31. زکوۃ کا بیان

【1】

زکوۃ کا بیان

زکوٰۃ کے لفظی معنی ہیں طہارت و برکت اور بڑھنا اصطلاح شریعت میں زکوٰۃ کہتے ہیں اپنے مال کی مقدار متعین کے اس حصہ کو جو شریعت نے مقرر کیا ہے کسی مستحق کو مالک بنادینا زکوٰۃ کے لغوی معنی اور اصطلاحی معنی دونوں کو سامنے رکھ کر یہ سمجھ لیجیے کہ یہ فعل یعنی اپنے مال کی مقدار متعین کے ایک حصہ کا کسی مستحق کو مالک بنادینا) مال کے باقی ماندہ حصے کو پاک کردیتا ہے اس میں حق تعالیٰ کی طرف سے برکت عنایت فرمائی جاتی ہے اور اس کا وہ مال نہ صرف یہ کہ دنیا میں بڑھتا اور زیادہ ہوتا ہے بلکہ اخروی طور پر اللہ تعالیٰ اس کے ثواب میں اضافہ کرتا ہے اور اس کے مالک کو گناہوں اور دیگر بری خصلتوں مثلاً بخل وغیرہ سے پاک و صاف کرتا ہے اس لئے اس فعل کو زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔ زکوۃ کو صدقہ بھی اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ فعل اپنے مال کا ایک حصہ نکالنے والے کے دعویٰ ایمان کی صحت و صداقت پر دلیل ہوتا ہے۔ زکوۃ کب فرض ہوئی ؟ صدقہ فطر ٢ ہجری میں واجب کیا گیا تھا زکوٰۃ کی فرضیت کے بارے میں اگرچہ علماء کے یہاں اختلافی اقوال ہیں مگر صحیح قول یہ ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوگیا تھا مگر اس حکم کا نفاذ مدینہ میں ہجرت کے دوسرے سال رمضان کی پہلی تاریخ کو ہوا ہے گویا زکوٰۃ یکم رمضان ٢ ہجری میں فرض قرار دی گئی اور اس کا اعلان کیا گیا۔ زکوۃ تمام امتوں پر فرض تھی اجتماعی طور پر یہ مسئلہ ہے کہ زکوٰۃ انبیاء کرام پر فرض و واجب نہیں ہے البتہ جس طرح سابقہ تمام امتوں پر نماز فرض تھی اسی طرح امت محمدی سے پہلے ہر امت پر زکوٰۃ فرض تھی ہاں زکوٰۃ کی مقدار اور مال کی تحدید میں اختلاف ضرور رہا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ زکوٰۃ کے بارے میں اسلامی شریعت کے احکام بہت آسان اور سہل ہیں جب کہ سابقہ انبیاء کی شریعتوں میں اتنی آسانی نہیں تھی۔ زکوۃ کی اہمیت اور اس کی تاکید قرآن مجید میں بتیس جگہ زکوٰۃ کا ذکر نماز کے ساتھ فرمایا گیا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ نماز روزہ اور زکوٰۃ دونوں کے کمال اتصال کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ زکوٰۃ کی فضیلت و تاکید کی دلیل بھی ہے پھر یہ کہ قرآن کریم میں بہت سی جگہ زکوٰۃ کا علیحدہ بھی ذکر فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو دنیاوی و اخروی اجر وثواب اور سعادت و نیک بختی کے دل کش و سچے وعدوں سے سرفراز فرمایا ہے اور اس کی ادائیگی سے باز رہنے والوں کو جیسے سخت عذاب کی خبر دی گئی ہے کہ اللہ شاہد اہل ایمان کے قلوب ان کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں کیسے بدبخت ہیں وہ لوگ جو اس اہم فریضہ کی ادائیگی سے باز رہتے ہیں اور ان عذابوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں۔ (العیاذ باللہ) چونکہ زکوٰۃ اسلام کا ایک بڑا رکن ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے اس لئے زکوٰۃ کا انکار کرنے والا کافر اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا فاسق اور شدید ترین گنہگار ہوتا ہے بلکہ علماء لکھتے ہیں کہ زکوٰۃ نہ دینے والا اس قابل ہے کہ اسے قتل کردیا جائے (محیط السرخسی) مال پر ایک سال کامل گزر جانے کے بعد صاحب نصاب پر علی الفور زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے یہاں تک کہ اس کی ادائیگی میں تاخیر گناہ گار بناتی ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ سال پورا ہوجانے پر علی الفور زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی بلکہ علی التراخی واجب ہوتی ہے یہاں تک کہ موت کے وقت گناہ گار ہوتا ہے۔ زکوۃ کن لوگوں پر فرض ہے ہر اس آزاد عاقل اور بالغ مسلمان پر زکوٰۃ فرض ہے جو نصاب (یعنی مال کی وہ خاص مقدار جس پر شریعت نے زکوٰۃ فرض کی ہے) کا مالک ہو اور مال کامل ایک سال تک اس کی ملکیت میں رہا ہو نیز وہ مال دین یعنی قرض اور ضرورت اصلیت سے فارغ ہو اور نامی (یعنی بڑھنے والا ہو) خواہ حقیقۃ خواہ تقدیراً اسی طرح مال میں اس کی ملکیت پوری طرح اور کامل ہو۔ کافر، غلام دیوانے اور نابالغ لڑکے پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور نہ اس مالک نصاب پر زکوٰۃ واجب ہے جس کے نصاب پر پورا ایک سال نہ گزرا ہو، ہاں اگر کوئی شخص سال کی ابتدائی اور آخری حصوں میں مالک نصاب رہے اور درمیان مالک نصاب نہ رہے تو اسے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی کیونکہ یہ بھی پورے ایک سال ہی کے حکم میں ہوگا۔ قرض دار پر اس کے بقدر فرض مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ہاں جو مال قرض سے زائد ہو اور وہ حد نصاب کو پہنچتا ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگئی لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ وہ قرض زکوٰۃ کے لئے مانع وجوب ہے جس کا مطالبہ بندوں کی طرف سے ہو، چناچہ نذر، کفارات فطرہ اور ان جیسے دوسرے مطالبات جن کا تعلق صرف اللہ جل شانہ کی ذات سے ہے اور کسی بندے کو ان کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں پہنچتا زکوٰۃ کے لئے مانع وجوب نہیں ہیں۔ ہاں ایسے قرض جن کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مگر ان کے مطالبہ وصول کرنے کا حق بندوں کو پہنچتا ہے جیسے زکوٰۃ عشر، خراج وغیرہ کہ امام وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کا مطالبہ کرسکتا ہے تو یہ بھی زکوٰۃ کے لئے مانع وجوب ہیں مگر امام وقت اور حاکم مال ظاہر میں مطالبہ کرسکتا ہے مثلاً مویشی وہ مال تجارت جو شہر میں لایا جائے یا شہر سے باہر لے جایا جائے اور نقدی لیکن وہ مال جس کی تجارت صرف شہر کے اندر اندر ہی محدود ہو اس میں حاکم کا مطالبہ اور اگر بیوی مہر کا تقاضا کرتی ہو تو اس کے مہر کے بقدر مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ بحرالرائق میں ہے کہ معتمد مسلک یہ ہے کہ فرض زکوٰۃ اور صدقہ فطر کے لئے مانع وجوب ہے نیز مطلقاً قرض مانع ہے خواہ معجل ہو یا موجل، اگرچہ بیوی کا مہر موجل ہی کیوں نہ ہو جس کی مدت تاجیل طلاق یا موت پر ختم ہوجاتی ہے لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ مہر موجل زکوٰۃ کے لئے مانع وجوب نہیں ہے کیونکہ عام طور پر اس کا مطالبہ نہیں ہوا کرتا بخلاف مہر معجل کے کہ اس کا مطالبہ ہوتا ہے مگر بعض علماء نے اس بارے میں یہ لکھا ہے کہ اگر خاوند ادائیگی مہر کا ارادہ رکھتا ہو تو مہر موجل زکوٰۃ کے لئے مانع وجوب ہے ورنہ نہیں کیونکہ اس کا شمار قرض میں نہیں ہوتا۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہم اللہ کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کسی عورت کا خاوند تونگر یعنی مالدار ہو تو وہ اپنے مہر کی وجہ سے (کہ جو اس کے خاوند کے ذمہ باقی ہے) غنیہ سمجھی جائے گی یا نہیں ؟ صاحبین کا مسلک تو یہ ہے کہ ایسی عورت غنیہ معتبر ہوگی یعنی مستحق زکوٰۃ نہیں ہوگی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا آخری قول یہ ہے کہ وہ غنیہ معتبر نہیں ہوگی، لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اختلاف صرف مہر معجل کے بارے میں ہے مہر موجل کی صورت میں تینوں حضرات کا متفقہ مسلک یہ ہے کہ ایسی عورت غنیہ معتبر نہیں ہوگی۔ ضرورت اصلیہ کا مطلب ضرورت اصلیہ سے مراد یہ چیزیں ہیں رہائش کا مکان، پہننے کے کپڑے خانہ داری کے اسباب سواری کی چیزیں مثلاً گھوڑا گاڑی موٹر سائیکل وغیرہ خدمت کے غلام استعمال کے ہتھیار، اہل علم کے لئے ان کی کتابیں کاریگر کے واسطے اس کے پیشہ کے اوزار وغیرہ، لہٰذا مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے کوئی مکان تجارت کی نیت سے لیا اور وہ مکان اس کی رہائش سے فارغ بھی ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی اسی طرح دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے اگر مکان و غلام وغیرہ اپنی ضرورت و حاجت سے فارغ ہوں اور ان کی تجارت کی نیت نہ ہو تو پھر ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ کامل ملکیت ابھی پہلے زکوٰۃ واجب ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے یہ شرط بھی بیان کی گئی تھی کہ مال میں اس کی ملکیت پوری طرح اور کامل ہو۔ لہٰذا اس کامل ملکیت سے مراد یہ ہے کہ مال کا اصل مالک بھی ہو اور وہ مال اس کے قبضہ وقدرت میں بھی ہو جو مالک ملک اور قبضہ میں نہ ہو یا ملک میں ہو قبضے میں نہ ہو یا قبضہ میں ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ لہٰذا مکاتب کے کے کمائے ہوئے مال میں زکوٰۃ نہیں نہ خود مکاتب پر نہ اس کے مولیٰ پر اس لئے کہ وہ مال مکاتب کی ملکیت میں نہیں گو اس کے قبضہ میں ہے اسی طرح مولیٰ کے قبضہ میں نہیں ہے گو ملک میں ہے۔ اسی طرح ضمار میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی کیونکہ وہ مال ملکیت میں تو ہوتا ہے مگر قبضہ میں نہیں ہوتا۔ مال ضمار اس کو کہتے ہیں جو اپنی رسائی سے باہر ہو اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں (١) وہ مال جو جاتا رہے یعنی گم ہوجائے (٢) وہ مال جو جنگل میں دفن کردیا گیا ہو مگر وہ جگہ کہ جہاں اسے دفن کیا گیا تھا بھول جائے (٣) وہ مال جو دریا میں غرق ہوگیا، (٤) وہ مال جسے کوئی شخص زبردستی چھین لے مگر اس کا کوئی گواہ نہ ہو (٥) وہ مال جو کسی ظالم نے ڈندے کے طور لے لیا۔ (٦) وہ مال جو کسی نے بطور قرض لیا اور بعد میں قرضدار قرض کا منکر ہوگیا اور کوئی تمسک یا گواہی اس کی نہ ہو۔ پس مال ضمار کی یہ دو قسمیں ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی مال ہاتھ لگ جائے تو اس مال میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ہاں اگر وہ مال ہاتھ لگ جائے جو جنگل میں بلکہ گھر میں دفن کر کے اس کی جگہ بھول گیا تھا تو جب بھی وہ مال نکلے گا اس میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اسی طرح قرض کے اس مال میں بھی زکوٰۃ واجب ہوگی جس سے قرض دار انکار نہ کرتا ہو خواہ وہ قرضدار تونگر ہو یا مفلس اور یا اگر انکار کرتا ہو تو کوئی تمسک یا گواہی ہو یا خود قاضی یہ جانتا ہو کہ اس نے اتنا مال قرض لیا تھا لیکن اس مال میں زکوٰۃ اس تفصیل کے ساتھ واجب ہوگی کہ۔ (١) اگر وہ قرض مال تجارت کے بدلہ میں ہو تو جب نصاب کا پانچواں حصہ وصول ہوجائے تو پچھلے دنوں زکوٰۃ ادا کرے (٢) اگ وہ قرض مال تجارت کے بدلہ میں نہ ہو مثلاً گھر کے پہننے کے کپڑے فروخت کئے یا خدمت کا غلام فروخت کیا یا رہائش کا مکان فروخت کیا اور ان کی قیمت خریدنے والے کے ذمہ قرض رہی تو اس میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوگی جب کہ بقدر نصاب وصول ہوجائے (٣) اگر قرض اس چیز کے بدلہ میں ہو جو مال نہیں ہے جیسے مہر، وصیت اور بدل خلع وغیرہ تو اس میں زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوگی جب کہ بقدر نصاب وصول ہوجائے اور اس پر پورا ایک سال گزر جائے یعنی اس میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی بلکہ صرف اسی سال کی زکوٰۃ واجب ہوگی جس میں کہ وہ مال پر قابض رہا لیکن یہ حکم اسی شخص کے بارے میں ہے جو پہلے سے صاحب نصاب نہ ہو اگر پہلے سے صاحب نصاب ہوگا تو یہ مال اس کے حق میں بمنزلہ مال مستفاد کے ہوگا، پہلے مال کے ساتھ اس مال کی بھی زکوٰۃ واجب ہوگی اور ایک سال کا گزرنا شرط نہیں ہوگا۔ ادائیگی زکوٰۃ کے لئے نیت شرط ہے ادائیگی زکوٰۃ کے لئے یہ شرط ہے کہ زکوٰۃ دینے والا زکوٰۃ دیتے وقت نیت کرے یعنی دل میں یہ ارادہ کرے کہ میرے اوپر جس قدر مال کا دینا فرض تھا میں محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے دیتا ہوں یا جس وقت اپنے مال میں سے زکوٰۃ کا حصہ نکالے اسی وقت زکوٰۃ کی نیت کرے کہ میں اس قدر جو زکوٰۃ دینے کے لئے ہے نکالتا ہوں۔ اگر کوئی شخص اپنا تمام مال اللہ کی راہ میں خیرات کر دے اور زکوٰۃ کی نیت نہ کرے تو اس کے ذمہ زکوٰۃ ساقط ہوجاتی ہے یعنی اس پر زکوٰۃ کا مطالبہ باقی نہیں رہتا بشرطیکہ اس نے وہ مال کسی اور واجب کی نیت سے نہ دیا ہو وہاں اگر کسی شخص نے پورا مال تو نہیں بلکہ تھوڑا سا بغیر نیت زکوٰۃ اللہ کی راہ میں خیرات کردیا تو حضرت امام محمد (رح) کے نزدیک اس مال کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی مگر حضرت امام ابویوسف کے ہاں اس مال کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا بھی یہی قول منقول ہے اور اسی قول پر فتویٰ بھی ہے۔ زکوٰۃ کو ساقط کرنے کے لئے حیلہ کرنا مکروہ ہے یعنی اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ مال زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچ جائے اور اس کی صورت یہ کرے کہ جب سال پورا ہونے کو ہو تو کچھ دن پہلے اپنا مال دوسرے کو ہبہ کر کے اسے قابض کر دے اور اس طرح زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچ جائے اگرچہ اس صورت سے زکوٰۃ تو ساقط ہوجاتی ہے مگر یہ کوئی اچھا فعل نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے کوئی غلام تجارت کے لئے خریدا مگر بعد میں اس سے خدمت لینے کی نیت ہوگئی تو وہ غلام تجارت کے لئے نہیں رہے گا بلکہ خدمت ہی کے لئے ہوجائے گا اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کوئی غلام خدمت کی نیت سے خریدا پھر بعد میں اس نے تجارت کی نیت کرلی تو وہ غلام اس وقت تک تجارت کے حکم میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ شخص اسے فروخت نہ کرے۔ فراختگی کے بعد اس کی قیمت میں زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ نصاب کی تعریف نصاب زکوٰۃ مال کی اس خاص مقدار کو کہتے ہیں جس پر شریعت نے زکوٰۃ فرض کی ہے اور جس مقدار سے کم مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی مثلاً اونٹ کے لئے پانچ اور پچیس وغیرہ کا عدد، بکری کے لئے چالیس اور ایک اکیس وغیرہ کا عدد اور چاندی کے لئے دو سو درہم اور سونے کے لئے بیس مثقال۔ نصاب کی قسمیں نصاب کی دو قسمیں ہیں۔ نامی یعنی بڑھنے والا مال اور غیر نامی یعنی نہ بڑھنے والا مال پھر نامی کی دو قسمیں ہیں حقیقی اور تقدیری حقیق کا اطلاق تو تجارت کے مال اور جانور پر ہوتا ہے کیونکہ تجارت کا مال نفع سے بڑھتا ہے اور جانور بچوں کی پیدائش سے بڑھتے ہیں۔ تقدیری کا اطلاق سونے چاندی پر ہوتا ہے کہ یہ چیزیں بظاہر تو نہیں بڑھتیں لیکن بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں نصاب غیر نامی کا اطلاق مکانات اور خانہ داری کے ان اسباب پر ہوتا ہے جو ضرورت اصلیہ کے علاوہ ہوں۔ نصابی اور غیر نصابی میں فرق نصاب نامی اور غیر نامی میں فرق یہ ہے کہ نصاب نامی کے مالک پر تو زکوٰۃ فرض ہوتی ہے نیز اس کے لئے دوسرے زکوۃ، نذر اور صدقات واجبہ کا مال لینا درست نہیں ہوتا اور اس کے لئے صدقہ فطر دینا اور قربانی کرنا واجب ہوتا ہے۔ نصاب غیر نامی کے مالک پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی مگر اس کے لئے بھی زکوٰۃ نذر اور صدقہ واجبہ کا مال لینا درست نہیں ہوتا نیز اس پر بھی صدقہ فطر دینا اور قربانی کرنا واجب ہوتا ہے۔

