28. مردہ کو دفن کرنے کا بیان

【1】

بغلی قبر بنانا مستحب ہے

حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے اپنی اس بیماری میں کہ جس میں ان کی وفات ہوئی فرمایا کہ مجھے دفن کرنے کے لئے لحد بنانا اور مجھ پر کچی اینٹیں کھڑی کرنا جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے لئے کیا گیا تھا۔ (مسلم) تشریح لحد قبر میں قبلہ کی طرف بنائے گئے اس گھڑے کو کہتے ہیں جس میں مردہ رکھا جاتا ہے جس قبر میں ایسا گڑھا بنایا جاتا ہے اسے بغلی قبر کہتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغلی قبر بنانا مستحب ہے۔ حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک قبر میں لحد بنانا سنت ہے بشرطیکہ کوئی مجبوری نہ ہو یعنی اگر زمین نرم ہو اور لحد بنانے سے قبر کے بیٹھ جانے کا اندیشہ ہو تو پھر قبر میں لحد نہ بنائی جائے بلکہ صندوق قبر بنائی جائے۔ حضرت سعد (رض) کے ارشاد مجھ پر کچی اینٹیں کھڑی کرنا کا مطلب یہ ہے میری لحد کو کچی اینٹوں سے بند کرنا۔ علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک کی لحد کو نو اینٹوں سے بند کیا گیا تھا۔

【2】

قبر میں کپڑا بچھانے کا مسئلہ

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی قبر میں ایک سرخ لوئی (چادر) ڈالی گئی تھی۔ (مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ کے ایک خادم تھے جن کا نام شعران تھا انہوں نے صحابہ کرام کی مرضی اور ان کی اجازت کے بغیر از خود اس چادر کو آنحضرت ﷺ کی قبر میں رکھ دیا تھا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ میں اسے قطعی ناپسند کرتا ہوں کہ جس چادر مبارک کو سرکار دو عالم ﷺ خود استعمال کرچکے ہوں اسے آپ کے بعد کوئی دوسرا شخص استعمال کرے۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قبر میں یہ چادر رکھنا آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے تھا (اب کسی دوسرے کے لئے اجازت نہیں کہ اس کی قبر میں چادر وغیرہ بچھائی جائے یا رکھی جائے) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی قبر میں چادر رکھنے کے بارے میں صحابہ (رض) نے کسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ چناچہ حضرت علی اور حضرت عباس کے بارے میں منقول ہے کہ ان دونوں نے شعران سے اس بات پر سخت معاوضہ کیا کہ انہوں نے وہ چادر قبر مبارک میں کیوں رکھی ؟ نیز علامہ ابن عبدالبر (رح) نے تو کتاب استیعاب میں یہ لکھا ہے کہ وہ لوئی (جو شعران نے آپ ﷺ کی قبر مبارک میں ڈالی تھی) مٹی ڈالنے سے پہلے قبر مبارک سے نکال لی گئی تھی۔ بہر حال علماء نے قبر میں مردہ کے نیچے کپڑا بچھانے کو مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ اس میں مال کا اسراف اور اس کا ضائع کرنا ہے۔

【3】

اونٹ کے کوہان کی مانند قبر بنانا افضل ہے

حضرت سفیان تمار سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی قبر کو دیکھا جو اونٹ کے کوہان کی طرح تھی۔ (بخاری) تشریح حضرت امام مالک، حضرت امام احمد اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے نہ صرف یہ کہ اس حدیث کو بلکہ اس کے علاوہ اور بھی صحیح احادیث کو اپنے اس مسلک کا مستدل قرار دیا ہے کہ قبر کو اونٹ کے کوہان کی طرح اٹھی ہوئی بنانا مسطح بنانے سے افضل ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک قبر مسطح بنانا افضل ہے۔

【4】

قبر کو اونچا کرنے کی ممانعت

اور حضرت ابوالہیاج اسدی (تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں اس کام پر معمور نہ کروں جس کام پر مجھے رسول اللہ ﷺ نے معمور کیا تھا ؟ اور وہ کام یہ ہے کہ تم جو بھی تصویر دیکھو اسے چھوڑو نہیں بلکہ اسے مٹادو اور جس قبر کو بلند دیکھو اسے برابر کردو۔ (مسلم) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ اپنے پاس تصویر کا رکھنا حرام ہے اور اسے مٹا دینا واجب ہے نیز اس کے سامنے بیٹھنا جائز نہیں ہے، جس قبر کو بلند دیکھو اسے برابر کردو۔ کا مطلب یہ ہے کہ قبر اگر زیادہ اونچی اور بلند بنائی گئی ہو تو اسے اتنی نیچی کردو کہ زمین کی سطح سے قریب ہوجائے صرف اس کا نشان باقی رہے جس کی مقدار ایک بالشت ہے کیونکہ مسنون یہی ہے چناچہ کتاب ازہار میں علماء کا یہ قول لکھا ہوا ہے کہ قبر کو بقدر ایک بالشت کے بلند کرنا مستحب ہے اور ور اس سے زیادہ مکروہ ہے نیز ایک بالشت سے زیادہ قبر کو ڈھا دینا (یعنی صرف ایک بالشت کی بقدر باقی رہنے دینا مستحب ہے)

【5】

قبر پر گچ کرنے، عمارت بنانے اور اس کے اوپر بیٹھنے کی ممانعت

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے قبر پر گچ کرنے اور اس پر عمارت بنانے نیز قبر کے اوپر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسلم) تشریح کتاب اظہار میں لکھا ہے کہ قبروں پر گچ کرنے کی ممانعت کراہت کے طور پر ہے یعنی قبروں پر گچ کرنا مکروہ ہے پھر ممانعت کا یہ حکم دونوں صورتوں کے لئے ہے یعنی خواہ قبر کی چٹائی گچ سے کی جائے خواہ قبروں پر گچ کیا جائے دونوں ہی مکروہ ہیں قبر کے اوپر کوئی عمارت مثلاً گنبد یا قبہ وغیرہ بنانا درست نہیں ہے بلکہ اگر کسی قبر پر کوئی عمارت بنی ہوئی ہو تو اسے ڈھا دینا واجب ہے اگر وہ مسجد ہی کیوں نہ ہو۔ علامہ تور پشتی (رح) فرماتے ہیں کہ قبروں پر بناء یعنی عمارت بنانا دونوں چیزوں کو محتمل ہے خواہ قبر پر پتھر و اینٹ وغیرہ سے کوئی عمارت بنائی جائے خواہ قبر کے اوپر کوئی خیمہ وغیرہ کھڑا کیا جائے دونوں ہی صورتیں ممنوع ہیں کیونکہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے علامہ تور پشتی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس ممانعت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ فعل جاہلیت ہے یعنی کفار میت اوپر دس دن تک سایہ رکھتے تھے اس لئے مشابہت سے بچانا بھی مقصود ہے۔ قبر کے اوپر بیٹھنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ یہ مومن کے اکرام و شرف کے منافی ہے بایں طور کہ قبر کے اوپر چڑھ کر بیٹھنے سے صاحب قبر کی تحقیر اور بےوقعتی لازم آتی ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ قبر کے اوپر بیٹھنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص اظہار رنج و غم کے لئے قبر کے پاس مسلسل بیٹھا رہے جیسے کے بعض لوگ فقر اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے کسی محسن و متعلق ہی کی قبر کو اپنا مسکن بنا لیتے ہیں لہٰذا اس سے منع فرمایا گیا ہے۔

