45. نفل روزہ کا بیان

【1】

نفل روزہ کے بارے میں آپ ﷺ کا معمول

ام المومنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب نفل روزے رکھنے شروع کرتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزے رکھنا ختم نہیں کریں گے اور جب روزے نہ رکھنے پر آتے تو ہم کہتے کہ اب آپ ﷺ کبھی روزہ نہیں رکھیں گے میں نے آنحضرت ﷺ کو رمضان کے علاوہ کسی مہینہ میں پورے ماہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے آپ ﷺ کو شعبان کے علاوہ اور کسی مہینہ میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا (یعنی آپ ﷺ شعبان کے مہینے میں جتنے زیادہ روزے رکھتے تھے اتنے اور کسی مہینہ میں علاوہ رمضان کے نہیں رکھتے تھے) ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا آنحضرت ﷺ شعبان کے پورے ماہ روزے رکھا کرتے تھے (یعنی) ماہ شعبان میں چند دن چھوڑ کر بقیہ دنوں میں روزے سے رہا کرتے تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے ابتدائی جملوں کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نفل روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ اس سلسلہ میں آپ ﷺ کا معمول مبارک یہ تھا کہ کبھی تو مسلسل کافی عرصہ تک روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے روزوں کی اس کثرت اور تسلسل کو دیکھ کر لوگ گمان کرنے لگتے تھے کہ اب روزہ کا سلسلہ شاید آپ ﷺ کبھی ختم نہ کریں اور کبھی ایسا ہوتا کہ آپ ﷺ مسلسل کافی عرصہ تک روزہ رکھتے ہی نہیں تھے یہاں تک کہ لوگ سوچتے کہ شاید اب آپ ﷺ نفل روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ دوسری روایت کے الفاظ کان یصوم الخ میں جملہ آخر یعنی دوسرے لفظ کان سے جملہ اول کی وضاحت مقصود ہے کہ شعبان کے پورے ماہ سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ شعبان کے اکثر دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے، بعض حضرات کے نزدیک مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ ایک سال تو شعبان کے پورے ماہ اور دوسرے سال شعبان کے اکثر دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔

【2】

نفل روزہ کے بارے میں آپ ﷺ کا معمول

حضرت عبداللہ بن شقیق (تابعی) کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ پورے مہینہ روزہ رکھا کرتے تھے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ میں نہیں جانتی کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی مہینہ میں پورے ماہ روزے رکھے ہوں علاوہ رمضان کے اور میں ایسا کوئی مہینہ بھی نہیں جانتی جس میں آپ ﷺ نے بالکل روزے نہ رکھے ہوں کیونکہ آپ ﷺ ہر مہینہ میں کچھ دن روزے سے رہا کرتے تھے (آپ ﷺ کا یہی معمول رہا) یہاں تک کہ آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ (مسلم)

【3】

شعبان کے آخری دنوں کے روزے

حضرت عمران بن حصین (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے عمران سے پوچھا یا کسی دوسرے شخص سے پوچھا اور عمران سنتے تھے کہ اے فلاں شخص کے باپ ! کیا تم نے شعبان کے آخری دنوں کے روزے نہیں رکھے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا جب تم رمضان کے روزوں سے فارغ ہوجاؤ تو دو دن روزے رکھ لینا۔ (بخاری ومسلم) تشریح جن صاحب سے آنحضرت ﷺ نے شعبان کے آخری دنوں کے بارے میں پوچھا تھا خواہ وہ عمران رہے ہوں یا کوئی دوسرے شخص انہوں نے بطریق نذر اپنے اوپر ہر مہینے کے آخری دو دنوں کے روزے واجب قرار دے رکھے تھے چناچہ ایک مرتبہ شعبان کے آخری دو دنوں کے انہوں نے روزے نہیں رکھے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ ختم ہوجائے تو شعبان کے آخری دو دنوں کے بدلے دو روزے رکھ لینا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان کی یہ عادت تھی کہ وہ ہر مہینہ کے آخری دو دن نفل روزے رکھا کرتے تھے ایک مرتبہ شعبان کے آخری دو دنوں میں اتفاق سے انہوں نے روزے نہیں رکھے تو آپ ﷺ نے ان سے بطور استحباب فرمایا کہ رمضان کے روزے ختم ہوجانے کے بعد ان دو دنوں کے بدلے دو دنوں کے روزے رکھ لینا۔

【4】

محرم میں نفل روزہ کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا رمضان کے روزے کے بعد بہترین روزے اللہ کے مہینے کے کہ وہ ماہ محرم ہے کہ روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے بہتر نماز رات کی نماز ہے۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ ماہ محرم میں نفل روزے رکھنے بڑی فضیلت اور سعادت کی بات ہے بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہاں ماہ محرم سے مراد یوم عاشورہ ہے جس کے روزے کی بہت زیادہ فضیلت منقول ہے اور اس کی تائید اس کے بعد آنے والی حدیث سے بھی ہوتی ہے بعض حفاظ حدیث فرماتے ہیں کہ رجب کے مہینہ میں روزے کے بارے میں احادیث منقول ہیں ان میں سے اکثر موضوع اور دوسروں کی اختراع ہیں۔ اس حدیث میں ماہ محرم کی نسبت اللہ رب العزت کی طرف کی گئی ہے چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ نسبت تخصیص کی بناء پر نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہو کہ صرف محرم ہی اللہ کا مہینہ ہے بلکہ چونکہ تمام مہینے اللہ ہی کے ہیں اس لئے اس موقع پر بطور خاص اللہ کی طرف محرم کے مہینہ کی نسبت اس ماہ مبارک کے شرف و فضیلت کے اظہار کے طور پر ہے۔ حدیث کے دوسرے جزء سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ رات کی نماز (یعنی نماز تہجد) سنت مؤ کدہ نمازوں سے افضل ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اس لئے کہا جائے گا کہ یہاں پوری عبادت اس طرح ہے فرض نماز اور اس کی سنت مؤ کدہ نماز کے بعد سب سے بہتر نماز رات کی نماز ہے یا پھر اس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ اس اعتبار سے تو نماز تہجد، سنت مؤ کدہ نماز سے افضل ہے کہ تہجد کی نماز میں مشقت و محنت زیادہ ہوتی ہے نیز یہ کہ نماز تہجد ریاء و نمائش سے پاک اور محفوظ ہوتی ہے اور سنت مؤ کدہ نمازیں اس اعتبار سے افضل ہیں کہ ان کو پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی گئی ہے نیز یہ کہ وہ فرض نماز کے تابع ہوتی ہیں۔ آخر میں اتنی بات بھی ملحوظ رہے کہ وتر بھی فرض نماز کے حکم میں داخل ہے۔

【5】

یوم عاشوراء کے روزے کی فضیلت

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ رسول کریم ﷺ کسی دن روزہ کا ارادہ کرتے ہوں اور اس دن کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں۔ مگر اس دن یعنی یوم عاشورہ کو اور اس مہینہ یعنی ماہ رمضان کو دوسرے دن اور دوسرے مہینہ پر فضیلت دیتے تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کسی دن روزہ کو دوسرے دنوں کے روزوں سے افضل قرار نہیں دیتے تھے البتہ یوم عاشورہ کے روزے کو دوسرے دنوں کے روزوں پر فضیلت دیتے تھے اسی طرح رمضان کے روزوں کو اور سب روزوں سے افضل قرار دیتے تھے۔ علماء لکھتے ہیں کہ یہ حضرت ابن عباس (رض) کا فہم و گمان ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے احوال و اقوال سے ایسا سمجھ لیا ہو ورنہ تو جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے یوم عرفہ اور اس دن کا روزہ یوم عاشورہ اور اس دن کے روزہ سے افضل ہے۔

【6】

یوم عاشوراء کے روزے کا مسئلہ

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جس وقت رسول کریم ﷺ نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ تو وہ دن ہے جو یہود و نصاریٰ کے ہاں بڑا باعظمت ہے اور چونکہ یہود و نصاری کی مخالفت ہمارا شیوہ ہے لہٰذا ہم روزہ رکھ کر اس دن کی عظمت کرنے میں یہود و نصاریٰ کی موافقت کیسے کریں آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کو ضرور روزہ رکھوں گا۔ (مسلم) تشریح عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا سلسلہ کیسے شروع ہوا ؟ اس کی وضاحت اسی باب کی تیسری فصل کی پہلی حدیث میں آئے گی جس کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ اس دن کی کیا خصوصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بطور شکر اس دن روزہ رکھا تھا اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری بہ نسبت ہم موسیٰ (علیہ السلام) سے زیادہ قریب ہیں چناچہ اس کے بعد آپ ﷺ نے یوم عاشورہ کو روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ یہ واقعہ ہجرت کے ابتدائی دنوں کا ہے گویا اس وقت آپ ﷺ نے صحابہ کو عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کو جو حکم دیا وہ بطور وجوب کے تھا۔ یہاں جو صورت ذکر کی گئی ہے وہ آپ ﷺ کی دنیاوی زندگی کے آخری سال میں پیش آئی ہے اس موقت پر آپ ﷺ نے جو حکم دیا وہ بطور استحباب کے ہے کیونکہ اس بارے میں وجوب کا حکم منسوخ ہوگیا تھا اور اس کی جگہ استحباب نے لے لی اس موقع پر صحابہ نے مذکورہ بالا عرضداشت پیش کی جس کے جواب میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال اس دنیا میں رہا تو نویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا۔ اب اس میں احتمال ہے کہ یا تو آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ محرم کی دسویں تاریخ ( عاشورہء) کی بجائے صرف نویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا۔ یا یہ کہ دسویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا اور پہلا احتمال ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اور اس ترمیم سے مقصد یہ تھا کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت ہوجائے مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا، آپ ﷺ آئندہ سال تک اس دنیا میں تشریف فرما نہیں رہے بلکہ اسی سال ربیع الاول کے مہینہ میں واصل بحق ہوگئے اس طرح اگر آپ ﷺ نے نویں کا روزہ نہیں رکھا مگر علماء لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کے اس عزم و ارادہ کی بنا پر امت کے لئے محرم کی نویں تاریخ کا روزہ رکھنا سنت قرار پا گیا ہے۔ محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ عاشورے کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے مگر اس کے ساتھ ہی عاشورہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھنا مستحب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف عاشورہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ اس سے یہود کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے۔

