44. قضاء روزہ کا بیان

【1】

قضا روزہ کا مفصل بیان

روزہ نہ رکھنے یا روزہ توڑ ڈالنے کی صورت میں تین حکم ہیں۔ (١) بھول چوک میں روزہ افطار کرلینے کی صورت میں نہ کفارہ واجب ہے اور نہ قضاء۔ (٢) بغیر کسی عذر کے قصدا روزہ افطار کرلینے کی صورت میں کفارہ واجب ہوتا ہے۔ (٣) کسی عذر مثلا مرض یا سفر کی بناء پر روزہ نہ رکھنے یا افطار کرلینے کی صورت میں قضا واجب ہوتی ہے چناچہ اس باب کے تحت قضا روزہ کے احکام و آداب بیان کئے جائیں گے اور صحیح یہ ہے کہ یہاں قضا روزہ سے مراد رمضان کے قضا روزے ہیں۔

【2】

حضرت عائشہ (رض) کے قضاء روزے

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میرے ذمہ رمضان کے جو روزے ہوتے ان کی قضا میں صرف شعبان ہی کے مہینہ میں رکھ سکتی تھی۔ یحییٰ بن سعید (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مشغولیت یا کہا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت کے ساتھ مشغولیت حضرت عائشہ (رض) کو (شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں) رمضان کے قضا روزے سے باز رکھتی تھی۔ (بخاری ومسلم) حضرت عائشہ (رض) رمضان کے اپنے وہ روزے جو حیض کی وجہ سے قضا ہوتے تھے شعبان کے علاوہ اور کسی مہینہ میں رکھنے کی فرصت نہیں پاتی تھیں کیونکہ اور دنوں میں وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ہمہ وقت مشغول رہا کرتی تھیں اور اس طرح مستعد رہا کرتی تھیں کہ آنحضرت ﷺ جس وقت بھی خدمت و صحبت کے لئے بلائیں حاضر ہوجائیں، آنحضرت ﷺ چونکہ شعبان کے مہینے میں اکثر روزے سے رہا کرتے تھے اس لئے اس مہینہ میں حضرت عائشہ (رض) کو مہلت مل جاتی تو ان کے ذمہ رمضان کے جو روزے ہوتے تھے ان کی قضا رکھتیں۔

【3】

عورت اپنے خاوند کی مرضی کے بغیر نفل روزے نہ رکھے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی عورت کے لئے اپنے خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفل روزے رکھنا درست نہیں ہے۔ نیز کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کسی کو اپنے گھر میں گھسنے کی اجازت نہ دے۔ (مسلم) تشریح پہلے حکم کا مطلب یہ ہے کہ جس عورت کا خاوند اس کے پاس موجود ہو تو اس کی اجازت کے بغیر عورت کے لئے نفل روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اجازت خواہ دلالۃ ہو یا صراحۃ اور اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں مرد صحبت وغیرہ کے سلسلہ میں دقت و پریشانی محسوس کرے گا۔ اس حدیث سے مطلقاً نفل روزے رکھنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے چناچہ یہ حدیث حضرت امام شافعی کے مسلک کی نفی کرتی ہے کیونکہ حضرات شوافع کہتے ہیں کہ عورت، عرفہ اور عاشورہ کے روزے اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر بھی رکھ سکتی ہے۔ دوسرے حکم کا مطلب یہ ہے کہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کسی بھی شخص کو اپنے گھر میں آنے دے خواہ آنے والا اپنا کوئی عزیز و رشتہ دار ہو یا اجنبی حتی کہ اگر کوئی عورت آئے تو اسے بھی اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں گھسنے نہ دے۔ اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ خاوند کی رضا کا علم بھی اس کی اجازت ہی کے حکم میں ہے یعنی کسی شخص کے بارے میں اگرچہ مرد نے زبانی طور پر اجازت نہیں دی ہے لیکن عورت اگر یہ جانتی ہے کہ اس شخص کے آنے سے شوہر کو کوئی ناگواری نہیں ہوگی تو اس صورت میں وہ اس شخص کو اپنے گھر میں آنے دے سکتی ہے کیونکہ یہ بھی دلالۃ اجازت ہے۔

