42. روزہ کو پاک کرنے کا بیان

【1】

روزہ کو پاک کرنے کا بیان

اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ کن چیزوں سے روزہ جاتا رہتا ہے اور کن چیزوں سے روزہ کا ثواب باطل ہوجاتا ہے نیز یہ کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جن سے روزہ کا ثواب کم ہوجاتا ہے لہٰذا ان تمام چیزوں سے اجتناب اور پرہیز ضروری ہے جس نے روزہ پر کسی بھی حیثیت سے اثر پڑتا ہو۔ اگرچہ روزہ کے مفسدات وغیرہ آئندہ صفحات میں مذکور احادیث کے ضمن میں متفرق طور پر آئیں گے لیکن مناسب معلوم ہوا کہ اس موقع پر ایسے تمام مسائل یکجا طور پر فقہ کی معتبر کتابوں کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دئیے جائیں تاکہ قارئین کو فائدہ اور آسانی ہو اس لئے امداد الفتاح شرح نور الایضاح سے ماخوذ مسائل یہاں نقل کئے جاتے ہیں، یہ کتاب عرب میں بھی معتبر اور مروج ہے نیز اس کتاب میں یہ مسائل بڑی ترتیب کے ساتھ مذکور ہیں بعض مسائل درمختار سے بھی اخذ کئے گئے۔

【2】

وہ چیزیں جن سے روزہ فاسد نہیں ہوتا

کسی شخص کو روزے کا خیال نہ رہا اور اس وجہ سے اس نے کچھ کھا پی لیا یا جماع کرلیا تو روزہ فاسد نہیں ہوگا، خواہ روزہ فرض ہو یا نفل کسی شخص نے بھول کر جماع شروع کیا پھر فورا ہی یاد آگیا کہ روزہ دار ہوں تو اگر اس نے یاد آتے ہی فورا اپنا عضو مخصوص شرمگاہ سے باہر نکال لیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اور اگر نہ نکالا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اس صورت میں اس روزے کی قضا لازم ہوگی کفارہ ضروری نہیں ہوگا مگر بعض حضرات کہتے ہیں کہ کفارہ کا ضروری نہ ہونا اس صورت سے متعلق ہے جب کہ اپنے بدن کو حرکت نہ دے یعنی یاد آجانے کے بعد دھکا نہ لگائے۔ جس سے کہ انزال ہوجائے کیونکہ اگر دھکا لگائے تو کفارہ لازم ہوگا جیسا کہ اگر کوئی شخص یاد آجانے کے بعد عضو مخصوص باہر نکال کر پھر داخل کرے تو اس پر کفارہ لازم ہوگا اگر کوئی شخص طلوع فجر سے پہلے قصدا جماع میں مشغول ہوگیا اور اسی دوران فجر طلوع ہوگئی تو اسے فورا علیحدہ ہوجانا ضروری ہوگا اگر نہ صرف یہ کہ فورا علیحدہ نہ ہو بلکہ بدن کو حرکت بھی دے تو اس صورت میں کفارہ لازم ہوگا۔ ہاں بدن کو حرکت نہ دے اور علیحدہ بھی نہ ہو تو صرف روزہ فاسد ہوجائے اگر کوئی شخص طلوع فجر کے خوف سے جماع سے علیحدہ ہوجائے اور پھر طلوع فجر کے بعد جماع سے علیحدہ ہوجانے کی صورت میں انزال ہوجائے تو اس سے روزہ پر اثر نہیں پڑے گا۔ اگر کوئی شخص بھول کر کچھ کھا پی رہا ہو تو دوسرے لوگوں کو اسے یاد دلانا چاہئے کیونکہ ایسی حالت میں اسے یاد نہ دلانا مکروہ ہے بشرطیکہ اس شخص میں روزہ رکھنے کی قوت ہو اور وہ بغیر کسی مشقت کے رات تک اپنا روزہ پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہو اگر کوئی شخص اسے یاد دلا دے اور پھر بھی اسے یاد نہ آئے اور وہ کھا پی لے تو اس صورت میں اس پر قضا لازم ہوگی اگر اس شخص میں روزہ رکھنے کی قوت نہ ہو تو اسے یاد نہ دلانا ہی اولیٰ ہے۔ عورت کی شرمگاہ کی طرف نظر ڈالنے کی وجہ سے انزال ہونے کی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ جانور کے ساتھ فعل بد کرنے سے انزال ہوجانے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ؟ چناچہ بعض حضرات کے نزدیک تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ روزہ نہیں ٹوٹتا، ہاں اگر انزال نہ ہو تو متفقہ طور پر مسئلہ یہ ہے کہ صرف فعل بد کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ جلق کے ذریعے انزال ہوجانے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضا لازم آتی ہے کفارہ ضروری نہیں ہوتا اس بارے میں یہ بات جان لینی ضروری ہے کہ یہ فعل قبیح (جلق) غیر رمضان میں بھی حلال نہیں ہے جب کہ اسے قضاء شہوت مقصود ہو ہاں اگر تسکین شہوت مقصود ہو تو پھر امید ہے کہ اس صورت میں کوئی وبال نہیں ہوگا یعنی اگر کوئی شخص محض لذت حاصل کرنے کے لئے اس فعل میں مبتلا ہو تو اس کے لئے یہ قطعا حلال نہیں ہے اور اگر اضطراب و بیقراری کی یہ حالت ہو کہ اس فعل کے ذریعے منی خارج نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہوجانے کا خوف ہو اور وہ جلق کرے تو پھر امید ہے کہ وہ گنہگار نہ ہو لیکن اس پر مداومت بہر صورت گناہ کا باعث ہے۔ کسی عورت کا تصور کرنے سے انزال ہوجائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اسی طرح دو عورتوں کا آپس میں فعل بد کرنا جیسے چپٹی لگانا بھی کہا جاتا ہے روزہ کو نہیں توڑتا بشرطیکہ انزال نہ ہو اگر انزال ہوگا تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم آئے گی تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ مسامات کے ذریعے کسی چیز کا بدن میں داخل ہونا روزے کے منافی نہیں ہے یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص نہائے اور اس کے جگر کو ٹھنڈک پہنچے اسی طرح سرمہ لگانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا، اگرچہ اس کا مزہ حلق میں محسوس ہو یا اس کا رنگ رینٹ اور تھوک میں ظاہر ہو کیونکہ آنکھ اور دماغ کے درمیان کوئی نہیں ہے اسی لئے آنکھوں سے آنسو بھی ٹپک کر نکلتے ہیں جیسا کہ کسی چیز کا عرق کشید ہوتا ہے اور یہ بتایا ہی جا چکا ہے کہ جو چیز مسامات کے ذریعے بدن میں داخل ہوتی ہے وہ روزہ کے منافی نہیں ہے پھر یہ کہ سرمہ کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) کی یہ روایت منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ روزہ کی حالت میں سرمہ لگایا کرتے تھے اسی طرح اگر آنکھ میں دوا یا دودھ تیل کے ساتھ ڈالا جائے اور اس کا مزہ یا اس کی تلخی حلق میں محسوس ہو تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اگر کوئی شخص کوئی چیز یعنی روئی وغیرہ نگل جائے درآنحالیکہ وہ کسی ڈورے میں بندھی ہو اور ڈورہ اس کے ہاتھ میں ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا جب تک وہ ڈورے سے کھل کر پیٹ میں نہ گرجائے اگر ڈورے سے کھل کر گرپڑے گی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر کوئی حلق میں لکڑی یا اسی کی مانند کوئی اور چیز داخل کرے اور اس کا دوسرا سرا اس کے ہاتھ میں ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی انگلی مقعد میں داخل کرے یا کوئی عورت اپنی شرمگاہ میں داخل کرے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ ہاں اگر انگلی پانی یا تیل سے تر ہوگی تو ٹوٹ جائے گا۔ سینگی اور غیبت سے روزہ فاسد نہیں ہوتا البتہ روزہ کا ثواب جاتا رہتا ہے محض افطار کی نیت کرنے سے جب کہ کچھ کھائے پئے نہیں روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کسی شخص کے حلق میں بےقصد و بےاختیار دھواں چلا جائے تو روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ اس سے بچنا قطعا ناممکن ہے اگر کوئی شخص احتیاط کے پیش نظر ایسے موقعہ پر اپنا منہ بند بھی کرلے تو دھواں ناک کے ذریعے داخل ہوگا، لہٰذا یہ تری کی قسم سے ہے جو کلی کے بعد منہ میں باقی رہتی ہے اور جس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، ہاں اگر قصدا کوئی شخص اپنے حلق میں دھواں داخل کرے گا اور داخل کرنا کسی بھی صورت سے ہو تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا خواہ دھواں عنبر کا ہو یا اگر بتی کا یا ان کے علاوہ کسی بھی چیز کا لہٰذا اگر کوئی شخص خوشبو کی کوئی چیز جلا کر اس کا دھواں اپنی طرف لے گا اور اس کو سونگھے گا باوجودیکہ اسے یہ یاد ہو کہ میں روزہ دار ہوں تو اس کا روزہ فاسد ہوجائے گا کیونکہ اس کے لئے اس سے بچنا ممکن ہے اس مسئلہ سے اکثر لوگ غافل ہیں اس بارے میں احتیاط پیش نظر رہنی چاہئے یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ اس مسئلے کو مشک و گلاب اور دیگر خوشبو کے سونگھنے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ محض خوشبودار دھوئیں کے اس جوہر میں جو قصدا حلق میں داخل کیا جائے جو فرق ہے وہ سب ہی جانتے ہیں اسی طرح حقہ کے دھویں سے بھی روزہ جاتا رہتا ہے کیونکہ وہ قصدا کھینچا جاتا ہے اور اس سے نفس کو تسکین ہوتی ہے اور اکثر حالت میں بطور دوا استعمال کیا جاتا ہے۔ پسینہ اور آنسو حلق میں جانے سے روزہ پر اثر نہیں پڑتا جب کہ وہ تھوڑی مقدار میں ہوں ہاں اگر وہ زیادہ مقدار میں جائیں کہ جس سے حلق میں نمکینی محسوس ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا کسی خوشبو کی چیز مثلاً پھول و عطر وغیرہ سونگھنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کسی شخص کے حلق میں غبار یا چکی پیستے ہوئے آٹا یا مکھی جائے یا دوائیں کوٹتے ہوئے یا ان کی پڑیا باندھتے ہوئے اس میں سے کچھ اڑ کر حلق میں چلا جائے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا کیونکہ ان چیزوں سے بچنا ناممکن ہے۔ کوئی روزہ دار حالت جنابت میں صبح کو اٹھے تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا اگرچہ وہ پورے دن یا کئی دن تک اسی طرح رہے اور غسل پاکی نہ کرے البتہ نجس رہنے اور نماز وغیرہ پڑھنے کی وجہ سے ثواب سے محروم رہے گا۔ اگر کوئی شخص روزہ کی حالت میں اپنے عضو مخصوص کے سوراخ میں دوا یا تیل ڈالے یا اسی طرح سلائی وغیر داخل کرائے تو اگرچہ یہ چیزیں مثانہ تک پہنچ جائیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ کے قول کے مطابق روزہ فاسد نہیں ہوگا کیونکہ مثانہ نہ صرف یہ کہ جوف سے خارج ہے بلکہ مثانہ میں سے اندر کو راستہ نہیں ہے اسی لئے پیشاب بھی ٹپک کر نکلتا ہے البتہ امام ابویوسف کے نزدیک مذکورہ بالا صورت میں روزہ جاتا رہتا ہے ہاں اگر یہ چیزیں مثانہ تک نہ پہنچیں بلکہ عضو مخصوص کی اندرونی نالی تک ہی محدود رہیں تو تینوں حضرات کے نزدیک روزہ فاسد نہیں ہوتا۔ کوئی شخص پانی میں بیٹھ جائے اور پانی اس کے کان میں چلا جائے یا وہ تنکے سے اپنا کان کھجلائے اور تنکے پر کان کا میل ظاہر ہو اور پھر وہ اس تنکے کو کان میں ڈالے اور اس طرح کئی مرتبہ کرے تب بھی روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ کسی شخص کی ناک میں دماغ سے اتر کر بلغم آجائے اور وہ اس کو چڑھا جائے یا نگل جائے جیسا کہ اکثر بےتمیز اور کثیف الطبع لوگ کرتے ہیں تو روزہ نہیں ٹوٹتا، کسی کے منہ سے لعاب نکلے اور وہ منقطع نہ ہو بلکہ مثل تار کے لٹک کر ٹھوڑی تک پہنچ جائے اور پھر وہ اس لعاب کو اوپر کھینچ کر نگل جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا، ہاں اگر لعاب لٹکتا نہ بلکہ منقطع ہو کر گرجائے اور پھر وہ اسے منہ میں ڈال لے تو روزہ جاتا رہے گا، منہ بھر بلغم نگل جانے سے امام ابویوسف کے نزدیک روزہ جاتا رہتا ہے مگر امام اعظم کے نزدیک اس سے روزہ نہیں جاتا امام شافعی کے نزدیک جب کہ بلغم وغیرہ کے تھوک دینے پر قادر ہو اور اس کے باوجود نگل جائے تو روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔ بےاختیار قے ہوجانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا خواہ قے کسی قدر ہو منہ بھر کر یا اس سے زیادہ اسی طرح صورت میں بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا جب کہ آئی ہوئی قے بےاختیار خلق کے نیچے اتر جائے خواہ وہ کسی قدر ہو لیکن امام ابویوسف کے نزدیک اس صورت میں روزہ جاتا رہتا ہے ہاں اگر وہ قصدا نگل جائے اور منہ بھر کر ہو تو سب ہی کے نزدیک روزہ جاتا رہے گا البتہ کفارہ لازم نہیں آئے گا اور اگر منہ بھر کر نہیں ہوگی تو روزہ فاسد نہیں ہوگا اگر کوئی شخص قصدا قے کرے اور منہ بھر کر ہو تو متفقہ طور پر مسئلہ یہ ہے کہ روزہ جاتا رہے گا اور اگر منہ بھر کر نہ ہو تو امام ابویوسف کے نزدیک روزہ فاسد نہیں ہوگا اور صحیح یہی ہے حضرت امام محمد کا قول ہے کہ منہ بھر کر نہ ہونے کی صورت میں روزہ جاتا رہتا ہے۔ جو قے عمداً کی جائے اور منہ بھر کر نہ ہو اور وہ بےاختیار حلق کے نیچے اتر جائے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا، قصدا نگل جانے کے بارے میں دو قول ہیں صحیح قول یہ ہے کہ اس صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ کوئی چیز جو غذا وغیرہ کی قسم سے ہو اور رات میں دانتوں کے درمیان باقی رہ گئی ہو تو دن میں اسے نگل جانے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا بشرطیکہ وہ چنے کی مقدار سے کم ہو اور منہ سے باہر نکال کر نہ کھائی جائے، اسی طرح کسی کے دانتوں سے یا منہ کے کسی دوسرے اندرونی حصے سے خون نکلے اور حلق میں چلا جائے تو روزہ نہیں جاتا بشرطیکہ وہ پیٹ تک نہ پہنچے یا پیٹ میں پہنچ جائے مگر تھوک کے ساتھ مخلوط ہو کر اور تھوک سے کم اور اس کا مزہ حلق میں محسوس نہ ہو اگر خون پیٹ تک پہنچ جائے گا اور وہ تھوک پر غالب ہوگا یا تھوک کے برابر ہوگا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔ اگر کوئی شخص بقدر تل کوئی چیز باہر سے منہ میں ڈال کر چبائے اور وہ منہ میں پھیل بھی جائے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا بشرطیکہ حلق میں اس کا مزہ محسوس نہ ہو، ہاں اگر وہ چیز منہ میں پھیلے نہیں نیز اس کا مزہ حلق میں محسوس ہو یا یہ کہ بغیر چبائے ہی اس چیز کو نگل جائے اور حلق میں اس کا مزہ محسوس نہ ہو تب بھی روزہ ٹوٹ جائے گا اور اگر وہ چیز ان چیزوں میں سے ہوگی جن سے کفارہ لازم آتا ہے تو کفارہ ضروری ہوگا نہیں تو قضاء لازم آئے گی۔

