کے وقت بالکل اٹھانے کی نفی نہیں ہے کیونکہ استسقاء کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی دعا کے وقت رسول اللہ ﷺ سے دونوں ہاتھوں کا بلند کرنا ثابت ہوچکا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ دوسرے مواقع پر بھی دعا کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کا اتنا زیادہ اور سر سے اونچا بلند نہیں کرتے تھے کہ آپ ﷺ کوئی کپڑا نہ اوڑھے ہوتے تھے تو بغلوں کی سفیدی تک نظر آنے لگتی تھی۔ علماء لکھتے ہیں کہ جس مقصد اور مراد کے لئے دعا مانگی جارہی ہو وہ مقصد جتنا زیادہ اہم اور عظیم ہو دعا کے وقت دونوں ہاتھ بھی اتنے زیادہ اوپر اٹھانے چاہئیں۔

【4】

دعا کے وقت ہاتھوں کی ہیت

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے طلب بارش کے لئے دعا مانگی تو اپنے دونوں ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف کرلی۔ (صحیح مسلم) تشریح علماء کرام نے لکھا ہے کہ بارش کے لئے دعا مانگتے وقت ہتھیلیوں کی پشت کو آسمان کی طرف کردینا بھی اچھا شگون لینے کے درجہ میں ہے جیسا کہ چارد پلٹ کر اچھا شگون لیا جاتا ہے۔ ہاتھوں کی پشت کو آسمان کی طرف کرنا دراصل اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ کرے اسی طرح بادلوں کے پیٹ بھی زمین کی طرف ہوجائیں اور وہ اپنے اندر کے ذخیرہ آب کو زمین پر انڈیل دیں۔ دعا کے وقت اٹھتے ہوئے ہاتھوں کی ہیت کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ جو آدمی بلاء مثلاً قحط وغیرہ کے دور ہونے کے لئے دعا مانگے تو وہ اپنے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف کرے اور جو آدمی اللہ تعالیٰ سے کسی نعمت کی طلب کے لئے دعا کرے تو وہ ہتھیلیوں کو آسمان کی طرف کرے۔

【5】

بارش کے وقت رسول اللہ ﷺ کی دعا

اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب بارش دیکھتے تو یہ دعا مانگتے اللھم صیبا نافعا یعنی اے اللہ ! نفع دینے والی بارش خوب برسا۔ (صحیح البخاری )

【6】

بارش کے وقت رسول اللہ ﷺ کا عمل

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم رسول کریم ﷺ کے ہمراہ تھے کہ بارش شروع ہوگئی۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے (اپنے سر سے یا پیٹھ سے) کپڑا اتار لیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے ( سر مبارک یا پیٹھ پر) اوپر بارش کا پانی گرنے لگا۔ ہم نے ( یہ دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس لئے کہ یہ پانی اپنے پروردگار کے پاس سے ابھی ابھی آیا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح آپ ﷺ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ پانی اپنے رب کے حکم سے ابھی ابھی اوپر سے اترا ہے اور اس عالم کثیف کے اجراء سے ابھی تک آلودہ نہیں ہوا ہے نہ ہی اس تک ابی گناہگاروں کے ہاتھ پہنچ پائے ہیں اس کے لئے یہ پانی متبرک ہے جس کا کچھ حصہ میں اپنے بدن پر لے رہا ہوں۔ علماء لکھتے ہیں کہ بارش کے وقت ( اپنے کسی بھی مطلب اور مقصد کے لئے) دعا مانگنا سنت ہے کیونکہ اس وقت دعا قبول ہوتی ہے۔

【7】

استسقاء میں چادر پھیرنے کا بیان

حضرت عبداللہ ابن زید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید گاہ تشریف لے گئے اور وہاں بارش مانگی۔ چناچہ آپ ﷺ قبلہ رخ ہوئے تو اپنی چارد کا دایاں کونا گھما کر اپنے بائیں مونڈے پر لائے اور چادر کا بایاں کو نا گھما کر اپنے دائیں مونڈھے پر لائے پھر اللہ تعالیٰ سے (بارش کے لئے) دعا مانگی۔ (سنن ابوداؤد) تشریح اس حدیث میں استسقاء کے لئے نماز پڑھنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ صرف دعا کا ذکر کیا گیا ہے