【7】

یوم عرفہ کا روزہ

حضرت ام فضل بنت حارث (رض) کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ عرفہ کے روز میرے سامنے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کے روزہ کے بارے میں بحث کرنے لگے بعض لوگ تو کہہ رہے تھے کہ آپ ﷺ آج روزہ سے ہیں اور بعض لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ آپ ﷺ آج روزہ سے نہیں ہیں یہ دیکھ کر میں نے دودھ کا ایک پیالہ آپ ﷺ کے پاس بھیجا آپ اس وقت میدان عرفات میں اپنے اونٹ پر کھڑے تھے چناچہ آپ ﷺ نے وہ دودھ لے کر پی لیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح حضرت ام فضل (رض) حضرت عباس (رض) کی زوجہ محترمہ اور نبی کریم ﷺ کی چچی تھیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنا حج کرنے والے کے لئے تو مسنون نہیں ہے البتہ دوسرے لوگوں کے لئے مسنون ہے۔

【8】

ذی الجہ کے عشرہ اول میں روزہ رکھنے کا مسئلہ

ام المومنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو عشرہ میں روزہ رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ (مسلم) تشریح عشرہ سے مراد ذی الحجہ کا عشرہ اول یعنی یکم تاریخ سے دس تاریخ تک کا عرصہ مراد ہے اس حدیث سے بظاہر تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس عشرہ میں کبھی روزہ نہیں رکھا ہے جب کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ اس عشرہ میں ہر دن (علاوہ دسویں تاریخ کے یعنی پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک کے روزے کا ثواب ایک سال کے روزہ کے ثواب کے برابر ہے اور اس عشرہ کی ہر رات میں عبادت الٰہی کے لئے جاگنا شب قدر میں عبادت کے لئے جاگنے کے ثواب کے برابر ہے لہٰذا حضرت عائشہ (رض) کی مذکورہ بالا روایت کی مراد کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ یہاں حضرت عائشہ (رض) نے اپنے علم کی نفی کی ہے کہ میں نے آپ ﷺ کو روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کا نہ دیکھنا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ ﷺ نے روزہ نہ رکھا ہو ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس عشرہ میں روزہ رکھا ہو اور حضرت عائشہ (رض) کو اس کا علم نہ ہوا ہو، یا پھر آخری درجہ میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس عشرہ کے روزے کا مذکورہ بالا ثواب تو بیان فرمایا مگر خود آپ ﷺ کو اس عشرہ میں روزہ رکھنے کا اتفاق نہ ہوا ہو۔

【9】

نفل روزے

حضرت ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ آپ ﷺ روزہ کس طرح رکھتے ہیں ؟ یہ سن کر رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار ظاہر ہوگئے، حضرت عمر (رض) نے جو اس وقت مجلس میں حاضر تھے جب آپ ﷺ کے غصہ کی یہ کیفیت دیکھی تو فورا بول اٹھے کہ ہم راضی ہوئے اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے نبی ہونے پر اور ہم اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) یہ جملے بار بار کہتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ آپ ﷺ کا غصہ ٹھنڈا ہوا اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے پوچھا کہ اس شخص کے بارہ کیا حکم ہے جو ہمیشہ روزہ رکھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ وہ بغیر روزہ رہا۔ یا فرمایا نہ روزہ رکھا اور نہ بغیر روزہ رہا۔ اس موقع پر راوی کو شک ہے کہ آپ نے لا صام ولا افطر یا لم یصم ولم یفطر فرمایا پھر حضرت عمر (رض) نے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو دو دن تو روزہ سے رہے اور ایک دن بغیر روزہ رہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کوئی اس کی طاقت رکھتا ہے ؟ پھر حضرت عمر (رض) نے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن روزہ نہ رکھے ؟ فرمایا یہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا روزہ ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے پوچھا کہ اچھا اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایک دن تو روزہ رکھے اور دو دن بغیر روزہ کے رہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت میسر آجائے اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت میسر آجائے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ہر مہینہ کے تین روزے ہمیشہ کے روزے کے برابر ہیں (یعنی ان کا ثواب ہمیشہ روزہ رکھنے کے ثواب کے برابر ہوتا ہے) اور (غیر حج کی حالت میں) عرفہ کا روزہ تو مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ اس روزہ کی وجہ سے اس سے پہلے سال کے گناہ دور کر دے گا اور اس کے بعد والے سال کے گناہ بھی دور کر دے گا یعنی یا تو اللہ تعالیٰ آئندہ سال گناہوں سے محفوظ رکھے گا یا یہ کہ اگر گناہ سرزد ہوں گے تو معاف کر دئیے جائیں اور یوم عاشورہ کے روزے کے بارے میں بھی مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ اس روزہ کی بناء پر ایک سال پہلے کے گناہ دور کر دے گا۔ (مسلم) تشریح سائل کو تو چاہئے تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ سے اپنے بارے میں سوال کرتا کہ میں نفل روزہ کیونکر اور کب کب رکھوں ؟ تاکہ آپ ﷺ اس کے احول و کوائف کے مطابق اسے کوئی جواب دیتے مگر وہ اپنے بارے میں پوچھنے کی بجائے نبی کریم ﷺ ہی کے بارے میں پوچھ بیٹھا جو ظاہر ہے کہ آداب نبوت کے نہ صرف خلاف ہی تھا بلکہ یہ ایک حد تک گستاخی بھی تھی اس لئے آپ ﷺ پر غصہ کے آثار ظاہر ہوگئے پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ کے احوال و کوائف بالکل دوسری نوعیت کے تھے آپ ﷺ کے افعال اور آپ ﷺ کی عبادت میں کثرت و قلت کے بھی اسرار و مصالح تھے اور ظاہر ہے کہ اسرار و مصالح ہر شخص کے افعال و عبادات میں نہیں ہوسکتے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ بہت زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے کیونکہ آپ ﷺ مسلمانوں کے مسائل و مصالح ازواج مطہرات کے حقوق کی ادائیگی اور باہر سے آنے والے مہمانوں کی خاطر و مدارات اور ان کی دیکھ بھال میں مشغول رہا کرتے تھے ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ ﷺ نفل روزہ کثرت سے رکھتے۔ من یصوم الدہر کلہ (جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ) سائل درحقیقت یہی آنحضرت ﷺ سے پوچھنا چاہتا تھا مگر چونکہ اس نے اسلوب غلط اختیار کیا اس لئے اسی سوال کو حضرت عمر (رض) نے اس انداز سے نہایت ہی ادب و عاجزی کے ساتھ پوچھا کہ جو شخص ہمیشہ نفل روزہ رکھتا ہے اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے ؟ آیا وہ شخص اپنے اس عمل کی وجہ سے شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے یا نہیں ؟ اس سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے جو جملہ لا صام ولا افطر ارشاد فرمایا اس کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ جملہ یا تو ایسے شخص کے لئے بطور تنبیہ و عابد ہے یا پھر یہ کہ اس شخص کے حال کی خبر ہے کہ نہ تو اس شخص نے روزہ رکھا کیونکہ اس طرح روزہ رکھنا شریعت کے حکم کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی وہ بغیر روزہ رہا کیونکہ کھانا پینا اور تمام چیزیں اس نے ترک کئے رکھیں۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد اس شخص کے حق میں ہے جو ممنوع روزے بھی رکھے یعنی تمام سال روزے رکھے حتیٰ کی عیدین اور ایام تشریق میں بھی روزے رکھنا چھوڑے ہاں اگر کوئی شخص ان ممنوع ایام میں روزے نہ رکھے تو یہ ارشاد اس کے حق میں نہیں ہوگا او وہ ان ایام کے علاوہ بقیہ تمام دنوں میں روزے رکھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ حضرت ابوطلحہ انصاری (رض) اور حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) ان ممنوع ایام کے علاوہ بقیہ تمام دنوں میں روزے رکھتے تھے اور آنحضرت ﷺ انہیں منع فرماتے تھے یا پھر یہ کہ ہمیشہ روزہ رکھنے کی اس ممانعت کی علت یہ ہے کہ اس طرح روزے رکھنا، جسم انسانی کو ضعیف و نا تو اں کردیتا ہے جس کی بناء پر ایسا شخص جہاد اور دوسرے حقوق کی ادائیگی سے عاجز ہوجاتا ہے لہٰذا ہمیشہ روزہ رکھتا اگر کسی شخص کو ضعف و نا تو انی میں مبتلا نہ کرے تو اس کے لئے ہمیشہ روزے رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے حنفی محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس سے ضعف و نا تو انی لاحق ہوجاتی ہے اسی طرح فتاویٰ عالمگیری اور درمختار میں بھی یہی لکھا ہے کہ صوم دہر (ہمیشہ روزہ رکھنا) مکروہ ہے۔ ویطیق ذالک احد (کوئی اس کی طاقت رکھتا ہے ؟ ) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دو دن روزہ سے اور ایک دن بغیر روزہ رہنے پر قادر ہو اور اس میں اتنی طاقت ہو کہ وہ اس طرح روزہ رکھ سکے تو اس کے لئے کوئی مضائقہ نہیں یا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح روزہ رکھنا افضل ہے۔ ذالک صوم داؤد (یہ حضرت داؤد کا روزہ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ روزہ رکھنے کا یہ طریقہ نہایت معتدل ہے اور اس میں عبادت و عادت کی رعایت بھی ہے اسلام چونکہ تمام مذاہب آسمانی کا ایک حسین سنگم ہے اس لئے مذہب نے ہر معاملہ میں توازن اور اعتدال کی راہ دکھائی ہے اس کے نظریات و اعمال میں نہ افراط ہے نہ تفریط چناچہ اس لئے بعض مفکرین اسلام نے یہ کلیہ بیان کیا ہے کہ حصول علم میں اس انداز سے سعی و کوشش کرنی چاہئے کہ اس کی وجہ سے عمل کی راہیں مسدود نہ ہوجائیں اور اعمال میں بھی اس طریقہ سے مشغولیت نہ ہو کہ اس کی وجہ سے علم کی روشنی حاصل نہ ہو سکے حاصل اس کلیہ کا یہ ہے کہ حصول علم کی بہت زیادہ سعی و کوشش عمل سے نہ روک دے اور عمل میں بےمشغولیت علم سے بےبہرہ نہ کر دے بلکہ اعتدال اور توازن کے ساتھ دونوں راہوں کو اپنایا جائے اسی لئے کہا گیا ہے کہ خیر الامور اوسطہا وشرہا تفریطہا وافراطہا یعنی کسی چیز کی بھلائی و بہتری اس کی درمیانی راہ میں پوشیدہ ہے اور اس کی برائی حد سے زیادہ زیادتی اور حد سے زیادہ کمی کو اختیار کرنے میں ہے نیز اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ۔ افضل الصیام صوم داؤد علی نبینا وعلیہ السلام یعنی نفل روزوں میں سب سے بہتر روزہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ہے۔ وددت انی طوقت (میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت میسر آجائے) یعنی یہ میری عین پسند ہے کہ حق تعالیٰ مجھے اتنی طاقت اور قوت عطا فرمائے کہ ہر چوتھے دن روزہ رکھوں یعنی ایک دن تو روزہ رکھوں اور دو دن بغیر روزہ رہو اور اس سلسلہ میں دوسرے حقوق اور مسلمانوں کے مصالح میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ گویا اس ارشاد سے اس طرف اشارہ ہے کہ میں اس کی طاقت نہیں رکھتا الاّ یہ کہ حق تعالیٰ کی طرف سے میرے اندر یہ طاقت و قوت و دیعت فرما دی جائے حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ نے نفل روزہ رکھنے کے سلسلہ میں اس صورت کو بھی پسند فرمایا اگرچہ آپ ﷺ نے بسبب عدم طاقت اس پر عمل نہیں فرمایا۔ ہر مہینہ کے تین روزے سے مراد ایام بیض یعنی ہر مہینہ کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کے روزے ہیں مگر بعض حضرات کہتے ہیں کہ ہر مہینہ کی کسی بھی تین تاریخوں کے روزے مذکورہ ثواب کے حامل ہیں اور یہی قول صحیح بھی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کی ایک روایت نے جو آگے آرہی ہے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔

【10】

پیر کے دن کی فضیلت

حضرت ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر کتاب کا نزول شروع ہوا۔ (مسلم) تشریح سوال کا مقصد یا تو پیر کے روز آنحضرت ﷺ کے روزہ رکھنے کا سبب معلوم کرنا تھا یا یہ مقصد تھا کہ پیر کے روز روزہ رکھنا مستحب کیوں ہے ؟ بہر صورت پیر کے روزہ رکھنے اور اس کی فضیلت کا سبب یہ ہے کہ چونکہ اسی دن رسول کریم ﷺ کی پیدائش ہوئی اور اسی دن دین فطرت دنیا میں نازل ہونا شروع ہوا اور اس طرح دنیا والوں کو ایک عظیم نعمت حاصل ہوئی اس لئے اس کے شکرانہ کے طور پر پیر کے دن روزہ رکھا جاتا ہے۔

【11】

ہر مہینہ میں تین دن نفل کے روزے

حضرت معاذہ عدویہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ کیا رسول کریم ﷺ ہر مہینہ میں تین دن نفل روزے رکھا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں ! معاذہ کہتی ہیں کہ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ﷺ مہینہ کے کون سے دنوں میں روزہ رکھ لیتے ؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ مہینہ کے کسی خاص دن روزہ رکھنے کا اہتمام نہیں فرماتے تھے (یعنی جس دن چاہتے روزہ رکھ لیتے کوئی خاص دن متعین نہ تھا۔ (مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مہینہ میں کسی بھی تین دن روزے رکھ لینے کافی ہیں جس دن چاہے روزہ رکھ لیا جائے تیرہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کی قید نہیں ہے تاہم اکثر احادیث اور آثار میں چونکہ یہ تین تاریخیں مذکور ہیں اس لئے ان تین تاریخوں میں روزہ رکھنا افضل ہوگا ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کی اور بھی کئی صورتیں منقول ہیں جو آگے مذکور ہوں گی۔

【12】

شش عید کے روزے

حضرت ابوایوب انصاری (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے (اپنے راوی سے کہ جن کا نام عمر بن ثابت ہے) یہ حدیث بیان کی کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال کے مہینہ میں چھ روزے بھی رکھے تو وہ ہمیشہ روزہ رکھنے والے کی مانند ہوگا۔ (مسلم) تشریح جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا رمضان کے بعد شوال کے مہینہ میں چھ دن روزے رکھنے کی جنہیں شش عید کے روزے بھی کہا جاتا ہے بڑے ثواب اور فضیلت کی بات ہے ان روزوں کے سلسلہ میں حضرت امام شافعی کے ہاں اولیٰ اور افضل یہ ہے کہ رمضان کے فورا بعد یعنی دوسری تاریخ سے ساتویں تاریخ تک مسلسل یہ روزے رکھے جائیں جب کہ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک متفرق طور پر یہ روزے رکھنے افضل ہیں کہ پورے مہینہ میں جب بھی چاہے روزے رکھ لے۔

【13】

ممنوع روزے

حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فطر (عید) اور نحر (بقر عید) کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح نحر سے جنس یعنی نحر کے سب دن مراد ہیں یہاں یہ لفظ تغلیبا ذکر کیا گیا کیونکہ ایام تشریق میں بھی روزے رکھنے حرام ہیں اس مسئلہ کی وضاحت یہ ہے کہ یوں تو نحر کے تین دن ہیں اور تشریق کے بھی تین دن ہیں مگر سب کا مجموعہ چار دن ہوتا ہے اسی طرح کہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ صرف نحر کا دن ہے اور اس کے بعد دو دن یعنی گیارہویں اور بارہویں تاریخ ایام نحر بھی ہیں اور ایام تشریق بھی اور ان دونوں تاریخوں کے بعد ایک دن یعنی تیرہویں تاریخ صرف یوم تشریق ہے حاصل یہ کہ پانچ دن ایسے ہیں جن میں روزے رکھنے حرام ہیں ایک تو عید کا دن دوسرا بقر عید کا دن اور تین دن بقر عید کے بعد یعنی گیارہویں بارہویں اور تیرہویں تاریخ۔

【14】

ممنوع روزے

حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دو دن (یعنی دو موقعے) ایسے ہیں جن میں روزہ جائز نہیں ہے عید کے دن اور بقر عید کے چار دن) یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ سے تیرہویں تاریخ تک) ۔ (بخاری ومسلم)

