47. اعتکاف کا بیان

【1】

اعتکاف کا بیان

لغوی طور پر اعتکاف کے معنی ہیں ایک جگہ ٹھہرنا اور کسی مکان میں بند رہنا اور اصطلاح شریعت میں اعتکاف کا مفہوم ہے اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کی خاطر اعتکاف کی نیت کے ساتھ کسی جماعت والی مسجد میں ٹھہرنا۔ اعتکاف کے لئے نیت اسی مسلمان کی معتبر ہے جو عاقل ہو اور جنابت اور حیض و نفاس سے پاک و صاف ہو، رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف سنت مؤ کدہ ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں ہمیشہ اعتکاف فرماتے تھے درمختار میں لکھا ہے کہ سنت مؤ کدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر ایک شخص بھی اعتکاف کرلے تو سب کی طرف سے حکم ادا ہوجاتا ہے اور اس صورت میں اعتکاف نہ کرنے والوں پر کوئی ملامت نہیں۔ اعتکاف کے لئے زبان سے نذر ماننے سے اعتکاف واجب ہوجاتا ہے خواہ فی الحال ہو جیسے کہ کوئی کہے میں اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے اوپر اتنے دنوں کا اعتکاف لازم کرتا ہوں اور خواہ معلق ہو جیسے کوئی کہے کہ میں یہ نذر مانتا ہوں کہ اگر میرا کام ہوجائے گا تو میں اتنے دنوں کا اعتکاف کروں گا۔ گویا اعتکاف کی یہ دو قسمیں ہوئیں یعنی ایک تو سنت مؤ کدہ جو رمضان کے آخری عشرہ میں ہے اور دوسرا واجب جس کا تعلق نذر سے ہے ان دو قسموں کے علاوہ تیسری قسم مستحب ہے یعنی رمضان کے آخری عشرہ کے سوا اور کسی زمانہ میں خواہ رمضان کا پہلا دوسرا عشرہ ہو یا اور کوئی مہینہ ہو اعتکاف کرنا مستحب ہے۔ اعتکاف مستحب کے لئے اکثر زیادہ سے زیادہ مدت کوئی مقدار متعین نہیں ہے اگر کوئی شخص تمام عمر کے اعتکاف کی بھی نیت کرلے تو جائز ہے البتہ اقل (کم سے کم) مدت کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں امام محمد کے نزدیک اعتکاف مستحب کے لئے کم سے کم مدت کی بھی کوئی مقدار متعین نہیں ہے دن و رات کے کسی بھی حصہ میں ایک منٹ بلکہ اس سے بھی کم مدت کے لئے اعتکاف کی نیت کی جاسکتی ہے امام اعظم ابوحنیفہ کی ظاہر روایت بھی یہی ہے اور حنفیہ کے یہاں اسی قول پر فتویٰ ہے لہٰذا ہر مسلمان کے لئے مناسب ہے کہ وہ جب بھی مسجد میں داخل ہو خواہ نماز کے لئے یا اور کسی مقصد کے لئے تو اس طرح اعتکاف کی نیت کرلے۔ کہ میں اعتکاف کی نیت کرتا ہوں جب تک کہ مسجد میں ہوں۔ اسی طرح بلا کسی مشقت و محنت کے دن میں کئی مرتبہ اعتکاف کی سعادت و فضیلت حاصل ہوجایا کرے گی حضرت امام ابویوسف کے نزدیک اقل مدت دن کا اکثر حصہ یعنی نصف دن سے زیادہ ہے نیز حضرت امام اعطم کا ایک اور قول یہ ہے کہ اعتکاف کی اقل مدت ایک دن ہے یہ قول حضرت امام اعظم کی مذکورہ بالا ظاہر روایت کے علاوہ ہے جس پر فتویٰ نہیں ہے۔