【6】

قبروں کے بارے میں چند احکام

حضرت ابومرثد غنوی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہ قبروں کے اوپر بیٹھو اور نہ قبروں کی طرف نماز پڑھو (مسلم) تشریح محقق ابن ہمام فرماتے ہیں کہ قبروں پر بیٹھنا اور ان کو روندنا مکروہ ہے لہٰذا بعض لوگوں کا یہ طریقہ ہے کہ وہ اپنے قبرستان میں اپنے کسی عزیز و متعلق کی قبر تک پہنچنے کے لئے درمیان کی قبروں کو بلاتکلف روندتے ہوئے چلتے ہیں یہ انتہائی غلط بات ہے۔ ہاں ضرورت و حاجت کے وقت مثلاً قبر کھودنے کے لئے یا میت کو دفن کرنے کے لئے قبروں پر پاؤں رکھ کر چلنا جائز ہے۔ قبرستان میں ننگے پاؤں چلنا مستحب ہے قبر کے نزدیک یا قبر کو تکیہ بنا کر سونا مکروہ ہے قبروں کے پاس استنجا کرنا تو انتہائی کراہت کی بات ہے، قبرستان آنے جانے کے بارے میں ہر وہ چیز مکروہ جو معہود یعنی سنت سے ثابت نہیں اس بارے میں صرف قبروں پر جانا اور وہاں کھڑے کھڑے دعا مانگنا سنت سے ثابت ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ جب جنت البقیع تشریف لے جاتے تو وہاں یہ فرماتے دعا (السلام علیکم دار قوم مومنین وانا انشاء اللہ بکم لاحقون واسأل اللہ لی ولکم العافیہ) ۔ یعنی اے مومنین کے گھر تجھ پر سلامتی ہو، اے مومنو ! انشاء اللہ ہم تم سے ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے امن و عافیت مانگتا ہوں۔ (ملا علی قاری) کے ان الفاظ سے اگر یہ اشکال پیدا ہوا کہ یہاں تو یہ ثابت ہوا کہ زیارت قبور کے سلسلے میں صرف قبروں پر جانا اور وہاں دعا مانگنا سنت سے ثابت ہے جیسا کہ خود ملا علی قاری نے ابھی اس باب کی تیسری فصل کی ایک حدیث کو جو حضرت ابن عمر (رض) سے منقول ہے کی تشریح کے ضمن میں وہ احادیث نقل کی ہیں تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ قرآن کریم کی تلاوت دعا میں شامل ہے اس لئے کہ تلاوت قرآن کریم بھی حکما دعا ہی ہے لہٰذا وہ مکروہ نہیں ہے۔ حدیث کے آخری الفاط ولاتصلوا الیہا (اور نہ قبروں کی طرف نماز پڑھو) کی روشنی میں علماء لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قبر یا صاحب قبر کی تعظیم کی خاطر قبر کی طرف نماز پڑھتا ہے تو یہ صریح کفر ہے اگر قبر یا صاحب قبر کی تعظیم پیش نظر نہ ہو تو تب بھی قبر کی طرف نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے یہی حکم جنازہ کا بھی ہے جب کہ وہ نمازی کے سامنے رکھا ہوا ہو بلکہ اس میں تو اور بھی زیادہ کراہت ہے حاصل یہ کہ نمازی کے سامنے قبر یا جنازہ نہ ہونا چاہئے۔

【7】

قبر کے اوپر بیٹھنے کی تہدید

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص انگارے پر بیٹھ جائے اور وہ انگارہ اس کا کپڑا جلا کر اس کے جسم تک پہنچ جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ قبر کے اوپر بیٹھے۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آگ کے اوپر بیٹھ جائے اور وہ آگ اس شخص کے کپڑوں کو جلا کر اس کے جسم تک پہنچ جائے اور جسم کے حصوں کو جلا ڈالے تو یہ تکلیف و مصیب قبر کے اوپر بیٹھنے سے سہل و آسان ہے یعنی قبر کے اوپر بیٹھنے کا ضرر و نقصان اس کے ضرر و نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔

【8】

صندوقی قبر بھی مشروع ہے

حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ مدینہ میں دو شخص تھے (جو قبریں کھودا کرتے تھے) ان میں سے ایک شخص (حضرت ابوطلحہ انصاری) تو بغلی قبر کھودا کرتے تھے اور دوسرے شخص (حضرت ابوعبیدہ بن الجراح) بغلی قبر نہیں کھودتے تھے (بلکہ صندوقی قبر کھودا کرتے تھے) چناچہ (آنحضرت ﷺ کا جب وصال ہوا تو) تو صحابہ (رض) نے (متفقہ طور پر) یہ کہا کہ ان دونوں میں سے جو پہلے آجائے وہی قبر کھودے (یعنی اگر ابوطلحہ (رض) پہلے آگئے تو بغلی قبر کھودیں اور اگر ابوعبیدہ پہلے آجائیں تو صندوقی قبر کھودیں) آخرکار بغلی قبر کھودنے والے شخص (پہلے) آگئے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کے لئے بغلی قبر کھودا کرتے ؟

【9】

بغلی قبر کی فضیلت

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لحد یعنی بغلی قبر، ہمارے لئے ہے اور شق (یعنی صندوقی قبر) دوسروں کے لئے ہے۔ (ترمذی، ابوداوئد، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد نے اس روایت کو جریر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے) تشریح علماء نے اس حدیث کے کئی معنیٰ بیان کئے ہیں لیکن زیادہ صحیح معنی یہ ہیں کہ لحد یعنی بغلی قبر ہم انبیاء کی جماعت کے لئے ہے اور شق یعنی صندوقی قبر جماعت انبیاء کے علاوہ دوسروں کے لئے جائز ہے گویا لحد کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بغلی قبر کی نسب جماعت انبیاء کی طرف کر کے اس کی فضیلت اور اولیت کا اظہار فرمایا جا رہا ہے۔

