35. جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان

【1】

جن لوگوں کو سول کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں

علماء لکھتے ہیں کہ جس شخص کے پاس ایک دن کے بقدر بھی غذا اور ستر چھپانے کے بقدر کپڑا ہو تو اسے کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بغیر ضرورت و حاجت مانگنا حرام ہے ہاں جس شخص کے پاس ایک دن کی بھی غذا اور ستر چھپانے کے بقدر بھی کپڑا نہ ہو تو اس کے لئے دست سوال دراز کرنا حلال ہے جو محتاج و فقیر ایک دن کی غذا کا مالک ہو اور وہ کمانے کی قدرت رکھتا ہو تو اس کے لئے زکوٰۃ لینا تو حلال ہے مگر لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنا حرام ہے جس مسکین و محتاج کو ایک دن کی غذا بھی میسر نہ ہو اور وہ کمانے کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو تو اس کے لئے سوال کرنا حلال ہے۔ نووی (رح) نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بغیر ضرورت و احتیاج لوگوں سے مانگنا ممنوع ہے البتہ جو شخص کمانے کی قدرت رکھتا ہو اس کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں۔ چناچہ زیادۃ صحیح قول تو یہ ہے کہ ایسے شخص کہ جو کما کر اپنا گزارہ کرسکتا ہو لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنا حرام ہے لیکن بعض حضرات مکروہ کہتے ہیں وہ بھی تین شرطوں کے ساتھ۔ اول یہ کہ دست سوال دراز کر کے اپنے آپ کو ذلیل نہ ہونے دے، دوم الحاح یعنی مانگنے میں مبالغہ سے کام نہ لے، سوم یہ کہ جس شخص کے آگے دست سوال دراز کر رہا ہے اسے تکلیف و ایذاء نہ پہنچائے اگر ان تین شرطوں میں سے ایک بھی پوری نہ ہو تو پھر سوال کرنا بالاتفاق حرام ہوگا۔ ابن مبارک (رح) سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا جو سائل لوجہ اللہ کہہ کر سوال کرے تو مجھے اچھا نہیں لگتا کہ اسے کچھ دیا جائے کیونکہ دنیا اور دنیا کی چیزیں کمتر و حقیر ہیں، جب اس نے دنیا کی کسی چیز کے لئے لوجہ اللہ کہہ کر سوال کیا تو گویا اس نے اس چیز (یعنی دنیا) کی تعظیم و توقیر کی جسے اللہ تعالیٰ نے کمتر و حقیر قرار دیا ہے لہٰذا ایسے شخص کو از راہ زجر و تنبیہ کچھ نہ دیا جائے اور اگر کوئی شخص یہ کہہ کر سوال کرے کہ بحق اللہ یا بحق محمد دو ، تو اسے کچھ دینا واجب نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص اپنی کوئی غلط اور جھوٹی حاجت و ضرورت ظاہر کر کے کسی سے کوئی چیز لے تو وہ اس چیز کا مالک نہیں ہوتا (گویا وہ چیز اس کے حق میں ناجائز و حرام ہوتی ہے) اسی طرح کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ میں سید ہوں اور مجھے فلاں چیز کی یا اتنے روپیہ کی ضرورت ہے اور وہ شخص سائل کو سید سمجھ کر اس کا سوال پورا کر دے مگر حقیقت میں وہ سید نہ ہو تو وہ بھی اس مانگی ہوئی چیز کا مالک نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں وہ چیز اس کے حق میں ناجائز و حرام ہوتی ہے۔ ایسے ہی اگر کوئی شخص کسی سائل کو نیک بخت صالح سمجھ کر کوئی چیز دے دے حالانکہ وہ سائل باطنی طور پر ایسا گنہگار ہے کہ اگر دینے والے کو اس کے گناہ کا پتہ چل جاتا تو اسے وہ چیز نہ دیتا تو اس صورت میں سائل اس چیز کا مالک نہیں ہوتا وہ چیز اس کے لئے حرام ہے اور اس چیز کو اس کے مالک کو واپس کردینا اس پر واجب ہوگا اگر کوئی شخص کسی کو اس کی بدزبانی یا اس کی چغل خوری کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے کوئی چیز دے تو وہ چیز اس کے حق میں حرام ہوگی۔ اگر کوئی فقیر کسی شخص کے پاس مانگنے کے لئے آئے اور وہ اس کے ہاتھ پیر چومے تاکہ وہ اس کی وجہ سے اس کا سوال پورا کر دے تو یہ مکروہ ہے بلکہ اس شخص کو چاہئے کہ وہ فقیر کو ہاتھ پیر نہ چومنے دے۔ ان سائل اور فقیروں کو کچھ بھی نہ دینا چاہئے جو نقارہ، ڈھول یا ہار مونیم وغیرہ بجاتے ہوئے دروازوں پر مانگتے پھرتے ہیں اور مطرب یعنی ڈوم تو سب سے بدتر ہے۔

