23. جنازوں کا بیان

【1】

جنازے کا بیان

جنائز جنازہ کی جمع ہے، لفظ جنازہ لغت کے اعتبار سے جیم کے زیر اور زبر دونوں کے ساتھ مستعمل ہوتا ہے لیکن زیادہ فصیح جیم کے زیر کے ساتھ ہی ہے۔ جنازہ میت یعنی مردے کو جو تخت پر ہو کہتے ہیں۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ لفظ جنازہ یعنی جیم کے زبر کے ساتھ میت کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے اور جنازہ یعنی جیم کے زیر کے ساتھ تابوت اور اس تخت یا چار پائی کو کہتے ہیں جس پر مردہ کو رکھ کر اٹھاتے ہیں، بعض حضرات نے اس کے برعکس کہا ہے یعنی جنازہ تابوت یا تخت کو کہتے ہیں اور جنازہ میت کو کہا جاتا ہے۔

【2】

بیمار کی عیادت کرنی چاہئے

حضرت ابوموسیٰ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بھوکے (یعنی مضطر و مسکین اور فقیر) کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو (دشمن کی قید سے) چھڑاؤ (بخاری) تشریح اس حدیث میں تین باتوں کا حکم دیا جا رہا ہے یہ وجوب علی الکفایۃ کے طور پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص بھی ان احکام کو پورا کرلے تو بقیہ دوسرے لوگوں کے لئے انہیں پورا کرنا ضروری نہیں ہے تاہم سب کے لئے ان احکام پر عمل کرنا سنت اور باعث ثواب ضرور ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص ان احکام کو پورا نہ کرے تو پھر سب ہی لوگ نافرمانی کے گناہ میں مبتلا ہوں گے۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے لکھا ہے کہ بھوکے کو اس صورت میں کھانا کھلانا سنت ہے اگر وہ حالت اضطرار میں نہ ہو یعنی اس بھوکے کی یہ کیفیت نہ ہو کہ اگر اسے کھانا نہ کھلایا گیا تو مرجائے۔ مگر اس شکل میں اسے کھانا دینا فرض ہے کہ وہ حالت اضطرار کو پہنچ چکا ہو۔ اسی طرح کوئی بھوکا کسی ایسے مقام پر ہو جہاں ایک نہ ہو بلکہ کئی آدمی ذی مقدور ہوں یعنی اس بھوکے کو کھانا کھلانے کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان سب ذی المقدور لوگوں پر بھوکے کو کھانا کھلانا فرض کفایہ ہوگا کہ اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی بھوکے کو کھانا کھلا دیا تو سب لوگ بری الذمہ ہوجائیں گے۔ ہاں اگر بھوکا کسی ایسی جگہ ہو جہاں صرف ایک ہی آدمی ذی مقدور ہو اور بقیہ سب لوگ مفلس و قلاش ہوں تو اس ذی مقدور پر بھوکے کو کھانا کھلانا فرض عین ہوگا ایسے ہی اس بیمار کی عیادت اور مزاج پرسی سنت ہے جس کا کوئی خبر گیر اور تیمار دار ہو اور اس بیمار کی عیادت و مزاج پرسی واجب ہے جس کا کوئی خبر گیر و تیمار دار نہ ہو۔

【3】

مسلمان کے مسلمان پر حقوق

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (ایک) مسلمان کے (دوسرے) مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ (١) سلام کا جواب دینا (٢) بیمار کی عیادت کرنا (٣) جنازہ کے ساتھ جانا (٤) دعوت قبول کرنا (٥) چھینکنے والے کا جواب دینا۔ (بخاری و مسلم) تشریح مذکورہ بالا پانچوں چیزیں فرض کفایہ ہیں۔ سلام کرنا سنت ہے اور وہ بھی حقوق اسلام میں سے ہے جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہوگا۔ مگر سلام کرنا ایسی سنت ہے جو فرض سے بھی افضل ہے کیونکہ اسے کرنے سے نہ صرف یہ کہ تواضع و انکساری کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ اداء سنت واجب کا سبب بھی ہے۔ بیمار کی عیادت اور جنازہ کے ساتھ جانے کے حکم سے اہل بدعت مستثنیٰ ہیں۔ یعنی روافض وغیرہ کی نہ تو عیادت کی جائے اور نہ ان کے جنازہ کے ساتھ جایا جائے۔ دعوت قبول کرنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی مدد کے لئے بلائے تو اس کی درخواست قبول کی جائے اور اس کی مدد کی جائے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ دعوت قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مہمانداری اور ضیافت کے لئے مدعو کرے تو اس کی دعوت کو قبول کر کے اس کی طرف سے دی گئی ضیافت میں شرکت کی جائے بشرطیکہ ضیافت کسی بھی حیثیت سے ایسی نہ ہو جس میں شرکت گناہ کا باعث ہو جیسا کہ حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ جو ضیافت محض از راہ مفاخرت اور نام و نمود کی خاطر ہو اس میں شرکت نہ کی جائے چناچہ سلف یعنی صحابہ (رض) اور پہلے زمانہ کے علماء کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایسی ضیافت کو ناپسند کرتے تھے۔ چھینکنے والے کا جواب دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر چھینکنے والا الحمدللہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہا جائے شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اسلام کے ان تمام حقوق کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے خواہ نیک مسلمان ہوں یا بد۔ یعنی ایسے مسلمان ہوں جو گنہگار تو ہوں مگر مبتدع (بدعتی) نہ ہوں اس احتیاط اور امتیاز کو مدنظر رکھا جائے کہ بشاشت یعنی خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا اور مصافحہ کرنا صرف نیک مسلمان ہی کے ساتھ مختص ہونا چاہئے فاجر یعنی ایسے بد اور گنہگار مسلمان کے ساتھ جو علی الاعلان معصیت و گناہ میں مبتلا رہتا ہے بشاشت و مصافحہ ضروری نہیں ہے۔

【4】

مسلمان کے مسلمان پر حقوق

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (ایک) مسلمان کے (دوسرے) مسلمان پر چھ حق ہیں۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! وہ کیا ہیں ؟ فرمایا (١) جب تم مسلمان سے ملاقات کرو تو اسے سلام کرو (٢) جب تمہیں کوئی (اپنی مدد کے لئے یا ضیافت کی خاطر) بلائے تو اسے قبول کرو۔ (٣) جب تم سے کوئی خیر خواہی چاہے تو اس کے حق میں خیر خواہی کرو (٤) جب کوئی چھینکے اور الحمد للہ کہے تو (یرحمک اللہ کہہ کر) اس کا جواب دو (٥) جب کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو (٦) جب کوئی مرجائے تو ( نماز جنازہ اور دفن کرنے کے لئے) اس کے ساتھ جاؤ (مسلم) تشریح واذا مرض الخ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو اس کی عیادت کے لئے جانا چاہئے اور اس کی مزاج پرسی کرنی چاہئے اگرچہ عیادت اور مزاج پرسی ایک ہی مرتبہ کیوں نہ کی جائے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رہے کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات میں بیمار کی عیادت نہ کی جائے تو اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اس حدیث میں اسلام کے چھ حقوق بتائے گئے ہیں جب کہ گزشتہ حدیث میں حقوق کی تعداد پانچ بیان کی گئی تھی، گویا اس حدیث میں خیر خواہی کا مزید ذکر کیا گیا ہے۔ تو اس بارے میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ احادیث میں حقوق کی جو تعداد ذکر کی گئی ہے وہ حصر کے طور پر نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت زیادہ حقوق ہیں جن کو بتدریج مختلف احادیث میں تھوڑا تھوڑا کر کے بیان کیا گیا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ احکام بذریعہ وحی آپ کے پاس اسی طرح بتدریج نازل ہوئے ہوں گے یعنی پہلے تو پانچ حقوق کا حکم نازل کیا گیا ہو پھر چھ حقوق کے احکام نازل کئے گئے۔

【5】

مسلمان کے مسلمان پر حقوق

اور حضرت براء ابن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہیں۔ (١) بیمار کی عیادت کرنا (٢) جنازہ کے ہمراہ جانا (٣) چھینکنے والے کو جواب دینا (٤) سلام کا جواب دینا (٥) بلانے والے کی دعوت قبول کرنا (٦) قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنا (٧) اور مظلوم کی مدد کرنا۔ اور جن چیزوں سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہیں (١) سونے کی انگوٹھی پہننے سے (٢) ریشم کے کپڑے پہننے سے (٣) اطلس کے کپڑے استعمال کرنے سے (٤) لاہی (دیباج) کے کپڑے پہننے سے (٥) سرخ زین پوش استعمال کرنے سے (٦) قسی کے کپڑے پہننے سے (٧) اور چاندی کے برتن استعمال کرنے سے۔ ایک روایت کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ چاندی کے برتن میں پینے سے (بھی منع فرمایا ہے) کیونکہ جو شخص چاندی کے برتن میں دنیا میں پئے گا آخرت میں اسے چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہوگا۔ (بخاری ومسلم تشریح قسم کھانے والے کی قسم پوری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پیش آنے والی بات کے بارے میں قسم کھائے اور تم اس کی قسم پوری کرنے پر قادر ہو اور اس میں کوئی گناہ بھی نہ ہو تو تمہیں اس کی قسم پوری کرنی چاہئے مثال کے طور پر کوئی شخص تمہیں مخاطب کرتے ہوئے قسم کھائے کہ میں تم سے جدا نہیں ہوں گا جب تک کہ فلاں کام نہ کروں، پس اگر تم اس کام کے کرنے پر قادر ہو تو وہ کام کر ڈالو تاکہ اس کی قسم نہ ٹوٹے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو یہ قسم دلائے کہ تمہیں اللہ کی قسم تم یہ کام کرو۔ تو اس شخص کے لئے مستحب ہے کہ وہ پروردگار کے نام کی تعظیم کی خاطر وہ کام کرلے اگرچہ واجب نہیں ہے۔ مظلوم کی مدد کرنا کی تشریح میں علماء لکھتے ہیں کہ مظلوم کی مدد کرنا واجب ہے اور اس حکم میں مسلمان اور ذمی دونوں برابر کے شریک ہیں یعنی جس طرح ایک مظلوم مسلمان کی مدد کرنا واجب ہے اسی طرح اس مظلوم کافر (ذمی) کی مدد کرنا بھی واجب ہے جو اسلامی ریاست کا تابعدار شہری بن کر رہتا ہو اور جزیہ (ٹیکس) ادا کرتا ہے پھر مدد بھی عام ہے اگر لسانی مدد کی ضرورت ہو تو زبان و قول سے مدد کی جائے اور فعلی مدد کی ضرورت ہو تو فعل، عمل کے ذریعہ مدد کی جائے۔ میثرہ) اس زین پوش کو کہتے ہیں جس میں روئی بھری ہوئی ہوتی ہے اور اسے گھوڑے وغیرہ کی سواری کی زین پر ڈال کر اس پر بیٹھتے ہیں اسے نمد زین بھی کہتے ہیں دنیا داروں کی عادت ہے کہ وہ اس زین پوش کو از راہ تکبر و رعونت حریر و دیباج وغیرہ سے بناتے ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ زین پوش حریر کا ہو تو خواہ وہ کسی بھی رنگ کا ہو حرام ہے۔ ہاں اگرچہ حریر کا نہ ہو مگر سرخ رنگ کا ہو تو اس کا استعمال مکروہ ہے۔ اگر سرخ رنگ کا نہ ہو تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں۔ قسی ایک کپڑے کا نام تھا جو ریشم اور کنان سے بنا جاتا تھا اور قس کی طرف منسوب تھا جو مصر کے ایک علاقہ کا نام ہے۔ حدیث میں چاندی کے برتن استعمال کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح سونے کے برتن کا استعمال بھی ممنوع ہے بلکہ سونے کے برتن میں استعمال کرنا چاندی کے برتن استعمال کرنے سے بھی زیادہ گناہ ہے اس حدیث میں جن چیزوں سے منع کیا جا رہا ہے ان کا تعلق صرف مردوں سے ہے عورتوں سے نہیں ہے ہاں چاندی سونے کے برتن کے استعمال کی ممانعت مرد و عورت دونوں کے لئے ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ آخرت میں اسے چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہوگا کی صحیح وضاحت یہ ہے کہ جس شخص نے ندیا میں چاندی کا برتن استعمال کیا اسے آخرت میں اس وقت تک کہ اس کے عذاب کی مدت ختم نہ ہوجائے۔ چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہوگا۔ یا وقف اور حساب کے وقت اسے چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہوگا یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ کچھ عرصہ تک اس سے محروم رہے گا پھر بعد میں یہ پابندی اس سے ختم کردی جائے گی، یہی مراد اس حدیث کی ہے جس میں (مردوں کے لئے) ریشم پہننے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ من لبسہ فی الدنیا لم یلبسہ فی الآخرۃ (یعنی جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا اسے آخرت میں ریشم پہننا نصیب نہیں ہوگا) اسی طرح اس حدیث کی بھی یہی وضاحت ہے جس میں شراب کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ من شربہا فی الدنیا لم یشربھا فی الآخرۃ (یعنی جس نے دنیا میں شراب پی اسے آخرت میں شراب پینا نصیب نہ ہوگا۔

【6】

عیادت کا ثمرہ

اور حضرت ثوبان (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مسلمان جو اپنے کسی (بیمار) مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو (گویا) وہ بہشت کی میوہ خوری میں (مصروف) رہتا ہے یہاں تک کہ وہ (عیادت سے) واپس نہ آجائے۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے کسی بیمار مسلمان بھائی کی عیادت کے لئے جاتا ہے تو جب تک کہ بیمار کی عیادت اور مزاج پرسی سے فارغ ہو کر نہ آجائے برابر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے جس کا ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس انسانی اور اخلاقی ہمدردی و مروت کی بناء پر بہشت اور بہشت کی میوہ خوری کا مستحق ہوجاتا ہے۔

【7】

عیادت کی اہمیت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز (بندہ سے) فرمائے گا اے ابن آدم ! میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی ؟ بندہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب ! میں تیری عیادت کس طرح کرتا کہ تو تو دونوں جہانوں کا پروردگار ہے (اور بیماری سے پاک ہے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ کیا تجھے معلوم نہیں ہو تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے ؟ اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی تھی، کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تو اس بیمار بندہ کی عیادت کرتا تو مجھے (یعنی میری رضا) اس کے پاس پاتا۔ (پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا اور تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا ؟ بندہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب ! میں کھانا کس طرح کھلاتا تو تو دونوں جہانوں کا پروردگار ہے (اور کسی چیز کا محتاج نہیں ہے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے یاد نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندہ نے کھانا مانگا تھا اور تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اسے (یعنی اس کے ثواب کو) میرے پاس پاتا۔ (پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا) اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہیں پلایا ؟ بندہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار میں تجھے پانی کس طرح پلاتا ؟ تو تو دونوں جہانوں کا پروردگار ہے (تجھے نہ پانی کی ضرورت اور نہ کسی اور چیز کی حاجت) ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھ سے میرے فلاں بندہ نے پانی مانگا اور تو نے اسے پانی نہیں پلایا، کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اسے (یعنی اس کے ثواب کو) میرے پاس پاتا۔ (مسلم) تشریح حدیث میں ذکر کی گئی تینوں صورتوں میں سے پہلی صورت یعنی عیادت کرنے اور بعد کی دونوں صورتوں کا یہ فرق ملاحظہ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مریض کی عیادت کے بارے میں تو یہ فرمائے گا کہ اگر تو مریض کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ جب کہ کھانا کھلانے اور پانی پلانے کے بارے میں فرمائے گا کہ اگر تو کھانا کھلاتا یا یہ کہ اگر تو پانی پلاتا تو اس کے ثواب کو میرے پاس پاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مریض کی عیادت کرنا بھوکے کو کھانا کھلانے اور پیاسے کو پانی پلانے سے افضل ہے۔

