40. روزے کا بیان

【1】

صوم کے معنی :

لغت میں صوم اور صیام کے معنی ہیں امساک یعنی مطلقاً رکنا ! اصطلاح شریعت میں ان الفاظ کا مفہوم ہے فجر سے غروب آفتاب تک روزہ کی نیت کے ساتھ کھانے پینے، جماع کرنے اور بدن کے اس حصے میں وہ اندر کے حکم میں ہو کسی چیز کے داخل کرنے سے رکے رہنا نیز روزہ دار کا مسلمان اور حیض و نفاس سے پاک ہونا اس کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ہے۔

【2】

روزہ کب فرض ہوا؟

روزہ کب فرض ہواَ ؟ ماہ رمضان کے روزے ہجرت کے اٹھارہ ماہ بعد شعبان کے مہینے میں تحویل قبلہ کے دس روز بعد فرض کئے گئے بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس سے قبل کوئی روزہ فرض نہیں تھا جب کہ بعض حضرات کا قول ہے کہ اس سے قبل بھی کچھ ایام کے روزے فرض تھے جو اس ماہ رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد منسوخ ہوگئے۔ چناچہ بعض حضرات کے نزدیک تو عاشورہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ فرض تھا اور بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ ایام بیض (قمری مہینے کی تیرہویں، چودھویں اور پندرہویں راتوں کے دن) کے روزے فرض تھے۔ رمضان کے روزے کی فرضیت کے ابتدائی دنوں میں بعض احکام بہت سخت تھے مثلاً غروب آفتاب کے بعد سونے سے پہلے کھانے پینے کی اجازت تھی مگر سونے کے بعد کچھ بھی کھانے پینے کی اجازت نہیں تھی۔ چاہے کوئی شخص بغیر کھائے پئے ہی کیوں نہ سو گیا ہو، اسی طرح جماع کسی بھی وقت اور کسی بھی حالت میں جائز نہ تھا۔ مگر جب یہ احکام مسلمانوں پر بہت شاق گزرے اور ان احکام کی وجہ سے کئی واقعات بھی پیش آئے تو یہ احکام منسوخ کر دئیے گئے اور کوئی سختی باقی نہ رہی۔

【3】

روزے کی اہمیت وفضیلت :

روزے کی اہمیت و فضیلت اسلام کے جو پانچ بنیادی ارکان ہیں ان میں روزے کا تیسرا درجہ ہے گویا روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے اس اہم رکن کی جو تاکید اور بیش از بیش اہمیت ہے اسے ماہرین شریعت ہی بخوبی جان سکتے ہیں روزہ کا انکار کرنے والا کافر اور اس کا تارک فاسق اور اشد گنہگار ہوتا ہے چناچہ در مختار کے باب مایفسد الصوم میں یہ مسئلہ اور حکم نقل کیا گیا ہے کہ ولہ اکل عمداً اشہرۃ بلا عذر یقتل، جو شخص رمضان میں بلا عذ علی الاعلان کھاتا پیتا نظر آئے اسے قتل کردیا جائے۔ روزہ کی فضیلت کے بارے صرف اسی قدر کہہ دینا کافی ہے کہ بعض علماء نے اس اہم ترین اور باعظمت رکن کے بےانتہا فضائل دیکھ کر اس کو نماز جیسی عطیم الشان عبادت پر ترجیح اور فضیلت دی ہے اگرچہ یہ بعض ہی علماء کا قول ہے جب کہ اکثر علماء کا مسلک یہی ہے کہ نماز تمام اعمال سے افضل ہے اور اسے روزہ پر بھی ترجیح و فضیلت حاصل ہے مگر بتانا تو صرف یہ ہے کہ جب اس بات میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ نماز افضل ہے یا روزہ ؟ تو اب ظاہر ہے کہ نماز کے علاوہ اور کوئی بھی دوسرا عمل اور دوسرا رکن روزے کی ہمسری نہیں کرسکتا۔

