29. میت پر رونے کا بیان

【1】

میت پر رونے کا بیان

کسی عزیز و رشتہ دار اور دوست و متعلق شخص کی دائمی جدائی پر رنج و غم اور حسرت و افسوس کا ہونا ایک فطری بات ہے مرنے والا جتنا زیادہ قریب اور عزیز ہوگا۔ رنج و غم کی گھٹائیں اتنی ہی مہیب ہوں گی یہ ناممکن ہے کہ اپنے عزیز و متعلقین میں سے کسی کا انتقال ہوجائے اور دل روئے نہیں، آنکھیں آنسو بہائیں نہیں اور چہرہ رنج و الم اور حسرت و غم کی تصویر نہ بن جائے پھر اس فطری رنج و غم کا دوسرا رخ اظہار غم بھی ہے آنسو بہاتی آنکھیں اس کیفیت کا اظہار کرتی ہیں جو دل پر احساس جدائی کی سیاہ چادر تان دیتی ہے اور چہرہ رنج و غم کی برستی ہوئی گھٹا ان جذبات کی غمازی کرتی ہے جو رگ رگ میں دائمی فراق کی چنگاریاں بھر دیتے ہیں اسلام نے چونکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اعتدال کی راہ دکھائی ہے اور پیغمبر اسلام نے کیا خوشی اور کیا غم ہر مرحلہ پر انسانی وقار اور رکھ رکھاؤ کا معیار برقرار رکھا ہے اس لئے کیسے ممکن تھا کہ انسانی برادری کے اس جذباتی و فطری نازک موڑ پر راہنمائی نہ کی جاتی لہٰذا یہاں یہ باب قائم کر کے یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس مرحلہ پر آنحضرت ﷺ کی مقدس تعلیم اور آپ کا عمل کیا تھا ؟

【2】

سے متعلق کچھ احکام ومسائل

کسی کے انتقال پر نوحہ اور چلائے بغیر رونا مکروہ نہیں ہے چلا کر اور نوحہ کے ساتھ رونا نیز میت کی زائد اور دوراز حقیقت تعریف توصیف بیان کرنا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں مروج تھا مکروہ ہے البتہ میت کی واقعی اور حقیقی تعریف و توصیف بطور بیان کے ذکر کرنا مکروہ نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص مرجائے تو اس کے لواحقین سے اس کی تعزیت کرنی مستحب اور بڑی اچھی بات ہے اور تعزیت کا مفہوم یہ ہے کہ لواحقین کو صبر سکون کی تلقین کی جائے اور انہیں تسلی تشفی دی جائے۔ ایک سے زائد مرتبہ تعزیت نہ کی جائے انتقال کے تیسرے روز بطور خاص میت کے گھر جمع ہونا، کھانا پینا کرنا اور دوسری رسوم ادا کرنا کہ جسے ہماے یہاں تیجہ کہتے ہیں قطعی طور پر بدعت اور حرام ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ شریعت میں ان باتوں کی حقیقت نہیں ہے بلکہ میت کی وصیت کے بغیر اس کا مال خرچ کرنا یتیموں اور ورثاء کے مال میں تصرف کرنا جو بالکل ناجائز ہے۔ قاموس کے مصنف مجدد الدین نے سفر السعادۃ میں لکھا ہے کہ پہلے میت کے لئے صرف یہ طریقہ تھا کہ لوگ نماز جنازہ کے لئے جمع ہوتے تھے لہٰذا اب یہ طریقہ دن اور رات متعین کر کے اور غیر ضروری تکلفات کر کے قرآن خوانی اور ختم وغیرہ کے لئے قبر پر یا کسی دوسری جگہ لوگوں کو جمع کرنا بدعت ہے۔ تعزیت قبول کرنے کے لئے گھر میں یا مسجد میں بیٹھے رہنا جائز ہے۔ چناچہ منقول ہے کہ جب حضرت جعفر، حضرت زید اور حضرت ابن رواحہ (رض) کے بارے میں آنحضرت ﷺ کو یہ اطلاع ملی یہ تینوں حضرات غزوہ موت میں یکے بعد دیگرے شہید ہوگئے ہیں تو آپ انتہائی رنج و غم کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھ گئے وہیں تعزیت کرنے والے آتے اور آپ سے تعزیت کر کے چلے جاتے ہاں متعین دنوں اور متعین تاریخوں میں تعزیت کا وہ طور طریقہ جو بعد میں رائج ہوگیا اس وقت نہیں تھا۔ بعد کے بہت سے علماء لکھتے ہیں کہ (دفن کے بعد) میت کے گھر تعزیت کے لئے بطور خاص جمع ہونا مکروہ ہے اور یہ بات تو سخت مکروہ ہے کہ میت کے اہل و عیال صرف اسی مقصد کے لئے گھر کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور لوگ وہاں جمع ہو کر تعزیت کریں کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ اس بارے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر چکیں تو منتشر ہوجائیں اور اپنے اپنے کام کاج میں لگ جائیں اسی طرح میت کے اہل و عیال کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے اپنے کاروبار میں مشغول ہوجائیں۔ اسی طرح قبر کے چاروں طرف حلقہ باندھ کر قرآن خوانی مکروہ ہے۔ تعزیت کرنے کا وقت مرنے کے بعد صرف تین دن تک ہے تین دن کے بعد تعزیت کرنا مکروہ ہے ہاں اگر تعزیت کرنے والا یا غمزدہ موجود نہ ہو تو پھر اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جب بھی ملاقات ہو اسی وقت تعزیت ادا کی جائے۔ میت کو دفن کرنے کے بعد تعزیت کرنا دفن سے پہلے تعزیت کرنے سے اولیٰ ہے مگر یہ سلسلہ اس صورت میں ہے جب کہ میت کے اہل و عیال میں بہت زیادہ جزع فزع اور اظہار رنج و غم زیادہ شدید نہ ہو۔ اگر اہل و عیال زیادہ جزع و فزع میں مبتلا ہوں تو پھر دفن سے پہلے ہی تعزیت اولیٰ ہوگی۔ عمومی طور پر میت کے تمام اقا رب خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، مرد ہوں یا عورت سب ہی سے تعزیت کرنا مستحب ہے ہاں اگر عورت جوان ہو تو اس سے تعزیت نہ کی جائے، البتہ اس عورت کے محرم اس سے بھی تعزیت کرسکتے ہیں۔

【3】

تعزیت کے وقت کیا الفاظ کہے جائیں

مستحب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اہل میت سے تعزیت کرے تو اس سے صبر و تسلی کے اس قسم کے الفاظ کہے اللہ تعالیٰ مرنے والے کو اپنی مغفرت و بخشش سے نوازے، اسی کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اس پر اپنی رحمت کا سایہ کرے، سانحہ ارتحال کے اس سخت حادثہ پر تم سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے اور تم سب کو اس رنج و مصیبت کے بدلہ میں ثواب عطا فرمائے۔ تعزیت کے لئے بہترین الفاظ وہی ہیں جو آنحضرت ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ ان للہ مااخذ ولہ ما اعطی وکل چیز عندہ باجل مسمی وہ چیز بھی اللہ ہی کی ملکیت ہے جو اس نے لے لی ہے اور وہ چیز بھی اسی کی ملکیت میں ہے جو اس نے دے رکھی ہے اور اس کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اگر کوئی غیر مسلم مرجائے اور اس کا قرابتی مسلمان ہو تو اس سے تعزیت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بہت زیادہ ثواب عطا فرمائے اور تمہیں بہترین صبر و سکون کی دولت سے نوازے اور اگر میت مسلمان ہو اور قرابتی غیر مسلمان تو اس سے اس طرح کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کو بخشش و مغفرت سے نوازے اور تمہیں صبر و سکون عطا فرمائے۔ اور اگر میت اور قرابتی دونوں ہی غیر مسلم ہوں تو تعزیت ان الفاظ کے ذریعہ کی جائے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بدلہ عطا فرمائے اور تمہارے اہل و عیال میں کمی نہ فرمائے۔ احساس رنج وغم پر تین دن تک اپنے کاروبار چھوڑ کر گر میں بیٹھے رہنا اگرچہ جائز ہے لیکن اس کا ترک اولیٰ ہے۔ اظہار رنج وغم کے لئے مردوں کو سیاہ کپڑا پہننا، رنج و مصیبت کے وقت کپڑے پھاڑ ڈالنا، چاک گریباں ہوجانا یہ سب چیزیں ممنوع ہیں ہاں اگر عوتیں سیاہ کپڑے پہنیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کسی کے انتقال پر حد سے زیادہ جزع وفزع کرنا اور خواہ مخواہ کے ہنگامے کرنا مثلاً منہ اور ہاتھوں کو کالا کرنا، چاک گریباں ہوجانا، منہ نوچنا، بالوں کو بکھیر ڈالنا، سر پر مٹی ڈالنا، راتوں کو پیٹنا، سینہ کو بی کرنا اور قبروں پر آگ روشن کرنا یہ سب باتیں زمانہ جاہلیت کی رسوم اور انتہائی غلط و باطل ہیں ان سے بچنا بہت ضروری ہے۔ جس گھر میں میت ہوجائے وہاں کھانا پکا کر بھیجنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اسے اس طرح ضروری اور لازم جان لینا کہ خواہ اس کے لئے ادھا قرض ہی کیوں نہ کرنا پڑے انتہائی غلط بات ہے اسی طرح تیسری روز یعنی تیجہ میں لوگوں کو بطور خاص مدعو کرنا اور برادری والوں کو کھانا کھلانا بھی بڑی بری بات اور بےفائدہ چیز ہے۔ یہ بات بطور خاص یاد رکھیے کہ جو لوگ تیجہ کے نام پر جو کچھ خرافات اور اور واہیات حرکتیں کرتے ہیں وہ انتہائی گمراہی میں مبتلا ہیں مثلاً موت کے تیسرے دن اس طرح انتظامات کئے جاتے ہیں کہ شادی بیاہ میں بھی کیا انتظامات ہوتے ہوں گے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے برادری والے جمع ہوتے ہیں فرش بچھتے ہیں، خیمے کھڑے کئے جاتے ہیں خوشبوئیں بانٹی جاتی ہیں یہ سب باتیں بدعت اور انتہائی گمراہ کن ہیں ان واہیات اور خرافات سے اجتناب ضروری ہے۔ نصاب میں لکھا ہے کہ جن جگہوں پر یہ رسم جاری ہے کہ مرد موت کے تیسرے دن خوشبو لگاتے ہیں وہ عورتوں کے ساتھ مشابہت میں مبتلا ہیں کیونکہ عورتیں تیسرے روز سوگ ختم کرنے کے لئے خوشبو لگاتی ہیں لہٰذا اس سے بھی پرہیز کرنا چاہئے لیکن یہ ممانعت خوشبولگانے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس طرح اس وقت عورتوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور شریعت نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔ آداب تعزیت یہ ہیں کہ جب کوئی شخص میت کے گھر تعزیت کے لئے جائے تو وہاں اہل خانہ کو سلام کرے، مصافحہ کرے ان کے ساتھ انتہائی تواضع اور نرمی کے ساتھ بات چیت کرے، بےفائدہ اور زیادہ گفتگو نہ کرے بلکہ صرف تسلی اور اطمینان اور صبروسکون کے الفاظ کہے اور ہنسنے مسکرانے سے پرہیز کرے۔