【8】

اپنے سے کمتر اور ادنیٰ مریض کی بھی عیادت کرنی چاہئے

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ (ایک مرتبہ) ایک اعرابی (گنوار) کے پاس اس کی بیماری کا حال پوچھنے کے لئے تشریف لے گئے آنحضرت ﷺ (کا طریقہ یہ تھا کہ) جب آپ کسی کے پاس عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تو اس سے فرماتے کہ کوئی ڈر نہیں (یعنی بیماری سے غم نہ کھاؤ اس لئے کہ) یہ بیماری (گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے اگر اللہ چاہے چناچہ آپ ﷺ نے (اس وقت) اس دہقانی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی ڈر نہیں یہ بیماری (گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے اگر اللہ چاہے دہقانی نے کہا کہ ہرگز نہیں، بلکہ یہ بخار ہے جو بڑے بوڑھے پر چڑھ آیا ہے اور اسے قبر کی زیارت کرا دے گا (یعنی موت کی آغوش میں پھینک دے گا) آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اچھا (اگر تم یہی سمجھتے ہو تو) یوں ہی سہی ۔ (بخاری) تشریح یہ حدیث آنحضرت ﷺ کے کمال تواضع اور مساوات عمل کی مظہر ہے کہ آپ ایک دہقانی کی عیادت کے لئے اس کے پاس تشریف لے گئے، گویا آپ ﷺ نے اپنے اس عمل مبارک سے امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ صرف انہیں لوگوں کی مزاج پرسی کے لئے نہیں جانا چاہئے جو اپنے سے اونچے یا ہم مرتبہ ہوں بلکہ ان لوگوں کی بھی عیادت کرنی چاہئے جو کسی بھی حیثیت سے اپنے سے کمتر اور ادنیٰ درجے کے ہوں۔ اچھا (اگر تم یہی سمجھتے ہو تو) یوں ہی سہی یعنی آنحضرت ﷺ نے اس دہقانی سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ میں تو تمہارے سامنے بیماری کا ثواب بیان کر رہا ہوں مگر تم اس نعمت کا انکار کر رہے ہو اگر تمہارا خیال یہی ہے تو پھر جان لو کہ اس طرح ہوگا جس طرح تم کہہ رہے ہو کیونکہ کفران نعمت کرنے والے کی سزا ہی یہ ہے کہ وہ اس نعمت سے محروم ہوجائے۔ دہقانی کے اس رویہ اور اس کی اس بات کی بناء پر احتمال ہوسکتا ہے کہ وہ کافر ہو مگر علماء نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ وہ مسلمان تھا مگر چونکہ بیوقوف اور ناسمجھ اجڈ گنوار تھا اسی لئے بیماری کی تکلیف اور شدت درد سے بےتاب و مضطرب ہو کر اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکال بیٹھا۔

【9】

بیمار کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعاء شفائ

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ (کا یہ طریقہ تھا) جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا آپ ﷺ اس پر داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ (دعا) فرماتے۔ اے لوگوں کے پروردگار ! بیماری دور کر دے اور شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیرے سوا کسی کی شفاء ایسی نہیں جو بیماری کو دور کر دے۔ (بخاری ومسلم)

【10】

بیمار کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعاء شفائ

اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے بدن کے کسی حصہ (کے درد) کی شکایت کرتا، یا (اس کے جسم کے کسی عضو پر) پھوڑا یا زخم ہوتا تو نبی کریم ﷺ اپنی انگلی سے اشارہ کر کے یہ دعا فرماتے اللہ کے نام سے میں برکت حاصل کرتا ہوں، یہ مٹی ہمارے بعض آدمیوں کے لعاب دہن سے آلودہ ہے (یہ ہم اس لئے کہتے ہیں تاکہ) ہمارے پروردگار کے حکم سے ہمارا بیمار تندرست ہوجائے۔ (بخاری ومسلم) تشریح منقول ہے کہ اس بارے میں آنحضرت ﷺ کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ آپ ﷺ اپنا لعاب مبارک اپنی انگلی پر لگاتے اور اسے مٹی پر رکھتے پھر اس خاک آلودہ انگلی کو درد کی جگہ رکھ کر اس عضو پر پھیرتے جاتے تھے اور مذکورہ بالا دعا یعنی بسم اللہ الخ پڑھتے رہتے۔ پھوڑوں اور زخموں کے علاج کے سلسلہ میں آنحضرت ﷺ کا یہ طریقہ اور یہ دعا درحقیقت رموز الٰہی میں سے ایک رمز ہے جسے آنحضرت ﷺ ہی جانتے تھے ہماری عقلیں اس رمز کی حقیقت تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ تاہم قاضی بیضاوی (رح) نے از راہ احتمال کے لکھا ہے کہ طبی نقطہ نظر سے یہ بات ثابت ہے کہ تبدیلی مزاج کے سلسلہ میں لعاب دہن بہت موثر ہوتا ہے اسی طرح مزاج کو اپنی حالت پر برقرار رکھنے کے لئے وطن کی مٹی بہت تاثیر رکھتی ہے یہاں تک کہ حکماء لکھتے ہیں کہ مسافر کو چاہئے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے وطن کی کچھ خاک ضرور رکھے اور تھوڑی سی خاک پانی کے برتن میں ڈال دے اور اسی برتن سے دوران سفر پیتا رہے تاکہ اس کی وجہ سے مزاج کی تبدیلی سے محفوظ رہے۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اسی بناء پر یہ طریقہ اختیار فرماتے ہوں۔ نیز دوسرے شارحین نے بھی اس کی توجیہات بیان کی ہیں مگر وہ سب احتمال ہی کے درجہ میں ہیں۔ صحیح یہی ہے کہ اللہ کا بھید ہے جس کی حقیقت تک ہماری عقلوں کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ اشرف (رح) نے کہا ہے کہ یہ حدیث رقیہ یعنی منتر کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے بشرطیکہ اس منتر میں کفر کی آمیزش نہ ہو جیسے سحر یا کلمہ کفر و شرک وغیرہ۔ نیز اس سلسلہ میں مسئلہ یہ ہے کہ منتر خواہ کسی بھی زبان کا ہو، ہندی و اردو کا ہو یا عربی و فارسی اور ترکی وغیرہ کا، اس کا پڑھنا اس وقت تک درست نہیں ہے تا وقتیکہ اس کے معنی معلوم نہ ہوجائیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس میں الفاظ کفر ہوں۔ ہاں حدیث میں ایک منتر بسم اللہ شجۃ قرنیۃ الخ بچھو کے کاٹے کے لئے منقول ہے اگرچہ اس کے معنی معلوم نہیں ہیں مگر اس کا پڑھنا جائز ہے۔

【11】

بیمار کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعاء شفائ

اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب بیمار ہوتے تو معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے اور اپنا ہاتھ بدن پر (جہاں تک پہنچتا) پھیرتے، چناچہ جب آپ ﷺ اس بیماری میں مبتلا تھے جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی تو میں معوذات پڑھ کر آپ ﷺ پر دم کرتی تھی جیسا کہ آپ ﷺ خود معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم فرمایا کرتے تھے، نیز میں آپ کا ہاتھ آپ ﷺ کے بدن پر پھیرا کرتی تھی۔ اس طرح کہ میں معوذات پڑھ کر آنحضرت ﷺ کے ہاتھوں پر دم کرتی تھی اور پھر آپ ﷺ کے دونوں ہاتھ آپ ﷺ کے بدن مبارک پر پھیرتی۔ (بخاری ومسلم) مسلم کی ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ (رض) سے یہ منقول ہے کہ جب گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آنحضرت ﷺ معوذات پڑھ کر اس پر دم فرمایا کرتے تھے تشریح معوذات سے مراد قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس کی سورتیں ہیں۔ چناچہ حدیث میں معوذاب بصیغہ جمع آیتوں کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے۔ یا یہ کہ چونکہ اقل جمع (یعنی جمع کا سب سے کم درجہ) دو ہیں اس لئے ان دونوں سورتوں کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ نیز یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ معوذات سے مراد تین سورتیں یعنی قل اعوذ برب الفلق، قل اعوذ برب الناس اور قل ھو اللہ ہیں اور ان تینوں کو معوذات کا نام تغلیباً دیا گیا ہے۔ یہی بات زیادہ معتمد ہے بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ معوذات میں ان تینوں سورتوں کے علاوہ قل یا ایہا الکافرون بھی داخل ہے۔ واللہ اعلم۔ مسلم کی دوسری روایت میں ہاتھ پھیرنے کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس موقع پر جہاں یہ احتمال ہے کہ آنحضرت ﷺ دم کرنے کے ساتھ ہاتھ بھی پھیرتے ہوں گے۔ لیکن یہاں اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ دم کرنے سے ہاتھ پھیرنا بھی خود بخود مفہوم ہوجاتا ہے وہیں یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت ﷺ جس طرح دم کرنے کے ساتھ ہاتھ پھیر تے تھے اس طرح کسی کسی موقعہ پر صرف دم کرنے ہی پر اکتفاء کرتے ہوں گے اور ہاتھ نہ پھیرتے ہوں گے۔ لیکن صحیح اور قریب از حقیقت وضاحت وہی ہے جو پہلے بیان کی گئی ہے اور اولیٰ بھی یہی ہے کہ دم بھی کیا جائے اور ہاتھ بھی پھیرا جائے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کلام اللہ کی آیتیں پڑھ کر بیمار پر دم کرنا سنت ہے۔

【12】

درد ختم کرنے کی دعا

اور حضرت عثمان بن ابی العاص کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ سے درد کی شکایت کی جسے وہ اپنے بدن (کے کسی حصہ) میں محسوس کرتے تھے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہارے بدن کے جس حصہ میں درد ہے وہاں اپنا ہاتھ رکھ کر (پہلے) تین مرتبہ بسم اللہ پڑھو اور (پھر) سات مرتبہ یہ پڑھو۔ میں اللہ سے اس کی عزت اور اس کی قدرت کے ذریعہ اس برائی (یعنی درد) سے پناہ مانگتا ہوں جسے میں (اس وقت) محسوس کر رہا ہوں اور (آئندہ اس کی زیادتی سے) ڈرتا ہوں۔ حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ (آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق) میں نے ایسا ہی کیا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے میری تکلیف دور کردی۔ (مسلم)

【13】

آنحضرت ﷺ کی علالت اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کی دعا

حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور (مزاج پرسی کے طور پر) کہا کہ اے محمد ﷺ کیا آپ علیل ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا اللہ کے نام پر آپ ﷺ پر افسوں پڑھتا ہوں۔ ہر اس چیز سے جو آپ ﷺ کو اذیت پہنچائے اور ہر شخص کی برائی یا حاسد کی آنکھ سے اللہ آپ ﷺ کو شفاء دے اللہ کے نام سے آپ پر افسوں پڑھتا ہوں (مسلم)

【14】

برائی وحادثہ سے اللہ کی پناہ میں دینا

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ حضرت حسن و حضرت حسین (رض) کو ان الفاظ کے ذریعہ (خدا کی) پناہ میں دیتے تھے۔ میں تمہیں کلمات اللہ کے ذریعہ جو کامل ہیں، ہر شیطان کی برائی، ہر ہلاک کردینے والے زہریلے جانور اور ہر نظر لگانے والی آنکھ سے (خدا کی) پناہ میں دیتا ہوں اور آپ ﷺ یہ (بھی) فرماتے تھے کہ تمہارے باپ (حضرت ابراہیم علیہ السلام) ان کلمات کے ذریعہ اپنے صاحبزادہ حضرت اسماعیل و حضرت اسحق علیہما السلام کو اللہ کی پناہ میں دیتے تھے۔ مصابیح کے اکثر نسخوں میں (لفظ بہا کی بجائے) بہما تثنیہ کی ضمیر کے ساتھ ہے۔ (بخاری) تشریح کلمات اللہ سے مراد یا تو اللہ تعالیٰ کی معلومات ہیں یا اس کے اسماء پاک اسی طرح اس کی کتابیں بھی مراد ہوسکتی ہیں۔ ہر شیطان کی برائی سے کا مطلب ہے ہر سرکش اور حد سے بڑھ جانے والے کی برائی سے خواہ وہ آدمیوں میں سے ہو خواہ جنات میں سے یا جانوروں سے ہامہ اس زہریلے جانور کو کہتے ہیں جس کے کاٹے سے آدمی ہلاک ہوجائے جیسے سانپ وغیرہ۔ جس زہریلے جانور کے کاٹے سے آدمی مرتا نہیں اسے سامہ کہتے ہیں جیسے بچھو، زنبور (بھڑ) وغیرہ۔ نیز بعض مواقع پر حشرات الارض ہوام ہامہ کی جمع کہتے ہیں۔ روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے اس کے الفاظ ان اباکما کان یعوذبہا میں لفظ بہا ضمیر مفرد کے ساتھ نقل کیا گیا ہے جب کہ مصابیح کے اکثر نسخوں میں اس موقع پر بہما ضمیر تثنیہ کے ساتھ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ضمیر تثنیہ حدیث کے دو جملوں من شر کل شیطان اور من کل عین لامۃ کی طرف راجع ہوگی۔ لیکن اس میں چونکہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے اس لئے علامہ طیبی (رح) نے کہا ہے کہ جن نسخوں میں بہما تثنیہ کی ضمیر کے ساتھ لکھا گیا ہے وہاں کاتب سے سہو ہوگیا ہے صحیح بہا یعنی مفرد کی ضمیر کے ساتھ ہی ہے۔

【15】

تکلیف ومصیبت اللہ کی رحمت ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کو بھلائی پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے، وہ (اس بھلائے کے حصول کے لئے) مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ (بخاری) تشریح مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے دل قبول اور پسند نہ کرے، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت خواہ وہ تکلیف و بیماری کی صورت میں ہو یا حادثہ و صدمہ کی شکل میں، ہمیشہ اللہ کے قہر اور عذاب ہی کے طور پر نہیں آتی بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بندہ پر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کا سایہ کرنا چاہتا ہے اسے خیر و بھلائی کے راستہ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اسے کسی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ صاف ہوجاتے ہیں بلکہ اس کے قلب و دماغ کو مصیبت کی سختی مجلی و مصفا کر کے خیر و بھلائی کے نور کو اپنے اندر ضیا بار کرنے کی صلاحیت پیدا کردیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بندہ مصیبت و تکلیف پر صبر کرے اور راضی برضا رہے تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ یہ مصیبت اس کے لئے اپنے دامن میں اللہ کی رضا و رحمت لے کر آئی ہے۔ ہاں اگر کوئی بندہ کسی مصیبت پر صبر و ضبط کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ کر جزع و فزع کرنے لگے اور ناخوش خفا ہونے لگے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ یہ مصیبت اس کے حق میں رحمت نہیں بلکہ عذاب الٰہی ہے۔

【16】

رنج وغم کا پہنچنا گناہوں کو دور کرتا ہے

حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مسلمانوں کو جب کوئی رنج، دکھ فکر، حزن ایذاء اور غم پہنچتا ہے یہاں تک کہ کانٹا چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہ دور کردیتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح الفاظ ہم و حزن وغیرہ کے معنی قریب قریب یکساں ہیں صرف ہم اور غم میں فرق یہ ہے کہ ہم آئندہ واقعہ ہونے والے معاملہ سے تعلق رکھتا ہے یعنی اگر کوئی ایسا مشکل امر پیش آنے والا ہو جس کے کرنے یا نہ کرنے سے رنج و ملال پہنچے تو وہاں ہم استعمال کیا جاتا ہے اور غم کا تعلق گزرے ہوئے واقعہ سے ہوتا ہے۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان کو کسی بھی نوعیت کا یا کسی بھی طرح کا کوئی رنج و ملال اور غم و مصیبت پہنچے تو وہ اس کے صغیرہ گناہوں کے دور ہونے کا ذریعہ ہے۔

【17】

آنحضرت ﷺ پر تکلیف وبیماری کی سختی وزیادتی

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اس وقت آپ ﷺ کو بخار تھا میں نے آپ ﷺ پر اپنا ہاتھ پھیر کر عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کو بہت سخت بخار ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں مجھے تمہارے دو آدمیوں کے برابر بخار چڑھتا ہے حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یہ اس وجہ سے ہوگا کہ آپ کو دو گنا ثواب ملے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ! اور پھر فرمایا جس مسلمان کو بیماری کی وجہ سے یا اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہ (اسی طرح) دور کردیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے جھاڑتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

【18】

آنحضرت ﷺ پر تکلیف وبیماری کی سختی وزیادتی

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جس کی بیماری آنحضرت ﷺ کی بیماری سے زیادہ سخت و شدید ہو ۔ (بخاری و مسلم)