【2】

عورتیں اپنے گھروں میں اعتکاف کریں

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس دنیا سے اٹھایا پھر آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اپنے گھروں میں اعتکاف کیا کرتی تھیں اسی لئے فقہا نے لکھا ہے کہ عورتوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ مسجد البیت گھر کی مسجد میں اعتکاف کریں اگر مسجد البیت نہ ہو تو مکان کے کسی حصہ کو مسجد قرار دے کر اس میں اعتکاف کریں بلا ضرورت اس حصہ سے باہر نہ نکلیں مکان کا وہ حصہ ہی ان کے حق میں مسجد کے حکم میں ہوجائے گا چناچہ عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔

【3】

رمضان میں خیر وبھلائی میں اضافہ فرماتے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ تمام لوگوں میں خیر و بھلائی کے معاملہ میں بہت سخی تھے اور خصوصا رمضان میں تو بہت سخاوت کرتے تھے رمضان کی ہر شب میں حضرت جبرائیل آنحضرت ﷺ کے پاس آتے اور آپ ﷺ ان کے سامنے تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے چناچہ حضرت جبرائیل سے ملاقات کے وقت آپ ﷺ کی سخاوت ہوا کے جھونکوں سے بھی بڑھ جاتی تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح اجود الناس بالخیر کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ مخلوق اللہ کو اوروں کی بہ نسب نہت زیادہ نفع پہنچاتے تھے اور لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ بھلائی کرتے تھے خاص طور پر رمضان کے مقدس ماہ آپ ﷺ کا یہ وصف معمول سے بھی زیادہ عروج پر ہوتا تھا کیونکہ یہ ماہ ایام برکت ہیں ان میں نیکی اور دنوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ اجر وثواب سے نوازی جاتی ہیں۔ ہوا کے جھونکوں، سے مراد وہ ہوا ہے جو بارش اور مینہ لے کر آتی ہے اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ بارش لانے والی ہوا کا نفع عام ہوتا ہے اور بہت ہوتا ہے مگر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی ملاقات کے وقت دوسروں کو نفع پہنچانے اور دوسروں کو بھلائی کا آپ ﷺ کا جذبہ اور آپ کا عمل اس ہوا سے بھی بڑھ جاتا تھا گویا یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ بابرکت اور افضل اوقات میں نیز مقدس و نیک لوگوں کو صحبت کے وقت انسان کو خیر و بھلائی کرنے میں زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔ بظاہر یہ حدیث باب الاعتکاف سے متعلق نظر نہیں آتی لیکن اس باب میں اس حدیث کو اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ رمضان میں اعتکاف بھی کرتے تھے جو ایک بڑے درجہ کی نیکی ہے اور اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آپ ﷺ رمضان میں بہت زیادہ نیکی و بھلائی کرتے تھے۔

【4】

رمضان میں حضرت جبرئیل کے ساتھ آنحضرت کا دور

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہر سال ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے سامنے قرآن کریم پڑھا جاتا تھا یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) پڑھتے تھے لیکن جس سال کہ آنحضرت ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے آپ کے سامنے دو مرتبہ قرآن کریم پڑھا گیا، اسی طرح آنحضرت ﷺ ہر سال دس دن اعتکاف فرماتے تھے لیکن جس سال کہ آپ کا وصال ہوا آپ نے بیس دن اعتکاف کیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس سے پہلے کی حدیث سے تو یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے سامنے قرآن پڑھا کرتے تھے اور یہ حدیث یہ بتارہی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے سامنے قرآن پڑھتے تھے مگر ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ ایک مرتبہ تو حضرت جبرائیل قرآن پڑھتے ہوں گے اور پھر اس کے بعد آنحضرت ﷺ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے سامنے تلاوت فرماتے ہوں گے جیسا کہ دو حافظ دور کرتے (آپس میں ایک دوسرے کو قرآن سناتے ہیں) گویا اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ دور کرنا بھی سنت ہے۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری سال میں خلاف معمول دو مرتبہ قرآن کریم کا دور کیا اور بیس دن اعتکاف میں گزارے کیونکہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضری کا وقت قریب تھا اور منزل شوق سامنے ! پھر وہ عشق کی ساری بےتابیان اور وصال محبوب کا شوق کچھ اور فزوں کیوں نہ ہوجاتا سچ کہا ہے کہنے والے نے وعدہ وصل چوں شود نزدیک آتش شوق تیز ترگردد (محبوب سے ملاقات کا وعدہ جب پورا ہونے کو آتا ہے تو آتش شوق زیادہ سے زیادہ بھڑک اٹھتی ہے) آپ ﷺ کے اس عمل میں امت کے لئے ایک لطیف انتباہ ہے کہ وہ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ اپنی زندگی کے آخری درجہ میں پہنچے تو نیکی و بھلائی کے راستہ پر معمول سے بھی زیادہ تیز گام ہوجائے اور اللہ رب العزت کی ملاقات اور اس کے سامنے اپنی پیشی کے لئے اطاعت و فرمانبرداری اور نیکو کاری کے ذریعہ پوری پوری تیاری کرے۔

