4. پاکی کا بیان

【1】

پاکیزگی کا بیان

لغت میں طہارۃ کے معنی نظافت اور پاکی کے آتے ہیں جو نجاست کی ضد ہے طہور بضم طاء مصدر ہے اور ان چیزوں کو بھی طہور فرماتے ہیں جو پاک کرتی ہیں جیسے پانی اور مٹی طہور، لفتح طاء بھی مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اصطلاح شریعت میں طہارت کا مفہوم ہے نجاست حکمی یعنی حدث سے اور نجاست یعنی خبث سے پاکیزگی حاصل کرنا۔

【2】

پاکیزگی کا بیان

حضرت ابی مالک شعری (رض) ( آپ کے نام میں اختلاف ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کا نام کعب بن مالک (رض) ہے اور بعض کعب بن عاصم (رض) فرماتے ہیں، عبیدہ، حارث اور عمرو بھی بیان کئے جاتے ہیں، کنیت ابومالک ہے، مشہور صحابی ہیں۔ حضرت عمر فاروق اللہ (رض) کے زمانہ خلافت میں آپ کا انتقال ہوا ہے) ۔ راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا پاک رہنا آدھا ایمان ہے اور الحمد اللہ کہنا (اعمال کی) ترازو کو بھر دیتا ہے اور سبحان اللہ والحمد اللہ بھر دیتے ہیں یا فرمایا ایک کلمہ بھر دیتا ہے اس چیز کو جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے نماز نور ہے صدقہ دلیل ہے، صبر کرنا روشنی ہے اور قرآن تمہارے لئے یا تمہارے اوپر دلیل ہے ہر آدمی (جب) صبح کرتا ہے (یعنی سو کر اٹھتا ہے) تو اپنی جان کو اپنے کاموں میں بیچتا ہے (یعنی لگاتا) ہے لہٰذا وہ اپنی جان کو آزاد کرتا ہے یا ہلاک کرتا ہے۔ (مسلم اور ایک روایت میں ہے کہ لا الہٰ الا اللہ اکبر بھر دیتے ہیں اس چیز کو جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ (صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ) میں نے اس روایت کو نہ صحیح البخاری میں پایا ہے نہ مسلم میں اور نہ ہی کتاب حمیدی و کتاب جامع الاصول میں مجھے یہ روایت ملی ہے البتہ دارمی نے اس روایت کو بجائے سبحان اللہ والحمد اللہ کے ذکر کیا ہے۔ (لہٰذا صاحب مصابیح کا اس روایت کو فصل اول میں نقل کرنا درست نہیں ہوا) ۔ تشریح اس حدیث میں پاکیزگی و طہارت کی انتہائی عظمت و فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلام میں طہارت کو کیا مقام حاصل ہے چناچہ فرمایا جا رہا ہے کہ پاک رہنا آدھا ایمان ہے اور وجہ ظاہر ہے کہ ایمان سے چھوٹے اور بڑے سب ہی گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور وضو سے صرف چھوٹے گناہ ہی بخشے جاتے ہیں اس لئے طہارت کو آدھے ایمان کا درجہ حاصل ہے۔ درمیان روایت میں راوی کو شک ہو رہا ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے لفظ تملاء مفرد فرمایا تملان تثنیہ کے ساتھ فرمایا ہے اس لئے انہوں نے دونوں کو نقل کردیا ہے، اس جملہ کا مطلب ہے کہ سحان اللہ والحمد اللہ پڑھنا اور ان کا ورد رکھنا اتنی فضیلت کی بات ہے اور اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر ان دونوں کلموں کو ایک جسم فرض کرلیا جائے تو اتنے عظیم ہیں کہ آسمان اور زمین کے درمیانی حصہ کو بھر دیں۔ نماز کو نور فرمایا گیا ہے اس لئے کہ نماز ہی وہ چیز ہے جو قبر کے اندھیرے اور قیامت کی ظلمت میں روشنی کی مانند ہے جو مومن کو گناہوں اور بری باتوں سے بچاتی ہے اور نیکی و بھلائی اور ثواب کے کاموں کی طرف راہنمائی کرتی ہے یا پھر نماز کو نور اس لئے کہا گیا ہے کہ مومن کے قلب کو ذات الٰہی کے عرفان کی روشنی سے منور کرتی ہے اور عبادت الٰہی کی ادائیگی و اطاعت الہٰی کی بنا پر نماز پڑھنے والے کے چہرہ پر سعادت و نیک بختی کی چمک پیدا کرتی ہے۔ صدقہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو دلیل اس لئے کہا گیا ہے کہ مومن کے دعویٰ ایمان کی صداقت اور پروردگار عالم سے محبت پر دلالت کرتا ہے یا یہ معنی کہ جب قیامت میں مالدار سے اللہ سوال کرے گا کہ ہم نے تمہیں مال و دولت میں اتنی وسعت بخشی تھی تو تم نے اس مال و دولت کو کہاں خرچ کیا ؟ اور اس کا مصرف کیا تھا ؟ یعنی تم نے ہماری بخشی ہوئی اس نعمت کو اچھی راہ میں خرچ کیا یا برے راستہ میں لٹا دیا ؟ تو اس کے جواب میں صدقہ بطور دلیل پیش ہوگا کہ رب قدّوس تیرا دیا ہوا مال برے راستہ میں نہیں لٹایا گیا ہے بلکہ اسے تیری ہی راہ میں اور تیری ہی خوشنودی کے لئے خرچ کیا گیا ہے صبر اس کو فرماتے ہیں کہ گناہوں سے بچا جائے، طاعات پر مستعد رہا جائے اور کسی مصیبت و تکلیف کے موقعہ پر آہ بکا اور جزع و فزع نہ کیا جائے چناچہ اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ کامل روشنی کا سبب ہے اس لئے کے صابر کا قلب و دماغ ایمانی عزم و یقین کی روشنی سے ہمیشہ منور رہتا ہے اور وہ دین و دنیا کے ہر مرحلہ پر کامیاب ہوتا ہے۔ قرآن کے متعلق ارشاد ہے کہ یہ تمہارے لئے یا تمہارے او پر دلیل ہے یعنی تم قرآن پڑھو گے اور اس پر اگر عمل کرو گے تو قرآن تمہیں نفع بخشے گا اور اگر عمل نہ کرو گے تو تمہارے لئے ضرر کا باعث ہوگا۔ جان کو بیچنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جس کام کی طرف آدمی متوجہ ہو اس میں اپنی ذات کو کھپا دے، اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی سو کر اٹھتا ہے تو اپنے کام میں لگ جاتا ہے اور دنیا میں مشغول ہوجاتا ہے لہٰذا اب اس نے اگر اس کام کے بدلے آخرت خرید لی بایں طور کہ اس کام پر آخرت کو ترجیح دی تو اس نے اپنے نفس کو عذاب آخرت سے آزاد کرلیا اور اگر خدانخواستہ اس نے دنیا اور دنیا کے اس کام کو آخرت کے بدلے خرید لیا بایں طور کہ اس کام کو آخرت پر ترجیح دی تو اس نے اپنے آپ کو ہلاک کرلیا اور اپنے نفس کو عذاب میں ڈال دیا بد نیا توانی کہ عقبے خری بخر جان من ورنہ حسرت بری

【3】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو دور کر دے اور جس کے سبب (جنت میں) تمہارے درجات کو بلند کرے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا مشقّت کے وقت (یعنی بیماری یا سخت جاڑے میں) وضو کو پورا کرنا، مسجد کی طرف (گھر سے دور ہونے کی وجہ سے) کثرت سے قدموں کا رکھنا اور (ایک) نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا پس یہ رباط ہے اور مالک بن انس کی حدیث میں پس یہ رباط ہے پس یہ رباط ہے دو مرتبہ ہے اور جامع ترمذی کی روایت میں تین مرتبہ ہے۔ تشریح اس حدیث میں ان چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے رب قدوس اپنے بندوں پر اس طرح فضل و کرم فرماتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور جنت میں ان کے مراتب و درجات میں ترقی عطا فرماتا ہے چناچہ سب سے پہلی چیز وضو ہے۔ یوں تو وضو نماز کے لئے شرط اور ضروری ہے لہٰذا جو نماز پڑھے گا وہ وضو بھی کرے گا خواہ کیسا ہی موسم ہو مگر اس جگہ ایک خاص بات کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی سخت وقت میں مثلاً کسی بیماری کی حالت میں یا شدید سردی کے موسم میں عموماً وضو کے معاملہ میں بڑی تساہلی برتی جاتی ہے اور اول تو زبردستی اور صحت کے منافی طریقوں کو اختیار کر کے دو اور تین وقت وضو کو باقی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر اگر وضو کیا جاتا ہے تو ایسے طریقے سے کہ نہ تو اس میں وضو کے آداب اور اس کے سنن و مستحبات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ وضو پورے طریقہ سے مکمل کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی مواقع کے لئے فرمایا جا رہا ہے کہ ایسے سخت اور شدید وقت میں اگر وضو پورے آداب و طریقے ملحوظ رکھ کے اور تمام سنن و مستحبات کا خیال کر کے کیا جائے اور تمام اعضاء وضو پر پانی اچھی طرح پہنچایا جائے اور ان کو تین تین مرتبہ دھویا جائے تو یہ فضل الٰہی کا سبب ہوگا۔ دوسری چیز مسجد کی طرف کثرت سے قدموں کا رکھنا ہے، یعنی ایسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جانا جو گھر سے دور ہو اس لئے کہ جتنے زیادہ قدم مسجد کی طرف اٹھیں گے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا۔ نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار یہ ہے کہ مسجد میں ایک نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے یا اگر مسجد سے نکلے بھی تو دل وہیں دوسری نماز میں لگا رہے اس کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت بیان فرمائی جا رہی ہے چناچہ اس کو رباط کہا گیا ہے۔ رباط اسے فرماتے ہیں کہ کوئی مسلمان اسلامی مملکت کی سرحد پر دشمنان اسلام کا مقابلہ پر نگہبانی کی خاطر بیٹھے تاکہ دشمن سرحد پار کر کے اسلامی ملک میں داخل نہ ہوجائیں اس کا ثواب ہے اور بڑی فضیلت ہے جو خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم بھی فرمایا ہے آیت (يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا) 3 ۔ آل عمران 200) اے ایمان والو ! (تکلیف پر) خود صبر کرو اور مقابلہ میں صبر کرو اور مقابلہ کے لئے مستعدر ہو۔ چنانچہ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نماز کے انتظار میں بیٹھنا اصل رباط ہے کہ جیسے وہاں تو کفار مقابلہ میں بیٹھے ہیں یہاں شیطان کے مقابلہ میں بیٹھے ہیں جو دین کا سب سے بڑا دشمن ہے اس لئے جیسی فضیلت وسعادت رباط میں ہے ویسی ہی فضیلت وسعادت نماز کے انتظار میں بیٹھنے کی ہے اس حدیث میں چونکہ وضو کا ذکر آگیا ہے اس لئے اس کے متعلقات کا یہاں بیان کردینا مناسب ہے۔ وضو میں چار چیزیں فرض ہیں (١) تمام منہ کا دھونا (٢) ہاتھوں کا کہنیوں تک دھونا (٣) چوتھائی سرکا مسح کرنا (٤) پاؤں کا ٹخنوں تک دھونا وضو میں پورے چہرے کا دھونا فرض ہے اور اسی میں ڈاڑھی بھی شامل ہے، البتہ ڈاڑھی کی تعین میں تھوڑا بہت اختلاف ہے چناچہ متون میں لکھا ہے کہ ڈاڑھی کے ان بالوں کا مسح کرنا جو منہ کی جلد سے ملے ہوئے ہیں فرض ہے فتاویٰ عالمگیری اور در مختار میں صحیح اور مفتی بہ قول یہ لکھا ہے کہ ڈاڑھی کے ان بالوں کا مسح کرنا جو منہ کی جلد سے ملے ہوئے ہیں فرض ہے اور لٹکی ہوئی کا دھونا فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے واللہ تعالیٰ اعلم وضو میں سنت یہ چیزیں ہیں (١) ہاتھوں کا پہنچوں تک دھونا (٢) ابتدائے وضو میں بسم اللہ کہنا (٣) مسواک کرنا (٤) کلی کرنا (٥) ناک میں پانی دینا (٦) ڈاڑھی اور انگلیوں کا خلال کرنا (٧) ہر عضو کو تین بار دھونا (٩) اسی ترتیب سے وضو کرنا جس ترتیب سے قرآن میں مذکور ہے (١٠) تمام سرکا مسح کرنا (١١) اعضاء وضو کو پے در پے دوھونا (١٢) سر کے پانی کے ساتھ ہی کانوں کا مسح کرنا (یعنی ہاتھ پر پانی ڈال کر جب سر پر مسح کیا جائے تو اسی ہاتھ سے کانوں کا مسح کیا جائے، کانوں کے مسح کے لئے الگ سے پانی کی ضرورت نہیں۔ وضو کے مستحبات یہ ہیں (١) اعضاء وضو کو دھونے کے لئے دائیں طرف سے شروع کرنا (مثلاً پہلے دایاں ہاتھ دھویا جائے پھر بایاں) (٢) گردن کا مسح کرنا (٣) وضو کے لئے قبلہ رخ بیٹھنا (٤) اعضاء کا (دھوتے وقت) پہلی بار ملنا (٥) غیر معذور کا وقت سے پہلے وضو کرلینا (٦) ڈھیلی انگوٹھی کو گھمانا پھر انا اسی طرح غسل میں قرظ یعنی بالی کو گھمانا پھر انا، لیکن اس کے بارے میں اتنی بات یاد رکھ لینی چاہئے کہ اگر غسل اور وضو کے وقت ان چیزوں کے متعلق یہ خیال ہو کہ ان کے نیچے بدن پر پانی پہنچ رہا ہے تو پھر یہ عمل مستحب ہوگا اور یہ جانے کے پانی ان کے نیچے نہیں پہنچتا تو پھر ان کو ہلا لینا فرض ہوگا (٧) خود وضو کرنا مستحب ہے کسی دوسرے سے وضو نہ کرایا جائے (٨) وضو کے وقت کوئی دیناوی گفتگو نہ کرنا چاہئے ہاں اگر کوئی مجبوری ہو کہ بغیر کلام و گفتگو کے مقصد اور حاجت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو کرسکتا ہے (٩) ہر عضو کو دھونے کے وقت اور مسح کرتے وقت بسم اللہ پڑھیے (١٠) ان دعاؤں کا پڑھنا جو عضو کے دھونے کے وقت پڑھنے کے لئے مننقول ہیں (١١) وضو مکمل کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود وسلام بھیجنا، مگر کتاب زیلعی میں لکھا ہے کہ ہر عضو کو دھونے کے بعد درود وسلام بھیجنا مستحب ہے (١٢) وضو کے بعد شہادتین اور وہ دعائیں جو حدیث میں وارد ہیں پڑھنا (آگے حدیث میں یہ دعائیں آرہی ہیں) (١٣) وضو کا بقیہ پانی قبلہ رخ کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر پینا (١٤) بھوؤں اور مونچھوں کے نیچے، گوشۂ چشم پر اور پاؤں کے کونچوں پر پانی پہنچانے کے لئے تعاہد یعنی خبر گیری کرنا کہ یہ حصے خشک نہ رہ جائیں۔ مکروہات وضو یہ ہیں (١) منہ پر زور سے پانی مارنا (٢) اسراف کرنا ضرورت اور حاجت سے زیادہ پانی بہانا (٣) اعضاء کو تین تین مرتبہ سے زیادہ دھونا (٤) نئے پانی سے تین مرتبہ مسح کرنا۔ اور منہیات وضو یہ ہیں (١) عورت کے وضو کے بچے ہوئے پانی سے وضو نہ کرنا چاہئے (٢) نجس جگہ وضو نہ کرنا چاہئے تاکہ وضو کے پانی کی بےحرمتی نہ ہو (٣) مسجد میں وضو نہ کرنا چاہئے البتہ کسی برتن میں یا اس جگہ جو وضو کے لئے خاص طور پر مقرر ہے وضو کرنا درست ہے (٤) تھوک اور رینٹھ وغیرہ وضو کے پانی میں نہ ڈالنا چاہئے۔

【4】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت عثمان (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو آدمی وضو کرے اور اچھی طرح کرے (یعنی اس کے سنن و مستحبات کی رعایت کے ساتھ) تو اس کے (صغیرہ) گناہ اس کے بدن سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس حدیث میں بھی وضو کی فضیلت اور طہارت کی بڑائی بیان کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وضو کرنا درحقیقت اپنے گناہوں کو اپنے جسم سے دھونا ہے جو جتنا زیادہ جتنی اچھی طرح وضو کرے گا اس کے اتنے ہی گناہ ختم کر دئیے جائیں گے اور پھر بطور مبالغہ کے فرمایا گیا ہے کہ وضو کرنے والے کے ناخنوں کے نیچے کے گناہ بھی وضو کرنے سے نکل جاتے ہیں یعنی وضو کرنے کے بعد اس کو نہ صرف یہ کہ ظاہری پاکی اور طہارت حاصل ہوتی ہے بلکہ وہ گناہوں سے بھی خوب پاک ہوجاتا ہے، یہ جملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارے یہاں یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ تمہاری شیخی ناک کی راہ نکال دیں گے۔

【5】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کے سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جب کوئی بندہ مسلمان یا فرمایا مومن وضو کا ارادہ کرتا ہے اور اپنے منہ کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا فرمایا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ اس کے وہ تمام گناہ جن کی طرف اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کے منہ سے نکل جاتے ہیں (یعنی جو گناہ آنکھوں سے ہوئے ہیں جھڑ جاتے ہیں) پھر جب دونوں ہاتھوں کو دھوتا ہے تو ہاتھوں کے تمام گناہ جن کو اس کے ہاتھ نے پکڑا تھا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ اس کے ہاتھوں سے خارج ہوجاتے ہیں (یعنی جو گناہ ہاتھ سے ہوئے جھڑ جاتے ہیں) پھر جب وہ دونوں پاؤں کو دھوتا ہے تو اس کے وہ تمام گناہ جن کی طرف وہ پاؤں سے چلا تھا پانی کے ساتھ یا فرمایا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ (صحیح مسلم)

【6】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت عثمان (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو مسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اچھی طرح وضو کرے اور نماز میں خشوع و خضوع کرے تو (اس کی یہ نماز) ان گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے جو اس نے نماز سے پہلے کئے تھے، بشرطیکہ وہ گناہ کبیرہ نہ ہوں اور ایسا ہمیشہ ہوتا رہتا ہے (یعنی وہ نماز جو گناہوں کا کفارہ ہے کسی زمانہ میں مخصوص نہیں ہے یہ فضیلت ہر زمانہ میں قائم رہتی ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح نماز کی اصل روح خشوع اور خضوع ہے اس لئے کہ نماز ہی وہ عبادت ہے جو بندہ کی انتہائی بےچارگی اور اس کے عجز کو ظاہر کرتی ہے لہٰذا نماز کے اندر جتنا زیادہ خشوع و خضوع ہوگا اتنی ہی اعلیٰ درجہ تک رسائی ہوگی نماز میں خشوع کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی نماز پڑھے تو نماز کے جتنے ظاہری و باطنی آداب ہیں سب کو بجا لائے اور سب کی رعایت کرے تاکہ دل ترساں رہے جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو نہایت سکون کے ساتھ رہے نظر سجدہ کی جگہ پر ہو، سوائے نماز کے کسی دوسری چیز میں مشغول نہ ہو اپنا دھیان نماز ہی میں رکھے کسی دوسری طرف دھیان نہ بٹے، بدن کپڑے اور ڈاڑھی وغیرہ سے کھیلے نہیں، دائیں بائیں طرف دیکھے نہیں اور آنکھ نہ بند کرے، یہ تمام چیزیں اگر نماز میں حاصل ہوجائیں تو پھر انشاء اللہ حضور قلب کی دولت بھی میسر آجائے گی جو عند اللہ نماز کی مقبولیت کا سبب ہے۔ حدیث میں صرف رکوع کا ذکر کیا گیا ہے سجدہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ رکوع صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کی نماز میں مشروع ہے یہود و نصاری کی نماز و عبادت میں علی العموم رکوع نہیں ہوتا اس لئے اس کو بیان کر کے اس کی امتیازی حیثیت کو اجاگر کیا گیا ہے، آخر میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے کہ ایسی نماز صرف صغیرہ گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہے اور صغیرہ گناہوں کو ختم کردیتی ہے، کبیرہ گناہوں کا کفارہ نہیں ہوتی۔

【7】

پاکیزگی کا بیان

حضرت عثمان غنی (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ وضو کیا چناچہ انہوں نے پہلے اپنے ہاتھوں میں تین مرتبہ پانی ڈالا پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک جھاڑی (یعنی ناک میں پانی دینے کے بعد ناک سن کی پھر تین مرتبہ منہ دھویا، پھر تین مرتبہ اپنا داہنا ہاتھ کہنی تک دھویا (یعنی کہنی سمیت دھویا) پھر تین مرتبہ اپنا بایاں ہاتھ کہنی تک دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پیر تین مرتبہ دھویا، پھر بایاں پیر تین مرتبہ دھویا اور پھر حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے جس طرح اب میں نے وضو کیا ہے پھر فرمایا جو آدمی میرے اس وضو کی مانند وضو کرے (یعنی فرائض و سنن اور مستحبات و آداب کی رعایت کے ساتھ) پھر دو رکعت نماز پڑھے اور نماز کے اندر اپنے دل سے کچھ باتیں نہ کرے (یعنی پورے دھیان سے نماز پڑے تو اس کے تمام پچھلے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اس روایت کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں۔ تشریح اعضاء وضو کا تین مرتبہ سے زائد دوھونا تمام علماء کے نزدیک مکروہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پورے عضو تین مرتبہ دھو چکا ہے تو اب اس پر زیادتی نہ کرے یعنی تین بار سے زائد نہ دھوے اگر ایسی شکل ہے کہ ایک چلو سے آدھا عضو دھویا اور پھر دوسرے چلو سے آدھا دھویا تو یہ ایک مرتبہ ہی کہلائے گا مثلاً اسی طرح کسی عضو کو چھ چلوں سے دھو کر تین بار کو پورا کیا تو یہ زیادتی نہ ہوگی بلکہ تین مرتبہ ہی ہوگا وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا انتہائی درجہ نہیں ہے بلکہ ادنیٰ درجہ ہے اگر زیادہ بھی پڑھے تو افضل ہے بہر حال یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وضو کے بعد نماز یعنی تحیۃ الوضو پڑھنی مستحب ہے اگر فرض یا سنت مؤ کدہ ہی پڑھے تو یہ بھی کافی ہے۔ آخر حدیث میں اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ نماز میں حضور قلب اور خشوع و خضوع بہت زیادہ مطلوب ہے چناچہ آخری جملہ کا یہ مطلب یہ ہے کہ جب نماز شروع کرے تو پھر اپنے دل کو نماز میں لگائے خیالات نماز سے باہر کہیں دوسری جگہ بھٹکنے نہ پائیں اور قلب میں دنیا کے خیالات او ایسے تفکرات کو جو نماز کے منافی ہیں جگہ نہ دے خیال اللہ ہی کی طرف لگائے رکھے اگر خطرات و وساوس دل میں آئیں تو ان کو دفع کرلے ہاں اگر دل میں ایسے خطرات پیدا ہوتے ہیں جو نماز میں حضور قلب کے منافی نہیں پھر کچھ مضر نہیں۔

【8】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت عقبہ بن عامر (رض) (اسم گرامی عقبہ ابن عامر جنبی ہے کنیت میں بہت زیادہ اختلاف ہے کچھ لوگ فرماتے ہیں کہ ابوحماد تھی بعض نے ابولبید، ابوعمر وغیرہ بھی کہا ہے مصر میں انتقال ہوا ہے) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو مسلمان وضو کرے اور اچھا وضو کرے پھر کھڑا ہو اور دو رکعت نماز پڑھے دل اور منہ سے متوجہ ہو کر (یعنی ظاہر و باطن کے ساتھ متوجہ ہو کر) تو اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح فرمایا گیا ہے کہ جب اچھی طرح وضو کرے تو کھڑا ہو اور دو رکعت نماز پڑھے تو یہ کھڑا ہونا یا حقیقۃً ہو یعنی واقعی کھڑا ہو کر نماز پڑھے یا کھڑا ہونا حکمًا ہو مثلاً بیٹھ کر پڑھے خصوصاً جب اس کو کوئی عذر اور مجبوری ہو کہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا یہ دونوں شکلیں مراد ہیں۔

【9】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت عمر بن الخطاب (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں جو آدمی وضو کرے اور (اس کی خوبیوں) کو انتہاء پر پہنچا دے یا آپ ﷺ نے یہ الفاظ فرمائے کہ اور پورا وضو کرے پھر کہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، (یعنی میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں اور ایک روایت میں ہے (کہ اس طرح کہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ وَحْدَہ، لَا شَرِیْکَ لَہ، وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، یعنی میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور شہادت دیتا ہوں اس بات کی کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں، تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس دروازے میں سے اس کا جی چاہے جنت میں داخل ہو (مسلم، حمیدی، جامع الاصول) اور امام نووی (رح) نے مسلم کی حدیث کے آخر میں جس کو ہم نے روایت کیا ہے کہ ذکر کیا ہے کہ جامع ترمذی نے (شہادتین پر اس دعا کے) یہ الفاظ زیادہ لکھے ہیں اے اللہ ! مجھ کو توبہ کرنے والوں میں سے بنا اور پاکیزگی کرنے والوں میں شامل کر (یعنی مسلم کی روایت جس طرح ہم نے ذکر کی ہے وہی روایت امام نووی (رح) نے مسلم کی شرح میں نقل کی ہے اور اس کے آخر میں رواہ الجامع ترمذی الخ کی عبارت بڑھا دی ہے) اور وہ حدیث جس کو امام محی السنتہ (رح) نے صحاح میں روایت کی ہے یعنی مَنْ تَوَضَّأَ فَاَحْسَنَ الْوُضُوْءَ الخ (جس نے وضو کیا آخر تک) اس کو امام ترمذی نے (رح) اپنی جامع میں بعینہ اسی طرح نقل کیا ہے اَنَّ مُحَمَّدًا سے پہلے اَشْھَدُ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تشریح مراتب اور درجات کے اعتبار سے جنت کے آٹھ حصے ہیں چناچہ اس حدیث میں آٹھوں دروازوں کا جو ذکر کیا گیا ہے ان سے حقیقۃً دروازے مراد نہیں بلکہ ان آٹھ حصوں کو ایک ہی اعتبار کیا ہے اور ہر ایک کو دروازے سے تعبیر کیا ہے کبھی ایک کو بھی بہشت فرماتے ہیں، اس حساب سے ہشت بہشت بولتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی الخ یعنی اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ہمیں تو اس کی توفیق عنایت فرما کہ جب ہم سے کبھی بتقاضائے بشریت کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور ہم سے کوئی لغزش ہوجائے تو ہم اس سے فورًا توبہ کرلیں اور اپنے عیوب سے رجوع کرلیں۔ اس دعا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم سے گناہ زیادہ واقع ہوں بلکہ یہاں یہ مراد ہے کہ جب گناہ سرزد ہوجائے تو ہمارے دلوں میں توبہ کرنے کا داعیہ پیدا کر دے خواہ گناہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں تاکہ اس آیت کے مطابق تیرے پسندیدہ اور محبوب بندوں کی جماعت میں شامل ہو سکیں۔ (اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّ وَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ 222) یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ یعنی اللہ اپنے ان بندوں کو پسند کرتا ہے جو بارگاہ الوہیت سے منہ نہیں پھیرتے اور کسی موقعہ پر اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے دعا کے آخری جملہ اور پاکیزگی کرنے والوں میں شامل کر کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں باطنی پاکیزگی کی دولت سے نواز دے اور ہمارے اندر جتنے برے اخلاق اور بد خصائل ہیں سب سے ہمیں پاک و صاف کر دے چناچہ اس طرف اشارہ ہے کہ جسم اور اعضاء ظاہری کی طہارت و صفائی ہمارے اختیار میں تھی اس کو ہم نے پورا کرلیا، اب باطنی احوال کی طہارت اور اندرونی صفائی تیرے ہاتھوں میں ہے لہٰذا اپنے فضل و کرم سے باطنی پاکیزگی بھی عنایت فرما دے۔ (رباعی) اے درخم چوگان تو دل ہم چو گوے بیروں نہ فرمان تو جاں یک سرموئے اے ! کہ تیرے خم چوگان میں ہمارا دل ایک گیند کی طرح ہے، ہم تیرے فرمان سے ایک موئے بدن بھی باہر نہیں ہیں۔ ظاہر کے بدست ماست شستیم تمام باطن کہ بدست تست آن راہ تو بشوئے ظاہر جو ہمارے قبضہ میں تھا ہم اسے دھو چکے ہیں۔ باطن جو تیرے قبضہ میں ہے اسے تو ہی دھو سکتا ہے۔ آخر میں مشکوٰۃ کے مولف صاحب مصابیح پر ایک اعتراض فرما رہے ہیں، اعتراض یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے جو حدیث فاحسن الوضو ثم قال اشھد ان لا الہ الا اللہ وحد لا شریک لہ واشھد ان محمد عبدہ و رسولہ اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین فتحت لہ ثمانیۃ ابواب الجنۃ یدخل من ایھا شاء کو صحاح میں نقل کیا ہے حالانکہ اس حدیث کو صحاح میں نقل کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں نہیں ہے بلکہ یہ روایت جامع ترمذی کی ہے، لہٰذا یہ روایت صحاح کے بجائے حسان میں نقل کرنی چاہئے تھی، پھر دوسری بات یہ ہے کہ جامع ترمذی نے بھی اپنی روایت میں ان محمدًا سے پہلے اشھد کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے۔ اتنی بات اور جان لینی چاہئے کہ جزری (رح) نے حصن حصین میں ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ اور ابن سنّی کے حوالہ سے شہادتین کے بعد لفظ ثلاث مرات کا ذکر کیا ہے، یعنی شہادتیں تین مرتبہ پڑھنی چاہئے اور سنن نسائی و حاکم کی روایت میں اللھم اجعلنی الخ کے بعد یہ بھی منقول ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ لِہٰذَا اولیٰ اور بہتر ہے کہ جتنی دعائیں منقول ہیں وضو کے بعد سب ملا کر پڑھی جائیں نیز نہانے والے کے لئے بھی یہ دعائیں پڑھنا مستحب ہے۔

【10】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے روز میری امت اس حال میں پکاری جائے گی کہ وضو کے سبب سے ان کی پیشانیاں روشن ہوں گی اور اعضا چمکتے ہوں گے لہٰذا تم میں سے جو آدمی چاہے کہ وہ اپنی پیشانی کی روشنی کو بڑھائے تو اسے چاہئے کہ وہ ایسا ہی کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح غُرَّ جمع ہے اغر کی جس کے معنی ہیں سفید چہرہ اور محجل اس آدمی کو فرماتے ہیں کہ جس کے ہاتھ پاؤں سفید ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز وضو کے اثر یہ تمام اعضاء روشن ہوں گے اور جب محشر میں نمازیوں کو جنت میں جانے کے لئے پکارا جائے گا تو وہ لوگوں کے درمیان سے اس طرح آئیں گے کہ ان کے اعضاء وضو روشن و چمک دار ہوں گے۔ آخر میں فرمایا گیا ہے کہ جس آدمی کی خواہش ہو کہ قیامت کے روز اس کی پیشانی چمکدار اور اس کے اعضاء کی سفید دراز ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس عمل اور فعل کے کرنے میں پوری احتیاط سے کام لے جو اس سعادت کا سبب ہوگا یعنی وضو پوری رعایت سے کرے، چہرہ کو پیشانی کے اوپر سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان سے دوسرے کان تک خوب اچھی طرح دھوئے۔ تحجیل کی درازگی یہ ہے کہ پاؤں کو خوب اچھی طرح اور ٹخنوں کے اوپر تک دھوئے یہاں تحجیل کی درازگی کا ذکر نہیں فرمایا گیا ہے اس لئے کہ یہ دونوں یعنی غر اور محجل آپس میں لازم اور ملزوم ہیں جب ایک کی درازگی کا ذکر فرمادیا تو دوسرا خود بخود مفہوم ہوجائے گا۔

【11】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا (جنت میں) مومن کو زیور (وہاں تک) پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ وضو کا پانی جن اعضاء پر پہنچتا ہے یعنی جو اعضاء وضو میں دھوئے جاتے ہیں جنت میں ان سب اعضاء کی زیورات سے زیب وزینت کی جائے گی، اسی طرح جس کا وضو جتنا زیادہ بہتر اور مکمل یعنی سنت کے مطابق ہوگا جنت میں اس کے اعضاء وضو کی آرائش اتنے ہی اعلیٰ پیمانہ پر ہوگی۔

【12】

پاکیزگی کا بیان

حضرت ثوبان (رض) (اسم گرامی ثوبان ابن بجد ہے کنیت ابوعبداللہ ہے بعض حضرات نے ابوعبدالرحمن بھی لکھی ہے آپ نے حمص میں ٥٤ ھ میں وفات پائی) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا سیدھے رہو اور سیدھے رہنے کی ہرگز طاقت نہ رکھ سکو گے اور جان لو کہ تمہارے اعمال میں بہترین چیز نماز ہے اور وضو کی حفاظت مومن ہی کرتا ہے۔ (مالک، مسند احمد بن حنبل ابن ماجہ، دارمی) تشریح سیدھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اعمال پر مستقیم رہو اور ہمیشہ سیدھی راہ پر چلتے رہو، ادھر ادھر برے راستوں کی طرف میلان نہ کرو اور چونکہ یہ امر مشکل تھا اس لئے آگے فرمایا کہ لن تحصوا یعنی پورے کمال اور رسوخ کے ساتھ تم استقامت اختیار نہیں کرسکتے اور جب یہ فرما دیا گیا کہ استقامت کی طاقت نہیں رکھ سکتے اور اعمال و افعال میں استقامت کے جو حقوق ہیں وہ پوری طرح ادا نہیں ہوسکتے تو آگے ایک نہایت آسان اور سہل راہ کی طرف راہنمائی کردی گئی یعنی عبادت کی جڑ اور خلاصہ نماز پر آگاہ کردیا کہ اگر صرف اسی ایک عمل اور ایک عبادت یعنی نماز میں استقامت اختیار کرلو گے تو تمام تقصیرات کا تدارک ہوجائے گا لہٰذا چاہئے کہ نماز پر مداومت اختیار کرو۔ اس کے جو شرائط و آداب ہوں ان کا خیال رکھو اور اس کے جو حقوق ہیں ان کو پوری طرح سے ادا کرو۔ بعد میں نماز کے مقدمہ اور شرط یعنی وضو اور طہارت کی طرف اشارہ فرما دیا ہے جس کو نصف ایمان کہا گیا ہے چناچہ فرمایا گیا کہ وضو کی محافظت تو مومن کا خاصہ ہے اس لئے کہ وہ مومن کامل کا قلب و دماغ توجہ الیٰ اللہ کی شعاؤں سے ہر وقت منور رہتا ہے وہ اپنے قلب و بدن دونوں کے ساتھ یعنی ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ بارگاہ الوہیت میں حاضری بغیر ظاہر و باطن کی صفائی و پاکیزگی اور بدون طہارت کے اداب کے منافی چیز ہے اور شان عبودیت کے خلاف بھی ہے اس لئے مومن وضو کی محافظت کرتا ہے اور وضو کے جو آداب و شرائط اور سنن و مستحبات ہیں ان سب کی رعایت کرتا ہے۔

【13】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو آدمی وضو کے اوپر وضو کرے تو اس کے واسطے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (جامع ترمذی) تشریح ایک تو مطلقاً وضو کرنے کا ثواب و اجر مقرر ہے وہ تو ملنا ہی ہے لیکن جو آدمی وضو پر وضو کرے تو اس کے واسطے اس مقررہ اجر وثواب کے علاوہ مزید دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اس سلسلہ میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ اجر وثواب اس وقت ملتا ہے جب کے پہلے وضو کے بعد فرض یا نقل نماز پڑھ چکا ہو اور اس کے بعد پھر دوسرا وضو کرے۔ شرح النستۃ میں منقول ہے کہ تجدید و ضو اس وقت مستحب ہے جب کہ پہلے وضو سے کوئی نماز پڑھ چکا ہو اور بعض علماء کے نزدیک اگر پہلے وضو کے بعد نماز نہ پڑھی ہو تو وضو کرنا مکر وہ ہے۔

【14】

پاکیزگی کا بیان

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی وضو ہے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح جیسے کہ مقفّل دروازہ بغیر کنجی کے نہیں کھل سکتا اسی طرح بغیر وضو کے نماز نہیں ہوسکتی اور بغیر نماز کے جنت میں داخلہ نہیں ہوسکتا، اس حدیث میں محافظت نماز کی اہمیت کو بطور نمونہ بیان کیا گیا ہے، کہ گویا نماز کا حکم ایمان میں ہے کہ بغیر اس کے جنت میں جانا میسر نہیں ہوگا لہٰذا چاہئے کہ نماز خوب اچھی طرح ادا کی جائے اور کبھی نماز ترک و قضا نہ کی جائے کیونکہ دخول جنت کا سبب یہی ہے۔

【15】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت شبیب بن ابی روح (رض) رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے (ایک مرتبہ) صبح کی نماز پڑھی اور اس کے اندر سورت روم کو پڑھا (اثناء نماز میں) آپ ﷺ کو متشابہ ہوا چناچہ جب آپ ﷺ نماز پڑھ چکے تو فرمایا لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ہمارے ساتھ پڑھتے ہیں اور اچھی طرح وضو نہیں کرتے اور اس وجہ سے یہ لوگ ہم پر قرآن میں متشابہ ڈالتے ہیں ۔ (سنن نسائی ) تشریح اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ کسی عمل اور کسی عبادت کے جو سنن و آداب ہوتے ہیں وہ واجب کو کامل کرتے ہیں اور برکت کا سبب ہوتے ہیں، اسی برکت کا اثر نہ صرف یہ کہ عامل ہی کی ذات تک محدود رہتا ہے، بلکہ وہ برکت دوسروں میں بھی سرائیت کرتی ہے جیسے کہ کوتاہی اور قصور عامل کی ذات کے علاوہ دوسرے کے ضرر کا بھی باعث ہوتے ہیں نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سنن و آداب پر عمل نہ کرنے سے فتوحات غیبیہ کا دروازہ بند ہوتا ہے۔ یہ حدیث درحقیقت ان بےبصیرت لوگوں کے لئے تازیانہ عبرت ہے جو صحبت کی تاثیر کے منکر اور اس سے غافل ہیں لہٰذا ایسے لوگوں کے لئے غور کرنے کا مقام ہے کہ سرکار دو عالم، سید الرسل ﷺ پر باوجود اس رتبہ کے اور قرآن پڑھنے کی حالت میں جو تقرب الی اللہ کا وقت ہے ایک ادنیٰ امتی کی صحبت نے اثر کیا جس سے وضو کے آداب و سنت میں کوئی کوتاہی یا قصور ہوگیا تھا جس کی وجہ سے آپ ﷺ کو قرأت میں متشابہ لگا تو ایسے لوگوں کا کیا حشر ہوگا جو شب و روز اہل فسق اور اہل بدعت کی صحبت کو اختیار کئے رہتے ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ بھلائی اور بہتری اسی میں کہ اہل فسق اور اہل بدعت کی صحبت و ہم نشینی کو بالکل ترک کر کے علماء حق، صوفیائے کرام اور اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اختیار کی جائے تاکہ ان کی ہم نشینی اور صحبت کے اثرات و برکات اپنے اندر پیدا ہوں جو دین و دنیا دونوں جگہ کی بھلائی کے لئے ضامن ہیں۔ ابتداء روایت میں راوی نے اس صحابی کا نام ذکر نہیں کیا ہے جس سے یہ حدیث حاصل کی گئی ہے مگر حضرت میرک شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ وہ صحابی حضرت ابوذر غفاری ہیں۔

【16】

پاکیزگی کا بیان

اور قبیلہ بنی سلیم کے ایک آدمی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے باتوں کو (جو آگے مذکور ہیں) میری ہاتھ پر یا اپنے ہاتھ پر شمار کیا (چنانچہ) آپ ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ کہنا (یعنی اس کا ثواب) آدھی ترازو بھر دیتا ہے اور الحمد اللہ (سبحان اللہ کے ساتھ) کہنا (یا فقط الحمدللہ کہنا ہی پوری ترازو کو بھر دیتا ہے اس چیز کو جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے اور روزہ آدھا صبر ہے اور پاک رہنا آدھا ایمان ہے۔ جامع ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے) تشریح حدیث کو بیان کرتے وقت راوی کو شک ہوگیا ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ان باتوں کو میرے ہاتھ پر شمار کیا ہے یا اپنے ہاتھ پر شمار کیا ہے بہر حال ان کو شمار اس طرح کیا کہ یا تو آپ نے صحابی کی انگلی پکڑی اور ان کو ہتھیلی پر بند کرے ان پانچ باتوں کو شمار کیا۔ حدیث میں روزے کو آدھا صبر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ پورا صبر تو یہ ہے کہ نفس کو طاعت پر رو کے یعنی احکام کو بجا لائے اور گناہوں سے روکے یعنی ممنوع چیزوں کو نہ کرے اور روزہ نام ہے صرف نفس کو طاعت پر روکنے یعنی حکم الہٰی کو بجا لانے کا لہٰذا اس اعتبار سے روزہ آدھا صبر ہوا۔

【17】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت عبداللہ صنابحی (ان کے صحابی ہونے اور نام میں اختلاف ہے یحییٰ ابن معین کا قول تو یہی ہے کہ ان کا نام عبداللہ یا ابوعبداللہ بیان کیا جاتا ہے) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب بندہ مومن وضو کا ارادہ کرتا ہے اور کلی کرتا ہے تو گناہ اس کے منہ سے خارج ہوتے ہیں اور جب ناک جھاڑتا ہے تو گناہ اس کی ناک سے خارج ہوجاتے ہیں اور جب اپنا منہ دھوتا ہے تو گناہ اس کے منہ سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو گناہ اس کے ہاتھوں سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں کانوں سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو گناہ اس کے دونوں پاؤں سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں، پھر مسجد کی طرف اس کا چلنا ہوتا ہے اور اس کی نماز اس کے واسطے (اعمال میں) زیادتی ہے ۔ (مالک و سنن نسائی ) تشریح جیسا کہ اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ وضو کرنے والا اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں پھر آگے فرمایا گیا ہے کہ یہاں تک کہ اس کے دونوں کانوں سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اس جملہ سے اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ کان سر میں داخل ہیں بائیں طور کہ جو حکم سر کا ہوگا وہی حکم کان کا ہوگا چناچہ حنفی مسلک یہی ہے اس لئے یہ مسئلہ ہے کہ جب مسح کے لئے پانی لیا جائے تو اس پانی سے کانوں کا مسح بھی کرلیا جائے کانوں کے مسح کے لئے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اس کی نماز اس کے واسطے (اعمال میں) زیادتی ہے یعنی جب یہ وضو سے فارغ ہوا تو گناہوں سے وضو کی وجہ سے پاک و صاف ہوچکا تھا، اب نماز زائد ہے جو بلندی درجات کا سبب ہوگی۔

【18】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ مقبرہ (یعنی جنت البقیع) میں (دعاء مغفرت کے لئے) تشریف لائے، چناچہ (وہاں پہنچ) کر آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے مومنین کی جماعت ! تم پر سلامتی ہو (یعنی آپ ﷺ نے اہل قبور کو سلام کیا اور فرمایا) ہم بھی انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں اور میں اس بات کی تمنا رکھتا ہوں کہ ہم اپنے بھائیوں کو یکھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم میرے دوست ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو ابھی (دنیا میں) نہیں آئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ﷺ کی امت میں سے جو لوگ ابھی نہیں آئے انہیں آپ ﷺ (قیامت میں کس طرح پہچانیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر کسی آدمی کے پاس سفید پیشانی اور سفید ہاتھ اور پیر والے گھوڑے ہوں اور وہ نہایت سیاہ گھوڑوں میں ملے ہوئے ہوں تو کیا وہ اپنے گھوڑے کو پہچان لے گا ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا ہاں (یا رسول اللہ ! ان امتیازی اوصاف کی بنا پر تو وہ یقینًا پہچان لے گا) آپ نے فرمایا (وہ قیامت میں) وضو کے اثر سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے (لہٰذا اس علامت سے میں انہیں پہچان لوں گا) اور میں حوض کوثر پر ان کا میر سامان ہوں گا۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور ان کے بعد ہونے والے مسلمانوں میں نہ صرف یہ کہ بڑا دلچسپ اور لطیف فرق بیان فرمایا ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو امتیازی شان بھی بخش دی ہے چناچہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ تم میرے دوست ہو اور بعد میں پیدا ہونے والے مومنین میرے بھائی ہیں، یعنی تمہارے ساتھ تعلقات کی دو نوعیتیں ہیں ایک تو یہ کہ تم میرے بھائی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ رفیق خاص بھی اور جو بعد میں آنے والے ہیں یعنی تابعین وغیرہ ان کے ساتھ ایک ہی تعلق ہے کہ وہ صرف میرے اسلامی بھائی ہیں۔ میر سامان کا مطلب یہ ہے کہ میں ان لوگوں سے پہلے ہی اللہ کے یہاں جا کر ان کی مغفرت و بخشش اور بلندی اور درجات کے اسباب درست کروں گا۔

【19】

پاکیزگی کا بیان

اور حضرت ابودرداء (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ان لوگوں میں سب سے پہلا آدمی میں ہوں گا جن کو سجدہ کی اجازت دی جائے گی اور (پھر) ان لوگوں میں سب سے پہلا آدمی میں ہوں گا جن کو سجدہ سے سر اٹھانے کی اجازت دی جائے گی چناچہ میں اس چیز کی طرف دیکھوں گا جو میرے آگے ہوگی (یعنی مخلوق کا مجمع) اور میں امتوں کے درمیان اپنی امت کو پہچان لوں گا، پھر میں اپنے پیچھے کی طرف اسی طرح اور اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف (بھی) اس طرح دیکھوں گا (یعنی چاروں طرف اژدہام خلق دیکھوں گا اور میں اپنی امت کو پہچان لوں گا) ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اپنی امت سے لے کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی امت تک کی تمام امتوں میں آپ ﷺ اپنی امت کو کیونکر پہچان لیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت کے لوگ وضو کے اثر سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے ہوں گے اس امت کے علاوہ کوئی دوسری امت اس طرح (امتیازی وصف کے ساتھ) نہیں ہوگی اور میں اپنی امت کو اس طرح بھی پہچان لوں گا کہ (میری امت کے لوگوں کو ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے، نیز اس وجہ سے شناخت کرلوں گا کہ ان کی (خورد سال) اولاد ان کے آگے دوڑتی ہوگی۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح محشر میں جب سرکار دو عالم ﷺ بارگاہ صمدیت میں حاضر ہوں گے تو شفاعت کے لئے سجدہ میں جائیں گے اور بمقدار ایک ہفتہ سجدہ میں رہیں گے پھر بعد میں بارگاہ الوہیت سے حکم ہوگا کہ اے محمد ﷺ ! اپنا سر مبارک اٹھائیے اور اے میرے محبوب مانگئے کیا مانگتے ہیں ؟ ہم آپ ﷺ درخواست کو شرف قبولیت بخشیں گے اس کے بعد شافع محشر، آقائے نامدار، سرور کائنات، فخر موجوادات جناب رسول اللہ ﷺ (فداہ روحی) اللہ کی مخلوق کی شفاعت کے لئے اپنی لسان مبارک سے بارگاہ الٰہی میں درخواست پیش فرمائیں گے، حدیث کے ابتدائی حصہ میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اس حدیث میں میدان حشر میں امت محمدیہ کی کثرت و زیادتی اور ان کے مراتب میں تفاوت کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے چناچہ فانظر الی ما بین یدی (یعنی میں اس چیز کی طرف دیکھوں گا جو میرے آگے ہوگی ایسے ہی عن شمالی مثل ذلک ( یعنی اور بائیں طرف اس طرح دیکھوں گا) تک یہی مراد ہے کہ میرے چاروں طرف میری ہی امت پھیلی ہوگی اور پھر ان میں مختلف مراتب و درجات کے لوگ ہیں گے۔ صحابی (رض) کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ سے آج تک ایک بڑی لمبی مدت ہے اور ایک بڑا طویل زمانہ ہے اس دوران میں ایک دو نہیں بہت زیادہ امتیں گزری ہیں، پھر تعداد شمار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بےانتہاء اللہ کی مخلوق اس زمانہ میں پیدا ہوئی اور مری ہے تو اتنے اژدہام اور اتنی امتیں ہیں آپ ﷺ اپنی امت کو کس طرح پہچان لیں گے، اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے اس امتیازی صفت کا ذکر فرمایا جس سے امت محمد یہ کے افراد متصف ہوں گے اور تمام امتوں میں ممتاز ہوں گے۔ اس سلسلہ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا نام بطور خاص لینے کی وجہ یہی ہے کہ اوّل تو اس زمانہ کا طول مراد ہے دوسرے چونکہ یہ تمام نبیوں میں بہت زیادہ مشہور ہیں اس لئے ان کا نام لیا۔

【20】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اس باب میں ان چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو وضو کو توڑتی ہیں چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے مطابق ان چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (١) پاخانہ اور پیشاب کے راستہ سے نکلنے والی ہر چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے پاخانہ، پیشاب اور ریاح وغیر مگر جو ہوا مرد یا عورت کے آگے کے سرے سے نکلتی ہے اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (٢) اس چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جو نجس ہو (جیسے خون اور پیپ وغیرہ) اور بدن میں خود بخود نکل کر اس حصہ تک پہنچ جائے جس کو غسل یا وضو میں دھونا لازم ہو، یعنی اگر ناک کے بانسے اور آنکھ کے اندر رہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا کیونکہ ان کا دھونا لازم نہیں ہے۔ (٣) قے کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے منہ بھر قے کرنے میں خواہ اناج نکلے، پانی نکلے، جما ہوا خون یعنی سودا نکلے ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اگر بلغم نکلے تو وضو نہیں ٹوٹتا، اگر پتلے خون یا پیپ کی قے ہو تو اس میں منہ بھرنے کی شرط نہیں بلکہ تھوک کے برابر ہو یا تھوک پر غالب ہوجائے تب بھی وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر کم ہوگا تو نہیں ٹوٹے گا اگر ایک ہی متلی میں تھوڑی قے اتنی مقدار میں ہوئی کہ اگر اسے جمع کیا جائے تو منہ بھر جائے تو اس سے وضو جاتا ہے جس چیز سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے وہ نجس نہیں ہوتی مثلاً تھوڑی سے قے کی یا بدن سے خون اس طرح نکلا کہ وہ جسم پر بہا نہیں تو یہ ناپاک نہیں ہے۔ (٤) وضوٹوٹ جاتا ہے دیوانہ ہونے سے۔ (٥) نشے سے۔ (٦) بےہوش ہوجانے سے۔ (٧) اور بالغ کے قہق ہے سے اس نماز میں جو رکوع و سجود والی ہو۔ (٨) مباشرت فاحشہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، مباشرت فاحشہ اسے فرماتے ہیں کہ انتشار اور جنسی ہیجان کے ساتھ مرد کا ستر عورت کے ستر سے اور عورت کا ستر مرد کے ستر سے مل جائے یا دو عورتوں یا مردوں کے ستر مل جائیں۔ (٩) لیٹ کر اپنے بدن پر یا دیوار وغیرہ پر تکیہ لگا کر سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن یہ سونا اس طرح ہو کہ اگر تکیہ کی وہ چیز جس پر ٹیک لگا کر سویا ہوا ہے ہٹالی جائے تو گرپڑے۔ (١٠) اگر اس طرح سو جائے کہ مقعد زمین سے اٹھ جائے یعنی پہلو پر یا کو لھوں پر یا چت یا منہ کے بل، یا کو لھے کو دیوار سے لگا کر یا پیٹ پاؤں پر لگا کر جھکا ہوا سو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کھڑا کھڑا سو جائے یا رکوع اور سجدہ کی حالت میں سو جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا مگر شرط یہ ہے کہ رکوع و سجود ہیت مسنونہ پر ہوں، اگر زخم میں کیڑے نکلیں یا گوشت کٹ کر گرجائے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ (١١) اگر جونک لگائی جائے اور وہ خون پی کی کر بھر گئی یا بڑی چیچری نے پیٹ بھر خون پیا تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ (١٢) اگر کسی کی آنکھ دکھنے آتی ہے اور آنسو نکلتے ہیں تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس سلسلہ میں اکثر لوگ غافل ہیں اس کا خیال نہیں کرتے اس لئے اس کا خیال رکھنا چاہئے ہاں اگر کوئی آدمی ایسا ہے جس کی آنکھیں ہمیشہ جاری رہتی ہیں تو وہ صاحب عذر ہوجاتا ہے۔ (١٣) اگر کان دکھتا ہے اور اس سے پیپ یا کچھ لہو نکلے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ان میں سے دو چیزیں یعنی پیشاب اور پاخانہ کے راستہ سے نکلنے والی چیزوں اور نیند پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ چیزیں ناقض وضو ہیں باقی چیزیں مختلف فیہ ہیں۔

【21】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا بےوضو کی نماز قبول نہیں کی جاتی جب تک کہ وضو نہ کرے۔ (بخاری و مسلم) تشریح اس کا تعلق اس آدمی سے ہے جو پانی رکھتا ہو اور اس کے استعمال کی قدرت بھی اس کے اندر ہو یعنی جس آدمی کے پاس پانی اور اس پانی کے استعمال کرنے میں اس کو کوئی عذر شرعی نہ ہو تو اس کو نماز کے لئے وضو کرنا ضروری ہے اگر اس نے وضو نہیں کیا تو اس کی نماز ادا نہیں ہوگی۔ اگر کوئی آدمی پانی نہ پائے یا اس کے استعمال کی قدرت نہ رکھتا ہو تو وہ بجائے وضو کے پاک و صاف مٹی سے تیمم کرے ایسا آدمی جو نہ تو پانی پائے اور نہ پاک و صاف مٹی ہی اسے ملے اور نہ وہ ان کے استعمال کی قدرت رکھتا ہو تو ایسے آدمی کو اصطلاح شریعت میں فاقد الطھورین فرماتے ہیں اس آدمی کے بارے میں یہ حکم ہے کہ وہ نماز نہ پڑھے، ہاں جب پانی وغیرہ پائے تو وضو کر کے نماز پڑھے۔ اس مسئلہ میں امام شافعی (رح) کا مسلک دوسرا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی یعنی فاقدا الطہورین کو چاہئے کہ اس شکل میں بھی وقت نماز کے احترام میں بغیر وضو اور تیمم ہی کے نماز پڑھ لے جب اسے پانی یا مٹی دستیاب ہوجائے تو وضو یا تییم کر کے قضا کرلے۔ ہمارے علماء رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی قصدا بغیر طہارت کے نماز پڑھ لے اور پھر یہ کہ اس سے اس کا مقصد احترام وقت بھی نہ ہو تو یہ آدمی کافر ہوجاتا ہے، یا اگر لوگوں کی شرم کی وجہ سے محض دکھلانے کے لئے بھی بغیر طہارت کے نماز پڑھے تو بھی کافر ہوجاتا ہے کیونکہ ان دونوں شکلوں میں اس نے شرع کی تحقیر کی ہے اس لئے ایسا آدمی جو اپنے قول سے یا فعل سے شریعت کی تحقیر کا سبب بنتا ہے وہ اس قابل نہیں ہے کہ دائرہ اسلام اور ایمان میں رہ سکے۔

【22】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا بغیر طہارت نماز قبول نہیں کی جاتی اور مال حرام کی خیرات قبول نہیں کی جاتی۔ (صحیح مسلم) تشریح حرام مال میں صدقہ خیرات کرنا چونکہ صدقہ و خیرات کی توہین و تحقیر ہے اس لئے اس کو بہت زیادہ قابل نفرت شمار کیا گیا ہے چناچہ ہمارے علماء نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو آدمی مال حرام میں سے صدقہ و خیرات کرتا ہے اور پھر اس کی امید بھی رکھتا کہ اس سے ثواب ملے گا تو کافر ہوجاتا ہے۔ (٣) وَعَنْ عَلِیٍّ صقَالَ کُنْتُ رَجُلًا مَذَّآئً فَکُنْتُ اَسْتَحْیِیْ اَنْ اَسْأَلَ النَّبِیَّ ﷺ لِمَکَانِ ابْنَتِہ فَاَمَرْتُ الْمِقْدَادَ فَسَأَلَہُ فَقَالَ ےَغْسِلُ ذَکَرَہُ وَےَتَوَضَّاُ ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ مجھے مذی بہت زیادہ آتی تھی چونکہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی (حضرت فاطمہ (رض) میرے نکاح میں تھی اس لئے میں آپ ﷺ سے اس کا حکم دریافت کرتے ہوئے شرماتا تھا (کہ آیا اس سے غسل واجب ہوتا ہے یا وضو) اس لئے میں نے (اس مسئلہ کو رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرنے کے لئے حضرت مقداد (رض) کو مامور کیا، چناچہ انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا (اس طرح سے کہ ایک آدمی ایسا ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے) تو آپ نے فرمایا کہ (مذی نکلنے پر) پیشاب گاہ کو دھو ڈالے اور وضو کرے۔ (بخاری و مسلم) تشریح یہ حدیث ایک اخلاقی معاملہ میں بڑی لطیف تنبیہ کر رہی ہے کہ داماد کو اپنے سسر سے شہوت کی باتوں کا ذکر کرنا، ایسی چیزوں کا تذکرہ کرنا جن کا تعلق مباشرت عورت سے ہو یا جن کا بیان اخلاق و تہذیب اور شرم و حیاء کے منافی ہو مناسب نہیں۔

