41. رویت ہلال کا بیان

【1】

بغیر چاند ہوئے نہ روزہ شروع کرو اور نہ ختم کرو

حضرت ابن عمر (رض) روی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (شعبان کی تیرویں تاریخ کو رمضان کی نیت سے) روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو، اسی طرح روزہ اس وقت ختم نہ کرو جب تک کہ عید کا چاند نہ دیکھ لو لہٰذا (تیسویں شب یعنی انتیسویں تاریخ کو) اگر (گرد و غبار اور ابر وغیرہ یا کسی اور سبب سے) چاند نظر نہ آئے تو اس کا اعتبار کرو (یعنی اس مہینے کو تیس دن کا سمجھ لو) ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مہینہ کبھی تیس رات کا بھی ہوتا ہے اس لئے جب تک چاند نہ دیکھ لو (رمضان کی نیت سے) روزہ نہ رکھو اور اگر انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ ہو اور چاند نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کرو (یعنی تیس دن کا مہینہ سمجھو) ۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب تک چاند نہ دیکھ لو یا معتبر شہادت اور معتبر ذرائع سے جب تک رویت ہلال ثابت نہ ہوجائے نہ تو روزہ رکھو اور روزہ ختم کر کے عید مناؤ۔ مہینہ کبھی انتیس رات کا بھی ہوتا ہے، سے دراصل اس بات کی ترغیب دلانا مقصود ہے کہ تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کیا جائے، چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ شعبان کی انتیسویں تارخ کو لوگوں پر واجب کفایہ ہے کہ رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کریں۔

【2】

بغیر چاند ہوئے نہ روزہ شروع کرو اور نہ ختم کرو

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ چاند دیکھنے کے بعد روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی افطار یعنی عید کرو، لہٰذا انتیسویں تاریخ کو اگر ابر وغیرہ ہوجائے اور رویت ہلال ثابت نہ ہو تو شعبان کے مہینے کو تیس دن کا قرار دو (اسی طرح رمضان کے مہینے کا بھی اعتبار کرو) بخاری ومسلم)

【3】

نجوم کے قواعد سے چاند کا ثبوت معتبر نہیں ہوتا

حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ہم اہل عرب امی قوم ہیں کہ حساب کتاب نہیں جانتے مہینہ اتنا اور اتنا اور اتنا ہوتا ہے (لفظ اتنا تین مرتبہ کہتے ہوئے آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دو مرتبہ بند کیں اور پھر کھول دیں) اور تیسری مرتبہ میں ہاتھوں کی انگلیاں بند کر کے پھر نو انگلیاں تو کھول دیں اور انگوٹھا بند کئے رکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ کبھی تو مہینے میں ایک کم تیس دن ہوتے ہیں یعنی انتیس کا مہینہ ہوتا ہے اور پھر فرمایا مہینہ اتنا اور اتنا (اور اس مرتبہ آپ ﷺ نے تیس کا عدد بتانے لئے پہلے کی طرح تیس مرتبہ میں انگوٹھا بند نہیں رکھا) یعنی پورے تیس دن کا ہوتا ہے آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ کبھی تو مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا ہوتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اہل عرب کو امی اس لئے فرمایا گیا کہ وہ جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے تھے ویسے ہی رہتے تھے پڑھتے لکھتے نہیں تھے۔ مگر آپ ﷺ نے یہ اکثر کے اعتبار سے فرمایا ہے کیونکہ اگرچہ عرب میں تعلیم عام نہیں تھی اور اکثریت بےپڑھے لکھے لوگوں کی تھی مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ لوگ علم کے زیور سے آراستہ ہوتے ہی تھے یا اس جملے سے آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ اہل عرب حساب کتاب اچھی طرح نہیں جانتے۔ بہرحال حدیث کے معنی یہ ہیں کہ نجوم کے قواعد پر عمل کرنا ہمارا شیوہ اور طریقہ نہیں ہے اور نہ نجوم کے قواعد و حساب سے جیسا کہ جنتری وغیر میں لکھا ہوتا ہے چاند کا ثبوت معتبر ہوسکتا ہے بلکہ اس بارے میں ہمارا علم صرف رویت ہلال سے متعلق ہے کہ اگر چاند دیکھا جائے گا یا چاند کی رویت شرعی قواعد و ضوابط کے تحت ثابت ہوجائے گی تو روزہ شروع ہوگا یا اس کا اختتام ہوگا اسی بات کے آخر میں وضاحت کی گئی کہ کسی مہینے میں چاند انتیس تاریخ کو ہوتا ہے اور کسی مہینے میں تیس تاریخ کو۔ روایت کی آخری عبارت کے دونوں جملے یعنی تمام الثلثین اور یعنی مرۃ تسعا الخ راوی کے الفاظ ہیں پہلے جملہ سے تو راوی نے آنحضرت ﷺ کے آخری اشارے کو بیان کیا ہے اور دوسرے جملے کے ذریعے دونوں چیزوں کی وضاحت کردی ہے۔