【19】

موت کی سختی بلندی درجات کی علامت ہے

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے میرے سینہ اور گردن کے درمیان وفات پائی، میں نبی کریم ﷺ کے بعد کسی شخص کی موت کی سختی کو کبھی برا نہیں سمجھتی۔ (بخاری) تشریح حضرت عائشہ (رض) کے ارشاد کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ آپ ﷺ میرا سہارا لئے ہوئے تھے اور آپ ﷺ کا سر مبارک میرے سینہ اور گردن کے بیچ رکھا ہوا تھا لہٰذا میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ اس وقت آنحضرت ﷺ حالت نزع کی کتنی شدید تکلیف میں مبتلا تھے اور آپ ﷺ کی موت کتنی سخت تھی !۔ حدیث کے دوسرے جزو فلا اکرہ شدۃ الموت کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تو میں یہ سمجھتی تھی کہ حالت نزع کی تکلیف اور موت کی سختی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن جب میں نے آنحضرت ﷺ کی موت دیکھی تو مجھے معلوم ہوا کہ موت کی سختی گناہوں کی کثرت اور خاتمہ بالخیر نہ ہونے کی علامت نہیں ہے بلکہ موت کی سختی اور سکرات الموت کی شدت بلندی درجات کے لئے ہوتی ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ موت کی آسانی اور سکرات الموت میں تخفیف بزرگی اور فضیلت کی بات نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آنحضرت ﷺ کو یہ فضیلت بطریق اولیٰ حاصل ہوتی۔

【20】

مؤمن اور منافق کی زندگی کی مثال

حضرت کعب بن مالک (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن کی مثال کھیت کی تر و تاز اور نرم شاخ کی سی ہے کہ جسے ہوائیں جھکا دیتی ہیں، کبھی اسے گرا دیتی ہیں اور کبھی سیدھا کردیتی ہیں یہاں تک کہ اس کا وقت پورا ہوجاتا ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے جو جما کھڑا رہتا ہے اسے کوئی جھٹکا نہیں لگتا (یعنی نہ تو وہ ہوا کہ دباؤ سے گرتا ہے اور نہ جھکتا ہے) یہاں تک کہ وہ دفعۃً زمین پر آ گرتا ہے۔ (بخاری و مسلم) تشریح مؤمن کی مثال تو کھیتی کی تر و تازہ اور نرم شاخ سے دی جا رہی ہے کہ جس طرح ہواؤں کے تھپیڑے اس شاخ پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں بایں طور کہ کبھی وہ شاخ کو گرا دیتے ہیں کبھی سیدھا کردیتے ہیں۔ مگر وہ شاخ ہواؤں کے سکت و تند تھپیڑے کھا کھا کر اپنی جگہ اپنے وقت کے آخری لمحہ تک کھڑی رہتی ہے۔ اسی مؤمن کا حال بھی یہی ہے کہ کبھی تو اسے مصائب و آلام اور ضعف و بیماری کے سخت تھپیڑے گرا دیتے ہیں، کبھی صحت و تندرستی اور خوشی و مسرت کے جانفزا جھونکے ان کی زندگی میں بشاشت و انبساط کی زندگی پیدا کردیتے ہیں اس طرح وہ اپنی زندگی کے دن پورے کرتا رہتا ہے۔ منافق کی مثال صنوبر کے درخت سے دی گئی ہے کہ جس طرح صنوبر کا درخت بظاہر ایک جگہ کھڑا رہتا ہے اور اس پر ہوا کا دباؤ اثر انداز نہیں ہوتا مگر جب اس کا وقت آتا ہے تو وہ یکبارگی زمین پر آ رہتا ہے اسی طرح منافق کا حال ہے کہ وہ دنیاوی زندگی میں بظاہر خوش و خرم اور ہشاش بشاش نظر آتا ہے نہ اس پر مصائب و آلام کی بارش ہوتی ہے اور نہ بیماری و ضعف کے تھپیڑے اس پر اثر انداز ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ یکبارگی بغیر کسی بیماری و ضعف کے موت کی وادی میں گر جاتا ہے۔ گویا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ مؤمن و مسلمان کی زندگی مصائب و آلام اور تکلیف و پریشانی میں گزرتی ہے کبھی وہ بیماری و ضعف کے جال میں پھنسا رہتا ہے کبھی اسے مال و زر کی کمی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے کبھی دوسرے دنیاوی حوادث و آلام اس کی روشن زندگی پر سیاہ بادل بن کر چھا جاتے ہیں مگر مومن مسلمان اسی حالت میں جیے جاتا ہے اور یہ تمام چیزیں اس کے حق میں اخروی سعادت و خوش بختی کی علامت قرار دی جاتی ہیں بشرطیکہ صبر و رضا اور شکر کا دامن کسی بھی مرحلہ پر ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اس کے مقابلہ پر منافق و فاسق کی زندگی ہوتی ہے جس پر نہ تو زیادہ تر غم و آلام کا سایہ ہوتا ہے نہ بیماری و پریشانی کے سیاہ بادل اور نہ دوسری دنیاوی ذلت و ناکامرانی اور مصیبت و پریشانی کا چکر، بلکہ وہ بظاہر تندرست و توانا اور خوش و خرم رہتا ہے اس طرح نہ اسے وہ درجہ ملتا ہے جو مصائب و پریشانی میں مبتلا ہو کر مؤمن و مسلمان کی اخروی کامیابی و فلاح کا ضامن بنتی ہے۔

【21】

مؤمن اور منافق کی زندگی کی مثال

حضرت ابوہریرہ (رض) علیہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن کی مثال کھیتی کی سی ہے کہ (جس طرح) ہوائیں اسے ہمیشہ جھکائے رہتی ہے (اسی طرح) مؤمن کو ہمیشہ بلائیں اپنی لپیٹ میں لئے رہتی ہیں اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے۔ کہ اگرچہ وہ ہواؤں کے دباؤ سے ہلتا بھی نہیں مگر (آخرکار جڑ ہی سے) اکھڑ جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ منافق دنیاوی زندگی میں مصائب و تکلیف سے زیادہ دوچار نہیں ہوتا اور نہ بلاء آلام اس پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں تاکہ یہاں کی مصیبتوں کے بدلہ میں اس کے لئے اخروی زندگی کا عذاب ہلکا نہ ہوجائے جب کہ مسلمان کا دنیا میں مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اسے آخرت میں بڑی پرسکون اور پر مسرت زندگی حاصل ہوگی۔

【22】

بیماری کو برانہ کہو

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ حضرت ام صائب (رض) کے پاس (جو تپ ولرزہ میں مبتلا تھیں) تشریف لائے اور (ان کی حالت دیکھ کر) کہ یہ تمہیں کیا ہوا جو کانپ رہی ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ بخار ہے اللہ اس میں برکت نہ دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بخار کو برا مت کہو کیونکہ بخار بنی آدم کے گناہوں کو اسی طرح دور کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو صاف کردیتی ہے۔ (مسلم) تشریح ایک روایت میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمن کی تمام خطائیں اس کے ایک رات کے بخار کی وجہ سے دور فرما دیتا ہے اسی طرح ابوداؤد کی ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک رات کا بخار ایک برس کے گناہ دور کردیتا ہے۔

【23】

زمانہ بیماری کے فوت شدہ اور اودونوافل کا ثواب ملتا ہے

حضرت ابوموسیٰ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر میں جاتا ہے (اور اس کی بیماری یا سفر کی وجہ سے اس کے اور ادو نوافل فوت ہوجاتے ہیں) تو (اس کے نامہ اعمال میں اتنے عمل لکھ دیئے جاتے ہیں جو وہ حالت قیام اور زمانہ تندرستی میں کیا کرتا تھا۔ (بخاری)

【24】

طاعون میں مرنے والے کی فضیلت

حضرت انس راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا طاعون (میں مرنا) ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے ۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ اس علاقہ میں جہاں طاعون کی بیماری پھیل جاتی ہے جو مسلمان صبر و برداشت کے دامن کو نہیں چھوڑتا اور بیماری سے ڈر کر کسی دوسری جگہ بھاگتا نہیں بلکہ اللہ پر بھروسہ کر کے وہیں پڑا رہتا ہے اور اگر وہ طاعون میں مبتلا ہو کر مرجاتا ہے تو اسے شہید کے اجر سے نوازا جاتا ہے۔ طاعون ایک عام بیماری اور وباء کا نام ہے جس علاقہ میں یہ بیماری پیدا ہوتی ہے وہاں کی آب و ہوا، عام مزاج اور انسانوں کے جسم تمام ہی چیزیں اس بیماری کے جراثیم اور اس کے فساد سے متاثر ہوجاتی ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ طاعون اس بیماری کو کہتے ہیں جس میں بدن کے نرم حصوں پر زخم ہوجاتے ہیں۔ جیسے بغل وغیرہ اور ان زخموں کے گرد سیاہی، سبزی یا سرخی ہوتی ہے۔

【25】

شہید کا ثواب پانے والے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا شہداء پانچ ہیں (١) طاعون زدہ (٢) پیٹ کی بیماری (یعنی دست اور استسقاء میں مرنے والا (٣) پانی میں بےاختیار ڈوب کر مرجانے والا (٤) دیوار یا چھت کے نیچے دب کر مرجانے والا۔ (٥) اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔ (بخاری ومسلم) تشریح پانی میں ڈوب کر مرجانے والے۔ اس شخص کو شہادت کا ثواب ملے گا جو بےاختیار و بلا قصد پانی میں ڈوب گیا ہو یعنی بارادہ خود پانی میں نہ ڈوبے۔ اس طرح اگر دریا میں کشتی ڈوب جائے یا ٹوٹ جائے تو سب لوگ یا کچھ لوگ دریا میں ڈوب جائیں تو ان میں سے اسی ڈوبنے والے کو شہادت کا ثواب ملے گا جو کسی گناہ و معصیت کے ارادہ سے کشتی میں نہ بیٹھا ہو۔ اس حدیث میں پانچ قسم کے شہیدوں کا تذکرہ کیا گیا۔ لہٰذا اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ حقیقی شہید صرف وہی شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دے۔ شہیدوں کی دیگر قسمیں حکمی ہیں یعنی وہ مرنے والے حقیقی شہید تو نہیں ہوتے ہاں اس کی بےکسی و بےبسی کی موت کی بناء پر انہیں شہادت کا ثواب ملتا ہے۔ اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہاں اس حدیث میں چار قسم کے حکمی شہیدوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ حکمی شہیدوں کی اور بھی بہت زیادہ قسمیں جن کے بارے میں دیگر مشہور احادیث میں ذکر کیا گیا۔ چناچہ بعض علماء مثلاً سیوطی (رح) وغیرہ نے ان کو ایک جگہ جمع کیا ہے۔ اس حدیث میں جو شہداء حکمی ذکر کئے گئے ہیں ان کے علاوہ دوسرے حکمی شہداء یہ ہیں۔ ذات الجنب (یعنی نمونیہ کی بیماری) میں مرنے والا، جل کر مرجانے والا، حالت حمل میں مرجانے والی عورت یا باکرہ مرجانے والی عورت، وہ عورت جو حاملہ ہونے کے بعد سے بچہ کی پیدائش تک یا بچہ کا دودھ چھٹانے تک مرجائے، سل یعنی دق کے مرض میں مرنے والا، حالت سفر میں مرنے والا، سفر جہاد میں سواری سے گر کر مرجانے والا، مرابط یعنی اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظ کے دوران مرجانے والا، گڑھے میں گر کر مرجانے والا، درندوں یعنی شیر وغیرہ کا لقمہ بن جانے والا اپنے مال اپنے اہل و عیال اپنے دین اپنے خون اور حق کی خاطر قتل کیا جانے والا، دوران جہاد اپنی موت مرجانے والا اور وہ شخص جسے شہادت کی پر خلوص تمنا اور لگن ہو مگر شہادت کا موقع اسے نصیب نہ ہو اور اس کا وقت پورا ہوجائے اور شہادت کی تمنا دل میں لئے دنیا سے رخصت ہوجائے۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ جس شخص کو حاکم وقت ظلم و تشدد کے طور پر قید خانہ میں ڈال دے اور وہ وہیں مرجائے تو وہ شہید ہے جو شخص مظلومانہ طریقہ پر زد و کو ب کیا جائے اور وہ زد و کو ب کے نتیجے میں بعد میں مرجائے تو وہ شہید ہے اور جو شخص توحید کی گواہی دیتے ہوئے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دے تو وہ شہید ہے۔ حضرت انس (رض) سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ تپ (بخار) شہادت ہے، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) روایت کرتے ہیں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! شہداء میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بافضلیت شہید کون ہے آپ نے فرمایا کہ وہ شخص جو ظالم حاکم کے سامنے کھڑے ہو کر اسے اچھا اور نیک کام کرنے کا حکم دے اور برے کام سے روکے اور وہ حاکم اس شخص کو مار ڈالے۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) سے مروی ہے کہ جس شخص کو گھوڑا یا اونٹ کچل اور روند ڈالے اور وہ مرجائے یا زہریلے جانور کے کاٹنے سے مرجائے تو شہید ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جس شخص کو کسی سے عشق ہوگیا اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنے عشق میں پاکباز و متقی رہا بلکہ اس نے اپنے عشق کو چھپایا بھی اور اسی حال میں اس کا انتقال ہوگیا تو وہ شہید ہے۔ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ جو شخص کشتی میں بیٹھا ہوا درد سر اور قے میں مبتلا ہو تو اسے شہید کا اجر ملتا ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے لئے غیرت و خود داری لازم رکھی ہے اور مردوں کے لئے جہاد ضروری قرار دیا ہے لہٰذا عورت میں سے جس عورت نے اپنی سوکن کی موجودگی میں صبر و ضبط کے دامن کو پکڑے رکھا تو اسے شہید کا اجر ملے گا۔ حضرت عائشہ (رض) بطریق مرفوع روایت کرتی ہیں کہ جو شخص روزانہ دن میں پچیس مرتبہ یہ دعا (اللہم بارک لی فی الموت وفیما بعد الموت) پڑھے اور بستر مرگ پر اس کا انتقال ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے شہید کا ثواب عنایت فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جو شخص ضحی (یعنی اشراق و چاشت) کی نماز پڑھے اور مہینہ میں تین دن روزہ رکھے اور وتر کی نماز نہ حالت سفر میں چھوڑے نہ حالت قیام میں تو اس کے لئے شہید کا اجر لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح امت میں عوامی طور پر اعتقادی و عملی گمراہی کے وقت سنت پر مضبوطی سے قائم رہنے والا اور طلب علم میں مرنے و الا شہید ہے طلب علم میں مرنے والے سے وہ شخص مراد ہے جو حصول علم اور درس و تدریس میں مشغول ہو یا تصنیف و تالیف میں مصروف ہو اور یا محض کسی علمی مجلس میں حاضر ہو، جس شخص نے اپنی زندگی اس طرح گزار دی ہو کہ لوگوں کی مہمانداری و خاطر و تواضع اس کا شیوہ رہا ہو تو وہ شہید، مرتث یعنی وہ شخص جو میدان کارزار میں زخمی ہو کر فوراً نہ مرجائے بلکہ کم سے کم اتنی دیر تک زندہ رہے کہ دنیا کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے تو وہ بھی شہید ہے۔ جو شخص مسلمانوں تک غلہ پہنچائے اور جو شخص اپنے اہل و عیال اور اپنے غلام و لونڈی کے لئے کمائے وہ شہید ہے۔ ایسے وہ جنبی جسے کافر میدان کارزار میں مار ڈالیں اور شریق یعنی وہ شخص جو گلے میں پانی پھنس جانے اور دم گھٹ جانے کی وجہ سے مرجائے وہ شہید ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو مسلمان اپنے مرض میں حضرت یونس (علیہ السلام) کی یہ دعا (لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین) چالیس مرتبہ پڑھے اور اسی مرض میں انتقال کرے تو اسے شہید کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر اس مرض سے اسے چھٹکارا مل جائے تو وہ اسحال میں صحت مند ہوتا ہے کہ اس کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ بھی حدیث میں وارد ہے کہ سچا اور امانتدار تاجر قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہوگا اور جو شخص جمعہ کی شب میں مرتا ہے وہ شہید ہے۔ نیز حدیث میں یہ بھی منقول ہے کہ بلا اجرت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اذان دینے والا مؤذن اس شہید کی مانند ہے جو اپنے خون میں لت پت تڑپتا ہو، نیز وہ مؤذن جب مرتا ہے تو اس کی قبر میں کیڑے نہیں پڑتے۔ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔ جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر سو مرتبہ اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان براۃ یعنی نفاق اور آگ سے نجات لکھ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ رکھے گا۔ منقول ہے کہ جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم اور سورت حشر کی آخری تین آیتیں پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے اور اس کے لئے شام تک بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ اور وہ شخص اگر اس دن مرجاتا ہے تو اس کی موت شہید کی موت ہوتی ہے اور جو شخص یہ شام کو پڑھتا ہے وہ بھی اسی اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو وصیت کی کہ جب تم رات میں سونے کے لئے اپنے بستر پر جاؤ تو سورت حشر کی آخری آیتیں پڑھ لو اور فرمایا کہ اگر تم (رات میں یہ پڑھنے کے بعد سوئے اور اسی رات میں) مرگئے تو شہید کی موت پاؤ گے۔ منقول ہے کہ جو شخص مرگی کے مرض میں مرجاتا ہے وہ شہید ہوتا ہے، جو شخص حج اور عمرہ کے دوران مرتا ہے شہید ہوتا ہے جو شخص با وضو مرتا ہے شہید ہوتا ہے اسی طرح رمضان کے مہینہ میں، بیت المقدس میں، مکہ یا مدینہ میں مرنے والا شخص شہید ہوتا ہے، دبلاہٹ کی بیماری میں مرنے و الا شخص شہید ہوتا ہے، جو شخص کسی آفت و بلا میں مبتلاء ہو اور وہ اسی حالت میں ضرر و بلا پر صبر و رضا کا دامن پکڑے ہوئے مرجائے تو شہید ہے۔ جو شخص صبح و شام مقالید السماوات والارض الخ جس کے پڑھنے کی فضیلت کا تذکرہ ایک حدیث میں کیا گیا ہے پڑھے تو وہ شہید ہے۔ منقول ہے کہ جو شخص نوے برس کی عمر میں یا آسیب زدہ ہو کر مرے یا اس حال میں مرے کہ اس کے ماں باپ اس سے خوش ہوں اور یا نیک بخت بیوی اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے خوش راضی ہو تو وہ شہید ہے۔ نیز وہ مسلمان بھی شہید ہے جو کسی ضعیف مسلمان کے ساتھ کلمہ خیر یا اس کی کسی طرح کی مدد کر کے بھلائی کا معاملہ کرے۔ واللہ اعلم۔

