43. مسافر کے روزے کا بیان

【1】

مسافر کے روزہ کا بیان

اس باب کے تحت وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے مسافر کے روزہ کے بارے میں احکام و مسائل کا استنباط ہوگا کہ آیا سفر کی حالت میں روزہ رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ اور یہ کہ مسافر کے لئے روزہ رکھنا افضل ہے یا روزہ نہ رکھنا افضل ہے ؟

【2】

سفر کی حالت میں روزہ رکھنا اور روزہ نہ رکھنا دونوں جائز ہیں

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیا میں سفر کی حالت میں روزہ رکھوں ؟ (یعنی اگر میں رمضان میں سفر کروں تو روزہ رکھوں یا نہ رکھوں اس بارے میں کیا حکم ہے ؟ ) اور حمزہ (رض) بہت زیادہ روزے رکھا کرتے تھے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے چاہو رکھو اور چاہے نہ رکھو۔ (بخاری ومسلم) تشریح علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ رکھنا اور نہ رکھنا دونوں جائز ہیں خواہ سفر صعوبت و مشقت کے ساتھ ہو یا راحت و آرام کے ساتھ تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اگر سفر میں کوئی صعوبت و مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنا ہی بہتر ہے اور صعوبت و مشقت نہ ہو تو پھر نہ رکھنا بہتر ہوگا، نیز حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے یہاں یہ مسئلہ ہر سفر کے لئے خواہ مباح اور جائز امور کے لئے سفر ہو یا معصیت و برائی کے لئے، جب کہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ روزہ نہ رکھنے کی اجازت کا تعلق صرف مباح اور جائز سفر سے ہے اگر معصیت و برائی کے لئے سفر ہوگا تو اس صورت میں رمضان کا روزہ نہ رکھنا جائز نہیں ہوگا۔

【3】

سفر کی حالت میں روزہ رکھنا اور روزہ نہ رکھنا دونوں جائز ہیں

حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم رسول کریم ﷺ کے ہمراہ جہاد کے لئے روانہ ہوئے تو رمضان کی سولہویں تاریخ تھی ہم میں سے کچھ لوگوں نے (جو قوی تھے) روزہ رکھا اور کچھ لوگوں نے (جو ضعیف تھے یا یہ کہ دوسروں کے خدمت گار تھے) روزہ نہ رکھا چناچہ نہ تو روزہ داروں نے روزہ نہ رکھنے والوں کو معیوب جانا کیونکہ انہوں نے رخصت یعنی اجازت پر عمل کیا تھا اور نہ روزہ نہ رکھنے والوں نے روزہ داروں کو معیوب سمجھا (کیونکہ انہوں نے عزیمت پر عمل کیا تھا) ۔ (مسلم)

【4】

ضعف اور مشقت کی حالت میں روزہ نہ رکھنا ہی مسافر کے لئے بہتر ہے

حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ حالت سفر میں تھے کہ ایک جگہ آپ ﷺ نے مجمع دیکھا اور ایک شخص کو دیکھا جس پر دھوپ سے بچاؤ کے لئے سایہ کیا گیا تھا آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ شخص روزہ دار ہے جو ضعف کی وجہ سے گرپڑا ہے آپ نے فرمایا سفر کی حالت میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر روزہ رکھنے کی صورت میں ضعف و نا تو انی کی وجہ سے روزہ دار کی اتنی خستہ حالت ہوجائے تو اس کے لئے سفر میں روزہ رکھنا کوئی زیادہ بہتر بات نہیں ہے۔ بلکہ افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔

【5】

ضعف اور مشقت کی حالت میں روزہ نہ رکھنا ہی مسافر کے لئے بہتر ہے

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں ایک مرتبہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھے ہم میں سے کچھ لوگ تو روزہ دار تھے اور کچھ لوگ بغیر روزہ کے تھے، جب ہم ایک منزل پر اترے تو گرمی کا دن تھا جو لوگ روزہ سے تھے وہ تو گرپڑے ( یعنی ضعف و نا تو انی کی وجہ سے کسی کام کے لائق نہیں رہے) اور جو لوگ روزہ سے نہیں تھے وہ مستعد رہے (یعنی اپنے کام کاج میں مشغول ہوگئے) چناچہ انہوں نے خیمے کھڑے کئے اور اونٹوں کو پانی پلایا آنحضرت ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ روزہ نہ رکھنے والوں نے آج ثواب کا میدان جیت لیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح یعنی جن لوگوں نے آج روزہ نہیں رکھا زیادہ کامل ثواب انہیں لوگوں کے حصہ میں آیا کیونکہ ایسے وقت میں ان کے لئے روزہ نہ رکھنا ہی بہتر تھا۔ لفظ الیوم سے اس طرف اشارہ ہے کہ روزہ نہ رکھنے کی یہ فضیلت روزہ داروں کی خدمت گاری کی وجہ سے حاصل ہوئی نہ کہ مطلقاً نیز یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے نیک و صالح بندوں کی خدمت نوافل سے افضل ہے۔

【6】

سفر میں روزہ توڑنے کی اجازت ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال نبی کریم ﷺ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے چناچہ آپ ﷺ نے اس سفر میں روزہ رکھا یہاں تک کہ جب عسفان (جو مکہ سے دو منزل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) پہنچے تو پانی منگوایا پہلے تو آپ ﷺ نے اس پانی کو ہاتھ میں (لے کر بہت اونچا) اٹھایا (تاکہ لوگ دیکھ لیں) اور پھر آپ ﷺ نے روزہ توڑ ڈالا اس طرح آپ ﷺ مکہ تشریف لائے اور یہ سفر رمضان میں ہوا تھا، چناچہ حضرت ابن عباس (رض) کہا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے (سفر کی حالت میں) روزہ رکھا بھی اور نہیں بھی رکھا لہٰذا جو چاہے (سفر کی حالت میں) روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک اور روایت جو حضرت جابر (رض) سے منقول ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے عصر کے بعد پانی پیا۔ تشریح آپ ﷺ نے ہاتھ میں لے کر یا اونچا اس لئے اٹھایا تاکہ لوگ جان لیں کہ سفر کی حالت میں روزہ توڑنا جائز ہے یا پھر یہ مقصد تھا کہ دوسرے لوگ بھی آپ کی متابعت میں اپنا اپنا روزہ افطار کرلیں۔

【7】

حالت سفر میں روزہ کی معافی

حضرت انس بن مالک کعبی (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لئے آدھی نماز موقوف کردی ہے اسی طرح مسافر دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کے لئے روزہ معاف کردیا ہے (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) تشریح آدھی نماز موقوف کردی ہے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسافر کے لئے بھی پہلے چار رکعت نماز فرض تھی پھر بعد میں دو رکعت رہ گئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لئے ابتداء ہی سے آدھی نماز فرض فرمائی ہے کہ وہ چار رکعت والی نماز دو رکعت پڑھے اور دو رکعت کی قضا واجب نہیں ہے اسی طرح روزہ کی معافی کا مطلب یہ ہے کہ حالت سفر میں روزہ رکھنا واجب نہیں ہے۔ مگر سفر پورا ہونے کے بعد مسافر جب مقیم ہوجائے گا تو اس روزہ کی قضا اس پر ضروری ہوگی۔ دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ان کے لئے بھی جائز ہے کہ اگر روزہ کی وجہ سے بچہ یا خود ان کو تکلیف و نقصان پہنچنے کا گمان غالب ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں لیکن عذر ختم ہوجانے کے بعد ان پر بھی قضاء واجب ہوگی فدیہ لازم نہیں ہوگا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے لیکن حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے مسلک کے مطابق ان پر فدیہ بھی واجب ہے۔ اگر سفر میں آسانی اور آرام ہو تو روزہ رکھ لینا مستحب ہے حضرت سلمہ بن محیق (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کے پاس ایسی سواری ہو جو اسے منزل تک آسانی اور آرام کے ساتھ پہنچا دے (یعنی اس کا سفر بامشقت نہ ہو بلکہ پر سکون اور پر راحت ہو) تو اسے چاہئے کہ جہاں بھی رمضان آئے روزہ رکھ لے۔ (ابو داؤد) تشریح یہ حکم استحباب اور فضیلت کے طور پر ہے ورنہ تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر مسئلہ یہی ہے کہ حالت سفر میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے خواہ سفر کتنا ہی پر سکون اور پر راحت کیوں نہ ہو ویسے بھی یہ حدیث ضعیف ہے۔

