51. ذکراللہ اور تقرب الی اللہ کا بیان

【1】

ذکر اللہ اور تقرب الی اللہ کا بیان

تقرب الی اللہ یعنی اللہ کا قرب و نزدیکی حاصل کرنے سے ذکر اللہ کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنا بھی مراد ہوسکتا ہے اور نوافل کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کرنا بھی مراد ہوسکتا ہے۔ ذکر اللہ کی قسمیں ذکر اللہ (اللہ کا ذکر) دل سے بھی ہوتا ہے اور زبان سے بھی اور افضل یہ ہے کہ دل اور زبان دونوں سے اللہ کا ذکر ہو اور اگر ان میں سے کسی ایک سے ہو تو پھر دل کا ذکر افضل ہے۔ اب ذکر بالقلب (دل سے اللہ کا ذکر) کی بھی دو قسمیں ہیں ایک قسم تو یہ ہے اللہ کی عظمت میں، جبروت و ملکوت میں اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں جو زمین و آسمان میں ہیں، غور و فکر اور استغراق اس قسم کے ذکر کو ذکر خفی کہتے ہیں۔ حدیث شریف میں منقول ہے کہ وہ ذکر خفی ستر درجہ افضل ہے جسے حفظہ (یعنی اعمال لکھنے والے فرشتے) بھی نہیں سنتے چناچہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو حساب کتاب کے لئے جمع کرے گا تو حفظہ (اعمال لکھنے والے فرشتے) وہ تمام ریکارڈ لے کر حاضر ہوں گے جنہیں انہوں نے اپنی نوشت اور یادداشت میں محفوظ کر رکھا ہوگا وہ تمام ریکارڈ دیکھ کر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ دیکھو میرے بندوں کے اعمال میں اور کیا چیز باقی رہ گئی ہے (جو تمہارے اس ریکارڈ میں نہیں ہے) وہ عرض کریں گے ! پروردگار ! بندوں کے اعمال کے سلسلہ میں جو کچھ بھی ہمیں معلوم ہو اور جو کچھ بھی ہم نے یاد رکھا ہم نے اسے اس ریکارڈ میں جمع کردیا ہے، اس ریکارڈ میں ہم نے ایسی کوئی چیز محفوظ کرنے سے نہیں چھوڑی جس کی ہمیں خبر ہوئی ہو تب اللہ تعالیٰ بندہ کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ میرے پاس تیری ایسی نیکی محفوظ ہے جسے کوئی نہیں جانتا اور وہ ذکر خفی ہے میں تجھے اس نیکی کا اجر عطا کروں گا۔ ذکر بالقلب کی دوسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جو احکام دئیے ہیں خواہ ان کا تعلق امر کرنے سے ہو یا نہی سے ان کی ادائیگی کے وقت آنے پر اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جائے۔ ذکر بالقلب کی ان دونوں قسموں میں سے پہلی قسم افضل واعلیٰ ہے بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ذکر کا اطلاق صرف زبان کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنے پر ہوتا ہے اور قول مختار کے مطابق اس کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ وہ اپنے تئیں سنائے یعنی ذکر کرنے والے کی زبان کم سے کم اس درجہ میں جاری ہو کہ وہ خود سن لے ان فقہاء کے کہنے کے مطابق اس درجہ سے کم ذکر معتبر نہیں۔ نیز یہ فقہاء یہ کہتے ہیں کہ دل کے ذکر کی حیثیت از قسم علم و تصور قلب کے فعل کی تو ہے، لیکن اسے ذکر نہیں کہیں گے۔ ذکر اسی کو کہیں گے جس کا تعلق زبان کی ادائیگی سے ہو۔ اب نہیں کہا جاسکتا کہ اس بات سے ان فقہاء کا مقصود کیا ہے ؟ اگر مطلب یہ ہے کہ لغوی طور پر فعل قلب پر ذکر کا اطلاق نہیں ہوتا تو یہ بات اس چیز کے خلاف ہے جو لغت کی کتابوں میں موجود ہے چناچہ صحاح اور قاموس میں لکھا ہے کہ ذکر نسیان کی ضد ہے اور ظاہر ہے کہ یہ خود قلب کا فعل ہے کیونکہ جس طرح نسیان بھول جانے کا تعلق قلب سے ہے اسی طرح اس کی ضد یعنی ذکر (یاد) کا تعلق بھی قلب ہی سے ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جو کچھ زبان سے ادا ہوتا ہے اسے بھی ذکر کہا جاتا ہے۔ حاصل یہ کہ لفظ ذکر فعل قلب اور فعل لسان دونوں کے درمیان مشترک ہے جس طرح فعل قلب کو ذکر کہتے ہیں اسی طرح فعل لسان کو بھی ذکر کہا جاتا ہے لہٰذا جیسے ذکر باللسان معتبر ہے ایسے ہی ذکر بالقلب بھی معتبر ہے بلکہ ذکر بالقلب ہی افضل ہے۔ مشائخ طریقت رحمہم اللہ بھی فرماتے ہیں کہ ذکر کی دو قسمیں ہیں قلبی اور لسانی اور ذکر قلبی کا اثر لسانی کے اثر سے کہیں زیادہ قوی اور افضل ہے۔ جن فقہاء نے ذکر قلبی کا انکار کیا ہے ہوسکتا ہے کہ ان کی مراد یہ ہے کہ شریعت نے جن مواقع پر ذکر باللسان کی تعلیم دی ہے جیسے تسبیحات قرأت نماز اور نماز کے بعد کے اذکار و اوراد وغیرہ تو وہاں قلبی ذکر کافی نہیں ہوتا بلکہ لسانی ذکر ہونا چاہئے ان فقہاء کی مراد یہ نہیں ہے کہ ذکر قلبی پر اخروی ثواب مرتب نہیں ہوتا۔

【2】

ذکر کرنے والوں کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت ابوسعید خدری (رض) دونوں راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب بھی کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لئے بیٹھتی ہے تو ان کو وہ فرشتے گھیر لیتے ہیں (جو راستوں پر اہل ذکر کو ڈھونڈھتے پھرتے ہیں) ان کو رحمت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے (وہ خاص رحمت جو آیت ( وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰت) 33 ۔ الاحزاب 35) کے لئے مخصوص ہے) ان پر سکینہ کا نزول ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان ذکر کرنے والوں کا تذکرہ اپنے پاس والوں یعنی ملائکہ مقربین اور ارواح انبیاء میں کرتا ہے۔ (مسلم) تشریح سکینہ دل کے سکون و اطمینان اور خاطر جمعی کا نام ہے جس کے باعث دنیا کی لذتوں کی خواہش اور ماسوا اللہ کی لذت وطلب دل سے نکل جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں استغراق و استحضار اور اس کی طرف توجہ کی سعادت نصیب ہوتی ہے سکینہ کا نازل ہونا اس آیت سے بھی ثابت ہے۔ آیت (اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَ طْمَى ِنُّ الْقُلُوْبُ ) 13 ۔ الرعد 28) ۔ آگاہ رہو ! اللہ کے ذکر کے ذریعہ قلوب کو اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے۔

