34. جن لوگوں کو زکوۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان

【1】

جن لوگوں کو زکوٰۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان

اس باب کے تحت وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہوگا کہ زکوٰۃ کا مال کن لوگوں کو لینا اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے، چونکہ اس باب سے متعلق بہت زیادہ مسائل ہیں اس لئے مناسب یہ ہے کہ پہلے ان تمام مسائل کو تفصیلی طور پر نمبر وار نقل کردیا جائے۔ (١) جو شخص صاحب نصاب ہو اور اس پر زکوٰۃ واجب ہو تو وہ زکوٰۃ کا مال اپنی اصل کو نہ دے یعنی ماں باپ، دادا، دادی، نانا، نانی اور ان سے اوپر کے بزرگوں کو خواہ وہ باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے ان میں سے کسی کو زکوٰۃ دینا درست اور جائز نہیں ہے اسی طرح اپنی فرع یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، پڑپوتا، پڑپوتی، نواسا، نواسی اور ان کی اولاد میں سے کسی کو بھی زکوٰۃ کا مال دینا درست نہیں ہے امام اعظم (رح) کے قول کے مطابق شوہر، بیوی کو اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہ دے، مگر صاحبین کا قول یہ ہے کہ اگر بیوی اپنے شوہر کو زکوٰۃ دے تو درست ہے، ان کے علاوہ بقیہ رشتہ داروں کو زکوٰۃ کا مال دینا درست ہے بشرطیکہ وہ زکوٰۃ کے مستحق ہوں، یعنی غنی سید، ہاشمی اور کافر نہ ہوں بلکہ غیروں کے مقابلہ میں اپنے رشتہ داروں کو دینا بہتر ہے، اس بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ اگر زکوٰۃ اس ترتیب سے دی جائے تو بہت اچھا ہے کہ پہلے بہن، بھائی کو دے ان کے بعد ان کی اولاد کو، پھر چچا اور پھوپھی کو، ان کے بعد ان کی اولاد کو، پھر ماموں خالہ کو، ان کے بعد ان کی اولاد کو، پھر ان لوگوں کو جو ذوی الارحام ہوں پھر اپنے اجنبی ہمسایہ اور پڑوسی کو، پھر اپنے ہم پیشہ کو اور پھر اپنے ہم وطن کو یہی حکم صدقہ فطر اور نذر کا ہے کہ مذکورہ بالا ترتیب سے دینا افضل ہے، ویسے اگر کوئی شخص غیر اور اجنبی کو دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے مگر بہتر اور افضل یہی ہے کہ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو مقدم رکھا جائے۔ (٢) اپنے غلام اور اپنی لونڈی کو زکوٰۃ دینی درست نہیں ہے، یہی حکم ام ولد یعنی اس لونڈی کا ہے جس کے اپنے مالک سے کوئی اولاد ہو کہ اس کا مالک اسے بھی زکوٰۃ نہ دے۔ (٣) سسرالی رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینی درست ہے مثلا ساس سسر، سالا، سالی یا جن لوگوں سے ان کی وجہ سے رشتہ دار ہو اسی طرح داماد اور بہو کو زکوٰۃ دینی درست ہے، نیز سوتیلی ماں، سوتیلی نانی کو بھی زکوٰۃ کا مال دینا جائز ہے۔ (٤) زکوٰۃ کا مال غنی کو دینا درست نہیں ہے، غنی اس شخص کو کہتے ہیں جو بقدر نصاب مال کا مالک ہو مال خواہ نامی ہو غیر نامی۔ نامی مال اس مال کو کہتے ہیں جس میں اضافہ اور بڑھوتری ہوتی ہے جیسے مال تجارت، نقد روپیہ سونا چاندی اور سونے چاندی کے زیورات یہ مال شرعی قاعدہ کے مطابق نامی ہیں یعنی بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسی طرح ایسے مویشی اور جانور بھی حقیقۃً نامی مال ہیں جو تجارت یا افزائش نسل کے لئے ہوں۔ غیرنامی مال اس مال کو کہتے ہیں جس میں اضافہ اور بڑھوتری نہ ہوتی ہو جیسے حویلی و مکانات، کپڑے اور برتن وغیرہ یہ چیزیں بھی اگر ضرورت اصلیہ سے زائد ہوں اور بقدر نصاب ہوں، نیز قرض سے محفوظ ہوں تو بھی زکوٰۃ لینا درست نہیں ہے۔ رہائش کا مکان استعمال کے کپڑے، کھانے پکانے کے برتن، اہل علم کی لکھنے پڑھنے کی کتابیں لڑنے والے ہتھیار و اسلحے اور کاریگروں کے اوزار۔ یہ وہ اشیاء ہیں جنہیں ضرورت اصلیہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ (٥) ہاشمی کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں ہے پانچ لوگوں کی اولاد کو ہاشمی کہتے ہیں، اول حضرت علی (رض) کی اولاد خواہ حضرت فاطمہ زہراء کے بطن مبارک سے ہو یا دوسری بیویوں سے، دوم حضرت جعفر کی اولاد، سوم حضرت عقیل کی اولاد، چہارم حضرت عباس کی اولاد اور پنجم حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ان پانچوں کے سلسہ نسب سے تعلق رکھنے والے ہاشمی کہلاتے ہیں۔ ان کے غلام اور لونڈی کو بھی زکوٰۃ دینی جائز نہیں ہے اسی طرح اگر ان کے غلام لونڈی آزاد ہوگئے ہوں تب بھی انہیں زکوٰۃ کا مال لینا اور کھانا جائز نہیں۔ (٦) کافر کو زکوٰۃ کا مال دینا درست نہیں ہے خواہ حربی ہو یا ذمی۔ (٧) اگر کسی شخص نے غنی یا کافر یا اپنے باپ یا اپنے بیٹے یا اپنی بیوی کو مستحق زکوٰۃ سمجھ کر زکوٰۃ کا مال دے دیا یعنی زکوٰۃ دیتے وقت اسے معلوم نہیں ہو کہ یہ ہاشمی ہے یا کافر ہے یا اپنا باپ یا بیٹا ہے یا اپنی بیوی ہے پھر زکوٰۃ دینے کے بعد اسے حقیقت معلوم ہوئی تو اس کے ذمہ سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اب دوبارہ زکوٰۃ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ (٨) مسجد کی تعمیر و مرمت کے لئے یا کسی میت کے کفن کے لئے اور یا میت کے قرض کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں ہے اگر کسی شخص نے ان میں سے کسی بھی کام کے لئے زکوٰۃ کا مال دیا تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ مستحقین زکوۃ۔ زکوٰۃ کے مستحق فقیر ہیں اور اصطلاح شریعت میں فقیر اس شخص کو کہتے ہیں جو نصاب سے کم مال کا مالک ہو مساکین بھی مستحق زکوٰۃ ہیں۔ مساکین ان لوگوں کو کہتے ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ وہ شخص بھی زکوٰۃ کا مستحق ہے جو حاکم وقت کی طرف سے لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو اگرچہ وہ خود بھی غنی کیوں نہ ہو برسبیل تذکرہ یہ بھی جان لیجئے کہ ہاشمی کے لئے وہ تنخواہ بھی جائز نہیں ہے جو زکوٰۃ وصول کرنے والے کو ملتی ہے وہ لوگ بھی زکوٰۃ کے مستحق ہیں جو جہاد یا سفر حج کے مسافر ہوں اور ان کے پاس روپیہ پیسہ نہ رہا ہو اگرچہ ان کے وطن میں ان کا کتنا ہی زیادہ روپیہ پیسہ کیوں نہ موجود ہو۔ اسی طرح دوسرے مسافروں کا بھی زکوٰۃ کا مال دینا درست ہے خواہ کسی مسافر کا اپنے وطن میں کتنا ہی مال و زر کیوں نہ ہو لیکن آخر میں اتنی بات جان لیجئے جس شخص کو ایک دن بقدر بھی اسباب زندگی میسر ہوں اس کے لئے دس سوال دراز کرنا بالکل درست نہیں۔ (مولانا اسحق دہلوی)