【4】

حائضہ پر روزہ کی قضا واجب ہے نماز کی قضا نہیں

حضرت معاذہ عدویہ رحمۃ اللہ علیہا ( جن کی کنیت ام الصہبا ہے اور جلیل القدر تابعیہ ہیں) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ یہ کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت پر روزہ کی قضاء واجب مگر نماز کی قضاء واجب نہیں ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں جب ہمیں حیض آتا تو ہمیں روزہ کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ (مسلم) تشریح سائلہ نے حضرت عائشہ (رض) سے حائضہ عورت کے بارے میں نماز اور روزہ کی تفریق کی وجہ دریافت کی مگر حضرت عائشہ (رض) نے اس کی وجہ بیان کرنے کی بجائے مذکورہ بالا جواب دے کر گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ ہر مسئلہ کی وجہ دریافت کرنا یا اس کی علت کی جستجو کرنا کوئی اعلیٰ مقصد نہیں ہے بلکہ شان عبودیت کا تقاضہ صرف یہ ہونا چاہئے کہ شارع نے جو حکم دے دیا ہے اس کی علت پوچھے بغیر اس پر عمل کیا جائے چناچہ یہ ممکن تھا کہ حضرت عائشہ (رض) سوال کے پیش نظر یہ فرماتیں کہ اگر نماز کی قضا کا حکم دیا جاتا تو حائضہ عورت بہت زیادہ دقت و مشقت اور حرج میں مبتلا ہوجاتی کیونکہ ایام کے دنوں میں بہت زیادہ نمازیں ترک ہوتی ہیں ان سب کو ہر مہینہ قضا کرنا عورت پر بہت زیادہ بار ہوجاتا ہے اس لئے اس میں یہ آسانی عطا فرمائی گئی کہ ایام کے دنوں کی نمازیں حائضہ کے حق میں معاف فرما دی گئیں جب کہ روزہ سے واسطہ سال ہی میں صرف ایک مرتبہ پڑتا ہے ان کی قضا میں اتنی زیادہ مشقت اور حرج نہیں ہوتا اس لئے حائضہ پر ان کی قضا واجب قرار پائی لیکن حضرت عائشہ (رض) نے اس جواب سے احتراز فرما کر مذکورہ بالا اسلوب اختیار فرمایا اور بحث و مباحثہ کی راہ بند کردی کیونکہ ممکن تھا کہ سائلہ اس علت کو سن کر کہتی کہ میں تو نماز کی قضا میں حرج و مشقت محسوس نہیں کرتی پھر کیوں نہ نماز کی قضا بھی واجب ہو ؟

【5】

میت کے ذمہ روزوں کا فدیہ

حضرت عائشہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کے ورثاء روزہ رکھیں (یعنی فدیہ دیں) (بخاری ومسلم) تشریح جس شخص کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کے بارے میں بھی علماء کے اختلافی مسلک ہیں چناچہ اکثر علماء کہ جن میں حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہم اللہ بھی شامل ہیں یہ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی طرف سے کوئی دوسرا روزہ نہ رکھے بلکہ اس کے ورثاء اس کے ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو فدیہ دیں چناچہ ان حضرات کی طرف سے اس حدیث کی یہی تاویل کی جاتی ہے کہ یہاں روزہ رکھنے سے مراد فدیہ دینا ہے کیونکہ فدیہ دینا بھی بمنزلہ روزہ رکھنے کے ہے اور اگلی حدیث اس توجیہ و تایل کی بنیاد ہے۔ میت کی طرف سے روزہ رکھنے سے اس لئے منع کیا جاتا ہے کہ ایک حدیث میں جو اس باب کے آخر میں آرہی ہے صراحت کے ساتھ اس کی ممانعت فرمائی گئی حضرت امام احمد حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے اس کا وارث روزے رکھے۔ مذکورہ بالا مسئلہ کے سلسلہ میں حنفیہ کا یہ مسلک بھی ہے کہ اگر مرنے والے فدیہ کے بارے میں وصیت کر جائے تو وارث پر میت کی طرف سے فدیہ مذکور ادا کرنا واجب ہے۔ جب کہ وہ فدیہ میت کی تہائی مال میں سے نکل سکتا ہو لہٰذا اگر فدیہ مقدار اس کے تہائی مال کے مقدار سے زائد ہوگی تو وارث پر فدیہ کی اس مقدار کی ادائیگی واجب نہیں جو تہائی مال سے زائد ہو۔ ہاں اگر وارث اس زائد مقدار کو بھی ادا کر دے گا تو نہ صرف یہ کہ وارث کا یہ عمل جائز شمار ہوگا بلکہ میت پر اس کا احسان بھی ہوگا، لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ پورا مسئلہ اس صورت سے متعلق ہے جب کہ مرنے والے کے ذمہ وہ روزے ہوں جن کی قضا اس کے مرنے سے پہلے ممکن رہی ہو۔ مثلا رمضان کا مہینہ گزر جانے کے بعد کسی ایسے مہینہ میں اس کا انتقال ہو جس میں وہ مرنے سے پہلے رمضان کے وہ روزے جو بیماری وغیرہ کی وجہ سے رکھنے سے رہ گئے تھے ان کی وہ قضا کرسکتا تھا اور اگر رمضان کے کچھ روزے فوت ہوگئے ہوں (مثلا رمضان ہی کے مہینہ میں اس کا انتقال ہوا ہو اور انتقال سے پہلے کچھ روزے رکھنے سے رہ گئے کہ جن کی قضا ممکن نہ ہو تو پھر ان کا تدارک یعنی ان روزوں کے بدلہ فدیہ دینا لازم ہے اور نہ مرنے والے پر فوت شدہ روزوں کا کوئی گناہ ہوگا چناچہ تمام علماء کا یہی مسلک ہے البتہ طاؤس اور قتادہ کہتے ہیں کہ ان روزوں کا تدارک اور فدیہ بھی لازم ہوگا جن کی قضا کے ممکن ہونے سے پہلے ہی اس کا انتقال ہوگیا ہوگا۔ امام شافعی کا مسلک یہ ہے مرنے والا وصیت کرے یا نہ کرے۔ اس کے فوت شدہ روزوں کے بدلے اس کے کل مال میں سے فدیہ ادا کرنا ضروری ہے مذکورہ بالا مسئلہ میں حضرت امام احمد کا جو مسلک ہے وہ پہلی حدیث کی تشریح میں بیان کیا جا چکا ہے۔

