22. طب اور جھاڑ پھونک کا بیان

【1】

ہواؤں کا بیان

مشکوٰۃ کے اکثر نسخوں میں یہاں صرف لفظ باب لکھا ہوا ہے جیسا کہ مؤلف مشکوٰۃ کی عادت ہے کہ وہ بعض مواقع پر صرف لفظ باب لکھ کر ایک باب قائم جو درحقیقت کوئی الگ سے اور مستقل باب نہیں ہوتا بلکہ بیان کردہ پہلے باب کے لواحق اور متممات پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن ایک صحیح نسخہ میں اس موقع پر باب فرالریاح اور اسی طرح ایک دوسرے نسخہ میں باب الریاح لکھا ہوا ہے جس کا مطلب ہے ہواؤں کا بیان گویا اس باب میں ہواؤں سے متعلق احادیث نقل کی جائیں گی۔

【2】

ہوا رحمت بھی ہے اور عذاب بھی

ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پروا ہوا کے ذریعے میری مدد کی گئی اور قوم عاد پچھوا ہوا کے ذریعہ ہلاک کی گئی (مسلم) تشریح غزوہ خندق کے موقع پر جب کفار نے اپنی پوری قہرمانی طاقتوں کے ساتھ مدینہ کا بڑا شدید محاصرہ کیا تو منجانب اللہ مسلمانوں کی اس طرح مدد کی گئی کہ پروا ہوا نہایت تیز چلنی شروع ہوگئی جس کی شدت کا یہ عالم تھا کہ اس نے لشکر کفار کے خیمے اکھاڑ ڈالے۔ ان کی ہانڈیاں اوندھا دیں اور ان کے منہ پر کنکریوں کی بارش کردی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں رعب و دہشت کی ایسی ہیبت ناک لہر دوڑا دی کہ وہ حو اس باختہ ہوگئے اور شکست کا منہ دیکھ کر میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ گویا یہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا افضل اور رسول اللہ ﷺ کا ایک عظیم معجزہ تھا۔ قوم عاد گذشتہ امتوں میں ایک بڑی سرکش امت گذری ہے اس امت کے لوگوں کے قد بارہ بارہ گز کے تھے۔ جب اس قوم کی سرکشی و بد کر داری نے حد سے تجاوز کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دی تو بڑے زبر دست پچھم کی ہوا چلی جس نے ان کو اس طرح زمین پردے مارا کہ ان کے سر چنکنا چور ہوگئے، پیٹ پھٹ گئے اور آنتیں باہر نکل پڑیں۔ لہٰذا اس ارشاد سے رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہوا اللہ تعالیٰ کی تابعدار ہے کبھی تو وہ اللہ کے حکم سے رحمت الٰہی کی شکل میں مدد و نصرت بن کر آتی ہے اور کبھی وہی ہوا اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے عذاب الہیٰ کی صورت میں کسی قوم کے لئے ہلاکت و بربادی کا پیغام لے کر آتی ہے۔

【3】

ابر و ہوا دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی کیفیت

اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو کبھی بھی اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ مجھے آپ ﷺ کا کوا نظر آیا ہو۔ آپ صرف تبسم فرماتے تھے اور جب ابر یا ہوا دیکھتے تو آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کا تغیر (صاف) پہچانا جاتا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ جب ابر یا ہوا دیکھتے تو متفکر ہوجاتے تھے اور چہرہ مبارک پر اس ڈر اور خوف کے آثار صاف پہچانے جاتے کہ کہیں یہ ابر یا ہوا اپنے دامن میں لوگوں کے لئے نقصان و ضرر کا سامان نہ لئے ہو۔ اس روایت میں حضرت عائشہ (رض) کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یوں تو رسول اللہ ﷺ شہود یعنی جلال کبریائی کے مشاہدہ کی وجہ سے ہمیشہ ہی خائف و لرزاں رہا کرتے تھے اور کسی بھی وقت آپ ﷺ کا قلب مبارک خوف و خشیت سے خالی نہیں رہتا تھا۔ مگر خاص طور پر جب ابر یا ہوا دیکھتے تو اور زیادہ متفکر اور متردد ہوجاتے تھے۔