【2】

زکوۃ کے بارے میں آنحضرت ﷺ کے احکام

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جب حضرت معاذ (رض) کو (امیر یا قاضی بنا کر) یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تم اہل کتاب میں سے ایک قوم (یہود و نصاری) کے پاس جا رہے ہو لہٰذا (پہلے تو تم) انہیں اس بات کی گواہی دینے کی دعوت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بلاشبہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اگر وہ دعوت کو قبول کرلیں تو پھر تم انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اسے مان جائیں تو پھر اس کے بعد انہیں آگاہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے (یعنی ان لوگوں سے جو مالک نصاب ہوں) لی جائے گی اور ان کے فقراء کو دے دی جائے گی۔ اگر وہ اسے مان جائیں تم یہ یاد رکھنا کہ ان سے زکوٰۃ میں اچھا مال لینے سے پرہیز کرنا یعنی چھانٹ کر اچھا مال نہ لینا بلکہ ان کے مال کو تین حصوں میں تقسیم کرنا اچھا، برا، درمیانہ لہٰذا زکوٰۃ میں درمیانہ مال لینا نیز تم (زکوۃ لینے میں غیر قانونی سختی کر کے یا ان سے ایسی چیزوں کا مطالبہ کر کے جو ان پر واجب نہ ہوں اور یا انہیں زبان یا ہاتھ سے ایذاء پہنچا کر) ان کی بد دعا نہ لینا کیونکہ مظلوم کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس دعا کی قبولیت کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اگرچہ یمن میں مشرک اور ذمی کافر بھی تھے مگر چونکہ تمام اقوام میں اہل کتاب ہی کی اکثریت تھی اس لئے آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن بیجتے ہوئے وہاں کے لوگوں میں بطور خاص اہل کتاب ہی کا ذکر فرمایا۔ اعلان جنگ سے پہلے کفار کو اسلام کی دعوت دینا واجب ہے ابن مالک فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کفار کے مقابلہ پر اعلان جنگ سے پہلے کفار کو اسلام کی دعوت دینا واجب ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ کفار کو اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو اور انہیں اللہ کے آخری دین کی طرف پہلے سے نہ بلایا گیا ہو اگر صورت حال یہ ہو کہ ان کے پاس اسلام کی دعوت پہلے سے پہنچ چکی ہو تو اب جنگ سے پہلے انہیں اسلام کی دعوت دینا واجب نہیں بلکہ مستحب ہوگا۔