【5】

آداب وشرائط اعتکاف

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب اعتکاف کی حالت میں ہوتے تو مسجد میں بیٹھے بیٹھے اپنا سر مبارک میری طرف کردیتے اور میں آپ ﷺ کے بالوں میں کنگھی کردیتی نیز آپ ﷺ حاجت انسانی کے علاوہ گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر معتکف اپنا کوئی عضو مسجد سے باہر نکالے تو اس سے اعکاف باطل نہیں ہوتا نیز اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ معتکف کے لئے کنگھی کرنا جائز ہے۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر معتکف اپنے جسم کا کوئی عضو مسجد کے اندر کسی برتن میں دھوئے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس سے مسجد آلودہ نہ ہو۔ حاجت انسانی کے ضمن میں حضرت امام اعظم کا مسلک یہ ہے کہ اگر معتکف بغیر حاجت و ضرورت کے ایک منٹ کے لئے بھی معتکف سے نکلے گا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ حاجت یا ضرورت کی دو قسمیں ہیں اول طبعی جیسے پاخانہ پیشاب اور غسل جنابت یعنی احتلام ہوجانے کی صورت میں غسل کرنا۔ البتہ جمعہ کے غسل کے بارے میں کوئی صریح روایت منقول نہیں ہے مگر شرح اوراد میں لکھا ہے کہ غسل کے لئے معتکف سے باہر نکلنا جائز ہے غسل خواہ واجب ہو (جیسے غسل جنابت) یا نفل ہو (جیسے غسل جمعہ وغیرہ۔ دوم شرعی جیسے نماز عیدین اور اذان یعنی اگر اذان کہنے کی جگہ مسجد سے باہر ہو تو وہاں جانا بھی حاجت کے ضمن میں آتا ہے ان سے اعتکاف باطل نہیں ہوگا پھر یہ کہ صحیح روایت کے بموجب اس حکم میں مؤذن اور غیر مؤذن دونوں شامل ہیں نماز جمعہ کے لئے باہر نکلنا بھی حاجت یا ضرورت کے تحت آتا ہے۔ لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ نماز جمعہ کے لئے اپنے معتکف سے زوال آفتاب کے وقت نکلے یا اگر جامع مسجد دور ہو تو ایسے وقت نکلے کہ جامع مسجد پہنچ کر جمعہ کی نماز تحیۃ المسجد جمعہ کی سنت کے ساتھ پڑھ سکے، نماز کے بعد کی سنت پڑھنے کے جامع مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص نماز سے زیادہ وقت کے لئے جامع مسجد میں ٹھہرے گا تو اگرچہ اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا مگر یہ مکروہ تنزیہی ہے اسی طرح اگر کسی معتکف کے ہاں خادم و ملازم وغیرہ نہ ہو تو کھانا کھانے یا کھانا لانے کے لئے گھر جانا بھی ضرورت میں داخل ہے۔ اگر مسجد گرنے لگے، یا کوئی شخص زبردستی مسجد سے باہر نکالے اور معتکف اسی وقت اپنے معتکف سے نکل کر فورا ہی کسی دوسری مسجد میں داخل ہوجائے تو اس کا اعتکاف فاسد نہیں ہوگا استحساناً (بدائع) ایسے ہی اگر کوئی معتکف جان یا مال کے خوف سے کسی دوسری مسجد میں چلا جائے تو اس کا اعتکاف فاسد نہیں ہوگا۔ کوئی معتکف پیشاب و پاخانہ یا اپنی کسی دوسری طبعی و شرعی ضرورت کے تحت معتکف سے باہر نکلا اور وہاں اس کو قرض خواہ مل گیا جس نے اسے ایک منٹ کے لئے بھی روک لیا تو حضرت امام اعظم کے نزدیک اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا جب کہ صاحبین حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد فرماتے ہیں کہ فاسد نہیں ہوگا۔ کوئی شخص پانی میں ڈوب رہا ہو یا کوئی آگ میں جل رہا ہو اور معتکف اسے بچانے کے لئے باہر نکلے یا جہاد کے لئے جب کہ نفیر عام ہو اور یا گواہی و شہادت دینے کے لئے اپنا معتکف چھوڑ کر باہر آجائے تو ان صورتوں میں اعتکاف فاسد ہوجائے گا غرضیکہ طبعی یا شرعی حاجت و ضرورت کے تحت مذکورہ بالا جو عذر بیان کئے گئے ہیں ان کے علاوہ اگر کوئی معتکف ایک منٹ کے لئے بھی باہر نکلے گا اگرچہ اس کا نکلنا سہوا ہی کیوں نہ ہو تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا البتہ صاحبین کے ہاں اتنی آسانی ہے کہ اس کا اعتکاف اسی وقت فاسد ہوگا جب کہ وہ دن کا اکثر حصہ باہر نکلا رہے۔ مذکورہ بالا حدیث سے ایک مسئلہ یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ معتکف کے لئے مسجد میں حجامت بنوانی جائز ہے بشرطیکہ بال وغیرہ مسجد میں نہ گریں۔