【2】

کن لوگوں کو سوال کرنا جائز ہے

حضرت قبیصہ بن مخارق (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک ایسے قرضہ کی ضمانت لی جو دیت کی وجہ سے تھا چناچہ میں رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے ادائیگی قرض کے لئے کچھ رقم یا مال کا سول کیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ کچھ دن ٹھہرے رہو، جب ہمارے پاس زکوٰۃ کا مال آئے گا تو اس میں سے تمہیں دینے کے لئے کہہ دیں گے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ قبیصہ ! صرف تین طرح کے لوگوں کے لئے سوال کرنا جائز ہے ایک تو اس شخص کے لئے جو کسی کے قرض کا ضامن بن گیا ہو بشرطیکہ مانگنے میں مبالغہ نہ کرے بلکہ اتنے ہی مال یا رقم کا سوال کرے کہ اس سے قرضہ کو ادا کر دے اور اس کے بعد پھر نہ مانگے، دوسرے اس شخص کے لئے جو کسی آفت و مصیبت مثلا قحط و سیلاب وغیرہ میں مبتلا ہوجائے اور اس کا تمام مال ہلاک و ضائع ہوجائے، چناچہ اس کو صرف اس قدر مانگنا جائز ہے جس سے اس کی غذا و لباس کی ضرورت پوری ہوجائے یا فرمایا کہ اس قدر مانگے کہ اس کی محتاجگی دور ہوجائے اور اس کی زندگی کے لئے سہارا ہوجائے، تیسرے اس شخص کے لئے جو غنی ہو مگر اس کو کوئی ایسی سخت حاجت پیش آگئی ہے جسے اہل محلہ بھی جانتے ہوں مثلاً گھر کا تمام مال و اسباب چوری ہوجائے یا اور کسی مصیب و حادثے سے دوچار ہونے کے وجہ سے ضرورت مند بن جائے اور قوم محلہ و بستی کے تین صاحب عقل و فراست لوگ اس بات کی شہادت دیں کہ واقعی اسے سخت حاجت پیش آگئی ہے تو اس کے لئے اس قدر مانگنا جائز ہے جس سے اس کی ضرورت پوری ہوجائے۔ یا فرمایا کہ اس کی وجہ سے اس کی محتاجگی دور ہوجائے اور اس کی زندگی کا سہارا ہوجائے۔ قبیصہ ! ان تین کے علاوہ کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اگر کوئی شخص ان تین مجبوریوں کے علاوہ دس سوال دراز کر کے کسی سے کچھ لے کر کھاتا ہے تو وہ حرام کھاتا ہے۔ (مسلم) تشریح حمالہ اس مال کو کہتے ہیں جو کسی شخص پر دیت کے طور پر کچھ لوگوں کو دینا ضروری ہو اور کوئی دوسرا شخص اس مال کی عدم ادائیگی کی بناء پر آپس کے لڑائی جھگڑے کو نمٹانے کے لئے درمیان میں پڑجائے اور وہ مال اپنے ذمہ لے لے اور اس کی وجہ سے قرض دار ہوجائے۔ حدیث کے آخر میں تین صاحب عقل و فراست لوگوں کی شہادت کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ احتیاج و ضرورت کے واقعی اور حقیقی ہونے کے لئے بطور مبالغہ ہے نیز اس بات کا احساس پیدا کرنے کے لئے کہ لوگ دست سوال دراز کرنے کو آسان نہ سمجھیں اور اس برے فعل سے بچتے رہیں۔

【3】

محض اضافہ مال کی خاطر دس سوال دراز کرنے پر وعید

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص محض اضافہ مال کی خاطر لوگوں کے مال میں سے کچھ مانگتا ہے تو وہ گویا آگ کا انگارا مانگتا ہے اب وہ چاہے کم مانگے یا زیادہ مانگے۔ (مسلم) تشریح اضافہ مال کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی احتیاج و ضرورت کی بناء پر نہیں بلکہ محض اس لئے لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرتا ہے تاکہ اس کا مال زیادہ ہوجائے۔ آگ کے انگارے سے مراد دوزخ کا انگارہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جو اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے نہیں بلکہ محض اضافہ مال کی خاطر کسی سے کچھ مانگتا ہے تو وہ اپنی اس ہوسنا کی اور حرص و طمع کی وجہ سے دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ کم یا زیادہ آپ ﷺ نے بطور تنبیہ ارشاد فرمایا اس کی وضاحت یہ ہے کہ بلا ضرورت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا دنیاوی اور اخروی اعبتار سے بہر صورت نقصان دہ اور باعث ذلت و رسوائی ہے خواہ وہ کسی حقیر و کمتر چیز کے لئے ہاتھ پھیلائے خواہ کسی قیمتی اور اعلیٰ چیز کے لئے دست سوال دراز کرے۔

【4】

روز قیامت بھیک مانگنے والوں کا حشر

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص ہمیشہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا رہے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں ہوگا کہ اس کے منہ پر گوشت کی بوٹی نہ ہوگی۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو لوگ بلا ضرورت محض پیشے کے طور پر بھیک مانگے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرتے ہیں وہ قیامت کے روز میدان حشر میں ذلیل و رسوا کر کے لائے جائیں گے یا حقیقۃً ان کا یہ حال ہوگا کہ ان کی اس برائی اور غلط فعل کی سزا کے طور پر ان کے منہ پر گوشت نہیں ہوگا اس طرح وہ لوگ میدان حشر میں مخلوق اللہ کے درمیان یہ کہہ کر بےآبرو و رسوا کئے جائیں کہ یہ دنیا میں بھیک مانگتے پھرا کرتے تھے، آج انہیں اس کی یہ سزا مل رہی ہے۔

【5】

مانگنے میں مبالغہ نہ کرنا چاہئے

حضرت معاویہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مانگنے میں مبالغہ نہ کرو، اللہ کی قسم ! تم میں سے جو بھی شخص مجھ سے (مبالغہ کے ساتھ) کچھ مانگتا ہے تو میں اسے اس حال میں کچھ نکال کردیتا ہوں کہ میں اسے دینا برا سمجھتا ہوں اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ جو چیز میں نے اسے دی ہے اس میں برکت ہو۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص انتہائی مبالغہ کے ساتھ میرے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے تو اگرچہ مجھ سے اس کا سوال ٹھکرایا نہیں جاتا اور میں اسے دے دیتا ہوں مگر میری طرف سے ناخوشی کے ساتھ دی گئی چیز اور برکت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے لہٰذا میں ناخوشی کے ساتھ جو چیز دیتا ہوں اس میں برکت نہیں ہوتی۔