【4】

رمضان اور ذی الحجہ کے مہینے

حضرت ابوبکرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ عید کے دونوں مہینے یعنی رمضان اور ذی الحجہ ناقص نہیں ہوتے۔ (بخاری ومسلم) تشریح رمضان کو عید اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ یہ عید کے قریب ہوتا ہے بہرحال حدیث کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ایک سال میں رمضان اور ذی الحجہ دونوں مہینے ناقص یعنی انتیس انتیس دن کے نہیں ہوتے یا اس کے معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں یہ دونوں مہینے ناقص نہیں ہوئے ہوں گے۔ یا پھر اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ دونوں مہینے حکم اور ثواب کے اعتبار سے ناقص نہیں ہوتے اگرچہ ان میں سے ایک انتیس دن کا اور دوسرا تیس دن کا ہو یا دونوں ہی انتیس انتیس دن کے ہوں مگر ثواب پورے تیس دن کا ہی ملتا ہے۔

【5】

رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک دن یا دو دن قبل روزہ نہ رکھے ہاں جو شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو وہ اس دن روزہ رکھ سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممانعت اس شخص کے حق میں نہیں ہے جو ان ایام میں روزہ رکھنے کا عادی ہو مثلا کوئی شخص پیر یا جمعرات کے دن نفل روزہ رکھنے کا عادی ہو اور اتفاق سے شعبان کے انتیس یا تیس تاریخ اسی دن ہوجائے تو اس کے لئے اس دن روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہے ہاں جو شخص ان دنوں میں روزہ رکھنے کا عادی نہ ہو وہ نہ رکھے ؟ تاہم اتنی بات ملحوظ رہے کہ یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ رمضان سے ایک دن یا دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت اس لئے ہے تاکہ نفل اور فرض دونوں روزوں کا اختلاط نہ ہوجائے اور اہل کتاب کے ساتھ مشابہت نہ ہو کیونکہ وہ فرض روزوں کے ساتھ دوسرے روزے بھی ملا لیتے تھے۔ مظہر کا قول ہے کہ شعبان کے آخری ایام میں رمضان سے صرف ایک دن یا دو دن قبل روزہ رکھنا مکرو ہے۔ مولانا اسحق رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں جس روزے سے منع کیا جا رہا ہے وہ یوم الشک کا روزہ نہیں بلکہ مطلقاً شعبان کے آخری ایام میں رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے البتہ جو شخص ان ایام میں روزہ رکھنے کا عادی ہو وہ اس ممانعت سے مستثنی ہے۔

【6】

شعبان کے آخری نصف مہینے میں روزہ رکھنے کی ممانعت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب شعبان کا آدھا مہینہ گزر جائے تو روزے نہ رکھو (ابو داؤد) ، ترمذی ابن ماجہ، دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ شعبان کے آخری نصف مہینے میں قضا یا کسی واجب روزہ کے علاوہ اور روزے نہ رکھے جائیں مگر یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور اس کا تعلق امت کی آسانی و شفقت سے ہے یعنی آپ ﷺ نے رمضان کے بالکل قریبی ایام میں روزے رکھنے سے اس لئے منع فرمایا ہے تاکہ ان روزوں کی وجہ سے لوگوں کو ضعف و نا تو انی لاحق نہ ہوجائے کہ جس کی وجہ سے رمضان کے روزے دشوار اور بھاری ہوجائیں۔ قاضی کا قول ہے کہ اس ممانعت کا تعلق اس شخص سے ہے کہ جس کو پے در پے متواتر روزے کی طاقت میسر نہ ہو لہٰذا اس کے لئے ان دنوں میں روزے نہ رکھنا ہی مستحب ہے جیسا کہ ان لوگوں کو جو قوت برداشت نہ رکھتے ہوں عرفہ کے دن روزہ نہ رکھنا مستحب ہے تاکہ وہ روزہ کی غیر متحمل مشقت سے بچ کر اس دن ذکر و دعا میں مشغول رہیں ہاں جن لوگوں کے اندر قوت برداشت ہو ان کے لئے شعبان کے آخری نصف مہنے میں روزے رکھنے ممنوع نہیں ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں ثابت ہے کہ آپ ﷺ شعبان میں پورے مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے۔

【7】

شعبان کے دنوں کو یاد رکھو

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ رمضان کے لئے شعبان کا مہینہ شمار کرو۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ ماہ شعبان کے دنوں کو گنتے رہو اور انہیں یاد رکھو تاکہ رمضان کی آمد کا علم رہے۔ آنحضرت ﷺ شعبان کے پورے مہینے میں روزے رکھتے تھے ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو صرف دو مہینوں یعنی شعبان اور رمضان میں متواتر روزے رکھتے تھے دیکھا ہے۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) تشریح یعنی نبی کریم ﷺ جس طرح رمضان کے پورے مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے۔ ایسے ہی شعبان کے پورے مہینے میں بھی روزے سے رہتے تھے اس حدیث کی مفصل وضاحت انشاء اللہ باب صیام التطوع میں مذکور ہوگی۔

