26. میت کو نہلانے اور کفنانے کا بیان

【1】

میت کو نہلانے اور کفنانے کا بیان

اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے مردہ کو نہلانے اور کفنانے کے احکام و مسائل اور آداب کا علم ہوگا۔ تمام علماء کے نزدیک میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے یعنی اگر کچھ لوگ نہلا دیں گے تو سب کے ذمہ سے فرض ادا ہوجائے گا اور اگر کوئی بھی شخص میت کو نہ نہلائے تو سب کے سب گنہ گار ہوں گے۔ اس بارے میں علماء کے یہاں اختلاف ہے کہ غسل میت میں نیت شرط ہے یا نہیں ؟ چناچہ بعض حضرات کے نزدیک شرط ہے اور بعض کے نزدیک شرط نہیں ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ نیت شرط ہے جیسا کہ حضرت شیخ ابن ہمام (رح) کا قول ہے۔

【2】

غسل میت

حضرت ام عطیہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس رسول کریم ﷺ تشریف لائے جب کہ ہم آپ کی بیٹی (حضرت زینب (رض) کو نہلا رہے تھے آپ نے فرمایا تم تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ اور اگر مناسب سمجھو (یعنی ضرورت ہو تو اس سے بھی زیادہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے (یعنی بیری کے پانی میں جوش دے کر اس پانی سے نہلاؤ (کیونکہ بیری کے پتوں کے جوش دئیے ہوئے پانی سے بہت زیادہ پاکی اور صفائی حاصل ہوتی ہے) اور آخری مرتبہ میں کافور یا یہ فرمایا کہ کافور کا کچھ حصہ (پانی میں) ڈال دینا۔ اور جب تم (نہلانے سے) فارغ ہوجاؤ تو مجھے خبر دینا، چناچہ جب ہم فارغ ہوگئے تو آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی گئی، آپ نے اپنا تہ بند ہماری طرف بڑھا دیا اور فرمایا کہ اس تہ بند کو اس کے بدن سے لگا دو (یعنی اس تہ بند کو اس طرف کفن کے نیچے رکھ دو کہ وہ زینب کے بدن سے لگا رہے) اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسے طاق یعنی تین بار یا پانچ بار یا سات بار غسل دو اور غسل اس کی دائیں طرف سے اور اس کے اعضاء وضو سے شروع کرو۔ حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ ہم نے ان کے بالوں کی تین چوٹیاں گوندھ کر ان کے پیچھے ڈال دیں۔ (صحیح بخاری و مسلم) تشریح حدیث کے الفاظ اغسلنہا ثلاثا او خمسا او اکثر من ذالک اور اغسلنہا وترا ثلاثا او خمسا او سبعا میں حرف او ترتیب کے لئے ہے تخییر کے لئے نہیں ہے کیونکہ اگر پہلے غسل میں پاکی حاصل ہوجائے تو تین مرتبہ نہلانا مستحب ہے اور اس سے تجاوز کرنا مکروہ ہے اور اگر پاکی دو بار یا تین بار میں حاصل ہو تو پھر پانچ مرتبہ نہلانا مستحب ہے یا زیادہ سے زیادہ سات مرتبہ، سات مرتبہ سے زیادہ نہلانا منقول نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ نہلانا مکروہ ہے۔ بیری کے پتوں اور کافور کے پانی سے غسل میت میت کو بیری کے پتوں اور کافور کے پانی سے نہلانا چاہئے اس سلسلہ میں ضابطہ یہ ہے کہ دو دو مرتبہ تو بیری کے پتوں کے پانی سے نہلایا جائے جیسا کہ کتاب ہدایہ سے معلوم ہوتا ہے نیز ابوداؤد کی روایت ہے کہ ابن سیرین (رح) نے حضرت ام عطیہ (رض) سے غسل میت سیکھا تھا۔ وہ بیری کے پتوں کے پانی سے دو مرتبہ غسل دیتی تھیں۔ اور تیسری مرتبہ کافور کے پانی سے غسل دیا جائے۔ کافور پانی میں ملایا جائے یا خوشبو میں ؟ شیخ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ کافور اس پانی میں ملایا جائے جس سے میت کو نہلایا جا رہا ہو چناچہ جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے، جب کہ کوئی کہتے ہیں کہ کافور حنوط میں یعنی اس خوشبو میں ملایا جائے جس سے میت کو معطر کیا جا رہا ہو اور میت کے نہلانے اور اس کے بدن کو خشک کرنے کے بعد بدن پر لگایا جائے نیز علماء نے لکھا ہے کہ اگر کافور میسر نہ ہو تو پھر مشک اس کا قائم مقام قرار دیا جاتا ہے۔ بیری کے پتوں اور کافور کی خاصیت علماء لکھتے ہیں کہ بیری کے پتوں اور کافور کے پانی سے میت کو غسل دینے اور میت کے بدن پر کافور ملنے کی وجہ یہ ہے کہ بیری کے پتوں سے تو بدن کا میل اچھی طرح صاف ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے مردہ جلدی بگڑتا نہیں نیز بیری کے پتوں اور کافور کے استعمال کی وجہ سے موذی جانور پاس نہیں آتے۔ حصول برکت کے لئے بزرگوں کا کوئی کپڑا کفن میں شامل کیا جاسکتا ہے آنحضرت ﷺ نے اپنا تہ بند صاحبزادی کے کفن کے ساتھ لگانے کے لئے اس لئے عنایت فرمایا تاکہ اس کی برکت اسے پہنچے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح کوئی شخص اہل اللہ اور بزرگان دین سے اس کے لباس کا کوئی کپڑا موت سے پہلے حاصل کر کے اپنے پاس برکت کے لئے رکھتا ہے یا اسے استعمال کرتا ہے اس طرح موت کے بعد بزرگوں کے لباس سے برکت حاصل کرنا مستحب ہے بایں طور کہ ان کا کوئی کپڑا لے کر کفن میں شامل کردیا جائے لیکن اس سلسلہ میں یہ امر ملحوظ رہے کہ وہ کپڑا کفن کے کپڑوں سے زیادہ نہ ہو۔ ابدان بمیا منہا کا مطلب یہ ہے کہ میت کو اس کے دائیں ہاتھ دائیں پہلو اور دائیں پاؤں کی طرف سے نہلانا شروع کرو اسی طرح مواضع الوضو منہا میں حر واو مطلق جمع کے لئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غسل میت میں پہلے اعضاء وضو دھونے چاہئیں اس کے بعد دوسرے اعضاء دھوئے جائیں اور اعضاء وضو سے مراد وہ اعضاء ہیں کہ جن کا دھونا فرض ہے۔ چناچہ غسل میت میں کلی اور ناک میں پانی دینا حنفیہ کے نزدیک مشروع نہیں بعض علماء نے اس بات کو مستحب کہا ہے کہ میت کو نہلانے والا اپنی انگلیوں پر کپڑا لپیٹ لے اور اس سے میت کے دانتوں کو، تالو، کو اندر سے دونوں کلوں کو اور نتھنوں کو ملے، چناچہ اب یہی معمول بہ ہے۔ صحیح یہ ہے کہ غسل کے وقت میت کے سر پر مسح کیا جائے اور اس کے پاؤں غسل کے بعد نہ دھوئے جائیں بلکہ جب دوسرے اعضاء وضو دھوئے جاتے ہیں تو اسی وقت پیروں کو بھی دھویا جائے۔ نیز میت کے ہاتھ پہلے نہ دھوئے جائیں بلکہ غسل کی ابتداء منہ دھونے سے کرنی چاہئے بخلاف جنبی (ناپاک شخص) کے کہ وہ جب غسل کرتا ہے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ اس لئے دھوتا ہے تاکہ دوسرے اعضاء دھونے کے لئے دونوں ہاتھ پاک ہوجائیں جب کہ میت دوسروں کے ہاتھوں نہلائی جاتی ہے اس لئے اس کے دونوں ہاتھوں کو دھلانے کی حاجت نہیں ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ اگر عورت کی میت ہو تو غسل کے بعد اس کے بال کھلے ہی رہنے دئیے جائیں انہیں گودھا نہ جائے۔