【15】

ایام تشریق

حضرت نبیشہ ہزلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کو یاد کرنے کے دن ہیں۔ (مسلم) تشریح ایام تشریق تین دن ہیں ذی الحجہ کی گیارہویں بارہویں اور تیرہویں تاریخ، یہاں ایام تشریق کا لفظ تغلیباً ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یوم نحر بقر عید کا دن بھی کھانے پینے کا دن ہے بلکہ اصل تو وہی دن ہے اور تین دن اس کے بعد تابع ہیں لہٰذا ان چار دنوں میں روزے رکھنے حرام ہیں۔ حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ نو روز اور مہر جان کو روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ ان دنوں میں روزہ رکھنے سے ان ایام کی تعظیم لازم آئے گی جو شریعت اسلامی میں ممنوع ہے ہاں اگر کوئی شخص اپنے معمول کے مطابق پہلے سے روزہ رکھتا چلا آ رہا ہو اور اتفاق سے یہ ایام بھی اس کے معمول کے درمیان آجائیں تو پھر ان دنوں کے روزے ممنوع نہیں ہوں گے۔ وذکر اللہ اس جملہ سے یہ انتباہ مقصود ہے کہ یہ ایام اگرچہ خوشی و مسرت اور کھانے پینے کے دن ہیں مگر ان امور میں مشغولیت کے باوجود اللہ کی یاد اور عبادت سے غافل نہ ہونا چاہئے گویا اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ۔ آیت (وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ) 2 ۔ البقرۃ 203) ۔ اور یاد کرو اللہ تعالیٰ کو گنتی کے چند دنوں میں۔ اور ذکر اللہ سے مراد ایام تشریق میں نمازوں کے بعد پڑھی جانے والی تکبیرات، قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت تکبیرات اور حج کرنے والوں کے لئے رمی جمار وغیرہ ہیں۔

【16】

جمعہ کے دن روزہ

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے روز روزہ نہ رکھے ہاں اس طرح رکھ سکتا ہے کہ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ صرف جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے بلکہ جمعہ کے روزہ کے ساتھ پنجشنبہ یا ہفتہ کے دن بھی روزہ رکھ لے اور اگر دونوں دنوں یعنی پنجشنبہ و ہفتہ کے دن اور اس کے ساتھ جمعہ کے دن گویا تینوں دن روزہ رکھے تو بہتر ہے حدیث میں صرف جمعہ کے روز روزہ رکھنے کی ممانعت ذکر فرمائی گئی ہے وہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمھما اللہ کے نزدیک صرف جمعہ کے روزہ رکھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

【17】

جمعہ کے دن روزہ

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمام دنوں میں صرف جمعہ کی رات کو عبادت الٰہی کے لئے مخصوص نہ کرو اسی طرح تمام دنوں میں صرف جمعہ کے دن کو روزہ رکھنے کے لئے مخصوص نہ کرو ہاں اگر تم میں سے کسی کے روزہ کے درمیان کہ جو وہ پہلے سے رکھتا چلا آ رہا ہے جمعہ پڑجائے تو پھر صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مسلم) تشریح یہود نے ہفتہ کے دن کو عبادت کے لئے مخصوص کرلیا اور وہ صرف اسی دن کی تعظیم کرتے ہیں اور اسی طرح عیسائیوں نے اتوار کے دن کو عبادت کے لئے مخصوص کرلیا اور صرف اسی دن کی بےانتہا تعظیم کرتے ہیں اور اسی دن مشغول رہتے ہیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو اس غلط طریقہ سے روک دیا کہ تم بھی ان دونوں فرقوں کی طرح صرف جمعہ کی شب اور جمعہ کے دن کی جو اہمیت و فضیلت بیان کی ہے وہ تو برحق ہے اور اس دن کی اتنی ہی اہمیت و عظمت پیش نظر رہنی چاہئے اس میں کسی فرقہ کی مشابہت ہی کیوں نہ ہو مگر اپنی طرف سے اس کی تعظیم و تخصیص میں اضافہ نہ کرو یا پھر اس کی مخالفت کا مقصد یہ ہے کہ بندہ کو چاہئے کہ وہ تمام اوقات میں عبادات و طاعات میں مشغول رہے اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہے کسی خاص وقت کو عبادت کے لئے مخصوص کرلینا اور بقیہ اوقات میں معطل پڑے رہنا قطعا کار آمد نہیں ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ الا ان یکون فی صوم الخ کا مطلب یہ ہے کہ مثلا کسی شخص کا معمول تھا کہ وہ ہر دسویں گیارہویں روزہ رکھتا تھا اور اتفاق سے اسی دن جمعہ آپڑا یا کسی شخص نے نذر مانی کہ میں فلاں تاریخ کو روزہ رکھوں گا اور وہ تاریخ جمعہ کو پڑگئی تو ان اعذار کی وجہ سے صرف جمعہ کے روز روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہوگا۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ نماز تہجد کے لئے جمعہ کی شب کو مخصوص کردینے کی اس حدیث میں صراحت کے ساتھ ممانعت ہے چناچہ اس مسئلہ پر تمام علماء کا اتفاق ہے، نیز علماء نے صلوۃ الرغائب کو بدعت اور مکروہ قرار دینے کے سلسلے میں اس حدیث کو بطور دلیل اختیار کیا ہے صلوۃ الرغائب وہ نماز کہلاتی تھی جو بطور خاص ماہ رجب کے پہلے جمعہ کی شب میں پڑھی جاتی تھی چناچہ علماء نے اس نماز کی بدعت و برائی اور اس نماز کو اختراع کرنے والے کی گمراہی و ضلالت کی وضاحت کے لئے مستقل طور پر بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ مولا نا اسحق (رح) فرمایا کرتے تھے کہ اس حدیث کے سلسلے میں شارحین نے جو مذکورہ بالا توجیہات بیان کی ہیں تو یہ ان حضرات کے مسلک کے مطابق ہیں جن کے نزدیک صرف جمعہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے مگر حنفی مسلک کے مطابق اس حدیث کی ان توجیہا کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حنفیہ کے ہاں صرف جمعہ کے روزہ رکھنا مکروہ نہیں ہے چناچہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے کہ صرف جمعہ کے روز رکھنا جائز ہے بلکہ درمختار میں تو اسے مستحب بیان کیا گیا ہے اس سلسلہ میں حنفیہ کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے اور دوسری فصل میں آئے گی لہٰذا ہوسکتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث ان تمام احادیث کے لئے ناسخ ہو جن سے صرف جمعہ کے روز روزہ رکھنا ممنوع معلوم ہوتا ہے۔

【18】

خدا کی راہ میں ایک دن نفل روزہ رکھنے کا اجر

حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کے وقت یا یہ کہ خالص اللہ رب العزت کے لئے) ایک دن روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کا منہ یعنی اس کی ذات کو (دوزخ کی) آگ سے ستر برس کی مسافت کے بقدر دور کر دے گا۔ (بخاری ومسلم)

【19】

اعمال میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ عبداللہ کیا مجھے یہ اطلاع نہیں ملی (یعنی مجھے یہ معلوم ہوا ہے) کہ تم (روزانہ) دن میں تو روزے رکھتے ہو اور (ہر رات میں) پوری شب اللہ کی عبادت اور ذکر و تلاوت میں مشغول رہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اللہ ﷺ ! ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو (بلکہ) روزہ بھی رکھو اور بغیر روزہ بھی رہو، رات میں عبادت الٰہی بھی کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے (لہٰذا اپنے بدن کو زیادہ مشقت اور ریاضت میں مبتلا نہ کرو تاکہ بیماری یا ہلاکت میں نہ پڑجاؤ) تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے (اس لئے رات میں سویا بھی کرو تاکہ آنکھیں آرام و سکون پائیں) تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے (اس لئے اس کے شب باشی اور صحبت و مباشرت کرو) اور تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے، (لہٰذا ان کے ساتھ کلام و گفتگو کرو، ان کی خاطر و مہمانداری کرو اور ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک رہو) جس شخص نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے (گویا) روزہ نہیں رکھا (البتہ) ہر مہینہ میں تین دن کے روزے ہمیشہ کے روزہ کے برابر ہیں لہٰذا ہر مہینہ میں تین دن (یعنی ایام بیض کے یا مطلقاً کسی بھی تین دن کے) روزے رکھ لیا کرو اور اسی طرح ہر مہینہ میں قرآن پڑھا کرو (یعنی ایک مہینہ میں ایک قرآن ختم کرلیا کرو) میں نے عرض کیا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ کی ہمت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا (تو پھر) بہترین روزہ جو روزہ داؤد ہے رکھ لیا کرو (جس کا طریقہ یہ ہے کہ) ایک دن تو روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور سات راتوں میں ایک قرآن ختم کرو اور اس میں اضافہ نہ کرو (یعنی نفل روزے رکھنے اور قرآن شریف ختم کرنے کی مذکورہ بالا تعداد و مقدار میں زیادتی نہ کرو) (بخاری ومسلم) تشریح شریعت نے اعمال میں میانہ روی اور اعتدال اختیار کرنے پر بڑا زور دیا ہے چناچہ نفل عبادات اور اعمال میں نہ اتنی کمی و کوتاہی کرنی چاہئے جس سے روحانی بالیدگی اور ترقی میں اضمحلال اور درجات عالیہ کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہوجائے اور نہ اتنی زیادتی کرنی چاہئے جس سے جسمانی قوت و طاقت بالکل ہی پژمردہ ہوجائے اور دنیاوی مباح امور میں تعطل رونما ہوجائے اس لئے آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ (رض) کو منع فرمایا کہ نہ تو اتنے زیادہ روزے رکھو اور نہ اتنی زیادہ شب بیداری کرو تاکہ اس کی وجہ سے دوسری ضروری اور فرض عبادتوں میں خلل واقع نہ ہو اور نہ دوسرے انسانی و معاشرتی حقوق پس پشت پڑجائیں ہر مہینہ میں تین روزے رکھنے سے ہمیشہ کے روزے کا ثواب اس لئے لکھا جاتا ہے کہ ہر نیکی کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں جیسا کہ کئی موقعوں پر بتایا جا چکا ہے لہٰذا اس حساب سے تین روزے باعتبار ثواب اور اجزاء کے تیس روزے کے برابر ہوئے اور مہینہ میں تین روزے رکھنے والا گویا پورے مہینہ روزہ سے رہا۔