【6】

محنت مزدور کرنا ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے

حضرت زبیر بن عوام (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے کوئی شخص ایک رسی اور لکڑیوں کا ایک گٹھا باندھ کر پشت پر لاد کر لائے اور اسے فروخت کرے اور اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کی عزت و آبرو کو برقرار رکھے جو مانگنے سے جاتی تھی تو یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔ (بخاری)

【7】

اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے

حضرت حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ ﷺ نے عنایت فرما دیا میں نے پھر دوبارہ مانگا تو آپ ﷺ نے اس وقت بھی عطا کیا اور پھر مجھ سے فرمایا کہ حکیم ! یہ مال سبز و شیریں ہے (یعنی نظر میں خوشنما اور دل کو لذت دینے والا ہے) لہٰذا جو شخص اس مال کو بےپروائی سے یعنی بغیر ہاتھ پھیلائے اور بغیر طمع و حرص کے حاصل کرتا ہے تو اس میں برکت عطا فرمائی جاتی ہے اور جو شخص اسے نفس کے طمع و حرص کے ساتھ حاصل کرتا ہے تو اس میں برکت نہیں ہوتی اور اس کی حالت اس شخص کی مانند ہوتی ہے جو کھانا تو کھاتا ہے مگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا گویا بےبرکتی اور کثرت حرص کی وجہ سے یہ حال ہوتا ہے اور یاد رکھو کہ اوپر کا ہاتھ یعنی دوسروں کو دینے والا نیچے کے ہاتھ یعنی دوسروں سے مانگنے والے سے بہتر ہوتا ہے حکیم کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اب کسی کے مال میں سے کچھ کم نہیں کروں گا یعنی آج کے بعد آئندہ کبھی بھی کسی سے سوال نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں اس دنیا سے جدا ہوں یعنی موت کی آغوش میں پہنچ جاؤں۔

【8】

اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے

حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس موقع پر جب آپ ﷺ منبر پر تھے اور صدقہ کا ذکر بیان کر رہے تھے اور سوال سے بچنے کے بارے میں خطبہ دے رہے تھے۔ یہ ارشاد فرمایا کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا اور لوگوں کو دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے کا ہاتھ مانگنے والا یعنی سائل کا ہاتھ ہے۔ (بخاری ومسلم)

【9】

سوال نہ کرنے کی فضیلت

حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن انصار میں سے چند لوگوں نے رسول کریم ﷺ سے کچھ مانگا، آپ ﷺ نے انہیں عطا فرما دیا۔ انہوں نے پھر مانگا تو آپ ﷺ نے جب بھی دے دیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہوگیا، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ بھی مال ہوگا میں تم سے بچا کر اس کا ذخیر نہیں کروں گا اور یاد رکھو کہ جو شخص لوگوں سے سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بری باتوں سے بچاتا ہے اور اسے لوگوں کا محتاج نہیں کرتا اس طرح اس کی خود داری کو باقی رکھتا ہے، نیز جو شخص انتہائی معمولی چیز پر بھی قناعت کرتا ہے اور کسی سے سوال نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے قناعت آسان کردیتا ہے اور جو شخص بےپروائی ظاہر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بےپرواہ بنا دیتا ہے یعنی جو شخص دوسروں کے مال و زر سے بےپرواہ ہوتا ہے اور ہاتھ پھیلانے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کردیتا ہے اور جو شخص صبر کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا فرماتا ہے یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے صبر کی توفیق طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے صبر آسان کردیتا ہے اور یاد رکھو کہ صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی دوسری چیز عطا نہیں کی گئی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام عطا و بخشش میں صبر سب سے بہتر عطاء ہے۔ (بخاری ومسلم)

【10】

جو چیز بغیر طمع وحرص کے ملے اسے قبول کرنا چاہئے

حضرت عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ مجھے زکوٰۃ وصول کرنے کی اجرت عطا فرماتے تو میں عرض کرتا کہ یہ اس شخص کو دے دیجئے جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔ آپ ﷺ اس کے جواب میں فرماتے کہ اگر تمہیں حاجت و ضرورت ہو تو اسے لے کر اپنے مال میں شامل کرلو اور اگر حاجت و ضرورت سے زیادہ ہو تو خود اللہ کی راہ میں خیرات کردو نیز یہ بھی فرماتے کہ جو چیز تمہیں بغیر طمع و حرص کے اور بغیر مانگے حاصل ہو اسے قبول کرلو اور جو چیز اس طرح یعنی بغیر طمع و حرص اور بغیر سوال کے ہاتھ نہ لگے تو اس کے پیچھے مت پڑو۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کہ جو چیز بغیر طمع و حرص اور بغیر مانگے حاصل نہ ہو اس کو حاصل کرنے کے لئے طمع نہ کرو اور نہ اس کے لئے منتظر رہو جیسا کہ کہہ دیا جاتا ہے کہ لارد ولا کد۔ ایک دوسری حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز بغیر طمع و حرص کے حاصل ہو اور وہ اسے واپس کر دے تو گویا اس نے اس چیز کو اللہ کو واپس کردیا یعنی اللہ کی ایک نعمت کو ٹھکرا دیا۔

【11】

ایک سبق آموز واقعہ :