【3】

وہ چیزیں جن سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے اور جن سے کفارہ اور قضا دونوں لازم آتے ہیں

سب سے پہلے یہ بات جان لینی ضروری ہے کہ روزہ فاسد ہوجانے کی صورت میں کفارہ کن لوگوں پر اور کن حالات میں لازم ہوگا۔ کفارہ اس وقت لازم ہوتا ہے جب کہ روزہ رکھنے والا مکلف یعنی عاقل و بالغ ہو، روزہ رمضان کا ہو اور رمضان ہی کے مہینے میں ہو یعنی رمضان کے قضاء روزوں میں بھی کفارہ لازم نہیں ہوتا، نیت رات ہی سے کئے ہوئے ہو اگر طلوع فجر کے بعد نیت کی ہوگی، تو روزہ توڑنے پر کفارہ لازم نہیں ہوگا، روزہ توڑنے کے بعد ایسا کوئی امر پیش نہ آئے جو کفارہ کو ساقط کردینے والا ہو جیسے حیض و نفاس، اگر روزہ توڑنے کے بعد ان میں سے کوئی چیز پیش نہ آئے جس سے کفارہ ساقط ہوجاتا ہے، جیسے سفر کہ اگر کوئی شخص سفر کی حالت میں روزہ توڑے گا تو کفارہ لازم نہیں آئے ہاں اگر کوئی شخص سفر سے پہلے روزہ توڑ دے گا تو کفارہ ساقط نہیں ہوتا۔ لہٰذا جب یہ تمام شرائط پائی جائیں گی اور مندرجہ ذیل مضرات صوم (روزہ کو توڑنے والی چیزوں) میں سے کوئی صورت پیش آئے گی تو کفارہ اور قضا دونوں لازم ہوں گے۔ اس کے بعد اب دیکھئے کہ وہ کون سی چیزیں اور صورتیں ہیں جن سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے اور جن کی وجہ سے کفارہ اور قضا دونوں لازم ہوتے ہیں۔ جماع کرنا، اغلام کرنا ان دونوں صورتوں میں فاعل اور مفعول دونوں پر کفارہ اور قضا لازم آتی ہے کھانا پینا خواہ بطور غذا یا بطور دوا۔ غذائیت کے معنی اور محمول میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ غذا کا محمول اس چیز پر ہوگا جس کو کھانے کے لئے طبیعت خواہش کرے اور اس کے کھانے سے پیٹ کی خواہش کا تقاضہ پورا ہوتا ہو۔ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ غذا کی چیز وہ کہلائے گی جس کے کھانے سے بدن کی اصلاح ہو اور بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ غذا انہیں چیزوں کو کہیں گے جو عادۃً کھائی جاتی ہو۔ لہٰذا اگر کوئی شخص بارش کا پانی، اولہ اور برف نگل جائے یا کچا گوشت کھائے خواہ وہ مردار ہی کا کیوں نہ ہو تو کفارہ لازم ہوگا اسی طرح چربی، خشک کیا ہوا گوشت اور گیہوں کھانے سے بھی کفارہ واجب ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر ایک آدھ گیہوں منہ میں ڈال کر چبایا جائے اور وہ منہ میں پھیل جائے تو کفارہ لازم نہیں ہوتا۔ اپنی بیوی یا محبوب کا تھوک نگل جانے سے بھی کفارہ واجب ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی طبیعت کی خواہش کا دخل ہوتا ہے۔ ہاں ان کے علاوہ دوسروں کا تھوک نگلنے کی صورت میں کفارہ واجب نہیں ہوتا، البتہ روزہ جاتا رہتا ہے اور قضا لازم آتی ہے نمک کو کم مقدار میں کھانے سے تو کفارہ لازم ہوتا ہے زیادہ مقدار میں کھانے سے نہیں۔ مستغنی میں اس قول کو روایت مختار کہا گیا لیکن خلاصہ اور بزاریہ میں لکھا ہے کہ مختار (یعنی قابل قبول اور لائق اعتماد) مسئلہ یہ ہے کہ مطلقاً نمک کھانے سے کفارہ واجب ہوتا ہے یعنی خواہ نمک زیادہ یا کم ہو۔ اگر بغیر بھنا جو کھایا جائے گا تو کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ کیونکہ کچا جو نہیں جاتا، لیکن یہ خشک جو کا مسئلہ ہے۔ اگر تازہ خوشہ میں سے جو نکال کر بغیر بھنا ہوا بھی کھایا جائے گا تو کفارہ لازم آئے گا۔ گل ارمنی کے علاوہ وہ مٹی مثلا ملتانی وغیرہ کھانے کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ عادۃً کھائی جاتی ہو تو اس پر بھی کفارہ لازم آئے گا اور اگر نہ کھائی جاتی ہو تو پھر کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ ایک حدیث ہے جس کے الفاظ ہیں الغیبۃ تفطر الصیام (غیبت روزہ کو ختم کردیتی ہے) بظاہر تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی روزہ دار غیبت کرے گا تو اس کا روزہ جاتا رہے گا لیکن علماء امت نے اجتماعی طریقے پر اس حدیث کی تاویل یہ کی ہے کہ حدیث کی مراد یہ نہیں ہے کہ غیبت کرنے سے روزہ جاتا رہتا ہے بلکہ اس کی مراد یہ ہے کہ جو روزہ دار غیبت میں مشغول ہوگا اس کے روزے کا ثواب جاتا رہے گا۔ حدیث اور اس کی تاویل ذہن میں رکھئے اور اب یہ مسئلہ سنئے کہ اگر کسی شخص نے کسی کی غیبت کی اور اس کے بعد قصدا کھانا کھالیا تو اس پر کفارہ لازم آئے گا خواہ اسے یہ حدیث معلوم ہو یا معلوم نہ ہو اور خواہ حدیث کی مذکورہ بالا تاویل اس کے علم میں ہو یا علم میں نہ ہو نیز یہ کہ مفتی نے کفارہ لازم ہونے کا فتویٰ دیا ہو یا نہ دیا ہو کیونکہ حدیث اور اس کی تاویل سے قطع نظر غیبت کے بعد روزہ کا ختم ہوجانا قطعا خلاف قیاس ہے۔ اسی طرح ایک حدیث ہے افطر الحاجم والمحجوم (پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے) اس حدیث کی بھی یہ تاویل کی گئی ہے کہ پچھنے لگوانے سے چونکہ روزہ دار کو کمزوری لاحق ہوجاتی ہے اور زیادہ خون نکلنے کی صورت میں روزہ توڑ دینے کا خوف ہوسکتا ہے اسی طرح پچھنے لگانے والے کے بارے میں بھی یہ امکان ہوتا ہے کہ خون کا کوئی قطرہ اس کے پیٹ میں پہنچ جائے۔ اس لئے آپ ﷺ نے احتیاط کے پیش نظر یہ فرمایا کہ روزہ جاتا رہتا ہے ورنہ حقیقت میں پچھنے لگانے یا لگوانے سے روزہ ٹوٹتا نہیں۔ حدیث الغیبہ تفطر الصیام کے برخلاف اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پچھنے لگانے یا لگوانے کے بعد اس حدیث کے پیش نظر اس گمان کے ساتھ کہ روزہ جاتا رہا ہے۔ قصدا کچھ کھا پی لے تو اس پر کفارہ صرف اسی صورت میں لازم آئے گا جب کہ وہ اس حدیث کی مذکورہ بالا تاویل سے جو جمہور علماء سے منقول ہے واقف ہو یا یہ کہ کسی فقیہ اور مفتی نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ پچھنے لگوانے یا لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ اس کا یہ فتویٰ حقیقت کے خلاف ہوگا اور اس کی ذمہ داری اسی پر ہوگی اور اگر اسے حدیث مذکور کی تاویل معلوم نہ ہوگی تو کفارہ لازم نہیں ہوگا الغیبۃ تفطر الصیام و افطر الحاجم والمحجوم دونوں حدیثوں کے احکام میں مذکورہ بالا فرق اس لئے ہے کہ غیب سے روزہ کا ٹوٹنا نہ صرف یہ کہ خلاف قیاس ہے بلکہ اس حدیث کی مذکورہ بالا تفریق تمام علماء امت کا اتفاق ہے جب کہ پچھنے سے روزہ کا ٹوٹ جانا نہ صرف یہ کہ خلاف قیاس نہیں ہے بلکہ اس حدیث کی مذکورہ بالا تفریق پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے کیونکہ بعض علماء مثلا امام اوزاعی وغیرہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پچھنے لگانے یا لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ایسے ہی کسی شخص نے شہوت کے ساتھ کسی عورت کو ہاتھ لگایا، یا کسی عورت کا بوسہ لیا، یا کسی عورت کے ساتھ ہم خواب ہوا، یا کسی عورت کے ساتھ بغیر انزال کے مباشرت فاحشہ کی یا سرمہ لگایا، یا فصد کھلوائی یا کسی جانور سے بدفعلی کی مگر انزال نہیں ہوا یا اپنی دبر میں انگلی داخل کی اور یہ گمان کر کے کہ روزہ جاتا رہے گا۔ اس نے قصدا کچھ کھا پی لیا تو اس صورت میں بھی کفارہ اسی وقت لازم ہوگا جب کہ کسی فقیہ یا مفتی نے مذکورہ بالا چیزوں کے بارے میں یہ فتویٰ دیا ہو کہ ان سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ اس کا یہ فتویٰ غلط اور حقیقت کے خلاف ہوگا اگر مفتی فتویٰ نہیں دے گا تو کفارہ لازم نہیں ہوگا کیونکہ مذکورہ بالا چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس عورت پر کفارہ واجب ہوگا جس نے روزہ کی حالت میں کسی ایسے مرد سے برضا ورغبت اور بخوشی جماع کرایا جو جماع کرنے پر مجبور کردیا گیا تھا چناچہ کفارہ صرف عورت پر واجب ہوگا اس مرد پر نہیں۔ کسی عورت نے یہ جانتے ہوئے کہ فجر طلوع ہوگئی ہے اسے اپنے خاوند سے چھپایا، چناچہ اس کے خاوند نے اس سے صحبت کرلی اور اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ فجر طلوع ہوگئی ہے تو اس صورت میں بھی صرف عورت پر کفارہ واجب ہوا اور مرد پر واجب نہیں ہوگا۔

【4】

جن چیزوں سے کفارہ لازم آتا ہے

ایک عورت نے قصدا کھانا کھایا یا برضاء ورغبت جماع کرایا اور اسی دن اس کے ایام شروع ہوگئے یا نفاس میں مبتلا ہوگئی تو اس کے ذمہ سے کفارہ ساقط ہوجائے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص اس دن کسی ایسے مرض اور ایسی تکلیف میں مبتلا ہوگیا جس میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے اور یہ کہ وہ مرض و تکلیف قدرتی ہو تو کفارہ ساقط ہوجائے گا۔ قدرتی کی قید اس لئے ہے کہ فرض کیجئے کسی شخص نے قصدا روزہ توڑ ڈالا اور پھر اپنے آپ کو اس طرح زخمی کرلیا کہ اس حالت میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے یا اپنے آپ کو چھت یا پہاڑ سے گرا لیا تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ تکلیف اور مرض اس کا خود اپنا پیدا کیا ہوا ہوگا۔ ایسی صورت میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ اس صورت میں کفارہ ساقط ہوجائے گا جب کہ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ کفارہ ساقط نہیں ہوگا اور کمال کے قول کے مطابق مختار اور زیادہ صحیح یہی ہے کہ کفارہ ساقط نہیں ہوتا۔ جمع العلوم میں منقول ہے کہ اگر کسی شخص نے زیادہ چلنے یا کوئی کام کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو تکلیف و مشقت میں مبتلا کیا یہاں تک کہ اسے بہت زیادہ اور شدید پیاس لگی اور اس نے روزہ توڑ ڈالا تو اس پر کفارہ لازم ہوگا لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ کفارہ لازم نہیں ہوگا اور اسی قول کو بقائی (رح) نے بھی اختیار کیا ہے جیسا کہ تاتار خانیہ میں منقول ہے۔

