32. جن چیزوں میں زکوۃ واجب ہوتی ہے ان کا بیان

【1】

جن چیزوں میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان کا بیان

شریعت نے چار قسم کے مالوں پر زکوٰۃ فرض کی ہے (١) سائمہ جانوروں پر (٢) سونے چاندی پر (٣) تجارتی مال پر خواہ وہ کسی قسم کا ہو (٤) کھیتی اور درختوں کی پیداوار پر گو اس چوتھی قسم کو فقہاء زکوٰۃ کے لفظ سے ذکر نہیں کرتے بلکہ اسے عشر کہتے ہیں چناچہ متفقہ طور تمام ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ چوبایہ جانوروں یعنی اونٹ گائے، بکری، دنبہ، بھیڑ اور بھینس میں زکوٰۃ واجب ہے خواہ جانور نر ہوں یا مادہ ان کے علاوہ اور جانوروں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ البتہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک گھوڑوں میں بھی زکوٰۃ واجب ہے اس کی تفصیل اگلے صفحات میں بیان کی گائے گی اسی طرح متفقہ طور پر تمام ائمہ کے نزدیک سونے چاندی اور تجارت کے مال میں زکوٰۃ واجب ہے۔ جو چیزیں ایک سال تک قائم نہ رہتی ہوں جیسے ککڑی، کھیرا، خربوزہ اور دوسری ترکاریاں ساگ وغیر ان میں دوسرے ائمہ کے نزدیک زکوٰۃ واجب نہیں ہے البتہ کھجوروں اور کشمش میں زکوٰۃ واجب ہے جب کہ ان کی مقدار پانچ وسق تک ہو پانچ وسق سے کم مقدار میں ان میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ کے ہاں ہر اس چیز میں عشر یعنی دسواں حصہ نکالنا واجب ہے جو زمین سے پیدا ہو خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ ہو لیکن بانس، لکڑی اور گھاس میں عشر واجب نہیں ہے اس بارے میں حضرت امام صاحب کی دلیل آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ ما اخرجتہ الارض ففیہ العشر۔ زمین سے پیدا ہونے والی ہر چیز میں دسواں حصہ نکالنا واجب ہے۔ زمین کی پیداوار میں عشر واجب ہونے کے لئے کسی مقدار معین کی شرط نہیں ہے اسی طرح سال گزرنے کی بھی قید نہیں بلکہ جس قدر اور واجب بھی پیدا وار ہوگی اسی وقت دسواں حصہ نکالنا واجب ہوجائے گا دوسرے مالوں کے برخلاف کہ ان میں زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوتی ہے جب کہ وہ بقدر نصاب ہوں اور ان پر ایک سال پورا گزر جائے۔

【2】

نصاب زکوۃ

حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا پانچ وسق سے کم کھجوروں میں زکوٰۃ واجب نہیں پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں اور پانچ راس سے کم اونٹوں میں زکوٰۃ واجب نہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح ایک وسق آٹھ صاع کے برابر، ایک صاع آٹھ رطل کے برابر اور ایک رطل چونتیس تولہ ڈیڑھ ماشہ کے برابر ہوتا ہے حساب سے پانچ وسق انگریزی اسی طولی کے سیر کے حساب پچیس من ساڑھے بارہ سیر (نو کو نٹل چوالیس کلو گرام) کے برابر ہوتے ہیں گویا پچیس من 12, 1/2 سیر یا اس سے زائد کھجوروں میں دسواں حصہ زکوٰۃ کے طور پر نکالا جائے گا اس مقدار سے کم اگر کھجوریں پیدا ہوں تو اس حدیث کے بموجب اس میں زکوٰۃ کے طور پر دسواں حصہ واجب نہیں ہوگا چناچہ حضرت امام شافعی اور حنفیہ میں سے حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک زمین کی پیداوار میں کوئی نصاب مقرر نہیں ہے جس قدر بھی پیداوار ہو اس کا دسوں حصہ زکوٰۃ میں نکالنا واجب ہے مثلاً اگر دس سیر پیداوار ہو تو اس میں سے ایک سیر زکوٰۃ کے طور پر نکالا جائے اور اگر دس ہی چھٹانک پیدا ہو تو اس سے بھی ایک چھٹانک نکالا جائے زمین کی دوسری پیداوار مثلاً گیہوں جو چنا وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے۔ زمین کی پیداوار کے عشر کے بارے میں حنفیہ کا فتویٰ امام اعظم ہی کے قول پر ہے۔ یہ حدیث چونکہ امام اعظم (رح) کے مسلک کے بظاہر خلاف معلوم ہوتی ہے اس لئے ان کی طرف سے اس حدیث کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ حدیث میں کھجور سے مراد وہ کھجوریں ہیں جو تجارت کے لئے ہوں کیونکہ اس وقت عام طور پر کھجوروں کی خریدو فروخت وسق کے حساب سے ہوتی تھی اور ایک وسق کھجور کی قیمت چالیس درہم ہوتی تھی اس حساب سے پانچ وسق کی قیمت دو سو درہم ہوئے جو مال تجارت میں زکوٰۃ کے لئے متعین نصاب ہے۔ اواق اوقیہ کی جمع ہے ایک اوقیہ چالیس درہم یعنی ساڑھے دس تولہ (122 ۔ 47 گرام) کے برابر ہوتا ہے اس طرح پانچ اوقیہ دو سو درہم یعنی 52, 1/2 تولہ تقریباً 216, 1/2 گرام کے برابر ہوئے جو چاندی کا نصاب زکوٰۃ ہے اس مقدار سے کم چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے گویا جو شخص دو سو درہم کا مالک ہوگا وہ بطور زکوٰۃ پانچ درہم ادا کرے گا۔ یہ تو درہم کا نصاب تھا چاندی اگر سکہ کے علاوہ کسی دوسری صورت میں ہو مثلا چاندی کے زیورات و برتن ہوں یا چاندی کے سکے ہوں تو اس کو بھی اسی پر قیاس کی جائے اور اسی طرح اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔ پھر بھی تفصیل سے چاندی کے نصاب کو یوں سمجئے کہ۔ ایک درہم تین تین ماشہ ایک رتی اور پانچواں حصہ رتی کے برابر ہوتا ہے اس طرح دو سو میں چھ سو تیس ماشہ یعنی ساڑھے باون تولہ تولہ تقریبا ساڑھے دو سو سولہ گرام چاندی ہوئی۔ لہٰذا دو سو درہم کی زکوٰۃ کی چالیسویں حصہ کے مطابق پانچ درہم ہوئے جو پندرہ ماشہ چھ رتی یعنی ایک تولہ میں ماشہ چھ رتی کے برابر ہوتے ہیں۔ اسی طرح درہم کے علاوہ چاندی کے زیورات یا برتن وغیرہ کی صورت میں ساڑھے باون تولہ یعنی ساڑھے دو سو سولہ گرام ہو تو اس کی زکوٰۃ کے طور پر چالیسواں حصہ ایک تولہ تین ماشہ چھ رتی یعنی ساڑھے پندرہ گرام چاندی یا اتنی ہی چاندی کی قیمت زکوٰۃ کے طور پر ادا کی جاے گی اور اگر چاندی سکے کی شکل میں ہو اور ایک سکہ بارہ ماشہ اور قیمت کے اعتبار سے ایک روپیہ کا ہو تو اس حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندے کے ساڑھے باون روپے ہوئے لہٰذا ان کی زکوٰۃ کے طور پر اسی چاندی کے روپے کے حساب سے یعنی وہی بارہ ماشہ والا ایک روپیہ پانچ آنے واجب ہوں گے اور اگر سکہ ساڑھے گیارہ ماشہ اور قیمت کے اعتبار سے ایک روپیہ کا ہو تو اس حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت چون روپے بارہ آنے چھ صحیح چھ بٹا تیس پائی کے برابر ہوگی جس پر زکوٰۃ واجب ہوگی لہٰذا اس میں سے اس چاندی کے روپے کے حساب سے یعنی وہی ساڑھے گیارہ ماشہ والا ایک روپیہ پانچ آنے دس پائی اور بتیس بٹا تئیس پائی بطور زکوٰۃ نکالنا ہوگا۔ مذکورہ بالا تفصیل کو حسب ذیل جدول سے سمجھئے۔ تعداد درہم تعین زکوۃ وزن چاندی تعین زکوۃ سکہ بارہ ماشہ والا زکوۃ سکہ ساڑھے گیارہ ماشہ والا زکوۃ ٢٠٠ درہم ٥ درہم ساڑھے ٥٢ تولہ ایک تولہ تین ماشہ چھ رتی قیمتی۔۔ قابل اصلاح نصاب کا یہ سارا حساب سمجھنے کے لئے لکھا گیا ہے۔ اگر نصاب سے زیادہ روپے ہوں تو اس کا سیدھا حساب یہ ہے کہ ڈھائی روپیہ فی سیکڑا یعنی ہر سو روپیہ میں ڈھائی روپے کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ اگرچہ حدیث میں سونے کا نصاب ذکر نہیں کیا گیا لیکن اس کے بارے میں بھی جانتے چلئے کہ سونے کا نصاب بیس مثقال یعنی ساڑھے ساتھ تولہ تقریبا ساڑھے ستائس گرام ہے اس سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی اگر اس مقدار میں یا اس سے زائد مقدار میں سونا ہو تو موجودہ مقدار کا چالیسواں حصہ یا اس حصہ کی قیمت زکوٰۃ کے طور پر ادا کی جائے گی۔ اگر سونا اور چاندی دونوں مجموعی اعتبار سے بقدر نصاب ہوں تو ان میں زکوٰۃ واجب ہوگی مثلاً کسی شخص کے پاس سوا چھبیس تولہ چاندی ہو اور اسی کے ساتھ سوا چھبیس تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر سونا بھی ہو تو وہ شخص صاحب نصاب کہلائے گا اور اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی یا اسی طرح اگر کسی شخص کے پاس سوا چھبیس تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر تجارت کا مال ہو اور اسی کے ساتھ سوا چھبیس تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر نقد روپیہ ہو تو وہ بھی صاحب نصاب کہلائے گا اور اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ سونا اور چاندی کسی بھی شکل و صورت میں ہوں خواہ وہ گئی اور ڈلی کی صورت میں ہوں یا پترے ہون خواہ زیورات کی شکل میں ہوں یا برتنوں کی صورت میں ہوں بہر صورت ان میں زکوٰۃ واجب ہوگی اس سے معلوم ہوا کہ گوٹہ کناری اور کمخواب وغیرہ میں جو چاندی ہوتی ہے اس کی مقدار کا بھی اندازہ کرایا جائے اگر وہ مقدار نصاب کو پہنچے تو اس کی زکوٰۃ بھی ادا کی جائے موتی، مونگا، یا قوت اور دوسرے جواہرات میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی خواہ لاکھوں روپیہ کی قیمت ہی کے کیوں نہ موجود ہوں ہاں اگر جواہرات تجارت کے مقصد سے ہوں گے تو ان پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔

【3】

غلام اور گھوڑوں کی زکوۃ

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ کسی مسلمان پر اس کے غلام اور اس کے گھوڑوں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ کسی مسلمان پر اس کے غلام میں زکوٰۃ تو واجب نہیں ہے ہاں صدقہ فطر واجب ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو غلام اور گھوڑے تجارت کے لئے نہ ہوں ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام ابویوسف و امام محمد رحمہما اللہ کا مسلک یہی ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ جو گھوڑے اور گھوڑی ملی ہوئی سال کے اکثر حصہ میں جنگل اور چراگاہوں میں چریں ان میں بھی زکوٰۃ واجب ہے جس کا نصاب یہ ہے کہ فی راس ایک دینار یا اس کی پوری قیمت متعین کر کے ہر دو سو درہم پر پانچ درہم کے حساب سے یعنی قیمت کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں ادا کیا جائے۔ فتاویٰ قاضی خان، درمختار اور فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے کہ حنفیہ کے یہاں فتویٰ حضرت امام ابویوسف و حضرت امام محمد ہی کے قول پر ہے کہ گھوڑوں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

【4】

نصاب کی زکوٰۃ کی تفصیل

حضرت انس کے بارے میں مروی ہے کہ جب امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق نے انہیں بحرین جو بصرہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے بھیجا تو انہیں یہ ہدایت نامہ تحریر فرمایا۔ اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو رحمن ورحیم ہے یہ اس صدقہ فرض (زکوۃ) کے بارے میں ہدایتنامہ جسے رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسلمانوں پر فرض کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے نافذ کرنے کے بارے میں اپنے رسول کو حکم فرمایا۔ لہٰذا جس شخص سے قاعدہ کے مطابق زکوٰۃ کا مطالبہ کیا جائے تو وہ ادائیگی کرے اور جس شخص سے شرعی مقدار سے زیادہ مطالبہ کی جائے وہ زائد مطالبہ کی ادئیگی نہ کرے زکوٰۃ کا نصاب یہ ہے کہ چوبیس اور چوبیس سے کم اونٹوں کی زکوٰۃ میں بکری ہے اس طرح کہ ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری ہے یعنی پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ سے نو تک ایک بکری دس سے چودہ تک دو بکری پندرہ سے انیس تک تین بکری اور بیس سے چوبیس تک چار بکری واجب ہوگی۔ پچیس سے پینتیس تک میں ایک ایسی اونٹنی جو ایک سال کی ہو چھتیس سے پینتالیس تک ایک اونٹنی جو دو سال کی ہول۔ چھیالیس سے ساٹھ تک میں ایک ایسی اونٹنی جو چار سال کی ہو اور اونٹ سے جفتی کے قابل ہو، اکسٹھ سے پچھتر تک میں ایک اونٹنی جو اپنی عمر کے چار سال ختم کر کے پانچویں سال میں داخل ہوگئی اور چھہتر سے نوے تک میں دو ایسی اونٹنیاں جو دو سال کی ہوں اکیانوے سے ایک سو بیس تک میں دو ایسی اونٹنیاں جو تین تین سال کی ہوں اور اونٹ سے جفتی کے قابل ہوں اور جب تعداد ایک سوبیس سے زائد ہو تو اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ ان زائد اونٹنیوں میں ہر چالیس کی زیادت پر دو برس کی اونٹنی اور ہر پچاس کی زیادت پر پورے تین برس کی اونٹنی واجب ہوگی اور جس کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہاں اگر وہ شخص چاہے تو صدقہ نفل کے طور پر کچھ دے دے جب پانچ اونٹ ہوں گے تو اس پر زکوٰۃ کے طور پر ایک بکری واجب ہوجائے گی اور جس شخص کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں زکوٰۃ کے طور پر ایسی اونٹنی واجب ہوتی ہو جو چار برس پورے کر کے پانچویں سال میں لگ گئی ہو یعنی اکسٹھ سے پچھتر تک کی تعداد میں اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو کہ جسے وہ زکوٰۃ کے طور پردے سکے بلکہ تین برس کی اونٹنی موجود ہوں تو اس سے تین ہی برس کی اونٹنی زکوٰۃ میں قبول کی جاسکتی ہے مگر زکوٰۃ دینے ولاا اس تین برس کی اونٹنی کے ساتھ ساتھ اگر اس کے پاس موجود ہوں تو دو بکریاں ورنہ بصورت دیگر تیس درہم ادا کرے اور کسی شخص کے پاس اونٹوں کی ایسی تعداد ہو جس میں تین برس کی اونٹنی واجب ہوتی ہو یعنی چھیالیس سے ساٹھ تک کی تعداد اور اس کے پاس تین برس کی کوئی اونٹنی زکوٰۃ میں دینے کے لئے نہ ہو بلکہ چار برس کی اونٹنی ہو تو اس سے چار برس والی اونٹنی ہی لے لی جائے البتہ زکوٰۃ دینے والا دو بکریاں یا بیس درہم بھی اس کے ساتھ دیدے اور اگر کسی شخص کے پاس اتنی تعداد میں اونٹ ہوں کہ جن میں دو برس کی اونٹنی واجب ہوتی ہو جیسے چھتیس سے پینتالیس تک کی تعداد اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی کے بجائے تین برس کی اونٹنی ہو تو اس سے تین برس کی اونٹنی ہی لے لی جائے مگر زکوٰۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کردے اور اگر کسی شخص کے پاس اتنی تعداد میں اونٹ ہوں جن میں دو برس کی اونٹنی واجب ہوتی ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ ایک برس کی اونٹنی ہو تو اس سے ایک برس کی اونٹنی ہی لے لی جائے اور وہ زکوٰۃ دینے والا اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں بھی دے اور اگر کسی شخص کے پاس اتنی تعداد میں اونٹ ہوں کہ جن میں ایک برس کی اونٹنی واجب ہوتی ہو جیسے بیس سے پچیس تک کی تعداد اور ایک برس کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو بلکہ دو برس کی اونٹنی اس کے پاس ہو تو اس سے وہی دو برس والی اونٹنی لے لی جائے مگر زکوٰۃ وصول کرنے والا اس کو دو بکریاں یا بیس درہم واپس کردے اور اگر اس کے پاس دینے کے قابل ایک برس کی اونٹنی نہ ہو اور نہ دو برس کی اونٹنی ہو بلکہ دو برس کا اونٹ ہو تو وہ اونٹ ہی لے لیا جائے مگر اس صورت میں کوئی اور چیز واجب نہیں نہ تو زکوٰۃ لینے والا کچھ واپس کرے گا اور نہ زکوٰۃ دینے والا کچھ اجر دے گا اور چرنے والی بکریوں کی زکوٰۃ کا نصاب یہ ہے کہ جب بکریوں کی تعداد چالیس سے ایک سوبیس تک ہو تو ایک واجب ہوتی ہے اور ایک سو بیس سے زائد ہوں تو دو سو تک کی تعداد پر دو بکریاں واجب ہوتی ہیں اور جب دو سو سے زائد ہوں تو تین سو تک تین بکریاں واجب ہوتی ہیں اور جب تین سو سے زائد ہوجائیں تو پھر یہ حساب ہوگا کہ ہر سو بکریوں میں ایک بکری واجب ہگی جس شخص کے پاس چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں گی تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ہاں اگر بکریوں کا مل چاہے تو صدقہ نفل کے طور پر کچھ دے سکتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ زکوٰۃ میں خواہ اونٹ ہو یا گائے اور بکری بڑھیا اور عیب دار نہ جائے اور نہ بوک (بکرا) دیا جائے ہاں اگر زکوٰۃ وصول کرنے والا کسی مصلحت کے تحت بوک لینا چاہے تو درست ہے اور متفرق جانوروں کو یکجا نہ کیا جائے اور نہ زکوٰۃ کے خوف سے جانوروں کو علیحدہ علیحدہ کیا جائے نیز جس نصاب میں دو آدمی شریک ہوں تو انہیں چاہئے کہ وہ دونوں برابر تقسیم کرلیں اور چاندی میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ کے طور پر دینا فرض ہے اگر کسی کے پاس صرف ایک سو نوے درہم ہوں (یعنی نصاب شرعی کا مالک نہ ہو) تو اس پر کچھ فرض نہیں ہے ہاں اگر وہ صدقہ نفل کے طور پر کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ (بخاری) تشریح گزشتہ صفحات میں ایک حدیث گزر چکی ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تم زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو خوش کرو اگرچہ وہ تمہارے ساتھ ظلم ہی کا معاملہ کیوں نہ کریں۔ اسی طرح ایک حدیث اور گزر چکی ہے جس میں بیان کیا گیا تھا کہ کچھ لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے زیادتی کرتے ہیں یعنی مقدار واجب سے زیادہ مال لیتے ہیں تو کیا ہم ان کی طرف سے زیادہ طلب کے جانے والے مال کو چھپادیں یعنی وہ انہیں نہ دیں تو اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا تھا۔ لیکن یہاں فرمایا گیا ہے کہ جس شخص سے زیادہ مطالبہ کی اجائے وہ ادائیگی نہ کرے۔ لہٰذا بظاہر ان روایتوں میں تعارض اور اختلاف معلوم ہوتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت زکوٰۃ وصول کرنے والے صحابہ تھے ظاہر ہے نہ تو وہ ظالم تھے اور شرعی مقدار سے زیادہ کا مطالبہ کرتے تھے اور نہ صحابہ کے بارے میں ایسا تصور کیا جاسکتا تھا لوگ اپنے گمان اور خیال کے مطابق یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے ساتھ ظلم وزیادت کا معاملہ ہوتا ہے لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اس حقیقت کے پیش نظر یہی حکم دیا کہ انہیں بہر صورت خوش کیا جائے اور وہ جو کچھ مانگیں اسے دینے میں تامل نہ کیا جائے اور یہاں حضرت ابوبکر کے ارشاد میں زکوٰۃ وصول کرنے والوں سے صحابہ مراد نہیں ہیں بلکہ دوسرے لوگ مراد ہیں اور ظاہر ہے کہ صحابہ کے علاوہ دوسرے لوگوں سے ایسی باتوں کا صدور ممکن تھا اس لئے حضرت ابوبکر نے یہ تحریر فرمایا کہ زائد مطالبہ کی ادائیگی نہ کی جائے۔ اس وضاحت سے احادیث میں جو بظاہر تعارض نظر آرہا تھا وہ ختم ہوگیا۔ فاذا زادت علی عشرین وماۃ الخ (اور جب تعداد ایک سوبیس سے زائد ہو الخ) قاضی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عدد مذکور سے متجاوز ہونے کی صورت میں استقرار اور حساب پر دلالت کرتی ہے یعنی جب اونٹ ایک سوبیس سے زائد ہوں تو ان کی زکوٰۃ کا حساب از سر نو شروع نہ کیا جائے بلکہ ایسی صورت میں ہر چالیس کی زیادتی پر دو برس کی اونٹنی اور ہر پچاس کی زیادتی پر تین برس کی اونٹنی کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جانی چاہئے، چناچہ اکثر ائمہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ از سر نو حساب شرع کیا جائے گا چناچہ جب اونٹوں کی تعداد ایک سوبیس سے متجاوز ہوجائے تو اس وقت دو حقے یعنی تین برس کی دو اونٹنیاں اور ایک بکری واجب ہوگی اور اسی طرح چوبیس کی تعداد تک ہر پانچ پر ایک بکری واجب ہوتی چلی جائے گی پھر پچیس اور پچیس کے بعد بنت مخاض ایک سال کی اونٹنی واجب ہوجائے گی اسی طرح آخر تک پہلی ترتیب کے مطابق حساب کیا جائے گا امام نخعی اور امام ثوری کا یہی قول ہے ان حضرات کی دلیل یہ ارشاد گرامی ہے کہ جب اونٹوں کی تعداد ایک سو سے زائد ہوجائے تو اس کا حساب از سر نو شروع کیا جائے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی اس طرح منقول ہے۔ اونٹوں کی زکوٰۃ کے بارے میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ ان کی زکوٰۃ کے طور پر مادہ یعنی اونٹنی یا اس کی قیمت واجب ہوتی ہے جب کہ گائے اور بکری کی زکوۃ میں نر اور مادہ کی کوئی تخصیص نہیں ہے بلکہ ان کی زکوٰۃ کے طور پر نر یا اس کی قیمت اور مادہ یا اس کی قیمت دونوں ہی دئیے جاسکتے ہیں۔ مالم یکن عندہ بنت مخاض علی وجہہا (اور اگر اس کے پاس دینے کے قابل ایک برس کی اونٹنی نہ ہو) ابن املک نے اس کی وضاحت کے سلسلے میں فرمایا ہے کہ اس کے تین معنی ہوسکت ہیں۔ (١) اس کے پاس سرے سے ایک برس کی اونٹنی موجود ہی نہ (٢) ایک برس کی اونٹنی موجود تو ہو مگر تندرست نہ ہو بلکہ بیمار ہو اس صورت میں بھی گویا وہ نہ ہونے ہی کے درجہ میں ہوگی۔ (٣) ایک برس کی اونٹنی تو موجود ہو مگر اوسط درجہ کی نہ ہو بلکہ نہایت قیمتی اور اعلیٰ درجے کی ہو ملحوظ رہے کہ زکوٰۃ میں اوسط درجہ کا مال دینے کا حکم ہے۔ بہرکیف ان میں سے کوئی صورت ہو اس کا حکم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایسی صورت میں ابن لبون یعنی دو برس کا اونٹ زکوٰۃ کے طور پر دیا جائے گا پھر اس کی وضاحت بھی فرمادی کہ ابن لبون کے ساتھ مزید کچھ لینا دینا واجب نہیں ہے جیسا کہ اونٹنیوں کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص پر زکوٰۃ کے طور پر دینے کے لئے دو برس کی اونٹنی واجب ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی موجود نہ ہو بلکہ تین برس کی اونٹنی ہو تو زکوٰۃ وصول کرنے والا اس سے وہی تین برس کی اونٹنی لے گا مگر وہ زکوٰۃ دینے والے کو دو بکریاں بیس درہم واپس کرے گا تاکہ زکوٰۃ دینے والے کو دو برس کی اونٹنی کی بجائے تین برس کی اونٹنی دینے کی صورت میں نقصان گھاٹا نہ ہو جیسے اس کے برعکس صورت بھی بیان کی گئی ہے کہ اگر زکوٰۃ دینے والا تین برس کی اونٹنی کی بجائے جو اس پر واجب ہے مگر موجود نہیں ہے دو برس کی اونٹنی دے تو اس کے ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم مزید دے تاکہ زکوٰۃ کے مال میں نقصان نہ رہ جائے بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ فضیلت تانیث عمر کی زیادتی کا بدل ہوجاتی ہے۔ اگرچہ چرنے والی کی قید صرف بکری کے نصاب میں زکوٰۃ میں لگائی گئی ہے لیکن اس کا تعلق ہر جانور سے ہے یعنی خواہ بکری ہو یا اونٹ اور یا گائے ان میں زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوگی جب کہ وہ سال کے اکثر حصے یعنی نصف سال سے زیادہ جنگ میں چریں اگر ان میں سے کوئی بھی جانور ایسا ہو جسے سال کے اکثر حصے میں گھر سے چارہ کھلایا جاتا ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔ بکریوں کا نصاب چالیس بیان کیا گیا ہے یعنی اگر چالیس سے کم بکریاں ہوں گی تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی جب چالیس بکریاں ہوں گی تو ایک بکری زکوٰۃ کے طور پر واجب ہوجائے گی اور اگر چالیس سے بھی زائد ہوں تو ایک سو بیس تک ایک ہی بکری واجب رہے گی اسی طرح تین سو تک کی تعداد کے نصاب زکوٰۃ کو بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ جب تعداد تین سو سے تجاوز ہوجائے تو پھر یہ حساب ہوگا کہ ہر سو بکری پر ایک بکری واجب ہوگی یعنی تین سو تک تو تین بکریاں ہوں گی تین سو کے بعد چار سو بکریاں اس وقت واجب ہوں گی جب کہ تعداد پورے چار سال ہوجائے چناچہ اکثر ائمہ و علماء کا یہی مسلک ہے لیکن حسن بن صالح کا قول اس بارے میں یہ ہے کہ تین کے بعد اگر ایک بکری بھی زائد ہوگی تو چار بکریاں واجب ہوجائیں گی۔ ولا ذات عوار (اور عیب دار نہ دی جائے) زکوٰۃ میں عیب دار مال نہ لینے کا حکم اس صورت میں ہے جب کہ پورا مال یا کچھ مال ایسا ہو جس میں کوئی عیب و خرابی نہ ہو اگر پورا ہی مال عیب دار ہو تو پھر اس میں سے اوسط درجے کا دیکھ کردیا جائے گا۔ زکوٰۃ میں بوک (بکرا) لینے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ بکریوں کے ساتھ بوک افزائیش نسل کے لئے رکھا جاتا ہے اگر بوک لے لیا جائے گا تو بکریوں کے مالک کو نقصان ہوگا یا وہ اس کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہوجائے گا یا پھر بوک لینے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اس کا گوشت بدمزہ اور بدبو دار ہوتا ہے۔ ولا یجمع بین متفرق الخ (اور متفرق جانوروں کو یکجا نہ کیا جائے الخ) اس جملے کا مطلب سمجھنے سے پہلے مسئلہ کی حقیقت جان لیجئے تاکہ مفہوم پوری طرح ذہن نشین ہوجائے مسئلہ یہ ہے کہ آیا زکوٰۃ گلہ یعنی مجموعہ پر ہے یا اشخاص یعنی مال کے مالک کا اعتبار ہوتا ہے ؟ حضرت امام شافعی تو فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ گلہ کے اعتبار سے دینی ہوتی ہے ان کے ہاں مالک کا اعتبار نہیں ہوتا جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں گلہ کا اعتبار نہیں ہوتا مالک کا اعتبار ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ ایک شخص کے پاس اسی بکریاں ہیں مگر وہ بکریاں ایک جگہ یعنی ایک گلہ ریوڑ میں نہیں ہیں بلکہ الگ الگ دو گلوں میں ہیں تو چونکہ امام شافعی کے نزدیک زکوٰۃ گلہ پر واجب ہوتی ہے اس لئے ان کے مسلک کے مطابق ان دونوں گلوں میں سے دو بکریاں وصول کی جائیں گی لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق دونوں گلوں سے ایک ہی بکری وصول کی جائے گی کیونکہ اگرچہ وہ اسی بکریاں دو گلوں میں تقسیم ہیں مگر ملکیت میں چونکہ ایک شخص کی ہیں اس لئے اس حساب کے مطابق کہ چالیس سے ایک سو بیس تک کی تعداد میں ایک ہی بکری واجب ہوتی ہے اس شخص سے بھی ایک ہی بکری وصول کی جائے گی۔ دوسری مثال یہ ہے کہ دو اشخاص کی اسی بکریاں ہیں جو ایک ہی گلہ میں ہیں تو امام شافعی کے مسلک کے مطابق اس گلہ میں سے ایک ہی بکری لی جائے گی اور امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق اس گلہ میں سے دو بکریاں لی جائیں گی کیونکہ وہ اسی بکریاں اگرچہ ایک ہی گلہ میں ہیں لیکن مالک اس کے دو الگ الگ اشخاص ہیں اور وہ دونوں اتنی اتنی بکریوں (یعنی چالیس چالیس) کے مالک ہیں کہ ان کی الگ الگ تعداد پر ایک بکری واجب ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کو ذہن میں رکھ کر اب سمجھئے کہ حدیث کے اس جملے ولا یجمع بین متفرق الخ کا مطلب امام شافعی کے ہاں تو یہ ہے کہ اس ممانعت کا تعلق مالک سے ہے کہ اگر مثال کے طور پر چالیس بکریاں اس کی ہوں اور چالیس بکریاں کسی دوسرے کی ہوں اور یہ دونوں تعداد الگ الگ ہوں تو ان بکریوں کو جو الگ الگ اور متفرق ہیں زکوٰۃ کم کرنے کے لئے یکجا نہ کیا جائے یعنی مالک یہ سوچ کر کہ اگر یہ بکریاں الگ الگ دو گلوں میں ہوں گی تو ان میں سے دو بکریاں دینی ہوں گی اور اگر ان دونوں گلوں کو ملا کر ایک گلہ کردیا جائے تو پھر ایک ہی بکری دینی ہوگی ان کو یکجا نہ کرے۔ اسی طرح ولا یفرق بین مجتمع اور نہ جانوروں کو علیحدہ علیحدہ کیا جائے میں اس ممانعت کا تعلق بھی مالک سے ہے کہ مثلا اگر اس کے پاس بیس بکریاں ہوں جو کسی دوسرے شخص کی بکریوں کے گلے میں ملی ہوئی ہوں تو مالک اپنی ان بکریوں کو اس گلے سے الگ نہ کرے یہ سوچ کر کہ اگر یہ بکریاں اس گلے میں رہیں گی تو زکوٰۃ دینی ہوگی اور اگر ان بکریوں کو اس گلے سے الگ کردیا جائے تو زکوٰۃ سے بچ جاؤں گا۔ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس ممانعت کا تعلق ساعی یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والے سے ہے کہ وہ زکوٰۃ لینے کے لئے متفق بکریوں کو یکجا نہ کرے مثلا دو الگ الگ اشخاص کے پاس اتنی اتنی بکریاں ہوں کہ جو علیحدہ علیحدہ تو حد نصاب کو نہ پہنچتی ہوں اور ان پر زکوٰۃ واجب نہ ہوتی ہو جیسے دونوں کے پاس بیس بیس بکریاں ہوں مگر جب دونوں کی بکریاں یکجا ہوجائیں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہوجائے لہٰذا زکوٰۃ وصول کرنے والے کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ زکوٰۃ لینے کی وجہ سے ان بکریوں کو یکجا کر دے اسی طرح دوسری ممانعت کا تعلق بھی زکوٰۃ وصول کرنے والے ہی سے ہے کہ زکوٰۃ لینے کے لئے علیحدہ علیحدہ جانوروں کو یکجا نہ کرے مثلاً اگر کسی شخص کے پاس اسی بکریاں اس طرح ہوں کہ چالیس تو ایک جگہ ہیں اور چالیس دوسری جگہ ہیں تو زکوٰۃ وصول کرنے والا ان دونوں جگہوں کی بکریوں کو دو الگ الگ نصاب قرار دے کر اس شخص سے دو بکریاں وصول نہ کرے بلکہ دونوں جگہوں کی بکریوں کو ایک ہی نصاب قرار دے اور قاعدہ کے مطابق ایک ہی بکری وصول کرے کیونکہ بکریاں اگرچہ الگ الگ ہیں لیکن ملکیت میں ایک ہی شخص کے ہیں لہٰذا دونوں جگہ کی مجموعہ بکریوں پر کہ جن کی تعداد اسی ہے ایک ہی بکری واجب ہوگی۔ وماکان من خلیطین (جس نصاب میں دو آدمی شریک ہوں) اس جملے کی وضاحت بھی ایک مسئلہ سمجھ لینے پر موقوف ہے مسئلہ یہ ہے کہ مثلاً دو سو بکریاں ہیں جس میں دو آدمی شریک ہیں اس حساب سے کہ ایک آدمی کی تو ان میں سے چالیس بکریاں ہیں اور دوسرا آدمی ایک سو ساٹھ بکریوں کا مالک ہے اب سوال یہ ہے کہ ان بکریوں پر زکوٰۃ کے طور پر تو بکریاں واجب ہوں مگر وہ دو بکریاں ان دونوں سے وصول کس حساب سے ہوں گی، ظاہر ہے کہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ پہلے شخص پر تو اس کے حصے کے پیش نظر ایک بکری کا دو خمس واجب ہو اور باقی دوسرے شخص پر واجب ہو بلکہ یہ ہوگا کہ زکوٰۃ وصول کرنے والا تو قاعدہ کے مطابق دونوں شخصوں سے ایک ایک بکری وصول کرتے گا مگر اس صورت میں پہلے شخص کو نقصان ہوگا کیونکہ ان مشترک بکریوں میں اس کا حصہ صرف چالیس بکریاں ہیں اسے بھی ایک ہی بکری دینی پڑی اور اور دوسرے شخص نے بھی ایک بکری دی جس کا حصہ ایک سو ساٹھ بکریاں ہیں ( اسی کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ زکوٰۃ وصول کرنے والا تو دونوں سے ایک ایک بکری وصول کرے گا لیکن پھر بعد میں دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے حصے کے مطابق حساب کرلیں یعنی پہلا شخص کہ جس کی چالیس بکریاں ہیں دوسرے شخص کہ جس کی ایک سو ساٹھ بکریاں اپنی دی ہوئی بکری کے تین خمس وصول کرے اس حساب سے چالیس بکریوں کے مالک پر اس کے حصہ کے مطابق دو خمس پڑیں گے اور باقی ایک سو ساٹھ بکریوں کے مالک پر اس کے حصے کے مطابق پڑجائیں گے۔ چناچہ ارشاد گرامی فانہما یتراجعان بالسویۃ، (انہیں چاہئے کہ وہ دونوں برابر برابر تقسیم کرلیں) کے یہ معنی ہیں۔