【3】

مانعین زکوٰۃ پر عذاب کی تفصیل

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص سونے اور چاندی (کے نصاب) کا مالک ہو اور اس کا حق یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کے لئے آگ کے تختے بنائے جائیں گے (یعنی تختے تو سونے اور چاندی کے ہوں گے مگر انہیں آگ میں اس قدر گرم کیا جائے گا کہ گویا وہ آگ ہی کے تختے ہوں گے اسی لئے آپ نے آگے فرمایا کہ وہ تختے دوزخ کی آگ میں گرم کئے جائیں گے اور ان تختوں سے اس شخص کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پیٹھ داغی جائے گی پھر ان تختوں کو (اس بدن سے) جدا کیا جائے اور آگ میں گرم کر کے پھر لایا جائے گا (یعنی جب وہ تختے ٹھنڈئے ہوجائیں گے تو انہیں دوبارہ گرم کرنے کے لئے آگ میں ڈالا جائے گا اور وہاں سے نکال کر اس شخص کے بدن کو داغا جائے گا) اور اس دن کی مقدار کہ جس میں یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا پچاس ہزار سال کی ہوگی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب ختم ہوجائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ عذاب تو نقدی یعنی سونے چاندی کے بارے میں ہوگا اونٹ کی زکوٰۃ نہ دینے والوں کا کیا حشر ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جو شخص اونٹ کا مالک ہو اور اس کا حق یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرے اور اونٹوں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جس روز انہیں پانی پلایا جائے ان کا دودھ دوہا جائے تو قیامت کے دن اس شخص کو اونٹوں کے سامنے ہموار میدان میں منہ کے بل اوندھا ڈال دیا جائے گا اور اس کے سارے اونٹ گنتی اور مٹاپے میں پورے ہوں گے مالک ان میں سے ایک بچہ بھی کم نہ پائے گا یعنی اس شخص کے سب اونٹ وہاں موجود ہوں گے۔ حتی کہ اونٹوں کے سب بچے بھی ان کے ساتھ ہوں گے پھر یہ کہ وہ اونت خوب فربہ اور موٹے تازے ہوں گے تاکہ اپنے مالک کو روندتے وقت خوب تکلیف پہنچائیں چناچہ وہ اونٹ اس شخص کو اپنے پیروں سے کچلیں گے اور اپنے دانتوں سے کاٹیں گے جب ان اونٹوں کی جماعت روند کچل اور کاٹ کر چلی جائے تو دوسری جماعت آئے گی یعنی اونٹوں کی قطار روند کچل کر چلی جائے گی تو اس کے پیچھے دوسری قطار آئے گی اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا اور جس دن یہ ہوگا اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب کردیا جائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! گائے اور بکریوں کے مالک کا کیا حل ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جو شخص گائیوں اور بکریوں کا مالک ہو اور ان کا حق یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اسے ہموار میدان میں اوندھے منہ ڈال دیا جائے گا اور اس کی گایوں اور بکریوں کو وہاں لایا جائے گا جن میں سے کچھ کم نہیں ہوگا ان میں سے کسی گائے بکری کے سینگ نہ مڑے ہوں گے نہ ٹوٹے ہوں گے اور نہ وہ منڈی یعنی بلا سینگ ہوں گی یعنی ان سب کے سروں پر سینگ ہوں گے نہ ٹوٹے ہوں گے اور سالم ہوں گے۔ تاکہ وہ اپنے سینگوں سے خوب مار سکیں چناچہ وہ گائیں اور بکریاں اپنے سینگوں سے اپنے مالک کو ماریں گی اور اپنے کھروں سے کچلیں گی اور جب ایک قطار اسے مار کچل کر چلی جائے گی تو دوسری قطار آئے گی اور اپنا کام شروع کر دے گی اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا اور جس دن یہ ہوگا اس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب کیا جائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! گھوڑوں کے بارے میں کیا حکم ہے۔ آپ نے فرمایا گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ گھوڑے جو آدمی کے لئے گناہ کا سبب ہوتے ہیں اس شخص کے گھوڑے جنہیں اس کے مالک اظہار فخر و غرور اور مال دار اور ریاء کے لئے اور مسلمانوں سے دشمنی کے واسطے باندھے چناچہ وہ گھوڑے اپنے مالک کے لئے گناہ کا سبب بنتے ہیں اور وہ گھوڑے جو آدمی کے لئے پردہ ہوتے ہیں اس شخص کے گھوڑے ہیں جنہیں اس کے مالک نے اللہ کی راہ میں کام لینے کے لئے باندھا اور ان کی پیٹھ اور ان کی گردن کے بارے میں وہ اللہ کے حق کو نہیں بھولا چناچہ وہ گھوڑے اپنے مالک کے لئے پردہ ہیں اور وہ گھوڑے جو آدمی کے لئے ثواب کا سبب و ذریعہ بنتے ہیں اس شخص کے گھوڑے ہیں جنہیں ان کا مالک اللہ کی راہ میں لڑنے کے لئے مسلمانوں کے واسطے باندھے اور چراگاہ و سبزہ میں رکھے چناچہ جب وہ گھوڑے چراگاہ و سبزہ سے کچھ کھاتے ہیں تو جو کچھ انہوں نے کھایا یعنی گھاس وغیرہ کی تعداد کے بقدر اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں یہاں تک کہ ان گھوڑوں کی لید اور ان کے پیشاب کے بقدر بھی اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں کیونکہ لید اور پیشاب بھی گھوڑے کی زندگی کا باعث ہیں اور گھوڑے رسی توڑ کر ایک یا دو میدان دوڑتے پھرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے قدموں کے نشانات اور ان کی لید جو وہ اس دوڑنے کی حالت میں کرتے ہیں کی تعداد کے برابر اس شخص کے لئے نیکیاں لکھتا ہے اور جب وہ شخص ان گھوڑوں کو نہر پر پانی پلانے کے لئے لے جاتا ہے اور وہ نہر سے پانی پیتے ہیں اگرچہ مالک کا ارادہ ان کو پانی پلانے کا نہ ہو، اللہ تعالیٰ گھوڑوں کے پانی پینے کے بقدر اس شخص کے لئے نیکیاں لکھتا ہے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اچھا گدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا گدھوں کے بارے میں مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں ہوا لیکن تمام نیکیوں اور اعمال کے بارے میں یہ آیت جامع ہے (فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَه۔ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَه۔ ) 99 ۔ الزلزلۃ 7 ۔ 8) یعنی جو شخص ایک ذرہ کے برابر نیکی کا عمل کرے گا اسے دیکھے گا اور جو شخص ایک ذرہ کے برابر برائی کا عمل کرے گا اسے دیکھے گا۔ (یعنی مثلاً کوئی شخص کسی دوسرے کو نیک کام کے لئے جانے کے واسطے اپنا گدھا دے گا تو ثواب پائے گا اور اگر برے کام کے لئے دے گا تو گناہگار ہوگا) مسلم۔ تشریح قیامت کے دن کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر بتائی گئی ہے لیکن اس کا تعلق کافروں کے ساتھ ہے یعنی قیامت کا دن کافروں کو پچاس ہزار سال کے بقدر دراز معلوم ہوگا بقیہ گناہگاروں کو ان کے گناہ کے بقدر دراز محسوس ہوگا اگر کسی کے گناہ کم اور ہلکے ہوں گے تو اسے وہ دن اسی اعتبار سے کم دراز محسوس ہوگا اور اگر کسی کے گناہ زیادہ اور شدید نوعیت کے ہوں گے تو اسے وہ دن بھی اس کی اعتبار سے دراز محسوس ہوگا یہاں تک کہ اللہ کے نیک بندوں یعنی مومنین و کاملین کو وہ پورا دن صرف دو رکعت نماز کے بقدر معلوم ہوگا گویا جتنی دیر میں دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے انہیں وہ دن صرف اتنے عرصہ کے بقدر محسوس ہوگا۔ فیری سبیلہ اما الی الجنۃ الخ اور وہ جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس شخص کے نامہ اعمال میں اس ترک زکوٰۃ کے گناہ کے علاوہ اور کوئی گناہ نہیں ہوگا اور مذکورہ عذاب کہ جس میں اسے مبتلا کیا جائے گا اس کے اس گناہ کو دور کر دے گا تو اس کے بعد وہ جنت میں چلا جائے گا اور اللہ نخواستہ اگر اس کا نامہ اعمال میں ترک زکوٰۃ کے علاوہ اور گناہ بھی ہوں گے یا یہ کہ مذکورہ عذاب کے بعد بھی ترک زکوٰۃ کا گناہ اس سے دور نہیں ہوگا تو پھر وہ دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔ حتی یقضی بین العباد میں اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن میدان حشر میں دوسری مخلوق اللہ تو حساب کتاب میں مشغول ہوگی مگر وہ لوگ جنہوں نے زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ ومن حقہا حلبہا یوم وردہا اونٹوں کا ایک حق یہ بھی ہے الخ۔ اونٹ والوں کا یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں کو تیسرے دن یا چوتھے دن پانی کی جگہ پانی پلانے لے جاتے ہیں چناچہ عرب میں ایک یہ معمول بھی تھا کہ جس جگہ پانی پلانے کے لئے اونٹ لائے جاتے تھے وہاں لوگ جمع ہوجاتے تھے اونٹ والے اپنے اونٹوں کو وہاں پانی پلانے لاتے اور وہیں اونٹوں کا دودھ نکال کر وہاں جمع لوگوں کو پلا دیا کرتے چناچہ اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگرچہ اونٹوں کا واجب حق تو صرف یہی ہے کہ ان کی زکوٰۃ ادا کی جائے مگر ان کے اور دوسرے حقوق میں سے ایک مستحب حق یہ بھی ہے کہ جس دن اونٹ پانی پینے جائیں اس دن کا دودھ وہ غرباء و مساکین کو پلایا جائے لہٰذا یہ فعل اگرچہ مستحب ہے لیکن از راہ مروت و ہمدردی اور بربنائے ادائے شکر حق گویا واجب کا حکم رکھتا ہے اسی لئے اس کے بارے میں اتنی اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا گیا چناچہ حدیث کے ظاہر الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حق کی عدم ادائیگی کی صورت میں عذاب بھی ہوسکتا ہے۔ ولایرید ان یسقیہا (اگرچہ مالک کا ارادہ ان کو پانی پلانے کا نہ ہو) مطلب یہ ہے کہ مالک گھوڑے کو پانی پلانے کا ارادہ نہ رکھے بلکہ اس کے ارادہ و قصد کے بغیر گھوڑا پانی پیے تو اس کے بارے میں مذکورہ ثواب بیان کی گیا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر مالک خود ارادہ و قصد کر کے گھوڑے کو پانی پلائے گا تو اس کا کیا کچھ ثواب اسے ملے گا گھوڑوں کے بارے میں صحابہ کے سوال پر آنحضرت ﷺ نے جو جواب دیا اس کا اسلوب پہلے جوابات کے اسلوب سے مختلف ہے اس موقعہ پر آپ ﷺ نے جواب کا جو اسلوب اختیار فرمایا ہے اسے جواب علی اسلوب الحکیم کہتے ہیں گویا آنحضرت ﷺ نے سوال کرنے والے صحابہ سے فرمایا کہ گھوڑوں کا جو حق واجب ہے یعنی زکوٰۃ وغیرہ صرف اس کے بارے میں مت پوچھو کہ ان گھوڑوں کی وجہ سے ان کے پالنے والے سعادت و نیک بختی اور بھلائی کے کیسے کیسے مقام حاصل کرتے ہیں اور انہیں ان گھوڑوں سے کیا نفع پہنچتا ہے اسی طرح دوسرا پہلو بھی کہ ان پالنے والوں کو کیسے کیسے گناہ ملتے ہیں اور انہیں کیا نقصان پہنچتا ہے۔ اسی بنیاد پر آپ ﷺ نے گھوڑوں کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ (١) وہ گھوڑے جو اپنے مالک کے لئے گناہ کا سبب ہوتے ہیں اس کی تشریح آپ ﷺ نے یہ فرمائی کہ اس سے وہ گھوڑے مراد ہیں جنہیں ان کے مالک نے اظہار فخر اور ریاء کے لئے باندھ رکھا ہو یعنی گھوڑے رکھنے سے اس کی غرض صرف یہ ہو کہ لوگ باگ اس کی حشمت و ثروت دیکھیں اور جانیں کہ یہ مجاہد ہے حالانکہ واقعہ میں وہ مجاہد نہیں ہے نیز فخر یہی مراد ہے کہ وہ گھوڑا اس نیت سے پالے کہ میں اپنے سے کمتر لوگوں پر اپنی بڑائی جتاؤں اور ان کے سامنے فخر کا اظہار کروں (٢) وہ گھوڑے جو اپنے مالک کے لئے پردہ ہوتے ہیں اس کی وضاحت آپ ﷺ نے یہ فرمائی کہ اس سے وہ گھوڑے مراد ہیں جنہیں ان کے مالک نے اس لئے باندھا ہے تاکہ وہ اللہ کی راہ میں کام آئیں یہاں اللہ کی راہ سے مراد جہاد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ گھوڑوں کو رکھنے اور باندھنے کا مقصد اظہار فخر و غرور اور ریاء نہ ہو بلکہ انہیں اچھی و نیک نیت سے رکھے مثلاً گھوڑے اس مقصد کے لئے پالے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اچھے و نیک مقاصد کے لئے کام آئیں یا ان سے اپنی سواری مقصود ہو کہ اپنی مشروع و مباح ضرورتوں کے وقت ان پر سوار ہو سکے نیز یہ کہ اپنے فقر و احتیاج کی پردہ پوشی کرے جیسا کہ روایت میں فرمایا گیا ہے کہ ربطہا تغنبا وتعففا یعنی دوسروں سے مستغنی رہنے اور دوسروں کے آگے اپنی احتیاج و ضرورت کے اظہار سے بچنے کے لئے گھوڑا رکھنا چاہیے مثلاً تجارتی مقصد کے لئے عزیز و اقا رب اور دوست و احباب کے یہاں جانے کے لئے کھیت کھلیان میں آنے جانے کے واسطے یا اسی قسم کے دوسرے مقاصد کے وقت اگر گھوڑے کی ضرورت ہو تو کسی دوسرے کی طرف دیکھنا نہ پڑے بلکہ اپنا گھوڑا ہو تو وہ کام آئے اور غیروں کے آگے اظہار ضرورت کی شرمندگی سے بچائے۔ اسی لئے اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے گھوڑے کو اپنے مالک کے لئے پردہ قرار دیا ہے کہ ایک طرف تو گھوڑا اپنے مالک کے فقر و احتیاج کے لئے پردہ پوش ہوتا ہے بایں طور کہ گھوڑے کی وجہ سے دوسروں کی نظروں میں اس کے مالک کا وقار اور برہم قائم رہتا ہے اور اس کی عزت بنی رہتی ہے۔ دوسری طرف گھوڑی کا مالک اپنی ضرورت و حاجت کے وقت کسی دوسرے شخص کے آگے اظہار حاجت اور دس سوال دراز کرنے سے بچا رہتا ہے۔ اس موقع پر اللہ کے راستہ سے یہ مفہوم اس لئے مراد لیا گیا ہے تاکہ ایک ہی عبارت میں تکرار لازم نہ آئے کیونکہ تیسری قسم کے ضمن میں مذکورہ اللہ کے راستہ سے مراد جہاد ہی ہے۔ اسی ضمن میں آنحضرت ﷺ نے گھوڑے کے مالک کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کی پیٹھ اور ان کی گردن کے بارے میں وہ اللہ کے حق کو نہیں بھولا۔ چناچہ اس ارشاد گرامی میں پیٹھ کے بارے میں اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس گھوڑے پر اچھے اور نیک کاموں کی خاطر سوار ہوا اور اگر کسی نے اس سے اپنی سواری کے لئے یا گھوڑیوں پر چھوڑنے کے لئے اس کا گھوڑا مانگا تو اس نے اس کی ضرورت پوری کی۔ اسی طرح گردن کے بارے میں حق یہ ہے کہ ان کی زکوٰۃ ادا کی۔ مگر حضرات شوافع کی طرف سے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مالک نے اپنے گھوڑے کی خبر گیری کی بایں طور کہ ان کے گھاس دانہ میں کوئی کمی نہیں کی انہیں ان کی پوری خوراک مہیا کی اور انہیں اگر کوئی مرض لاحق ہو یا کوئی تکلیف ہوئی تو اسے فورا دور کیا۔ گھوڑوں میں زکوٰۃ ہے یا نہیں ؟ دراصل اس عبارت کے مفہوم کے تعین میں یہ اختلاف اس لئے واقع ہوا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک ان گھوڑوں میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جو جنگل میں چرتے ہیں پھر گھوڑے کا مالک اس بارے میں مختار ہے کہ چاہے تو وہ ان کی زکوٰۃ میں ہر گھوڑے پیچھے ایک دینار دے چاہے ان کی قیمت متعین کر کے ہر دو سو درہم میں سے پانچ درہم زکوٰۃ ادا کرے جیسا کہ زکوٰۃ کا حساب ہے۔ حضرت امام شافعی اور صاحبین کے ہاں گھوڑوں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ ان حضرات کی دلیل آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مسلمانوں پر ان کے گھوڑے اور غلام میں صدقہ واجب نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ کی طرف سے دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ ہر گھوڑے پیچھے کہ جو جنگل میں چرے ایک دینار ہے۔ جہاں تک تعین قیمت پر زکوٰۃ کا تعلق ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت عمر فاروق سے منقول ہے حضرت شافعی بطور دلیل جو حدیث پیش کرتے ہیں اس کے بارے میں حضرت امام اعظم کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق غازی و مجاہد کے گھوڑے سے ہے اسی طرح غلام سے مراد غلام ہے جو خدمت کے لئے رکھ چھوڑا ہو۔ (٣) وہ گھوڑے جو اپنے مالک کے لئے ثواب کا ذریعہ بنتے ہیں اس کی تشریح آپ نے یہ فرمائی کہ اس سے وہ گھوڑے مراد ہیں جسے اس کے مالک نے مسلمانوں کے لئے اللہ کی راہ میں باندھا ہے یہاں اللہ کے راستہ سے مراد جہاد ہی ہے یعنی اس نے اس مقصد کے لئے گھوڑے پال رکھے ہیں تاکہ جب جہاد کا وقت آئے تو اس پر سوار ہو کر دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہو یا بوقت ضروت دوسرے مسلمانوں کو دے تاکہ وہ اس پر سوار ہو کر جہاد کریں۔