【4】

صاحبزادے کی وفات پر آنحضرت ﷺ کا غم

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہم رسول کریم ﷺ کے ہمراہ ابوسیف لوہار کے گھر گئے جو (آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم کی دایہ کے شوہر تھے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابراہیم کو (گود میں) لے کر بوسہ لیا اور سونگھا (یعنی اپنا منہ اور ناک ان کے منہ پر اس طرح رکھی جیسے کوئی خوشبو سونگھتا ہے) اس واقعہ کے کچھ دنوں کے بعد ہم پھر ابوسیف کے یہاں گئے جب کہ حضرت ابراہیم حالت نزع میں تھے چناچہ (ان کی حالت دیکھ کر) آنحضرت ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، حضرت عبدالرحمن بن عوف نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ رو رہے ہیں ! آپ نے فرمایا اے ابن عوف (آنسو کا بہنا) رحمت ہے۔ اس کے بعد پھر آپ ﷺ کی مبارک آنکھیں آنسو بہانے لگیں آپ نے فرمایا آنکھیں آنسو بہا رہی اور دل غمگین ہے مگر اس کے باوجود ہماری زبانوں پر وہی الفاظ ہیں جن سے ہمارا پروردگار راضی رہے اے ابراہیم ہم تیری جدائی سے بیشک غمگین ہیں۔ تشریح ابوسیف کا نام براء تھا اور ان کی بیوی کا نام خولہ منذر تھا جو انصاریہ اور آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی دایہ تھیں ان کا گھرانہ پیشہ کے لحاظ سے لوہا تھا۔ حضرت ابراہیم صرف سولہ سترہ مہینے کے تھے کہ انتقال کر گئے چناچہ اس حدیث میں ان کی حالت بیماری و نزع کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ ان کی دایہ کے گھر گئے اور انہیں گود میں لے کر پیار کیا اور جب ان کا آخری وقت دیکھا تو رونے لگے اسی وجہ سے حضرت عبدالرحمن نے عرض کیا کہ اس قسم کے رقت انگیز مواقع پر لوگ تو روتے ہی ہیں مگر آپ کی عظمت شان اور کمال معرفت سے یہ بعید ہے کہ آپ روئیں۔ اس کا جواب آنحضرت ﷺ نے یہ دیا کہ یہ رحمت ہے۔ یعنی میری آنکھیں بےصبری کی وجہ سے آنسو نہیں بہا رہی ہیں جیسا کہ تم سمجھ رہے ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بچہ کو اس حالت میں دیکھ کر جذبہ رحم امنڈ رہا ہے جو آنسوؤں کی شکل میں آنکھوں سے بہہ رہا ہے۔ دل غمگین ہے، میں اس طرح اشارہ ہے کہ جو شخص ایسے موقع پر بھی غمگین نہ ہو اور اس کا دل غم کی کسک محسوس نہ کرے اس کے سینہ میں دھڑکتا ہوا دل نہیں ہے بلکہ پتھر کا ایک ٹکڑا ہے جب کہ نظروں کے سامنے لخت جگر دم توڑ رہا ہو ایسے نازک موقع پر بھی آنکھیں آنسو نہ بہائیں تو یہ صبر و ضبط نہیں ہے بلکہ اس احساس محبت و مروت اور جذبہ ترحم کا فقدان ہے لہٰذا یہ حال یعنی غمگین ہونا اہل کمال کے نزدیک کامل تر ہے یہ بنسبت اس چیز کے کہ بچہ کی موت ہوجائے اور چہرہ پر بشاشت و اطمینان کی لہریں دوڑ رہی ہوں۔

【5】

نواسے کا انتقال پر آنحضرت ﷺ کے آنسو

حضرت اسامہ بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی (حضرت زینب) نے آپ ﷺ کے پاس کسی کے ذریعہ سے یہ پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا دم توڑ رہا ہے اس لئے (فورا) آپ ﷺ میرے پاس تشریف لے آئیے۔ آنحضرت ﷺ نے (اس کے جواب میں) سلام کے بعد کہ کہلا بھیجا کہ جو چیز (یعنی اولاد وغیرہ) اللہ نے لے لی وہ بھی اسی کی تھی اور جو چیز اس نے دے رکھی ہے وہ بھی اسی کی ہے (لہٰذا ان کے اٹھ جانے پر جزع و فزع نہ کرنا چاہئے کیونکہ چاہئے کیونکہ اس کی امانت تھی جسے اس نے واپس لے لیا) اور اس (خدا) کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے (یعنی تمہارے بیٹھے کی زندگی اتنے ہی دنوں کے لئے لکھی گئی تھی جتنے دن کہ وہ زندہ رہا۔ بس تمہیں صبر کرنا اور اللہ سے ثواب کا طلب گار رہنا چاہے۔ حضرت زینب نے دوبارہ آدمی بھیجا اور (اس مرتبہ) انہوں نے آنحضرت ﷺ کو قسم دی کہ ضرور ہی تشریف لائیے چناچہ آپ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے حضرت سعد بن عبادہ حضرت معاذ بن جبل حضرت ابی بن کعب حضرت زید بن ثابت اور صحابہ میں سے دوسرے لوگ آپ کے ساتھ ہو لئے جب آپ صاحبزادی کے ہاں پہچے تو بچہ آپ کی گود میں دے دیا گیا جو جان کنی کی حالت میں تھا اسے دیکھ کر آنحضرت ﷺ کی آنکھیں آنسو بہانے لگیں حضرت سعد نے کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ یہ رحمت ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا فرمایا ہے اچھی طرح سن لو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے صرف انہیں لوگوں پر رحمت یعنی مہربانی کرتا ہے جو جذبہ ترحم رکھنے والے ہیں۔ (بخاری) تشریح حضرت سعد نے چونکہ یہ گمان کیا کہ رونے کی تمام اقسام حرام و مکروہ ہیں اور آنحضرت ﷺ اس وقت سہوا رو رہے ہیں اس لئے آنحضرت ﷺ نے انہیں آگاہ کیا کہ رونے کی تمام اقسام حرام و مکروہ نہیں ہے بلکہ اس طرح رونا تو اس جذبہ ترحم کی علامت ہے جو دل میں امنڈ رہا ہوتا ہے ہاں نوحہ کے ساتھ رونا، چاک گریبان ہونا اور سینہ پیٹنا البتہ حرام و ممنوع ہے۔

【6】

باآواز بلند رونا برا ہے

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبداللہ بن مسعود بھی آپ کے ساتھ تھے، جب آپ ﷺ ان کے پاس پہنچے تو انہیں بےہوشی کی حالت پایا آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا ان کا انتقال ہوگیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! نہیں۔ آپ ﷺ (سعد کی حالت دیکھ) رونے لگے جب صحابہ نے آپ کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی رونے لگے پھر آپ نے فرمایا۔ اچھی طرح سن لو ! کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کے آنسو بہانے اور دل کے غمگین ہونے پر عذاب نہیں کرتا آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا البتہ اللہ اس کی وجہ سے عذاب بھی کرتا ہے اور رحم بھی یعنی اگر کسی حادثہ و مصیبت کے وقت زبان سے ناشکری کے یا بارگاہ الوہیت میں بےادبی کے الفاظ نکلیں یا نوحہ کر کے رویا جائے تو یہ مستحق عذاب ہے اور اگر ایسے موقع پر زبان حمد و شکر میں مشغول رہے اور انا للہ پڑھا جائے تو مستحق رحمت وثواب ہے نیز مردہ کو اپنے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر مردہ کے اہل و عیال اور اس کے گھر والے باآواز بلند یعنی پکار پکار روتے ہیں یا نوحہ کرتے ہیں تو اس مردہ کو عذاب ہوتا ہے، اس مسئلہ کی تحقیق تیسری فصل میں آئے گی انشاء اللہ۔

【7】

باآواز بلند رونا برا ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص ہمارے راستے پر چلنے والوں میں سے نہیں ہے جو رخساروں کو پیٹے، گریبان چاک کرے اور ایام جاہلیت کی طرح آواز بلند کرے (یعنی رونے کے وقت زبان سے ایسے الفاظ اور ایسی آواز نکالے جو شرعا ممنوع ہے جیسے نوحہ یا واویلا کرنا وغیرہ وغیرہ۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہاں رخساروں کو پیٹنے اور گریبان چاک کرنے والے کے لئے جو وعید فرمائی جا رہی ہے یہی وعید اس شخص کے لئے بھی ہے جو سر سے پگڑی و ٹوپی اتار پھینکے یا سر اور داڑھی کے بال نوچنے لگے کیونکہ ان سب چیزوں کا ایک ہی حکم ہے۔

【8】

باآواز بلند رونا برا ہے

حضرت ابی بردہ کہتے ہیں (ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ بےہوش ہوگئے تو ان کی عورت ام عبداللہ چلا چلا کر رونے لگی جب حضرت ابوموسیٰ کو ہوش آیا تو انہوں نے کہا کہ کیا تمہیں نہیں معلوم ؟ کہ چلا چلا کر رونا کتنا برا ہے چناچہ راوی کہتے ہیں کہ پھر ابوموسیٰ ان سے یہ حدیث بیان کرنے لگے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو مصیبت و حادثہ کے وقت سر کے بال منڈائے چلاچلا کر روئے اور اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ (بخار ومسلم) حدیث کے الفاظ مسلم کے ہیں۔ تشریح زمانہ جاہلیت میں اس قسم کے افعال عورتوں سے سرزد ہوتے تھے لہٰذا مسلمانوں کو ان باتوں سے اچھی طرح پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ رسول کریم ﷺ ایسے شخص سے بیزار ہوتے ہیں جو ان غلط اور باطل چیزوں میں مبتلا ہوتا ہے۔

【9】

نوحہ کی برائی

حضرت ابومالک اشعری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا زمانہ جاہلیت کی چار باتیں ایسی ہیں جنہیں میرے امت کے (کچھ) لوگ نہیں چھوڑیں گے۔ (١) حسب پر فخر کرنا، (٢) نسب پر طعن کرنا (٣) ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنا (٤) نوحہ کرنا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا نوحہ کرنے والی عورت نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہیں کی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس کے جسم پر قطران اور خارش کا کرتا ہوگا۔ (مسلم) تشریح حسب ان خصلتوں کو کہتے ہیں جو اگر کسی مسلمان کے اندر موجود ہوں تو وہ ان کی موجودگی کی وجہ سے اپنے کو بہتر و اچھا سمجھتا ہے جیسے شجاعت و بہادری اور فصاحت وغیرہ۔ نسب پر طعن کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے نسب میں اس طرح عیب جوئی کی جائے کہ فلاں شخص کا باپ برا تھا اور فلاں شخص کا دادا کمتر تھا۔ چونکہ حسب پر فخر کرنے اور نسب پر طعن کرنے کی وجہ سے اپنی تعظیم و بڑائی اور دوسرے لوگوں کی حقارت لازم آتی ہے اس لئے یہ دونوں چیزیں ہی مذموم ہیں ہاں اسلام و کفر کے امتیاز کی بناء پر ان دونوں میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یعنی اگر کوئی مسلمان اپنے ایمان و اسلام کی وجہ سے اپنے آپ کو بزرگ اور بڑا جانے اور کسی کافر کو اس کے کفر کی وجہ سے حقیر و کمتر سمجھے تو یہ جائز ہے۔ ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنے سے مراد یہ ہے کہ ستاروں کی تاثیر پر بارش کی امید رکھنا یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ اگر فلاں ستارہ منزل میں داخل ہوجائے تو بارش ہوگی۔ اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اعتقاد رکھنا کہ فلاں ستارے کے فلاں منزل میں داخل ہونے کی وجہ سے بارش ہوگی، حرام ہے بلکہ جب بارش ہو تو یہ کہنا واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں بارش سے سیراب کیا ہے۔ نوحہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مرجائے تو اس پر واویلا کیا جائے اور میت کی اچھی خصلتیں رو رو کر اس طرح بیان کی جائے کہ ہائے وہ کتنا بہادر تھا، ہائے وہ ایسا تھا ہائے وہ ویسا تھا۔ قطران کو لتار کی مانند ایک دوا کا نام ہے جو سیاہ اور بدبو دار ہوتی ہے اور ابہل درخت سے کہ جو ہوبر بھی کہا جاتا ہے نکلتی ہے اس اونٹ کے جسم پر ملتے ہیں جسے خارش ہوجاتی ہے چونکہ اس کے اندر حرارت اور گرمی زیادہ ہوتی ہے اس لئے اونٹ کی خارش کو جلا دیتی ہے اس کا ایک خاص اثر یہ بھی ہے کہ آگ کا اثر بہت جلد قبول کرتی ہے اور جلدی ہی بھڑک اٹھتی ہے۔ ارشاد گرامی کے اس آخری جملہ کا مطلب یہ ہوا کہ نوحہ کرنے والی عورت اپنے برے فعل سے توبہ کئے بغیر مرگئی تو قیامت کے روز اس کے جسم پر خارش مسلمط کی جائے گی پھر اس پر قطران ملی جائے گی تاکہ اس کی خارش میں اور زیادہ سوزش وجلن پیدا ہو اور وہ زیادہ ایذاء پائے۔