【3】

آنحضرت ﷺ کا کفن

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ تین کپڑوں میں کفنائے گئے تھے جو سفید یمنی اور سحول کی بنی ہوئی روئی کے تھے، نہ ان میں (سیا ہوا) کرتہ تھا نہ پگڑی تھی۔ (بخاری و مسلم) تشریح لیس فیہا قمیص ولا عمامۃ (نہ ان میں کرتہ تھا اور نہ پگڑی تھی) کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے کفن میں ان کپڑوں کے علاوہ کرتہ اور عمامہ بالکل نہ تھا۔ بعض حضرات نے اس جملہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ کرتہ اور عمامہ ان تین کپڑوں میں نہیں تھا بلکہ کرتہ اور عمامہ ان تین کپڑوں کے علاوہ تھا۔ اس صورت میں آنحضرت ﷺ کے کفن میں پانچ کپڑوں کا ہونا لازم آئے گا۔ حالانکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے کفن میں تین کپڑے تھے لہٰذا اس جملہ کا یہی مطلب صحیح ہے کہ آپ ﷺ کے کفن میں کرتہ و عمامہ بالکل نہیں تھا صرف تین کپڑے تھے۔ اس جملہ کے پیش نظر علماء کے مسلک میں بھی یہ اختلاف واقع ہوا ہے کہ آیا یہ مستحب ہے کہ کفن میں کرتہ اور عمامہ ہو یا نہ ہو ؟ چناچہ حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ کفن میں تین لفافہ ہوں (یعنی صرف تین چادریں ہوں جن میں میت کو لپیٹا جاسکے) اور ان میں کرتہ و عمامہ نہ ہو۔ جب کہ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ کفن میں تین کپڑے ہونے چاہئیں (١) ازار یعنی لنگی (٢) قمیص یعنی کفن (٣) لفافہ یعنی پوٹ کی چادر۔ لہٰذا حدیث میں قمیص کی جو نفی فرمائی گئی ہے اس کی تاویل حنفیہ یہ کرتے ہیں کہ سیا ہوا قمیص نہیں تھا بلکہ بغیر سیا ہوا قمیص تھا جس کو کفنی کہا جاتا ہے۔ سحولیہ سحول کی طرف منسوب ہے اور سحول یمن کی ایک بستی کا نام ہے۔