【5】

زمین کی پیداوار پر عشر دینے کا حکم

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس چیز کو آسمان نے یا چشموں نے سیراب کیا ہو یا خود زمین سرسبز و شاداب ہو تو اس میں دسواں حصہ واجب ہوتا ہے اور جس زمین کو بیلوں یا اونٹوں کے ذریعے کنویں سے سیراب کیا گیا ہو تو اس کی پیداوار میں بیسواں حصہ واجب ہے (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو زمین بارش سے سیراب کی جاتی ہو یا چشموں، نہروں اور ندی نالوں کے ذریعے اس میں پانی آتا ہو تو ایسی زمین سے جو بھی غلہ وغیرہ پیدا ہوگا اس میں سے دسواں حصہ بطور زکوٰۃ دینا واجب ہوگا۔ عشری اس زمین کو کہتے ہیں جسے عاثور سیراب کیا جائے اور عاثور اس گڑھے کو کہتے ہیں جو زمین پر بطور تالاب کھودا جاتا ہے اس میں سے کھیتوں وغیرہ میں پانی لے جاتے ہیں۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ عشری اس زمین کو کہتے ہیں جو پانی کے قریب ہونے کی وجہ سے ہمیشہ تر و تازہ اور سرسبز و شاداب رہتی ہے۔

【6】

رکاز کی زکوۃ

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر جانور کسی کو زخمی کر دے تو معاف ہے اگر کنواں کھدوانے میں کوئی مرجائے تو معاف ہے اگر کان کھدوانے میں کوئی مرجائے تو معاف ہے اور رکاز میں پانچواں حصہ واجب ہوتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح کوئی جانور یعنی گھوڑا، بیل اور بھینس وغیرہ اگر کسی شخص کو زخمی کر دے کوئی چیز ضائع کر دے یا کسی کو جان ہی سے مار ڈالے اور اس موقعہ پر جانور کے ساتھ کوئی یعنی اس کا مالک وغیرہ نہ ہو اور یہ کہ دن کا وقت ہو تو جانور کا زخمی کرنا یا کسی چیز کو ضائع کردینا معاف ہے یعنی اس کے مالک پر اس کا کوئی بدلہ اور جرمانہ نہیں ہوگا۔ ہاں اگر جانور اس حال میں کسی کو زخمی کرے یا کوئی چیز ضائع کر دے کہ اس پر کوئی سوار ہو یا اس کے ساتھ کوئی ہانکنے والا اور کھینچنے والا ہو تو ایسی صورت میں جانور کے مالک پر بدلہ اور جرمانہ واجب ہوگا کیونکہ اس میں کوتاہی اور لاپرواہی کو دخل ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی جانور رات کے وقت چھوٹ کر کسی کو زخمی کر دے یا کوئی چیز تلف کر دے تو اس کے مال پر اس کا تاوان آئے کیونکہ رات میں جانوروں کو باندھا جاتا ہے مگر اس نے جانور کو نہ باندھ کر لاپرواہی اور کوتاہی کا ثبوت دیا اس بارے میں مذکورہ حدیث اگرچہ عام ہے اور اس میں کوئی قید اور تخصیص نہیں ہے مگر دوسری احادیث اور دیگر دلائل کے پیش نظر مذکورہ قیود کو ذکر کیا گیا ہے۔ والبیر جبار (اگر کنواں کھدوانے میں کوئی مرجائے تو معاف ہے) اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص کنواں کھدوانا چاہتا ہے اور اس نے کنواں کھودنے کے لئے کسی مزدور کی خدمات حاصل کی ہیں اب اگر وہ مزدور کنواں کھودتے ہوئے گر کر یا دب کر مرجائے تو کنواں کھدوانے والے پر کوئی تاوان یعنی خون بہا وغیرہ واجب نہیں۔ اس طرح اگر کوئی شخص اپنی زمین میں یا کسی ایسی افتادہ زمین میں کہ جس کے مالک کا کوئی پتہ نہ ہو کنواں کھدوائے اور اس کنویں میں کوئی آدمی یا جانور گر کر مرجائے تو اس صورت میں بھی اس پر کوئی تاوان نہیں آئے گا ہاں اگر کنواں راستے میں یا کسی دوسرے کی زمین میں مالک کی اجازت کے بغیر کھدوایا جائے اور اس کنویں میں کوئی آدمی یا جانور گر کر مرجائے تو اس صورت میں کنوا کھودنے والے کے عاقلہ پر تاوان یعنی خون بہا واجب ہوگا یہی حکم اس شخص کے بارے میں لاگو ہوگا جو سونا چاندی، فیروزہ یا مٹی نکلوانے کے لئے زمین کے کسی حصے کو کھدوائے گا۔ عاقلہ کسے کہتے ہیں عاقلہ ایک فقہی اصطلاح ہے اس کے معنی مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ کسی شخص سے کوئی جرم سرزد ہوجاتا ہے مثلا وہ شکار پر بندوق چلاتا ہے اور اتفاق سے بغیر کسی قصد و ارادہ کے اس کی گولی شکار کی بجائے کسی انسان کو ہلاک کردیتی ہے یا مذکورہ بالا صورت کے مطابق کوئی شخص راستہ میں کنوا کھدوا دیتا ہے اور اس کنویں میں گر کر کوئی مرجاتا ہے تو جس شخص کی گولی سے کوئی خون ہوجائے یا جس شخص کے کھودے ہوئے کنویں میں کوئی گر کر مرجائے اس کے ساتھی اور رفیق عاقلہ کہلاتے ہیں فرض کیجئے وہ شخص فوج میں یا پولیس میں ملازم ہے تو اس کے ساتھی فوجی یا سپاہی عاقلہ کہلائیں گے اور اگر وہ کہیں ملازم نہ ہو تو پھر اس کے قبیلہ اور خاندان والے اس کے عاقلہ کہلائیں گے۔ عاقلہ پر تاوان کیوں ؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غلطی تو اس شخص کی ہے مگر جرمانہ اور تاوان اس کے ساتھیوں یا اس کے اہل خاندان اور قبیلہ والوں پر کیوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس شخص سے کسی غلطی کا ارتکاب ہوگیا اور اس غلطی میں بھی اس کے قصد و ارادہ کو کوئی دخل نہیں تھا تو اگرچہ اس پر کوئی جرمانہ کیوں نہ کردیا جائے مگر ہوسکتا ہے کہ وہ اس غلطی پر پشیمان و نادم نہ ہو اور اس کی لاپرواہی اور کوتاہی آئندہ کسی اور بڑے حادثے کا ذریعہ بن جائے اس لئے ضروری ہوا کہ جرمانہ اور تاوان ان لوگوں پر لازم کیا جائے جو اس کے قریب رہنے والے ہوں اور اس سے متعلق ہوں تاکہ وہ اس پر پوری طرح کنٹرول کرسکیں اور آئندہ کے لئے اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہونے دیں۔ حدیث میں مذکور رکاز سے کیا مراد ہے ؟ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں جس رکاز کا ذکر کیا گیا ہے اس سے کان (معدن) مراد ہے لیکن اہل حجاز رکاز سے زمانہ جاہلیت کے دفینے (زمین دوز کئے ہوئے خزانے) مراد لیتے ہیں جہاں تک حدیث کا ظاہر مفہوم اور اس کا سیاق وسباق ہے اس کے پیش نظر وہی معنی زیادہ مناسب اور بہتر معلوم ہوتے ہیں جو حضرت امام اعظم نے مراد لئے ہیں پھر یہ کہ خود آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد گرامی بھی رکاز کے اسی معنی کی وضاحت کرتا ہے چناچہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ سے جب دریافت کیا گیا کہ رکاز وہ سونا اور چاندی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین میں اس کی تخلیق کے وقت ہی پیدا فرمایا ہے۔ کان میں سے نکلنے والی چیزوں کی قسمیں اس موقع پر یہ بھی جان لیجئے کہ جو چیزیں کان سے برآمد ہوتی ہیں ان کی تین قسمیں ہیں۔ (١) وہ چیزیں جو منجمد ہوں اور آگ میں ڈالنے سے نرم ہوجائیں نیز منقش کئے جانے کے قابل ہوں یعنی جو سکے وغیرہ ڈھالنے کے کام آسکتی ہوں جیسے سونا، چاندی، لوہا اور رانگا وغیرہ۔ (٢) وہ چیزیں جو منجمد نہیں ہوتیں جیسے پانی، تیل، رال اور گندھک وغیرہ۔ (٣) وہ چیزیں جو آگ میں ڈالنے سے نرم نہ ہوتی ہوں اور نہ سکے وغیرہ کے لئے ڈھالی جاسکتی ہوں جیسے پتھر، چونا، ہڑتا اور یاقوت وغیرہ، چناچہ ان تینوں اقسام میں سے صرف پہلی قسم میں زکوٰۃ کے طور پر خمس یعنی پانچواں حصہ نکالنا واجب ہے اور اس کے لئے ایک سال گزرنا شرط نہیں ہے حضرت امام شافعی کے نزدیک معدنیات میں سے صرف سونے چاندی میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے دوسری مع دنیا مثلاً لوہے، رانگ وغیرہ میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔

【7】

گائے اور بیل کی زکوۃ

حضر علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میں نے گھوڑوں اور غلاموں میں زکوٰۃ معاف رکھی ہے یعنی اگر غلام تجارت کے لئے نہ ہوں تو ان میں نہیں ہے اور گھوڑوں کی زکوٰۃ کے بارے میں ائمہ کا جو اختلاف ہے اسے بیان کیا جا چکا ہے تم چاندی کی زکوٰۃ ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم کے حساب سے ادا کرو جب کہ چاندی بقدر نصاب دو سو درہم ہو کیونکہ ایک سو نوے درہم یعنی دو سو درہم سے کم چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے جب دو سو درہم چاندی ہو تو اس میں سے پانچ درہم زکوٰۃ کے طور پر دینا واجب ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد) ابوداؤد نے حارث اعور سے حضرت علی (رض) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ زہیر نے جو حارث سے روایت نقل کرتے ہیں کہا کہ میرا گمان ہے کہ حارث نے یہ کہا ہے کہ حضرت علی (رض) نے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ تم ہر سال ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم یعنی چالیسواں حصہ ادا کروں اور تم پر اس وقت تک کچھ واجب نہیں جب تک کہ تمہارے پاس دو سو درہم پورے نہ ہوں جب دو سو درہم پورے ہوں تو ان میں بطور زکوٰۃ پانچ درہم واجب ہوں گے اور جب دو سو درہم سے زائد ہوں گے تو ان میں اسی حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی اور بکریوں کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس بکریوں میں ایک بکری واجب ہوتی ہے اور یہ ایک بکری ایک سو بیس تک کی تعداد کے لئے ہے اور جب اس تعداد سے ایک بکری بھی زائد ہوجائے تو دو سو تک دو بکریاں واجب ہوں گی اور جب دو سو سے ایک بکری بھی زائد ہوگی تو تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی اور جب تین سو سے زائد ہوں یعنی چار سو ہوجائیں تو ہر سو بکریں میں ایک بکری واجب ہوگی ہوگی اور اگر تمہارے پاس بقدر نصاب بکریاں نہ ہوں یعنی انتالیس بکریاں ہوں تو پھر ان میں تمہارے ذمہ کچھ بھی واجب نہیں ہوگا اور گائے کا نصاب یہ ہے کہ ہر تیس میں ایک سال کی عمر کا ایک بیل اور چالیس میں دو سال کی عمر کی ایک گائے واجب ہے نیز کام کاج کے جانوروں میں کچھ بھی نہیں (یعنی زکوۃ) واجب نہیں۔ تشریح فمازاد فعلی حساب ذالک (جب دو سو درہم سے زائد ہوں تو ان میں اس حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی) حنفیہ میں سے صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کا یہی مسلک ہے کہ دو سو درہم سے جو مقدار زائد ہوگی اس کا حسان کر کے چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ ادا کیا جائے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ دو دسو درہم سے زائد مقدار میں اسی وقت زکوٰۃ واجب ہوگی جب وہ مقدار چالیس درہم تک ہو اور اگر زائد مقدار چالیس تک نہ پہچے تو پھر اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی بلکہ دو سو درہم ہی کی زکوٰۃ دی جائے گی حضرت امام صاحب نے اس حدیث میں زائد مقدار کو چالیس درہم کی زائد مقدار پر محمول کیا ہے اور یہ انہوں نے اس لئے کہا ہے تاکہ احادیث میں تطبیق ہوجائے اور کوئی تعارض نظر نہ آئے۔ گائے کے نصاب میں زکوٰۃ کے طور پر بیل دینے کے لئے فرمایا گیا ہے چناچہ گائے کی زکوٰۃ کے طور پر نر اور مادہ دونوں برابر ہیں چاہے گائے دی جائے اور چاہے بیل دیدیا جائے جیسا کہ آگے آنے والی روایت میں اس کی وضاحت بھی ہے چناچہ گائے اور بکری کی زکوٰۃ کے طور پر مادہ ہی دینا ضروری نہیں ہے اونٹوں کے برخلاف کہ ان میں مادہ ہی دینا افضل ہے لیکن گائے اور بکری میں اس کی کوئی قید اور تخصیص نہیں ہے۔ علامہ ابن حجر نے فرمایا ہے کہ اگر گائے یا بیل چالیس سے زائد ہوں تو اس زائد مقدار میں اس وقت تک کوئی چیز واجب نہیں ہوتی جب تک کہ تعداد ساٹھ تک نہ پہنچ جائے جب تعداد ساٹھ ہوجائے گی تو ان میں دو تبیعے یعنی ایک ایک برس کے دو بیل یا اتنی ہی عمر کی دو گائیں دینی ہوں گی پھر اس کے بعد ہر چالیس میں ایک مسنہ اور یعنی دو برس کی گائے یا بیل دینا ہوگا اور ہر تیس میں ایک ایک تبیعہ واجب ہوگا مثلاً جب ستر ہوجائیں تو ایک مسنہ اور ایک تبیعہ، اسی ہوجائیں تو دو مسنہ نوے ہوجائیں تو تین تبیعے اور جب سو ہوجائیں تو دو تبیعے اور ایک مسنہ واجب ہوجائے گا۔ اسی طرح ہر تیس میں ایک تبیعہ اور ہر چالیس میں ایک مسنہ کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ علامہ ابن حجر کا قول اگر گائے یا بیل چالیس سے زائد مقدار میں اس وقت تک کوئی چیز واجب نہیں ہوتی جب تک کہ تعداد ساٹھ تک نہ پہنچ جائے حنفیہ میں سے صاحبین کا یہی مسلک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ چالیس سے جو تعداد بھی زائدہ ہوگی اس کا بھی حساب کر کے زکوٰۃ ادا کی جائے گی تاکہ تعداد ساٹھ تک پہنچ جائے جب تعداد ساٹھ تک پہنچ جائے گی تو دو تبیعے واجب ہوجائیں گے باقی حساب مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق ہوگا۔ لہٰذا اگر چالیس سے ایک بھی گائے یا بیل زائد ہوگا تو مسنہ کا چالیسواں حصہ یا ایک تبیعہ کا تیسواں حصہ یعنی ان کی قیمت کا چالیسواں یا تیسواں حصہ دینا ضروری ہوگا اسی طرح جو مقدار بھی زائد ہوگی اس کا اسی کے مطابق حساب کی جائے گا حنفیہ میں صاحب ہدایہ اور ان کے متبعین کی رائے میں حضرت امام صاحب کا یہی قول معتبر ہے۔ حدیث کے آخر جملے ولیس علی العوامل چیز (کام کاج کے جانوروں میں کچھ بھی واجب نہیں ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جو جانور کام کاج کے ہوں اور ضروریات میں استعمال ہوتے ہوں جیسے بیل ہل جوتنے یا کنویں سے پانی کھینچنے یا بار برداری کے کام لئے ہوں تو اگرچہ ان کی تعداد بقدر نصاب ہی کیوں نہ ہو لیکن ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ یہی حکم اونٹ وغیرہ کے بارے میں بھی ہے چناچہ حضرت امام اعظم حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے۔ لیکن حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ ایسے جانوروں میں بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔

【8】

گائے اور بیل کی زکوۃ

حضرت معاذ (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب انہیں عامل بنا کر یمن بھیجا تو انہیں یہ حکم دیا کہ وہ زکوٰۃ کے طور پر ہر تیس گائے میں سے ایک برس کا بیل یا ایک برس کی گائے لیں اور ہر چالیس گائے میں سے دو برس کی گائے یا دو برس کا بیل وصول کریں۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، دارمی)

【9】

زکوۃ میں مقدار واجب سے زیادہ وصول کرنا گناہ ہے

حضر انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا زکوٰۃ لینے میں (مقدار واجب سے) زیادتی کرنے والا زکوٰۃ نہ دینے والے کی مانند ہے (یعنی جس طرح زکوٰۃ نہ دینا گناہ ہے اسی طرح زکوٰۃ میں مقدار واجب سے زیادہ وصول کرنا بھی گناہ ہے) (ابو داؤد، ترمذی)