【26】

طاعون زدہ علاقہ میں صبروثبات کی فضیلت

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے طاعون کی حقیقت دریافت کی تو آپ ﷺ نے مجھے بتایا کہ (ویسے تو) یہ عذاب ہے جسے اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بھیجتا ہے (لیکن) اللہ تعالیٰ نے اسے (ان) مؤمنین کے لئے (باعث) رحمت قرار دیا ہے (جو اس میں ابتلاء کے وقت صبر کرتے ہیں) اور جس شہر یا جس جگہ طاعون ہو اور (کوئی مؤمن) اپنے اس شہر میں ٹھہرا رہے اور صبر کرنے والا اور اللہ سے ثواب کا طالب رہے (یعنی اس طاعون زدہ علاقہ میں کسی اور غرض و مصلحت سے نہیں بلکہ محض ثواب کی خاطر ٹھہرا رہے) نیز یہ جانتا ہو کہ اسے کوئی چیز (یعنی کوئی اذیت و مصیبت) نہیں پہنچے گی مگر صرف وہی جو اللہ نے (اس کے مقدر میں لکھ دی اور جس سے کہیں مفر نہیں) تو اس مؤمن کو شہید کے مانند ثواب ملے گا (بخاری)

【27】

طاعون زدہ علاقہ کے بارے میں واضح ہدایت وضابطہ

حضرت اسامہ بن زید (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا طاعون عذاب ہے جو بنی اسرائیل کی ایک جماعت پر بھیجا گیا تھا یا فرمایا کہ ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے (یعنی راوی کو شک ہوگیا ہے کہ آپ ﷺ نے پہلا جملہ ارشاد فرمایا تھا یا دوسرا) لہٰذا جب تم کسی علاقہ کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ اور جس طاعون زدہ علاقہ میں تم (پہلے سے) موجود ہو تو وہاں سے نکل مت بھاگو۔ (بخاری ومسلم) تشریح بنی اسرائیل کی ایک جماعت سے مراد وہ جماعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ ادخلوا الباب سجدا (یعنی داخل ہو دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے) مگر انہوں نے سرکشی اور نافرمانی کا مظاہرہ کیا چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آیت (فانزلنا علیہم رجزا من السماء) یعنی پس ہم نے ان کی سرکشی و نافرمانی کی وجہ سے) ان پر آسمان سے عذاب اتارا۔ ابن مالک فرماتے ہیں کہ وہ آسمانی عذاب طاعون تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اس بدبخت و سرکش قوم پر نازل فرمایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عذاب و بلا میں مبتلا ہو کر اس قوم کے چوبیس ہزار بڑے بڑے بوڑھے آناً فاناً موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اس حدیث میں طاعون زدہ علاقہ کے بارے میں دو ہدایتیں دی جا رہی ہیں ایک تو یہ کہ جس علاقہ میں طاعون پھیلا ہوا ہو اور تم وہاں پہلے سے موجود نہ ہو تو اب طاعون پھیلنے کی وجہ سے اس علاقہ میں نہ جاؤ۔ اس سے منع فرمایا جا رہا ہے تاکہ اپنی جان کو جانتے بوجھتے ہلاکت میں ڈالنا لازم نہ آئے۔ دوسری ہدایت یہ ہے کہ جس علاقہ میں طاعون پھیلا ہوا ہو تو وہاں پہلے سے موجود ہو تو اب محض طاعون پھیلنے کی وجہ سے اس علاقہ سے نکل کر کسی دوسری جگہ نہ بھاگ جاؤ۔ کیونکہ اس طرح کی تکلیف و پریشانی کے خوف سے اور موت کے ڈر سے بھاگنے کا مطلب ہوگا کہ تقدیر کے لکھے ہوئے فیصلہ سے فرار اختیار کرنا جو لا حاصل ہے۔ لہٰذا کسی عام وبا پھیلنے کے وقت کے بارے میں شریعت اسلامی کا یہی ضابطہ ہے کہ جس طرف وبا پھیلی ہوئی ہو وہاں جائے نہیں اور جس جگہ پہلے سے موجود تھا اور وہاں وبا پھیل گئی تو پھر وہاں سے بھاگے نہیں جو شخص بھاگے گا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اور راندہ درگاہ الٰہی ہوگا ہاں وبا کے علاوہ دوسرے بعض مواقع پر جہاں ہلاکت کا ظن غالب ہو بھاگنے کی اجازت ہے مثلاً کوئی شخص گھر میں ہو اور زلزلہ آجائے یا گھر میں آگ لگ جائے یا اسی طرح کسی ایسی دیوار کے نیچے بیٹھا ہوا ہو جس کے گرنے کا خطرہ ہو تو جان بچانے کے لئے وہاں سے بھاگنا جائز ہے۔

【28】

بینائی سے محرومی اور اس پر صبر اخروی سعادت کی نشانی

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی بندہ کو اس کی دونوں پیاری چیزوں میں مبتلا کردیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو میں ان دونوں کے بدلہ میں اسے جنت دیتا ہوں (راوی کہتے ہیں کہ اس کی دونوں پیاری چیزوں سے) آنحضرت ﷺ کی مراد اس کی دو آنکھیں ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح اللہ جل شانہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو میں اندھا کردیتا ہوں تو اس کو اس کی دونوں آنکھوں کے بدلہ میں بہشت دیتا ہوں، یعنی اسے نجات پائے ہوئے لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل کروں گا، یا یہ کہ اسے جنت میں مخصوص مراتب و درجات عطا کروں گا۔ لہٰذا جب کوئی شخص اپنی بینائی سے محروم ہوجائے تو اسے چاہئے کہ وہ نہ تو اس کی وجہ سے اپنی زبان شکایت کو دراز کرے اور نہ دل میں کوئی تنگی اور تکدر پیدا کرے بلکہ ایسی صورت میں صبر و شکر کی راہ پر گامزن رہے اور جانے کہ اندھا ہونا غضب خداوندی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ گناہوں کے دور ہونے، درجات کے بلند ہونے اور نگاہ بد سے بچانے کے لئے حق تعالیٰ نے آزمائش میں مبتلا کیا ہے۔ ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ جب عمر کے آخری حصہ میں اندھے ہوگئے تو فرمایا کرتے تھے کہ وہ خلوت جسے میں تمام عمر چاہا کرتا تھا اب میسر آئی ہے۔

【29】

عیادت کا اجر

حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو مسلمان (دوسرے بیمار) مسلمان کی دن کے پہلے حصہ میں یعنی دوسرے پہر سے پہلے پہلے عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے لئے شام ہونے تک رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور جو مسلمان دن کے آخری حصہ میں یعنی زوال کے بعد عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے لئے صبح ہونے تک رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور بہشت میں اس کے لئے ایک باغ مقرر کردیا جاتا ہے (ترمذی، ابوداود)

【30】

آنکھوں کی بیماری میں عیادت کرنے کا مسئلہ

حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے میری عیادت فرمائی جب کہ میری آنکھوں میں درد تھا۔ (احمد، ابوداؤد ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس شخص کی عیادت کرنا سنت ہے جو آنکھیں دکھنے یا آنکھ کی دوسری بیماری میں مبتلا ہو جب کہ ایک روایت کا جو جامع صغیر میں منقول ہے یہ مفہوم ہے کہ تین بیماریاں ایسی ہیں جن میں بیمار کی عیادت نہ کی جائے (١) آنکھیں دکھنے میں (٢) داڑھ کے درد میں (٣) دنبل (پھوڑے) میں ۔ چونکہ ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہے اس لئے ان دونوں میں اس تاویل کے ذریعہ تطبیق پیدا کی جائے گی کہ ان بیماریوں میں بیمار کی عیادت وہ لوگ نہ کریں جن کے لئے بیمار کو تکلیف کرنا پڑے یا ان کا آنا بیمار کے لئے گراں ہو کیونکہ اگر وہ لوگ ایسے بیمار کی عیادت کے لئے جائیں گے تو آنکھ دکھنے یا آنکھ کی دوسری بیماری کی شکل میں بیمار کو اپنی آنکھ کھولنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ یا داڑھ دکھنے کی صورت میں اسے گفتگو کرنے کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف ہوگی اسی طرح اگر دنبل ہوگا تو وہ ان کی وجہ سے ٹھیک طریقہ سے بیٹھنے پر مجبور ہوگا اور ظاہر ہے پھوڑے کے وجہ سے اس کے لئے کسی ایک اور ٹھیک ہئیت پر بیٹھنا بہ زیادہ تکلیف کا باعث ہوگا۔ ہاں اگر ایسے لوگ عیادت کے لئے جائیں جن کی وجہ سے بیمار کو تکلیف نہ کرنا پڑے یا ان کا جانا بیمار پر گراں نہ گزرے تو ان بیماریوں میں بھی عیادت کے لئے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حاصل یہ ہے کہ یہاں جو حدیث نقل کی جا رہی ہے وہ آخری صورت پر محمول ہوگی اور جامع صغیر کی روایت پہلی صورت پر محمول کی جائے گی۔

【31】

عیادت کے واسطے جانے کے لئے وضو کرنا سنت ہے

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے وضو کیا اور اچھا (یعنی پورا) وضو کیا ور پھر (حصول) ثواب کے ارادے سے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کی تو اس کو دوزخ سے ساٹھ برس (کی مسافت) کی بقدر دور رکھا جاتا ہے ۔ ( ابوداؤد )

【32】

عیادت کے وقت بیمار کے لئے دعا

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمای جب کوئی مسلمان کسی بیمار مسلمان کی عیادت کرتا ہے اور سات مرتبہ یہ کہتا ہے کہ دعا (اسأل اللہ العظیم رب العرش العظیم ان یشفیک) یعنی میں اللہ بزرگ و برتر سے جو عرش عظیم کا مالک ہے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا دے۔ تو اللہ تعالیٰ اسے شفا دیتا ہے بشرطیکہ اس کا وقت نہ آگیا ہوں (یعنی اس کا مرض لاعلاج نہ ہو) ۔ ( ابوداؤد، ترمذی)

【33】

بخار اور درد کی دعا

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کو سکھلایا کرتے تھے کہ وہ (یعنی بیمار لوگ) بخار بلکہ ہر درد (سے شفا) کے لئے اس طرح دعا کیا کریں دعا (بسم اللہ الکبیر اعوذ باللہ العظیم من شر کل عرق نعار ومن شر حر النار) یعنی میں برکت چاہتا ہوں اللہ بزرگ و برتر کے نام سے اور پناہ چاہتا ہوں اللہ بزرگ و برتر کی، ہر رگ جوش مارنے والی کی برائی (یعنی تکلیف) سے اور آگ کی برائی سے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ ہم اس حدیث کو ابراہیم ابن اسماعیل کے علاوہ اور کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں جانتے اور وہ (یعنی ابراہیم) روایت حدیث کے بارے میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔ تشریح ہر رگ جوش مارنے والی سے مراد وہ خون ہے جو رگ میں جوش مارتا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس خون سے پناہ چاہے جو رگ میں جوش مارتا ہے کیونکہ جب خون غالب آجاتا ہے تو تکلیف پہنچاتا ہے بایں طور کہ اس سے بخار اور دوسرے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ حدیث ابن شیبہ، ترمذی، ابن ماجہ، ابن ابی الدنیا، ابن سنی اور حاکم نے روایت کی ہے اور بیہقی نے دعوات کبیر میں اس کی صحت کی تصدیق کی ہے۔

【34】

بیماری میں کیا دعا پڑھی جائے

حضرت ابودرداء (رض) راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جس شخص کو کوئی بیماری ہو یا اس کا کوئی بھائی بیمار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے۔ ہمارا پروردگار اللہ ہے، ایسا اللہ جو آسمان میں ہے (تمام نقصانات سے) تیرا نام پاک ہے، تیری حکومت آسمان و زمین (دونوں) میں ہے، جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے ویسی ہی تو اپنی رحمت زمین پر نازل فرما، تو ہمارے چھوٹے اور بڑے گناہ بخش دے تو پاکیزہ لوگوں کا پروردگار ہے (یعنی ان کا محب اور کا رساز ہے اور تو اپنی رحمت میں سے (جو ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے رحمت عظیمہ) نازل فرما اور اس بیماری سے اپنی شفا عنایت فرما (اس دعا کے پڑھنے سے انشاء اللہ بیمار) اچھا ہوجائے گا۔ ( ابوداؤد ) تشریح جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ آسمان میں تو تیری رحمت ہر ہر جگہ ہے اور وہاں کے ہر ہر رہنے والے پر ہے۔ بخلاف زمین اور زمین کے رہنے والوں کے کہ یہاں تو رحمت خاص بعضوں پر ہوتی ہے اور بعضوں پر نہیں ہوتی یعنی رحمت خاص صرف مؤمن ہی فیضیاب ہوتے ہیں نہ کہ کافر اگرچہ رحمت عام سب کے لئے یکساں ہے خواہ مؤمن ہو یا کافر جیسا کہ ارشاد ربانی ہے آیت (رحمتی وسعت کل شئی) ۔ میری رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے۔ پاکیزہ لوگوں سے مؤمن مراد ہیں جو شرک سے پاک ہوتے ہیں یا وہ متقی مسلمان مراد ہیں جو برے افعال اور فاسد و لا یعنی اقوال سے بچتے ہیں۔

【35】

عیادت کے وقت کی دعا

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص کسی مریض کے پاس عیادت کے لئے آئے تو اسے یہ دعائیہ الفاظ کہنے چاہئیں۔ آیت (اللہم اشف عبدک ینکالک عدوا او یمشی لک الی جنازۃ) ۔ یعنی اے اللہ ! اپنے بندہ کو شفا دے تاکہ وہ تیرے بندہ کو ایذاء پہنچائے (یعنی دشمان دین سے جنگ وجدال کر کے انہیں زخمی اور قتل کرے) یا تیری خوشی و رضا کی خاطر جنازہ کی طرف (یعنی نماز جناہ کے لئے) چلے (ابو داؤد)