【4】

کفن اچھا دینا چاہئے

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفنائے تو اسے چاہئے کہ وہ اچھا کفن دے (مسلم) تشریح ابن عدی کی روایت ہے کہ اپنے مردوں کو اچھا کفن دو اس لئے کہ وہ مردے اپنی قبروں میں آپس میں (ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں) بہرحال اچھے کفن سے مراد یہ ہے کہ کفن کا کپڑا پورا ہو اور بغیر کسی اسراف کے لطیف و پاکیزہ ہو اور سفید ہو خواہ دھلا ہوا ہو یا نیا ہو۔ اچھے کفن سے وہ اعلیٰ و قیمتی کپڑوں کے کفن مراد نہیں ہیں جو بعض جاہل دنیا دار از راہ ناموری اور تکبر کے استعمال کرتے ہیں بلکہ ایسا کفن سخت حرام ہے۔ علامہ تورپشتی (رح) فرماتے ہیں کہ اسراف کرنے والوں نے یہ جو طریقہ اختیار کیا ہوا ہے کہ بہت زیادہ قیمتی کپڑے کفن میں دیتے ہیں یہ شرعی اعتبار سے ممنوع ہے کیونکہ اس سے مال کا خواہ مخواہ ضائع ہونا لازم آتا ہے۔

【5】

محرم کے کفن کا مسئلہ

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص (سفر حج کے دوران) آنحضرت ﷺ کے ہمراہ تھا، اس کی اونٹنی نے (اس کو گرا دیا اور) اس کی گردن توڑ دی، وہ شخص محرم (یعنی حج کی نیت سے اور احرام باندھے ہوئے) تھا اسی حال میں وہ مرگیا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے نہلاؤ اسے اسی کے دونوں کپڑوں میں کفناؤ اور نہ اسے خوشبو لگاؤ نہ اس کا سر ڈھانکو کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص حالت احرام میں انتقال کر جائے تو اسے اسی کے لباس میں کہ جسے وہ بطور احرام استعمال کرتا تھا کفنا دیا جائے اور اس پر خوشبو نہ لگائی جائے۔ چناچہ حضرت امام شافعی اور امام احمد کا یہی مسلک ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کے نزدیک کفن کے بارے میں محرم اور غیر محرم دونوں برابر ہیں۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اسی کے دونوں کپڑوں میں کہ جسے وہ بطور محرم کے استعمال کرتا تھا کفنانے کا حکم دیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس ان دونوں کپڑوں کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہ تھا کہ اسے علیحدہ سے پورا کفن دیا جاتا اسی طرح آپ ﷺ نے اس کے سر کو ڈھانکنے سے جو منع فرمایا تو یہ ممانعت بھی صرف اس شخص کے لئے تھی عام طور پر سب کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ و سنذکر حدیث خباب قتل مصعب بن عمیر فی باب جامع المناقب انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور خباب کی وہ حدیث کہ جس کی ابتداء یہ ہے قتل مصعب بن عمیر ہم انشاء اللہ باب جامع المناقب میں نقل کریں گے۔

【6】

کفن کے لئے سفید کپڑا بہتر ہے

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم سفید کپڑے پہنو اس لئے کہ تمہارے لئے وہ بہترین کپڑے ہیں اور اپنے مردوں کو سفید کپڑوں میں کفناؤ، نیز تمہارے لئے بہترین سرمہ اثمد ہے کیونکہ وہ تمہاری پلکوں کے بال اگاتا ہے اور آنکھ کی بینائی کو بڑھاتا ہے ابوداؤد ترمذی نے اس روایت کو لفظ موتاکم تک نقل کیا ہے۔ تشریح مردوں کو سفید کپڑے میں کفنانے کا حکم استحباب کے طور پر ہے چناچہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ کفن کا کپڑا اگر سفید ہو تو اولی بہتر ہے ورنہ تو مردوں کے کفن کے لئے برد (یعنی دھاری دار کپڑا) اور کتان کے کپڑے اور عورتوں کے کفن کے لئے ریشمی، زعفرانی اور سرخ رنگ کے کپڑے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ مرد ہو یا عورت اس کے لئے اس کی زندگی میں جن کپڑوں کا استعمال جائز ہے مرنے کے بعد انہیں کپڑوں کا کفن دینا بھی جائز ہے۔ اثمد اسی سرمہ کو کہتے ہیں جو عام طور پر ہمارے یہاں استعمال ہوتا ہے، اس سرمہ کے استعمال کے بارے میں یہ افضل ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اتباع کے پیش نظر اسے سوتے وقت لگایا جائے پھر یہ کہ سوتے وقت سرمہ لگانا اپنے فوائد کے اعتبار سے بہت زیادہ تاثیر رکھتا ہے۔

【7】

قیمتی کپڑے کے کفن کی ممانعت

حضرت علی (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کفن میں زیادہ قیمتی کپڑا نہ لگاؤ اس لئے کہ وہ بہت جلد چھین لیا جاتا ہے ( ابوداؤد) تشریح جلد چھین لیا جاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جلد ہی خراب اور پرانا ہوجاتا ہے پھر کیا ضرورت ہے کہ نفیس اور زیادہ قیمت کا کپڑا کفن میں لگایا جائے غرض کہ حدیث کا حاصل کفن کے بارے میں اسراف کرنے سے منع کرنا ہے اسی لئے علماء لکھتے ہیں کہ کفن میں اوسط درجہ کا کپڑا لگانا مستحب ہے۔