【10】

نوحہ کی برائی

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے قریب چلا چلا کر رو رہی تھی آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے عذاب سے ڈرو ! یعنی نوحہ نہ کرو ورنہ عذاب میں مبتلا کی جاؤ گی۔ اور صبر کرو ! اس عورت نے آنحضرت ﷺ کو پہچانا نہیں آپ کا ارشاد سن کر کہنے لگی کہ میرے پاس سے دور ہٹو، تم میرا غم کیا جانو کیونکہ تم میری مصیبت میں گرفتار نہیں ہوئے ہو۔ (جب آنحضرت ﷺ وہاں سے چلے آئے) تو اسے بتایا گیا کہ یہ نبی کریم ﷺ تھے (پھر کیا تھا) وہ (بھاگی ہوئی) آنحضرت ﷺ کے دردولت پر حاضر ہوئی اسے دروازہ پر کوئی دربان و پہرہ دار نہیں ملا (جیسا کہ بادشاہوں اور امیروں کے دروازوں پر دربان و پہرہ دار ہوتے ہیں (پھر اس نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ میری گستاخی معاف فرمائیے) میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ صبر تو وہی کہلائے گا جو ابتداء مصیبت میں ہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح کتنا سچ اور مبنی برحقیقت ہے کہ جو بات کہی جا رہی ہے اسے دیکھو نہ دیکھو کہ بات کہنے والا کون ہے ؟ اس قول پر عمل نہ صرف یہ کہ سچائی اور نیکی کی راہیں روشن کرتا چلا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات خجالت و شرمندی سے بچاتا بھی ہے۔ اسی واقعہ پر نظر ڈالیے ایک عورت ایک غلط کام کر رہی ہے۔ آنحضرت ﷺ اسے نیکی و بھلائی کے راستہ پر لگانے کے لئے کچ ارشاد فرما رہے ہیں وہ عورت اتفاق سے آپ کو پہچانتی نہیں نہ صرف یہ کہ وہ آپ ﷺ کے ارشاد سے اعراض کرتی ہے بلکہ ایک غلط جواب بھی دیتی ہے جب بعد میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ مجھ سے وہ قیمتی بات کہنے والا کوئی ایرا خیرا نہیں تھا بلکہ خود رسالت مآب ﷺ کی ذات گرامی تھی تو اب اسے احساس ہوتا ہے کہ واقعی میں غلطی میں مبتلا تھی پشیمان ہو کر بھاگی ہو در رسالت پر حاضر ہوتی ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہے۔ اب دیکھیے اگر وہ اس عارفانہ قول کے مطابق آنحضرت ﷺ کو پہچانے بغیر آپ کے ارشاد گرامی کے سامنے سر اطاعت خم کردیتی تو نہ صرف یہ کہ نیکی و بھلائی کے راستہ کو اسی وقت پا لیتی بلکہ بعد کی خجالت و شرمندگی سے بھی بچ جاتی۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ کامل اور پسندیدہ صبر کہ جس پر ثواب ملتا ہے وہی ہوتا ہے جو ایذاء و مصیبت میں کیا جائے ورنہ آخر میں تو خود بخود صبر آجاتا ہے بعد میں کسی نے صبر کیا تو کیا صبر کیا ؟۔

【11】

نوحہ کرنا حرام ہے

مذکورہ بالا حدیثوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نوحہ کرنا اور میت کی عمدہ خصلتوں کو رو رو کر بیان کرنا نیز چلا کر رونا، رخساروں کو پینا، گریبان پھاڑنا، بالوں کو بکھیرنا، مونڈنا اور نوچنا، منہ کالا کرنا، سر پر مٹی ڈالنا اور ایسی تمام چیزیں جو بےصبری پر دلالت کریں حرام ہیں۔

【12】

جس مسلمان کے تین بچے مرجائیں وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس مسلمان کے تین بچے اللہ کو پیارے ہوجائیں وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا ہاں قسم پوری کرنے کے لئے کیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری جملہ ہاں قسم پوری کرنے کے لئے جائے گا سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد آیت (وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا) 19 ۔ مریم 71) کی طرف اشارہ ہے گویا اصل میں یہ آیت یوں ہے آیت (وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا) 19 ۔ مریم 71) یعنی اللہ کی قسم ! تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو دوزخ میں داخل نہ ہو اگرچہ وہ بجلی یا ہوا کی طرح ایک ہی لمحہ کے لئے کیوں نہ داخل ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوزخ کے اوپر پل صراط قائم کیا جائے گا ظاہر ہے کہ اس کے اوپر سے ہر شخص گزرے گا خواہ وہ مسلمان کافر اور خواہ نیک ہو یا بد فرق صرف اتنا ہوگا کہ جو بدکار ہوں گے وہ اس کے ذریعہ ایذاء پائیں گے بایں طور کہ وہ پل صراط کے اوپر سے دوزخ میں گرپڑیں گے اور نیکوکار کوئی ایذاء نہیں پائی گے بایں طور کے وہ اس کے اوپر سے گزر کر جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس مسلمان کے تین بچے مرجائیں گے وہ دوزخ میں داخل کیا جائے ہاں صرف اتنے لمحہ کے لئے تو اس کا دوزخ تک جانا ممکن ہے کہ اللہ کی قسم پوری ہوجائے اور وہ مختصر لمحہ بھی صرف پل صراط کے اوپر سے گزرنے کا وقفہ ہے یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دوزخ کے اندر داخل کیا جائے گا اور عذاب پائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ کسی قسم کا عذاب نہیں پائے گا اور صرف پل صراط کے اوپر سے گزر جانا ہے اس آیت میں مذکور دخول دوزخ کا مصداق اور باری تعالیٰ کی قسم کے سچ اور پوری ہونے کے لئے کافی ہوگا۔ اہل عرف اپنی روزہ مرہ کی بول چال میں کہا کرتے ہیں کہ میں نے یہ کام اپنی قسم پوری کرنے کے لئے کیا یعنی اس کام کو صرف اس قدر کیا کہ اس کی وجہ سے قسم پوری ہوجائے اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے اس کام کا ادنیٰ ترین حصہ جو ایک قلیل ترین لمحہ میں گزر جائے کافی ہے۔

【13】

جس مسلمان کے تین بچے مرجائیں وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے کتنی ہی انصاری عورتوں سے فرمایا تم میں سے جس عورت کے بھی تین بچے مرجائیں اور وہ عورت ثواب کی طلبگار ہو تو وہ جنت میں داخل کی جائے گی۔ یہ سن کر ان میں سے ایک عورت نے عرض کیا کہ یا دو بچے مرجائیں یعنی اس بشارت کو تین کے ساتھ خاص نہ کیجئے بلکہ یہ فرمائیے کہ تین مرجائیں یا دو مریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا (ہاں) دو بچے بھی مرجائیں تو یہ بشارت ہے (مسلم بخاری و مسلم دونوں کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایسے تین بچے مریں جو حد بلوغ کو نہ پہنچے ہوئے ہوں (تو یہ بشارت ہے) تشریح ثواب کی طلبگار ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی عورت کے تین بچوں کو اپنے پاس بلا لے تو وہ ان کے مرجانے پر نوحہ اور جزع فزع نہ کرے بلکہ صبر و شکر کا دامن پکڑے رہے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر اللہ کی مرضی اور اس کی مصلحت کے آگے سر جھکا دے تو وہ بہشت میں داخل کی جائے گی۔ اب اس بارے میں دونوں ہی احتمال ہیں کہ یا تو اسے ابتداء ہی میں بغیر عذاب میں مبتلا کئے ہوئے جنت میں داخل کردیا جائے گا یا پھر یہ کہ ان بچوں کی سفارش و شفاعت کے بعد اسے جنت کی سعادت سے نوازا جائے گا۔ عورت کے عرض کرنے پر آنحضرت ﷺ کے ارشاد یا دو بچے مریں کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ جب آپ نے تین بچوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تو عورتوں نے تین کی تخصیص کو ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو بارگاہ صمدیت کی طرف سے آنحضرت ﷺ کی توجہ کے اثر سے رحمت الٰہی نے اس خواہش کو قبول فرما کر فورا ہی بذریعہ وحی مطلع کردیا کہ اگر دو بچے بھی مرجائیں تب بھی یہ سعادت حاصل ہوگی یا پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے اس بارے میں بطور خاص دعا مانگی اور حق تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا قبول ہوگئی چناچہ آپ ﷺ نے عورتوں کو وہ بشارت بھی سنا دی۔ دوسری روایت میں غیر بالغ کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ چھوٹے بچوں سے عورتوں کو بہت زیادہ محبت ہوتی ہے بڑے بچوں کی بہ نسبت چھوٹے بچے اپنی ماں سے زیادہ قریب اور محبوب ہوتے ہیں اس لئے ان کے مرنے سے طبعی طور پر عورت کو بہت زیادہ رنج و غم ہوتا ہے۔

【14】

عزیز ومحبوب کی موت پر صبر کی جزاء جنت ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی بندہ کے عزیز و محبوب کو جو اہل دنیا سے اٹھا لیتا ہوں اور وہ بندہ اس پر ثواب کا طلبگار ہوتا ہے (یعنی صبر کرتا ہے) تو میرے پاس اس کے لئے جنت سے بہتر کوئی جزاء نہیں ہے ۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا اہل دنیا میں سے کوئی عزیز محبوب جیسے اولاد باپ ماں یا ان کے علاوہ کوئی بھی ایسا شخص جسے وہ عزیز و محبوب رکھتا تھا انتقال کر جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو اس کے اس صبر کی بناء پر اللہ تعالیٰ اسے جنت عطا فرمائے گا۔ اہل دنیا، کی قید سے معلوم ہوا کہ اگر اہل آخرت میں سے کوئی عزیز و محبوب مرجائے اور اس پر صبر کیا جائے تو اس سے بھی بڑی سعادت ملتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوگا اور کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کا راضی ہوجانا اس کے حق میں دنیا و آخرت کی سب سے بڑی سعادت اور سب سے بڑی فضیلت ہے۔

【15】

نوحہ کرنے اور نوحہ سننے پر آنحضرت ﷺ کی لعنت

حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے نوحہ کرنے والی عورت اور نوحہ سننے والی عورت دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (ابو داؤد) تشریح نوحہ کرنے والی عورت سے مراد وہ عورت ہے جو میت کے عمدہ خصلتوں کو رو رو کر بیان کرے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ میت پر آواز کے ساتھ یعنی چلا چلا کر رونے کو نوحہ کہتے ہیں نوحہ سننے والی عورت سے وہ عورت مراد ہے جو نوحہ کرنے والی عورت کے پاس بیٹھ کر قصدا اس کا نوحہ سنے اور اس کے نوحہ کو پسند کرے۔