【8】

استسقاء میں چادر پھیرنے کا بیان

اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ نے بارش طلب (کرنے کے لئے دعا) کی تو اس وقت آپ ﷺ کے جسم مبارک پر سیاہ رنگ کی چادر تھی، آپ ﷺ نے یہ ارادہ کیا کہ چادر کے نیچے کا کونا پلٹ کر اسے اوپر کی جانب لائیں (جیسا کہ چادر پھیرنے کا طریقہ ہے) مگر اس میں جب آپ ﷺ کو دقت پیش آئی تو آپ ﷺ نے اپنے ہی مونڈھے پر چادر پلٹ لی۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق جب چادر پھیرنے میں دقت محسوس ہوئی تو آپ ﷺ نے صرف یہ کیا کہ چادر کا دایاں کونا بائیں مونڈھے پر کرلیا اور بایاں کونا دائیں مونڈھے پر۔ آپ ﷺ نے چادر مبارک دوسرے خطبہ میں پھیری تھی کیونکہ چادر پھیرنے کا وقت اور موقع وہی ہے۔

【9】

استسقاء میں چادر پھیرنے کا بیان

اور حضرت عمیر (رض) سے جو ابی اللحم کے آزاد کردہ غلام تھے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو احجالزیت کے پاس جو زوراء کے قریب ہے، بارش مانگتے ہوئے دیکھا۔ آپ ﷺ کھرے ہوئے طلب بارش کے لئے دعا مانگ رہے تھے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ کی طرف اٹھائے ہوئے تھے جو سر سے اونچے نہیں تھے۔ جامع ترمذی اور سنن نسائی نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ (ابوداؤد) تشریح احجا الزیت مدینہ میں ایک جگہ کا نام تھا اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہاں سیاہ پتھر تھے جو اتنے چمک دار تھے جن کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا ان پتھر پر روغن زیتون ملا ہوا ہے۔ زوراء بھی مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام تھا۔ اس حدیث میں دعا کے وقت اٹھے ہوئے ہاتھوں کی یہ ہیت بیان کی جا رہی ہے کہ آپ ﷺ کی دونوں ہتھیلیاں منہ کی طرف یعنی اوپر کی جانب تھیں۔ بنا بریں یہ روایت اس روایت کے منافی نہیں ہے جس سے معلوم ہوا کہ دعا کے وقت آپ ﷺ اپنے اٹھے ہوئے ہاتھوں کی ہتھیلیاں زمین کی طرف رکھتے تھے کیونکہ کبھی تو آپ ﷺ اس طرح سے دعا مانگتے کہ ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہوتی تھیں جیسا کہ اس روایت سے معلوم ہوا۔ اور کبھی اس طرح اللہ کی بار گاہ میں دست سوال دراز کرتے تھے کہ ہتھیلیاں زمین کی طرف ہوتی تھیں جیسا کہ گذشتہ روایت میں معلوم ہوا۔ اسی طرح یہاں اس روایت میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ کے اٹھے ہوئے ہاتھ سر مبارک سے اونچے نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا یہ بھی حضرت انس (رض) کی اس روایت کے منافی نہیں ہے جس سے معلوم ہوچکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ طلب بارش کے لئے دعا مانگتے وقت اپنے ہاتھ بہت زیادہ بلند کرتے تھے، یہاں بھی یہی بات ہے کہ کبھی تو آپ ﷺ اپنے ہاتھ بہت زیادہ بلند کرتے تھے جیسا کہ حضرت انس (رض) نے بیان کیا ہے اور کبھی بہت زیادہ بلند نہیں کرتے تھے جیسا کہ یہاں عمیر بیان کر رہے ہیں۔