【6】

بحالت جاہلیت مانی گئی نذر کو پورا کرنے کا مسئلہ

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے جاہلیت میں یہ نذر مانی تھی کہ ایک رات (اور ایک دن جیسا کہ دوسری روایت میں وضاحت ہے) مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا (تو کیا وہ نذر پوری کرنی میرے لئے ضروری ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کرو۔ (بخاری ومسلم) تشریح جاہلیت، اس حالت کو کہتے ہیں جس میں اہل عرب آنحضرت ﷺ کی نبوت سے پہلے تھے بعض حضرات کہتے ہیں کہ جاہلیت سے مراد وہ حالت ہے جو اسلام کی تبلیغ عام اور اس کے ظہور سے پہلے تھی حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت اور اسلام کے ظہور سے قبل عرب میں جو معاشرہ تھا اسے جاہلیت اور اس وقت جو دور تھا اسے زمانہ جاہلیت کہا جاتا ہے۔ ارشاد گرامی اپنی نذر پوری کرو، میں یہ حکم بطور استحباب تھا اگر حضرت عمر (رض) نے اسلام قبول کرنے سے قبل نذر مانی تھی اور اگر اسلام قبول کرنے کے بعد یہ نذر مانی تھی تو پھر یہ حکم بطور وجوب تھا۔ علامہ طیبی کے مطابق یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بحالت جاہلیت مانی گئی نذر اسلام کے احکام کے موافق ہوگی تو اسلام قبول کرنے کے بعد اس نذر کو پورا کرنا واجب ہوگا، چناچہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ نذر صحیح ہی نہیں ہوگی چہ جائیکہ اسلام کے بعد اس کا پورا کرنا ضروری ہو ؟ امام اعظم کی دلیل فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے، اس حدیث کے وہ وہی معنی مراد لیتے ہیں جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں۔ اعتکاف واجب کے لئے روزہ شرط ہے علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اعتکاف کے صحیح ہونے کے لئے روزہ شرط نہیں ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی کا مسلک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک بروایت ظاہر یہ ہے کہ نفل اعتکاف کے لئے تو روزہ شرط نہیں ہے لیکن اعتکاف واجب کے لئے واجب ہے، صاحبین کا بھی یہی قول ہے اور حنفیہ کے یہاں اسی پر فتویٰ ہے حضرت امام مالک اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت امام اعظم بھی یہ فرماتے ہیں کہ مطلقاً اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے خواہ واجب ہو یا نفل۔ حنفیہ کی طرف سے اس حدیث کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر (رض) کے اعتکاف کے سلسلہ میں اس کے علاوہ جو اور روایتیں منقول ہیں ان میں اعتکاف کے ساتھ روزہ بھی ذکر ہے چناچہ ابوداؤد، نسائی اور دارقطنی نے جو روایت نقل کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) نے جاہلیت میں اپنے اوپر یہ لازم کیا کہ ایک رات اور ایک دن یا صرف ایک دن کعبہ کے اندر اعتکاف کریں گے پھر جب انہوں نے اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اعتکاف کرو اور روزہ رکھو۔ یہ تو گویا اس حدیث کا جواب تھا جہاں تک حنفیہ کی دلیل کا تعلق ہے تو ابھی آگے حضرت عائشہ (رض) کی ایک حدیث ولا اعتکاف الا بصوم آرہی ہے جس سے یہ بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہوجائے گی کہ اعتکاف واجب بغیر روزہ کے صحیح نہیں ہوتا، چناچہ اگر کوئی شخص نذر مان کر صرف رات کے اعکاف کی نیت کرے تو وہ لغو سمجھی جائے گی کیونکہ رات روزے کا محل نہیں ہے ہاں اگر کسی نے یہ نذر مانی کہ میں رمضان میں اعتکاف کروں گا تو رمضان کے روزے اعتکاف کے صحیح ہونے کے لئے کافی ہوجائیں گے اسی طرح اگر کسی شخص نے نفل روزہ رکھا اور پھر اس دن اعتکاف کی نذر کی تو یہ صحیح نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے نذر مانی کہ فلاں رمضان میں اعتکاف کروں گا مگر اس نے اس متعین رمضان میں اعتکاف نہیں کیا تو اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ بطور قضا دوسرے دنوں میں اعتکاف کرے اور مستقل طور پر اعتکاف کے لئے روزے رکھے، چناچہ یہ قضا نہ کسی دوسرے رمضان میں صحیح ہوگی اور نہ ایسے دنوں میں جس میں کوئی اور واجب روزہ رکھ رہا ہو خواہ وہ واجب روزے رمضان کے قضا روزے ہوں کسی اور طرح کے۔ اگر کوئی شخص کئی دنوں کے اعتکاف کی نیت کرے تو ان دنوں کی راتوں کا اعتکاف بھی لازم ہوجاتا ہے اسی طرح دو دنوں کے اعکاف کی نذر ماننے سے ان کی دو راتوں کا اعتکاف بھی لازم ہوجاتا ہے لیکن حضرت امام ابویوسف کے نزدیک اس صورت میں صرف ایک رات ہی کا اعتکاف لازم ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص نذر مانے کہ میں ایک مہینہ کا اعتکاف کروں گا تو اس پر ایک مہینہ کا اعتکاف علی الاتصال ہوگا، چاہے اس نے نذر مانتے وقت علی الاتصال نہ کہا ہو۔

【7】

سنت موکدہ کی قضا

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، ایک سال غالباً کسی عذر کی بناء پر آپ نے اعتکاف نہیں کیا جب دوسرا سال آیا تو آپ ﷺ نے اس رمضان میں بیس دن اعتکاف کیا (ترمذی، ابوداؤد) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو ابی بن کعب (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح غالباً یہ حدیث اس گزشتہ روایت کی وضاحت ہے جو حضرت ابوہریرہ (رض) سے منقول ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری سال میں بیس دن اعتکاف فرمایا علامہ طیبی کے مطابق یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر سنت مؤ کدہ فوت ہوجائیں تو ان کی بھی قضا کی جائے جیسا کہ فرائض کی قضا کی جاتی ہے لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ تشبیہ صرف قضا کے بارے میں ہے ورنہ تو فرائض کی قضا بھی فرض ہے اور سنن مؤ کدہ کی قضا سنت ہے فرض یا واجب نہیں ہے۔