【10】

قبر گہری کھودنی چاہئے

حضرت ہشام بن عامر (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ احد کے دن فرمایا کہ قبریں کھودو اور قبروں کو کشادہ و گہری کھودو اور انہیں اچھی بناؤ (یعنی قبروں کو ہموار بناؤ اور اندر سے کوڑا کرکٹ و مٹی وغیرہ صاف کرو) اور ایک ایک قبر میں دو دو تین تین کو دفن کرو اور ان میں آگے (یعنی قبلہ کی طرف) اسے رکھو جسے قرآن زیادہ اچھا یاد تھا ۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو لفظ احسنوا تک نقل کیا ہے ۔ تشریح غزوہ احد کے دن، سے مراد یہ ہے کہ جب احد ختم ہوئی اور شہداء کو دفن کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس وقت آپ نے فرمایا کہ قبریں کھودو، لہٰذا ارشاد گرامی میں قبریں کھودنے کا حکم تو وجوب کے طور پر ہے بقیہ احکام یعنی قبروں کو کشادہ اور گہرا کھودنے اور اچھی بنانے کا حکم استحباب کے طور پر ہے۔ قبروں کو گہری کھودو اس سے معلوم ہوا کہ قبر کو گہرا کھودنا سنت ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے میت درندوں سے محفوظ رہتی ہے۔ مظہر کا قول ہے کہ قبریں اتنی گہری کھودنی چاہئیں کہ اگر آدمی اندر کھڑا ہو کر اپنے ہاتھ اٹھائے تو اس کی انگلیوں کے سرے قبر کے کنارے تک پہنچ جائیں۔ ایک ایک قبر میں دو دو اور تین تین مردوں کو دفن کرنا مجبوری اور ضرورت کے وقت تو جائز ہے لیکن بغیر کسی ضرورت اور مجبوری کے جائز نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی اور ان میں آگے (یعنی قبلہ کی طرف) اسے رکھو جسے قرآن زیادہ اچھا یاد تھا میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح عالم با عمل کی تعظیم و تکریم اس کی زندگی میں کی جاتی تھی اسی طرح مرنے کے بعد بھی اس کی تعظیم اور اس کے احترام کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ ایک سے زیادہ جنازوں کی بیک وقت نماز جس طرح ایک جنازہ پر ایک نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اسی طرح ایک وقت میں کئی جنازوں پر بھی ایک نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے مطلب یہ ہے کہ بیک وقت کئی جنازے جمع ہوجائیں تو خواہ ہر جنازے کی الگ الگ نماز پڑھی جائے خواہ تمام جنازوں کو رکھ کر سب کے لئے ایک ہی نماز پڑھ لی جائے دونوں صورتیں جائز ہیں۔ نیز اگر کئی جنازوں کی ایک ہی نماز بیک وقت پڑھی جائے تو جنازوں کو آگے ترتیب سے رکھنے میں بھی اختیار ہے کہ چاہے تو تمام جنازوں کو قبلہ کی طرف آگے پیچھے کر کے رکھا جائے اور چاہے طول میں قطار باندھ کر تمام جنازوں کو رکھ دیا جائے دونوں طرح جائز ہے البتہ امام کو چاہئے کہ وہ اس جنازہ کے پاس کھڑا ہو جو ان جنازوں میں افضل ہو۔

【11】

میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا مسئلہ

حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جب غزوہ احد ہوا تو میری پھوپھی میرے والد ( کی نعش) لے کر آئیں تاکہ انہیں میں اپنے قبرستان میں دفن کریں، لیکن رسول کریم ﷺ کی طرف سے ایک منادی کرانے والے نے اعلان کیا کہ شہیدوں کو ان کے شہید ہونے کی جگہ پہنچا دیا جائے ۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، نسائی دارمی) الفاظ ترمذی کے ہیں۔ تشریح حضرت جابر (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب غزوہ احد اور بعض مسلمان شہید ہوئے تو میرے والد مکرم بھی ان شہیدوں میں تھے چناچہ میری پھوپھی میرے والد کی نعش میدان کارزار سے شہر لائیں تاکہ انہیں اپنے قبرستان یعنی بقیع میں دفن کردیا جائے لیکن آنحضرت ﷺ کی طرف سے ایک شخص نے اعلان کیا کہ شہداء جس جگہ شہید کئے گئے ہیں انہیں دفن کیا جائے۔ یہ حدیث کی وضاحت تھی اب مسئلہ کی طرف آئیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ جیسا کہ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کا حکم نقل کیا گیا ہے جو شخص جس شہر میں انتقال کرے اسے اسی شہر میں دفن کیا جائے اس کی نعش دوسرے شہر میں منتقل نہ کی جائے چناچہ کتاب ازہار میں لکھا ہے کہ نقل میت کے عدم جواز کے سلسلہ میں یہ حدیث ایک مضبوط اور قوی تر دلیل ہے لیکن اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ یہاں حدیث میں میت کو منتقل کرنے کی جو ممانعت فرمائی گئی ہے اسے صرف شہداء کے ساتھ مختص کیا جائے اور اس سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ ممانعت میت کو دفن کرنے کے بعد بغیر کسی عذر کے منتقل کرنے پر محمول کی جائے یعنی اگر میت دفن کردی جائے تو اب اس کے بعد کسی صحیح عذر کے بغیر کسی دوسری جگہ اسے منتقل کرنا ممنوع ہے۔ علامہ یحییٰ (رح) اس مسئلہ میں یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی واقعی ضرورت پیش آجائے تو میت کو دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے لیکن بغیر ضرورت کے جائز نہیں ہے۔ محقق علامہ ابن ہمام کا قول یہ ہے کہ اگر میت کو دفن کرنے اور قبر کی تیاری سے پہلے ایک دو کوس کے فاصلے پر منتقل کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ قبرستان اتنے فاصلہ پر ہوا کرتے ہیں۔ علماء لکھتے ہیں کہ میت کو اسی شہر کے قبرستان میں دفن کرنا مستحب ہے جہاں اس کا انتقال ہوا ہے چناچہ منقول ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کا انتقال مکہ سے ایک منزل کے فاصلے پر ہوا تو ان کا جنازہ دفن کرنے کے لئے مکہ مکرمہ لایا گیا۔ جب حضرت عائشہ (رض) ان کی قبر پر تشریف لائیں تو فرمایا کہ اگر میں تمہارے انتقال کے وقت موجود ہوتی تو تمہیں یہاں منتقل نہ کرتی بلکہ وہیں دفن کرتی جہاں انتقال ہوا تھا۔

