54. استغفار وتوبہ کا بیان

【1】

استغفار وتوبہ کا بیان

استغفار کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ سے اپنی بخشش چاہنا اور چونکہ استغفار کے ضمن میں جس طرح توبہ بھی آجاتی ہے اسی طرح کبھی توبہ استغفار کے ضمن میں نہیں بھی آتی اس لئے باب کا عنوان قائم کرتے ہوئے بطور خاص والتوبۃ کا ذکر کیا گیا ہے یا پھر والتوبہ کو الگ سے اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ استغفار تو زبان سے متعلق ہے کہ بندہ اپنی زبان کے ذریعہ اللہ سے بخشش و مغفرت مانگتا ہے جب کہ توبہ کا تعلق دل سے ہے کیونکہ کسی گناہ پر ندامت و شرمندگی اور پھر اللہ کی طرف رجوع اور آئندہ اس گناہ میں ملوث نہ ہونے کا عہد دل ہی سے ہوتا ہے۔ توبہ کے معنی ہیں رجوع کرنا گناہوں سے طاعت کی طرف، غفلت سے ذکر کی طرف اور غیبت سے حضور کی طرف۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کی بخشش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندہ کے گناہوں کو دنیا میں بھی ڈھانکے بایں طور کہ کسی کو اس کے گناہ کا علم نہ ہونے دے اور آخرت میں اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے بایں طور کہ اس کو ان گناہوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہ کرے۔ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی سے پوچھا گیا کہ توبہ کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے فرمایا کہ گناہ کو فراموش کردینا یعنی توبہ کرنے کے بعد گناہ کی لذت کا احساس بھی دل سے اس طرح ختم ہوجائے گویا وہ جانتا ہی نہیں کہ گناہ کیا ہوتا ہے ! !۔ اور سہیل تستری سے پوچھا گیا کہ حضرت ! توبہ کا کیا مفہوم ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ تم گناہوں کو فراموش نہ کرو یعنی گناہ کو بھول مت جاؤ تاکہ عذاب الٰہی کے خوف سے آئندہ کسی گناہ کی جرات نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم آیت (توبوا الی اللہ جمیعا) ۔ تم سب اللہ کی طرف رجوع کرو۔ کے مطابق استغفار یعنی طلب بخشش و مغفرت اور توبہ کرنا ہر بندہ پر واجب ہے کیونکہ کوئی بندہ بحسب اپنے حال و مرتبہ کے گناہ یا بھول چوک سے خالی نہیں ہے لہٰذا ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام گزشتہ گناہوں سے توبہ کرے۔ طلب بخشش و مغفرت کرے آئندہ تمام گناہوں سے بچتا رہے اور صبح و شام توبہ و استغفار کو اپنا معمول بنالے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں کا کفارہ ہوتا رہے خواہ وہ گناہ قصدا کئے ہوں یا خطاء و سہوا سرزد ہوئے ہوں اور گناہوں کی نحوست کی وجہ سے طاعت کی توفیق سے محروم نہ رہے نیز گناہوں پر اصرار کی ظلمت دل کو پوری طرح گھیر کر اللہ نخواستہ کفر و دوزخ تک نہ پہنچا دے۔ توبہ کے صحیح اور قبول ہونے کے لئے چار باتیں ضروری ہیں اور شرط کے درجہ میں ہیں ایک تو یہ کہ محض اللہ کے عذاب کے خوف سے اور اس کے حکم کی تعظیم کے پیش نظر ہی توبہ کی جائے، درمیان میں توبہ کی کوئی اور غرض نہ ہو مثلاً لوگوں کی تعریف و مدح کا حصول اور ضعف و فقر کی وجہ، توبہ کی غرض میں داخل نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ گزشتہ گناہوں پر واقعی شرمندگی و ندامت ہو۔ تیسرے یہ کہ آئندہ ہر ظاہری و باطنی گناہ سے اجتناب کرے۔ اور چوتھے یہ کہ پختہ عہد اور عزم بالجزم کرے کہ آئندہ ہرگز کوئی گناہ نہیں کروں گا۔ توبہ کی کیفیت اور اثر آئندہ گناہ کرنے کے عزم کا صحیح ہونا یہ ہے کہ توبہ کرنے والا اپنے بلوغ کی ابتداء سے توبہ کرنے کے وقت تک پورے عرصہ کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ اس سے کیا کیا گناہ سرزد ہوئے ہیں تاکہ ان میں سے ہر ایک گناہ کا تدارک کرے چناچہ اگر اس عرصہ میں وہ، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر فرائض ترک ہوئے ہوں تو ان کی قضاء کرے اور اپنے اوقات کو نفل یا فرض کفایہ عبادتوں میں مصروف رکھ کر ان فرائض کو قضا کرنے میں سستی نہ کرے۔ اسی طرح اس عرصہ میں اگر ممنوع حرام چیزوں کا ارتکاب کیا ہے مثلا شراب پی ہے یا اور کوئی ممنوع وقبیح فعل کیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں ان سے توبہ و استغفار کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے نام پر غرباء و مساکین میں اپنا مال خرچ کرے اور صدقہ و خیرات کرتا رہے تاکہ اس کی توبہ باب قبولیت تک پہنچے اور حق تعالیٰ کی طرف سے اسے بخشش و مغفرت سے نوازا جائے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل پر یقین رکھے کہ انشاء اللہ توبہ قبول ہوگی اور مغفرت کی جائے گی، چناچہ خود حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ آیت (ھوالذی یقبل التوبۃ عن عبادہ ویعفوا عن السیأت) ۔ وہ ایسا رحیم و کریم ہے کہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خطاؤں سے درگزر کرتا ہے۔ یہ تو اس توبہ کی بات تھی جو ان گناہوں سے کی جائے جو محض اللہ تعالیٰ کے گناہ ہوں یعنی جن کا تعلق صرف حق اللہ سے ہو اور اگر اپنے اوپر وہ گناہ ہوں جن کا تعلق حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی تلفی یا ان کے نقصان سے ہو تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ سے بھی اپنی بخشش و مغفرت چاہے کیونکہ اس کی نافرمانی کی اور ان بندوں سے بھی ان کا تدارک کرے جن کی حق تلفی ہوئی ہے۔ چناچہ اگر حق تلفی کا تعلق مال سے ہو تو یا صاحب حق کو وہ مال ادا کرے یا اس سے معاف کرائے اور اگر اس کا تعلق مال سے نہ ہو جیسے غیبت یا اور کوئی ذہنی و جسمانی تکلیف جو اسے پہنچی ہو تو اس سے معافی چاہے۔ اگر حق تلفی کا تعلق کسی ایسی کوتاہی یا قصور سے ہو کہ اگر معاف کراتے وقت اس کا تذکرہ کسی فتنہ و فساد کا سبب بنتا ہو تو ایسی صورت میں اس قصور کا ذکر کئے بغیر اس شخص سے مطلقاً قصور معاف کرائے مثلا اس سے یوں کہے کہ مجھ سے جو بھی قصور ہوگیا ہو اسے معاف کر دیجئے اور اگر اس طرح معاف کرانے میں بھی فتنہ و فساد کا خوف ہو تو پھر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرے۔ اس کی بارگاہ میں تضرع وزاری کرے، اچھے کام کرے اور صدقہ و خیرات کرتا رہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو اور اس شخص کو جس کا قصور ہوا ہے آخرت میں اپنے فضل و کرم کے تحت اپنے پاس سے اجر دے کر اسے راضی کرائے، اگر صاحب حق مرچکا ہو تو اس کے وارث اس کے قائم مقام ہیں اس لئے مردہ کا حق ان سے معاف کرائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے نیز مردہ کی طرف سے بھی صدقہ خیرات کرے۔ ایک مومن مسلمان کی شان یہ ہونی چاہئے کہ اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے توبہ کرنے میں بالکل سستی اور تاخیر نہ کرے نیز نفس کے مکر اور شیطان کے وسوسہ میں مبتلا ہو کر یہ نہ سوچے کہ میں توبہ پر قائم تو رہ سکوں گا نہیں اس لئے توبہ کیسے کروں کیونکہ جب کوئی بندہ توبہ کرتا ہے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اس لئے اگر بتقاضائے بشریت توبہ کرنے کے بعد پھر گناہ سرزد نہ ہوجائے تو پھر توبہ کرے چاہے دن میں کئی مرتبہ ایسا ہو بشرطیکہ توبہ کے وقت اس کے دل میں یہ خیال نہ ہو کہ میں پھر گناہ بھی کروں گا اور توبہ بھی کرلوں گا بلکہ توبہ کرتے وقت یہی احساس رہے کہ شاید پھر گناہ کرنے سے پہلے مرجاؤں اور یہ توبہ میری آخری توبہ ثابت ہو۔ جب کوئی شخص توبہ کرنا چاہے تو پہلے نہا دھو کر صاف کپڑے پہنے اور دو رکعت نماز حضور قلب کے ساتھ پڑھے اور سجدہ میں گر کر بہت ہی زیادہ تضرع وزاری کے ساتھ اپنے نفس کو ملامت کرے اور اپنے گزشتہ گناہوں کو یاد کر کے عذاب الٰہی کے خوف سے اپنے قلب کو لرزاں وترساں کرے اور شرمندگی و ندامت کے پورے احساس کے ساتھ توبہ و استغفار کرے اور پھر ہاتھ اٹھا کر بارگاہ الٰہی میں یوں عرض رسا ہو۔ میرے پروردگار ! تیرے در سے بھاگا ہوا یہ گنہگار غلام اپنے گناہوں کی پوٹ لئے پھر تیرے در پر حاضر ہوا ہے انتہائی ندامت و شرمندگی کے ساتھ اپنی لغزشوں اور اپنے گناہوں کی معذرت لے کر آیا ہے تیری ذات رحیم و کریم ہے تو ستار و غفار ہے اپنے کرم کے صدقے میرے گناہ بخش دے ! اپنے فضل سے میری معذرت قبول فرما کر رحمت کی نظر سے میری طرف دیکھ نہ صرف یہ کہ میرے پچھلے گناہ بخش دے بلکہ آئندہ ہر گناہ ولغزش سے مجھے محفوظ رکھ کہ خیر و بھلائی تیرے ہی دست قدرت میں ہے اور اپنے گنہگار بندوں کو تو ہی بخشنے والا ہے اس کے بعد درود پڑھے اور تمام ہی مسلمانوں کے لئے بخشش و مغفرت چاہے۔ یہ تو عوام کی توبہ ہے کہ جن کی زندگی اور گناہ کے درمیان کوئی بڑی حد فاصل نہیں ہوتی اور وہ گناہ و معصیت میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں اور ان کی یہ توبہ انہیں اس بشارت کا مستحق قرار دیتی ہے کہ آیت (ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطہرین) لیکن خواص کہ جو اللہ کے اطاعت گزار بندے ہوتے ہیں جن کی زندگی معصیت و گناہ سے دور رہتی ہے اور اتباع شریعت کی حامل ہوتی ہے ان کی توبہ یہ ہے کہ وہ ان برے اخلاق سے کہ جن سے قلب کو پاک رکھنا واجب ہے توبہ کریں، اسی طرح عاشقین اللہ کی توبہ یہ ہے کہ اگر بتقاضائے بشریت کسی وقت ان سے ذکر اللہ اور یاد الٰہی میں غفلت ہوجائے اور ماسوی اللہ میں مشغول ہوجائیں تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اپنی اس کوتاہی سے توبہ کریں۔ یہ بات جان لینی چاہئے کہ گناہ کبیرہ کا صدور ایمان سے خارج نہیں کرتا لیکن فاسق وعاصی کردیتا ہے گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ کے متعلق (باب الکبائر و علامات النفاق) مظاہر حق جدید جلد اول میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے اس موقع پر گناہ کی ان دونوں اقسام کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ جہاں تک صغیرہ گناہوں کا تعلق ہے تو وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ایک عام زندگی کے لئے ان سے اجتناب بھی دشوار ہے چناچہ مسلک مختار کے مطابق صغیرہ گناہ سے تقویٰ میں خلل نہیں پڑتا بشرطیکہ گناہ صغیرہ پر اصرار و دوام نہ ہو کیونکہ صغیرہ گناہ پر اصرار و دوام گناہ کبیرہ کا درجہ اختیار کرلیتا ہے۔ لہٰذا ہر مومن و مسلمان پر واجب ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں اور حتی المقدور صغیرہ گناہوں سے اجتناب بھی کرے اور جانے کہ اگرچہ گناہ ایمان سے خارج نہیں کردیتے لیکن اس بات کا خوف ہے کہ گناہ کی زندگی رفتہ رفتہ انجام کار کفر اور دوزخ کی حد تک پہنچا دے۔