ایک سبق آموز واقعہ منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام احمد (رح) بازار گئے اور وہاں سے انہوں نے کچھ سامان خریدا جسے بنان جلال اٹھا کر احمد کے ساتھ ان کے گھر لائے جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں روٹیاں ٹھنڈی ہونے کے لئے کھلی ہوئی رکھی تھیں، حضرت امام نے اپنے صاحبزادے کو حکم دیا کہ ایک روٹی بنان کو دے دیں، صاحبزادے نے جب بنان کو روٹی دی تو انہوں نے انکار کردیا بنان جب گھر سے باہر نکل گئے اور واپس چل دئیے تو امام احمد نے صاحبزادے سے کہا کہ اب ان کے پاس جاؤ اور انہیں روٹی دے دو صاحبزادے نے باہر جا کر بنان کو روٹی دی تو انہوں نے فورا قبول کرلیا۔ انہیں بڑا تعجب ہوا کہ پہلے تو روٹی لینے سے صاف انکار کردیا اور اب فورا قبول کرلیا آخر یہ ماجرا کیا ہے ! انہوں نے حضرت امام احمد سے اس کا سبب پوچھا تو امام صاحب نے فرمایا کہ بنان جب گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے کھانے کی ایک عمدہ چیز دیکھی بتقاضائے طبیعت بشری انہیں اس کی خواہش ہوئی اور دل میں اس کی طمع پیدا ہوگئی اس لئے جب تم نے انہیں روٹی دی تو انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنی طمع و خواہش کے تابع بن جائیں انہوں نے روٹی لینے سے انکار کردیا مگر جب وہ باہر چلے گئے اور روٹی سے قطع نظر کر کے اپنا راستہ پکڑا اور پھر تم نے جا کر وہ روٹی دی تو اب چونکہ وہ روٹی انہیں بغیر طمع و خواہش اور غیر متوقع طریق پر حاصل ہو رہی تھی اس لئے انہوں نے اسے اللہ کی نعمت سمجھ کر فورا قبول کرلیا۔

【12】

ایک سبق آموز واقعہ :

حضرت سمرہ بن جندب (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سوال کرنا ایک زخم ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا منہ زخمی کرتا ہے بایں طور کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اپنی عزت و آبرو کو خاک میں ملاتا ہے کہ یہ اپنے منہ کو زخمی کرنے ہی کے مترادف ہے لہٰذا جو شخص اپنی عزت و آبرو باقی رکھنا چاہے کہ وہ سوال سے شرم کرے اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلا کر اپنی عزت و آبرو کو باقی رکھے اور کوئی شخص اپنی آبرو کو باقی رکھنا ہی نہیں چاہتا تو وہ لوگوں کے ہاتھ پھیلا کر اپنی عزت خاک میں ملا لے یعنی اسے باقی نہ رکھے یہ گویا سوال کرنے والے کے لئے تہدید اور تنبیہ ہے کہ کسی سے سوال نہ کرنا چاہئے۔ ہاں اگر سوال ہی کرنا ہے تو پھر حاکم سے سوال کرے یا ایسی صورت میں سوال کرے کہ اس کے لئے کوئی واقعی ضرورت اور مجبوری ہو۔ ( ابوداؤد، نسائی، ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر تم سوال ہی کرو تو کم سے کم ایسے شخص سے تو کرو جس پر تمہارا حق بھی ہے اور وہ حاکم یا بادشاہ ہے کہ جس کے تصرف میں بیت المال اور خزانہ ہو تم ان سے اپنا حق مانگو، اگر تم مستحق ہوگے وہ تمہیں بیت المال سے دیں گے۔ عطاء سلطانی کو قبول کرنے کا مسئلہ علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا عطاء سلطانی بادشاہ و حاکم کا عطیہ قبول کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ چناچہ اس بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ اگر بیت المال اور خزانے میں حرام مال زیادہ ہو تو اس میں سے کچھ مانگنا یا اس سے عطیہ سلطانی قبول کرنا حرام ہے اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو پھر حلال ہے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی واقعی مجبوری اور ضرورت ہو کہ کسی سے مانگے بغیر چارہ کار نہ ہو مثلا کسی کا ضامن بن گیا ہو، طوفان و سیلاب کی وجہ سے کھیتی باڑی تباہ ہوگئی ہو یا کسی حادثے و مصیبت کی وجہ سے نوبت فاقوں تک پہنچ گئی تو ایسی صورتوں میں سوال کرنے کی اجازت ہے بلکہ اگر کوئی شخص حالت اضطراری کو پہنچ گیا ہو خواہ وہ اضطراری حالت کپڑے کی طرف سے ہو کہ ستر چھپانے کو کپڑا نہ ہو یا کھانے کی طرف سے ہو کہ شدت بھوک سے جان نکلی جاتی ہو تو پھر ایسی صورت میں کسی سے مانگ کر اپنی اضطراری حالت کو دور کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ اسی طرح اس شخص کے لئے بھی سوال کرنا واجب ہوتا ہے جو حج کی استطاعت رکھتا تھا مگر حج نہیں کیا یہاں تک کہ مفلس ہوگیا تو اب اسے چاہئے کہ وہ لوگوں سے سفر خرچ مانگ کر حج کے لئے جائے

【13】

مستغنی سائل کے لئے وعید

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص لوگوں سے ایسی چیز کی موجود گی میں سوال کرے جو اسے مستغنی بنا دینے والی ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کے منہ پر اس کا سوال بصورت خموش یا کدوش یا کدوح ہوگا۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! مستغنی بنانے والی کیا چیز ہوتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا پچاس درہم یا اس قیمت کا سونا۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح خموش جمع ہے خمش کی، خدوش جمع ہے خدش کی اور کدوح جمع ہے کدح کی۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ تمام الفاظ قریب المعنی ہیں بایں طور کہ ان سب کے معنی کا حاصل زخم ہے گویا حدیث میں لفظ اور اوی کا شک ظاہر کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان تینوں میں سے کوئی ایک لفظ ارشاد فرمایا ہے۔ لیکن دوسرے بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ تینوں الفاظ متبائن ہیں یعنی ان تینوں کے الگ الگ معنی ہیں خموش کے معنی ہیں لکڑی کے ذریعے کھال چھیلنا، خمش کے معنی ہیں ناخن کے ذریعے کھال چھیلنا اور کدح کے معنی ہیں دانتوں کے ذریعے کھال اتارنا، گویا اس طرح قیامت کے روز سائلین کے تفاوت احوال کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کم سوال کرے گا اس کے منہ پر ہلکا زخم ہوگا، جو شخص بہت زیادہ سوال کرے گا اس کے منہ پر بہت گہرا زخم ہوگا جو شخص سوال کرنے میں درمیانہ درجہ اختیار کرے گا اس کے منہ پر زخم بھی درمیانی درجے کا ہوگا۔