【8】

یوم الشک کے روزہ کا مسئلہ

حضرت عمار بن یاسر (رض) کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے یوم الشک کو روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح شعبان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ کی وجہ سے چاند نہیں دیکھا گیا مگر ایک شخص نے چاند دیکھنے کی شہادت دی اور اس کی شہادت قبول نہیں کی گئی اسی طرح دو فاسق لوگوں نے چاند دیکھنے کی گواہی دی اور ان کی گواہی قبول نہیں کی گئی اس کی صبح کو جو دن ہوگا یعنی تیس تاریخ کو یوم الشک (شک کا دن) کہلائے گا کیونکہ اس دن کے بارے میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع ہوگیا ہو اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع نہ ہوا ہو لہٰذا اس غیر یقینی صورت کی وجہ سے اسے شک کا دن کہا جاتا ہے ہاں اگر انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ نہ ہو اور کوئی بھی شخص چاند نہ دیکھے تو تیس تاریخ کو یوم الشک نہ کہیں گے۔ اس حدیث میں اسی دن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یوم الشک کو رمضان یا کسی واجب کی نیت سے روزہ رکھنا مکروہ ہے البتہ اس دن نفل روزہ رکھنے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے، چناچہ اگر کوئی شخص شعبان کی پہلی ہی تاریخ سے نفل روزہ رکھتا چلا آ رہا ہو یا تیس تاریخ اتفاق سے اس دن ہوجائے کہ جس میں کوئی شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے تو اس کے لئے اس دن روزہ رکھنا افضل ہوگا۔ اسی طرح یوم الشک کو روزہ رکھنا اس شخص کے لئے بھی افضل ہے جو شعبان کے آخری تین دنوں میں روزے رکھتا ہو اور اگر یہ صورتیں نہ ہوں تو پھر یوم الشک کا مسئلہ یہ ہے کہ خواص تو اس دن نفل کی نیت کے ساتھ روزہ رکھ لیں اور عوام دوپہر تک کچھ کھائے پئے بغیر انتظار کریں اگر چاند کی کوئی قابل قبول شہادت نہ آئے تو دوپہر کے بعد افطار کرلیں۔ حضرت ابن عمر (رض) اور دوسرے صحابہ کا یہ معمول نقل کیا جاتا ہے کہ یہ حضرات شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرتے اگر چاند دیکھ لیتے یا معتبر شہادت کے ذریعے رویت ہلال کا ثبوت ہوجاتا تو اگلے روز روزہ رکھتے ورنہ بصورت دیگر ابرو غبار وغیرہ سے مطلع صاف ہونے کی صورت میں روزہ نہ رکھتے ہاں اگر مطلع صاف نہ ہوتا تو روزہ رکھ لیتے تھے اور علماء فرماتے ہیں کہ اس صورت میں ان کا یہ روزہ نفل ہوتا تھا۔ خواص سے مراد وہ لوگ ہیں جو شک کے دن کے روزے کی نیت کرنا جانتے ہوں اور جو لوگ اس دن کے روزے کی نیت کرنا نہ جانتے ہوں انہیں عوام کہا جاتا ہے چناچہ اس دن روزہ کی نیت یہ ہے کہ جو شخص اس دن کہ جس میں رمضان کے بارے میں شک واقع ہو رہا ہے روزہ رکھنے کا عادی نہ ہو وہ یہ نیت کرے کہ میں آج کے دن نفل روزے کی نیت کرتا ہوں اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اگر آج رمضان کا دن ہو تو یہ روزہ رمضان کا بھی ہے اس طرح نیت کرنی مکروہ ہے۔ کہ اگر کل رمضان کا دن ہو تو یہ روزہ رمضان میں محسوب ہو اور اگر رمضان کا دن نہ ہو تو نفل یا کسی اور واجب میں محسوب ہو۔ تاہم اگر کسی نے اس طرح کرلیا اور اس دن رمضان کا ہونا ثابت ہوگیا تو وہ روزہ رمضان ہی میں محسوب ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر کوئی شخص اس نیت کے ساتھ روزہ رکھے کہ اگر آج رمضان کا دن ہوگا تو میرا بھی روزہ ہوگا اور اگر رمضان کا دن نہیں ہوگا تو میرا روزہ بھی نہیں ہوگا۔ تو اس طرح نہ نفل کا روزہ ہوگا اور نہ رمضان کا ہوگا چاہے اس دن رمضان کا ہونا ہی ثابت کیوں نہ ہوجائے۔

【9】

شہادت ہلال

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تم کیا اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں ؟ اس نے کہا ہاں اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال (رض) سے فرمایا کہ بلال لوگوں میں اعلان کردو کہ کل روزہ رکھیں۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص مستور الحال ہو یعنی اس کا فاسق ہونا معلوم نہ ہو تو رمضان کے چاند کے بارے میں اس کی شہادت معتبر اور قابل قبول ہوگی نیز یہ کہ رمضان کے چاند کی گواہی دیتے ہوئے لفظ شہادت کا استعمال شرط نہیں ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ہلال رمضان شریف شہادت میں صرف ایک شخص کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے چناچہ حنفی مسلک میں صحیح مسئلہ یہی ہے کہ ہلال رمضان کی رویت ایک عادل یا مستور الحال شخص کی شہادت سے ثابت ہوجاتی ہے نیز یہ کہ ہلال رمضان کی شہادت میں لفظ شہادت کا استعمال شرط نہیں ہے مگر ایک شخص کی گواہی اسی صورت میں معتبر ہوگی جب کہ مطلع ابرو غبار آلود ہو اگر عید کی چاند رات کو ابرو غبار ہو تو پھر دو مرد یا ایک مرد اور دو عادل و آزاد عورتوں کی شہادت ہی معتبر ہوگی نیز یہ کہ اس موقع پر لفظ شہادت کا استعمال بھی شرط ہوگا پھر موقع و محل کے پیش نظر شہادت کی صورت بھی بدلتی رہتی ہے۔ مطلع صاف ہو تو جماعت کثیرہ کی شہادت ضروری ہوگی۔