【2】

آنحضرت ﷺ کو زکوٰۃ کا مال کھانا حرام تھا

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ ایک کھجور کے پاس سے گزرے جو راستے میں پڑی ہوئی تھی، آپ ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ یہ کھجور زکوٰۃ کی ہوگی تو میں اللہ کی نعمت کی تعظیم کے پیش نظر اسے اٹھا کر ضرور کھا لیتا۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث سے کئی مسئلے مستنبط ہوتے ہیں۔ (١) آنحضرت ﷺ کو زکوٰۃ کا مال کھانا حرام تھا چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے حق میں مطلقاً صدقہ کا مال حرام تھا کہ خواہ صدقہ واجب (یعنی زکوٰۃ وغیر) کا مال ہو یا صدقہ نافلہ کا آپ ﷺ اسے اپنے استعمال میں نہیں لاسکتے تھے۔ (٢) بنی ہاشم کے لئے صدقہ واجبہ لینا اور اسے استعمال کرنا تو حرام ہے لیکن صدقہ نافلہ حرام نہیں ہے (٣) راستے میں پڑی ہوئی کسی ایسی چیز کو اٹھا کر کھا لینا یا اسے اپنے استعمال میں لے آنا جائز ہے خواہ وہ مقدار و تعداد میں بہت تھوڑی ہو اور یہ گمان ہو کہ اس کا مالک اسے تلاش نہیں کرے گا۔ (٤) بندہ مومن کے لئے یہ بات اولیٰ اور افضل ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب و پرہیز کرے جس میں حرمت کا ذرا بھی شبہ ہو۔