【20】

پیر اور جمعرات کے روزے

ام المومنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ پیر اور جمعرات کے دن نفل روزے رکھا کرتے تھے۔ (ترمذی نسائی)

【21】

پیر اور جمعرات کے روزے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عمل پیش کئے جاتے ہیں اس لئے میں پسند کرتا ہوں کہ میرے عمل پیش کئے جائیں تو میں روزہ سے ہوں۔ (ترمذی) تشریح بندوں کے جو بھی اعمال ہوتے ہیں ملائکہ ہر صبح و شام اوپر لے جاتے ہیں اور پھر وہ بارگاہ رب العزت میں ان دو دنوں میں پیش ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس وضاحت کے پیش نظر اس حدیث اور اس حدیث میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا جس سے ثابت ہوا تھا کہ بندوں کے صبح کے اعمال رات کے اعمال سے پہلے اور رات کے اعمال صبح کے اعمال سے پہلے (ہر روز) اوپر لے جائے جاتے ہیں یا پھر یہ کہا جائے گا کہ روزانہ ہر عمل تفصیلی طور پر پیش کیا جاتا ہے اور پھر ان دو دونوں میں تمام اعمال اجمالی طور پر پیش ہوتے ہیں۔

【22】

ایام بیض کے روزے

حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابوذر اگر تم مہینہ میں تین دن روزہ رکھنا چاہو تو تیرہویں، چودھوں اور پندرہویں کو روزہ رکھو۔ (ترمذی، نسائی) تشریح ہر مہینہ میں تین دن نفل روزے رکھنے کے سلسلے میں کئی طریقے منقول ہیں لیکن بہتر اور افضل یہی ہے کہ مذکورہ بالا تین تاریخوں میں کہ انہیں ایام بیض کہا جاتا ہے روزے رکھے جائیں۔

【23】

جمعہ کے دن نفل روزے رکھنا جائز ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کبھی مہینہ کے شروع کے تین دنوں میں بھی روزہ رکھا کرتے تھے اور ایسا کم ہوتا تھا کہ آپ ﷺ جمعہ کے دن روزہ رکھتے ہوں۔ (ترمذی، نسائی) ابوداؤد نے اس روایت کو ثلثۃ ایام تک نقل کیا ہے۔ تشریح پہلے کچھ احادیث گزری ہیں جن سے معلوم ہوا کہ صرف جمعہ کے روز نفل روزہ نہیں رکھنا چاہئے جب کہ یہ حدیث ان احادیث کے برعکس معلوم ہوتی ہے لہٰذا اس حدیث کی تاویل یہ ہے کہ آپ ﷺ جمعہ کے ساتھ ایک دن پہلے ایک دن بعد بھی روزہ رکھا کرتے تھے یا یہ کہ صرف جمعہ کے روز روزہ رکھنا آنحضرت ﷺ کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ وصال کے روزے صرف آپ ﷺ کے لئے مخصوص تھے لیکن یہ تاویل ان حضرات کے مسلک کے پیش نظر ہے جو صرف جمعہ کے روز نفل روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیتے ہیں حنفی مسلک کے مطابق چونکہ جمعہ کے روز، روزہ رکھنا جائز ہے اس لئے حنفیہ کے ہاں اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ جمعہ کے دن روزہ کے جواز کو اسی حدیث سے ثابت کرتے ہیں۔

【24】

آنحضرت ﷺ ہفتہ کے سب دنوں میں روزہ رکھتے تھے

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کسی مہینہ میں ہفتہ، اتوار، پیر کے دن اور کسی مہینہ میں منگل، بدھ جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ (ترمذی) تشریح پہلی حدیث میں جمعہ کے دن روزہ رکھنے کا ذکر تھا اور اس حدیث میں ہفتہ کے بقیہ دنوں کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ ہفتہ کے تمام دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے چونکہ تمام دن اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں اس لئے آپ اسے مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ بعض دنوں میں روزہ رکھیں اور بعض دنوں میں نہ رکھیں گویا اس بارے میں بھی آپ ﷺ نے عدل و اعتدال کی راہ اختیار کی ہوئی تھی۔

【25】

نفل روزوں کی ابتداء پیر یا جمعرات سے

حضرت ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ مجھے حکم فرماتے تھے کہ میں ہر مہینہ میں تین دن نفل روزے رکھوں اور ان کی ابتداء پیر یا جمعرات سے کروں۔ (ابو داؤد، نسائی) تشریح لفظ والخمیس میں واؤ، او کے معنی میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مہینہ میں تین دن روزے رکھو اس طرح کہ پہلا روزہ تو پیر کے دن اور دوسرا تیسرا روزہ منگل اور بدھ کے دن ہو یا پہلا روزہ جمعرات کا ہو اور بقیہ دو روزے جمعہ اور ہفتہ کے ہوں چناچہ طبرانی میں او یعنی او الخمیس ہی مذکورہ ہے بہرکیف روزہ رکھنے والا اختیار رکھتا ہے کہ ابتداء چاہے پیر کے دن سے کرے یا جمعرات کے دن سے دنوں متبرک ہیں۔

【26】

ہمیشہ روزہ رکھنے کی ممانعت کی وجہ

حضرت مسلم قرشی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے یا کسی اور شخص نے رسول کریم ﷺ سے ہمیشہ روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے اوپر تمہارے اہل و عیال کا بھی حق ہے اس لئے رمضان میں اور ان ایام میں جو رمضان سے متصل ہیں یعنی شش عید کے روزے رکھو نیز زیادہ سے زیادہ ہر بدھ اور جمعرات کو روزہ رکھ لیا کرو، اگر تم نے یہ روزے رکھ لئے تو سمجھ کہ ہمیشہ روزے رکھے۔ ( ابوداؤد، ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ روزے رکھنے کی وجہ سے چونکہ ضعف لاحق ہوجاتا ہے جس کی بناء پر نہ صرف یہ کہ ادائیگی حقوق میں تعطل پڑتا ہے بلکہ دوسری عبادات میں بھی نقصان اور حجر واقع ہوتا ہے لہٰذا اسی سبب سے ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ ہے ہاں جس شخص کو اس کی وجہ سے ضعف لاحق ہو تو اس کے لئے ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ نہیں ہوگا بلکہ مستحب ہوگا اسی طرح دائمی روزے کی ممانعت کے سلسلہ میں منقول احادیث میں اور ان مشائخ وسلف کے عمل میں کہ جو ہمیشہ روزہ رکھتے تھے مذکورہ بالا وضاحت سے تطبیق بھی ہوجاتی ہے نیز ہوسکتا ہے کہ یہاں جو حدیث ذکر کی گئی ہے وہ آپ ﷺ نے اس حدیث سے پہلے ارشاد فرمائی ہوگی جس میں بتایا گیا تھا کہ ہر مہینہ میں تین روزے رکھنے سے ہمیشہ روزہ رکھنے کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ ایک اور بات سمجھ لیجئے گزشتہ صفحات میں تشریحات کے ضمن میں علامہ ابن ہمام وغیرہ کے وہ اقوال نقل کئے گئے تھے جن میں سے یہ بات ثابت ہوتی تھی کہ ہمیشہ کے روزے رکھنے مستقلاً مکروہ ہیں اور درمختار میں بھی یہی منقول ہے کہ دائمی طور پر روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے جب کہ یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا اسی وقت مکروہ ہے جب کہ روزہ دار کے ضعف ونا تو انی میں مبتلا ہوجانے کا خوف ہو مگر ضعف کا خوف نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہوگا، لہٰذا ان تمام اقوال میں مطابقت پیدا کی جائے کہ جن اقوال سے دائمی روزوں کا مطلقاً مکروہ ہونا ثابت ہوتا ہے درحقیقت ان کا محمول بھی خوف ضعف ہے یعنی ان اقوال کا مطلب بھی یہی ہے کہ اگر ضعف کا خوف ہو تو دائمی روزے مکروہ ہوں گے ورنہ نہیں !۔