【4】

مانعین زکوٰۃ پر عذاب کی تفصیل

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و زر دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن اس کا مال وزر گنجے سانپ کی شکل میں تبدیل کیا جائے گا جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے پھر وہ سانپ اس شخص کے گلے میں بطور طوق ڈالا جائے گا اور وہ سانپ اس شخص کی دونوں باچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی (وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران 180) وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں یہ گمان نہ کریں الی آخر الآیہ (بخاری) تشریح گنجے سانپ کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سر پر بال نہیں ہوں گے اور یہ گنجا پن سانپ کے بہت زیادہ زہریلا اور دراز عمر ہونے کی علامت ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشاد گرامی کے بعد بطور استدلال آیت کریمہ کی تلاوت فرما کر آگاہ فرمایا کہ خوب اچھی طرح سن لو کہ اللہ تعالیٰ بھی یہی ارشاد فرماتا ہے چناچہ پوری آیت یہ ہے (وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھ ھُوَ خَيْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِه يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ) 3 ۔ آل عمران 180) جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مال عطا فرمایا ہے اور وہ اس میں بخل کرتے ہیں تو وہ اپنے اس مال کے بارے میں یہ گمان نہ کریں کہ وہ ان کے لئے بہتر ہے بلکہ وہ مال تو ان کے حق میں سراسر وبال جان ہے اور یاد رکھو وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب قیامت کے دن وہ اس مال کا کہ جس میں بخل کرتے ہیں طوق پہنائے جائیں یعنی ان کا مال طوق بنا کر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا۔

【5】

مانعین زکوٰۃ پر عذاب کی تفصیل

حضرت ابوذر (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص کے پاس اونٹ یا گائے یا بکریاں ہوں اور وہ ان کا حق یعنی زکوٰۃ نہ دے تو کل قیامت کے دن اس کے وہ مویشی اس حال میں لائے جائیں گے کہ بہت بڑے بڑے اور فربہ شکل میں ہوں گے اور پھر وہ اس شخص کو اپنے پیروں سے روندیں کچلیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے جب اسے مار کر کچل کر آخری جماعت چلی جائے گی تو پھر پہلی جماعت لائی جائے گی یعنی اسی طرح سب جانور پھر پلٹ کر روندیں گے اور ماریں گے یہ سلسلہ ایسے ہی وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ لوگوں کا حساب کتاب لے کر ان کا فیصلہ نہ کردیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم)

【6】

عاملین کو خوش پوش واپس کرو

حضرت جریر بن عبداللہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب (امام وقت کی طرف سے) زکوٰۃ وصول کرنے والا (کہ جسے اصطلاح شریعت میں ساعی اور عامل کہتے ہیں) آئے تو وہ زکوٰۃ وصول کر کے تمہارے پاس سے اس حال میں واپس جائے کہ وہ تم سے راضی و خوش ہو۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب امام وقت یا اسلامی اداروں کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے والے آئیں تو ان کے ساتھ عزت و احترام کا معاملہ کیا جائے اور انہیں پوری پوری زکوٰۃ ادا کی جائے تاکہ وہ راضی اور خوش ہو کر واپس لوٹیں۔

【7】

زکوۃ لانے والوں کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعائے رحمت

حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) کہتے ہیں کہ جب کوئی جماعت نبی کریم ﷺ کے پاس اپنی زکوٰۃ لے کر آتی تاکہ آپ انہیں مستحقین میں تقسیم فرما دیں تو فرماتے اللہم صل علی الی فلاں اے اللہ ! فلاں شخص کے خاندان پر رحمت نازل فرما چناچہ جب میرے والد مکرم آنحضرت ﷺ کے پاس اپنی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا اللہم صلی علی آل ابی اوفیٰ اے اللہ ! اوفیٰ کے خاندان پر رحمت نازل فرما (بخاری و مسلم) ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب کوئی شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اپنی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتا تو آپ فرماتے کہ اے اللہ اس شخص پر اپنی رحمت نازل فرما۔ تشریح کسی شخص کے بارے میں تنہا اس کے لئے لفظ صلوۃ کے ساتھ دعا کرنا یعنی اس طرح کہنا کہ اللہم صل علی آل فلاں درست نہیں ہے لفظ صلوۃ کے ساتھ دعا صرف انبیاء کرام کے لئے مخصوص ہے ہاں اگر کسی شخص کو انبیاء کے ساتھ متعلق کر کے لفظ صلوۃ کے ساتھ دعا کی جائے تو درست ہے جہاں تک آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی کا تعلق ہے کہ آپ زکوٰۃ لانے والوں کے لئے لفظ صلوۃ کے ساتھ دعائے رحمت کرتے تھے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے ہے کسی اور کے لئے یہ جائز نہیں ہے۔

【8】

زکوۃ لانے والوں کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعائے رحمت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عمر کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر فرمایا کسی شخص نے آ کر خبر دی کہ ابن جمیل خالد ابن ولید اور حضرت عباس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابن جمیل نے تو زکوٰۃ دینے سے اس لئے انکار کیا کہ وہ پہلے مفلس و قلاش تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے اسے دولت مند بنادیا خالد بن ولید کی بات یہ ہے کہ ان پر تم لوگ ظلم کر رہے ہو کہ اصل میں ان پر زکوٰۃ واجب ہی نہیں ہے۔ مگر تم ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے خواہشمند ہو کیونکہ انہوں نے تو اپنی زرہیں اور سامان جنگ یعنی ہتھیار، جانور اور جنگ کا دوسرا سامان اللہ کی راہ میں یعنی جہاد کے لئے وقف کر رکھا ہے لہٰذا تم جو ان کے مال و اسباب کو تجارت کا مال سمجھتے ہو وہ غلط ہے اور جہاں تک حضرت ابن عباس کا تعلق ہے تو بات یہ ہے کہ ان کی زکوٰۃ مجھ پر ہے اور نہ صرف اسی سال کی بلکہ اس کے مثل اور آئندہ سال کی بھی۔ پھر فرمایا کہ عمر ! کیا تم نہیں جانتے کہ کسی شخص کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے لہٰذا تم لوگ عباس کو میرے باپ کی جگہ سمجھو ان کی تعظیم و توقیر کرو اور انہیں کسی بھی طرح رنج و تکلیف نہ پہنچاؤ۔ (بخاری ومسلم) تشریح ابن جمیل پہلے منافق تھے پھر بعد میں مسلمان ہوگئے یہ بہت زیادہ تنگ دست و محتاج تھے انہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ میرے لئے ثروت و دولت کی دعا فرمائیں میں اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کروں گا چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی اور یہ صاحب ثروت ہوگئے لہٰذا ان کا فرض تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی تنگدستی و محتاجی کو مال و دولت میں تبدیل کردیا تو اللہ کا شکر ادا کرتے مگر انہوں نے کفران نعمت کیا یہاں تک کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بھی انکار کیا اسی لئے اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں بطور زجر و تنبیہ مذکورہ کلمات کا ارشاد فرمایا۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشاد گرامی، اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے اسے دولت مند بنادیا ہے، میں ابن جمیل کو دولت مند بنانے کی نسبت اپنی طرف اس اعتبار سے کی کہ آپ نے اس مقصد کے لئے بارگاہ الوہیت میں دعا فرمائی تھی اور آپ ہی کی دعا کی وجہ سے ابن جمیل دولت مند بنے۔ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ حضرت عباس (رض) آنحضرت ﷺ کے گرامی قدر چچا تھے آپ ﷺ نے ان کی زکوٰۃ کو اپنے ذمہ اس لئے فرمایا کہ آپ ﷺ نے ان سے دو سالوں کی ایک ہی مرتبہ پہلے ہی سے وصول کرلی تھی یعنی ان کی طرف سے سال رواں کی زکوٰۃ بھی آپ ﷺ کے پاس آچکی تھی کہ جس کا مطالبہ کیا جا رہا تھا اور آئندہ سال کی زکوٰۃ بھی لے لی تھی جیسا کہ آپ ﷺ نے اپنے ارشاد گرامی و مثلہا معہا کے ذریعہ واضح بھی فرمایا۔