【10】

شہادت ہلال

حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ ایک مرتبہ چاند دیکھنے کے لئے لوگ جمع ہوئے چناچہ میں نے رسول کریم ﷺ کو بتایا کہ میں نے چاند دیکھا ہے آپ ﷺ نے روزہ رکھ لیا اور دوسرے لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ( ابوداؤد، نسائی)

【11】

آنحضرت ﷺ شعبان کے دنوں کو بڑی احتیاط سے شمار کرتے تھے

ام المومنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ شعبان کے دنوں کو اس قدر احتیاط سے شمار کرتے تھے کہ اور کسی مہینے پر اتنی توجہ مبذول نہیں فرماتے تھے۔ پھر آپ ﷺ رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھتے، اگر انتیس تاریخ کو مطلع ابر آلود ہوتا اور چاند کی رویت ثابت نہ ہوتی تو تیس دن پورے کرنے کے بعد روزہ شروع کرتے تھے۔ (ابو داؤد) تشریح آپ ﷺ کا معمول تھا کہ شعبان کے مہینے پر آپ ﷺ کی خاص توجہ رہتی تھی اور اس کے دنوں کو بڑی احتیاط اور محافظت کے ساتھ شمار کرتے رہتے تھے تاکہ رمضان کے چاند کے بارے میں کوئی خربطہ پیدا نہ ہو، شعبان کے علاوہ اور کسی مہینے پر آپ ﷺ کی اس قدر توجہ مبذول نہیں ہوتی تھی کیونکہ کسی دوسرے مہینے سے کوئی شرع امر متعلق نہیں تھا البتہ حج کا مہینہ ایسا ہوتا تھا جس سے ایک شرع فریضہ متعلق تھا سو وہ نادر ہے کہ نہ تو اس کا تعلق ہر شخص سے اور نہ ہر سال فرض ہے۔

【12】

چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہئے

حضرت ابوالبختری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ عمرہ کرنے کی غرض سے اپنے شہر کوفہ سے نکلے جب ہم لوگ بطن نخلہ میں جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے ٹھہرے تو چاند دیکھنے کے لئے ایک جگہ جمع ہوئے چاند دیکھنے کے بعد بعض لوگوں نے کہا کہ یہ چاند تیسری شب کا ہے اور دوسرے بعض لوگوں نے کہا کہ دوسری شب کا ہے اس کے بعد جب ابن عباس (رض) سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے اس سے لوگوں کا بیان عرض کیا تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ تم نے چاند کس رات دیکھا تھا ؟ ہم نے کہا کہ ایسی اور ایسی رات (یعنی مثلا پیر یا منگل کی رات) میں دیکھا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے رمضان کی مدت کو چاند دیکھنے پر موقوف کیا ہے (یعنی جب چاند دیکھا جائے گا تو رمضان کی ابتداء ہوگی) لہٰذا چاند اسی رات کا ہے کہ جس رات میں تم نے اسے دیکھا ہے۔ ابوالبختری ہی کی ایک روایت یوں ہے کہ ہم نے ذات عرق میں کہ جو مذکورہ بالا بطن نخلہ کے قریب ایک مقام ہے چاند دیکھا، چناچہ ہم نے ایک شخص کو حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں ان سے یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ یہ چاند کس رات کا ہے ؟ کیونکہ ہمارے درمیان مذکورہ بالا اختلاف پیدا ہوگیا تھا حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شعبان کی مدت کو رمضان کا چاند دیکھنے کے وقت تک دراز کیا ہے۔ لہٰذا اگر انتیس تاریخ کو مطلع ابر آلود ہو تو گنتی پوری کرو۔ (یعنی شعبان کے تیس دن پورے کرو) اور اس کے بعد روزہ رکھو۔ (مسلم) تشریح حاصل یہ ہے کہ رمضان کا مدار چاند دیکھنے پر ہے چاند کے بڑا ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ منقول ہے کہ چاند رات میں چاند کا بڑا ہونا قرب قیامت کی علامت ہے۔ یہاں جو روایتیں نقل کی گئی ہیں۔ وہ اگرچہ بظاہر مختلف معلوم ہوتی ہیں مگر درحقیقت اس احتمال کے پیش نظر ان میں کوئی منافات نہیں ہے کہ ان لوگوں نے ذات عرق میں جمع ہو کر چاند دیکھا ہو پھر ان میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں ایک آدمی حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں بھیجا گیا ہو۔ انہوں نے اس وقت آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل فرما دیا پھر جب سب لوگ بطن نخلہ میں پہنچے تو اس بارے میں حضرت ابن عباس (رض) سے بالمشافہ سوال کیا چناچہ حضرت ابن عباس (رض) نے انہیں آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کی روشنی میں مذکورہ بالا جواب دیا، چاند دیکھنے کے بارے میں کچھ مسائل ذہن نشین کرلیجئے۔ اگر شعبان کی تیس تاریخ کو دن میں زوال سے پہلے یا زوال کے بعد چاند نظر آئے تو وہ شب آئندہ کا چاند سمجھا جائے گا لہٰذا اس دن نہ رمضان کی ابتداء کا حکم دیا جائے گا۔ اور نہ اس دن روزہ رکھنے کے لئے کہا جائے گا اسی طرح اگر رمضان کی تیس تاریخ کو چاند نظر آئے تو نہ اس دن روزہ افطار کیا جائے گا اور نہ اس دن کو یوم عید قرار دیا جائے گا۔ شعبان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرنا واجب علی الکفایہ ہے۔ اگر کسی ایک جگہ چاند کی رویت ثابت ہوجائے تو تمام جگہوں کے لوگوں کو اگلے روز روزہ رکھنا واجب ہوگا اس سلسلے میں اختلاف مطالع کا اعتبار نہ ہوگا۔ مثلا اگر دہلی میں جمعہ کی شب میں چاند کی رویت ہوجائے اور دوسرے شہروں میں ہفتہ کی شب میں چاند دیکھا جائے تو ہفتہ کی شب میں چاند دیکھنے کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ تمام شہروں میں دہلی کی رویت معتبر ہوگی اور سب جگہ جمعہ کے روز سے روزہ رکھنا لازم ہوگا۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کی ظاہری روایت یہی ہے اور حنفیہ کے جمہور علماء کا اسی پر اعتماد و فتویٰ ہے جب کہ امام شافع اور امام احمد کے مسلک میں اختلاف مطالع کا اعتبار ہے ان حضرات کے ہاں ایک شہر والوں کا چاند دیکھنا دوسرے شہر والوں کے لئے کافی نہیں ہے۔ جس شخص نے رمضان کا چاند دیکھا ہو اور اس کی شہادت و خبر کسی وجہ سے قابل قبول نہ ہو تو خود اس کو اپنی رویت کے مطابق روزہ رکھنا چاہیے اگر وہ خود بھی روزہ نہیں رکھے گا تو اس پر قضا لازم آئے گی۔