【23】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس چیز کو آگ نے پکایا ہو اس کے کھانے کے بعد وضو کرو۔ (صحیح مسلم) تشریح امام محی السنتہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حکم حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی اس حدیث سے منسوخ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کا شانہ کھایا پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) پہلے حکم کی منسوخی تو حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی مذکورہ حدیث سے ہوگئی لیکن اس سلسلہ میں اس حدیث کی ایک دوسری تاویل اور کی جاتی ہے وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کی کہ آگ کی پکی ہوئی چیز کو کھانے کے بعد وضو کرو سے مراد یہ ہے کہ جب تم کوئی پکی ہوئی چیز کھاؤ تو چکنائی وغیرہ دور کرنے کے لئے ہاتھ منہ دھولیا کرو، کیونکہ نہ صرف یہ کہ نظافت و صفائی کا یہی تقاضا ہے بلکہ یہ سنت بھی ہے چناچہ اسی کو وضو طعام بھی کہا جاتا ہے، اس صورت میں حدیث کو منسوخ کہنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔

【24】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت جابر بن سمرہ (رض) (اسم گرامی جابر بن سمرۃ اور کنیت ابوعبدا اللہ عامری ہے سن وفات میں اختلاف ہے بعض لوگ فرماتے ہیں کہ ٦٦ ھ میں انہوں نے وفات پائی کچھ حضرات کی تحقیق ہے کہ ان کا سن وفات ٧٤ ھ ہے) ۔ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم ﷺ سے پوچھا کہ کیا ہم بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کریں آپ ﷺ نے فرمایا اگر تمہارا جی چاہے تو وضو کرو اور نہ چاہے تو نہ کرو پھر اس آدمی نے پوچھا کیا اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرو پھر اس آدمی نے سوال کیا کیا بکریوں کے رہنے کی جگہ میں نماز پڑھ لوں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! پھر اس آدمی نے دریافت کیا کیا اونٹوں کے بندھے کی جگہ نماز پڑھوں آپ نے فرمایا نہیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت امام احمد بن حنبل (رح) چونکہ ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہیں اس لئے انہوں نے تو یہ حدیث دیکھ کر حکم لگا دیا کہ اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا چاہئے کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لئے کہ یہ حضرات اس حدیث کا محل وضو کے لغوی معنے ہاتھ منہ دھونے کو قرار دیتے ہیں یعنی یہ حضرات فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ اونٹ کے گوشت میں بساندہ اور چکنائی زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کو کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھو لینا چاہئے چونکہ بکری کے گوشت میں بساندھی اور چکنائی کم ہوتی ہے اس لئے اس کے بارے میں فرما دیا کہ اگر طبیعت چاہے اور نظافت کا تقاضا ہو تو ہاتھ منہ دھولیا کرو اور اگر طبیعت نہ چاہے تو کوئی ضروری نہیں ہے۔ اونٹوں کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھنے سے منع فرمانا نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور منع اس لئے فرمایا کہ وہاں نماز پڑھنے میں سکون و اطمینان اور خاطرجمعی نہیں رہتی، اونٹوں کے بھاگ جانے یا لات مار دینے اور تکلیف پہنچانے کا خدشہ رہتا ہے بخلاف بکریوں کے چونکہ وہ بیچاری سیدھی سادی اور بےضرر ہوتی ہیں اس لئے ان کے رہنے کی جگہ نماز پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔ اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ نماز پڑھنے کے سلسلہ میں یہ جواز او عدم جواز اس صورت میں ہے جب کہ مرابض (بکریوں کے رہنے کی جگہ) اور مبارک (اونٹوں کے بندھنے کی جگہ) نجاست و گندگی سے خالی ہوں اگر وہاں نجاست ہوگی تو پھر مرابض میں بھی نماز پڑھنی مکروہ ہوگی۔

【25】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ کے اندر کچھ پائے (یعنی قراقر) اور اس پر یہ بات مشتبہ ہو کہ کوئی چیز خارج ہوئی یا نہیں تو اس وقت تک وضو کے لئے مسجد سے باہر نہ نکلے جب تک آواز کو نہ سنے یا بو نہ پائے۔ (صحیح مسلم) تشریح جب تک کوئی آواز نہ سنے یا بو نہ پائے یہ غالب کے اعتبار سے ہے ورنہ اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جب ریاح کا خارج ہونا یقینی طور پر معلوم ہوجائے خواہ آواز سنے یا نہ سنے بو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو تو سمجھ لے کہ وضو ٹوٹ گیا ہے۔

【26】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ نے دودھ پیا (اس کے بعد) کلی کی اور فرمایا دودھ میں چکناہٹ ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چکنی چیز کھانے کی بعد کلی کرنا مستحب ہے، اس لئے کہ اگر کلی نہ کی جائے تو ہوسکتا ہے کہ جو چیز کھائی گئی چکناہٹ کی وجہ سے اس کا کچھ حصہ منہ میں لگا رہ جائے، جب نماز پڑھی جائے تو حالت نماز میں پیٹ میں پہنچ جائے اس پر ہر اس چیز کو قیاس کیا جاتا ہے جو منہ میں لگی ہو اور حالت نماز میں اس کے پیٹ میں پہنچ جانے کا خوف ہو تو اس سے بھی کلی کرنا مستحب ہے۔ اس حدیث سے علماء کرام نے مسئلہ بھی مستنبط کیا ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے صفائی اور ستھرائی کے لئے ہاتھوں کو دھولینا چاہئے، ہاں اگر ہاتھ پہلے سے صاف ستھرے ہیں اور نجاست و میل نہیں لگی ہے تو پھر ہاتھوں کا دھونا ضروری نہیں ہے، اسی طرح کھانا کھانے کے بعد بھی ہاتھوں کو دھونا چاہئے اگر کھانا خشک ہونے کی وجہ سے یا چمچہ وغیرہ سے کھانے کی وجہ سے ہاتھ میں کچھ نہ لگے تو پھر ہاتھوں کا دھونا ضروری نہیں ہے۔ آخر میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بظاہر تو اس باب سے اس حدیث کی کچھ ماسبت نظر نہیں آتی ہے اس لئے یہ اعتراض پیدا ہوسکتا ہے کہ مصنف مشکوٰۃ نے اس حدیث کو اس باب میں کیوں ذکر کیا ؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں کلی کا ذکر کیا گیا ہے وہ متعلقات وضو سے ہے اس لئے اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا گیا ہے۔

【27】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت بریدہ (رض) ( اسم گرامی بریدہ بن حصیب ہے ان کی کنیت جو مشہور ہے وہ ابوعبداللہ ہے، یہ مدینہ کے باشندہ تھے مقام مرد میں یزید بن معاویہ ٦٣ ھ میں انتقال فرمایا) ۔ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن سرکار دو عالم ﷺ نے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں (یعنی ایک ہی وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں) اور موزوں پر مسح کیا (یہ دیکھ کر) حضرت عمر فاروق (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ ﷺ نے آج وہ چیز کی ہے جس کو آپ ﷺ نے کبھی نہیں کیا آپ ﷺ نے فرمایا عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! میں نے ایسا قصداً کیا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت عمر فاروق (رض) کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پہلے تو آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ ہر نماز لئے تازہ وضو کرتے تھے، مگر آج آپ ﷺ نے خلاف معمول ایک وقت وضو کرلیا پھر اسی وضو سے آپ ﷺ نے پانچوں نمازیں ادا فرمائیں اور پھر ایک نئی چیز کی کہ موزوں پر مسح بھی فرمایا حالانکہ آپ ﷺ ایسا کبھی نہیں کرتے تھے۔ اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ میرا عمل کسی دوسری وجہ سے نہیں بلکہ میں نے قصدًا کیا ہے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ دونوں صورتیں بھی جائز ہیں اور دوسرے بھی ایسا کرسکتے ہیں۔

【28】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت سوید بن نعمان (رض) ( اسم گرامی حضرت سوید ابن نعمان (رض) ہے آپ کا شمار اہل مدینہ میں ہے) ۔ راوی ہیں کہ وہ سرکار دو عالم ﷺ کے ہمراہ خیبر ( کے فتح) کے سال سفر پر گئے جب صہباء کے مقام پر پہنچے جو خیبر کے نزدیک ہے، عصر کی نماز پڑھی اور پھر آپ ﷺ نے توشہ (زاد راہ) منگوایا، چناچہ ستو کے علاوہ کچھ نہ تھا جو حاضر کیا گیا اور آپ ﷺ کے حکم سے اس کو گھولا گیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اور ہم نے اس کو کھایا اور پھر مغرب کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے آپ ﷺ نے کلی کی اور ہم نے بھی کلی کی اور وضو نہیں کیا۔ (صحیح البخاری) تشریح اس حدیث نے اس مسئلہ کی وضاحت کردی کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کو کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لئے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ستو کھایا جو آگ ہی سے تیار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد صرف کلی کر کے مغرب کی نماز پڑھ لی اور وضو نہیں کیا۔

【29】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا وضو کرنا آواز با بو سے واجب ہوتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ وضو شک سے نہیں ٹوٹتا، جب تک یقین نہ ہوجائے وضو باقی رہتا ہے یعنی پیٹ میں اگر محض قراقر ہو تو اس شبہ سے کہ شاید ریاح کا اخراج ہوگیا ہو وضو نہیں ٹوٹے گا ہاں جب آواز کے نکلنے یا بو سے یقین ہوجائے کہ ریاح خارج ہوگئی ہے تو جب وضو ٹوٹ جائے گا۔

【30】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے (حضرت مقداد (رض) کے واسطہ سے) سرکار دو عالم ﷺ سے مذی کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مذی نکلنے سے وضو لازم آتا ہے اور منی نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے۔ (جامع ترمذی)

【31】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا نماز کی کنجی وضو ہے نماز کی تحریم تکبیر (یعنی اللہ اکبر کہنا) ہے اور نماز کی تحلیل سلام پھیرنا۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی، ودارمی اور ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت ابی سعید سے روایت کیا ہے) تشریح ؛ تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنے سے نماز شروع ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کھانا پینا اور جتنے کام نماز کے منافی ہیں اب سب حرام ہوگئے ہیں اور سلام پھیرنے سے نماز ختم ہوجاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نماز شروع کردینے سے جتنی چیزیں حرام کرلی گئی تھیں اب وہ سب حلال ہوگئیں ہیں اسی کو فرمایا گیا ہے کہ نماز کی تحریم تکبیر اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے۔

【32】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت علی بن طلق (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی حدث کرے (یعنی بغیر آواز کے ہوا خارج ہو) تو اسے وضو کرنا چاہئے اور تم عورتوں سے (خلاف فطرت) ان کی مقعد (یعنی پاخانہ کی جگہ) میں جماع نہ کرو۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد)

【33】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) (اسم گرامی معاویہ (رض) کنیت ابوعبدالرحمن اور والد کا نام ابوسفیان ہے۔ آپ کاتب وحی ہیں ٦٠ ھ میں وفات پائی) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا آنکھیں سرین کا سر بند ہیں چناچہ آنکھ سو جاتی ہے تو سر بند کھل جاتا ہے۔ (دارمی) تشریح جب انسان جاگتا رہتا ہے تو گویا اس کے مقعد پر بند لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے ہوا خارج نہیں ہوتی بلکہ رکی رہتی ہے اور اگر خارج ہوتی ہے تو اس کا احساس ہوتا ہے جب سو جاتا ہے تو چونکہ وہ بےاختیار ہوجاتا ہے جوڑ ڈھیلے پڑجاتے ہیں تو ہوا کے خارج ہونے کا گمان رہتا ہے جس کا اسے یقینی احساس نہیں ہوسکتا اسی لئے نیند کو ناقض وضو کہا جاتا ہے۔

【34】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا سرین کا سر بند آنکھیں ہیں لہٰذا جو آدمی سو جائے اسے چاہئے کہ وضو کرے۔ (ابوداؤد) اور حضرت امام محی السنۃ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حکم اسی آدمی کے واسطے ہے جو بیٹھا نہ ہو (بلکہ لیٹ کر سویا ہو) اس لئے کہ حضرت انس (رض) سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سرکار دو عالم ﷺ کے اصحاب عشاء کی نماز بیٹھے ہوئے) انتظار کیا کرتے تھے یہاں تک کے نیند کے سبب سے ان کے سر جھک جاتے تھے، اسی حالت میں وہ اٹھ کر نماز پڑھ لیتے تھے وضو نہ کرتے تھے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی) مگر جامع ترمذی نے اپنی روایت میں یَنْتَظِرُوْنَ الْعِشَاءَ حَتَّی تَخْفِقَ رُؤُوْسُھُمْ کے بجائے لفظ ینامون ذکر کیا ہے۔ تشریح حضرت امام محی السنۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کا حکم سونے والوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ایسے آدمی کے بارے میں ہے جو لیٹ کر سو جائے، کیونکہ لیٹ کر سونے سے تمام اعضاء ڈھیلے ہوجاتے ہیں اور اپنے اوپر پوری طرح اختیار نہیں رہتا اس لئے ہوسکتا ہے کہ اس حالت میں ریاح خارج ہوجائے اور اس کا احساس بھی نہ ہو۔ ہاں جو آدمی لیٹ کر نہیں بلکہ بیٹھا بیٹھا اس طرح سو جائے اس کی مقعد زمین پر رکھی رہے اور پھر جب وہ جاگے تو مقعد اسی طرح زمین پر ٹھہری ہوئی ہو تو وضو نہیں ٹوٹتا چاہے وہ جتنا بھی سوئے، چناچہ حضرت انس (رض) کی مذکورہ حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بیٹھے ہوئے سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، بیٹھنے کی اقسام فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں، جن کو قیاس یا دیگر احادیث سے ثابت کیا گیا ہے۔

【35】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا وضو اس آدمی پر لازم ہوتا ہے جو لیٹ کر سو جائے اس لئے کہ جس وقت آدمی لیٹتا ہے تو اس کے (بدن کے جوڑ ڈھیلے ہوجاتے ہیں) اور پھر ہوا خارج ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد) تشریح حضرت میرک شاہ (رح) نے فرمایا ہے کہ حدیث منکر ہے کیونکہ اس کے راویوں میں ایک راوی یزید دالانی بھی ہے جو کہ کثیر الخطاء اور فاحش الوہم اور ثقات کے مخالف ہے۔

【36】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

حضرت بسرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو آدمی اپنے ذکر (عضو خاص) کو ہاتھ لگائے تو اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے ۔ (مالک، ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، دارمی) تشریح پیشاب گاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جانے میں اختلاف ہے، بلکہ اس مسئلہ میں خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اختلاف تھا چناچہ امام شافعی (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے ذکر کو ننگی ہتھیلی سے چھو دیا تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا، ان کی دلیل یہی مذکورہ حدیث ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ذکر کو چھو دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل ما بعد کی حدیث ہے جو قیس بن علی کی روایت کے ساتھ جسے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے، مسند ابی حنیفہ میں مذکور ہے اس کے علاوہ امام اعظم (رح) کی دلیل میں اور بہت سی حدیثیں وارد ہیں اس سلسلہ میں مزید تشفی کے لئے شرح ملا علی قاری اور مشکوٰۃ کا ترجمہ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں حدیثیں یعنی بسرہ کی یہ حدیث جو شوافع کی دلیل ہے اور طلق بن علی (رض) کی حدیث جو آگے آرہی ہے اور حنیفہ کی دلیل ہے، درجہ حسن سے باہر نہیں ہیں لیکن حضرت طلق ابن علی (رض) کی حدیث کو حضرت بسرہ (رض) کی حدیث پر ترجیح ہوگی اس لئے کہ حضرت بسرہ (رض) عورت اور حضرت طلق بن علی (رض) مرد ہیں اور ظاہر ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد کی حدیث قوی ہوتی ہے کیونکہ وہ عوت کی نسبت علم اور حدیث کو خوب اچھی طرح یاد رکھتے ہیں اور ان کی قوت حافظہ عورتوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے چناچہ یہی وجہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے۔

【37】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت طلق بن علی المرتضیٰ ) اسم گرامی طلق بن علی اور کنیت ابوعلی ہے ان کی حدیثیں ان کے بیٹے قیس سے مروی ہیں۔ (فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ سے پوچھا گیا کہ وضو کرنے کے بعد اگر کوئی آدمی اپنے ذکر کو چھوئے (تو کیا حکم ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا وہ بھی تو آدمی کے گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے امام محی السنۃ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس لئے کہ حضرت ابوہریرۃ (رض) حضرت طلق بن علی (رض) کے آنے کے بعد اسلام لائے ہیں اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث منقول ہے کہ جب تم میں سے کسی کا ہاتھ اپنے ذکر پر پہنچ جائے اور ہاتھ و ذکر کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو تو اس کو چاہئے وضو کرے۔ (شافع دار قطنی اور سنن نسائی نے بسرہ (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے جس میں لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْیئٌ کے الفاظ مذکور ہیں۔ تشریح رسول اللہ ﷺ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدن کے گوشت کے دیگر ٹکڑے مثلاً ہاتھ پاؤں کان ناک وغیرہ ہیں اسی طرح ذکر بھی بندہ کے گوشت ہی کا ایک ٹکڑا ہے اور جب ان دوسرے ٹکڑوں اور حصوں کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو پھر ذکر کے چھو جانے سے کیوں وضو ٹوٹے گا لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ مس ذکر ناقص وضو نہیں ہے۔ امام محی السنہ (رح) کا قول در اصل حضرات شوافع کی ترجمانی ہے اس کا مطب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرۃ و طلق بن علی (رض) کے بہت بعد اسلام لائے ہیں، کیونکہ حضرت طلق (رض) ہجرت کے فورًا بعد جب کہ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور حضرت ابوہریرہ (رض) سن ٧ ھ میں غزوہ خبیر کے موقع پر اسلام لائے ہیں اس لئے حضرت طلق بن علی (رض) کا رسول اللہ ﷺ سے حدیث سننا پہلے ہوا اور حضرت ابوہریرہ (رض) کا سننا بعد میں ہوا ہوگا، لہٰذا حضرت طلق (رض) کی حدیث منسوخ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث ناسخ ہوئی۔ حنفیہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت طلق کے اسلام لانے کے بعد حضرت ابوہریرہ (رض) کے اسلام لانے سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ حدیث سنی بھی بعد میں ہو شوافعہ کا یہ دعویٰ تو جب صحیح ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ثابت ہو کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کے اسلام لانے سے پہلے ہی حضرت طلق (رض) انتقال فرما چکے تھے یا یہ کہ اپنے وطن کو چلے گئے تھے کہ پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھی کبھی حاضر نہیں ہوئے، اس لئے کہ اگر حضرت طلق (رض) ، حضرت ابوہریرہ (رض) کے اسلام لانے سے پہلے انتقال فرما جاتے ہیں یا اپنے وطن کو واپس لوٹ جاتے تو پھر حضرت ابوہریرہ (رض) کے اسلام لانے کے بعد کچھ نہیں سن سکتے تھے مگر اب تو یہ ممکن ہے کہ حضرت طلق (رض) نے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ (رض) کے اسلام لانے کے بعد ہی سنی ہو لہٰذا شوافع کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ حضرت مظہر نے ایک اچھی اور فیصلہ کن بات کہہ دی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہوگیا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کردہ حدیث سے تو ثابت ہو رہا ہے کہ مس ذکر ناقض وضو ہے اور حضرت طلق (رض) کی حدیث مس ذکر کو ناقض وضو نہیں کہتی لہٰذا اس تعارض کی شکل میں ہمیں چاہئے کہ ہم دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کی طرف رجوع کریں چناچہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مثلاً حضرت علی، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت ابودرداء حضرت حذیفہ اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ اقوال ثابت ہیں کہ ذکر چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لئے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حنفیہ ہی کا مسلک صحیح ہے کہ مس ذکر ناقض وضو نہیں ہے، واللہ اعلم بالصواب۔

【38】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ اپنی بعض بیویوں کا بوسہ لیتے تھے اور بغیر وضو کے (پہلے ہی وضو سے) نماز پڑھ لیتے تھے (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی ابن ماجہ) جامع ترمذی نے کہا ہے کہ ہمارے علماء کے نزدیک کسی حال میں عروہ کی سند حضرت عائشہ (رض) سے نیز ابراہیم تیمی کی بھی سند حضرت عائشہ (رض) سے صحیح نہیں ہے اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے اس لئے کہ ابراہیم تیمی نے حضرت عائشہ (رض) سے نہیں سنا ہے۔ تشریح اس مسئلہ میں بھی علماء کا اختلاف ہے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) اور امام مسند احمد بن حنبل کے نزدیک غیر محرم عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹا جاتا ہے، حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ غیر محرم عورت کو اگر شہوت کے ساتھ چھوئے تو وضو ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں ٹوٹے گا ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل یہی حدیث ہے، نیز حضرت عائشہ (رض) کی ایک دوسری حدیث بھی جو صحیح البخاری و صحیح مسلم میں مذکور ہے حضرت امام اعظم (رح) کی دلیل ہے جس میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ جب رات میں تہجد پڑھنے کے لئے بیدار ہوتے تو میں سوتی رہتی اور میرے دونوں پاؤں رسول اللہ ﷺ کے سجدہ کی جگہ پڑھے رہتے تھے چناچہ آپ ﷺ سجدہ کے وقت میرے پیروں میں ٹھونکا دیتے تھے تو میں اپنے پیر سمیٹ لیتی تھی لہٰذا اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، امام جامع ترمذی کا یہ کہنا عروہ (رض) کی سماعت حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے ثابت نہیں ہے بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ صحیحین میں (صحیح البخاری و صحیح مسلم) میں اکثر احادیث میں حضرت عائشہ (رض) سے حضرت عروہ (رض) کا سماع ثابت ہے معلوم ہوتا ہے کہ جامع ترمذی کے اس قول کو نقل کرنے میں مصنف مشکوٰۃ سے کچھ چوک ہوگئی ہے کیونکہ جامع ترمذی کے اس قول کا یہ مطلب نہیں لیا جاتا جو مصنف مشکوٰۃ نے اخذ کیا ہے۔ ابوداؤد (رح) کا یہ کہنا کہ یہ حدیث یعنی مرسل کی ایک قسم منقطع) ہے درا اصل حنفیہ کی اس دلیل کو کمزور کرتی ہے کہ جب یہ حدیث مرسل ہے تو حنفیہ کا اس کو اپنی دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک حدیث مرسل بھی حجت ہوتی ہے اور نہ صرف ہمارے نزدیک بلکہ جمہور علماء بھی مرسل حدیث کی حجیت کو تسلیم کرتے ہیں، لہٰذا اس حدیث کو مرسل کہہ کر اسے ناقابل استدلال قرار نہیں دیا جاسکتا۔

【39】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے بکری کا شانہ (یعنی بکری بریاں کے شانہ کا گوشت) کھایا، پھر اپنا ہاتھ ٹاٹ سے پونچھ لیا جو آپ ﷺ کے نیچے بچھا ہوتا تھا اور پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھ لی۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح اس حدیث نے بھی حنفیہ کے اس مسلک کی توثیق کردی ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کھا لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانا کھانے کے بعد اگر منہ پر چکنائی وغیرہ لگے تو اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔

【40】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک بھنا ہوا پہلو لے گئی چناچہ آپ ﷺ نے اس میں سے کھایا پھر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور وضو نہیں کیا (نہ ہاتھ منہ دھویا۔ (مسند احمد بن حنبل)

【41】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

حضرت ابورافع (رض) فرماتے ہیں کہ اس بات کی قسم کھاتا ہوں کہ میں سرکار دو عالم ﷺ کے لئے بکری کا پیٹ (یعنی کے اندر کی چیزیں مثلاً دل کلیجی وغیرہ) بھونتا تھا، آپ ﷺ (اس میں سے کھاتے) پھر نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے اور وضو نہ کرتے۔ (صحیح مسلم)

【42】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت ابورافع (رض) راوی ہیں کہ (ایک دن) میرے پاس تحفہ کے طور پر بکری بھیجی گئی، چناچہ میں نے اس (کے گوشت) کو (پکانے کے لئے) ہانڈی میں ڈال دیا (اسی اثناء میں) رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا ابورافع یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا (یا رسول اللہ ! بکری کا گوشت ہے جو میرے پاس ہدیہ کے طور پر آیا تھا اسی کو میں نے ہانڈی میں پکا لیا ہے آپ نے فرمایا ابورافع ! ایک دست دو ! میں نے دست خدمت اقدس میں پیش کردیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا دوسرا دست دو میں نے دوسرا دست بھی خدمت اقدس میں پیش کردیا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا ایک دست اور دو میں عرض کیا یا رسول اللہ ! بکری کے تو دو ہی دست ہوتے ہیں (اور وہ دونوں ہی آپ کی خدمت میں پیش کرچکا ہوں اب کہاں سے لاؤں) سرکار دو عالم ﷺ نے ان سے فرمایا ابورافع ! اگر تم خاموش رہتے تو مجھ کو دست پر دست دئیے چلے جاتے جب تک کہ تم چپ رہتے، پھر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور منہ دھویا (یعنی کلی کی) پھر انگلیوں کے پورے دھوئے اور کھڑے ہوئے اور پھر نماز پڑھ کر ابورافع کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے نزدیک ٹھنڈا گوشت دیکھا چناچہ آپ ﷺ نے اسے کھایا اس کے بعد مسجد تشریف لے گئے اور (شکرانہ) کی نماز پڑھی اور اس حدیث کو دارمی نے بھی روایت کیا ہے مگر ثم دعا بماء سے آخر تک ذکر نہیں کیا ہے۔ تشریح رسول اللہ ﷺ کو دست کا گوشت بہت زیادہ مرغوب تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دست کا گوشت زیادہ قوت بخش ہوتا ہے اس لئے آپ ﷺ اسے پسند فرماتے تھے تاکہ جسمانی طاقت و قوت زیادہ حاصل ہو جس کی وجہ عبادت الٰہی بخوبی ادا ہو سکے۔ ارشاد اگر تم خاموش رہتے تو مجھ کو دست پر دست دیئے چلے جاتے جب تک کہ تم چپ رہتے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم چپ رہتے اور میں جس طرح مانگتا جا رہا تھا تم اسی طرح اٹھا (اٹھا کردیتے رہتے تو تم دیکھ لیتے کی خداوند کریم اپنی قدرت سے معجزہ کے طور پر بےحد و بےحساب دست مہیا فرماتا، لیکن چونکہ تمہاری نظر صرف ظاہر پر تھی اور تم نے یہ سوچ کر کہ بکری کے صرف دو ہی دست ہوتے ہیں اب کہاں سے لا کر دوں گا اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور جب تم نے خود ہی ہاتھ کھینچ لیا اور یہ جواب دے دیا تو ادھر سے بھی امداد غیبی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واقعی سب دست ختم ہوگئے یہاں ایک ہلکا سا خلجان واقع ہوسکتا ہے کہ جب باری تعالیٰ کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کی خواہش کی تکمیل کی خاطر غیبی طور پر بکری کے دست کا انتظام کیا جا رہا تھا تو محض ابورافع کے جواب دے دینے سے وہ سلسلہ رک کیوں گیا اور پھر دست ظاہر کیوں نہیں فرمائے گئے۔ جواب یہ ہے کہ باری تعالیٰ کی جانب سے تمام اعزازو کرامات اور فضل و عنایات محض خالص نیت اور توجہ الی اللہ کی بناء پر ہوتی ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کی توجہ الی اللہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضوری قلب میں ابورافع کے جواب سے کچھ فرق آگیا ہو اس لئے آپ ان کے جواب کے رد کی طرف متوجہ ہوگئے تھے، چناچہ ادھر سے بھی ہاتھ روک لیا گیا اور دست ختم ہوگئے۔

【43】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت انس ابن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں، ابی بن کعب اور ابوطلحہ (رض) بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے گوشت روٹی کھائی (کھانے سے فارغ ہو کر) میں نے وضو کے لئے پانی منگوایا ابی بن کعب اور طلحہ (رض) نے کہا تم وضو کیوں کرتے ہو میں نے کہا اس کھانے کی وجہ سے جو میں نے ابھی کھایا ہے ان دونوں نے کہا کیا تم پاک چیزوں کے کھانے سے وضو کرتے ہو ان چیزوں کو کھا کر اس آدمی نے وضو نہیں کیا جو تم سے بہتر ہیں (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ۔ (مسند احمد بن حنبل)

【44】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ مرد کا اپنی عورت سے بوسہ لینا یا اس کو اپنے ہاتھ سے چھونا یہ بھی ملامست ہے اور جس آدمی نے اپنی عورت کا بوسہ لیا یا اس کو ہاتھ سے چھوا تو اس پر وضو واجب ہے۔ (مالک، شافعی) تشریح قرآن مجید میں جس جگہ ان چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو وضو کو توڑنے والی ہیں انہیں ایک چیز ناقض وضو یہ بھی بتائی گئی ہے کہ اَوْلَمَسْتُمُ النِّسَآئَ ۔ یعنی تم عورت سے ملامست کرو۔ ملامست کا حقیقی مفہوم کیا ہے ؟ اور اس کا محل کیا ہے ؟ اسی میں اختلاف ہو رہا ہے، امام شافعی (رح) تو یہ فرماتے ہیں کہ ملامست کے معنی عورت کو ہاتھ لگانا ہے، تو گویا اس طرح امام شافعی (رح) کے نزدیک عورت کو محض ہاتھ لگانے کے بعد اگر کسی آدمی کا وضو ہے تو وہ ٹوٹ جائے گا لہٰذا اگر وہ نماز پڑھنا چاہے تو اس کو دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے مذکورہ بالا ارشاد کا مفہوم بھی یہی ہے جو حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک کی تصدیق کر رہا ہے چناچہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) یہی فرما رہے ہیں کہ عورت کو صرف ہاتھ لگانا، یا عورت کا بوسہ لینا ملامست میں داخل ہے جس کو قرآن میں ناقض وضو فرمایا گیا ہے۔ ہمارے امام صاحب ملامست کے معنی قرار دیتے ہیں جماع اور ہمبستری یعنی قرآن میں ملامست عورت کا جو ذکر کیا گیا ہے اور جسے ناقض و جو کہا گیا ہے اس سے جماع اور ہمبستری مراد ہے۔ امام اعظم نے اپنے اس مسلک کی تصدیق میں دلائل کا ایک ذخیرہ جمع کردیا ہے جو فقہ کی کتابوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔

【45】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

اور حضرت ابن مسعود (رض) فرمایا کرتے تھے کہ مرد کو اپنی عورت کا بوسہ لینے سے وضو لازم آتا ہے۔ (مؤطا امام مالک) اور حضرت عبداللہ ابن عمر راوی ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب نے فرمایا کہ بوسہ لینا لمس میں داخل ہے (جو قرآن میں مذکور ہے) لہٰذا بوسہ لینے کے بعد وضو کیا کرو۔ تشریح حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ امام شافعی (رح) کا مسلک ہے۔ ہمارے امام صاحب (رح) کے نزدیک چونکہ عورت کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لئے ان روایتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اوّل تو یہ تمام روایتیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر موقوف ہیں یعنی یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال ہیں اس لئے ان کا حکم حدیث مرفوع یعنی رسول اللہ ﷺ کے ارشاد جیسا نہیں ہوسکتا دوسرے ان کے نزدیک یہ روایتیں درجہ صحت کو بھی نہیں پہنچی ہوئی ہیں۔ پھر اس سے قطع نظر رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث موجود ہے جو پہلے ذکر کی گئی اور جس کو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے روایت کیا ہے کہ اس سے بصراحت یہ مفہوم ہوتا ہے کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، نیز اس کے علاوہ مسندابی حنیفہ میں ایک دوسری حدیث مذکور ہے جسے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے روایت کیا ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا لیس فی القبلۃ وضو یعنی بوسہ لینے سے وضو لازم نہیں ہوتا جسے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے روایت کیا ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا لیس فی القبلۃ وضو یعنی بوسہ لینے سے وضو لازم نہیں ہوتا گویا اس حدیث نے بھی اس بات کی تصدیق کردی کہ عورت کو چھونے یا اس کا بوسہ لینے کو ناقض وضو کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔

【46】

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) (امیر المومنین حضرت عمر ابن عبدالعزیز اموی (رح) ایک مشہور خلیفہ ہیں اور رجب ١٠١ ھ میں اس جہاں فانی سے رحلت فرما گئے) ۔ تمیم داری ( اسم گرامی تمیم بن اوس الداری ہے ٩ ھ میں مشرف با اسلام ہوئے ہیں حضرت عثمان غنی (رض) کی شہادت کے بعد شام میں ان کی وفات ہوئی) ۔ سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر بہنے والے خون سے وضو لازم آتا ہے کہ ان دونوں روایتوں کو دارقطنی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز (رح) نے نہ تو تمیم داری سے سنا ہے اور نہ ہی انہیں دیکھا ہے نیز اس روایت کے دو راوی یزید ابن خالد اور یزید ابن محمد مجہول ہیں۔ تشریح حضرت امام اعظم (رح) کا یہی مسلک ہے کہ ہر بہنے والے خون سے وضو لازم آتا ہے یعنی اگر بدن کے کسی بھی حصہ سے خون نکلا اور نکل کر اس حصہ تک بہہ گیا جس کا دھونا وضو اور غسل میں ضروری ہوتا ہے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا چناچہ یہ حدیث امام صاحب کے مسلک کی دلیل ہے، امام صاحب کے علاوہ دیگر ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر خون، پیشاب یا پاخانہ کے راستہ سے نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے نکلا تو نہیں ٹوٹے گا۔ حضرت دار قطنی اس حدیث میں کلام فرما رہے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز (رح) نے نہ تو تمیم داری سے سنا ہے اور نہ انہیں دیکھا ہے اس لئے حدیث مرسل ہے، نیز اس حدیث کے دو راوی یزید بن خالد اور یزید بن محمد کے مجہول میں گویا ان کا مقصد اس کلام سے یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ کلام ہو اس کو امام صاحب کا اپنے مسلک کی دلیل بنانا کوئی وزنی بات نہیں ہے۔ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حدیث مرسل نہ صرف یہ کہ ہمارے ہی نزدیک بلکہ جمہور علماء کے نزدیک بھی دلیل اور حجت بن سکتی ہے اسی طرح یزید ابن خالد اور یزید بن محمد کے مجہول ہونے میں بھی اختلاف ہے بعض حضرات نے تو انہیں مجھول قرار دیا ہے جیسا کہ دارقطنی فرما رہے ہیں مگر بعض حضرات نے انہیں مجہول نہیں کہا ہے اس سے قطع نظر امام صاحب کی اصل دلیل تو یہ حدیث ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے مَنْ قَاءَ اَوْرَعُفُ اَوْ اَمْذَی فِی صَلٰوتِہ فَلْیَنْصَرِفْ وَلْیَتَوَضَّأ وَلْیَبْنِ عَلَی صَلٰوتِہ مَالَمْ یَتَکَلَّمْ ۔ (کذافی الھدایہ) اگر کسی آدمی نے اپنی نماز میں قے کی یا اس کی نکسیر پھوٹی یا مذی نکلی تو اس کو چاہئے کہ وہ نماز سے نکل کر آئے اور پھر وضو کرے اور جب تک کہ کلام نہ کرے اسی نماز پر بناء کرے۔ نیز ابوداؤد میں بھی اس مضمون کی حدیث منقول ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ پیشاب اور پاخانہ کے مقام کے علاوہ بدن کے کسی دوسرے حصہ سے بھی خون نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

【47】

پاخانہ کے آداب کا بیان

آداب ان چیزوں کو کہتے ہیں کہ جس کا ذکر کرنا اچھا اور بہتر ہو وہ چیزیں خواہ عمل سے تعلق رکھتی ہوں خواہ قول سے چناچہ اس بات میں ان احادیث کو ذکر کیا جا رہا ہے جن کا تعلق استنجاء کے آداب سے ہے یعنی ان چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جو استنجاء کے سلسلے میں ممنوع و مکر وہ ہیں اور ان چیزوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو استنجاء میں مطلوب و مستحب ہیں۔

【48】

پاخانہ کے آداب کا بیان

حضرت ابوایوب انصاری (اسم گرامی خالد ابن زید ہے اور کنیت ابوایوب ہے ٥٠ ھ یا ٥١ ھ میں ان کا انتقال ہے) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم بیت الخلاء جاؤ تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرو بلکہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت رکھو (صحیح البخاری و صحیح مسلم) حضرت امام محی السنۃ فرماتے ہیں کہ یہ جنگل کا حکم ہے ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں اپنی ضرورت سے حفصہ کے مکان پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو (بیت الخلاء میں) قضاء حاجت کرتے دیکھا، آپ ﷺ قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح حدیث میں جہت اور سمت کا جو تعین فرمایا گیا ہے وہ اہل مدینہ کے اعتبار سے یا ان لوگوں کے لئے جو اسی سمت رہتے ہیں اس لئے کہ مدینہ میں قبلہ جنوب کی طرف پڑتا ہے اس لئے ان کو تو مشرق اور مغرب ہی کی طرف منہ اور پشت کرنی ہوگی، ہمارے ملک والوں کے لئے یا ان ممالک کے لئے جو اس سمت میں واقع ہیں ان کو مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت نہ کرنی چاہئے کیونکہ یہاں کے اعتبار سے قبلہ مغرب کی طرف پڑتا ہے۔ بہر حال۔ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، ہمارے امام صاحب تو فرماتے ہیں کہ پیشاب، پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف نہ منہ کرنا چاہئے خواہ جنگل ہو یا آبادی و گھر ہو، اگر کرے گا تو مرتکب حرام ہوگا۔ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک قبلہ کی طرف منہ اور پشت کرنا جنگل میں تو حرام ہے آبادی و گھر میں حرام نہیں ہے۔ حضرت امام اعظم (رح) کی دلیل پہلی حدیث ہے جو ابوایوب انصاری (رض) سے منقول ہے اس حدیث میں قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرنے کا حکم مطلقاً ہے اس میں جنگل و آبادی و گھر کی کوئی قید نہیں ہے لہٰذا جو حکم جنگل کا ہوگا وہی حکم آبادی کا بھی ہوگا یہ حدیث نہ صرف یہ کہ حضرت ابوایوب ہی سے منقول ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی تعداد اس کی روایت کرتی ہے۔ پھر امام صاحب کی دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرنے کا حکم قبلہ کی تعظیم و احترام کے پیش نظر دیا ہے لہٰذا جس طرح جنگل میں تعظیم قبلہ ملحوظ رہے گا اسی طرح آبادی و گھر میں بھی احترام قبلہ کا لحاظ ضروری ہوگا جیسا کہ قبلہ کی طرف تھوکنا اور پاؤں پھیلانا ہر جگہ منع ہے۔ امام محی السنۃ نے حضرت عبداللہ بن عمر فاروق (رض) کی جو حدیث روایت کی ہے وہ حضرت امام شافعی (رح) کی دلیل ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پشت کرنا گھر میں جائز ہے۔ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اول تو یہ ہوسکتا ہے کہ عبداللہ بن عمر فاروق (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو گھر میں بیت الخلاء کے اندر قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے اس حکم کے نفاذ سے پہلے دیکھا ہوگا، لہٰذا یہ حکم پہلے کے لئے ناسخ ہے، پھر دوسرے یہ کہ رسول اللہ ﷺ قبلہ کی طرف منہ کئے ہوئے نہیں بیٹھے ہوں گے بلکہ آپ ﷺ اس انداز سے گھوم کر بیٹھے ہوں گے کہ حقیقت میں قبلہ کی طرف پشت نہ ہوگی اور ظاہر ہے کہ موقع کے نزاکت کے پیش نظر عبداللہ بن عمر فاروق (رض) نے وہاں کھڑے ہو کر بغور تو آپ ﷺ کو دیکھا نہیں ہوگا، بلکہ جب یہ چھت پر چڑھے تو ان کی نظر اچانک ادھر بیت الخلاء کی طرف اٹھ گئی ہوگی اس لئے اس میں سرسری طور پر عبداللہ بن عمر (رض) آپ ﷺ کی نشست کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے اس حدیث کے بارے میں جب یہ احتمال بھی نکل سکتا ہے تو پھر حضرت شافعی (رح) کو اپنے مسلک کی دلیل کے لئے اس کا سہارا لینا کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔

【49】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت سلمان (اسم گرامی سلمان فارسی اور کنیت ابوعبداللہ ہے۔ ان کی وفات ٣٥ ھ حضرت عثمان کی خلافت کے آخری زمانہ میں ہوئی ہے بعض لوگوں نے کہا کہ ٣٦ ھ کے اوائل میں ہوئی ہے) ۔ فرماتے ہیں سرکار دو عالم ﷺ نے ہمیں منع کیا ہے اس سے کہ ہم پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں اور اس سے کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجاء کریں اور اس سے کہ ہم تین ڈھیلوں سے کم استنجاء کریں اور اس سے کہ ہم گوبر یا ہڈی سے استنجاء کریں۔ (صحیح مسلم) تشریح ہمارے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھنا مکروہ تحریمی ہے اور دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا مکرہ تنزیہی ہے گویا پہلی نہی تو تحریمی ہے او دوسری تنزیہی ہے۔ اتنی بات جان لینی چاہئے کہ استنجاء کرنے کے وقت پیشاب گاہ کو دایاں ہاتھ نہ لگانا چاہئے بلکہ طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ ڈھیلا بائیں ہاتھ میں لے کر اس پر پیشاب گاہ کو رکھ لے مگر دائیں ہاتھ سے پکڑ کر نہ رکھے کیونکہ یہ بھی مکروہ ہے۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک تین ڈھیلوں سے استنجاء کرنا واجب ہے مگر ہمارے امام صاحب فرماتے ہیں کہ استنجاء کے لئے تین ڈھیلے لینا شرط نہیں ہے اگر تین سے کم ہی میں پاکی حاصل ہوجائے تو یہ بھی کافی ہے ان کی دلیل صحیح البخاری کی یہ حدیث ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ سرکار دو عالم ﷺ پاخانہ کیلئے تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ تین ڈھیلے لاؤ مجھے ڈھیلے تو دو ہی ملے اس لئے میں اس کے ساتھ گوبر کا ایک ٹکڑا بھی لایا، رسول اللہ ﷺ نے دونوں ڈھیلے تو لے لئے اور گوبر کے ٹکڑے کو پھینک دیا۔

【50】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب پاخانہ میں داخل ہوتے (یعنی داخل ہونے کا ارادہ کرتے) تو یہ دعا پڑھتے اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ناپاک جنوں اور جنیوں (یعنی نرما و مادہ دونوں سے) ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح آداب پاخانہ میں سے یہ ہے کہ جب کوئی آدمی پاخانہ کے لئے بیت الخلاء میں جائے تو اندر داخل ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھ لینی چاہئے، اگر پاخانہ کے لئے جنگل میں جائے تو عین ارادہ کے وقت یعنی دامن وغیرہ سمیٹ کر بیٹھنے لگے اس وقت یہ دعا پڑھ لے۔

【51】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم ﷺ دو قبروں کی پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے (انھیں دیکھ کر) فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں پر عذاب نازل ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑی چیز پر نہیں نازل ہو رہا ہے (کہ جس سے بچنا مشکل ہو) ان میں ایک تو پیشاب سے نہیں بچتا تھا مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک ترشاخ لی اور اس کو بیچ سے آدھیوں آدھ چیرا انہیں ایک ایک کر کے دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ( یہ دیکھ کر) پوچھا یا رسول اللہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا شاید (اس عمل سے) ان کے عذاب میں (اس وقت تک کے لئے) کچھ تخفیف ہوجائے جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح مسلم کے الفاظ کی مناسبت سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلا آدمی جس پر اس کی قبر میں عذاب نازل ہو رہا تھا وہ تھا جو پیشاب سے پچتا نہیں تھا یعنی پیشاب کرتے وقت اس بات کی احتیاط نہیں کرتا تھا کہ چھینٹیں اس کے اوپر نہیں پڑتیں ایک دوسری روایت میں لا یستبراء کے الفاظ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آدمی پیشاب سے پاکی طلب نہیں کرتا تھا نیز ایک روایت میں لا یستنتر کے الفاظ مذکور ہیں استنا کے معنی آتے ہیں عضو تناسل کو زور سے جھاڑنا یا کھنچنا تاکہ پیشاب کے جو قطرے اندر رہ گئے ہوں وہ نکل جائیں اس طرح معنی یہ ہوں گے وہ آدمی پیشاب گاہ کو اچھی طرح جھاڑ کر پیشاب کے قطروں کو نکالتا نہ تھا۔ بہر حال ان تمام الفاظ کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہے، مطلب سب کا یہی ہے کہ وہ پیشاب سے پاکی اور صفائی حاصل نہیں کرتا تھا اور چونکہ پیشاب سے پاکی حاصل نہ کرنا گناہ کبیرہ اور نماز کے بطلان کا سبب ہے اس لئے اسے اللہ کی جانب سے عذاب میں گرفتار کیا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک خاص بات ضروری ہے کہ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ غلط اور گمراہ کن خیال پیدا ہوگیا ہے کہ چونکہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ڈھیلے سے پیشاب خشک کرتے تھے اس لئے ہر آدمی کو چاہئے کہ پیشاب کے بعد ڈھیلے کا استعمال نہ کرے، یہ انتہائی گمراہی اور کم عقلی کی بات ہے، اگر کسی آدمی کا مزاج ہی اتنا قوی اور مضبوط ہو، نیز اسے اس بات کا یقین ہو کہ پیشاب سے فارغ ہوجانے کے بعد قطرے نہیں آئیں گے تو البتہ اس کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ صرف پانی سے استنجاء کرلے ڈھیلے کا استعمال کرنا اس کے لئے ضروری نہیں ہوگا اور جس کے قطرہ دیر تک آتا ہو جیسا کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے تو پھر اگر وہ ڈھیلے کا استعمال کرنا اس کے لئے ضروری نہیں ہوگا اور جس کے قطرہ دیر تک آتا ہو جیسا کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے تو پھر اگر وہ ڈھیلے کا استعمال نہ کرے صرف پانی سے پاک کرے گا تو اس کے پائجامہ اور کپڑا وغیرہ گندا اور ناپاک ہوگا، جہاں تک حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس کا سوال ہے تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ چونکہ آپ ﷺ کا مزاج مبارک مضبوط اور قوٰی انتہائی طاقتور تھے اس لئے آپ ڈھیلے کا استعمال نہیں فرماتے تھے صرف پانی ہی سے استنجاء پاک کرلیتے تھے۔ پھر دوسرے یہ کہ وہ فعل جو رسول اللہ ﷺ سے خود ثابت نہ ہو مگر اس کا کرنا کسی نہ کسی وجہ سے مطلوب اور ضروری ہو تو اسے یہ کہہ کرنا قابل اعتناء قرار نہیں دیا جاسکتا کہ یہ فعل چونکہ آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہے اس لئے ہم بھی اسے نہیں کرتے مثلاً آپ ﷺ نے فصد نہیں کرائی ہے اب اگر کسی دوسرے کو فصد کی حاجت ہو اور وہ یہ کہے کہ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے فصد نہیں کرائی ہے اس لئے میں فصد نہیں کراتا تو ظاہر ہے کہ یہ بات اسی کے لئے نقصان دہ ہوگی۔ بہر حال مقصد یہ ہے کہ نظر شارع کی غرض پر ہونی چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ شارع کا اصل مقصد کیا ہے اور وہ ظاہر ہے کہ طہارت ہے جس کی ہمیں تاکید کی گئی ہے اس لئے ہمیں تو طہارت حاصل کرنی چاہئے خواہ وہ کسی طرح حاصل ہو پانی سے حاصل ہو یا ڈھیلے سے اس قسم کے بیہودہ احتمالات نکال کر اور غلط حیلہ و بہانہ کر کے اپنے کپڑوں کو گندہ کرنا اور نجاست میں اپنے آپ کو ملوث کرنا اور پھر اسی طرح نماز پڑھنا انتہائی غلط اور گمراہی کی بات ہے، پیشاب سے بچنے اور اس سے احتیاط کرنے کی کتنی اہمیت ہے ؟ اس کا اندازہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا عذاب قبر اکثر پیشاب کی بناء پر ہوتا ہے (اس لئے) پیشاب سے پاکی حاصل کرو۔ یا اسی طرح فرمایا پیشاب سے پرہیز کرو اس لئے کہ وہ اس چیز کا اول ہے جس کی وجہ سے بندہ قبر میں حساب (کی سختی) میں گرفتار ہوگا (طبرانی) پھر اس کے علاوہ ایک چیز یہ بھی ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ پیشاب کے بعد ڈھیلا استعمال کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ صحابی کا فعل حجت ہے اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفائے راشدین کی سنت کو بھی لازم پکڑو۔ چنانچہ حضرت عمر کے (رض) کے بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ میں منقول ہے کہ ابوبکر عن یسار، بن نمیر کان عمر اذا بال مسح زکرہ بحائط او حجرلم یمسہ مائ۔ حضرت عمر فاروق جب پیشاب کرتے تھے تو اپنا عضو تناسل دیوار پر یا پتھر پر پھیر تے تھے اور اس پر پانی لگاتے بھی نہیں تھے۔ نیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ پر کہ پیشاب کے بعد ڈھیلا استعمال کرنا چاہئے اہل سنت کا اتفاق و اجماع ہے، واللہ علم تمیمۃ کے معنی ہیں سخن چینی، یعنی کوئی آدمی ایسے دو آدمیوں کی بات جن میں آپس میں دشمنی ہو ایک دوسرے تک فساد پھیلانے کے لئے پہنچائے یا کوئی آدمی دو آدمیوں میں دشمنی پیدا کرائے اس طرح کہ ایک کی بات دوسرے کے پاس قسم اور گالی وغیرہ اس انداز سے نقل کرے جس سے اشتغال پیدا ہو۔ امام نووی (رح) فرماتے ہیں کہ نمیمہ کہ معنی یہ ہیں کہ کسی کی گفتگو کسی دوسرے آدمی سے ضرر پہنچانے کے لئے نقل کی جائے بہر حال آج کل عرف عام ہے جسے چغل خوری فرماتے ہیں وہی معنی نمیمہ کے ہیں چغل خوری چونکہ انسانی اور اخلاقی نقطہ نظر سے انتہائی بدترین اور کمینی خصلت ہے اور اس لئے اسلام بھی چغل خور کو انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور چغل خوری کو ایک بدتر برائی قرار دیتا ہے چناچہ صحیحین میں منقول ہے کہ جنت میں چغل خور داخل نہیں ہوگا۔ حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ کعب احبار سے جو ایک بڑے یہودی عالم تھے اور بعد میں اسلام لائے، پوچھا کہ تم نے توریت میں سے سب سے بڑا گناہ کون سا پڑھا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ چغل خوری ۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ کہ اس کا گناہ قتل کے گناہ سے بھی زیادہ ہیبت ناک ہے ! انہوں نے کہا قتل بھی چغل خوری ہی سے ہوتے ہیں اور دوسری برائیاں بھی اسی سے پیدا ہوتی ہیں۔ حدیث کے آخر میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے کھجور کی ترشاخ لے کر اس کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ان دونوں قبروں پر گاڑ دیا اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سوال پر آپ ﷺ نے اس کی وجہ یہ فرمائی کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی اس وقت کے لئے ان کے عذاب میں شاید کچھ تخفیف ہوجائے تو عذاب کے تخفیف کا سبب علماء یہ لکھتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے جب اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھا کہ یہ اللہ کے عذاب میں گرفتار ہیں تو سرکار دو عالم ﷺ کی شان رحمت اسے برداشت نہ کرسکی، آپ ﷺ نے بارگاہ الوہیت میں ان کے لئے رحم و کرم کی درخواست کی، ادھر غفور الرحیم نے بھی اپنے حبیب کی درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا اور فیصلہ صادر فرمایا دیا کہ جب تک ان پر گاڑی ہوئی شاخیں خشک نہ ہوں اس وقت تک ان دونوں پر عذاب میں کمی کردی جائے۔ چنانچہ اس کی وضاحت بھی ایک دوسری روایت میں موجود ہے جسے مسلم نے نقل کیا ہے اس کے آخری الفاظ یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میری شفاعت قبول فرما لی ہے کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی یہ عذاب میں گرفتار نہیں رہیں گے۔ بہرحال بظاہر تو اس کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے جس کی تصدیق بھی مسلم کی اس روایت سے ہوجاتی ہے، ویسے علماء نے اس کے علاوہ بھی بہت سے اسباب لکھے ہیں جو دیگر کتابوں اور شروح میں وضاحت کے ساتھ منقول ہیں چناچہ کرمانی کا قول ہے کہ تخفیف عذاب کا سبب وہ تر شاخ تھی کہ اس کے اندر رفع عذاب کی خاصیت تھی مگر یہ خاصیت اس کی بنفسہ نہیں تھی بلکہ یہ خاصیت اسے سرکار دو عالم ﷺ کے دست مبارک کی برکت کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء اور صلحاء اور اللہ کے نیک بندوں کو چاہئے کہ وہ قبور پر جایا کریں تاکہ ان کی وجہ سے اہل قبور کے عذاب میں تخفیف ہو کیونکہ صالحین کا قبروں پر جانا مردوں کے عذاب میں تخفیف کا باعث ہوتا ہے۔

【52】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم ان دو چیزوں سے بچو جو لعنت کا سبب ہیں صحابہ نے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ چیزیں کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ایک تو یہ ہے کہ کوئی آدمی لوگوں کے راستہ میں پاخانہ کرے، دوسرے یہ کہ کوئی آدمی لوگوں کے سایہ کے نیچے پاخانہ کرے۔ (صحیح مسلم) تشریح علماء کرام نے اس ارشاد کی یہ وضاحت کی ہے کہ راستہ سے مراد شاہراہ ہے یعنی ایسا راستہ اور ایسی سڑک وغیرہ جس پر لوگ اکثر چلتے پھرتے ہوں یہاں وہ راستہ مراد نہیں ہے جو ویران پڑا رہتا ہو یا کبھی کبھی اس پر کوئی اکا دکا آدمی چلتا پھرتا ہو۔ سایہ مراد وہ سایہ دار درخت ہے یا سائبان ہے جس کے نیچے لوگ اٹھتے بیٹھے ہوں، یا وہ لوگوں کے سونے کی جگہ ہو بہر حال ان دونوں جگہوں پر پاخانہ کر کے گندگی اور غلاظت پھیلانے سے منع کیا جا رہا ہے، اس لئے کہ اس سے اللہ کی مخلوق کی ایذاء رسانی کا سامان ہوتا ہے اور لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایک مومن و مسلمان کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ کسی دوسرے آدمی کی تکلیف و پریشانی کا سبب بنے۔

【53】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت ابوقتادہ (رض) (اسم گرامی حارث بن ربعی ہے انصاری اور خزرجی ہیں آپ اپنی کنیت ابوقتادہ سے مشہور ہیں) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی پانی پیئے تو (پانی پینے کے) برتن میں سانس نہ لے اور جب پاخانہ میں جائے تو داہنے ہاتھ سے عضو مخصوص کو نہ چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس حدیث میں دو ادب بتائے جا رہے ہیں پہلی چیز تو یہ بتائی جا رہی ہے کہ جب کوئی آدمی پانی پئے تو اسے چاہئے کہ وہ پانی پینے کے دوران اسی برتن میں سانس نہ لے جس میں وہ پانی پی رہا ہے جب اسے سانس لینا ہو تو برتن کو منہ سے جدا کر دے تاکہ منہ یا ناک سے کوئی چیز نکل کر پانی میں نہ گرپڑے۔ دوسرے چیز یہ بتائی جا رہی ہے کہ جو کوئی آدمی پاخانہ جاے تو اسے چاہئے کہ وہ داہنے ہاتھ سے نہ تو اپنے عضو مخصوص کو چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے اسنتجاب کرے، اس لئے کہ داہنے ہاتھ سے کھانا وغیرہ کھایا جاتا ہے اور یہ چیز صفائی اور پاکیزگی کے خلاف ہے کہ جس ہاتھ سے کھانا وغیرہ کھایا جائے اسی ہاتھ سے ایسے اعضاء کو چھوا جائے جس سے گندگی اور غلاظت لگتی ہو۔