【9】

عامل کسی سے ہدیہ وتحفہ قبول نہ کرے

حضرت ابوحمید ساعدی (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو کہ جس کا نام ابن لتیبہ تھا زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا چناچہ جب وہ شخص زکوٰۃ وصول کر کے مدینہ واپس آیا تو مسلمانوں سے کہنے لگا کہ اتنا مال تو تمہارا ہے یعنی یہ مال زکوٰۃ میں وصول ہوا ہے اس کے مستحق تم ہو اور یہ اتنا مال تحفہ کے طور پر مجھے دیا گیا ہے جب نبی کریم ﷺ نے یہ سنا تو آپ ﷺ نے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں پہلے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور اس کے بعد فرمایا کہ بعد ازاں ! میں تم سے چند آدمیوں کو ان امور کے لئے مقرر کرتا ہوں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے حاکم بنایا چناچہ تم میں سے ایک شخص جسے میں نے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر کیا ہے اپنا کام کر کے آتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ تمہارے لئے ہے اور یہ مال مجھے تحفہ میں دیا گیا ہے اور اس سے پوچھو تو وہ شخص اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا کہ تحفہ دینے والے اسے گھر ہی بیٹھے تحفہ بھیج دیتے تب وہ دیکھتا کہ اس کے پاس تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں ؟ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! یاد رکھو تم میں سے جو شخص کوئی بھی چیز لے گا اسے وہ قیامت کے دن رسوائی و زلت کے طور پر اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا اگر وہ اونٹ ہوگا کہ جس کو اس نے بغیر استحقاق لیا ہوگا تو اس کی آواز ہوگی اگر وہ بیل ہوگا تو اس کی آواز ہوگی اور اگر وہ بکری ہوگی تو اس کی آواز ہوگی یعنی وہ دنیا میں جو بھی چیز بغیر استحقاق کے لے گا وہی چیز قیامت کے دن اس کی گردن پر سوار ہوگی اور بولتی ہوگی اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اپنے دونوں دست مبارک اتنے اونچے اٹھائے کہ ہم نے آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی پھر فرمایا اے پروردگار ! تو نے جو کچھ فرمایا میں نے لوگوں تک پہنچا دیا ہے اے پروردگار میں نے لوگوں تک پہنچا دیا۔ (بخاری ومسلم) اور خطابی نے آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی وہ شخص اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا اور تب وہ دیکھتا کہ اس کے پاس تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں ؟ کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی حرام کام کے لئے جس چیز کو وسیلہ بنایا جائے گا تو وہ وسیلہ بھی حرام ہوگا نیز اگر کسی ایک عقد (معاملہ) کو دوسرے عقد (مثلاً خریدو فروخت، ہبہ اور نکاح وغیرہ) سے متعلق کیا جائے تو اس وقت دیکھا جائے گا کہ آیا ان معاملوں کا علیحدہ علیحدہ حکم ان کے ایک ساتھ متعلق ہونے کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں ! اگر ہے تو درست ہوگا اور اگر نہیں ہے تو درست نہیں ہوگا۔ (شرح السنہ) تشریح ارشاد گرامی وہ دیکھتا کہ اس کے پاس تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو تحفہ تحائف کی پیش کش اس کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے عہدہ کی وجہ سے ہے اگر وہ زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے عامل مقرر نہیں کیا جاتا بلکہ وہ اپنے گھر بیٹھا رہتا ہے تو اسے کوئی تحفہ کیوں دیتا ؟ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر عامل کو اس کا کوئی عزیز و دوست تحفہ دے تو دیکھا جائے کہ اگر اس کے لئے اس تحفہ کی پیش کش اس کے عامل ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے عہدہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تعلقات اور دیرینہ مراسم کی وجہ سے ہے اور یہ ہمیشہ کا معمول ہے تو وہ تحفہ اس کے لئے جائز ہوگا اور اگر تحفہ کی پیش کش محض اس کے عہدے کی وجہ سے ہوگی تو وہ تحفہ اس کے لئے جائز نہیں ہوگا جیسا کہ قاضی و دیگر حکام کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی قاضی و حاکم کی دعوت کی جائے یا اسے کوئی تحفہ دیا جائے تو وہ اسے اس وقت قبول کرسکتا ہے جب کہ وہ یہ جانے کہ یہ پیش کش میرے موجود عہدہ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اپنے ذاتی تعلقات کی وجہ سے اور ہمیشہ کے معمول کے مطابق ہے۔ مگر ابن ملک یہ فرماتے ہیں کہ عامل (حاکم) کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کا تحفہ قبول کرے کیونکہ تحفہ کی پیش کش کا واحد پس منظر اس کی یہ خواہش ہی ہوتی ہے کہ عامل زکوٰۃ میں سے کچھ حصہ چھوڑ دے (اور حاکم اس کے ساتھ غیر قانونی رعایت کا معاملہ کرے) اور یہ مطلقا جائز نہیں ہے۔ خطابی (رح) اس حدیث سے دو قاعدے اور شرعی اصول ثابت کر رہے ہیں پہلا قاعدہ اور شرعی اصول یہ بیان فرما رہے ہیں کہ اگر کسی حرام چیز کے حصول کی خاطر کسی مباح اور جائز چیز کو وسیلہ اور ذریعہ بنایا جائے گا تو وہ مباح و جائز چیز بھی ایک حرام مقصد کا وسیلہ ہونے کی وجہ سے حرام ہوجائے گی۔ مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ کوئی شخص ناجائز نفع اور سود حاصل کرنے کے لئے کسی شخص کو قرض دیتا ہے ظاہر ہے کہ قرض دینا ایک جائز فعل ہے مگر چونکہ قرض دینے والے نے سود حاصل کرنے کے لئے قرض دیا ہے اس لئے اس کا قرض دینا بھی حرام ہوجائے گا، اسی طرح گھر ہے کہ کوئی شخص اسے اس لئے بطور رہن و گروی لے کہ اس میں بغیر کرایہ کے سکونت اختیار کرے یا جانور کہ اسے رہن لیا جائے اور پھر بغیر معاوضہ کے اس پر سواری کرے یا اس سے دوسرا فائدہ حاصل کرے۔ دوسرا قاعدہ اور شرعی اصول یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر دو الگ الگ عقد (معاملوں) کو ایک دوسرے کے ساتھ متعلق کیا جائے تو اس وقت یہ دیکھا جائے گا کہ ان دونوں معاملوں کے ایک متعلق ہونے کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں۔ یعنی اگر وہ معاملے الگ الگ جائز ہوسکتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہو کر بھی جائز رہیں گے اور اگر دونوں معاملے الگ الگ درست نہیں ہوتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہو کر بھی درست نہیں ہوں گے مثلا کوئی شخص کسی دوسرے کو دس روپے کی چیز سو روپے میں فروخت کرے تاکہ وہ اسے ایک ہزا روپیہ قرض دے اور اس قرض کا نفع (سود) اس چیز کی قیمت کے طور پر وصول کرے یعنی جیسے اس صورت میں نو روپے قرض دینے والے کو مل گئے جو اس کے قرض کا نفع ہوگیا یہ صورت جائز نہیں ہے کیونکہ اگر وہ دس روپیے کی چیز سو روپیہ کی بیچتا اور خریدار کو قرض کا لالچ نہ ہوتا تو وہ ہرگز اتنی زائد قیمت پر نہ لیتا۔ اور جہاں دو معاملے ایسے ہوں کہ اگر ایک کو دوسرے سے الگ کردیں تو بھی جائز اور درست ہوں جیسے اس صورت مذکورہ میں دس روپے کی چیز دس ہی روپے میں بیچی جاتی اور ایک ہزار روپے قرض بھی دیتا تو چونکہ یہ دونوں معاملے الگ الگ جائز ہوئے اس لئے ایک دوسرے سے متعلق یک جا ہو کر بھی درست ہوں گے۔ خطابی نے حدیث سے جو یہ دو قاعدے مستنبط کئے ہیں ان میں سے پہلا قاعدہ تو بلا اختلاف سب کے ہاں قابل قبول ہے اس لئے کہ تمام ائمہ کے مسلک میں یہ قاعدہ مقرر ہے کہ وسائل و ذرائع چونکہ مقاصد ہی کے حکم میں ہوتے ہیں اس لئے نیکی کا وسیلہ بھی نیکی ہی ہوگا اور برائی کا وسیلہ بھی برائی ہوگا۔ لیکن دوسرا قاعدہ امام مالک اور امام احمد کے ہاں تو قابل قبول ہے کیونکہ وہ ہر اس حیلہ (تدبیر) کو ناجائز قرار دیتے ہیں جس کے ذریعہ سے ربوا (سود) وغیرہ کی حرمت سے بچ جائے گا مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی اس دوسرے قاعدہ کو نہیں مانتے کیونکہ ان حضرات کے ہاں حیلہ مباح ہے۔ تاہم اتنی بات ملحوظ رہے کہ اگرچہ امام اعظم ابوحنیفہ اس قاعدہ کے قائل نہیں ہیں لیکن اس قاعدہ کی جو مثال بیان کی گئی ہے وہ صورت امام صاحب کے نزدیک بھی ایک دوسرے شرعی قاعدہ کے مطابق جائز نہیں ہے چونکہ امام صاحب کے نزدیک حیلہ کی بعض صورتیں درست ہیں اس مناسبت سے کہا گیا ہے کہ وہ خطابی کے ذکر کردہ دوسرے قاعدہ کے قائل نہیں ہیں۔

【10】

عامل زکوٰۃ میں خیانت نہ کرے

حضرت عدی بن عمیرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہم تم میں سے جس کسی کو کسی کام (یعنی زکوٰۃ وغیرہ وصول کرنے) پر مقرر کریں اور وہ شخص ہم سے سوئی کے برابر یا اس سے کم و بیش چیز کو چھپائے تو یہ خیانت میں شمار ہوگا جو اسے روز قیامت رسوا کر کے لائے گا۔ (مسلم)