【3】

بنی ہاشم کے لئے صدقہ وزکوۃ کا مال کھانا حرام ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حسن بن علی (رض) نے زکوٰۃ کی رکھی ہوئی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی (یہ دیکھ کر) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے نکالو ! نکالو (اور اس طرح فرمایا تاکہ) وہ اسے (منہ سے نکال کر) پھینک دیں پھر آپ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ ہم بنی ہاشم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اما شعرت (کیا تم نہیں جانتے) اس جملے کا استعمال ایسے مواقع پر کیا جاتا ہے جب کہ مخاطب کسی واضح اور ظاہر امر کے برخلاف کوئی بات کہہ یا کر رہا ہو خواہ مخاطب اس واضح امر سے لاعلم ہی کیوں نہ ہو گویا اس جملے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ امر اتنا واضح اور ظاہر ہونے کے باوجود تم پر پوشید کیسے ہے اور تم اس سے لاعلم کیسے ہو۔ بہرحال ظاہر ہے کہ حضرت حسن (رض) تو اس وقت بالکل ہی کمسن تھے، انہیں ان سب باتوں کی کیا خبر تھی مگر آپ ﷺ نے اس کے باجود انہیں اس انداز سے اس لئے خطاب کیا تاکہ دوسرے لوگ اس کے بارے میں مطلع ہوجائیں اور انہیں بنی ہاشم کے حق میں صدقہ زکوٰۃ کے مال کی حرمت کا علم ہوجائے۔ اس حدیث سے یہ نکتہ بھی ہاتھ لگا کہ والدین اور مربی پر واجب ہے کہ وہ اپنی اولاد کو خلاف شرع باتوں اور غلط حرکتوں سے روکیں اسی وجہ سے حنفی علماء فرماتے ہیں کہ والدین کے لئے یہ حرام ہے کہ وہ اپنے لڑکوں کو ریشم کے کپڑے (جو مردوں کے لئے ناجائز ہیں) اور سونے چاندی کا زیور پہنائیں۔

【4】

زکوۃ انسان کا میل ہے

حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ صدقات یعنی زکوٰۃ تو انسانوں کے میل ہیں، صدقہ نہ تو محمد ﷺ کے لئے حلال ہے اور نہ آل محمد (بنی ہاشم) کے لئے حلال ہے (مسلم) تشریح زکوٰۃ کو میل اس لئے کہا گیا ہے کہ جس طرح انسان کا جسم میل اتارنے سے صاف ہوجاتا ہے اسی طرح زکوٰۃ نکالنے سے نہ صرف یہ کہ مال ہی پاک ہوجاتا ہے بلکہ زکوٰۃ دینے والے کے قلب و روح میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے لئے زکوٰۃ کا مال لینا حرام تھا اسی طرح آنحضرت ﷺ کی اولاد بنی ہاشم کو بھی زکوٰۃ لینی حرام ہے، خواہ وہ زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہوں یا محتاج و مفلس ہوں چناچہ حنفیہ کا صحیح مسلک یہی ہے۔

【5】

صدقہ کے مال سے آنحضرت ﷺ کی احتیاط

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب آپ ﷺ کے پاس کھانے کی کوئی چیز لائی جاتی تو پہلے آپ ﷺ اس کے بارے میں پوچھتے کہ یہ ہدیہ ہے یا صدقہ اگر بتایا جاتا کہ یہ صدقہ ہے تو آپ ﷺ (بنی ہاشم کے علاوہ) اپنے دوسرے صحابہ سے فرماتے کہ کھالو لیکن آپ ﷺ خود نہ کھاتے اور اگر بتایا جاتا کہ یہ ہدیہ ہے تو آپ ﷺ اپنا دست مبارک بڑھاتے اور صحابہ کے ساتھ اسے تناول فرماتے۔ (بخاری ومسلم) تشریح صدقہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو کسی محتاج و ضرورت مند کو از راہ مہربانی دیا جاتا ہے اور اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل ہو اور آخرت میں اس کا اجر وثواب ملے چونکہ صدقہ کا مال لینے والے کی ایک طرح سے ذلت اور کمتری محسوس ہوتی ہے اس لئے آنحضرت ﷺ کے لئے مطلقاً صدقہ لینا حرام تھا۔ ہدیہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی بڑے اور عظیم المرتبت شخص کی خدمت میں کوئی چیز از راہ تعظیم و تکریم پیش کرے۔ ہدیہ کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ دنیاوی طور پر اس کا تعلق طرفین سے ہوتا ہے بایں طور کہ جو شخص کسی کو کوئی چیز ہدیہ کرتا ہے تو وہ دنیا ہی میں اس کا اس طرح بدلہ بھی پاتا ہے کہ جسے اس نے ہدیہ دیا ہے وہ کسی وقت اسے بھی کوئی چیز ہدیہ کے طور پر دیتا ہے جب کہ صدقہ میں اس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