【54】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو آدمی وضو کرے تو اسے چاہئے کہ وہ ناک کو بھی جھاڑ دے اور جو آدمی (پاخانہ کے بعد ڈھیلے سے) استنجاء کرے اسے چاہئے کہ طاق ڈھیلے لے (یعنی تین، یا پانچ، یا سات۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

【55】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب پاخانہ کے لئے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک لڑکا (یعنی حضرت بلال یا حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) پانی کی چھاگل اور ایک برچھی لیتے، آپ ﷺ (ڈھلیوں سے صفائی کے بعد) پانی سے استنجاء کرتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب آپ پاخانہ کے لئے تشریف لے جاتے تو ایک خادم پانی کا برتن اٹھاتے اور دوسرے خادم ایک برچھی ساتھ لے کر چلتے، برچھی اس لئے ساتھ لے جاتے کہ اس سے زمین کو کھود کر نرم کردیا جائے تاکہ پیشاب اس میں کریں جس کی وجہ سے چھینٹیں نہ پڑیں یا زمین پر بہہ کر پاؤں وغیرہ میں لگنے کا خدشہ نہ رہے۔ دوسری غرض یہ ہوتی تھی کہ بوقت ضرورت اس سے ڈھیلے اکھاڑے اور توڑے جاسکیں یا پھر یہ کہ وقت پر کوئی دوسری ضرورت پیش آئے جس میں اس کی ضرورت پڑے تو اس میں کام آسکے۔

【56】

پاخانہ کے آداب کا بیان

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب بیت الخلاء تشریف لے جاتے تو اپنی انگوٹھی اتار دیا کرتے تھے (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) اور جامع ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور ابوداؤد نے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے نیز ان کی روایت لفظ نزع کے بجائے لفظ وضع ہے۔ تشریح بیت الخلاء میں داخل ہونے کے وقت آپ انگوٹھی اس لئے اتار دیا کرتے تھے کہ آپ ﷺ کی انگوٹھی میں محمد رسول اللہ کھدا ہوا تھا، اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ استنجاء کرنے والے پر واجب ہے کہ جب وہ بیت الخلاء جائے تو اپنے ہمراہ کوئی ایسی چیز نہ لے جائے جس پر اللہ اور اس کے رسول کا نام نقش ہو نیز قرآن بھی نہ لے جائے۔ (طیبی) بلکہ ابہری (رح) نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر صرف دوسرے رسولوں ہی کا نام لکھا ہوا ہو تو اسے بھی اپنے ہمراہ بیت الخلاء میں نہ لے جائے ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جب کوئی آدمی استنجاء کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ اپنے بدن سے ایسی چیزوں کو اتار دے یا الگ کر دے جن پر کوئی قابل تعظیم چیز لکھی ہو، خواہ اللہ تعالیٰ کا نام ہو یا نبی اور فرشتے کا نام لکھا ہو۔ اگرچہ اس حدیث میں سنن ابوداؤد نے کلام کیا ہے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا جاسکتا ہے اس سلسلہ میں ملا علی قاری (رح) نے ایک مفصل بحث کی ہے، نیز یہ حدیث جامع صغیر میں بھی حاکم وغیرہ سے منقول ہے۔

【57】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت جابر (رح) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب پاخانہ کے لئے (جنگل میں) جانے کا ارادہ کرتے تو (اتنی دور) تشریف لے جاتے کہ آپ کو کوئی نہ دیکھتا ۔ (ابوداؤد)

【58】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت ابوموسی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن میں سرکار دو عالم ﷺ کے ہمراہ تھا آپ ﷺ نے پیشاب کرنے کا ارادہ فرمایا چناچہ آپ ﷺ ایک دیوار کی جڑ میں (یعنی اس کے قریب) نرم زمین پر پہنچے اور پیشاب کیا، پھر پیشاب سے فراغت کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ پیشاب کے لئے نرم زمین تلاش کرے تاکہ چھینٹیں نہ پڑیں۔ (ابوداؤد) تشریح خطابی (رح) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے جس دیوار کے پاس بیٹھ کر پیشاب کیا وہ دیوار کسی کی ملکیت میں نہیں ہوگی اس لئے کہ دیوار کی جڑ میں پیشاب کرنا دیوار کے نقصان کا سبب ہوتا ہے کیونکہ دیوار کی مٹی کو شورا لگ جاتا ہے اس لئے یہ مسئلہ ہے کہ جو دیوار کسی کی ملکیت میں ہو اس کے نیچے بیٹھ کے مالک کی اجازت کے بغیر پیشاب نہیں کرنا چاہئے اب اس میں وسعت ہے کہ اجازت خواہ حقیقۃً ہو یا حکماً ۔

【59】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب استنجاء کا ارادہ فرماتے تو جب (بیٹھنے کے لئے) زمین سے قریب نہ ہوجاتے کپڑا نہ اٹھاتے تھے۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد، دارمی) تشریح یہ بھی استنجاء کے ادب اور شرم و حیاء کا تقاضہ ہے کہ بغیر ضرورت ستر نہ کھولے اور ظاہر ہے کہ ضرورت جب ہی پڑتی ہے جب کہ استنجاء کے لئے بیٹھنے کے وقت زمین کے بالکل قریب ہوجائے چناچہ رسول اللہ و ﷺ کا یہی معمول تھا کہ جب آپ ﷺ بیٹھنے کے وقت زمین سے بالکل متصل نہ ہوجاتے کپڑا اوپر نہ اٹھاتے تھے۔ چنانچہ یہ مسئلہ ہے کہ بیٹھنے سے پہلے یعنی کھڑے ہی کھڑے ستر کا کھول دینا جائز نہیں ہے، خواہ گھر کے بیت الخلاء کے اندر پاخانہ کرنا ہو یا جنگل میں کرنا ہو۔

【60】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا (تعلیم و نصیحت کے سلسلہ میں) تمہارے لئے ایسا ہی ہوں جیسے باپ بیٹے کے لئے ہوتا ہے، چناچہ میں سکھاتا ہوں کہ جب تم پاخانہ میں جاؤ تو قبلہ کی طرف نہ تو منہ کرو اور نہ پشت کرو (اس کے بعد) آپ ﷺ نے (پاخانہ کے بعد) تین ڈھلیوں سے استنجاء کرنے کا حکم فرمایا اور لید (یعنی تمام نجاستوں) اور ہڈی سے استنجاء کرنے کو منع فرمایا نیز آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے۔ (ابن ماجہ، دارمی) تشریح اس حدیث سے جہاں اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ امور دین اور نصیحت کے سلسلہ میں اپنی امت سے رسول اللہ ﷺ کو کتنا شغف اور تعلق تھا آپ ﷺ نے اپنے آپ کو باپ اور امت کو اولاد کی مثل قرار دیا، وہیں حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد کو باپ کی اطاعت کرنی لازم ہے اور باپ پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ان چیزوں کے آداب سکھائیں جو ضروریات دین سے ہیں۔

【61】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کا داہنا دست مبارک وضو کرنے اور کھانے کے لئے تھا اور بایاں ہاتھ استنجاء اور ہر مکروہ کام کے استعمال کے لئے تھا۔ (ابوداؤد) تشریح آپ ﷺ دائیں ہاتھ سے وضو کرتے تھے اور اس سے کھانا بھی کھاتے نیز جتنے اچھے کام ہیں سب دائیں ہاتھ سے انجام دیتے تھے مثلاً یہ، صدقہ و خیرات کرنا یا دوسری چیزیں لینا دینا وغیرہ وغیرہ اور بائیں ہاتھ کو استنجاء کرنے یا ایسی چیزوں کی انجام دہی میں استعمال فرماتے جو مکروہ ہوتیں یعنی ایسی چیزیں جو طبعاً مکروہ ہوں، جیسے ناک سنکنی یا ایسے ہی دوسری چیزیں جنہیں نفس مکروہ سمجھتا ہو۔ اس حدیث سے ظاہری طور پر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ وضو وغیرہ کے وقت آپ ﷺ ناک میں پانی دائیں ہاتھ سے دیتے ہوں گے اور ناک بائیں ہاتھ سے صاف کرتے ہوں گے، مگر۔ افسوس کہ جس طرح آج کے دور میں عقل و دین سے بیگانہ لوگوں نے دوسری اسلامی چیزوں کو ترک کردیا اور دینی آداب کو فیشن پرستی کے بھینٹ چڑھا دیا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی اکثر لوگ بالکل برعکس عمل اختیار کئے ہوئے ہیں مثلاً آج کل یہ بہت بڑا مرض عام طور پر لوگوں میں سرایت کرچکا ہے کہ کتاب تو لوگ بائیں ہاتھ میں رکھتے ہیں اور اپنے جوتے دائیں ہاتھ میں اٹھاتے ہیں اب اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یا تو ایسے لوگ آداب شریعت سے قطعاً ناواقف ہوتے ہیں یا پھر نفس کی گمراہی میں پھنس کر غفلت اختیار کئے ہوئے ہیں۔

【62】

پاخانہ کے آداب کا بیان

حضرت عائشہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی پاخانہ کے لئے جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ساتھ تین پتھر (یا ڈھیلے) لے جائے جو کافی ہوں گے (یعنی پانی کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی) تشریح اصل مقصد تو نجاست سے پاکی حاصل کرنا ہے اور جب تین ڈھیلے سے استنجاء کرے گا اور نجاست صاف کرے گا تو پانی سے استنجاء کی حاجت نہیں رہے گی کیونکہ اصل طہارت اس سے حاصل ہوجائے گی جس سے نماز پڑھنی بھی جائز ہوجائے گی، البتہ ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی سے بھی اسنتجاء کرلے تو یہ اچھی بات ہوگئی کیونکہ پانی سے استنجاء کرنا مستحب ہے۔

【63】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم لوگ لید اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ (ہڈی) تمہارے بھائی جنات کی غذا ہے۔ (جامع ترمذی سنن نسائی مگر سنن نسائی نے زاد اخو انکم من الجن کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں) تشریح جس طرح شریعت محمدی کے مخاطب انسان ہیں اسی طرح جنات بھی ہیں اس لئے رسول اللہ ﷺ جس طرح انسانوں کی دنیوی اور دینی رہبری فرماتے ہیں اسی طرح جنات کی دینی و دنیوی امور کی بھی رعایت فرماتے ہیں چناچہ اس حدیث کے ذریعہ انسانوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ لید اور ہڈی سے استنجاء نہ کیا جائے کیونکہ ہڈی تو جنات کی غذا ہے اور لید ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔

【64】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت رویفع بن ثابت (رویفع بن ثابت بن سکن بن عدی بن حارثہ بنی مالک نجار سے ہیں ان کا شمار اہل مصر میں ہے) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا اے رویفع ! شاید میرے بعد تمہاری زندگی دراز ہو، لہٰذا تم لوگوں کو خبردار کرنا کہ جس آدمی نے اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگائی یا (گلے میں) تانت کا ہار ڈالا یا جانور کی نجاست (لید اور گوبر وغیرہ) اور ہڈی سے استنجاء کیا تو محمد ﷺ اس سے بیزار ہیں۔ (ابوداؤد) تشریح رسول اللہ ﷺ کا حضرت رویفع کو اس انداز سے مخاطب کرنے کا یہ معنی ہیں کہ شاید میرے انتقال کی بعد تمہاری زندگی دراز ہو اور تم دوسرے لوگوں کو گناہ کرتے اور رسوم جاہلیت میں انہیں مبتلا دیکھو تو ان باتوں سے انہیں خبردار کردینا ڈاڑھی میں گرہ لگانے کے کئی معنی ہیں، چناچہ اکثر علماء یہ لکھتے ہیں کہ ڈاڑھی میں گرہ لگانا یہ ہے کہ کوئی آدمی تدابیر اور تکلّف اختیار کر کے مثلاً گرہ وغیرہ لگا کر ڈاڑھی کے بالوں کو گھنگر یا لے بنائے چناچہ ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس سے سنت کی مخالفت لازم آتی ہے اس لئے کے ڈاڑھی کے بالوں کو سیدھا چھوڑنا سنت ہے۔ بعض علماء کرام نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو یہ عادت تھی کہ جنگ کے وقت اپنی ڈاڑھی کے بالوں میں گرہ دے لیتے تھے چناچہ اس سے منع فرمایا گیا ہے کیونکہ اس سے عورتوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔ کچھ علماء کرام نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ اہل عجم کی بھی عادت تھی کہ وہ اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگا لیتے تھے اس لئے اس سے منع فرمایا کیونکہ اس سے خلقت الہٰی میں تغیر لازم آتا ہے۔ (واللہ اعلم) لفظ وتر کے بھی کئی معنی ہیں، یا تو اس کے معنی دورے کے ہیں جس میں زمانہ جاہلیت کے لوگ دفع نظر اور آفات نظر سے محافظت کی خاطر تعویز اور گنڈے وغیرہ باندھ کر بچوں اور گھوڑوں کے گلوں میں ڈال دیتے تھے، اس منع فرمایا گیا ہے، بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس سے ڈورے مراد ہیں جن میں کفار گھنٹی اور گھنگر و بادندہ کر لٹکاتے تھے یا اس سے کمان کے وہ چلے مراد ہیں جو گھوڑے کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں تاکہ نظر نہ لگے، بہر حال، ان تمام رسموں سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے کیونکہ اس سے کافروں کی مشابہت ہوتی ہے اور رسول اللہ ﷺ کافروں کی مشابہت سے بیزار ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کفار کی ایسی چھوٹی چھوٹی رسمیں اختیار کرنا گناہ کبیرہ میں شامل نہیں ہیں رسول اللہ ﷺ کی بیزاری و ناراضگی کا سبب ہے، تو کفر کی وہ بڑی بڑی رسمیں جن میں بدقسمتی سے آج مسلمان مبتلا ہیں اور جن کا شمار بھی کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے ان سے سرکار دو عالم ﷺ کو کتنی زیادہ نفرت ہوگی اور ان رسموں کے کرنے والوں کا اللہ کے یہاں کیا انجام ہوگا ؟

【65】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو آدمی سرمہ لگائے تو اسے چاہئے کہ طاق سلائیاں لگائے جس نے ایسا کیا (یعنی طاق سلائیاں لگائیں) اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا تو کچھ گناہ نہیں ! اور جو آدمی استنجاء کرے تو اسے چاہئے کہ طاق ڈھیلے استعمال کرے ( یعنی تین پانچ یا سات) جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا کچھا گناہ نہیں ! اور جو آدمی کچھ کھائے جو چیز خلال میں نکلے تو اسے چاہئے کہ پھینک دے اور جو چیز زبان سے نکلے تو اسے چاہئے کہ نگل لے، جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا کچھ گناہ نہیں اور جو آدمی پاخانہ کے لئے جائے تو اسے چاہئے کہ پردہ کرے، اگر کوئی چیز پردہ کی نہ ملے تو (کم از کم) ریت کو جمع کر کے اس کا تودہ اپنے پیچھے کرلے اس لئے کہ شیطان بنی آدم (انسان) کے پاخانہ کے مقام پر کھیلتا ہے جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا کوئی گناہ نہیں ۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی) تشریح طاق سلائیوں سے سرمہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ تین سلائی ایک آنکھ میں لگائے، زیادہ بہتر یہی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی ایسا ہی معمول منقول ہے کہ آپ ﷺ کے پاس ایک سرمہ دانی تھی اس میں سے آپ سرمہ اس طرح لگاتے تھے کہ تین سلائی ایک آنکھ میں لگاتے اور تین سلائی دوسری آنکھ میں لگاتے۔ بعضوں نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ تین سلائیاں دائیں آنکھ میں لگائے اور دو سلائیاں بائیں آنکھ میں لگائے، نیز کچھ حضرات نے کہا ہے کہ پہلے دوسلائیاں دائیں آنکھ میں لگائے اور دو سلائیاں بائیں آنکھ میں لگائے اور اس کے بعد پھر ایک سلائی دائیں آنکھ میں لگائے تاکہ ابتدا بھی دائیں آنکھ سے ہو اور اختتام بھی دائیں ہی آنکھ پر ہو، جو آدمی طاق سلائی لگائے گا اس کے لئے بہتر اور اچھا ہوگا اور جو آدمی طاق سلائی نہ لگائے گا اس میں کوئی حرج اور گناہ بھی نہیں ہے کیونکہ طاق سلائی لگانا مستحب ہے۔ آپ ﷺ نے طاق ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نہ ایسا نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں، اس سے حنفیہ کے مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ تین یا طاق ڈھیلے لینے واجب نہیں ہیں اس سے کم اور زیادہ بھی لئے جاسکتے ہیں البتہ طاق ڈھیلے لینا مستحب ہے، کھانا کھانے کے بعد خلال سے نکالی ہوئی چیز کو منہ سے پھینک دینے کو بہتر قرار دیا جا رہا ہے اور زبان سے نکالی ہوئی چیز کو نگل لینے کے لئے کہا جا رہا ہے اس لئے کہ تنکے سے خلال کرنے میں اکثر خون بھی نکل آتا ہے اس لئے احتیاطاً اس کو بھینک دینا ہی بہتر ہے زبان سے چونکہ خون نکلنے کا احتمال نہیں ہوتا اس لئے اس کو نگل لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے یہ جو فرمایا کہ جس نے ایسا نہ کیا کوئی گناہ نہیں تو یہ حکم اسی صورت میں ہوگا جب کہ خون نکلنے کا یقین نہ ہو بلکہ احتمال ہو اگر خون نکلنے کا یقین ہو تو پھر خلال میں ہر طرح کی نکلی ہوئی چیز کا نگلنا حرام ہوا، اس کا پھینک دینا واجب ہوگا۔ آخر حدیث میں فرمایا ہے کہ جب کوئی آدمی پاخانہ کے لئے جائے تو پاخانہ کے وقت اسے پردہ کر کے بیٹھنا چاہئے یعنی ایسی جگہ بیٹھے جہاں لوگ نہ دیکھ سکیں اگر پردہ کے لئے کچھ نہ پائے بایں طور کے نہ تو ایسی جگہ ہے جو گھری ہوئی اور لوگوں کی نظروں سے محفوظ ہو اور نہ اپنے پاس ایسا کوئی کپڑا یا یا کوئی دوسری چیز ہے جس سے پردہ کیا جاسکے تو اس وقت یہ کرنا چاہئے کہ ریت کا تودہ جمع کرلے اور اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ جائے اس طرح کسی نہ کسی حد تک پردہ ہوجائے گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو آدمی پاخانہ کے وقت پردہ کا لحاظ نہیں کرتا تو شیطان اس کے پاخانہ کے مقام سے کھیلتا ہے کھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور انہیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس آدمی کے ستر کو دیکھیں جو بےپردہ بیٹھا ہوا پاخانہ کر رہا ہے، نیز یہ کہ اگر پردہ نہ کیا جائے تو اس کا بھی خطرہ رہتا ہے کہ جب ہوا چلے تو اس کی وجہ سے ناپاک چھینٹیں اڑ کر بدن اور کپڑے پر پڑیں گی اس لئے پاخانہ کے وقت پردہ کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی پردہ کا لحاظ کرے تو یہ اچھا ہے اور اگر نہ کرے تو کوئی گناہ کی بات بھی نہیں ہے مگر احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ پردہ کا خیال رکھا جائے بلکہ اگر اس بات کا یقین ہو کہ پردہ نہ کیا گیا تو لوگ دیکھیں گے تو ایسی شکل میں پردہ کرنا لازم اور ضروری ہے، اگر پردہ نہ کرے تو گناہ گار ہوگا۔ اگر بحالت مجبوری کوئی آدمی بغیر پردہ کے پاخانہ کے لئے بیٹھ جائے تو پھر اس کی ستر کی طرف قصدا دیکھنے والوں کو گناہ ہوگا، مجبوری سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا موقع آپڑے جب کہ پردہ کا کوئی انتظام ممکن نہ ہو اور اس کو شدید حاجت ہو تو اس صورت میں اسے مجبوری ہے۔ ریت کے تودہ کو پشت کی طرف کرنے کو اس لئے فرمایا گیا ہے کہ آگے کے ستر کو تو دامن وغیرہ سے بھی چھپایا جاسکتا ہے بخلاف پیچھے کے ستر کے کہ اس کو چھپانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔

【66】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) (حضرت عبداللہ بن مغفل کی کنیت ابوسعید ہے پہلے مدینہ میں سکونت اختیار فرمائی پھر آپ بصرہ چلے گئے آپ کو حضرت عمر فاروق (رض) نے بصرہ میں مسائل دین کی تعلیم دینے کے لئے بھیجا تھا آپ کی وفات بمقام بصرہ ٥٩ ھ میں ہوئی) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی آدمی اپنے غسل خانے میں پیشاب نہ کرے جس میں پھر وہ نہائے یا وضو کرے (یعنی یہ عقل سے بعید ہے کہ نہانے کی جگہ پیشاب کرے اور پھر وہیں نہائے یا وضو کرے) اس لئے کہ اس سے اکثر وساوس پیدا ہوتے ہیں (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) جامع ترمذی اور سنن نسائی نے ثم یغتسل فیہ او یتوضا فیہ کہ الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔ تشریح غسل خانہ میں پیشاب کرنے سے وساوس اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ جب وہاں پیشاب کیا جاتا ہے تو وہ جگہ ناپاک ہوجاتی ہے اور پھر وضو یا غسل کے وقت جب اس پر پانی پڑتا ہے تو دل میں وسو سے پیدا ہوتے ہیں کہ کہیں چھینٹیں تو نہیں پڑ رہے ہیں اور پھر یہ شبہ رفتہ رفتہ دل میں جم جاتا ہے جس سے ایک مستقل خلجان واقع ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر غسل خانہ کی زمین ایسی ہو کہ اس پر سے چھینٹیں اچھل کر اوپر نہ پڑتی ہوں مثلاً وہاں کی زمین ریتلی ہو اس کا فرش اور اس میں نالی ایسی ہو کہ پیشاب کا ایک قطرہ بھی وہاں نہ رکتا ہو سب نکل جاتا ہو تو پھر وہاں پیشاب کرنا مکروہ نہیں ہے۔ اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں غسل خانہ میں پیشاب کرنے کو جو منع کیا گیا ہے تو نہی تنزیہی ہے نہی تحر یمی نہیں ہے۔

【67】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن سرجس (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی آدمی کسی سوراخ میں پیشاب نہ کرے۔ ( ابوداؤد، سنن نسائی ) تشریح سوراخ میں پیشاب کرنے سے اس لئے روکا جا رہا ہے کہ اکثر و بیشتر سوراخ کیڑے مکوڑوں اور سانپ بچھو کا مسکن ہوتے ہیں چناچہ ہوسکتا ہے کہ پیشاب کرتے وقت اس میں سے سانپ یا بچھو یا تکلیف دینے والا کوئی دوسرا کیڑا نکل کر ایذاء پہنچائے یا اگر اس سوراخ کے اندر کوئی ضعیف اور بےضرر جانور ہو تو پھر پیشاب کی وجہ سے اسے تکلیف پہنچے گی۔ بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوراخوں میں جنات رہتے ہیں چناچہ ایک صحابی سعد بن عبادہ خزرجی (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے زمین حوران کے ایک سوراخ میں پیشاب کردیا تھا تو ان کو جنات نے مار ڈالا اور اس میں یہ شعر پڑھتے تھے۔ نَحْنُ قَتَلْنَا سَیِّدَ الْخَزْرَجَ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ وَرَمِیْنَاہُ بِسَھْمَیْنِ فَلَمْ نَخُطُّ فَؤَادَہُ ہم نے قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کیا ہم نے اس کی طرف دو تیر مارے اور اس کے دل کو نشانہ بنانے میں خطا نہیں کی اور بعض علماء کرام لکھتے ہیں کہ اگر کوئی سوراخ خاص طور پر پیشاب ہی کے لئے ہو تو اس میں پیشاب کرنا مکروہ نہیں ہے۔

【68】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت معاذ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم تین چیزوں سے بچو جو لعنت کا سبب ہیں (١) گھاٹوں پر استنجاء (یعنی پیشاب پاخانہ) کرنے سے (٢) راستہ کے درمیان اور (٣) سایہ میں پیشاب و پاخانہ کرنے سے۔ (ابوداؤد و ابن ماجہ) تشریح یہ تین افعال ایسے ہیں جو لعنت کا سبب ہیں یعنی جب کوئی آدمی کسی راستہ پر، یا گھات پر، یا سایہ کی جگہ پر پاخانہ کرتا ہے تو جو لوگ اس راستہ سے گزرتے ہیں یا گھاٹ کو استعمال کرتے ہیں، یا سایہ دار جگہ پر آتے ہیں وہ اس آدمی پر لعنت بھیجتے ہیں یا اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ آدمی ان افعال بد کی بنا پر لوگوں کی ان منفعت اور آرام کو جوان جگہوں سے مختص ہیں فاسد کرتا ہے، لہٰذا یہ ظالم ہوا اور ظالم آدمی ملعون ہوتا ہے۔ موارد ان مکانوں کو فرماتے ہیں جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر آپس میں بات چیت کرتے ہیں، بعض علماء کرام نے کہا ہے کہ موارد جمع مورد گھاٹ کو کہتے ہیں جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے۔ سایہ، عام ہے خواہ درخت کا سایہ ہو یا کسی اور چیز کا جہاں لوگ سوتے اور بیٹھتے ہوں، نیز اپنے جانوروں کو باندھتے ہیں۔

【69】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ( ایک ساتھ) دو آدمی پاخانہ کے لئے (اس طرح) نہ جائیں کہ دونوں اپنی شرم گاہ کھولے ہوئے ہوں اور باتیں کرتے ہوئے ہوں کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ غصب ناک ہوجاتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ابوداؤد و ابن ماجہ) تشریح مردوں اور عورتوں کے لئے یہ حرام ہے کہ وہ پاخانہ کے لئے اس طرح بیٹھیں کہ ایک دوسرے کی شرم گاہیں دیکھیں اسی طرح ایسی حالت میں آپس میں باتیں کرنا بھی مکروہ ہے یہ دونوں چیزیں غضب الٰہی کا سبب اور اس کے عتاب کا باعث ہیں۔ اس موقع پر اس تکلیف دہ صورت حال کی وضاحت ضروری ہے کہ آج کل عورتوں میں خصوصیت سے ایسی بد احتیاتیاں پائی جاتی ہیں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ عورتیں آپس میں ایک دوسری کے سامنے ستر کھولنے کو قطعا معیوب نہیں سمجھتیں خصوصاً غسل اور پاخانہ کے وقت اس قسم کی شرمناک حرکتیں عام طور پر کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو چاہئے کہ وہ اس حدیث کو غور سے پڑھیں اور پھر سمجھیں کہ وہ ایسی ناشائستہ اور شرم و حیاء کے منافی چیزوں کے ارتکاب سے اللہ کا غضب مول رہی ہیں اور اس کے عتاب کا باعث ہو رہی ہیں۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ پاخانہ کرتے وقت اور جماع (ہم بستری) کے وقت زبان سے ذکر اللہ نہ کیا جائے بلکہ دم کے ساتھ کیا جائے۔

【70】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت زید بن ارقم (رض) ( آپ انصاری ہیں اور کنیت ابوعمرو ہے آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سترہ غزوات میں شرکت کی ہے آپ کوفہ میں رہتے تھے اور وہیں ٦٨ ھ انتقال ہوا) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا پاخانے شیاطین اور جنات کے حاضر ہونے کی جگہ ہیں، اس لئے جب تم میں سے کوئی بیت الخلا جائے تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے اعوذ با اللہ من الخبث و الخبائث یعنی میں ناپاک جنوں اور جنیوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح جنات اور شیاطین پاخانہ میں آتے ہیں اور اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ جو آدمی پاخانہ میں آئے اس کو ایذاء پہنچائیں اور تکلیف دیں کیونکہ پاخانہ جانے والا آدمی وہاں ستر کھول کر بیٹھا ہے اور ذکر اللہ کر نہیں سکتا اس لئے یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو آدمی پاخانہ جاتے وقت یہ دعا پڑھ لے گا وہ جنات اور شیاطین کی ایذاء و تکلیف سے محفوظ رہے گا۔ اس باب میں جو حدیث نمر ٣ گزری ہے اس میں اس دعا کے الفاظ اس طرح ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ چونکہ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اس لئے اختیار ہے کہ چاہے وہ دعا پڑھی جائے لیکن بہتر اور اولیٰ یہ ہے کہ کبھی وہ دعا پڑھ لے اور کبھی یہ پڑھ لے یا دونوں کو ساتھ ساتھ پڑھے۔

【71】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کوئی آدمی پاخانہ میں داخل ہو تو جن (شیطان) کی آنکھوں اور انسان کی شرم گاہ کے درمیان کا پردہ یہ ہے کہ بسم اللہ کہے۔ (اس حدیث کو جامع ترمذی نے روایت کیا اور کہا ہے) کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند قوی نہیں ہے) تشریح ارشاد کا مطلب ہے کہ جب انسان بیت الخلاء میں جاتا ہے، تو چونکہ وہاں ستر کھول کر بیٹھتا ہے اس لئے شیاطین اس کی شرم گاہ دیکھتے ہیں، لہٰذا جب کوئی آدمی پاخانہ جائے تو اسے چاہئے کہ بسم اللہ کہہ کر بیت الخلاء جائے کیونکہ اس سے شیاطین ستر نہیں دیکھ سکتے علامہ ابن حجر (رح) نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں سنت یہ ہے کہ جب کوئی آدمی بیت الخلاء جائے تو پہلے بسم اللہ اور پھر اس کے بعد وہ دعا پڑھے جو اس سے پہلے حدیث میں گزر چکی ہے، لیکن ان دونوں یعنی بسم اللہ اور مذکورہ دعاؤں میں سے کسی ایک کو بھی پڑھ لیا جائے تو سنت ادا ہوجائے گی مگر افضل یہی ہے کہ دونوں پڑھی جائیں یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، لیکن فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنا جائز ہے۔

【72】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب پاخانہ سے باہر تشریف لاتے تو فرماتے غفر انک یعنی اے اللہ ! میں تیری بخشش کا خواست گار ہوں۔ (جامع ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح علماء نے اس وقت بخشش چاہنے کی دو وجہیں لکھی ہیں، اول تو یہ کہ چونکہ سرکار دو عالم ﷺ زبان سے ذکر اللہ کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑتے تھے سوائے اس کے کہ کسی شدید حاجت اور مجبوری مثلاً پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت ترک فرما دیتے تھے اس کی وجہ سے آپ اللہ سے بخشش کے خواستگار ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ جب انسان کوئی غذا کھاتا ہے، تو وہ غذا معدہ میں پہنچ کردو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے ایک حصہ تو خون بن کر قوت و طاقت پیدا کرتا ہے اور دوسرا حصہ فضلہ ہو کر پاخانہ کی شکل میں نکل جاتا ہے، اگر قدرت کے اس نظام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ بندوں پر اللہ کا بہت بڑا انعام اور اس کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا شکر بندے سے کماحقہ، ادا نہیں ہوسکتا اس لئے رسول اللہ ﷺ بخشش چاہتے تھے کہ اے اللہ ! مجھ سے تیری اس عظیم نعمت کا شکر ادا نہیں ہوا اس لئے تو مجھے اس کوتاہی پر بخش دے۔ بعض مشائخ نے لکھا ہے کہ ایسے موقع پر یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ اپنی احتیاج اور اس بات کا خیال کیا جائے کہ انسان کی ذات کی حیثیت ہی کیا ہے جس میں نجاست ہی نجاست بھری ہوئی ہے اور اس کے مقابلہ میں رب قدوس کی ذات پاک اور اس کے تقدس کا تصور کرے، افضل یہ ہے کہ لفظ غفرانک کے بعد یہ دعا پڑھ لی جائے الحمد اللہ الذی اذھب عنی الاذی وعافنی۔

【73】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب پاخانہ جاتے تو آپ کے لئے پیالہ یا چمڑے کی چھاگل میں پانی لاتا، رسول اللہ ﷺ اس سے استنجاء کرتے پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑتے پھر اس کے بعد میں (پانی کا) دوسرا برتن لاتا اور آپ ﷺ وضو فرماتے۔ (دارمی، سنن نسائی ) تشریح تور عرب میں پیتل یا پتھر کا ایک چھوٹا سا برتن پیالہ کی طرح ہوتا ہے، اس میں کھانا کھاتے ہیں اور بوقت ضرورت اس میں پانی بھر کر اس سے وضو بھی کرلیتے ہیں رکوۃ چمڑے کی چھاگل کو فرماتے ہیں جو پانی رکھنے کے کام آتا ہے۔ استنجاء سے فراغت کے بعد آپ ﷺ زمین پر ہاتھ رگڑ کر اس لئے دھوتے تاکہ ہاتھ سے بدبو نکل جائے اور ہاتھ خوب پاک و صاف ہو چناچہ پاخانہ سے آکر اس طرح سے ہاتھ دھونا سنت ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) وضو کے لئے دوسرے برتن میں پانی اس لئے نہیں لاتے تھے کہ استنجے کے بقیہ پانی یا اس برتن سے وضو درست نہیں تھا بلکہ اس برتن میں چونکہ پانی صرف استنجے کی ضرورت کی مطابق ہی رہتا ہوگا اس لئے وضو کے لئے دوسرے برتن میں پانی لانے کی ضرورت ہوتی تھی، اس حدیث میں بعض علماء کرام نے یہ اخذ کیا ہے کہ اگر استنجے اور وضو کے پانی کے لئے الگ الگ برتن ہوں تو یہ مستحب ہے۔

【74】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت حکم ابن سفیان (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب پیشاب کر چکتے تو وضو فرماتے اور اپنی شرم گاہ پر چھینٹا دیتے !۔ (ابوداؤد، سنن نسائی ) تشریح پیشاب کرنے کے بعد جب آپ وضو فرماتے تو دفع وساوس کے لئے تھوڑا سا پانی لے کر ستر کی جگہ ازار پر چھڑک لیتے تھے تاکہ پیشاب کے قطرہ کا وہم باقی نہ رہے۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس وساوس و خطرات سے پاک و صاف تھی اس لئے کہا جائے گا کہ آپ ﷺ کا یہ طرز عمل امت کی تعلیم کے لئے تھا کہ پیشاب کرنے کہ بعد جب وضو کیا جائے تو تھوڑا سا پانی ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر چھڑک لیا جائے، اس لئے کہ اگر پانی نہ چھڑکا جائے اور ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر تری کا احساس ہو تو اس سے پیشاب کے قطروں کا وہم ہوگا اور پانی چھڑک لیا جائے تو اس کے بعد اگر تری کا حساس ہوگا بھی تو یہی سمجھا جائے گا کہ اسی چھڑ کے ہوئے پانی کی تری ہے چناچہ اس سے وسوسہ کی راہ بند ہوجائے گی اور مقصد یہی ہے کہ وساوس و خطرات کی راہ روک دی جائے تاکہ اطمینان قلب کے ساتھ عبادت میں مصروف رہا جاسکے۔ ابن مالک (رح) فرماتے ہیں کہ وضو کے بعد شرم گاہ کے اوپر پانی چھڑکنے کی ایک وجہ تو یہ دفع وساوس ہوسکتی ہے مگر ایک دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اس سے پیشاب وغیرہ کے قطرے رک جائیں باہر نہ آئیں۔

【75】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت امیمہ بنت رقیقہ ( امیمہ بنت رقیقہ حضرت خدیجہ (رض) کی ہمشیرہ کی صاحبزادی ہیں) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کے پاس لکڑی کا ایک پیالہ تھا جو آپ ﷺ کی چارپائی کے نیچے رکھا رہتا تھا آپ ﷺ رات کو اس میں پیشاب کرلیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی ) تشریح چونکہ رات میں سردی وغیرہ کی بناء پر اٹھنا تکلیف دہ اور پریشانی کا سبب ہوتا ہے اس لئے آپ ﷺ نے پیالہ اس کام کے لئے مخصوص کرلیا تھا، چناچہ جب آپ ﷺ کو رات میں پیشاب کی حاجت ہوتی تھی تو اس پیالہ میں پیشاب کرلیا کرتے تھے۔ اور اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی تعلیم امت ہی مقصد سامنے آئے گا کہ آپ ﷺ نے اپنے طرز عمل سے امت کے لئے یہ آسانی پیدا کردی ہے کہ جب رات میں پیشاب کی حاجت ہو اور سردی وغیرہ کی تکلیف کی بناء پر باہر نکلنا دشوار ہو تو کسی برتن وغیرہ میں پیشاب کرلیا جائے اور صبح اٹھ کر اسے پھینک دیا جائے تاکہ ایک طرف تو تکلیف اور پریشانی میں مبتلاء ہونے سے بچا جائے اور دوسری طرف رات میں بیت الخلاء جانے سے بچ جائیں جو شیاطین کا مسکن ہے اور شیاطین دن کے مقابلہ میں رات کو زیادہ ضرر اور تکلیف پہنچانے کا سبب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ امت کے لئے یہ تعلیم سرکار دو عالم ﷺ کی اسی جذبہ رحمت و شفقت کی مرہون منت ہے جو اعمال و افعال میں ہر مرحلہ پر آسانی و سہولت کی صورت میں نظر آتی ہے۔ منقول ہے کہ ایک صحابی نا دانستہ طور پر آپ ﷺ کا پیشاب اسی پیالہ میں سے پی گئے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ جب تک وہ زندہ رہے ان کے بدن سے خوشبو آتی رہی اور نہ صرف ان کے بدن سے بلکہ کئی نسلوں تک ان کی اولاد کے بدن میں بھی وہی خوشبو باقی رہی۔

【76】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے (ایک روز) مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ عمر ! کھڑے ہو کر پیشاب نہ کیا کرو چناچہ اس کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا (ابن ماجہ، جامع ترمذی) امام محی السنۃ فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) سے منقول ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ ایک قوم کی کوڑی پر گئے اور وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا (صحیح البخاری و صحیح مسلم) کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کا یہ فعل (کھڑے ہو کر پیشاب کرنا، کسی عذر کی بناء پر تھا۔ تشریح متفقہ طور پر تمام علماء کرام کے نزدیک کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ ہے، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی چناچہ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ مکروہ تحریمی ہے اور بعض کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے۔ جہاں تک حضرت عمر فاروق (رض) کے فعل کا تعلق ہے اس کے بارے میں علماء کرام لکھتے ہیں کہ چونکہ ایام جاہلیت میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا طریقہ رائج تھا اور ان کو وہی عادت پڑی ہوئی تھی اس لئے انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کرلیا، یا ہوسکتا ہے کہ کسی عذر کی بنا پر انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہو۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے متعلق بھی حضرت حذیفہ (رض) کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے اس سلسلہ میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے بھی کسی عذر کی بنا پر ایسا کیا ہوگا اور علماء کرام نے وہ اعذار بھی لکھے ہیں چناچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ چونکہ وہاں نجاست کی وجہ سے آپ نے بیٹھنے کی جگہ نہیں پائی اس لئے کھڑے ہو کر پیشاب کرلیا۔ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے پیر مبارک میں درد تھا اور بعض حضرات کی تحقیق کے مطابق پیٹھ میں درد تھا، اس کی بناء پر آپ ﷺ بیٹھ نہیں سکتے تھے اس لئے کھڑے ہو کر پیشاب کرلیا۔

【77】

پاخانہ کے آداب کا بیان

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ جو آدمی یہ حدیث بیان کرے کہ سرکار دو عالم ﷺ کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو اسے سچ نہ مانو آپ ﷺ نے تو ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کیا۔ تشریح امام محی السنۃ (رح) نے حضرت حذیفہ (رض) کی جو روایت نقل فرمائی ہے اس سے تو بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی یہ حدیث اس بات کی بالکل نفی کر رہی ہے، اب ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اپنے علم کے مطابق خبر دے رہی ہیں یعنی انہوں نے چونکہ رسول اللہ ﷺ کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے کبھی گھر میں نہیں دیکھا تھا اس لئے انہوں نے اس بات کی سرے سے نفی کردی اور حضرت حذیفہ (رض) نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ باہر سے متعلق ہے اور وہ بھی عذر کی بناء پر نادر ہے اور ظاہر کہ نادر شی معدوم کی مانند ہے نیز عذر کی بنا پر اسے مستثنی بھی قرار دیا جاسکتا ہے لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔

【78】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت زید بن حارثہ (رض) ( اسم گرامی زید بن حارثہ، کنیت ابواسامہ ہے عظیم صحابی ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ کا متبنیٰ بننے کا شرف حاصل ہوا ہے غزوہ موتہ کے موقع پر سر زمین شام میں آٹھ ہجری کو آپ نے شہادت پائی شہادت کے وقت آپ کی عمر ٥٥ سال کی تھی) ۔ سرکار دو عالم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (جب) سے پہلی وحی کے موقع پر آپ کے پاس تشریف لائے تو آپ کو وضو کرنا سکھایا، پھر نماز پڑھنی سکھائی چناچہ جب وہ وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چلو پانی لیا اور اس کو اپنی شرم گاہ پر چھڑک لیا۔ (مسند احمد بن حنبل، دارقطنی) تشریح حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس آدمی کی شکل میں آئے اور انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے وضو کیا اور نماز پڑھی تاکہ یہ دیکھ کر آپ ﷺ بھی سیکھ جائیں اسی طرح انہوں نے اللہ کی جانب سے ان دونوں چیزوں کی تعلیم آپ ﷺ کو دی پھر اس کے ساتھ ساتھ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے وضو کے بعد شرم گاہ پر یا ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر وضو کے بعد پانی چھڑک کر بھی آپ کو دیکھایا تاکہ دفع وساوس کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا جائے۔

【79】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور کہا اے محمد ﷺ جب آپ ﷺ وضو کریں تو تھوڑا سا پانی (شرم گاہ پر دفع وساوس کے لئے چھڑک لیا کیجئے (جامع ترمذی) اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے اور میں نے محمد (یعنی عبداللہ بن اسماعیل صحیح البخاری) کو یہ کہتے سنا ہے کہ اس حدیث کے ایک راوی حسن بن علی ہاشمی منکر الحدیث ہیں۔

【80】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ نے پیشاب کیا، حضرت عمر فاروق (رض) پانی کا لوٹا لے کر آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا عمر یہ کیا ہے ؟ حضرت عمر فاروق (رض) نے عرض کیا آپ ﷺ کے وضو کے لئے پانی ہے۔ آپ نے فرمایا مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ جب میں پیشاب کروں تو وضو بھی کروں، اگر میں ایسا کروں تو یہ (میرا فعل سنت ہوجاتا) ۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ مجھے بطریق وجوب اور فرض کے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ جب بھی پیشاب کروں تو اس کے بعد وضو بھی کروں اور اگر میں اپنی طرف سے یہ فعل اختیار کرلیتا ہوں تو پھر ہر مرتبہ پیشاب کے بعد وضو کرنا سنت موکدہ ہوجائے گا، بہر حال یہاں سنت سے مراد سنت موکدہ ہی ہے، کیونکہ ویسے تو پانی سے استنجاء کرنا اور ہر وقت باوضو رہنا تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر مستحب ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ادنیٰ چیزوں کو اپنی امت کی آسانی او سہولت کی خاطر کبھی ترک فرما دیتے تاکہ وہ چیزیں امت کے لئے کہیں ضروری نہ ہوجائیں۔

【81】

پاخانہ کے آداب کا بیان

حضرت ابوایوب، جابر، حضرت انس رضوان اللہ علیہم راوی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی آیت (فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ ) 9 ۔ التوبہ 108) یعنی مسجد قبا میں ایسے مرد (انصاری) ہیں جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ خوب پاکی حاصل کریں اور اللہ خوب پاکی حاصل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے تو سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا اے انصار کی جماعت ! اللہ تعالیٰ نے پاکی کے معاملہ میں تمہاری تعریف کی ہے تمہاری پاکی کیا ہے ؟ اور انہوں نے عرض کیا ہم نماز کے لئے وضو کرتے ہیں جنابت (ناپاکی) سے غسل کرتے ہیں (جیسا کہ دوسرے مسلمان کرتے ہیں) اور (ڈھیلے کے بعد) پانی سے استنجاء کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! وہ یہی ہے، لہٰذا اسے لازم پکڑو۔ (ابن ماجہ) تشریح انصاری کی عادت تھی کہ وہ پیشاب و پاخانہ کے بعد ڈھیلوں سے صفائی کے بعد پانی سے بھی استنجاء کرتے تھے، اس بنا پر ان کی فضیلت اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی اور انصار کی اس فضیلت کا اظہار ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ آخر وہ کونسی پاکیزگی ہے جسے حاصل کرنے کے بعد تم اس سعادت کے حقدار ہوئے ہو، جب انہوں نے پاکیزگی کی تفصیل بتائی تو آپ ﷺ نے ان کی تصدیق کردی کہ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی سبب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں تمہاری تعریف کی ہے اور پھر بعد میں اس طرف اشارہ کردیا کہ بھلائی اور بہتری اسی میں ہے کہ اس سعادت کو ہمیشہ باقی رکھو یعنی جس طرح تم لوگ پاکی حاصل کرتے ہو اسی طرح ہمیشہ حاصل کرتے رہو۔

【82】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت سلمان (رض) فرماتے ہیں کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی نے بطور استہزاء یہ کہا کہ میں تمہارے سردار (یعنی رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا ہوں تو وہ تمہیں ہر چیز سکھاتے ہیں یہاں تک کہ پاخانہ بیٹھنے کی صورت بھی ؟ میں نے کہا ! ہاں آپ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ (استنجے کے وقت) ہم قبلہ کی طرف رخ کر کے نہ بیٹھیں اپنے دائیں ہاتھوں سے استنجاء پاک نہ کریں، تین پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کریں اور ان پتھروں میں نجاست (یعنی پاخانہ، لید گوبر) اور نہ ہڈی ہو۔ (مسلم مسند احمد بن حنبل الفاظ مسند احمد بن حنبل کے ہیں) تشریح اگر مذہب کی بنیاد پر حقیقت کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات معلوم ہوگی کہ مذہب اور دین دراصل نام ہے ایک مکمل ضابطہ حیات کا اور ایک دستور کامل ہے نظام زندگی کا جس میں انسانوں کے لئے دین اور دنیا دونوں جگہ کے لئے مکمل رہبری، کامل راہنمائی اور ہمہ گیر ہدایات ہوں۔ اگر چند مخصوص اعتقادات پر چند مخصوص عبادات اور چند اعمال کا نام، مذہب اور دین، رکھ دیا جائے تو وہ کامل و مکمل مذہب وہ دین ہی نہیں بلکہ انسانی دماغ کے اختراعات اور نظریات کا مجموعہ ہے۔ اسلام دوسرے تمام مذاہب میں اگر اپنی کوئی امتیازی شان رکھتا ہے اگر دوسرے دینوں پر کوئی تفوق و برتری رکھتا ہے اور اگر دوسری شریعتوں میں اکملیت کا کوئی درجہ رکھتا ہے تو وہ اسلام کی شان ہمہ گیریت اور اس کی شان جامعیت ہے مسلمانوں کو چھوڑئیے وہ تو اسلام کی پیروی کرنے والے ہیں ہیں، دنیا کے وہ دانشور اور عقلاء بھی اسلام کے اعتقادات و احکامات کے پابند و متبع نہیں ہیں، آج اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب میں اور دنیا کی تمام شریعتوں میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب اور دین ہے جو انسانوں کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات ایک نظام زندگی اور کائنات کے ہر شعبہ پر حاوی ایک مجموعہ ہدایات ہے جو انسانی زندگی کے ہر چھوٹے و بڑے مسئلہ کی رہبری کرتا ہے۔ چنانچہ اسلام اگر ایک طرف اعتقادات و نظریات کی انتہائی بلندی تک جن و انس کی راہنمائی کرتا ہے، عبادت و احکامات کے بلند وبالا نظام کا تفوق بخشتا ہے، تو دوسری طرف زندگی کی ان چھوٹی راہوں کی بھی معرفت عطا کرتا ہے جو دنیا والوں کی نظر میں حقیر ہیں، جن کی طرف دوسرے مذاہب آنکھ بھی نہیں اٹھاتے۔ دیکھئے ایک بےبصیرت اور عقل و دانائی کا دشمن مشرک مسلمانوں کا یہی تو مزاق اڑا رہا ہے کہ شارع اسلام کی شان و شوکت کا بھی کوئی تقاضا ہے کہ وہ ہر چیز کو سکھاتے پھریں، یہاں تک کہ وہ پیشاب و پاخانہ تک کے مسائل اور ان کے طور طریقے بتاتے ہیں حضرت سلمان فارسی (رض) ، اسی کا جواب دے رہے ہیں کہ اے بیخبر ادر، نادان انسان ! یہ ہنسنے کی بات نہیں ہے، استہزاء کا مقام نہیں ہے، تجھے کیا معلوم کہ ہمارے سردار ہم پر کتنے شفیق ہیں ہم پر کتنے مہربان ہیں ؟ امت پر انتہائی شفقت و محبت ہی کی یہ وجہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر مرحلہ پر ہماری راہنمائی فرماتے ہیں۔ اگر ایک طرف ﷺ توحید و رسالت کے عقائد اور نماز روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسے دینی اصول کے احکام و مسائل ہمیں بتاتے ہیں تو دوسری طرف پیشاب و پاخانہ جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے آداب بھی بتائے ہیں اور ہدایات اور راہنمائی کا یہی تو وہ مقام ہے جو آپ ﷺ کی ذات کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت ہم قبلہ کی طرف پشت و رخ کر کے نہ بیٹھیں کہ اس سے قبلہ کے احترام پر حرف آتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا جائے یہ چیز پاکیزگی و نظافت کے منافی ہے کہ جس ہاتھ سے کھانا کھایا جائے اسی ہاتھ سے گندگی و غلاظت کی صفائی کی جائے۔ آپ ﷺ نے اسے بہتر قرار دیا ہے کہ تین ڈھیلوں یا پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کیا جائے کہ صفائی و پاکیزگی کا تقاضا یہی ہے اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ استنجاء کے ڈھیلوں میں لید و گوبر اور دوسری نجاست نہ ہو کہ اس سے بجائے پاکیزگی حاصل ہونے کے اور زیادہ غلاظت و گندگی لگے گی اور ہڈی سے استنجاء نہ کیا جائے کیونکہ ہڈی جنات کی خوراک ہے۔

【83】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت عبدالرحمن ابن حسنہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرکار دو عالم ﷺ (گھر سے) نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے (اس وقت) آپ ﷺ کے ہاتھ میں ڈھال تھی، اسے آپ ﷺ نے (اپنے سامنے زمین پر) رکھ دیا پھر اس کے سامنے بیٹھ کر پیشاب کیا (یہ دیکھ کر) ایک مشرک نے کہا ان کی طرف دیکھو اس طرح پیشاب کرتے ہیں جسے عورت پیشاب کرتی ہے یہ بات رسول اللہ ﷺ نے سن لی اور فرمایا تجھ پر افسوس ہے کیا تو اس چیز کو نہیں جانتا جو بنی اسرائیل کے ساتھی کو پہنچی (یعنی عذاب) بنی اسرائیل (جب پیشاب کرتے اور ان) کے (جسم یا کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو اس کو قینچی سے کاٹ ڈالتے تھے چناچہ (بنی اسرائیل میں اس ایک) آدمی نے (اس حکم کو ماننے سے) لوگوں کو روکا، لہٰذا اسے قبر کے عذاب میں مبتلا کیا گیا۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ اور سنن نسائی اس حدیث کو عبدالرحمن (رض) اور انہوں نے ابوموسیٰ سے روایت کیا ہے) تشریح بنی اسرائیل کی شریعت میں تھا کہ اگر کسی آدمی کے بدن میں نجاست لگ جاتی تو اتنے حصہ کے گوشت کو چھیل ڈالتے تھے اور اگر کپڑے پر لگ گئی تو اس جگہ سے کپڑا کاٹ ڈالتے تھے مگر ان میں سے ایک آدمی نے اپنی شریعت کے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور وہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکا کرتا تھا لہٰذا اس بنا پر اسے عذاب قبر میں مبتلا کیا گیا۔ اسی طرف رسول اللہ ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ بنی اسرائیل کی شریعت کا وہ قاعدہ اگرچہ شرعی اعتبار سے پسندیدہ تھا مگر چونکہ اس میں مال اور جان کا ضرر ہوتا تھا اس لئے خلاف عقل و دانائی تھا مگر اس کے باوجود شریعت کے اس حکم کو نہ ماننے اور دوسرے لوگوں کو اس سے روکنے پر جب اس آدمی پر عذاب قبر نازل کیا گیا تو شرم و حیاء نہ کرنا بطریق اولیٰ عذاب کا سبب ہے کیونکہ پیشاب کے وقت پردہ کرنا اور شرم کرنا نہ صرف یہ کہ از راہ شریعت پسندیدہ اور بہتر چیز ہے بلکہ عقل و دانائی کے اعتبار سے بھی اولیٰ و افضل ہے۔

【84】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت مروان اصفر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے (ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے اپنا اونٹ قبلہ کی طرف بیٹھایا پھر خود بیٹھے اور اونٹ کی طرف پیشاب کیا میں نے (یہ دیکھ کر) عرض کیا ابوعبدالرحمن ! (یہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کی کنیت ہے) کیا اس طرح قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے سے منع فرمایا گیا انہوں نے فرمایا ہاں جنگل میں اس سے منع فرمایا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (ابوداؤد) تشریح اس مسئلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر فاروق (رض) کا یہ قول دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کے اس فعل سے دلیل پکڑتے تھے جسے اس باب کی پہلی حدیث میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو قبلہ کی طرف پشت کر کے پاخانہ کرتے ہو دیکھا تھا اور یہ اسی موقع پر بتایا جا چکا ہے کہ اس فعل میں کئی احتمالات پیدا ہوتے ہیں لہٰذا فعل محتمل کو دلیل کے طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ اور پھر اس کی بھی وضاحت کی جا چکی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کی اکثر احادیث سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ کرنے کا حکم عام ہے اس میں جنگل کی تخصیص نہیں ہے اسی لئے امام اعظم (رح) کا یہی مسلک ہے کہ اس حکم میں جنگل و آبادی سب برابر ہیں قبلہ کی طرف منہ و پشت کرنا ہر جگہ ممنوع ہے خواہ جنگل کا کھلا میدان ہو یا آبادی میں گھرے ہوئے مکانات۔

【85】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ جب بیت الخلاء سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذْھَبَ عَنِیّ الْاَذٰی وَعَافَانِی یعنی تمام تعریفیں خدا ہی کو زیبا ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز (یعنی پاخانہ) کو دور کیا اور مجھے عافیت بخشی۔ (ابن ماجہ) تشریح یوں تو اگر کوئی انسان یہ چاہے کہ وہ اللہ کی نعمت کو دائرہ شمار میں لے آئے جو اس پر اللہ کی جانب سے ہیں تو یہ مشکل ہیں نہیں بلکہ ناممکن ہے، پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی ساری زندگی اور اس کی حیات کا ایک ایک لمحہ اللہ رحیم و کریم کی بیشمار نعمتوں ہی کا مرہون منت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان اللہ کی ان بیشمار اور لا محدود نعمتوں کا شکر بھی بجا طور پر ادا نہیں کرسکتا۔ اب آپ پیشاب و پاخانہ ہی کو لے لیجئے بظاہر تو کتنی معمولی سے چیز ہے اور کتنی غیر اہم ضرورت مگر ذرا کسی حکیم و ڈاکٹر سے اس کی حقیقت تو معلوم کر کے دیکھ لیجئے، ایک طبی ماہر آپ کو بتائے گا کہ ان معمولی چیزوں پر انسان کی زندگی کا کتنا دار و مدار ہے اور انسان کی موت وحیات سے اس کا کتنا گہرا تعلق ہے ؟ اگر کسی آدمی کا کچھ عرصہ کے لئے پیشاب بند ہوجائے، یا کسی کا پاخانہ رک جائے تو اس کی زندگی کے لالے پڑھ جاتے ہیں اور خدانخواستہ اگر اس عرصہ میں غیر معمولی امتداد پیدا ہوجائے تو پھر اس کی زندگی موت کی آغوش میں سوتی نظر آتی ہے۔ تو کیا ؟ یہ اللہ کا ایک عظیم انعام اور اس کا بہت بڑا فضل و کرم نہیں ہے کہ وہ اس تکلیف دہ چیز کو انسان کے جسم سے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد کتنی آسانی سے خارج کرتا رہتا ہے، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی وہ زبان جو اس کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں پر ہر وقت ادائے شکر وسپاس میں مشغول رہتی تھی اس کی عظیم الشان نعمت پر شکر سے قاصر رہتی۔ چنانچہ یہ حدیث یہی بتارہی ہے کہ آپ ﷺ جب بھی بیت الخلاء سے باہر نکلتے، اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اے الٰہ العلمین ! دنیا کی تمام تعریفیں تیرے ہی لئے زیبا ہیں، تمام حمد و ثناہ کا تو ہی مستحق ہے اور کیوں نہ ہو ؟ جب کے تیری ذات اپنے بندوں کے لئے سراسر لطف و کرم اور رحمت و شفقت ہے۔۔۔ جس کا ایک ادنیٰ سا اظہار یہ بھی ہے کہ تو نے اس وقت محض اپنے فضل و کرم سے ایک تکلیف دہ چیز کو میرے جسم سے خارج کیا اور اس طرح مجھے سکون وا طمینان عطا فرمایا اور عافیت بخشی۔ بعض احادیث میں آپ ﷺ سے یہ دعا بھی منقول ہے جسے آپ ﷺ بیت الخلا سے باہر آنے کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ اَلحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذْھَبَ عَنِّی مَایُؤْ ذِیْنِی وَاَبْقَی عَلَیَّ مَایَنْفَعُنِی تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے زیبا ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کیا اور وہ چیز باقی رکھی جو میرے لے فائدہ منہ ہے۔ غذا ہضم ہونے پر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، ایک بڑا حصہ وہ ہوتا ہے جو فضلہ بن جاتا ہے، دوسرا حصہ جو غذا کا اصل جوہر ہوتا ہے وہ خون وغیرہ میں تبدیل ہوجاتا ہے اس پر زندگی کی بقامنحصر ہوتی ہے، چناچہ اس دعا میں غذا کی انہی دونوں حصوں کی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اگر ان دونوں نعمتوں کا کوئی آدمی خیال کرے تو اسے احساس ہو کہ یہ کتنی اہمیت کی حامل ہیں لیکن افسوس کہ آج ایسے کتنے ہی بےحس و لاپرواہ انسان ملیں گے جن کے دماغ و شعور میں ان کا تصور بھی نہیں ہوگا۔