【8】

قیامت میں مردہ کس حال میں اٹھے گا؟

حضرت ابوسعید خدری (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے نئے کپڑے منگوائے اور انہیں زیب تن کیا پھر فرمایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مردہ انہیں کپڑوں میں اٹھایا جاتا ہے جن میں وہ مرتا ہے۔ ( ابوداؤد ) تشریح حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت ابوسعید (رض) نے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی پر عمل کرنے کے لئے نئے کپڑے منگوائے اور انہیں زیب تن کیا۔ بظاہر حدیث کی مراد یہ ہوئی کہ قیامت میں جب مردوں کو دوبارہ زندگی بخشی جائے گی اور وہ اٹھ کر میدان حشر میں آئیں گے تو اس وقت ان کے بدن پر کپڑا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہی مفہوم حدیث کا مراد ہے تو مسئلہ بڑا نازک ہوجاتا ہے کیونکہ صحیح حدیث کے ذریعہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ قیامت کے روز لوگ ننگے بدن اور ننگے پاؤں اٹھیں گے۔ اس لئے علماء نے اس حدیث کے معنی یہ لکھے ہیں کہ حدیث میں کپڑوں سے مراد وہ اعمال ہیں جن پر زندگی ختم ہوتی ہے چناچہ ایسا ہوتا ہے کہ اہل عرب کبھی کبھی لفظ ثیاب (یعنی کپڑے) بولتے ہیں اور اس سے اعمال مراد لیتے ہیں۔ کیونکہ جس طرح کپڑے بدن سے لگے رہتے ہیں اسی طرح اعمال بھی بدن سے متعلق ہوتے ہیں یہی وجہ کہ آیت کریمہ (وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ) 74 ۔ المدثر 4) کی تاویل بعض مفسرین نے یہ کی ہے کہ اپنے اعمال صحیح کرو۔ حضرت ابوسعید نے اس وقت جب کہ وہ دنیا سے رخصت ہو رہے تھے محض صفائی و ستھرائی اور پاکیزگی کے لئے نئے کپڑے زیب تن کئے۔ اتفاقاً یہ حدیث بھی ان کے ذہن میں آگئی جسے انہوں نے بیان کیا نہ یہ کہ حضرت ابوسعید نے اس نئے کپڑے پہننے کی دلیل کے طور پر یہ حدیث بیان کی تھی۔ اس ارشاد گرامی کی مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جن کپڑوں میں موت واقع ہوگی وہ اپنی قبر سے تو انہیں کپڑوں میں اٹھے گا میدان حشر میں برہنہ حالت میں پہنچے گا۔

【9】

بہترین کفن کونسا ہے؟

حضرت عبادہ بن صامت (رض) رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا بہترین کفن حلہ ہے اور بہترین قربانی سینگوں والا دنبہ ہے۔ ترمذی نے اور ابن ماجہ نے یہ روایت حضرت ابوامامہ سے نقل کی ہے ( ابوداؤد ) تشریح حلہ سے چادر، لنگی اور اس کے نیچے کی قمیص یعنی کفنی مراد ہے، کفن میں یہ تینوں کپڑے مسنون ہیں یا پھر یہ کہ حلہ سے مراد قمیص (کفنی) کے علاوہ صرف چادر اور لنگی ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ کفن میں ایک کپڑے پر اکتفاء نہ کیا جائے گا بلکہ کم سے کم دو کپڑے ہونے بہتر ہیں کیونکہ یہ کفن کفایہ اور ادنیٰ درجہ ہے اور اگر کفن میں تین کپڑے یعنی چادر، لنگی اور اس کے ساتھ قمیص بھی دیں تو یہ سنت اور درجہ کمال ہے۔ سینگوں والا دنبہ چونکہ اکثر فربہ اور قیمتی ہوتا ہے اس لئے اس کی قربانی کو بہتر فرمایا گیا ہے۔

【10】

شہداء کو انہیں کپڑوں میں دفن کیا جائے جن میں وہ شہید ہوئے ہوں

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جنگ احد کے شہداء کے بارے میں فرمایا کہ ان کے لوہے (ہتھیار، زرہیں) اور چمڑے (کی پوستیں وغیرہ یعنی وہ اشیاء جو خون آلود نہیں ہیں) ان کے بدن سے اتار لی جائیں پھر انہیں ان کے (خون آلودہ) کپڑوں اور خون سمیت دفن کردیا جائے ۔ ( ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک میں شہید کے لئے نہ غسل ہے اور نہ نماز جنازہ ہے جب کہ حضرت امام اعطم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک شہداء کے لئے غسل تو نہیں ہے مگر نماز جنازہ ہے۔