【4】

تیز ہوا کے وقت رسول اللہ ﷺ کی دعا

اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب شدت کی ہوا چلتی تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرماتے اے اللہ ! میں مانگتا ہوں تجھ سے بھلائی جو اس (ہوا کی ذات میں ہے اور بھلائی اس چیز کی جو اس میں ہے (یعنی اس کے منافع) اور بھلائی اس چیز کی جس کے لئے یہ ہوا بھیجی گئی ہے (یعنی اس کی مدد) اور پناہ مانگتاہوں تیرے ذریعہ اس برائی سے اور اس چیز کی برائی سے جو اس میں ہے (یعنی یہ عذاب کا باعث نہ ہو) اور جب آسمان ابر آلود ہوتا تو رسول اللہ ﷺ (کے چہر مبارک) کا رنگ بدل جاتا چناچہ (اضطراب و گھبراہٹ کی وجہ سے ایک جگہ نہ رہتے بلکہ) کبھی گھر سے باہر نکلتے اور کبھی باہر سے اندر آتے اس طرح پھر آتے اور پھرجاتے۔ جب بارش شروع ہوجاتی تو آپ ﷺ کا خوف و اضطراب ختم ہوجاتا (ایک مرتبہ) حضرت عائشہ (رض) نے جب یہ (تغیر و اضطراب) محسوس کیا تو رسول اللہ ﷺ سے اس کا سبب پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ کیا ! خبر یہ ابرو یسا ہی ہو جس کی نسبت قوم عاد نے کہا تھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بر سے گا۔ چناچہ اس آیت میں قوم عاد کا حال بیان کیا گیا ہے کہ جب انہوں نے ابر کو اپنے نالوں اور وادیوں پر آتے ہوئے دیکھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بر سے گا۔ اور ایک روایت میں بجائے (فاذا مطرت سری عنہ) یہ الفاظ ہیں کہ جب آپ ﷺ بارش کو دیکھتے تو یہ فرماتے کہ یہ بارش باعث رحمت ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مذکورہ بالا آیت میں قوم عاد کی ہلاکت کی ابتداء کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب ابر کی شکل میں ان پر نمودار ہوا تو اسی خوش فہمی میں رہے کہ یہ ابر ہمارے اوپر بارش برسائے گا، مگر حق تعالیٰ نے ان کی اس خوش فہمی کو جلد ہی ہلاکت میں بدل دیا جس کا اظہار اسی آیت کے دوسرے الفاظ میں بل ھو ما استعجلتم الاّ یہ کے ذریعہ بایں طور کیا گیا ہے کہ (نہیں) بلکہ (یہ) وہ چیز ہے جس کے لئے تم رہ گئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا، گنہگار لوگوں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔ پس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ابر دیکھتے تو پڑھتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح قوم عاد نے ابر دیکھ کر یہ سمجھا تھا کہ ہم پر بارش ہوگی اور پھر وہ ابر ان پر بارش تو کیا برساتا بلکہ ایسی تند و تیز آندھی آئی جس نے آن واحد میں پوری قوم کو ہلاکت کی وادی میں پھینک دیا اسی لئے ہمارے لئے بھی یہ ابر ہلاکت و بربادی کا باعث نہ ہو ؟

【5】

غیب کے پانچ خزانے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا غیب کے خزانے پانچ ہیں پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی (جس کا ترجمہ یہ ہے) اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے۔ (صحیح البخاری ) تشریح غیب کے پانچ خزانے ہیں جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ کوئی دوسرا ان پر مطلع نہیں ہے۔ انہیں پانچ خزانوں کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ آیت (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ) 31 ۔ لقمان 34) یعنی بلاشبہ اللہ ہی کو قیامت قائم ہونے اور بارش برسانے کا علم ہے اور وہی جانتا ہے کہ (ماں کے) پیٹ میں کیا ہے (یعنی لڑکا ہے یا لڑکی، گورا ہے یا کالا اور پورا ہے یا ادھورا وغیرہ وغیرہ) اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا (یعنی دنیا میں بھلائی کرے گا یا برائی اور آخرت میں ثواب پائے گا یا عذاب) اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ وہ کون سی زمین پر مرے گا، بیشک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ یہ غیب کی وہ پانچ چیزیں ہیں جن کی کلیات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہاں اللہ کے بعض برگزیدہ و نیک بندے ان میں سے کسی بعض جزئیات کو جان جاتے ہیں (مگر وہ بھی اسی وقت جب کہ اللہ اپنے کسی ذریعہ سے بتادیتا ہے)