【14】

مستغنی سائل کے لئے وعید

حضرت سہل بن حنظلیہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کے پاس اتنا مال ہو جو اس کو مستغنی کر دے مگر وہ اس کے باوجود لوگوں سے سوال کرتا ہے تو گویا وہ زیادہ آگ مانگتا ہے یعنی جو شخص بغیر ضرورت و حاجت کے لوگوں سے مانگ مانگ کر مال و زر جمع کرتا ہے تو وہ گویا دوزخ کی آگ جمع کرتا ہے۔ نفیلی (رح) جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں ایک اور جگہ یعنی ایک دوسری روایت میں نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ مستغنی ہونے کی کیا حد ہے کہ اس کی موجودگی میں دوسرے لوگوں سے مانگنا ممنوع ہے آپ ﷺ نے فرمایا صبح اور شام کے بقدر۔ نفیلی نے ایک اور جگہ آنحضرت ﷺ کا جواب اس طرح نقل کیا ہے کہ اس کے پاس ایک دن یا ایک رات و ایک دن کے بقدر خوراک ہو راوی کو شک ہو رہا ہے کہ آپ ﷺ نے صرف ایک دن فرمایا یا ایک رات و ایک دن فرمایا ہے۔ (ابو داؤد) تشریح صبح اور شام کے کھانے کے بقدر، مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اتنی مقدار میں غذائی ضروریات موجود ہوں کہ وہ دن و رات اپنا پیٹ بھر سکے تو وہ غنی کہلائے گا یعنی اس کے لئے اب جائز نہیں ہوگا کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے۔ ابھی اس سے پہلے حضرت ابن مسعود (رض) کی جو روایت گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ مال کی تعداد کہ جس کی وجہ سے آدمی مستغنی ہوجائے اور کسی سے سوال نہ کرے، پچاس درہم ہے یعنی جو شخص پچاس درہم کا مالک ہوگا اس کے لئے کسی سوال کرنا حرام ہوگا یہاں جو یہ روایت نقل کی گئی ہے اس میں یہ مقدار صبح و شام کے کھانے بقدر بیان کی گئی ہے اور اس کے بعد حضرت عطاء بن یسار کی جو روایت آرہی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کا مالک ہو وہ مستغنی کہلائے گا اس کے لئے کسی سے سوال کرنا مطلقاً جائز نہیں ہوگا۔ گویا یہ تین روایتیں ہیں جن میں باہم اختلاف ہے لہٰذا حضرت امام احمد، ابن مبارک اور اسحاق رحمہم اللہ کا عمل تو پہلی روایت پر ہے جو ابن مسعود (رض) سے منقول ہے، بعض علماء نے تیسری روایت کو معمول بہا قرار دیا ہے۔ جو عطاء بن یسار (رض) سے منقول ہے اور حضرت اماما عظم ابوحنیفہ نے دوسری روایت کو اپنے مسلک کی بنیاد وقرار دیا ہے جو سہیل بن حنظلہ (رض) سے منقول ہے لہٰذا حضرت امام اعظم کا یہی مسلک ہے کہ جو شخص ایک دن کی غذائی ضروریات کا مالک ہوگا وہ مستغنی کہلائے گا اور اس کے لئے کسی سے سوال کرنا حرام ہوگا، گویا حضرت امام صاحب کے نزدیک یہ حدیث دوسری احادیث کے لئے ناسخ ہے۔ واللہ اعلم۔

【15】

مستغنی سائل کے لئے وعید

حضرت عطاء بن یسار (رض) قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص سے نقل کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے جو شخص ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کا یا اس کی قیمت کے بقدر سونا وغیرہ کا مالک ہو اور اس کے باوجود وہ لوگوں سے تو مانگے تو اس نے گویا بطریق الحاح سوال کیا۔ (مالک، ابوداؤد، نسائی) تشریح بطریق الحاح کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اضطراری کیفیت کے علاوہ اور بلا ضرورت انتہائی مبالغہ کے ساتھ لوگوں سے مانگا جو ممنوع اور برا ہے، چناچہ قرآن کریم میں فقراء کی بایں طور تعریف کی گئی ہے کہ آیت (ولا یسألون الناس الحافا) ۔ وہ لوگوں سے بطریق الحاح نہیں مانگتے۔

【16】

کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا انتہائی محتاجگی کے وقت جائز ہے۔