【6】

تملیک کا مسئلہ

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ بریرہ کے متعلق تین احکام سامنے آئے پہلا حکم تو یہ کہ جب وہ آزاد ہوئی تو اسے اپنے خاوند کے بارے میں اختیار دیا گیا (دوسرا حکم یہ کہ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میراث کا حق اس شخص کے لئے ہے جس نے آزاد کیا (تیسرا حکم یہ کہ ایک دن) رسول کریم ﷺ گھر میں تشریف لائے تو گوشت کی ہانڈی پک رہی تھی، آپ ﷺ کے سامنے روٹی اور گھر کا سالن لایا گیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں نے وہ ہانڈی نہیں دیکھی جس میں گوشت ہے ؟ یعنی جب گوشت پک رہا ہے تو وہ مجھے کیوں نہیں دیا گیا ؟ عرض کیا گیا کہ بیشک ہانڈی میں گوشت پک رہا ہے لیکن وہ گوشت بریرہ کو بطور صدقہ دیا گیا ہے اور آپ ﷺ تو صدقہ نہیں کھاتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ گوشت بریرہ کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے ابتدائی الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ بریرہ جو حضرت عائشہ (رض) کی آزاد کردہ لونڈی تھیں اس کے سبب تین شرعی احکام نافذ ہوئے پہلا حکم تو یہ کہ جب بریرہ آزاد ہوئی تو اسے اختیار دے دیا گیا کہ چاہے تو وہ اپنے خاوند کہ جس کا نام مغیث تھا کے نکاح میں رہے یا اس سے جدائی اور علیحدگی اختیار کرلے۔ یہ علماء کے یہاں خیار عتق کہلاتا ہے یعنی جو لونڈی کسی کے نکاح میں ہو تو آزاد ہونے کے بعد اسے اختیار ہے کہ چاہے تو خاوند کے نکاح میں رہے چاہے اس سے جدائی اختیار کرلے لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ لونڈی کو یہ اختیار اس وقت حاصل ہوگا جب کہ اس کا خاوند غلام ہو حنفیہ کہتے ہیں کہ اس کا خاوند خواہ غلام ہو خواہ آزاد ہو وہ دونوں صورتوں میں مختار ہوگی۔ بریرہ کا خاوند مغیث غلام تھا جب بریرہ نے آزاد ہونے کے بعد اس سے جدائی اختیار کرلی گویا اسے قبول نہیں کیا تو مغیث بڑا ہی پریشان ہوا یہاں تک کہ وہ بریرہ کے عشق و فراق میں روتا اور فریاد کرتا پھرتا رہا مگر بریرہ نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا اور اس سے علیحدہ ہی رہی۔ بریرہ کے سبب سے دوسرا حکم یہ نافذ ہوا کہ ولاء یعنی لونڈی کی میراث اس شخص کے لئے ہے جس نے اسے آزاد کیا ہوگا اس کی تفصیل یہ ہے کہ بریرہ ایک یہودی کی لونڈی تھی جس نے اسے مکاتب کردیا تھا یعنی یہودی نے اسے یہ کہہ دیا تھا کہ جب تو اتنے درہم دے دے گی تو آزاد ہوجائے گی جب بریرہ مطلوبہ تعداد میں درہم فراہم کرنے سے عاجز ہوگئی تو حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضرت ہوئی تاکہ اگر وہ کچھ دے دیں تو اپنے مالک کو دے کر آزادی کا خلعت زیب تن کرے، حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اپنے مالک سے پوچھ اگر وہ تجھے بیچے تو میں خریدے لیتی ہوں۔ بریرہ اپنے مالک کے پاس گئی اور اس سے حضرت عائشہ (رض) کی خواہش بیان کی وہ فروخت کرنے پر تیار ہوگیا مگر اس نے یہ بھی کہا کہ میں اس شرط پر فروخت کرنے کے لئے تیار ہوں کہ ولاء یعنی بریرہ کی میراث کے ہم حقدار ہوں گے حضرت عائشہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ یہودی اس طرح کہتے ہیں اور ان کی یہ شرط ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہودی غلط کہتے ہیں اور بکو اس کرتے ہیں میراث کا حق اسی کو ہوتا ہے جو آزاد کرتا ہے عائشہ (رض) تم اس سے خرید کر آزاد کردو اس کی میراث تمہارے لئے ہوگی، یہودیوں کی یہ شرط باطل ہے۔ تیسرا حکم جو بریرہ کے سبب سے نافذ ہوا اس کا ذکر حدیث کے آخر میں کیا گیا ہے اس کا حاصل اور مطلب یہ ہے کہ اگر مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ کا مال دیا جائے اور مستحق زکوٰۃ وہ مال لے کر ایسے شخص کو دے دے جو زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے تو اس کے لئے یہ مال حلال و جائز ہوگا کیونکہ زکوٰۃ دینے والے نے تو ایک صحیح شخص اور مستحق کو مال دے دیا اور وہ مال اس مستحق زکوٰۃ کی ملکیت ہوگا اب وہ جس شخص کو بھی اپنا مال دے گا جائز اور درست ہوگا اصطلاح میں اسے تملیک کہا جاتا ہے جو جائز اور حلال ہے۔