【86】

پاخانہ کے آداب کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب جنات کی جماعت سرکار دوعالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ اپنی امت کو منع فرما دیجئے کہ وہ گوبر، ہڈی اور کوئلہ سے استنجاء نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ہمارا رزق پیدا کیا ہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں ان (چیزوں کے استعمال) سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد) تشریح ہڈی جنات کی خوارک ہے جس سے وہ غذا حاصل کرتے ہیں، اسی طرح لید ان کے جانوروں کی خوارک ہے نیز کوئلے سے بھی چونکہ جنات فائدہ اٹھاتے ہیں مثلاً کوئلہ سے کھانا وغیرہ پکاتے ہیں یا اس سے روشنی کرتے ہیں اس لئے اس کو بھی رزق میں شمار کیا گیا ہے۔

【87】

مسواک کرنے بیان

یوں تو مسواک کرنا متفقہ طور پر تمام علماء کرام کے نزدیک سنت ہے مگر حنفیہ کے نزدیک خاص طور پر وضو کے لئے امام شافعی (رح) کے نزدیک وضو و نماز کے وقت مسواک کرنا مسنون ہے، نیز نماز فجر اور نماز ظہر سے پہلے بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے، مسواک کرنے میں بڑی خیر و برکت اور بہت فضیلت ہے چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ مسواک کرنے کی فضیلت میں چالیس احادیث وارد ہوئی ہیں، پھر نہ صرف یہ کہ مسواک کرنا ثواب کا باعث ہے بلکہ اس سے جسمانی طور پر بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں چناچہ مسواک کرنے سے منہ پاک و صاف رہتا ہے، منہ کے اندر بدبو پیدا نہیں ہوتی، دانت سفید و چمک دار ہوتے ہیں، مسوڑھوں میں قوت پیدا ہوتی ہے اور دانت مضبوط ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو ہر حال میں مسواک کرنا مستحب اور بہتر ہے مگر بعض حالتوں میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے مثلاً وضو کرنے کے وقت، قرآن شریف پڑھنے کے لئے، دانتوں پر زردی اور میل چڑھ جانے کے وقت اور سونے، چپ رہنے، بھوک لگنے یا بدبو دار چیز کھانے کے سبب منہ کا مزہ بگڑ جانے کی حالت میں مسواک زیادہ مستحب اور اولیٰ ہے۔ مسواک کرنے کے کچھ آداب و طریقے ہیں چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ کسی مجلس و مجمع میں اس طرح مسواک کرنا کہ منہ سے رال ٹپکتی ہو مکروہ ہے خصوصاً علماء اور بزرگوں کے قریب اس طرح مسواک کرنا مناسب نہیں ہے۔ مسواک کڑوے درخت مثلاً نیم وغیرہ کی ہونی چاہئے، پیلو کے درخت کی مسواک زیادہ بہتر ہے چناچہ احادیث میں بھی پیلو کی مسواک کا ذکر آیا ہے نیز حضرت امام نووی (رح) فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ پیلو کی مسواک کی جائے مسواک کا سرا چھنگلیا کی طرف ہونا چاہئے اور مسواک کی لمبائی ایک بالشت کے برابر ہونی چاہئے، مسواک دانتوں کی چوڑائی پر کرنی چاہئے لمبائی پر مسواک نہ کی جائے کیونکہ اس طرح مسواک کرنے سے مسوڑھے چھل جاتے ہیں۔ مسواک کرنے کے وقت کے بارے میں اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جب وضو شروع کیا جائے تو کلی کے وقت مسواک کرنی چاہئے مگر بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ وضو کرنے سے پہلے ہی مسواک کر لینی چاہئے، نیز مسواک کرنے میں مستحب ہے کہ مسواک دائیں طرف سے شروع کی جائے۔ اگر کسی آدمی کے پاس مسواک نہ ہو یا دانت ٹوٹے ہوئے ہوں تو ایسی حالت میں انگلی سے دانت یا مسوڑھوں کو صاف کرنا چاہئے یا اسی طرح مسواک کو نرم کرنے کے لئے اگر کوئی پتھر نہ ملے اور ایسی شکل میں مسواک کرنا ممکن نہ ہو تو دانت کو ایسی چیزوں سے صاف کرلیا جائے جو منہ کی بد مزگی کو دور کردیں جیسے موٹا کپڑا اور منجن وغیرہ یا صرف انگلی ہی سے صاف کرلے۔

【88】

مسواک کرنے بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میں اپنی امت پر اس بات کو مشکل نہ جانتا تو مسلمانوں کو یہ حکم دیتا کہ وہ عشاء کی نماز دیر سے پڑھیں اور ہر نماز کے لئے مسواک کریں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح عشاء کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنا مستحب اور بڑی فضیلت کی بات ہے اسی طرف یہ حدیث اشارہ کر رہی ہے چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ میری امت دشواری میں مبتلا ہوجائے گی تو میں یہ فرض قرار دیتا کہ تمام مسلمان عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھا کریں اب تاخیر کی حد کیا ہے ؟ اس بارے میں حضرت امام شافعی (رح) کے علاوہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ تہائی یا آدھی رات تک عشاء کی نماز پڑھنا مستحب ہے۔ دوسری بات آپ ﷺ مسواک کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ اگر اس معاملہ میں بھی تنگی و مشکلات کا خوف نہ ہوتا تو اس بات کا علان کردیتا کہ ہر نماز کے وقت یعنی ہر نماز کے وضو کے وقت مسواک کرنا فرض ہے۔ لیکن آپ ﷺ چونکہ امت کے حق میں سراپا رحمت و شفقت ہیں اس لئے آپ نے ان چیزوں کو فرض کا درجہ نہیں دیا کہ فرض ہونے کی شکل میں مسلمان تنگی اور تساہلی کی بناء پر ان فرائض پر عمل نہیں کرسکیں گے نتیجے کے طور پر گناہ گارہوں گے، لہٰذا ان کو صرف مستحب ہی قرار دیا کہ اگر کوئی آدمی ان پر عمل نہ کرے اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا اور کوئی اللہ کا بندہ اس پر عمل پیرا ہوجائے تو یہ اس کے حق میں سرا سر سعادت و نیک بختی کی بات ہوگی۔

【89】

مسواک کرنے بیان

اور حضرت شریح ابن ہانی راوی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ سرکار دو عالم ﷺ جب اپنے گھر میں تشریف لاتے تو پہلے کیا کرتے ؟ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے آپ ﷺ مسواک کرتے۔ (صحیح مسلم) تشریح آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ ﷺ اپنے گھر میں تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے اور یہ آپ و کے مزاج اقدس کی انتہائی نظافت کی دلیل تھی کہ اگر مجلس مبارک میں خاموش بیٹھنے یا لوگوں سے گفتگو کرنے کی وجہ سے منہ کے اندر کچھ تغیر آگیا ہو تو وہ دور ہوجائے۔ اگر آپ ﷺ کے اس فعل مبارک کی حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی تعلیم امت کا مقصد سامنے آئے گا لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ انتہائی پاکیزگی و صفائی کے ساتھ رہا کریں یہاں تک کے آپ میں گفتگو و کلام کرنے اور ملنے جلنے کے لئے مسواک کرلیا کریں تاکہ کوئی آدمی منہ کی بدمزگی یا بو کے تغیر کی وجہ سے تکلیف محسوس نہ کرے۔ مسواک کی فضیلت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے منقول ہے کہ مسواک کرنے کے ستر فائدے ہیں جن میں سب سے ادنیٰ اور کم درجہ فائدہ یہ ہے کہ مسواک کرنے والا آدمی موت کے وقت کلمہ شہادت کو یاد رکھے گا جس کی بناء پر اس کا خاتمہ یقینا خیر پر ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کہ افیون کھانے کے ستر نقصان ہیں جن میں سب سے ادنیٰ اور کم تر نقصان یہ ہے کہ افیون کھانے والا آدمی موت کے وقت کلمہ شہادت بھول جائے گا، العیاذ با اللہ حضرت علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ ہر آدمی کے لئے یہ تاکید ہے کہ وہ جب گھر میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سب سے پہلے مسواک کرے کیونکہ اس سے منہ میں بہت زیادہ خوشبو پیدا ہوجاتی ہے جس سے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک میں اضافہ ہوتا ہے۔

【90】

مسواک کرنے بیان

اور حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب رات تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے تو اپنا منہ مسواک سے ملتے اور دھوتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

【91】

مسواک کرنے بیان

اور حضرت عائشہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا دس چیزیں فطرت میں سے ہیں (یعنی دین کی باتیں) (١) لبوں کے بال کٹوانا (٢) داڑھی کا بڑھانا (٣) مسواک کرنا (٤) ناک میں پانی دینا (٥) ناخن کٹوانا (٦) جوڑوں کی جگہ کو دھونا (٧) بغل کے بال صاف کرنا (٨) زیر ناف بالوں کو مونڈنا (٩) پانی کا کم کرنا یعنی استنجاء کرنا راوی یعنی مصعب یا زکریا کا بیان ہے کہ دسویں چیز کو میں بھول گیا، ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہو۔ (صحیح مسلم) اور ایک روایت میں (دوسری چیز) داڑھی بڑھانے کے بجائے ختنہ کرانا ہے اور (صاحب مشکوۃ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ روایت نہ صحیحین یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں ملی ہے اور نہ کتاب حمیدی میں (جو صحیحین کی جامع ہے، البتہ اس روایت کو صاحب جامع الاصول نے (اپنی کتاب میں) ذکر کیا ہے، اسی طرح خطابی نے معالم السنن میں ابوداؤد کے حوالہ سے حضرت عمر ابن یاسر (رض) کی روایت کے ساتھ نقل کیا ہے۔ تشریح اس حدیث میں جن دس چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ تمام چیزیں پچھلے تمام انبیاء (علیہم السلام) کی شریعت میں سنت تھیں اور رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت یعنی دین اسلام میں بھی سنت ہیں چناچہ اکثر علماء کرام کے نزدیک فطرت کے یہی معنی ہیں، دوسری شروحات میں اس کے علاوہ علماء کے دوسرے اقوال بھی منقول ہیں لیکن طوالت کی بناء پر یہاں سب کو ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ پہلی چیز لبوں کے بال یعنی مونچھوں کا کٹوانا ہے، اس سلسلہ میں مختار مسلک یہی ہے مونچھیں کتروائی جائیں اور اس طرح کتروائی جائیں کہ اوپر کے ہونٹ کا کنارہ معلوم ہونے لگے۔ امام اعظم (رح) کی ایک روایت یہ ہے کہ مونچھیں بھوؤں کی برابر رکھنی چاہئیں۔ البتہ غازیوں اور مجاہدوں کو زیادہ مونچھیں بھی رکھنی جائز ہے کیوں کہ زیادہ مونچھیں دشمن کی نظر میں دہشت کا باعث ہوتی ہیں اور اس سے ان پر رعب چھا جاتا ہے، مونچھوں کا زیادہ کٹوانا کہ ان کا نشان بھی باقی نہ رہے یا بالکل منڈوانا مکروہ ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک حرام ہے مگر بعض علماء نے اسے سنت بھی کہا ہے۔ دوسری چیز داڑھی کا بڑھانا ہے، اس کے بارے میں علماء کا فیصلہ ہے کہ داڑھی کی لمبائی ایک مٹھی کے برابر ہونا ضروری ہے اس سے کم نہ ہونا چاہئے اگر مٹھی سے زیادہ بھی ہو جائز ہے بشر طی کہ حد اعتدال سے نہ بڑھ جائے۔ داڑھی کو منڈوانا یا پست کرنا حرام ہے کیونکہ یہ اکثر مشرکین مثلاً انگریز و ہندو کی وضع ہے، اسی طرح منڈی ہوئی یا پست داڑھی ان لوگوں کی وضع ہے جنہیں دین سے کوئی حصہ نصیب نہیں ہے کہ جن کا شمار گروہ قلندری رمد مشرب میں ہوتا ہے۔ داڑھی کے بال ایک مٹھی کے برابر چھوڑنا واجب ہے اسے سنت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا ثبوت سنت سے ہے جیسے نماز عید کو سنت فرماتے ہیں حالانکہ عید واجب ہے۔ اگر لمبائی یا چوڑائی میں کچھ بال آگے بڑھ کر بےترتیب ہوجائیں تو ان کو کتروا کر برابر کرنا جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ انہیں بھی نہ کتروایا جائے، اگر کسی عورت کی داڑھی نکل آئے تو اسے صاف کر ڈالنا مستحب ہے۔ تیسری چیز مسواک کرنا ہے، اس کے متعلق پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ مسواک کرنا بالاتفاق علماء کرام کے نزدیک سنت ہے، بلکہ امام ابوداؤد (رح) نے تو اسے واجب کہا ہے، حضرت شاہ اسحق صاحب (رح) نے اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہی ہے کہ اگر کوئی آدمی مسواک کو قصدا چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل ہوگی، چوتھی چیز ناک میں پانی دینا ہے، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وضو کے لئے ناک میں پانی دنیا مستحب ہے اور غسل کے لئے ناک میں پانی دینا فرض ہے یہی حکم کلی کا بھی ہے کہ وضو میں کلی کرنا سنت ہے اور غسل میں فرض ہے۔ پانچویں چیز ناخن کا کٹوانا ہے، ناخن کسی طرح بھی کٹوائے جائیں اصل سنت ادا ہوجائے گی لیکن اولٰی اور بہتر یہ ہے کہ ناخن کٹوانے کے وقت یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کے ناخن کٹوائے جائیں اس کے بعد بیچ کی انگلی کے اس کے بعد اس کے پاس کی انگلی کے پھر چھنگلیا کے پھر بعد میں انگوٹھے کے ناخن کٹوائے جائیں، اس کے بعد بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے ناخن اس طرح کٹوائے جائیں کہ سب سے پہلے چھنگلیا کے اس کے بعد اس کے پاس کی انگلی اس کے بعد بیچ کی انگلی اس کے بعد شہادت کی انگلی اور پھر بعد میں انگوٹھے کے ناخن کٹوائے جائیں۔ بعض علماء کرام نے یہ طریقہ بھی لکھا ہے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے ناخن کٹوانا شروع کرے اور چھنگلیا پر پہنچ کر روک دے پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے شروع کرے اور اس کے انگوٹھے تک پہنچ کر دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کر دے۔ اسی طرح پیر کے ناخن اس طرح کٹوانا چاہئے کہ پہلے دائیں پیر کی چھنگلیا سے کٹوانا شروع کرے اور آخر میں بائیں بیر کی چھنگلیا پر لے جا کر ختم کرے بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ جمعہ کے روز ناخن کتروانا مستحب ہے، کچھ حضرات نے ناخن کٹوا کر ان کو زمین میں دفن کردینے کو بھی مستحب لکھا ہے، اگر ناخن پھینک دیئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ان کو پاخانہ میں یا غسل کی جگہ میں پھینکنا مکروہ ہے۔ چھٹی چیز براجم یعنی جوڑوں کی جگہ کو دھونا ہے، براجم فرماتے ہیں انگلیوں کی گانٹھوں (جوڑوں) کو اور اس کی اوپر کی کھال کو جو چنٹ دار ہوتی ہے اس میں اکثر میل جمع ہوتا ہے۔ خصوصاً جو لوگ ہاتھ سے کام کاج زیادہ کرتے ہیں ان کی انگلیاں سخت ہوجاتی ہیں اور ان میں میل جم جاتا ہے، لہٰذا ان کو دھونے کی تاکید فرمائی جا رہی ہے، اسی طرح بدن کے وہ اعضاء جن میں میل جم جانے کا گمان ہو جیسے کان، بغل، ناف ان کو بھی دھونے کا یہی حکم ہے۔ ساتویں چیز بغل کے بالوں کو صاف کرنا ہے، اس سلسلہ میں نتف استعمال فرمایا گیا ہے، نتف بال اکھاڑنے کو فرماتے ہیں، چناچہ اس سے معلوم ہوا کہ بغل کے بالوں کو منڈوانا سنت نہیں ہے بلکہ ان کو ہاتھ سے اکھاڑنا سنت ہے مگر بعض علماء نے کہا ہے کہ بغل کے بالوں کو ہاتھ سے اکھاڑنا اس آدمی کے لئے افضل ہے جو اس کی تکلیف کو برداشت کرسکتا ہو، ویسے بغل کے بالوں کا منڈوانا یا نورے سے صاف کرنا بھی جائز ہے۔ آٹھویں چیز زیر ناف بالوں کو مونڈنا ہے، یہ بھی سنت ہے، زیر ناف بال، اگر منڈانے کی بجائے اکھاڑے جائیں، یا نور سے صاف کئے جائیں تو بھی ان کے حکم میں شامل ہوں گے مگر قینچی سے کاٹنے میں سنت ادا نہیں ہوتی۔ مقعد (پاخانہ کے مقام) کے گرد جو بال ہوتے ہیں ان کو بھی صاف کرنا مستحب ہوتا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زیر ناف بالوں نورے ( نورہ ایک خاص مرکب چیز کو فرماتے ہیں جو ہڑتال اور چونے سے ملا کر بنائی جاتی تھی جس سے بال اڑجاتے ہیں) ۔ سے صاف کیا کرتے تھے وا اللہ اعلم۔ عورتوں کو زیر ناف بال اکھاڑنا اولیٰ ہے کیونکہ اس سے خاوند کو رغبت زیادہ ہوتی ہے، نیز عورت کے اندر چونکہ خواہشات نفسانی اور شہوت ننانوے حصہ ہوتی ہے اور مرد میں صرف ایک حصہ ہوتی ہے اور یہ طے ہے کہ زیر ناف بال اکھاڑنے سے شہوت کم ہوتی ہے اور مونڈنے سے قوی ہوتی ہے، لہٰذا عورت کے مناسب حال یہی ہے کہ وہ بال اکھاڑے اور مرد کے مناسب حال یہ ہے کہ وہ مونڈے۔ زیر ناف بال مونڈنے، بغل کے بال اکھاڑنے، مونچھیں کتروانے اور ناخن کٹوانے کی مدت زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہونی چاہئے، چالیس دن کے اندر اندر ان کو صاف کرلینا چاہئے اس سے زیادہ مدت تک انہیں چھوڑے رکھنا مکروہ ہے۔ نویں چیز پانی کا کم کرنا یعنی پاکی کے ساتھ استنجاء کرنا ہے۔ انتقاص الماء کے دو مطلب ہیں ایک تو یہی جو راوی نے بیان کئے ہیں یعنی پانی کے ساتھ استنجاء کرنا چونکہ استنجاء کرنے میں پانی خرچ ہوتا ہے اور کم ہوجاتا ہے اس لئے اس انتقاص الماء (پانی کا کم کرنا) سے تعبیر کیا گیا ہے، دوسرے معنی یہ کہ پانی کے استعمال یعنی استنجاء کرنے کی بناء پر پیشاب کو کم کرنا، مطلب یہ ہے کہ پانی سے استنجاء کرنے کی وجہ سے پیشاب کے قطرے رک جاتے ہیں اس طرح پیشاب میں کمی ہوجاتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں انتقاص کی جگہ لفظ انتقاض آیا ہے اس کے معنی ہیں ستر کے اوپر پانی چھڑکنا جیسا کہ پہلی حدیثوں میں گزر چکا ہے، بہر حال یہ دونوں چیزیں بھی سنت ہیں۔ ختنہ چونکہ شعائر اسلام میں سے ہے اس لئے اگر کسی شہر کے تمام لوگ ختنہ ترک کردیں تو امام وقت کو ان کے ساتھ جنگ کرنی چاہئے تاآنکہ وہ لوگ اس اسلامی شعائر کو اختیار کرلیں جیسے آذان کے بارے میں حکم ہے۔ ختنہ کرنے کی عمر اور وقت کے تعین میں علماء کے یہاں اختلاف ہے، بعض علماء کے نزدیک پیدائش کے ساتویں دن ختنہ کردینا چاہئے جیسے عقیقہ ساتویں دن ہوتا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک سال اور بعض کے نزدیک نو سال کی مدت ہے، بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی قید نہیں ہے، جب چاہے ختنہ کردیا جائے، گویا بالغ ہونے سے پہلے پہلے جب بھی وقت اور موقع ہو ختنہ کرایا جاسکتا ہے، امام اعظم کے نزدیک اس صورت میں بلوغ سے پہلے کی شرط بطور خاص ہے کیونکہ ختنہ کرنا سنت ہے اور بالغ ہونے کے بعد ستر چھپانا واجب ہے اس لئے اگر کوئی آدمی بالغ ہونے کے بعد ختنہ کرائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے ایک سنت کو ادا کرنے کے لئے واجب کو ترک کردیا حالانکہ سنت کی ادائیگی کے لئے واجب کو ترک کردینا جائز نہیں۔

【92】

مسواک کرنے بیان

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا مسواک کرنا، منہ کی پاکی کا سبب ہے اور پروردگار کی خوشنودی کا باعث ہے شافعی، مسند احمد بن حنبل، دارمی، سنن نسائی) اور امام بخاری (رح) نے اس حدیث کو اپنی صحیح (جامع صحیح البخاری) میں بغیر سند کے نقل کیا ہے۔

【93】

مسواک کرنے بیان

حضرت ابوایوب (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا چار چیزیں رسولوں کے طریقہ میں سے ہیں (١) حیاء کرنا ( ایک روایت میں) ختنہ کرنا مروی ہے (یعنی اس روایت میں تو الحیاء کا لفظ ہے اور بعض روایت میں اس کے بجائے الختان کا لفظ آیا ہے۔ (٢) خوشبو لگانا (٣) مسواک کرنا (٤) نکاح کرنا۔ (جامع ترمذی ) تشریح رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد فرمانا کہ چار چیزیں رسولوں کے طریقہ میں سے ہیں کہ اکثر کے اعتبار سے ہے کیونکہ بعض انبیاء کرام (علیہم السلام) ایسے بھی تھے جن کے یہاں ان میں سے کچھ چیزیں نہیں پائی جاتی تھیں مثلاً حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے نکاح نہیں کیا تھا۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم، حضرت شیث، حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت یوسف، حضرت موسیٰ ، حضرت سلیمان، حضر زکریا، حضرت عیسیٰ علیم السلام اور حضرت حنظلہ بن صفوان (علیہ السلام) جو اصحاب الرس کے نبی تھے اور سرکار دو عالم ﷺ مختون ہی اس دنیا میں تشریف لائے تھے، یعنی انبیاء و رسول ختنہ کئے ہوئے پیدا ہوئے تھے۔ سرکار دو عالم ﷺ کے بارے میں بعض علماء کرام کا قول ہے کہ پیدا ہونے کے بعد آپ ﷺ کا ختنہ ہوا ہے، رسول اللہ ﷺ چونکہ نظافت ولطافت کے انتہائی بلند مقام پر تھے اس لئے آپ ﷺ کو خوشبو زیادہ مرغوب تھی، چناچہ منقول ہے کہ آپ خوشبو کے لئے مشک استعمال فرماتے تھے۔ شریعت محمدی ﷺ میں نکاح کی بہت زیادہ اہمیت ہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعلان فرما دیا ہے کہ جو آدمی میری اس سنت سے اعراض کرے گا یعنی نکاح نہیں کرے گا تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔ حضرت علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے نکاح کے فضائل و مناقب میں منقول جو احادیث جمع کی ہیں ان کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔

【94】

مسواک کرنے بیان

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب رات اور دن میں سو کر اٹھتے تو وضو کرنے سے پہلے مسواک کرتے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ دن میں بھی قیلولہ کے وقت آرام فرماتے تھے، چناچہ دن میں تھوڑا بہت سو لینا اور قیلولہ کے وقت آرام کرنا سنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے رات میں اللہ کی عبادت کے لئے اٹھنے میں آسانی ہوتی ہے جیسے کہ سحری کھا لینے سے روزہ آسان ہوجاتا ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سو کر اٹھنے کے بعد مسواک کرنا سنت موکدہ ہے کیونکہ سونے کی وجہ سے منہ میں تغیر پیدا ہوجاتا ہے اور بو میں فرق آجاتا ہے اس لئے مسواک کرنے سے منہ صاف ہوجاتا ہے۔ اب اس میں احتمال ہے کہ آپ ﷺ پھر وضو کے لئے دوبارہ مسواک کرتے تھے یا نہیں ؟ ہوسکتا ہے کہ اسی مسواک پر اکتفا فرماتے ہوں اور وضو کے وقت دوبارہ مسواک کرتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وضو کے ارادہ کے وقت یا وضو میں کلی کرتے وقت دوبارہ مسواک کرتے ہوں۔ وا اللہ اعلم۔

【95】

مسواک کرنے بیان

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ مسواک کرتے اور پھر مجھے دے دیتے تاکہ میں اسے دھو ڈالوں چناچہ میں (آپ سے مسواک لے کر) پہلے اس سے خود مسواک کرتی پھر دھوتی اور رسول اللہ ﷺ کو دے دیتی۔ (سنن ابوداؤد) تشریح یہ حدیث اس بات کے لئے دلیل ہے کہ مسواک کرنے کے بعد اس کو دھونا مستحب ہے، حضرت ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ تین مرتبہ مسواک کی جائے اور ہر مرتبہ اسے پانی سے دھو لیا جائے تاکہ اس کا میل کچل دور ہوتا رہے اور یہ کہ مسواک نرم ہونی چاہئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) آپ ﷺ سے مسواک لے کر دھونے سے پہلے اپنے منہ میں اس لئے پھیرتی تھیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کی لعاب مبارک کی برکت حاصل ہو، پھر اسے دھو کر آپ ﷺ کو دے دیتی تھیں تاکہ مسواک پوری طرح نہ کی ہو تو اسے مکمل کرلیں۔ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی دوسرے کی مسواک اس کی رضا مندی سے استعمال کرلینا مکروہ نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صالحین اور بزرگوں کے لعاب وغیرہ سے برکت حاصل کرنا اچھی بات ہے۔

【96】

مسواک کرنے بیان

حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ (ایک دن) سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا کہ میں مسواک کر رہا ہوں (اس اثناء میں) دو آدمی میرے پاس آئے، ان میں سے ایک آدمی دوسرے سے بڑا تھا، میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دینے کا ارادہ کیا مگر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو مسواک دو ، چناچہ میں نے ان میں سے بڑے کو مسواک دی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس حدیث سے مسواک کی بزرگی اور فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے اس لئے کہ اسے بڑے کو دینے کا حکم کیا جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ایک افضل اور بہترین چیز ہے جب ہی تو بڑے کو جو چھوٹے سے افضل و اعلیٰ تھا، دئیے جانے کا حکم کیا گیا۔ اس حدیث نے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ کھانا وغیرہ دینے، خوشبو لگانے یا ایسی ہی دوسری چیزوں میں ابتداء بڑے سے ہی کرنی چاہئے۔

【97】

مسواک کرنے بیان

حضرت ابی امامہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) جب بھی میرے پاس آتے مجھے مسواک کرنے کا حکم دیتے (یہاں تک کہ) یہ مجھے خوف ہوا کہ (کہیں مسواک کی زیادتی سے) میں اپنے منہ کے اگلے حصہ کو چھیل نہ ڈالوں۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح مسواک کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب بھی رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لاتے آپ ﷺ کو مسواک کرنے کا حکم دیتے اور رسول اللہ ﷺ اس حکم کی بنا پر کثرت سے مسواک کرتے، چناچہ آپ ﷺ یہی فرما رہے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے بار بار حکم اور اس شدت سے تاکید کی بناء پر مسواک اتنی کثرت سے استعمال کرتا ہوں کہ مجھے یہ ڈر ہے کہ مسواک کی زیادتی سے کہیں میرا منہ نہ چھیل جائے۔

【98】

مسواک کرنے بیان

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نے تم سے مسواک کے متعلق بہت کچھ بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری ) تشریح اس ارشاد کا مقصد مسواک کی فضیلت و اہمیت کو بتانا ہے اور اس پر تاکید فرمانی ہے کہ مسواک زیادہ سے زیادہ کرنی چاہئے اس لئے کہ کسی چیز کو بار بار بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ چیز بڑی اہمیت و فضیلت کی حامل ہے۔

【99】

مسواک کرنے بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ مسواک کر رہے تھے اور آپ ﷺ کے پاس دو آدمی تھے جن میں ایک دوسرے سے بڑا تھا چناچہ مسواک کی فضیلت میں آپ ﷺ کی طرف یہ وحی نازل فرمائی گئی کہ بڑے کو مقدم رکھو اور ان دونوں میں سے بڑے کو مسواک دو ۔ (ابوداؤد)

【100】

مسواک کرنے بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ نماز جس کے لئے مسواک کی گئی (یعنی وضو کے وقت) اس نماز پر جس کے لئے مسواک نہیں کی گئی ستر درجے کی فضیلت رکھتی ہے۔ (بیہقی) تشریح اس حدیث سے بھی مسواک کی فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے کہ مسواک کی وجہ سے نماز کے مراتب و درجات کی کمی پیشی ہوتی ہے، چناچہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کسی آدمی نے ایک نماز تو اس طرح پڑھی کہ اس نے اس نماز کے لئے وضو کے وقت مسواک اور ایک نماز اس طرح پڑھی کہ اس کے لئے وضو کے وقت مسواک نہیں کی تو پہلے نماز جس کے لئے مسواک کی گئی ہے اس نماز کے مقابلہ میں جس کے لئے مسواک نہیں کی گئی فضیلت اور ثواب کی زیادتی ستر درجہ زیادہ ہوگی گویا دوسری نماز کے مقابلہ میں پہلی نماز کا ثواب ستر گناہ زیادہ ملے گیا۔

【101】

مسواک کرنے بیان

حضرت ابوسلمہ (رض) ( حضرت ابوسلمہ تابعی ہیں، بعمر ٧٢ سال ٩٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے) ۔ حضرت زید ابن خالد الجہنی (رض) ( حضرت زید ابن خالد جن ہی (رض) مشہور صحابی ہیں کنیت ابوعبدالرحمن بعمر ٨٥ سال بعہد عبدالملک ٧٨ ھ میں اور بعض کے خیال کے مطابق حضرت معاویہ (رض) کے آخری زمانہ میں آپ کا انتقال ہوا ہے) ۔ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میں اپنی امت کے لئے اسے مشکل نہ جانتا تو میں ان کو ہر نماز کے لئے مسواک کرنے کا حکم دیتا (یعنی یہ اعلان کرتا کہ ہر نماز کے وقت مسواک کرنا واجب ہے اور عشاء کی نماز میں تہائی رات یا تاخیر کرنا۔ راوی کا بیان ہے کہ (اس کے بعد) زید ابن خالد (رض) نماز کے لئے مسجد میں آتے تو مسواک ان کے کان پر رکھی ہوتی جس طرح کاتب کے کان میں قلم رکھا رہتا ہے، جب وہ نماز کیلئے کھڑے ہوتے فوراً مسواک کرلیتے اور پھر کان پر رکھ لیتے (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی) ابوداؤد نے لَاَخَّرْتُ صَلٰوَۃَ الْعِشَآءِ اِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں اور امام ترمذی (رح) نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی )

【102】

وضو کی سنتوں کا بیان

یہاں وضو کی سنتوں سے مراد رسول اللہ ﷺ کے وہ افعال و اقوال ہیں جو آپ ﷺ سے وضو کے بارے میں منقول ہیں خواہ ان کا تعلق وضو کے فرائض سے ہو یا سنت یا آداب وضو سے۔

【103】

وضو کی سنتوں کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی سو کر اٹھے تو (اسے چاہئے کہ) اپنے ہاتھ کو پانی کے برتن میں نہ ڈالے جب تک اسے (پہنچوں تک) تین بار دھو نہ لے، اس لئے کہ اسے نہیں معلوم کہ رات بھر اس کا ہاتھ کہاں رہا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وضو سے پہلے ہاتھوں کو دھونا سنت ہے، جہاں تک سو کر اٹھنے کے بعد کی قید کا سوال ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں پانی کی قلت ہوتی ہے، خاص طور پر زمانۂ نبوت میں تو پانی بہت ہی کم مقدار میں دستیاب ہوتا تھا، اس لئے اکثر و بیشتر لوگ پانی سے استنجاء نہیں کرتے تھے پہلے ڈھیلوں سے یا پتھروں سے صاف کرلیا کرتے تھے اور یہ ظاہر ہے کہ گرم ہوا کی بنا پر سوتے میں استنجاء کے مقام پر پسینہ آجاتا ہے، اس صورت میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ رات میں سوتے وقت ہاتھ استنجاء کے مقام پر پہنچ جائے جس سے ہاتھ گندے ہوجائیں جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سونے والے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا ہاتھ رات کو سوتے وقت کہاں رہا اس لئے آپ ﷺ نے حکم دیا کہ جب کوئی آدمی سو کر اٹھے تو چاہئے کہ وہ پہلے اپنے ہاتھوں کو پانی کے برتن میں نہ ڈال دے بلکہ ہاتھ تین مرتبہ دھو ڈالے تاکہ وہ پاک و صاف ہوجائیں اس کے بعد برتن سے پانی لے کر وضو کرلے۔ بہر حال یہاں نیند کی قید تو اس لئے ہے کہ اس میں ہاتھوں کو نجاست لگنے کا احتمال ہے ورنہ ہر ایک وضو کرنے والے کو پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھونا چاہئے اس لئے کہ علماء لکھتے ہیں کہ اس طرح ہاتھ دھونا اس آدمی کے لئے بھی سنت ہے جو سو کر نہ اٹھا ہو کیونکہ ہاتھ دھونے کا سبب یعنی ہاتھ کو نجاست و میل لگنے کا احتمال جاگنے کی حالت میں بھی موجود ہے۔ ہاتھ دھونے کا یہ حکم فرض اور واجب نہیں ہے بلکہ مسنون کے درجہ میں ہے کہ آپ ﷺ نے اس کا حکم احتیاط کے طور پر دیا ہے اگر کوئی آدمی ہاتھ نہ دھوئے تو بھی وہ پاک ہے کہ اگر بغیر دھوئے ہاتھ پانی میں ڈال دے تو اس سے پانی ناپاک و نجس نہیں ہوتا کیونکہ سوتے میں ہاتھ کا ناپاک ہونا یقینی نہیں ہے بلکہ احتمال کے درجہ کی چیز ہے مگر حضرت امام احمد بن حنبل (رح) فرماتے ہیں کہ سو کر اٹھنے کے بعد ہاتھ کا دھونا واجب ہے، اگر کوئی آدمی سو کر اٹھا اور اس نے بغیر دھوئے ہاتھ پانی میں ڈال دیا تو پانی ناپاک ہوجائے گا۔

【104】

وضو کی سنتوں کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے اور وضو کا ارادہ کرے تو تین مرتبہ (ناک میں پانی دے کر) ناک کو جھاڑے اس لئے کہ اس کی ناک کے بانسے پر شیطان رات گزارتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح انسان کی ناک کے بانسے پر شیطان کا رہنا اور اس پر رات گزارنے کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی حقیقت و کیفیت کا علم تو اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے اس کے رموز و اسرار کی معرفت سے ہماری عقلیں قاصر ہیں۔ لہٰذا ایسے امور کے معاملہ میں جن کی خبر شارع نے دی ہے۔ بہتر اور اولیٰ طریقہ یہی ہے کہ صرف ان کی صداقت کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر ایمان لایا جائے اور ان کی حقیقت و کیفیت کے بیان کرنے میں سکوت اختیار کیا جائے۔ بعض حضرات نے اس کی بڑی دلچسپ تاویل بھی کی ہے، مثلاً یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان سو جاتا ہے تو بخارات، رینٹھ اور گرد و غبار ناک میں جمع ہوجاتے ہیں جو دماغ کا قریبی حصہ ہے اس کی بنا پر دماغ جو حو اس و شعور کی جگہ ہے مکدر ہوجاتا ہے اور یہ چیز تلاوت قرآن کے آداب کو کماحقہ، ادا کرنے اور اس کے معنی و مطلب کے سمجھنے میں مانع ہوتی ہے، نیز یہ عبادات کی ادائیگی میں سستی اور کسل کا باعث بھی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام چیزیں شیطان کی منشاء کے عین مطابق اور اس کی خوشی کا باعث ہیں، اس لئے اس مشابہت سے کہا گیا ہے کہ سونے والے کی ناک کے بانسہ کے اوپر رات بھر شیطان بیٹھا رہتا ہے۔ بہر حال یہ احتمالات ہیں، ان پر بھی کوئی یقینی حکم نہیں لگایا جاسکتا اس لئے بہتر اور اولیٰ طریقہ وہی ہے جو پہلے ذکر کیا گیا ہے۔

【105】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) (اسم گرامی عبداللہ بن زید بن عاصم ہے ابن ام عمارہ کے نام سے مشہور ہیں، ابومحمد کنیت ہے، آپ بزمانہ یزید ٦٤ ھ میں شہید ہوئے۔ (رض) ۔ سے پوچھا گیا کہ سر کا ردو عالم کس طرح وضو فرمایا کرتے تھے (یہ سن کر) حضرت عبداللہ بن زید (رض) نے وضو کا پانی منگوایا (جب پانی آگیا تو) انہوں نے دونوں ہاتھوں پر (پانی) ڈالا اور انہیں پہنچوں تک) دو دو مرتبہ دھویا پھر کلی کی اور پانی ڈال کر ناک کو جھاڑا تین مرتبہ پھر اپنا منہ تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک لائے یعنی انہوں نے اپنے سر کی اگلی جانب سے شروع کیا اور دونوں ہاتھوں کو گدی تک لے گئے پھر ان کو (پھیر کر) اسی جگہ واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا اور پھر دونوں پاؤں کو دھویا۔ (مالک، سنن نسائی، ابوداؤد) اور صحیح البخاری و صحیح مسلم میں یہ روایت اس طرح ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) سے کہا گیا ہے کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ وضو کرتے تھے اسی طرح آپ ﷺ ہمارے سامنے وضو کریں چناچہ عبداللہ بن زید (رض) نے (پانی کا) برتن منگوایا (جب پانی کا برتن آگیا تو) انہوں نے اسے جھکایا اور اس سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر انہیں تین مرتبہ دھویا پھر ہاتھ برتن میں داخل کیا اور اس سے پانی نکالا پھر (اسی) ایک چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اس طرح انہوں نے تین مرتبہ کیا، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر پانی نکالا اور تین مرتبہ منہ دھویا، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر نکالا اور سر کا مسح (اس طرح) کیا کہ اپنے دونوں ہاتھ آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کی طرف لائے اور پھر اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا، پھر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہی وضو تھا اور صحیح البخاری و صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ (مسح کے لئے) اپنے ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کی طرف لائے یعنی اپنے سر کے اگلے حصہ سے (مسح) شروع کیا اور (ہاتھوں کو) گدی کی طرف لے گئے پھر گدی کی طرف سے وہیں لے آئے جہاں سے (مسح) شروع کیا تھا اور پھر اپنے پاؤں کو دھویا صحیحین کی ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ کلی کی ناک میں پانی دیا اور ناک تین مرتبہ جھاڑی تین چلوؤں سے ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ پس کلی کی اور ایک ہی چلو سے ناک میں پانی ڈالا۔ اس طرح تین مرتبہ کیا۔ صحیح البخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ پس سر کا مسح کیا (اس طرح کہ) اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور آگے سے پیچھے کی طرف لے آئے اور یہ ایک مرتبہ کیا پھر دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا بخاری ہی کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں بس کلی کی اور ناک جھاڑی تین مرتبہ صرف ایک چلو سے۔ تشریح اس حدیث کے پہلے جزء سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) نے ہاتھوں کو دو مرتبہ دھویا حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں دوسری روایتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ ہاتھ تین مرتبہ دھوتے تھے، اس سلسلہ میں علماء کرام یہ تاویل کرتے ہیں کہ سنت تو تین ہی مرتبہ دھونا ہے مگر چونکہ دو مرتبہ بھی دھو لینا جائز ہے اس لئے حضرت عبدا اللہ بن زید (رض) نے بیان جواز کے لئے اپنے ہاتھوں کو پہنچوں تک دو مرتبہ دھویا۔ تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ دو مرتبہ دھونا جائز ہے۔ اس سلسلہ میں مرتین کا لفظ دو مرتبہ آیا ہے، حالانکہ ایک ہی مرتبہ لانا کافی تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لفظ مرتین صرف ایک ہی مرتبہ ذکر کیا جاتا تو اس سے یہ وہم پیدا ہوسکتا تھا کہ دونوں ہاتھ متفرق طور پر دو مرتبہ دھوئے ہوں گے، یعنی ایک مرتبہ ایک ہاتھ دھویا اور ایک مرتبہ ایک دھویا، لہٰذا اس وہم سے بچانے کے لئے مرتین کو دو مرتبہ ذکر کیا تاکہ یہ بات صاف ہوجائے کہ دونوں ہاتھ ملا کردو مرتبہ دھوئے۔ سر کے مسح کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی تین انگلیاں سر کے آگے کی جانب رکھی جائیں اور دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو اور شہادت کی انگلیوں کو نیز ہتھیلیوں کو سر سے جدا رکھا جائے اس طرح چھ انگلیوں کو گدی کی طرف لے کر جائیں پھر، دو ہتھیلیاں سر کے پچھلے حصہ پر رکھ کر آگے کی طرف لائی جائیں اور پھر دونوں کانوں کے اوپر کے حصہ پر دونوں انگوٹھوں سے اور کانوں کے دونوں سوراخوں میں شہادت کی انگلیوں سے مسح کیا جائے۔ وفی المقفق علیہ کے بعد جو روایتیں نقل کی گئی ہیں وہ صاحب مصابیح کی نقل کردہ نہیں ہیں بلکہ صاحب مشکوٰۃ نے ان کا اضافہ کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ما قبل کی روایت باوجودیکہ صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول نہیں ہے مگر صاحب مصابیح نے انہیں صحاح یعنی فصل اوّل میں نقل کیا ہے اس لئے مصنف مشکوٰۃ ان روایتوں کو جو صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول ہیں آگے اضافہ کردیا ہے تاکہ ترتیب صحیح رہے۔ صحیح البخاری کی آخری روایت جس کے الفاظ یہ ہیں۔ پس کلی کی اور ناک جھاڑی تین مرتبہ ایک چلو سے کا یہ مطلب نہیں کہ ایک ہی چلو سے ناک میں تین مرتبہ پانی دے کر اسے جھاڑے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تین دفعہ میں ہر مرتبہ ایک ایک چلو سے ناک میں پانی دے کے اسے جھاڑا یعنی تین مرتبہ کے لئے تین چلو بھی استعمال کئے۔ اس سلسلہ میں اتنی بات جان لینی چاہئے کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کے بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں، چناچہ بعض احادیث میں کلی کرنا اور پھر تین چلو سے ناک میں پانی دینا اور بعض روایات میں ایک ہی چلو سے فصل و وصل کے ساتھ منقول ہے یعنی تین چلو سے کلی کرنا اور پھر تین چلو سے ناک میں پانی دینا بھی حدیث سے ثابت ہے اور یہ دونوں ایک ہی چلو سے بھی ثابت ہے، اس طرح اس کی کئی صورتیں ہیں، چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک قول صحیح کے مطابق یہ ہے کہ دونوں تین چلو میں کئے جائیں اس طرح کے پہلے ایک چلو پانی لیا جائے اور اس میں تھوڑے پانی سے کلی کرلی جائے اور بقیہ پانی ناک میں ڈالے پھر دوسرا چلو اور تیسرا چلو لے کر اسی طرح کیا جائے۔ حضرت امام اعظم (رح) کا مذہب یہ ہے کہ ہر ایک تین تین چلو سے کئے جائیں یعنی کلی کے لئے تین چلو استعمال کئے جائیں اور پھر ناک میں پانی دینے کے لئے بھی تین ہی چلو الگ سے استعمال کئے جائیں۔ امام اعظم علیہ الرحمۃ نے اس طریقہ کو اس لئے ترجیح دی ہے کہ قیاس کے مطابق ہے اس لئے کہ منہ اور ناک دونوں علیحدہ علیحدہ عضو ہیں لہٰذا جس طرح دیگر اعضاء وضو کو جمع نہیں کیا جاتا اسی طرح ان دونوں عضو کو بھی جمع نہیں کیا جائے گا اور اصل فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ جو حدیث قیاس کے موافق ہوا سے ترجیح دی جائے۔ جہاں تک شوافع و حنفیہ کے مذہب میں تطبیق کا تعلق ہے اس سلسلہ میں شمنی نے فتاوی ظہریہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمۃ کے یہاں وصل بھی جائز ہے یعنی امام شافعی علیہ الرحمۃ کا جو مسلک ہے وہ امام اعظم (رح) کے نزدیک بھی صحیح ہے، اسی طرح امام شافعی (رح) کے یہاں فصل بھی جائز ہے، یعنی جو مسلک امام اعظم کا ہے وہ امام شافعی کے یہاں بھی صحیح اور جائز ہے۔ نیز امام ترمذی (رح) حضرت امام شافعی (رح) کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کو ایک ہی چلو کے ساتھ جمع کرنا جائز ہے لیکن میں اسے زیادہ پسند کرتا ہوں کہ ان دونوں کے لئے علیحدہ علیحدہ چلو استعمال کئے جائیں، اس قول سے صراحت کے ساتھ یہ بات ثابت ہوگئی کہ حنفیہ اور شوافع کے مسلک میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے۔

【106】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا (یعنی تمام اعضاء وضو کو صرف ایک ایک مرتبہ دھویا اور اس پر زیادہ نہیں کیا۔ (صحیح البخاری )

【107】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن زید (رض) (اسم گرامی عبداللہ بن زید بن عبدربہ ہے اور کنیت ابومحمد ہے آپ انصاری ہیں اور آپ صحابی ہیں۔ ٣٢ ھ میں بعمر ٦٤ سال آپ کی وفات ہوئی) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے دو ، مرتبہ وضو کیا (یعنی اعضاء وضو کو دو دو بار دھویا) ۔ (صحیح البخاری )

【108】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عثمان (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے مقام مقاعد میں وضو کیا اور کہا کہ کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ کا وضو نہ دکھلاؤں ؟ چناچہ انہوں نے تین تین مرتبہ وضو کیا (یعنی انہوں نے اعضاء وضو کو تین تین بار دھو کر بتایا کہ رسول اللہ ﷺ اس طرح وضو فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اعضاء وضو کو کبھی ایک ایک مرتبہ دھوتے تھے کبھی دو دو مرتبہ دھوتے تھے اور کبھی تین تین مرتبہ دھوتے تھے اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ اکثر تین تین مرتبہ ہی دھوتے تھے۔ ان میں تطبیق اس طرح ہوگی کے آپ ﷺ کا اعضاء وضو کو کبھی کبھی ایک ایک مرتبہ دھونا بیان جواز کے لئے تھا یعنی اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ ایک ایک مرتبہ دھونا جائز ہے اور اس طرح وضو ہوجاتا ہے کیونکہ یہ ادنیٰ درجہ ہے اور فرض بھی ایک ایک مرتبہ ہی دھونا ہے، اسی طرح دو دو مرتبہ بھی بیان جواز کے لئے دھوتے تھے کہ اس طرح بھی وضو ہوجاتا ہے اور اکثر و بیشتر تین تین مرتبہ اس لئے دھوتے ہیں کہ یہ طہارت کا انتہائی درجہ ہے، لہٰذا عضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھونا سنت ہے اور اس پر زیادتی کرنا منع ہے، بعض احادیث میں بعض اعضاء کو تین تین مرتبہ بعض اعضاء کو دو دو مرتبہ اور بعض اعضاء کو ایک ایک مرتبہ بھی دھونا ثابت ہے چناچہ یہ سب طریقے بھی بیان جواز کے لئے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ دھونا گناہ ہے کیونکہ اس طرح سنت مشہورہ ترک ہوتی ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ جب خود احادیث سے ایک ایک مرتبہ دھونا ثابت ہے اسے گناہ کہنا مناسب نہیں ہے۔ آخر حدیث کے یہ الفاظ کہ تین تین مرتبہ وضو کیا یعنی اعضاء وضو کو تین بار دھویا۔ اس سے بظاہر تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ سر کا مسح بھی تین مرتبہ کیا ہوگا لیکن جن روایتوں میں اعضاء وضو کے دھونے کی تفصیل اور وضاحت کی گئی ہے جیسے کہ صحیحین کی روایتیں گزری ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک ہی مرتبہ ہے۔

【109】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹے یہاں تک کہ جس وقت ہم پانی پر پہنچے جو راستہ میں تھا تو کچھ لوگوں نے نماز عصر کے لئے وضو کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ بہت جلدی کرنے والے تھے، چناچہ جب ہم ان لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں چمک رہی تھیں (یعنی خشک رہ گئی تھیں کیونکہ) ان تک پانی نہیں پہنچا تھا (ان خشک ایڑیوں کو دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ویل (خرابی) ہے ایڑیوں کے لئے آگ سے ! وضو کو پورا کرو۔ (صحیح مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے واپس لوٹ رہے تھے درمیان سفر عصر کی نماز کا وقت ہوگیا، راستہ میں ایک جگہ پانی کے قریب یہ قافلہ رک گیا، کچھ لوگ یہ سوچ کر کہ نماز عصر کا وقت ہو رہا ہے، وضو کرنے کے لئے پانی کی طرف لپکے چناچہ وہ لوگ تیز چل کر اس جماعت سے جس میں خود رسول اللہ ﷺ اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) وغیرہ تھے آگے نکل گئے اور پانی پر پہلے پہنچ کر وقت کی تنگی کے سبب جلدی جلدی وضو کرلیا، جب رسول اللہ ﷺ ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ جلدی کی وجہ سے ان کی پیر پوری طرح دھلے نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایڑیاں خشک رہ گئی، اسی بناء پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایڑیوں کے لئے ویل (خرابی ہے) آگ سے۔ بعض علماء نے ویل کے معنی شدت عذاب لکھے ہیں۔ کچھ علماء کی تحقیق ہے کہ ویل دوزخ میں پیپ اور لہو کے ایک پہاڑ کا نام ہے۔ بعض محققین لکھتے ہیں کہ ویل ایک ایسا کلمہ ہے جسے رنج رسیدہ آدمی بولتا ہے اور اصل میں اس کے معنی ہلاکت اور عذاب کے ہیں۔ بہر حال ان تمام معانی کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب اور صحیح یہ ہے کہ اس لفظ کا محل اصل ہی کو قرار دیا جائے۔ یعنی ایڑیوں کے لئے عظیم ہلاکت اور درد ناک عذاب ہے خاص طور پر ایڑیوں ہی کے لئے یہ وعید اس لئے ہے کہ وضو میں دھوئی نہیں گئی تھیں جس کی بناء پر وہ خشک رہ گئی تھیں۔ گو ! بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں ایڑیوں سے مراد ایڑیوں والے ہیں یعنی یہ وعید ان لوگوں کے لئے جن کی ایڑیاں وضو میں خشک رہ گئی تھیں۔ آخر میں آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ وضو کو پورا کرو یعنی وضو کے جو فرائض و سنن اور مستحبات و آداب ہیں ان سب کو پورا کرو اور سب کی ادائیگی کا خیال رکھو چناچہ دوسری حدیث میں وارد ہے کہ (اعضاء وضو کا کوئی حصہ) اگر ایک ناخن کے برابر بھی خشک رہ جائے گا تو وہ وضو درست نہیں ہوگا۔ یہ حدیث اس بات کے لئے دلیل ہے کہ وضو میں پاؤں کا دھونا فرض ہے کیونکہ اگر پاؤں دھونا فرض نہ ہوتا تو ایڑیوں کے خشک رہ جانے کی وجہ سے اتنی بڑی وعید نہ فرمائی جاتی، چناچہ ہر دور کے تمام علماء اور فقہاء کا یہی عقیدہ اور مسلک رہا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا فرض ہے مسح کافی نہیں ہے، اس مسئلہ میں کسی بھی ایسے عالم کا اختلاف جو لائق اعتبار اور قابل استناد ہو ثابت نہیں ہے، نیز صحابہ کرام جو رسول اللہ ﷺ کے وضو کی کیفیت و تفصیل بیان کرتے ہیں جیسے حضرت علی، حضرت عثمان غنی اور حضرت عبداللہ بن زید (رض) جنہیں حا کی یعنی رسول اللہ ﷺ کے وضو کو بیان کرنے والا کہا جاتا ہے یہاں اسی طرح حضرت جابر حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق (رض) اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وضو میں اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تو پیر مبارک دھویا ہی کرتے تھے۔ پھر ایسی بیشمار احادیث جو مرتبہ تو اتر کو پہنچی ہوئی ہیں منقول ہیں جن سے وضو میں پیروں کا دھونا ہی ثابت ہے اور اس کے ترک کرنے پر وعید بیشمار احادیث میں مذکور ہے۔ حضرت عبدا اللہ بن عمر (رض) اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وضو میں اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تو پیر مبارک دھویا ہی کرتے تھے۔ پھر ایسی بیشمار احادیث جو مرتبہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں منقول ہیں جن سے وضو میں پیروں کا دھونا ہی ثابت ہے اور اس کے ترک کرنے پر وعید بیشمار احادیث میں مذکور ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پاؤں پر مسح کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ (پیروں کو دھو کر) وضو کو پورا کرنے کا حکم فرمایا اور اس کے ترک پر و عید فرمائی چناچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مسح چھوڑ دیا اور وہ منسوخ ہوگیا۔ امام طحاوی (رح) علیہ، حضرت عبدالملک بن سلیمان کا قول نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء خراسانی (رح) سے جو جلیل القدر تابعی ہیں، پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی ایک روایت بھی ایسی ملی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ رسول اللہ ﷺ کا کوئی بھی صحابی اپنے پیروں پر مسح کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! نہیں۔ بہر حال اس سلسلہ میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ وضو میں پیر کے بارے میں جو حکم قرآن مجید میں مذکور ہے وہ محمل اور مشتبہ ہے، چناچہ رسول اللہ ﷺ کی سنت نے خواہ وہ قولی ہو یا فعلی جو حد شہرت و تواتر کو پہنچتی ہے اس کی تشریح اور وضاحت کردی ہے کہ قرآن پاک میں اس حکم سے اللہ کی مراد یہ ہے کہ وضو میں پاؤں کو دھونا چاہئے لہٰذا پاؤں کو دھونا ہی فرض ہے۔ جہاں تک شیعہ فرقہ کے مسلک و معمول کا تعلق ہے کہ وہ لوگ وضو میں پیر پر مسح کرتے ہیں، اس بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ انتہائی گمراہی میں مبتلا ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی اتنی زیادہ تفصیل و تشریح اور اتنے کھلے ہوئے حکم کے باوجود ان کا پیروں کا نہ دھونا انتہائی غلط اور غیر شری فعل ہے۔ وا اللہ اعلم۔