حضرت حبشی بن جنادہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہ تو غنی کے لئے یعنی اس شخص کے لئے جو ایک دن کی خوراک کا مالک ہو اور نہ تندرست و توانا اور صحیح الاعضاء کے لئے مانگنا حلال ہے ہاں اس فقیر کے لئے مانگنا حلال ہے جسے فقر و فاقہ نے زمین پر ڈال دیا ہو اسی طرح اس قرض دار کے لئے بھی مانگنا حلال ہے جو بھاری قرض کے نیچے دبا ہو یاد رکھو جو شخص صرف اس لئے لوگوں سے مانگے کہ اپنے مال و زر میں زیادتی ہو تو قیامت کے دن اس کا مانگنا اس کے منہ پر زخم کی صورت میں ہوگا۔ نیز دوزخ میں اسے گرم پتھر اپنی خوراک بنائے گا اب چاہے کوئی کم سوال کرے چاہے کوئی زیادہ سوال کرے۔ (ترمذی) تشریح زمین پر ڈال دیا ہو، یہ کنایہ ہے شدت محتاجگی اور مفلسی نے زمین پر ڈال رکھا ہے کہ اٹھنے کی بھی سکت نہیں رکھتا۔ گویا مطلب یہ ہے کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا صرف انتہائی محتاجگی ہی کے وقت جائز ہے حدیث کا آخری جملہ بطور تنبیہ و تہدید کے ارشاد فرمایا گیا ہے جیسا کہ کافروں، ظالموں اور اللہ کے باغیوں کے بارے میں بطور تہدید قرآن کریم کی یہ آیت ہے کہ آیت (فَمَنْ شَا ءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَا ءَ فَلْيَكْفُرْ اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ نَارًا) 18 ۔ الکہف 29) ۔ جو چاہے مومن ہوجائے اور جو چاہے کافر ہوجائے۔ ہم نے تو ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے۔

【17】

کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا انتہائی محتاجگی کے وقت جائز ہے۔

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن انصار میں سے ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کسی چیز کا سوال کیا۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ کیا تمہارے گھر میں کچھ بھی نہیں ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ صرف ایک موٹی سی کملی ہے جس میں سے کچھ حصہ اوڑھتا ہوں اور کچھ حصہ بچھا لیتا ہوں اس کے علاوہ ایک پیالہ بھی ہے جس میں پانی پیتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا ان دونوں چیزوں کو لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوا، آنحضرت ﷺ نے دونوں چیزیں اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ ان چیزوں کو کون خریدتا ہے ایک شخص نے کہا کہ میں ان دونوں چیزوں کو ایک درہم میں خریدنے کے لئے تیار ہوں ! آپ ﷺ نے فرمایا ان چیزوں کو ایک درہم سے زیادہ میں کون خریدنے والا ہے ؟ آپ ﷺ نے یہ دو یا تین بار فرمایا ایک شخص نے کہا کہ میں ان چیزوں کو دو درہم میں خریدتا ہوں آپ ﷺ نے وہ دونوں چیزیں اس شخص کو دے دیں اور اس سے دو درہم لے کر انصاری کو دئیے اور اس سے فرمایا کہ اس میں سے ایک درہم کا کھانے کا سامان خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آؤ وہ شخص کلہاڑی خرید کر آپ ﷺ کے پاس لایا آپ ﷺ نے اس کلہاڑی میں اپنے دس مبارک سے ایک مضبوط لکڑی لگا دی اور پھر اس سے فرمایا کہ اسے لے کر جاؤ لکڑیاں کاٹ کر جمع کرو اور انہیں فروخت کرو، اب اس کے بعد میں تمہیں پندرہ دن تک یہاں نہ دیکھوں یعنی اب یہاں نہ رہو جا کر اپنے کام میں مشغول ہوجاؤ اور محنت کرو چناچہ وہ شخص چلا گیا اور لکڑیاں جمع کر کر کے فروخت کرنے لگا کچھ دنوں کے بعد جب وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں آیا تو کہاں وہ پہلے آپ ﷺ سے مانگنے آیا تھا درہم اب وہ دس درہم کا مالک تھا، اس نے ان درہموں میں سے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ خرید لیا، آنحضرت ﷺ نے اس کی حالت کی اس تبدیلی کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ صورتحال تمہارے لئے بہتر ہے بہ نسبت اس چیز کے کہ کل قیامت کے دن تم اس حالت میں آؤ کہ تمہارے سوال تمہارے منہ پر برے نشان یعنی زخم کی صورت میں ہو اور یہ یاد رکھو کہ صرف تین طرح کے لوگوں کو سوال کرنا مناسب ہے ایک تو اس محتاج کے لئے کہ جس کو مفلسی نے زمین پر گرا دیا ہو دوسرے اس قرض دار کے لئے جو بھاری اور عدم ادائیگی کی صورت میں ذلیل کرنے والے قرض کے بوجھ سے دبا ہو اور تیسرے صاحب خون کے لئے جو درد پہنچائے یعنی اس شخص کے لئے جس پر دیت واجب ہو خواہ اس نے خود کسی ناحق خون کیا ہو اور اس کا خون بہا اس کے ذمہ ہو یا کسی دوسرے شخص نے کوئی خون کردیا ہو اور اس کی دیت اس نے اپنے ذمہ لی ہو مگر اس کی ادائیگی کی قدرت نہ رکھتا ہو تو اس کے لئے بھی جائز ہے کہ اس خون بہا کے بقدر کسی سے مانگ کر ادائیگی کر دے۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ نے اس روایت کو یوم القیامۃ تک نقل کیا ہے۔