【3】

ذکر کرنے والوں کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ مکہ کے راستوں پر چلے جا رہے تھے کہ ایک پہاڑ کے پاس سے گزرے جس کا نام جمدان تھا آپ ﷺ نے اس وقت فرمایا چلے چلو یہ جمدان ہے، مفردون سبقت لے گئے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مفردون کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ مرد جو اللہ کو بہت یاد کریں۔ اور وہ عورتیں جو اللہ کو بہت یاد کریں۔ (مسلم) تشریح ماالمفردون۔ (مفردون کون ہیں) درحقیقت صحابہ نے صفت کے بارے میں سوال کیا کہ مفردون کی صفت کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے اپنے مذکورہ بالا جواب کے ذریعہ مفردون کی صفت کی طرف اشارہ کیا کہ حقیقی تنہائی جو لائق اعتبار ہے وہ اللہ کی یاد کے لئے نفس کی تنہائی ہے۔ منقول ہے کہ جب آنحضرت ﷺ مکہ سے آتے ہوئے اپنے رفقاء سمیت حمدان پہاڑ کے پاس پہنچے جو مدینہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ہے تو صحابہ کو اپنے گھر جلد سے جلد پہنچنے کا اشتیاق ہوا۔ چناچہ بعض صحابہ اپنے بقیہ ہم قافلہ لوگوں سے جدا ہو کر تیزی سے آگے بڑھ گئے تاکہ وہ دوسروں سے پہلے ہی اپنے وطن پہنچ جائیں جو صحابہ پیچھے رہ گئے تھے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ گھر قریب آپہنچا ہے جلد چلو کیونکہ مفردون (یعنی قافلہ سے الگ ہوجانے والے) آگے پہنچ گئے ہیں اسی موقع پر صحابہ نے مفردون کی صفت پوچھی۔ آپ ﷺ نے جو جواب دیا اس کا حاصل یہ تھا کہ ان مفردون (یعنی اس وقت ہم سے آگے نکل گئے ہیں) کے بارے میں کیا پوچھتے ہو ؟ ان کا مطلب تو ظاہر ہی ہے کہ یہ لوگ گھر جلد پہنچنے میں ہم سے سبقت لے گئے ان لوگوں کے بارے میں پوچھو جو نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں تو سنو کہ نیکیوں میں سبقت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر کے لئے تنہاء اور علیحدہ کرتے ہیں یعنی وہ لوگوں سے منقطع ہو کر اور گوشہ نشینی اختیار کر کے اکثر ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں۔ اللہ کو بہت یاد کرنے سے مراد یہ ہے کہ بغیر کسی غفلت و کوتاہی کے ذکر اللہ پر ہمیشگی اختیار کرے اگر کوئی غفلت و کوتاہی ہو بھی جائے تو اسے فورا ختم کر کے ذکر اللہ میں مشغول ہوجائے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نماز کے بعد اور صبح وشام سوتے بیٹھے اور اسی طرح حدیث میں منقول دوسرے مواقع پر ذکر کرنے سے کثرت ذکر کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔

【4】

ذکر کرنے والے اور ذکر نہ کرنے والے کی مثال

حضرت ابوموسی (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص اپنے پروردگار کو یاد کرتا ہے اور جو شخص اپنے پروردگار کو یاد نہیں کرتا ان دونوں کی مثال زندہ شخص اور مردہ شخص کی سی ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ ذکر اللہ ذاکر کے قلب کی حیات ہے اور اس سے غفلت قلب کی موت ہے اور جس طرح کہ زندہ شخص اپنی زندگی سے بہرہ ور ہوتا ہے اسی طرح ذکر کرنے والا اپنے عمل سے بہرہ ور ہوتا ہے اور جس طرح مرنے کے بعد کے مردہ کو اپنی زندگی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اسی طرح ذکر اللہ سے غافل رہنے والا اپنے عمل سے بہرہ مند نہیں ہوتا کسی نے کیا خوب کہا ہے زندگانی نتواں گفت حیاتے کہ مراست زندہ آنست کہ با دوست وصالے دارد

【5】

ذکر تقرب الٰہی کا باعث

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندہ کے گمان کے قریب ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے جب وہ دل سے یا زبان سے مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں پس اگر وہ اپنی ذات میں یعنی خفیہ طور پر اپنے دل میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنی ذات میں یاد کرتا ہوں (یعنی نہ کہ اس کو صرف پوشیدہ طور پر ثواب دیتا ہوں بلکہ اس کو از خود ثواب دیتا ہوں ثواب دینے کا کام کسی اور کے سپرد نہیں کرتا) اگر وہ مجھے جماعت میں (یعنی ظاہری طور پر) یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کا ذکر جماعت میں کرتا ہوں جو اس کی جماعت سے بہتر ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح انا عند ظن عبدی بی (میں اپنے بندہ کے گمان کے قریب ہوں) کا مطلب یہ ہے کہ میرا بندہ میری نسبت جو گمان و خیال رکھتا ہے میں اس کے لئے ویسا ہی ہوں اور اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہے جس کی وہ مجھ سے توقع رکھتا ہے اگر وہ مجھ سے عفو معافی کی امید رکھتا ہے تو اس کو معافی دیتا ہوں اور اگر وہ میرے عذاب کا گمان رکھتا ہے تو پھر عذاب دیتا ہوں۔ اس ارشاد کے ذریعہ گویا ترغیب دلائی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کی امید اس کے عذاب کے خوف پر غالب ہونی چاہئے اور اس کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہئے کہ وہ مجھے اپنی بےپایاں بخشش اور لامحدود رحمت سے نوازے گا۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ اللہ ایک شخص کو دوزخ میں لے جانے کا حکم کرے گا جب اسے کنارہ دوزخ پر کھڑا کیا جائے گا تو وہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب تیرے بارے میں میرا گمان اچھا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس کو واپس لے آؤ میں اپنے بندہ کے گمان کے قریب ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے۔ امید کا مطلب اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ عمل کیا جائے اور پھر بخشش کا امیدوار رہے بغیر عمل صرف امید ہی پر تکیہ کرلینا ٹھنڈے لوہے کو کوٹنا ہے یعنی ایسی امید کا کوئی فائدہ نہیں۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو شخص میری یاد میں مشغول رہتا ہے تو میں اسے مزید نیکیوں اور بھلائیوں کی توفیق دیتا ہوں اور اس پر رحمت نازل کرتا ہوں اور اس کی مدد و حفاظت کرتا ہوں۔