【4】

روزے کے فوائد۔

روزہ کے فوائد کسی بھی عبادت اور کسی بھی عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل ہوجائے اور پروردگار کی رحمت کاملہ اس عمل اور عبادت کرنے والے کو دین اور دنیا دونوں جگہ اپنی آغوش میں چھپالے ظاہر ہے کہ اس اعتبار سے روزہ کا فائدہ بھی بڑا ہی عظیم الشان ہوگا مگر اس کے علاوہ روزے کے کچھ اور بھی روحانی اور دینی فوائد ہیں جو اپنی اہمیت و عظمت کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں لہٰذا ان میں سے کچھ فائدے بیان کئے جاتے ہیں۔ (١) روزہ کی وجہ سے خاطر جمعی اور قلبی سکون حاصل ہوتا ہے نفس امارہ کی تیزی و تندی جاتی رہتی ہے، اعضاء جسمانی اور بطور خاص وہ اعضاء جن کا نیکی اور بدی سے براہ راسات تعلق ہوتا ہے جیسے ہاتھ، آنکھ، زبان، کان اور ستر وغیرہ سست ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے گناہ کی خواہش کم ہوجاتی ہے اور معصیت کی طرف رجحان ہلکا پڑجاتا ہے۔ چناچہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جب نفس بھوکا ہوتا ہے تو تمام اعضاء سیر ہوتے ہیں یعنی انہیں اپنے کام کی رغبت نہیں ہوتی اور جب نفس سیر ہوتا ہے تو تمام اعضاء بھوکے ہوتے ہیں انہیں اپنے کام کی طرف رغبت ہوتی ہے اس قول کو وضاحت کے ساتھ یوں سمجھ لیجئے کہ جسم کے جتنے اعضاء ہیں قدرت نے انہیں اپنے مخصوص کاموں کے لئے پیدا کیا ہے مثلاً آنکھ کی تخلیق دیکھنے کے لئے ہوئی ہے گویا آنکھ کا کام دیکھنا ہے لہٰذا بھوک کی حالت میں کسی بھی چیز کو دیکھنے کی طرف راغب نہیں ہوتی ہاں جب پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے تو آنکھ اپنا کام بڑی رغبت کے ساتھ کرتی ہے اور ہر جائز و ناجائز چیز کو دیکھنے کی خواہش کرتی ہے اسی پر بقیہ اعضاء کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ (٢) روزہ کی وجہ سے دل کدورتوں سے پاک و صاف ہوجاتا ہے کیونکہ دل کی کدورت آنکھ، زبان اور دوسرے اعضاء کے فضول کاموں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یعنی زبان کا ضرورت و حاجت سے زیادہ کلام کرنا، آنکھوں کا بلا ضرورت دیکھنا، اسی طرح دوسرے اعضاء کا ضرورت سے زیادہ اپنے کام میں مشغول رہنا افسردگی دل اور رنجش قلب کا باعث ہے اور ظاہر ہے کہ روزہ دار فضول گوئی اور فضول کاموں سے بچا رہتا ہے بدیں وجہ اس کا دل صاف اور مطمئن رہتا ہے اس طرح پاکیزگی دل اور اطمینان قلب اچھے و نیک کاموں کی طرف میلان ورغبت اور درجات عالیہ کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ (٣) روزہ مساکین و غرباء کے ساتھ حسن سلوک اور ترحم کا سبب ہوتا ہے کیونکہ جو شخص کسی وقت بھوک کا غم جھیل چکا ہوتا ہے اسے اکثر و بیشتر وہ کر بناک حالت یاد آتی ہے چناچہ وہ جب کسی شخص کو بھوکا دیکھتا ہے تو اسے خود اپنی بھوک کی وہ حالت یاد آجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کا جذبہ ترحم امنڈ آتا ہے۔ (٤) روزہ دار اپنے روزہ کی حالت میں گویا فقراء مساکین کی حالت بھوک کی مطابقت کرتا ہے بایں طور کہ جس اذیت اور تکلیف میں وہ مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی تکلیف اور مشقت کو روزہ دار بھی برداشت کرتا ہے اس وجہ سے اللہ کے نزدیک اس کا مرتبہ بہت بلند ہوتا ہے جیسا کہ ایک بزرگ بشرحافی کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص ان کی خدمت میں جاڑے کے موسم میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ بیٹھے ہوئے کانپ رہے ہیں حالانکہ ان کے پاس اتنے کپڑے موجود تھے جو ان کو سردی سے بچا سکتے تھے۔ مگر وہ کپڑے الگ رکھے ہوئے تھے۔ اس شخص نے یہ صورت حال دیکھ کر ان سے بڑے تعجب سے پوچھا کہ آپ نے سردی کی اس حالت میں اپنے کپڑے الگ رکھ چھوڑے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ میرے بھائی فقراء و مساکین کی تعداد بہت زیادہ ہے مجھ میں اتنی استطاعت نہیں ہے کہ میں ان کے کپڑوں کا انتظام کروں لہٰذا (جو چیز میرے اختیار میں ہے اسی کو غنیمت جانتا ہوں کہ) جس طرح وہ لوگ سردی کی تکلیف برداشت کر رہے ہیں اس طرح میں بھی سردی کی تکلیف برداشت کر رہا ہوں اس طرح میں بھی ان کی مطابقت کر رہا ہوں۔ یہی جذبہ ہمیں ان اولیاء عارفین کی زندگیوں میں بھی ملتا ہے جن کے بارے میں منقول ہے کہ وہ کھانے کے وقت ہر ہر لقمہ پر یہ دعائیہ کلمات کہا کرتے تھے۔ اللہم لا تواخذنی بحق الجائعین۔ اے اللہ مجھ سے بھوکوں کے حق کے بارے میں مواخذہ نہ کیجئے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں منقول ہے کہ جب قحط سالی نے پورے ملک کو اپنے مہیب سایہ میں لے لیا باوجودیکہ خود ان کے پاس بےانتہا غلہ کا ذخیرہ تھا مگر وہ صرف اس لئے پیٹ بھر کر نہیں کھاتے تھے کہ کہیں بھوکوں کا خیال دل سے اتر نہ جائے نیز یہ انہیں اس طرح بھوکوں اور قحط زدہ عوام کی تکلیف و مصیبت سے مشابہت اور مطابقت حاصل رہے۔