【8】

اعتکاف کی ابتداء

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھتے اس کے بعد اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوجاتے (ابوداؤد وابن ماجہ) تشریح امام اوزاعی اور امام ثوری نے اس حدیث کو اپنے مسلک کی دلیل قرار دیا ہے کہ اعتکاف کی ابتداء دن کے ابتدائی حصہ سے ہونی چاہئے جب کہ چاروں ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مہینہ یا عشرہ وغیرہ کا اعتکاف کرے تو اعتکاف کی ابتداء دن کے آخر حصہ یعنی غروب آفتاب سے پہلے کرے اور اعتکاف کے آخری دن غروب آفتاب کے بعد اعتکاف سے باہر آئے اس لئے اس حدیث کی تاویل کی جاتی ہے کہ آنحضرت ﷺ اعتکاف کی نیت کے ساتھ غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں آجاتے تھے رات بھر مسجد میں رہتے اس کے بعد جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو مسجد کے اس حصہ میں داخل ہوجاتے جو بوریے وغیرہ سے گھیر کر ایک حجرہ کی شکل میں بنادیا جاتا تھا تاکہ لوگوں سے الگ رہیں لہٰذا آپ ﷺ کے اعتکاف کی ابتداء تو مغرب کے وقت ہی سے ہوتی تھی اور معتکف میں صبح کو داخل ہوتے تھے۔

【9】

اعتکاف کی حالت میں مریض کی عیادت

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اعتکاف کی حالت میں جب حاجت کے لئے باہر نکلتے تو مریض کی عیادت فرماتے جو مسجد سے باہر کسی جگہ ہوتا چناچہ آپ ﷺ جس طرح ہوتے ویسے ہی گزرتے اس کے پاس ٹھہرتے نہیں تھے (صرف) اس کو پوچھ لیتے تھے۔ ( ابوداؤد ) تشریح آپ ﷺ جس طرح ہوتے ویسے گزرتے۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ جس ہیئت کذائی پر ہوتے اسی طرح مریض کے پاس سے گزر جاتے نہ تو آپ ﷺ کسی اور طرف میلان کرتے تھے اور نہ ٹھہرتے تھے بلکہ سیدھے پوچھتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ لفظ فلا یعرج ما قبل کے اجمال کی وضاحت ہے چناچہ اس لفظ کے معنی یہ ہیں کہ نہ تو آپ ﷺ مریض کے پاس ٹھہرتے اور نہ اپنے راستہ سے ہٹ کر کسی اور طرف متوجہ ہوتے۔ اسی طرح لفظ یسال بطریق استیناف بیان ہے لفظ یعود کا۔ حسن اور نخعی رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ نماز جمعہ اور کسی مریض کی عیادت کے لئے معتکف سے نکلنا جائز ہے مگر چاروں ائمہ کے یہاں اس سلسلہ میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی طبعی یا شرعی ضرورت کے لئے باہر نکلے اور اس درمیان میں خواہ ضرورت رفع ہونے سے پہلے یا اس کے بعد کسی مریض کی عیادت کرے یا نماز جنازہ میں شریک ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ ان امور کے وقت نہ تو اپنے راستہ سے جدا ہو اور نہ نماز سے زیادہ ٹھہرے، اگر ان امور کے لئے اپنا راستہ چھوڑ دے گا یا نماز سے زیادہ ٹھہرے گا تو اعتکاف باطل ہوجائے گا۔ اسی طرح بطور خاص صرف عیادت کے لئے یا نماز جنازہ کے لئے اپنے معتکف سے باہر نکلے گا تو اعتکاف ختم ہوجائے گا ہاں اگر کسی شخص نے اعتکاف کی نذر کو اس الزام کے ساتھ مشروط کیا ہو کہ میں اعتکاف کی حالت میں مریض کی عیادت، نماز جنازہ میں شرکت اور مجلس وعظ و نصیحت میں حاضری کے لئے اپنے معتکف سے نکلا کروں گا تو یہ جائز ہوگا۔