【12】

دفن کے بعد قبر کھودنے کا مسئلہ

میت کو دفن کرنے اور قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد (میت کو نکالنے کے لئے یا کسی اور مقصد کے تحت) قبر کو کھودنا جائز نہیں ہے خواہ دفن کئے ہوئے بہت تھوڑا وقفہ ہوا ہو یا زیادہ عرصہ ہوگیا ہو ہاں عذر کی بنا پر جائز ہوگا مثلاً یہ اگر دفن کرنے کے بعد یہ ظاہر ہو کہ جس زمین پر قبر بنائی گئی ہے وہ زمین غصب کی ہے یا اس زمین کو کسی شخص نے بحق شفعہ لے کر اپنی ملکیت بنا لی تو ان صورتوں میں مالک زمین کے مطالبہ پر قبر کھودنا جائز ہوگا علماء لکھتے ہیں کہ کتنے ہی صحابی کافروں کے شہروں میں دفن کئے گئے مگر انہیں وہاں سے منتقل نہیں کیا گیا۔ اگر اس زمین کا مالک کہ جس میں قبر بنائی گئی ہے یہ چاہے کہ زمین کو ہموار کرلے اور اس میں کھیتی باڑی کرے تو اسے حق پہنچتا ہے دفن کرنے کے بعد قبر کھودنے کا اعذار میں ایک عذر یہ بھی ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی مال یا کپڑا وغیرہ قبر میں رہ جائے تو اس کے لئے جائز ہے کہ قبر کھود کر وہ مال یا کپڑا نکال دیں۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ علماء اور مشائخ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی عورت کا بیٹا شہر کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں دفن کردیا جائے اور وہاں وہ عورت موجود نہ رہی ہو اور پھر اسے اس کی مامتا بےچین کرے اور وہ اس بات پر اصرار کرے کہ اس کے بیٹے کی نعش اس کے شہر میں منتقل کردی جائے تو اس صورت میں قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ نعش کو منتقل کردیا جائے چناچہ اس بارے میں بعد کے بعض علماء جس جواز کے قائل ہوئے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ صاحب ہدایہ نے (ہدایہ کے علاوہ اپنی کسی دوسری کتاب میں) لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شہر میں مرجائے تو اس کی نعش کو دوسرے شہر منتقل کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس طرح نہ صرف یہ کہ ایک بےفائدہ اور لاحاصل چیز میں وقت صرف ہوتا ہے بلکہ میت کو دفن کرنے میں بھی تاخیر ہوتی ہے، نیز علماء کا بالاتفاق یہ فیصلہ ہے کہ اگر کوئی میت بغیر نماز کے بھی دفن کردی جائے تب بھی اس قہر سے نکالنا جائز نہیں ہے۔ کسی شخص کو اس مکان میں دفن نہ کیا جائے جس میں وہ رہا کرتا تھا کیونکہ یہ صرف انبیاء کرام صلوات اللہ وسلم علیہم کے ساتھ مختص ہے دوسرے کے لئے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔

【13】

میت کو قبر میں کس طرح اتارا جائے؟

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو (قبر میں اتارتے وقت) سر کی طرف اتارا گیا۔ (شافع) تشریح اس کی صورت یہ تھی کہ جنازہ قبر کے پائنتی رکھا گیا پھر آپ کو سر مبارک کی طرف سے اٹھا کر قبر میں اتارا گیا چناچہ حضرت امام شافعی کے ہاں میت کو اسی طریقہ سے قبر میں اتارا جاتا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک اس سلسلہ میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ جنازہ قبر کے قبلہ والی جانب رکھا جائے اور وہاں سے میت کو اٹھا کر قبر میں رکھا جائے چناچہ آنحضرت ﷺ میت کو اسی طریقہ سے قبر میں اتارا کرتے تھے جیسا کہ اگلی حدیث سے واضح ہوگا۔ جہاں تک مذکورہ بالا روایت کا تعلق ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اس طریقہ سے قبر میں کیوں اتارا گیا ؟ تو اس کی وجہ یہ تھی کہ حجرۃ شریفہ میں اتنی وسعت نہ تھی کہ آپ کو قبلہ کی طرف سے قبر میں اتارا جاتا کیونکہ آپ کی قبر حجرہ کی دیوار سے ملی ہوئی ہے حنفیہ کی طرف سے اس کا ایک جواب یہ بھی دیا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو قبر میں اتارنے کی کیفیت مضطرب منقول ہے یعنی یہاں اس روایت میں تو یہ بتایا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ کو سر کی طرف سے قبر میں اتارا گیا تھا جب کہ ابوداؤد کی ایک روایت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو قبر میں قبلہ کی طرف اتارا گیا تھا سر کی طرف سے نہیں اٹھایا گیا تھا نیز اسی طرح کی روایت ابن ماجہ نے بھی نقل کی ہے۔ لہٰذا جب ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہوا تو دونوں حدیثیں ساقط ہوئیں۔

【14】

میت کو قبر میں کس طرح اتارا جائے؟

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رات میں نبی کریم ﷺ (کسی میت کو رکھنے کے لئے) قبر میں اترے، آپ کے لئے چراغ جلا دیا گیا چناچہ آپ نے میت کو قبلہ کی طرف سے پکڑا (اور اسے قبر میں اتارا) اور یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے تو (خوف اللہ سے) بہت رونے والا اور قرآن کریم بہت زیادہ پڑھنے والے تھے (اور ان دونوں چیزوں کے سبب سے تم رحمت و مغفرت کے مستحق ہو) یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے اور شرح السنۃ میں ہے کہ اس روایت کی اسناد ضعیف ہے۔ تشریح اس روایت کے بارے میں امام ترمذی کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے نیز اس بارے میں حضرت جابر اور حضرت یزید بن ثابت کی روایتیں بھی منقول ہیں۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رات کے وقت مردہ کو دفن کرنا مکروہ نہیں جیسا کہ بعض علماء نے لکھا ہے یہ حدیث حنفیہ کے مسلک کی دلیل ہے ان کے ہاں میت کو قبر میں قبلہ کی طرف سے اتارنا سنت ہے۔

【15】

میت کو قبر میں اتارتے وقت کیا پڑھا جائے؟

حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب میت کو قبر میں اتارتے تھے تو یہ فرماتے دعا (بسم اللہ وباللہ وعلیٰ ملۃ رسول اللہ) ۔ اس میت کو ہم اللہ کے نام کے ساتھ اللہ کے حکم کے مطابق اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت پر قبر میں اتارتے ہیں اور ایک روایت میں وعلیٰ ملۃ رسول اللہ کے بجائے وعلیٰ سنۃ رسول اللہ ہے (یعنی یہاں تو رسول اللہ ﷺ کی شریعت پر منقول ہے اور ایک دوسری روایت میں اس کے بجائے رسول اللہ ﷺ کی سنت پر نقل کیا گیا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابوداؤد نے دوسری روایت (جس میں ملۃ کے بجائے سنۃ ہے) نقل کی ہے۔