【16】

مومن مصیب وراحت ہر مرحلہ پر صابر وشاکر رہتا ہے

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مومن (کامل) کا عجب حال ہے اگر اسے راحت و بھلائی پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو جب بھی وہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے اور صبر کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ لہٰذا مومن کو اس کے ہر کام میں ثواب ملتا ہے یہاں تک کہ وہ جو لقمہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے (اس پر بھی ثواب ملتا ہے) (بیہقی) تشریح اس حدیث کے ذریعہ مومن کی فضیلت اور اس کے امتیاز کو بطور فخر بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ زندگی کے ہر مرحلہ پر خدائے واحد کا سپاس و شکر گزار رہتا ہے اگر اسے کوئی نعمت و راحت حاصل ہوتی ہے تو اللہ کی تعریف کرتا ہے اور اس کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت و تکلیف اپنے بازؤوں میں جکڑ لیتی ہے تو اس وقت بھی اس کی زبان حال و قال سے اللہ کا شکر ہی ادا ہوتا ہے اور اس کی تعریف و بڑائی بیان کر کے وہ اپنی عبودیت کا اظہار کرتا ہے چناچہ اسی لئے اللہ نے بھی مومن کو یہ سعادت عطا فرمائی ہے کہ اس کے ہر مباح کام پر ثواب عطا فرماتا ہے بشرطیکہ اگر وہ خیر و بھلائی اور ثواب کی نیت کے ساتھ وہ کام کرے یعنی مومن کوئی بھی مباح کام کرے اگر اس کی نیت بخیر ہوگئی تو اسے اس کام پر ثواب دیا جائے مثال کے طور پر یہاں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے اور لقمہ دیتے وقت اس کی یہ نیت ہو کہ اپنے اس حق کی ادائیگی کے لئے جو میرے ذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر بیوی کے منہ میں لقمہ دے رہا ہوں تو اس کا یہ معمولی سا مباح کام اس کے حق میں ثواب کے اعتبار سے ایک عظیم سعادت بن جاے گا۔

【17】

مومن کی موت پر زمین و آسمان روتے ہیں

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر مسلمان کے لئے دو دروازے ہیں ایک دروازہ تو وہ ہے جس سے اس کے نیک اعمال اوپر آجاتے ہیں اور دوسرا دروازہ وہ ہے جس سے اس کا رزق اترتا ہے چناچہ جب کوئی مومن مرتا ہے تو اس کے دونوں دروازے روتے ہیں اس بات کو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے سمجھا جاسکتا ہے کہ آیت (فما بکت علیہم السماء والارض) یعنی (کافروں) کے لئے کہ آسمان رویا نہ زمین روئی (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایک دروازہ تو وہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ مومن کے نیک اعمال جو زمین پر اس کے نامہ اعمال میں لکھے جا چکے ہیں آسمان پر جاتے ہیں اور پھر وہاں اعمال لکھنے کی وجہ دوبارہ اعمال نامہ میں لکھے جاتے ہیں، دوسرا دروازہ وہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ رزق زمین پر اترتا ہے اور جس کے مقدر میں جتنا ہوتا ہے اتنا پہنچتا ہے۔ لہٰذا جب کوئی مومن مرتا ہے تو دونوں دروازے روتے ہیں کیونکہ ایک دروازہ سے تو نیک اعمال اوپر جاتے تھے اور دوسرے دروازہ سے رزق اترتا تھا کہ جو نیک اعمال کے لئے معاون ہوتا ہے اس طرح دونوں دروازے مومن کے انتقال سے اس سعادت سے محروم ہوجاتے ہیں اور اپنی اس محرومی پر روتے ہیں۔ اس بات کو اس آیت کریمہ سے سمھایا گیا ہے بایں طور کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے حق میں فرمایا ہے کہ ان کے لئے نہ تو آسمان رویا نہ زمین روتی ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ مومن کے لئے آسمان بھی روتا ہے اور زمین بھی روتی ہے۔

【18】

مرجانے والی چھوٹی اولاد ذخیرآخرت ہوتی ہے

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے جس شخص کے دو بچے بالغ ہونے سے پہلے مرگئے اللہ تعالیٰ اسے ان دونوں بچوں کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا (یہ سن کر حضرت عائشہ نے پوچھا کہ اور آپ کی امت میں سے جس شخص کا ایک ہی بچہ مرا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے موفقہ ! جس شخص کا ایک بچہ مرا ہو اس کے لئے بھی یہ بشارت ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے پھر پوچھا کہ آپ ﷺ کی امت میں اگر جس شخص کا ایک بچہ بھی نہ مرا ہو ؟ تو اس کے لئے کیا بشارت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پھر میں تو اپنی امت کا میر منزل ہوں ہی کیونکہ میری (وفات کی) مصیبت جیسی کسی اور مصیبت سے دوچار نہ ہوئے ہوں گے۔ (ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح فرط اس شخص کو کہتے ہیں جو قافلہ سے پہلے منزل پر پہنچ کر اہل قافلہ کے لئے سامان خوردونوش تیار کرتا ہے یہاں اس حدیث میں مذکور فرط سے مراد وہ بچہ ہے جو بالغ ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو پیارا ہوجائے ایسے بچہ کو فرط اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آخرت میں پہلے پہنچ کر اپنے والدین کے لئے جنت کی نعمتوں کا انتظام کرتا ہے یعنی وہ اپنے ماں باپ کو اللہ رب العزت سے سفارش و شفاعت کر کے جنت میں لے جائے گا۔ ہاں حدیث کے آخری جملہ فانا فرط امتی الخ میں فرط سے فوت شدہ نابالغ بچے مراد نہیں ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ کو کمال تعلق اور ان کی ذات خصوصیت نیز ان کے اوصاف فضائل کی بنا پر موفقہ کہہ کر مخاطب کیا جو مجموعہ فضل و کمال لقب ہے اس کے معنیٰ ہیں کہ اے عائشہ کہ جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و بھلائی اور اچھی باتوں کے پوچھنے کی توفیق عطا کی گئی ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی امت کے میر منزل ہوں بایں طور کہ میں ان سے پہلے آخرت میں پہنچ کر شفاعت کروں گا اور ان کو جنت میں لے جاؤں گا کیونکہ ثواب مصیبت اور مشقت کے بقدر ہوتا ہے یعنی مصیبت و مشقت جتنی سخت و شدید ہوتی ہے اتنا ہی ثواب زیادہ ملتا ہے لہٰذا اس دنیا سے میرا اٹھ جانا اس کے لئے اتنی بڑی مصیبت اور اتنا بڑاحادثہ ہے کہ اور کوئی مصیبت نہیں ہوسکتی، لہٰذا میرے بعد میری امت کا ہر فرد حقیقۃً اور حکماً اس حادثہ و مصیبت سے دوچار ہوگا اس لئے جن لوگوں کی چھوٹی اولاد فوت ہو کر ان کے لئے ذخیرہ آخر نہ بھی ہوئی ہوگی تو میرے وصال کا یہ حادثہ ہی ان کے لئے مذکورہ بالا سعادت و بشارت کے طور پر کافی ہوگا۔

【19】

اولاد کے انتقال پر صبر وشکر کا اجر

حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کسی مومن بندے کا کوئی بچہ مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں یعنی ملک الموت اور اس کے معاون فرشتوں سے فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندہ کے بچہ کی روح قبض کی ہے ؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہاں ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا وہ عرض کرتے ہیں کہ جی ہاں ! پھر اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے اس حادثہ پر میرے بندہ نے کیا کہا ؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اس نے تیری تعریف کی اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کے لئے جنت میں ایک بڑا گھر بنادو اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دیا جاتا ہے۔ اس گھر کا نام بیت الحمد اس لئے ہوتا ہے کہ وہ مصیبت و حادثہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا تسلیم وانقیاد کے بدلہ میں دیا جاتا ہے اس مناسب سے اس کا نام بیت الحمد (یعنی حمد و ثنا کا مکان) ہے۔

【20】

مصیبت زدہ کو تسلی دینے والے کا ثواب

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مصیبت زدہ کو تسلی دیتا ہے تو اسے بھی مصیبت زدہ کے بقدر ثواب دیا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے ہم اس روایت کو علی بن عاصم کے علاوہ کسی دوسرے ذریعہ سے مرفوع نہیں پاتے نیز امام ترمذی یہ بھی فرماتے ہیں کہ بعض محدثین نے اس روایت کو محمد بن سوقہ سے اسی سند کے ساتھ ابن مسعود پر موقوف نقل کیا ہے۔ تشریح مصیبت زدہ، عام ہے خواہ کسی کے انتقال کی مصیبت میں مبتلا ہو یا اس کے علاوہ کسی دوسرے حادثہ یا مصیبت سے دوچار ہو بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو اطمینان و سکون دلاتا ہے اور اسے تسلی و تشفی دیتا ہے جو اپنے کسی عزیز و اقا رب کے انتقال پر یا کسی بھی مصیبت کی وجہ سے غم زدہ ہو تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ اس مصیبت زدہ کو صبر کرنے سے ملتا ہے کیونکہ تسلی دینے والا جب مصیبت زدہ کو اطمینان و سکون دلاتا ہے بایں طور کہ اسے صبر کی تلقین کرتا ہے اور پھر وہ شخص صبر کرتا ہے تو گویا یہ شخص مصیب زدہ کے صبر کا باعث بنتا ہے اس لئے الدال علی الخیر کفا علہ یعنی جو شخص اچھی بات کا راستہ بتاتا ہے اسے بھی اس راستہ پر چلنے والے کی مانند ثواب ملتا ہے کے بمصداق اسے بھی اجر وسعادت سے نوازا جاتا ہے۔ اب اس بارے میں عمومیت ہے کہ چاہے تو تسلی خود مصیبت زدہ کے پاس پہنچ کردی جائے یا اگر اس پر قدرت نہ ہو تو پھر خط لکھ کر یا کسی بھی دوسرے ذریعہ سے اطمینان و سکون دلایا جائے دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ حضرت امام ترمذی کے قول کے مطابق اگرچہ یہ روایت ابن مسعود پر موقوف ہے لیکن مرفوع ہی کے حکم میں ہے پھر یہ کہ اس کو ابن ماجہ کی اس روایت سے تقویت ملتی ہے جس کی سند حسن اور مرفوع ہے کہ۔ حدیث (ما من مسلم یعزی اخاہ بمصیبۃ الا کساہ اللہ من حلل الکرامۃ یوم القیامۃ) ۔ جو بھی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی مصیبت میں اسے صبر و سکون کی تلقین کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے بزرگی کا خلعت پہنائے گا۔

【21】

مصیبت زدہ کو تسلی دینے والے کا ثواب

حضرت ابوبرزہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اس عوت کو تسلی دے گا جس کا بچہ مرگیا ہو تو اسے جنت میں بہت عمدہ لباس پہنایا جائے گا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【22】

میت کے گھر کھانا بھیجنا مستحب ہے

حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ جب حضرت جعفر کے انتقال کی خبر آئی تو نبی کریم ﷺ نے اہل بیت سے فرمایا کہ جعفر کے اہل خانہ کے لئے کھانا تیار کرو کیونکہ انہیں ایک ایسا حادثہ پیش آیا ہے جو انہیں کھانا پکانے سے باز رکھتا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب کوئی شخص مرجائے تو اس کے رشتہ داروں اور ہمسائیوں کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ اہل و عیال کے لئے کھانا پکا کر بھیجیں اور کھانا بھی اتنا ہو کہ میت کے گھر والے اسے ایک دن اور ایک رات پیٹ بھر کر کھا سکیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ میت کے گھر اس کے عزیزوں اور ہمسائیوں کی طرف سے تین تک کہ جو ایام تعزیت ہیں کھانا بھیجتے رہنا جائز ہے۔