【6】

خدا کی طرف بندہ کی تھوڑی سی توجہ بندہ کی طرف خد اکی زیادہ توجہ کا باعث

حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے اس کو اس جیسی دس نیکیوں کے برابر ثواب ملتا ہے اور اس سے بھی زیادہ دیتا ہوں جس کو چاہتا ہوں اس کو اس سے صدق و اخلاص کے مطابق سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دیتا ہوں جو شخص کوئی برائی کرتا ہے تو اس کو اسی برائی کے برابر سزا ملتی ہے یا میں اسے بھی معاف کردیتا ہوں جو شخص اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے ایک بالشت (یعنی بقدر قلیل) میری طرف آتا ہے تو میں ایک گز اس کی طرف آتا ہوں (یعنی میں اس کی توجہ والتفات سے کہیں زیادہ اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھولتا ہوں) جو شخص میری طرف ایک گز آتا ہے میں اس کی جانب دونوں ہاتھوں کے پھیلانے کے برابر بڑھتا ہوں۔ جو شخص میری طرف اپنی چال سے آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں اور جو شخص زمین کے برابر بھی گناہ لے کر مجھ سے ملے گا بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ شریک نہ کیا ہو یعنی شرک میں مبتلا نہ ہو تو اگر میں چاہوں گا تو اس کو زمین کے برابر ہی مغفرت عطا کروں گا۔ (مسلم) تشریح اللہ تعالیٰ کتنا رحیم وکریم ہے اس کی رحمت کتنی وسیع ہے اپنے بندوں پر وہ کتنا مہربان ہے اس کی شان عفو کسی قدر بےپایاں ہے اور اس کا فضل کس قدر بےکراں ہے اس کا ایک ہلکا سا اندازہ اس حدیث سے ہوجاتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اگر بندہ اللہ کی طرف تھوڑی سی بھی توجہ اور رجوع کرتا ہے تو اس کی طرف بارگاہ الٰہی سے اس کی توجہ کہیں زیادہ توجہ، التفات اور رحمت اس کی طرف منعطف ہوتی ہے۔

【7】

تقرب الٰہی کا ثمر

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص میرے ولی کو ایذاء پہنچاتا ہے تو میں اس کے ساتھ اپنی لڑائی کا اعلان کرتا ہوں اور میرا کوئی بندہ مومن میرا تقرب (اعمال میں سے) ایسی کسی چیز کے ذریعہ حاصل نہیں کرتا جو میرے نزدیک ہو جیسے ادائیگی فریضہ کے ذریعہ میرا تقرب حاصل ہے ہمیشہ نوافل کے ذریعے (یعنی ان طاعات و عبادات کے ذریعہ جو فرائض کے علاوہ اور فرائض سے زائد ہیں میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں۔ (کیونکہ وہ فرائض ونوافل دونوں کو اختیار کرتا ہے) اور جب میں اسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ سنتا ہے میں اس کی بینائی بن جاتا ہوں وہ اسی کے ذریعہ دیکھتا ہے میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ پکڑتا ہے میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور وہ برائیوں اور مکروہات سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں اور جس کام کو میں کرنے والا ہوں اس میں اس طرح تردد نہیں کرتا جس طرح کہ میں بندہ مومن کی جان قبض کرنے میں تردد کرتا ہوں کیونکہ وہ موت کو پسند نہیں کرتا حالانکہ اس کی ناپسندیدگی کو میں ناپسند کرتا ہوں اور موت سے کسی حال میں مفر نہیں ہے۔ (بخاری) تشریح فقد اذنتہ بالحرب کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے یعنی جو شخص میرے ولی کو ایذاء پہنچاتا ہے اس کی اس انتہائی قابل نفرین حرکت کی وجہ سے میں اس کے ساتھ اپنی لڑائی کا اعلان کرتا ہوں یا مطلب یہ کہ میں اپنے ساتھ اس کی لڑائی کا اعلان کرتا ہوں یا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے ساتھ اس کی لڑائی کا اعلان کرتا ہوں پس وہ شخص میرے ولی کو ایذاء پہنچا کر گویا مجھ سے لڑنے والا ہے ائمہ کہتے ہیں کہ ایسا کوئی گناہ نہیں ہے کہ جس کے مرتکب کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ اس سے اعلان جنگ ہے علاوہ اس گناہ یعنی اللہ کے کسی محبوب بندہ اور ولی کو ایذاء پہنچانے کے اور سود کھانے کے، سود کھانے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ آیت (فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ) ۔ پس اگر تم اس سے باز نہیں آتے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ دونوں گناہ نہایت ہی قابل نفرین اور بدترین ہیں اور ان دونوں میں دنیا اور آخرت دونوں کی مکمل تباہی کا خطر ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ بندہ سے اللہ کی لڑائی اس کے خاتمہ بد پر دلالت کرتی ہے کیونکہ جس سے اللہ تعالیٰ لڑا وہ کبھی فلاح ونجات نہیں پاسکتا۔ جو میں نے اس پر فرض کی ہیں مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی چیزیں میں نے اس پر واجب کی ہیں یعنی اوامر (یعنی جن چیزوں کے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ان سے اجتناب ان چیزوں کا اختیار کر کے جو بندہ اللہ کا تقرب حاصل کرسکے۔ میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں الخ اس بارے میں علامہ خطابی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اس بندہ پر ان افعال و اعمال کو آسان کردیتا ہوں جن کا تعلق ان اعضاء سے ہے اور اس کو ان اعمال و افعال کے کرنے کی توفیق دیتا ہوں یہاں تک کہ گویا وہ اعضاء ہی بن جاتا ہوں۔ بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندہ کے حو اس اور اس کے اعضاء کو اپنی رضا و خوشنودی کا وسیلہ بنا دیتا ہے چناچہ وہ بندہ اپنے کان سے صرف وہی بات سنتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہے یا اسی طرح وہ اپنی آنکھ سے صرف انہیں چیزوں کو دیکھتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ بعض حضرات اس کا مطلب یہ لکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت اس بندہ پر اپنی محبت غالب کردیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اسی چیز کو دیکھتا ہے جس کو اللہ پسند کرتا ہے اور وہ اس چیز کو سنتا ہے جس کو اللہ پسند کرتا ہے اور اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ اس کا مددگار و کارساز ہوتا ہے اور اس کے کان اس کی آنکھ اس کے ہاتھ اور اس کے پاؤ کو ان چیزوں سے بچاتا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتا۔ میں تردد کرتا ہوں، یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنی اس عنایت کے سبب جو اس بندہ کے شامل حال ہوتی ہے اس کی زندگی ختم کرنے میں تردد کرتا ہوں کیونکہ موت اس کے لئے کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہوتی لیکن موت سے چونکہ مفر نہیں اور یہ طے شدہ امر ہے کہ اس دنیا میں جو بھی جاندار آیا ہے اس کو موت کی آغوش میں ضرور ہی جانا ہے اس لئے اس کو موت دیتا ہوں پھر یہ کہ اس کی موت بھی اس کے لئے بھلائی ہی کا سبب ہوتی ہے کیونکہ وہ موت کے بعد ہی عظیم الشان سعادتوں اور درجات عالیہ کو پہنچتا ہے مثلاً حضور باری تعالیٰ اور جنت وغیرہ کی لازوال نعمتیں موت کے بعد ہی حاصل ہوتی ہیں۔ اس موقع پر یہ بات جان لیجئے کہ تردد کے معنی ہیں ایسی دو چیزوں کی درمیان تحیر اور پس وپیش کرنا جن کے بارے میں یہ یقینی علم نہ ہو کہ ان دونوں میں سے کون سی چیز زیادہ بہتر ہے۔ ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات پر تردد کے اس معنی کا اطلاق قطعا ناممکن اور محال ہے لہٰذ حق تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ میں اپنے کسی فیصلہ کو پورا کرنے میں اس طرح تاخیر توقف نہیں کرتا کہ جس طرح کہ کوئی متردد شخص اپنے کسی کام اور معاملہ کرتا ہے اس بندہ کی روح قبض کرنے کا معاملہ ایسا ہے کہ میں اس میں کچھ توقف کرتا ہوں تاکہ اس بندہ مومن پر موت آسان ہو اس کا دل اس کی طرف مائل ہوجائے اور وہ خود موت کے آنے کا مشتاق ہوجائے پھر اس کے بعد وہ زمرہ مقربین میں داخل ہو کر اعلیٰ علیین میں اپنی جگہ حاصل کرلے۔