【18】

صرف اللہ سے اپنی حاجت بیان کرنی چاہئے

حضرت ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص فاقہ یعنی سخت حاجت سے دوچار ہو اور اس کو لوگوں کے سامنے بطور شکایت بیان کر کے ان سے حاجت روائی کی خواہش کرے تو اس کی حاجت پوری نہیں کی جائے گی اور جس شخص نے صرف اللہ سے اپنی حاجت کو بیان کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ اور اطمینان عطا فرمائے گا بایں طور کہ اسے جلد ہی یا تو موت سے ہمکنا کر دے تاکہ وہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے نجات پا کر رحمت الٰہی سے ہمکنار ہو یا اسے کچھ دنوں میں مالدار بنا دے گا تاکہ وہ اپنی حاجت پوری کر کے اطمینان محسوس کرے۔ (ابو داؤد، ترمذی) تشریح حدیث کے آخری جملے اوغنی اٰجل میں لفظ اٰجل مصابیح کے اکثر نسخوں اور جامع الاصول میں عین سے یعنی عاجل مرقوم ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ و اطمینان عطا فرمائے گا بایں طور کہ اسے جلد ہی دولت مند و مالدار بنا دے گا۔ مگر خود جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ و اطمینان عطا فرمائے بایں طور کہ اسے جلد ہی دولت مند و مالدار بنا دے گا مگر خود سنن ابوداؤد اور ترمذی میں کہ جہاں سے یہ روایت نقل کی گئی ہے یہ لفظ اٰجل ہے ہے اور صحیح بھی یہی ہے چناچہ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ حدیث قرآن کریم کی اس آیت کریم کی روشنی میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ۔ آیت (وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّه مَخْرَجًا۔ وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُه) 65 ۔ الطلاق 3-2) ۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے نکلنے کی جگہ پیدا فرما دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے کہ جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوتا ہے۔

【19】

اگر ضرورت ہی ہو تو نیک بختوں سے سولا کرو

حضرت ابن فراسی (رح) کہتے ہیں کہ میرے والد مکرم حضرت فراسی (رض) نے کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا میں لوگوں سے مانگ سکتا ہوں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہر حالت میں خد اہی پر بھروسہ رکھو ہاں اگر کسی شدید ضرورت اور سخت حاجت کی وجہ سے مانگنا ضروری ہے تو پھر نیک بختوں سے مانگو۔ ( ابوداؤد، نسائی) تشریح ضرورت و حاجت کے وقت نیک بختوں سے مانگنے کے لئے اس لئے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے پاس حلال مال ہوتا ہے وہ بردبار اور مہربان ہوتے ہیں مانگنے والوں کی پردہ دری نہیں کرتے اور ان کے ناموں کو اچھالتے نہیں یہی وجہ ہے کہ بغداد کے فقراء و مساکین اپنی ضرورت و احتیاج کے وقت حضرت امام احمد بن حنبل ہی کے دروازے پر جاتے تھے اور ان سے اپنی ضرورت و حاجت بیان کرتے تھے۔ حضرت امام موصوف (رح) کے تقویٰ و احتیاط کا کیا عالم تھا ؟ اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے گھر والوں کو خمیر کی ضرورت ہوئی جسے انہوں نے حضرت امام احمد کے صاحبزادے ہی کے گھر سے منگوا لیا، حضرت امام احمد کے صاحبزادے قاضی کے عہدہ پر فائز تھے اور ان کی سعادت و بھلائی کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے گھر کے دروازے ہی کے پاس سوتے تھے تاکہ کوئی محتاج و ضرورت مند واپس نہ ہوجائے بہرحال امام احمد کے گھر والوں نے اس خمیر سے روٹی پکائی اور جب حضرت امام موصوف کے سامنے کھانا آیا تو انہیں بذریعہ کشف روٹی کے بارے میں کوئی شبہ گزرا انہوں نے گھر والوں سے پوچھا تو انہوں نے صورتحال بتائی، حضرت امام موصوف نے کھانا کھانے سے انکار کردیا ان کی وجہ سے گھر والوں نے بھی نہیں کھایا اور پوچھا کہ یہ کھانا فقراء کو دے دیا جائے، انہوں نے فرمایا کہ دے دو مگر اس شرط کے ساتھ کہ انہیں بھی صورتحال سے مطلع کردینا چناچہ فقراء نے بھی اسے لینے سے انکار کردیا آخرکار گھر والوں نے پورے گھر کا کھانا امام موصوف کی اجازت کے بغیر ہی دریا میں ڈال دیا۔

【20】

کام کی اجرت بیت المال سے لینی جائز ہے

حضرت ابن ساعدی کہتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) نے مجھے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا چناچہ جب میں زکوٰۃ کی وصولی سے فارغ ہوگیا اور زکوٰۃ کا مال حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پہنچا دیا تو انہوں نے مجھے زکوٰۃ وصول کرنے کی اجرت دئیے جانے کا حکم فرمایا میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کیا ہے لہٰذا میرے لئے اس کا ثواب بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ذمہ ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا جو چیز تمہیں مل رہی ہے اسے قبول کرلو، کیونکہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں جب میں نے زکوٰۃ وصول کرنے کا کام کیا اور آنحضرت ﷺ نے مجھے اس کی اجرت عطا فرمانی چاہی تو میں نے بھی یہی عرض کیا جو اب تم کہہ رہے ہو، چناچہ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب تمہیں کوئی چیز بغیر طلب اور بغیر طمع دی جائے تو تم اسے لے کر کھاؤ اور جو کچھ تمہاری ضرورت و حاجت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں خیرات کردو۔ ( ابوداؤد ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے کسی بھی کام اور کسی بھی خدمت کی اجرت بیت المال سے لینی جائز ہے خواہ وہ خدمت فرض ہی کیوں نہ ہو جیسے قضاء احتساب اور درس و تدریس وغیر بلکہ امام وقت کے لئے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ ایسے لوگوں کی بلکہ ان لوگوں کو بھی جو بیت المال کے معاملے میں ان ہی کے حکم میں شامل ہیں خبر گیری رکھے۔ یہ حدیث اور وہ حدیث جو اسی کے مثل حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اس کے سوال اور اس کی طمع کے بغیر کوئی چیز دے تو اس کو قبول کرنا واجب ہے چناچہ حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے لیکن جمہور علماء اس امر کو استحباب یا اباحت پر محمول کرتے ہیں۔