【27】

عرفات میں عرفہ کے دن روزہ مکروہ ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ ( ابوداؤد ) تشریح حج کرنے والا اگر عرفہ کے دن روزہ رکھے تو ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے ضعف لاحق ہوجائے جس کی بناء پر عرفات میں دوسرے افعال وارکان میں نقصان وخلل واقع ہو اس لئے ایسے شخص کے لئے عرفہ کا روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی گئی لیکن یہ ممانعت تحریمی کے طور پر نہیں ہے بلکہ یہ نہی تنزیہی ہے۔

【28】

صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت

حضرت عبداللہ بن بسر (رض) اپنی ہمشیرہ عزیزہ سے جن کا نام صماء (رض) تھا نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم لوگ تنہا ہفتہ کے دن روزہ نہ رکھو الاّ یہ کہ اس دن روزہ رکھنا ضروری ہی ہو، لہٰذا اگر تم میں سے کوئی شخص انگور کے درخت کی چھال یا درخت کی لکڑی کے علاوہ کچھ نہ پائے تو وہی چبائے۔ (احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح اس دن روزہ رکھنا ضروری ہو، کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ضروری روزہ ہو مثلا فرض یعنی رمضان کا روزہ ہو یا کفارہ یا نذر یا قضا کا ہو، ایسے ہی سنت موکدہ روزہ جیسے عرفہ اور عاشورہ کا روزہ ہو کہ یہ بھی ضروری روزہ ہی کے حکم میں ہیں یا اور کوئی مسنون ومستحب روزہ ہو تو اگر ان میں سے کوئی روزہ ہفتہ کے دن پڑجائے تو اس کو ہفتہ کے دن رکھنا ممنوع نہیں ہوگا۔ فان لم یجد احدکم الخ (اگر کوئی شخص تم میں سے الخ) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ہفتہ کے دن روزہ رکھ لیا تو اسے چاہئے کہ اگر اسے کچھ نہ ملے تو انگور کے درخت کی چھال یا درخت کی لکڑی چبا کر افطار کردے اور روزہ توڑڈالے اور اگر اس قسم کی بھی کوئی چیز نہ ملے تو بھی کسی نہ کسی طرح روزہ توڑڈالے۔ ہفتہ کے دن روزہ رکھنا اس لئے منع ہے کہ اس طرح اس دن کی تعظیم لازم آتی ہے اور اس تعظیم میں یہود کی مشابہت ہوتی ہے اگرچہ یہود اس دن روزہ نہیں رکھتے کیونکہ ان کے ہاں یہ یوم عید ہے تاہم وہ اس دن کی بہت زیادہ تعظیم کرتے ہیں لیکن اکثر علماء کے نزدیک ہفتہ کے دن کے روزہ کی ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔

【29】

خدا کی راہ میں ایک دن روزہ رکھنے کی فضیلت

حضرت ابوامامہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کی آگ کے درمیان ایک ایسی خندق حائل کر دے گا جو آسمان و زمین کے درمیانی فاصلہ کی برابر ہوگی۔ (ترمذی) تشریح فی سبیل اللہ (خدا کی راہ میں) کا یہ مطلب ہے کہ جہاد میں یا حج کے راستہ میں یا عمرہ میں طلب علم کے عرصہ میں اور یا محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر ایک دن روزہ رکھے خندق سے مراد ہے بڑی زبردست رکاوٹ اور سخت پردہ و حصار۔

【30】

جاڑے میں روزہ رکھنا بلا مشقت ثواب حاصل کرنا ہے

اور حضرت عامر بن مسعود راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ٹھنڈی غنیمت (یعنی بلا تعب و مشقت ثواب پانا) جاڑے میں روزہ رکھنا ہے (احمد ترمذی) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ بعض حضرات کے نزدیک حضرت عامر بن مسعود صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ما من ایام احب الی اللہ قربانی کے باب میں ذکر کی جا چکی ہے۔

【31】

یوم عاشورہ کا روزہ کیوں؟

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ اس دن کی کیا خصوصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو ؟ یہودیوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی جماعت کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبویا چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بطور شکر اس دن روزہ رکھا اس لئے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے مقابلے میں ہم موسیٰ سے زیادہ قریب اور (ان کی طرف سے بطور شکر روزہ رکھنے کے) زیادہ حقدار ہیں چناچہ آپ ﷺ نے یوم عاشورہ کو خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (بخاری ومسلم)

【32】

ہفتہ وا تو ار کے دن روزہ رکھنے میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت

حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ دوسرے دنوں میں روزہ رکھنے کی بہ نسبت ہفتہ و اتوار کے دن زیادہ روزہ رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ دو دن مشرکین کے لئے عید ہیں کہ جن میں وہ روزہ نہیں رکھتے لہٰذا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ میں ان دنوں میں روزہ رکھ کر ان کی مخالفت کروں۔ (احمد) تشریح مشرکین سے مراد یہود و نصاری ہیں اور انہیں مشرک اس لئے فرمایا کہ یہود تو حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے نصاریٰ (عیسائی) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ پہلے ایک حدیث گزری ہے جس میں ہفتہ کے دن روزہ رکھنے کے لئے منع فرمایا گیا ہے جب کہ یہ حدیث اس کے بالکل برعکس ہے ان دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ اس کا تعلق تو صرف آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی سے ہے یعنی یہ آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے اور گزشتہ حدیث کا تعلق صرف امت سے ہے۔ یعنی وہ ممانعت امت کی خصوصیات میں سے ہے یا پھر یہ کہا جائے گا کہ روزہ سے منع کیا گیا ہے وہ روزہ وہ ہے جو اس دن کی تعظیم کے طور پر رکھا جائے اور پسندیدہ روزہ وہ ہے جو یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے پیش نظر رکھا جائے۔

【33】

فرضیت رمضان سے قبل عاشوراء کے روزے کی زیادہ تاکید تھی

حضرت جابربن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پہلے ہمیں یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا کرتے تھے اس کی ترغیب دلاتے تھے اور اس دن کے آنے کے وقت ہماری خبر گیری کرتے تھے یعنی عاشورہ کا دن جب نزدیک آتا تو اس کے روزہ رکھنے کی نصیحت فرمایا کرتے تھے مگر جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو نہ آپ ﷺ نے ہمیں اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا اور نہ اس سے منع کیا اور نہ ہی اس دن کے آنے کے وقت ہماری خبر گیری کی۔ (مسلم) تشریح لفظ یا مرنا مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں نا کے بغیر یعنی صرف یامر ہے مگر صحیح مسلم میں یا مرنا ہی منقول ہے۔

【34】

سنت موکدہ روزے

حضرت حفصہ (رض) فرماتی ہیں کہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ جنہیں رسول کریم ﷺ ترک نہیں فرماتے تھے کیونکہ سنت مؤکدہ ہیں اول یوم عاشورہ کا روزہ، دوم عشرہ ذی الحجہ یعنی ذی الحجہ کے ابتدائی نو دونوں کے روزے، سوم ہر مہینہ میں تین دنوں کے روزے، چہارم فجر سے پہلے دو رکعتیں فجر کی دو سنتیں۔ (نسائی)

【35】

ایام بیض کے روزے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ایام بیض میں بغیر روزہ نہیں رہا کرتے تھے نہ گھر میں اور نہ سفر میں۔ (نسائی) تشریح ایام بیض سے مراد چاندنی راتوں کے دن ہیں یعنی قمری مہینوں کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ لہٰذا ایام بیض میں بیض سفید روشن، لیالی یعنی ان راتوں کی صفت ہے جن کے دنوں کو ایام بیض کہا جاتا ہے ان راتوں کو بیض اس لئے کہتے ہیں کہ ان راتوں میں چاندی اول سے آخر تک رہتی ہے گویا پوری رات روشن و چمکدار رہتی ہے یا پھر کہا جائے گا کہ بیض ایام ہی یعنی دنوں کی صفت ہے اور ان دنوں کو بیض اس لئے کہتے ہیں کہ ان ایام کے روزے گناہوں کی تاریکی کو دور کرتے ہیں اور قلوب کو روشن و مجلیٰ کرتے ہیں یا یہ دن ایام بیض اس لئے کہلاتے ہیں کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو جنت سے زمین پر اتارا گیا تو ان کا تمام بدن سیاہ ہوگیا تھا جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو انہیں حکم دیا گیا کہ ان دنوں میں تین روزے رکھو چناچہ انہوں نے تیرہویں کو روزہ رکھا تو ان کا تہائی بدن سفید اور روشن ہوگیا، چودہویں کو روزہ رکھا تو دو تہائی بدن سفید و روشن ہوگیا اور جب پندرہویں کو روزہ رکھا تو تمام بدن سفید روشن ہوگیا۔