【5】

ماہ رمضان میں شیاطین قید کردئیے جاتے ہیں

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب ماہ رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں نیز شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں کی بجائے یہ ہیں کہ رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں سے اس بات کی طرف کنایہ مقصود ہے کہ اس ماہ مقدس کے شروع ہوتے ہیں باری تعالیٰ کی پے در پے رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے اور بندوں کے اعمال بغیر کسی مانع اور رکاوٹ کے صعود کرتے ہیں نیز باب قبولیت واہو جاتا ہے کہ بندہ جو دعا مانگتا ہے بارگاہ الوہیت میں شرف قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔ جنت کے دروازے کھو لے جاتے ہیں سے اس طرف کنایہ مقصود ہے کہ بندہ کو ان نیک اور اچھے کاموں کی توفیق عطا فرمائی جاتی ہے جو دخول جنت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں سے اس بات کی طرف کنایہ مقصود ہے کہ روزہ دار ایسے کاموں سے بچا رہتا ہے جو دوزخ میں داخل ہونے کا باعث ہوتے ہیں اور یہ ظاہر ہی ہے روزہ دار کبیرہ گناہوں سے سے محفوظ و مامون رہتا ہے اور جو صغیرہ گناہ ہوتے ہیں وہ اس کے روزے کی برکت سے بخش دیئے جاتے ہیں۔ شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ ان شیاطین کو جو سرکش و سرغنہ ہوتے ہیں زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے اور ان کی وہ قوت سلب کرلی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بندوں کو بہکانے پر قادر ہوتے ہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ جملہ دراصل اس بات کی طرف کنایہ ہے کہ ماہ رمضان میں شیاطین لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور بندے نہ صرف یہ کہ ان کے وسوسوں اور ان کے اوہام کو قبول نہیں کرتے بلکہ ان کے مکر و فریب کے جال میں پھنستے بھی نہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ روزہ کی وجہ سے انسان کی قوت حیوانیہ مغلوب ہوجاتی ہے جو غیظ و غضب اور شہوت کی جڑ ہے اور طرح طرح کے گناہوں کا باعث ہوتی ہے اس کے برخلاف قوت عقلیہ غالب اور قوی ہوجاتی ہے جو طاعات اور نیکی کا باعث ہوتی ہے چناچہ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں دوسرے مہینوں کی بہ نسبت گناہ کم صادر ہوتے ہیں اور عبادات و اطاعات میں زیادتی ہوتی ہے۔

【6】

جنت میں داخل ہونے کے لئے روزہ داروں کا مخصوص دروازہ

حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان رکھا گیا اور اس دروازے سے صرف روزہ داروں کا داخلہ ہی ہو سکے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح ریان کے معنی ہیں سیراب اس کی پوری وضاحت اور تفصیل باب افضل الصدقہ کی حدیث نمبر ٣ کی تشریح میں گزر چکی ہے۔

【7】

ماہ رمضان کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہی کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے ایمان کے ساتھ (یعنی شریعت کو سچ جانتے ہوئے اور فرضیت رمضان کا اعتقاد رکھتے ہوئے) اور طلب ثواب کی خاطر (یعنی کسی خوف یا ریاء کے طور پر نہیں بلکہ خالصۃ للہ) رمضان کا روزہ رکھا تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے تھے نیز جو شخص ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کی خاطر رمضان میں کھڑا ہوا تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے تھے اسی طرح جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ (یعنی شب قدر کی حقیقت کا ایمان و اعتقاد رکھتے ہوئے) اور طلب ثواب کی خاطر کھڑا ہوا تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے تھے۔ (بخار ومسلم) تشریح رمضان میں کھڑا ہونے، سے مراد یہ ہے کہ رمضان کی راتوں میں تراویح پڑھے، تلاوت قرآن کریم اور ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہے نیز اگر حرم شریف میں ہو تو طواف وعمرہ کرے یا اسی طرح کی دوسری عبادات میں اپنے آپ کو مصروف رکھے۔ شب قدر میں کھڑا ہونے، کا مطلب یہ ہے کہ شب قدر عبادت الٰہی اور ذکر اللہ میں مشغول رہے خواہ اس رات کے شب قدر ہونے کا اسے علم ہو یا نہ ہو۔ غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔ تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے تھے۔ کے بارے میں علامہ نووی فرماتے ہیں کہ مکفرات (یعنی وہ اعمال جو گناہوں کو ختم کرنے والے ہوتے ہیں) صغیرہ گناہوں کو تو مٹا ڈالتے ہیں اور کبیرہ گناہوں کو ہلکا کردیتے ہیں اگر کسی خوش نصیب کے نامہ اعمال میں گناہ کا وجود نہیں ہوتا تو پھر مکفرات کی وجہ سے جنت میں اس کے درجات بلند کر دئیے جاتے ہیں۔

【8】

روزہ کا ثواب

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بنی آدم کے ہر نیک عمل کا ثواب زیادہ کیا جاتا ہے بایں طور کہ ایک نیکی کا ثواب دس سے سات سو گنا تک ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مگر روزہ کہ وہ میرے ہی لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا (یعنی روزہ کی جو جزا ہے اسے میں ہی جانتا ہوں اور وہ روزہ دار کو میں خود ہی دوں اس بارے میں کوئی دوسرا یعنی فرشتہ بھی واسطہ نہیں ہوگا کیونکہ روزہ دار) اپنی خواہش اور اپنا کھانا صرف میرے لئے ہی چھوڑتا ہے (یعنی وہ میرے حکم کی بجا آوری میری رضاء و خوشنودی کی خاطر اور میرے ثواب کی طلب کے لئے روزہ رکھتا ہے) روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی تو روزہ کھولنے کے وقت اور دوسری خوشی (ثواب ملنے کی وجہ سے) اپنے پروردگار سے ملاقات کے وقت، یاد رکھو روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے زنزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ لطف اور پسندیدہ ہے اور روزہ سپر ہے (کہ اس کی وجہ سے بندہ دنیا میں شیطان کے شر و فریب سے اور آخرت میں دوزخ کی آگ سے محفوظ رہتا ہے) لہٰذا جب تم میں سے کوئی شخص روزہ دار ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ بےہودگی کے ساتھ اپنی آواز بلند کرے اور اگر کوئی (نادان جاہل) اسے برا کہے یا اس سے لڑنے جھگڑنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (بخاری ومسلم) تشریح نیک عمل کے اجر کے سلسلے میں ادنیٰ درجہ دس ہے کہ نیکی تو ایک ہو مگر ثواب اس کا دس گناہ ملے، پھر اس کے بعد نیک عمل کرنے والے کے صدق خلوص پر انحصار ہوتا ہے کہ اس کی ریاضت و مجاہدہ اور اس کے خلوص و صدق نیت میں جتنی پختگی اور کمال بڑھتا رہتا ہے اسی طرح اس کے ثواب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ بعض حالات میں ایک نیکی پر سات سو گناہ ثواب ملتا ہے گویا یہ آخری درجہ ہے لیکن بعض مقامات و اوقات ایسے بھی ہیں جہاں کی جانے والی ایک نیکی اس سے بھی زیادہ اجر وثواب سے نوازی جاتی ہے چناچہ منقول ہے کہ مکہ میں ایک نیک عمل کے بدلے میں ایک لاکھ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ الاالصوم (مگر روزہ) سے ثواب کی اہمیت و فضیلت کی طرف اشارہ ہے کہ روزہ کا ثواب بےانتہاء اور لامحدود ہے جس کی مقدار سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔

【9】

روزہ کی بے انتہا فضیلت کیوں؟

روزہ اور اس کے ثواب کی اس فضیلت کے دو سبب ہیں اول تو یہ کہ روزہ دوسرے لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتا ہے، دوسری عبادتوں کے برخلاف کہ ان میں یہ وصف نہیں ہے جتنی بھی عبادات ہیں وہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کی نگاہوں کے سامنے آتی ہیں جب کہ روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے سوا صرف روزہ دار ہی کو ہوتا ہے۔ لہٰذا روزہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہوتا ہے کہ اس میں ریاء اور نمائش کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد فانہ لی کے ذریعے اسی طرف اشارہ فرمایا کہ روزہ خاص میرے ہی لئے ہے کیونکہ روہ تو صورۃ اپنے لئے وجود نہیں رکھتا جب کہ دوسری عبادتیں صورتا اپنے لئے وجود رکھتی ہیں۔ دوم یہ کہ روزہ میں نفس کشی اور جسم وبدن کا ہلکان و نقصان ہے نیز روزہ کی حالت میں انتہائی کرب و تکلیف کی صورتیں بھوک و پیاس پیش آتی ہیں اور ان پر صبر کرنا پڑتا ہے جب کہ دوسری عبادتوں میں نہ اتنی تکلیف ومشقت ہوتی ہے اور نہ اپنی خواہش و طبیعت پر اتنا جبر چناچہ باری تعالیٰ نے اپنے ارشاد یدع شہوتہ کے ذریعے اسی طرف اشارہ فرمایا کہ روزہ دار اپنی خواہش کو چھوڑ دیتا ہے یعنی روزہ کی حالت میں جو چیزیں ممنوع ہیں وہ ان سب سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے۔ لفظ شہوتہ کے بعد لفظ طعامہ کا ذکر کیا تو تخصیص بعد تعمیم کے طور پر ہے یا پھر شہوت سے مراد تو جماع ہے اور طعام سے جماع کے علاوہ دوسری چیزیں مراد ہیں جو روزہ کو توڑنے والی ہوتی ہیں۔ افطار کے وقت روزہ دار کو خوشی دو وجہ سے ہوسکتی ہے یا تو اس لئے کہ وہی وہ وقت ہوتا ہے جب کہ روزہ دار اپنے آپ کو اللہ رب العزت کے حکم اور اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ محسوس کرتا ہے، یا پھر یہ کہ وہ عبادت کی توفیق اور اس کی نورانیت کی وجہ سے اپنے آپ کو مطمئن ومسرور محسوس کرتا ہے، جو ظاہر ہے کہ خوشی کا سبب ہے اس کے علاوہ دنیاوی اور جسمانی طور پر بھی یوں خوشی محسوس ہوتی ہے کہ دن بھر کی بھوک و پیاس کے بعد اسے کھانے پینے کو ملتا ہے۔ حدیث کے آخری جملے کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص روزہ دار کو برا بھلا کہے یا اس سے لڑنے کا ارادہ کرے تو وہ اس شخص کو انتقاما برا بھلا نہ کہے اور نہ اس سے لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہوجائے بلکہ اس شکص سے یہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں اور یہ بات یا تو زبان سے کہے تاکہ دشمن اپنے ناپاک ارادوں سے باز رہے کیونکہ جب روزہ دار اپنے مقابل سے یہ کہے گا کہ میں روزہ دار ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں چونکہ روزہ دار ہوں اس لئے میرے لئے تو یہ جائز نہیں کہ میں تم سے لڑوں جھگڑوں اور جب میں خود لڑنے جھگڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں تو تمہارے لئے بھی یہ مناسب نہیں ہے کہ ایسی صورت میں تم مجھ سے لڑائی جھگڑے کا ارادہ کرو کیونکہ یہ اصول ومروت کے خلاف ہے ظاہر ہے کہ یہ انداز اور پیرایہ دشمن کو مجبور کرے گا کہ وہ اپنے غلط ارادوں سے باز رہے۔ یا اس کے یہ معنی ہوں کہ میں چونکہ روزہ دار ہوں اس لئے اس وقت تمہارے لئے زبان درازی مناسب اور لائق نہیں کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کے ذمہ اور اس کی حفاظت میں ہوں۔ یا پھر یہ کہ ایسے موقع پر روزہ دار اپنے دل میں یہ کہہ لے کہ میں روزہ دار ہوں میرے لئے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ میں روزہ حالت میں کسی سے لڑائی جھگڑا کروں یا کسی کو اپنی زبان سے برا کہوں۔ لفظ الاالصوم کے سلسلے میں حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی (رح) نے لکھا ہے کہ حدیث کے بعض شارحین اس موقع پر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ روزہ کی یہ خصوصیت کس وجہ سے ہے ؟ تاہم ہمارے اوپر یہ بات واجب اور لازم ہے کہ بغیر کسی شک و شبہہ کے اس کی تصدیق کرے ہاں بعض محققین علماء نے اس خصوصیت کے کچھ اسباب بیان کئے ہیں چناچہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ روزہ ہی وہ عبادت ہے جو ایام جاہلیت میں بھی اہل عرب کے یہاں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے مخصوص تھی یعنی جس طرح کفار و مشرکین سجدہ وغیرہ اللہ کے علاوہ دوسری چیزون کے لئے بھی کرتے تھے اسی طرح وہ روزہ میں بھی اللہ کے علاوہ کسی کو شریک نہیں کرتے تھے بلکہ روزہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے رکھتے تھے۔ اس طرح اس نکتہ کے ذریعے بھی اس کی خصوصیت کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ درحقیقت جو شخص روزہ رکھتا ہے اور اس طرح وہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضاء کی خاطر اپنا کھانا پینا اور دوسری خواہشات کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ ایک طرح کی لطافت و پاکیزگی حاصل کرتا ہے اور گویا وہ اس بارے میں باری تعالیٰ کے اوصاف و خلق کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے بایں طور کہ جس طرح اللہ رب العزت کھانے پینے سے منزہ اور پاک ہے اس طرح بھی دن میں اپنے آپ کو دنیاوی خواہشات و علائق سے منزہ رکھتا ہے لہٰذا اس سبب سے روزہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے۔ عبرت خیز و عبرت آموز ! ابھی آپ نے اوپر پڑھا ہے کہ عرب کے مشرکین تک روزہ میں کسی کو اللہ کا شریک نہیں کرتے تھے ان کا روزہ بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص قرار دیتے تھے لیکن اب روزہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں رہ گیا ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اب بعض بزرگوں کے نام پر اور ان کے لئے بھی روزہ رکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو گمراہی و ضلالت کے اس راستے سے بچائے اور صرف اپنی مرضیات تابع و پابند بنائے آمین۔