【36】

تکلیف ومصیب مسلمان کے لئے گناہوں کا کفارہ

حضرت علی (رض) بن زید (بصری تابعی) امیہ سے روایت کرتے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے معنی پوچھے اگر وہ چیز جو تمہارے دلوں میں ہے ظاہر کردو یا چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ آیت (وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ ) 2 ۔ البقرۃ 284) اور اس آیت کے معنی بھی پوچھے آیت (ومن یعمل سوء یجز بہ) یعنی جو شخص برا عمل کرے گا (یعنی خواہ صغیرہ گناہ کرے خواہ کبیرہ گناہ) تو اس کی جزاء (یعنی اس کی سزا دنیا یا آخرت میں) دی جائے گی۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ جیسا کہ میں نے اس کے بارے میں رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا تھا ویسا کسی نے مجھ سے اس مسئلہ کے بارے میں نہیں پوچھا۔ چناچہ آپ ﷺ نے (میرے دریافت کرنے پر) فرمایا کہ یہ (یعنی محاسبہ اور سزا جو دونوں آیتوں میں مذکور ہیں) اللہ تعالیٰ کا عتاب ہے جس میں بندہ بخار و رنج (کی تکلیف) کی صورت میں مبتلا ہوتا یہاں تک کہ کوئی بندہ اپنا کچھ مال اپنے کرتہ کے آستین (یا جیب) میں رکھتا ہے اور (پھر وہ مال گم ہوجاتا ہے جسے) وہ نہیں پاتا چناچہ وہ اس مال کے نہ ملنے سے غمگین ہوتا ہے (تو اس کی وجہ سے اس کے گناہ دور کئے جاتے ہیں اور ہمیشہ یہی سلسلہ جاری رہتا ہے کہ بندہ کسی تکلیف اور رنج میں مبتلا رہتا ہے) یہاں تک کہ وہ بندہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک وصاف ہوجاتا ہے جیسا کہ سونا اور چاندی بھٹی سے (آگ میں پڑنے کی وجہ سے) سرخ نکلتا ہے۔ (ترمذی) تشریح ان دونوں آیتوں کے معنی پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بندوں سے ان کے دلوں کے خطرات و وسو اس اور برے خیالات پر محاسبہ کیا جائے گا اور دوسری آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کو ہر برے عمل پر سزا دی جاتی ہے خواہ وہ عمل چھوٹا ہو یا بڑا، تھوڑا ہو یا زیادہ۔ چناچہ اس سے صحابہ (رض) پریشان ہوئے کہ کیا کریں کیونکہ ان سے بچنا ممکن نہیں چناچہ حضرت امیہ (رض) نے حضرت عائشہ (رض) سے ان آیات کا مطلب پوچھا تو انہوں نے ان آیات کی وضاحت کی جس کا حاصل یہ ہے کہ ان آیات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مؤمنین کو ان کے دل کی تمام باتوں اور ان کے تمام چھوٹے بڑے گناہوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کرے گا بلکہ آیات میں محاسبہ اور سزا کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمنین کو ان سے سرزد ہوئے گناہوں کی وجہ سے دنیا میں اپنے عتاب میں مبتلا کرتا ہے بایں طور کہ کسی کو بیماری کی تکلیف میں اور کسی کو دوسرے رنج و غم میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ یہ چیزیں ان کے گناہوں کا کفار ہوجائیں۔ عتاب کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنے کسی دوست سے اس کی کسی غلط روی اور بےادبی کی وجہ سے بظاہر اس پر اپنے غصہ کا اظہار کرے مگر دل میں اس کی محبت بدستور باقی رہے ۔

【37】

تکلیف ومصیب مسلمان کے لئے گناہوں کا کفارہ

حضرت ابوموسی (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بندہ کو جو معمولی ایذاء پہنچتی ہے یا کوئی تکلیف پہنچتی ہے خواہ وہ اس سے کم ہو یا زیادہ ہو، یہ اس کے گناہوں کا ثمرہ ہوتا ہے اور وہ گناہ جنہیں اللہ تعالیٰ (بغیر سزا دئیے) دنیا و آخرت میں بخش دیتا ہے ان گناہوں سے بہت زیادہ ہوتے ہیں جن پر وہ سزا دیتا ہے آنحضرت ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر) اور از قسم مصیبت جو چیز تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں پیدا کی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ بہت سے (گناہوں یا گناہ گاروں) کو معاف فرما دیتا ہے ۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو بھی مصیبت و تکلیف اور بیمار وغیرہ پہنچتی ہے وہ سب تمہاری بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ گویا یہاں گنہ گاروں کو مخاطب کیا جا رہا ہے کہ اپنی بداعمالیوں اور غلط کاریوں سے باز آجاؤ اور نیک راستہ پر چلنے ہی کو اپنی دینی و دنیوی راحت و سکون کا ذریعہ جانو، ہاں جب وہ لوگ کسی مصیب و تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں جو گناہ گار نہیں ہوتے تو اس سے ان کی آزمائش و امتحان مقصود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے درجات میں بلندی ہوتی ہے، اگرچہ اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے کسی معمولی سی تکلیف اور پریشانی میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور اپنے عجز و بیچارگی کے احساس کی وجہ سے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ ہماری شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔ چناچہ ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ چوہے نے ان کے جوتے کے تسمہ کو کتر لیا تو وہ اتنا متاثر ہوئے کہ روتے جاتے تھے کہ آہ ! نامعلوم میں کس گناہ میں مبتلا ہوگیا تھا جس کی سزا میں نے یہ پائی ہے۔

【38】

حالت بیماری میں زمانہ تندرستی کے اعمال نیک لکھ دیئے جاتے ہیں

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب بندہ عبادت کے نیک راستہ پر ہوتا ہے اور پھر بیمار ہوجاتا ہے (اور اس عبادت کے کرنے پر قادر نہیں رہتا) تو اس فرشتہ سے جو اس بندہ پر (اس کے نیک اعمال لکھنے پر) متعین ہوتا ہے کہا جاتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) کہ اس بندہ کے لئے (اس کے نامہ اعمال میں) اس عمل کے مثل لکھو جو وہ تندرستی کی حالت میں کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ میں اسے تندرستی عطا کروں، یا اسے (اپنے پاس) بلا لوں ۔

【39】

حالت بیماری میں زمانہ تندرستی کے اعمال نیک لکھ دیئے جاتے ہیں

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی مسلمان جسمانی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ (اس بندہ کی نیکی لکھنے والے) فرشتہ سے فرماتا ہے کہ اس کے نامہ اعمال میں تم وہی نیک عمل لکھتے رہو جو یہ (اس بیماری سے پہلے) کرتا تھا چناچہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس مسلمان کو شفا دی تو اس کے گناہوں کو دھوتا ہے اور پاک کرتا ہے۔ اور اگر اسے اٹھا لیتا ہے تو اس کو بخشتا ہے اور اس پر رحم فرماتا ہے یہ دونوں روایتیں بغوی نے شرح السنۃ میں نقل کی ہیں۔

【40】

راہ اللہ میں شہادت کے علاوہ شہادت کی اور اقسام

حضرت جابر ابن عتیک راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اس شہادت کے علاوہ جو اللہ کی راہ میں ہو شہادت کی اور سات قسمیں ہیں (١) جو شخص طاعون میں مرے شہید ہے (٢) جو شخص ڈوب کر مرجائے شہید ہے (٣) جو شخص ذات الجنب میں مرے شہید ہے (٤) جو شخص پیٹ کی بیماری (یعنی دست اور استسقاء) میں مرجائے شہید ہے (٥) جو شخص جل کر مرجائے شہید ہے۔ (٦) جو شخص دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مرجائے (٧) اور وہ عورت جو حالت حمل میں یا باکرہ مرے شہید ہے (مالک، ابوداؤد، نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ حقیقی شہید تو وہی ہے جو کے راستہ میں دین کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کام آئے اس کے علاوہ سات قسم کے اور شہید ہیں جو حقیقی شہید تو نہیں لیکن حکم میں شہید ہی کے ہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی قسمیں ہیں جو مختلف احادیث میں مذکور ہیں اور جن کو تفصیل کے ساتھ پچھلے صفحات میں ذکر کیا گیا ہے۔ ذات الجنب ایک مشہور بیماری ہے اس بیماری سے پہلو کے اندر دل اور سینہ کے قریب پھنسیاں ہوجاتی ہیں اور اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مریض کا سانس رکتا ہے اور بخار اور کھانسی رہتی ہے۔

【41】

سخت مصیبت میں کون لوگ مبتلا ہوتے ہیں

حضرت سعد فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں کون شخص (محنت و مصیبت کی) زیادہ بلاء میں مبتلا ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انبیاء۔ پھر وہ لوگ جو انبیاء سے بہت زیادہ مشابہ ہوں پھر وہ لوگ جو ان سے بہت زیادہ مشابہ ہوں۔ (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) انسان اپنے دین کے مطابق (مصیبت میں) مبتلا کیا جاتا ہے، چناچہ اگر کوئی شخص اپنے دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر کوئی شخص اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کی مصیبت بھی ہلکی ہوتی ہے، (لہٰذا اپنے دین میں سخت شخص اسی طرح ہمیشہ) مصیبت و بلاء میں گرفتار رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کی مغفرت ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ زمین کے اوپر اس حال میں چلتا ہے کہ (اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ انبیاء کرام مصیبت و بلاء میں سب سے زیادہ مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ وہ بلاء و مصیبت میں اسی طرح لذت محسوس کرتے ہیں جس طرح کے عام انسان نعمت و راحت میں لذت محسوس کرتے ہیں، پھر ان کے بعد وہ لوگ مصیبت و سختی میں مبتلا ہوتے ہیں جو ان کے مشابہ ہوتے ہیں یعنی اولیاء اللہ اور صلحاء انہیں بھی مصیبت و تکلیف کی سخت آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ بہت زیادہ ثواب کے مستحق ہوں مگر ان کی مصیبت و بلاء کی سختی انبیاء کی مصیبت و بلاء کی سختی سے کم ہوتی ہے اس کے بعد ان لوگوں کا نمبر آتا ہے جو مرتبہ اور درجہ کے اعتبار سے اولیاء اللہ سے کم ہوتے ہیں۔ آخر میں یہ کلیہ بیان فرمایا جا رہا ہے کہ جو شخص اپنے دین پر سختی سے قائم رہتا ہے اور کسی مرحلہ پر بھی اس کے قدم میں لغزش نہیں آتی اس کی مصیبت و بلاء بھی بڑی سکت ہوتی ہے کیونکہ وہ صاحب یقین ہوتا ہے چناچہ جب وہ اپنی مصیبت کی سختی پر صبر کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے گناہوں کی وجہ سے اسی کا اہل ہوں تو اس کی وجہ سے اس کا ایمان کامل ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق مضبوط تر ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے گناہ دور ہوتے ہیں اور اس کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو شخص اپنے دین میں نرم رو ہوتا ہے اس کی بلاء و مصیبت کی سختی بھی کم ہوتی ہے۔ تاکہ وہ بےصبری کا مظاہرہ نہ کرسکے اور اپنے ایمان وتعلق باللہ کے قوی نہ ہونے کی وجہ سے دین کے دائرہ سے نہ نکل جائے۔

【42】

اخروی بھلائی موت کی سختی میں ہے

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے رسول کریم ﷺ کی موت کی سختی کو دیکھا ہے کسی کے لئے موت کی آسانی کی دعا نہیں کرتی۔ (ترمذی، نسائی) تشریح حضرت عائشہ (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تو میں موت کی آسانی کی آرزومند رہا کرتی تھی۔ مگر جب میں نے آنحضرت ﷺ کی موت کی سختی دیکھی وہ آرزو باقی نہ رہی بلکہ اب میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اخروی سعادت و بھلائی موت کی سختی میں ہے موت کی آسانی میں نہیں ہے۔

【43】

سکرات الموت میں آنحضرت ﷺ کا عمل

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ سکرات الموت میں مبتلا تھے آپ ﷺ کے پاس ایک پیالہ رکھا ہوا تھا جس میں پانی تھا آپ ﷺ پیالہ میں اپنا ہاتھ ڈبوتے پھر اپنے چہرہ مبارک پر پھیرتے اور یہ فرماتے تھے۔ دعا (اللہم اعنی علی منکرات الموت او سکرات الموت) ۔ اے اللہ موت کی سخت دور کرنے کے ساتھ میری مدد فرما۔ موت کی سختی کے بجائے موت کی شدت فرماتے۔ تشریح سکرات الموت میں آپ ﷺ اپنے ہاتھ کو پانی میں تر کر کے چہرہ مبارک پر اس لئے پھیرتے تھے تاکہ موت کی سختی اور شدت کی وجہ سے جو حرارت اور گرمی پیدا ہوگئی تھی اس میں تخفیف ہوجائے۔ آنحضرت ﷺ کی موت کی سختی اور شدت کے بارے میں علماء نے کئی وجہیں بیان کی ہیں ان میں سے ایک توجیہ یہ آپ ﷺ پر سکرات الموت کی یہ کیفیت اس لئے طاری ہوئی تاکہ امت کے لوگ اس کے سبب سے اپنی موت کے بارے میں زیادہ پریشان اور ہراساں نہ ہوں جب امتی یہ دیکھیں گے کہ آنحضرت ﷺ نے کس طرح جسد مبارک سے جدائی حاصل کی تو وہ اپنے بارے میں صبر کے دامن کو پکڑے رہیں گے جس کی وجہ سے ان کی جان کنی میں آسانی ہوگی۔

【44】

دنیا کی سزا آخرت کی سزا سے بہتر ہے

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کے گناہوں کی سزا جلد ہی دنیا میں دے دیتا ہے اور جب اپنے کسی بندہ کی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتا ہے۔ تشریح دنیا کی سزا بہر صورت آخرت کی سزا سے بہتر ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ اپنے ان نیک بندوں کو جو کسی گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں دنیا ہی میں مصیب و تکلیف یا بیماری وغیرہ کی صورت میں سزا دیتا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا کا عذاب ہلکا ہوتا ہے بایں طور کہ دنیا کی مدت کم ہوتی ہے جو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتی ہے۔ ہاں وہ لوگ جو اللہ کی مسلسل نافرمانی کی وجہ سے اللہ کا غضب مول لیتے ہیں اور آخرت کی بدبختی میں مبتلا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں سزا نہیں دیتا بلکہ ان کی رسی دراز کئے جاتا ہے تاکہ انہیں آخرت کے عذاب میں مبتلا کیا جائے جو دنیا کے عذاب سے کہیں دردناک اور شدید ہوگا۔

【45】

بلا ومصیبت میں راضی برضا رہنا چاہئے

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بڑی مصیبتوں کے بدلہ بڑا اجر ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو پسند کرتا ہے تو اسے (مصیبتوں میں) مبتلا کردیتا ہے چناچہ جو (مصائب و بلاء میں) راضی رہا تو اس کے لئے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو شخص (مصیبت کے ابتلاء سے) ناراض رہا تو اس کے لئے (اللہ کی) ناراضگی ہے (ترمذی وابن ماجہ) تشریح اللہ تعالیٰ جب کسی شخص سے خوش ہوتا ہے تو اسے مصیبت و بلاء میں مبتلا کردیتا ہے اسی طرح جب کسی شخص سے ناراض و ناخوش ہوتا ہے تو اسے بھی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے اگرچہ اس دوسرے جزو کو حدیث میں بظاہر ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن حدیث کے الفاظ فمن رضی الخ سے یہ جزو بھی مفہوم ہوتا ہے۔ گویا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ بندہ کی خوشی و ناخوشی حق تعالیٰ کی خوشی و ناخوشی کی علامت ہے جو شخص مصیبت و بلاء میں راضی برضا رہتا ہے وہ اللہ کا پسندیدہ و محبوب ہوتا ہے بایں طور کہ اللہ بھی اس سے راضی و خوش رہتا ہے اور جو شخص مصیبت و بلاء کی سختیوں پر زبان شکایت دراز کرتا اور ناراضگی و ناخوشی کا اظہار کرتا ہے وہ راندہ درگاہ الٰہی ہوتا ہے بایں طور کہ اللہ اس سے خوش و راضی نہیں رہتا۔ چناچہ منقول ہے کہ صحابہ (رض) آپس میں یہ سوال کرتے تھے کہ کس طرح معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کس بندہ سے خوش و راضی ہے اور کس بندہ سے ناخوش و ناراض ہے ؟ پھر یہ جواب دیتے تھے کہ اگر بندہ اللہ سے خوش و راضی ہے تو سمجھا جائے کہ اللہ اس بندہ سے خوش و راضی ہے اور اگر بندہ اللہ سے ناخوش و ناراض ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اللہ اس سے ناراض و ناخوش ہے۔