【23】

میت کے گھر بھیجا جانے والا کھانا دوسرے لوگ بھی کھا سکتے ہیں یا نہیں

اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ وہ کھانا جو میت کے گھر اس کے عزیزوں اور ہمسائیوں کی طرف سے آتا ہے میت کے گھر والوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو کھانا جائز ہے یا نہیں، چناچہ بعض علماء تو جواز کے قائل ہیں جب کہ بعض حضرات مثلاً ابوالقاسم کا قول یہ ہے کہ اس شخص کے کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جو میت کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہے۔ نیز علماء لکھتے ہیں کہ جب کسی میت کے گھر کھانا پکا کر بھیجا جائے تو اس موقع پر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ میت کے گھر والے کھانا کھا بھی لیں کیونکہ ایسے غمناک ماحول میں کھانے پینے کا کوئی دھیان نہیں رہتا خاص طور پر میت کے گھر والے غم و الم کی وجہ سے کھانا وغیرہ کی خواہش نہیں رکھتے اس لئے مناسب اور بہتر یہ ہے کہ انہیں کہہ سن کر کھانا ضرور کھلا دیا جائے تاکہ غم و الم کی زیادتی اور کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ضعف اور کمزوری میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ نوحہ کرنے والی عورتوں کے لئے کھانا تیار کرنا تاکہ لوگ جمع ہوں اور کھائیں بدعت و مکروہ ہے بلکہ اس کے بارے میں حضرت جابر (رض) سے تو یہ منقول ہے کہ ہم اسے نیاحت یعنی نوحہ کرنے کی ایک قسم شمار کرتے تھے۔ لہٰذا اس ارشاد سے تو اس چیز کا صریح حرام ہونا معلوم ہوتا ہے۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ اسی مقصد کے لئے میت کے گھر والوں کی طرف سے تیار کئے گئے کھانے میں شریک ہونا مکروہ ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ یہ کراہت اس شکل میں ہے جب کہ وہ کھانا اس مال سے تیار نہ کیا گیا ہو جو یتیم کا ہو یا اس شخص کی ملکیت ہو جو موجود نہ ہو اور اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرف کیا گیا ہو اور اگر کھانا ایسے مال سے تیار کیا گیا ہو جو یتیم یا غیر موجود شخص کی ملکیت میں ہو تو پھر اس کھانے میں شریک ہونا بغیر کسی اختلافی قول کے حرام ہے۔

【24】

میت کو نوحہ اور اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے

حضرت مغیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس میت کے لئے نوحہ کیا جاتا ہے اسے قیامت کے دن نوحہ کئے جانے کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم)

【25】

میت کو نوحہ اور اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے

حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) کہتی ہیں کہ اس وقت حضرت عائشہ (رض) یہ کہا گیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر یہ کہتے ہیں کہ میت کو اس پر زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو میں نے حضرت عائشہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بخشے ابوعبدالرحمن (یہ حضرت عبداللہ بن عمر کی کنیت ہے) کو ! جان لو کہ عبداللہ بن عمر نے جھوٹ نہیں بولا ہے بلکہ وہ بھول گئے ہیں آنحضرت ﷺ نے اس بارے میں ایک خاص موقع پر یہ ارشاد فرمایا تھا یا یہ کہ حضرت عبداللہ بن عمر کی اجتہادی خطا ہے کہ اس ارشاد سے عام حکم مراد لے رہے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک مرتبہ ایک یہودی عورت کی قبر کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہاں اس قبر پر لوگ رو رہے تھے یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے عزیز و اقا رب اس پر رو رہے ہیں اور وہ عورت اپنی قبر کے اندر عذاب میں مبتلا ہے۔ تشریح اللہ بخشے، اہل عرب میں یہ جملہ ایسے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب کہ کوئی شخص اپنی کسی بات اور گفتگو میں خطا کرتا ہے۔ حضرت عائشہ کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اس موقع پر آنحضرت ﷺ کے ارشاد سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کہ اس کے عزیز و اقا رب رو رہے ہیں اور وہ اپنی قبر کے اندر عذاب میں مبتلا ہے، کا مطلب صرف یہ تھا کہ یہ لوگ کتنے جاہل اور نادان ہیں کہ وہ بدبخت عورت تو اپنی قبر کے اندر اللہ کے عذاب میں مبتلا اور مطعون و خوار ہے جیسا کہ کافروں کا حال ہوتا ہے مگر یہ لوگ اسے مرحومہ سمجھ رہے ہیں اور اس سے محبت وتعلق کا اظہار کر رہا ہے لہٰذا آنحضرت ﷺ نے یہ بات بطور خاص اس یہودی عورت کے بارے میں فرمائی تھی اس طرح دوسرے کافروں کے بارے میں بھی یہی صورت حال ہوتی ہے کہ ان کے عزیز و اقا رب انہیں مرحوم سمجھ کر اور ان سے اپنے قلبی تعلق کا اظہار کر کے روتے ہیں پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے تو یہ بھی نہیں فرمایا تھا کہ وہ ان کے رونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہے۔ گویا حضرت عائشہ کے اعتراض کا حاصل یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے تو اس عورت کے کفر کی بناء پر فرمایا تھا کہ وہ اپنے کفر کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہے اور عبداللہ بن عمر یہ سمجھے کہ آنحضرت ﷺ نے بطور کلیہ کے یہ ارشاد فرمایا کہ میت اپنے اوپر زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کی جاتی ہے۔ یہ تو اس روایت کی وضاحت کی گئی ہے جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو علماء لکھتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت عائشہ (رض) کا یہ اعتراض بھی ان کے لئے اپنے اجتہاد پر مبنی ہے کیونکہ حضرت عائشہ کا یہ اعتراض اس وقت صحیح ہوسکتا ہے جبکہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد خاص طور پر صرف اسی موقع سے منقول ہوا ہو حالانکہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی مختلف الفاظ کے ساتھ اور حضرت عبداللہ بن عمر نیز دوسرے صحابہ کی متعدد روایتوں سے منقول ہے لہٰذا حضرت عائشہ کا یہ فرمانا کہ یہ ارشاد اس خاص موقع پر اور صرف اس یہودیہ کے بارے میں تھا کچھ سمجھ میں نہیں آیا ! بہرحال اس مسئلہ کی مزید وضاحت اگلی حدیث کی تشریح کے ضمن میں دیکھئے۔

【26】

میت کو نوحہ اور اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے

حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان کی صاحبزادی کا مکہ میں انتقال ہوا تو ہم لوگ ان کے یہاں آئے تاکہ نماز جنازہ اور تدفین میں شریک ہوں حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس بھی وہاں آئے میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا اتنے میں عبداللہ بن عمر نے حضرت عمروبن عثمان سے جو ان کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھے تھے کہا کہ تم اپنے گھروالوں کو آواز اور نوحہ کے ساتھ رونے سے منع کیوں نہیں کرتے ؟ کیونکہ رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ میت اپنے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے اس کے جواب میں کہا کہ حضرت عمر اس میں سے کچھ کہتے تھے یعنی آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی سے تو میت پر عام طور پر رونے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے لیکن حضرت عمر اس ممانعت کو صرف قریب المرگ کے پاس آواز ونوحہ کے ساتھ رونے پر محمول کرتے تھے چناچہ انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا کہ جب میں حضرت عمر (رض) کے ساتھ مکہ سے واپس ہوا اور ہم بیداء پہنچے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک موضع ہے تو اچانک حضرت عمر نے ایک کیکر کے درخت کے نیچے ایک قافلہ کو دیکھا انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم وہاں جا کر دیکھو کہ قافلہ میں کون ہے ؟ چناچہ میں نے وہاں جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ حضرت صہیب اور ان کے ہمراہ کچھ دوسرے لوگ ہیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے آکر حضرت عمر کو بتادیا حضرت عمر نے فرمایا انہیں بلا لاؤ۔ میں پھر صہیب کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ چلیے اور امیرالمومنین حضرت عمر فاروق سے ملیے اس کے بعد جب مدینہ میں حضرت عمر زخمی کردیئے گئے تو حضرت صہیب روتے ہوئے ان کے پاس آئے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ اے میرے بھائی، اے میرے آقا ! یہ کیا ہوا ! حضرت عمر نے اسی حالت میں صہیب سے فرمایا کہ تم میرے پاس آواز وبیان کے ساتھ رو رہے ہو ؟ جب کہ رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ مردہ یعنی یا تو حقیقۃ یا قریب المرگ اپنے گھر والوں کے رونے بکی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے یعنی ایسے رونے کی وجہ سے جو آواز نوحہ کے ساتھ ہو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق کی وفات ہوئی تو میں نے ان کا یہ قول حضرت عائشہ کی خدمت میں عرض کیا وہ سن کر فرمانے لگیں اللہ تعالیٰ حضرت عمر پر حم کرے ! یہ بات نہیں ہے اور نہ رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا کہ مردہ اپنے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے یعنی نہ تو مطلقاً رونے کی وجہ سے اور نہ آواز ونوحہ کے ساتھ رونے کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے ہاں البتہ اللہ تعالیٰ کافر کے عذاب میں اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے زیادتی کردیتا ہے۔ پھر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اس کے ثبوت میں تمہارے لئے قرآن کریم کا یہ فیصلہ ہی کافی ہے کہ (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) 35 ۔ فاطر 18) کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس آیت کے مضمون کا مفہوم بھی تقریبا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہنساتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی رلاتا ہے حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر یہ سن کر کچھ نہ بولے۔ (بخاری ومسلم) تشریح ٢٣ ھ ذی الحجہ کا مہینہ چھبیسویں تاریخ اور چہار شنبہ کا دن تھا صبح کی نماز کے وقت حضرت عمر مسجد مبوی میں نماز پڑھانے کے لئے تشریف لائے حاضرین نے صفیں باندھ لیں آپ محراب مسجد میں کھڑے ہوگئے ابھی آپ نے نماز شروع ہی کی تھی کہ مغیر بن شعبہ غلام ابولولو لعین نے پیچھے جو گھات میں بیٹھا تھا دو دھاری خنجر سے آپ پر حملہ کیا خنجر پہلو میں لگا، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ لعین چھ زخم لگائے حضرت عمر گرگئے انہیں اٹھا کر گھر لایا گیا، پورے مدینہ میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی لوگ جوق درجوق در خلافت پر حاضر ہونے لگے۔ انہیں میں حضرت صہیب بھی تھے، انہوں نے جب حضرت عمر (رض) کو خون میں نہائے دیکھا تو بےاختیار رونے لگے اور یہ کہتے جاتے تھے اے میرے بھائی، اے میرے آقا حضرت ابن عباس اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر ہے ہیں بہرحال حضرت صہیب کے اس رونے اور ان کے اس کہنے کو نوحہ نہ سمجھ لیا جائے کیونکہ نوحہ وہ ہوتا ہے جو باآواز بلند اور بطریق بین ہو اور یہاں ان میں سے کوئی بھی چیز نہیں پائی جاتی لیکن حضرت عمر نے صہیب کو اس سے بھی احتیاطا منع فرمادیا کہ اظہار غم کا یہ مباح طریقہ کہیں حدود سے تجاوز کر کے اس مرحلہ پر ہنچ جائے جہاں شریعت مانع ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ نے جو قسم کھا کر حدیث کی نفی کی تو وہاں حقیقت میں ان کی مراد حدیث کی نفی نہیں تھی بلکہ انہوں نے اس منہدم اور نتیجہ کی نفی کی جو حضرت عمر نے آنحضرت ﷺ کی حدیث سے اخذ کیا تھا ورنہ تو جہاں تک نفس حدیث کا تعلق ہے اس کے صحیح ہونے میں کوئی شک اور شبہ نہیں ہے، اختلاف صرف اس حدیث کا مفہوم متعین کرنے میں ہے حضرت عمر اور حضرت عبداللہ تو اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ میت کے عذاب کا تعلق اس کے گھروالوں کے رونے سے یعنی اگر میت کے گھر والے میت پر روتے ہیں تو اسے عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے خواہ میت مومن ہو یا کافر ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی کافر کے حق میں ہے اور وہ بہر صورت عذاب میں مبتلا رہتا ہے چاہے اس کے گھروالے اس پر روئیں یا نہ روئیں ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ گھروالوں کے رونے کی وجہ سے کافر میت کے عذاب میں زیادتی کردی جاتی ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ کافر رونے سے خوش اور راضی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض کافر تو مرتے وقت وصیت کر جاتے تھے کہ جب وہ مرجائیں تو اس پر ویا جائے اور نوحہ کیا جائے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اپنے مسلک کہ اہل میت کا رونا میت کے عذاب کا سبب نہیں ہوتا پر اس آیت کریمہ سے استدلال کرتی ہیں کہ ولاتزروازرۃ وزر اخری یعنی ایک شخص کا گناہ کسی دوسرے شخص کے نامہ اعمال میں نہیں لکھا جاتا اور ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا ذمہ دار نہیں ہوتا تو اس پر اس گناہ کی سزا کا ترتب بھی نہیں ہوسکتا، لہٰذا اگر میت کے گھروالے روتے ہیں نوحہ کرتے ہیں تو یہ ان کا فعل ان کا گناہ میت کے نامہ اعمال میں کیوں لکھے جانے لگے اور ان کے گناہ کی وجہ سے میت کو عذاب میں کیوں مبتلا کیا جانے لگا۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس نے بھی یہ کہہ کر حضرت عمر کے مسلک کی نفی اور حضرت عائشہ کے قول کی تائید کی کہ انسان کا رونا اور ہنسنا اس کی خوشی اور غمی اللہ ہی کی طرف سے ہے کہ وہی ان چیزوں کو پیدا کرتا ہے اس لئے رونے کو عذاب میں کیا دخل ؟ لیکن حضرت ابن عباس کے اس قول پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس طرح تو بندوں کے تمام ہی افعال اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے بندہ تو صرف انہیں کرتا ہے جس پر ثواب اور عذاب کا ترتب ہوتا ہے اگر کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اسے ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی بداعمالی کرتا ہے تو اس پر عذاب دیا جاتا ہے اب ہنسنے کی مثلا لے لیجیے اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر وفور مسرت سے ہنستا ہے تو وہ ثواب پاتا ہے اور اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر بطور تمسخرواستہزاء ہنستا ہے تو گناہ گار ہوتا ہے، اسی طرح غمی و خوشی کا معاملہ ہے بعض خوشی اور بعضے غم ایسے ہوتے ہیں جن پر ثواب دیا جاتا ہے بعضے خوشی اور بعضے غم ایسے ہوتے ہیں جن پر عذاب دیا جاتا ہے اس لئے حضرت عائشہ کے قول کی تائید اور حضرت عمر کے مسلک کی نفی میں حضرت ابن عباس کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ہاں ابن عباس کا یہ قول اس قید کے ساتھ تو صحیح ہوسکتا ہے کہ ہنسنا اور رونا بےاختیاری ہوں۔ یعنی اگر ہنسنے اور رونے میں اختیار کو دخل ہوگا تو پھر ان پر جواب اور عذاب کا ترتب ضرور ہوگا۔ حدیث کا یہ آخری جملہ حضرت ابن عمر یہ سن کر کچھ نہ بولے۔ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ حضرت ابن عمر نے یہ قصہ سن کر ابن عباس کی بات مان لی بلکہ انہوں نے خاموشی اختیار کر کے بحث کو ختم کردینا ہی مناسب سمجھا جیسا کہ اہل عرفان کی شان ہے۔