【10】

ماہ رمضان کے فضائل وبرکات

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات کو قید کردیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں پھر اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں پھر اس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا اور اعلان کرنے والا فرشتہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اے بھلائی (یعنی نیکی وثواب) کے طلب گار ! اللہ کی طرف متوجہ ہوجا اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے برائی سے باز آ جا کیونکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے یعنی اللہ رب العزت اس ماہ مبارک کے وسیلے میں بہت لوگوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد کرتا ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ تو بھی ان لوگوں میں شامل ہوجائے۔ اور یہ اعلان رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔ (ترمذی ابن ماجہ، امام احمد نے بھی اس روایت کو ایک شخص سے نقل کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی شیاطین کو اس لئے قید کردیا جاتا ہے تاکہ وہ روزہ داروں کو نہ بہکائیں اور ان کے دلوں وسوسوں اور گندے خیالات کا بیج نہ بوئیں چناچہ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے ماہ رمضان میں اکثر گناہ گار گناہوں سے بچتے ہیں اور اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں البتہ بعض بدبخت ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس ماہ مبارک میں بھی گناہ و معصیت سے باز نہیں آتے تو اس کی وجہ وہ اثرات ہوتے ہیں جو رمضان سے قبل ایام میں شیطان کے بہکانے کی وجہ سے ان کے طبائع بد میں راسخ ہوجاتے ہیں یعنی چونکہ ان کے ذہن و فکر اور ان کی عملی قوت پہلے ہی سے شیطان کے زیر اثر ہوتی ہے اور ان کا نفس اس کا عادی ہوچکا ہوتا ہے اس لئے ایسے لوگ اپنی عادت سے مجبور ہو کر رمضان میں بھی گناہ و معصیت سے نہیں بچ پاتے۔ اللہ کی طرف متوجہ ہوجا۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بندگی اس کی عبادت اور اس کی رضا و خوشنودی کے کامون میں زیادہ سے زیادہ مشغول رہنے کی کوشش کر کیونکہ یہ وقت ایسا ہے کہ اگر تھوڑا بھی نیک عمل کیا جائے گا تو اس کا ثواب ملے گا اور معمولی درجہ کی نیکی بھی سعادت و نیک بختی کے اونچے درجے پر پہنچائے گی۔ اسی طرح برائی سے باز آ جا۔ کا مطلب یہ ہے کہ گناہ و معصیت کے راستے کو چھوڑ دے، نیکی و بہتری کی راہ اپنا لے اپنے کئے ہوئے گناہوں سے توبہ کر اور اللہ کی طرف اپنی توجہ لگا دے کیونکہ قبولیت دعا اور مغفرت کا یہ بہترین وقت ہے۔