【16】

قبر پر مٹی ڈالنا اور پانی چھڑکنا سنت ہے

حضرت امام جعفر صادق بن محمد اپنے والد (حضرت امام باقر) سے بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی قبر کے اوپر پانی چھڑکا اور علامت کے لئے قبر پر سنگریزے رکھے۔ شرح السنۃ اور حضرت امام شافعی نے اس حدیث کو رش پانی چھڑکا) سے آخر تک) روایت کیا ہے۔ تشریح امام احمد نے اسناد ضعیف کے ساتھ نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ قبر میں مٹی اس طرح ڈالتے تھے کہ جب پہلی مٹھی بھر کر مٹی ڈالتے تو پڑھتے منہا خلقناکم اور جب دوسری مٹھی بھر کر ڈالتے تو پڑھتے وفیہا نعیدکم اور اسی طرح جب تیسری مٹھی ڈالتے تو یہ پڑھتے ومنہا نخرجکم۔ حضرت ابن مالک فرماتے ہیں کہ جو لوگ جنازہ کے ہمراہ قبر پر جائیں ان کے لئے سنت ہے کہ جب لحد یا شق بند کردی جائے تو وہ مٹھی بھر کر مٹی قبر میں ڈالیں اسی طرح قبر جب بھر جائے اور اوپر سے مٹی برابر کردی جائے تو قبر کے اوپر پانی چھڑکنا سنت ہے۔ ایک حکایت منقول ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا تو اسے کسی نے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ اس نے کہا کہ جب میری نیکیاں اور برائیاں وزن کی گئیں تو برائیاں نیکیوں سے بڑھ گئیں اچانک ایک تھیلی نیکیوں کے پلڑے میں آ کر گری جس کی وجہ سے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگیا، میں نے جب تھیلی کھولی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں ایک مٹھی مٹی تھی جو میں نے ایک مسلمان کی قبر میں ڈالی تھی ( اس طرح میری یہ نیکی کام آگئی)

【17】

قبروں پر لکھنے اور انہیں روندنے کی ممانعت

حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ قبریں گچ کی جائیں، ان پر لکھا جائے اور یہ کہ وہ روندی جائیں۔ (ترمذی) تشریح قبروں پر گچ کرنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اس میں ایک طرف کی زینت اور تکلیف ہے ہاں بعض حضرات کے نزدیک قبروں پر مٹی لیپنا جائز ہے۔ قبروں پر اللہ و رسول کا نام اور قرآن کی آیتیں لکھنا مکروہ ہے تاکہ پیروں کے نیچے آنے سے یا جانور وغیرہ کے پیشاب کردینے سے ان کی بےحرمتی نہ ہو۔ بعض حنفی علماء فرماتے ہیں کہ اسی طرح مساجد وغیرہ کی دیوار پر اللہ و رسول کا نام اور قرآن کی آیتیں لکھنا ممنوع ہے نیز یہ بھی مکروہ ہے کہ پتھر وغیر پر میت کا نام وغیرہ لکھ کر قبر پر کھڑا کیا جائے۔ البتہ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ پتھر وغیرہ پر میت کا اور خاص طور پر علماء دین اور صلحاء امت کا نام وغیرہ لکھ کر قبر پر کھڑا کرنا جائز ہے تاکہ زمانہ گزرنے کے باوجود ان کی قبریں پہچانی جائیں۔

【18】

آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک پر پانی چھڑکا گیا تھا

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی قبر پر پانی چھڑکا گیا تھا ور وہ شخص کہ جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک پر پانی چھڑکا تھا، حضرت بلال بن رباح تھے چناچہ انہوں نے مشک لے کر سر کی طرف سے (قبر پر) پانی چھڑکنا شروع کیا اور پاؤں تک (چھڑکتے ہوئے) لے گئے۔ (بیہقی)

【19】

علامت کے لئے قبر پر کوئی پتھر رکھ دینا جائز ہے

اور حضرت مطلب (رض) بن ابو وداعہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعون کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ (باہر نکالا گیا اور دفن کیا گیا جب تدفین سے فراغت ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ایک بڑا پتھر لائے تاکہ اسے قبر پر علامت کے لئے رکھ دیا جائے اس شخص سے پتھر نہ اٹھ سکا تو آنحضرت ﷺ اسے اٹھانے کے لئے خود کھڑے ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کی آستینیں چڑھائیں۔ حدیث کے راوی حضرت مطلب فرماتے ہیں کہ جس شخص نے مجھ سے رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کی وہ کہتے تھے کہ گویا اس وقت بھی آنحضرت ﷺ کے مبارک ہاتھوں کی سفیدی میری نظروں میں گھوم رہی ہے جب کہ آپ نے اسے کھولا تھا، بہرحال آنحضرت ﷺ نے وہ پتھر اٹھا لیا اور اسے حضرت عثمان (رض) کی قبر کے سرہانے رکھ دیا اور فرمایا کہ میں نے اس کے ذریعہ اپنے بھائی کی قبر پر علامت کردی ہے اب میرے گھر والوں میں سے جس کا انتقال ہوگا میں اسے اس کے پاس دفن کر دوں گا۔ تشریح حضرت مطلب بن ابی وداوعہ (رض) صحابی اور فتح مکہ کے دن مشرف باسلام ہوئے تھے انہوں نے اس روایت کو ایک دوسرے صحابی سے اس لئے نقل کیا ہے کہ یہ خود اس موقع پر موجود نہ تھے۔ حضرت عثمان بن مظعون آنحضرت ﷺ کے دودھ شریک بھائی تھے انہوں نے بالکل ابتدائی زمانہ ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا چناچہ ان سے پہلے صرف تیرہ آدمی اسلام لا چکے تھے، غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے، مدینہ میں مہاجرین میں سے سب سے پہلے انہی کا انتقال ہوا تھا ان کی قبر کے قریب سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم دفن کئے گئے تھے۔ ازہار میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ قبر پر بطور علامت و نشانی کوئی پتھر وغیرہ رکھ دینا مستحب ہے تاکہ قبر پہچانی جاسکے نیز اہل خاندان اور اقربا کو ایک جگہ دفن کرنا بھی مستحب ہے۔

【20】

آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر وصدیق وحضرت عمر (رض) کی قبریں۔