【46】

اہل ایمان دنیا میں ہمیشہ مصیبت میں مبتلا رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آخرت کی دائمی راحت پالیتے ہیں

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن مرد یا مؤمن عورت کی جان، اس کے مال اور اس کی اولاد کو ہمیشہ مصیبت و بلاء پہنچتی رہتی ہے یہاں تک کہ (جب) وہ (مرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے تو اس پر (یعنی اس کے نامہ اعمال میں) کوئی گناہ نہیں ہوتا (کیونکہ مصیبت و بلاء کی وجہ سے اس کے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں) امام ترمذی (رح) نے اس روایت کو نقل کیا اور امام مالک نے (رح) نے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ نیز امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

【47】

ابتلاء ومصیبت سعادت کے اس مرتبہ پر پہنچا دیتی ہے جو اعمال سے حاصل نہیں ہوتا

حضرت محمد بن خالد سلمی اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا (یعنی اپنے والد مکرم) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بندہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے (جنت میں) جو عظیم درجہ مقدر ہوتا ہے اور وہ اسے اپنے عمل کے ذریعہ حاصل نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ اس کے بعد یا اس کے مال یا اس کی اولاد کو (مصییبت میں) مبتلا کردیتا ہے اور پھر اسے صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے یہاں تک کہ اسے اس درجہ تک پہنچا دیتا ہے جو اس کے لے اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقدر تھا (احمد، ابوداؤد ) تشریح اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بندہ مصیبت و بلا پر صبر کرنے کی وجہ سے اخروی سعادت کے اس عظیم درجہ و مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی عبادت و اطاعت کے ذریعہ سے نہیں پہنچ سکتا تھا۔

【48】

دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے عیش کدہ

حضرت عبداللہ بن شخیر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابن آدم اس حال میں پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے پہلو میں (یعنی اس کے قریب) ننانوے مہلک بلائیں ہیں اگر وہ بلائیں اسے نہیں پہنچتیں تو بڑھاپے میں مبتلا ہوتا ہے یہاں تک کہ مرجاتا ہے ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ انسان جب عدم سے وجود میں آتا ہے تو اس کے چاروں طرف بلاؤں کا ایک جال سا پھیلا ہوا ہوتا ہے وہ ایسی ایسی بلاؤں اور مصیبتوں میں گھرا ہوا ہوتا ہے جن سے خلاصی نہیں ہوتی اور اگر اتفاقا کوئی شخص ان بلاؤں اور مصیبتوں سے نجات پائے رہتا ہے تو آخر میں بڑھاپے کے جال میں پھنس جاتا ہے اور بڑھاپا بھی ایسا جو درد بےدوا اور بلائے بےانتہا ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ دنیا مومن کے لئے ایک قید کانہ اور کافر کے لئے عیش کدہ ہے۔ لہٰذا مسلمان کو لازم آتا ہے کہ وہ دنیا کی ہر مصیبت و بلاء کے موقع پر صبر کے دامن کو ہاتھ سے پکڑے رہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے مقدر میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر راضی اور صابر رہیں کہ اخروی فلاح وسعادت کی یہی ضمانت ہے۔ ایک حدیث قدسی میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جو بندہ میری اتاری ہوئی مصیبت و بلاء پر صبر نہ کرے میری دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہ کرے اور میرے فیصلہ سے راضی نہ رہے تو وہ میرے علاوہ کوئی دوسرا رب ڈھونڈ لے سوچئے کہ ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کتنی شدید ہے۔ جو صبر و شکر کی راہ پر گامزن نہ ہو اور اللہ کے فیصلہ پر راضی نہ رہے۔ دعا (اللہم احفظنا منہ و وفقنا للصبر والشکر والرضاء) ۔

【49】

دنیا میں راحت وسکون سے رہنے والوں کی قیامت کے دن تمنا

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن جب مبتلائے مصیب و بلاء بہت زیادہ اجر وثواب سے نوازے جائیں گے تو اہل عافیت (یعنی وہ لوگ جو دنیا میں مصیبت و بلاؤں سے محفوظ رہے اور ان کی زندگی بڑے عیش و عشرت میں گزری) یہ تمنا کریں گے کہ کاش ! دنیا میں ان کے بدن کی کھال قینچیوں سے کاٹی جاتی (تاکہ جس طرح مبتلائے مصیبت آج اتنے زیادہ اجر وثواب سے نوازے جا رہے ہیں اسی طرح ہمیں بھی بہت زیادہ ثواب ملتا) امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【50】

گناہوں کا کفارہ بیماری

حضرت عامر رامی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (ایک مرتبہ) بیماریوں کا ذکر کیا، چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مؤمن جب کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے اس بیماری سے نجات دیتا ہے تو وہ بیماری (نہ صرف یہ کہ) اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے (بلکہ) زمانہ آئندہ کے لئے باعث نصیحت (بھی) ہوتی ہے۔ یعنی بیماری اسے متنبہ کرتی ہے۔ (چنانچہ وہ آئندہ گناہوں سے بچتا ہے) اور جب منافق بیمار ہوتا ہے اور پھر اسے بیماری سے نجات دی جاتی ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالک نے باندھا اور پھر چھوڑ دیا اور اونٹ نے یہ نہ جانا کہ مالک نے اسے کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑ دیا ؟ (یہ سن کر) ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! بیماری کیا چیز ہے ؟ میں تو کبھی بھی بیمار نہیں ہوا ! آپ ﷺ نے فرمایا ! ہمارے پاس سے اٹھ کھڑے ہو ! تم ہم میں سے نہیں ہو ! تشریح مؤمن بیماری سے صحت پانے کے بعد متنبہ ہوجاتا ہے چناچہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے گناہوں کی وجہ سے بیماری میں مبتلا ہوا تھا اس لئے وہ نہ صرف یہ کہ اپنے گزشتہ گناہوں پر نادم شرمسار ہوتا ہے اور توبہ کرتا ہے بلکہ آئندہ گناہوں سے بھی بچتا ہے اس کے برعکس منافق کا حال یہ ہے کہ جب بیماری سے صحت یاب ہوتا ہے تو اس کی مثال بالکل اس اونٹ کی سی ہوتی ہے کہ جسے اگر اس کا مالک باندھ دے تو یہ نہ جانے کہ مجھے باندھا کیوں ہے اور اگر چھوڑ دے تو یہ نہ سمجھے کہ مجھے چھوڑا کیوں ہے۔ چناچہ منافق بیماری کی وجہ سے متنبہ نہیں ہوتا نہ تو وہ نصیحت و عبرت پکڑتا ہے اور نہ گناہوں پر نادم و شرمسار ہو کر توبہ کرتا ہے اسی لئے اس کی بیماری نہ تو اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے اور زمانہ آئندہ میں اس کے لئے باعث نصیحت و عبرت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے بچ سکے (رض) (فاولئک کالانعام بل ھم اضل اولئک ھم الغافلون) ۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی تم ہم میں سے نہیں ہو کا مطلب یہ ہے کہ تم ہمارے اہل طریقہ میں سے نہیں ہو، کیونکہ جس طرح ہم بیماری اور بلاؤں میں مبتلا ہوئے ہیں اس طرح تم مبتلا نہیں ہوئے ہو۔

【51】

عیادت کے وقت مریض کی دلداری کرو

حضرت ابوسعید (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم مریض کے پاس (اس کا حال پوچھنے کے لئے) جاؤ تو اس کی زندگی کے بارے میں اس کا غم دور کرو (یعنی تسلی و تشفی دلاؤ کہ فکر و غم نہ کرو تم جلد ہی صحت یاب ہوجاؤ گے اور تمہاری عمر دراز ہوگی) اس لئے کہ یہ (تسلی و تشفی اگرچہ) کسی چیز کو (یعنی مقدر کے لکھے کو) ٹال نہیں سکتی (مگر) مریض کا دل (ضرور) خوش ہوتا ہے (ترمذی ابن ماجہ) امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح بعض علماء نے لکھا ہے کہ جب وقت نزع قریب ہو تو مریض کے لئے مستحب ہے کہ وہ مسواک کرے چناچہ صحیح احادیث میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ نے انتقال کے وقت مسواک فرمائی تھی اور اس کی حکمت بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس سے رواح کا نکلنا آسان و سہل ہوجاتا ہے اسی طرح اس وقت فرشتوں کی خاطر خوشبو لگانا مستحب ہے، نیز پاکیزہ کپڑے پہننا، نماز پڑھنا اور نہانا بھی مستحب ہے۔

【52】

پیٹ کی بیماری میں مرنے والا قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا

حضرت سلیمان ابن صرد (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص پیٹ کی بیماری (مثلاً دست و استسقاء وغیرہ) میں مرگیا تو اسے اس کی قبر کے عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا ۔ (احمد و ترمذی) امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح پیٹ کے مرض میں مرنے والے کے لئے سعادت اس لئے ہے کہ اس مرض کی سختی کی وجہ سے گناہ دور ہوجاتے ہیں اور یہ شہید مرتا ہے جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے اور شہید کے بارے میں صحیح مسلم میں یہ حدیث منقول ہے کہ شہید کے تمام گناہ علاوہ دین (یعنی بندوں کے حقوق) کے بخش دئیے جاتے ہیں۔

【53】

غیر مسلم کی عیادت

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا تھا جو نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ جب وہ بیمار ہوا تو نبی کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے چناچہ آپ ﷺ نے اس کی عیادت کی اور اس کے سر کے قریب بیٹھ گئے اور اس سے فرمایا کہ تم مسلمان ہوجاؤ لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا اس کے باپ نے کہا ابوالقاسم (یعنی آنحضرت ﷺ کا حکم مانو ۔ چناچہ وہ لڑکا مشرف بہ اسلام ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ یہ فرماتے ہوئے باہر نکلے کہ حمد و ثنا اس اللہ کی جس نے اس لڑکے کو (اسلام کے ذریعہ) آگ سے نجات دی ۔ (بخاری) تشریح حدیث کے الفاظ فقعد عند راسہ سے معلوم ہوا کہ عیادت کے وقت مریض کے سر کے پاس بیٹھنا مستحب ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافر ذمی سے خدمت لینی اور اگر کوئی کافر ذمی بیمار ہو تو اس کی عیادت کے لئے جانا جائز ہے۔ کتاب خزانہ میں لکھا ہے کہ یہود کی عیادت کے لئے جانے میں کئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہاں مجوسیوں کی عیادت کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ اسی طرح فاسق کی عیادت کے بارے میں بھی اگرچہ علماء نے اختلاف کیا ہے لیکن صحیح تر یہ ہے کہ فاسق کی عیادت کے لئے جانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ حدیث نابالغ کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کی تائید کرتی ہے۔ کیونکہ حضرت امام موصوف فرماتے ہیں کہ نابالغ کا اسلام قبول کرنا صحیح ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہاں حدیث میں جس یہودی لڑکے کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کا نام عبدالقدوس ہے۔

【54】

عیادت کے لئے پیادہ پا جانا افضل ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص بیمار کی عیادت کرتا ہے تو پکارنے والا (یعنی فرشتہ) آسمان سے پکار کر کہتا ہے کہ خوشی ہو تمہیں دنیا و آخرت میں اچھا ہو چلانا تیرا (آخرت میں یا دنیا میں) اور حاصل ہو تجھے بہشت کا ایک بڑا درجہ و مرتبہ (ابن ماجہ) شریح اصل مقصد تو عیادت کے لئے مریض کے پاس پہنچنا ہے۔ خواہ کسی بھی طرح اور کسی بھی ذریعہ سے پہنچا جائے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ عیادت کے لئے پیادہ پا جانا افضل ہے۔

【55】

مریض کے حال کی اطلاع دینے کا طریقہ

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس وقت جب کہ آنحضرت ﷺ مرض الموت میں مبتلا تھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ (جب) نبی کریم ﷺ کے پاس سے اٹھ کر باہر تشریف لائے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ ابوالحسن (یہ حضرت علی (رض) کی کنیت تھی) آنحضرت ﷺ پر صبح کیسی گزری ؟ انہوں نے فرمایا اللہ کا شکر ہے آپ ﷺ نے بیماری سے اچھے ہونے والے کی طرح صبح گزاری (یعنی شکر ہے کہ آپ ﷺ آج اچھے ہیں) (بخاری) تشریح جب لوگوں نے حضرت علی (رض) سے آنحضرت ﷺ کی صحت کے بارے میں پوچھا تو حضرت علی (رض) نے ان الفاظ کے ذریعہ جواب دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب آپ ﷺ قریب بصحت ہیں۔ حضرت علی (رض) کا یہ جواب یا تو ان کے اپنے گمان کے مطابق تھا کہ وہ یہ ہی سمجھ رہے ہوں گے کہ آنحضرت ﷺ جلد ہی صحت یاب ہونے والے ہیں یا پھر یہ کہ حضرت علی (رض) نے آنحضرت ﷺ کی بیماری کی شدت کے احساس اور صحت سے مایوسی کے باوجود یہ جواب نیک فال کے طور پر دیا۔ چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ جب کسی عیادت کرنے والے تیمار دار سے مریض کا حال پوچھا جائے تو اگرچہ بیمار کی حالت مایوس کن ہو مگر اس بارے میں ادب اور طریقہ یہی ہے کہ فال نیک کے طور پر اس طرح سے امید افزاء اور خوش کن جواب دینا چاہئے۔

【56】

علاج توکل کے منافی نہیں

حضرت عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت ابن عباس (رض) نے مجھ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھلاؤں ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ! ( ضرور دکھلائیے) انہوں نے فرمایا کہ یہ کالی عورت (پھر فرمایا کہ ایک مرتبہ) یہ عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ ! میں مرگی کے مرض میں مبتلا ہوں (جب مرگی اٹھتی ہے) تو میں ڈرتی ہوں کہ کہیں حالت بےخودی میں) میرا ستر نہ کھل جائے لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا کیجئے (کہ میری بیماری جاتی رہے) آپ ﷺ نے فرمایا اگر چاہو تو صبر کرو تاکہ تمہیں جنت ملے اور اگر چاہو تو میں دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفا دے ۔ عورت نے عرض کیا کہ میں صبر ہی کروں گی اور پھر کہنے لگی کہ مگر میں ستر کھل جانے سے ڈرتی ہوں، آپ اللہ سے بس یہ دعا کر دیجئے کہ (مرض کی شدت اور حالت بیخودی میں) میرا ستر نہ کھلے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس کے لئے دعا فرمائی (بخاری ومسلم) تشریح اس عورت کا نام سعیرہ یا سقیرہ اور یا سیکرہ تھا، ایک روایت کے مطابق یہ عورت ام المؤمنین حضرت حدیجہ الکبریٰ (رض) کی کنگھی کرنے والی تھی۔ اس حدیث سے اس طرف اشارہ ہے کہ مصیبت و بلاء پر صبر کرنے اور رضا بتقدیر رہنے کے پیش نظر دوا اور دعا کو ترک کردینا جائز ہے۔ بلکہ حدیث کا ظاہری مفہوم تو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صبر و رضا کے ساتھ ہمیشہ مرض میں مبتلا رہنا صحت مند اور عافیت میں رہنے سے بہتر ہے لیکن بہ نسبت بعض افراد کے یعنی یہ اس شخص کے لئے افضل ہے جس کا مرض مخلوق اللہ کی نفع رسانی کے تعطل کا باعث نہ بنے۔ نیز حدیث کا ظاہر مفہوم اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ علاج و معالجہ کا ترک کردینا افضل ہے اگرچہ علاج و معالجہ کرنا ابوداؤد کی حدیث کے مطابق سنت ہے جس میں مروی ہے کہ صحابہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ کیا ہم (بیماری میں) دوا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں دوا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا جس کی دوا بھی پیدا نہ کی ہو۔ علاوہ بڑھاپے کے۔ چناچہ علماء لکھتے ہیں علاج معالجہ توکل کے منافی نہیں کیونکہ علاج و معالجہ صرف اسباب کے درجہ میں ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود بھی علاج و معالجہ کو اختیار فرمایا تھا حالانکہ آنحضرت ﷺ متوکلین کے سردار ہیں لیکن اس کے باوجود از راہ توکل علاج و معالجہ ترک کرنا جیسا کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ترک فرمایا تھا، باعث فضیلت ہے۔