【5】

کفارہ کے مسائل

ایک روزے کے کفارے میں ایک غلام آزاد کرنا چاہئے خواہ وہ غلام کافر ہی کیوں نہ ہو۔ اگر دم استطاعت کے سبب غلام آزاد کرنا ممکن نہ ہو یا کسی جگہ غلام نہ ملتا ہو تو پھر دو مہینے یعنی پورے ساٹھ دن پے در پے روزے رکھنا واجب ہے، ان روزوں کا علی الاتصال اور ایسے دنوں میں رکھنا ضروری ہے جن میں عیدین کے دن اور ایام تشریق (ذی الحجہ کی گیارہ، بارہ، تیرہ تاریخیں) واقع نہ ہوں کیونکہ ان دنوں میں کسی بھی طرح کے روزے رکھنا منع ہیں، اگر درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے یا بلاعذ کسی دن کا روزہ فوت ہوجائے تو پھر نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا ناغہ سے پہلے جس قدر روزے ہوچکے ہوں گے ان کا کوئی حساب نہیں ہوگا ہاں اگر کسی عورت کو حیض آجائے اور اس سبب سے درمیان کے روزے ناغہ ہوجائیں تو کوئی مضائقہ نہیں مگر نفاس کی وجہ سے ناغہ ہوجانے کی صورت میں نئے سرے سے روزے شروع کئے جائیں گے۔ اور اگر مرض یا بڑھاپے کی وجہ سے ساٹھ روزے رکھنے کی بھی قدرت نہ ہو تو پھر ساٹھ محتاجوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا واجب ہے اس طرح کہ چاہے تو انہیں ایک ہی دن دو وقت یعنی صبح و شام کھلا دے چاہے دو دن صبح کے وقت یا دو دن شام کے وقت یا عشاء و سحر کے وقت کھلا دے مگر شرط یہ ہے کہ اول وقت جن محتاجوں کو کھانا کھلایا جائے تو دوسرے وقت بھی انہیں محتاجوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ چناچہ اگر کسی نے ایک وقت ساٹھ محتاجوں کو کھانا کھلا دیا اور پھر دوسرے وقت ان کے علاوہ دوسرے ساٹھ محتاجوں کو کھلایا تو یہ کافی نہیں بلکہ کفارہ اسی وقت ادا ہوگا جب کہ ان دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت کو پھر دوبارہ ایک وقت کا کھانا کھلائے ہاں اگر کوئی شخص ایک ہی محتاج کو مسلسل ساٹھ روز تک کھانا کھلائے یا مسلسل ساٹھ روز تک ہر روز نئے محتاج کو کھلائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس طرح کفارہ ادا ہوجائے گا، ایک بات اور اگر کوئی شخص ایک ہی روز ساٹھ یا ان سے کچھ کم محتاجوں کے کھانے کے بقدر صدقہ کسی ایک محتاج کو دے دے گا تو وہ سب کے لئے ادا نہیں ہوگا بلکہ ایک ہی محتاج کے لئے ادا ہوگا۔ ساٹھ محتاجوں کو کھانا کھلانے کے سلسلہ میں گیہوں کی روٹی بغیر سالن کے کافی ہوجاتی ہے یعنی اگر ساٹھ محتاجوں کو صرف گیہوں کی روٹی ہی بغیر سالن کے پیٹ بھر کر کھلا دی جائے تو حکم پورا ہوجائے گا، بخلاف جو کی روٹی کے کہ اس کے ساتھ سالن ضروری ہے کیونکہ جو کی روٹی سخت ہونے کی وجہ سے عادۃً بغیر سالن کے پیٹ بھر کر نہیں کھائی جاسکتی جبکہ گیہوں کی روٹی بغیر سالن کے بھی پیٹ بھر کر کھائی جاسکتی ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ گیہوں کی روٹی اپنی سالن خود اپنے اندر رکھتی ہے۔ لہٰذا جس شخص نے گیہوں کی روٹی کے ساتھ سالن مانگا وہ بھوکا نہیں ہے۔ ایک شرط یہ بھی ہے کہ جن ساٹھ محتاجوں کو کھانا کھلایا جائے وہ سب بھوکے ہوں ان میں سے کوئی پیٹ بھرا نہ ہو اگر کوئی پیٹ بھرا ہوگا اور بھوکے کی مانند نہیں کھائے گا تو اس کی بجائے کسی دوسرے بھوکے کو کھانا کھلانا ضروری ہوگا۔ بہرکیف یا تو مندرجہ بالا طریقے اور شرائط کے مطابق محتاجوں کو کھانا کھلایا جائے یا پھر یہ کہ چاہے تو ہر محتاج کو نصف صاع یعنی ایک کلو گرام ٦٣٣ گرام گیہوں یا اس کا آٹا یا اس کا ستو دے دیا جائے چاہے ایک صاع یعنی تین کلو ٢٦٦ گرام جو یا انگور یا کھجور یا اس کی قیمت دی جائے اور چاہے اس طرح تمام محتاجوں کو ایک ہی وقت میں دے دیا جائے اور چاہے مختلف اوقات میں دے دیا جائے۔ اگر کسی شخص نے قصدا جماع کر کے یا قصدا کھا کر کئی روزے توڑے تو ان سب کے لئے ایک ہی کفارہ کافی ہوگا بشرطیکہ ان کے درمیان کفارہ ادا نہ کیا ہو مثلاً کسی شخص نے دس روزے توڑے اور ان کے درمیان کفارہ ادا نہ کیا تو ان دس روزوں کے لئے ایک کفارہ کافی ہوجائے گا اگر درمیان میں کوئی کفارہ ادا کیا تو پھر بعد کے روزوں کے لئے دوسرا کفارہ ضروری ہوگا پھر یہ کہ وہ توڑے ہوئے روزے چاہے ایک رمضان کے ہوں اور چاہے دو رمضان کے ہوں اس بارے میں صحیح مسئلہ بھی یہی ہے جیسا کہ در مختار میں مذکور ہے مگر بعض حضرات کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا حکم اس صورت کے لئے ہے جب کہ وہ روزے ایک ہی رمضان کے ہوں اگر وہ روزے کئی رمضان کے ہوں گے تو ہر رمضان کے لئے علیحدہ علیحدہ کفارہ ضروری ہوگا چناچہ فتاویٰ عالمگیری میں اسی قول کو اختیار کیا گیا ہے۔