【7】

آنحضرت ﷺ تحفہ قبول کرتے اور اس کا بدلہ عطا فرماتے

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ تحفہ قبول فرماتے تھے اور اس کا بدلہ دے دیا کرتے تھے۔ (بخاری)

【8】

معمولی تحفہ بھی قبول کرنا چاہئے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر میری کراع کی بھی دعوت کی جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر میرے پاس بطور تحفہ ایک دست بھی بھیجا جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔ (بخاری) تشریح کراع بکری کی پنڈلی کو کہتے ہیں آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مجھے صرف بکری کی پنڈلی دے جو کہ ایک معمولی چیز ہے کھانے کے لئے بلائے تو میں اس کی دعوت قبول کرلوں گا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص میرے پاس تحفہ کے طور پر بکری کا دست بھی بھیجے گا تو میں اسے بھی بڑی خوشی کے ساتھ قبول کروں گا۔ اس ارشاد میں اس طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت ﷺ مخلوق اللہ کے ساتھ نہایت تواضع و انکساری اور شفقت و محبت کے ساتھ پیش آتے تھے، آپ ﷺ یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ ﷺ کی ذات کی وجہ سے کسی چھوٹے سے چھوٹے اور معمولی درجے کے انسان کا دل بھی دکھے یا وہ کسی بھی طرح کے احساس کمتری میں مبتلا ہو، گویا آپ ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعے اس بات کی ترغیب بھی دلائی ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے پاس انتہائی معمولی درجہ کا بھی کوئی تحفہ لے کر آئے تو اسے خوشی ورغبت کے ساتھ قبول کرو۔

【9】

مسکین کون ہے؟

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ مسکین وہ شخص نہیں ہے جو لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے اور لوگ اسے ایک لقمہ یا دو لقمہ اور کھجوریں دیتے ہیں بلکہ مسکین شخص وہ ہے جو اتنا بھی مال نہیں رکھتا کہ وہ اس کی وجہ سے مستغنی ہو اور اس کے ظاہر حالات کی وجہ سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ محتاج و ضروت مند ہے اسے صدقہ دیا جائے نیز لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنے کے لئے گھر سے نہیں نکلتا۔ (بخاری ومسلم) تشریح قرآن کریم میں جس طرح زکوٰۃ و صدقات کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زکوٰۃ کے مصارف اور زکوٰۃ کے مستحقین کو بھی بیان فرمایا ہے چناچہ ارشادربانی ہے۔ آیت (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَا ءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰه) 9 ۔ التوبہ 60) ۔ صدقہ کے مال صرف فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور عمال کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جن کی تالیف قلب کی جائے اور غلاموں کی آزادی خرچ کرنے کے لئے اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے کے لئے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے اور مسافر کے لئے۔ اس آیت میں آٹھ قسم کے لوگ بیان کئے گئے ہیں جو صدقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ وغیرہ کا مال لینے کے مستحق ہیں ان کے سوا کسی دوسرے کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں ہے، ان میں سے بھی حنفیہ کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کا حصہ ساقط ہوگیا ہے اس لئے ان کے ہاں مستحقین زکوٰۃ کی سات قسمیں باقی رہ گئیں ہیں۔ بہرحال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں جن مسکینوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے وہ مسکین مراد نہیں ہیں جو عرف عام میں مسکین کہلاتے ہیں اور جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ مانگنے کے لئے ہر در پر مارے مارے پھرتے ہیں جس دروازے پر پہنچ جاتے ہیں روٹی کا ایک آدھ ٹکڑا یا آٹے کی ایک آدھ چٹکی اپنی جھولی میں ڈلوا کر رخصت کر دئیے جاتے ہیں، بلکہ حقیقی مسکین تو وہ لوگ ہیں جنہیں نان جویں بھی میسر نہیں ہوتی مگر ان کی شرافت و خودداری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ان کی بغل میں رہنے والا ہمسایہ بھی ان کی اصل حقیقت نہیں جانتا وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے اپنے احتیاج و ضرورت کی جھولی پھیلا کر گھر گھر نہیں پھرتے بلکہ وہ اپنے اللہ پر اعتماد و بھروسہ کئے ہوئے اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں۔