【8】

اہل ذکر کو فرشتے ڈھونڈتے پھرتے ہیں

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے کتنے ہی فرشتے (مسلمانوں کے) راستے پر پھرتے ہیں اور ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈتے ہیں تاکہ ان سے ملیں اور ان کا ذکر سنیں چناچہ جب وہ ان لوگوں کو پالیتے ہیں جو ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کو پکار کر کہتے ہیں کہ اپنے مطلوب کی طرف (یعنی اہل ذکر سے ملاقات اور ان کا ذکر سننے کے لئے ( جلدی آجاؤ ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس کے بعد وہ فرشتے ان لوگوں کو اپنے پروں سے آسمان دنیا تک گھیر لیتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ان فرشتوں سے ان کا پروردگار ان لوگوں کے بارے میں پوچھتا ہے کہ میرے بندے کیا کہتے ہیں حالانکہ پروردگار ان فرشتوں سے کہیں زیادہ ان لوگوں کے بارے میں جانتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری پاکی کی تسبیح کرتے ہیں تجھے یاد کرتے ہیں تیری بڑائی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں اور بزرگی و عظمت کے ساتھ تجھے یاد کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ ان فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس کے جواب میں فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں اللہ کی قسم انہوں نے تجھے نہیں دیکھا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان فرشتوں سے کہتا ہے کہ اچھا اگر وہ مجھے دیکھتے تو پھر ان کی کیفیت کیا ہوتی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا فرشتے کہتے ہیں کہ اگر وہ تجھے دیکھتے تو پھر وہ تیری عبادت بہت ہی کرتے، بزرگی و عظمت کے ساتھ تجھے بہت ہی یاد کرتے اور تیری تسبیح بہت ہی کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں ؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تجھ سے جنت مانگتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں اے پروردگار انہوں نے جنت کو نہیں دیکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ اچھا اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو جنت کے لئے ان کی حرص کہیں زیادہ ہوتی، اس کے لئے ان کی خواہش وطلب کہیں زیادہ ہوتی اور اس کی طرف ان کی رغبت کہیں زیادہ ہوتی۔ کیونکہ کسی چیز کے بارہ محض علم ہونا اس کے دیکھنے کے برابر نہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ اچھا وہ پناہ کس چیز سے مانگتے ہیں۔ آپ ﷺ فرمایا فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کیا انہوں نے دوزخ کو دیکھا ہے ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ نہیں ہمارے پروردگار اللہ کی قسم ! انہوں نے دوزخ کو نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ اگر وہ دوزخ کو دیکھ لیتے تو پھر ان کی کیفیت کیا ہوتی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے دوزخ کو دیکھ لیا ہوتا تو وہ اس سے بہت ہی بھاگتے (یعنی ان چیزوں سے بہت ہی دور رہتے جو دوزخ میں ڈالے جانے کا سبب بنتے ہیں اور ان کے دل کہیں زیادہ ڈرنے والے ہوتے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ یہ سن کر ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے کہ ذکر کرنے والوں میں وہ فلاں شخص ذکر کرنے والا نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے کسی کام کے لئے آیا تھا پھر وہ وہیں ذکر کرنے والوں کے پاس بیٹھ گیا اس لئے تو وہ اس مغفرت کی بشارت کا مستحق نہیں اللہ تعالیٰ اس سے فرماتا ہے کہ اہل ذکر ایسے بیٹھنے والے ہیں کہ ان کا ہمنشین بےنصیب نہیں ہوتا۔ (بخاری) اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے کتنے ہی فرشتے ایسے ہیں جو پھرنے والے اور زیادہ (یعنی اعمال لکھنے والوں وغیرہ کے علاوہ ہیں کہ ان کا مقصد صرف ذکر کے حلقوں میں حاضری ہے) چناچہ وہ فرشتے ذکر کی مجلسیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں جب وہ کسی ایسی مجلس کو پالیتے ہیں جس میں اکثر ذکر ہی ہوتا ہے تو وہ اس میں بیٹھ جاتے ہیں اس وقت وہ فرشتے آپس میں ایک دوسرے کو اپنے پروں میں گھیر لیتے ہیں تاکہ ذکر والوں اور آسمان کے درمیان فرشتے ہی فرشتے بھر جائیں جب ذکر سے فراغت کے بعد مجلس برخاست ہوتی ہے تو وہ فرشتے بھی اوپر چڑھتے ہیں اور ساتویں آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم کہاں سے آئے ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں خوب جانتا ہے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔ فرشتے کہتے ہیں کہ ہم تیرے ایسے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو زمین پر ہیں تیری تسبیح کرتے ہی تیرا کلمہ پڑھتے ہیں تجھے بزرگی و عظمت کے ساتھ یاد کرتے ہیں اور تجھ سے مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں ؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں پروردگار ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تیری پناہ بھی مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ میری پناہ کس چیز سے مانگتے ہیں ؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تیری آگ سے پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے میری آگ کو دیکھا ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ نہیں ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر وہ میری آگ کو دیکھ لیتے تو پھر ان کی کیا کیفیت ہوتی ؟ فرشتے کہتے ہیں وہ تجھ سے بخشش بھی طلب کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ فرشتے یہ سن کر عرض کرتے ہیں کہ پروردگار اس میں فلاں بندہ تو بہت ہی گناہ گار ہے تو وہ وہاں سے صرف اپنے کام سے گزر رہا تھا کہ ان کے پاس بیٹھ گیا آنحضرت ﷺ نے فرمایا ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اسے بخش دیا۔ کیونکہ وہ ذکر کرنے والے ایسے لوگ ہیں کہ جن کے سبب سے اور جن کی برکت کی وجہ سے ان کا ہمنشین بےنصیب نہیں ہوتا۔ تشریح ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم کائنات کے ایک ذرہ پر حاوی ہے وہ ایک ایک فرد کے ایک ایک لمحہ کے حالات کی واقفیت رکھتا ہے اس لئے اس بات کا تو سوال ہی پید انہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ذکر کرنے والے بندوں کے بارے میں جو کچھ پوچھتا ہے وہ علم حاصل کرنے کے لئے پوچھتا ہے بلکہ وہ جاننے کے باوجود محض الزاما فرشتوں سے سوال کرتا ہے تاکہ ان پر ابن آدم کی کمال عبدیت ظاہر ہو کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے وقت یہ فرشتے ہی تو تھے جنہوں نے کہا تھا کہ پروردگار تو آدم اور ابن آدم کو کیوں پیدا کرتا ہے یہ تو دنیا میں سوائے فسق فساد کے اور کچھ کریں گے ہی نہیں۔ تیری تسبیح اور تقدیس تو بس ہم ہی کرسکتے ہیں اور وہ ہم کرتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کو اس قسم کے سوال کر کے ان پر ابن آدم کی بزرگی کو ظاہر کرتا ہے اور اس طرح وہ ان فرشتوں کو بتانا چاہتا ہے کہ تم نے دیکھا جس مخلوق کے بارے میں تم غلط گمان رکھتے تھے وہی مخلوق اب کس طرح میری عبادت، میری یاد اور میرے ذکر میں مشغول رہتی ہے اور خود تم ہی اس کی شہادت دیتے ہو۔ بخاری کی روایت میں تو اس سوال (اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ وغیرہ) کے ساتھ ہی فرشتوں کی طرف سے اس کا جواب (اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا وغیرہ الخ) بھی منقول ہے لیکن مسلم کی روایت میں صرف سوال ہی منقول ہے جواب ذکر نہیں کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بخاری کی روایت تو یہ جملہ صرف سوال ہی کے لئے ہے لیکن مسلم کی روایت میں یہ سوالیہ جملہ تعجب کے لئے ہے دونوں روایتوں کے آخری جملہ کے ذریعہ امت کے لوگوں کو اہل ذکر کی ہمنشینی اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ اللہ کی یاد اور اس کے ذکر میں مشغول رہنے والے اللہ کے نیک و صالح بندوں کی ہمنشینی و صحبت اختیار کرنا فلاح سعادت کی بات ہے کسی عارف نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صحبت یعنی اس کی یاد اور اس کے ذکر میں مشغولیت اختیار کرو اگر یہ نہ کرسکو پھر ان مقدس بندوں کی صحبت وہمنشینی اختیار کرو جو اللہ کی صحبت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ (یعنی جو ذکر وشغل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوامی حضور رکھتے ہیں۔