حضرت قاسم بن محمد (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے میری ماں ! مجھے زیارت کرنے کے لئے رسول کریم ﷺ اور آپ کے دونوں رفقا (یعنی حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی قبریں کھول دیجیے چناچہ انہوں نے تینوں قبریں کھول دیں، میں نے دیکھا کہ وہ تینوں قبریں نہ تو بہت اونچی تھیں اور نہ بالکل زمین سے ملی ہوئی تھیں (بلکہ زمین سے ایک ایک بالشت بلند تھیں اور ان پر مدینہ مطہرہ کے گرد جو میدان ہے اس کی سرخ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ (ابو داؤد) تشریح آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر (رض) کی قبریں حضرت عائشہ (رض) کے حجرہ میں تھیں جب تک دروازہ کھلا ہوا تھا اس پر پردہ پڑا رہا کرتا تھا جب کوئی شخص قبروں کی زیارت سے مشرف ہونا چاہتا تو پردہ اٹھا کر اندر چلا جاتا تھا۔

【21】

آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر وصدیق وحضرت عمر (رض) کی قبریں۔

حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کے ہمراہ انصار میں سے ایک شخص کے جنازہ کے ساتھ چلے جب ہم قبرستان پہنچے تو چونکہ ابھی تدفین عمل میں نہیں آئی تھی (یعنی قبر نہیں تیار ہوئی تھی) اس لئے رسول کریم ﷺ قبلہ کی طرف تشریف فرما ہوگئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ (یعنی آپ کے گرد) بیٹھ گئے (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ) اور ابن ماجہ نے اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے تھے یعنی انتہائی خاموش اور چپ چاپ سر جھکائے ہوئے بیٹھے تھے۔ تشریح باب مایقال عند من حضرہ الموت کی تیسری فصل میں بھی یہ حدیث تفصیل کے ساتھ نقل کی جا چکی ہے یہاں اس حدیث کا صرف انتہائی خاموش اور چپ چاپ سر جھکائے ہوئے بیٹھے تھے۔

【22】

میت کی تحقیر ممنوع ہے

حضرت عائشہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مردہ کی ہڈیوں کو توڑنا (باعتبار گناہ کے) زندہ شخص کی ہڈیوں کے توڑنے کی مانند ہے (مالک، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح اس ارشاد گرامی میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح زندہ شخص کی تحقیر و بےعزتی ممنوع ہے اسی طرح میت کی تحقیر اور بےوقعتی بھی ممنوع ہے نیز جس طرح زندہ شخص تکلیف پر ایذاء اور آرام پر سکون محسوس کرتا ہے اسی طرح مردہ بھی سکون اور ایذاء محسوس کرتا ہے۔

【23】

صاحبزادی کے انتقال پر آنحضر ﷺ کے آنسو

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں اس وقت موجود تھا جب کہ رسول کریم ﷺ کی صاحبزادی (یعنی حضرت عثمان غنی (رض) کی زوجہ محترمہ حضرت ام کلثوم) سپرد خاک کی جا رہی تھیں اور آنحضرت ﷺ قبر کے پاس تشریف فرما تھے، میں نے یہ دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں، بہرحال اس وقت آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم میں ایسا بھی کوئی شخص موجود ہے جو آج کی رات اپنی عورت سے ہم بستر نہ ہوا ہو ؟ حضرت ابوطلحہ (رض) نے کہا کہ ہاں ! میں ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا (میت کو قبر میں رکھنے کے لئے) تم ہی قبر میں اترو۔ چناچہ وہ قبر میں اترے۔ (بخاری) تشریح آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے اپنی عورتوں سے صحبت نہ کرنے کے بارے میں اس لئے دریافت فرمایا کہ اگرچہ اپنی عورتوں سے صحبت ممنوع نہیں ہے لیکن نہ کرنے میں اس طرح سے ملائکہ سے مشابہت ہوتی ہے لہٰذا آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگرچہ اپنی عورتوں سے نہ کی ہو اور اس طرح وہ ملائکہ کے مشابہ ہو وہی ام کلثوم کو قبر میں اتارے۔ اب یہاں ایک اشکال پیدا ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ حضرت ابوطلحہ نے ام کلثوم کو قبر میں اتارا جو ان کے لئے اجنبی اور غیر محرم تھے ؟ اس اشکال کی توجیہ یہ ہے کہ یا تو ان کی خصوصیات میں سے تھا کہ آنحضرت ﷺ نے انہیں بطور خاص قبر میں اترنے کا حکم فرمایا یا یہ کہ اس طرح آنحضرت ﷺ نے اس بارے میں بیان جواز کی طرف اشارہ فرمایا۔

【24】

عورت کی میت کو مرد ہی قبر میں اتاریں

محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ عورت کی میت کو قبر میں اتارنے یا نکالنے کا کام صرف مرد ہی انجام دیں اور چونکہ جس طرح عورت کو اس کی زندگی میں کسی اجنبی مرد کا ضرورت کے وقت اس طرح چھونا جائز ہے کہ درمیان میں کپڑا وغیرہ حائل ہو اسی طرح مرد و عورت کو بھی بوقت ضرورت اجنبی مرد کا چھونا جائز ہے۔ لہٰذا جب کوئی عورت مرجائے اور اس کا کوئی محرم نہ ہو تو اسے قبر میں اس کے وہ پڑوسی اتاریں جو نیک و صالح ضعیف موجود نہ ہوں تو پھر وہ پڑوسی جو ان کو قبر میں اتاریں جو نیک و صالح ہوں ہاں اگر محرم موجود ہوں خواہ دودھ کے اعتبار سے محرم ہوں خواہ سسرال کی طرف سے تو وہی قبر میں اتر کر دفن کریں۔ اگر مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں اشکال پیدا ہو کہ علماء تو یہ لکھتے ہیں کہ عورت کی میت کو قبر میں اتار نے کے لئے خاوند اور محارم اولیٰ ہیں تو حضرت ام کلثوم کو حضرت عثمان نے یا خود آنحضرت ﷺ نے قبر میں کیوں نہیں اتارا ؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ احتمال ہے اس وقت آنحضرت ﷺ اور حضرت عثمان کو کوئی عذد پیش آگیا ہوگا اس لئے نہ تو آنحضرت ﷺ ہی قبر میں اترے اور نہ حضرت عثمان ہی نے قبر میں اتر کر حضرت ام کلثوم (رض) کو رکھا۔