【10】

بنی ہاشم کے غلاموں کو بھی صدقہ کا مال لیناحلال نہیں

حضرت ابورافع (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو زکوٰۃ لینے کے لئے بھیجا اس نے ابورافع سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ اس میں سے تمہیں بھی کچھ حصہ مل جائے ابورافع نے کہا کہ میں ابھی نہیں جاؤں گا پہلے رسول کریم ﷺ سے جا کر پوچھتا ہوں کہ میں اس شخص کے ساتھ زکوٰۃ لینے جاؤں یا نہیں ! چناچہ وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اپنے جانے کے بارے میں پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ ہمارے یعنی بنی ہاشم کے لئے حلال نہیں ہے اور مولیٰ یعنی آزاد کردہ غلام زکوٰۃ لینے کے معاملے میں اسی آزاد قوم کے حکم میں ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی )

【11】

کن لوگوں کو زکوٰۃ کا مال لینا درست نہیں ہے؟

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ نہ تو غنی کے لئے زکوٰۃ کا مال لینا حلال ہے اور نہ تندرست و توانا کے لئے جو محنت مزدوری کرنے کے قابل ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد، دارمی اور احمد، نسائی و ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح غنی تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اول تو وہ شخص جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے گویا وہ شخص نصاب نامی کا مالک ہو اور اس کے نصاب پر ایک سال گزر گیا ہو دوم وہ شخص جو مستحق زکوٰۃ نہیں ہوتا اور اس پر صدقہ فطر قربانی کرنا واجب ہوتا ہے گویا وہ شخص کہ جس کے پاس ضرورت اصلیہ کے علاوہ بقدر نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر مال ہو، سوم وہ شخص جس کے صدقہ کا مال تو حلال ہو لیکن اسے دست سوال دراز کرنا حرام ہو، گویا وہ شخص جو ایک دن کے کھانے اور بقدر ستر پوشی کپڑے کا مالک ہو۔ تندرست و توانا کا مطلب یہ ہے کہ کہ جس طرح غنی کے لئے زکوٰۃ کا مال حلال نہیں ہے اسی طرح اس شخص کے لے زکوٰۃ حلال و جائز نہیں ہے جو تندرست و توانا ہو یعنی اس کے اعضاء صحیح وسالم اور قوی ہوں نیز وہ اتنا کمانے پر قادر ہو کہ اس کے ذریعے اپنا اور اہل و عیال کا پیٹ پال سکے چناچہ حضرت امام شافعی کا مسلک اسی حدیث کے مطابق ہے کہ ان کے نزدیک کسی ایسے شخص کے لئے زکوٰۃ کا مال لینا حلال نہیں ہے جو کمانے کے قابل ہو لیکن حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ ہر اس شخص کو زکوٰۃ لینی حلال ہے جو نصاب مزکورہ کا مالک نہ وہ اگرچہ وہ تندرست و توانا اور کمانے کے قابل ہی کیوں نہ ہو کیونکہ آنحضرت ﷺ ان ضرورت مند صحابہ (رض) کو صدقات و زکوٰۃ کا مال دیتے تھے جو توانا و تندرست بھی تھے اور کمانے قابل بھی تھے اور آخر تک آپ ﷺ کا یہی معمول رہا لہٰذا اس حدیث کے بارے میں کہا جائے گا یا تو یہ منسوخ ہے یا پھر یہ کہ اس حدیث کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ جو شخص تندرست و توانا ہو اور محنت مزدوری کر کے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اس باب معیشت فراہم کرنے کی قدرت و طاقت رکھتا ہو اس کے لئے یہ بہتر اور مناسب نہیں ہے کہ وہ زکوٰۃ و صدقات کا مال لے کر اس ذلت و کمتری پر مطمئن و راضی ہو اور معاشرے کا ایک ناکارہ شخص بن جائے بلکہ اس کے لئے تو بہتر اور اولیٰ یہ ہے کہ وہ اپنے بازوؤں کے سہارے خود کمائے محنت کرے اور اس طرح سماج و سوسائٹی میں باوقار زندگی بسر کرے۔