【9】

ادائیگی حقوق کے وقت ذکر سے غفلت نقصان دہ نہیں ہے

حضرت حنظہ بن ربیع اسیدی (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی ملاقات ہوئی تو وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ کہو حنظلہ ! تمہارا کیا حال ہے (یعنی آنحضرت ﷺ جو کچھ وعظ و نصیحت فرماتے ہیں اس پر تمہاری استقامت کیسی ہے ؟ میں نے کہا کہ حنظلہ تو منافق ہوگیا (یعنی حال کے اعتبار سے ایمان کے اعتبار سے نہیں) حضرت ابوبکر (رض) نے کہا کہ سبحان اللہ حنظلہ یہ تم کیا کہتے ہو ! (یعنی ابوبکر (رض) نے بڑے تعجب سے پوچھا کہ کیا بات کہہ رہے ہو اس کا مطلب تو بیان کرو) میں نے کہا کہ (اس میں تعجب کی بات نہیں حقیقت یہ ہے کہ (جب ہم رسول کریم ﷺ کے پاس ہوتے ہیں اور جس وقت آپ ﷺ ہمیں دوزخ کے عذاب سے ڈراتے ہیں اور یا جس وقت آپ ﷺ ہمیں جنت کی نعمتوں کی بشارت سناتے ہیں تو اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم جنت اور دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر جب ہم رسول کریم ﷺ کی صحبت سے جدا ہوتے ہیں اور اپنی بیویوں، اپنی اولادوں، اپنی زمینوں اور اپنے باغات میں مشغول ہوتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں (یعنی اپنے دنیاوی مشاغل میں پھنس کر ان باتوں کا بہت سا حصہ بھول جاتے ہیں جو آنحضرت ﷺ ہمارے سامنے بطور تذکیر و نصیحت فرماتے ہیں اور ہم پر وہ کیفیت باقی نہیں رہتی جو آپ کی صحبت میں ہوتی ہے) حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ اب جب کہ تم نے اپنی یہ حالت بیان کی ہے تو سنو کہ اللہ کی قسم ہم بھی اسی کو پہنچے ہوئے ہیں۔ یعنی ہمارا بھی یہی حال ہے کہ حاضر غائب میں تفاوت ہے اس کے بعد میں اور حضرت ابوبکر (رض) دونوں چلے یہاں تک کہ ہم رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا کہ حضرت جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ﷺ بطور تذکیر و نصیحت جنت و دوزخ کے بارے میں بتاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر جب ہم آپ ﷺ کے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں اور اپنی بیویوں، اپنی اولاد، اپنی زمینوں اور باغات میں مشغولت ہوتے ہیں تو ہم نصیحت کی بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں یہ سن کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم پر ہمیشہ وہی کیفیت طاری رہے جو میری صحبت اور حالت ذکر میں تم پر ہوتی ہے (یعنی تم ہر وقت صاف دل اور اللہ سے ڈرنے والے رہو تو یقینا فرشتے تم سے تمہارے بچھونوں پر اور تمہاری راہوں میں مصافحہ کریں لیکن اے حنظہ ! یہ ایک ساعت اور وہ ایک ساعت ہے اور آپ ﷺ نے (یعنی حنظلہ ساعۃ وساعۃ ( تین مرتبہ فرمایا۔ (مسلم) تشریح فرشتے تم سے مصافحہ کریں۔ کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی صورت میں فرشتے علانیہ یعنی سب کے سامنے تم سے مصافحہ کرتے نظر آئیں اور تم ان کو مصافحہ کرتے دیکھو۔ علانیہ کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ ویسے تو فرشتے اہل ذکر سے خفیہ طور پر مصافحہ کرتے ہی ہیں کہ جس کو دنیاوی نظریں نہیں دیکھ پاتیں۔ بچھونوں پر اور راہوں میں، سے مراد ہے حالت فراغت اور حالت مشغولیت مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں چاہے تم کسی کام مشغول رہتے اور چاہے فارغ ہوتے یعنی ہر وقت اور ہمیشہ فرشتے تم سے مصافحہ کرتے رہتے۔ یہ ایک ساعت اور اور وہ ایک ساعت ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب کہ تم پر حالت حضور طاری ہوتی ہے کہ تم اپنے پروردگار کے حقوق ادا کرسکو اور ذکر و شغل میں مصروف رہ سکو اور ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ جب تم پر حالت غفلت کا غلبہ رہتا ہے تاکہ تم اپنے نفس اور اپنے متعلقین کے حقوق ادا کرسکو۔ لہٰذا اپنے اور اپنے متعلقین کے حقوق کی ادائیگی کے وقت ذکر و حضور سے غفلت نقصان دہ نہیں کہ اس صورت میں تم اپنے آپ کو منافق سمجھنے لگو۔ اس لئے اپنے دل سے یہ خوف نکال دو کہ تم خدانخواستہ منافق ہوگئے ہو۔