【13】

سحری کھانے کا حکم

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے لئے سحر کے وقت کچھ نہ کچھ کھا لینا چاہئے چناچہ ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ سحری کھاؤ چاہے وہ ایک گھونٹ پانی ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو، یہ حکم وجوب کے طور پر نہیں ہے بلکہ بطور استحباب ہے۔ سحر رات کے آخری حصے کو کہتے ہیں سحور سین کے زبر کے ساتھ اسم ہے یعنی سحور طعام سحر کو کہتے ہیں اور سین کے پیش کے ساتھ مصدر ہے جس کے معنی ہیں سحر کے وقت کھانا یہاں اس روایت میں یہ لفظ سحور اسم نقل کیا گیا ہے چناچہ محدثین کے نزدیک روایت محفوظ میں یہ لفظ یوں ہی ہے البتہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ بہتر اور مناسب سحور مصدر ہی ہے کیونکہ حدیث کے مفہوم کے پیش نظر برکت کا تعلق فعل یعنی سحر کے وقت کھانے سے ہے نہ کہ اس کا تعلق اسم یعنی طعام سے ہے۔ برکت سے مراد یہ ہے کہ سحری کھانا چونکہ در اصل سنت نبوی پر عمل کرنا ہے اس لئے اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اجر عظیم حاصل ہوتا ہے بلکہ روزہ رکھنے کی قوت بھی آتی ہے۔

【14】

سحر کے وقت کھانا اہل ایمان اور اہل کتاب کے درمیان ایک امتیاز ہے

حضرت عمر وبن العاص (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ہمارے روزے اور اہل کتاب (یعنی یہود و نصاری) کے روزے کے درمیان فرق سحری کھانا ہے۔ (مسلم) تشریح اہل کتاب کے ہاں رات میں سو رہنے کے بعد کھانا حرام تھا اسی طرح مسلمانوں کے ہاں بھی ابتداء اسلام میں یہی حکم تھا مگر بعد میں مباح ہوگیا لہٰذا سحری کھانے سے اہل کتاب کی مخالفت لازم آتی ہے جو اس عظیم نعمت کی شکر گزاری کا ایک ذریعہ ہے۔

【15】

افطار میں جلدی بھلائی ہے

حضرت سہل (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے بھلائی کے ساتھ رہیں گے۔ (بخاری مسلم) تشریح افطار میں جلدی کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب کے غروب ہوجانے کے بعد افطار میں دیر نہ لگائی جائے، شہروں میں غروب آفتاب کی علامت یہ ہے کہ مشرق کی جانب سیاہی بلند ہوجائے یعنی جہاں سے صبح صادق شروع ہوتی ہے وہاں تک پہنچ جائے تو آسمان کے بیچوں بیچ سیا ہی کا پہنچنا شرط نہیں ہے۔ غروب آفتاب کے بعد افطار میں جلدی کرنے سے اہل کتاب کی مخالفت بھی ہوتی ہے کیونکہ وہ افطار میں اس وقت تک تاخیر کرتے ہیں جب کہ ستارے خوب اچھی طرح نہیں نکل آتے مسلمانوں میں اہل بدعت یعنی روافض کے یہاں بھی اسی پر عمل ہے لہٰذا ان کی مخالفت بھی ہوجاتی ہے۔ صحیح احادیث کے بموجب مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے افطار کرنا سنت ہے۔