【57】

مبتلائے مرض ہو کر مرنا بہتر ہے

حضرت یحییٰ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ اقدس میں ایک شخص کو (اچانک) موت نے آدبوچا۔ ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اسے موت مبارک ہو، اس طرح مرا کہ کسی مرض میں مبتلا نہ ہوا ! یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ افسوس ہے تم پر تمہیں کیا معلوم ؟ (یعنی بغیر مرض و بیماری کے اچانک مرجانے کو اچھا نہ سمجھو) اگر اللہ تعالیٰ اسے مرض مرض کے ساتھ موت دیتا تو (مرض کے بعد بدلہ میں) اس کی خطائیں دور کردیتا (یہ روایت امام مالک نے بطریق ارسال نقل کی ہے)

【58】

صابر مریض کی فضیلت

شداد بن اوس اور حضرت صنابحی (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ یہ دونوں ایک بیمار شخص کے پاس گئے اور اس کی عیادت کی، چناچہ دونوں نے مریض سے پوچھا کہ تم نے صبح کیسی گزاری ؟ مریض نے کہا کہ میں نے (رضاء و تسلیم اور صبر و شکر کی) نعمت کے ساتھ صبح کی (یعنی مرض و تکلیف کی وجہ سے میں کبیدہ خاطر نہیں ہوں بلکہ رضاء بتقدیر اور صبر کے دامن کو پکڑے ہوئے ہوں جس کی وجہ سے میرا دل خوش و مطمئن ہے) حضرت شداد نے فرمایا کہ گناہوں کے جھڑنے اور خطاؤں کے دور ہونے کی بشارت سے خوش ہو، کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ عز و جل فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندوں میں سے کسی بندہ مؤمن کو (بیماری و مصیبت میں) مبتلا کرتا ہوں اور وہ بندہ اس ابتلاء پر (دل گیر و ناخوش نہیں ہوتا بلکہ) میری تعریف کرتا ہے تو وہ اپنے بستر علالت سے ایسا (گناہوں سے پاک صاف ہو کر) اٹھتا ہے جیسا کہ وہ اس دن گناہوں سے پاک صاف تھا جس روز اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ نیز پروردگار بزرگ و برتر (فرشتوں سے) فرماتا ہے کہ میں نے اپنے بندہ کو قید میں ڈالا ہے اور اس آزمائش میں مبتلا کیا تھا، لہٰذا تم (اس کے نامہ اعمال) وہ (نیک) اعمال لکھنا جاری رکھو جو تم اس کے زمانہ تندرستی میں لکھنا جاری رکھتے تھے ۔ (احمد)

【59】

مصیبت گناہوں کی زیادتی کو ختم کرتی ہے

حضرت عائشہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب (کسی) بندہ کے گناہ بہت زیادہ ہوجاتے ہیں اور اس کے اعمال میں ایسا کوئی نیک عمل نہیں ہوتا جو ان کے گناہوں کو دور کرے تو اللہ تعالیٰ اسے غم و حزن میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ اس بندہ کے گناہوں کو دور کر دے ۔ (احمد) تشریح ایک روایت میں جسے طبرانی اور حاکم نے نقل کیا ہے۔ یہ منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قلب غمگین کو دوست رکھتا ہے ۔

【60】

عیادت کرنے والے کی سعادت

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص کسی بیمار کے پاس جاتا ہے اور اس کی عیادت کرتا ہے تو جب تک وہ بیٹھتا نہیں دریائے رحمت میں داخل رہتا ہے اور جب بیمار کے پاس بیٹھتا ہے تو دریائے رحمت میں ڈوب جاتا ہے ۔ (احمد، مالک)

【61】

بخار اور اس کا علاج ارشاد نبوی ﷺ کی روشنی میں

حضرت ثوبان (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص بخار میں مبتلا ہو اور وہ بخار (چونکہ) آگ کا ایک ٹکڑا ہے اس لئے اسے پانی سے بجھانا چاہیے لہٰذا اس شخص کو (جو بخار میں مبتلا ہے) چاہئے کہ وہ جاری نہر میں اترے اور پانی کے بہاؤ کی طرف کھڑا ہو اور یہ دعا پڑھے دعا (بسم اللہ اللہ اشف عبد و صدق رسولک) ۔ شفا طلب کرتا ہوں میں اللہ کے بابرکت نام سے اے اللہ ! اپنے بندہ کو شفا دے اور اپنے رسول کو (یعنی ان کے اس قول کو سچا کر) بایں طور کہ مجھے شفا دے۔ اور یہ عمل نماز فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کرے اور تین دن تک پانی میں غوطے لگائے، اگر تین دن میں اچھا نہ ہو تو پھر (یہ عمل) پانچ دن تک کرے اور اگر پانچ دن میں بھی اچھا نہ ہو تو پھر سات دن تک (یہ عمل) کرے اور اگر سات دن میں بھی اچھا نہ تو پھر نو دن تک (یہ عمل) کرے اور اللہ جل شانہ کے حکم سے بخار نو دن سے تجاوز نہیں کرے گا (یعنی اس عمل کے بعد بخار جاتا رہے گا) امام ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح لفظ و لینغمس (غوطے لگائے) دراصل لفظ فلیستنقع (نہر میں اترے) کا بیان ہے، لہٰذا اس عبارت کے یہ معنی بھی مراد لئے جاسکتے ہیں کہ تین غوطے تین دنوں میں (یعنی ایک ایک غوطہ روزانہ) لگائے جائیں اور یہ معنی بھی متحمل ہوسکتے ہیں کہ ہر روز تین تین غوطے لگائے جائیں۔ حدیث بالا میں بخار کے لئے جو علاج تجویز کیا جا رہا ہے وہ علاج مخصوص ہے یعنی ہر بخار میں یہ علاج کار گر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق صفراوی بخار کی بعض اقسام سے ہے جس میں اہل حجاز مبتلا ہوتے ہیں، چونکہ بعض بخار میں پانی کا استعمال نہ صرف یہ کہ مضر بلکہ باعث ہلاکت ہوتا ہے اس لئے ہر بخا میں علاج کا یہ طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئے ہاں اگر کسی بخار میں طبیب حاذق اور معتمد معالج اجازت دے دے تو پھر اس پر بلا جھجک عمل کرنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں خطابی (رح) نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص کسی ایسے بخار میں مبتلا ہوا جس میں پانی کا استعمال مضر تھا مگر اس نے ناسمجھی میں پانی میں غوطے لگائے جس کا اثر یہ ہوا کہ حرارت بدن میں رک گئی چناچہ وہ اتنا بیمار ہوا کہ ہلاکت کے قریب پہنچ گیا۔ جب کسی نہ کسی طرح اچھا ہوا تو ظالم نے یہ تو نہ سمجھا کہ حدیث کے معنی نہ سمجھنے کی وجہ سے خود مصیبت میں پھنسا البتہ نفس حدیث کے بارے میں اول قول بکنے لگا حالانکہ اگر وہ بےوقوفی اور ناسمجھی کا ثبوت نہ دیتا بلکہ یہ جانتا کہ حدیث کا یہ حکم ہر نوع کے بخار کے لئے نہیں ہے بلکہ بعض مخصوص بخار کے لئے ہے تو مصیبت میں کیوں پھنستا۔

【62】

بخار کو برا نہ کہو

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ کے سامنے بخار کا ذکر ہوا تو ایک شخص اسے برا کہنے لگا (یہ سن کر) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بخار کو برا نہ کہو کیونکہ بخار گناہوں کو اسی طرح دور کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کے میل کو دور کردیتی ہے ۔ (ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب بخار گناہوں کو دور کردیتا ہے تو عقل و دانش کا تقاضہ یہ ہونا چاہئے کہ بخار کے معاملہ میں شکر گزاری کی راہ پر لگا جائے نہ کہ ناشکری کی جائے چناچہ مشائخ رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ بلا و مصیبت میں بھی اسی طرح شکر الٰہی کی جائے جس طرح نعمت و راحت میں اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر جب کوئی بلا نازل فرماتا ہے تو اس بلاء میں بھی اس کی کوئی نہ کوئی رحمت ہی پوشیدہ ہوتی ہے۔

【63】

مؤمن کامل بخار میں کیوں مبتلا ہوتا ہے؟

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک بیمار کی عیادت کی (جب بخار میں مبتلا تھا) اور اس سے فرمایا کہ تمہیں خوشخبری ہو ! کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بخار میری آگ ہے۔ جسے میں اپنے بندہ پر اس لئے مسلط کرتا ہوں تاکہ وہ (بخار) اس کے حق میں قیامت کے دن دوزخ کی آگ کا بدلہ اور حصہ ہوجائے ۔ (احمد، ابن ماجہ، بیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے آیت (وان منکم الا واردھا) یعنی تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو (قیامت کے دن) دوزخ میں داخل نہ ہو۔ لہٰذا بندہ مؤمن کو اس داخل ہونے کے بدلے دنیا میں بخار میں مبتلا کیا جاتا ہے اس طرح وہ بخار کی وجہ سے عذاب سے جو دوزخ میں داخل ہونے کی وجہ سے ہوتا بچا رہے گا اگرچہ داخل ہونا بایں طور سب کے لئے ہوگا کہ پل صراط دوزخ کے اوپر قائم کیا جائے اور اس کے اوپر سے سب ہی گزریں گے۔ مذکورہ بالا تشریح کے پیش نظر حدیث میں لفظ مؤمن کے ساتھ کامل کی قید لگا دینی چاہئے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حدیث کے مفہوم کا تعلق مؤمن کامل سے ہے۔ کیونکہ بعض گناہگار مؤمن بھی آتش دوزخ کے عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے اس طرح وہ مؤمن جو اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے۔ حدیث کے مفہوم و مصداق سے خارج ہوجائیں گے۔

【64】

فقر وبیماری گناہوں کی بخشش کا ذریعہ

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ بزرگ و برتر فرماتے ہیں کہ قسم ہے اپنی عزت و بزرگی کی جس بندہ کو میں بخشنا چاہتا ہوں اسے میں دنیا سے اس وقت تک نہیں اٹھاؤں گا جب تک کہ اس کے بدن کو بیماری میں مبتلا کر کے اور اس کے رزق کی تنگی میں ڈال کر اس کے ہر گناہ کا بدلہ جو اس کے ذمہ ہو نہ دے لوں گا (رزین) تشریح اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس بندہ کو میں آخرت کی ابدی سعادت سے نوازنا چاہتا ہوں اس کے گناہوں کی سزا دنیا ہی میں بایں طور دے دیتا ہوں کہ کبھی تو اسے بیماری میں مبتلا کردیتا ہوں کبھی مال و رزق کی تنگی اس پر مسلط کردیتا ہوں۔ پس وہ بخشا جاتا ہے اور عذاب آخرت سے نجات پاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ فقر و بیماری اور بلا و مصیبت گناہوں کو دور کرتی ہے۔

【65】

ابن مسعود (رض) کا ایک واقعہ

حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ (جب) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیمار ہوئے (تو ہم لوگ آپ کی عیادت کو گئے، وہ ہمارے سامنے رونے لگے لوگوں نے (یہ گمان کر کے کہ وہ بیماری کی تکلیف اور اپنی زندگی کی محبت کی وجہ سے رو رہے ہیں) اس پر ناگواری کا اظہار کیا، حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ میں بیماری کی وجہ سے نہیں رو رہا ہوں کیونکہ میں نے تو خود رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بیماری گناہوں کے دور ہونے کا سبب ہے میں تو صرف اس لئے رو رہا ہوں کہ میں سستی (یعنی بڑھاپے) کی حالت میں بیماری میں مبتلا ہوا قوت (یعی جوانی) کی حالت میں بیماری میں مبتلا کیوں نہیں ہوا ؟ کیونکہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے تو اس کے ( ایام بیماری میں) وہی اعمال لکھے جاتے جو اس کے بیمار ہونے سے پہلے لکھے جاتے تھے اور اب بیماری نے اسے اس عمل سے باز رکھا ۔ (رزین) تشریح جوانی کے ایام میں بحالت صحت و تندرستی نیک عمل بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لئے اس بشارت کے مطابق کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حالت بیماری میں بیمار بندہ کے نامہ اعمال میں فرشتوں کو ان اعمال کا ثواب لکھنے کا حکم دیتا ہے جنہیں وہ حالت تندرستی میں کیا کرتا تھا اور اب بیماری کی وجہ سے نہیں کرسکتا۔ ایام جوانی کی بیماری میں بھی کم اعمال کا ثواب لکھا جاتا ہے اس لئے حضرت ابن مسعود (رض) یہی فرماتے ہیں کہ کاش میں ایام جوانی میں بیمار ہوتا تاکہ میرے نامہ اعمال میں زیادہ اعمال کا ثواب لکھا جاتا۔

【66】

عیادت کب کی جائے

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ تین دن کے بعد مریض کی عیادت کرتے تھے۔ (ابن ماجہ، بیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ بیمار ہونے کے تین دن بعد مریض کی عیادت کے لئے آپ تشریف لے جاتے تھے اس سلسلہ میں جہاں تک کہ مسئلہ کا تعلق ہے تو جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں عیادت کسی زمانہ کے ساتھ مقید نہیں ہے جب چاہے کرے خواہ پہلے کرے خواہ بعد میں۔ چناچہ بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے بلکہ بعض حضرات نے تو اسے حدیث موضوع تک قرار دیا ہے۔

【67】

مریض سے اپنے لئے دعا کراؤ

حضرت عمر فاروق (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم بیمار کے پاس جاؤ تو اس سے کہو کہ تمہارے لئے دعا کرے کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے ۔ (ابن ماجہ) تشریح مریض کی دعا کو فرشتوں کی دعا کے مانند قرار دیا گیا ہے کیونکہ بیمار کی تو ملائکہ کے ساتھ بہت مشابہت ہوتی ہے بایں طور کہ جس طرح فرشتے گناہوں سے پاک و صاف رہتے ہیں، ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہتے ہیں اور ہمہ وقت بارگاہ رب العزت میں دعا مناجات اور التجا کرتے رہتے ہیں، اسی طرح بیمار بھی گناہوں سے بچتا ہے، ہر وقت اللہ ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے اور ہمہ وقت دعا درازی اور التجا میں مصروف رہتا ہے۔