【11】

حضرت مصعب اور حضرت امیر حمزہ (رض) کا کفن

حضرت سعد بن ابراہیم اپنے والد مکرم (حضرت ابراہیم) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کے پاس جب کہ وہ روزہ سے تھے (افطار کے لئے) کھانا لایا گیا، انہوں نے فرمایا کہ حضرت مصعب بن عمیر جو شہید کر دئیے گئے تھے مجھ سے بہتر تھے مگر وہ صرف ایک چادر میں کفنائے گئے تھے۔ (جو اس قدر چھوٹی تھی) کہ اگر ان کا سر ڈھانکا جاتا تھا تو ان کے پاؤں کھل جاتے تھے اور اگر ان کے پاؤں ڈھانک دئیے جاتے تھے تو ان کا سر کھل جاتا تھا آخر کار ان کا سر تو اس چادر سے ڈھک دیا گی اور پیروں پر اذخر ڈال دی گئی جیسا کہ باب جامع المناقب کی حدیث میں یہ تفصیل ہے حضرت ابراہیم حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے یہ بھی فرمایا حضرت حمزہ جو شہید کر دئیے گئے تھے مجھ سے بہتر تھے اور ان کو بھی ایسا ہی کفن نصیب ہوا جیسا کہ حضرت مصعب بن عمیر کو اور جب مسلمانوں کی تنگدستی و پریشانی کا یہ دور اللہ کے فضل سے ختم ہوا تو پھر ہمارے لئے دنیا اس قدر فراخ کی گئی کہ جو ظاہر ہے یا یہ فرمایا کہ دنیا ہمیں اس قدر دی گئی جتنی کہ دی گئی ہے۔ ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا صلہ ہمیں جلد ہی (یعنی دنیا ہی میں) نہ مل گیا ہو، پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف (اسی خوف کی وجہ سے) رونے لگے یہاں تک کہ انہوں نے کھانا چھوڑ دیا۔ (بخاری) تشریح حضرت عبدالرحمن بن عوف بڑے باعظمت صحابی ہیں اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، اسی طرح حضرت مصعب ابن عمیر بھی جلیل القدر اور ذی شان و باعظمت صحابہ میں سے ہیں، جنگ بدر میں شریک ہوئے ہیں اور جنگ احد میں شہید ہوئے۔ حضرت مصعب بن عمیر اسلام قبول کرنے سے پہلے بڑے مالدار تھے مگر جب ایمان و اسلام کی مقدس شعاعوں نے قلب و دماغ کو منور کیا اور غلامان رسالت میں شامل ہوئے تو مال و دولت سے منہ موڑ کر زہد و فقر کی زندگی اختیار کی منقول ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں اس حال میں حاضر ہوئے کہ کمر میں تسمہ بندھا ہوا تھا، آپ نے انہیں دیکھ کر صحابہ سے فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو اللہ تعالیٰ نے ایمان کی روشنی سے اس کا دل منور کردیا ہے۔ میں نے اسے مکہ میں اس حال میں دیکھا ہے کہ اس کے ماں باپ اسے اچھا سے اچھا کھانا کھلاتے تھے اور میں دیکھتا تھا کہ اس کے جسم پر دو سو درہم کا لباس ہوتا تھا۔ مگر اب اس شخص نے اللہ اور رسول ﷺ کی محبت میں اپنے آپ کو اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب آنحضرت ﷺ کے محترم چچا ہیں۔ اہل بدر میں سے تھے اور جنگ احد میں شہد ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں سیدالشہداء فرمایا ہے۔ حضرت عبدالرحمن کے قول ولقد خشینا الخ ہمیں اس بات کا خوف ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی نعمتوں نے جس فراخی سے اپنی آغوش ہمارے لئے کھول دی ہے اس کی وجہ سے ہم ڈرتے ہیں کہیں ہم بھی ان لوگوں میں داخل نہ ہوجائیں جن کے بارے میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ آیت (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّ لْنَا لَه فِيْهَا مَا نَشَا ءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَه جَهَنَّمَ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا) 17 ۔ الاسراء 18) ۔ جو شخص دنیا (کی نعمتوں کے حصول) کا ارادہ کرتا ہے تو ہم ایسے شخص کو دنیا میں جو چیز چاہتے ہیں اور جس کے واسطے چاہتے ہیں جلدی ہی دیدیتے ہیں پھر ہم اس کے لئے جہنم تجویز کرتے ہیں جس میں وہ بدحال اور راندہ درگارہ ہو کر داخل ہوگا۔ چونکہ حضرت عبدالرحمن بن عوف پر خوف الٰہی غالب اور ان کا دل خشیت الٰہی سے لرزاں تھا اس لئے انہیں خیال ہوا کہ مبادا میں ان لوگوں میں داخل ہوجاؤں جن کے بارے میں حق تعالیٰ یہ سخت وعید بیان فرما رہے ہیں ورنہ تو ظاہر ہے کہ آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو شخص صرف دنیا اور محض دنیا کی نعمتوں کا خواہش مند و طلب گار ہوتا ہے اور دنیا و دنیا کی نعمتوں کے علاوہ اس کے خواہش و طلب کا محور اور کوئی چیز نہیں ہوتی تو ہم دنیا میں اسے اپنے انعام سے نواز دیتے ہیں لیکن ہم اسے وہی دیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں نہ یہ کہ جو کچھ اس کی خواہش ہوتی ہے اسی طرح ہم اس شخص کو دنیا کی نعمتیں دیتے ہیں جسے ہم دینا چاہتے ہیں نہ یہ کہ ہر خواہش مند و طلب گار کو ہم دنیا کی نعمتیں دیتے ہیں حاصل یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں ان لوگوں کے بارے میں وعید بیان کی گئی ہے جو صرف دنیا کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حضرت عبدالرحمن ان لوگوں میں سے نہیں تھے مگر ان پر چونکہ خوف اللہ غالب تھا اس لئے ڈرے کہ دنیا کی اس آسائش و فراخی کی وجہ سے کہیں ہمارا شمار بھی انہیں لوگوں میں نہ ہوجائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف پر خوف الٰہی اور خشیت الٰہی کے غلبہ ہی کا یہ اثر تھا کہ روزہ دار ہونے کی وجہ سے باوجود شدید احتیاج اور ضرورت کے انہوں نے کھانا تک چھوڑ دیا اور کچھ کھایا نہیں کیونکہ جب کسی کا قلب خوف الٰہی سے لرزاں ہوتا ہے تو وہ کسی بھی دنیاوی و جسمانی خواہش و لذت کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بوقت ضرورت جس قدر بھی کفن میسر آجائے وہی مسنون ہے۔