【110】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) (حضرت مغیرہ شعبہ کے لڑکے ہیں آپ کی کنیت ابوعبدا اللہ اور ابوعیسیٰ ہے آپ نے بعمر ستر سال ٥٠ ھ ہجری میں انتقال فرمایا) ۔ فرماتے ہیں کے سرکار دو عالم ﷺ نے وضو کیا۔ چناچہ آپ ﷺ نے اپنی پیشانی کے بالوں اور پگڑی پر اور موزوں پر مسح کیا۔ (صحیح مسلم) تشریح سر کے مسح کی مقدار میں علماء کرام کے یہاں اختلاف ہے چناچہ حضرت امام مالک (رح) کے نزدیک پورے سر کا مسح فرض ہے، حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک سر کے کچھ حصہ کا مسح کافی ہے خواہ وہ تین بال ہی کیوں نہ ہوں، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک چوتھائی سرکار مسح فرض ہے، حضرت امام اعظم (رح) کی دلیل یہی حدیث ناصیہ (ناصیہ سر کے آگے کی جانب حصہ کو فرماتے ہیں) اسی بنا پر حنفیہ فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ دو ہی شکلیں ہوسکتی ہیں، اوّل تو یہ کہ امام مالک (رح) کے مسلک کے مطابق مسح پورے سر کا فرض ہے، مگر یہ ظاہر ہے کہ پورے سر کا مسح اگر فرض ہوتا پھر رسول اللہ ﷺ مسح ناصیہ پر ہی اکتفا نہ فرماتے، بلکہ ادائے فرض کے لئے پورے ہی سر کا مسح فرماتے ہیں، لہٰذا معلوم ہوا کہ پورے سر کا مسح تو فرض نہیں، دوسری شکل یہ ہے کہ چوتھائی سر سے بھی کم پر مسح فرض ہو جیسا کہ امام شافعی (رح) کا مذہب ہے، اس سلسلہ میں بھی یہی بات ہے کہ اگر چوتھائی سر سے کم بھی مسح فرض ہوتا تو رسول اللہ ﷺ بیان جواز کے لئے اسے بھی اختیار فرماتے مگر یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے چوتھائی سر سے کم پر کبھی مسح نہیں کیا ہے، لہٰذ اس سے بھی یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسح چوتھائی سر کا ہی فرض ہے۔ پگڑی پر مسح کرنے کے معنی شارحین نے یہ لکھے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے چوتھائی سرکا مسح جو فرض ہے کرلیا تو تکمیل وضو اور ادائے سنت کے لئے (کہ تمام سر کا مسح کرنا سنت ہے) بجائے اس کے سر کے بقیہ حصہ پر مسح فرماتے، سر کے اوپر بندھی ہوئی پگڑی پر مسح کرلیا۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے احتمال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پگڑی طہارت کے بعد پہنی ہو اور پگڑی نے پورے سر کو ڈھانک لیا ہو جیسا کہ موزہ پر مسح کرنے کا مسئلہ ہے۔

【111】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ حتی الامکان اپنے تمام کاموں کو سیدھے ہاتھ سے شروع کرنا محبوب رکھتے تھے اور (مثلاً ) اپنی طہارت میں، اپنا جوتا پہننے میں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس حدیث میں اچھے کاموں کو داہنے ہاتھ سے شروع کرنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بارے میں اسے پسند فرماتے اور عزیز رکھتے تھے کہ جہاں تک اپنا بس چلے تمام کام داہنے ہاتھ سے انجام دیئے جائیں چناچہ لفظ ما استطاع (حتی الامکان) سے اسی محافظت اور تاکید کی طرف اشارہ ہے۔ طہارت دائیں طرف سے شروع کرنے کی یہ شکل تھی کہ وضو میں دایاں ہاتھ اور دایاں پیر پہلے دھوتے تھے اور بایاں ہاتھ و بایاں پیر بعد میں دھوتے تھے، اسی طرح نہانے کے وقت دائیں جانب پہلے دھوتے اور بائیں جانب بعد میں دھوتے تھے۔ بہر حال اس حدیث میں تین چیزیں ذکر کی گئی ہیں، جو مثال کے طور ہیں ورنہ تو ہر وہ چیز جو از قبیل بزرگی ہوتی تھی اسے آپ ﷺ دائیں ہاتھ سے شروع کرتے تھے، جیسے کپڑے پہننا، ازار زیب تن کرنا، موزہ پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، بیت الخلاء سے باہر آنا ( یعنی بیت الخلاء سے پہلے دایاں پیر باہر نکالتے تھے، سرمہ لگانا، ناخن کتروانا، بغل کے بال صاف کرنا، لب کے بال کتروانا، سرمنڈوانا، زیر ناف بال صاف کرنا، مصافحہ کرنا، کھانا پینا اور کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح جو چیز از قبیل بزرگی نہیں ہیں ان کو بائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے، مثلاً بیت الخلاء (یعنی بیت الخلاء میں پہلے بایاں پیر رکھنا، بازار میں جانا، مسجد سے نکلنا، ناک سنکنا، تھوکنا، استنجاء کرنا اور کپڑے اور جوتے اتارنا یا ایسے ہی دوسرے کام، ان کاموں کو بائیں طرف سے شروع کرنے میں ایک لطیف اور پر حقیقت نکتہ بھی ہے یہ کہ ایسی چیزوں کی ابتداء بائیں طرف سے کرنے کی وجہ دائیں طرف کی تکریم و احترام کا مظاہرہ ہوتا ہے مثلا ًجب کوئی آدمی مسجد سے نکلتے وقت پہلے بایاں قدم باہر نکالے گا تو دائیں قدم کی تکریم ہوئی بایں طور کہ دایاں قدم محترم جگہ میں باقی رہا۔ اسی پر دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ کہ انسان کے ہمراہ جو دو فرشتے ہوتے ہیں ان میں سے دائیں ہاتھ کا فرشتہ دائیں طرف کی فضیلت و احترام کی بناء پر بائیں ہاتھ کے فرشتے پر شرف و فضیلت رکھتا ہے، نیز اسی نقطہ کے پیش نظر کہا جاتا ہے کہ دائیں طرف کا ہمسایہ بائیں طرف کے ہمسایہ پر مقدم ہے۔

【112】

وضو کی سنتوں کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم لباس وغیرہ) پہنو یا وضو کرو تو اپنے دائیں طرف سے شروع کرو۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد)

【113】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت سعید بن زید (رض) ( اسم گرامی سعید بن زید اور کنیت ابوالاعور ہے آپ قریشی عدوی ہیں اور آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں آپ کا انتقال ٥٠ ھ یا ٥١ ھ میں بعمر ٧٠ سال بمقام عتیق ہوا) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے (وضو کے وقت) اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا اس کا وضو نہیں ہوا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) اور مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور دارمی نے ابوسعید خدری (رض) سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے، نیز ان لوگوں نے اپنی روایت کے شروع میں یہ الفاظ زائد ذکر کئے کہ اس آدمی کی نماز نہیں ہوتی جس نے وضو نہیں کیا ) تشریح اس حدیث سے وضو کے ابتداء میں بسم اللہ کہنے کی فضیلت و اہمیت کا اظہار ہو رہا ہے، حدیث کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے ابتداء وضو میں اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا یعنی بسم اللہ نہیں کہی تو اس کا وضو درجہ تکمیل کو نہ پہنچا جس کی بنا پر اسے ثواب نہیں ملا۔ ویسے اس مسئلہ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل (رح) تعلایٰ علیہ کے نزدیک ابتداء وضو میں بسم اللہ کہنا واجب ہے، مگر جمہور علماء کے کرام کے نزدیک سنت یا مستحب ہے۔ ابتداء وضو میں علماء سلف سے یہ الفاظ منقول ہیں سُبْحَانَ ا الْعَظِیْم وَبِحَمْدِہ بعض علماء نے کہا ہے کہ اَعُوْذُ بِا پڑھنے کے بعد بِسْمِ ا الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھنا افضل ہے اور مشہور یہ الفاظ ہیں۔ بِسْمِ ا وَالحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی دِیْنِ الْاِسْلَامِ ۔ روایت کے آخر میں ایک لفظی غلطی ہے، جو ہوسکتا ہے کہ کاتب وغیرہ سے سہو ہو یعنی آخر میں یہ الفاظ ذکر کئے گئے ہیں والدارمی عن ابی سعید الخدری عن ابیہ غلط ہے بلکہ صحیح ابی سعید الخدری عن النبی ﷺ یعنی درامی نے اس حدیث کو حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے اور ابی سعید نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔

【114】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت لقیط بن صبرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے وضو کے بارے میں آگاہ فرمائیے آپ ﷺ نے فرمایا تم وضو کو پورا کرو، انگلیوں میں خلال کرو اور اگر تمہارا روزہ نہ ہو تو ناک میں اچھی طرح پانی پہنچاؤ۔ (سنن ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی سنن ابن ماجہ اور دارمی نے اس حدیث کو بین الا صابع تک روایت کیا ہے) تشریح سوال کا مقصد یہ تھا کہ آپ ﷺ مجھے کمال وضو کا طریقہ بتا دیجئے تاکہ اسے اختیار کر کے ثواب کا مستحق ہو سکوں اس کا جواب آپ ﷺ نے یہ دیا کہ وضو کو پورا کرو، یعنی وضو کے جو فرائض اور سنن و مستجات ہیں انہیں پورا کرو۔ وضو میں انگلیوں کے درمیان خلال کرنا حضرت امام اعظم اور امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سنت ہے مگر یہ حکم اس شکل میں ہے جبکہ انگلیاں خلقی اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا اور کشادہ ہوں لیکن آپس میں اگر اس طرح ملی ہوں کہ آسانی اور بےتکلفی سے پانی ان کے درمیان نہ پہنچا ہو تو پھر انگلیوں کے درمیان خلال کرنا واجب ہوگا۔ حنفیہ کے یہاں انگلیوں کے درمیان خلال کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ کر دائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر خلال کیا جائے۔ یہی طریقہ اولیٰ ہے۔ پاؤں کی انگلیوں کا خلال بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے کرنا چاہئے اس طرح کہ اسے دائیں پاؤں کی چھنگلیا کے نیچے داخل کر کے خلال کرنا شروع کیا جائے، یہاں تک کہ بائیں پاؤں کی چھنگلیا پر ختم کیا جائے۔ ناک میں پانی دینے کی حدیہ ہے کہ پانی ناک کے نرم حصہ تک پہنچایا جائے اور اس میں مبالغہ جو حدیث کا منشا ہے یہ ہے کہ پانی اس سے بھی آگے گزر جائے، مگر جیسا کہ خود حدیث نے وضاحت کردی ہے کہ یہ مبالغہ یعنی ناک کے نرم حصہ سے بھی آگے پانی پہنچانا اس وقت ہے جب کہ وضو کرنے والا روزہ دار نہ ہو، اگر وضو کرنے والا روزہ دار ہو تو پھر اس کے لئے یہ مبالغہ مکروہ ہے۔ اس موقع پر یہ بھی سمجھ لیجئے کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی دینا حضرت امام اعظم (رح) کے نزدیک وضو میں سنت ہے اور غسل میں فرض مگر امام شافعی (رح) کے نزدیک غسل اور وضو میں یہ دونوں چیزیں سنت ہیں۔

【115】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں اور اپنے پیروں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرو۔ (جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے اور جامع ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے) ۔ تشریح ہاتھ کی انگلیوں کے درمیاں خلال تو ہاتھوں کو دھونے کے بعد کرنا چاہئے اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال پاؤں کو دھونے کے بعد کرنا چاہئے، یہی طریقہ افضل اور اولیٰ ہے۔

【116】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت مستور بن شداد (رض) راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو دیکھا جب آپ ﷺ وضو فرماتے تو اپنے پاؤں کی انگلیوں کو (بائیں ہاتھ کی) چھنگلیا، سے ملتے (یعنی پاؤں کی انگلیوں کے درمیان بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے خلال فرماتے۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، ابن ماجۃ) تشریح لفظ یدلک کا مطلب یہ ہے کہ آپ (بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان) خلال کرتے تھے۔ چناچہ اس کی تصدیق اس روایت سے ہوتی ہے جسے امام احمد بن حنبل (رح) نے روایت کیا ہے جس میں لفظ (یعنی خلال کرتے تھے) صراحت کے ساتھ آیا ہے اس شکل میں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا مستحب ہے یا یدلک کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ ﷺ (اپنے دائیں ہاتھ کی چھنگلیا پاؤں کی انگلیوں پر) پھیرتے تھے، اس صورت میں یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ تمام اعضاء کا ملنا مستحب ہے۔

【117】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب وضو فرماتے تو ایک چلو پانی لیتے، پھر اسے اپنی ٹھوڈی کے نیچے پہنچاتے اور اس سے اپنی داڑھی میں خلال کرتے اور پھر فرماتے کے میرے پروردگار نے (وحی خفی کے ذریعہ) اسی طرح سے حکم فرمایا) ۔ (ابوداؤد) تشریح وضو میں داڑھی کا اس طرح خلال کرنا مستحب ہے، یہ خلال منہ دھونے کے بعد کرنا چاہئے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ انگلیاں داڑھی کے نیچے سے داخل کر کے اوپر کی طرف کا باہر نکالی جائیں۔

【118】

وضو کی سنتوں کا بیان

حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ (وضو کرتے وقت) اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے۔ (جامع ترمذی، دارمی)

【119】

وضو کی سنتوں کا بیان

حضرت ابوحیہ (رض) (اسم گرامی عمرو بن نصر انماری الہمدانی اور کنیت ابوعیسیٰ سے مشہور ہیں تابعی ہیں) ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، چناچہ انہوں نے اپنے ہاتھوں کو دھویا یہاں تک کہ انہیں پاک کیا، پھر تین مرتبہ ناک میں پانی دیا، تین مرتبہ اپنا منہ دھویا، تین مرتبہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے، ایک مرتبہ اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کھڑے ہوئے اور وضو کے بچے ہوئے پانی کو کھڑے کھڑے پی لیا اور پھر فرمایا کہ میں نے یہ پسند کیا کہ تمہیں دکھاؤں کہ رسول اللہ ﷺ کا وضو کس طرح تھا۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی) تشریح وضو کے بچے ہوئے پانی میں چونکہ برکت آجاتی ہے اس لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وضو کے بقیہ پانی کو پی لیا، چناچہ حصول برکت کے لئے وضو کے بقیہ پانی کو پی لینا چاہئے، یہ پانی کھڑے ہو کر پینا بھی جائز ہے۔

【120】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبدخیر (رح) (اسم گرامی عبد خیر یزید اور کنیت ابوعمارہ ہمدانی ہے، آپ تابعی ہیں کوفہ میں سکونت پزیر تھے) ۔ فرماتے ہیں کہ ہم بیٹھے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے چناچہ انہوں نے برتن میں داہنے ہاتھ سے پانی لیا اور منہ بھر کر کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور بائیں ہاتھ سے ناک سین کی اسی طرح تین مرتبہ کیا پھر فرمایا جس کے لئے یہ بات خوش کن ہو کہ وہ سرکار دوعالم ﷺ کے وضو کو دیکھے تو وہ دیکھے کہ آنحضرت ﷺ کا وضو یہ ہے (یعنی اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وضو فرماتے تھے۔ دارمی) تشریح یہاں راوی کا مقصد یہ تھا کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کی کیفیت بیان کرے اس لئے انہوں نے صرف اسی قدر بیان کیا، باقی وضو چونکہ معلوم تھا اس لئے اسے بیان نہیں کیا۔

【121】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبدا اللہ بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور تین مرتبہ اسی طرح کیا۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح حدیث کے آخر جملہ میں دو احتمال ہیں یعنی اس کے معنی یا تو یہ ہیں کہ آپ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور اس طرح تین مرتبہ کیا یا یہ کہ تین چلو سے تین مرتبہ کلی کی اور پھر تین چلو سے تین مرتبہ ناک میں پانی دیا۔ دوسرے معنی زیادہ مناسب اور اکثر روایات کے مطابق ہیں۔ ان کے علاوہ ایک تیسرا احتمال اور بھی ہوسکتا ہے وہ یہ کہ آپ ﷺ نے ایک ہی چلو سے تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی بھی دیا، دوسرا چلو نہیں لیا۔ یہی تمام احتمالات اس سے پہلے گزرنے والی حدیث میں بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔

【122】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا اور کانوں کے اندر کا مسح اپنی شہادت کی انگلیوں سے اور اوپر کا انگوٹھوں سے کیا۔ (سنن نسائی )

【123】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت ربیع بنت معوذ (رض) ( اسم گرامی ربیع ہے معوذ کی لڑکی ہیں، آپ جلیل القدر صحابیہ ہیں اور انصاریہ ہیں آپ بیعت رضوان میں شامل تھیں) ۔ سے مروی ہے کہ انہوں نے سرکار دو عالم ﷺ کو وضو کرتے دیکھا چناچہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے سر کے اگلے حصہ پر، پچھلے حصہ پر، کنپٹیوں پر اور کانوں پر ایک مرتبہ مسح کیا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے وضو کیا چناچہ (مسح کے لئے) اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں کے سوراخوں میں داخل کیا۔ (ابوداؤد) جامع ترمذی نے پہلی حدیث کو اور سنن ابن ماجہ نے دوسری حدیث کو روایت کیا ہے) ۔ تشریح لفظ صدغیہ اور اذنیہ لفظ راسہ پر عطف ہیں اسے عطف خاص علی العام فرماتے ہیں یعنی سر کے پانی کے ساتھ مسح کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب آپ ﷺ نے ہاتھ پر پانی لے کر سر کا مسح کیا تو اسی پانی سے کنپٹیوں اور کانوں پر بھی مسح کرلیا اور ان دونوں کے مسح کے لئے علیحدہ سے پانی نہیں لیا، چناچہ حضرت امام اعظم (رح) کا مسلک یہی ہے۔ صدغ کان اور آنکھ کے درمیانی حصہ کو فرماتے ہیں اردو میں کنپٹی کہا جاتا ہے، نیز جو بال اس جگہ پر لٹکے رہتے ہیں اسے بھی صدغ فرماتے ہیں۔ ( قاموس) اور (امام مالک (رح) نے کہا ہے کہ صدغ ان بالوں کو فرماتے ہیں جو سر کے دونوں طرف کان اور ناصیہ (پیشانی کے بال) کے درمیان ہوتے ہیں، یہی معنی حنفی مسلک کے مطابق اور مناسب ہیں۔ شرح السنتہ میں منقول ہے کہ علماء کے یہاں مسئلہ میں اختلاف ہے کہ تین مرتبہ مسح کرنا سنت ہے یا نہیں ؟ چناچہ اکثر علماء یہ فرماتے ہیں کہ مسح ایک ہی مرتبہ کرنا چاہئے، یہی مسلک حضرت امام اعظم، امام احمد، امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا ہے۔ امام شافعی (رح) کے مذہب میں یہ مشہور ہے کہ تین مرتبہ مسح اس طرح کرنا کہ ہر مرتبہ نیا پانی لیا جائے سنت ہے، چناچہ اکثر علماء کا یہی خیال ہے مگر خود امام شافعی (رح) تین مرتبہ مسح کرنے کو مستحب فرماتے ہیں، امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں حضرت عثمان غنی سے جو احادیث مروی ہیں وہ سب صحیح ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسح ایک ہی مرتبہ کرنا چاہئے۔ شمنی فرماتے ہیں کہ ہر دفعہ نئے پانی کے ساتھ تین مرتبہ کرنا بدعت ہے مگر ہدایہ میں لکھا ہے کہ ایک ہی پانی سے تین مرتبہ مسح کرنا مشروع ہے اور یہ امام اعظم (رح) سے بھی منقول ہے۔ وا اللہ اعلم۔

【124】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، چناچہ آپ ﷺ نے اپنے سرکا مسح اس پانی سے کیا جو ہاتھوں کا بچا ہوا نہ تھا (یعنی نیا پانی لے کر مسح کیا) ۔ (جامع ترمذی اور مسلم نے اس روایت کو زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جس میں دیگر اعضاء وضو کے دھونے کا بھی ذکر ہے) ۔ تشریح فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مثلاً ایک آدمی نے وضو کے وقت ہاتھ دھویا اور ہاتھ دھونے کے بعد جو تری اس کے ہاتھوں میں باقی رہ گئی تھی تو اس سے سر کا مسح کرلیا تو مسح ہوجائے اور اگر کسی عضو پر مسح کرنے کے بعد اس کے ہاتھوں میں تری رہ گئی تو اس سے سر کا مسح کیا تو یہ درست نہیں ہوگا۔ اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی ایک حدیث بھی نقل کی جاتی ہے، نیز اس مذکورہ حدیث کو بھی ابن لہیعہ کی روایت سے نقل کیا گیا ہے جس میں بماء غبر فضل یدیہ یعنی لفظ غبرنا کے ساتھ غبر ہے جس کے معنی یہ ہوجاتے ہیں کہ اس پانی کے ساتھ مسح کیا جو ہاتھ دھونے کے بعد ہاتھ میں باقی رہ گیا تھا، یعنی مسح کے لئے از سر نو پانی نہیں لیا بلکہ پورے ہاتھ دھونے کے بعد جو تری ہاتھوں میں رہ گئی تھی اس سے مسح کرلیا۔ اس طرح حدیث کے معنی بالکل برعکس ہوگئے کیونکہ اس حدیث کے الفاظ سے جو یہاں نقل کی گئی ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے سر کا مسح ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی سے نہیں کیا بلکہ نیا پانی لے کر کیا لیکن مذکورہ بالا شکل میں صرف ایک نقطہ کے تغیر سے معنی بالکل برعکس ہوگئے۔ مگر جہاں تک سوال کی تحقیق کا ہے تو بات یہی ہے کہ حدیث یہ صحیح ہے جو یہاں نقل کی گئی ہے، لہٰذا۔ اولیٰ یہ ہوا اگر مسح کے لئے نیا پانی لیا جائے اور یہ بھی جائز ہو کہ ہاتھ کے باقی بچے ہوئے پانی سے مسح کیا جاسکتا ہے۔

【125】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت ابوامامہ (رض) نے سرکار دو عالم ﷺ کے وضو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ ﷺ آنکھ کے کونوں کو بھی ملا کرتے تھے اور کہا کہ دونوں کان بھی سر میں داخل ہیں (ابی داؤد، جامع ترمذی) اور امام ابوداؤد و امام ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ حماد (رح) نے کہا میں یہ نہیں جانتا کہ الاذنان من الراس (یعنی دونوں کان سر میں داخل ہیں) ابوامامہ (رح) کا اپنا قول ہے یا رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ۔ تشریح ماق ناک کی طرف کے گوشہ چشم کو فرماتے ہیں (قاموس) اور جوہری (رح) نے لکھا ہے کہ ماق دونوں طرف کے گوشہ چشم کو فرماتے ہیں، لہٰذا اولیٰ یہی ہے کہ دونوں طرف کے گوشہ چشم (کونوں) کو منہ دھوتے وقت ملنا مستحب ہے تاکہ آنکھ کے اندر کا میل کچیل جو گوشۂ چشم میں جمع ہوجاتا ہے ملنے سے نکل جائے اور آنکھیں صاف ہوجائیں۔ روایت کے اس جز الا ذنان من الراس (دونوں کان سر میں داخل ہیں) سے دو حکم ثابت ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ کانوں کا مسح بھی سر کے مسح کے ساتھ کرنا چاہئے، دوسرے یہ کہ سر کے مسح کے لئے جو پانی لیا ہے اس پانی سے کانوں کا مسح بھی کرلیا جائے کانوں کے مسح کے لئے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ پہلے حکم پر تو چاروں ائمہ متفق ہیں، دوسرے حکم میں کچھ اختلاف ہے، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ تینوں کا مسلک یہ ہے کہ کانوں کا مسح سر کے مسح کے بچے ہوئے پانی سے ہی کرلینا چاہئے، اس کے لئے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے، اس مسلک کی تائید بھی کثیر احادیث سے ہوتی ہے۔ امام شافعی (رح) کا مسلک یہ ہے کہ کانوں کا مسح نئے پانی سے کرنا چاہئے یعنی سر کے مسح کے بچے ہوئے پانی سے کانوں کا مسح کرنا کافی نہ ہوگا، چناچہ ایک حدیث میں بھی اس سلسلہ میں منقول ہے جو امام شافعی (رح) کے مسلک کی تائید کرتی ہے۔ بہرحال یہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر و بیشتر سر اور کانوں کا مسح ایک ہی پانی سے کرتے ہوں گے، مگر ایسی شکل میں جب کہ ہاتھ میں تری باقی نہ رہتی ہوگی کبھی کبھی کانوں کے مسح کے لئے لیتے ہوں گے۔ وا اللہ اعلم۔

【126】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عمرو بن شعیب (رض) نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے وضو کی کیفیت پوچھی چناچہ آپ ﷺ نے اسے اعضاء وضو کو تین مرتبہ دھو کر دکھلایا اور فرمایا کہ (کامل) وضو اس طرح ہے لہٰذا جس نے اس پر زیادہ کیا (یعنی تین مرتبہ سے زیادہ دھویا) اس نے برا کیا، تعدی کی اور ظلم کیا۔ (سنن نسائی و سنن ابن ماجہ اور ابوداؤد نے بھی اسی مطلب کی حدیث روایت کی ہے) ۔ تشریح آپ ﷺ نے سائل کے جواب میں اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھو کر دکھایا اور اسے بتادیا کہ اگر تم کامل وضو چاہتے ہو اور اس پر ثواب کے متمنی ہو تو پھر وضو اسی طرح کرو۔ اس پر زیادتی کرنا یعنی اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے زیادہ دھونا وضو کرنے والے کے حق میں کوئی مفید بات نہیں ہوگی بلکہ نقصان دہ ہوگئی چناچہ آپ ﷺ نے ایسے آدمی کے بارے میں تین الفاظ، استعمال فرمائے ہیں۔ (١) برا کیا۔ اس لئے کہ اس نے سنت کو ترک کیا۔ (٢) تعدی کی۔ یعنی زیادتی کر کے حدود سنت سے تجاوز کیا۔ (٣) ظلم کیا۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کے طریقہ اور سنت کے خلاف عمل کر کے اپنے نفس پر ظلم کیا۔

【127】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) کہ بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا۔ اے اللہ میں تجھ سے جنت کی دائیں طرف سفید محل مانگتا ہوں تو انہوں نے کہا اے میرے بیٹے ! تم اللہ سے جنت مانگو اور (دوزخ کی) آگ سے پناہ چاہو۔ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو طہارت اور دعا میں غلو کریں گے۔ (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجۃ، سنن ابوداؤد) تشریح صاحبزادہ کو عبداللہ بن مغفل (رض) کی تنبیہ کا مقصد یہ تھے کہ تم جس طرح اور جن قیود کے ساتھ دعا مانگ رہے ہو یہ غلط اور شان عبودیت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں ایک طرف اگر تحکم کا پہلو ہے تو دوسری طرف بہشت میں ایک مخصوص صفت کی طلب یا کسی مخصوص جگہ کا تعین ایک لا یعنی اور نامناسب چیز ہے۔ ہاں۔ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ سے صرف بہشت مانگو اور دوزخ کی آگ سے پناہ چاہو۔ اب آگے اللہ کا کام ہوگا کہ وہ جنت میں اپنے فضل و کرم سے تمہیں مراتب و درجات کی جس بلندی پر چاہے گا پہنچائے گا۔ حد سے تجاوز اور غیر مطلوب زیادتی ہر چیز میں ناپسندیدہ اور غیر مناسب ہو، خواہ وہ چیز شریعت کا مطلوب ہی کیوں نہ ہو، چناچہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ کیا جا رہا ہے اور لسان نبوت سے پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ سے الگ ہو کر اور حدود شریعت سے تجاوز کر کے طہارت اور دعاء میں زیادتی کریں گے۔ طہارت میں زیادتی یہ ہے کہ دعا اس انداز اور اس طریقہ سے مانگی جائے جس سے بےادبی کا اظہار ہوتا ہو اور وہ شان عبودیت کے خلاف ہو، یا دعا میں غیر ضروری و نا مناسب قیود لگائی جائیں یا ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے جو انسانی اعتبار سے احاطہ امکان سے خارج یا عادۃ محال ہوں۔

【128】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت ابی بن کعب (رض) سرکار دو عالم ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا وضو کا ایک شیطان ہے جسے ولہان کہا جاتا ہے لہٰذا پانی کے وسوسہ سے بچو (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی (رح) نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور محدثین کے نزدیک اس کی سند قوی نہیں ہے اس لئے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ خارجہ (ایک عالم) کے علاوہ کسی نے اس کی سند بیان کی ہو اور وہ (خارجہ) ہمارے محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔ تشریح ولھان کے معنی ہیں عقل کا جاتے رہنا اور متحیر ہونا۔ یہ نام اس شیطان کا اس لئے ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں متحیّر اور بےعقل کردیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا اس چکر میں پھنس کر وہم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ جب وضو کرتا ہے تو یہ وسوسے اس کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ نامعلوم فلاں عضو پر ٹھیک سے پانی پہنچا ہے یا نہیں ؟ فلاں عضو کو ایک مرتبہ دھویا ہے یا دو مرتبہ ؟ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پانی کے وسوسہ سے بچو یعنی وضو کے وقت پانی استعمال کرنے میں جب اس قسم کے وسوسے اور وہم پیدا ہوں تو انہیں قائم نہ رہنے دو بلکہ انہیں اپنے دل سے باہر نکال پھینکو تاکہ حدود سنت سے تجاوز نہ کرسکو، کیونکہ اس شیطان کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا ان وسوسوں اور اوہام میں مبتلاء ہو کر اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے بھی زیادہ دھو ڈالے یا ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرے جس کی بنا پر وہ مسنون طریقہ سے ہٹ جائے۔

【129】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو دیکھا جب آپ ﷺ وضو فرماتے ہیں تو اپنے کپڑے کے کونے سے اپنا منہ پونچھتے۔ (جامع ترمذی ) تشریح جب آپ وضو سے فارغ ہوجاتے تو پانی خشک کرنے کے لئے اپنے کپڑے یعنی چادر وغیرہ کے کونے سے اپنا منہ پونچھ لیتے تھے۔ زیلعی نے شرح کنز میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد رومال سے (پانی) خشک کرلینا جائز ہے چناچہ جیسا کہ حضرت عثمان، حضرت انس اور حسن ابی علی (رض) کے بارے میں بھی یہی منقول ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ صاحب منیہ نے وضو کے بعد اعضاء وضو کو پونچھنا مستحب لکھا ہے۔ حنفی مسلک کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد پانی خشک کرنے کے لئے اعضاء وضو کو (کسی کپڑے یا رومال اور تولیہ وغیرہ سے) پوچھنا اگر ازراہ تکبر و غرور ہو تو مکروہ ہے اور غرور وتکبر کی بنا پر نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کے مذہب میں نہ تو وضو کرنے والے کے لئے اور نہ غسل کرنے والے کے لئے کپڑے سے پانی خشک کرنا سنت ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب وضو فرما چکے تو ام لمومنین حضرت میمونہ (رض) ایک رومال لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ ﷺ اس سے بھیگے ہوئے اعضاء پونچھ لیں مگر آپ ﷺ نے اسے واپس کردیا اور اعضاء وضو پر لگے ہوئے پانی کو ہاتھ سے کے ذریعہ ٹپکانے لگے۔ اس کا جواب علماء حنفیہ کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے اعضاء وضو کو رومال سے پونچھنے سے اس لئے انکار نہیں کیا تھا کہ یہ چیز مناسب نہیں تھی بلکہ ہوسکتا ہے کہ کسی خاص عذر کی بنا پر آپ ﷺ نے رومال واپس فرما دیا ہو۔

【130】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کے پاس ایک کپڑا تھا جس سے وضو کے بعد اپنے بھیگے ہوئے اعضائے وضو پونچھا کرتے تھے (جامع ترمذی) اور امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے اور اس کے ایک راوی، ابومعاذ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں تشریح نہ یہ کہ حضرت امام ترمذی (رح) نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ وضو کے بعد بھیگے ہوئے اعضاء کو کپڑے سے پونچھے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک حمایت اور تابعین نے وضو کے بعد اعضاء کو پونچھ لینے کی اجازت دی ہے اور ان کی یہ اجازت بھی رسول اللہ ﷺ کے کسی قول و فعل سے مستنبط نہیں ہے بلکہ یہ خود ان لوگوں کی اپنی رائے ہے، چناچہ سید جمال الدین شافعی (رح) نے اس مضمون کو نقل کیا ہے۔ اس کا جواب علماء حنفیہ یہ دیتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ جواز ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ کی ذاتی رائے ہے غلط ہے، بلکہ اس کے برعکس آپ کا یہ قول خود آپ کے ذہن کی پیداوار ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام مثلاً حضرت عثمان، حضرت انس اور حضرت حسن بن علی رضوان اللہ علیہم کی جلالت شان اور اتباع نبوی ﷺ کے جذبہ صادق کے پیش نظر اس کا وہم بھی نہیں کیا جاسکتا کہ دینی معاملات میں کوئی چیز ان کے اپنے ذہن کی پیدا کردہ ہوسکتی ہے لہٰذا ان کا فعل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس حدیث کی اصل ضرور ہے۔ اس کے علاوہ اس کلیہ کو بھی ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ حدیث پر عمل کرنا خواہ وہ حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے بنسبت اس کے کہ کسی رائے پر عمل کیا جائے، خواہ وہ کتنی ہی مضبوط اور قوی کیوں نہ ہو۔

【131】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت ثابت بن ابی صفیہ (رح) ( حضرت ثابت بن ابی صفیہ تابعی ہیں، آپ کی کنیت ابوحمزہ تھی۔ ١٤٨ ھ میں انتقال ہوا ہے) ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفر صادق (رح) کے والد سے جن کا نام محمد باقر حضرت امام محمد باقر حضرت امام زین العابدین رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کے صاحبزادے ہیں ٥٦ ھ میں آپ کی ولادت ہوئی تھی، آپ کا انتقال ١١٧ ھ یا ١١٨ ھ بمقام مدینہ منورہ ہوا اور جنت البقیع میں دفن ہیں) ہے کہا کہ آپ سے جابر (رض) نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے (کبھی) ایک ایک مرتبہ (کبھی) دو دو مرتبہ اور (کبھی) تین تین مرتبہ وضو کیا انہوں نے فرمایا ہاں۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) تشریح محدثین کی عادت ہے کہ جب شاگرد اپنے شیخ (استاد) سے کوئی حدیث سنتا ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ حدثک فلان عن فلان (اس طرح شاگرد اپنی سند کے سلسلہ کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچاتا ہے اور استاد خاموشی سے اس سلسلہ سند کو سنتا رہتا ہے) یعنی کیا آپ سے یہ حدیث فلاں نے اور فلاں سے فلاں نے (یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سے فلاں نے) سنی ہے اس کے جواب میں شٰخ کہتا ہے کہ نعم ! (یعنی ہاں) گویا روایت حدیث کا یہ ایک طریقہ ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ استاد اپنے شاگرد کے سامنے جب کہتا ہے کہ حد ثنی فلاں الخ (یعنی مجھ سے یہ حدیث بیان کی فلاں نے اور فلاں سے فلاں نے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سے فلاں نے سنی ہے) تو شاگرد بیٹھا سنتا رہتا ہے۔ بہر حال۔ اسی طرح سے حضرت عثمان بن ابی صفیہ (رح) نے اپنے استاد حضرت امام محمد باقر (رح) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ حدثک جابر الخ یعنی کیا یہ حدیث آپ سے حضرت جابر (رض) نے بیان کی ہے۔ اس کے جواب میں محمد باقر (رض) نے اقرار کیا کہ ہاں مجھ سے جابر (رض) نے یہ حدیث بیان کی ہے۔

【132】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن زید (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے دو ، دو مرتبہ وضو فرمایا (یعنی اعضاء وضو کو دو ، دو بار دھویا) اور پھر فرمایا کہ یہ نور کے اوپر نور ہے۔ تشریح اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ اعضاء وضو کو دھویا تو اس سے فرض اداء ہوا اور ایک نور ہوا، پھر اس کے بعد جب دوسری مرتبہ دھویا تو سنت اداء ہوئی اور چونکہ یہ بھی نور ہے اس لئے نور کے اوپر نور ہوا۔

【133】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عثمان غنی (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے تین تین مرتبہ وضو کیا اور پھر فرمایا کہ یہ میرا اور مجھ سے پہلے کے انبیاء (علیہم السلام) کا وضو ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وضو ہے (یہ دونوں حدیثیں رزین نے روایت کی ہیں اور امام نووی (رح) نے شرح مسلم میں دوسری حدیث کو ضعیف کہا۔ تشریح رسول اللہ ﷺ نے تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا ذکر کرنے کے بعد پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جو ذکر کیا ہے اسے تخصیص بعد تعمیم فرماتے ہیں یعنی انبیاء (علیہم السلام) کا عمومی طور پر ذکر کرنے کے بعد پھر بطور خاص حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسم گرامی کا ذکر کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) طہارت اور نظافت کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے۔

【134】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ ہر (فرض) نماز کے لئے وضو فرمایا کرتے تھے اور ہم کو ایک وضو اس وقت تک کافی ہوتا تھا جب تک کہ وضو نہ ٹوٹتا تھا۔ ( دارمی) تشریح رسول اللہ ﷺ کے لئے ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرنا پہلے واجب تھا مگر بعد میں وجوب کا یہ حکم منسوخ ہوگیا، جب کہ اس کے بعد آنے والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کچھ علماء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اولیٰ اور عزیمت سمجھ کر ہر نماز کے لئے تازہ وضو فرماتے تھے۔

【135】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت محمد بن یحییٰ بن حبان (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر فاروق (رض) کے صاحبزادے حضرت عبیداللہ (رض) سے کہا کہ مجھے یہ بتائیے کہ کیا حضرت عبداللہ ابن عمر فاروق (رض) ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے خواہ وہ باوضو ہوں یا بےوضو اور انہوں نے یہ عمل کس سے حاصل کیا تھا ؟ حضرت عبیداللہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق (رض) سے حضرت اسماء بنت زید بن خطاب (رض) نے یہ حدیث بیان کی کہ حضرت عبداللہ بن حنظلہ ابی عامر الغسیل (رض) نے ان سے یہ حدیث بیان کی کہ سرکار دو عالم ﷺ کو ہر نماز کا وضو کرنے کے لئے حکم دیا گیا تھا خواہ آپ ﷺ باوضو ہوں یا بےوضو جب آپ کے لئے یہ مشکل ہوا تو ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیا گیا اور وضو کو موقوف کیا گیا (یعنی ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرنا واجب نہ رہا، جب تک وضو ٹوٹ نہ جائے حضرت عبداللہ (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق (رض) کا یہ خیال تھا کہ مجھ میں ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرنے کی قوت ہے۔ چناچہ انہوں نے اسی پر موت کے وقت تک عمل کیا۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح لفظ غسیل کے معنی ہیں نہلایا گیا یہ حضرت حنظلہ (رض) کی صفت ہے، حضرت حنظلہ (رض) کو غسیل اس لئے کہا جاتا ہے کہ انتقال کے بعد انہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا۔ چناچہ حضرت عروہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے حنظلہ (رض) کی اہلیہ محترمہ سے پوچھا کہ ان کا کیا حال تھا ؟ (یعنی جب وہ گھر سے نکلے تو کیا کام کر رہے تھے) انہوں نے جواب دیا کہ وہ حالت ناپاکی میں تھے اور (نہانے کے وقت) اپنے سر کا ایک ہی حصہ دھوپائے تھے کہ اتنے میں انہوں نے صدا سنی (کہ جہاد کے لئے بلایا جا رہا ہے، چناچہ وہ اسی حالت میں گھر سے باہر نکل کھڑے ہوئے اور (غزوہ احد میں) جام شہادت نوش فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ فرشتے انہیں نہلا رہے تھے۔ (طیبی) بہر حال طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسواک بہت زیادہ فضیلت اور بزرگی رکھتی ہے کہ جب ہی تو اسے واجب وضو کا قائم مقام قرار دیا گیا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) ہر نماز کے لئے تازہ وضو اس لئے کرتے تھے کہ انہوں نے یہ اجتہاد کیا کہ اگرچہ اس کا وجوب منسوخ ہوگیا ہے مگر اس آدمی کے لئے جو اس پر عمل کی طاقت وقوت رکھتا ہے اس کی فضیلت باقی ہے اس لئے انہوں نے جب یہ دیکھا کہ میرے اندر اتنی قوت و ہمت ہے کہ میں اس عمل کو بخوبی پورا کرسکتا ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس فضیلت وسعادت سے محروم رہوں۔ چناچہ انہوں نے اسے اپنا معمول بنا لیا کہ ہر نماز کے لئے تازہ وضو فرماتے اور جب تک موت کی آغوش نے انہیں اپنے اندر چھپانہ لیا وہ اس معمول پر قائم و دائم رہے۔

【136】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ کا گزر حضرت سعد (رض) پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کر رہے تھے) آپ ﷺ نے (یہ دیکھ کر) فرمایا اے سعد ! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے) ؟ حضرت سعد (رض) نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔ (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ) تشریح یہ حدیث اس بات پر تنبیہ کر رہی ہے کہ وضو و غسل میں پانی ضرورت سے زیادہ خرچ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اسراف ہے اور اسراف شریعت کی نگاہ میں کوئی محبوب چیز نہیں ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت سعد (رض) کو دیکھا کہ وضو میں پانی زیادہ خرچ کر رہے ہیں تو آپ ﷺ نے انہیں تنبیہ فرمائی اس پر حضرت سعد (رض) کو بڑا تعجب ہوا کہ پانی کوئی نایاب اور کم یاب چیز تو ہے نہیں پھر اس میں اسراف کے کیا معنی ؟ اسی بنا پر انہوں نے سوال بھی کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہوسکتا ہے ؟ اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسراف تو اسے بہی کہیں گے کہ تم نہر جاری پر بیٹھ کر وضو کرو اور پانی زیادہ خرچ کرو جب کہ نہر یا دریا وغیرہ سے کتنا بھی پانی خرچ کردیا جائے اس میں کوئی کمی واقعی نہیں ہوسکتی۔ اس جملہ کی تشریح علماء کرام یہ کرتے ہیں کہ نہر جاری پر اسراف اس لئے ہوتا ہے کہ جب کوئی آدمی حدود شریعت سے تجاوز کر کے ضرورت شرعی سے زیادہ پانی خرچ کرتا ہے تو اس میں عمر اور وقت یوں ہی ضائع ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اسراف ہے۔ علامہ طیبی نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اس سے اس بات میں مبالغہ منظور ہے کہ جس چیز میں اسراف متصور نہیں ہے جب اس میں بھی اسراف ہوسکتا ہے تو پھر ان چیزوں کا کیا حال ہوگا جس میں اسراف واقعۃً ہوتا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ وضو اور غسل وغیرہ میں ضرورت شرعی سے زیادہ پانی خرچ کرنا اسراف میں شامل ہے اور یہ چیز مناسب نہیں ہے۔

【137】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سرکار دو عالم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے وضو کیا اور اللہ تعالیٰ کا نام لیا (یعنی پوری بسم اللہ پڑھ کر وضو شروع کیا) تو اس نے اپنا تمام بدن (گناہوں سے) پاک کیا اور جس نے وضو کیا اور اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا تو اس نے صرف اعضاء وضو کو پاک کیا۔ تشریح اس حدیث میں وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنے کی فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے کہ جو آدمی بسم اللہ کہہ کر وضو شروع کرتا ہے اس کا تمام بدن گناہ صغیرہ کی غلاظتوں سے پاک ہوجاتا ہے اور جس آدمی نے بغیر بسم اللہ کہے ہوئے وضو کیا تو اس کے اسی اعضاء سے گناہ صغیرہ دور ہوتے ہیں جنہیں وضو میں دھویا گیا ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ وضو میں بسم اللہ کہنا سنت یا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔

【138】

وضو کی سنتوں کا بیان

اور حضرت ابورافع (رض) بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب نماز کے لئے وضو فرماتے تو اپنی انگلی کی انگوٹھی کو بھی گھما پھیرا لیتے۔ (ان دونوں حدیثوں کو دار قطنی نے روایت کیا ہے اور سنن ابن ماجہ نے صرف دوسری حدیث نقل کی ہے) ۔ تشریح اس کا مسئلہ یہ ہے کہ انگوٹھی ڈھیلی ہو اور اس بات کا گمان ہو کہ وضو کے وقت پانی انگوٹھی کے نیچے انگلی تک پہنچ جاتا ہے تو اس صورت میں انگوٹھی کو ہلا لینا سنت ہوگا، ہاں اگر انگوٹھی تنگ ہو اور یہ یقین ہو کہ انگوٹھی کو ہلائے بغیر اس کے نیچے پانی نہیں پہنچے گا تو پھر انگوٹھی کو ہلا لینا واجب ہوگا تاکہ پانی اس کے نیچے انگلی تک پہنچ جائے۔

【139】

غسل کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے پھر کوشش کرے (یعنی جماع کرے) تو اس پر غسل واجب ہوگیا، اگرچہ منی نہ نکلے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح عورت کی چار شاخوں سے مراد اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر ہیں، یا اس سے مراد عورت کے دونوں پیر اور فرج (شرم گاہ) طرفین ہیں۔ یہ جملہ عورت کے پاس جماع کے لئے جانے اور صحبت کرنے کی بلیغ تعبیر ہے، چونکہ رسول اللہ ﷺ شرم و حیاء کے انتہائی بلند مقام پر تھے، اس لئے آپ ﷺ نے صورت مسئلہ کی وضاحت کے لئے الفاظ کے کنایا کا سہارا لیا ہے کھلے طور پر آپ ﷺ نے اس کی تشریح نہیں فرمائی ہے۔ بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی عورت کے پاس جماع کے لئے گیا اور اس نے جماع کیا تو محض حشفہ داخل کرنے سے اس پر غسل واجب ہوجائے گا، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ خلفائے راشدین اور اکثر صحابہ نیز چاروں اماموں کا یہی مسلک ہے۔

【140】

غسل کا بیان

اور حضرت ابوسعید (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا پانی پانی سے ہے (یعنی منی نکلنے غسل واجب ہوجاتا ہے) (صحیح مسلم) اور امام محی السنہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے اور عبداللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ پانی پانی سے ہے کا حکم احتلام کے لئے ہے۔ (جامع ترمذی) اور مجھے یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں نہیں ملی ہے۔ تشریح اس ارشاد کے اسلوب پر بھی غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک طرف تو احکام شریعت کی تعلیم کی ذمہ داری ہے اور دوسری طرف آپ ﷺ شرم و حیاء کے انتہائی بلند وبالا مقام پر فائز ہیں اس لئے آپ ﷺ ایسا اسلوب اختیار فرماتے ہیں کہ مسئلہ کی وضاحت بھی ہوجائے اور شرم و حیاء کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے، چناچہ آپ ﷺ نے ایسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کنا یۃ مسئلہ کی وضاحت کر رہے ہیں۔ بہر حال اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب تک انزال نہ ہو یعنی منی نہ نکلے غسل واجب نہیں ہوتا مگر ابھی اس سے پہلے جو حدیث گزری ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ غسل محض دخول حشفہ سے واجب ہوجائے خواہ انزال ہو یا نہ ہو، اس طرح ان دونوں حدیثوں میں تعارض پیدا ہوگیا ہے۔ چنانچہ اسی تعارض کو دفع کرنے کے لئے حضرت امام محی السنۃ (رح) کا یہ قول مصنف مشکوۃ نقل فرما رہے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ یعنی یہ حضرت ابی بن کعب (رض) کی اس روایت سے منسوخ قرار دیا گیا ہے جس میں منقول ہے کہ یہ آسانی ابتداء اسلام میں تھی (کہ جب تک انزال نہ ہو غسل واجب نہیں ہوتا تھا) پھر بعد میں اس حکم کو منسوخ قرار دیا گیا۔ حضرت امام ترمذی (رح) نے بھی فرمایا ہے کہ اسی طرح بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ اقوال منقول ہیں کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر بعد میں اسے منسوخ قرار دے کر یہ حکم نافذ کیا گیا کہ جب مرد کا ذکر عرت کی شرم گاہ میں داخل ہو اور ختنین مل جائیں تو غسل واجب ہوجائے گا خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) اس حدیث ایک دوسری توجیہہ بیان فرما رہے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم احتلام کے بارے میں ہے۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کے اس کا ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ محض خواب دیکھنے سے غسل واجب نہیں ہوتا بلکہ سو کر اٹھنے کے بعد اگر کپڑے وغیرہ پر منی کی تری دیکھی جائے تو غسل واجب ہوجائے گا۔ گویا حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی اس توجیہ کے پیش نظر اس حدیث کو منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ حدیث مطلق ہے یعنی اس حکم کا تعلق احتلام سے بھی تھا اور غیر احتلام سے بھی، مگر یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا۔

【141】

غسل کا بیان

حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت ام سلیم ( آپ کے نام میں بہت زیادہ اختلاف ہے کچھ علماء نے سلمہ کچھ نے رملہ اور بعض نے ملیکہ لکھا ہے بہر حال حضرت انس (رض) کی والدہ محترمہ ہیں) ۔ نے سرکار دو عالم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، اللہ تعالیٰ حق کے معاملہ میں حیاء نہیں کرتا (لہٰذا یہ بتائیے کہ) عورت پر غسل واجب ہے جب کہ اس کو احتلام ہو۔ (یعنی خواب میں مجامعت دیکھے) آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! جب کہ وہ پانی (منی) کو دیکھے یہ سن کر ام سلمہ نے اپنا منہ (شرم کی وجہ سے) ڈھانک لیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ (یعنی کیا مرد کی طرح عورت کے بھی منی ہوتی ہے اور نکلتی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! خاک آلودہ ہو تیرا داہنا ہاتھ (اگر ایسا نہ ہوتا تو) پھر اس کا بچہ اس کے مشابہ کیونکر ہوسکتا تھا۔ اور امام مسلم (رح) نے ام سلیم (رض) کی روایت میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ (آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا مرد کی منی گاڑھی سفید ہوتی ہے اور عورت کی منی پتلی زرد ہوتی ہے لہٰذا ان میں جو منی غالب ہو یا سبقت کرے تو (بچہ کی) مشابہت اسی کے ساتھ ہوتی ہے۔ تشریح چونکہ مسئلہ ذرا نازک اور عرفاً خلاف شرم و حیاء تھا اس لئے ام سلیم (رض) نے پہلے تمہید کے طور پر کہا کہ اللہ تعالیٰ حق کہنے میں حیاء نہیں کرتا یعنی اللہ نے اس سے منع کیا ہے کہ حق بات پوچھنے میں شرم و حیاء کیا جائے، پھر اس کے بعد انہوں نے اصل مسئلہ دریافت کیا۔ آپ ﷺ کے جواب ما مطلب یہ ہے کہ محض مجامعت کا خواب دیکھ لینے سے ہی غسل واجب نہیں ہوجاتا جب تک انزال نہ ہو یا صبح اٹھنے کے بعد اس کی کوئی علامت نہ پائے یعنی سو کر اٹھنے کے بعد کپڑے یا بدن پر منی دیکھی جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ خاک آلود ہو تیرا داہنا ہاتھ یہ شدت فقر سے کنایہ ہے گویا یہ ایک قسم کی بدعا ہے۔ لیکن اس کا استعمال حقیقی معنی میں نہیں بلکہ ایک ایسا جملہ ہے جو اہل عرب کے یہاں تعجب کے وقت بولتے ہیں، اس طرح اس جملہ کے معنی یہ ہوں گے کہ ام سلمہ ! بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہہ رہی ہو ؟ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتیں کہ اگر عورت کے منی نہ ہوتی تو پھر اکثر بچے جو اپنی ماں کے مشابہ ہوتے ہیں وہ کس طرح ہوتے ؟ مرد کی منی کی طرح عورت کی بھی منی ہوتی ہے اور پھر دونوں کی منی سے بچہ کی تخلیق ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے منی کے جو رنگ بیان کئے ہیں وہ اکثر کے اعتبار سے ہے، یعنی اکثر و تندرست و صحت مند عورت کی منی کے رنگ ایسے ہوتے ہیں، کیونکہ بعض مردوں کی منی کسی مرض کی بنا پر پتلی یا کثرت مباشرت کی وجہ سے سرخ ہوتی ہے، اس طرح بعض عورتوں کی منی قوت و طاقت کی زیادتی کی وجہ سے سفید بھی ہوتی ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ مباشرت کے وقت اگر مرد اور عورت دونوں کی منی ساتھ ہی گر کر رحم مادہ پر پہنچے تو دونوں میں سے جس کی منی بھی غالب ہوگی یا ان دونوں سے جس کی منی سبقت کرے گی یعنی ایک دوسرے سے پہلے گر کر رحم مادر میں پہنچے گی بچہ اسی کے مشابہ ہوگا۔

【142】

غسل کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب غسل جنابت (یعنی ناپاکی کو دور کرنے کے لئے غسل) کا ارادہ فرماتے تو (غسل) اس طرح شروع فرماتے کہ پہلے اپنے دونوں ہاتھ (پہنچوں تک) دھوتے پھر وضو کرتے جس طرح نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے پھر انگلیاں (تر ہونے کے لئے) پانی میں ڈالتے پھر انہیں نکال کر ان (انگلیوں کی تری) سے اپنے بالوں کی جڑوں میں خلال فرماتے پھر دونوں ہاتھوں سے تین چلو (پانی لے کر) سر پر ڈالتے اور پھرا پنے تمام بدن پر پانی بہاتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (جب آپ ﷺ غسل) شروع کرتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے پھر اپنی شرم گاہ کو دھوتے اور اس کے بعد وضو کرتے۔ تشریح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) آپ کے غسل کے طریقہ کو بتارہی ہیں کہ جب آپ ناپاکی دور کرنے کے لئے غسل فرماتے تو اس کا طریقہ کیا ہوتا تھا ؟ چناچہ آپ فرما رہی ہیں کہ جب آپ ﷺ غسل شروع کرتے تو سب سے پہلے پہنچوں تک اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے تھے۔ اس کے بعد آپ ﷺ اسی طرح وضو فرماتے جیسے کہ نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے، یعنی اگر آپ کسی ایسی جگہ غسل فرماتے کہ جہاں پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع نہیں ہوتا مثلاً کسی تخت یا پتھر پر کھڑے ہو کر نہاتے تو وہ پورا وضو فرماتے اور اگر کسی ایسی جگہ نہاتے جہاں کوئی گڑھا وغیرہ ہوتا کہ اس کی وجہ سے پاؤں کے پاس پانی جمع رہتا تھا تو اس شکل میں آپ ﷺ وضو کے وقت پاؤں نہیں دھوتے بلکہ غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے ہٹ کر پیر دھوتے تھے۔ جیسا کہ اس کے بعد آنے والی حدیث سے وضاحت ہو رہی ہے۔ چناچہ ہدایہ میں بھی لکھا ہے کہ اسی طرح کرنا چاہئے یعنی اگر غسل کے وقت پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع نہ ہوتا ہو تو وضو مکمل کرنا چاہیے اور اگر پاؤں کے پاس پانی جمع ہوتا ہو تو پھر اس وقت پاؤں نہ دھوئے جائیں بلکہ غسل سے فارغ ہو کر وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پر پیر دھوئے جائیں۔ اس جگہ نکتہ کے طور پر یہ بھی سن لیجئے کہ طبرانی کی روایت ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کو کبھی احتلام نہیں ہوا اور نہ دیگر انبیاء کرام (علیہم السلام) کو احتلام ہوا تھا۔