【11】

ماہ رمضان کے فضائل وبرکات

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے رمضان کا بابرکت مہینہ آگیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر روزے فرض کئے ہیں اس مہینے میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں نیز اسی مہینے میں سرکش شیطانوں کو طوق پہنایا جاتا ہے اور اس میں یعنی پورے ماہ رمضان کی راتوں میں یا آخری عشرہ رمضان کی راتوں میں اللہ کی ایک خاص رات ہے جو باعتبار ثواب کے ہزار مہینوں سے بہتر ہے (یعنی اس ایک رات میں عمل کرنا ان ہزار مہینوں میں عمل کرنے سے کہ جن میں لیلۃ القدر نہ ہو کہیں زیادہ افضل و بہتر ہے) لہٰذا جو شخص اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔ (احمد و نسائی) تشریح ملا علی قاری (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے الفاظ و تغل فیہ مردۃ الشیاطین سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ماہ رمضان میں صرف وہی شیطان قید کئے جاتے ہیں جو سرکش اور سرغنہ ہیں گویا اس طرح وہ اشکال خود بخود رفع ہوجاتا ہے جو ابھی اس سے پہلی حدیث کی تشریح کے ضمن میں گزرا ہے اس صورت میں اس حدیث نمبر ٥ کے الفاظ صفدت الشیاطین و مردۃ کا عطف شیطان پر عطف تفسیر وبیان کی نوعیت سے ہوگا۔ ملا علی قاری کے اس قول کی وضاحت یہ ہے کہ اس سے پہلے حدیث کی تشریح میں اس اشکال کی طرف جو یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ شیاطین کے مقید ہوجانے کے باوجود بھی جو لوگ اس ماہ مبارک میں گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ دیا گیا تھا کہ اس کی وجہ وہ اثرات ہوتے ہیں جو رمضان سے قبل ایام میں شیطان کے بہکانے کی وجہ سے ان کی طبائع بند میں راسخ ہوتے ہیں۔ اسی اشکال کا ایک دوسرا جواب ملا علی قاری نے اس حدیث کے مفہوم کی روشنی میں دیا ہے کہ رمضان میں دراصل وہی شیطان مقید ہوتے ہیں جو سرکش اور سرغنہ ہوتے ہیں چھوٹے موٹے قسم کے شیطان چونکہ آزاد رہتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کو بہکاتے ہیں جن کی وجہ سے رمضان میں بھی گناہوں کا صدور بند نہیں ہوتا۔ مگر اسی باب کی پہلی حدیث سے چونکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مطلقاً شیاطین قید کر دئیے جاتے ہیں اس میں سرکش شیطان کی کوئی تخصیص نہیں ہے لہٰذا ملا علی قاری کا یہ جواب کچھ زیادہ جاندار معلوم نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں حضرت مولنا شاہ محمد اسحق دہلوی (رح) کی تقریر سب سے بہتر ہے جس سے نہ صرف یہ کہ مسئلہ مذکور میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا بلکہ اس بارے میں منقول تمام احادیث میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔ حضرت موصوف فرماتے ہیں کہ سرکش شیطانوں کا قید ہونا جیسا کہ یہ حدیث بتارہی ہے مخصوص افراد کی نسبت سے ہے اسی طرح مطلقا شیاطین کا قید ہونا جیسا کہ اس باب کی پہلی حدیث سے ثابت ہوا دوسرے مخصوص افراد کی نسبت سے ہے مطلب یہ ہے کہ سرکش شیاطین کو تو فاسق لوگوں کو بہکانے سے روک دیا جاتا ہے چناچہ ایسے لوگ رمضان میں گناہ کم کرتے ہیں البتہ چھوٹے موٹے شیطان انہیں بہکاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ گناہ ان سے سرزد ہوتے رہتے ہیں اور مطلقاً شیاطین صلحاء اور نیک لوگوں کو بہکانے سے روک دئیے جاتے ہیں چناچہ وہ کبیرہ گناہوں سے باز رہتے ہیں اور اگر بتقاضائے بشریت ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو وہ توبہ اور استغفار کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا اشکال کا ایک دوسرا جواب یہ ہے کہ کچھ گناہ تو ایسے ہوتے ہیں جو شیاطین کے بہکانے سے سرزد ہوتے ہیں اور کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جو خود اپنے نفس کے تقاضہ سے صادر ہوتے ہیں چناچہ جو گناہ شیطان کے بہکانے سے سرزد ہوتے ہیں ان گناہوں سے تو لوگ رمضان میں محفوظ رہتے ہیں اور جو گناہ خود اپنے نفس کے تقاضہ سے ہوتے ہیں وہ رمضان میں بھی صادر ہوتے رہتے ہیں۔ من حرم خیرہا (جو شخص اس رات کی بھلائی سے محروم رہا) کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس مقدس رات میں عبادت الٰہی کے لئے شب بیدایری کی توفیق نہیں ہوتی اگر وہ کم سے کم رات کے ابتدائی اور آخری حصوں ہی میں جاگ لیتا اور اللہ کی بندگی کرتا جب بھی اسے اس رات میں عبادت کی فضیلت حاصل ہوجاتی کیونکہ منقول ہے کہ جس شخص نے کم سے کم عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لی تو اسے بھی لیلۃ القدر کی سعادتوں سے اپنا حصہ مل جائے گا۔ فقد حرم (وہ ہر بھلائی سے محروم رہا) بطور مبالغہ ارشاد فرمایا گیا ہے اور اس سے مراد کامل ثواب سے محروم رہنا ہے۔

【12】

روزہ قیامت کے روز پروردگار سے شفاعت کرے گا

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا روزہ اور قرآن دونوں بندہ کے لئے شفاعت کریں گے۔ چناچہ روزہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار میں نے اس کو کھانے اور دوسری خواہشات مثلا پانی، جماع اور غیبت وغیرہ) سے دن میں روکے رکھا لہٰذا میری طرف سے بھی اس کے حق میں شفاعت قبول فرما۔ قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا، لہٰذا میری طرف سے بھی اس کے حق میں شفاعت قبول فرما۔ چناچہ ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ (بیہقی) تشریح قرآن سے مراد تلاوت قرآن ہے علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ قرآن سے تہجد اور تلاوت قرآن و عبادت وغیرہ کے لئے شب بیداری مراد ہے روزہ اور قرآن دونوں کی شفاعت کا ثمرہ یہ ہوگا کہ غالباً روزہ کی شفاعت سے تو گناہ ختم کر دئیے جائیں گے اور قرآن کی شفاعت سے درجات عالیہ نصیب ہوں گے۔