【6】

وہ چیزیں جن سے صرف قضالازم ہوتی ہے کفارہ لازم نہیں ہوتا

اس بارے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر کسی ایسی چیز سے روزہ فاسد ہو جو غذا کی قسم سے نہ ہو یا اگر ہو تو کسی شرع عذر کی بنا پر اسے پیٹ یا دماغ میں پہنچایا گیا ہو یا کوئی ایسی چیز ہو جس سے شرمگاہ کی شہوت پوری طرح ختم نہ ہوتی ہو جیسے جلق وغیرہ تو ایسی چیزوں سے کفارہ لازم نہیں ہوتا بلکہ صرف قضا ضروری ہے لہٰذا اگر روزہ دار رمضان میں کچے چاول اور خشک یا گوندھا ہوا آٹا کھائے تو روزہ جاتا رہتا ہے اور قضا واجب ہوتی ہے اور اگر کوئی جو یا گیہوں کا آٹا پانی میں گوندھ کر اور اس میں شکر ملا کر کھائے گا تو اس صورت میں کفارہ لازم ہوجائے گا۔ اگر کوئی شخص یکبارگی بہت زیادہ نمک کھائے یا گل ارمنی کے علاوہ کوئی ایسی مٹی کھائے جس کو عادۃً کھایا نہیں جاتا یا گٹھلی یا روئی یا اپنا تھوک نگل لے جو ریشم و کپڑے وغیرہ کے رنگ مثلا زرد، سبزہ وغیرہ سے متغیر تھا اور اسے اپنا روزہ بھی یاد تھا یا کاغذ یا اس کے مانند ایسی کوئی چیز کھائی جو عادۃً نہیں کھائی جاتی یا کچی بہی یا اس کے مانند ایسا کوئی پھل کھائے جو پکنے سے پہلے عادۃً کھائے نہیں جاتے اور انہیں پکا کر یا نمک ملا کر نہیں کھایا، یا ایسا تازہ اخروٹ کھایا جس میں مغز نہ ہو یا کنکر، لوہا، تانبا، سونا چاندی اور یا پتھر خواہ وہ زمرد وغیرہ ہی ہو نگل گیا تو ان صورتوں میں کفارہ واجب نہیں ہوگا، صرف قضا لازم ہوگی اسی طرح اگر کسی نے حقنہ کرایا، یا ناک میں دوا ڈالی یا منہ میں دوا رکھی اور اس میں سے کچھ حلق میں اتر گئی اور یا کانوں میں تیل ڈالا تو ان صورتوں میں بھی صرف قضا لازم آئے گی کفارہ واجب نہیں ہوگا۔ کان میں قصدا پانی ڈالنے کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ہدایہ ملتقیٰ ، درمختار، شرح وقایہ اور اکثر متون میں مذکور ہے کہ اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا مگر قاضی خان اور فتح القدیر میں لکھا ہے کہ اس بارے میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ روزہ جاتا رہتا ہے اور قضا لازم آتی ہے۔ کسی شخص نے پیٹ کے زخم میں دوا ڈالی اور وہ پیٹ میں پہنچ گئی یا سر کے زخم میں دوا ڈالی اور وہ دماغ میں پہنچ گئی یا حلق میں بارش کا پانی یا برف چلا گیا اور اسے قصدا نہیں نگلا بلکہ از خود حلق سے نیچے اتر گیا یا چوک میں روزہ جاتا رہا مثلا کلی کرتے ہوئے پانی حلق کے نیچے اتر گیا یا ناک میں پانی دیتے ہوئے دماغ کو چڑھ گیا، یا کسی نے زبردستی روزہ تڑوا دیا خواہ جماع ہی کے سبب سے یعنی خاوند نے زبردستی بیوی سے جماع کیا یا بیوی نے زبردستی خاوند سے جماع کرایا تو ان سب صورتوں میں بھی کفارہ لازم نہیں ہوگا بلکہ صرف قضا لازم ہوگی ہاں جماع کے سلسلہ میں زبردستی کرنے والے پر کفارہ بھی لازم ہوگا اور جس کے ساتھ زبردستی کی گئی اس پر صرف قضا واجب ہوگی۔ اگر کوئی عورت جو لونڈی ہو (خواہ حرم یا منکوحہ) خدمت و کام کاج کی وجہ سے بیمار ہوجانے کے خوف سے روزہ توڑ ڈالے تو اس پر قضا لازم ہوگی، اسی طرح اگر لونڈی اس صورت میں روزہ توڑ ڈالے جب کہ کام کاج مثلا کھانا پکانا یا کپڑا وغیرہ دھونے کی وجہ سے ضعف و توانائی لاحق ہوگئی تو اس صورت میں بھی قضا واجب ہوگی اس ضمن میں یہ مسئلہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ اگر کسی لونڈی کو اس کا آقا کسی ایسے کام کے لئے کہے جو ادائے فرض سے مانع ہو تو اس کا کہنا ماننے سے انکار کردینا چاہئے کسی شخص نے روزہ دار کے منہ میں سونے کی حالت میں پانی ڈال دیا یا خود روزہ دار نے سونے کی حالت میں پانی پی لیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس پر قضا واجب ہوگی اس مسئلہ کو بھول کر کھا پی لینے کی صورت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ اگر سونے یا وہ شخص کہ جس کی عقل جاتی رہی ہو کوئی جانور ذبح کرے تو اس کا مذبوحہ کھانا حلال نہیں ہے اس کے برخلاف اگر کوئی ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو اس کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا جائز ہے اسی طرح یہاں بھی مسئلہ یہ ہے کہ بھول کی حالت میں کھانے پینے والے کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، ہاں کوئی شخص سونے کی حالت میں کھا پی لے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ ایک شخص نے بھول کر روزے میں کچھ کھالیا پھر اس کے بعد قصدا کھایا، یا بھول کر جماع کرلیا اور اس کے بعد پھر قصدا جماع کیا یا دن میں روزہ کی نیت کی پھر قصدا کھا پی لیا یا جماع کیا، یا رات ہی سے روزہ کی نیت کی پھر صبح ہو کر سفر کیا اور پھر اس کے بعد اقامت کی نیت کرلی اور کچھ کھا پی لیا اگرچہ اس صورت میں اس کے لئے روزہ توڑنا جائز نہیں تھا، یا رات سے روزہ کی نیت کی، صبح کو مقیم تھا، پھر سفر کیا اور مسافر ہوگیا اور حالت سفر میں قصدا کھایا یا جماع کیا، اگرچہ اس صورت میں اس کے لئے روزہ توڑنا جائز نہیں تھا تو ان تمام صورتوں میں صرف قضا لازم ہوگی کفارہ واجب نہیں ہوگا مسئلہ مذکورہ میں حالت سفر میں کھانے کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص سفر شروع کردینے کے بعد پھر اپنی کوئی بھولی ہوئی چیز لینے کے لئے واپس اپنے گھر میں آئے اور اپنے مکان میں یا اپنے شہر و اپنی آبادی سے جدا ہونے سے پہلے قصدا کھالے تو اس صورت میں قضا اور کفارہ دونوں لازم ہونگے۔ اگر کوئی شخص تمام دن کھانے پینے اور دوسری ممنوعات روزہ سے رکا رہا مگر نہ تو اس نے روزہ کی نیت کی اور نہ افطار کیا، یا کسی شخص نے سحری کھائی یا جماع کیا اس حالت میں کہ طلوع فجر کے بارے میں اسے شک تھا حالانکہ اس وقت فجر طلوع ہوچکی تھی، یا کسی شخص نے غروب آفتاب کے ظن غالب کے ساتھ افطار کیا حالانکہ اس وقت تک سورج غروب نہیں ہوا تھا تو ان صورتوں میں صرف قضا واجب ہوگی کفارہ لازم نہیں ہوگا اور اگر غروب آفتاب میں شک ہونے کی صورت میں افطار کیا اور حالانکہ اس وقت تک سورج غروب نہیں ہوا تھا تو اس صورت میں کفارہ لازم ہونے کے بارے میں دو قول ہیں جس میں سے فقیہ ابوجعفر (رح) کا مختار قول یہ ہے کہ غروب آفتاب کے شک کی صورت میں کفارہ لازم ہوگا اس طرح اگر کسی شخص کا ظن غالب یہ ہو کہ آفتاب غروب نہیں ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ روزہ افطار کرے اور حقیقت میں بھی سورج غروب نہ ہوا تو اس پر کفارہ لازم ہوگا۔ کسی شخص کو جانور کے ساتھ یا میت کے ساتھ فعل بد کرنے کے سبب انزال ہوگیا یا کسی کی ران یا ناف یا ہاتھ کی رگڑ سے منی گرائی یا کسی کو چھونے یا اس کا بوسہ لینے کی وجہ سے انزال ہوگیا یا غیر ادائے رمضان کا روزہ توڑا تو ان سب صورتوں میں کفارہ واجب نہیں ہوگا بلکہ قضا لازم ہوگی، اسی طرح اگر کسی نے روزہ دار عورت کے ساتھ اس کے سونے کی حالت میں جماع کیا تو اس عورت کا روزہ جاتا رہے گا اور اس پر صرف قضا لازم ہوگی کفارہ واجب نہیں ہوگا، یا کسی عورت نے رات سے روزہ کی نیت کی اور جب دن ہوا تو دیوانی ہوگئی اور اس کی دیوانگی کی حالت میں کسی نے اس سے جماع کیا تو اس صورت میں اس عورت پر اس روزہ کی قضا لازم ہوگی۔ اگر کسی عورت نے اپنی شرمگاہ میں پانی یا دوائی ٹپکائی یا کسی نے تیل یا پانی سے بھیگی ہوئی انگلی اپنے مقعد میں داخل کی یا کسی نے اس طرح استنجاء کیا کہ پانی حقنہ کی جگہ تک پہنچ گیا اگرچہ ایسا کم ہوتا ہے یا استنجاء کرنے میں زیادتی و مبالغہ کی وجہ سے پانی فرج داخل تک پہنچ گیا تو قضا واجب ہوگی۔ کسی شخص کو بواسیر ہو اور اس کے م سے باہر نکل آئیں اور وہ ان کو دھوئے تو اگر ان مسوں کو اوپر اٹھنے سے پہلے خشک کرلیا جائے گا تو ان کے اوپر چڑھ جانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ کیونکہ اس طرح پانی بدن کے ایک ظاہر حصہ پر پہنچا تھا اور پھر بدن کے اندرونی حصہ میں پہنچنے سے پہلے زائل ہوگیا ہاں اگر م سے اوپر چڑھنے سے پہلے خشک نہ ہوں گے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔ اگر کوئی عورت تیل یا پانی سے ترکی ہوئی انگلی اپنی شرم گاہ کے اندرونی حصے میں داخل کرے گی یا کوئی شخص روئی یا کپڑا یا پتھر اپنی دبر میں داخل کرے گا یا کوئی عورت ان چیزوں کو اپنی شرمگاہ کے اندرونی حصہ میں داخل کرے گی اور یہ چیزیں اندر غائب ہوجائیں گی تو روزہ جاتا رہے گا اور قضا لازم ہوگی ہاں اگر لکڑی وغیرہ کا ایک سرا ہاتھ میں رہے یا یہ چیزیں عورت کی شرمگاہ کے بیرونی حصہ ہی تک پہنچی تو روزہ فاسد نہیں ہوگا اسی طرح اگر کسی شخص نے ڈورا نگل لیا بایں طور کہ اس کا ایک سرا اس کے ہاتھ میں ہو اور پھر وہ اس ڈورے کو باہر نکالے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا اور اگر اس کا ایک سرا ہاتھ میں نہ ہو بلکہ سب نگل جائے تو یہ روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم ہوگی۔ جو شخص قصدا اپنے فعل سے کسی چیز کا دھواں اپنے دماغ یا اپنے پیٹ میں داخل کرے گا تو بعید نہیں کہ کفارہ بھی لازم ہوجائے کیونکہ ان کا دھواں نہ صرف یہ کہ قابل انتفاع ہے بلکہ اکثر دواءً بھی استعمال ہوتا ہے اسی طرح سگریٹ بیڑی اور حقہ کا دھواں داخل کرنے کی صورت میں بھی کفارہ لازم ہوسکتا ہے۔ اگر کسی شخص نے قصدا قے کی خواہ وہ منہ بھر کر نہ آئی ہو تو اس کا روزہ جاتا رہے گا اور قضا لازم آئے گی اس بارے میں روایت یہی ہے لیکن حضرت امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ قصدا قے کرنے کی صورت میں روزہ اسی وقت فاسد ہوگا اور قضا لازم ہوگی جب کہ قے منہ بھر کر آئی ہو اگر منہ بھر کر نہ آئی ہوگی تو نہ روزہ فاسد ہوگا اور نہ قضاء لازم ہوگی۔ چناچہ زیادہ صحیح اور مختار قول یہی ہے۔ کسی شخص کو از خود منہ بھر کر قے آئی اور وہ اسے نگل گیا، یا کسی شخص نے دانتوں میں اٹکی ہوئی کوئی چیز جو ایک چنے کے بقدر یا اس سے زیادہ تھی کھالی یا کسی شخص نے رات سے نیت نہیں کی، دن میں بھی اس نے نیت نہیں کی تھی کہ بھول کر کچھ کھالیا پی لیا اور اس کے بعد اس نے روزہ کی نیت کی تو ان سب صورتوں میں روزہ نہیں ہوگا اور قضا لازم ہوگی، یا اسی طرح کوئی روزہ دار بےہوش ہوجائے اور خواہ وہ مہینہ بھر تک بےہوش رہے تو اس پر قضا لازم ہوگی ہاں اس دن کے روزہ کی قضا لازم نہیں ہوگی۔ جس دن میں یا جس کی رات سے بیہوشی شروع ہوئی ہو کیونکہ مسلمان کے بارے میں نیک گمان ہی کرنا چاہئے اس لئے ہوسکتا ہے اس نے رات میں نیت کرلی ہو اور اس طرح اس کا روزہ پورا ہوجائے گا اب اس کے بعد جتنے دنوں بیہوش رہے گا ان کی قضا کرے گا۔ بےہوشی شروع ہونے والے دن کے بارے میں بھی مگر یہ یقین ہو کہ نیت کی تھی تو اس دن کے روزہ کی قضا بھی ضروری ہوگی۔ بیہوشی کے دنوں کے روزوں کی قضا اس لئے ضروری ہوگی کہ اگرچہ اس نے کچھ کھایا پیا نہیں مگر چونکہ روزہ کی نیت نہیں پائی گئی اس لئے بیہوشی کی حالت میں اس کا بغیر نیت کچھ نہ کھانا پینا اور تمام چیزوں سے رکے رہنا کافی و کار آمد نہیں ہوگا اگر کسی شخص پر رمضان کے پورے مہینہ میں دیوانگی طاری رہی تو اس پر قضا واجب نہیں ہوگی ہاں مگر پورے مہینہ دیوانگی طاری نہ رہی تو پھر قضا ضروری ہوگی اور اگر کسی شخص پر پورے مہینے بایں طور دیوانگی طاری رہی کہ دن میں یا رات میں نیت کا وقت ختم ہوجانے کے بعد اچھا ہوجاتا تو جب بھی قضا ضروری نہیں ہوگی بلکہ یہ پورے مہینہ دیوانگی طاری رہنے کے حکم میں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے رمضان میں روزے کی نیت نہیں کی اور پھر اس نے دن میں کھایا پیا تو امام اعظم ابوحنیفہ کے قول کے مطابق اس صورت میں کفارہ واجب نہیں ہوگا صرف قضا لازم ہوگی مگر صاحبین کا قول یہ ہے کہ کفارہ واجب ہوگا۔ کسی شخص کا روزہ ٹوٹ گیا خواہ وہ کسی عذر ہی کی بناء پر ٹوٹا ہو پھر وہ عذر بھی ختم ہوگیا ہو تو اب اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دن کے بقیہ حصہ میں رمضان کے احترام کے طور پر کھانے پینے میں ممنوع دوسری چیزوں سے اجتناب کرے، اسی طرح اس عورت کو بھی دن کے بقیہ حصہ میں روزہ میں ممنوع چیزوں سے اجتناب ضروری ہے جو حیض یا نفاس میں مبتلا تھی اور طلوع فجر کے بعد پاک ہوگئی نیز مسافر جو دن میں کسی وقت مقیم ہوگیا ہو یا بیمار جو اچھا ہوگیا ہو دیوانہ شخص جس کی دیوانگی جاتی رہی ہو، لڑکا جو بالغ ہو اور کافر جو اسلام قبول کرلے ان سب لوگوں کو بھی دن کے بقیہ حصہ میں کھانے پینے اور دوسری ممنوع چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے ان سب پر اس دن کے روزہ کی قضا لازم ہوگی البتہ موخر الذکر دونوں پر قضا لازم نہیں ہوگی۔ جو عورت حیض و نفاس میں مبتلا ہو یا جو شخص بیماری کی حالت میں ہو، یا جو شخص حالت سفر میں ہو ان کے لئے کھانے پینے سے اجتناب ضروری نہیں ہے تاہم ان کے لئے بھی یہ حکم ہے کہ عام نگاہوں سے بچ کر پوشیدہ طور پر کھائیں پئیں۔

【7】

روزہ دار کے لئے مکروہ اور غیر مکروہ چیزیں

روزہ دار کے لئے کسی چیز کا چکھنا (یعنی چکھ کر تھوک دینا) ذخیرہ میں منقول ہے کہ روزہ دار کے لئے بلا ضرورت کسی چیز کا چکھنا مکروہ ہے ہاں عذر کی صورت میں مکروہ نہیں ہے مثلاً کوئی شخص کھانے پینے کی کوئی چیز خریدے اور یہ خوف ہو کہ اگر اسے چکھ کر نہیں دیکھوں گا تو دھوکہ کھا جاؤں گا یا یہ چیز میری مرضی کے مطابق نہیں ہوگی تو اس صورت میں اگر وہ اس چیز کو چکھ لے تو مکروہ نہیں ہوگا۔ فتاویٰ نسفی میں منقول ہے کہ اگر کسی عورت کا خاوند بد خلق اور ظالم ہو اور جو کھانے میں نمک کی کمی و بیشی پر اس کے ساتھ سختی کا معاملہ کرتا ہو تو اس کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ کھانا چکھ لے تاکہ اپنے خاوند کے ظلم و تشدد سے بچ سکے اور اگر خاوند نیک خلق و نیک مزاج ہو تو پھر عورت کے لئے چکھنا جائز نہیں ہوگا یہی حکم لونڈی کا بھی ہے بلکہ وہ نوکر و ملازم بھی اس حکم میں شامل ہیں جو کھانا پکانے پر مقرر ہوتے ہیں۔ بلا عذر کسی چیز کا چبانا مکروہ ہے مثلا کوئی عورت چاہے کہ روٹی وغیرہ چبا کر اپنے چھوٹے بچے کو دیدے تو اگر اس کے پاس کوئی ہوشیار بچی یا کوئی حائضہ ہو تو اس سے چبوا کر بچے کو دیدے خود نہ چبائے اس صورت میں خود چبا کردینا مکروہ ہے ہاں اگر غیر روزہ دار ہاتھ نہ لگے تو پھر خود چبا کر دیدے اس صورت میں مکروہ نہیں ہوگا۔ روزہ دار کو مصطگی چبانا مکروہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت کیونکہ اس کے چبانے سے روزہ ختم کرنے یا روزہ نہ رکھنے کا اشتباہ ہوتا ہے، ویسے تو مصطگی مرد کو غیر روزہ کی حالت میں بھی چبانا مکروہ ہے ہاں کسی عذر کی بناء پر اور وہ بھی خلوت میں چبانا جائز ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ مصطگی چبانا مردوں کے لئے مباح ہے جب کہ عورتوں کے لئے مستحب ہے کیونکہ وہ ان کے حق میں مسواک کے قائم مقام ہے۔ روزہ کی حالت میں بوسہ لینا اور عورتوں کے ساتھ مباشرت یعنی ان کو گلے لگانا اور چمٹانا وغیرہ مکروہ ہے بشرطیکہ انزال کا خوف ہو یا اپنے نفس و جذبات کے بےاختیار ہوجانے کا اور اس حالت میں جماع کرلینے کا اندیشہ ہو اگر یہ خوف و اندیشہ نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں۔ قصدا منہ میں تھوک جمع کرنا اور اسے نگل جانا مکروہ ہے، اسی طرح روزہ دار کو وہ چیزیں اختیار کرنا بھی مکروہ ہے جس کی وجہ سے ضعف لاحق ہوجانے کا خوف ہو جیسے فصد و پچھنے وغیرہ ہاں اگر فصد اور پچھنے کی وجہ سے ضعف ہوجانے کا احتمال نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہے۔ روزہ کی حالت میں سرمہ لگانا، موچھوں کو تیل لگانا اور مسواک کرنا خواہ زوال کے بعد ہی مسواک کی جائے اور یہ کہ خواہ مسواک تازی ہو یا پانی میں بھیگی ہوئی ہو مکروہ نہیں ہے۔ وضو کے علاوہ بھی کلی کرنا اور ناک میں پانی دینا مکروہ نہیں ہے اسی طرح غسل کرنا اور تراوٹ و ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے بھیگا ہوا کپڑا بدن پر لپیٹنا مکروہ نہیں ہے، مفتی بہ قول یہی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ سے یہ بات ثابت ہے چناچہ یہ روایت آئندہ صفحات میں آئے گی۔ روزہ دار کے لئے جو چیزیں مستحب ہیں سحری کھانا، سحری کو دیر سے کھانا اور وقت ہوجانے پر افطار میں جلدی کرنا جب کہ فضا ابر الود نہ ہو، جس دن فضا ابر آلود ہو اس دن افطار میں احتیاط یعنی دو تین منٹ کی تاخیر ضروری ہے۔