【143】

غسل کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت میمونہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے سرکار دو عالم کے غسل کے واسطے پانی رکھا اور کپڑا ڈال کر پردہ کیا، چناچہ آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر انہیں دھویا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور شرم گاہ کو دھویا۔ پھر اپنا بایاں ہاتھ جس سے شرم گاہ کو دھویا تھا، زمین پر رگڑا اور اسے دھویا، پھر کلی کی ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ و ہاتھوں کو (کہنیوں تک) دھویا، پھر اپنے سر پر پانی ڈالا اور تمام بدن پر بہایا پھر (جہاں آپ ﷺ نے غسل فرمایا تھا) اس جگہ سے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ اس کے بعد میں نے (بدن پونچھنے کے لئے) کپڑا دیا، لیکن آپ ﷺ نے کپڑا نہیں لیا اور پھر ہاتھ جھٹکتے ہوئے وہاں سے چلے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم الفاظ صحیح البخاری کے ہیں) تشریح اس حدیث سے اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ اگر غسل ایسی جگہ کیا جائے جہاں پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع ہوتا ہو تو وضو کے وقت پاؤں نہ دھوئے جائیں بلکہ غسل کے بعد وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پاؤں دھولیے جائیں چناچہ آپ ﷺ نے غسل کے بعد وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پر اس لئے دھوئے تھے کہ غسل کے وقت وضو میں آپ ﷺ نے پاؤں نہیں دھوئے تھے کیونکہ آپ ﷺ نے غسل کسی پتھر، تخت یا بلند جگہ پر نہیں کیا ہوگا جس کی وجہ سے پیروں میں پانی جمع ہوتا ہوگا۔ غسل کے بعد جب حضرت میمونہ (رض) نے بدن پونچھنے کے لئے کپڑا پیش کیا تو آپ ﷺ نے لینے سے انکار فرما دیا اس کے کئی احتمال علماء نے لکھے ہیں چناچہ ہوسکتا کہ آپ ﷺ نے کپڑا لینے سے اس لئے انکار فرما دیا ہو کہ غسل وغیرہ کے بعد بدن کو نہ پونچھنا ہی افضل تھا یا چونکہ آپ ﷺ کسی جلدی میں جا رہے ہوں گے، اس لئے یہ سوچ کر کہ کپڑے سے بدن پونچھنے میں دیر ہوگئی کپڑا نہیں لیا۔ یا یہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت گرمی کا موسم تھا اس لئے نہانے کے بعد پانی کی تری چونکہ اچھی اور بھلی معلوم ہو رہی تھی، اس لئے آپ ﷺ نے پانی کو بدن سے پونچھنا پسند نہ فرمایا ہو، یا پھر یہ وجہ رہی ہوگی کہ اس کپڑے میں گندگی وغیرہ لگنے کا شبہ ہوگا اس لئے آپ ﷺ نے اسے واپس فرما دیا۔ بہر حال جو بھی صورت حال رہی ہو مگر کپڑے کو واپس کرنا کسی عذر اور سبب ہی کی بنا پر تھا۔ لہٰذا اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط نہیں کیا جاسکتا کہ غسل وغیرہ کے بعد بدن پر لگے ہوئے پانی کو نہ پونچھنا ہی سنت ہے یا یہ کہ پونچھنا مکروہ ہے۔ ہاتھ جھٹکنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عام طور پر طاقتور اور صحت مند و توانا لوگ چلتے ہوئے ہاتھ ہلاتے چلتے ہیں اسی طرح آپ ﷺ بھی اپنے ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے تشریف لے گئے۔

【144】

غسل کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ (ایک دن) ایک انصاری عورت نے سرکار دو عالم ﷺ سے اپنے غسل حیض کے بارے میں پوچھا، چناچہ آپ ﷺ نے اسے غسل کا حکم دیا کہ کس طرح غسل کیا جائے۔ (یعنی پہلی حدیثوں میں غسل کی جو کیفیت گزری ہے آپ ﷺ نے وہ بیان فرمائی اور پھر فرمایا کہ مشک میں (بھگوئے ہوئے کپڑے) کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کرو، اس نے کہا کہ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اس سے پاکی حاصل کرو۔ اس نے پھر پوچھا کہ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ (یعنی اللہ پاک ہے) ۔ تم اس سے پاکی حاصل کرو، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ (رسول اللہ ﷺ کے انہیں الفاظ کو بار بار سن کر) میں نے اس عورت کو اپنی جانب کھینچ لیا اور اس سے کہا کہ (تم اس کپڑے کو) خون کی جگہ (یعنی شرم گاہ پر) رکھ لو !۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس قسم کے مسائل جہاں آرہے ہیں۔ وہاں آپ حدیث کا اسلوب دیکھ رہے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ ایسے مسائل کو کس انداز سے بیان فرماتے ہیں، بات وہی ہے کہ ایک طرف تو مسائل شرعیہ کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی ذمہ داری آپ ﷺ کے کاندھوں پر ہے جس میں شرم و حیاء کی وجہ سے کسی اخفاء کی گنجائش نہیں ہے دوسری طرف آپ ﷺ کی شرم و حیاء کے وہ فطری تقاضے ہیں جو خلاف ادب و تہذیب جملوں کی ادائیگی میں حائل ہوتے ہیں۔ اس لئے آپ ﷺ ان مسائل کے بیان میں ایسی راہ اختیار کرتے ہیں جو شرم و حیاء کے دائرے سے سرمو متجاوز نہیں ہوتی اور مسائل کی وضاحت بھی حتی الامکان ہوجاتی ہے۔ اب آپ یہیں دیکھئے کہ ایک سائلہ عورتوں کے مسئلے کی وضاحت چاہتی ہے، آپ ﷺ اسے جواب دیتے ہیں اور پھر اس سلسلے میں نظامت و لطافت کے ایک ٰخاص طریقہ کی طرف اس کی راہنمائی فرمانا چاہتے ہیں، چناچہ آپ ﷺ اشاروں اشاروں میں اسے سمجھا رہے ہیں، سائلہ زیادہ سمجھ کا ثبوت نہیں دیتی ہے، آپ ﷺ دوبارہ اپنے جملوں کو دہراتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائے مگر وہ مزید وضاحت چاہتی ہے تو آپ پھر انتہائی تعجب سے فرماتے ہیں کہ سبحان اللہ ! تم اس سے پاکی حاصل کرو۔ یعنی تعجب کی بات ہے کہ تم اتنے سیدھے سادھے اور ظاہر مسئلہ کو نہیں سمجھ پا رہی ہو۔ یہ کوئی ایسا باریک مسئلہ نہیں ہے، کوئی خاص نکتہ نہیں ہے جسے سمجھنے میں اعلیٰ غور و فکر کی ضرورت ہو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اس وقت ذکاوت و ذہانت کا بہترین ثبوت دیتی ہیں، انہوں نے تاڑ لیا کہ ادھر تو عورت آنحضور ﷺ کے مقصد اور مطلب تک پہنچ نہیں پا رہی ہے۔ ادھر آپ ﷺ کی شرم و حیاء اس سے آگے بڑھ کر مزید وضاحت کی اجازت نہیں دیئے جا رہی ہے، چناچہ آپ اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور پھر اسے رسول اللہ ﷺ کا مقصد و ضاحت کے ساتھ سمجھاتی ہیں۔ حدیث کے الفاظ خذی فرصۃ من مسک فتطھری میں لفظ مسک میم کے زیر کے ساتھ ہے جس کے معنی مشک کے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مشک کا ایک بڑا ٹکڑا یا مشک میں بھیگے ہوئے یا رنگے ہوئے کپڑے کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کرو۔ ایک روایت میں میم کے زبر کے ساتھ بھی آیا ہے جس کے معنی چمڑے کے ہیں۔ لیکن روایت کے مطابق اور موقع کی مناسبت سے میم کے زیر کے ساتھ یعنی مشک کے معنی زیادہ بہتر اور اولیٰ ہیں۔

【145】

غسل کا بیان

حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم) ! میں ایک عورت ہوں اپنے سر کے بال بہت مضبوط گوندھتی ہوں، کیا صحبت کے بعد نہانے کے واسطے انہیں کھولا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ! بالوں کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہیں یہی کافی ہے کہ تین لپٹیں پانی لے کر اپنے سر پر ڈال لیا کرو اور پھر سارے بدن پر پانی بہا لیا کرو، پاک ہوجاؤ گی۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کے سلسلے میں صحیح قول یہ ہے کہ حدیث کا مذکورہ بالا حکم صرف عورتوں کے لئے ہے، چناچہ غسل کے وقت اگر بال گندھے ہوئے ہوں اور سر پر پانی اس طرح ڈالا جائے کہ بالوں کی جڑیں بھیگ جائیں تو یہ کافی ہے، بالوں کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر یہ جانے کے بالوں کو کھولے بغیر جڑیں نہیں بھیگیں گی تو پھر اس صورت میں بالوں کو کھولنا ضروری ہوگیا۔ مردوں کو ہر صورت میں بال کھول لینے چاہئیں۔

【146】

غسل کا بیان

حضرت انس راوی (رض) ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ ایک مد (پانی) وضو فرماتے اور ایک صاع سے پانچ مد تک (پانی سے) غسل فرما لیتے تھے (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح مد ایک پیمانے کا نام ہے جس میں تقریباً ایک سیر اناج آتا ہے اور صاع پیمانہ کا نام ہے جس میں تقریبا چار مد یعنی چار سیر کے قریب اناج آتا ہے۔ یہاں مد اور صاع سے پیمانہ مراد نہیں ہے بلکہ وزن مراد ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ تقریباً ایک سیر پانی سے وضو فرماتے تھے اور چار سیر اور زیادہ سے زیادہ پانچ سیر غسل پر صرف فرماتے تھے، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ تقریباً ایک سیر پانی سے وضو اور تقریباً چار سیر پانی سے غسل کیا جائے لیکن اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ وضو اور غسل کے لئے پانی کی یہ مقدار اور وزن واجب کے درجہ میں نہیں ہے لیکن یہ سنت ہے کہ وضو اور غسل کے لئے پانی اس مقدار سے کم نہ ہو۔ آپ ﷺ کے وضو کے پانی کی مقدار بعض روایتوں میں دو تہائی مد اور بعض روایتوں میں آدھا مد منقول ہے لہٰذا اس حدیث صحیح البخاری و صحیح مسلم کا محل یہ قرار دیا جائے گا کہ آپ اکثر و بیشتر ایک ہی مد سے وضو فرماتے تھے مگر کبھی کبھی اس سے کم مقدار پانی میں بھی وضو فرما لیتے تھے، جیسا کہ ان بعض روایتوں میں منقول ہے۔۔

【147】

غسل کا بیان

اور حضرت معاذہ (رض) کہتی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی تھیں کہ میں اور سرکار دو عالم ﷺ ایک ہی برتن جو دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا، نہاتے تھے اور آپ ﷺ (پانی لینے میں) مجھ سے جلدی کرتے تھے تو میں کہا کرتی تھی میرے لئے تو پانی چھوڑیئے، میرے لئے بھی تو پانی رہنے دیجئے۔ حضرت معاذہ (رض) فرماتی ہیں کہ وہ دونوں (یعنی رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) جنبی (یعنی ناپاکی) کی حالت میں ہوتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح جس برتن سے آپ ﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) مشترکہ طور پر غسل فرماتے تھے وہ ایک طشت کی قسم سے تھا جس میں تین صاع تقریباً بارہ سیر پانی سماتا تھا، غسل کے وقت یہ دونوں اس میں ہاتھ ڈال ڈال کر پانی نکالتے اور اس سے نہاتے، حدیث کے الفاظ آپ ﷺ (پانی لینے میں) جلدی کرتے تھے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے نہانے سے پہلے تھوڑے سے پانی سے نہا لیتے تھے اور بقیہ پانی چھوڑ دیتے تھے، جس سے حضرت عائشہ (رض) نہاتی تھیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کا برتن دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا اور دونوں اکٹھے اس سے نہاتے تھے۔ حدیث کے آخری جملے وہ دونوں حالت ناپاکی میں ہوتے تھے کہ تحت ابن مالک (رح) نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس پانی میں جنبی ہاتھ ڈالے وہ پانی طاہر و مطہر ہے جنبی خواہ مرد ہو یا عورت۔ امام ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام کا یہ قول ہے کہ اگر محدث (بےوضو) جنبی (جس پر غسل واجب ہو) اور حائض (حیض والی عورت) کے ہاتھ پاک ہوں اور وہ برتن میں چلو بھرنے کے لئے ہاتھ ڈالیں تو پانی مستعمل (یعنی ناقابل استعمال) نہیں ہوتا۔ کیوں کہ برتن سے پانی نکالنے کے لئے وہ اس طریقے کے محتاج ہیں۔ چناچہ امام موصوف اپنے اس قول کی دلیل میں یہی حدیث پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ اس کے برخلاف اگر جنبی پانی کے برتن میں اپنا پاؤں یا سر ڈالے تو پھر پانی ناقابل استعمال ہوجاتا ہے کیونکہ اس صورت میں اسے کوئی مجبوری نہیں ہے اور نہ اسی طریقہ کی ضرورت ہے۔

【148】

غسل کا بیان

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو (سو کر اٹھنے کے بعد کپڑے پر منی کی) تری محسوس کرے اور خواب (احتلام) اسے یاد نہ ہو ؟ آپ نے فرمایا کہ نہانا چاہئے ! اور ایسے آدمی کے بارے میں بھی پوچھا گیا جسے (سو کر اٹھنے کے بعد) احتلام تو یاد ہو مگر تری معلوم نہیں ہوتی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس پر غسل واجب نہیں ام سلیم (رض) نے پوچھا اگر عورت بھی یہی (تری) دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں عورتیں بھی مردوں ہی کی مثل ہیں۔ ( ترمذی، ابوداؤد اور دارمی و ابن ماجہ نے اس حدیث کو لا غسل علیہ (اس پر غسل واجب نہیں تک نقل کیا ہے) ۔ تشریح سوال یہ تھا کہ مثلاً ایک آدمی ہے وہ سو کر اٹھا اس نے کپڑے پر یا بدن پر منی یا مذی لگی ہوئی ہے مگر اسے کوئی ایسا خواب یاد نہیں ہے کہ اس نے نیند میں کسی سے مباشرت کی ہو جس کی وجہ سے یہ احتلام ہوا ہے تو کیا ایسے آدمی پر غسل واجب ہوگا یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اسے نہانا چاہئے ! گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ غسل کے وجوب کا دارومدار منی یا مذی کی تری پر ہے خواب کے یاد رہنے نہ رہنے پر نہیں ہے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ پیدائش اور طبائع کے اعتبار سے عورتیں چونکہ مردوں ہی کی مانند ہیں اس لئے مرد کی طرح اگر عورت بھی جاگنے کے بعد اپنے کپڑے اور بدن پر تری محسوس کرے تو اس پر بھی غسل واجب ہوگا۔ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ محض تری دیکھ لینے سے غسل واجب ہوتا ہے اگرچہ اس بات کا یقین نہ ہو کہ منی کود کر نکلی ہے چناچہ تابعین کی ایک جماعت اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) سے یہی منقول ہے۔ اکثر علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ غسل اس وقت تک واجب نہیں ہوگا جب تک یہ جانے کہ کہ منی کود کر نکلی ہے، اگر یہ جانے کہ منی کود کر نکلی ہے، تو غسل واجب ہوجائے گا ورنہ بصورت دیگر غسل واجب تو نہ ہوگا مگر احتیاطا غسل کرلینا مستحب ہوگا۔ اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ مرد و عورت ایک ہی بستر پر اکٹھے سوئے، جب وہ سو کر اٹھے تو انہوں نے بستر پر منی کی تری محسوس کی۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ یہ کس کی منی کی تری ہے تو اس صورت میں دونوں میں سے کس پر غسل واجب ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس شکل میں یہ دیکھا جائے گا کہ منی کا رنگ کیسا ہے ؟ اگر وہ سفید ہے تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ مرد کی ہے لہٰذا مرد پر غسل واجب ہوگا۔ اور اگر رنگ زرد ہے تو پھر غسل عورت پر واجب ہوگا۔ مگر احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مرد و عورت دونوں ہی غسل کرلیں۔

【149】

غسل کا بیان

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب مرد کے ختنے کی جگہ عورت کے ختنے کی جگہ تجاوز کر جائے (یعنی حشفہ غائب ہوجائے تو (دونوں پر) غسل واجب ہوجائے گا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) تشریح ختان اس جگہ کو کہتے ہیں جسے ختنہ کرتے وقت کاٹتے ہیں جو مرد کے عضو تناسل کے آگے ایک کھال ہوتی ہے اور عورت کی شرم گاہ پر مرغ کی کلغی کی طرح ابھرا ہوا ایک حصہ ہوتا ہے لہٰذا فرمایا جا رہا ہے کہ جب ختنین مل جائیں اور حشفہ عورت کی شرم گاہ میں داخل ہوجائے تو غسل واجب ہوتا ہے، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔

【150】

غسل کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر بال کے نیچے (جڑ میں) جنابت ہوتی ہے لہٰذا بالوں کو (خوب) دھویا کرو اور بدن کو پاک کیا کرو۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، ابن ماجۃ) اور امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ اس حدیث کا ایک راوی حارث ابن وجیہ ایک بوڑھا آدمی ہے وہ معتبر نہیں (یعنی کبر سنی اور غلبہ نسیان کی وجہ سے) اس کی روایت قابل اعتماد یعنی قوی نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے) تشریح اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ غسل جنابت میں سر کے بالوں کو اچھی طرح دھویا جائے تاکہ پانی بالوں کی جڑ میں پہنچ جائے اس لئے اگر پانی بالوں کی جڑ تک نہیں پہنچے گا تو پاکی حاصل نہیں ہوگی، چناچہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ اگر ایک بال کے نیچے کی بھی جگہ خشک رہ جائے گی تو غسل ادا نہ ہوگا۔ بالوں کے ساتھ ساتھ بدن کو بھی اچھی طرح دھونے کا حکم دیا جا رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نہانے کے وقت بدن کو خوب اچھی طرح مل کر میل وغیرہ کو صاف کرنا چاہئے اور پورے بدن پر پانی اس طرح بہانا چاہئے کہ بدن کا کوئی حصہ بھی خشک نہ رہ جائے کیونکہ اگر بدن پر خشک مٹی، آٹا یا موم وغیرہ لگا رہا اس کے نیچے پانی نہ پہنچا تو ناپاکی دور نہ ہوگی۔

【151】

غسل کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے غسل جنابت میں ایک بال کے برابر بھی جگہ (خشک) چھوڑ دی کہ اسے نہ دھویا تو اسے اس طرح آگ کا عذاب دیا جائے گا حضرت علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کی (کہ منڈا ڈالا) تین مرتبہ یہی کہا۔ (سنن ابوداؤد، مسند احمد بن حنبل، دارمی) مگر احمد بن حنبل نے یہ الفاظ اسی وجہ سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کی مکرر ذکر نہیں کئے ہیں) ۔ تشریح یہ حدیث مزید وضاحت کے ساتھ اوپر کی حدیث کی تائید کر رہی ہے اور غسل جنابت میں بالوں کے سلسلے میں غفلت برتنے والوں کو متنبہ کر رہی ہے چناچہ اس طرح یہ تعدد سے کنایہ ہے یعنی ایسے آدمی کو جس نے غسل احتیاط سے نہیں کیا اور بالوں کی جڑوں میں پانی اچھی طرح نہیں پہنچایا کئی قسم کے اور بہت زیادہ عذاب دئیے جائیں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺ کی لسان مبارک سے یہ تہدید اور وعید سنی تو اس خوف سے کہ اگر بال رہے تو غسل جنابت کے وقت شاید ان کی جڑیں خشک رہ جائیں اپنے بالوں سے بالکل دشمنوں جیسا معاملہ کیا جس طرح ایک آدمی اپنے دشمن کو اپنے لئے خطرے کا سبب اور باعث سمجھ کر موقع ملتے ہی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے، ایسے ہی میں نے رسول اللہ ﷺ کی تہدید اور وعید کی بنا پر ان بالوں کو اپنی عاقبت کی خرابی کا باعث سمجھتے ہوئے ان کا صفایا کردیا۔ اس حدیث اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس عمل سے یہ معلوم ہوا کہ سر کے بال ہمیشہ مڈاتے رہنا جائز ہے مگر اولیٰ اور سنت بالوں کا رکھنا ہی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین اپنے سروں پر بال رکھتے تھے اور صرف حج کے موقع پر منڈواتے تھے۔ جہاں تک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس ارشاد کا تعلق ہے، اس بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی مراد یہ ہے کہ میں نے اپنے سر کے جو بال منڈاوئے ہیں، ان کی کوئی دوسری غرض نہیں ہے یعنی اس سے زیبائش اور آرائش یا کسی راحت و آرام کا طلب مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصد وہی ہے جو بیان کیا گیا، اس طرح گویا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک ایسے فعل کے ترک پر عذر بیان کیا جو رسول اللہ ﷺ سے مداومت کے ساتھ ثابت ہے۔

【152】

غسل کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ غسل کرنے کے بعد وضو نہیں فرماتے تھے۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ غسل سے پہلے جو وضو غسل کے لئے فرماتے تھے غسل کے بعد پھر دوبارہ وضو نہیں فرماتے تھے، چناچہ مسئلہ بھی یہی ہے کہ غسل کے لئے جو وضو کیا جاتا ہے وہ کافی ہوتا ہے غسل کے بعد اگر نماز وغیرہ پڑھی جائے تو دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے غسل کے وضو سے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

【153】

غسل کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ ناپاکی کی حالت میں (غسل کے وقت) خطمی سے سر کو دھو لیتے تھے اور اسی پر کفایت کرتے اور دوبارہ سر پر خالص پانی نہ ڈالتے تھے۔ (سنن ابوداؤد) تشریح جس طرح یہاں آنولہ وغیرہ سے دھونے کا رواج تھا ایسے ہی عرب میں خطمی سے سر دھوئے جاتے تھے، چناچہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اس کے بارے میں فرما رہی ہیں کہ آپ ﷺ جب غسل جنابت فرماتے تو اپنے سر کے بال خطمی کے پانی سے دھویا کرتے تھے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ آپ ﷺ جب سر پر خطمی لگا کر اسے دھونے کے لئے سر پر خطمی ملا ہوا پانی ڈالتے تھے تو پھر دوبارہ پانی بہانے کے وقت سر پر پانی نہیں ڈالتے تھے بلکہ اسی پہلے دھوئے ہوئے کو کافی سمجھتے تھے جیسا کہ عام طور پر نہانے والے یہ کرتے ہیں کہ پہلے سر کو دھوتے ہیں، اس کے بعد غسل کرتے ہیں اور پھر دوبارہ سر پر بھی پانی ڈالتے ہیں آپ ﷺ ایسا نہیں کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ جس پانی سے سر کو دھویا کرتے تھے اس میں خطمی کے اجزاء کم ہوتے ہوں گے کہ جس سے پانی کی حقیقت میں کوئی تغیر نہیں ہوتا ہوگا یعنی سیلان باقی رہتا ہوگا۔

【154】

غسل کا بیان

اور حضرت یعلیٰ ( یہاں تحقیق سے یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ یہ یعلیٰ بن امیہ تمیمی ہیں یا یعلی ابن مرہ ثقفی ہیں بہر حال یہ دونوں جلیل القدر صحابی ہیں۔ ( فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ایک آدمی کو میدان میں ننگا نہاتے ہوئے دیکھا چناچہ آپ ﷺ (وعظ کے لئے) منبر پر چڑھے اور پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا اللہ تعالیٰ بہت حیاء دار ہے (یعنی اپنے بندوں سے حیاداروں کا سا معاملہ کرتا ہے، بایں طور کہ انہیں معاف کردیتا ہے اور بہت پردہ پوش ہے (یعنی اپنے بندوں کے گناہ اور عیوب کو پوشیدہ رکھتا ہے) وہ حیاء اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے لہذا جب تم میں سے کوئی (میدان میں) نہائے تو اسے چاہیے کہ وہ پردہ کرلیا کرے۔ ( ابوداؤد اور نسائی) اور نسائی کی ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پردہ پوش ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہانے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ کسی چیز سے پردہ کرلیا کرے) تشریح سرکار دو عالم ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب آپ ﷺ کسی اہم اور عظیم مسئلے کو بیان کرنا چاہتے یا کسی خاص چیز سے آگاہ کرنا چاہتے تو منبر پر تشریف لے جاتے اور پہلے اللہ جل شانہ کی حمد و ثنا کرتے اس کے بعد اصل مسئلے کو بیان فرماتے چناچہ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ ایک آدمی کو دیکھا وہ شرم کو بالائے طاق رکھ کر ایک کھلی جگہ (میدان میں ننگا نہا رہا ہے تو آپ ﷺ کی جبین شرم و حیاء پر بل پڑگئے، فورًا مسجد نبوی میں پہنچے منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کے سامنے آپ ﷺ نے شرم و حیاء کی اہمیت کو بڑے بلیغ اور ناصحانہ انداز میں بیان فرمایا۔ آپ ﷺ کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ رب قدوس کی ذات پاک تمام محاسن و اوصاف کی جامع ہے چناچہ شرم و حیاء اور پردہ پوشی جو بہت بڑے وصف ہیں یہ بھی اللہ تعالےٰ کے اوصاف میں سے ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے اوصاف کی نورانی کرنوں سے اپنے دل و دماغ کو روشن کریں، اس کی جو صفات ہیں ان کو حتی الامکان اپنے اندر پیدا کریں اس لئے وہ پسند کرتا ہے۔ بندے شرم و حیاء کے اصولوں پر کار بند رہیں، ان عظیم اوصاف سے اپنے دامن کو مالا مال کریں اور پردہ پوشی کو کسی حال میں ترک نہ کریں، لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ شرم اور پردے کے معاملے میں غفلت اور لاپرواہی نہ برتیں۔

【155】

غسل کا بیان

حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ یہ حکم، غسل انزال کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ابتدائے اسلام میں آسانی کی وجہ سے تھا، پھر اسے منع فرما دیا گیا (یعنی یہ حکم منسوخ قرار دے دیا گیا۔ ( جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، دارمی) تشریح اس باب کی حدیث نمبر ٢ کی تشریح میں حضرت ابی بن کعب (رض) کی اس روایت کا ذکر آچکا ہے، وہاں بھی یہ بتایا گیا تھا کہ ابتداء اسلام میں یہ حکم تھا کہ غسل اسی صورت میں واجب ہوگا جب کہ جماع کے وقت انزال بھی ہو یعنی اس وقت بغیر انزال کے محض ادخال ذکر سے ہی غسل واجب نہیں ہوتا تھا، چناچہ حضرت ابی بن کعب (رض) یہی فرما رہے ہیں کہ یہ حکم (جو اس باب کی حدیث ٢ میں گزرا ہے) پہلے تھا، اب منسوخ ہوگیا ہے اور اب یہ حکم ہوگیا ہے کہ محض جماع (ادخال ذکر) سے غسل واجب ہوجائے گا، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔

【156】

غسل کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی سرکار دو عالم ﷺ کے خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے غسل جنابت کیا اور صبح کی نماز پڑھ لی، پھر میں نے دیکھا کہ (بدن پر) ناخن کے برابر جگہ خشک رہ گئی کہ وہاں) پانی نہیں پہنچا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم (اس جگہ اپنے بھیگے) ہاتھ سے مسح بھی کرلیتے تو کافی ہوجاتا۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح آپ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم غسل کے وقت اس جگہ جو خشک رہ گئی تھی بھیگا ہوا ہاتھ پھیر لیتے یا اسے معمولی طور پر دھو دیتے تو یہ کافی ہوجاتا اور تمہارا غسل پورا ہوجاتا۔ اور اگر تمہیں اس جگہ خشکی کا احساس کچھ عرصہ کے بعد ہوا تھا تو تمہیں چاہئے تھا کہ اس جگہ کو دھو لیتے خواہ معمولی طور پر ہی کیوں نہ ہوتا اور جو نماز پڑھ لی تھی اس کی قضا ادا کرتا۔

【157】

غسل کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ (پہلے) پچاس نمازیں فرض ہوئیں تھیں، نیز جنابت (ناپاکی) سے نہانا اور کپڑے پر سے پیشاب دھونا سات سات مرتبہ (فرض ہوا تھا) پھر رسول اللہ ﷺ متواتر ( اللہ تعالیٰ سے ان میں تخفیف کی دعا مانگتے رہے، یہاں تک کہ نمازیں تو پانچ فرض رہ گئیں اور جنابت سے نہانا اور کپڑے پر سے پیشاب کا دھونا ایک ایک مرتبہ رہ گیا۔ (ابوداؤد) تشریح سرکار دو عالم ﷺ نے جب روحانی اور جسمانی بلندیوں کی تمام منازل کو طے فرما کر شب معراج میں ذات حق جل مجدہ کی قربت حقیقی کا شرف حاصل فرمایا تو اس مقدس اور انسانی زندگی کی سب سے بڑی سعادت و رفعت کی یادگار کے طور پر بارگاہ حق میں جل مجدہ کی طرف سے رسول پاک ﷺ کے توسط سے بندوں کے لئے نماز کا تحفہ عنایت فرمایا گیا ہے جسے معراج رسول اللہ ﷺ کی اس عظیم سعادت کی مناسبت سے معراج مومنین کہا گیا ہے۔ نماز چونکہ تمام عبادات الہٰی میں اپنے اجر وثواب اور اپنی عظمت و اہمیت کے اعتبار سے بندوں کے لئے سعادت و نیک بختی اور رضائے مولیٰ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس لئے کہ اس عظیم اور مقدس فریضہ کے ذریعہ اللہ کے نیک اور اطاعت گزار بندے زیادہ سے زیادہ سعادت نیک بختی کی دولت سے اپنے دامن مالا مال کرسکیں اور دن و رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ ظاہر ہے کہ پچاس نمازوں کے فریضے کا یہ تحفہ بندوں کی سعادت و نیک بختی کے اعتبار سے خواہ کتنی ہی اہمیت و عظمت کا حامل کیوں نہ ہو مگر سوال یہ تھا کہ انسان کے قویٰ اور ذہن و فکر اس عظیم فریضے کی ادائیگی کا بار برداشت بھی کرسکیں گے ؟ صدقے جائیے سرکار دو عالم ﷺ کی ذات اقدس اور آپ ﷺ کی شان رحمت کے ! کہ انسانی فطرت و مزاج کا یہ سب سے بڑا راز دان اور انسانیت کا یہ عظیم محسن اور عظیم شفیق راہبر ﷺ سمجھ لیتا ہے کہ انسان کے قوائے فکر و عمل اس عظیم بار کو کبھی برداشت نہیں کرسکتے اور اللہ کے بندے نماز کی اتنی بڑی تعداد کی ادائیگی پر قادر نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا آپ ﷺ نے سوچا کہ اگر آج پچاس نمازیں فرض ہو رہی ہیں تو کل پوری مخلوق زبردست اخروی خسران اور روحانی اذیت میں مبتلاء ہوجائے گی کیونکہ پچاس نمازیں ادا ہوں گی نہیں، جس کا نتیجہ حکم الٰہی کی نافرمانی کی بنا پر عذاب کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے ؟ چناچہ اس وقت آپ ﷺ اپنی امت پر انتہائی شفقت و محبت کا معاملہ فرماتے ہیں اور بار گاہ الٰہی میں نماز کی اس تعداد میں تخفیف چاہتے ہیں، پھر ادھر سے بھی اپنے حبیب ﷺ کی درخواست کو شرف قبولیت بخشا جاتا ہے اور اس میں کمی کردی جاتی ہے، مگر آپ ﷺ اس سے بھی مطمن نہیں ہوتے تو مزید تخفیف کی درخواست پیش کرتے ہیں جب کچھ اور تخفیف ہوتی ہے تو آپ اسے بھی زیادہ اور امت کے حق میں مالایطاق سمجھتے ہوئے کمی چاہتے ہیں یہاں تک کہ درخواست اور قبولیت کا یہ سلسلہ پانچ پر آکر ختم ہوجاتا ہے اور پانچ نمازیں فرض قرار دے دی جاتی ہیں۔ چنانچہ اس حدیث میں اسی طرف اشارہ دیا جا رہا ہے کہ شب معراج میں تو نمازیں پچاس ہی فرض ہوئیں تھیں مگر رسول اللہ ﷺ نے امت کے حق میں انتہائی شفقت و رحمت کے پیش نظر یہ جان کر کہ امت سے اتنی نمازیں ادا نہیں ہوں گی اس تعداد میں تخفیف کرائی جب بھی آپ تخفیف کی درخواست پیش کرتے پانچ نمازیں کم کردی جاتیں یہاں تک کہ آخر میں پانچ نمازیں رہ گئیں۔ اسی طرح پہلے ناپاکی دور کرنے کے لئے سات مرتبہ غسل کرنے کا حکم تھا مگر بعد میں اسے بھی منسوخ قرار دیدیا گیا اور صرف ایک مرتبہ غسل واجب کیا گیا یعنی پورے دن پر ایک مرتبہ پانی بہانے سے فرض ادا ہوجاتا ہے مگر مسنون طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ جسم پر پانی بہایا جائے، صحیح البخاری و صحیح مسلم میں اس سلسلہ میں جو حدیث منقول ہے اس میں صرف نماز کا ذکر ہے، غسل اور کپڑے سے پیشاب دھونے کا ذکر نہیں ہے مگر یہاں یہ ابوداؤد کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس میں ان دونوں چیزوں کا بھی ذکر ہے چناچہ اس روایت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ بہر حال اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کپڑے پر پیشاب اور غلاظت وغیرہ لگ جائے تو اسے صرف ایک بار دھولینا ہی کافی ہے چناچہ امام شافعی (رح) کا مسلک یہی ہے کہ کپڑا ایک مرتبہ دھو لینے سے پاک ہوجاتا ہے، لیکن علمائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کپڑے پر پیشاب اور غلاظت لگ جائے تو اسے اتنا دھویا جائے کہ اس کی پاکی کا ظن غالب حاصل ہوجائے اور اس کی حد یہ مقرر کی ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ کپڑے کو نچوڑا جائے کیونکہ تین مرتبہ دھو لینے سے پاکی کا ظن غالب حاصل ہوتا ہے۔ اس موقع پر تفصیل بتا دینی مناسب ہے کہ غسل کن کن مواقع پر واجب اور مستحب ہوجاتا ہے۔ (١) غسل اس شکل میں فرض ہوتا ہے کہ منی کود کر نکلے اور ریڑھ کی ہڈی سے جدا ہونے کے وقت شہوت بھی ہو اگرچہ باہر نکلتے وقت شہوت یاد نہ ہو جس کی وجہ سے منی نکلی ہے۔ (٢) اگر کوئی آدمی سو کر اٹھے اور اپنے بستر وغیرہ پر منی کی تری پائے خواہ وہ مذی ہی کیوں نہ ہو تو غسل واجب ہوتا ہے اگرچہ ایسا کوئی خواب یاد نہ ہو جس کی وجہ سے منی نکلی ہے۔ (٣) اگر زندہ عورت کے آگے یا پیچھے ستر میں ذکر داخل کیا جائے یا لواطت کی جائے تو دونوں یعنی فاعل و مفعول پر غسل فرض ہوگا خواہ انزال نہ ہو۔ (٤) حیض اور نفاس ختم ہونے کے بعد غسل فرض ہوتا ہے۔ (٥) اگر چو پائے یا مردہ کے آگے یا پیچھے کے حصہ میں ذکر داخل کیا تو اگر انزال ہوگا تو غسل واجب ہوگا ورنہ نہیں۔ (٦) مذی اور ودی نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا، اسی طرح اگر محض جواب یاد ہو اور بستر وغیرہ پر منی کی تری یا اس کی کوئی علامت موجود نہ ہو تو غسل واجب نہیں ہوتا۔ (٧) اگر کوئی غیر مسلم اس حال میں مسلمان ہوا کہ وہ ناپاکی کی حالت میں تھا تو اس پر غسل واجب ہوگا اور اگر ناپاکی کی حالت میں نہیں تھا تو واجب نہیں ہوگا البتہ مستحب ہوگا۔ (٨) زندوں پر میت کو غسل دینا واجب کفایہ ہے، یعنی اگر کچھ لوگ نہلا دیں تو سب بری الذمہ ہوجاتے ہیں، ورنہ سب گناہ گار ہوتے ہیں۔ (٩) جمعہ عید ین، احرام اور عرفہ کے لئے غسل کرنا سنت ہے۔ (١٠) محدث (بےوضو) کو قرآن کریم چھونا ناجائز ہے، ہاں اگر قرآن کریم جزدان یا کسی کپڑے میں لپٹا ہوا ہو تو جائز ہے اور اگر قرآن کی جلد پر محض چولی چڑھی ہوئی ہو تو چھونا درست نہیں ہے۔ (١١) اگر کوئی آدمی بےوضو ہے تو اسے کرتے وغیرہ کے آستین یا کسی ایسے کپڑے کے ساتھ جو اس کے بدن پر ہے (مثلاً چادر وغیرہ اوڑھ رکھی ہو تو) قرآن کریم کو پکڑنا اور چھونا مکروہ ہے، ہاں اگر اس کپڑے کو اپنے بدن سے الگ کر کے پھر اس کی ساتھ قرآن کریم کو پکڑے اور چھوئے تو جائز ہوگا۔ (١٢) بےوضو کو تفسیر اور حدیث کی کتابوں کو چھونا مکروہ ہے لیکن آستین کے ساتھ چھونا متفقہ طور پر جائز ہے۔ (١٣) جس درہم (سکے) پر قرآن کی کوئی سورت لکھی ہو تو بےوضو کے لئے اسے چھونا جائز نہیں ہاں اگر وہ تھیلی وغیرہ میں ہو تو پھر جائز ہے۔ (١٤) جنبی کو مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے، اگر کوئی خاص ضرورت ہو تو داخل ہوسکتا ہے اسی طرح اس کے لئے قرآن پڑھنا خواہ ایک آیت سے کم ہی کیوں نہ ہونا جائز ہے البتہ دعا اور ثنا کے طور پر پڑھ سکتا ہے، ایسے ہی جنبی کا ذکر کرنا تسبیح پڑھنی اور دعا کرنی جائز ہے، ان مسائل میں حیض اور نفاس والی عورتوں کا بھی وہی حکم ہے جو جنبی کا ہے۔ باب مخالطۃ الجنب ومایباح لہ جنبی آدمی سے ملنے جلنے اور جنبی کے لئے جو امور جائز ہیں ان کا بیان اس باب میں دو چیزوں سے متعلق احادیث ذکر کی جا رہی ہیں، پہلی چیز تو یہ ہے کہ جنبی آدمی (یعنی غسل جس پر واجب ہو) کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کلام کرنا، مصافحہ کرنا اور اس طرح اس کے ساتھ دوسرے معاملات کرنا جائز ہیں دوسری چیز یہ ہے کہ جنبی آدمی کے لئے کیا چیزیں جائز ہیں کہ وہ انہیں حالت ناپاکی میں کرسکتا ہے۔

【158】

غسل کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ سے میری ملاقات ہوئی اور میں جنبی تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ کے ہمراہ ہو لیا۔ جب آپ بیٹھ گئے تو میں چپکے سے نکل کر اپنے مکان آیا اور نہا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے (مجھے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا تم کہاں تھے ؟ میں نے آپ ﷺ سے (اصل واقعہ) ذکر کیا (کہ میں ناپاک تھا اس لئے چلا گیا تھا) آپ ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ ! مومن ناپاک نہیں ہوتا۔ روایت کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں مسلم نے اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے اور ابوہریرہ (رض) کے یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ (انہوں نے کہا) چونکہ میں حالت ناپاکی میں تھا اس لئے یہ مناسب معلوم نہ ہوا کہ آپ ﷺ کے پاس بیٹھوں جب تک کہ نہانہ لوں۔ اسی طرح صحیح البخاری کی ایک دوسری روایت میں بھی یہ الفاظ منقول ہیں۔ تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جنابت نجاست حکمی ہے کہ شریعت نے اس کا حکم کیا ہے اور اس پر غسل کو واجب قرار دیا ہے، لہٰذا حالت جنابت میں آدمی حقیقۃً نجس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنبی کا نہ تو جھوٹا ناپاک ہوتا ہے اور نہ اس کا پسینہ ہی ناپاک ہے، اس لئے جنبی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ملنا جلنا، مصافحہ کرنا، کلام کرنا یا اسی طرح اس کے ساتھ دوسرے معاملات کرنا جائز ہیں، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

【159】

غسل کا بیان

حضرت عمر فاروق (رض) راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے سرکار دو عالم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے رات کو جنابت ہوجاتی ہے (یعنی احتلام یا جماع سے غسل واجب ہوتا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اسی وقت) وضو کر کے عضو تناسل کو دھو کر سو جایا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ وضو کرنا جنبی کے سونے کے لئے طہارت ہے، یعنی جنبی وضو کر کے سویا تو گویا وہ پاک سویا، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جسے رات کو احتلام ہوجائے یا جماع سے فراغت ہو اور اس کے بعد سونے کا ارادہ یا بوجہ کسی ضرورت بےوقت غسل جنابت میں تاخیر کا خیال ہو تو ایسی شکل میں جنبی کا وضو کرلینا سنت ہے۔ اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صورت مذکورہ میں وضو کیا جائے اس کے بعد عضو تناسل کو دھویا جائے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ پہلے عضو تناسل کو دھونا چاہئے اس کے بعد وضو کرنا چاہئے، اس شکل میں حدیث کی مذکورہ ترتیب کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہاں وضو کرنا اس لئے مقدم کر کے ذکر کیا گیا ہے کہ وضو کا احترام اور اس کی تعظیم کا اظہار پیش نظر تھا۔

【160】

غسل کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ حالت ناپاکی میں ہوتے اور کھانا کھانے یا سونے کا ارادہ فرماتے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کرلیتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【161】

غسل کا بیان

حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے (یعنی صحبت کرے) اور پھر اس کے پاس آنے کا ( یعنی دوبارہ صحبت کرنے کا) ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ دونوں کے درمیان وضو کرلے۔ (صحیح مسلم) تشریح ابن مالک (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے دو مرتبہ صحبت کرے اور دونوں مرتبہ کے درمیان وضو کرے تو دو فائدے ہیں۔ اول تو یہ کہ اس پاکیزگی اور طہارت حاصل ہوتی ہے، دوسری یہ کہ نشاط اور لذت زیادہ ہوجاتی ہے۔ بہر حال اس حدیث سے اور اس سے پہلی حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جنبی کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ حالت ناپاکی میں اگر سونے اور کھانے پینے کا یا دو بارہ جماع کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے عضو تناسل کو دھو کر وضو کرلے۔ بعض علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ جنبی کے کھانے پینے کے سلسلے میں ان احادیث میں جس وضو کا ذکر ہے، اس سے مراد حقیقۃً وضو نہیں ہے بلکہ اس کا مقصدیہ ہے کہ ایسے وقت میں ہاتھ دھو لئے جائیں اور یہی رائے جمہور علماء کرام کی ہے کیونکہ سنن نسائی کی روایت میں اس مراد کی صراحت بھی موجود ہے۔ لیکن مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے تو بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں نماز کے وضو کی طرح وضو کیا جائے، لہٰذا اب ان روایتوں میں تطبیق پیدا کرنے کے لئے یہی کہا جائے گا کہ آنحضور ﷺ ایسے مواقع پر کبھی کبھی اختصار کے طور پر محض ہاتھ ہی دھو لینے کو کافی سمجھتے تھے۔ مگر اکثر و بیشتر آپ ﷺ مکمل وضو فرماتے تھے۔

【162】

غسل کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ ایک غسل کے ساتھ اپنی ازواج مطہرات سے صحبت کرلیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک شب میں اپنی تمام ازواج مطہرات سے صحبت کیا کرتے تھے اور غسل ایک ہی مرتبہ آخر میں فرماتے تھے یہ نہیں تھا کہ ایک بیوی سے صحبت کے بعد پہلے غسل کرتے ہوں، پھر بعد میں دوسری بیوی کے پاس جاتے ہوں۔ ہاں اس کا احتمال ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ درمیان میں وضو فرما لیتے ہوں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیان جواز کے لئے آپ ﷺ نے وضو کو ترک کردیا ہو۔ اس موقع پر ایک ہلکا سے اعتراض ہوسکتا ہے وہ یہ کہ قاعدہ شرعی کے مطابق اپنی بیویوں کے درمیان تقسیم کا اقل درجہ ایک رات ہے۔ یعنی اگر کسی آدمی کے پاس چند بیویاں ہوں تو ان کے درمیان باری مقرر کرنے کا قاعدہ یہ ہے کہ ہر ایک بیوی کے یہاں کم از کم ایک پوری شب قیام کیا جائے، لہٰذا رسول اللہ ﷺ ایک ہی رات میں تمام ازواج مطہرات کے پاس کس طرح جایا کرتے تھے ؟ اس کا جواب یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات کے لئے باری مقرر کرنے کا یہ وجوب مختلف فیہ ہے، چناچہ حضرت ابوسعید (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ پر باری مقرر کرنا واجب نہیں تھا۔ بلکہ آپ ﷺ نے از خود راہ احسان باری مقرر فرما رکھی تھی مگر اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر بھی باری مقرر کرنا واجب تھا۔ لیکن آپ ﷺ اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس ایک ہی شب میں خود ان کی رضا و خوشی سے جایا کرتے تھے لہٰذا اس پر کوئی اشکال پیدا نہیں ہوسکتا۔

【163】

غسل کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ ہر وقت یاد الہٰی میں مصروف رہا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی حدیث (جو صاحب مصابیح نے اس موقع پر نقل کی ہے) ہم انشاء اللہ کتاب الا طعمہ میں ذکر کریں گے ) تشریح حضرت عائشہ (رض) کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی حالت میں ذکر الٰہی اور یاد الہٰی سے غافل نہیں ہوتے تھے آپ ﷺ خواہ حالت ناپاکی میں ہوتے یا بےوضو ہوتے اور یا ان کے علاوہ کسی بھی حالت میں ہوتے اللہ رب العزت کی یاد میں ہمیشہ مشغول رہتے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہاں ذکر سے مراد ذکر قلبی اور قدرت الٰہی کا تفکر ہے۔ یعنی آپ ﷺ کا قلب مبارک ہمہ وقت ذکر الہٰی میں مشغول اور پروردگار کی قدرتوں پر غور و فکر کرنے میں منہمک رہتا تھا۔

【164】

غسل کا بیان

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرکار دو عالم ﷺ کی زوجہ مطہرہ نے لگن سے (یعنی لگن میں بھرے ہوئے پانی سے) چلو لے کر غسل کیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسی (لگن میں بچے ہوئے) پانی سے وضو کرنے کا ارادہ فرمایا تو ! انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) میں جنبی تھی (اور میں نے اس سے غسل کیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا پانی تو جنبی نہیں ہوتا۔ (یعنی جنبی کے نہانے سے یا اس کے کسی عضو کے پڑنے سے پانی نا پاک نہیں ہوتا) (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد) اور دارمی نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے نیز شرح السنۃ میں عبداللہ ابن عباس (رض) سے اور انہوں نے حضرت میمونہ (رض) سے مصابیح کے ہم الفاظ روایت نقل کی ہے۔ تشریح اس حدیث سے تو بصراحت یہ معلوم ہوا کہ عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے مرد کا وضو کرنا جائز ہے لیکن اسی باب کی تیسری فصل میں ایک حدیث (نمبر ٢) آرہی ہے جس میں منقول کہ رسول اللہ ﷺ نے عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے مرد کو وضو کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں میں مطابقت کے لئے کہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث تو جواز پر دلالت کرتی ہے اور وہ دوسری حدیث ترک کی اولیت پر دلالت کرتی ہے، یعنی اگر کوئی مرد عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے وضو کرنا چاہئے تو اس حدیث کی رو سے اس کا وضو جائز تو ہوجائے گا لیکن دوسری حدیث کے پیش نظر اس پانی سے وضو نہ کرنا ہی بہتر اور اولیٰ ہوگا۔

【165】

غسل کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ (میرے ساتھ) صحبت سے فراغت کے بعد غسل فرماتے، پھر میرے نہانے سے پہلے مجھ سے گرمی حاصل کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی (رح) نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے نیز شرح السنۃ میں مصابیح کے ہم لفظ روایت منقول ہے) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ ہم بستری سے فارغ ہوتے تو مجھ سے پہلے ہی آپ ﷺ نہا لیتے تھے اور چونکہ سرد موسم میں نہانے کی وجہ سے ٹھنڈ محسوس ہوتی تھی اس لئے آپ ﷺ میرے پاس تشریف لاتے اور اپنے اعضاء مبارک میرے بدن سے چمٹا کر لیٹ جایا کرتے تھے تاکہ گرمی حاصل ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنبی کا بدن پاک ہوتا ہے لہٰذا اس کے ساتھ مل کر لیٹ جانے میں کچھ حرج نہیں ہے بلکہ جائز ہے۔

【166】

غسل کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ بیت الخلاء سے نکل کر وضو سے پہلے ہمیں قرآن کریم پڑھا دیا کرتے تھے اور (اسی وقت) ہمارے ساتھ گوشت کھالیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کو قرآن کریم پڑھنے سے سوائے جنابت کے کوئی چیز نہیں روکتی تھی۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی) اور ابن ماجہ نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔ تشریح اس حدیث سے دو مسئلوں کی وضاحت ہوتی ہے۔ اول تو یہ کہ بغیر وضو کے قرآن کریم پڑھنا جائز ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ آپ ہاتھوں سے قرآن کریم کو نہ چھوئے کیونکہ بغیر و ضو قرآن کریم کو چھونا ناجائز ہے۔

【167】

غسل کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا حائضہ (ایام والی عورت) اور جنبی قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی نہیں پڑھیں۔ (جامع ترمذی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو عورت ایام حیض میں ہو یا جو آدمی حالت ناپاکی میں ہو وہ قرآن شریف بالکل نہ پڑھے یہاں تک کہ ایک آیت سے کم بھی قرآن کے الفاظ کی تلاوت نہ کرے چناچہ حضرت امام اعظم اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ حائضہ اور جنبی کو قرآن کریم کی تلاوت بالکل نہ کرنی چاہئے خواہ وہ ایک آیت سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ مگر بعض علماء کرام کے ہاں حائضہ اور جنبی کا ایک آیت یا زیادہ حصہ کی تلاوت تو حرام ہے البتہ ایک آیت سے کم کی تلاوت حرام نہیں ہے۔ اگر حائضہ یا جنبی قرآن کریم کا کوئی حصہ تلاوت کے مقصد سے نہیں بلکہ شکر کے ارادے سے پڑھے تو یہ جائز ہے، مثلاً کوئی حائضہ یا جنبی کسی ایسے موقع پر جب کہ اللہ کا شکر ادا کرنا ہو کہے الحمد اللہ رب العالمین تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

【168】

غسل کا بیان

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا مکانوں کے یہ دروازے مسجد کی طرف سے پھیر دو کیونکہ حائضہ اور جنبی کا مسجد میں داخل ہونا (خواہ وہاں ٹھہرنے کے لئے ہو یا وہاں سے گزرنے کے لئے) جائز نہیں۔ (ابوداؤد) تشریح مسجد اللہ کا گھر ہونے کی وجہ سے ایک مقدس اور محترم جگہ ہے، اس پاک جگہ کی عظمت و احترام اور اس کے تقدس کا تقاضہ ہے کہ کوئی ایسا آدمی اس میں داخل نہ ہو جو حالت ناپاکی میں ہو۔ اس لئے آپ ﷺ نے حکم دیا کہ مسجد کی طرف (گھروں کو ایسے دروازے جن میں گزرنے کے لئے مسجد سے گزرنا پڑتا ہے ان) کے رخ تبدیل کر دئیے جائیں تاکہ جنبی اور حائضہ جو اپنے مکانوں میں جانے کے لئے مسجد سے گزرنے کے لئے مجبور ہیں اس شکل میں مسجد سے نہ گزر سکیں، حضرت امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر جنبی اور حائضہ کسی دوسری جگہ جانے کے لئے مسجد سے گزرنا چاہیں تو وہ گزر سکتے ہیں لیکن انہیں مسجد کے اندر بحالت ناپاکی بیٹھنا جائز نہیں ہے۔ مگر امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ جس طرح جنبی اور حائضہ کو مسجد کے اندر ٹھہرنا ناجائز ہے اسی طرح انہیں مسجد کے اندر سے گزرنا بھی حرام ہے چناچہ یہ حدیث امام اعظم (رح) کے مسلک کی تائید کر رہی ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے جنبی اور حائضہ کو مسجد میں داخل ہونے سے مطلقاً منع فرمایا ہے اس میں گزرنے یا ٹھہرنے کی کوئی قید نہیں ہے۔ لہٰذا اس عموم کا تقاضہ یہ ہے کہ جنبی اور حائضہ کو مطلقاً مسجد میں داخل ہونے سے روکا جائے خواہ وہ گزرنے کے لئے مسجد میں داخل ہوں یا وہاں ٹھہرنے کے لئے۔

【169】

غسل کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جس گھر میں تصویر یا کتا یا جنبی ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ (سنن نسائی، سنن ابوداؤد) تشریح یہاں فرشتوں سے مراد رحمت کے فرشتے ہیں یعنی جس مکان میں یہ تینوں چیزیں ہوتی ہیں اس میں وہ فرشتے داخل نہیں ہوتے جو رحمت و برکت لاتے ہیں اور اللہ کا ذکر سننے کو آسمان سے اترتے ہیں۔ تصویر کا مسئلہ یہ ہے کہ تصویر اگر جاندار کی ہو اور بلند جگہ پر ہو مثلاً دیواروں پر آویزاں ہو، یا چھت پر لگی ہوئی ہو یا ایسے ہی پردوں پر تصویر بنی ہوئی ہوں تو اس سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔ ہاں اگر تصویر بچھونے پر ہو یا اسی طرح پاؤں رکھنے کی جگہ پر ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اگر تصویر غیر جاندار کی ہو مثلاً درخت و پہاڑ کی ہو یا کسی عمارت وغیرہ کی ہو تو ان کو رکھنا جائز ہے یا تصویر تو جاندار کی ہو مگر اس کا سر کٹا ہوا ہو تو یہ بھی جائز ہے اسی طرح جو تصویر ایسی جگہ ہو جہاں روندی جاتی ہو مثلاً فرش پر ہو یا تکیہ وغیرہ پر ہو تو وہ بھی مکان میں فرشتوں کے دخول کو مانع نہیں ہے۔ اسی طرح نابالغ لڑکیوں کے لئے گھروں میں گڑیاں رکھنا بھی جائز ہے۔ ایسے سکے جن پر تصویریں بنی ہوئیں ہوں جیسے کہ آج کل سکے یا نوٹ چل رہے ہیں ان کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس حدیث کے الفاظ سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ گھر میں ہوں تو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ مکان میں ان کا رکھنا جائز ہے، یہاں تک کہ ان کو اپنے پاس رکھنا خواہ پگڑی ہی میں رکھے جائز ہے کیونکہ اگر پچھلے تمام علماء ایسے سکوں کو پاس رکھتے رہے ہیں اور ان کالین دین کرتے رہے ہیں اور کسی عالم نے بھی ان کے رکھنے کو منع نہیں فرمایا ہے۔ کتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی مکان میں کتے ازراہ شوق و فیشن ہوں گے تو یا جائز نہیں ہوگا ہاں اگر ضرورت اور حاجت کی وجہ سے مثلاً شکار کے لئے ہوں یا کھیتوں اور مویشیوں کی حفاظت کے لئے ہوں تو جائز ہے اور ان کا پالنا درست ہے۔ جنبی سے مراد ہر جنبی نہیں ہے بلکہ وہ جنبی ہے جسے غسل جنابت میں سستی اور کاہلی کی بنا پر تاخیر کرنے کی عادت ہو یعنی وہ غسل کرنے میں اتنی ہی تاخیر کرتا ہو کہ نماز کا وقت بھی نکل جاتا ہو یا پھر وہ جنبی مراد ہے جو وضو نہ کرلیتا ہو۔ (دیکھئے باب کی حدیث نمبر ٢)

【170】

غسل کا بیان

اور حضرت عمار بن یاسر (رض) (اسم گرامی عمار بن یا سر اور کنیت ابوالیقطان ہے یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کی طرف سبقت کی تھی، ان کی والدہ سمیہ تھیں اور وہ پہلی خاتون تھیں جو اللہ عزو جل کی راہ میں شہید کی گئیں، یہ اور ان کی والدہ اور ان کے والد سب کے سب پہلے ایمان لانے والوں میں ہیں حضرت عمار کا شمار صحابہ کرام (رض) کی جماعت میں ہوتا ہے جو اسلام لانے کی وجہ سے ظلم و ستم کی ہر بھٹی میں ڈالے گئے مگر جب وہاں سے نکلے تو کندن ہو کر نکلے۔ حضرت عمار اس وقت اسلام لائے تھے جب کہ رسول اللہ ﷺ ارقم کے گھر میں پوشیدہ تھے۔ یہ اور حضرت صہیب بن سنان دونوں ساتھ ہی اسلام لائے تھے۔ حضرت عمار بن یا سر اللہ کی راہ میں بہت زیادہ ستائے گئے، یہاں تک کہ جب مشرکین مکہ انہیں مارتے مارتے تھک گئے اور یہ اپنے ایمان سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹتے تو انہیں آگ میں جلایا کرتے تھے اسی ثناء میں رسول اللہ ﷺ کا گزر ان کی طرف ہوا کرتا تو آپ انہیں آگ میں جلتا ہوا دیکھ کر اپنا دست مبارک ان کے اوپر پھیر کر فرمایا کرتے تھے کہ اے آگ ! تو عمار پر ایسی ہی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا جسیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ہوئی تھی۔ جب آپ زخمی ہوئے تو انہوں نے یہ وصیت کی کہ مجھے انہی کپڑوں کے ساتھ دفن کرنا کیونکہ میں انہی کپڑوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جاؤں گا، چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کو ان ہی کپڑوں میں دفن کیا۔ ربیع الاول ٣٧ ھ میں ٩٤ برس کی عمر میں جنگ صفین کے دوران آپ نے شہادت پائی۔ اسد الغابہ) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا۔ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ رحمت کے فرشتے ان کے قریب نہیں آتے۔ (١) کافر کا بدن (٢) خلوق کا ملنے والا (٣) جنبی جب تک کہ وضو نہ کرے۔ (سنن ابوداؤد) تشریح جیفہ سے مراد کافر کا بدن ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ، ویسے تو اصل میں جیفہ مردار کو کہتے ہیں ظاہر ہے کہ کافر بھی بمنزلہ مردار کے ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ نجاست مثلا ًشراب اور سود وغیرہ سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے نجس و ناپاک ہوتا ہے۔ خلوق ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے بنتی ہے اور چونکہ رنگ دار ہوتی ہے اس لئے عورتوں کی مشابہت کی وجہ سے مردوں کو اس کا لگانا ممنوع ہے صرف عورتیں اسے استعمال کرسکتی ہیں، اس لئے اگر کوئی مرد اسے لگا لیتا ہے تو رحمت کے فرشتے اس کے قریب بھی نہیں جاتے کیونکہ اس میں رعونیت پائی جاتی ہے۔ اور عورتوں سے مشابہت ہوتی ہے۔ دراصل اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو آدمی سنت کے خلاف کام کرتا ہے تو اگرچہ وہ بظاہر بازیب وزینت او خوشبو سے معطر ہوتا ہے نیز لوگوں میں صاحب عزت و احترام بھی ہوتا ہے مگر سنت کے خلاف عمل کی وجہ سے حقیقت میں وہ نجس اور کتے سے بھی زیادہ خسیس ہوتا ہے۔ جنبی کے حق میں آپ ﷺ کے ارشاد و تہدید اور زجر و توبیخ کے لئے ہے تاکہ جنبی غسل جنابت میں تاخیر نہ کریں کیونکہ اس سے جنبی رہنے کی عادت پڑجاتی ہے۔