【13】

شب قدر سے محرومی

حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب رمضان کا مہینہ آیا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ تمہارے لئے یہ مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات (یعنی شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، لہٰذا جو شخص اس رات کی سعادت سے محروم رہا کہ اسے پوری رات یا کم سے کم رات کے کچھ حصوں میں بھی جاگنے اور عبادت الٰہی میں مشغول ہونے کی توفیق نہ ہوئی تو وہ ہر سعادت و بھلائی سے محروم رہا۔ اور یاد رکھو شب قدر کی سعادت سے حرمان نصیب ہی محروم ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح ارشاد گرامی تمہارے لئے یہ مہینہ آیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کا مقدس و بابرکت مہینہ دین و دنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں اپنے دامن میں لئے آگیا لہٰذا اس کے آنے کو غنیمت جانو دن میں روزے رکھ کر اور رات میں عبادت الٰہی یعنی تراویح و تلاوت قرآن اور تہجد وغیرہ میں مشغول ہو کر اس مہینے کی برکتیں ور سعادتیں حاصل کرو، حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ لیلۃ القدر کی سعادتوں سے وہی شخص محروم رہتا ہے جو سعادت و بھلائی کے معاملے میں بدنصیب ہوتا ہے اور جسے عبادت کا ذوق نہیں ہوتا۔

【14】

رمضان، برکات وسعادت کا مہینہ

حضرت سلمان فارسی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمارے سامنے (جمعہ کا یا بطور تذکیر و نصیحت) خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو ! باعظمت مہینہ تمہارے اوپر سایہ فگن ہو رہا ہے (یعنی ماہ رمضان آیا ہی چاہتا ہے) یہ بڑا ہی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں قیام (عبادت خداوندی) جاگنا نفل قرار دیا ہے جو اس ماہ مبارک میں نیکی (یعنی نفل) کے طریقے اور عمل کے بارگاہ حق میں تقرب کا طلبگار ہوتا ہے تو وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے جس نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں فرض ادا کیا ہو (یعنی رمضان میں نفل اعمال کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں فرض اعمال کے ثواب کے برابر ہوتا ہے) اور جس شخص نے ماہ رمضان میں (بدنی یا مالی) فرض ادا کی تو وہ اس شخص کی مانند ہوگا جس نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں ستر فرض ادا کئے ہوں (یعنی رمضان میں کسی ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب دوسرے دنوں میں ستر فرض کی ادائیگی کے ثواب کے برابر ہوتا ہے) اور ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے (کہ روزہ دار کھانے پینے اور دوسری خواہشات سے رکا رہتا ہے) وہ صبر جس کا ثواب بہشت ہے ماہ رمضان غم خواری کا مہینہ ہے لہٰذا اس ماہ میں محتاج و فقراء کی خبر گیری کرنی چاہئے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں (دولت مند اور مفلس ہر طرح) مومن کا (ظاہر اور معنوی) رزق زیادہ کیا جاتا ہے جو شخص رمضان میں کسی روزہ دار کو (اپنی حلال کمائی سے) افطار کرائے تو اس کا یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش و مغفرت کا ذریعہ اور دوزخ کی آگ سے اس کی حفاظت کا سبب ہوگا اور اس کو روزہ دار کے ثواب کی مانند ثواب ملے گا بغیر اس کے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم میں سب تو ایسے نہیں ہیں جو روزہ دار کی افطاری کے بقدر انتظام کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی عنایت فرماتا ہے جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ لسی یا کھجور اور یا ایک گھونٹ پانی ہی کے ذریعے افطار کرا دے اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائے تو اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض (یعنی حوض کوثر) سے اس طرح سیراب کرے گا کہ وہ (اس کے بعد) پیاسا نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ بہشت میں داخل ہوجائے اور ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے درمیانی حصہ بخشش ہے یعنی وہ مغفرت کا زمانہ ہے اور اس کے آخری حصے میں دوزخ کی آگ سے نجات ہے (مگر تینوں چیزیں مومنین کے لئے ہی مخصوص ہیں کافروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے) اور جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و لونڈی کا بوجھ ہلکا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور اسے آگ سے نجات دے گا۔ تشریح اور اس کی راتوں میں قیام نفل قرار دیا ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کی راتوں میں نماز تراویح اور اسی قسم کی دوسری سنت مؤ کدہ عبادتوں کے لئے شب بیداری کو نفل قرار دیا ہے لہٰذ جس نے شب بیداری کی اور نماز تراویح وغیرہ پڑھی وہ عظیم اجر وثواب سے نوازا جائے گا اور جو شخص اسے ترک کرے گا وہ نہ صرف یہ کہ خیر بھلائی کی سعادتوں سے محروم رہے گا، بلکہ حق تعالیٰ کے عتاب میں بھی گرفتار ہوگا۔ اس جملے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز تراویح کو نفل قرار دیا ہے کیونکہ نماز تراویح تو سنت مؤ کدہ ہے اور اس کی بڑی تاکید ہے چناچہ ابوداؤد کی باب فی شہادۃ الواحد علی رویۃ ہلال رمضان میں ایک روایت منقول ہے جس کے یہ الفاظ ہیں فامر بلال فنادی فی الناس ان یقوموا وان یصوموا (یعنی جب رمضان کے چاند کی گواہی گزر چکی تو آپ ﷺ نے بلال (رض) کو اعلان کرنے کا حکم دیا چناچہ انہوں نے اعلان کیا کہ قیام کیا جائے یعنی نماز تراویح پڑھی جائے اور روزہ رکھا جائے۔ یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے، اس لئے فرمایا کہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد پیاس کو وجود ہی باقی نہیں رہے گا۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے، آیت (انک لا تظماء فیہا) ، بیشک تم جنت میں پیاسے نہیں ہوگے۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ شخص اس کے بعد کبھی بھی پیاسا نہیں ہوگا۔ رمضان کے ابتدائی یعنی اول عشرہ کو رحمت فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب کہ باری تعالیٰ کی رحمت عام کا نزول ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اگر اس کی رحمت نہ ہو تو پھر نہ کوئی روزہ رکھے اور نہ کوئی تراویح وغیرہ پڑھے۔ اپنے غلام و لونڈی کا بوجھ ہلکا کیا کرو، کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں روزہ دار اپنے خدمت گار اور ملازم کے ساتھ انتہائی مروت اور محبت و رحمت کا معاملہ کرے اور ان کے فرائض خدمت میں آسانی اور رعایت کرے اس طرح عام دنوں کی بہ نسبت روزہ کی حالت میں ان پر اپنی خدمت اور دوسرے کاموں کا بوجھ نہ ڈالے۔