【10】

غلہ وکھجور کی زکوۃ

حضرت ابوسعید خدری (رض) ہیں راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا غلہ اور کھجور میں اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں جب تک کہ ان کی مقدار پانچ وسق (پچیس من ساڑھے بارہ سیر) نہ ہو ۔ (نسائی) تشریح غلہ اور کھجوروں کی زکوٰۃ کے بارے میں میں گزشتہ صفحات میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے وہیں کسی موقع پر وسق کی توضیح بھی کی گئی ہے۔

【11】

غلہ وکھجور کی زکوۃ

حضرت موسیٰ بن طلحہ (تابعی) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت معاذ بن جبل (رض) کا وہ مکتوب گرامی ہے جسے نبی کریم ﷺ نے ان کے پاس بھیجا تھا، چناچہ حضرت معاذ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں گیہوں، جو، انگور اور کھجوروں کی زکوٰۃ وصول کروں۔ (یہ حدیث مرسل ہے اور شرح السنۃ میں نقل کی گئی ہے) تشریح اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زمین کی پیداوار میں سے صرف انہیں چار چیزوں میں زکوٰۃ واجب ہے بلکہ حضرت امام شافعی کے نزدیک تو زمین کی ہر اس پیداوار میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جو انسانی زندگی کے لئے غذا بن سکتی ہو اور حنفیہ کے نزدیک زمین کی ہر پیداوار میں زکوٰۃ ہے خواہ وہ انسانی زندگی کے لئے غذا ہو یا نہ ہو جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس علاقہ میں صرف یہی چار چیزیں پیدا ہوتی تھیں اس لئے انہیں چار چیزوں کو بطور خاص ذکر کیا گیا ہے۔

【12】

انگور کی زکوۃ

حضرت عتاب بن اسید (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے انگور کی زکوٰۃ کے بارے میں فرمایا کہ انگوروں کا اسی طرح اندازہ کیا جائے جیسے کھجوروں کا اندازہ کیا جاتا ہے پھر ان انگوروں کی زکوٰۃ اس وقت ادا کی جائے جب وہ خشک ہوجائیں جس طرح کہ خشک ہوجانے کے بعد کھجوروں کی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب انگوروں اور کھجوروں میں شیرینی پیدا ہوجائے تو کوئی ماہر شخص ان کے بارے میں یہ اندازہ لگائے کہ خشک ہونے کے بعد یہ کس قدر ہوں گی۔ پھر جب وہ خشک ہوجائیں تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک مطابق وہ جتنی بھی ہوں ان کا دسواں حصہ بطور زکوٰۃ ادا کیا جائے صاحبین اور حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق اگر ان کی مقدار حد نصاب یعنی پانچ وسق تک پہنچ جائے تو دسواں حصہ ادا کیا جائے۔

【13】

انگور کی زکوۃ

حضرت سہل بن ابی حثمہ (رض) رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم انگوروں اور کھجوروں کی زکوٰۃ کا اندازہ کرلو تو اس میں دو تہائی لے لو اور ایک تہائی چھوڑ دو ، اگر ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو چوتھائی تو چھوڑ ہی دو ۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی) تشریح دراصل یہ زکوٰۃ وصول کرنے والوں سے خطاب ہے کہ جب تم زکوٰۃ کی مقدادر متعین کرلو تو اس مقدار متعین میں سے دو تہائی تو لے لو اور ایک تہائی از راہ احسان و مروت مالک کے لئے چھوڑ دو تاکہ وہ اس میں اپنے ہمسایوں اور راہ گیروں کو کھلائے حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک کا یہی مسلک ہے اگرچہ حضرت امام شافعی کا پہلا قول بھی یہی ہے مگر ان کا بعد کا قول یہ ہے کہ زکوٰۃ کی مقدار واجب میں سے کچھ حصہ بھی نہ چھوڑا جائے۔ اس حدیث کی تاویل وہ یہ کرتے ہیں کہ اس کا تعلق خیبر کے یہودیوں سے تھا، چونکہ آنحضرت ﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے مساقات (بٹائی) پر معاملہ کر رکھا تھا کہ آدھی کھجوریں وہ رکھا کریں اور آدھی کھجوریں دربار نبوت میں بھیج دیا کریں اس لئے آپ نے وہاں کی کھجوروں کا اندازہ کرنے والے کو یہ حکم دیا تھا کہ پہلے تمام کھجوروں میں سے ایک تہائی یا ایک چوتھائی ان یہودیوں کے لئے از راہ احسان چھوڑ دیا جائے پھر باقی کھجوروں کو نصف تقسیم کردیا جائے ایک حصہ یہودیوں کو دے دیا جائے اور ایک دربار نبوت میں بھیج دیا جائے۔

【14】

کھجوروں کا اندازہ

ام المومنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ عبداللہ بن رواحہ (رض) کو خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کرتے تھے وہاں جا کر کھجوروں کی مقدار کا اندازہ کیا کرتے تھے جب کہ ان میں شیرینی پیدا ہوجاتی تھی مگر کھانے کے قابل نہیں ہوتی تھی۔ ( ابوداؤد )

【15】

شہد کی زکوۃ

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے شہد کی زکوٰۃ کے بارے میں فرمایا کہ ہر دس مشک میں ایک مشک بطور زکوٰۃ واجب ہے (ترمذی اور امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کی اسناد میں کلام کیا گیا ہے نیز اس بارے میں آنحضرت ﷺ کی اکثر احادیث جو نقل کی جاتی ہیں وہ صحیح نہیں۔ تشریح شہد کی زکوٰۃ کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے حضرت امام شافعی تو فرماتے ہیں کہ شہد میں زکوٰۃ نہیں ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک شہد میں زکوٰۃ واجب ہے خواہ کم مقدار میں ہو یا زیادہ مقدار میں ہو بشرطیکہ عشری زمین میں نکلا ہو۔ ان کی دلیل یہ ارشاد گرامی ہے کہ زمین کی ہر پیداوار میں عشر ہے

【16】

زیور کی زکوۃ

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی زوجہ محترمہ حضرت زینب کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہمارے سامنے خطبہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت، تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو اگرچہ وہ زیور ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ قیامت کے دن تم میں اکثریت دوزخیوں کی ہوگی۔ (ترمذی) تشریح اکثریت دوزخیوں کی ہوگی کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کی اکثریت چونکہ دنیا اور دنیا کی چیزوں کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے ہے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کا ان میں جذبہ بھی نہیں ہوتا اس لئے عورتوں کی اکثریت کو دوزخی فرمایا گیا ہے چناچہ عورتوں کو آگاہ فرمایا گیا کہ اگر تم دوزخ کی ہولنا کیوں سے بچنا چاہتی ہو تو دنیا کی محبت اور دنیاوی عیش و عشرت کی طمع و حرص سے باز آؤ۔ اللہ نے تمہیں جس قدر مال دیا ہے اس پر قناعت کرو اور اس میں سے زکوٰۃ و صدقہ نکالتی رہو تاکہ قیامت کے دن اللہ کی رحمت تمہارے ساتھ ہو اور تم دوزخ میں جانے سے بچ جاؤ۔ عورتوں کے زیور کی زکوٰۃ کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا تو مسلک یہ ہے کہ مطلقا زیور میں زکوٰۃ واجب ہے جب کہ وہ حد نصاب کو پہنچتا ہو حضرت امام شافعی کا پہلا قول بھی یہی ہے حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد فرماتے ہیں کہ عورتوں کے ان زیورات میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے جن کا استعمال مباح ہے لہٰذا جن زیورات کا استعمال حرام ہے ان حضرات کے نزدیک بھی ان میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، حضرت امام شافعی کا آخری قول بھی یہی ہے حضرت امام اعظم کے مسلک کی دلیل بھی یہی حدیث ہے جس سے مطلقاً زیورات میں زکوٰۃ کا وجوب ثابت ہو رہا ہے۔ کون سے زیورات مباح ہیں اور کون سے زیورات غیر مباح و حرام ہیں ؟ اس کی تفصیل جاننے کے لئے محرر اور شافعی مسلک کی دوسری کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں۔

【17】

زیور کی زکوۃ

حضرت عمرو بن شعیب (رض) اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے جد محترم سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن دو عورتیں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ان دونوں نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنے ہوئے تھے، آنحضرت ﷺ نے ان کڑوں کو دیکھ کر فرمایا کہ کیا تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو ! ان دونوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم یہ بات پسند کرتی ہو کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے دو کڑے پہنائے۔ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں ! تو آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر اس سونے کی زکوٰۃ ادا کیا کرو۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کو اسی طرح مثنی بن صباح نے عمرو بن شعیب سے نقل کیا ہے اور مثنی بن صباح نیز ابن لہیعہ جو اس حدیث کے ایک دوسرے راوی ہیں دونوں روایت حدیث کے بارے میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں اور اس بارے میں نبی کریم ﷺ کی کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے۔ تشریح یہ حدیث بھی بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ زیورات میں زکوٰۃ واجب ہے امام ترمذی کا یہ کہنا ہے کہ اس بارے میں آنحضرت ﷺ کی کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کیونکہ احادیث کی دوسری کتابوں میں اس مسئلہ سے متعلق صحیح حدیثیں منقول ہیں جنہیں ملا علی قاری نے بھی مرقات میں نقل کیا ہے۔