【6】

میت کے ذمہ روزوں کا فدیہ

حضرت نافع (تابعی) حضرت ابن عمر (رض) سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا چاہئے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ روایت ابن عمر (رض) پر موقوف ہے یعنی یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی نہیں ہے بلکہ حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے۔ تشریح ہر روزہ کے بدلہ مسکین کو کھلانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر روزہ کے بدلہ میں پونے دو سیر گیہوں یا ساڑھے تین سیر جو۔ یا اتنی ہی مقدار کی قیمت ادا کی جائے اور یہی مقدار نماز کے فدیہ کی بھی ہے کہ ہر نماز کے بدلہ اسی قدر فدیہ ادا کیا جائے۔ یہ حدیث جمہور علماء کی دلیل ہے جن کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی مرنے والے کے ذمہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص روزہ نہ رکھے بلکہ ورثاء اس کے بدلہ فدیہ ادا کریں اس سے پہلے جو حدیث گزری ہے غالب امکان ہے کہ وہ منسوخ ہو اور یہ حدیث ناسخ ہو، لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس حدیث کو منسوخ نہ قرار دے کر اس کی جو تاویل کی جاتی ہے اس کی بنیاد یہی حدیث ہے۔ یہ روایت اگرچہ موقوف ہے جیسا کہ امام ترمذی نے فرمایا لیکن حکم میں مرفوع (ارشاد رسول) ہی کے ہے کیونکہ اس قسم کے تشریعی امور کوئی بھی صحابی اپنی عقل سے بیان نہیں کرسکتا لہٰذا حضرت ابن عمر (رض) نے یہ مضمون آنحضرت ﷺ سے ضرور سنا ہوگا جب ہی انہوں نے اسے نقل کیا۔

【7】

نہ کسی کی طرف سے نماز پڑھی جاسکتی ہے نہ روزہ رکھا جاسکتا ہے

حضرت امام مالک (رح) کے بارے میں مروی ہے کہ ان تک یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے نماز پڑھ سکتا ہے یا کسی دوسرے کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے ؟ حضرت ابن عمر (رض) اس کے جواب میں فرمایا کرتے تھے کہ نہ تو کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے نماز پڑھے اور نہ کسی دوسرے کی طرف سے روزے رکھے۔ (موطا) تشریح حضرت امام مالک، ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے کہ نماز روزہ کسی کی طرف سے کرنا تاکہ وہ بری الذمہ ہوجائے درست نہیں ہے ہاں حنفیہ کے نزدیک یہ جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی بھی عمل کا ثواب خواہ وہ نماز ہو یا روزہ وغیرہ کسی دوسرے کو بخش سکتا ہے۔