【15】

رمضان میں اسیروں کی رہائی

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا ماہ مقدس شروع ہوتا تو رسول کریم ﷺ ہر قیدی کو رہائی بخشتے اور ہر سائل کی مراد پوری فرماتے۔ تشریح قیدی سے مراد وہ لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو حقوق اللہ کے لئے قید ہوتے تھے اور وہ لوگ بھی مراد لئے جاسکتے ہیں جو حقوق العباد کی خاطر قید کئے جاتے تے، جو لوگ حقوق العباد کی خاطر قید ہوتے تھے ان کی رہائی سے مراد یہ ہوگا کہ آنحضرت ﷺ ایسے قیدیوں کو صاحب حقوق سے کہہ کر آزاد کرایا کرتے تھے ایک احتمال یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ صرف انہیں قیدیوں کو چھوڑ دیتے تھے جو خود آپ ﷺ کے حقوق کی خاطر قید ہوتے تھے یوں تو جود و سخا آنحضرت ﷺ کا امتیازی وصف تھا اور آپ ﷺ رمضان کے علاوہ دوسرے ایام میں بھی ہر سائل کا سوال پورا کیا کرتے تھے مگر ماہ رمضان میں آپ ﷺ کے وصف جود و سخا کی کچھ اور ہی کیفیت ہوا کرتی تھی چناچہ حدیث کے آخری الفاظ اور ہر سائل کی مراد پوری فرماتے کی مراد یہ ہوگی کہ آپ ﷺ رمضان میں اپنی عادت اور اپنے معمول سے بھی زیادہ عطاء و سخاوت فرمایا کرتے تھے۔

【16】

استقبال رمضان کے لئے بہشت کی زیارت

حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا رمضان کے استقبال کے لئے جنت شروع سال سے آخر سال تک اپنی زیب وزینت کرتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا جب چناچہ جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کئے نیچے جنت کے درختوں کے پتوں سے حور عین کے سر پر ہوا چلتی ہے پھر حوریں کہتی ہیں اے ہمارے پروردگار ! اپنے بندوں میں سے ہمارے لئے شوہر بنا دے کہ ان (کی صحبت و ہم نشینی کے سرور و کیف) ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں ہمارے دیدار و وصل سے ٹھنڈک پائیں۔ (یہ تینوں روایتیں بیہقی شعب الایمان میں درج کی ہیں) ۔ تشریح شروع سال سے مراد محرم کا ابتدائی دن ہے لیکن یہ بھی بعید نہیں کہ جنت و رمضان کے اعتبار سے شروع سال سے مراد شوال کا ابتدائی دن ہو۔ حاصل یہ کہ رمضان اور رمضان کی برکات یعنی کثرت و مغفرت اور بلندی درجات وغیرہ کے آنے کی خوشی میں جنت تمام سال اپنا بناؤ سنگار کرتی ہے۔ اپنے بندوں میں سے ہمارے لئے شوہر بنا دے، بندہ سے اللہ کے وہ نیک و فرمانبردار بندے مراد ہیں جو رمضان کے دنوں میں روزہ رکھتے ہیں اور راتوں میں نماز تراویح میں مشغول رہتے ہیں۔ چناچہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ جو بندہ رمضان میں روزہ رکھتا ہے تو اس کے ہر دن کے روزہ کے بدلے میں اسے موتیوں کے خیمے میں حور عین میں سے ایک زوجہ عطا کی جاتی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے حور مقصورات فی الخیام۔

【17】

روزہ دار کو رمضان کی آخری رات میں مغفرت عطا ہوتی ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ان کی (یعنی میری امت) کے روزہ دار افراد کی رمضان کی آخری رات میں بخشش ہوجاتی ہے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! کیا وہ لیلۃ القدر ہے ؟ (جس میں بخشش کی جاتی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ کام کرنے والا جب اپنا کام کر چکتا ہے تو اسے اسی وقت اس کی پوری مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (احمد) تشریح آپ ﷺ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ مغفرت کی یہ سعادت لیلۃ القدر کی وجہ سے عطا نہیں ہوتی بلکہ اس عظیم فریضہ کی تکمیل کی وجہ سے ملتی ہے جس کی ادائیگی کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دیا ہے اور وہ روزہ رکھنا ہے روایت کے الفاظ یغفر لامتہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی نہیں ہے بلکہ یہ حضرت ابوہریرہ (رض) کے اپنے الفاظ ہیں جس کے ذریعے انہوں نے آپ ﷺ کے الفاظ کا مفہوم ادا کیا ہے اور بعینہ آپ ﷺ کے الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔ کہ وہ یہ ہیں یغفر لامتی۔