【6】

سخت قحط کیا ہے؟

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سخت قحط اس کا نام نہیں ہے کہ تم پر بارش نہ ہو بلکہ سخت قحط یہ ہے کہ تم پر بارش ہو مگر زمین نہ کچھ لگائے۔ (صحیح مسلم) تشریح قاضی نے کہا ہے کہ جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوا شدید اور سخت قحط سالی یہ نہیں ہے کہ بارش نہ ہو اور سو کھا پڑجائے بلکہ شدید اور سخت قحط سالی اس کا نام ہے کہ بارش تو ہو مگر زمین کی پیداوار بالکل بند ہوجائے کیونکہ فائدہ اور بھلائی کی امید اور توقع اور پھر اس کے اسباب و وسائل کے ظاہر ہوجانے کے بعد غیر متوقع طریقہ پر نقصان و ضرر پہلے سے متوقع نقصان و مایوسی سے کہیں زیادہ سخت اور شدید ہوتا ہے۔

【7】

ہوا کو برا کہنے کی ممانعت

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہوا اللہ کی رحمت ہے، وہ رحمت بھی لاتی ہے اور عذاب بھی۔ پس تم (اگر تمہیں اس سے کوئی نقصان پہنچے تو) اسے برا نہ کہو ہاں تم اللہ سے اس کی بھلائی طلب کرو، اللہ سے اس کے نقصان سے پناہ مانگو۔ (شافعی، سنن ابوداؤد، ابن ماجہ، بیہقی) تشریح سخت ہوا اور آندھی جو اللہ کے سرکش اور نافرمانبردار بندوں کے لئے عذاب کا ذریعہ بن کر آتی ہے وہ بھی حقیقت میں رحمت ہی ہے کیونکہ اللہ کے نیک و فرمانبردار بندے اس کی تباہی سے محفوظ رہتے ہیں۔

【8】

ہوا کو برا کہنے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک آدمی نے کسی ایسی چیز پر لعنت کی جو لعنت کی مستحق نہ تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہوا پر لعنت نہ کرو کیونکہ وہ تو (رحمت یا عذاب کے لئے) اللہ کی جانب سے مامور ہے اور جو آدمی کسی ایسی چیز پر لعنت کرتا ہے جو لعنت کی مستحق نہیں ہوتی تو وہ لعنت اسی لعنت کرنے والے پر لوٹ آتی ہے۔ یہ روایت امام ترمذی (رح) نے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح حضرت امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ لعنت کا باعث تین ہی چیزیں ہوا کرتی ہیں۔ (١) کفر (٢) بدعت (٣) فسق اور ظاہر ہے کہ ہوا میں ان تین چیزوں میں سے کوئی بھی چیز نہیں پائی جاتی اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ہوا کو لعنت دینے سے منع فرمایا۔

【9】

ہوا کو برا کہنے کی ممانعت

اور حضرت ابی ابن کعب (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہوا کو برا نہ کہو، ہاں جب تم یہ دیکھو کہ (اس کے جھلسا دینے والے جھونکوں یا اس کی ٹھنڈی لہروں کی وجہ سے) تمہیں وہ ناگوار محسوس ہو رہی ہے (یا اس کی تیز و تندی کی وجہ سے تمہیں تکلیف یا نقصان ہو رہا ہے) دعا کرو کہ اے اللہ ! ہم تجھ سے اس ہوا کی بھلائی اور جو کچھ اس کے اندر ہے اس کی بھلائی اور جس چیز کے لئے یہ مامور کی گئی ہے اس کی بھلائی مانگتی ہیں اور ہم تجھ سے اس ہوا کی برائی سے اور جو کچھ اس کے اندر ہے اور اس کی برائی سے اور جس چیز کے لئے یہ مامور کی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ چاہتے ہیں۔ (جامع ترمذی )