【12】

تندرست وتوانا کو زکوٰۃ کا مال لینا مناسب نہیں

حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار کہتے ہیں کہ مجھے دو آدمیوں نے بتایا کہ وہ دونوں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ آپ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں کو زکوٰۃ کا مال تقسیم فرما رہے تھے ان دونوں نے بھی آپ ﷺ کے سامنے اس مال میں سے کچھ لینے کی خواہش کا اظہار کیا، وہ دونوں کہتے تھے کہ آپ ﷺ نے ہماری خواہش و طلب کو دیکھ کر ہم پر سر سے پاؤں تک نظر دوڑائی اور ہمیں تندرست و توانا دیکھ کر فرمایا کہ اگر تم لینا ہی چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دوں لیکن یاد رکھو کہ صدقات و زکوٰۃ کے اس مال میں سے نہ تو غنی کا کوئی حصہ اور نہ اس شخص کا جو تندرست و توانا ہو اور کمانے پر قادر ہو۔ (ابو داؤد، نسائی) تشریح حجتہ الوداع آنحضرت ﷺ کے آخری حج کو کہتے ہیں جس میں آپ ﷺ نے احکام الٰہی کی وضاحت فرمائی اور لوگوں کو وداع کہا اور پھر اس کے چند مہینوں بعد ہی رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق حدیث کے آخری جملوں کا مطلب یہ ہوگا کہ تم لوگوں کے لئے صدقہ کا مال کھانا حرام ہے لیکن اگر تم حرام مال کھانا ہی چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں، گویا آپ ﷺ نے زجر توبیخ کے طور پر اس طرح ارشاد فرمایا۔ حنفیہ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر تم اس مال میں سے لینا چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن یہ سمجھ کہ جو شخص تندرست و توانا ہو اور کمانے پر قدرت رکھتا ہو اس کے لئے صدقہ کا مال کھانا کچھ زیب نہیں دیتا۔

【13】

بعض صورتوں میں غنی کے لئے بھی زکوٰۃ کا مال حلال ہوتا ہے

حضرت عطاء بن یسار (رض) بطریق ارسال روایت کرتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ غنی کے لئے زکوٰۃ کا مال حلال نہیں ہاں پانچ صورتوں میں غنی کے لئے بھی زکوٰۃ کا مال حلال ہوتا ہے (١) اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غنی کے لئے جب کہ اس کے پاس سامان جہاد نہ ہو۔ (٢) زکوٰۃ وصول کرنے والے غنی کے لئے (٣) تاوان بھرنے والے غنی کے لئے (٤) زکوٰۃ کا مال اپنے مال کے بدلے میں خریدنے والے غنی کے لئے یعنی کسی شخص نے ایک مفلس کو زکوٰۃ کا کوئی مال دیا اور غنی اس مفلس سے زکوٰۃ کے مال کو خریدے اور اسے اس کا بدل دے دے تو اس صورت میں غنی کے لئے وہ مال جائز و حلال ہوگا۔ (٥) اور اس غنی کے لئے کہ جس کے پڑوس میں کوئی مفلس رہتا ہو اور کسی شخص نے اسے زکوٰۃ کا کوئی مال دیا اور وہ مفلس اپنے پڑوسی مال دار غنی کو اس میں سے کچھ حصہ تحفہ کے طور پر بھیجے تو وہ غنی کے لئے جائز و حلال ہوگا۔ (مالک، ابوداؤد ، ) اور ابوداؤد کی ایک روایت جو ابوسعید (رض) سے منقول ہے لفظ او ابن السبیل (یعنی اس غنی کے لئے بھی کہ جو مسافر ہو زکوٰۃ کا مال حلال ہے مذکور ہے۔ تشریح تاوان بھرنے والے غنی سے وہ مال دار اور غنی مراد ہے جسے کسی تاوان و جرمانے کے طور پر ایک بڑی رقم یا کسی مال ایک بڑا حصہ ادا کرنا ہے اگرچہ وہ مالدار ہے مگر اس کے ذمہ تاوان اور جرمانے کی جو رقم یا جو مال ہے وہ اس کے موجودہ مال و رقم سے بھی زیادہ ہے تو اس کے لئے جائز اور حلال ہے کہ وہ زکوٰۃ لے کر اس سے وہ تاوان پورا کرے اب وہ تاوان خواہ دیت کی صورت میں یا یہ شکل ہو کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا قرضدار تھا اس نے طرفین کو لڑائی جھگڑے سے بچانے کے لئے یا کسی اور وجہ سے اس شخص کا قرض اپنے ذمہ لے لیا کہ اس کی طرف سے اس کا قرض میں ادا کروں گا اس کی وجہ سے وہ قرض دار ہوگیا یا پھر یہ شکل بھی مراد ہوسکتی ہے کہ وہ خود کسی کا قرض دار ہو اپنا قرض ادا کرنے کے لئے اسے رقم و مال کی ضرورت ہو امام شافعی کے مسلک کے مطابق وہ غازی جہاد کرنے والا جو غنی اور مالدار ہو زکوٰۃ لے سکتا ہے اور اسے زکوٰۃ لینی درست ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اسے زکوٰۃ دینی جائز نہیں ہے کیونکہ دوسری احادیث میں مطلقاً غنی کو زکوٰۃ دینے سے منع فرمایا گیا ہے کہ غنی کے لئے صدقات کا مال حلال نہیں ہے پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ (رض) کو جو حکم تحریر فرمایا تھا اس میں آپ نے مطلقاً یہی ارشاد فرمایا تھا کہ (جس قوم میں تم گئے ہو) اس قوم کے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرو اسے ان کے فقراء و مساکین پر صرف کرو، چناچہ وہ حدیث کہ جس میں حضرت معاذ کے بارے میں مذکورہ حکم منقول ہے یہاں ذکر کی گئی حدیث سے زیادہ قوی ہے۔ ان کے علاوہ حدیث میں جو ذکر کی گئی ہیں وہ سب صورتیں متفقہ طور پر تمام ائمہ کے نزدیک درست ہیں کیونکہ زکوٰۃ وصول کرنے والے کو تو زکوٰۃ کا مال لینا اس لئے درست ہے کہ وہ اپنی محنت اور اپنے عمل کی اجرت لیتا ہے اس صورت میں اس کا فقر و غنا دونوں برابر ہیں۔ تاوان بھرنے والا اگرچہ غنی ہے لیکن اس پر جو قرض کا مطالبہ ہے وہ اس کے موجودہ مال سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا مال نہ ہونے کے برابر ہے اسی طرح باقی دونوں صورتوں کا معاملہ بھی ظاہر ہی ہے کہ زکوٰۃ جب مستحق زکوٰۃ کو مل گئی تو گویا وہ اپنے محل اور اپنے مصرف میں پہنچ گئی اور وہ مستحق زکوٰۃ اس مال کا مالک ہوگیا اب چاہے وہ اسے فروخت کر دے چاہے کسی کو تحفہ کے طور پردے دے۔