【10】

ذکر الٰہی کی فضیلت واہمیت

حضرت ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسے عمل سے آگاہ نہ کروں جو تمہارے اعمال میں بہت بہتر، تمہارے بادشاہ کے نزدیک بہت پاکیزہ، تمہارے درجات بلند اور تمہارے روپیہ اور سونا خرچ کرنے سے بہتر ہے اور اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے دشمنوں (یعنی کفار) سے ملو اور تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ ہاں اور ہمیں بتائیے کہ وہ کون سا عمل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کا ذکر۔ اس روایت کو مالک، احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے۔ لیکن امام مالک نے اس روایت کو حضرت ابودرداء (رض) سے بطریق موقوف نقل کیا ہے۔ تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ذکر سے مراد وہ ذکر ہے جو زبان اور دل دونوں سے ہو۔ نیز اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ کا ذکر، صدقہ و خیرات، جہاد اور دوسرے اعمال سے افضل ہے۔

【11】

بہتر عمل

حضرت عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ٫ کون شخص بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا خوش بختی ہے اس کے لئے (یعنی وہ بہتر شخص ہے) جس کی عمر دراز ہوئی اور اس کے اعمال نیک ہوئے۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کون سا عمل بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کہ جب تم دنیا سے جدا ہو تو تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔ (ترمذی، احمد) تشریح جس طرح زبان کی خشکی زبان کے رکنے کے لئے کنایہ ہے اسی طرح زبان کی تری زبان کی روانی کے لئے کنایہ ہے یا پھر یہ کہ یہاں زبان کی تری اس بات سے کنایہ ہے کہ مرتے دم تک ذکر پر مداومت ہو بایں طور کہ ذکر اللہ سے زبان خشک نہ ہونے پائی ہو کہ جان نکلے۔ حدیث میں مذکور ذکر سے ذکر جلی بھی مراد ہے اور ذکر خفی بھی۔ زبان کے بارے میں دونوں احتمال ہیں۔ قلبی بھی مراد ہوسکتی ہے اور قالبی زبان بھی۔ یعنی چاہے دل کی زبان سے ذکر کرے چاہے ظاہری زبان سے لیکن دونوں ہی سے ہو تو بہت ہی خوب ہے۔

【12】

ذکر کے حلقے جنت کے باغات

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو میوہ خوری کرو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ جنت کے باغات سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ذکر کے حلقے۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب تم کسی ایسی مجلس کے پاس سے گزرو جہاں لوگ اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں تو تم بھی شریک مجلس بن کر اللہ کے ذکر اور اس کی یاد میں مشغول ہوجاؤ۔ یہاں ذکر کے حلقوں (مجالس ذکر) کو جنت کے باغات اس لئے کہا گیا ہے کہ ذکر کی وجہ سے انسان جنت کے باغات میں داخل ہونے کی سعادت سے نوازا جاتا ہے۔ نووی فرماتے ہیں کہ جس طرح ذکر کرنا مستحب ہے اسی طرح ذکر کے حلقے میں بیٹھنا بھی مستحب ہے، نیز ذکر دل سے بھی ہوتا ہے اور زبان سے بھی لیکن افضل یہ ہے کہ دونوں سے ہو جیسا کہ یہ بات تفصیل کے ساتھ پہلے بتائی جا چکی ہے اور اگر ذکر فقط زبان سے ہی ہو تب بھی خالی از ثواب نہیں۔ منقول ہے کہ ایک مرد نے اپنے شیخ سے کہا کہ میں زبان سے اللہ کو یاد کرتا ہوں مگر میرا دل غفلت میں پڑا رہتا ہے انہوں نے کہا کہ اللہ کو یاد کرو اور شکر کرو کہ اللہ نے تمہارے ایک عضو کو اپنی یاد میں مشغول کیا۔

【13】

ذکر اللہ سے خالی وقت حسرت وندامت کا باعث

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں اللہ کو یاد نہ کرے تو اس کا بیٹنا اللہ کی طرف سے (یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قضا وقدر کے سبب سے) اس کے لئے حسرت اور ٹوٹے کی بات ہوگی اور جو شخص اپنی خوابگاہ میں لیٹے اور اس میں اللہ کو یاد نہ کرے تو یہ اللہ کی طرف سے اس کے لئے حسرت اور ٹوٹے کی بات ہوگی۔ (ابوداؤد) تشریح اس حدیث کا مطلب اور حاصل یہ ہے کہ ہمہ وقت اور ہر حال میں اٹھتے بیٹھے، سوتے، جا گتے اور شب و روز اللہ رب العزت کے ذکر میں مشغول رہنا چاہئے، جو وقت بھی ذکر اللہ سے خالی ہوگا وہ قیامت کے دن حسرت و ندامت کا موجب بنے گا کیا خوب کہا ہے چو اول شب آہنگ خواب آورم بہ تسبیح نامت شتاب آورم اور وگرنیم شب سربر آرم زہ خوب تر اخوانم وزیزم ازدیدہ آب اور وگ بامرادست راہم بہ قست ہمہ روز تا شب پناہم بہ تست

【14】

جس مجلس میں ذکر اللہ نہ ہو

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو لوگ کسی نشست کے بعد اٹھیں اور اس نشست میں اللہ کا ذکر نہ ہو تو وہاں سے ان کا اٹھنا مردار گدھے کی مانند ہے اور ان پر حسرت و افسوس ہے۔ ( ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے اس نامبارک مجلس کے بارے میں تہدیداً حسرت و افسوس کا ظاہر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خالی ہو۔ ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جس مجلس میں اللہ کو یاد نہ کیا جائے وہ مردار گدھے کی مانند ہے اور جو لوگ وہاں سے اٹھے وہ گویا مردار کھا کر اٹھے۔

【15】

جس مجلس میں ذکر اللہ نہ ہو

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور وہاں نہ تو اللہ کا ذکر کریں اور نہ اپنے نبی پر درود بھیجیں تو وہ مجلس ان کے لئے باعث افسوس ہی ہوگی اب چاہے تو اللہ تعالیٰ عذاب میں انہیں مبتلا کرے اور چاہے تو انہیں بخش دے۔ (ترمذی) تشریح عذاب میں مبتلا کرنا ان کے اگلے پچھلے گناہوں کے سبب سے ہوگا اور بخشش کا مدار محض اللہ تعالیٰ کے بیکراں فضل اور اس کی لا محدود رحمت پر ہوگا اس حدیث سے اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اہل مجلس اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا۔ بلکہ یقینی طور پر ان کو بخشش و مغفرت سے نوازتا ہے۔