【12】

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے ساتھ اس کے انتقال کے بعد آنحضرت ﷺ کا معاملہ

حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ عبداللہ بن ابی کے پاس اس وقت تشریف لائے جب کہ وہ اپنی قبر میں اتارا جا چکا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے (اس کی قبر) سے نکالنے کا حکم فرمایا جب وہ نکالا گیا تو آپ ﷺ نے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اپنا مبارک لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اسے اپنا کرتہ پہنایا حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی نے حضرت عباس کو اپنا کرتہ پہنایا تھا (بخاری ومسلم) تشریح عبداللہ بن ابی اسلامی تاریخ کا ایک جانا پہچانا شخص ہے، جب نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ فروکش ہوئے اور اس طرح اسلامی دعوت و تبلیغ کا مرکز مکہ سے مدینہ منورہ منتقل ہوا تو اسلام کی دعوت توحید و رسال کے نتیجہ میں تین جماعتیں سامنے آئیں، ایک جماعت تو ان باسعادت و مقدس اور عظیم انسانوں پر مشتمل تھی جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا، خلوص اور صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور آنحضرت ﷺ کی رسالت پر ایمان لائے اور نبوت کے بعد نسل انسانی کے سب سے عظیم و باسعات مرتبہ صحابیت سے نوازے گئے۔ دوسری جماعت پہلی کے بالکل برعکس ان بدبخت وسیہ کار لوگوں پر مشتمل تھی جنہوں نے علی الاعلان آنحضرت ﷺ کی مخالفت کی اور جس کے نتیجہ میں نسل انسانی کے سب سے ذلیل و کمتر درجہ کفر و شرک پر قائم رہے۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان ایک تیسری جماعت تھی یہ تیسری جماعت ان خود غرض و مفاد پرست لوگوں پر مشتمل تھی جو اپنی اغراض و مقاصد کے تحت بظاہر تو مسلمان ہوگئے تھے اور مسلمانوں کو دکھانے کے لئے ان کے ہمنوا بھی ہوتے تھے مگر اندرونی طور پر ان کی ساری سرگرمیوں کا مرکز دعوت اسلامی کی مخالفت اور مسلمانوں کی بیخ کنی کا جذبہ ہوتا تھا۔ یہی وہ جماعت تھی جو انسانیت کی ارذل ترین اور قابل نفرین خصلت نفاق سے بھر پور تھی اور اسلامی تاریخ میں یہی جماعت منافقین کے نام سے یاد کی گئی۔ عبداللہ بن ابی اسی جماعت کا سربراہ اور سردار تھا۔ حضرت عباس (رض) (آنحضرت ﷺ کے عم محترم) اگرچہ غزوہ بدر سے بہت پہلے ہی اسلام قبول کرچکے تھے مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کیا تھا، چناچہ جب جنگ بدر ہوئی تو یہ کفار مکہ کی طرف سے بدر میں مجبورا شریک ہوئے۔ مگر آنحضرت ﷺ کو چونکہ یہ معلوم تھا کہ یہ مسلمان ہوچکے ہیں اس لئے آپ ﷺ نے مسلمانوں کو آگاہ فرما دیا تھا کہ جنگ میں ان پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ بہر حال جب جنگ ختم ہوئی اور حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب فرمایا تو اسلامی لشکر کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد کو میدان جنگ سے اسیر بنا کر مدینہ لایا۔ انہیں قیدیوں میں حضرت عباس (رض) بھی تھے، حضرت عباس جب مدینہ لائے گئے تو ان کے بدن پر کپڑا نہیں تھا اور چونکہ وہ دراز قد تھے اس لئے کسی مسلمان کا لباس ان کے جسم پر نہیں آیا، اتفاق سے عبداللہ بن ابی بھی دراز قد تھا اس نے اپنا کرتہ حضرت عباس کے لئے پیش کیا جسے بدرجہ مجبوری قبول کرلیا گیا اس طرح حضرت عباس نے عبداللہ بن ابی کا کرتہ پہنا۔ چناچہ جب عبداللہ بن ابی مرا تو آنحضرت ﷺ نے اس کے کرتہ کا بدلہ اتارنے کے لئے اپنا کرتہ اس کو پہنا دیا تاکہ آپ ﷺ پر ایک منافق کا احسان باقی نہ رہے۔ اس موقعہ پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے آیت (ولا تصلی علی احد منہم مات ابدا ولا تقم علیٰ قبرہ) ۔ منافقین میں سے جو مرجائے اس کے لئے (مغفرت و بخشش کی) کبھی دعا نہ کیجئے اور نہ ہی اس کی قبر پر جائیے۔ مگر اس کے باوجود آنحضرت ﷺ عبداللہ بن ابی کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کو اپنا کرتہ پہنایا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا ؟ علماء نے اس اشکال کے بہت سارے جواب دئیے ہیں جو پوری تفصیل کے ساتھ دوسری شروح میں مذکور ہیں یہاں تو صرف یہ جواب نقل کردینا کافی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ مذکورہ بالا آیت نازل نہیں ہوئی تھی، پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ کا مقصد صرف اس کے ایک احسان کا بدلہ اتارنا تھا جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا، نیز عبداللہ بن ابی کا لڑکا چونکہ مخلص و صادق مومن تھا اور وہ نفاق سے پاک تھا اس لئے اس کی تالیف قلب اور خاطر داری بھی پیش نظر تھی۔