【11】

مانعین زکوٰۃ کو قرآن کی تنبیہ

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ ( وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ ) 9 ۔ التوبہ 34) اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں (آخر تک) نازل ہوئی تو صحابہ (رض) بڑے متفکر ہوئے ان کی حالت دیکھ کر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں تمہارے اس فکر کو ابھی دور کئے دیتا ہوں چناچہ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ! یہ آیت تو آپ کے صحابہ پر بڑا بار ہوگئی ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو اسی لئے فرض کیا ہے تاکہ وہ تمہارے باقی مال کو پاک کر دے نیز اللہ تعالیٰ نے میراث کو اس لئے مقرر کیا ہے اور اس کے بعد آپ ﷺ نے کلمہ ذکر فرمایا کہ جو لوگ تمہارے بعد رہ جائیں وہ ان کا حق ہوجائے۔ حضرت عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر اس جوش مسرت سے کہ ایک مشکل آسان ہوگئی اللہ اکبر کہا اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی بہترین چیز نہ بتادوں جسے انسان اپنے پاس رکھ کر خوش ہو اور وہ نیک بخت عورت ہے کہ اس کی طرف مرد دیکھے تو اس کی طبیعت خوش ہو جب وہ اسے کوئی حکم دے تو اس کی اطاعت کرے اور جب وہ گھر میں موجود نہ ہو تو اس کے بچوں کی حفاظت کرے۔ (ابو داؤد) تشریح قرآن حکیم نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو انتباہ فرمایا ہے وہ پوری آیت یوں ہے ( وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) 9 ۔ التوبہ 34) جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے۔ یعنی جو لوگ مال و دولت جمع کرتے ہیں اور اس مال کا حق نہیں نکالتے بایں طور کہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تو انہیں آگاہ کر دیجئے کہ عنقریب وہ دن آنے والا ہے جب انہیں اس جرم کی سزا ملے گی اور وہ دردناک عذاب میں مبتلا کئے جائیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ ان کے مال کو دوزخ کی آگ میں تپاتپا کر اس سے ان مالداروں کی پیشانیوں اور ان کے پہلو داغے جائیں گے۔ (جیسا کہ پہلے ایک حدیث نے اس کی وضاحت کی ہے) ہے۔ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ بڑے متفکر ہوئے اور انہیں بڑا خوف معلوم ہوا کیونکہ وہ آیت کے ظاہری مفہوم سے یہ سمجھے کہ مطلقاً مال جمع کرنا شریعت کی نظر میں بڑا سخت جرم ہے جس کے بارے میں یہ آیت آگاہ کر رہی ہے۔ چناچہ حضرت عمر (رض) نے صحابہ کی یہ کیفیت دیکھ کر آنحضرت ﷺ سے اس کے بارے میں عرض کیا اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ زکوٰۃ تو اسی لئے فرض کی گئی ہے کہ اس کی ادائیگی سے بقیہ مال پاک ہوجائے جب مال میں سے زکوٰۃ ادا کردی جائے گی تو جو مال باقی رہ گیا ہے وہ پاک ہوجائے گا اب اگر وہ مال جمع کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لہٰذا آیت کریمہ میں جو وعید بیان فرمائی گئی ہے وہ مطلقاً مال جمع کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ وہ اس صورت کے لئے ہے کہ مال جمع کیا ہے اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے، اگر کوئی شخص زکوٰۃ نکال کر مال جمع کرے تو اس کے لئے کوئی وعید نہیں ہے۔ وذکر کلمۃً (اور اس کے بعد آپ نے ایک اور کلمہ کا ذکر کیا) یہ جملہ حدیث کے راوی حضرت ابن عباس (رض) کا ہے یعنی حضرت ابن عباس اس موقع پر یہ فرما رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے وانما فرض المواریث کے بعد ایک جملوہ اور ارشاد فرمایا تھا مگر وہ جملہ کیا تھا ؟ اب مجھے یاد نہیں رہا، اب تو مجھے صرف اسی قدر یاد ہے کہ آپ نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میراث کو اسی لئے فرض قرار دیا ہے تاکہ وہ تمہارا مال تمہارے بعد والوں یعنی تمہارے وارثوں کا حق ہوجائے۔ گویا اس بات سے بھی آنحضرت ﷺ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگر مطلقاً مال جمع کرنا شریعت کی نظر میں قابل نفریں فعل ہوتا تو اللہ تعالیٰ نہ زکوٰۃ کو فرض قرار دیتا اور نہ میراث فرض قرار پاتی زکوٰۃ اور میراث کا فرض ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جائز طریقوں سے جمع کرنا برا نہیں ہے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اس مال کا حق یعنی زکوٰۃ و صدقہ ادا ہوتا رہنا چاہئے۔ جب آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو بتایا کہ جب تک زکوٰۃ ادا ہوتی رہے مال جمع کرنا ممنوع نہیں ہے اور صحابہ نے ایک الجھن اور خوف سے نکل کر اطمینان و خوشی محسوس کی تو آپ ﷺ نے ان کی کیفیت کے پیش نظر ان کو اس چیز کی طرف رغبت دلائی جو مال سے بہر صورت بہتر ہے یعنی عورت۔ گویا اس بارے میں آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ نیک بخت و خوبصورت بیوی مال سے بدرجہا بہتر اور افضل ہے کیونکہ روپیہ پیسہ اور سونا چاندی کسی کے پاس ٹھہرنے والی چیز نہیں ہے پھر یہ کہ سونے چاندی کو جمع کر کے اپنے خزانہ میں محفوظ رکھو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں نہ اس سے کوئی نفع اور نہ راحت۔ ہاں جب اپنی کسی ضرورت کے تحت اسے خرچ کرو اور وہ تم سے جائے تو صرف اس وقت وہ تمہارے کام آئے بخلاف بیوی کے وہ جب تک تمہارے ساتھ ہے تمہاری رفیق حیات اور باعث راحت بنی رہتی ہے۔ جب تم اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ہو تو تمہاری طبیعت خوش ہوجاتی ہے تمہیں کوئی ضرورت ہوتی ہے تو وہ فورا اسے پورا کرتی ہے جب تم اسے کوئی حکم کرتے ہو تو فورا اطاعت کرتی ہے ہر وقت تمہاری نفسیاتی تسکین و راحت کا ذریعہ بنی رہتی ہے جب تم گھر سے باہر نکلتے ہو تو تمہارے بچوں اور تمہارے مال و اسباب کی نگہبان ہوتی ہے اور اس سے تمہاری اولاد پیدا ہوتی ہے جو نہ صرف یہ کہ زندگی میں تمہاری قوت بازو بنتی ہے بلکہ مرنے کے بعد تمہاری جانشین ہو کر خاندان کا نام زندہ و روشن رکھتی ہے۔ اس طرح عورت سے بہت زیادہ منفعت اور راحت حاصل ہوتی ہے پھر یہ کہ بیوی نہ صرف یہ کہ اپنے شوہر کی دنیاوی زندگی میں اطمینان و سکون اور خوشی و مسرت کے سدا بہار پھول کھلاتی ہے بلکہ اخروی طور پر اس کو بہت برے افعال اور برے کاموں سے روکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک مرفوع روایت میں یہ منقول ہے کہ جس شخص نے نکاح کیا اس نے اپنا دو تہائی ایمان و دین مضبوط کرلیا۔

【12】

عاملین کو خوش رکھو

حضرت جابر بن عتیک (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے پاس ایک چھوٹا سا قافلہ آئے گا (یعنی زکوٰۃ وصول کرنے کے عامل آئیں گے) جو مبغوض ہوں گے (یعن طبعی طور پر تم ان سے متنفر ہوں گے کیونکہ وہ ان کا مال لینے آئیں گے) لہٰذا جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم انہیں مرحبا کہو اور ان کی خدمت میں زکوٰۃ کا مال حاضر کردو گویا ان کے اور ان کی طلب کردہ چیز یعنی زکوٰۃ کے درمیان کوئی چیز حائل و مانع نہ رکھو۔ لہٰذا اگر وہ زکوٰۃ لینے کے بارے میں عدل سے کام لیں گے تو یہ اپنے لئے کریں گے کہ عدل کا ثواب پائیں گے اور اگر ظلم کا معاملہ کریں گے تو اس کا وبال ان پر ہوگا تم تو زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو اور جان لو کہ تمہاری طرف سے پوری زکوٰۃ کی ادائیگی ہی ان کی رضا مندی ہے نیز حائل وصول کرنے والے کو چاہئے کہ وہ تمہارے لئے دعا کرے۔ ( ابوداؤد ) تشریح وان ظلموا اور اگر ظلم کا معاملہ کریں گے۔ کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ وصول کرنے کے معاملہ میں اگرچہ تم اپنے گمان و طبیعت کے مطابق یہی کیوں نہ جانو کہ عامل تمہارے ساتھ ظلم کر رہا ہے پھر بھی ان کو راضی کرو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر بفرض محال وہ ظلم بھی کریں تو تم ان کی رضا کا پھر بھی خیال کرو، اس صورت میں کہا جائے گا کہ آپ ﷺ نے یہ جملہ بطور مبالغہ کے ارشاد فرمایا ہے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ عامل کو راضی کرنے کی کتنی اہمیت ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص حقیقۃً اور واقعۃً ظلم ہی کرے تو اس کو راضی کرنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ وارضوھم کا مطلب جیسا کہ خود حدیث میں بیان کیا گیا ہے یہ ہے کہ تم زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو خوش و راضی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑو بایں طور کہ زکوٰۃ کا جو مال تم پر شرعی طور پر واجب ہے اس کی ادائیگی میں خیانت اور کوتاہی کا معاملہ نہ کرو بلکہ انہیں پوری زکوٰۃ ادا کرو۔ اگرچہ ادائیگی زکوٰۃ کا اصل فریضہ مال ادا کرتے ہی پورا ہوجاتا ہے پھر بھی زکوٰۃ وصول کرنے والے کو خوش کرنا ادائیگی زکوٰۃ کا جزو کمال ہے لہٰذا اس بارے میں بھی احتیاط رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو شخص زکوٰۃ وصول کرنے جائے اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ زکوٰۃ دینے والے کے حق میں رحمت و برکت اور خیر و بھلائی کی دعا کرے۔

【13】

عاملین کو خوش رکھو

حضرت جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ دیہات کے کچھ لوگ رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے کچھ لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہمارے ساتھ ظلم کا معاملہ کرتے ہیں آپ نے ان سے فرمایا کہ زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اگرچہ وہ ہم پر ظلم ہی کیوں نہ کریں ؟ آپ نے فرمایا تم تو زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو راضی ہی کرو اگرچہ تمہارے ساتھ ظالم ہی کا معاملہ کیوں نہ کیا جائے۔ ( ابوداؤد ) تشریح نفسیاتی بات یہ ہے کہ جس شخص کے پاس سے مال جاتا ہے اس کے دل میں کچھ نہ کچھ تنگی ہوتی ہے اسی لئے زکوٰۃ وصول کرنے والوں کی طرف سے بھی زکوٰۃ دینے والوں کے دل میں کچھ اچھے خیالات نہیں ہوتے۔ اسی لئے آپ نے ان دیہاتیوں سے فرمایا کہ اپنے مال سے نفسیاتی اور طبعی طور پر محبت ہونے کی وجہ سے اگرچہ تم یہی سمجھو اور تمہارا گمان یہی ہو کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے ہمارے ساتھ ظلم کا معاملہ کر رہے ہیں مگر تم اس صورت میں بھی انہیں راضی اور خوش کرنے کی کوشش کرو۔

【14】

زکوۃ کا کچھ حصہ چھپانا یا روکنا ناجائز ہے

بشیر بن خصاصہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ زکوٰۃ لینے والے ہمارے اوپر زیاتی کرتے ہیں یعنی مقدار واجب سے زیادہ لیتے ہیں تو کیا ہم اپنے مال میں سے اتنا حصہ چھپالیں جتنا کہ وہ ہم سے زائد وصول کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ (ابو داؤد) تشریح آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنے زکوٰۃ کے مال میں سے کسی قدر چھپانے یا روکنے کی اجازت اس لئے عطا نہیں فرمائی کہ غالباً وہ لوگ تو اپنے گمان کے مطابق یہی سمجھتے تھے کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے ان سے مقدار واجب سے بھی زیادہ زکوٰۃ وصول کرتے ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔

【15】

عامل کا اجر

حضرت رافع بن خدیج (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حق کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرنے والا عامل اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی کی طرح ہے جب تک کہ وہ اپنے گھر لوٹ آئے۔ تشریح حق کے ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ عامل چونکہ طلب ثواب اور اللہ کی رضاء حاصل کرنے کی خاطر زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے اس لئے اس کے صدق و اخلاص کی بناء پر اسے غازی کے ثواب کی مانند ثواب عنایت فرمایا جاتا ہے۔

【16】

زکوۃ لینے والوں کے لئے ایک ہدایت

حضرت عمرو بن شعیب (رض) اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ کے لئے مویشیوں کو نہ کھینچ منگوائے اور نہ مویشیوں کا ملک دور چلا جائے نیز مویشیوں کی زکوٰۃ ان کے مکان ہی میں لی جائے۔ (ابو داؤد) تشریح جلب کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ دینے والوں کے مکانوں سے دور کسی مقام پر مقیم ہو اور زکوٰۃ لینے کے لئے مویشیوں کو وہاں منگا بھیجے۔ جنب کا مطلب یہ ہے کہ مویشیوں کا مالک اپنے مکان سے دور چلا جائے اور زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ لینے کے لئے تکالیف و پریشانیاں برداشت کر کے وہاں پہنچے۔ آنحضرت ﷺ نے ان دونوں باتوں سے منع کیا ہے کیونکہ پہلی صورت میں زکوٰۃ دینے والے کو تکالیف و پریشانی ہوتی ہے اور دوسری صورت میں زکوٰۃ وصول کرنے والا پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے حدیث کا آخری جملہ اس ممانعت کی تاکید کے طور پر استعمال فرمایا گیا ہے گویا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ نہ زکوٰۃ دینے والے دور چلے جائیں اور نہ زکوٰۃ وصول کرنے والے دور کسی مقام پر قیام کریں بلکہ زکوٰۃ دینے والوں کے قریب ہی اترتے اور ان کے گھروں میں باری باری جا کر زکوٰۃ لے لیا کریں۔