【8】

وہ اعذار جن کی بنا پر روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے

ایسے اعذار کہ جن کی بنا پر روزہ نہ رکھنا مباح ہے دس ہیں۔ (١) مرض (٢) سفر (٣) اکراہ یعنی زبردستی (٤) حمل (٥) ارضاع یعنی دودھ پلانا (٦) بھوک (٧) پیاس (٨) بہت زیادہ بڑھاپا (٩) حیض (٠١) نفاس۔ ان عوارض اور اعذار کو بتفصیل ذیل بیان کیا جاسکتا ہے۔ مرض اگ روزہ رکھنے کسی نئے مرض کے پیدا ہوجانے یا موجودہ مرض کے بڑھ جانے کا خوف ہو، تو اس صورت میں روزہ نہ رکھنا چاہیے۔ اسی طرح اگر یہ گمان ہو کہ روزہ رکھنے سے صحت و تندرستی دیر میں حاصل ہوگی تو بھی روزہ نہ رکھنا چاہیے کیونکہ بسا اوقات مرض کی زیادت اور اس میں طوالت ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے اس لئے ان سے اجتناب ضروری ہے۔ مرض چونکہ نام ہے اس چیز کا جو طبیعت کے تغیر کا باعث ہوتی ہے اور جس کے سبب طبیعت کا سکون کرب و بےچینی میں تبدیل ہوجاتا ہے اور یہ کیفیت پہلے اندرونی طور پر محسوس ہوتی ہے پھر اس کا اثر جسم پر ظاہر ہوتا ہے لہٰذا مرض کسی بھی قسم کا ہو خواہ وہ آنکھ دکھنے اور جسم و بدن کے کسی زخم کی صورت میں ہو یا درد سر و بخار وغیرہ کی شکل میں، جب اس میں زیادتی اس کے طول پکڑ جانے کا اندیشہ ہوگا تو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہوگی، بلکہ روزہ کی نیت کرنے کے بعد بھی اگر کوئی مرض پیدا ہوجائے مثلا کسی کو سانپ بچھو کاٹے یا بخار چڑھ آئے یا درد سر ہونے لگے تو اس کو اس دن کا روزہ رکھنا بھی ضروری نہیں ہے بلکہ بہتر یہی ہے کہ روزہ توڑ دیا جائے۔ علماء لکھتے ہیں کہ اگر کسی غازی اور مجاہد کو رمضان کے مہینہ میں دشمنان دین سے لڑنا ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ روزہ کی وجہ سے ضعف لاحق ہوجائے گا جس کی بناء پر لڑائی میں نقصان پیدا ہوگا تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے خواہ مسافر ہو یا مقیم۔ اسی پر علماء نے اس مسئلہ کو بھی قیاس کیا ہے کہ جس شخص کو باری کا بکار آتا ہو اور وہ باری کے دن بخار چڑھنے سے پہلے اپنا روزہ ختم کر دے اس خوف کی بناء پر کہ آج بخار چڑھے گا جس کی وجہ سے ضعف لاحق ہوجائے گا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس دن بخار نہ بھی آئے تو صحیح مسئلہ یہ ہے کہ اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا جب کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے کہ دونوں صورتوں میں کفارہ لازم ہوگا۔ ایسے ہی اگر بازار والے رمضان کی تیس تاریخ کو طبل و نقارہ یا گولے وغیرہ کی آواز سنیں اور گمان کر کے کہ یہ آج عید کا دن ہونے کا اعلان ہے روزہ توڑ ڈالیں اور پھر بعد میں معلوم ہو کہ یہ آج عید کا دن ہونے کا اعلان نہیں تھا بلکہ کسی اور سبب سے طبل و نقارہ بجایا گیا تھا یا گولا داغا گیا تو اس صورت میں بھی ان پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔ سفر سفر خواہ جائز ہو یا ناجائز، بےمشقت ہو جیسے پیادہ پا یا گھوڑے وغیرہ کی سواری پر، ہر حال میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے مگر بےمشقت سفر میں بہتر یہی ہے کہ روزہ رکھا جائے۔ بشرطیکہ اس کے تمام رفقاء سفر بغیر روزہ نہ ہوں اور سب کا خرچ مشترک نہ ہو، ہاں اگر اس کے تمام رفقاء سفر روزہ نہ رکھیں اور سب کا خرچ بھی مشترک ہو تو پھر روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہوگا تاکہ پوری جماعت کی موافقت رہے۔ اگر کوئی شخص طلوع فجر سے پہلے سفر شروع کر کے مسافر ہوجائے تو اس دن کا روزہ نہ رکھنا اس کے لئے مباح ہے ہاں اگر کوئی شخص روزہ کی حالت میں طلوع فجر کے بعد سفر شروع کرے تو اب اس کے لئے روزہ نہ رکھنا مباح نہیں ہوگا البتہ بیمار ہوجانے کی صورت میں طلوع فجر کے بعد سفر شروع کرنے والے کے لئے روزہ نہ رکھنا مباح ہوگا اور بہر صورت کفارہ لازم نہیں ہوگا بلکہ صرف قضا واجب ہوگی خواہ سفر کی حالت میں بیماری کی وجہ سے روزہ توڑے یا بغیر بیماری کے۔ اکراہ (یعنی زبردستی) جو شخص روزہ نہ رکھنے پر مجبور کیا جائے اس کو بھی شریعت نے روزہ نہ رکھنے یا روزہ توڑنے کی اجازت دی ہے مثلا کوئی شخص کسی روزہ دار کو زبردستی پچھاڑ کر اس کے منہ میں کوئی چیز ڈال دے یا کوئی شخص روزہ دار کو مجبور کرے کہ اگر تم نے روزہ رکھا تو تمہیں جان سے مار دیا جائے گا یا تمہیں ضرب شدید پہنچائی جائے گی، یا تمہارے جسم کا کوئی عضو کاٹ ڈالا جائے گا تو اس صورت میں اس کے لئے روزہ توڑنا یا روزہ نہ رکھنا جائز ہے۔ حمل حاملہ عورت کو روزہ نہ رکھنا جائز ہے بشرطیکہ اپنی یا اپنے بچے کی مضرت کا خوف ہو، یا عقل میں فتور آجانے کا اندیشہ ہو مثلا اگر حاملہ کو خوف ہو کہ روزہ رکھنے سے خود اپنی دماغی و جسمانی کمزوری انتہاء کو پہنچ جائے گی یا ہونے والے بچہ کی زندگی اور صحت پر اس کا برا اثر پڑے گا یا خود کسی بیماری و ہلاکت میں مبتلا ہوجائے گی تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ روزہ قضا کر دے۔ ارضاع جس طرح حاملہ عورت کو روزہ نہ رکھنا جائز ہے اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کو روزہ نہ رکھنا جائز ہے خواہ وہ بچہ اسی کا ہو کسی دوسرے کے بچہ کو باجرت یا مفت دودھ پلاتی ہو بشرطیکہ اپنی صحت و تندرستی کی خرابی یا بچے کی مضرت کا خوف ہو جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اس بارے میں دودھ پلانے والی عورت سے صرف دایہ مراد ہے غلط ہے، کیونکہ حدیث میں مطلقاً دودھ پلانے والی عورت کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے چاہے وہ ماں ہو یا دایہ، چناچہ ارشاد ہے۔ حدیث (ان اللہ وضع عن المسافر الصوع وشطر الصلوۃ وعن الحبلیٰ والمرضع الصوم) ۔ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لئے روزہ اور آدھی نماز معاف کی ہے اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لئے بھی روزہ معاف کیا ہے۔ پھر یہ اگر اس بارے میں کوئی تخصیص ہوتی تو قیاس کا تقاضہ یہ ہے کہ تخصیص دایہ کی بجائے ماں کے لئے ہوتی کیونکہ دایہ کے لئے کسی بچہ کو دودھ پلانا واجب اور ضروری نہیں ہے وہ تو صرف اجرت کے لئے دودھ پلاتی ہے اگر وہ چاہے تو اس کام کو چھوڑ سکتی ہے جب کہ ماں کا معاملہ برعکس ہے اپنے بچہ کو دودھ پلانا اس پر دیانۃً واجب ہے خصوصا جب کہ باپ مفلس ہو۔ دودھ پلانے والی عورت کو دوا پینا جائز ہے جب کہ طبیب و ڈاکٹر کہے کہ یہ دوا بچے کو فائدہ کرے گی، مسئلہ بالا میں بتایا گیا ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لئے روزہ نہ رکھنا جائز ہے جب کہ اسے اپنی یا اپنے بچہ کی مضرت کا خوف ہو تو اس بارے میں جان لیجئے کہ خوف سے مراد یہ ہے کہ یا تو کسی سابقہ تجربہ کی بناء پر اپنی یا اپنے بچہ کی مضرت کا گمان غالب ہو یا یہ کہ مسلمان طبیب حازق جس کا کردار عقیدہ و عمل کے اعتبار سے قابل اعتماد ہو یہ بات کہے کہ روزہ کی وجہ سے اسے ضرر پہنچے گا۔ بھوک اور پیاس جس شخص کو بھوک یا پیاس کا اس قدر غلبہ ہو کہ اگر کچھ نہ کھائے یا پانی نہ پئے تو جان جاتی رہے یا عقل میں فتور آجائے یا ہوش و حو اس ختم ہوجائے تو اس کے لئے بھی روزہ رکھنا جائز ہے اور روزہ کی نیت کرلینے کے بعد اگر ایسی حالت پیدا ہوجائے تب بھی اس کو اختیار ہے اگر روزہ توڑ دے گا تو کفارہ لازم نہ ہوگا صرف قضا واجب ہوگی مگر شرط یہ ہے کہ روزہ دار نے از خود اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں مبتلا کر کے یہ حالت پیدا نہ کردی ہو مثلا کسی شخص نے از خود اپنے نفس کو بایں طور مشقت میں مبتلا کیا کہ بغیر کسی شدید ضرورت کے کوئی لمبی چوری دوڑ لگائی جس کی وجہ سے پیاس کی شدت سے مجبور ہو کر روزہ توڑ ڈالا تو اس پر کفارہ لازم ہوگا اگرچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ حضرت علی بن احمد (رح) سے پیشہ و مزدوری کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کوئی مزدور یہ جانے کہ اگر میں اپنے اس کام میں مشغول ہوں گا تو ایسی بیماری میں مبتلا ہوجاؤں گا جس میں روزہ نہ رکھنا مباح ہے درآنحالیکہ وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کے لئے اس کام کے کرنے پر مجبور ہے تو آیا بیماری میں مبتلا ہونے سے پہلے اس کے کھانا مباح ہے یا نہیں ؟ تو علی بن احمد نے اس بات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔ لیکن اس بارے میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو درمختار میں لکھا ہے کہ اس صورت میں اگر اس مذکورہ بالا خوف ہو تو اسے چاہیے کہ وہ آدھے دن تو محنت و مزدوری کرے اور آدھے دن آرام کرے تاکہ اسباب معیشت بھی فراہم ہوجائیں اور روزہ بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ بڑھاپا شیخ فانی اور بڑھیا فانیہ کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں شیخ فانی اور بڑھیا فانیہ اس مرد اور عورت کو کہتے ہیں جو زندگی کے آخری سٹیج پر پہنچ چکے ہوں، ادائیگی فرض سے قطعا مجبور اور عاجز ہوں اور جسمانی طاقت وقت روزبروز گھٹتی چلی جا رہی ہو یہاں تک کہ ضعف و نا تو انی کے سبب انہیں یہ قطعا امید نہ ہو کہ آئندہ بھی کبھی روزہ رکھ سکیں گے۔ حیض و نفاس جو عورت حیض یا نفاس میں مبتلا ہو تو اس کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔ فدیہ مذکورہ بالا اعذار میں صرف شیخ فانی اور بڑھیا فانیہ کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے روزوں کا فدیہ ادا کریں ہاں اس شخص کے لئے فدیہ دینا جائز ہے جس نے ہمیشہ روزے رکھنے کی نذر مانی ہو مگر اس سے عاجز ہو یعنی کوئی شخص یہ نذر مانے کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا مگر بعد میں وہ اسباب معیشت کے حصول یا کسی اور عذر کی وجہ سے اپنی نذر کو پورا نہ کرسکتے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ روزے نہ رکھے البتہ ہر دن فدیہ دے دیا کرے ان کے علاوہ اور تمام اعذار کا مسئلہ یہ ہے کہ عذر زائل ہوجانے کے بعد روزوں کی قضا ضروری ہے فدیہ دینا درست نہیں یعنی فدیہ دینے سے روزہ معاف نہیں ہوگا اسی لئے اگر کوئی معذور اپنے عذر کی حالت میں مرجائے۔ تو اس پر ان روزوں کے فدیہ کی وصیت کر جانا واجب نہیں ہے جو اس کے عذر کی وجہ سے فوت ہوئے ہوں اور نہ اس کے وارثوں پر یہ واجب ہوگا کہ وہ فدیہ ادا کریں خواہ عذر یا بیماری کا ہو یا سفر کا، یا مذکورہ بالا اعذار میں سے کوئی اور عذر۔ ہاں اگر کوئی شخص اس حالت میں انتقال کرے کہ اس کا عذر زائل ہوچکا تھا اور وہ قضا روزے رکھ سکتا تھا مگر اس نے قضا روزے نہیں رکھے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان ایام کے روزوں کے فدیہ کی وصیت کر جائے جن میں مرض سے نجات پا کر صحت مند رہا تھا یا سفر پورا کر کے مقیم تھا اور یا جو بھی عذر رہا ہو وہ زائل ہوچکا تھا۔ اگر کوئی شیخ فانی سفر کی حالت میں انتقال کر جائے تو اس کی طرف سے ان ایام کے روزوں کا فدیہ دینا ضروری نہیں ہوگا۔ جن میں وہ مسافر رہا کیونکہ جس طرح اگر کوئی دوسرا شخص سفر کی حالت میں مرجائے تو اس کے لئے ایام سفر کے روزے معاف ہوتے ہیں اسی طرح اس کے لئے بھی ان ایام کے روزے معاف ہوں گے۔ جس شخص پر فدیہ لازم ہو اور وہ فدیہ دینے پر قادر نہ ہو تو پھر آخری صورت یہی ہے کہ وہ اللہ رب العز سے استغفار کرے عجب نہیں کہ ارحم الراحمین اسے معاف کر دے۔ فدیہ کی مقدار ہر دن کے روزے کے بدلے فدیہ کی مقدار نصف صاع یعنی ایک کلو ٢٣٣ گرام گیہوں یا اس کی مقدار ہے فدیہ اور کفارہ میں جس طرح تملیک جائز ہے اسی طرح اباحت طعام بھی جائز ہے یعنی چاہے تو ہر دن کے بدلے مذکورہ بالا مقدار کسی محتاج کو دے دی جائے اور چاہے ہر دن دونوں وقت بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیا جائے دونوں صورتیں جائز ہیں۔ صدقہ فطر کے برخلاف کہ اس میں زکوٰۃ کی طرح تملیک ہی ضروری ہے اس بارے میں یہ اصول سمجھ لیجئے کہ جو صدقہ لفظ اطعام یا طعام (کھلانے) کے ساتھ مشروع ہے اس میں تملیک اور اباحت دونوں جائز ہیں اور جو صدقہ لفظ ایتاء یا ادا کے ساتھ مشروع ہے اس میں تملیک شرط اور ضروری ہے اباحت قطعا جائز نہیں ہے۔ قضاء روزے قضاء روزے پے در پے رکھنا شرط اور ضروری نہیں ہے تاہم مستحب ضرور ہے تاکہ واجب ذمہ سے جلد اتر جائے اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ جس شخص کا عذر زائل ہوجائے وہ فوراً روزے شروع کر دے کیونکہ اس میں تاخیر مناسب نہیں ہے ویسے مسئلہ یہ ہے کہ قضاء روزوں کا معا عذر زائل ہوتے ہی رکھنا بھی ضروری نہیں ہے اختیار ہے کہ جب چاہے رکھے۔ نماز کی طرح اس میں ترتیب بھی فرض نہیں ہے قضا روزے رکھے بغیر ادا کے روزے رکھے جاسکتے ہیں۔ اس موقع پر یہ بات بھی جان لیجئے کہ شریعت میں تیرہ قسم کے روزے ہیں جن میں سے سات قسم کے روزے تو وہ ہیں جو علی الاتصال یعنی پے در پے رکھے جاتے ہیں۔ (١) رمضان کے مہینے کے روزے (٢) کفارہ ظہار کے روزے (٣) کفارہ قتل کے روزے۔ (٤) کفارہ یمین کے روزے (٥) رمضان میں قصدا توڑے ہوئے روزوں کے کفارہ کے روزے (٦) نذر معین کے روزے (٧) اعتکاف واجب کے روزے۔ اور چھ قسم کے روزے ایسے ہیں جن میں اختیار ہے چاہے تو پے در پے رکھے جائیں چاہے متفرق طور پر یعنی ناغہ کے ساتھ۔ (١) نفل روزے (٢) رمضان کے قضا روزے (٣) متعہ کے روزے (٤) فدیہ حلق کے روزے (٥) جزاء عید کے روزے (٦) نذر مطلق کے روزے۔ صحیح یہ ہے کہ نفل روزے کا بھی بغیر کسی عذر کے توڑ ڈالنا جائز نہیں ہاں اتنی بات ہے کہ نفل روزہ شروع ہوجانے کے بعد واجب ہوجاتا ہے لہٰذا وہ کسی بھی حالت میں توڑا جائے گا تو اس کی قضا ضروری ہوگی ہاں پانچ ایام ایسے ہیں جن میں اگر نفل روزہ بعد شروع کرچکے کے توڑ دیا جائے تو قضا واجب نہیں ہوتی، دو دن تو عیدو بقر عید کے اور تین دن تشریق (ذی الحجہ کی ١١، ٢ ا، ١٣، تاریخ) کے، چونکہ ان ایام کے روزے رکھنے ممنوع ہیں لہٰذا ان ایام میں جب روزہ شروع ہی سے واجب نہیں ہوگا تو اس کے توڑنے پر قضا بھی واجب نہیں ہوگی۔ اگر کوئی شخص ان پانچوں ایام کے روزے کی نذر مانے یا پورے سال کے روزے کی نذر مانے تو ان دونوں صورتوں میں ان ایام میں روزے نہ رکھے جائیں بلکہ دوسرے دنوں میں ان کے بدلے قضا روزے رکھے جائیں۔ آخر میں ایک مسئلہ یہ بھی جان لیجئے کہ جب بچہ میں روزے رکھنے کی طاقت آجائے تو اسے روزہ رکھنے کے لئے کہا جائے اور جب وہ دس برس کا ہوجائے تو روزہ نہ رکھنے کی صورت میں اس پر سختی کی جائے اور اسے روزہ رکھنے پر مجبور کیا جائے جیسا کہ نماز کے بارے میں حکم ہے۔