【10】

استسقاء کے وقت رسول اللہ ﷺ خشوع و خضوع اور تضرع اختیار کرتے تھے

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ استسقاء کے لئے باہر نکلے اور اس وقت آپ ﷺ کی کیفیت یہ تھی کہ (ظاہر میں تو) آپ ﷺ زینت ترک کئے ہوئے اور متواضع تھے (باطن میں) عاجزی و بیچارگی اور (ذکر اللہ میں زبان کی مشغولیت کے ساتھ) تضرع اختیار کئے ہوئے تھے۔ (سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح بارش کے لئے دعا کرنے اور پروردگار سے رحمت مانگنے کے لئے جب آپ ﷺ باہر نکلتے تھے تو آپ ﷺ کا ظاہر و باطن اور زبان و دل گویا پورا وجود مبارک انتہائی بےچارگی اور عجز اختیار کئے ہوئے ہوتا تھا، چناچہ نہ صرف یہ کہ وہ اس موقع پر بندہ کی انتہائی محتاجی و بیچارگی اور عاجزی کے اظہار کے لئے آپ ﷺ کے ظاہری طور پر زیب وزینت (یعنی لباس وغیرہ میں خوش سلیقگی ترک کر کے سراپا عجز و انکسار ہوتے تھے بلکہ باطنی طور پر بھی آپ ﷺ کا قلب مبارک خوف اللہ سے لرزاں اور زبان مبارک تضرع وزاری میں مشغول ہوتی تھی۔

【11】

بارش کی دعا

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (یعنی حضرت عبداللہ صحابی سے) روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ جب بارش مانگتے تو دعا پڑھتے اَللّٰھُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَھِیْمَتَکَ وَانْشُرْرَحْمَتَکَ وَاَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ یعنی اے اللہ اپنے بندوں اور اپنے جانوروں کو پانی سے سیراب فرما دے اپنی رحمت پھیلا دے اور اپنی مردہ (یعنی خشک) زمینوں کو زندگی (یعنی شادابی و سبزی عطا فرما۔ (ابوداؤد)

【12】

بارش کی دعا

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول کریم ﷺ (استسقاء کے لئے) ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے اور یہ دعا فرما رہے تھے اللھم اسقنا مغیثا مریا مریعا نا فعا غیر ضارعا جلا غیر اجل یعنی اے اللہ ؟ تو ہمیں بارش سے سیراب فرما جو فریاد رسی کرے اور جس کا انجام بہتر ہو اور جو ارزانی کرنے والی اور نفع پہنچانے والی ہو اور جلد آنے والی ہو دیر میں آنے والی نہ ہو۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ( اس دعا کے بعد) آسمان ابر آلود ہوگیا۔ (ابوداؤد)

【13】

بارش کی دعا

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ لوگوں نے رسول کریم ﷺ سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی، آپ ﷺ نے حکم دیا کہ عید گاہ میں منبر رکھا جائے چناچہ جب عید گاہ میں منبر رکھ دیا گیا تو آپ ﷺ نے لوگوں سے ایک دن کے بارے میں طے کیا کہ اس دن سب لوگ عید گاہ چلیں گے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ (متعین دن) کو رسول اللہ ﷺ سورج کا کنارہ ظاہر ہوتے ہی (عید گاہ) تشریف لے گئے اور منبر پر بیٹھ کر تکبیر کہی اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اپنے شہروں کی قحط سالی اور بارش کے اپنے وقت پر نہ برسنے کی شکایت تھی اب اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اس سے بارش کے لئے دعا مانگو اور اس نے وعدہ کیا ہے کہ تمہاری دعا قبول ہوگئی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے مہربان اور بخشش کرنے والا ہے یوم جزاء کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اے اللہ ! تو معبود ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی (بےپرواہ) ہے اور ہم فقیر و محتاج ہیں۔ ہم پر بارش برسا اور جو چیز کہ تو نازل کرے (یعنی بارش) اس کو ایک مدت دراز تک ہماری مدت اور (اس کے ذریعہ اپنے اپنے مقاصد و منافع تک) پہنچنے کا سبب بنا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اتنے بلند اٹھائے کہ آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی، پھر اپنی پشت مبارک لوگوں کی طرف پھیر کر اپنی چادر الٹی یا یہ کہ پھیری اور اپنے ہاتھ یوں ہی اٹھائے رہے پھر لوگوں کی طرف منہ کرے (منبر سے) نیچے تشریف لائے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ جب ہی اللہ تعالیٰ نے بادل ظاہر فرمائے جو گرجنے لگے اور بجلی چمکنے لگی، چناچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بارش شروع ہوگئی یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنی مسجد تک نہ آئے پائے تھے کہ نالے بہنے لگے، جب آپ ﷺ نے لوگوں کو سایہ (یعنی بارش سے بچنے کے لئے محفوظ مقام) ڈھونڈھنے میں جلدی کرتے دیکھا تو ہنس پڑھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی کچلیاں ظاہر ہوگئیں پھر فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول اللہ ہوں۔ (ابوداؤد) تشریح حضرت امام مالک حضرت امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد فرماتے ہیں کہ نماز استسقاء کے بعد دو خطبے پڑھنا سنت ہے اور خطبہ کی ابتداء استغفار کے ساتھ کرنی چاہیے جیسے کہ عیدین کے خطبہ کی ابتداء تکبیر کے ساتھ ہوتی ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت امام احمد کے نزدیک خطبہ مشروع نہیں ہے صرف دعا و استغفار پر اکتفا کرنا چاہیے۔ حضرت ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ اصحاب سنن اربعہ نے حضرت اسحق ابن عبداللہ کنانہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (استسقاء کے لئے) عید گاہ جا کر تمہاری طرح خطبہ نہیں پڑھا بلکہ آپ ﷺ برابر دعا کرتے گریہ وزاری کرتے اور اللہ کی عظمت و بڑائی بیان کرتے رہے نیز آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی جیسا کہ عید میں پڑھتے تھے۔