【2】

گناہوں سے بچنے کا علاج

گناہوں سے بچنے کا ایک آسان علاج یہ ہے کہ ہر چیز میں ضرورت پر قناعت کی جائے یعنی جو ضروری اور حد ضرورت یہ ہے کہ اتنی غذا جو بھوک ختم کرنے کے لئے ضروری ہو اتنا کپڑا جس سے ستر پوشی ہو سکے، اتنا مکان جو گرمی سردی سے بچا سکے اور اتنے برتن باسن جو ضروری ہوں اور ایک بیوی۔ لہٰذا یہ جان لینا چاہئے کہ حد ضرورت سے تجاوز کرنے اور مباح میں وسعت اختیار کرنے کی وجہ سے انسان ان چیزوں میں مبتلا ہوتا ہے جو مشتبہ اور مکروہ ہوتی ہیں۔ اور جب وہ مکروہات میں مبتلا رہتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ حرام چیزوں کا ارتکاب بھی ہونے لگتا ہے اور یہ وہ نکتہ ہوتا ہے جہاں اسلام کی حد تو ختم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد کفر و آگ کا میدان شروع ہوجاتا ہے نعوذ باللہ منہ۔

【3】

آنحضرت ﷺ کی توبہ و استغفار

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اللہ کی میں دن میں ستر بار سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔ (بخاری) تشریح آنحضرت ﷺ اتنی کثرت سے استغفار و توبہ اس لئے نہیں کرتے تھے کہ معاذ اللہ آپ ﷺ گناہ میں مبتلا ہوتے تھے کیونکہ آپ ﷺ معصوم تھے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ مقام عبدیت کے سب سے اونچے مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے اپنے طور پر یہ سمجھتے تھے کہ شاید مجھ سے اللہ کی بندگی و عبادت میں کوئی قصور ہوگیا ہو اور میں وہ بندگی نہ کرسکا ہوں جو رب ذوالجلال والاکرام کی شان کے لائق ہے۔ نیز اس سے مقصود امت کو استغفار و توبہ کی ترغیب دلانا تھا کہ آنحضرت ﷺ باوجودیکہ معصوم اور خیرالمخلوقات تھے جب آپ ﷺ نے دن میں ستر بار توبہ و استغفار کی تو گنہگاروں کو بطریق اولیٰ استغفار و توبہ بہت کثرت سے کرنی چاہئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرمایا کرتے تھے کہ روئے زمین پر عذاب الٰہی سے امن کی دو ہی پناہ گاہیں تھیں ایک تو اٹھ گئی دوسری باقی ہے لہٰذا اس دوسری پناہ گاہ کو اختیار کرو، جو پناہ گاہ اٹھ گئی وہ تو نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی تھی اور جو باقی ہے وہ استغفار ہے اللہ تعالیٰ کا رشاد ہے۔ آیت (وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم وماکان اللہ معذبہم وھم یستغفرون) ۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو اس وقت تک عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے جب تک کہ آپ ﷺ ان میں موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اس حالت میں عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے جب تک وہ استغفار کرتے ہوں۔

【4】

آنحضرت ﷺ کی توبہ و استغفار

حضرت اغر مزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ بات ہے کہ میرے دل پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں۔ (مسلم) تشریح اس حدیث کے معنی و مفہوم اور اس کی وضاحت کرنے کے سلسلہ میں علماء کے بہت سے اقوال ہیں جن میں سے ایک قول یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ چونکہ اس بات کو محبوب رکھتے تھے کہ آپ کا قلب مبارک جناب باری تعالیٰ میں ہر وقت حاضر رہے کسی لمحہ بھی ادھر سے غافل نہ رہے لیکن جب آپ ﷺ مباح چیزوں مثلاً کھانے پینے اور اپنی ازواج کے ساتھ اختلاط یا اسی قسم کے ان امور میں مشغول ہوتے تھے جن کی وجہ سے فی الجملہ جناب باری تعالیٰ سے غفلت ہوتی تھی تو اس مشغولیت کو اپنے طور پر ایک پردہ اور گناہ سمجھ کر آپ ﷺ کا قلب مبارک لرزاں اور بےچین ہوجاتا تھا چناچہ آپ ﷺ اس کی وجہ سے استغفار کرتے تھے اس حدیث کے سلسہ میں سب سے اچھی بات وہی ہے جو بعض عارفین نے کہی ہے کہ یہ حدیث متشابہات میں سے ہے اس کے اصل معنی کا علم اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے اس کا کام تو صرف یہ ہے کہ اس حدیث پر ایمان رکھے اور اس کے معنی سمجھنے کے درپے نہ ہو۔