【17】

مال مستفاد کی زکوٰۃ کا مسئلہ

حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس کسی کو مال حاصل ہوا تو اس پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک کہ ایک سال نہ گزر جائے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور ایک جماعت کے بارے میں کہا ہے کہ اس نے اس حدیث کو حضرت ابن عمر پر موقوف کیا ہے یعنی یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی نہیں ہے بلکہ خود حضرت ابن عمر کا قول ہے۔ تشریح پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ مال مستفاد کسے کہتے ہیں ؟ فرض کیجیے کہ آپ کے پاس اسی بکریاں موجود ہیں جن پر ابھی سال پورا نہیں ہے اسی درمیان میں اکتالیس بکریاں اور آپ کو حاصل ہوجاتی ہیں خواہ وہ میراث میں حاصل ہوئی ہوں یا تجارت سے منافع کی صورت میں اور خواہ کسی نے آپ کو ہبہ کردی ہوں بہر حال اس طرح بکریوں کی تعداد اسی کی بجائے ایک سو اکیس ہوگئی چناچہ یہ اکتالیس بکریاں جو آپ کو درمیان سال حاصل ہوئی ہیں مال مستفاد کہلائیں گی۔ گویا مال مستفاد کی تعریف یہ ہوئی کہ وہ مال کی جنس سے ہو اور درمیان سال حاصل ہوا ہو۔ اب اس حدیث کی طرف آئیے ابن مالک (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر مال کی وجہ سے زکوٰۃ فرض ہو اور سال کے درمیان اسے کچھ مزید مال پہلے سے موجود مال ہی کی جنس سے (مثلاً پہلے سے بکریاں موجود ہوں تو بکریاں ہی یا پہلے سے گائیں موجود ہوں تو گائیں) ملے تو بعد میں حاصل ہونے والے اس مال پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی جب کہ اس مال پر پورا سال نہ گزر جائے چناچہ حضرت امام شافع کا یہی مسلک ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اصل (پہلے سے موجود) مال ہی پر پورا سال گزر جانا کافی ہے بعد میں حاصل ہونے والے مال پورا سال گزرے یا نہ گزرے زکوٰۃ مجموعہ مال پر واجب ہوجائے گی۔ اس اختلاف کو مثال کے طور پر یوں سمجھیے کہ مثلاً ایک شخص کے پاس اسی بکریاں ہیں جن پر ابھی چھ مہیینے ہی گزرے تھے کہ پھر اسے اکتالیس بکریاں حاصل ہوگئیں چاہے تو انہیں اس نے خریدا ہو چاہے اسے وراثت میں ملی ہوں یا کسی اور طرح اس نے حاصل کی ہوں تو ان بعد میں ملنے والی اکتالیس بکریوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ ہاں اگر ان بکریوں پر بھی ان کو خریدنے یا وراثت میں حاصل ہونے کے وقت سے ایک سال پورا ہوجائے گا تو زکوٰۃ واجب ہوگی حضرت امام شافعی اور ان کے ساتھ ہی حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے۔ مگر حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھ حضرت امام مالک کے نزدیک وہ مال مستفاد (جو بعد میں حاصل ہوا ہے) اصل (یعنی پہلے سے موجود) مال کے تابع ہوگا، جب پہلے سے موجود اسی بکریوں پر ایک سال گزر جائے گا تو مجموعہ بکریوں پر زکوٰۃ میں دو بکریاں نکالنا واجب ہوجائے گا کیونکہ بکریوں کی زکوٰۃ کا نصاب چالیس ہے یعنی چالیس سے کم بکریوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ بلکہ چالیس سے ایک سو بیس کی تعداد پر ایک بکری واجب ہوتی ہے۔ جب تعداد ایک سو اکیس ہوجاتی ہے تو دو بکریاں واجب ہوجاتی ہیں لہٰذا مذکورہ بالا صورت میں پہلے اور بعد کی بکریوں کی مجموعی تعداد چونکہ ایک سو اکیس ہوگئی اس لئے دو بکریاں واجب ہوں گی۔ اب رہ گئی یہ بات کہ حدیث سے تو بظاہر حضرت امام شافعی ہی کے مسلک کی تائید ہو رہی ہے تو اس بارے میں حنفی علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ اس حدیث کے وہ معنی ہیں ہی نہیں جو شافعی حضرات بیان کرتے ہیں بلکہ اس کا تو مفہوم یہ ہے کہ جو شخص ابتدائی طور پر مال پائے اور حاصل کرے تو اس پر زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوگی جب کہ مال پر ایک سال گزر جائے لہٰذا حدیث میں مال سے مستفاد مراد نہیں ہے۔

【18】

سال پورا ہونے سے پہلے ہی زکوٰۃ ادا کردینا جائز ہے

حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عباس نے رسول کریم ﷺ سے سال پورا ہونے سے پہلے زکوٰۃ جلدی ادا کردینے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دے دی۔ (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح حنفیہ اور اکثر ائمہ کے نزدیک یہ بات جائز اور درست ہے کہ مال پر سال پورا ہونے سے پہلے ہی زکوٰۃ ادا کردی جائے بشرطیکہ زکوٰۃ دینے والا نصاب شرعی کا مالک ہو۔

【19】

نابالغ کے مال کی زکوٰۃ کا مسئلہ

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے (یعنی شعیب سے) اور وہ اپنے دادا (یعنی حضرت عبداللہ) سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا۔ خبردار ! جو شخص کسی یتیم کا نگہبان ہو اور وہ یتیم بقدر نصاب مال کا مالک ہو تو اس نگہبان کو چاہئے کہ وہ اس مال سے تجارت کرے بغیر تجارت اس مال کو نہ رکھ چھوڑے کہ اسے زکوٰۃ ہی کھاجائے (یعنی زکوٰۃ دیتے ہوئے پورا مال ہی صاف ہوجائے) اس روایت کو ابوداؤد و ترمذی نے نقل کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد میں کلام کیا گیا ہے کیونکہ روایت کے ایک راوی مثنی بن صباح ضعیف ہیں۔ تشریح حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ کا مسلک تو یہ ہے کہ نابالغ کے مال میں بھی زکوٰۃ فرض ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ نابالغ خواہ یتیم نہ بہر صورت اس کے مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے کیونکہ ایک دوسری روایت میں یہ ارشاد گرامی ہے کہ تین اشخاص کو مکلف کرنے سے قلم روک لیا گیا (یعنی ان تینوں کو شریعت نے مکلف قرار نہیں دیا ہے) ایک تو سونے والا شخص جب تک کہ وہ جاگے نہیں۔ دوسرا نابالغ جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے اور تیسرا دیوانہ جب تک کہ اس کی دیوانگی ختم نہ ہوجائے۔ اس روایت کو ابوداؤد و نسائی اور حاکم نے نقل کیا ہے نیز حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