【18】

زیور کی زکوۃ

حضرت ام سلمہ (رض) راوی ہیں کہ میں سونے کا وضح جو ایک زیور کا نام ہے پہنا کرتی تھی ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا اس کا شمار بھی جمع کرنے میں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو چیز اتنی مقدار میں ہو کہ اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے یعنی حد نصاب کو پہنچتی ہو تو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد اس کا شمار جمع کرنے میں نہیں ہوتا۔ (مال، ابوداو، ) تشریح حضرت ام سلمہ (رض) کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ قرآن کریم نے مال جمع کرنے کے بارے میں یہ جو وعید بیان فرمائی ہے کہ آیت (والذین یکنزون الذھب والفضۃ الآیہ (جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس میں سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب سے آگاہ کر دیجئے) ۔ تو کیا سونے کا میرا یہ زیور بھی اس وعید میں داخل ہے اس کا جواب آنحضرت ﷺ نے یہ دیا کہ جو مال بقدر نصاب ہو اور اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے تو وہ مال اس وعید میں داخل نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم تو دردناک عذاب کی خبر اس مال کے مالک کے بارے میں دے رہا ہے جسے بغیر زکوٰۃ دیئے جمع کیا جائے۔

【19】

مال تجارت پر زکوۃ

حضرت سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم تجارت کے لئے جو مال تیار کریں اس کی زکوٰۃ نکالا کریں۔ ( ابوداؤد )

【20】

کانوں کی زکوٰۃ کا مسئلہ

حضرت ربیعہ بن ابی عبدالرحمن (تابعی) بہت سے صحابہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت بلال بن حارث منزی کو نواح فرع میں قبل کی کانیں بطور جاگیر عطا فرما دیں تھیں چناچہ ان کانوں میں سے اب تک صرف زکوٰۃ لی جاتی ہے۔ (ابو داؤد) تشریح قبلیہ قبل کی طرف منسوب ہے جو نواح فرع میں ایک جگہ کا نام ہے اور فرع مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک علاقہ ہے قبل میں جو کانیں تھیں انہیں آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال بن حارث مزنی (رض) کو عطا فرما دی تھیں تاکہ وہ ان کانوں میں سے جو کچھ برآمد کریں اس سے اپنی گزر بسر کا کام چلائیں۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ان کانوں میں سے زکوٰۃ یعنی چالیسواں حصہ لیا جاتا ہے گویا کہ خمس نہیں لیا جاتا جیسا کہ کانوں کے متعلق حکم ہے، چناچہ حضرت امام مالک اور ایک قول کے مطابق حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے کہ کانوں میں بھی چالیسواں حصہ واجب نہیں ہوتا حضرت امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے۔ حضرت امام شافعی کا ایک تیسرا قول یہ بھی ہے کہ اگر کان سے برآمد ہونے والی چیز بڑی محنت اور مشقت کے نتیجے میں حاصل ہو تو چالیسواں حصہ واجب ہوگا ورنہ بصورت دیگر خمس ہی واجب ہوگا۔ بہرحال حدیث چونکہ حنفیہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حدیث کے مفہوم سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ان کانوں میں سے خمس کے بجائے چالیسواں آنحضرت ﷺ کے کسی حکم کے مطابق لیا جاتا ہو بلکہ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت کے حکام کے اپنے ذاتی اجتہاد سے ان کانوں میں سے بجائے خمس کے چالیسواں حصہ نکالنا ضروری قرار دیا ہوگا اور ظاہر ہے کہ ہمارے مسلک کی بنیاد کتاب اللہ، سنت صحیحہ اور قیاس پر ہے ملا علی قاری نے مرقات میں اس بات کو بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے اہل علم اس کتاب سے مراجعت کرسکتے ہیں۔

【21】

ترکاریوں اور عاریت کے درختوں میں زکوٰۃ نہیں

حضرت علی (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ترکاریوں میں عاریت کے درختوں میں پانچ وسق سے کم میں، کام کاج کے جانوروں میں اور جبہہ میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے صقر (رح) کہتے ہیں کہ جبہہ سے گھوڑا، خچر اور غلام مراد ہے۔ (دارقطنی) تشریح ترکاریوں اور سبزیوں کی زکوٰۃ کے بارے میں پوری تفصیل باب کے بالکل شروع میں بیان کی جا چکی ہے۔ عرایا عریۃ کی جمع ہے عریۃ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جسے اس کا مالک کسی محتاج و ضرورت مند کو بطور عاریت دے دیتا ہے اور پورے سال کی کھجوروں کو اس کی ملکیت بنا دیتا ہے تاکہ وہ ان کھجوروں سے اپنی احتیاج و ضرورت کو ختم کرسکتے چناچہ ایسی کھجوروں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے کیونکہ وہ وجوب زکوٰۃ سے پہلے ہی اپنے مالک کی ملکیت سے نکل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ حدیث بالا میں جن چیزوں کی زکوٰۃ کے بارے میں فرمایا گیا ہے ان سب کا تفصیلی ذکر گزشتہ صفحات میں مختلف مقام پر بیان کیا جا چکا ہے۔

【22】

وقص جانوروں کی زکوٰۃ کا مسئلہ

حضرت طاؤس (تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل کے پاس وقص گائیں لائی گئیں (تاکہ وہ اس میں سے زکوٰۃ وصول کریں) مگر انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے مجھے کچھ لینے کا حکم نہیں فرمایا (یعنی آپ ﷺ نے ان کی زکوٰۃ کے طور پر کچھ واجب نہیں فرمایا) دارقطنی اور امام شافع رحمہما اللہ نے فرمایا ہے کہ وقص وہ جانور کہلاتے ہیں جو (ابتدائی طور پر یا پہلے دوسرے نصاب کے بعد) حد نصاب کو نہ پہنچیں۔ تشریح علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ وقص قاف کے زیر کے ساتھ جانوروں کی اس تعداد کو کہتے ہیں جو فرض حد نصاب کو نہ پہنچے خواہ ابتداء ایسی تعداد ہو خواہ دو نصابوں کے درمیان ہو۔ اس بات کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ گائے یا بیل اگر تیس سے کم تعداد میں ہوں تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں چنانچیہ تیس سے کم وہ تعداد ہے جو ابتدائی طور پر ہی حد نصاب کو نہیں پہنچتی تیس سے کم یہ تعداد وقص کہلائے گی۔ دو نصابوں کے درمیان وقص یہ ہے کہ مثلا تیس گائے یا بیل پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جب تعداد تیس سے بڑھ جائے گی مگر چالیس تک نہ پہنچے تو اس درمیانی تعداد یعنی اکتیس سے لے کر انتالیس تک میں زکوٰۃ کے طور پر کچھ دینا واجب نہیں ہوتا ہاں جب تعداد پوری چالیس ہوجاتی ہے تو زکوٰۃ کی مقدار بڑھ جاتی ہے لہٰذا اکتیس سے لے کر انتالیس تک کی تعداد بھی وقص کہلاتی ہے اسی طرح چالیس کے بعد زکوٰۃ کی مقدار اسی وقت بڑھتی ہے جب کہ تعداد پوری ساٹھ ہوجائے۔ ان دونوں عدد کی درمیانی تعداد کو وقص کہیں گے کیونکہ اس تعداد میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ پھر جب تعداد ساٹھ سے متجاوز ہوگی زکوٰۃ کی مقدار اسی وقت بڑھے گی جب تعداد ستر ہوجائے، ان دونوں عدد کی درمیانی تعداد بھی وقص کہلائے گی کیونکہ اس تعداد میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، اسی طرح ہر دہائی کے بعد حکم متغیر ہوتا چلا جاتا ہے بایں طور زکوٰۃ کی مقدار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، دو د ہوئیں کے درمیان جتنے بیل اور گائے ہوں گی ان سب کو وقص کہیں گے اور ان میں زکوٰۃ معاف ہوگی۔ حدیث میں وقص کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے ابتدائی وقص یعنی تیس سے کم تعداد مراد ہے کیونکہ حضرت معاذ (رض) کے پاس جو گائیں لائی گئی تھیں ان کی تعداد تیس سے کم تھی۔ دو نصابوں کے درمیان کے وقص میں صاحبین کے نزدیک مطلقاً زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک چالیس سے ساٹھ تک کے درمیان وقص میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے مگر باقی وقص میں واجب نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل اس باب کی دوسری فصل کے شروع میں بیان کی جا چکی ہے اس حدیث کے بارے میں میرک (رح) کہتے ہیں کہ اس کی اسناد منقطع ہے کیونکہ حضرت معاذ (رض) سے طاؤس کی ملا قات نہیں ہے۔