【14】

زکوۃ کے مستحق وہی لوگ ہیں جن کا ذکر قرآن نے کیا ہے

حضرت زیاد بن حارث صدائی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس کے بعد زیاد (رض) نے ایک طویل حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے زکوٰۃ کا مال عطا فرمائیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ زکوٰۃ تقسیم کرنے کے بارے میں کہ کسے کسے زکوٰۃ دی جائے اللہ تعالیٰ نے تو کسی نبی کے علاوہ کسی دوسرے یعنی علماء و مجتہدین کے حکم پر راضی ہوا بلکہ اس کا حکم حق تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا (یعنی اللہ تعالیٰ نے مستحقین زکوٰۃ کے تعین کی ذمہ داری نبی یا علماء مجتہدین پر نہیں ڈالی بلکہ اس کا تعین خود فرمایا) چناچہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف ذکر کئے ہیں اگر تم ان آٹھ میں سے ہو گے تو میں تمہیں زکوٰۃ کا مال دوں گا۔ ( ابوداؤد ) تشریح آیت کریمہ (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَا ءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ) 9 ۔ التوبہ 60) کہ جس میں مستحقین زکوٰۃ اور مصرف زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے ابھی پچھلے صفحات میں نقل کی جا چکی ہے اس آیت کے مطابق مستحقین زکوٰۃ کی تعداد آٹھ اس طرح ہے (١) فقیر (٢) مسکین (٣) عاملین زکوٰۃ (٤) مؤلفۃ القلوب (اس بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک تالیف قلب کا مصرف اب باقی نہیں رہا) (٥) غلام (٦) قرض دار یا تاوان دینے والا (٧) اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا سفر حج کا مسافر اور طالب علم (٨) مسافرین

【15】

حضرت عمر رضی اللہ کا ایک واقعہ

حضرت زید بن اسلم (رح) کہتے ہیں ایک دن امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے دودھ نوش فرمایا تو انہیں بہت اچھا لگا جس شخص نے انہیں دودھ پلایا تھا اس سے انہوں نے پوچھا کہ یہ دودھ کہاں کا ہے ؟ اس نے انہیں بتایا کہ ایک پانی پر یعنی نام لے کر بتایا کہ فلاں جگہ جہاں پانی تھا میں گیا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ زکوٰۃ کے بہت سے اونٹ موجود ہیں اور انہیں پانی پلایا جا رہا ہے پھر اونٹ والوں نے اونٹوں کا تھوڑا سا دودھ نکالا اس میں سے تھوڑا سا دودھ میں بھی لے کر اپنی مشک میں ڈال لیا یہ وہی دودھ ہے یہ سنتے ہی حضرت عمر (رض) نے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں ڈالا اور قے کردی۔ (مالک، بیہقی) تشریح حضرت عمر (رض) کا عمل کمال تقویٰ اور انتہائی ورع کی بناء پر تھا ورنہ تو جہاں تک مسئلے کی بات ہے یہ تو بتایا جا چکا ہے کہ اگر مستحق زکوٰۃ کے مال کا مالک ہوجانے کے بعد اسے کسی غیر مستحق زکوٰۃ کو ہبہ کر دے یا اسے تحفہ کے طور پردے دے تو اسے استعمال میں لانا اور اسے کھانا جائز ہے چناچہ ابھی گزشتہ صفحات میں بریرہ کا جو واقعہ گزرا ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے اس مسئلہ کے جواز ہی کو بیان فرمایا تھا۔