【27】

میت پر رونے کی ممانعت

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کے پاس زید بن حارثہ، جعفر اور ابن رواحہ کے (غزوہ موتہ میں) شہید کر دئیے جانے کی اطلاع آئی تو آپ ﷺ (مسجد نبوی ﷺ میں) بیٹھ گئے، آپ ﷺ کے چہرہ پر رنج و غم کے آثار نمایاں تھے اور میں (آپ کی کیفیت) دروازے کے سوراخ سے دیکھے جا رہی تھی کہ اتنے میں ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ جعفر کے گھر کی عورتیں اس طرح کر رہی ہیں یعنی اس نے ان کے رونے کا ذکر کیا آنحضرت ﷺ نے اسے حکم فرمایا کہ وہ جا کر انہیں منع کر دے۔ وہ چلا گیا (تھوڑی دیر کے بعد) دوسری مرتبہ واپس آ کر بتایا کہ عورتیں نہیں مان رہی ہیں، آنحضرت ﷺ نے پھر اس سے فرمایا کہ جا کر منع کردو۔ وہ چلا گیا اور جا کر منع کیا اور کچھ دیر کے بعد پھر تیسری مرتبہ آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم وہ عورتیں ہم پر غالب آگئیں یعنی وہ ہمارا کہنا نہیں مان رہی ہیں حضرت عائشہ کا گمان ہے کہ یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اس شخص سے کہنے لگی کہ اللہ تمہاری ناک خاک آلود کرے تمہیں رسول کریم ﷺ نے جو حکم دیا ہے اس پر عمل کیوں نہیں کیا ؟ اور تم رسول کریم ﷺ کو رنج پہنچانے کا سبب بنے۔ (بخاری ومسلم) تشریح ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔ بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو کیونکہ شدید رنج و غم کی وجہ سے جزع و فزع کی حالت میں نصیحت ان پر کار گر نہیں ہو رہی ہے۔ ارغم اللہ سے آخر تک حضرت عائشہ (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تمہیں ذلیل کرے کیونکہ تم نے آنحضرت ﷺ کو ایذاء پہنچائی آپ ﷺ کو رنچ پہنچانے کا سبب بنے اس لئے کہ آنحضرت ﷺ کو یہ سن کر شدید رنج پہنچا کہ وہ عورتیں گناہ کبیرہ میں مبتلا ہیں اور منع کرنے کے باوجود رونے سے باز نہیں آرہی ہیں اگر تم ڈانٹ ڈپٹ کر اور سختی کے ساتھ ان عورتوں کو اس فعل سے منع کردیتے تو آنحضرت ﷺ کو یہ شدید روحانی اذیت وکوفت نہ وہتی۔

【28】

میت پر رونے کی ممانعت

حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب میرے پہلے خاوند حضرت ابوسلمہ کا انتقال ہوا تو میں نے کہا کہ ابوسلمہ مسافر تھے اور حالت مسافرت ہی میں مرے میں بھی ان کے لئے اس طرح روؤں گی کہ میرا رونا بیان کیا جائے گا (یعنی لوگوں میں چرچا ہوگا کہ ام سلمہ اس قدر روئی کہ اتنا کوئی بھی نہیں رویا) چناچہ میں رونے کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ اچانک ایک عورت آئی جو (رونے میں) میرے ساتھ شریک ہونے کا ارادہ رکھتی تھی، اتنے میں رسول کریم ﷺ اس کے سامنے آگئے اور فرمانے لگے کہ کیا تمہارا یہ ارادہ ہے کہ شیطان کو اس گھر میں داخل کرو جس گھر سے اللہ تعالیٰ نے اسے دو مرتبہ نکالا ہے۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد سن کر میں رونے سے رک گئی اور پھر میں (اس طرح) نہیں روئی (جس کی شریعت نے ممانعت کی ہے) (مسلم) تشریح میں تو رونے کی تیاریوں میں مصروف تھی، کا مطلب یہ ہے کہ میں رونے کا ارادہ کر رہی تھی اور اس موقع پر رونے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے سیاہ کپڑے وغیرہ انہیں مہیا کر رہی تھی۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ام سلمہ کو اس وقت تک یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ چلا چلا کر رونا اور نوحہ کرنا حرام ہے اگر انہیں ایسا معلوم ہوتا تو یقینی بات ہے کہ وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کریں جو شریعت کی رو سے ناجائز و حرام ہے۔ گھر میں سے دو مرتبہ شیطان کے نکلنے سے یا تو یہ مراد ہے کہ ایک مرتبہ تو اس وقت شیطان گھر سے نکال دیا گیا تھا جب کہ ابوسلمہ کفر و شرک کا سیاہ پیراہن اتار کر ایمان و اسلام کا نورانی خلعت زیب تن کیا تھا اور دوسری مرتبہ گھر سے اس وقت شیطان کو نکال دیا گیا جب کہ ابوسلمہ ظلم و جہل سے بھرپور اس دنیا سے ایمان و اسلام کے ساتھ رخصت ہوگئے تھے۔

【29】

بین کرنے کی ممانعت

حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ بن رواحہ (اتنے سخت بیمار ہوئے کہ موت کے قریب پہنچ گئے اور ان پر بےہوشی طاری ہوئی تو ان کی بہن عمرہ نے رونا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اے پہاڑ افسوس اور اے ایسے اور ویسے یعنی ان کی خوبیاں گن گن کر بیان کرنے لگیں جب حضرت عبداللہ ہوش میں آئے تو بہن سے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے وہی مجھے بطور تنبیہ کے کہا گیا ہے تم ایسے مثلاً جب تم نے کہا کہ واجبلاہ یعنی اے پہاڑ افسوس ہے تو مجھ کہا گیا تھا کہ تم پہاڑ کیوں ہو کہ لوگ تمہاری پناہ پکڑتے ہیں ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ چناچہ جب عبداللہ کا انتقال ہوا (یعنی غزوہ موتہ میں شہید ہوئے) تو ان کی بہن ان پر روئی نہیں۔

【30】

بین کرنے کی ممانعت

اور حضرت ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص مرتا ہے اور اس کے عزیزوں میں سے کوئی رونے والا یہ کہہ کر روتا ہے کہ اے پہاڑ اے سردار وغیر وغیرہ۔ تو اللہ تعالیٰ میت پر دو دو فرشتے مقرر کردیتا ہے جو اس کے سینے میں مکے مار مار کر پوچھتے ہیں کیا تو ایسے ہی تھا ؟ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب حسن ہے۔ تشریح میت سے حقیقت یعنی مردہ بھی مراد ہوسکتا ہے اور قریب المرگ بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ میت پر رونے اور اس کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلا کئے جانے کے بارے میں کچھ باتیں گزشتہ صفحات میں بیان کی جا چکی ہیں اس موقعہ پر بھی اس مسئلہ کے بارے میں چند اور باتیں جانتے چلئے۔ علامہ سیوطی نے شرح الصدور میں اس حدیث امن المیت لیعذب ببکاء اہلہ (یعنی میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے) کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا میت کو اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے یا نہیں ؟ چناچہ اس سلسلہ میں جتنے مسلک ہیں ان کو علامہ موصوف نے اس طرح سلسلہ وار نقل کیا ہے۔ (١) یہ حدیث اپنے ظاہر الفاظ و مفہوم کے مطابق مطلق ہے یعنی وصیت یا کافر کی قید نہیں ہے بلکہ میت پر چلا چلا کر رونے اور نوحہ کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر اور حضرت ابن عمر (رض) کی بھی یہی رائے ہے۔ (٢) میت کو اس کے گھر والوں کی وجہ سے مطلقاً عذاب میں مبتلا نہیں کیا جاتا (٣) عذاب کا تعلق حالت سے ہے یعنی مردہ اس وقت عذاب میں مبتلا ہوتا ہے جب کہ اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہوتے ہیں اور وہ عذاب ان کے رونے کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ مردہ کے اپنے گناہوں اور برے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے (٤) یہ حدیث مخصوص طور پر کافروں کے بارے میں ہے یہ دونوں اقوال حضرت عائشہ (رض) کے ہیں۔ (٥) یہ حدیث اور یہ وعید خاص طور پر اس شخص کے بارے میں ہے جس کے یہاں نوحہ کا رسم و رواج ہو، امام بخاری کا یہی مسلک ہے۔ (٦) یہ حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو نوحہ کے لئے وصیت کر جائے یعنی جو شخص اپنے وارثوں سے کہہ جائے کہ میرے مرنے کے بعد نوحہ کیا جائے تو اسے اس کے گھر والوں کے رونے اور نوحہ کرنے والوں کے نوحہ کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے کیونکہ یہ اسی کا فعل ہے۔ (٧) یہ وعید اس شخص کے بارے میں ہے جو نوحہ نہ کرنے کی وصیت نہ کر جائے، چناچہ جس شخص کو اپنے گھر والوں کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ میرے مرنے کے بعد نوحہ کریں گے تو اسے اپنے گھر والوں کو نوحہ نہ کرنے کی وصیت کرنا واجب ہوگا۔ (٨) میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اس وقت عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے جب کہ وہ میت کی ان باتوں کو بیان کر کے روئیں جو شرعی طور پر فی نفسہ بری اور انتہائی قابل نفرین ہو جسا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرجاتا تھا تو لوگ یہ کہہ کہہ کر روتے تھے کہ اے عورتوں کو بیوہ کرنے والے، اے اولاد کو یتیم کرنے والے، اے گھر کو خراب کرنے والے، (٩) عذاب سے مراد اہل میت کے مذکورہ بالا طریقہ سے بیان کر کے رونے کی وجہ سے میت پر ملائکہ کا غصہ ہونا ہے۔ (١٠) اہل میت جب نوحہ کرتے ہیں تو میت اپنی قبر کے اندر عذاب میں مبتلا کی جاتی ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ عذاب سے مراد یہ ہے کہ جب اہل میت غلط طریقہ سے روتے ہیں اور اس بارے میں غیر شرعی روش اختیار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے میت کو شدید روحانی اذیت پہنچتی ہے اور اسے رنج ہوتا ہے جیسا کہ جب عالم برزخ میں دنیا سے کوئی روح آتی ہے اور وہاں پہلے سے موجود روحیں اس سے اپنے اعزہ کے متعلق پوچھتی ہیں اگر کسی روح کو اپنے متعلقین کے بارے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ برے اعمال اور گناہوں میں مبتلا ہیں تو اس روح کو رنج ہوتا ہے اور اگر اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلقین نیکی اور بھلائی کی راہ پر گامزن ہیں تو اسے خوشی ہوتی ہے۔ بہر حال مسئلہ کی پوری بحث کا حاصل یہ ہوا کہ اگر میت اس گناہ کا خود سبب ہوگا یعنی وہ اگر مرنے سے پہلے یہ وصیت کر جائے کہ میری میت پر نوحہ کیا جائے چلا چلا کر رویا جائے یا یہ کہ وہ وصیت تو نہ کر جائے مگر ان امور سے خوش و راضی ہوتا ہو تو اس صورت میں حدیث میں مذکورہ عذاب اپنے حقیقی معنی پر محمول ہوگا بایں طور کہ اگر میت پر اہل میت نوحہ وغیرہ کریں گے تو اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور اگر یہ صورت نہ ہو یعنی نہ تو میت نے وصیت کی ہو اور نہ وہ ان باتوں کو پسند کرتا ہو تو اس شکل میں عذاب اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہوگا بلکہ رنج اٹھانے پر محمول ہوگا خواہ یہ رنج اٹھانا حالت نزع میں ہو یا موت کے بعد نیز خواہ کافر ہو خواہ مسلمان اس بارے میں سب برابر ہیں اس طرح اس آیت (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) 35 ۔ فاطر 18) اور ان احادیث کے درمیان جو کہ اس بارے میں میں مطلق منقول ہوئی ہیں مطابقت پیدا ہوجاتی ہے۔