【16】

افطار کا وقت

حضرت عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب ادھر سے رات آئے (یعنی مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہو) اور ادھر (مغرب) دن جائے اور سورج (پورا) ڈوب جائے تو سمجھو کہ روزہ دار نے افطار کیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح وغربت الشمس (اور سورج ڈوب جائے) دراصل اپنے ماقبل کے جملوں کی تاکید کے طور پر استعمال فرمایا گیا حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ جب افطار کا وقت ہوگیا تو گویا روزہ دار نے افطار کرلیا چاہے اس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس جملے کا معنی یہ ہے کہ روزہ دار افطار کے وقت میں داخل ہوگیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس جملے کے معنی مراد ہوں کہ جب مذکورہ وقت آجائے تو روزہ کو افطار کرلینا چاہئے۔

【17】

روزہ پر روزہ رکھنے کا مسئلہ

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے روزہ پر روزہ پر رکھنے سے منع فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ تو روزہ پر روزہ رکھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے کون شخص میری طرح ہے، میں تو اس طرح رات گزارتا ہوں میرا پروردگار کھلاتا ہے اور میری پیاس بجھاتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح روزہ پر روزہ، کا مطلب یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد روزے اس طرح مسلسل رکھے جائیں کہ درمیان میں افطار نہ ہو روزہ پر روزہ رکھنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ ضعف کا سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے دوسری عبادات و طاعات میں نقصان و حرج واقع ہوتا ہے۔ اس مسئلہ میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ آیا آنحضرت ﷺ کے علاوہ اور لوگوں کے لئے روزہ پر روزہ رکھنا جائز ہے یا حرام اور مکروہ ؟ چناچہ بعض حضرات تو اس شخص کے لئے جواز کے قائل ہیں جو اس پر قادر ہو، یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس صورت میں حدیث بالا میں مذکورہ ممانعت صرف رحمت و شفقت کے طور پر ہے ان کی دلیل حضرت عائشہ (رض) کی یہ روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو وصال یعنی روزہ پر روزہ رکھنے سے ان پر رحمت و شفقت کے پیش نظر منع فرمایا ہے۔ نیز بعض صحابہ مثلا حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) وغیرہ اور بعض تابعین مثلا حضرت عبداللہ بن معمر، عامر بن عبداللہ بن زبیر اور حضرت ابراہیم تیمی رحمھما اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ یہ حضرات روزہ پر روزہ رکھتے تھے۔ اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک اور امام شافعی رحمھما اللہ نے اسے مکروہ کہا ہے اگرچہ اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی ؟ زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ مکروہ تحریمی ہے جمہور علماء کا کہنا یہ ہے کہ روزہ پر روزہ رکھنا آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے ہے اور حدیث کے ظاہر مفہوم سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اس بنا پر اہل سلوک کہ جو ریاضت و مجاہدہ اور نفس کشی کا زیادہ شوق اور ذوق رکھتے ہیں ایک چلو پانی سے ہر روزہ کا افطار کرلیا کرتے تھے تاکہ روزہ پر روزہ رکھنے کا اطلاق نہ ہو سکے۔ یطعمنی ربی ویسقینی کی مراد کے بارے میں کئی اقوال ہیں مختار اور زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس سے ظاہری کھلانا پلانا مراد نہیں ہے آپ ﷺ غذائے جسمانی سے قطعا مستغنی تھے اور جب دنیاوی طور پر محبت مجازی اور مسرت حسی میں اس کا تجربہ ہے تو محبت حقیقی اور مسرت معنوی کا کیا کہنا کہ اس کی وجہ سے علائق دنیا سے جتنا بھی استغنا ہو کم ہے۔

【18】

روزہ کی نیت کب کی جائے

حضرت حفصہ (رض) راویہ ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص روزے کی نیت فجر سے پہلے نہ کرے تو اس کا روزہ کامل نہیں ہوتا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور امام ابوداؤد فرماتے ہیں معمر، زبیدی ابن عیینہ اور یونس ایلی ان تمام نے اس روایت کو زہری سے نقل کیا ہے اور حضرت حفصہ (رض) پر موقوف کیا ہے یعنی اس حدیث کو حضرت حفصہ (رض) عناہ کا قول کہا ہے۔ تشریح اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر روزہ کی نیت رات ہی سے نہ کی جائے تو روزہ درست نہیں ہوتا خواہ روزہ فرض ہو یا واجب ہو یا نفل۔ لیکن اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چناچہ حضرت امام مالک (رح) کا تو یہی مسلک ہے کہ روزہ میں نیت رات ہی سے کرنی شرط ہے خواہ روزہ کسی نوعیت کا ہو، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا بھی یہی قول ہے لیکن نفل کے معاملے میں ان دونوں کے یہاں اتنا فرق ہے کہ اگر روزہ نفل ہو تو امام احمد کے ہاں زوال سے پہلے بھی نیت کی جاسکتی ہے اور امام شافعی کے نزدیک آفتاب غروب ہونے سے پہلے تک بھی نیت کر لینی جائز ہے۔ حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ رمضان نفل اور نذر معین کے روزہ میں آدھے دن شرعی یعنی زوال آفتاب سے پہلے پہلے نیت کر لینی جائز ہے لیکن قضاء کفارہ اور نذر مطلق میں حنفیہ کے یہاں بھی رات ہی سے نیت کرنی شرط ہے ان تمام حضرات کی دلیلیں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔

【19】

سحری کا آخری وقت ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اگر تم میں سے کوئی شخص (فجر کی) اذان سنے اور اس کے ہاتھوں میں برتن ہو (کہ جس سے وہ پینے یا کچھ کھانے کا ارادہ رکھتا ہو تو) برتن رکھ نہ دے بلکہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔ (ابو داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر سحر کے وقت کوئی شخص کھانا پینا چاہتا ہو مگر فجر کی اذان شروع ہوگئی تو وہ محض اذان کی آواز سن کر اپنا کھانا نہ چھوڑ دے لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ حکم اس صورت کے لئے ہے جب کہ یہ یقین یا گمان غالب ہو کہ صبح نہیں ہوئی اور سحر کا وقت باقی ہے اور اگر اس بات کا یقین یا گمان غالب ہو کہ صبح ہوگئی ہے اور سحر کا وقت باقی نہیں رہا ہے تو پھر کھانا پینا نہ چھوڑ دینا چاہئے ابن مالک فرماتے ہیں کہ اگر طلوع صبح کا علم نہ ہو تو کھانا پینا موقوف نہ کرے اور اگر یہ معلوم ہو کہ صبح طلوع ہوگئی ہے یا طلوع صبح کا شک بھی ہو تو کھانا پینا چھوڑ دے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکور اذان سے مراد مغرب کی اذان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اذان سن کر کھانا پینا چھوڑ دینا مسنون ہے مگر افطار کے وقت اگر کوئی شخص مغرب کی اذان سنے اور وہ کچھ پی رہا ہو تو اس صورت میں پینا نہ چھوڑے بلکہ پہلے پی لے پھر نماز کے لئے جائے۔

【20】

وقت ہوجانے پر افطار میں جلدی کرنے کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرے بندوں میں سب سے زیادہ پیارا وہ بندہ ہے جو وقت ہوجانے پر افطار میں جلدی کرے۔ (ترمذی) تشریح جلد افطار کرنے والے کو اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہونے کی فضیلت اس لئے حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعے نہ صرف یہ کہ سنت کی اتباع کرنا بلکہ اہل کتاب اور روافض کی مخالفت بھی کرتا ہے۔

【21】

کھجور اور پانی سے افطار باعث برکت ہے

حضرت سلمان بن عامر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے جو شخص روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ وہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ کھجور باعث برکت ہے اور اگر کوئی شخص کھجور نہ پائے تو پانی سے افطار کرے کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے اس روایت کو احمد و ترمذی و ابن ماجہ و دارمی نے نقل کیا ہے مگر لفط فانہ برکۃ ترمذی کے علاوہ کسی اور نے ذکر نہیں کیا ہے۔ تشریح کھجور اور پانی سے افطار کرنے کا حکم استحباب کے طور پر ہے اور کھجور سے افطار کرنے میں بظاہر حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت معدہ خالی ہوتا ہے اور کھانے کی خواہش پوری طرح ہوتی تو اس صورت میں جو چیز کھائی جاتی ہے اسے معدہ اچھی طرح قبول کرتا ہے لہٰذا ایسی حالت میں جب شیرینی معدہ میں پہنچتی ہے تو بدن کو بہت زیادہ فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ شیرینی کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے قوائے جسمانی میں قوت جلدی سرایت کرتی ہے خصوصا قوت باصرہ کو شیرینی سے بہت فائدہ پہنچتا ہے اور چونکہ عرب میں شیرینی اکثر کھجور ہی کی ہوتی ہے اور اہل عرب کے مزاج اس سے بہت زیادہ مانوس ہیں اس لئے کھجور سے افطار کرنے کے لئے فرمایا گیا کھجور نہ پانے کی صورت میں پانی سے افطار کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے کیونکہ یہ ظاہر و باطنی طہارت و پاکیزگی کے لئے فال نیک ہے۔

【22】

آنحضرت ﷺ کی افطاری

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نماز مغرب سے پہلے چند تازہ کھجوروں سے افطار فرمایا کرتے تھے اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ ہوتیں تو چند یعنی تین چلو پانی پی لیتے (ترمذی، ابوداؤد اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تشریح ایک روایت میں جو ابویعلیٰ سے منقول ہے یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ تین کھجوروں سے یا کسی ایسی چیز سے جو آگ کی پکی ہوئی نہ ہوتی تھی۔ روزہ کھولنا پسند فرماتے تھے۔ بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ مکہ مکرمہ میں مقیم لوگوں کے لئے یہ مسنون ہے کہ وہ کھجوروں سے پہلے آب زمزم پی کر روزہ افطار کریں یا ان دونوں کو ملا کر ان سے روزہ افطار کریں تو یہ بالکل غلط بلکہ اتباع سنت نبوی کے بھی خلاف ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ میں بہت دنوں تک مقیم رہے مگر آپ ﷺ سے ایسا کوئی عمل منقول نہیں ہے۔