【171】

غسل کا بیان

اور حضرت عبدا اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمر و بن حزم (اسم گرامی عمرو بن حزم اور کنیت ابوضحاک، آپ انصاری ہیں سب سے پہلے غزوہ خندق میں شریک ہوئے ہیں رسول اللہ ﷺ نے انہیں (نواح یمن) میں اہل نجران پر عامل بنا کر بھیجا تھا اس وقت ان کی عمر صرف سترہ سال تھی بمقام مدینہ منورہ ٥١ ھ یا ٥٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے) ۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے جو ہدایت نامہ عمر و بن حزم کے لئے لکھا تھا اس میں یہ (حکم بھی) مرقوم تھا کہ قرآن کریم کو پاک لوگ ہی ہاتھ لگایا کریں۔ (مالک، دارقطنی) تشریح سرکار دو عالم ﷺ نے حضرت عمر و بن حزم کو نواح یمن کے کسی شہر کا عامل بنا کر بھیجا تھا اور ایک ہدایت نامہ لکھ کر انہیں دیا تھا جس میں فرائض اور صدقات و دیات وغیرہ کے احکام و مسائل کی تفصیل تحریر کی تھی۔ اسی مکتوب گرامی میں یہ حکم بھی تھا جسے راوی یہاں بیان کر رہے ہیں۔

【172】

غسل کا بیان

اور حضرت نافع (رح) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت عبداللہ ابن عمر استنجے کے لئے جا رہے تھے میں بھی ان کے ہمراہ ہو لیا (پہلے تو) انہوں نے استنجاء کیا اور اس کے بعد انہوں نے اس روز یہ حدیث بیان کی کہ ایک آدمی کسی گلی محلہ میں جا رہا تھا اور سرکار دو عالم ﷺ پیشاب یا پاخانے سے فارغ ہو کر تشریف لا رہے تھے اس آدمی نے آپ ﷺ سے ملاقات کی اور سلام عرض کیا، رسول اللہ ﷺ نے سلام کا جواب نہیں دیا جب یہ آدمی (دوسرے) گلی محلے میں مڑنے لگا تب سرکار دو عالم ﷺ نے (تیمم کے لئے) اپنے دونوں ہاتھ دیوار پر مار کر منہ پر پھیرے پھر (دوسری مرتبہ) مار کر اپنے ہاتھوں پر کہنیوں تک پھیرے، اس کے بعد اس آدمی کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا مجھے تمہارے سلام کا جواب دینے سے کسی چیز نے نہیں روکا تھا فقط یہ بات تھی کہ میں بےوضو تھا۔ (ابوداؤد) تشریح آپ ﷺ نے اس آدمی کے سلام کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ دراصل سلام اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام ہے گو کہ عام طور پر ایسے موقع پر سلام کے حقیقی معنی مراد نہیں لئے جاتے بلکہ اس سے سلامت کے معنی مراد ہوتے ہیں، مگر پھر آپ ﷺ نے اس کے اصل معنی کا احترام کرتے ہوئے بغیر وضو کے اللہ عزوجل کا نام لینا مناسب نہ سمجھا۔ اسی باب میں پہلے کچھ حدیثیں گزری ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ بیت الخلاء سے آکر بغیر وضو کے قرآن پڑھتے اور پڑھاتے تھے اور یہ کہ آپ ﷺ بغیر وضو کے ذکر اللہ کیا کرتے تھے۔ بظاہر وہ احادیث اور یہ حدیث آپس میں متعارض نظر آتی ہیں ؟ اس تعارض کا دفعیہ یہ کہہ کر کیا جائے گا کہ آپ ﷺ کا بےوضو قرآن پڑھنا یا ذکر اللہ کرنا جیسے کہ پہلی حدیثوں میں گزرا رخصت (آسانی) پر عمل تھا۔ اور یہاں آپ ﷺ نے امت کی تعلیم کے لئے عزیمت (اولیٰ ) پر عمل فرمایا ہے۔ یعنی یہاں آپ ﷺ کا امت کو یہ بتانا مقصود ہے کہ بےوضو اللہ کا نام لینا جائز تو ہے مگر افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ با وضو ذکر اللہ کیا جائے۔ اس حدیث سے دو چیزیں معلوم ہوئیں اوّل تو یہ کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ دوسری یہ کہ اگر کوئی آدمی کسی عذر کی بناء پر سلام کا جواب نہ دے سکے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ اس کے بعد اپنا وہ عذر جس کی وجہ سے وہ سلام کا جواب نہیں دے سکا، سلام کرنے والے کے سامنے بیان کر دے تاکہ اس کی طرف غرور وتکبر کی نسبت نہ کی جاسکے یعنی سلام کرنے والا یہ سوچے کہ اس نے غرور وتکبر کی بنا پر میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔

【173】

غسل کا بیان

اور حضرت مہاجر بن قنفذ (رض) ( حضرت مہاجر بن قنفذ قریشی تیمی ہیں کہا جاتا ہے کہ مہاجر اور قنفذ دونوں لقب ہیں اصل میں ان کا نام عمرو بن خلف ہے۔ آپ فتح مکہ کے دن اسلام لائے ہیں اور ہجرت کے بعد بصرہ میں سکونت اختیار کی اور وہیں انتقال ہوا۔ ( کے بارے میں مردی ہے کہ یہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ آپ ﷺ پیشاب کر رہے تھے، انہوں نے سلام عرض کیا، رسول اللہ ﷺ نے جواب نہ دیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور پھر یہ عذر بیان فرمایا کہ میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں کہ بےوضو اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کروں۔ (ابوداؤد) اور نسائی نے یہ روایت لفظ حتی توضاء (یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وضو فرمایا) تک نقل کی ہے اور کہا کہ جب آپ ﷺ نے وضو فرمالیا تو سلام کا جواب دیا۔ تشریح مکروہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بےوضو اللہ کا نام لینا حرام ہے بلکہ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ افضل اور بہتر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مقدس و مبارک نام با وضو لیا جائے، اگر کسی نے بغیر وضو اللہ کا نام لیا تو اس پر گناہ نہیں ہوگا۔

【174】

غسل کا بیان

حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ حالت ناپاکی میں سوجایا کرتے اور پھر جاگتے اور سو جاتے۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح اسی باب کی حدیث نمبر ٣ میں گزر چکا ہے کہ جب آپ حالت جنابت میں سونے کا ارادہ فرماتے تو پہلے وضو فرما لیا کرتے تھے اس کے بعد سویا کرتے تھے، اس حدیث میں گو اس کی صراحت نہیں ہے کہ آپ ﷺ حالت جنابت میں سونے سے پہلے وضو فرماتے تھے مگر یہاں بھی مراد یہی ہے کہ آپ ﷺ وضو کرنے کے بعد ہی آرام فرماتے تھے۔ یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کبھی کبھی بغیر وضو کے بھی بیان جواز کے لئے سوجایا کرتے تھے تاکہ اس سے یہ معلوم ہو کہ بغیر وضو بھی سو جانا جائز ہے مگر افضل اور بہتر یہی ہے کہ وضو کرنے کے بعد سویا جائے۔

【175】

غسل کا بیان

حضرت شعبہ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ناپاکی کا غسل فرماتے تو (پہلے) اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر سات مرتبہ پانی ڈالتے پھر اپنی شرم گاہ دھوتے۔ ایک مرتبہ بھول گئے کہ پانی کتنی مرتبہ ڈالا ہے ؟ چناچہ انہوں نے مجھ سے پوچھا میں نے عرض کیا مجھے یاد نہیں انہوں نے فرمایا تمہاری ماں مرے تمہیں یاد رکھنے سے کس نے روک دیا تھا ؟ پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کر کے اپنے سارے بدن پر پانی بہا لیا اور کہنے لگے کہ سرکار دو عالم ﷺ بھی اس طرح پاک ہوا کرتے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح غسل جنابت کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے متعلق ستر دھونے سے پہلے ہاتھوں کو دھونے کے بارے میں اس سے پہلے جو احادیث گزری ہیں یا تو وہ مطلق ہیں یعنی ان میں یہ تعداد ذکر نہیں کی گئی ہے کہ آپ ﷺ کتنی مرتبہ ہاتھ دھوتے تھے یا جن میں تعداد ذکر کی گئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک دو مرتبہ دھوئے ہیں یا تین مرتبہ، چناچہ باب الغسل کی پہلی فصل میں خود حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی ایک روایت (نمبر ٥) گزری ہے جس میں یہ تو منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک دھوئے ان کی تعداد زکر نہیں کی گئی ہے کہ کتنی مرتبہ دھوئے ؟ لیکن یہاں حضرت شعبہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کا یہ عمل نقل فرما رہے ہیں کہ وہ غسل جنابت کے وقت سات مرتبہ پانی ڈال کر ہاتھ دھوتے تھے۔ لہٰذا اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کا یہ عمل کسی خاص صورت میں ہوگا یعنی آپ کو کوئی ایسی صورت پیش آئی ہوگئی۔ جس کی بنا پر بہت زیادہ طہارت و پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے ساتھ مرتبہ دھونا ضرور سمجھا ہوگا۔ یا پھر اس کی تاویل یہ ہوگی کہ سات مرتبہ دھونے کے حکم کے منسوخ ہونے کی اطلاع حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کو نہیں ہوئی ہوگی اس لئے انہوں نے اسی پہلے حکم کے مطابق سات مرتبہ دھویا ہوگا۔ یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ شاگرد کو اپنے شیخ و استاد کے سامنے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ رہنا چاہئے تاکہ شیخ کے ہر ہر قول اور ہر ہر عمل کو ذہن نشین کر کسے۔ نیز شیخ و استاد کو یہ حق ہے کہ وہ شاگرد کی غفلت اور لاپرواہی پر تنبیہ کرے۔

【176】

غسل کا بیان

اور حضرت ابورافع (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ ایک روز اپنی تمام بیویوں کے پاس آئے (یعنی سب سے جماع کیا) اور ہر ایک بیوی سے (جماع سے فارغ ہو کر علیحدہ علیحدہ) غسل فرمایا۔ ابورافع (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے آخر میں ایک ہی مرتبہ کیوں نہ غسل کرلیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ (یعنی ہر جماع کے بعد غسل کرنا، خوب پاک کرتا ہے، (نفس کے لئے) بہت خوش آئند ہے اور (جسم کو) خوب صاف کرتا ہے۔ (سنن ابوداؤد) تشریح اس سے پہلے اسی باب کی حدیث نمبر ٥ سے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک شب میں تمام ازواج مطہرات سے ہم بستری فرما کر آخر میں ایک ہی مرتبہ غسل فرمایا اور یہاں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ آپ نے ایک دن تمام ازواج مطہرات سے ہم بستری فرمائی اور غسل کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ ہر بیوی کے ساتھ جماع سے فراغت کے بعد علیحدہ علیحدہ غسل فرمایا تو ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہوگی کہ آپ ﷺ کا وہ پہلا عمل جو اوپر بیان ہوا وہ امت کی آسانی کے لئے تھا یعنی اس بات کا اظہار مقصود تھا تمام بیویوں کے ساتھ ہم بستری سے فراغت کے بعد آخر میں ایک مرتبہ غسل کرلینا کافی ہے لیکن افضل اور بہتر چونکہ یہی ہے کہ ہر جماع کے بعد غسل کیا جائے اس لئے اس وقت آپ ﷺ نے ہر جماع کے بعد علیحدہ علیحدہ غسل فرمایا۔ آپ ﷺ نے حضرت ابورافع (رض) کے جواب میں ہر مرتبہ غسل کرنے کی جو وجہ بیان فرمائی ہے اس میں تین لفظ استعمال فرمائے ہیں (١) از کی (٢) اطیب (٣) اطہر۔ ان تینوں الفاظ کے فرق کو ظاہر کرتے ہوئے علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ تطہیر کا استعمال ظاہری مناسبت سے ہے اور تزکیہ و تطیب کا استعمال باطنی مناسبت سے ہے یعنی تطہیر اخلاق بد کے ازالہ کے لئے ہے اور تزکیہ و تطیب اچھی خصلتوں کے حصول کے لئے ہے گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس طرح غسل کرنے سے برے اخلاق مثلاً غصہ وغیرہ دور ہوتے ہیں اور اچھے اخلاق یعنی حلم وتقوی وغیرہ حاصل ہوتے ہیں۔

【177】

غسل کا بیان

اور حضرت حکم بن عمرو (رض) (اسم گرامی حکم ابن عمر ہے قبیلہ غفار کی نسبت سے مشہور ہیں آپ صحابی ہیں وفات نبی کے بعد بصرہ چلے گئے ان کے سو تیلے بھائی زیاد نے انہیں خراسان کا حاکم بنایا تھا چناچہ ان کی وفات بھی خراسان کے مضافات مقام مرو میں پچاس ہجری میں ہوئی) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور ترمذی نے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ آپ ﷺ نے منع فرمایا عورت کے (وضو کے) بقیہ پانی سے نیز ( ترمذی) نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے) تشریح لفظ سؤر یہاں غسل یا وضو کے بقیہ پانی کے معنی میں ہے، اس کے لغوی معنی جھوٹھا (کسی کا استعمال کیا ہوا) مراد نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ راوی کو فقط لفظ میں شک واقعہ ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے یا تو فضل کہا ہے یا سور فرمایا ہے۔ اس فصل کی حدیث نمبر ٧ کے فائدے میں اس حدیث کا تذکرہ آچکا ہے ان دونوں میں جو تعارض واقع ہو رہا ہے اس کی وضاحت وہاں کی جا چکی ہے علامہ سید جمال الدین (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث اور اس کے بعد آنے والی حدیث نمبر (٢١) سے عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو کرنے کی جو ممانعت ثابت ہو رہی ہے اس کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے تاکہ اس حدیث اور اس حدیث نمبر (٧) میں جس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زوجہ مطہرہ کے غسل کے بچے ہوئے پانی سے وضو فرمایا تھا تعارض پیدا نہ ہو سکے اور دونوں حدیثیں اپنی جگہ جگہ قابل عمل رہیں۔

【178】

غسل کا بیان

حضرت حمید حمیری (رح) ( اسم گرامی حمید بن عبدالرحمن ہے، قبیلہ حمیر سے تعلق کی وجہ سے حمیر کی نسبت سے مشہور ہیں جلیل القدر تابعی ہیں اپنے علم وفضل کی بنا پر اہل بصرہ کے امام سمجھے جاتے تھے، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے سماعت کا شرف حاصل ہے۔ (فرماتے ہیں کہ میں ایک آدمی سے ملا جو ابوہریرہ (رض) کی طرح چار برس سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں رہ چکے تھے انہوں نے کہا کہ سرکار دو عالم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ عورت مرد ( کے غسل) کے بچے ہوئے پانی سے نہائے یا مرد عورت (کے غسل) کے بچے ہوئے پانی سے نہائے۔ (ایک راوی) مسدد نے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ دونوں اکٹھے ہو کر (علیحدہ علیحدہ) چلو لے کر نہا لیں تو جائز ہے۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی) اور امام احمد بن حنبل (رح) نے اس روایت کے شروع میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس سے (بھی) منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی ہر روز کنگھی کرے اور نہانے کی جگہ پیشاب کرے اور ابن ماجہ نے یہ روایت عبداللہ بن سر جس (رض) سے نقل کی ہے۔ تشریح روزانہ کنگھی کرنے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جن کا مقصد صرف بناؤ سنگار اور زیب وزینت ہوتا ہے لہٰذا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کنگھی تیسرے روز کی جائے یعنی درمیان میں ایک دن کا ناغہ کرنا چاہئے۔ غسل کرنے کی جگہ پیشاب کرنا اس لئے منع ہے کہ اس سے وسوسے پیدا ہوتے جو عبادت میں حضوری قلب کے لئے سد راہ بنتے ہیں۔

【179】

پانی کے احکام کا بیان

حضرت ابوہریرۃ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اس ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہنے والا نہ ہو پیشاب نہ کرے کہ پھر اسی میں غسل کرنے لگے (یعنی کسی دانشمند سے یہ بعید ہے کہ وہ پانی میں پیشاب کرلے پھر اسی پانی سے غسل کرلے) (صحیح البخاری و صحیح مسلم) صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی ناپاکی کی حالت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے (تاکہ پانی ناپاک نہ ہوجائے) لوگوں نے کہا ابوہریرہ (رض) پھر کس طرح نہانا چاہئے ؟ انہوں نے فرمایا اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی (چلو سے) لے کر پانی سے باہر نہانا چاہئے۔ تشریح یہاں جس پانی میں پیشاب کرنے اور پھر اس میں نہانے سے روکا جا رہا ہے اس سے ماء قلیل یعنی تھوڑا پانی مراد ہے کیونکہ ماء کثیر یعنی زیادہ پانی ماء جاری یعنی بہنے والے پانی کا حکم رکھتا ہے جو پیشاب وغیرہ سے ناپاک نہیں ہوتا اور پھر اس میں نہانا بھی جائز ہے۔ بعض علماء کرام نے کہا کہ ماء کثیر یعنی زیادہ پانی میں بھی پیشاب کرنا ممنوع ہے اگرچہ وہ پانی پیشاب وغیرہ سے نجس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر اس میں کوئی آدمی پیشاب کرے گا تو اس کے دیکھا دیکھی دوسرے بھی اس میں پیشاب کرنے لگیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عمومی طور پر سب ہی لوگ اس میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہوجائیں گے جس کی وجہ سے پانی رفتہ رفتہ متخیر (تبدیل) ہوجائے گا یعنی جب اس میں زیادتی اور کثرت سے پیشاب کیا جائے گا تو پانی کا رنگ مزہ اور بو تینوں چیزیں بدل جائیں گی اور پانی اصل حیثیت کھو کر ناپاک ہوجائے گا۔ لہٰذا اب اس حدیث میں مذکورہ حکم کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ پہلی شکل یعنی پانی کم ہونے کی صورت میں تو یہ نہی حرمت کے لئے ہے کیونکہ کم پانی میں پیشاب کرنے سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے۔ دوسری شکل یعنی پانی زیادہ ہونے کی صورت میں کراہت کے لئے ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ اصطلاح شریعت میں کم پانی اور زیادہ پانی کی مقدار اور اس کی تحدید کیا ہے ؟ تو اس سلسلے میں انشاء اللہ تعالیٰ اگلے صفحات میں پوری وضاحت کی جائے گی۔ اسے بھی سمجھ لیجئے کہ حدیث میں پانی کے ساتھ جاری یعنی بہنے والے کی قید کیوں لگائی گئی ہے ؟ اس قید کی وجہ یہ ہے کہ اگر پانی جاری یعنی بہنے والا ہو تو خواہ کم ہو یا زیادہ ہو اس میں نجاست مثلاً پیشاب وغیرہ پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ نیز علماء کرام نے لکھا ہے کہ یہ تمام تفصیلات دن کے لئے ہیں، رات میں جنابت کے خوف کی وجہ سے مطلقاً اس میں قضائے حاجت مکروہ اور ممنوع ہے کیونکہ جنات رات کو وہیں رہتے ہیں جہاں پانی ہوتا ہے چناچہ اکثر و بیشتر ندی و نالے اور تالاب جوہڑ اور نہر وغیرہ رات کو جنات کا مسکن ہوتی ہیں۔ حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی جنبی پانی میں ہاتھ نکالنے کے لئے ڈالے تو پانی مستعمل یعنی ناقابل استعمال نہیں ہوگا اور اگر وہ پانی میں ہاتھ اس لئے ڈالے تاکہ اپنے ہاتھوں کو ناپاکی دور کرنے کے لئے اس میں دھوئے تو اس شکل میں اپنی مستعمل یعنی ناقابل استعمال ہوجائے گا۔

【180】

پانی کے احکام کا بیان

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم)

【181】

پانی کے احکام کا بیان

اور حضرت سائب بن یزید (رح) فرماتے ہیں کہ میری خالہ مجھے سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں لے گئیں، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (یہ) میرا بھانجا بیمار ہے۔ چناچہ آپ ﷺ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور میرے لئے برکت کی دعا کی، پھر آپ ﷺ نے وضو کیا اور میں نے آپ ﷺ کے وضو کا پانی پی لیا۔ اس کے بعد میں آپ ﷺ کی پشت مبارک کے پیچھے کھڑا ہو کر مہر نبوت کو دیکھنے لگا جو آپ ﷺ کے کندھوں کے درمیان تھی اور دلہن کے پلنگ کی گھنڈی کی طرح (چمک رہی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح وضو کے پانی سے یا تو یہ مراد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے وضو فرمانے کے بعد جو پانی برتن میں باقی رہ گیا تھا حضرت سائب (رض) نے اسے پی لیا یا اس سے مراد یہ ہے کہ جب آپ ﷺ وضو فرما رہے تھے تو جو پانی آپ ﷺ کے اعضاء وضو سے گرتا جاتا تھا حضرت سائب (رض) حصول برکت و سعات کے خاطر اسے پیتے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم ﷺ کو نبوت و رسالت کے منصب سے سرفراز فرما کر جب دنیا میں مبعوث کیا تو آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی حقانیت و صداقت کی دلیل کے طور پر جہاں اور بہت سی نشانیاں اور معجزے دئیے وہیں ایک بڑی نشانی آپ ﷺ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت بھی ثبت فرمائی چناچہ حضرت سائب اسی مہر نبوت کی مقدار اور اس کی ہیت بیان فرما رہے ہیں کہ وہ چھپر کھٹ کی گھنڈی کی طرح تھی۔ اس نشانی کو مہر نبوت اس لئے کہا جاتا ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کی بعثت سے پہلے کے انبیاء پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کتابیں نازل کی گئی تھیں ان میں رسول اللہ ﷺ کی آمد اور بعثت کی خبر دیتے ہوئے آپ ﷺ کی یہ علامت بتائی گئی تھی کہ آپ ﷺ کے مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ چناچہ جب رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے تو اس مہر نبوت کو دیکھ کر آپ ﷺ پہچانے گئے کہ آپ ہی وہی نبی آخر الزماں ہیں جن کی بعثت کی خبر پہلے کتابوں میں دی گئی ہے چناچہ یہ مہر نبوت آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی علامت قرار دی گئی اس کے علاوہ علماء کرام نے اس کی وجہ تسمیہ اور بھی لکھی ہیں مگر یہاں طوالت کی وجہ سے سب کو ذکر نہیں کیا جا رہا۔ مہر نبوت کے بارے میں علماء کرام لکھتے ہیں کہا اس کے اندرونی حصہ پروَحْدَہ لَا شَرِیْکَ کے الفاظ مرقوم تھے اور اندرونی حصے پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی تَوَجَّہُ حَیْثَ مَا کُنْتَ فَاِنَّکَ مَنّصُورٌ یعنی جدھر بھی آپ ﷺ متوجہ ہوں گے ہماری مدد آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم) کے ساتھ ہوگی مہر نبوت کے ظاہر ہونے کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے چناچہ بعض حضرات نے تو یہ کہا ہے کہ جب آپ ﷺ کا سینہ مبارک شق کر کے سیا گیا تو اس کے بعد یہ نمودار ہوئی بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کے فوراً بعد یہ مہر ظاہر ہوئی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ اس مہر سمیت ہی پیدا ہوئے تھے۔ وا اللہ اعلم

【182】

پانی کے احکام کا بیان

حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ سے اس پانی کا حکم پوچھا گیا جو جنگل میں زمین پر جمع ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر چو پائے درندے اس پر آتے جاتے رہتے ہیں (یعنی جانور وغیرہ اس پانی پر آکر اسے پیتے ہیں اور اس میں پیشاب وغیرہ بھی کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر پانی دو قلوں کے برابر ہو تو وہ ناپاکی کو قبول نہیں کرتا (یعنی نجاست وغیرہ پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا) ۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، داری، سنن ابن ماجہ اور سنن ابوداؤد کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ ) تشریح قلہ بڑے مٹکے کو کہتے ہیں جس میں اڑھائی مشک پانی آتا ہے قلتین یعنی دو مٹکوں میں پانچ مشک پانی سماتا ہے دو مشکوں کے پانی کا وزن علماء کرام نے سوا چھ من لکھا ہے اس حدیث کے پیش نظر حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی دو مٹکوں کے برابر ہو اور اس میں نجاست و غلاظت گرجائے تو جب تک پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے اس کے بارے میں علماء کرام کا بہت زیادہ اختلاف ہے کہ آیا یہ حدیث صحیح بھی ہے یا نہیں ؟ چناچہ سفر السعادہ کے مصنف جو ایک جلیل القدر محدث ہیں لکھتے ہیں کہ علماء کرام کی ایک جماعت کا قول تو یہ ہے کہ حدیث صحیح ہے مگر ایک دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ علی بن مدینی (رح) نے جو جلیل القدر علماء اور ائمہ حدیث کے امام اور حضرت عبداللہ بن اسماعیل بخاری (رح) کے استاد ہیں لکھتا ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہی نہیں ہے۔ نیز علماء کرام لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اجماع صحابہ کے برخلاف ہے کیونکہ ایک مرتبہ چاہ زمزم میں ایک حبشی گرپڑا تو حضرت بن عباس اور حضرت ابن زبیر (رض) نے یہ حکم دیا کہ کنویں کا تمام پانی نکال دیا جائے اور یہ واقعہ اکثر صحابہ کرام (رض) کے سامنے ہوا اور کسی نے بھی اس حکم کی مخالفت نہیں کی۔ پھر اس کے علاوہ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس مسئلہ میں پانی کی حد اور مقدار متعین کرنے کے سلسلے میں نہ تو حنفیہ کو اور نہ ہی شوافع کو ایسی کوئی صحیح حدیث ہاتھ لگی ہے جس سے معلوم ہو کہ نجاست پڑنے سے کتنی مقدار کا پانی ناپاک ہوجاتا ہے اور کتنی مقدار کا ناپاک نہیں ہوتا۔ امام طحاوی (رح) جو فن حدیث کے ایک جلیل القدر امام اور حنفی مسلک کے تھے فرماتے ہیں کہ حدیث قلتین (یعنی یہ حدیث) اگرچہ صحیح ہے لیکن اس پر ہمارے عمل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں پانی کی مقدار دو قلے بتائی گئی ہے اور قلے کے کئی معنی آتے ہیں، چناچہ قلہ مٹکے کو بھی کہتے ہیں اور مشک کو بھی، نیز پہاڑ کی چوٹی بھی قلہ کہلاتی ہے، لہٰذا جب یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں حدیث میں قلہ سے کیا مراد ہے تو اس پر عمل کیسے ہوسکتا ہے ؟ بہر حال اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ جو علماء صرف حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کرتے ہیں ان کا مسلک تو یہ ہے کہ نجاست وغیرہ پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا خواہ پانی کم ہو یا زیادہ ہو، جاری ہو یا ٹھہرا ہوا ہو اور خواہ نجاست پڑنے سے پانی کا رنگ مزہ اور بو متغیرہ ہو یا نہ ہو یہ حضرات دلیل میں اس کے بعد آنے والی حدیث (نمبر ٥) کے یہ الفاظ پیش کرتے ہیں کہ الحدیث ( اِنَّ لْمَآءَ طُھُورٌّ لَا یُنَجِّسُہٌ شَیْی ءٌ (یعنی پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی) حالانکہ مطلقًا پانی نہیں ہے بلکہ زیادہ پانی ہے۔ ان کے علاوہ تمام علماء اور محدثین کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی زیادہ ہوگا تو نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہوگا اور اگر پانی کم ہے تو نجاست پڑنے سے ناپاک ہوجائے گا۔ اب اس کے بعد چاروں اماموں کے ہاں زیادہ اور کم کی مقدار میں اختلاف ہے چناچہ حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ نجاست پڑنے سے جس پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو وہ ماء کثیر (زیادہ پانی) کہلائے گا اور جو پانی متغیر ہوجائے وہ ماء قلیل (کم پانی) کے حکم میں ہوگا۔ حضرت امام شافعی (رح) اور حضرت امام احمد (رح) کا مسلک اس حدیث کے پیش نظر یہ ہے جو پانی دو قلوں کے برابر ہوگا اسے ماء کیثر کہیں گے اور جو پانی دو قلوں کے برابر نہ ہوگا وہ ماء قلیل کہلائے گا۔ حضرت امام اعظم (رح) اور ان کے ماننے والے یہ فرماتے ہیں کہ۔ اگر پانی اتنی مقدار میں ہو کہ اس کے ایک کنارے کو ہلانے سے دوسرا کنارہ نہ ہلے تو وہ ماء کثیر ہے اور اگر دوسرا کنارہ ہلنے لگے تو وہ ماء قلیل ہے۔ بعد کے بعض حنفی علماء نے دہ در دہ کو ماء کیثر کہا ہے یعنی اتنا بڑا حوص جو دس ہاتھ لمبا اور دس ہاتھ چوڑا ہو اور اتنا گہرا ہو کہ اگر چلو سے پانی اٹھائیں تو زمین نہ کھلے ایسے حوض کو دہ در دہ کہتے ہیں۔ چناچہ ایسے حوض کے پانی میں جو دہ در دہ ہو ایسی نجاست پڑجائے جو پڑجانے کے بعد دکھلائی نہ دیتی ہو جیسے پیشاب، خون، شراب وغیرہ تو چاروں طرف وضو کرنا درست ہے جدھر سے چاہے وضو کرسکتا ہے، البتہ اگر اتنے بڑے حوض میں اتنی جناست پڑجائے کہ پانی کا رنگ یا مزہ بدل جائے یا بدبو آنے لگے تو پانی ناپاک ہوجائے گا اور اگر حوض کی شکل یہ ہو کہ لمبا تو وہ بیس ہاتھ اور چوڑا پانچ ہاتھ ہو یا ایسے ہی لمبا پچیس ہاتھ ہو اور چوڑا چار ہاتھ ہو تو یہ دہ دردہ کی مثل ہی کہلائے گا۔

【183】

پانی کے احکام کا بیان

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ سے کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ہم بضاعہ کے کنویں (کے پانی) سے وضو کرسکتے ہیں ؟ (جب کہ) اس کنویں میں حیض کے (خون میں بھرے ہوئے) کپڑے کتوں کے گوشت اور گندگی ڈالی جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ (اس کنویں کا) پانی پاک ہے (جب تک کہ اس کے رنگ، مزہ اور بو میں فرق نہ آئے) اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح بیر بضا عہ مدینہ کے ایک کنویں کا نام ہے وہ ایک ایسی جگہ واقع تھا جہاں نالے کی رو آتی تھی اس نالے میں جو گندگی اور غلاظت ہوتی تھی وہ اس کنویں میں پڑتی تھی مگر کہنے والے نے کچھ اس انداز سے بیان کیا جس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ لوگ خود اس میں نجاست ڈالتے تھے، حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ اس قسم کی گندگی اور غلط چیزوں کا رتکاب تو عام مسلمان بھی نہیں کرسکتا چہ جائے کہ وہ ایسی غیر شرعی غیر اخلاقی چیز کا ارتکاب کرتے جو افضل المو منین تھے۔ بہر حال ! اس کنویں میں بہت زیادہ پانی تھا ور چشمہ دار تھا اس لئے جو گندگی اس میں گرتی تھی بہہ کر نکل جاتی تھی بلکہ علماء کی تحقیق تو یہ ہے کہ اس وقت کنواں جاری تھا اور نہر جاری کی طرح ایک باغ میں بہتا بھی تھا چناچہ جب آپ ﷺ سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے کنویں کی اس صفت کی وجہ سے اس کے پانی کے بارے میں وہی حکم فرمایا جو ماء کثیر یا جاری پانی کا ہوتا ہے۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ نجاست پڑنے سے کوئی پانی ناپاک نہیں ہوتا خواہ وہ تھوڑا پانی ہو یا زیادہ پانی بلکہ یہ حکم ماء کثیر یعنی زیادہ پانی کا ہے ماء قلیل یعنی کم پانی کا یہ حکم نہیں ہے۔ حنفیہ کے بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ چشمہ دار کنواں بھی جاری پانی کا حکم رکھتا ہے یعنی جو حکم بہنے والے پانی کا ہوتا ہے وہی چشمہ دار کنویں کا ہوتا ہے۔

【184】

پانی کے احکام کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! ہم (کھارے) دریا میں کشتی کے ذریعہ) سفر کرتے ہیں اور (میٹھا) پانی اپنے ہمراہ تھوڑا سا لے جاتے ہیں اس لئے اگر ہم اس پانی سے وضو کرلیں تو پیاسے رہ جائیں ! تو کیا ہم دریا کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں (یا تیمم کرلیا کریں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دریا کا وہ پانی پاک کرنے والا ہے اس کا مردار حلال ہے۔ (مالک، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح میتہ اس مردار جانور کو کہتے ہیں جو بغیر ذبح کئے ہوئے اپنے آپ مرجائے چناچہ اس حدیث میں میتۃ (سے مراد مچھلی ہے کیونکہ اسے ذبح نہیں کرتے اس کا شکار کرنا اور اسے پانی سے نکالنا ہی اس کو ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ البتہ جو مچھلی پانی میں مرجائے وہ حنفیہ کے ہاں حلال نہیں ہے۔ دریائی جانوروں میں مچھلی تمام علماء کرام کے ہاں متفقہ طور پر حلال ہے، دوسرے جانوروں کے بارے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔

【185】

پانی کے احکام کا بیان

اور حضرت ابوزید (رض) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے لیلۃ الجن (یعنی جن کی رات) میں ان سے پوچھا کہ تمہارے لوٹے میں کیا ہے ! عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ نبیذ (یعنی کھجوروں کا شربت) ہے آپ ﷺ نے فرمایا کھجوریں پاک ہیں اور پانی پاک کرنے والا ہے (ابوداؤد) امام احمد و امام ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ الفاظ زیادہ نقل کئے ہیں کہ پس آپ ﷺ نے اس سے وضو کیا نیز امام ترمذی (رح) نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ابوزید کا پتہ نہیں کہ یہ کون ہیں ہاں حضرت علقمہ (رح) البتہ عبداللہ بن مسعود (رض) سے صحیح طور پر یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ لیلۃ الجن کو میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نہیں تھا۔ (صحیح مسلم) تشریح لیلۃ الجن اس رات کو فرماتے ہیں جس میں جنات کی ایک جماعت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی تھی آپ ﷺ نے ان کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ان کے سامنے قرآن کریم پڑھا تھا جس کے بعد وہ جماعت اپنی قوم میں گئی اور اسلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیمات سے انہیں آگاہ کیا اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کی سورت جن میں بھی کیا گیا ہے۔ نبیذ تمر کی شکل یہ ہوتی ہے کہ چھوارے پانی میں ڈال دئیے جاتے ہیں اور انہوں چند روز تک اسی طرح پانی میں رہنے دیا جاتا ہے جس کے بعد دونوں کا شربت سا بن جاتا ہے اور اس میں ایک قسم کی تیزی بھی آجاتی ہے، یہ شربت جب تک تیز و تند نہیں ہوتا حلال رہتا ہے چناچہ منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے یہ نیند تمر بنایا جاتا تھا۔ نبیذ تمر سے وضو کرنا مختلف فیہ ہے، چناچہ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر وضو کے لئے خاص پانی نہ ملے تو نبیذ تمر سے وضو کیا جاسکتا ہے اس کی موجودگی میں تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) اس مسلک سے اختلاف کرتے ہیں، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کی دلیل یہی مذکورہ حدیث ہے یہ حدیث چونکہ حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے شوافع اس حدیث کو ضعیف ثابت کرتے ہیں چناچہ حضرت امام ترمذی (رح) بھی یہی بات کہہ رہے ہیں کہ حدیث کے راوی ابوزید غیر معروف ہیں اس لئے ان کی روایت کردہ حدیث پر کسی مسلک کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی، امام ترمذی (رح) دوسری چیز یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) لیلۃ الجن میں آنحضرت ﷺ کے ہمراہ نہیں تھے۔ اس کی شہادت میں وہ حضرت علقمہ (رح) کی ایک روایت پیش کر رہے ہیں جو حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) ہی سے مروی ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب عبداللہ بن مسعود (رض) کا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اس رات میں ہونا ہی ثابت نہیں ہے تو ابوزید کی یہ روایت یقینا صحیح نہیں ہوسکتی۔ لیکن جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حضرت امام اعظم (رح) کا مسلک برحق ہے کیونکہ حضرت امام ترمذی (رح) کا یہ کہنا ابوزید مجہول راوی ہیں حدیث کی حیثیت پر کچھ اثر انداز نہیں ہوتا اس لئے کہ حدیث کے راویوں کے غیر معروف ہونے کا دعویٰ دوسرے طریقوں سے غلط ثابت ہوجاتا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نہیں تھے، بالکل غلط ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی موجودگی دیگر روایتوں سے بھی تحقیق کے ساتھ ثابت ہے چناچہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اس شب میں جنات کو سلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیمات بتانے میں مشغول ہوئے تو اپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو ایک جگہ بٹھا دیا اور ان کے اردگرد لکیر کھینچ کر ایک دائرہ بنایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اس دائرے سے باہر نہ نکلیں۔ حضرت علقمہ (رح) کی روایت کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے مگر اس کا مطلب حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی موجودگی کا سرے سے انکار نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ جنات سے ہم کلام تھے اس وقت حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) آپ ﷺ کے پاس حاضر نہ تھے، یا یہ کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت جنات کے پاس تشریف لے جا رہے تھے عبداللہ ابن مسعود (رض) اس وقت آپ ﷺ کے پاس نہیں تھے بلکہ آخر شب میں جا کر آپ ﷺ سے ملاقات کی۔ وا اللہ اعلم

【186】

پانی کے احکام کا بیان

حضرت کبشہ بنت کعب بن مالک سے جو حضرت ابوقتادہ (رض) کے بیٹے کی بیوی تھیں مروی ہے کہ (ایک روز ان کے سسر حضرت ابوقتادہ (رض) ان کے پاس آئے (کبشہ کہتی ہیں کہ) میں نے ان کے وضو کے لئے (ایک برتن میں) پانی رکھ دیا، ایک بلی آکر اس میں سے پانی پینے لگی، حضرت ابوقتادہ (رض) نے برتن کو اس کی طرف جھکا دیا (تاکہ وہ آسانی سے پانی پی لے) چناچہ بلی نے پانی پی لیا کبشہ کہتی ہیں کہ جب حضرت ابوقتادہ (رض) نے مجھے دیکھا کہ میں تعجب سے ان کی طرف دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے کہا میری بھتیجی کیا تمہیں اس پر تعجب ہو رہا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ حضرت ابوقتادہ (رض) نے کہا کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا بلیاں ناپاک نہیں ہیں، کیونکہ یہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہیں یا یہ فرمایا آنے جانے والیوں میں سے ہیں۔ (موطا امام مالک، مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی) تشریح حضرت ابوقتادہ (رض) نے کبشہ کو بھیتجی کہا ہے حالانکہ وہ ان کی بھیتجی نہیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں عام طور پر مرد مخاطب کو اگر وہ چھوٹا ہوتا ہے بھتیجا یا چچا کا بیٹا اور عورت مخاطب کو بھتیجی کہہ کر پکارتے ہیں چاہے حقیقت میں ان کا یہ رشتہ نہ ہو کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتا ہے، اس لئے وہ اسلامی اخوت کے رشتے کے پیش نظر اس کی اولاد کو بھیتجا یا بھیتجی کہتے ہیں۔ روایت میں طوافین اور طوافات دونوں لفظ استعمال فرمائے گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بلی اگر نر ہے تو اس کی مناسبت سے طوافین کا لفظ ہوگا اور اگر بلی مادہ ہے تو اس کی مناسبت سے طوافات کا لفظ ہوگا۔ یہ دونوں لفظ یہاں خادم کے معنی میں استعمال فرمائے ہیں اس کا مطب یہ ہے کہ بلیاں تمہاری خادم ہیں ان کو خادم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی انسانوں کی مختلف طریقوں سے خدمت کرتی ہیں اور ان کے آرام و راحت کی بعض چیزوں میں بڑی معاون ہوتی ہیں مثلاً نقصان دہ جانوروں جیسے چوہے وغیرہ کو یہ مارتی ہیں۔ یا ان کو خادم اس مناسبت سے کہا گیا ہے کہ جیسے خادموں کی خبر گیری میں ثواب ملتا ہے اسی طرح بلیوں کی خبر گیری میں بھی ثواب ہوتا ہے اور جس طرح گھروں میں خادم پھرتے رہتے ہیں اس طرح بلیاں بھی گھروں میں پھرتی رہتی ہیں۔ بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلیاں تمہارے پاس ہر وقت خادموں کی طرح رہتی ہیں اور گھر کے ہر حصے میں پھرا کرتی ہیں اگر ان کے استعمال کئے کو ناپاک قرار دے دیا جائے تو تم سب بڑی دشواریوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ اس لئے یہ حکم کیا جاتا ہے کہ بلیوں کا استعمال کردہ پاک ہے۔ گویا یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ بلی کا استعمال کردہ پاک ہے چناچہ امام شافعی (رح) کا مسلک یہ ہے کہ بلیوں کا استعمال کردہ ناپاک نہیں ہے بلکہ پاک ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ بلی کا استعمال کردہ مکروہ تنزیہی ہے یعنی اگر بلی کے استعمال کردہ پانی کے علاوہ دوسرا پانی نہ مل سکے تو اس سے وضو کرنا جائز ہے۔ اس کی موجودگی میں تیمم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر بلی کے استعمال کردہ پانی کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو اور اس کے باوجود اسی جھوٹے پانی سے وضو کیا جائے گا تو وضو ہوجائے گا لیکن مکروہ ہوگا۔ امام صاحب (رح) اس شکل میں اسے مکروہ بھی اس لئے فرماتے ہیں کہ ایک دوسری حدیث میں بلی کو درندہ کہا گیا ہے اور درندہ کے بارے میں بتایا گیا کہ ناپاک ہوتا ہے لیکن یہ حدیث چونکہ اس کے بالکل برعکس ہے اس لئے ان دونوں حدیثوں پر نظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا حکم نافذ کیا جانا چاہئے جو دونوں حدیثوں کے مفہوم کے مطابق ہو لہٰذا اب یہی کیا جائے گا کہ جس حدیث میں بلی کو درندہ کہہ کر اس کی نجاست کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے مگر اس حدیث نے بلی کی نجاست کے حکم کو کراہت میں بدل دیا ہے لہٰذا اس کے استعمال کئے ہوئے کو ناپاک تو نہیں کہیں گے البتہ مکروہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

【187】

پانی کے احکام کا بیان

حضرت داؤد بن صالح بن دینار اپنی والدہ محترمہ سے نقل کرتے ہیں کہ (ایک روز) انہیں ان کی آزاد کرنے والی مالکہ نے ہریسہ (یعنی حریرہ) دیکر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی خدمت اقدس میں بھیجا ان کی والدہ فرماتی ہیں کہ میں نے (وہاں پہنچ کر) حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو نماز پڑھتے ہوئے پایا حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اشارے سے اسے رکھ دینے کے لئے مجھے کہا (چنانچہ میں نے ہریسہ کا برتن رکھ دیا اتنے میں) ایک بلی آکر اس میں سے کھانے لگی۔ حضرت عائشہ (رض) جب نماز سے فارغ ہوئیں تو حریرہ کو بلی نے جس طرف سے کھایا تھا اسی طرف سے انہوں نے بھی کھالیا پھر فرمایا کہ سرکار دو عالم ﷺ کا ارشاد ہے کہ بلی ناپاک نہیں ہے اور وہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہے اور میں نے خود سرکار دو عالم ﷺ کو بلی کے استعمال کردہ (پانی) سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (سنن ابوداؤد) تشریح داؤد کی والدہ جب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے پاس حریرہ لے کر پہنچیں تو وہ نماز میں مشغول تھیں اس لئے انہوں نے اپنے ہاتھ یا سر وغیرہ سے انہیں اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ یہ برتن رکھ دو اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس طرح کے معمولی اشارے جائز ہیں کیونکہ یہ عمل کیثر نہیں ہے چناچہ نماز کو فاسد اور ختم کردینے والی چیز یا تو گفتگو ہے یا عمل کثیر ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ خود بلی کے استعمال کردہ پانی سے وضو فرما لیا کرتے تھے۔ لہٰذا جن علماء کا مسلک یہ ہے کہ بلی کے استعمال کردہ پانی سے وضو کرنا مکروہ تنزیہی ہے مثلا امام ابوحنیفہ (رح) تو وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فعل آسانی و رخصت پر عمل کرنے کے مترادف ہے اور بیان جواز کے لئے ہے۔ البتہ جن علماء کے نزدیک بلی کا استعمال کردہ پاک ہے ان کو اس حدیث کی کوئی تاویل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے تو ان ہی کے مسلک کی تائید ہوتی ہے علماء نے لکھا ہے کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بلیوں کو پالنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔

【188】

پانی کے احکام کا بیان

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کیا ہم اس پانی سے وضو کرسکتے ہیں جس کو گدھوں نے استعمال کیا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ! (اس پانی سے وضو کرنا جائز ہے) اور اس پانی سے بھی (وضو کرنا جائز ہے) جس کو درندوں نے استعمال کیا ہو۔ (شرح السنۃ) تشریح اس مسئلے میں کہ گدھوں یا خچروں کا استعمال کردہ پانی پاک ہے یا نہیں ؟ کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی کیونکہ اس مسئلے میں جو احادیث منقول ہیں ان میں تعارض ہے چناچہ بعض احادیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا استعمال کردہ حرام ہے اور بعض احادیث سے ان کی اباحت کا پتہ چلتا ہے، جیسا کہ مرقات میں دونوں قسم کی احادیث جمع کی گئی ہیں لہٰذا ان کے ظاہری تعارض کو دیکھتے ہوئے اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور پھر احادیث کے علاوہ صحابہ کرام (رض) میں بھی اس مسئلے کے بارے میں اختلاف منقول ہے چناچہ حضرت ابن عمر فاروق (رض) گدھوں اور خچروں کے مستعمل کو ناپاک کہتے تھے مگر حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) اس کے پاک ہونے کے قائل تھے۔ اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ درندوں کا مستعمل پاک ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی (رح) کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک درندوں کا استعمال کیا ہوا ناپاک ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب کوئی درندہ پانی وغیرہ کو استعمال کرے گا تو اس میں اس کا لعاب یقینًا پڑے گا اور لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے اور ظاہر کہ درندوں کا گوشت ناپاک ہوتا ہے اس لئے اس کے استعمال کئے ہوئے کو بھی ناپاک کہا جائے گا۔ اب جہاں تک ان حدیثوں کا تعلق ہے جن سے درندوں کے مستعمل کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے، اس کے بارے میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ ان احادیث کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی کیونکہ ان احادیث کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی کیونکہ ان احادیث کی صحت ہی میں کلام کیا جاتا ہے کہ آیا یہ احادیث صحیح بھی ہیں یا نہیں ؟ اگر ان احادیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ ان احادیث سے درندوں کے مستعمل پانی کے پاک ہونے کا ثبوت ملتا ہے اس سے وہ پانی مراد ہے جو جنگل میں بڑے بڑے تالابوں میں جمع ہوتا ہے، چناچہ اس کی تصریح آگے آنے والی احادیث سے بھی جو حضرت یحییٰ اور حضرت ابوسعید رحمہما اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہیں، ہوتی ہے جن میں وضاحت کے ساتھ ثابت ہو رہا ہے کہ اگر درندے نے ایسے پانی کو استعمال کیا جو بہت زیادہ مثلاً کسی بڑے تالاب وغیرہ میں پانی ہے تو پاک ہوگا اگر پانی تھوڑا ہوگا تو وہ درندوں کے استعمال کردینے سے ناپاک ہوجائے گا۔ پھر اس بات کو ذہن نشین کرلیجئے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان احادیث میں درندے اور پانی علی العموم مراد ہیں کہ پانی خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ وہ درندوں کے استعمال کرنے سے ناپاک نہیں ہوتا تو کیا اس شکل میں یہ لازم نہیں آتا کہ کتوں کے جھوٹے کو بھی پاک کہا جائے حالانکہ کوئی بھی کتے کہ جھوٹے کو پاک نہیں کہتا لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ جن احادیث سے درندوں کے جھوٹے پانی کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے اس سے وہی پانی مراد ہے جو جنگل میں بڑے بڑے تالابوں میں جمع رہتا ہے اور جو بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر برسبیل تذکرہ ایک مسئلہ بھی سن لیجئے۔ یہ تو آپ سب ہی جانتے ہیں کہ کتے کا لعاب وغیرہ بھی ناپاک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کتوں کا لعاب وغیرہ کپڑے یا بدن کے کسی حصے پر لگ جائے تو اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہوتا ہے مگر اس سلسلے میں اتنی بات یاد رکھئے کہ اگر کسی کتے نے کسی آدمی کے بدن کے کسی حصے کو منہ سے پکڑ لیا یا کسی کپڑے کو منہ میں دبا لیا تو اس کا مسئلہ یہ ہے کہ کتے نے اگر غصے کی حالت میں پکڑا یا دبا ہے تو وہ ناپاک نہیں ہوگا۔ اور اگر غصے کی حالت میں نہیں بلکہ بطور کھیل کود کے اس نے پکڑا اور دبایا ہے تو وہ ناپاک ہوجائے گا اس لئے بدن کے اس حصے کو اور کپڑے کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہوگا۔ اس فرق کی وجہ علماء یہ لکھتے ہیں کہ جب کتا کسی چیز کو غصے کی حالت میں پکڑتا ہے تو اسے دانتوں سے پکڑتا ہے اور اس کے دانت میں کوئی رطوبت نہیں ہوتی اس لئے اس چیز پر ناپاکی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور جب کسی چیز کو کھیل کے طریقہ پر پکڑتا ہے تو اسے دانتوں سے نہیں پکڑتا بلکہ ہونٹوں سے پکڑتا ہے اور ہونٹ چونکہ لعاب وغیرہ سے تر ہوتے ہیں اس لئے اس کی ناپاکی اس چیز کو بھی ناپاک کردیتی ہے۔

【189】

پانی کے احکام کا بیان

حضرت ام ہانی (رض) ( آپ کا نام فاختہ ہے مگر ام ہانی کنیت سے مشہور ہیں ابوطالب کی صاحبزادی اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کی حقیقی بہن ہیں) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے اور حضرت میمونہ (رض) نے ایک طشت میں کہ جس میں گندھے ہوئے آٹے کا کچھ حصہ لگا ہوا تھا غسل فرمایا۔ (سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح چونکہ حضرات شوافع کے نزدیک پانی میں تغیر آجانے سے خواہ تغیر کسی پاک و جائز چیز سے آئے یا ناپاک و ناجائز چیز سے وہ پانی وضو و غسل کے استعمال کے قابل نہیں رہتا اس لئے وہ حضرات اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ طشت میں اتنا آٹا نہیں لگا تھا جس سے پانی متغیر ہوجاتا اس لئے رسول اللہ ﷺ اور حضرت میمونہ (رض) نے اس میں غسل کیا۔ مگر حنفیہ کے ہاں چونکہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر پانی کسی پاک و جائز چیز سے متغیر ہو بشرطیکہ پانی گاڑھا ہوجائے تو اس سے وضو اور غسل درست ہے اس لئے انہیں اس حدیث کی کوئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

【190】

پانی کے احکام کا بیان

حضرت یحییٰ بن عبدالرحمن (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) ایک قافلہ کے ہمراہ کہ جس میں حضرت عمرو بن عاص (رض) بھی تھے چلے جب (اہل قافلہ جنگل میں) ایک تالاب پر پہنچے تو حضرت عمرو بن عاص (رح) نے پوچھا کہ اے تالاب کے مالک کیا تمہارے اس تالاب پر (پانی پینے کے لئے) درندے بھی آتے ہیں ؟ (یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا کہ اے تالاب کے مالک یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں اس لئے کہ ہم درندوں پر آتے ہیں اور درندے ہم پر آتے ہیں یعنی کبھی تو ہم پانی پر آتے ہیں اور کبھی درندے پانی پر آتے ہیں اور چونکہ تالاب میں پانی زیادہ ہے اس لئے درندوں کے پینے سے ناپاک نہیں ہوتا (مالک) اور رزین نے کہا ہے کہ بعض راویوں نے حضرت عمر (رض) کے اس قول میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ (حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں) میں نے خود سرکار دو عالم ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ درندے جو اپنے پیٹ میں لے جائیں وہ ان کا ہے اور جو باقی رہ جائے وہ ہمارے پینے کے قابل اور پاک کرنے والا ہے۔

【191】

پانی کے احکام کا بیان

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ سے ان تالابوں کے بارے میں پوچھا گیا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہیں اور ان پر (پانی پینے کے لئے) درندے، کتے اور گدھے آتے رہتے ہیں کہ آیا اس سے کوئی چیز پاک کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو ان کے پیٹوں میں آجائے وہ ان کا ہے اور جو باقی رہ جائے وہ ہمارے لئے پاک کرنے والا ہے۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح ان دونوں حدیثوں میں درندوں کے استعمال کردہ پانی کے پاک ہونے کا جو حکم بیان کیا جا رہا ہے وہ مطلقا پانی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ حکم اس پانی کے بارے میں ہے جو برے بڑے تالابوں اور حوضوں میں جمع رہتا ہے۔

【192】

پانی کے احکام کا بیان

اور حضرت عمر بن خطاب (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی سے غسل نہ کرو کیونکہ یہ برص ( یعنی سفیدی کی بیماری) کا سبب ہوتا ہے۔ (دارقطنی) تشریح دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی کا مطلب بعض علماء نے یہ اخذ کیا ہے کہ اس پانی سے غسل نہ کرنا چاہئے جو قصدا دھوپ میں رکھ کر گرم کیا گیا ہوا لیکن بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے یعنی خواہ پانی کو دھوپ میں قصدا رکھ کر گرم کیا گیا ہو یا پانی کسی جگہ پہلے سے رکھا ہوا ہو اور دھوپ کے آجانے سے گرم ہوگیا ہو۔ حضرت میرک شاہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث (یعنی حضرت عمر (رض) کا یہ قول) ضعیف ہے اور سرکار دو عالم ﷺ کی کوئی حدیث اس سلسلے میں منقول نہیں ہے۔ مگر حضرت امام شافعی (رح) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے اس قول کو دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے جس کے راوی ثقہ اور معتمد ہیں لہٰذا اس کی صحت پر کوئی کلام صحیح نہیں ہوگا۔ جہاں تک حضرت عمر فاروق (رض) کے اس ارشاد کی مراد کا تعلق ہے اس سلسلے میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت عمر کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے پانی میں غسل مستقلاً نہ کیا جائے اور نہ اس پانی سے غسل کرنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ برص جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ رہے۔ ویسے مسئلہ کی بات یہ ہے کہ دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے چناچہ حضرت امام اعظم، امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ تینوں حضرات کے نزدیک اس میں کوئی کراہت نہیں ہے البتہ حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک میں کچھ اختلاف ہے لیکن ان کا صحیح قول یہ ہے کہ اس پانی سے غسل کرنا مکروہ ہے البتہ ان کے علماء متاخرین نے بھی تینوں ائمہ کی ہمنوائی کرتے ہوئے یہی مسلک اختیار کیا ہے کہ اس میں کراہت نہیں ہے۔