【13】

زندگی کے آخری لمحات اور میت کے غسل وتکفین کے کچھ احکام

چونکہ یہ باب ختم ہو رہا ہے اس لئے مناسب ہے کہ اس موقع پر زندگی کے آخری لمحات اور میت کے غسل و تکفین کے بارے میں کچھ احکام و مسائل بیان کر دئیے جائیں۔ جب کوئی شخص قریب المرگ ہو اور اس پر علامات موت ظاہر ہونے لگیں تو اسے قبلہ رخ کردیا جائے بایں طور کہ اسے چت لٹا کر اس کے پاؤں قبلہ کی طرف کر دئیے جائیں اور سر کو اونچا کردیا جائے تاکہ وہ قبلہ رخ ہوجائے اور قریب المرگ کو تلقین کی جائے یعنی اس کے سامنے کلمہ اشہد ان الا الہ الا اللہ وان محمد الرسول اللہ بآواز بلند بڑھا جائے تاکہ قریب المرگ بھی سن کر پڑھنے لگے۔ مگر قریب المرگ کو کلمہ پڑھنے کا حکم نہ دیا جائے کیونکہ وہ وقت بڑا مشکل ہے نہ معلوم اس کے منہ سے کیا نکل جائے۔ جب روح قفس عنصری سے پرواز کر جائے تو اس کے تمام اعضاء درست کر دئیے جائیں اور کپڑے سے اس کا منہ اس ترکیب سے باندھ دیا جائے کہ کپڑا ٹھوڑی کے نیچے سے نکال کر اس کے دونوں سرے سر کے اوپر لے جائیں اور گرہ لگا دی جائے تاکہ منہ بند ہوجائے اور منہ کے اندر کوئی کپڑا وغیرہ نہ داخل ہو سکے، آنکھیں بند کردی جائیں اور پیر کے دونوں انگوٹھے ملا کر باندھ دئیے جائیں تاکہ دونوں ٹانگیں پھیلنے نہ پائیں۔ میت کو نہلانے، کفنانے اور دفنانے میں جہاں تک ہو سکے جلدی کرنی چاہئے۔ جب میت کو غسل دینے کا ارادہ کیا جائے تو پہلے کسی تخت یا برے تختہ کو لوبان یا اگر بتی وغیرہ کی دھونی دینی چاہئے۔ تین دفعہ، پانچ دفعہ، یا سات دفعہ چاروں طرف دھونی دے کر میت کو اس پر لٹادیا جائے اس کے کپڑے اتار کر کوئی کپڑا کہ جس کی لمبائی ڈیڑھ ہاتھ اور چوڑائی دو ہاتھ ہو۔ ناف سے لے کر زانوتک ڈال دیا جائے تاکہ ستر چھپا رہے۔