【23】

روزہ افطار کرانے والے کو روزہ دار جیسا ثواب ملتا ہے

حضرت زید بن خالد (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص روزہ دار کو افطار کراتا ہے یا کسی غازی کا سامان درست کرتا ہے تو اس کو اسی کے ثواب جیسا ثواب ملتا ہے اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے نیز محی السنۃ نے بھی اسے شرح السنہ میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ روزہ دار کو اس کے روزے کی وجہ سے اور غازی کو اس کے جہاد کا جیسا ثواب ملتا ہے ویسا ہی ثواب کسی کو روزہ افطار کرانے والے اور کسی مجاہد کا سامان جہاد درست کرنے والے کو بھی ملتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعے ایک نیک کام میں مددگار ہوتا ہے۔

【24】

افطار پر ارشاد گرامی

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ افطار کرتے تو یہ فرماتے۔ پیاس چلی گئی رگیں تر ہوگئیں اور اللہ نے چاہا تو ثواب ثابت ہوگیا۔ (ابو داؤد) تشریح اس ارشاد گرامی میں امت کے لئے عبادات کی ترغیب ہے کہ عبادات میں مشقت تو بہت تھوڑی ہے کیونکہ وہ ختم ہوجاتی ہے مگر اجر وثواب زیادہ ہے اس لئے کہ وہ باقی و ثابت رہنے والا ہے۔

【25】

افطار کی دعا

حضرت معاذ بن زہرہ (تابعی) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب افطار کرتے تو یہ فرماتے۔ اے اللہ میں نے تیرے ہی لئے روزہ رکھا اور اب تیرے ہی رزق سے افطار کرتا ہوں۔ (اس روایت کو ابوداؤد نے بطریق ارسال نقل کیا ہے) تشریح ابن ملک کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ یہ دعا افطار کے بعد پڑھا کرتے تھے اس دعا میں ولک صمت کے بعد یہ الفاظ و بک آمنت و علیک توکلت عام طور سے پڑھے جاتے ہیں یہ الفاظ اگرچہ حدیث سے ثابت نہیں ہیں مگر معنی کے اعتبار سے صحیح ہیں ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ روزہ دار افطار کے وقت جو دعا مانگتا ہے وہ رد نہیں کی جاتی بلکہ قبول ہوتی ہے افطار کے وقت آپ ﷺ سے یہ پڑھنا بھی منقول ہے یا واسع الفضل اغفرلی نیز یہ بھی منقول ہے کہ آپ ﷺ یہ بھی پڑھا کرتے تھے۔ الحمدللہ الذی اعاننی فصمت و رزقنی فافطرت۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے میری مدد کی کہ میں نے روزہ رکھا اور مجھے رزق عطا فرمایا کہ میں نے افطار کیا۔

【26】

جلدی افطار کرنے کا ثمرہ

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ دین اسلام ہمیشہ غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ افطار میں دیر کرتے ہیں۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ) تشریح جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہود و نصاریٰ افطار میں اتنی تاخیر کرتے ہیں کہ ستارے گنجان یعنی پوری طرح نکل آتے ہیں اور اس زمانہ میں روافض بھی ان کی پیروی کرتے ہیں لہٰذا وقت ہوجانے پر جلدی افطار کرنے میں اہل باطل کی مخالفت ہوتی ہے اور دین کا غلبہ اور دین کی شوکت ظاہر ہوتی ہے یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دین کے دشمنوں کی مخالفت دین کی مضبوطی اور غلبہ کا باعث ہے اور ان کی موافقت دین کے نقصان کا ذریعہ ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے آیت (یا ایہا الذی امنوا لاتتخذوا الیہود و النصاریٰ اولیاء بعضہم اولیاء بعض ومن یتولہم منکم فانہ منہم) ۔ اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ ان میں سے بعض بعض لوگوں کے دوست ہیں تم میں سے جو شخص ان سے دوستی کرے گا وہ ان ہی میں سے ہوگا۔

【27】

جلدی افطار کرنا مسنون ہے

حضرت ابوعطیہ (رض) کہتے ہیں کہ میں اور مسروق دونوں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے ام المومنین ! آنحضرت ﷺ کے صحابہ (رض) میں دو اشخاص ہیں ان میں سے ایک صاحب تو جلدی افطار کرتے ہیں اور جلدی نماز پڑھتے ہیں دوسرے صاحب دیر کر کے افطار کرتے ہیں دیر کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا کہ جلدی افطار کرنے والے اور نماز پڑھنے والے کون صاحب ہیں ؟ ہم نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کا یہی معمول تھا اور دوسرے صاحب جو افطار میں اور نماز میں دیر کرتے تھے حضرت ابوموسیٰ (رض) تھے۔ (مسلم) تشریح حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بڑے اونچے درجے کے عالم اور فقیہ تھے اس لئے انہوں نے سنت کے مطابق عمل کیا۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) بھی بڑے جلیل القدر صحابی تھے۔ ان کا عمل بیان جواز کی خاطر تھا یا انہیں کوئی عذر لاحق ہوگا یہ بھی احتمال ہے کہ وہ ایسا کبھی کبھی (کسی مصلحت و مجبوری کی خاطر) کرتے ہوں گے۔

【28】

سحری رکت ہے

حضرت عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے رمضان میں سحری کھانے کے لئے بلایا اور فرمایا کہ بابرکت کھانے کے لئے آؤ۔ (ابو داؤد، نسائی)

【29】

بہترین سحری

ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ مومن کے لئے سحری کا بہترین کھانا کھجور ہے۔ ( ابوداؤد )