【25】

حضرت عمرو بن عاص کی وصیت

حضرت عمرو بن عاص (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اس وقت جب کہ وہ حالت نزع میں تھے اپنے صاحبزادے (حضرت عبداللہ) کو یہ وصیت کی کہ جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازہ کے ہمراہ نہ تو کوئی نوحہ کرنے والی ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنے لگو تو میرے اوپر مٹی آہستہ آہستہ (یعنی تھوڑی تھوڑی کر کے) ڈالنا پھر دفن کردینے کے بعد میری قبر کے پاس دعائے استقامت و مغفرت اور ایصال ثواب کے لئے اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ میں تمہاری وجہ سے آرام پا جاؤں اور بغیر کسی وحشت و گھبراہٹ کے جان لوں کہ میں اپنے پروردگار کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔ (مسلم) تشریح زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ تھا کہ فخر و بڑائی اور ریا کے طور پر میت کے ساتھ آگ لے کر چلتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ خوشبو وغیرہ جلا سکیں یا کسی اور کام میں لاسکیں شریعت اسلام نے اس سے منع فرمایا اس لئے حضرت عمرو بن عاص نے یہ وصیت کی کہ میرے جنازہ کے ساتھ نہ تو نوحہ کرنے والی ہو کہ یہ خالص غیر اسلامی طریقہ اور نہ آگ ہو کہ یہ بھی زمانہ جاہلیت کی ایک نشانی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر دان میں اگر بتی جلا کر بلا ضرورت مشعلیں و پنچ و شاخ وغیرہ روشن کر کے جنازہ کے ساتھ لے کر چلنا یا جنازہ کے ہمراہ ککڑ والوں کا آگ لے کر چلنا ممنوع ہے۔ یہاں تک کہ میں آرام پا جاؤں، کا مطلب یہ ہے کہ قبر پر تمہاری دعائے استقامت و مغفرت، ذکر و قرأت قرآن کریم اور استغفار و ایصال ثواب کی وجہ سے سوال و جواب کے مرحلہ سے میں باآسانی گزر جاؤں اور قبر میں اللہ کی رحمتوں سے ہمکنا ہوجاؤں۔ چناچہ ابوداؤد کی ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ جب کسی مردہ کی تدفین سے فارغ ہوجاتے تو اس کی قبر پر کھڑے ہوجاتے اور صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے لئے دعائے استقامت و اثبات مانگو کیونکہ اس وقت قبر میں اس سے سوال و جواب ہو رہا ہے۔

【26】

تدفین میں جلدی کرنی چاہئے

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اسے محبوس نہ رکھو بلکہ اس کی قبر تک اسے جلد پہنچا دو نیز یہ بھی چاہئے کہ (قبر پر کھڑے ہو کر) اس کے سر کے قریب سورت بقرہ کی ابتدائی آیتیں (یعنی شروع سے مفلحون تک) اور پاؤں کے قریب سورت البقرہ کی آخری آیتیں یعنی آمن الرسول سے آخرت تک کی آیتیں پڑھی جائیں۔ (بیہقی نے اس روایت کو شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ روایت حضرت عبداللہ پر موقوف ہے۔ تشریح اسے محبوس نہ رکھو، بغیر کسی عذر کے میت کو دفن کرنے میں تاخیر نہ کرو بلکہ جہاں تک ہو سکے جلد سے جلد میت کو اس دنیا کی آخری آرام گاہ قبر تک پہنچا دو ، چناچہ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص مرجائے تو اس کی تدفین و تکفین میں جلدی کرنا مستحب ہے فلاتحسبو کے بعد کا جملہ واسرعوا بہ یا تو اس سے پہلے جملہ کی تاکید کے طور پر لایا گیا ہے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے یا پھر اس جملہ سے اس طرف اشار فرمایا جا رہا ہے کہ جب جنازہ لے کر چلیں تو جلدی چلنا سنت ہے یعنی جنازہ لے کر درمیانی چال کے ساتھ چلا جائے نہ تو دوڑنا چاہئے اور نہ بالکل ہی آہستہ آہستہ چلنا چاہئے۔

【27】

ایصال وثواب کی فضیلت

حضرت امام احمد بن حنبل (رح) فرماتے ہیں کہ جب تم قبرستان جاؤ تو وہاں سورت فاتحہ، معوذتین اور قل ہو اللہ احد پڑھ کر اس کا ثواب اہل قبرستان کو پہنچاؤ جو انہیں پہنچ جاتا ہے۔ ایصال ثواب کے لئے قبروں پر جانے سے اہل قبر یعنی میت کے لئے تو یہ مقصود ہے کہ وہ ایصال ثواب اور دعائے مغفرت وغیرہ سے فائدہ حاصل کرے اور قبر پر جانے والے کے لئے اس لئے بہتر ہے کہ وہاں پہنچ کر وہ عبرت حاصل کرے۔ حضرت علی (رض) سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ جو شخص قبرستان جائے اور وہاں قل ہو اللہ احد گیارہ مرتبہ پڑھ کر اس کا ثواب اہل قبرستان کو بخشے تو اسے قبرستان میں مدفون مردوں کی تعداد کے بقدر ثواب ملتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص قبرستان جائے اور سورت فاتحہ قل ہو اللہ احد اور الہٰکم التکاثر پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کرے کہ میں نے تیرے کلام پاک میں سے جو کچھ اس وقت پڑھا ہے اس کا ثواب اس قبرستان میں مدفون مومنین اور مومنات کو پہنچاتا ہوں۔ تو قبرستان میں مدفون مردے اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کرنے والے ہوجاتے ہیں۔ حضرت حماد مکی (رح) اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات مکہ کے ایک قبرستان جا پہنچا اور وہاں ایک قبر پر سر رکھ کر سو رہا اچانک خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ اہل قبرستان یعنی مردے مختلف ٹکڑیوں میں حلقہ بنائے بیٹھے ہیں میں نے کہا کہ کیا قیامت قائم ہوگئی ہے ؟ جو تم سب قبروں سے باہر نکلے بیٹھے ہو انہوں نے کہا کہ نہیں، بلکہ ہمارے بھائیوں میں سے ایک شخص نے قل ہو اللہ احد پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخشا ہے لہٰذا اب ہم لوگ ایک برس سے یہاں بیٹھے ہوئے اسی ثواب کو آپس میں تقسیم کر رہے ہیں۔ حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص قبرستان جائے اور وہاں بغرض ایصال ثواب سورت یٰسین تلاوت کرے تو اللہ تعالیٰ اہل قبرستان کے عذاب میں کمی کرتا ہے اور اس شخص کو قبرستان میں مدفون مردوں کی تعداد کے بقدر نیکیاں دی جاتی ہیں۔ حضرت امام شافعی کا قول علامہ سیوطی جو شافعی المذہب ہیں، شرح الصدور میں لکھا ہے کہ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ قرآن پڑھ کر اگر اس کا ثواب میت کو بخشا جائے تو آیا وہ ثواب پہنچتا ہے یا نہیں ؟ چناچہ جمہور سلف یعنی صحابہ وتابعین پہلے زمانہ کے علماء اور تینوں ائمہ تو یہ کہتے ہیں کہ میت کو اس کا ثواب پہنچتا ہے مگر ہمارے امام حضرت شافعی نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے۔ بھر اس کے بعد سیوطی نے امام شافعی کے دلائل کے کئی جواب لکھ کر یہ بات ثابت کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بدنی اعمال و عبادات کا ثواب جیسے نماز روزہ اور قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ کسی میت کو بخش دے تو اس میت کو اس کا ثواب ملتا ہے (اس بارے میں مزید تحقیق کے لئے شرح الصدور یا مرقات دیکھی جاسکتی ہے۔