【31】

نوحہ اور چلائے بغیر رونا ممنوع نہیں

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں (جب) رسول کریم ﷺ کی اولا میں سے کسی کا (یعنی حضرت زینت کا جیسا کہ اگلی روایت میں تصریح ہے) انتقال ہوا تو عورتیں جمع ہوئی اور ان پر رونے لگیں (یہ دیکھ کر) حضرت عمر فاروق کھڑے ہوئے اور (اقرباء) کو رونے سے منع کیا اور (اجنبیوں کو) مار مار کر بھگانے لگے۔ آنحضرت ﷺ نے ( جب یہ دیکھا) تو فرمایا کہ عمر انہیں (اپنے حال پر) چھوڑ دو کیونکہ آنکھیں رو رہی ہیں اور دل مصیبت زدہ ہے نیز مرنے کا وقت قریب ہے۔ (احمد، نسائی) تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر عورتیں چلا چلا کر تو نہیں ہاں کچھ آواز سے رو رہی ہوں گی چناچہ حضرت عمر فاروق نے اس احتیاط کے پیش نظر کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہاں اس سے آگے بڑھ جائیں اور نوحہ وغیرہ کرنے لگیں جو شریعت کی نظر میں ممنوع ہے ان عورتوں کو رونے سے منع کرنا چاہا مگر آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر فاروق کو اس سے روک دیا اور ان کا عذر بیان فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ایسے سخت حادثہ اور غمناک موقعہ پر عورتوں کو اظہار رنج و غم کی اتنی بھی اجازت نہ دینا احتیاط اور دور اندیشی کا تقاضا تو ہوسکتا ہے لیکن فطرت کے خلاف ہوگا۔

【32】

نوحہ اور چلائے بغیر رونا ممنوع نہیں

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب کا انتقال ہوا تو عورتیں رونے لگیں حضرت عمر (اس بات کو کب برداشت کرنے والے تھے وہ) اپنے کوڑے سے مارنے لگے، آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کو اپنے ہاتھوں الگ کیا اور فرمایا کہ عمر نرمی اختیار کرو۔ پھر عورتوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے آپ کو شیطان کی آواز سے دور رکھو (یعنی چلا چلا کر اور بیان کر کے ہرگز نہ رونا) پھر فرمایا کہ جو کچھ آنکھوں سے (یعنی آنسو) اور دل سے (یعنی رنج و غم) ظاہر ہو یہ اللہ کی طرف سے ہے اور رحمت کا سبب ہے۔ (یعنی یہ چیزیں اللہ کی پسندیدہ ہیں) اور جو کچھ ہاتھوں سے ظاہر ہو وہ شیطان کی طرف سے ہے۔ (احمد) تشریح حدیث کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ اظہار رنج و غم کے وقت جو چیزیں ہاتھوں سے ظاہر ہوتی ہیں جیسے منہ پیٹنا کپڑے پھاڑنے اور بال نوچنے کھسوٹنے یا جو چیزیں زبان سے سرزد ہوتی ہیں جیسے چلانا و چیخنا نوحہ یعنی بین کرنا، یا زبان سے ایسی باتیں نکالنی جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہوں یہ سب چیزیں شیطان کی طرف سے ہیں بایں طور کہ جب شیطان بہکاتا ہے تو یہ چیزیں صادر ہوتی ہیں اور ان چیزوں کو شیطان پسند کرتا ہے۔

【33】

ایک خاص واقعہ

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ بطرقی تعلیق (یعنی بغیر سند کے) ذکر کرتے ہیں کہ جب حضرت حسن بن علی کے صاحبزادے کہ جن کا نام بھی حسن ہی تھا کا انتقال ہوا تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پر ایک سال تک خیمہ کھڑا رکھا پھر جب انہوں نے اکھاڑا تو ہاتف غیبی کی ندا سنی کہ کیا خیمہ کھڑا کر کے کھوئے ہوئے کو پا لیا ! پھر اس کے جواب میں دوسرے ہاتف غیبی کی یہ ندا سنی کہ ناامید ہوئی اور خیمہ اکھاڑ لیا۔ تشریح جب حسن بن علی کا انتقال ہوا تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پر ایک خیمہ کھڑا کردیا جو سال بھر تک وہاں قائم رہا اور خود بھی وہیں پڑی رہیں اس طرح شوہر کے انتقال کی مصیبت اور احساس جدائی کا غم روز ان کے دل میں تازہ ہوتا رہا۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کی قبر پر خیمہ اس لئے کھڑا کیا تھا کہ ان کے دوست اور احباب ایصال ثواب اور قرآن خوانی کے لئے جمع ہوجایا کریں اور لوگ دعائے مغفرت و رحمت کے لئے آیا کریں۔

【34】

زمانہ جاہلیت کی ایک رسم اور اس پر آنحضرت ﷺ کی تنبیہ

حضرت عمران بن حصین اور حضرت ابوبرزہ (رض) دونوں روایت کرتے ہیں کہ (ایک روز) ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے ہمراہ ایک جنازے کے ساتھ چلے (چنانچہ) آپ ﷺ نے کچھ ایسے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اپنی چادریں اتار پھینکی تھیں اور کرتوں میں چل رہے تھے آنحضرت ﷺ نے (انہیں اس حال میں دیکھ کر) فرمایا کہ کیا تم لوگ جاہلیت کے فعل پر عمل کرتے ہو ؟ یا جاہلیت کے کاموں کی مشابہت اختیار کرتے ہو ؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا ! (تمہاری یہ انتہائی نازیبا حرکت دیکھ کر) میرا تو ارادہ یہ ہوا کہ میں تمہارے لئے کوئی ایسی بد دعا کروں کہ تم اپنے گھروں کو دوسری شکلوں میں (یعنی بندر یا سور کی شکل ہو کر) واپس پہنچو۔ راوی کہتے ہیں کہ (یہ سن کر) ان لوگوں نے (فورا) اپنی چادریں اوڑھ لیں اور پھر دوبارہ کبھی ایسا کام نہ کیا۔ (ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اس زمانہ میں یہ دستور تھا کہ لوگ کرتوں کے اوپر چادریں اوڑھا کرتے تھے بہرحال زمانہ جاہلیت کی یہ ایک رسم تھی کہ جب لوگ جنازہ کے ساتھ چلتے تو اپنی چادریں اتار دیا کرتے تھے گویا اس سے پریشان حال کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جب اتنے ذرا سے تغیر یعنی چادر اتار کر چلنے پر آنحضرت ﷺ نے اتنی شدید تنبیہ اور وعید فرمائی تو ان لوگوں کا کیا حشر ہوگا جو اس سے کہیں زیادہ بڑی رسموں کو اختیار کئے ہوئے ہیں ؟

【35】

کسی خلاف شرع چیز کی موجود گی میں جنازہ کے ساتھ جانے کی ممانعت

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس جنازہ کے ہمراہ جانے سے منع فرمایا جس کے ساتھ نوحۃ کرنے والی ہو۔ (رواہ احمد وابن ماجہ) تشریح اگرچہ جنازہ کے ساتھ چلنا سنت ہے لیکن اس فعل بد کی موجودگی کی وجہ سے اس سنت کو ترک کردینا چاہئے اس طرح کسی بھی خلاف شرع چیز کی موجودگی میں جنازہ کے ساتھ نہیں جانا چاہئے یہ حدیث اس مسئلہ کی بنیاد ہے کہ جس دعوت میں خلاف شرع باتیں پائی جائیں وہاں نہیں جانا چاہئے کیونکہ اگرچہ دعوت قبول کرنا سنت ہے لیکن ایسے موقع پر غیر شرع باتوں اور افعال بد کی وجہ سے اس سنت پر عمل نہ کرنا ہی بہتر اور اولیٰ ہوگا۔

【36】

فوت شدہ چھوٹے بچے اپنے والدین کو جنت میں لے جائیں گے

حضرت ابوہریرہ (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ (ایک دن) ان سے ایک شخص ملا اور کہنے لگا کہ میرا (چھوٹا) بچہ مرگیا جس کی وجہ سے میں بہت غمگین ہوں کیا آپ نے اپنے دوست یعنی آنحضرت ﷺ سے کہ ان پر اللہ کی رحمتیں اور اللہ کا سلام نازل ہو کوئی ایسی بات بھی سنی ہے جو ہمارے مردوں (یعنی فوت شدہ چھوٹے بچوں) کی طرف سے ہمارے دلوں کو خوش کر دے (یعنی جس سے یہ معلوم ہوا کہ ہمارے چھوٹے بچے مرگئے وہ آخرت میں ہمارے کچھ کام آئیں گے) حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ ہاں ! میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمانوں کے چھوٹے بچے جنت میں دریا کے جانور کی طرح ہوں گے جب ان میں کسی کا باپ اسے ملے گا تو وہ بچے اپنے باپ کے کپڑے کا کونہ پکڑ لے گا اور اسے اس وقت تک نہ چھوڑے گا جب تک کہ اس باپ کو جنت میں داخل نہ کر دے گا۔ (مسلم احمد، الفاظ احمد کے ہیں) تشریح دعا میص دعموص کی جمع ہے۔ دعموص پانی کے ایک چھوٹے سے سیاہ جانور (کیڑے) کو کہتے ہیں جو عام طور پر تالابوں میں پانی کم ہوجانے پر ظاہر ہوتا ہے نیز یہ جانور مستقل پانی میں نہیں رہتا ہے بلکہ وہ غوطہ خور ہوتا ہے یعنی غوطہ مارتا ہے اور باہر نکل آتا ہے اس جانور بعض جگہ جو لایا بھی کہا جاتا ہے۔ دعموص اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو سلاطین و امراء کے معاملات میں بہت زیادہ دخیل ہوتا ہے اور ان کے قوائے فکر و عمل پر بڑی حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ بہرحال فوت شدہ چھوٹے بچوں کو جنت میں (دعموص) سے بایں معنی تشبیہ دی گئی ہے کہ یہ بچے جنت میں سیر کرتے پھرتے ہیں جن طرح دنیا میں چھوٹے بچوں سے پردہ نہیں کیا جاتا اور کسی گھر میں جانے سے نہیں روکے جاتے اور نہ انہیں کہیں جانے سے منع کیا جاتا ہے اس طرح وہ چھوٹے بچے جنت میں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں ان کے کہیں آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس حدیث میں بطور خاص باپ کا ہی ذکر کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موقعہ پر صرف باپ ہی کے بارے میں بات چل رہی ہوگی اس لئے اس کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ورنہ تو جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح چھوٹا بچہ اپنے باپ کو جنت میں لے جائے گا اسی طرح اپنی ماں کو بھی جنت میں داخل کرائے گا چناچہ بعض حدیثوں میں ماں باپ دونوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