【10】

تیز ہوا کے وقت رسول اللہ ﷺ کی دعا

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب بھی (تیز) ہوا چلتی تو رسول اللہ ﷺ ( اللہ کے سامنے عجز و انکساری کے اظہار) امت کی طرف سے خوف اور تعلیم کے پیش نظر کہ دوسرے لوگ بھی ایسا ہی کریں) دوزانوں ہو کر بیٹھ جاتے تھے اور یہ دعا فرماتے تھے۔ اے اللہ ! اس ہوا کو ریاح (یعنی رحمت) بناء ریح (یعنی عذاب) نہ بنا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیات کریمہ ہیں (جن کا ترجمہ یہ ہے) کہ اور بھیجی ہم نے ان پر تیز و تند ہوا۔ اور بھیجی ہم نے ان پر بانجھ ہوا (یعنی ایسی ہوا جو درختوں کو ثمر آور نہیں ہونے دیتی تھی) اور بھیجیں ہم نے میوہ لانے والی ہوائیں۔ اور یہ کہ بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ (بارش کی) خوشخبری لانے والی ہوائیں۔ (شافعی، بیہقی) تشریح مشہور اور صحیح یہ ہے کہ لفظ ریح جو مفرد ہے عذاب کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اس روایت میں ذکر کردہ پہلی دونوں آیتوں سے معلوم ہوا اور لفظ ریاح جو جمع ہے رحمت کے موقع پر مستعمل ہوتا ہے جیسا کہ آخر کی دونوں آیتوں سے ثابت ہوا۔ پس حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی اس روایت میں مذکور دعا میں ریاح سے مراد رحمت اور ریح سے مراد عذاب ہے لیکن ابوجعفر طحاوی نے اس میں اشکال ظاہر کیا ہے کیونکہ قرآن کریم ہی میں یہ بھی ارشاد ہے کہ وجرین بھم بر یح طیبۃ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ریح رحمت و بھلائی کے لئے مستعمل ہے۔ اسی طرح بعض احادیث میں بھی لفظ ریح جو مفرد ہے خیر و شر دونوں موقعوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت ابو ہریرہ (رض) کی گذشتہ روایت ( نمبر ٦) کے الفاظ الریح من روح اللہ الخ کو دیکھ لیجئے۔ لہٰذا اس اشکال کے پیش نظر خطابی نے اس حدیث کی توجیہہ یہ کی ہے کہ جب بہت ساری ہوائیں آتی ہیں تو وہ ابروبارش لاتی ہیں اور کھیتوں میں نمو پیدا کرتی ہیں۔ جب کہ ایک ہوا میں یہ تایثر کم ہوتی ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اس ہوا کو ریاح بنا، ریح نہ بنا۔

【11】

ابر کے وقت کی دعا

اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب آسمان سے گھٹا دیکھتے تو ( مباح) کام کاج چھوڑ کر ادھر متوجہ ہوجاتے اور یہ دعا فرماتے اے اللہ ! جو کچھ اس میں برائی ہو میں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں اگر اللہ تعالیٰ (بغیر برسائے) آسمان کو صاف کردیتا تو آپ ﷺ اللہ کی حمد بیان فرماتے اور اگر بارش شروع ہوجاتی تو یہ دعا فرماتے کہ اللہ ! نفع دینے والا پانی برسا۔ سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، الفاظ شافعی کے ہیں۔

【12】

گرج کے وقت کی دعا

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب گرج کی آواز سنتے ہیں یا آپ ﷺ کو بجلی کا گرنا معلوم ہوتا تو یہ دعا فرماتے ہیں۔ اے اللہ ! ہمیں اپنے غضب سے نہ مار اور اپنے عذاب سے ہلاک نہ کر اور ہمیں عافیت میں رکھ ( یعنی ہمیں عافیت کی موت دے) پہلے اس کے (کہ تیرا عذاب نازل ہو) احمد بن حنبل جامع ترمذی اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【13】

گرج کے وقت کی دعا

حضرت عبداللہ ابن زبیر (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جب گرج کی آواز سنتے تو بات چیت چھوڑ دیتے تھے اور یہ پڑھنے لگتے۔ پاک ہے وہ ذات جس کی رعد تسبیح کرتا ہے اس کی تعریف کے ساتھ اور فرشتے اس کے خوف سے۔ (مالک) تشریح رعد فرشتے کا نام ہے جو بادل ہنکانے پر مقرر ہے۔ چناچہ گرج درحقیقت اس کی تسبیح کی آواز ہے حضرت عبداللہ ابن عباس کی یہ روایت منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت عمر کے ہمراہ سفر میں تھے گرج، بجلی کی چمک اور سردی نے ہمیں آلیا، حضرت کعب نے (یہ دیکھ کر) کہا کہ جو آدمی گرج کی آواز سن کر تین مرتبہ یہ پڑھے سبحان من یسبح الرعد بحمدہ والملائ کہ من خیفتہ تو وہ ان چیزوں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ چناچہ ہم نے یہ پڑھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسے موقع پر جب کہ بادل کی چمک و گرج اور بجلی کی تڑپ و کڑک، خوب و اضطرب کی لہر پیدا کر دے ان مقدس الفاظ کا ورد سکون قلب اور حفاظت کے لئے بہت موثر ہے۔ لِلّٰہِ الْحَمْدُ اَوَّلَا وَّاٰخِرً ا وَّظَاھِرًاوَّبَا طِنًا وَصَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلٰی خَیْرِ مُحَمَّدٍ وَاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ بِرَ حْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