【193】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کے برتن میں سے کتا پانی پی لے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہئے ( بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ تم میں سے جس کے برتن سے کتا پانی پی لے اس (برتن) کو پاک کرنے کی صورت یہ ہے اسے سات مرتبہ دھو ڈالے اور پہلی مرتبہ مٹی سے دھوئے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اس کو بھی دوسری نجاستوں کے حکم میں شمار کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اس برتن کو صرف تین مرتبہ بغیر مٹی کے دھو ڈالنا کافی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں سات مرتبہ دھونے کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طریقے پر نہیں ہے بلکہ اختیار کے طور پر ہے، یا پھر یہ کہ سات مرتبہ دھونے کا یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا جو بعد میں منسوخ ہوگیا ! وا اللہ اعلم۔ تشریح اکثر محدثین اور تینوں آئمہ کے مسلک یہ ہیں کہ اگر برتن میں کتا منہ ڈال دے یا کسی برتن سے پانی پی لے اور کھائے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔

【194】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ (ایک دن) ایک دیہاتی نے مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کردیا (یہ دیکھ کر) لوگ اس کے پیچھے پڑنے لگے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو اور ایک ڈول میں پانی اس کے پیشاب پر بہادو اور آپ ﷺ نے فرمایا تم لوگ آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تنگی کرنے والے نہیں) ۔ (الصحیح البخاری ) تشریح راوی کو شک ہو رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سجلا من ماء فرمایا ہے یا ذنوبا من ماء کے الفاظ فرمائے ہیں اسی لئے انہوں نے دونوں نقل کر دئیے ہیں سجل اور ذنوب دونوں کے معنی ڈول ہی کے ہیں لیکن ان کے استعمال میں تھوڑا سا فرق ہے وہ یہ کہ سجل تو اس ڈول کو کہتے ہیں جس میں پانی ہو خواہ پانی تھوڑا ہو یا زیادہ اور ذنوب پانی سے بھرے ہوئے ڈول کو کہتے ہیں۔ اس حدیث سے سرکار دو عالم ﷺ کی انتہائی شفقت و رحمت اور آپ ﷺ کے حلم و عفو کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اپنی امت پر کتنے مہربان اور شفیق تھے چناچہ نہ یہ کہ آپ ﷺ نے خود اس دیہاتی کی غلطی سے در گزر فرماتے ہوئے اس کو کچھ نہ کہا بلکہ جب صحابہ کرام (رض) نے اسے برا بھلا کہا آپ ﷺ نے انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ تم جس پیغمبر کے رفیق و ساتھی اور جس امت کے فرد ہو اس کی مابہ الامتیاز خصوصیت ہی یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو سختی و پریشانی میں مبتلا نہ کیا جائے اور نہ کسی کی غلطی پر جو عدم واقفیت کی بناء پر سرزد ہوجائے برا بھلا کہا جائے چناچہ آپ ﷺ کے اس ارشاد سے امت کے لئے یہ تعلیم مقصود ہے کہ لوگوں کو کسی دشواری اور سختی میں نہ ڈالا جائے اور نہ ایسا کوئی معاملہ کیا جائے جس سے دوسرا آدمی بددل ہوجائے اور اپنے آپ کو کسی گھٹن اور تنگی میں محسوس کرے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر زمین پر کوئی نجاست و گندگی پڑی ہوئی ہو تو اس نجاست پر زیادہ مقدار میں پانی ڈالنے یا نجاست کو بہا دینے سے زمین پاک ہوجاتی ہے۔ یہ حدیث اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نجاست کا دھو وں اگر متغیر نہ ہو تو پاک ہے۔ اگر وہ کسی دوسرے کپڑے، بدن اور زمین پر یا کسی بوریے وغیرہ سے چھن کر زمین پر گرے تو یہ چیزیں ناپاک نہیں ہوں گی اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے مگر مختار اور معتمد قول یہ ہے کہ دھو ون اگر نجاست کی جگہ اس وقت گرے جب وہ نجاست کے زائل ہونے کی وجہ سے پاک ہوچکی ہو تو اس شکل میں وہ پاک ہوگا اور وہ دھو ون جو نجاست کی جگہ سے پاک ہونے سے پہلے جدا ہوا وہ ناپاک ہوگا اور اگر دھو ون متغیر ہوجائے بایں طور کہ پانی کے رنگ، مزے اور بو میں تبدیلی آجائے تو وہ بالاتفاق ناپاک ہے۔ علامہ طیبی شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ اگر زمین کسی نجاست کی وجہ سے ناپاک ہوجائے تو وہ خشک ہونے سے پاک نہیں ہوتی یعنی وہ جگہ پانی بہا کر نجاست کو زائل کردینے ہی سے پاک ہوگی اور اس جگہ کو کھرچ ڈالنا یا وہاں سے مٹی کھود کر اٹھا لینا ضروری نہیں ہے۔ مگر امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک خشک ہونے سے زمین پاک ہوجاتی ہے اور اگر کوئی چاہے کہ خشک ہونے سے پہلے ہی زمین پاک ہوجائے تو وہاں سے مٹی کھرچ کر اٹھا دی جائے تاکہ وہ حصہ پاک ہوجائے۔ علماء حنفیہ (رح) اس حدیث کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں نے مسجد کی زمین کے اس حصہ کے جہاں خشک ہوجانے سے پہلی جگہ جہاں دیہاتی نے پیشاب کردیا تھا نماز پڑھ لی گی جس کی بناء پر حکم لگا دیا گیا کہ ناپاک زمین بغیر پانی بہائے ہوئے پاک نہیں ہوتی، جہاں تک سوال پانی ڈالنے کا ہے اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت نجاست کی جگہ پانی بہانے کا حکم اس لئے دیا ہوگا کہ پیشاب کی نجاست میں کچھ کمی ہوجائے اور پیشاب کا رنگ اور اس کی بدبو پانی بہانے کی وجہ سے ختم ہوجائے، مگر زمین کا وہ حصہ خشک ہونے کے بعد ہی پاک ہوا ہوگا۔ اس سلسلے میں ملا علی قاری (رح) نے مشکوۃ کی شرح مرقات میں اور بہت سی دلیلیں لکھی ہیں جو وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

【195】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ہم سرکار دو عالم ﷺ کے پاس مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک ایک دیہاتی آیا اور مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا (یہ دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس سے کہنے لگے کہ ٹھہر جا ! ٹھہر جا ! رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اسے پیشاب کرنے سے نہ رو کو بلکہ اسے چھوڑ دو اور پیشاب کرنے دو کیونکہ اگر تمہارے دھمکانے سے اس کا پیشاب رک گیا تو اس کے لئے تکلیف دہ ہوگا پھر اس طرح اس کا پیشاب جو ایک ہی جگہ ہے کئی جگہ پھیل جائے گا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے چھوڑ دیا اور اس دیہاتی نے (جب پورا) یشاب کرلیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور (نہایت شفقت و مہربانی سے) فرمایا کہ مسجدیں پیشاب و گندگی وغیرہ کے لئے نہیں ہیں بلکہ ذکر الہٰی اور نماز و قرآن پڑھنے کے لئے ہیں یا آپ ﷺ نے اسی کے مثل فرمایا (یعنی راوی کو شک ہو رہا ہے کہ آپ ﷺ نے اعرابی سے یہی الفاظ فرمائے تھے یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ اس بعد رسول اللہ ﷺ نے مجلس میں سے ایک آدمی کو حکم دیا اس نے ایک ڈول پانی لا کر پیشاب پر بہا دیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

【196】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی صاحبزادی اسماء (رض) فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے سرکار دو عالم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! یہ بتائیے کہ اگر ہم میں سے کوئی حیض کا خون کپڑے پر لگا ہوا پائے تو کیا کرے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو اسے چاہئے کہ (پہلے) چٹکیوں سے اسے ملے پھر پانی سے دھولے اور اسی کپڑے میں (خواہ تر ہی کیوں نہ) ہو نماز پڑھ لے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

【197】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

حضرت سلیمان بن یسار ( اسم گرامی سلیمان ابن یسار اور کنیت ابوایوب ہے آپ تابعی ہیں آپ کا ١٧ ھ میں بعمر ٥٣ سال میں انتقال ہوا) فرماتے ہیں میں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے کپڑے پر لگی ہوئی منی کے بارے میں پوچھا تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ میں سرکار دو عالم ﷺ کے کپڑے سے منی کو دھویا کرتی تھی چناچہ آپ ﷺ (جب اسی گیلے کپڑے کے ساتھ) نماز کے لئے تشریف لے جاتے تو اس کپڑے پر (منی) کے دھونے کا نشان رہتا تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منی ناپاک ہے اگر منی کسی کپڑے وغیرہ پر لگ جائے تو اسے دھو کر پاک کرلینا چاہئے چناچہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ جس طرح سنک (یعنی ناک سے نکلنے والی) رطوبت پاک ہے اسی طرح منی بھی پاک ہے۔

【198】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت اسود ( حضرت اسود بن محاربی (رح) تابعی ہیں ٨٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے) ۔ و حضرت ہمام ( حضرت ہمام ابن حارث تحفی تابعی ہیں اور حضرت عائشہ (رض) روایت کرتے ہیں) راوی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا میں سرکار دو عالم ﷺ کے کپڑے سے (خشک) منی کھرچ دیا کرتی تھی (صحیح مسلم) اور مسلم نے اس کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) حضرت علقمہ اور حضرت اسود (رض) کی ہی طرح ایک روایت بھی نقل کی ہے۔ جس میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ اسی کپڑے سے نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ تشریح یہ حدیث بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مطابق منی کے ناپک ہونے کو وضاحت کے ساتھ ثابت کر رہی ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک بھی یہی ہے کہ تر منی کو دھونا چاہئے اور گاڑھی منی کو جو کپڑے کے اندر سرایت نہ کرے خشک ہونے کے بعد کھرچ کر اور رگڑ کر صاف کردینا چاہئے۔

【199】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت ام قیس بنت محصن ( حضرت ام قیس محصن کی لڑکی اور عکاشہ کی بہن ہیں ابتداء ہی میں مکہ میں اسلام کی دولت سے مشرف ہوگئی تھیں) سے مروی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے لڑکے کو بھی جو ابھی کھانا نہ کھاتا تھا سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں لائیں رسول اللہ ﷺ نے اس بچے کو اپنی گود میں بٹھا لیا اس نے آپ ﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا رسول اللہ ﷺ نے پانی منگایا اور کپڑوں پر بہا دیا اور خوب مل کر نہیں دھویا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر شیر خوار بچہ جو اناج نہ کھاتا ہو کسی کپڑے وغیرہ پر پیشاب کر دے تو اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس پر پانی چھڑک دینا کافی ہوجائے گا چناچہ یہ حدیث بھی بظاہر حضرت امام شافعی (رح) ہی کے مسلک کی تائید کر رہی ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہ ہے کہ بچے کے پیشاب کو بھی ہر حال میں دھونا ضروری ہے۔ اس حدیث میں نضح جو لفظ آیا ہے اور جس کے معنی چھڑکنا ہیں اس کے معنی یہ دونوں حضرات دھونا ہی فرماتے ہیں۔ پھر حدیث کے آخری الفاظ لا یغسلہ (یعنی آپ ﷺ نے پیشاب کو دھویا نہیں) کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے خوب مل مل کر نہیں دھویا بلکہ بچے کے پیشاب کے پیش نظر معمولی طور پر اس پر پانی بہا کر دھو ڈالنا ہی کافی سمجھا یہ دونوں حضرات اس حدیث کی یہ مذکورہ تاویل اس لئے کرتے ہیں کہ دوسری احادیث مثلاً استنز ھو من البول (یعنی پیشاب سے پاکی حاصل کرو) سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے کہ ہر ایک پیشاب کو دھونا چاہئے حضرت امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں نضح سے مراد بغیر ملے اور نچوڑے پانی کا بہانا ہے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بچوں کو دعا و برکت حاصل کرنے کے لئے بزرگوں اور اولیاء اللہ کے پاس لے جانا مستحب ہے، نیز بچوں کے ساتھ تواضع و نرمی اور محبت و شفقت کا معاملہ کرنا بھی مستحب ہے۔

【200】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب چمڑا دباغت دے دیا جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح چمڑے کو ناپاکی وغیرہ سے پاک کرنے کو دباغت کہتے ہیں۔ چمڑے کو دباغت کئی طرح دی جاتی ہے یا تو چمڑے کو چھالوں وغیرہ میں ڈال کر پکایا جاتا ہے یا دھوپ میں رکھ کر اسے خشک کرلیا جاتا ہے اور اگر چمڑا بغیر دھوپ کے خشک کیا جائے تو اس کو دباغت نہیں کہیں گے بہر حال دباغت کے ذریعے چمڑا چاروں ائمہ کرام کے نزدیک پاک کیا جاسکتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تو سور اور آدمی کے چمڑے کے علاوہ ہر طرح کا چمڑہ دباغت سے پاک ہوجاتا ہے۔ مگر امام شافعی (رح) کے نزدیک کتے کا چمڑہ بھی پاک نہیں ہوتا حالانکہ حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرح کا چمڑہ دباغت سے پاک ہوجاتا ہے۔ البتہ آدمی اور سور کا چمڑا مستثنیٰ ہے کیونکہ آدمی کا چمڑا تو انسان کی عظمت و بزرگی کے پیش نظر پاک نہیں ہوتا اور سور کا چمڑا اس لئے پاک نہیں ہوتا کہ وہ نجس عین ہے۔

【201】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت میمونہ (رض) کی ایک آزاد کردہ باندی کو ایک بکری صدقہ میں دی گئی (اتفاق سے) وہ بکری مرگئی، رسول اللہ ﷺ کا اس پر گزر ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اس کا چمڑا اتار کیوں نہ لیا ؟ اس چمڑے کو دباغت دے کر اس سے نفع اٹھا لیتے ! لوگوں نے عرض کیا کہ یہ تو مردار ہے آپ ﷺ نے فرمایا ؟ صرف اس کا کھانا حرام ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مردار (یعنی جانور بغیر ذبح کئے ہوئے مرجائے اور اس کا کھانا حرام ہو تو جو اجزاء ذبح کرنے کی صورت میں کھائے جاتے ہیں مثلاً گوشت وغیرہ وہ تو مرنے کے بعد حرام ہوجاتے ہیں لیکن ان کے علاوہ دوسری چیزوں مثلاً دباغت دئیے ہوئے چمڑے، دانت، بال اور سینگ وغیرہ سے فائدہ اٹھانا یعنی ان کی خریدو فروخت کرنا اور ان کو دوسری ضرورتوں میں استعمال کرنا جائز ہے۔

【202】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور سرکار دو عالم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ (رض) (ام المومنین حضرت سودا زمعہ کی بیٹی ہیں ابتداء اسلام سے مشرف تھی انتقال ٥٤ ھ مدینہ میں ہوا) فرماتی ہیں کہ ہماری ایک بکری مرگئی تھی ہم نے اس کی کھال اتار کر دباغت دے لی اور ہمیشہ اسی میں نبیذ (یعنی پانی اور کھجوروں کا شربت) بناتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی مشک ہوگئی۔ (صحیح البخاری )

【203】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

حضرت لبابہ بنت حارث (رض) ( آپ کا نام لبابہ ہے اور حارث کی بیٹی ہیں کنیت ام فضل ہے حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) کی بیوی اور ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کی بہن ہیں) فرماتی ہیں کہ حضرت حسین ابن علی المرتضیٰ (رض) نے سرکار دو عالم ﷺ کی گود میں بیٹھ کر آپ ﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا میں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ (دوسرا) کپڑا پہن کر یہ تہ بند مجھے دے دیجئے تاکہ میں اسے دھو ڈالوں آپ نے فرمایا لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی کا چھینٹا دیا جاتا ہے (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور ابوداؤد و سنن نسائی کی ایک روایت میں ابوسمح سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی کا چھینٹا دیا جاتا ہے۔ تشریح حضرت امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں چھینٹا دینے سے مراد تڑ یڑا دینا یعنی پیشاب کی جگہ پر بغیر ملے اور نچوڑے ہوئے پانی کا بہا دینا ہے اور دھونے سے مراد مبالغے کے ساتھ دھونا ہے چناچہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت ہے کہ ایک لڑکا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا اس نے آپ ﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر پانی کا تڑیڑا دو لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ لڑکے کے پیشاب کو بھی دھونے کا حکم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ لڑکے کے پیشاب پر صرف پانی کا تڑیڑا دینا ہی کافی ہے یعنی اس کو ملنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لڑکوں کا پیشاب سوراخ کی تنگی کی بناء پر زیادہ نہیں پھیلتا اور لڑکیوں کا پیشاب سوراخ کی فراخی کی وجہ سے زیادہ پھیلتا ہے اس لئے لڑکیوں کے پیشاب کو خوب اچھی طرح دھونا چاہئے۔

【204】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے جوتوں کے ساتھ گندگی پر چلے تو مٹی اس کو پاک کرنے والی ہے (ابوداؤد اور ابن ماجہ نے بھی اسی کے ہم معنی روایت نقل کی ہے تشریح صورت مسئلہ یہ ہے کہ مثلا ایک آدمی جوتے پہنے ہوئے چل رہا ہے اتفاق سے کسی جگہ گندگی پڑی ہوئی تھی وہ اس کے جوتوں پر لگ گئی اب پھر وہ جب پاک اور صاف زمین پر چلے گا تو مٹی سے رگڑ کھانے کی وجہ سے اس کا جوتا پاک ہوجائے گا اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے چناچہ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے ایک شاگرد حضرت امام محمد (رح) کا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں گندگی سے مراد جو جسم والی اور خشک ہو یعنی اگر کسی راہ چلتے کے جوتے یا موزے میں ایسی گندگی لگ جائے جو جسم والی ہو اور خشک ہو تو پاک زمین پر رگڑ دینے سے وہ جوتا یا موزہ پاک ہوجائے گا اور اگر گندگی خشک نہ ہو تو پھر رگڑ نے سے گندگی زائل نہیں ہوگی۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے ایک دوسرے شاگرد رشید حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ یہاں حدیث کی مراد عام ہے یعنی گندگی خواہ خشک ہو یا تر زمین پر رگڑنے سے پاک ہوجائے گی مگر حضرت امام شافعی (رح) کا یہ پہلا قول ہے ان کا جدید مسلک یہ ہے کہ اس گندگی کو ہر حال میں پانی سے دھونا چاہئے زمین پر رگڑنے سے پاک نہیں ہوگی۔ فقہ حنفی میں فتویٰ حضرت امام ابویوسف (رح) ہی کے قول پر ہے جو کہ جوتے یا موزے پر اگر تن دار نجاست لگ جائے خواہ وہ خشک ہو یا تر ہو تو زمین پر خوب اچھی طرح رگڑ دینے سے موزہ یا جوتا پاک ہوجائے گا۔ یہ سمجھ لیجئے کہ اس مسئلے میں علماء کرام کا یہ اختلاف تن دار نجاست جیسے گوبر وغیرہ ہی کے بارے میں ہے کیونکہ غیر تن دار نجاست مثلاً پیشاب و شراب کے بارے میں سب کا متفقہ طور پر یہ مسلک ہے کہ اسے دھونا ہی واجب ہے۔

【205】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت ام سلمہ (رض) راوی ہیں کہ ان سے ایک عورت نے کہا کہ میرا دامن لمبا ہے اور میں ناپاک جگہ پر چلتی ہوں (یہ خیال ہے کہ دامن کو ناپاکی لگ جاتی ہے) حضرت ام سلمہ (رض) نے کہا کہ سرکار دو عالم ﷺ نے (اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں) فرمایا تھا کہ اس کو وہ چیز پاک کرتی ہے جو اس کے بعد ہے (یعنی پاک زمین یا مٹی) ۔ (مسند احمد بن حنبل، مالک، جامع ترمذی، ابوداؤد اور درامی نے کہا ہے کہ (سوال کرنے والی) عورت ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کی ام ولد تھی (جس کا نام حمیدہ تھا) تشریح سوال کرنے والی کا مطلب یہ تھا کہ میرا دامن بہت لمبا ہے جب میں چلتی ہوں تو وہ زمین پر لگتا ہوا چلتا ہے اور جب میں نا پاک جگہ سے گزرتی ہوں تو خیال ہوتا ہے کہ شاید دامن پر نجاست و گندگی لگ گئی ہوگی اس لئے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس کے جواب میں حضرت ام سلمہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ناپاک جگہ سے گزرتے ہوئے جب دامن میں نجاست لگ جاتی ہے تو بعد میں پاک صاف جگہ چلنے سے وہ نجاست زمین پر لگ کر جھڑ جاتی ہے اور کپڑا پاک ہوجاتا ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ حکم خشک نجاست کے بارے میں ہے کہ اگر خشک نجاست کپڑے کو لگ جائے تو پھر پاک و صاف زمین پر چلنے سے وہ زمین پر لگ کر جھڑ جاتی ہے جس سے کپڑا پاک ہوجاتا ہے۔ اس حکم کو خشک نجاست کے بارے میں خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ علماء کرام کا اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ اگر کپڑا ناپاک ہوجائے تو وہ بغیر دھوئے پاک نہیں ہوتا، بخلاف جوتے کے (تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ جوتا اگر نجاست کے لگ جانے سے ناپاک ہوجائے تو اس کو پاک و صاف زمین پر رگڑ کر پاک کیا جاسکتا ہے خواہ وہ نجاست تر ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ ابھی اس سے پہلے حدیث کی تشریح میں حضرت امام شافعی اور حضرت امام ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک بیان کیا جا چکا ہے (وا اللہ اعلم)

【206】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

حضرت مقدام بن معد یکرب (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے درندوں کی کھالوں کے پہننے اور ان پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ درندوں مثلا شیر اور چیتے وغیرہ کی کھال کا لباس بنا کر انہیں پہنا نہ جائے، اسی طرح ان پر سوار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ درندوں کی کھال کو بچھا کر اس پر بیٹھنا یا گھوڑے کی زین پر ڈال کر اس پر سوار ہونا مناسب نہیں ہے اس طرح ان کے استعمال سے منع اس لئے فرمایا گیا ہے کہ متکبر لوگوں اور خالص دنیا داروں کی عادت ہے لہٰذا نیک لوگوں کو ان سے اجتناب کرنا چاہئے اس شکل میں کہا جائے گا کہ یہ نہی تنزیہی ہے لیکن جن حضرات کے ہاں مردار کے بال نجس ہوتے ہیں اور وہ دباغت سے بھی پاک نہیں ہوتے ان کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔

【207】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت ابوالملیح بن اسامہ (رح) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عام ﷺ نے درندوں کی کھال کو استعمال کرنے سے منع فرمایا (احمد، ابوداؤد و نسائی) اور امام ترمذی (رح) اور دارمی (رح) نے اس روایت میں یہ الفاظ زیادہ نقل کئے ہیں کہ آپ ﷺ اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ درندوں کی کھالوں کا فرش بنایا جائے)

【208】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت ابوالملیح کے بارے میں منقول ہے کہ وہ درندوں کی کھالوں کی قیمت کو (بھی) مکروہ سمجھتے تھے۔ (جامع ترمذی ) تشریح اس کا مطلب یہ ہے کہ درندوں کی کھال کو خریدنا اور بیچنا بھی مناسب نہیں ہے چناچہ ابن مالک (رح) کا یہی قول ہے اور یہ مسلک ابوالملیح (رح) کا بھی ہے فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہوا ہے کہ درندوں کے چمڑے کو دباغت دیئے جانے سے پہلے بیچنا باطل ہے مشکوٰۃ کے اصل نسخے میں لفظ راوہ کے بعد جگہ خالی تھی عبارت مذکورہ بعد میں بڑھائی گئی ہے۔

【209】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عکیم ( حضرت عبداللہ بن عکیم جہنی نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ تو پایا ہے لیکن یہ تحقیق سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شرف ملاقات حاصل کیا یا نہیں۔ ( راوی ہیں کہ ہمارے (قبیلے جہینہ کے پاس سرکار دو عالم ﷺ کا (جو) مکتوب گرامی آیا (اس میں یہ لکھا تھا) کہ تم مردار کے چمڑے اور اس کے پٹھے سے نفع نہ اٹھاؤ۔ ( جامع ترمذی، سنن ابوداؤد سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح اس حکم کا تعلق اس چمڑے اور پٹھے سے ہے جو دباغت نہ دیا گیا ہے یعنی دباغت سے پہلے چمڑے اور پٹھے کو استعمال میں لانا جائز نہیں ہے بلکہ چمڑے اور پٹھے کو دباغت دینے کے بعد استعمال کرنا اور ان سے منفعت حاصل کرنا جائز ہے۔ اکثر احادیث سے یہی ثابت ہے اور اکثر علماء کا مسلک بھی یہی ہے۔

【210】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ مردار کے چمڑے سے دباغت کے بعد فائدہ اٹھایا جائے۔ ( مالک، سنن ابوداؤد) تشریح اس سے پہلے اسی باب کی حدیث نمبر ٩ کے فائدے میں بتایا جا چکا ہے کہ دباغت کے بعد مردار کے چمڑے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے یعنی اس کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے اور اس کی خریدو فروخت بھی کی جاسکتی ہے البتہ اس مسئلے میں امام مالک (رح) کی دو روایتیں ہیں مگر ان کا ظاہری قول یہ ہے کہ مردار کا چمڑا دباغت کے بعد پاک ہو تو جاتا ہے لیکن اسے خشک چیز میں اور پانی میں رکھنے کے لئے استعمال کا جاسکتا ہے پانی کے علاوہ دوسری پتلی اور سیال چیزوں کے لئے اسے استعمال نہ کیا جائے۔

【211】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت میمونہ (رض) راوی ہیں کہ قریش کے چند آدمی اپنی ایک مری ہوئی بکری کو گدھے کی طرح کھینچتے ہوئے سرکار دو عالم ﷺ کے پاس سے گزرے، آپ ﷺ نے (یہ دیکھ کر) ان سے فرمایا کہ اے کاش ! تم اس کے چمڑے کو اتار لیتے ! (تو یہ کام آجاتا) انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو مردار ہے (یعنی ذبح کی ہوئی نہیں ہے) آپ ﷺ نے فرمایا اسے کیکر کے پتے اور پانی پاک کردیتے ہیں (یعنی ان دونوں چیزوں کے ذریعے دباغت سے چمڑا پاک ہوجاتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد) تشریح دباغت دینے کے کئی طریقے ہیں لیکن کیکر کے پتوں اور پانی سے دباغت کے بعد چمڑا خوب اچھی طرح پاک ہوجاتا ہے اس لئے آپ ﷺ نے بطور خاص ان دو چیزوں کا ذکر فرمایا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ چمڑے کی دباغت و طہارت ان ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ دوسرے طریقوں مثلاً دھوپ وغیرہ سے دباغت و طہارت ہوجاتی ہے۔ البتہ یہ کہا جائے گا کہ اس حدیث کے پیش نظر کیکر کے پتوں اور پانی سے چمڑے کو دباغت دینا مستحب ہے۔

【212】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

حضرت سلمہ بن محبق (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ تبوک کی جنگ کے موقعہ پر ایک آدمی کے گھر تشریف لائے تو اچانک آپ ﷺ کی نظر ایک لٹکی ہوئی مشک پر پڑی آپ ﷺ نے پانی مانگا تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ تو ( دباغت دی ہوئی) مردار کی کھال) ہے آپ ﷺ نے فرمایا دباغت نے اسے پاک کردیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد)

【213】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

بنو عبدالاشہل کی ایک عورت کا بیان ہے کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ سے عرض کیا کہ رسول اللہ ! مسجد میں آنے کا ہمار جو راستہ ہے وہ گندہ ہے جب بارش ہوجائے تو ہم کیا کریں ؟ وہ کہتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کیا اس راستے کے بعد کوئی پاک صاف راستہ نہیں آتا ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا یہ پاک راستہ اس ناپاک راستہ کے بدلے میں ہے۔ (ابوداؤد) تشریح اسی باب کی حدیث نمبر ١٣ میں اس مسئلہ کی وضاحت کی جا چکی ہے، یہاں بھی اس ارشاد کا یہ مطلب ہے کہ گندے اور ناپاک راستہ سے جو گندگی لگتی ہے وہ پاک و صاف راستہ پر چلنے کے بعد زمین کی رگڑ سے صاف و پاک ہوجاتی ہے، نیز یہاں بھی یہ ملحوظ رہے کہ آپ ﷺ کے اس ارشاد کا تعلق تن دار نجاست سے ہے کہ اگر گوبر وغیرہ قسم کی کوئی نجاست جوتے اور موزوں پر لگ جائے تو وہ اس طریقے سے صاف ہوجاتی ہے کیونکہ اگر پیشاب وغیرہ قسم کی نجاست جوتے موزے کپڑے یا بدن کے کسی حصے پر لگے تو اس کو ہر حال میں دھو کر ہی پاک کیا جائے گا اسی طرح موزے اور جوتے کے علاوہ اگر کپڑے پر تن دار نجاست لگے گی تو بغیر دھوئے کپڑا پاک نہیں ہوگا۔

【214】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ہم سرکار دو عالم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور زمین پر چلنے (کی وجہ سے وضو نہ کرتے تھے۔ ( جامع ترمذی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ ہم نماز پڑھنے کے لئے اپنے اپنے مکان سے وضو کر کے چلتے تھے اور مسجد آتے ہوئے ننگے پاؤں چلنے کی وجہ سے پاؤں پر یا جوتے اور موزوں پر جو نجاست و گندگی لگ جایا کرتی تھی اسے دھویا کرتے تھے۔ اس ارشاد کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ اس کا تعلق خشک نجاست سے ہے، کہ اگر خشک گندگی مثلاً سوکھا گوبر وغیرہ پیروں پر جوتے و موزے پر لگ جاتا تو اس کو دھونے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کیونکہ صاف زمین پر چلنے کی وجہ سے وہ پاک ہوجایا کرتا تھا اس سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی یہ مراد ہے کہ راستہ چلتے وقت جو گرد و غبار پاؤں کو لگ جایا کرتی تھی اسے دھوتے تھے۔ تر نجاست مثلاً ًپیشاب وغیرہ کے بارے میں یہ پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ اگر اس قسم کی کوئی نجاست و گندگی پاؤں وغیرہ پر لگ جائے تو تمام علماء کے نزدیک یہ متفق علیہ مسلم مسئلہ ہے کہ اسے دھویا جائے۔

【215】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں کتے آتے تھے اور صحابہ کرام (رض) ان کے آنے جانے کی وجہ سے کچھ بھی نہ دھوتے تھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح شروع زمانہ اسلام میں دروازے نہیں ہوتے تھے جس کی وجہ سے مسجد کے اندر کتوں کی آمدورفت رہتی تھی اور چونکہ ان کے پاؤں خشک ہوتے تھے اس لئے کسی چیز کو دھونے کی ضرورت نہ ہوتی تھی جب مسجد میں دروازے لگنے لگے تو اس کی احتیاط ہونے لگی۔

【216】

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

اور حضرت براء (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ فرماتے تھے کہ جس چیز کا گوشت کھایا جائے اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں۔ اور حضرت جابر (رض) کی روایت اس طرح ہے کہ جس جانور کا گوشت کھا یا جائے اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں ہے۔ (مسند احمد بن حنبل و دارقطنی) تشریح اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے حضرت امام مالک، حضرت امام احمد، حضرت امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اور بعض شوافع حضرات نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ جن جانوروں کے گوشت کھائے جاتے ہیں ان کا پیشاب پاک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام ابویوسف اور تمام علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وہ نجس ہے، یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے مقابلے میں ایک حدیث عام وارد ہے کہ الحدیث ( اِسْتَنْزِ ھُوْا مِنَ الْبَوْلِ فَاِنَّ عَامَّۃَ عَذَابِ الْقَبْرِمِنْہُ ) یعنی پیشاب سے پاکی حاصل کرو اس لئے کہ عذاب قبر اکثر اسی سے ہوتا ہے) لہٰذا اس حدیث کی عمومیت کے پیش نظر ناپاک و نجس ثابت ہوا اس لئے اس احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ جن جانوروں کے گوشت کھائے جاتے ہیں ان کے پیشاب کو بھی ناپاک کہا جائے۔

【217】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

موزوں پر مسح کرنے کا جواز سنت اور آثار مشہورہ سے ثابت ہے بلکہ حفاظ حدیث کی ایک جماعت نے اس کی تصریح کی ہے کہ موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں منقول حدیث متواتر ہے اور بعض محدثین نے اس حدیث کے راوی صحابہ کرام (رض) کی تعداد بھی نقل کی ہے چناچہ اسی سے زیادہ صحابہ صحابہ کرام (رض) اس حدیث کو روایت کرتے ہیں جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیںَ علامہ ابن عبدالبر (رح) فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ علمائے سلف میں سے کسی نے اس سے انکار کیا ہو اور حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے ستر ٧٠ صحابہ کرام کو اس مسئلہ پر اعتقاد رکھتے ہوئے پایا ہے حضرت امام کرخی (رح) کا قول ہے کہ جو آدمی موزوں پر مسح کرنے کو قبول نہ کرے یعنی اسے جائز نہ سمجھے مجھے اس کے کافر ہوجانے کا خوف ہے کیونکہ اس کے جواز میں جو احادیث منقول ہیں وہ حد تو اتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا ارشاد ہے کہ میں موزوں پر مسح کرنے کا قائل اس وقت تک نہیں ہوا جب تک کہ اس کے جواز پر مشتمل احادیث آفتاب کی روشنی کی طرح مجھے نہ پہنچ گئیں۔ ان اقوال اور ارشادات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ موزوں پر مسح کرنا جائز ہے، اس کے جواز میں کوئی شبہ کوئی شک اور کوئی کلام نہیں ہے۔ اب اس کے بعد یہ سمجھ لیجئے کہ موزوں پر مسح کرنا رخصت شریعت اسلامی کے مسائل و جزئیات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کتنی آسانیاں اور سہولتیں پیدا کی ہیں یہ حقیقت ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی یہ بےپناہ شفقت و محبت ہی ہے جس نے عالمگیر اور سب سے سچے مذہب کو انسان کی عین فطرت و مزاج بنادیا ہے قدم قدم پر ایسے مسائل سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جس میں اسلام اور شارع اسلام نے امت کو بہت زیادہ آسانیاں دی ہیں جن کے بغیر یقینا مسلمان مشکلات اور تکالیف میں مبتلا ہوجاتے کیونکہ سخت موقعوں پر مثلاً سردی کے موسم میں وضو کرنے کے وقت سب سے زیادہ تکلیف پاؤں کو دھونے ہی میں ہوتی ہے لیکن شریعت نے اس سختی اور تکلیف کے پیش نظر موزوں پر مسح کو جائز قرار دے کر امت پر ایک عظیم احسان کیا ہے) ۔ یعنی آسانی ہے اور پاؤں کو دھونا عزیمت یعنی اولیٰ ہے ہدایہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی موزوں پر مسح کرنے پر اعتقاد نہ رکھے وہ بدعتی ہے لیکن جو آدمی اس مسئلہ پر اعتقاد رکھتا ہے مگر عزیمت یعنی اولیٰ ہونے پر عمل کرنے کی وجہ سے موزوں پر مسح نہیں کرتا تو اسے ثواب سے نوازا جاتا ہے۔ مواہب لدنیہ میں منقول ہے کہ علماء کرام کے ہاں اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا موزوں پر مسح کرنا افضل ہے یا اسے اتار کر پاؤں کو دھونا افضل ہے ؟ چناچہ بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنا ہی افضل ہے کیونکہ اس سے اہل بدعت یعنی روافض و خوارج کا رد ہوتا ہے جو اس مسئلہ میں طعن وتشنیع کرتے ہیں، حضرت امام احمد (رح) کا مختار مسلک یہی ہے اور امام نووی (رح) نے کہا ہے کہ ہمارے علماء کرام یعنی حضرات شوافع کا مسلک یہ ہے کہ پاؤں کو دھونا افضل ہے کیونکہ اصل یہی ہے لیکن اس کے ساتھ شرط یہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنے کو بالکل ترک نہ کیا جائے۔ صاحب سفر السعادۃ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو دونوں میں کوئی تکلف نہیں تھا، یعنی اگر آپ ﷺ موزہ پہنے ہوتے تھے تو پاؤں دھونے کے لئے انہیں اتارتے نہیں تھے اور اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تھے تو مسح کرنے کے لئے انہیں پہنتے نہ تھے، اس بارے میں علماء کرام کے ہاں اختلاف ہے مگر بہتر اور صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ میں سنت کے موافق ہی عمل کرے یعنی سرکار دو عالم ﷺ کا جو تعامل ذکر کیا گیا ہے اسی طرح تمام مسلمان بےتکلفی کے ساتھ اس پر عمل کریں۔

【218】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

حضرت شریح بن ہانی (رض) راوی ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ سرکار دو عالم ﷺ نے مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لئے اک دن اور ایک رات کی مدت مقرر فرمائی ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح مسافر کے لئے موزوں پر مسح کرنے کی مدت تین دن تین راتیں ہے یعنی وہ تین دن اور تین راتوں تک وضو کے وقت اپنے موزوں پر مسح کرسکتا ہے اور مقیم کے لئے مسح کی مدت ایک دن اور ایک رات ہے یعنی وہ ایک دن اور ایک رات تک وضو کے وقت اپنے موزوں پر مسح کرسکتا ہے اور مقیم کے لئے مسح کی مدت کی ابتداء جمہور علماء کے نزدیک اس وقت ہوگی جب کے وضو ٹوٹ جائے مثلاً ایک مقیم آدمی نے دوپہر کو وضو کرنے کے بعد موزہ پہنا اور شام کو اس کا وضو ٹوٹ گیا تو مسح کی مدت کی ابتداء شام ہی سے ہوگی یعنی وہ اگلے دن شام تک اپنے موزوں پر مسح کرسکتا ہے۔

【219】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک میں شرکت کی چناچہ وہ فرماتے ہیں کہ (اسی دوران ایک روز) فجر سے پہلے سرکار دو عالم ﷺ پاخانے کے لئے باہر تشریف لے گئے ہیں میں پانی کا لوٹا لے کر آپ ﷺ کے ہمراہ ہو لیا جب آپ ﷺ (پاخانے سے) واپس تشریف لائے (اور وضو کرنے کے لئے بیٹھے) تو میں نے آپ ﷺ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنا شروع کیا چناچہ آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور منہ دھویا آپ ﷺ ایک اونی جبہ پہنے ہوئے تھے اس کی آستینیں چڑھانی چاہیں لیکن آستینیں تنگ تھیں (اس لئے چڑھ نہ سکیں) آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جبے کے اندر سے نکال کر جبے کو کندھوں پر رکھا اور کہنیوں تک دھو کر چوتھائی سر کا اور پگڑی کا مسح کیا پھر (جب) میں نے آپ ﷺ کے موزے اتارنے کا ارادہ کیا تاکہ آپ ﷺ پاؤں دھولیں (تو) آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو کیونکہ میں نے (پاؤں کی) پاکی کی حالت میں انہیں پہنا تھا (یعنی وضو کرنے کے بعد پہنا تھا) اور آپ ﷺ نے دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر آپ ﷺ اور میں دونوں سوار ہو کر واپس لوگوں کے پاس آئے تو (فجر کی) نماز کے لئے جماعت کھڑی ہوگئی تھی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نماز پڑھا رہے تھے اور ایک رکعت پڑھا بھی چکے تھے جب انہیں رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کا احساس ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے (تاکہ رسول اللہ ﷺ امامت کریں) مگر رسول اللہ ﷺ نے انہیں اشارہ کیا ( کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور نماز پڑھائے جاؤ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت نماز ان کے ساتھ ہی پڑھی (یعنی آپ ﷺ نے دوسری رکعت حضرت عبدا لرحمن کی اقتداء میں ادا کی) جب انہوں نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ کھڑے ہوگئے اور میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور جو پہلی رکعت رہ گئی تھی ہم نے اسے پڑھ لیا۔ (صحیح مسلم) تشریح راوی نے رسول اللہ ﷺ کے وضو کا ذکر کیا ہے مگر کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو راوی کے پیش نظر اختصار تھا اس لئے انہوں نے ان دونوں چیزوں کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھایا یہ کہ راوی اس کا ذکر کرنے کو بھول گئے ہوں گے، یا پھر اس لئے ذکر نہیں کیا کہ یہ دونوں چیزیں بھی منہ کی حد میں آجاتی ہیں اس لئے صرف منہ دھونے کا ذکر کافی سمجھا۔ پگڑی پر مسح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے چوتھائی سر پر مسح کرنے کے بعد تمام سر پر مسح کرنے کے بجائے پگڑی پر مسح کرلیا تاکہ تمام سر پر مسح کرنے کی سنت ادا ہوجائے اس کی وضاحت باب الوضو میں بھی کی جا چکی ہے (دیکھے باب سنن الوضو کی حدیث نمبر ٨) بہر حال اس حدیث سے پانچ چیزیں ثابت ہوتی ہیں (١) رسول اللہ ﷺ فجر سے پہلے قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے اس سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت مثلاً نماز وغیرہ کا وقت شروع ہونے سے پہلے اس عبادت کے لئے تیاری کرنا مستحب ہے۔ (٢) حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے وضو کے وقت آپ ﷺ کے اعضائے وضو پر پانی ڈالا اس سے معلوم ہوا کہ اگر دوسرا آدمی وضو کرائے تو جائز ہے۔ (٣) جب آپ ﷺ قضائے حاجت اور وضو سے فارغ ہو کر تشریف لائے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب انہوں نے بتقاضائے ادب پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ رسول اللہ امامت فرمائیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں روک دیا اور خود بھی آخری رکعت انہیں کی اقتداء میں پڑھی اس سے معلوم ہوا کہ ایک افضل آدمی نماز میں اگر اپنے سے کم درجہ آدمی کی اقتداء کرے تو یہ جائز ہے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کے لئے امام کا معصوم (بےگناہ) ہونا شرط نہیں ہے۔ اس سے اس فرقہ امامیہ کا رد ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے۔ (٤) حدیث کے آخری الفاظ سے یہ ثابت ہوا کہ جس آدمی کی کوئی رکعت امام کے ساتھ پڑھنے سے چھوٹ جائے تو اس کی ادائیگی کے لئے اسے اس وقت اٹھنا چاہئے جب کہ امام سلام پھیر لے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک تو چھوٹی ہوئی رکعت کو ادا کرنے کے لئے امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا جائز ہی نہیں اور علمائے حنفیہ کے نزدیک سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا مکر وہ تحریمی ہے۔ مگر اس صورت میں جب کہ یہ خوف ہو کہ اگر امام کے سلام کا انتظار کیا جائے گا تو نماز فاسد ہوجائے گی تو پہلے بھی اٹھنا جائز ہے مثلا فجر کی نماز میں امام ایک رکعت پہلے پڑھا چکا تھا ایک آدمی دوسری رکعت میں آکر شامل ہوا اب اسے ایک رکعت بعد میں ادا کرنی ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ اگر وہ امام کے سلام پھیرنے کا انتظار کرتا ہے تو اسے خوف ہے کہ سورج طلوع ہوجائے گا جس کے نتیجہ میں نماز فاسد ہوجائے گی لہٰذا اس کے لئے جائز یہ ہوگا کہ وہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھ جائے اور نماز پوری کرلے اس مسئلہ کی وضاحت فقہ کی کتابوں میں خوب اچھی طرح کی گئی ہے اس کی تفصیل وہاں دیکھی جاسکتی ہے۔ (٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت کے وقت اگر امام موجود نہ ہو اور اس کے آنے میں دیر ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب آئے گا تو یہ مستحب ہے کہ امام کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ کوئی دوسرا آدمی نماز پڑھانی شروع کر دے اور اگر امام کے آنے کا وقت معلوم ہو تو اس صورت میں اس کا انتظار کرنا مستحب ہے اور اگر امام کا مکان قریب مسجد ہو تو اسے جماعت کا وقت ہوجانے پر مطلع کرنا مستحب ہے۔

【220】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

حضرت ابی بکرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے موزوں پر مسح کرنے کی اجازت مسافر کو تین دن اور تین راتوں تک اور مقیم کو ایک دن اور ایک رات تک دی ہے جب کہ انہوں نے موزوں کو وضو کے بعد پہنا ہو۔ (ابن خزیمہ دارقطنی) اور خطابی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اسناد کی رو سے صحیح ہے منتقیٰ میں (بھی جو ابن تیمیہ حنبلی کی کتاب ہے) اسی طرح منقول ہے) ۔

【221】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

اور حضرت صفوان بن عسال (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم سفر میں ہوتے تھے تو سرکار دو عالم ﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ تین دن اور تین راتوں تک (وضو کرنے کے وقت پاؤں کو (دھونے کے لئے) موزے نہ اتارے جائیں، نہ پاخانے کی وجہ سے نہ پیشاب کی وجہ سے نہ سونے کی وجہ سے البتہ جنابت کی وجہ سے (یعنی غسل واجب ہونے کی صورت میں نہانے کے لئے اتارے جائیں۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ سو کر اٹھنے یا پیشاب و پاخانے کے بعد وضو کرنے کی صورت میں اس مدت تک جو مسافر یا مقیم کے لئے ہے پاؤں کو دھونے کے لئے موزوں کو اتارنا نہیں چاہئے بلکہ موزوں پر مسح کرلیا جائے اور جنابت کی حالت میں یعنی جب غسل واجب ہوجائے تو نہانے کے لئے موزے اتارنے ضروری ہیں کیونکہ اس حالت میں موزوں پر مسح درست نہیں ہے۔

【222】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ (رض) راوی ہیں کہ میں نے غزوہ تبوک میں سرکار دو عالم ﷺ کو وضو کرایا تھا اور آپ ﷺ نے موزوں کے نیچے اور اوپر مسح کرلیا۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور حضرت امام ترمذی (رح) نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث معلول ہے، نیز میں نے اس حدیث کے بارے میں ابوزرعہ اور محمد یعنی محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو دونوں نے کہا یہ حدیث صحیح نہیں ہے اسی طرح امام ابوداؤد (رح) نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے) تشریح حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک پشت قدم یعنی موزے کے اوپر مسح کرنا واجب ہے اور موزے کے نیچے یعنی تلوے پر مسح کرنا سنت ہے لیکن حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہ ہے کہ مسح فقط پشت قدم یعنی موزے کے اوپر کیا جائے یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جس سے موزے کے دونوں طرف مسح کرنے کا اثبات ہو رہا ہے خود معیار صحت کو پہنچی ہوئی نہیں ہے کیونکہ علماء کرام نے اس کی صحت بارے کلام کیا ہے۔ نیز ایسی احادیث بہت زیادہ منقول ہیں جو اس حدیث کے بالکل برعکس ہیں اور جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسح فقط پشت پر کیا جائے لہٰذا عمل اس ہی حدیث پر کیا جائے گا۔ محدثین کی اصطلاح میں حدیث معلول اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں ایسا سبب پوشیدہ ہو جو اس بات کا مقتضی ہو کہ اس حدیث کے مطابق عمل نہ کیا جائے۔ اس حدیث کے ضعیف ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ حضرت مغیرہ (رض) تک اس حدیث کی سند کا پہنچنا ثابت نہیں ہے بلکہ اس کی سند بولاو تک جو مغیرہ کے مولیٰ اور کاتب تھے پہنچتی ہے، دوسری وجہ ہے کہ اس حدیث کو ثور ابن یزید نے رجاء ابن حیوۃ سے روایت کیا ہے اور رجاء ابن حیوۃ نے حضرت مغیرہ (رض) کے کاتب سے روایت کیا ہے حالانکہ رجاء سے ثور کا سماع ثابت نہیں ہے پھر ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مضمون جو (حدیث نمبر ٢) حضرت مغیرہ (رض) سے مختلف سندوں کے ساتھ منقول ہے اور جو معیار صحت کو پہنچی ہوئی ہے اس میں مطلقاً اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے موزوں پر مسح کیا تھا، اوپر نیچے مسح کرنے کی کوئی وضاحت منقول نہیں ہے پھر حضرت مغیرہ (رض) کی ایک اور روایت اس کے بعد آرہی ہے اس میں صراحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ آپ ﷺ نے موزوں کے اوپر مسح کیا۔ لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے اور یہ وہ اسباب ہیں کہ جس کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا جاتا ہے۔

【223】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ (رض) راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو موزوں کے اوپر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (جامع ترمذی و سنن ابوداؤد) تشریح موزے پر مسح کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیاں دائیں پاؤں کے پنجے پر بائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں کے پنجے پر رکھی جائیں پھر ان کو کھینچتے ہوئے ٹخنوں کے اوپر تک لایا جائے اس سلسلے میں اس کا خیال رہے کہ انگلیاں کشادہ رکھی جائیں آپس میں ملی ہوئی نہ ہوں۔ موزوں پر مسح کرنے کا مسنون طریقہ تو یہی ہے اور اگر کسی نے انگلی سے تین مرتبہ اس طرح مسح کیا کہ ہر مر تبہ تازہ پانی لیتا رہا اور ہر مرتبہ نئی جگہ پھیرتا رہا تو مسح جائز ہوگا ورنہ نہیں ان کے علاوہ بہت سے طریقے فقہ کی کتابوں میں لکھے ہوئی ہیں تفصیل وہاں دیکھی جاسکتی ہے۔

【224】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے وضو کیا اور نعلین کے ساتھ جو ربین پر مسح کیا۔ (مسند احمد بن حنبل و جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح قاموس میں لکھا ہے کہ جو رب پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں جیسے ہمارے ہاں جراب یا موزہ کہلاتا ہے اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اس کی تفصیل چلپی میں بڑی وضاحت سے مذکور ہے یہاں اس کے بعض احکام و مسائل لکھے جاتے ہیں۔ حنفی مسلک میں جو ربین یعنی موزوں پر مسح اس وقت درست ہوگا جب کہ وہ مجلد ہوں یعنی ان کے اوپر نیچے چمڑا لگا ہوا ہو، منعل ہوں یعنی فقط نیچے ہی چمڑا ہو اور مثخنین ہوں۔ ثخنین اس موزے کو کہتے ہیں جس کو پہن کر ایک فرسخ چلا جاسکے اور وہ بغیر باندھے ہوئے پنڈلی پر رکا رہے نیز اس کے اندر کا کوئی حصہ نہ دکھلائی دے اور نہ اس کے اندر پانی چھن سکتا ہو چلپی کی عبارت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر جو ربین منعلین بغیر ثخنین ہوں گے تو اس پر مسح جائز نہیں ہوگا لہٰذا منعلین پر مسح اسی وقت درست ہوگا جب کہ ثخنین بھی ہوں۔ چونکہ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک جو رب پر مسح درست نہیں خواہ وہ منحل ہی کیوں نہ ہو اس لئے یہ حدیث حنفیہ کی جانب سے ان پر حجت ہے جس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو رب پر مسح فرمایا ہے نیز حضرت علی المرتضیٰ ، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت انس ابن مالک اور حضرت عمر بن خطاب (رض) کے بارے میں بھی منقول ہے کہ ان حضرات نے اس پر مسح کیا ہے۔ آخر حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ نے نعلین کے ساتھ جو ربین پر مسح کیا تو یہاں نعلین کے مفہوم کے تعین میں دو احتمال ہیں اول تو یہ کہ اس سے جوتے مراد ہیں آپ ﷺ نے جو ربین پر جوتوں کے ساتھ مسح کیا چونکہ عرب میں اس وقت ایسے جوتے استعمال ہوتے تھے جو بالکل چپل کی طرح ہوتے تھے اور ان پر اس طرح تسمہ لگا رہتا تھا کہ انہیں پہننے کے بعد پاؤں کے اوپر کا حصہ کھلا رہتا تھا جس کی وجہ سے موزوں پر مسح کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ یا پھر اس سے یہ مراد ہے کہ آپ ﷺ نے ان جو ربین پر مسح کیا جن کے نیچے چمڑا لگا ہوا تھا

【225】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

حضرت مغیرہ ابن شعبہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے موزوں پر مسح کیا (یہ دیکھ کر) میں نے عرض کیا آپ ﷺ بھول گئے ہیں (یعنی موزے اتار کر پاؤں نہیں دھوئے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں ! بلکہ تم بھول گئے) کہ میری طرف نسیان کی نسبت کر رہے ہو کیونکہ اللہ بزرگ و برتر نے مجھے اسی طرح حکم دیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد)

【226】

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر دین (صرف) رائے اور عقل ہی پر موقوف ہوتا تو واقعی موزوں کے اوپر مسح کرنے سے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اور میں نے خود سرکار دو عالم ﷺ کو موزوں کے اوپر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (ابوداؤد و دارمی) تشریح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ناپاکی اور گندگی چونکہ موزوں کے نیچے کی جانب لگ سکتی ہے اس لئے عقل یہی تقاضا کرتی ہے کہ جس طرف ناپاکی اور گندگی لگنے کا شبہ ہو اسی طرف پاکی اور ستھرائی کے لئے مسح بھی کرنا چاہئے مگر چونکہ شرع میں صراحتہ یہ آگیا ہے کہ مسح اوپر کی جانب کرنا چاہئے اس لئے اب عقل کو دخل دینے کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کے مسائل و احکام میں عقل کو دخل نہیں دینا چاہئے کیونکہ عقل کامل شریعت کے تابع ہوتی ہے اس لئے کہ اللہ کی حکمتوں اور اس کے مراد و مفہوم معلوم کرنے میں عقل مطلقاً عاجز ہوتی ہے لہٰذا عاقل کو چاہئے کہ وہ پہر نوع شریعت کا تابع و پابند بن کر رہے عقل کا تابع نہ بنے اس لئے کہ کفار اور اکثر فلاسفہ و حکماء اور اہل ہوا و ہوس اپنی عقلوں پر بھروسہ و پندار کرنے کے سبب اور عقلوں کے تابع ہونے ہی کی وجہ سے گمراہی و ضلالت کے غار میں گرے ہیں۔ چونکہ اس باب کی یہ آخری حدیث ہے اس لئے مناسب ہے کہ اس کے ضمن میں مسح سے متعلق چند مسائل ذکر کئے جائیں۔ (١) اگر موزہ کسی جگہ سے پاؤں کی تین چھوٹی انگلیوں کے برابر پھٹ جائے تو اس پر مسح درست نہیں ہوتا، اس طرح اگر ایک موزہ تھوڑا تھوڑا کر کے کئی جگہ سے اتنی مقدار میں پھٹ جائے کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو وہ تین اگلیوں کے برابر ہو تو اس پر بھی مسح درست نہیں ہوتا اور اگر دونوں موزے تھوڑے تھوڑے اتنی مقدار میں پھٹے ہوں کہ اگر انہیں جمع کیا جائے تو وہ تین انگلیوں کے برابر ہو تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ ان پر مسح درست ہوگا۔ (٢) جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے ان سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ (٣) حدث کے بعد موزہ اتارنے سے مسح ٹوٹ جاتا ہے۔ (٤) مسح کی مدت ختم ہوجانے کے بعد مسح ٹوٹ جاتا ہے بشرطیکہ سردی کی وجہ سے پاؤں کے ضائع ہونے کا خوف نہ ہو، یعنی اگر سردی کی شدت اور کسی بیماری کی وجہ سے یہ خوف ہو کہ موزہ اتارنے سے پاؤں ضائع ہوجائے گا تو مسح کی مدت ختم ہونے کے بعد مسح نہیں ٹوٹے گا جب تک خوف باقی رہے گا مسح بھی باقی رہے گا۔ (٥) اگر موزہ اتارنے یا مدت ختم ہونے کی وجہ سے مسح ٹوٹ جائے اور وضو باقی ہو تو ایسی شکل میں از سر نو وضو کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف پاؤں دھو کر موزہ پہن لینا کافی ہوگا۔ (٦) اگر آدھے سے زیادہ پاؤں موزے سے باہر نکل آئے تو بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے۔ (٧) اگر مقیم نے مسح کیا اور ایک رات اور ایک دن گزرنے سے پہلے مسافر ہوگیا وہ مسح کے لئے سفر کی مدت پوری کرے یعنی تین دن اور تین رات تک مسح کرتا رہے، اسی طرح اگر مسافر نے مسح کیا اور پھر وہ مقیم ہوگیا تو اسے چاہئے کہ ایک دن ایک رات کے بعد موزہ اتار دے کیونکہ اس کی مدت پوری ہوگئی ہے۔ (٨) اگر کوئی معذور مثلاً ظہر کے وقت وضو کر کے موزہ پہنے تو جس عذر کی وجہ سے وہ معذور ہے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز سے اس کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کے لئے مسح کی مدت میں موزوں پر مسح کرنا جائز ہوگا اور پھر مسح کی مدت ختم ہوجانے کے بعد مسح ٹوٹ جائے گا۔