【37】

بچوں کے مرنے کا اجر

حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) ایک عورت رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگی کہ یا رسول اللہ ! مردوں نے تو آپ ﷺ کے مقدس ارشادات سے استفادہ کیا اب آپ ﷺ ایک دن ہمارے لئے بھی مقرر کر دیجئے تاکہ ہم اس دن آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں اور آپ ﷺ ہمیں بھی وہ باتیں بتائیں جو اللہ نے ﷺ کو بتائیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا تم عورتیں فلاں دن فلاں وقت اور فلاں مکان میں (یعنی مسجد میں یا کسی گھر میں) اور فلاں جگہ (یعنی مسجد یا مکان کے اگلے حصہ میں یا پچھلے حصہ میں) جمع ہوجانا، چناچہ (جب آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق عوتیں جمع ہوگئیں تو رسول کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور آپ ﷺ نے وہ باتیں انہیں سکھائیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو سکھائی تھیں پھر آپ ﷺ نے (یہ بھی فرمایا) کہ تم میں سے جس نے اپنی اولاد میں سے (تین لڑکے یا لڑکیاں) بھیج دی ہوں (یعنی اس کے تین بچے مرگئے ہوں) تو وہ بچے اس کے لئے آگ سے پردہ ہوجائیں گے (یعنی اسے دوزخ میں نہ جانے دیں گے) ان میں سے ایک عورت نے یہ الفاظ دو مرتبہ کہے چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یا جس عورت کے دو بچے مرگئے ہوں یا یا دو یا دو (جس عورت کے تین بچے مرے ہوں اس کے لئے بھی یہ ثواب ہے اور جس عورت کے دو ہی بچے مرے ہوں اس کے لئے بھی یہی بشارت ہے۔

【38】

بچوں کے مرنے کا اجر

حضرت معاذ بن جبل (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جن دو مسلمانوں کے (یعنی ماں اور باپ کے) تین بچے مرجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے ان دونوں یعنی ماں باپ کو جنت میں داخل کرے گا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ بھی فرما دیجیے کہ یا جن کے دو بچے بھی مرگئے ہوں (ان کے لئے بھی یہ بشارت ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں جن کے دو بچے بھی مرجائیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ بھی فرما دیجیے کہ یا ایک۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ایک بچہ (بھی اگر مرجائے تو اس کے والدین کے لئے بشارت ہے) پھر آپ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کسی عورت کا کچا حمل بھی گرجائے تو وہ اپنی ماں کو اپنی آنول نال کے ذریعہ بہشت کی طرف کھینچے گا بشرطیکہ اس کی ماں صبر کرے اور اس کے مرنے کو (اپنے حق میں) ثواب شمار کرے۔ (احمد) ابن ماجہ نے اس روایت کو والذی نفسی بیدہ سے (آخر تک) نقل کیا ہے۔ تشریح آنول نال اس جھلی کو کہتے ہیں جو پیدا ہونے کے وقت بچہ کی ناف سے لٹکی ہوتی ہے۔ ارشاد گرامی لیجر امہ بسررہ میں آنول نال سے بچہ اور اس کے ماں کے درمیان تعلق و علاقہ کی طرف اشارہ گویا آنول نال رسی کی مانند ہوجائے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی ماں کو بہشت کی طرف کھینچے گا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب اس بچہ کے مرجانے کا اتنا ہی زیادہ ثواب ہے جو ابھی ناتمام ہی تھا اور جس سے ماں کو کوئی تعلق لگاؤ بھی پیدا نہیں ہوسکا تھا۔ تو اس بچہ کے مرجانے پر ماں کو کتنا کچھ ثواب ملے گا جو پلا پلایا اللہ کو پیارا ہوگیا ہو اور جس سے ماں کو کمال تعلق و لگاؤ بھی پیدا نہیں ہوسکا۔

【39】

بچوں کے مرنے کا اجر

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنی اولاد میں سے ایسے تین بچے جو حد بلوغت کو نہ پہنچے ہوں آگے بھیجے ہوں (یعنی اس کے مرنے سے پہلے مرگئے ہوں) تو وہ اس کے لئے آگ سے مضبوط پناہ ہوں گے۔ (یہ سن کر) حضرت ابوذر نے کہا کہ میں نے تو دو بچے بھیجے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اور دو بھی ! حضرت ابی بن کعب نے کہ جن کی کنیت ابوالمنذر ہے اور قاریوں کے سردار ہیں کہا کہ میں نے تو ایک ہی بھیجا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اور ایک بھی (آگ سے پناہ ہوگا) ۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【40】

بچوں کے مرنے کا اجر

حضرت قرہ مزنی (رض) راوی ہیں کہ ایک شخص تھا جو نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں آیا کرتا تھا اور اس کا لڑکا بھی اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ کیا تم اسے (بہت ہی) عزیز رکھتے ہو (جو ہر وقت تمہارے ساتھ ہی ہوتا ہے) اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (میں اس سے اپنی محبت کو کیا بتاؤں بس) اللہ تعالیٰ آپ سے ایسی ہی محبت کرے جیسا کہ میں اپنے اس بچہ سے کرتا ہوں۔ (کچھ عرصہ کے بعد) آنحضرت ﷺ نے اس بچہ کو (اپنے باپ کے ساتھ) نہیں پایا تو پوچھا کہ فلاں شخص کا بیٹا کیا ہوا ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس کا لڑکا تو مرگیا۔ (اس کے بعد جب وہ شخص حاضر ہوا تو اس سے) آپ نے فرمایا کہ کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ کل قیامت کے روز تم جنت کے جس دروازہ پر بھی جاؤ وہاں اپنے لڑکے کو اپنا منتظر پاؤ تاکہ وہ تمہاری سفارش کرے اور تمہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جائے ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ بشارت بطور خاص اسی شخص کے لئے ہے یا سب کے لئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم سب کے لئے (احمد)

【41】

ناتمام بچہ بھی اپنے والدین کو جنت میں لے جائے گا

حضرت علی (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ سقط (یعنی ناتمام بچہ جو ماں کے پیٹ سے وقت سے پہلے گرگیا ہوگا) کے والدین کو دوزخ میں داخل (کرنے کا ارادہ) کرے گا تو وہ اپنے پروردگار سے جھگڑے گا چناچہ اس سے کہا جائے گا کہ پروردگار سے جھگڑنے والے اے ناتمام بچے ! اپنی ماں کو جنت میں لے جاؤ لہٰذا وہ ناتمام بچہ اپنے والدین کو اپنی آنول نال کے ذریعہ کھینچے گا یہاں تک کہ انہیں جنت میں لے جائے گا۔ (ابن ماجہ)

【42】

مصیبت وحادثہ پر صبر کا اجر جنت

حضرت ابوامامہ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ (انسان کو مخاطب کرتے ہوئے) فرماتا ہے کہ اے ابن آدم ! اگر تو (کسی مصیبت کے وقت) صبر کرے اور صدمہ کی ابتدائی مرحلہ ہی پر ثواب کا طلب گار ہو تو میں تیرے لئے جنت سے کم کسی اجر وثواب پر راضی نہیں ہوتا (یعنی میں تجھے اس کے بدلہ میں جنت ہی میں داخل کروں گا) (ابن ماجہ)

【43】

استرجاع کی فضیلت

حضرت حسین بن علی (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس مسلمان مرد و عورت کو کوئی مصیبت و صدمہ پہنچے اور خواہ کتنا ہی طویل زمانہ گزر جانے کے بعد وہ مصیبت و صدمہ یاد آجائے اور وہ اس وقت انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ثواب ثابت کردیتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ اسے وہی اجر وثواب عطا فرماتا ہے جو اس دن عطا کیا گیا تھا جب کہ وہ اس مصیبت و صدمہ سے دوچار ہوا تھا ( اور اس پر صبر کیا تھا) ۔ (احمد، بیہقی)

【44】

استرجاع کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کسی شخص کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو اسے چاہئے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھے کیونکہ یہ بھی ایک مصیبت ہی ہے تشریح غالباً جوتے کا تسمہ ٹوٹنے سے معمولی مصیبت و تکلیف سے مراد ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی معمولی درجہ کی بھی تکلیف و مصیبت پہنچے تو انا للہ پڑھنی چاہئے چناچہ ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ اچانک چراغ بجھ گیا تو آنحضرت ﷺ نے یہ آیت کریمہ پڑھی۔

【45】

نعمت پر شکر اور مصیبت پر صبر امت مرحومہ کا وصف عظیم

حضرت ام درداء (رض) کہتی ہیں کہ میں نے حضرت ابودرداء (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت ابوالقاسم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا تھا کہ اے عیسیٰ میں تمہارے بعد ایک امت پیدا کروں گا جب انہیں کوئی پسندیدہ چیز یعنی نعمت و راحت ملے گی تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے اور جب کوئی ناپسندیدہ چیز یعنی تکلیف و مصیبت پہنچے گی تو ثواب کی امید رکھیں گے اور صبر کریں گے در آنحالیکہ نہ تو عقل ہوگی اور بردباری۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار ! یہ کیوں کر ہوگا جب کہ نہ عقل ہوگی نہ بردباری ! پروردگار نے فرمایا میں انہیں اپنی بردباری اور اپنے علم میں سے کچھ حصہ دے دوں گا۔ یہ دونوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔ تشریح یہاں امت سے نبی کریم ﷺ کے نیک و فرمانبردار اور صلحاء مراد ہیں اللہ تعالیٰ کے ارشاد نہ عقل ہوگی نہ بردباری کا مطلب یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ مصبت و تکلیف کی وجہ سے بردباری و عقل جاتی رہے گی، لیکن مصیبت و تکلیف پر صبر کریں گے اور ثواب کے طلب گار ہوں گے یعنی بردباری اور عقل یہ دونوں ایسے وصف ہیں کہ ان کی وجہ سے انسان مصیبت و حادثہ کے وقت جزع و فزع اور بےصبری اختیار کرنے سے باز رہتا ہے اور یہ جان کر صبر و سکون کے دامن کو پکڑے رہتا ہے کہ نفع و نقصان اور تکلیف و راحت سب کچھ اللہ رب العزت ہی کی طرف سے ہے لہٰذا ان دونوں اوصاف کے نہ ہونے کے باوجود صبر و سکون کے دامن کو پکڑے رہنا قابل تعجب بات ہے ؟ چناچہ اسی لئے حضرت عیسیٰ نے پوچھا کہ جب بردباری اور عقل ہی کا فقدان ہوگا تو پھر صبر کرنا کیسے ممکن ؟ اور پھر ثواب کی امید کے کیا معنی ؟ حضرت عیسیٰ کے اس اشکال اور ان کی اس حیرت کا جواب بارگاہ الوہیت سے یہ دیا گیا کہ ایسے مواقع پر امت مرحومہ کے افراد کی راہنمائی عقل و دانش اور حلم و بردباری کا وہ نور کرے گا جو کسبی نہیں ہوگا بلکہ میں اپنے پاس سے عقل و بردباری کی دولت بلا کسب عطا کروں گا جس کی وجہ سے بڑی بڑی مصیبت پر وہ صبر کریں گے اور ثواب کے امیدوار ہوں گے۔