【10】

اعتکاف کے آداب

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اعتکاف کرنے والے کے لئے یہ سنت (یعنی ضروری) ہے کہ وہ نہ تو (بالقصد اور ٹھہر کر) مریض کی عیادت کرے اور نہ مسجد سے باہر مطلقاً نماز جنازہ میں شریک ہو نیز نہ عورت سے صحبت کرے نہ عورت سے مباشرت کرے اور نہ علاوہ ضروریات کے مثلا پیشاب و پاخانہ کے علاوہ کسی دوسرے کام سے باہر نکلے اور روزہ اعتکاف کے لئے ضرور ہے اور اعتکاف مسجد جامع ہی میں صحیح ہوتا ہے۔ (ابو داؤد) تشریح مباشرت سے وہ چیزیں مراد ہیں جو جماع کا ذریعہ اور باعث بنتی ہیں جیسے بوسہ لینا بدن سے لپٹانا اور اسی قسم کی دوسری حرکات لہٰذا ہم بستری اور مباشرت معتکف کے لئے حرام ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ہم بستری سے اعتکاف باطل بھی ہوجاتا ہے خواہ عمداً کی جائے یا سہوا اور خواہ دن میں ہو یا رات میں، جب کہ مباشرت سے اعتکاف اسی وقت باطل ہوگا جب کہ انزال ہوجائے گا اگر انزال نہیں ہوگا تو اعتکاف باطل نہیں ہوگا۔ معتکف کے لئے مسجد میں کھانا پینا اور سونا جائز ہے اسی طرح خریدو فروخت بھی جائز ہے بشرطیکہ اشیاء خریدو فروخت مسجد میں نہ لائی جائیں کیونکہ اشیاء خریدو فروخت کو مسجد میں لانا مکروہ تحریمی ہے نیز یہ کہ معتکف خریدو فروخت صرف اپنی ذات یا اپنے اہل و عیال کی صرورت کے لئے کرے گا تو جائز ہوگا اور اگر تجارت وغیرہ کے لئے کرے گا تو جائز نہیں ہوگا یہ بات ذہن نشین رہے کہ مسجد میں خریدو فروخت غیر معتکف کے لئے کسی بھی طرح جائز نہیں ہے حالت اعتکاف میں بالکل چپ بیٹھنا بھی مکروہ تحریمی ہے جب کہ معتکف مکمل خاموشی کو عبادت جانے ہاں بری باتیں زبان سے نہ نکالے جھوٹ نہ بولے غیبت نہ کرے بلکہ قرآن مجید کی تلاوت نیک کام، حدیث و تفسیر اور انبیاء صالحین کے سوانح پر مشتمل کتابیں یا دوسرے دینی لٹریچر کے مطالعہ، اللہ تعالیٰ کے ذکر یا کسی دینی علم کے پڑھنے پڑھانے اور تصنیف و تالیف میں اپنے اوقات صرف کر دے۔ حاصل یہ ہے کہ چپ بیٹھنا کوئی عبادت نہیں ہے مباح کلام و گفتگو بھی بلا ضرورت مکروہ ہے اور اگر ضرورت کے تحت ہو تو وہ خیر میں داخل ہے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ مسجد میں بےضرورت کلام کرنا حسنات کو اس طرح کھا جاتا ہے (یعنی نیست و نابود کردیتا ہے) جیسے آگ خشک لکڑیوں کو۔ حدیث کے الفاظ اعتکاف کے لئے روزہ ضروری ہے، یہ بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہوئی کہ اعتکاف بغیر روزہ کے صحیح نہیں ہوتا چناچہ اس بارے میں حنفیہ کے مسلک کی دلیل یہی حدیث ہے، مسجد جامع سے مراد وہ مسجد ہے جس میں لوگ باجماعت نماز پڑھتے ہوں چناچہ حضرت امام اعظم سے منقول ہے کہ اعتکاف اسی مسجد میں صحیح ہوتا ہے جس میں پانچوں وقت کی نمازیں جماعت سے پڑھی جاتی ہوں، امام احمد کا بھی یہی قول ہے حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور صاحبین کے نزدیک ہر مسجد میں اعتکاف درست ہے اگر مسجد جامع سے جمعہ مسجد مراد لی جائے تو پھر اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اعتکاف جمعہ مسجد میں افضل ہے چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ افضل اعتکاف وہ ہے جو مسجد حرام میں ہو پھر وہ مسجد نبوی میں ہو پھر وہ مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس میں ہو پھر وہ جامع مسجد میں ہو پھر وہ جو اس مسجد میں ہو جس میں نمازی بہت ہوں۔