【36】

ہر مہینہ میں تین روزے رکھنے کی ترتیب

اس موقع پر یہ بات جان لینی چاہئے کہ وہ تین روزے جو ہر مہینہ میں رکھنے مسنون ہیں بارہ طرح سے منقول ہیں ایک تو غیر معین کہ پورے مہینہ میں جب چاہے تین روزے رکھ لے، دوسرے یہ کہ مہینہ کے ابتدائی تین دنوں میں یعنی پہلی تاریخ سے تیسری تاریخ تک تیسرے یہ کہ مہینہ کے کسی بھی سنیچر، اتوار، پیر کے دن، چوتھے یہ کہ مہینہ کے کسی بھی منگل، بدھ، جمعرت کے دن، پانچویں یہ کہ ایام بیض یعنی تیرہیوں، چودہویں، پندرہویں تاریخ کو چھٹے یہ کہ ان روزوں میں پہلا روزہ پیر کے دن اور دو منگل اور بدھ کے دن، ساتویں یہ کہ ان روزوں میں پہلا روزہ جمعرات کے دن ہو اور دو روزے جمعہ اور ہفتہ کے دن آٹھویں یہ کہ پہلا روزہ نوچندا پیر کو اور دو روزے دو جمع راتوں کو، نویں ایک نو چندی جمعرات کو اور دو دو شن بےکو، دسویں پیر اور جمعرات اور پھر اگلے ہفتے کا پیر، گیارہویں ہر عشرہ میں ایک روزہ، بارہویں مہینہ کے آخری دنوں میں تین روزے۔ یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ بہتر اور اولیٰ یہی ہے کہ ایام بیض یعنی تیرہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو یہ روزے رکھے جائیں ویسے اختیار ہے کہ جب بھی اور جس طرح بھی یہ روزے رکھے جائیں ثواب بہر صورت حاصل ہوگا۔ ایک بات اور پورے سال میں مسنون روزوں کی تعداد اکیاون ہے تینتیس روزے تو یہی ہیں یعنی بحساب تین روزے فی مہینہ نو روزے ذی الحجہ کے مہینہ میں پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک، ایک دن یوم عاشورہ کا ایک روزہ عاشورہ سے ایک دن پہلے ایک دن بعد کا ایک روزہ شعبان کی پندرہویں تاریخ کا اور چھ روزے شوال کے جو شش عید کے روزے کہلاتے ہیں۔

【37】

بدن کی زکوٰۃ روزہ رکھنا ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر چیز کے لئے زکوٰۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ رکھنا ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح چونکہ زکوٰۃ کا مفہوم ہے بڑھنا اور طہارت اس لئے ہر چیز کے لئے زکوٰۃ ہے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر چیز کے لئے بڑھوتی ہے جو اس چیز میں سے کچھ دے کر حاصل ہوتی ہے یا ہر چیز کے لئے پاکیزگی و طہارت کا ایک ذریعہ مقرر ہے جس کی وجہ سے وہ چیز پاکیزہ و طاہر ہوتی ہے۔ لہذا بدن کی زکوٰۃ یعنی بدن کی جسمانی صحت و تندرستی اور بدن کی روحانی پاکیزگی و طہارت کا ذریعہ روزہ ہے کہ روزہ کی وجہ سے اگرچہ بظاہر جسم کی طاقت و قوت کا کچھ حصہ گھلتا اور ناقص ہوتا ہے مگر حقیقت میں روزہ جسم کے نشو نما اور صحت و تندرستی میں برکت و اضافہ کا ایک ذریعہ بنتا ہے نیز اس کی وجہ سے بدن گناہوں سے پاک ہوتا ہے لہٰذا زکوٰۃ عبادت مالیہ ہے اور روزہ طاعت بدنیہ۔

【38】

پیر اور جمعرت کی فضیلت کیون؟

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے چناچہ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ آپ ﷺ پیر اور جمعرات کے دن اکثر روزہ رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا پیر اور جمعرات وہ دن ہیں جس میں اللہ رب العزت ہر مسلمان کی بخشش کرتا ہے علاوہ ان دو لوگوں کے جو ترک تعلقات کئے ہوئے ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ (ان کے بارے میں ان فرشتوں سے جو آثار مغفرت ظاہر ہونے کے وقت برائیوں کو مٹانے پر مامور ہوتے ہیں) فرماتا ہے کہ انہیں چھوڑ دو تاوقتیکہ یہ آپس میں صلح کرلیں اس کے بعد ان کی مغفرت ہوگی۔ (احمد، ابن ماجہ) تشریح گویا آپ ﷺ نے سوال کے پیش نظر ان دونوں دنوں کی بزرگی و فضیلت ظاہر فرمائی کہ میں اس بزرگی و فضیلت کے پیش نظر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت عام اور اس کی طرف سے مغفرت و بخشش کے کی نعمت عظمی کے شکر کے طور پر ان دونوں دنوں میں روزہ رکھتا ہوں۔

【39】

اللہ کی خوشنودی کے پیش نظر روزہ رکھنے والے کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ رب العزت کی رجا و خوشنودی کی خاطر ایک دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دوزخ سے اڑتے ہوئے کوے کی مسافت کے بقدر دور رکھتا ہے جو بچہ ہو اور بوڑھا ہو کر مرے۔ (احمد، بیہقی) تشریح کہا جاتا ہے کہ کوے کی عمر ہزار ہزار برس کی ہوتی ہے لہٰذا فرمایا کہ اگر کوا ابتداء عمر سے اپنی عمر کے آخری حصہ تک اڑتا رہے تو غور کرو وہ کتنی زیادہ مسافت طے کرے گا جتنی مسافت وہ طے کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ روزہ دار کو دوزخ سے دور رکھتا ہے۔ بیہقی سے منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا روزہ دار کا سونا عبادت اس کی خاموشی تسبیح ہے اس کا عمل مضاعف ہے اس کی دعا مقبول ہے اور اس کے گناہ بخشے ہوئے ہیں۔ بیہقی سے یہ بھی منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی کے پاس یہ وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو خبر دو کہ جو بھی بندہ محض میری خوشنودی کے حصول کی خاطر کسی دن روزہ رکھتا ہے تو میں نہ صرف یہ کہ اس کے جسم و بدن کو تندرست و توانا کرتا ہوں بلکہ اسے بہت زیادہ ثواب بھی دیتا ہوں۔ خطیب سے منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اس طرح نفل روزے رکھتا ہے کہ کسی کو بھی اس کے روزہ کی خبر نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کے علاوہ اور کسی ثواب پر راضی نہیں ہوتا یعنی اس کا ثواب یہی ہے کہ اسے جنت میں داخل کرتا ہے۔ عبرانی (رح) سے منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس طرح نفل روزے رکھتا ہے کہ کسی کو بھی اس کے روزہ کی خبر نہیں ہوتی تو اللہ رب العزت کے پاس ایک خوان ہے جس پر ایسی ایسی نعمتیں ہیں کہ ویسی نعمتیں نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں اور نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی کے دل میں ان کا خیال بھی گزرتا ہے اس خوان پر صرف رزے دار بیٹھیں گے۔

【40】

نفل روزہ کی نیت دن میں کی جاسکت ہے

ام المومنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے میں نے عرض کیا کہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اب روزہ رکھ لیا ہے، پھر اس کے بعد ایک دن اور آپ ﷺ تشریف لائے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے لئے حیس ہدیہ میں آیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ لاؤ مجھے وہ دکھاؤ میں نے صبح روزہ رکھ لیا تھا پھر آپ ﷺ نے وہ حیس کھالیا۔ (مسلم) تشریح میں نے اب روزہ رکھ لیا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ میں نے روزہ کی نیت کرلی ہے اس سے معلوم ہوا کہ نفل روزہ کی نیت دن میں کرنی چاہئے چناچہ اکثر ائمہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ روزہ کسی بھی قسم کا ہو خواہ فرض ہو یا نفل اس کی نیت رات ہی سے کرنی واجب ہے۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل گزشتہ صفحات میں بیان کی جا چکی ہے۔ حیس ایک کھانے کا نام ہے جو مالیدہ کی طرح ہوتا تھا اور کھجور، گھی اور قروت سے بنایا جاتا تھا بہرکیف حدیث کے آخری الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ نے روزہ کی حالت میں حضرت عائشہ (رض) سے حیس لے کر تناول فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بغیر عذر کے بھی نفل روزہ توڑ ڈالنا جائز ہے چناچہ اکثر علماء کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے متبعین علماء رحمھم اللہ فرماتے ہیں کہ نفل روزہ شروع کردینے کے بعد اسے پورا کرنا واجب ہے اس کو توڑ ڈالنا جائز نہیں ہے ہاں کسی عذر کی بناء پر مثلا مہمانداری وغیرہ کے پیش نظر نفل روزہ توڑا جاسکتا ہے، تاہم اس صورت میں بھی قضا واجب ہوتی ہے، چونکہ یہ حدیث اس بارے میں حنفیہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے بلا عذر روزہ نہیں توڑا تھا۔ بلکہ آپ ﷺ کو کوئی ایسا عذر لاحق تھا جس کی بناء پر آپ ﷺ نے روزہ توڑ ڈالا جس کو یہاں ذکر نہیں کیا گیا، اس مسئلہ میں حنفیہ کی دلیل آگے آرہی ہے۔