【16】

کلام نافع

حضرت ام حبیبہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابن آدم کا ہر کلام اس کے لئے وبال ہے علاوہ اس کلام کے جو امر بالمعروف (نیکی کی تاکید وتعلیم کرنے) نہی عن المنکر (برائی سے بچنے کی تلقین) یا اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہو۔ اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا نیز ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح اس حدیث سے بظاہر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانی کلام اور بات چیت میں کوئی قسم مباح نہیں ہے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی شرعی طور پر ناپسندیدہ اور غیر درست کلام اور گفتگو سے روکنے کے لئے تاکید اور مبالغہ پر محمول ہے اور ویسے بھی اس میں کوئی شک نہیں کہ مباح کلام عقبی وآخرت کے اعتبار سے نہ تو نافع ہوتا ہے نہ اس کا کوئی اثر مرتب ہوتا ہے۔ آخرت میں تو وہی کلام نافع اور سود مند ہوگا جو محض دینی تقاضا کے پیش نظر ہو مثلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ذکر اللہ یا پھر اس طرح کہا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی مفہوم کے اعتبار سے یوں ہے کہ ابن آدم کا ہر کلام اس کے لئے باعث حسرت ہے کہ اس کے لئے اس میں کوئی منفعت نہیں علاوہ اس کلام کے جس کا تعلق امر باالمعروف و نہی عن المنکر، ذکر اللہ اور انہیں کی دوسری باتوں سے ہو۔ اس تاویل سے نہ صرف یہ کہ تمام مذکورہ احادیث میں مطابقت پیدا ہوجائے گی بلکہ وہ اشکال اور اضطراب بھی باقی نہیں رہے گا جو مباح کلام کے سلسلہ میں پیدا ہوسکتا ہے۔

【17】

کلام نافع

حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ذکر اللہ کے بغیر زیادہ کلام نہ کرو کیونکہ ذکر اللہ کے بغیر کلام کی کثرت دل کی سختی کا باعث ہے اور یاد رکھو کہ آدمیوں میں اللہ سے دور سب سے وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔ (ترمذی) تشریح کثرت کلام کو دل کی سختی کا باعث اس لئے بتایا گیا ہے کہ عام طور پر بہت زیادہ بولنے والا شخص اپنی ہی بات کہنا اور منوانا چاہتا ہے وہ صحیح اور مبنی برحق بات سنتا ہی نہیں اور نہ اپنی بات کے علاوہ کسی بات کو صحیح سمجھتا ہے چاہے وہ حقیقت سے کتنی ہی قریب کیوں نہ ہو اس کی سب بڑی خواہش لوگوں سے اختلاط و ارتباط ہوتی ہے خوف اللہ اس کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا اور آخرت سے غفلت اس کا شعار ہوتا ہے۔

【18】

بہترین سرمایہ

حضرت ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت (وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ ) 9 ۔ التوبہ 34) ۔ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں الخ نازل ہوئی تو اس وقت ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ کسی سفر میں تھے (یہ آیت سن کر) بعض صحابہ نے کہا کہ سونے اور چاندی کے بارہ تو یہ آیت نازل ہوگئی اور ہمیں ان چیزوں کا حکم اور ان کی مذمت معلوم ہوئی۔ کاش ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ سونے اور چاندی کے علاوہ اور کون سا مال بہتر ہے تاکہ ہم اسے جمع کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کا ذکر کرنے والی زبان، شکر ادا کرنے والا اور مسلمان بیوی جو اپنے شوہر کے ایمان کی مددگار ہو بہترین مال ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ) تشریح بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ظاہری مال ہی کی قسم سے کسی چیز کی تعیین کی خواہش کا ظہار کیا تھا لیکن حقیقت میں ان کی مراد یہی تھی کہ آپ ﷺ کوئی ایسی چیز بتادیں جو ظاہری مال کے علاوہ ہو مگر ایسا سرمایہ جو ہماری پیش آنے والی حاجتوں میں نفع بخش ثابت ہو چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کی حقیقی مراد کے پیش نظر وہ چیزیں بتائی جو مفید ہیں اور جن کے بہترین سرمایہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ جو اپنے شوہر کے ایمان کی مددگار ہو کا مطلب یہ ہے کہ اپنے شوہر کے دینی امور اور دینی فرائض کی ادائیگی میں معاون مددگار ہو مثلا نماز کا وقت آئے تو اسے نماز کی یاد دلائے۔ روزہ کا زمانہ آئے تو اسے روزہ رکھنے کے سلسلہ میں اس کی ضروریات پوری کرے اور ان کے علاوہ دیگر عبادتوں کے وقت اس کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرے۔ نیز شوہر کے لئے وہ ایسے حالات پیدا کرے کہ وہ نیک کاموں میں مشغول رہ سکے، اس کو بدکاری اور تمام حرام چیزوں سے روکے حرام کی کمائی اور ناجائز پیشہ سے اسے باز رکھے اسی طرح اگر وہ کسی برائی کی راہ پر لگے تو اسے اس راہ سے ہٹائے۔

【19】

اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے ذاکرین پر فخر کرتا ہے

حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت امیر معاویہ (رض) ایک حلقہ کے پاس پہنچے جو ایک مسجد میں جما ہوا تھا انہوں نے حلقہ والوں سے پوچھا کہ تمہیں یہاں کس چیز نے بٹھایا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ (رض) نے کہا کہ واللہ (کیا) تمہیں اللہ کے ذکر ہی نے یہاں بٹھایا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں صرف اللہ کے ذکر ہی نے یہاں بٹھایا ہے ؟ حضرت معاویہ (رض) نے کہا دیکھو ! میں نے تم پر تہمت رکھنے کے لئے تمہیں قسم نہیں دی (یعنی تمہیں جھوٹا سمجھ کر تم سے قسم نہیں کھلوائی بلکہ میں نے آنحضرت ﷺ کے اتباع کے پیش نظر قسم کہلوائی ہے کہ آپ ﷺ نے بھی اسی طرح کہا تھا (جیسا کہ آگے حدیث میں آتا ہے) اور پھر معاویہ (رض) نے کہ آنحضرت ﷺ کی حدیث کو کم نقل کرنے کے سلسلہ میں میرے برابر کوئی تھا (یعنی میں احتیاطا بہت کم احادیث روایت کیا کرتا تھا کہ مبادا کہیں کوئی کمی و زیادتی ہوجائے اور پھر اس کا وبال میری گردن پر ہو اس بات سے حضرت معاویہ (رض) کا مقصد یہ آگاہی تھی کہ روایت حدیث میں مجھ سے کوئی بھول نہیں ہوتی کیونکہ نسیان کا احتمال تو اسی شخص کے لئے ہوتا ہے جو بہت زیادہ روایت کرے اور ظاہر ہے کہ میں ایسا نہیں تھا) ۔ بہرکیف حضرت معاویہ (رض) نے کہا کہ اسی طرح ایک دن نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ایک حلقہ کے پاس پہنچے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ یہاں تمہیں کس چیز نے بٹھایا ہے (یعنی یہاں کس مقصد کے لئے جمع ہو کر بیٹھے ہو) صحابہ نے عرض کیا ! ہم یہاں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور ہم اس کی اس بات کی تعریف کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی ہدایت بخشی اور اس کے ذریعہ ہم پر احسان کیا۔ آنحضرت نے فرمایا کہ واللہ (کیا) تمہیں صرف اسی چیز نے یہاں بٹھایا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اس چیز نے یہاں بٹھایا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو میں تم پر جھوٹ کی تہمت رکھنے کے لئے تم سے قسم نہیں کہلوائی بلکہ میرے پاس جبرائیل آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ اللہ عزوجل اپنے فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کرتا ہے۔ (مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ نے بغرض تاکید و توثیق ارباب حلقہ سے بہ قسم پوچھا نہ یہ کہ اللہ نخواستہ آپ ﷺ ان کو اپنی بات میں سچا نہیں سمجھتے تھے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کے نیک بندے آپس میں حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں اور اللہ کے ذکر اور اس کی یاد میں اجتماعی طور پر مشغول ہوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے ان بندوں کو دیکھو میں نے ان کے اوپر ان کے نفس ان کی خواہشات اور شیاطین کو کس طرح سے مسلط کیا ہے مگر یہ اس کے باوجود میری عبادت میں اور میرے ذکر میں مشغول ہیں لہٰذا ان کی اس شان عبودیت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی تعریف تم سے زیادہ کی جائے اس لئے تمہیں تو میری عبادت میں کوئی مشقت اور تکلیف نہیں ہوتی لیکن ان کی عبادت تو تمہاری عبادت کی بہ نسبت ایسی ہے کہ اس میں محنت تکلیف اور سراسر مشقت ہی مشقت ہے۔