【11】

آنحضرت ﷺ کا معتکَف

حضرت ابن عمر (رض) نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب اعتکاف فرماتے تو آپ ﷺ کے لئے مسجد نبوی میں ستون توبہ کے آگے یا پیچھے آپ کا بچھونا بچھایا جاتا تھا یا آپ ﷺ کی چارپائی رکھ دی جاتی تھی۔ (ابن ماجہ) تشریح مسجد نبوی کے ستونوں میں سے ایک ستون کا نام ہے ستون توبہ اور اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک صحابی حضرت ابولبابہ انصاری (رض) سے ایک تقصیر ہوگئی تھی جس کی بناء پر انہوں نے اپنے آپ کو اس ستون سے باندھ دیا اور کئی دن تک اسی طرح بندھے رہے اس کے بعد جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے ان کو اس ستون سے کھولا۔

【12】

معتکف کے لئے اجر

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لئے نیکیوں کا سلسلہ تمام نیکی کرنے والوں کی مانند جاری رہتا ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح گناہوں سے محفوظ رہتا ہے، یعنی جو شخص اعلی اور نیک مقاصد (مثلا اعتکاف کی نیت) کے لئے مسجد میں ٹھہرا رہتا ہے اس کی شان یہ ہے کہ وہ اکثر گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔ لفظ یجری راء مہملہ کے ساتھ مجہول کا صیغہ ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ صیغہ معروف ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اعتکاف کی حالت میں ہوتا ہے اور وہ اس اعتکاف کی وجہ سے جن نیک اعمال مثلا عبادت اور نماز جنازہ وغیرہ سے باز رہتا ہے تو اس کے لئے ان نیک اعمال کے ثواب کا سلسلہ جاری کردیا جاتا ہے جس طرح ان نیکیوں کے کرنے والوں کے لئے۔ اور مشکوۃ کے ایک صحیح نسخہ میں یہ لفظ راء معجمہ کے ساتھ بصیغہ معروف یعنی یجری منقول ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اعتکاف کرنے والا اپنے اعتکاف کی وجہ سے جن نیک اعمال مثلا عیادت مریض، نماز جنازہ کے ساتھ جانا مسلمانوں کے ساتھ ملاقات نیک معاملات یا اسی قسم کے دوسرے امور تو اسے ان نیک اعمال کا اسی طرح ثواب دیا جاتا ہے جس طرح ان اعمال کے کرنے والوں کو۔ بہرکیف صرف الفاظ کا فرق ہے ورنہ تو جہاں تک معنی کا تعلق ہے مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔ اعتکاف کے فوائد و برکات یہ ہیں کہ معتکف کا دل امور دنیا کی غلاظت سے پاک رہتا ہے۔ وہ اپنا نفس اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیتا ہے مسلسل عبادت اور خانہ اللہ میں رہتا ہے اللہ کا قرب اسے بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے اور رحمت الٰہی اس پر نازل ہوتی رہتی ہے گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قلعہ اور اس کی پناہ میں رہتا ہے کہ شیطان کے مکر و فریب سے بچا رہتا ہے۔ معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے جو بادشاہ کے دروازے پر پڑجائے اور اپنی درخواست و حاجت پیش کرتا رہے اسی طرح معتکف بھی گویا زبان حال سے کہتا ہے کہ اے میرے مولیٰ ، اے میرے پروردگار ! میں تیرے دروازے پر پڑا رہوں گا یہاں سے اس وقت تک ٹلوں گا نہیں جب تک کہ تو میری بخشش نہیں کرے گا میرے مقاصد پورے نہیں کرے گا اور میرے دینی و دنیاوی غم و آلام دور نہیں کرے گا۔ الحمدللہ کتاب الصوم ختم ہوئی۔ آگے کتاب فضائل القرآن ہے۔