【8】

حالت سفر میں روزہ کی معافی

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ فتح مکہ کے سال رمضان کے مہینہ میں مکہ کی طرف چلے تو آپ ﷺ نے روزہ رکھا۔ یہاں تک کہ کراع الغمیم (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان عسفان کے قریب ایک جگہ کا نام ہے) پہنچے تو دوسرے لوگ بھی روزہ سے تھے چناچہ آپ ﷺ نے پیالہ میں پانی منگوایا اور اسے (ہاتھ میں لے کر اتنا) اونچا اٹھایا کہ لوگوں نے دیکھ لیا پھر آپ ﷺ نے وہ پانی پی لیا، اس کے بعد آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ بعض لوگوں نے روزہ رکھا (یعنی انہوں نے آنحضرت ﷺ کی متابعت میں روزہ توڑا نہیں آپ ﷺ نے فرمایا وہ لوگ پکے گنہگار ہیں۔ وہ لوگ پکے گنہگار ہیں۔ (مسلم) تشریح وہ لوگ پکے گنہگار ہیں، آپ ﷺ نے اپنی انتہائی ناراضگی کے اظہار کے طور پر یہ الفاظ دو مرتبہ ارشاد فرمائے کیونکہ آپ ﷺ نے پانی کو اپنے ہاتھوں میں اونچا اٹھا کر اس لئے پیا تھا تاکہ دوسرے لوگ بھی مطلع ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ نے سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کی جو اجازت عطا فرمائی ہے اس بارے میں آنحضرت ﷺ کی پیروی و متابعت کریں مگر انہوں نے روزہ رکھ کر گویا آنحضرت ﷺ کے فعل کی مخالفت کی اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی رخصت (اجازت و آسانی) قبول نہ کی اس لئے آپ ﷺ نے ان کے اس طرز عمل پر برہمی کا اظہار فرماتے ہوئے اس طرح فرمایا کہ گویا سفر کی حالت میں روزہ رکھنا حرام ہے۔

【9】

سفر میں روزہ رکھنا اور حضر میں روزہ نہ رکھنا، دونوں میں مشابہت

حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا حضر میں (یعنی اپنے مستقر پر) روزہ نہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح حالت حضر میں روزہ نہ رکھنا بڑے گناہ کی بات ہے اسی طرح سفر کی حالت میں روزہ رکھنا ایک بہت بڑا گناہ ہے لیکن اکثر علماء فرماتے ہیں کہ یا تو یہ حدیث منسوخ ہے یا پھر اس حالت پر محمول ہے جب کہ سفر میں روزہ تکلیف و نقصان کا باعث بنے یا روزہ دار کی ہلاکت کا اندیشہ ہو۔

【10】

سفر میں روزہ نہ رکھنا ہی اولیٰ ہے۔

حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں سفر کی حالت میں اپنے اندر روزہ رکھنے کی قوت پاتا ہوں کیا (روزہ رکھنے کی صورت میں) مجھ پر گناہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ (یعنی سفر میں روزہ نہ رکھنا) اللہ رب العزت کی طرف سے رخصت ہے لہٰذا جس شخص نے یہ رخصت قبول کی اس نے اچھا کیا اور جو شخص روزہ رکھنا ہی چاہے تو اس پر کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔ (مسلم) تشریح اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ سفر کی حالت میں روزہ رکھنا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے، لیکن بہتر اور اولیٰ یہی ہے کہ روزہ نہ رکھا جائے۔