【20】

مانعین زکوٰۃ سے حضرت ابوبکر (رض) کا اقدام

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا اور آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) خلیفہ قرار پائے تو اہل عرب میں جنہیں کافر ہوگئے یعنی زکوٰۃ کے منکر ہوگئے تو حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا حضرت عمر فاروق (رض) نے یہ فیصلہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے عرض کیا کہ آپ لوگوں یعنی اہل ایمان سے کیونکہ جنگ کریں گے۔ جب کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں (یعنی اسلام لے آئیں) لہٰذا جس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا یعنی اسلام قبول کرلیا اس نے مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کرلیا سوائے اسلام کے حق اور اس کے باطن کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم میں اس شخص سے ضرور جنگ کروں جو نماز اور روزہ کے درمیان فرق کرے کیونکہ جس طرح جان کا حق نماز ہے اسی طرح بلاشبہ مال کا حق زکوٰۃ ہے اور اللہ کی قسم اگر وہ لوگ جو منکر زکوٰۃ ہو رہے ہیں مجھے بکری کا بچہ بھی نہ دیں گے جو وہ رسول کریم ﷺ کو دیتے تھے تو میں ان کے اس انکار کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا۔ حضرت عمر (رض) یہ سن کر کہنے لگے اللہ کی قسم اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کہ میں نے جان لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنگ کرنے کے لئے الہام کے ذریعہ حضرت ابوبکر (رض) کا دل کھول دیا ہے یعنی پر یقین کردیا ہے لہٰذا مجھے یقین ہوگیا کہ اب یہی یعنی منکرین زکوٰۃ سے جنگ ہی حق اور درست ہے۔ تشریح جب نبی کریم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) خلیفہ اول قرار پائے تو کچھ نئے فتنوں نے سر ابھارنا چاہا۔ اس بارے میں ہم نے دسویں قسط میں تذکرہ صدیق کے تحت کچھ روشنی ڈالی تھی اور وہاں ان فتنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے خصوصیت سے فتنہ ارتداد کا ذکر کیا تھا جس کے متلعق بتایا تھا کہ اس عظیم فتنہ کو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کتنی جرات اور تدبر کے ساتھ ختم کیا اور وہ موت کے گھاٹ اتر گیا۔ مذکورہ بالا حدیث میں اسی قسم کے ایک اور فتنہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی صورت یہ ہوئی کہ کچھ قبائل مثلا غطفان اور بنی سلیم وغیرہ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اس طرح انہوں نے اسلام کے اس اہم اور بنیادی فریضہ کا انکار کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ کسی فریضہ پر عمل نہ کرنا اور بات ہے مگر اس فریضہ کا سرے سے انکار ہی کردینا ایک دوسرے معنی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ منکرین زکوٰۃ کے بارے میں کفر حقیقی معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے ویسے اس لفظ کے بارے میں تفصیل یہ کی جاتی ہے کہ یا تو ان لوگوں کے بارے میں لفظ کفر (وہ کافر ہوگئے) حقیقی معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے کیونکہ زکوٰۃ کی فرضیت قطعی ہے اور فرضیت زکوٰۃ سے انکار کفر ہے یا یہ کہ ان لوگوں کو کافر اس لئے کہا گیا کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا لہٰذا ان کے اس سخت جرم پر بطریق تغلیظ و تشدید کفر کا اطلاق کیا گیا۔ بہرحال جو معنی بھی متعین کئے جائیں ان کا یہ جرم اتنا سخت تھا کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے جنگ کرنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت عمر (رض) نے جب یہ صورت حال دیکھی تو ان لوگوں کے ظاہر احوال کے مطابق کہ وہ لوگ بظاہر تو مسلمان کہلاتے ہی تھے ان کے کفر میں تامل کیا اور حضرت ابوبکر (رض) کے اس فیصلہ پر اعتراض کیا مگر جب حضرت ابوبکر (رض) نے انہیں حقیقت حال بتائی تو نہ صرف یہ کہ وہ بھی حضرت ابوبکر (رض) کے فیصلے کے ہمنوا ہوگئے بلکہ انہیں یقین کامل بھی ہوگیا کہ حضرت ابوبکر (رض) کی فراست ایمانی اور ان کے تدبر نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ دوسرے صحابہ (رض) حتی کہ حضرت علی (رض) نے بھی حضرت ابوبکر (رض) کو جنگ کرنے سے منع کی اور کہا کہ عہد خلافت کا ابتدائی دور ہے مخالف بہت زیادہ ہیں ایسا نہ ہو کہ فتنہ و فساد پھوٹ پڑے اور اسلام کو کسی طرح نقصان پہنچ جائے اس لئے اس معاملے میں ابھی توقف کرنا چاہئے مگر حضرت ابوبکر (رض) نے نہایت جرات اور بہادری کے ساتھ انہیں یہ جواب دیا کہ اگر اس معاملے میں تمام لوگ ایک طرف ہوجائیں اور میں تنہا رہ جاؤں تو پھر بھی اپنے فیصلے میں کوئی لچک نہیں دکھاؤں گا اور شعائر دین کی حفاظ اور اسلام کے نظریات و اعمال کے تحفظ کے لئے میں نے جو قدم اٹھایا ہے اس میں لغزش نہیں آئے گی اور میں پوری قوم سے تن تنہا جنگ کروں گا اس سے حضرت ابوبکر (رض) کی اصابت رائے، جرات اور شجاعت و بہادری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی جس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا، میں لاالہ الا اللہ سے مراد پورا کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، ہے کیونکہ اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اسلام قبول کرنے کے لئے صرف لا الہ الا اللہ کہہ لینا ہی معتبر نہیں ہے بلکہ اللہ کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی رسالت کا اقرار بھی ضروری ہے۔ الا بحقہ (سوائے اسلام حق کے) کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس پر دیت لازم ہوگی یا اور کسی قسم کا کوئی حق اس کے ذمے ہوگا تو اس کی ادائیگی بہر صورت ضروری ہوگی اسی طرح قصاص وغیرہ میں اسے قتل کیا جاسکے گا۔ وحسابہ علی اللہ (ا ور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص لاالہ الا اللہ کہہ لے گا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے گا تو ہم اس کے مسلمان ہونے کا اعلان کردیں گے اور اس سے جنگ نہیں کریں گے اور نہ ہم اس کے باطن کی تحقیق و تفتیش کریں گے کہ آیا وہ اپنے ایمان و اسلام میں مخلص و صادق ہے یا نہیں ؟ بلکہ اس کے باطن کا حال اللہ کے سپرد کردیں گے اگر وہ صرف ظاہر طور پر مسلمان ہوا ہوگا اور دل سے ایمان نہیں لایا ہوگا جیسا کہ منافقین کا حال ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے آپ اس سے نمٹ لے گا۔ من فرق بین الصلوۃ والزکاۃ (جو شخص نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرے گا) یعنی نماز کے وجوب کا تو قائل ہو مگر زکوٰۃ کے وجوب کا منکر ہو یا نماز پڑھتا ہو مگر زکوٰۃ ادا نہ کرے۔ عناق بکری کے اس بچہ کو کہتے ہیں جو ایک برس سے کم عمر کا ہو۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے ارشاد میں بکری کا بچہ فرض اور واجب حق کے طلب کرنے کا سلسلہ میں بطور مبالغہ فرمایا ہے۔ یہاں یہ حقیقت پر محمول نہیں ہے کیونکہ نہ تو بکری کا وہ بچہ جو ایک سال سے کم ہو زکوٰۃ ہی میں لیا جاتا ہے اور نہ بکری کے ایسے بچوں میں زکوٰۃ ہی واجب ہوتی ہے زکوٰۃ میں لینے کے لئے ادنیٰ درجہ مسنہ ہے (یعنی وہ بچہ جو ایک سال کا ہو) اگر بچے بکریوں کے ساتھ ہوں گے تو پھر ان میں زکوٰۃ واجب ہوگی لیکن بہر صورت زکوٰۃ میں مسنہ ہی دیا جائے گا یہی حکم گائے اور اونٹوں کا ہے کہ زکوٰۃ کے طور پر بھی مسنہ ہی دیا جائے گا پچھلی قسط میں غالباً بتایا جا چکا ہے کہ بکریوں کا مسنہ تو وہ ہے جس کی عمر ایک سال ہو اور گائے کا مسنہ وہ ہے جس کی عمر دو سال ہو اور اونٹ کا مسنہ وہ ہے جو پانچ سال کا ہو۔ اب آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے جو فرمایا کہ میں ان کے اس انکار کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا، تو ابھی اوپر کفر کے بارے میں جو تفصیل بیان کی گئی تھی اسی طرح اس قول کے بارے میں بھی یہ تفصیل ہوگی کہ وہ وجوب زکوٰۃ کے منکر ہوگئے ہیں تو میں ان کے کفر اور ان کے ارتداد کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا اور اگر وہ منکر زکوٰۃ تو نہ ہوئے ہوں بلکہ زکوٰۃ ادا نہ کر رہے ہوں تو پھر ان سے میری جنگ شعائر اسلام کی حفاظت اور اس فتنہ کے سدباب کے لئے ہوگی۔

【21】

بغیر زکوٰۃ جمع کیا ہوا خزانہ روز قیامت وبال جان ہوگا

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارا خزانہ قیامت کے دن گنجے سانپ کی صورت میں ہوگا مالک اس سے بھاگے گا اور وہ اسے ڈھونڈھتا پھرے گا یہاں تک کہ وہ سانپ مالک کو کھاجائے گا اور اس کی انگلیوں کو لقمہ بنائے گا۔ (احمد) تشریح خزانہ سے مراد وہ مال ہے جسے اس کا مالک جمع کر کے رکھے اور اس کی زکوٰۃ نہ ادا کرے یہی حکم ان تمام مالوں کا ہے جو ناجائز اور حرام طریقے سے جمع کئے گئے ہیں۔ حدیث کے آخری جملے حتی یلقمہ اصابعہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک تو یہی معنی جو ترجمہ میں ظاہر کئے گئے ہیں وہ سانپ مالک کی انگلیوں کو لقمہ بنائے گا کیونکہ اس نے ہاتھوں ہی سے مال کما کر جمع کیا تھا اور اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی اس صورت میں لفظ اصابعہ ضمیر کا بدل ہوگا۔ دوسرے معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ مالک مال خود اپنی انگلیاں لقمہ کے طور پر سانپ کے منہ میں دے دے گا جیسا کہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سانپ وغیر سے انتہائی خوف کے وقت بےاختیار اپنی انگلیاں اس کے منہ میں داخل کردیتے ہیں لیکن دوسرے معنی نہ صرف یہ کہ کچھ دل کو نہیں لگتے بلکہ اس میں اشکال و اعتراضات بھی پیدا ہوسکتے ہیں اسی لئے زیادہ صحیح پہلے ہی معنی ہیں۔

【22】

بغیر زکوٰۃ جمع کیا ہوا خزانہ روز قیامت وبال جان ہوگا

حضرت ابن مسعود (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی گردن میں ایک سانپ لٹکائے گا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی جو پہلی فصل کی ایک حدیث میں پوری نقل کی جا چکی ہے آیت (وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھ) 3 ۔ آل عمران 180) اور وہ لوگ جنہیں اللہ نے اپنے فضل سے مال عطا فرمایا ہے اور وہ اس میں بخل کرتے ہیں یہ گمان نہ کریں۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

【23】

حلال مال میں حرام مال کو ملانا مال کو ضائع کردینا ہے

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس مال میں زکوٰۃ رل مل جاتی ہے وہ مال ضائع ہوجاتا ہے۔ (شافعی، بخاری، حمیدی) حمید نے یہ مزید نقل کیا (یعنی حدیث کی وضاحت بیان کی ہے کہ) بخاری نے فرمایا کہ جب تم پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور تم زکوٰۃ نہیں نکالتے تو وہ زکوٰۃ مال میں رلی ملی ہوتی ہے لہٰذا حرام مال حلال مال کو ضائع کردیتا ہے جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ زکوٰۃ عین مال سے متعلق ہے نہ کہ ذمہ سے تو انہوں نے اسی حدیث کو بخاری کی مذکورہ بالا وضاحت کے ساتھ اپنی دلیل قرار دیا ہے (منتقی، بیہقی نے شعب الایمان میں اس روایت کو امام احمد بن حنبل سے حضرت عائشہ تک سلسلہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے چناچہ امام احمد نے حدیث کے لفظ خالطت کے معنی یا اس کی تاویل) کے سلسلے میں یہ وضاحت کی ہے کہ (مثلاً ایک شخص مالدار اور یا غنی ہے مگر اس کے باوجود وہ زکوٰۃ لیتا ہے حالانکہ زکوٰۃ تو صرف فقراء اور مساکین اور مستحقین کے لئے جائز ہے۔ تشریح آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں حضرت امام بخاری تو اس کا مطلب یہ بیان فرما رہے ہیں کہ مثلا ایک شخص صاحب نصاب ہے اور اس پر زکوٰۃ واجب ہے مگر وہ اپنے مال میں سے وہ حصہ نہیں نکالتا جو بطور زکوٰۃ اس پر نکالنا واجب ہے اس طرح مال وہ حصہ جو زکوٰۃ کے طور پر اسے نکالنا چاہئے تھا اور اب نہ نکالنے کی صورت میں وہ اس کے حق میں حرام مال ہے اس کے اصل میں مال مخلوط رہے۔ بہرحال ان میں سے کوئی بھی معنی متعین کر لئے جائیں دونوں اقوال کے پیش نظر حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حرام مال خواہ وہ مال میں سے بقدر واجب نہ نکالا جانے والا حصہ ہو خواہ صاحب نصاب کا کسی دوسرے سے زکوٰۃ میں حاصل کیا ہوا مال ہو، اصل اور حال مال کو شائع اور تباہ کردیتا ہے بایں طور کہ اس حرام مال کے ملنے کی وجہ سے پورا مال کسی نہ کسی طرح ضائع ہوجاتا ہے یا اس میں کوئی نقصان واقع ہوجاتا ہے یا مال میں سے برکت اٹھ جاتی ہے اور یا مال ناقابل انتفاع جاتا ہے کیونکہ حرام مال سے نفع اٹھانا شرعا جائز نہیں ہے۔ ادائیگی زکوٰۃ کا تعلق عین مال سے ہے یا ذمہ سے ہے روایت کے آخر میں ایک اختلافی مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ادائیگی زکوٰۃ کا تعلق عین مال سے ہے ؟ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھیے کہ مثلاً ایک شخص مالدار یعنی صاحب نصاب ہے اس پر زکوٰۃ واجب ہے اب سوال یہ ہے کہ آیا وہ زکوٰۃ کے طور پر بقدر واجب مال اسی مال میں سے نکال کر دے جو اس کے پاس ہے یا یہ کہ اگر وہ اسی مال میں زکوٰۃ کے بقدر حصہ نہ نکالے بلکہ اس کی قیمت ادا کرے تو اس مسئلہ میں حضرت امام شافعی اور دوسرے ائمہ کا مسلک تو یہ ہے کہ زکوٰۃ کا تعلق عین مال سے ہے یعنی جس مال پر زکوٰۃ واجب ہے اسی مال میں بقدر واجب مال نکال کر زکوٰۃ ادا کرے اور یہ بات انہوں نے حدیث کے لفظ خالطت سے مستنبط کی ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کا تعلق ذمہ ہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صاحب نصاب اسی مال سے کہ جس پر زکوٰۃ واجب ہے زکوٰۃ کے طور پر بقدر واجب مال نہ نکالے بلکہ اتنے ہی مال کی قیمت زکوٰۃ میں ادا کرے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے اور وہ بری الذمہ ہوجائے گا۔ مگر یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ حدیث حضرت امام شافعی وغیر کے مذکورہ مسلک کی دلیل اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ حدیث انہیں معنی کو حدیث کا اصل مفہوم قرار دیا جائے جو حضرت امام بخاری کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں۔ حنفی مسلک کی دلیلیں ملا علی قاری نے مرقات میں اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اشعۃ اللمعات میں بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔ طوالت کی وجہ سے انہیں یہاں نقل نہیں کیا گیا ہے۔ اہل علم ان کتابوں سے مراجعت کرسکتے ہیں۔