【14】

وسیلہ سے بارش کے لئے دعا

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ جب (بارش نہ ہونے کے وجہ سے) قحط سالی ہوتی تو امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب، حضرت عباس ابن عبدالمطلب کے وسیلہ سے بارش کے لئے دعا فرماتے تھے چناچہ وہ فرماتے اے اللہ ! ہم تیرے نبی ﷺ کے وسیلہ سے تجھ سے دعا کرتے تھے پس تو ہمیں سیراب کرتا تھا اب ہم تیرے نبی ﷺ کے چچا کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں پس تو ہمیں سیراب کر۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ (اس دعا سے) بارش ہوجاتی تھی۔ (صحیح البخاری ) تشریح منقول ہے کہ جب حضرت عمر اور دوسرے صحابہ کرام جو ان کے ہمراہ ہوتے تھے حضرت عباس (رض) کے وسیلہ سے دعا مانگتے تو حضرت عباس (رض) فرماتے کہ اے پروردگار ! تیرے پیغمبر کی امت نے میرا وسیلہ اختیار کیا ہے۔ خداوند ! تو میرے اس بڑھاپے کو رسوا مت کر اور مجھے ان کے سامنے شرمندہ نہ کر۔ چناچہ حضرت عمر (رض) و دیگر صحابہ کرام کی دعا اور حضرت عباس (رض) کے ان الفاظ میں اتنی تایثر ہوتی کہ جب ہی بارش شروع ہوجاتی تھی۔

【15】

استسقاء کے سلسلہ میں ایک نبی کا واقعہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انبیاء میں سے ایک نبی لوگوں کے ہمراہ استسقاء کے لئے نکلے پس اس نبی نے اچانک ایک چیونٹی کو دیکھا جو اپنے کچھ پاؤں آسمان کی طرف اٹھاے ہوئے (کھڑی) تھی (یہ دیکھ کر) نبی ﷺ نے فرمایا کہ واپس چلو ! اس چیونٹی کی وجہ سے تمہاری دعا قبول کرلی گئی۔ (دارقطنی) تشریح منقول ہے کہ یہ نبی حضرت سلیمان (علیہ السلام) تھے۔ واقعہ سے مقصود درحقیقت اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی قدرت کا اظہار ہے اور یہ بتانا ہے کہ نہ صرف یہ کہ پروردگار کی رحمت تمام مخلوقات پر یکساں ہیں بلکہ اس کا علم تمام موجودات کے احوال و کوائف کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مسبب الاسباب اور قاضی الحاجات ہے۔ اس واقعہ کے سلسلہ میں یہ بھی منقول ہے کہ وہ چیونٹی یہ دعاء کرتی تھی اللھم انا خلق من خلقک لا غنی بنا عن رزقک فلا نھلکنا بذنوب بنی ادم یعنی اے پروردگار ! تیری مخلوقات میں سے ہم ایک مخلوق ہیں تیرے رزق سے ہم مستغنی نہیں ہیں سو تو ہمیں انسانوں کو گناہوں کی وجہ سے ہلاک نہ کر۔