【21】

کن مقامات پر سوال کرنا مناسب ہے

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عرفہ کے دن ایک شخص کو لوگوں سے مانگتے دیکھا تو اس سے فرمایا کہ بدنصیب آج کے روز اس جگہ پر تو اللہ کے علاوہ دوسروں سے مانگ رہا ہے پھر انہوں نے اس شخص کو درہ سے مارا۔ (رزین) تشریح حضرت علی (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ یہ تیری کتنی حرماں نصیبی اور بدبختی ہے کہ آج کے دن کہ جو قبولیت دعا کا دن ہے اور جگہ یعنی میدان عرفات میں کہ جو مقدس و بابرکت جگہ ہے تو اللہ سے صرف نظر کر کے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا پھر رہا ہے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ مقدس و بابرکت مقامات مثلاً مساجد وغیرہ میں لوگوں سے مانگنا نامناسب بات ہے۔

【22】

طمع افلاس اور محتاجگی ہے

حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو ! جان لو کہ طمع محتاجگی ہے اور آدمیوں سے ناامید ہونا تونگری و بےپروائی ہے، انسان جب کسی چیز سے مایوس ہوجاتا ہے تو اس سے بےپرواہ ہوجاتا ہے۔ (رزین) تشریح طمع محتاجگی ہے کا مطلب یہ ہے کہ طمع محتاجگی کی ایک صورت ہے یا یہ مطلب ہے کہ طمع محتاجگی کا ذریعہ ہے یعنی طمع کی وجہ سے انسان محتاج بنتا ہے بایں طور کہ اپنی طمع پوری کرنے کے لئے دوسرے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ ناامید ہونا تونگری و بےپروائی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے نا امیدی مستغنی اور بےپرواہ بنا دیتی ہے حضرت ابوالحسن شاذلی (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے کسی نے علم کیمیا جو صرف دو لفظوں میں منحصر ہو طلب کیا تو انہوں نے اس سے فرمایا کہ مخلوق اللہ سے صرف نظر کرو یعنی کسی انسان سے امیدیں قائم نہ کرو اور اللہ سے اس چیز کے بارے میں اپنی طمع منقطع کرلو جو تمہاری قسمت میں لکھی ہوئی چیزوں کے علاوہ ہے یعنی اللہ نے جو چیزیں تمہارے مقدر میں لکھ دی ہیں اس کے علاوہ دوسری چیزوں کی امید نہ رکھو۔ طمع کے معنی ہیں اس چیز پر نظر رکھنا یعنی اسے حاصل کرنے کی خواہش کرنا کہ جس کے حاصل ہونے میں شک ہو یعنی کسی چیز کے بارے میں یہ خیال ہو کہ اس کا مالک دے گا یا نہیں ہاں اگر کسی ایسی چیز کی کسی ایسے شخص سے حصول کی خواہش ہو جس پر اس کا ہو اس شخص سے کمال تعلق اور محبت و مروت کی بنا پر یقین ہو کہ وہ چیز مل جائے گی تو اسے طمع نہیں کہیں گے۔

【23】

سوال نہ کرنے والے کے لئے آنحضرت ﷺ کی بشات

حضرت ثوبان (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص میرے ساتھ اس بات کا عہد کرے کہ وہ لوگوں کے آگے دست سوال دراز نہیں کرے گا تو میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں (ثوبان کہتے ہیں کہ) میں کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا چناچہ ثوبان (رض) کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے خواہ وہ کتنی ہی تنگیوں میں کیوں نہ مبتلا رہے ہو۔ ( ابوداؤد، نسائی) تشریح آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ میں اس شخص کے لئے اس بات کی ضمانت لوں گا کہ وہ بغیر کسی عذاب کے ابتداء ہی میں جنت میں داخل کیا جائے گا گویا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کسی کے اگے دست سوال دراز نہ کرنے والا انشاء اللہ خاتمہ بالخیر کی سعادت سے نوازا جائے گا۔ لیکن اتنی بات ضرور سمجھ لیجئے کہ اس بارے میں وہ صورت مستثنی ہے جب کہ موت کا خوف ہو کیونکہ انتہائی شدید ضرورت ممنوع چیزوں کو بھی مباح کردیتی ہے لہٰذا اگر کوئی شخص ایسی پوزیشن میں ہو کہ اگر کسی سے کچھ نہ مانگے تو جان کے لا لے پڑجائیں تو اس کے لئے مانگنا اور اپنا جان کو بچاہی ضروری ہوگا بلکہ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص سخت بھوک میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے کچھ مانگ کر نہ کھائے اور اسی حالت میں وہ مرجائے تو گنہگار مرے گا۔

【24】

سوال نہ کرنے کا حکم

حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے بلایا اور اس بات کا اقرار کرایا کہ کبھی بھی کسی سے کوئی چیز نہیں مانگو گے چناچہ میں نے اس بات کا اقرار کیا پھر آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ اگر تمہارا کوڑا بھی گرجائے تو کسی سے نہ مانگو یعنی کسی سے اٹھانے کے لئے بھی نہ کہو بلکہ تم خود سواری سے اتر کر اٹھا لو۔ (احمد) تشریح آنحضرت ﷺ کا آخری ارشاد ترک سوال کے بارے میں بطور مبالغہ ہے کیونکہ اگر کسی کا کوڑا گرجائے اور وہ اسے اٹھانے کے لئے کسی سے کہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے بلکہ حقیقت میں تو وہ اسی کی چیز ہے جسے وہ صرف اٹھا کردینے کے لئے کہہ رہا ہے لیکن چونکہ اس میں بھی ایک طرح کا سوال ہوتا ہے اس لئے آپ ﷺ نے بطور مبالغہ اس سے بھی منع فرمایا۔