【9】

لغو وباطل کلام اور بے ہودہ افعال روزہ کے منافی ہیں

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص (روزے کی حالت میں) لغو و باطل کلام اور بےہودہ افعال نہ چھوڑے گا تو اللہ کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوگی کہ اس نے اپنا کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ (بخاری) تشریح لغو و باطل کلام سے مراد وہ باتیں ہیں جن کو اپنی زبان سے نکالنے میں گناہ لازم آتا ہے جیسے کفریات بکنا جھوٹی گواہی دینا، افتراء پردازی، غیب کرنا، بہتان تراشی خواہ زنا کا بہتان ہو یا کسی برائی کا اور لعنت کرنا، یا اسی قسم کی وہ باتیں جن سے بچنا ضروری ہے۔ لہٰذا حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس روزہ دار نے نہ تو لغو و باطل کلام سے اپنی زبان کو بچا لیا اور نہ برے افعال کی غلاظت سے اپنے دامن کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ اس نے اپنا کھانا پینا اور دوسری خواہشات چھوڑ رکھی ہیں۔ اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھئے کہ روزے کا اصل مقصد کیا ہے ؟ یہی نا کہ انسان اپنی خواہشات نفسانی کو موت کے گھاٹ اتار دے اور اپنے نفس امارہ کو حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا تابعدار بنا دے، مگر جب یہ مقصد ہی حاصل نہ ہوا کہ نہ تو روزہ دار نے بری باتیں ہی چھوڑیں اور نہ برے کام ہی چھوڑے جو روزے کے منافی ہیں تو اللہ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ روزہ دار کے محض بھوکا پیاسا ہونے کی کوئی پرواہ کرے یا اس طرف نظر عنایت کرے۔ گویا پرواہ نہ کرنے سے مراد ہے اس کی طرف التفات نہ کرنا اور اس کے روزہ کو شرف قبولیت سے نہ نوازنا اور ظاہر ہے کہ ایسے روزہ دار کی طرف اللہ التفات کرے بھی کیوں ؟ اس نادان نے بیشک ان چیزوں کو تو ترک کیا جن کو رمضان کے مہینہ میں ترک کرنے ہی کا حکم ہے اگرچہ وہ دوسرے دنوں میں مباح ہیں مثلا کھانا پینا اور جماع وغیرہ مگر ان چیزوں کو اختیار کیا جنہیں روزہ کیا کسی بھی حالت میں اختیار کرنا حرام ہے۔ مشائخ لکھتے ہیں کہ روزہ کی تین قسمیں ہیں۔ ایک روزہ تو عوام کا ہے جس میں کھانے پینے اور جماع سے اپنے کو باز رکھا جاتا ہے دوسرا روزہ وہ خواص کا ہے کہ جس میں تمام اعضاء اور حسیات کو حرام و مکروہ خواہشات و لذات سے بچایا جاتا ہے بلکہ ایسی مباح چیزوں سے بھی اجتناب ہوتا ہے جو کسر نفسی کے منافی ہیں۔ اور تیسرا روزہ اخص الخواص کا ہوتا ہے کہ جس میں سوائے حق کے ہر چیز سے کلیۃ اجتناب ہوتا ہے بلکہ غیر حق کی طرف التفات بھی نہیں ہوتا۔

【10】

روزہ میں بوسہ اور مساس وغیرہ کا مسئلہ

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنے روزہ کی حالت میں (اپنی ازواج کا) بوسہ لیتے تھے اور (انہیں) اپنے بدن سے لپٹاتے تھے (کیونکہ آنحضرت ﷺ اپنی حاجت پر تم سے زیادہ قابو یافتہ تھے) (بخاری ومسلم) تشریح حاجت سے مراد شہوت ہے مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اور لوگوں کی بہ نسبت اپنی خواہشات اور شہوت پر بہت زیادہ قابو یافتہ تھے کہ آپ ﷺ باوجودیکہ اپنی ازواج مطہرات کا بوسہ لیتے تھے اور ان کو اپنے بدن مبارک سے لپٹاتے تھے مگر صحبت سے بچے رہتے تھے ظاہر ہے کہ دوسرے لوگوں کا ایسی صورت میں اپنی شہوت پر قابو یافتہ ہونا بہت مشکل ہے۔ مذکورہ بالا مسئلہ میں اہل علم کے ہاں اختلاف ہے، حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ بوسہ لینا، مساس کرنا اور عورت کے بدن کو اپنے سے لپٹانا روزہ دار کے لئے مکروہ ہے جب کہ ایسی صورت میں جماع میں مشغول ہوجانے یا انزال ہوجانے کا خوف ہو اگر یہ خوف نہ ہو تو مکروہ نہیں ہے۔

【11】

حالت جنابت میں روزہ کی نیت کرنا

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ کبھی ایسا ہوتا کہ آنحضرت ﷺ جنابت (ناپاکی) کی حالت میں صبح کرتے اور یہ جنابت احتلام کی وجہ سے نہیں ہوتی تھی چناچہ (ایسی صورت میں) آپ نہاتے اور روزہ رکھتے۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو احتلام کی وجہ سے نہیں بلکہ جماع کی وجہ سے نہانے کی ضرورت ہوتی تھی اور آپ ﷺ اسی حالت میں روزہ رکھتے اور پھر نہاتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ جنابت کی حالت میں طلوع فجر سے پہلے نہانا ضروری نہیں ہے بلکہ ایسی حالت میں روزہ کی نیت کی جاسکتی ہے اور پھر صبح اٹھ کر نہانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور چونکہ جماع کے سبب ناپاکی اختیار ہوتی ہے لہٰذا جب ایسی صورت میں بغیر نہائے روزہ رکھنا جائز ہے تو احتلام کے سبب ناپاکی کی حالت میں روزہ رکھنا بدرجہ اولیٰ درست ہوگا بلکہ اگر روزہ کی حالت ہی میں احتلام ہوجائے تو روزہ پر کچھ اثر نہیں پڑے گا۔ من غیر حلم (اور یہ جنابت احتلام کی وجہ سے نہیں ہوتی تھی) کو بطور خاص اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ انبیاء کرام صلوات اللہ وسلامہ علیہم کو احتلام نہیں ہوتا تھا کیونکہ یہ خواب میں شیطان کے آنے کا اثر ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ وہ اس سے قطعی محفوظ تھے۔

【12】

روزہ کی حالت میں سینگی کھچوانا جائز ہے

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے احرام کی حالت میں بھری ہوئی سینگی کھنچوائی نیز آپ ﷺ نے روزہ کی حالت میں (بھی) بھری ہوئی سینگی کھنچوائی ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حضرت شیخ جزری فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ احرام کی حالت میں روزے سے تھے اس وقت آپ ﷺ نے بھری ہوئی سینگی کھنچوائی اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) کی یہ مراد ابوداؤد کی ایک روایت کی روشنی میں اخذ کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ۔ حدیث ( انہ ﷺ احتجم ھو صائما محرما) ۔ نبی کریم ﷺ نے اس وقت بھری ہوئی سینگی کھنچوائی جب کہ آپ ﷺ حالت احرام میں روزہ سے تھے۔ بہرحال حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ احرام کی حالت میں سینگی کھنچوانی جائز ہے بشرطیکہ کوئی بال نہ ٹوٹے۔ اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ کا متفقہ طور پر مسلک یہ ہے کہ روزہ دار کو سینگی کھنچوانا بلا کراہت جائز ہے لیکن حضرت امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ بھری ہوئی سینگی کھینچنے اور کھنچوانے والا دونوں کا روزہ باطل ہوجاتا ہے مگر کفارہ واجب نہیں ہوتا۔

【13】

بھول چوک سے کھانا پینا معاف ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص روزہ دار ہو اور وہ بھول چوک سے کچھ کھا پی لے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ وہ کھلانا پلانا اللہ کی طرف سے ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہ حکم علی الاطلاق ہر روزہ کے لئے ہے خواہ فرض روزہ ہو یا نفل وغیرہ کہ اگر کوئی روزہ دار بھول کر کچھ کھالے یا پی لے تو اس کا روزہ نہیں جاتا چناچہ تمام ائمہ کا مسلک یہی ہے البتہ امام مالک فرماتے ہیں کہ اگر یہ صورت رمضان میں پیش آئے تو اس کی قضاء ضروری ہوگی۔ ہدایہ میں لکھا ہے کہ جب کھانے پینے کے بارے میں یہ حکم ثابت ہوا تو جماع کے بارے میں بھی یہی حکم ہوگا یعنی اگر کوئی شخص روزہ کی حالت میں بھول کر جماع کرلے تو اس کے روزہ پر کچھ اثر نہیں پڑے گا۔