【28】

حضرت عائشہ (رض) اپنے بھائی کی قبر پر

حضرت ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر کا حبشہ میں جو ایک مقام ہے انتقال ہوا تو ان کی نعش کو مکہ لایا گیا اور وہاں انہیں دفن کیا گیا، جب حضرت عائشہ صدیقہ حج کے لئے مکہ تشریف لائیں تو اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن کی قبر پر بھی گئیں اور وہاں یہ شعر پڑھے وکنا کندمانی جذیمۃ حقبۃ من الدہر حتی قیل لن یتصدعا فلما تفرقنا کانی ومالکا لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا یعنی ہم دونوں جذیمہ کے دونوں ہمنشینوں کی طرف ایک مدت دراز تک زمانہ سے جدا نہیں ہوئے یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ یہ دونوں تو کبھی جدا نہیں ہوں گے لیکن جب ہم دونوں یعنی میں اور مال ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو طویل زمانہ تک ساتھ رہنے کے باوجود گویا ایک رات کے لئے بھی یکجا نہ ہوئے اس کے بعد حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! اگر تمہارے انتقال کے وقت میں موجود ہوتی تو تم وہیں دفن کئے جاتے جہاں تمہارا انتقال ہوا تھا کیونکہ میت کو اس جگہ سے کہ جہاں اس کا انتقال ہوا ہو دوسری جگہ منتقل نہ کرنا سنت اور افضل ہے نیز یہ کہ اگر میں انتقال کے وقت تمہارے پاس موجود ہوتی تو اس وقت تمہاری قبر پر نہ آتی۔ (ترمذی) تشریح حبشی مکہ کے قریب ایک موضع کا نام تھا، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ مکہ سے ایک منزل کا نام ہے۔ حضرت عائشہ (رض) جب اپنے بھائی کی قبر پر گئیں تو وہاں انہوں نے اپنے بھائی کے فراق میں حسب حال دو شعر پڑھے یہ اشعار تمیم بن نویرہ نے اپنے بھائی مالک بن نویرہ کے مرثیہ میں کہے تھے جسے خالد بن ولید نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کے زمانہ میں قتل کردیا تھا۔ ان اشعار میں تمیم بن نویرہ نے خود کو اور اپنے بھائی کو جزیمہ کے دو ہم نشینوں کے ساتھ مشابہت دی ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ کسی زمانہ میں عراق کا ایک بادشاہ تھا جس کا نام جذیمہ تھا۔ جزیرہ عرب بھی اس کے تصرف میں تھا، اس بادشاہ کے دو ہم نشین تھے جو دونوں ہم نشین اور ندیم رہے ان دونوں بھائیوں کو نعمان نے مار ڈالا۔ ان کے قتل کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے جو مقامات حریری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ بہرحال تمیم اپنے بھائی کے مرثیہ میں کہہ رہا ہے کہ میں اور تم دونوں ہم نشین اور آپس میں انتہائی گہرا تعلق اور محبت رکھنے والے تھے اور ہم دونوں میں ایک طویل زمانہ تک جدائی کی نوبت نہیں آئی تھی جیسا کہ جذیمہ کے دونوں ہم نشین آپس میں اتنے طویل عرصہ تک انتہائی گہرا اخلاص و محبت اور ہم نشینی رکھتے تھے کہ لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر کہتے تھے کہ یہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ پھر تمیم کہتا ہے کہ جب مالک کی موت ہوئی اور اس طرح ہم دونوں میں دائمی جدائی ہوگئی تو اب اس کے باوجود کہ ہم دونوں ایک طویل زمانہ تک ایک ساتھ رہے مگر اب مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گویا ہم دونوں ایک رات کے لئے بھی یکجا اور ایک ساتھ نہیں رہے یعنی محبت و یکجائی کا وہ طویل زمانہ چند لمحوں میں سمٹا ہوا یا کہ ایک خواب محسوس ہو رہا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے الفاظ اگر میں انتقال کے وقت تمہارے پاس موجود ہوتی تو اس وقت تمہاری قبر پر نہ آتی مطلب یہ ہے کہ چونکہ نبی کریم ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو قبروں پر جائیں اس لئے میں یہاں قبر پر ہرگز نہ آتی مگر انتقال کے وقت چونکہ تمہاری زیارت نصیب نہیں ہوسکی تھی اس لئے مجبوراً اب قبر پر آگئی ہوں تاکہ میرا قبر پر آجانا آخری وقت میں تمہاری ملاقات کا قائم مقام بن جائے۔

【29】

امام شافعی کا مستدل

حضرت رافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت سعد کو جنازہ میں سے سر کی طرف سے نکالا (یعنی انہیں سر کی طرف سے قبر میں اتارا) اور ان کی قبر پر پانی چھڑکا۔ (ابن ماجہ) تشریح مردہ کو قبر میں اتارنے کے بارے میں حضرت امام شافعی کا مسلک بیان کیا جا چکا ہے۔ یہ حدیث ان کے اسی مسلک کی دلیل ہے حنفیہ کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یا تو یہ ضرورت پر یا پھر یہ کہ بیان جواز پر محمول ہے چناچہ اس کی پوری تفصیل اسی باب کی دوسری فصل میں حضرت ابن عباس کی روایت کی تشریح کے ضمن میں دیکھی جاسکتی ہے۔

【30】

سرہانے کی طرف سے مٹی ڈالنے کی ابتداء کرنا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی پھر اس کی قبر پر آئے اور سرہانے کی طرف سے قبر میں تین مٹھی مٹی ڈالی۔ (ابن ماجہ)

【31】

قبر پر سہارا دے کر لیٹنے یا بیٹھنے کی ممانعت

حضرت عمرو بن حزم (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے ایک قبر کے سہارے (لیٹے یا بیٹھے ہوئے) دیکھا تو فرمایا کہ تم اس قبر والے کو ایذاء نہ دو یا یہ فرمایا کہ اسے ایذاء نہ دو (احمد) تشریح ایذاء سے غالباً مراد یہ ہے کہ قبر پر سہارا دے کر لیٹنے یا بیٹھنے سے صاحب قبر کی روح ناخوش ہوتی ہے کیونکہ اس طرح اس کی حقارت لازم آتی ہے۔