【41】

نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ حضرت ام سلیم (رض) کے پاس تشریف لے گئے تو وہ آپ ﷺ کے لئے گھی اور کھجور لائیں تاکہ آپ ﷺ تناول فرمائیں آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنے گھی کو اس کی مشک میں اور کھجور کو اس کے برتن میں رکھ دو کیونکہ میں روزہ سے ہوں پھر آپ ﷺ گھر کے ایک کونہ میں کھڑے ہو کر فرض کے علاوہ نماز پڑھنے لگے اور ام سلیم (رض) اور ان کے گھر والوں کے لئے دعا فرمائی۔ (بخاری) تشریح بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ام سلیم (رض) کی ضیافت کے باوجود اس لئے روزہ نہیں توڑا کہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ اس سے ام سلیم (رض) رنجیدہ نہیں ہوں گی۔ اس بارے میں کہ آیا ضیافت نفل روزہ رکھنے والے کے لئے عذر ہے یا نہیں ؟ اگرچہ مشائخ کے ہاں اختلاف ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ مہمان اور میزبان دونوں کے لئے ضیافت عذر ہے بشرطیکہ میزبان محض مہمان کے آنے اور اپنے ساتھ کھانا نہ کھانے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ خوش نہ ہو بلکہ ملول بھی ہو اسی طرح کھانے میں میزبان کی عدم شرکت سے مہمان کی دل شکنی اور اس کو ناگواری اور تنگی ہو حاصل یہ کہ اگر کھانے میں شرکت نہ کرنے سے دل شکنی ہوتی ہو تو ضیافت عذر ہے لہٰذا نفل روزہ توڑ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر بعد میں اس روزہ کی قضا ضروری ہوگی اور اگر یہ معلوم ہو کہ دل شکنی نہیں ہوگی تو روزہ نہ توڑنا چاہئے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روزہ دار مہمان کے لئے مستحب ہے کہ وہ میزبان اور اس کے اہل و عیال کے حق میں دعائے خیر کرے۔

【42】

نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ روزہ دار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ کہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا اگر تم میں سے کسی کی دعوت کی جائے تو اسے چاہئے کہ وہ دعوت قبول کرلے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو دو رکعت نماز نفل پڑھ لے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ کھانے میں شریک ہو۔ (مسلم) تشریح اگر روزہ دار مہمان کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے میزبان کسی تشویش و پریشانی میں مبتلا ہوجائے یا کھانا نہ کھانے کی وجہ سے دشمنی یا نفرت پیدا ہوجانے کا خوف ہو تو اس صورت میں نفل روزہ توڑ دینا ہی واجب ہے۔ اور اگر مہمان یہ جانے کہ میزبان کھانا کھانے کی وجہ سے خوش تو ہوگا اور کھانا کھانے کی صورت میں وہ کسی تشویش و پریشانی میں مبتلا بھی نہیں ہوگا۔ تو اس صورت میں نفل روزہ توڑنا مستحب ہے اور اگر اس کے نزدیک دونوں امر برابر ہوں تو اس کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ کہہ دے کہ انی صائم میں روزہ دار ہوں خواہ داعی کے یہاں جائے یا نہ جائے۔

【43】

نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟

حضرت ام ہانی (رض) سے روایت ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو اس دن حضرت فاطمہ (رض) آئیں اور نبی کریم ﷺ کے بائیں طرف بیٹھ گئیں اور ام ہانی (رض) آپ ﷺ کے دائیں طرف بیٹھی ہوئی تھیں اتنے میں ایک لونڈی ایک برتن لے کر آئی جس میں پینے کی کوئی چیز تھی لونڈی نے وہ برتن آنحضرت ﷺ کو دیا آپ ﷺ نے اس میں سے کچھ پی کر وہ برتن ام ہانی (رض) کو عنایت فرمایا۔ ام ہانی (رض) نے بھی اس میں سے پیا اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے افطار کرلیا کیونکہ میں روزے سے تھی آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم نے رمضان کا کوئی قضا یا نذر کا روزہ رکھا تھا ؟ انہوں نے کہا نہیں ! بلکہ نفل روزہ رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر یہ نفل روزہ تھا تو کوئی حرج نہیں (ابو داؤد، ترمذی، دارمی) ایک اور روایت میں جو احمد اور ترمذی نے اسی کی مانند نقل کیا ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ ام ہانی (رض) نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں روزہ سے تھی آپ ﷺ نے فرمایا نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا مالک ہے چاہے روزہ رکھے چاہے افطار کرے۔ تشریح اپنے نفس کا مالک ہے کا مطلب یہ ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا خود مختار ہے کہ ابتدا چاہے تو روزہ رکھے یعنی روزہ کی نیت کرے، چاہے افطار کرے یعنی روزہ نہ رکھنے کو اختیار کرے، یا پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نفل روزہ رکھنے والا روزہ رکھنے کے بعد بھی مختار ہے کہ چاہے تو اپنا روزہ پورا کرے چاہے تو توڑ ڈالے، اس صورت میں اس کی تاویل یہ ہوگی کہ نفل روزہ دار کو اس بات کا اختیار ہے کہ اگر اس کے پیش نظر کوئی مصلحت ہو مثلا کوئی شخص اس کی ضیافت کرے یا کسی جماعت کے پاس جائے جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اگر روزہ توڑ کر ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک نہیں ہوگا تو لوگ وحشت و پریشانی میں مبتلا ہوجائیں گے تو اس صورت میں وہ روزہ توڑ سکتا ہے تاکہ آپس میں میل ملاپ اور محبت و الفت کی فضا برقرار رہے لہٰذا ان الفاظ و معانی سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ نفل روزہ توڑنے کے بعد اس کی قضا ضروری نہیں ہے جب کہ اس کے بعد آنے والی حدیث بڑی وضاحت کے ساتھ قضا کے ضروری ہونے کو ثابت کر رہی ہے۔ ام ہانی (رض) کی اس روایت کے بارے میں محدثین کے ہاں کلام ہے چناچہ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد محل بحث ہے اور منذری (رح) نے کہا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہے اور اس کی اسناد میں بہت اختلاف ہے۔

【44】

نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟

حضرت زہری (رح) حضرت عروہ (رح) سے اور وہ حضرت عائشہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ایک دن میں اور حفصہ (رض) دونوں روزے سے تھیں کہ ہمارے سامنے کھانا لایا گیا ہمیں اس کو کھانے کی خواہش ہوئی چناچہ ہم نے کھالیا اب ہمارے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بدلہ بطور قضا ایک دن روزہ رکھو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور حفاظ حدیث کی ایک ایسی جماعت کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس روایت کو زہری سے اور زہری نے حضرت عائشہ (رض) سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اس میں عروہ کا واسطہ مذکور نہیں ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ نیز اس روایت کو امام ابوداؤد نے زمیل (رح) سے نقل کیا ہے جو حضرت عروہ کے آزاد کردہ غلام تھے زمیل نے عروہ سے اور عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح چونکہ حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا نفل روزہ توڑ دے تو اس کی قضا ضروری ہے اس لئے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا یہ حکم کہ اس کے بدلہ بطور قضا ایک دن روزہ رکھو بطور وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن شوافع کے ہاں چونکہ نفل روزہ کی قضا واجب نہیں ہے اس لئے ان کے نزدیک یہ حکم بطور استحباب ہے۔ روایت کے آخری جزء زہری نے حضرت عائشہ (رض) سے بطریق ارسال نقل کیا ہے لفظ ارسال اسناد سے سقوط راوی کے معنی میں ہے جس کا مطلب ہے انقطاع واسطہ یعنی پہلی روایت کے سلسلہ اسناد میں زہری (رح) اور عائشہ (رض) کے درمیان عروہ کا جو واسطہ تھا وہ اس روایت میں نہیں ہے اگرچہ یہ اصطلاح اس معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے مگر مشہور یہی ہے کہ مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ جسے تابعی صحابی کا واسطہ ذکر کئے بغیر نقل کرے۔

【45】

روزہ دار کے سامنے کھانا

حضرت ام عمارہ بنت کعب (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ ان کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کے لئے کھانا منگوایا آپ ﷺ نے ام عمارہ سے فرمایا کہ تم بھی کھاؤ انہوں نے عرض کیا کہ میں روزہ سے ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے (اور اس کا دل کھانے کی خواہش کرتا ہے جس کی بناء پر اس کے لئے روزہ بڑا سکت ہوجاتا ہے) تو جب تک کھانے والے کھانے سے فارغ نہیں ہوجاتے فرشتے اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

【46】

روزہ دار کے سامنے کھانا

حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت بلال (رض) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ صبح کا کھانا کھا رہے تھے۔ چناچہ رسول کریم ﷺ نے حضرت بلال سے فرمایا کہ بلال آؤ کھانا کھاؤ ! حضرت بلال نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میں روزہ سے ہوں آپ ﷺ نے فرمایا ہم تو اپنا رزق یہاں کھا رہے ہیں اور بلال (رض) کا بہترین رزق جنت میں ہے بلال کیا تم جانتے ہو کہ جب روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے تو روزہ دار کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں۔ اور فرشتے اس کے لئے بخشش چاہتے ہیں جب تک کہ اس کے سامنے کھایا جاتا ہے۔ (بیہقی)