【14】

کفارہ اپنے اہل وعیال کو دینے کا مسئلہ

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جس وقت ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص (کہ جس کا نام سلمہ بن صخر البیاضی تھا) آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ﷺ (ایک گناہ سرزد ہوجانے کی وجہ سے) میں تباہ ہوگیا ! آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں کیا ہوا ؟ اس نے کہا کہ میں روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے پاس غلام ہے جسے تم بطور کفارہ آزاد کرسکو ؟ اس نے کہا کہ نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم میں اتنی طاقت ہے کہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھ سکو ! اس نے کہا کہ نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی استطاعت رکھتے ہو ؟ اس نے کہا کہ نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا اچھا تم بیٹھ جاؤ اور آپ ﷺ اس انتظار میں رہے کہ کوئی شخص کچھ لائے تو اسے دے دیں تاکہ وہ بطور کفارہ صدقہ کر دے چناچہ ہم اسی طرح بیٹھے رہے کہ اسی وقت آپ ﷺ کی خدمت میں ایک عرق آیا جس میں کھجوریں تھیں اور عرق ایک بڑے تھیلے کو کہتے تھے جو کھجور کے پٹھے کا بنا ہوا ہوتا تھا اور جس میں ساٹھ سیر سے لے کر اسی سیر تک کھجوریں آتی تھیں آپ ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ سائل کہاں ہے ؟ اس نے کہا کہ میں یہیں حاضر ہوں ! آپ ﷺ فرمایا لو یہ کھجوریں پکڑو اور انہیں اللہ کی راہ میں محتاجوں کو تقسیم کردو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا میں یہ کسی ایسے شخص کو دوں جو مجھ سے بھی زیادہ محتاج ہو ؟ (یعنی میں تو خود سب سے زیادہ محتاج ہوں دوسرے لوگوں کو کیسے دوں ؟ ) اللہ کی قسم مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان کوئی ایسا گھرانہ نہیں ہے جو میرے گھرانے سے زیادہ محتاج ہو اور مدینہ کے دونوں کناروں سے مراد اس کی دونوں پہاڑیاں تھیں جو مدینہ کے جانب شرق اور جانب غرب واقع ہیں نبی کریم ﷺ اس کی بات سن کر ہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی کچلیاں ظاہر ہوئیں پھر آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اچھا یہ کھجوریں اپنے اہل و عیال کو کھلاؤ ! (بخاری ومسلم) تشریح جو شخص رمضان کا روزہ رمضان ہی کے مہینہ میں قصدا توڑ دے خواہ کچھ کھا پی کر یا جماع میں مشغول ہو کر تو اس پر کفارہ واجب ہوتا ہے اور کفارہ کی ترتیب وہی ہے جو حدیث بالا میں ذکر کی گئی ہے یعنی ایک غلام آزاد کرے اگر یہ نہ ہو سکے تو دو مہینہ کے روزے پے در پے رکھے اور اگر یہ بھی بس سے باہر ہو تو پھر آخری درجہ یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اس میں اختیار ہے چاہے تو ہر مسکین کو کچا اناج دیدے اس صورت میں ہر مسکین کو پونے دو سیر گیہوں یا ساڑھے تین سیر جو دیا جائے گا ور چاہے کھانا پکا کر دے۔ اس صورت میں ان ساٹھ مسکینوں کو ایک دن دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے گا۔ اپنے اہل و عیال کو کفارہ دینے سے کفارہ ادا نہیں ہوتا خواہ اصول میں سے یعنی باپ دادا وغیرہ ہوں یا فروع میں سے یعنی بیٹا یا پوتا وغیرہ ہوں جہاں تک حدیث بالا کا تعلق ہے کہ اس سے اپنے اہل و عیال کو کفارہ دینے کا جواز ثابت ہوتا ہے تو اس کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا اس شخص کے ذمہ سے کفارہ ادا ہوگیا تھا یا نہیں ؟ چناچہ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ کفارہ ادا ہوگیا تھا اور یہ حکم صرف اسی کے ساتھ مخصوص تھا کہ آنحضرت ﷺ نے بطور خاص اس کو اجازت عطا فرما دی تھی کہ وہ کھجوریں جو کفارہ کے طور پر اس کی طرف سے دی جانی تھیں اپنے اہل و عیال کو کھلانے پر صرف کر دے۔ اور چونکہ یہ ایک مخصوص معاملہ تھا اس لئے کسی دوسرے کے لئے یہ جائز نہیں ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس وقت اس کے ذمہ سے کفارہ ادا نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے ذمہ باقی رہا تھا اور وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ کفارہ کی ادائیگی بالفعل وقتی طور پر اس وقت ضروری ہوتی ہے جب کہ کفارہ دینے والے کے پاس اس کے اور اس کے اہل و عیال کے کھانے سے بچ کر اتنا مال موجود ہو جو وہ بطور کفارہ دے سکے ورنہ بصورت دیگر وہ کفارہ اس کے ذمہ باقی رہتا ہے کہ جب بھی اس میں استطاعت ہو کفارہ ادا کر دے لہٰذ سلمہ بن صخر الانصاری البیاضی بہت زیادہ محتاج تھے اس لئے آپ ﷺ نے ان کو اجازت عطا فرمائی کہ اس وقت تو یہ کھجوریں اپنے اہل و عیال کو کھلاؤ مگر جب بعد میں استطاعت ہو تو کفارہ ادا کردینا۔ کچھ حضرات کا کہنا یہ ہے کہ پہلے یہ حکم تھا کہ کفارہ اپنے اہل و عیال کو دیا جاسکتا ہے چناچہ آپ ﷺ نے سلمہ (رض) سے کہا کہ وہ ان کھجوروں کو اپنے اہل و عیال پر خرچ کردیں مگر بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اس لئے اب مسئلہ یہی ہے کہ کسی بھی طرح کفارہ اپنے اہل و عیال کو نہ دیا جائے۔

【15】

روزہ میں بیوی کی زبان کو اپنے منہ میں لینے کا مسئلہ

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے بارے میں منقول ہے۔ کہ نبی کریم ﷺ روزہ کی حالت میں ان کا بوسہ لیتے تھے۔ اور ان کی زبان اپنے دہن مبارک میں لیتے تھے۔ (ابو داؤد) تشریح اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن تمام ہی ائمہ کے نزدیک چونکہ کسی غیر (یعنی اپنی بیوی) کا تھوک لگنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اس لئے اگر اس حدیث کو بدرجہ احتمال صحیح مان لیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ حضرت عائشہ (رض) کی زبان اپنے منہ میں لے کر تھوک منہ سے باہر پھینک دیتے ہوں گے یا اسے نگلتے نہ ہوں گے

【16】

روزہ کی حالت میں مباشرت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے روزہ کی حالت میں مباشرت کے بارے میں پوچھا (کہ آیا میں اپنی بیوی کو اپنے بدن سے لپٹا سکتا ہوں یا نہیں ؟ ) تو آپ ﷺ نے اسے اجازت دے دی، اس کے بعد ایک اور شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مباشرت کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے اسے منع فرمایا جس شخص کو آپ ﷺ نے مباشرت کی اجازت دی تھی وہ بوڑھا تھا اور جسے منع فرمایا تھا وہ جوان تھا۔ واللہ اعلم۔ تشریح چونکہ ضعیف شخص کے جذبات زیادہ برانگیختہ نہیں ہوتے اور اس کے بارے میں یہ خوف نہیں ہوتا کہ وہ محض مباشرت کے نتیجہ میں جماع کی خواہش پر کنٹرول نہیں کرسکے گا اس لئے آپ نے بڈھے کو تو اجازت دے دی اس کے برخلاف جوان شخص کے جذبات چونکہ انتہائی ہیجان انگیز اور برانگیختہ ہوتے ہیں اور اس کے بارے میں یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ وہ مباشرت کے نتیجہ میں کہیں اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکے اور از خود رفتہ ہو کر جماع کر بیٹھے اس لئے آپ ﷺ نے اسے روزہ کی حالت میں مباشرت سے منع فرمایا اب اس بارے میں اختلاف ہے بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ یہ نہی تحریمی ہے جب کہ بعض حضرات نہی تنزیہی کے قائل ہیں۔

【17】

روزہ کی حالت میں قے ہونے کا مسئلہ

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص پر قے غالب آجائے (یعنی خود بخود قے آئے) اور وہ روزہ سے ہو تو اس پر قضا نہیں ہے اور جو شخص (حلق میں انگلی وغیرہ ڈال کر) قصدا قے کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے روزے کی قضا کرے (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی ، ) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ہم اس حدیث کو عیسیٰ بن یونس کے علاوہ اور کسی سند سے نہیں جانتے، نیز محمد (یعنی امام بخاری) فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث کو محفوظ نہیں سمجھتا (یعنی یہ حدیث منکر ہے) ۔ تشریح ومن استاء عمداً (اور جو شخص قے کرے) میں قصدا کی قید لگا کر گویا بھول چوک کا استثناء فرمایا گیا ہے یعنی اگر کوئی روزہ دار اس حال میں قصدا قے کرے کہ اسے اپنا روزہ یاد ہو تو اس کا روزہ جاتا رہے گا اور اس پر قضا واجب ہوگی برخلاف اس کے اگر کوئی روزہ دار قصدا قے کرے مگر اسے یاد نہ رہا ہو کہ میں روزہ سے ہوں تو اس پر قضا واجب نہیں ہوگی۔ قے کے سلسلے میں پوری وضاحت ابتداء باب میں کی جا چکی ہے۔ اس مسئلہ کو تفصیل کے ساتھ اس موقع پر دیکھا جاسکتا ہے۔

【18】

روزہ کی حالت میں قے ہونے کا مسئلہ

حضرت معدان بن طلحہ کے بارے میں منقول ہے کہ حضرت ابودرداء نے ان سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول کریم ﷺ نے (روزہ کی حالت میں) قے کی اور پھر روزہ توڑ ڈالا، معدان کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں دمشق کی مسجد میں حضرت ثوبان (رض) سے ملا اور ان سے کہا کہ حضرت ابودرداء (رض) نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قے کی اور پھر روزہ توڑڈا لایا۔ حضرت ثوبان (رض) نے فرمایا کہ ابودرداء نے بالکل سچ کہا اور اس موقع پر میں نے ہی آپ کے وضو کے لئے پانی کا انتظام کیا تھا۔ (ابو داؤد، ترمذی، دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسی عذر کی وجہ سے اپنا نفل روزہ قصدا قے کر کے توڑ ڈالا تھا چاہے عذر بیماری کا رہا ہو یا ضعف و نا تو انی کا بہرکیف عذر کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ بغیر عذر کے نفل روزہ بھی نہیں توڑتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لاتبطلوا اعمالکم۔ یعنی اپنے اعمال کو باطل نہ کرو یعنی انہیں شروع کر کے نامکمل نہ ختم کر ڈالو۔ حدیث کے آخری الفاظ وانا صببت لہ وضوءہ سے حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد وغیرہ نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ قے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے حضرت امام شافعی اور دیگر علماء جو قے سے وضو ٹوٹنے کے قائل نہیں ہیں فرماتے ہیں کہ یہاں سے وضو کرنے سے مراد کلی کرنا اور منہ دھونا مراد ہے۔ واللہ اعلم) ۔

【19】

روزہ کی حالت میں مسواک کرنی جائز ہے

حضرت عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو روزہ کی حالت میں اس قدر مسواک کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ میں اس کو شمار نہیں کرسکتا۔ (ترمذی، ابوداؤد ) تشریح یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ روزہ دار کے لئے کسی بھی وقت اور کسی بھی طرح کی مسواک کرنا جائز ہے چناچہ اس بارے میں اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث منقول ہیں جو مرقات میں تفصیل کے ساتھ ذکر کی گئی ہیں۔ روزہ کی حالت میں مسواک کرنے کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال بھی ہیں چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تو فرماتے ہیں کہ روزہ کی حالت میں ہر طرح کی مسواک کرنا جائز ہے خواہ وہ سبز یعنی تازی ہو یا پانی میں بھگوئی ہوئی ہو اسی طرح کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے خواہ زوال آفتاب سے پہلے کا وقت ہو یا زوال آفتاب کے بعد کا جب کہ حضرت امام ابویوسف (رح) کا قول یہ ہے کہ روزہ دار کے لئے تازی اور بھگوئی ہوئی مسواک مکروہ ہے نیز حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ زوال آفتاب کے بعد مسواک کرنا مکروہ ہے۔

【20】

روزہ میں سرمہ لگانا جائز ہے

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میری آنکھیں دکھتی ہیں کیا میں روزہ کی حالت سرمہ لگا سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے اور اس کے ایک راوی ابوعات کہ ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔ تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روزہ کی حالت میں سرمہ لگانا بغیر کسی کراہت کے جائز ہے چناچہ اکثر علماء کا یہی مسلک ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رحمھم اللہ فرماتے ہیں کہ روزہ کی حالت میں سرمہ لگانا مکروہ نہیں ہے اگرچہ اس کا مزہ حلق میں محسوس ہو جب کہ حضرت امام احمد، اسحق اور سفیان رحمہم اللہ کے نزدیک مکروہ ہے امام مالک سے بعض لوگوں نے کراہت کا قول نقل کیا ہے اور بعض لوگوں نے عدم کراہت کا۔ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس بارے میں چونکہ اور بھی احادیث منقول ہیں اس لئے یہ سب مل کر قابل استناد و استدلال ہوجاتی ہیں۔

【21】

روزہ کی حالت میں سر پر پانی ڈالنا مکروہ نہیں ہے

اور نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی (رض) فرماتے ہیں کہ میں عرج میں نبی کریم ﷺ کو روزہ کی حالت میں پیاس کے دفعیہ کے لئے، یا کہا کہ گرمی کے دفعیہ کے لئے اپنے سر پر پانی ڈالتے ہوئے دیکھا ہے۔ (مالک، ابوداؤد) تشریح عرج مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے حضرت ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ روزہ کی حالت میں اپنے سر پر پانی ڈالنا یا پانی میں گھسنا مکروہ نہیں ہے۔ نورالایضاح میں جو فقہ حنفی کی ایک معتبر کتاب ہے لکھا ہے کہ مفتی بہ قول کے مطابق صحیح مسئلہ یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں ٹھنڈک حاصل کرنے اور گرمی کے دفعیہ کے لئے نہانا اور بدن کو پانی سے تر کپڑا لپیٹنا مکروہ نہیں ہے نیز درمختار میں بھی یہی منقول ہے۔