【14】

غسل میت کا طریقہ

میت کو نہلانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے مردہ کا استنجا کرایا جائے لیکن رانوں اور استنجے کی جگہ غسل دینے والا اپنے ہاتھ نہ لگائے اور نہ اس پر نگاہ ڈالے بلکہ اپنے ہاتھ میں کوئی کپڑا لپیٹ لے اور جو کپڑا ناف سے زانو تک پڑا ہے اس کے اندر اندر دھلائے۔ پھر اسے وضو کرایا جائے لیکن نہ تو کلی کرائی جائے اور نہ ناک میں پانی ڈالا جائے اور نہ گٹے تک ہاتھ دھلائے جائیں۔ بلکہ منہ دھلایا جائے پھر ہاتھ کہنی سمیت، پھر سر کا مسح، پھر دونوں پیر اور اگر تین دفعہ روئی تر کر کے دانتوں اور مسوڑھوں پر اور ناک کے دونوں سوراخوں میں پھیر دی جائے تو بھی جائز ہے۔ ہاں اگر میت نہانے کی حاجت میں یا حیض و نفاس میں مرجائے تو اس طرح سے منہ اور ناک میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔ میت کی ناک، منہ اور کانوں میں روئی بھر دی جائے تاکہ وضو کراتے اور نہلاتے وقت پانی اندر نہ جائے۔ جب وضو کرا دیا جائے تو سر اور داڑھی کو خطمی (گل خیرو) سے یا اور کسی چیز سے جیسے بیسن، کھلی اور یا صابون وغیرہ سے مل کر دھویا جائے پھر میت کو بائیں کروٹ لٹا کر بیری کے پتے یا اشنان ڈال کر پکایا ہو پانی نیم گرم تین دفعہ سر سے پیر تک ڈالا جائے یہاں تک کہ پانی اس کروٹ تک پہنچ جائے تو تختے سے لگی ہوئی ہے۔ پھر دائیں کروٹ لٹا کر اسی طرح سر سے پیر تک تین دفعہ پانی ڈالا جائے یہاں تک کہ پانی اس کروٹ تک پہنچ جائے جو تختے سے لگی ہوئی ہے۔ اس کے بعد میت کو اپنے بدن کی تیک لگا کر ذرا بٹھلایا جائے اور اس کے پیٹ کو آہستہ آہستہ ملا اور دبایا جائے اگر پیٹ سے کوئی پاخانہ وغیرہ نکلے تو اسے پونچھ کر دھو ڈالا جائے۔ لیکن اس صفائی کے بعد پھر دوبارہ وضو اور غسل کی ضرورت نہیں اس کے بعد پھر اس کو بائیں کروٹ پر لٹا کر کافور پڑا ہوا پانی سر سے پیر تک تین مرتبہ ڈالا جائے۔ اگر بیری کے پتے اشنان اور کافور میسر نہ آئے تو سادہ نیم گرم پانی کافی ہے۔ اسی سے اسی طرح تین دفعہ نہلایا جائے۔ نہلانے کے بعد سارے دن کو کپڑے سے پونچھ دیا جائے اور پھر اس کے سر اور داڑھی پر عطر لگایا جائے اور ماتھے تک ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں پر کافور مل دیا جائے میت کے بالوں اور داڑھی میں کنگھی نہ کی جائے اور نہ ناخن و بال کترے جائیں۔ اسی طرح جس میت کی ختنہ نہ ہوئی ہو اس کی ختنہ بھی نہ کی جائے۔ ان تمام چیزوں سے فارغ کر کفنا دیا جائے۔

【15】

مسنون کفن

مرد میت کو تین کپڑے پہنانا سنت ہے (١) کفن یعنی کرتہ جو مونڈھے سے پیروں تک ہو (٢) ازار (٣) لفافہ، یعنی چادر۔ ازار سر سے لے کر پاؤں تک اور چادر اس سے ایک ہاتھ بڑی ہونی چاہئے۔ یہ مسنون کفن ہے اور کفن کفایہ دو کپڑے یعنی ایک ازار اور ایک لفافہ۔ عورت کی میت کو پانچ کپڑوں میں کفنانا سنت ہے (١) کفنی یعنی کرتا (٢) اوڑھنی یعنی سفید سربند (٣) ازار (٤) لفافہ یعنی چادر (٥) سینہ بند سربند تین ہاتھ لمبا ہونا چاہئے اور سینہ بند بغلوں کے نیچے کے حصہ سے لے کر گھٹنوں تک چوڑا اور اتنا لمبا ہونا چاہئے کہ بندھ جائے بقیہ تین کپڑے اسی مقدار میں ہونا چاہئیں جتنے مرد کے کفن میں لگتے ہیں کفن مسنون کی اس مقدار میں زیادتی یا کمی کرنا برا ہے۔ عورت کے لئے کفن کفایہ تین کپڑے ہیں۔ (١) ازار (٢) اوڑھنی (٣) لفافہ۔ ضرورت و مجبوری کے وقت ایک کپڑا بھی کافی ہے۔ لیکن بلا ضرورت صرف ایک کپڑے پر اکتفا نہ کرنا چاہئے۔

【16】

کفنانے کا طریقہ

کفنانے سے پہلے کفن کو تین یا پانچ یا سات مرتبہ خوشبو کی دھونی دینی چاہئے۔ پھر میت کو اگر وہ مرد ہو تو اس طریقہ سے کفنایا جائے کہ پہلے لفافہ یعنی پوٹ کی چادر بچھائی جائے۔ اس کے اوپر ازار اس کے اوپر کرتہ، پھر میت کو اس پر لے جا کر پہلے کرتہ پہنایا جائے اور اس کے دونوں ہاتھ سینہ پر نہ رکھے جائیں بلکہ دونوں طرف پھیلا دئیے جائیں اور پھر ازار لپیٹ دیا جائے پہلے بائیں طرف پھر دائیں طرف، پھر چادر لپیٹی جائے پہلے بائیں طرف پھر دائیں طرف۔ عورت کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے چادر اور ازار بچھا کر اس پر کرتہ رکھا جائے اور میت کو اس پر لے جا کر پہلے کرتہ پہنچایا جائے اور سر کے بالوں کو دو حصے کر کے کرتہ کے اوپر سینہ پر ڈال دیا جائے ایک حصہ دائیں طرف اور ایک حصہ بائیں طرف۔ اس کے بعد سربند سر پر اور بالوں پر ڈالا جائے اسے نہ باندھا جائے اور نہ لپیٹا جائے پھر اس کے اوپر ازار اور اس کے بعد لفافہ یعنی پوٹ کی چادر اسی ترتیب سے یعنی پہلے بائیں طرف سے پھر دائیں طرف سے لپیٹ دی جائے اور پھر سب سے اوپر سینہ بند لپیٹا جائے۔ کفن کے کپڑے لپیٹنے کے بعد کسی دھجی سے پیر اور سر کی طرف کفن باندھ دیا جائے اور ایک بند سے کمر کے پاس بھی باندھ دینا چاہئے تاکہ راستہ میں کہیں کھل نہ جائے۔