【68】

مریض کے پاس غل غپاڑہ نہ مچانا چاہئے

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ عیادت کے وقت مریض کے پاس کم بیٹھنا اور شور و غوغا نہ کرنا سنت ہے۔ نیز حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس وقت جب کہ صحابہ (رض) میں شور و غوغا اور اختلاف زیادہ ہوا تو فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو۔ (رزین) تشریح حضرت ابن عباس (رض) کے ارشاد سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ عیادت کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ مریض کے پاس عیادت کے وقت صرف اتنا عرصہ کے لئے بیٹھنا چاہئے جس میں بیمار کی مزاج پرسی اور اس کے حالات و کیفیات کا علم ہوجائے۔ گویا اس کے پاس خواہ مخواہ کے لئے زیادہ دیر تک بیٹھ کر بیمار کے مزاج پر بوجھ نہ بننا چاہئے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بیمار کے پاس بیٹھ کر غل غپارہ مچانا اور شور و غوغا کرنا مکروہ ہے۔ روایت کے دوسرے جزو کی تفصیل حضرت ابن عباس ہی کی روایت کی روشنی میں جو بخاروی و مسلم میں مروی ہے یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب مرض میں مبتلا ہوئے اور وصال کا وقت قریب آیا تو اس موقع پر جب کہ آپ کے پاس بہت زیادہ لوگ جمع تھے جن میں حضرت عمر (رض) بھی تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوات قلم لاؤ میں تمہارے لئے ایک وصیت نامہ لکھ دیتا ہوں تاکہ تم میرے بعد گمراہی میں مبتلا نہ ہو سکو ! (یہ سن کر حاضرین کو مخاطب کر کے) حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ (معلوم ہوتا ہے کہ) اس وقت آنحضرت ﷺ پر شدت مرض غالب ہے اسی لئے آپ ﷺ وصیت نامہ لکھنے کے لئے فرما رہے ہیں ورنہ تو وصیت نامہ کی کیا ضرورت ہے کیونکہ تمہارے پاس قرآن موجود ہے اور کتاب اللہ تمہارے لئے کافی ہے۔ اس کے بعد اہل بیت اور دوسرے لوگوں نے بھی اپنی اپنی بات کہنی شروع کردی کوئی تو کہتا تھا کہ قلم و دوات لا دینا چاہئے تاکہ آنحضرت ﷺ تمہارے لئے وصیت نامہ لکھ دیں بعض لوگ حضرت عمر (رض) کی تائید کر رہے تھے۔ غرض اس معاملہ میں جب بحث مباحثہ زیادہ بڑھا اور لوگوں کے اظہار رائے نے شور و غوغا کی صورت اختیار کرلی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم سب لوگ میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو۔ اس صورت واقعہ سے روافض یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اس وصیت نامہ میں خلافت کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے تھے (مثلاً یہ کہ میرے بعد خلیفہ اول علی (رض) ہوں) مگر حضرت عمر نے آپ کو اس سے روک دیا۔ علامہ ابن حجر (رح) نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ روافض کا یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کیونکہ اس واقعہ کی حقیقت تو یہ تھی کہ گویا آنحضرت ﷺ نے جب وصیت نامہ لکھنے کا رادہ فرمایا اور حاضرین میں اختلاف پیدا ہوا تو آنحضرت ﷺ کے دل میں یہ بات آئی کہ مصلحت یہی ہے کہ کوئی وصیت نامہ نہ لکھا جائے۔ چناچہ آپ نے حضرت عمر (رض) کے کہنے کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے اختیار سے صرف یہ کہ اس وقت وصیت نامہ نہیں لکھا بلکہ لکھنے کا ارادہ بھی ترک فرما دیا کیونکہ اگر آنحضرت ﷺ نے کسی چیز کے لکھنے کا مصمم ارادہ فرما لیا ہوتا تو حضرت عمر وغیرہ کی کیا مجال تھی کہ آپ ﷺ کے اس فیصلہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے، چناچہ آنحضرت ﷺ اس واقعہ کے بعد تین دن تک زندہ رہے اور ان ایام میں آپ ﷺ کے پاس حضرت عمر اور دوسرے صحابہ موجود نہیں تھے بلکہ اہل بیت مثلاً حضرت علی اور حضرت عباس (رض) وغیر ہما بارگاہ رسالت میں حاضر رہے اگر آپ اس موقع پر خلافت کے بارے میں کوئی وصیت نامہ لکھنے ہی میں مصلحت سمجھتے تو ضرور لکھتے۔ پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے خلافت کے بارے میں ایسا طریقہ اختیار فرمایا جس میں کسی شک و شبہ اور تاویل کی گنجائش ہی نہ رہی تھی آپ ﷺ نے اپنے آخری ایام میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو نماز میں لوگوں کا امام مقرر فرمایا۔ اسی وجہ سے حضرت علی (رض) نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے واسطے لوگوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر کو ہمارے دین کے لئے امام منتخب فرمایا یعنی نماز میں ہمارا امام مقرر فرما دیا تو کیا ہم انہیں اپنی دنیا کے لئے یعنی خلافت کے لئے منتخب نہ کریں ؟ آنحضرت ﷺ نے جب حضرت ابوبکر کو نماز میں لوگوں کا امام بننے کے لئے بلا بھیجا تو اس وقت میں آپ ﷺ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا اور آپ مجھے دیکھ رہے تھے (مگر آپ نے مجھے امام مقرر نہیں فرمایا) حضرت ابوبکر ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ کہ آیت (لایخافون لومۃ لائم) ۔ (یعنی یہ لوگ ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے) ۔ منقول ہے کہ ابوسفیان بن حرب نے (جب ایک موقع پر) حضرت علی (رض) سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں ابوبکر سے لڑائی کے لئے مدینہ کا میدان گھوڑوں اور پیادوں سے بھر دوں (تو حضرت علی) ابوسفیان کی اس بات سے بہت ناراض ہوئے اور انہیں ڈانٹا اور بہت برا بھلا کہا تاکہ نہ صرف ابوسفیان بلکہ دوسرے لوگ بھی جان لیں کہ ابوبکر کی خلافت منشاء نبوت کے مطابق ہونے کی وجہ سے اتنی مستحکم اور حقیقی ہے کہ اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ تو اس وقت آنحضرت ﷺ ہی نے حضرت علی (رض) کی خلافت کے بارے میں کچھ لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا اور نہ خود حضرت علی (رض) کے ذہن میں یہ بات تھی کہ میں حضرت ابوبکر (رض) سے مقدم ہوں اور خلافت میرا حق ہے کیونکہ حضرت علی اگر حضرت ابوبکر پر فضیلت رکھتے اور خلافت پہلے ان کا حق ہوتا تو آنحضرت ﷺ اس کی ضرور وصیت کرتے۔ چہ جائیکہ آپ ﷺ نے اس کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں فرمایا جب کہ حضرت ابوبکر کو نماز میں لوگوں کا امام مقرر فرما کر اس طرف کھلا ہوا اشارہ فرما دیا تھا کہ میرے بعد ابوبکر ہی خلیفہ ہونگے۔

【69】

عیادت کے وقت مریض کے پاس بہت کم بیٹھنا چاہئے

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عیادت کا افضل مرتبہ اونٹنی کے دو مرتبہ دوہنے کے درمیانی وقفہ کے بقدر ہے اور حضرت سعید بن مسیب کی روایت کے جو بطریق ارسال منقول ہے یہ الفاظ ہیں کہ بہترین عیادت وہی ہے جس میں عیادت کرنے والا جلد اٹھ کھڑا ہو ۔ (بیہقی) تشریح پہلی حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اونٹنی کا دودھ دو مرتبہ یا تین مرتبہ کر کے دوہتے ہیں جن کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ دودھ دوہا پھر ذرا رک گئے اور بچوں کو تھنوں سے لگا دیا تاکہ دودھ خوب اترے پھر اس کے بعد دودھ دوہنا شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح دونوں مرتبہ کا درمیانی وقفہ بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ لہٰذا عیادت کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے۔ جب کوئی کسی مریض کے پاس عیادت کے لئے جائے تو اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھے بلکہ دو مرتبہ دودھ دوہنے کے درمیانی وقفہ کے بقدر بیٹھے تاکہ مریض کو تکلیف نہ ہو۔ کتابوں میں ایک شخص کا واقعہ منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت سری سقطی (رح) کی عیادت کو گئے جب کہ وہ مرض الموت میں مبتلا تھے۔ ہم ان کے پاس بہت دیر تک بیٹھے رہے اس وقت ان کے پیٹ میں بہت درد ہو رہا تھا ہم نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے لئے دعا فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ ! ان لوگوں کو مریض کی عیادت کرنے کے آداب و طریقے سکھا ! گویا انہوں نے اس دعا سے اس طرف اشارہ فرمایا کہ مریض کے پاس جب عیادت کے لئے جائے تو زیادہ دیر تک نہ بیٹھے بلکہ تھوڑی دیر بیٹھ کر اور عیادت کر کے چلا آئے۔ ہاں اگر کوئی عیادت کرنے والا یہ جانے کہ بیمار پر اس کا زیادہ دیر تک بیٹھنا گراں نہیں گزر رہا ہے بلکہ دوست ہونے کی حیثیت سے یا برکت حاصل کرنے کی غرض سے اور یا خدمت دلداری کی وجہ سے مریض کی خواہش یہ ہے کہ وہ اس کے پاس زیادہ دیر تک بیٹھے تو اس صورت میں مریض کے پاس سے جلدی اٹھ کھڑا ہونا افضل نہیں ہوگا۔

【70】

مریض جو چیز مانگے کھلادینی چاہئے

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کی عیادت کی پھر اس سے پوچھا کہ کیا چیز کھانے کو تمہارا جی چاہتا ہے ؟ اس نے کہا کہ گیہوں کی روٹی کھانے کو میرا جی چاہتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس گیہوں کی روٹی ہو اسے چاہئے کہ وہ اپنے بھائی کو (یعنی اس مریض کے پاس) بھیج دے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی بیمار ہو اور کسی چیز کی خواہش کرے تو اسے وہ چیز کھلادینی چاہئے ۔ (ابن ماجہ) تشریح خواہش سے مراد خواہش صادق ہے اور وہ صحت کی نشانی ہوتی ہے۔ چناچہ بعض مریضوں کو اس چیز کا کھانا کہ جسے کھانے کے لئے مریض کا دل چاہتا ہو نقصان دہ نہیں ہوتا۔ بشرطیکہ وہ چیز مقدار میں تھوڑی ہو اور ایسی نہ ہو جس کے نقصان اور ضرر کا پہلو غالب ہو۔ لہٰذا حاصل کلام یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ حکم اذا اشتھی فلیطعمہ کلی اور عمومی طور پر نہیں ہے بلکہ جزئی اور انفرادی طور پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مریض کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرنا چاہئے کہ وہ جو بھی چیز مانگے خواہ وہ اس کے مرض کے لئے کتنی ہی نقصان دہ اور مضر کیوں نہ ہو اس دیدی جائے جبکہ بعض مخصوص حالات میں اگر کوئی مریض کسی ایسی چیز کے کھانے کی خواہش کرے جس میں نقصان اور ضرر کا پہلو غالب نہ ہو اور یہ کہ معالج اس کے خلاف نہ ہو تو وہ چیز مریض کو دے دینی چاہئے۔ علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حکم تو کل یا زندگی سے مایوسی پر مبنی ہے یعنی جس مریض کی زندگی کی امید باقی نہ رہی ہو اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ جو چیز مانگے اسے کھلا دینی چاہئے۔

【71】

حالت مسافرت کی موت کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کی وفات مدینہ میں ہوئی جو مدینہ ہی میں پیدا ہوا تھا چناچہ نبی کریم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر فرمایا ! کہ کاش ! یہ شخص اپنے پیدا ہونے کی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ مرا ہوتا ! صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ کیوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص اپنے وطن کے علاوہ کسی دوسری جگہ مرتا ہے تو اس کے وطن سے لیکن اس کے مرنے کے مقام تک کی جگہ اس کے لئے جنت میں پیمائش کی جاتی ہے۔ (نسائی، ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص وطن سے دور حالت سفر میں مرتا ہے تو اس کے وطن اور اس کے مرنے کی جگہ تک کے درمیان جتنی مسافت ہوتی ہے اس کے بقدر جگہ اس کو جنت میں ملتی ہے لین اس بارے میں صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ سفر سے مراد صرف طاعت یعنی جہاد وغیرہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اجر و انعام اس شخص کو ملتا ہے جو جہاد کے لئے یا دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یا اسی قسم کے دوسرے بامقصد و مطلوب کام کے لئے وطن سے دور مرا ہو۔

【72】

حالت مسافرت کی موت کی فضیلت

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حالت مسافرت کی موت شہادت ہے ۔ (ابن ماجہ)

【73】

حالت مسافرت کی موت کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص بحالت مرض مرتا ہے تو وہ شہید مرتا ہے اور قبر کے فتنوں سے بچایا جاتا ہے نیز (ہر صبح شام اسے جنت سے رزق دیا جاتا ہے ۔ (ابن ماجہ، بیہقی) تشریح مشکوۃ کے صحیح نسخوں میں لفظ مریضا ہی لکھا ہوا ہے لیکن بعض نسخوں میں تغیر کر کے مریضا کے بجائے لفظ غریبا لکھ دیا گیا ہے لیکن صحیح ابن ماجہ میں لفظ مرابطا منقول ہے۔ اسی لئے میرک (رح) نے مشکوۃ کے اپنے نسخہ کے حاشیہ میں یہ الفاظ صوابہ مرابطا (یعنی صحیح لفظ مرابطا ہی ہے) لکھ کر اس کے نیچے یہ لکھا ہے کہ کذا فی سنن ابن ماجہ فی باب ما جاء من مات مرابطا مات شہیدا۔ پھر یہ کہ لفظ مریضا کے بارے میں علماء نے تو لکھا ہے کہ مرض سے مراد عام مرض ہے جب کہ بعض حضرات نے خاص مرض جیسے استسقاء مراد لیا ہے۔ لیکن ملا علی قاری (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں ان قیود کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ یہاں راوی سے چوک ہوگئی ہے کیونکہ حدیث کے صحیح الفاظ من مات مرابطا ہیں نہ کہ من مات مریضاً ۔

【74】

طاعون کی موت شہید کی موت کی طرح ہے

حضرت عرباض بن ساریہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا شہداء اور وہ لوگ جو اپنے بچھونوں پر (یعنی اپنے گھروں میں) مرے ہیں (اور حقیقی شہید نہیں ہوئے ہیں) اپنے پروردگار بزرگ برتر کے سامنے ان لوگوں کے بارے میں جو طاعون زدہ ہو کر مرے ہیں، جھگڑا کریں گے چناچہ شہداء تو یہ کہیں گے کہ ( یہ لوگ طاعون زدہ ہو کر مرے ہیں) ہمارے بھائی ہیں (یعنی ہماری طرح ہیں) (یعنی ہمارے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں لہٰذا انہیں ہمارا ہم مرتبہ ہونا چاہئے) کیونکہ جس طرح ہم قتل کئے گے تھے اسی طرح یہ بھی قتل کئے گئے تھے۔ اور جو لوگ اپنے بچھوں پر مرے ہیں کہیں گے کہ ہمارے بھائی ہیں (یعنی ہماری طرح ہیں) کیونکہ یہ لوگ اسی طرح بچھونوں پر مرے ہیں جس طرح کہ ہم مرے ہیں۔ پس ہمارا پروردگار فرمائے گا کہ ان کے زخموں کو دیکھا جائے اگر ان کے زخم شہدا کے زخم کی مانند ہیں تو یہ شہداء میں سے ہیں (یعنی باعتبار ثواب کے شہداء کے ہم پلہ ہیں اور حشر و نشر میں) ان کے ساتھ ہیں۔ چناچہ جب دیکھا جائے گا تو ان کے زخم شہداء کے زخم کے مشابہ ہوں گے ۔ (احمد، نسائی) تشریح بارگاہ رب العزت میں طاعون میں مرنے والوں کے بارے میں شہداء کی اس دلیل کہ جس طرح ہم قتل کئے گئے اسی طرح یہ بھی قتل کئے گئے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم دشمنان دین اور کفار کے ہاتھوں زخمی ہو کر مرے ہیں اسی طرح یہ بھی جنات کے ہاتھوں زخمی ہو کر مرے ہیں۔ کیونکہ علماء نے لکھا ہے کہ بسا اوقات طاعون زدہ کو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے اسے کوئی نیزے مار رہا ہو اسی لئے اس مرض کو طاعون کا نام دیا گیا ہے جو طعن سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں نیزہ مارنا ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص طاعون میں مبتلا ہو کر مرے گا وہ شہیدوں میں سے ہے اس لئے قیامت کے روز وہ ان کے ساتھ ہوگا۔

【75】

طاعون سے بھاگنے کی مذمت اور اس پر صبر کرنے کی فضیلت

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا طاعون کی بیماری سے (یعنی جہاں یہ وبا پھیلی ہو وہاں) بھاگنے والا جہاد میں کفار کے مقابلہ سے بھاگنے والے کی طرح ہے اور طاعون میں صبر کرنے والے کو شہید کا ثواب ملتا ہے ۔ (احمد) تشریح طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ مشابہت گناہ کبیرہ کے اعتبار سے ہے یعنی جس طرح کفار کے مقابلہ سے بھاگنے والا گناہ کبیرہ میں مبتلا ہوتا ہے اسی طرح طاعون سے بھاگنے والے کو بھی گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔ اور یہ اعتقاد رکھتے ہوئے طاعون زدہ علاقہ سے بھاگنا کہ اگر میں یہاں سے بھاگ جاؤں گا تو سلامت رہوں گا اگر نہ بھاگا تو مرجاؤں گا۔ کفر ہے۔ بظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طاعون میں صبر کرنے والے کو شہید کا ثواب ملتا ہے اگرچہ اس کی موت نہ ہو۔