【22】

روزہ میں پچھنے لگوانے کا مسئلہ

حضرت شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رمضان کی اٹھارہ تاریخ کو رسول اللہ ﷺ مدینہ کے قبرستان جنت البقیع میں ایک ایسے شخص کے پاس تشریف لائے جو بھری ہوئی سینگی کھنچوا رہا تھا۔ اس وقت آپ ﷺ میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے آپ ﷺ نے فرمایا کہ سینگی کھیچنے اور کھنچوانے والے نے اپنا روزہ توڑ ڈالا (ابو داؤد، ابن ماجہ، دارمی) امام محی السنہ (رح) فرماتے ہیں کہ جو علماء روزہ کی حالت میں سینگی کھینچنے اور کھنچوانے کی اجازت دیتے ہیں انہوں نے اس حدیث کی تاویل کی ہے یعنی یہ کہ ارشاد گرامی میں آپ ﷺ کی مراد یہ ہے کہ سینگی کھنچوانے والا تو ضعف کی وجہ سے روزہ توڑنے کے قریب ہوجاتا ہے اور سینگی کھینچنے والا اس سبب سے افطار کے قریب ہوجاتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ سینگی کھینچنے کے عمل سے خون کا کوئی حصہ اس کے پیٹ میں پہنچ گیا ہو۔ تشریح بعض من رخص میں بعض سے مراد جمہور یعنی اکثر علماء ہیں۔ چناچہ اکثر علماء کا یہی مسلک ہے کہ روزہ کی حالت میں پچھنے لگوانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ حضرت ابن عباس (رض) کی صحیح روایت منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے احرام اور روزہ کی حالت میں بھری ہوئی سینگی کھنچوائی، حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمھم اللہ کا بھی یہی مسلک ہے ان حضرت کی طرف سے حدیث کی وہی مراد بیان کی جاتی ہے جو امام محی السنہ نے نقل کی ہے کہ روزہ توڑنے کے قریب ہوجاتا ہے یعنی بھری ہوئی سینگی کھنچوانے والے کا خون چونکہ زیادہ نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے ضعف و سستی اور نا تو انی اتنی زیادہ لاحق ہوجاتی ہے کہ اس کے بارے میں یہ خوف پیدا ہوجاتا ہے کہ کہیں وہ اپنی جان بچانے کے لئے روزہ نہ توڑ ڈالے اور سینگی کھینچنے والے کے بارے میں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ سینگی چونکہ منہ سے کھینچنی پڑتی ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ اس عمل کے وقت خون کا کوئی قطرہ اس کے پیٹ میں چلا گیا ہو۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ بھری ہوئی سینگی کھنچوانے سے ٹوٹتا تو نہیں البتہ ضعف لاحق ہونے اور جان کی ہلاکت کے خوف سے مکروہ ہوجاتا ہے بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ ارشاد گرامی بطور خاص دو اشخاص کے بارے میں ہے کہ وہ سینگی کھینچتے اور کھنچواتے وقت غیبت میں مشغول تھے لہٰذا ان دونوں کو غیبت میں مشغول دیکھ کر آپ ﷺ نے بطور تنبیہ فرمایا کہ دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا ہے بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم پہلے تھا بعد میں منسوخ ہوگیا۔

【23】

بلا عذر روزہ نہ رکھنا

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص بلا رخصت اور بلا مرض رمضان کا کوئی روزہ قصدا نہ رکھے تو تمام عمر روزہ رکھنا بھی اس کا بدلہ نہیں ہوسکتا اگرچہ وہ تمام عمر روزہ رکھے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی، ) امام بخاری نے اس روایت کو بخاری کے ترجمۃ الباب میں نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ میں نے حضرت امام بخاری (رح) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں اس روایت کے ایک راوی ابوالمطوس کو اس حدیث کے علاوہ اور کسی حدیث کا راوی نہیں جانتا۔ تشریح بلا رخصت قصدا روزہ نہ رکھنے سے مراد یہ ہے کہ شریعت نے روزہ نہ رکھنے کے لئے حالت سفر وغیرہ میں جو رخصت یعنی اجازت عطا فرمائی ہے اس کے علاوہ اس حالت جب کہ روزہ رکھنا ضروری ہے قصدا روزہ نہ رکھے چناچہ اس کے بارے میں ابتداء باب میں تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ وان صامہ ما قبل جملہ کی تاکید کے طور پر ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ یہ حدیث رمضان کے روزہ کی اہمیت و عظمت کے اظہار کے لئے بطور مبالغہ ارشاد فرمائی گئی ہے لہٰذا حدیث کی مراد یہ ہے کہ فرض روزہ کا ثواب اس قدر اور اتنا زیادہ ہے کہ وہ نفل روزہ سے میسر نہی آتا چاہے کوئی تمام عمر ہی نفل روزہ کیوں نہ رکھے اس بارے میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے علماء لکھتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے رمضان کا کوئی روزہ نہیں رکھا اور پھر بعد میں قضا روزہ رکھ لیا تو اس کے ذمہ سے فرض ادا ہوجائے گا اسی طرح اگر کسی شخص نے رمضان کا کوئی روزہ قصدا توڑ ڈالا اور پھر اس کے کفارہ کے طور پر دو مہینے کے روزے رکھ لئے تو وہ بری الذمہ ہوجائے گا۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کا روزہ نہ رکھے اور اس کے بدلے تمام عمر بھی روزے رکھے تو وہ بری الذمہ نہیں چناچہ حضرت علی اور حضرت ابن مسعود (رض) کا یہی مسلک تھا لیکن اکثر صحابہ اور علماء کا مسلک یہ ہے کہ ایک دن کے روزے کا بدل دوسرے دن کا روزہ ہوجاتا ہے یعنی اگر رمضان میں ایک دن کا روزہ نہ رکھا جائے اور اس کی قضا کے طور پر کسی دوسرے دن روزہ رکھ لیا جائے تو فرض ادا ہوجاتا ہے چاہے یہی صورت کیوں نہ ہو کہ رمضان کا وہ روزہ جو نہیں رکھا گیا گرمی کے کسی سخت اور بڑے دن میں رہا ہو اور اس کی قضا کے طور پر سردی میں اور چھوٹے دن روزہ رکھا جائے۔ اسی طرح صحیح مسئلہ یہ ہے کہ نماز بھی روزے کے حکم میں ہے کہ اگر کسی وقت نماز نہ پڑھے تو دوسرے وقت اس کی قضا پڑھنے سے فرض ادا ہوجاتا ہے کیونکہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ تمام علماء کے نزدیک نماز روزہ سے افضل ہے۔

【24】

بلا روح روزہ

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوائے پیاسا رہنے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا اور رات میں عبادت میں مشغول رہنے والے بہت سے ایسے ہیں جنہیں ان کی عبادت سے سوائے بےخوابی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص روزہ رکھے مگر نہ تو اس کی نیت میں اخلاص وللہیت ہو اور نہ وہ جھوٹ گواہی بہتان تراشی غیبت اور ان کے علاوہ دیگر ممنوعات سے اجتناب و پرہیز کرے تو اس کا روزہ بلا روح ہے کہ وہ بھوکا اور پیاسا تو رہتا ہے مگر اسے روزہ کا کمال اور ثواب حاصل نہیں ہوتا اگرچہ اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص رات میں عبادت میں مشغول رہتا ہے اور اسے حضوری قلب اور صدق نیت کی دولت میسر نہیں ہوتی یا اس کی وہ عبادت دنیا کے فائدہ اور ریاء و نمائش کے جذبہ کے تحت ہوتی ہے تو اسے کچھ ثواب نہیں ملتا اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص کسی غصب کردہ مکان میں نماز پڑھے تو اسے ثواب نہیں ملتا اگرچہ اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہوجاتا ہے یا جو شخص بغیر عذر جماعت سے محرورم رہتا ہے ایسے ہی دیگر عبادات مثلا حج و زکوٰۃ وغیرہ کا بھی مسئلہ یہ ہے کہ اگر اخلاص نیت حاصل نہ ہو تو تضییع مال اور جسمانی مشقت و محنت کے علاوہ اور کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ حاصل یہ کہ کوئی بھی عبادت ہو جب تک اخلاص نیت، حضور قلب اور محض اللہ تعالیٰ کی رضاء و خوشنودی کا جذبہ میسر نہ ہو وہ بلا روح ہوتی ہے کہ جس سے نہ تو قرب الٰہی کی سعادت میسر آتی ہے اور نہ اجر وثواب کی دولت حاصل ہوتی ہے۔ وذکر حدیث لقیط بن صبرۃ فی باب سنن الوضوء اور لقیط بن صبرہ کی روایت جو صاحب مصابیح نے یہاں نقل کی تھی باب سنن الوضو میں ذکر کی جا چکی ہے۔

【25】

سینگی، قے اور احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا

حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تین چیزویں روزہ دار کے روزہ کو نہیں توڑتیں سینگی، قے (جو از خود آئے) اور احتلام، امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث محفوظ نہیں ہے، اس کے ایک راوی عبدالرحمن بن زید روایت حدیث کے سلسلہ میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔ تشریح اس روایت کو دارقطنی بیہقی اور ابوداؤد نے بھی نقل کیا ہے نیز ابوداؤد کی روایت کے بارے میں محدثین نے لکھا ہے کہ وہ اشبہ بالصواب (یعنی صحت کے زیادہ قریب) ہے۔

【26】

سینگی، قے اور احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا

حضرت ثابت بنانی (رح) کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں روزہ دار کے سینگی کو مکروہ سمجھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں علاوہ خوف کی صورت کے۔ (بخاری) تشریح یعنی اس اعتبار سے سینگی کو مکروہ سمجھتے تھے کہ اس سے ضعف و ناتوانی لاحق ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے روزہ پر اثر پڑ سکتا ہے نہ کہ اس اعتبار سے کہ اس کی وجہ سے روزہ جاتا رہتا ہو۔

【27】

سینگی، قے اور احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا

حضرت امام بخاری بطریق تعلیق نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) پہلے تو روزہ کی حالت میں سینگی لگوا لیا کرتے تھے مگر بعد میں انہوں نے اسے ترک کردیا البتہ رات میں سینگی لگوا لیتے تھے۔ تشریح حضرت ابن عمر (رض) نے دن میں بحالت روزہ سینگی لگوانا یا تو احتیاط کے پیش نظر ترک کردیا تھا یا پھر یہ کہ ضعف کے خوف سے اجتناب کرنے لگے تھے۔ امام بخاری نے بعض احادیث کو سند کے بغیر ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ یہ مذکورہ بالا حدیث ہے چناچہ بغیر سند روایت کے نقل کرنے کو بطریق تعلیق نقل کرنا کہا جاتا ہے مذکورہ بالا روایت کے نقل کے سلسلہ میں مناسب یہ تھا کہ مصنف مشکوۃ حسب قاعدہ معمول پہلے تو کہتے عن ابن عمر الخ پھر بعد میں رواہ البخاری تعلیقا کے الفاظ نقل کرتے۔

【28】

کلی کی تری اور تھوک نگلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا

حضرت عطاء (تابعی) کہتے ہیں کہ اگر روزہ دار کلی کرے اور پھر پانی کو منہ سے بالکل نکال دے تو اس کے روزہ کو اس بات سے نقصان نہیں پہنچے گا کہ وہ اپنا تھوک اور وہ چیز جو منہ کے اندر باقی ہے نگل جائے اور روزہ دار مصطگی نہ چبائے اور اگر روزہ دار مصطگی کا تھوک نگل جائے تو میں یہ تو نہیں کہتا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا لیکن اس سے منع کیا جاتا ہے۔ یہ روایت بخاری کے ترجمۃ الباب میں نقل کی گئی ہے۔ تشریح لفظ ما بقی میں حرف ما موصولہ ہے اور اس کا عطف لفظ ریقہ پر ہے اسی پورے جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی روزہ دار کلی کرنے کے بعد اپنا تھوک یا پانی کی وہ تری جو کلی کے بعد منہ میں باقی رہ گئی ہے نگل لے تو اس کے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اس سے اجتناب قطعاً ممکن نہیں ہے۔ مصطگی۔ علک کا ترجمہ یہ گوند کی قسم سے ایک دوا ہے جو دانت کے امراض میں اور دانتوں کی تقویت کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے پہلے زمانہ میں بھی لوگ اسے دانت کی تقویت کے لئے منہ میں رکھ لیا کرتے تھے اور چباتے تھے چناچہ روزہ کی حالت میں اسے چبانے سے منع فرمایا گیا ہے البتہ مذکورہ بالا حدیث میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ مصطگی کو چباتے ہوئے جو تھوک منہ میں جمع ہوجائے اس کو نگلنے سے روزہ نہیں جاتا کیونکہ وہ تو منہ میں چپک کر رہ جاتی ہے اس کا کوئی جز علیحدہ نہیں ہوتا کہ وہ حلق میں اتر جائے اور اس سے روزہ ٹوٹ جائے تاہم بطور احتیاط اس کے تھوک کو بھی نگلنے سے منع فرمایا گیا ہے لہٰذا حدیث کے الفاظ ولکن ینہی عنہ میں مذکورہ نہی تنزیہی ہے کیونکہ علماء فرماتے ہے کہ کسی بھی چیز کو چبانا خواہ وہ مصطگی ہو یا کوئی اور چیز مکروہ ہے ہاں ضرورت کے وقت کسی بچہ کے منہ میں دینے کے لئے اس کا کوئی ٹکڑا چبانا جائز ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ مصطگی وغیرہ چبانے کی کراہت اس صورت میں ہے جب کہ یہ یقین ہو کہ اس کا کوئی جز حلق کے نیچے نہیں اترا ہے اور اگر حلق کے نیچے اتر جانے کا یقین ہو تو پھر ورزہ ٹوٹ جائے گا۔ اگر کوئی درزی یا کوئی بھی شخص رنگا ہوا ڈور منہ میں لے اور اس کا تھوک ڈورے کے رنگ جیسا ہوجائے اور پھر وہ اس کی تھوک کو نگل جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا اور اگر تھوک پر رنگ غالب نہ آئے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