【20】

ذکر اللہ کے اعتبار سے آسان اور ثواب کے اعتبار سے کہیں افضل

حضرت عبداللہ بن بسر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اسلام کے احکام (یعنی نوافل) مجھ پر بہت بھاری ہیں یعنی نوافل اتنے ہیں کہ میں اپنے ضعف وعجز کی بنا پر ان کی ادائیگی سے معذور ہوں اس لئے آپ مجھے بھی ایسی چیز بتا دیجئے کہ جن پر میں بھروسہ کرلوں (یعنی آپ کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو زیادہ ثواب کا باعث ہو) جامع اور آسان ہو اور وہ کسی زمانہ کسی جگہ اور کسی حالت پر موقوف نہ ہو تاکہ میں ادائیگی فرائض کے بعد اس کو اپنا معمول بنا لوں اور اس کی وجہ سے تمام نوافل سے مستغنی ہوجاؤں آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری زبان (یعنی یا تو یہی ظاہری زبان یا دل کی زبان) اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہمیشہ تر یعنی جاری رہنی چاہئے (ترمذی، ابن ماجہ) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

【21】

ذاکر کی فضیلت

حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا بندہ بہتر ہے (یعنی بہت زیادہ ثواب پاتا ہے) اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلند تر درجہ کا مالک ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے مرد اور عورتیں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! کیا یہ جہاد کرنے والوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور بلند مرتبہ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص کفار اور مشرکین پر اپنی تلوار مارے یہاں تک کہ وہ تلوار ٹوٹ جائے اور (تلوار یا خود مجاہد) خون سے رنگین ہوجائے (یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ وہ شہید ہوجائے) تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا شخص باعتبار درجہ کے اس شخص سے بہتر ہے۔ (احمد، ترمذی) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جہاد میں زخمی ہونے والا تو الگ رہا اگر جہاد اس حد تک پہنچ جائے کہ مجاہد خون میں شرا بور ہوجائے تب بھی اللہ کا ذکر کرنے والا ہی افضل ہوگا۔

【22】

ذکر اللہ شیطان سے دل کا محافظ

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ شیطان انسان کے دل سے چپکا رہتا ہے جب وہ دل سے اللہ کو یاد کرتا ہے تو شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب وہ ذکر اللہ سے غافل ہوتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ اس روایت کو بخاری نے بطریق تعلیق (یعنی بغیر سند) کے نقل کیا ہے۔

【23】

ذکر کی مثال اور اس کی فضیلت

حضرت امام مالک (رض) کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں غافلوں کے درمیان اللہ کا ذکر کرنے والا بھاگنے والوں کے پیچھے لڑنے والے کی مانند ہے (یعنی اس شخص کی مانند ہے) جو میدان کارزار میں اپنے لشکر کے بھاگ کھڑے ہونے کے بعد تنہا ہی کافروں کے مقابلہ میں ڈٹا رہے (ایسے شخص کی بہت ہی زیادہ فضیلت منقول ہے) اور غافلوں کے درمیان اللہ کا ذکر کرنے والا خشک درخت میں سرسبز شاخ کی مانند ہے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ درختوں کے درمیان سرسبز و شاداب درخت کی مانند ہے اور اللہ کا ذکر کرنے والا اندھیرے گھر میں چراغ کی مانند ہے اور غافلوں میں اللہ کا ذکر کرنے والا ایسا شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس کی زندگی ہی میں جنت میں اس کی جگہ دکھلاتا ہے یعنی یا تو بذریعہ مکاشفہ دکھاتا ہے یا خواب میں اور یا اس کو ایسا یقین بخشتا ہے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے اور غافلوں میں اللہ کو یاد کرنے والا ایسا شخص ہے جس کے گناہ ہر فصیح اور اعجم کے عدد بقدر بخشے جاتے ہیں، فصیح سے مراد انسان اور اعجم سے مراد جانور ہیں۔ (رزین)

【24】

ذکرا للہ سب سے زیادہ نجات دلانے والا عمل

حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ ایسا کوئی عمل نہیں ہے جسے بندہ کرے وہ ذکر اللہ سے زیادہ اللہ کے عذاب سے نجات دلائے۔ (مالک، ترمذی، ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ ذکر کے برابر ایسا کوئی عمل نہیں ہے جو قیامت میں اللہ کے عذاب سے بہت زیادہ نجات دلانے کا سبب بنے حاصل یہ کہ ذکر اللہ تمام اعمال سے افضل ہے۔

【25】

ذاکر کی سعادت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ مجھے یاد کرتا ہے اور میرے ذکر کے لئے اپنے دونوں ہونٹ ہلاتا ہے (یعنی دل اور زبان دونوں سے ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں (یعنی میں اس کا مددگار ہوتا ہوں اس کو توفیق دیتا ہوں اور اس پر اپنی رحمت و رعایت کرتا ہوں) (بخاری)

【26】

ذاکر الٰہی قلب کی صفائی کا باعث

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کے لئے صفائی ہے اور قلوب کی صفائی اللہ کا ذکر ہے اور ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ذکر الٰہی کے برابر اللہ کے عذاب سے بہت نجات دلائے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ کیا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی ایسی چیز نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ! اگرچہ وہ (مجاہد) اپنی تلوار اتنی مارے (یعنی اتنی شدت کے ساتھ مارے) کہ اس کی تلوار ٹوٹ جائے (بیہقی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر جہاد اس درجہ کو بھی پہنچ جائے تو بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر اس سے افضل ہے۔