【5】

آنحضرت ﷺ کی توبہ و استغفار

حضرت اغر مزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لوگو ! اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو، میں دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرتا ہوں (لہٰذا تمہیں تو بطریق اولیٰ چاہئے کہ ہر ساعت میں ہزار بار توبہ کرو) (مسلم)

【6】

رجوع الی اللہ کا حکم

حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ان حدیثوں کے سلسلہ میں کہ جو آپ ﷺ اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کرتے تھے فرمایا کہ ایک حدیث قدسی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو ! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے یعنی میں ظلم سے پاک ہوں اور چونکہ ظلم میرے حق میں بھی ایسا ہے جیسے کہ تمہارے حق میں اس لئے میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے پس تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو ! تم سب گمراہ ہو علاوہ اس شخص کے جس کو میں ہدایت بخشوں پس تم مجھ سے ہدایت چاہو، میں تمہیں ہدایت دوں گا، اے میرے بندو ! تم سب بھوکے ہو (یعنی کھانے کے محتاج) علاوہ اس شخص کے جس کو میں کھلا دوں اور اسے رزق کی وسعت و فراخی بخشوں اور مستغنی بناؤں پس تم سب مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا اے میرے بندو ! تم سب ننگے (یعنی ستر پوش کے لئے کپڑے کے محتاج ہو) علاوہ اس شخص کے جس کو میں نے پہننے کے لئے دیا پس تم سب مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو ! تم اکثر دن رات خطائیں کرتے ہو اور میں تمہاری خطائیں بخشتا ہوں پس تم سب مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخشوں گا۔ اے میرے بندو ! تم ہرگز میرے ضرر کو نہیں پہنچ سکو گے تاکہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور ہرگز میرے نفع کو نہیں پہنچ سکو گے تاکہ مجھے فائدہ پہنچا سکو (یعنی گناہ کرنے سے بار گاہ صمدیت میں کوئی نقصان نہیں اور اطاعت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ دونوں کا نقصان و فائدہ صرف تمہیں ہی پہنچتا ہے چناچہ آگے اس کی تفصیل فرمائی کہ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے اور تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر بھی تم میں سے کسی ایک نہایت پرہیزگار دل کی مانند ہوجائیں تو اس سے میری مملکت میں کوئی زیادتی نہیں ہوگی (یعنی اگر تم سب کے سب اتنے ہی پرہیز گار اور اتنے ہی نیک بن جاؤ جتنا کہ کوئی شخص پرہیزگار بن سکتا ہے مثلاً تم سب محمد ﷺ ہی طرح پرہیزگار بن جاؤ کہ روئے زمین پر کوئی بھی ایسا شخص باقی نہ رہے جس کی زندگی پر فسق و فجور اور گناہ معصیت کا ہلکا سا اثر بھی ہو تو اس سے میری سلطنت و میری ادنیٰ سی بھی زیادتی نہیں ہوگی) اے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے، تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرضیکہ سب کے سب) مل کر تم میں سے کسی ایک نہایت بدکار دل کی مانند ہوجائیں (یعنی تم سب ملک کر شیطان کی مانند ہوجاؤ) تو اس سے میری مملکت کی کسی ادنیٰ سی چیز کو بھی نہیں نقصان پہنچے گا، اے میرے بندو ! اگر تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر تم میں سے نہایت بدکار دل کی مانند ہوجائیں یعنی تم سب ملک کر شیطان کی مانند ہوجاؤ تو اس سے مملکت کی کسی ادنیٰ سی چیز کو بھی نہیں نقصان پہنچے گا، اے میرے بندو ! اگر تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر کسی جگہ کھڑے ہوں اور مجھ سے پھر مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کے مانگنے کے مطابق (ایک ہی وقت میں اور ایک ہی جگہ) دوں تو میرا یہ دینا اس چیز سے جو میرے پاس ہے اتنا ہی کم کرتی ہے جتنا کہ ایک سوئی سمندر میں گر کر (اس کے پانی کو کم کرتی ہے) اے میرے بندو ! جان لو میں تمہارے اعمال یاد رکھتا ہوں اور انہیں تمہارے لئے لکھتا ہوں، میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا، پس جو شخص بھلائی پائے (یعنی اسے اللہ تعالیٰ کی نیک توفیق حاصل ہو اور عمل خیر کرے) تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور جو شخص بھلائی کے علاوہ پائے یعنی اسے اللہ تعالیٰ کی نیک توفیق حاصل ہو اور عمل خیر کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور جو شخص بھلائی کے علاوہ پائے یعنی اس سے کوئی گناہ سرزد ہو تو وہ اپنے نفس کو ملامت کرے کیونکہ اس سے گناہ کا سرزد ہونا نفس ہی کے تقاضہ سے ہوا۔ (مسلم) تشریح کلکم ضال (تم سب گمراہ ہو) اس اعتبار سے فرمایا کہ دنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ اس سے دنیا اور دین کا ہر کمال ہر سعادت اور تمام ہی بھلائیاں ہوں ہر شخص کے اندر کچھ نہ کچھ کمی اور کوتاہی ضرور ہوتی ہے اور اگر کوئی دینی اور اخروی اعتبار سے اپنے اندر کوئی کمی اور کوتاہی و گمراہی رکھتا ہے تو کسی کے اندر دنیاوی امور کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی کمی اور کجی ہوتی ہے اس لئے فرمایا کہ تم سب گمراہ ہو یعنی دنیوی اور دینی دونوں اعتبار سے درجہ کمال سے ہٹے ہوئے ہوں۔ الا من ہدیتہ (علاوہ اس شخص کے جس کو میں ہدایت بخشوں) اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی مراد یہ ہے کہ اگر لوگوں کو ان کی اس حالت و کیفیت پر چھوڑ دیا جو ان کی طبیعت اور ان کے نفس کی بنیاد ہوتی ہے تو وہ خود رو درخت کی طرح جس طرح چاہیں بڑھیں اور جس سمت چاہیں چلیں، جس کا نتیجہ گمراہی اور بےراہ روی ہے اس لئے میں جس کو چاہتا ہوں اسے فکر وذہن کی سلامت اور اعمال نیک کی ہدایت بخشتا ہوں جس کا نتیجہ گمراہی اور بےراہ روی ہے اس لئے میں جس کو چاہتا ہوں اسے فکر وذہن کی سلامت اور اعمال نیک کی ہدایت بخشتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا نفس صحیح راستہ پر چلتا ہے اور اس کی طبیعت نیکی ہی کی سمت بڑھتی ہے اس بات کو نبی کریم ﷺ نے اس طور پر بیان فرمایا ہے کہ ان اللہ خلق الخلق فی ظلمۃ ثم رش علیہم من نورہ۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا اور پھر ان پر اپنے نور کا چھینٹا دیا۔ اس موقع پر یہ خلجان پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ یہ بات اس حدیث (کل مولود یولد علی الفطرۃ) ۔ ہر بچہ فطرت (اسلام کی فطرت) پر پیدا کیا جاتا ہے۔ کے منافی ہے کیونکہ فطرت سے مراد توحید ہے اور ضلالت یا عظمت سے مراد احکام ایمان کی تفصیل اور اسلام کے حدود و شرائط کا نہ جاننا ہے۔ وانا اغفرالذنوب جمیعا میں تمہاری ساری خطائیں بخشتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ تم دن رات لغزشوں اور گناہوں میں مبتلا رہتے ہو لیکن اگر اپنے ان گناہوں پر ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کرتے تو میں تمہارے سب گناہ بخش دیتا یا پھر یہ مراد ہے کہ ایک تو صرف ایسا گناہ ہے جس سے توبہ کئے بغیر بخشش ممکن نہیں ہاں اس کے علاوہ اور سب گناہ اگر میں چاہتا ہوں تو بغیر توبہ و استغفار کے بھی اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت خاص کے پیش نظر بخش دیتا ہوں۔ جتنا کہ سوئی کم کردیتی ہے۔ کے بارے میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ سوئی کا سمندر میں گر کر اس کے پانی کو کم کردینا نہ محسوس چیز ہے اور نہ عقل و شعور کی رسائی میں آنے والی بات بلکہ وہ کالعدم ہے اس لئے اس کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے ورنہ تو اللہ کے خزانے میں کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کی کمی کا بھی کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ ابن ملک کہتے ہیں کہ اس بارے میں یا پھر کہا جائے کہ یہ جملہ بالفرض والتقدیر کی قسم سے ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے خزانے میں کمی فرض بھی کی جائے تو وہ اس قدر ہوسکتی ہے۔

【7】

توبہ اور رحمت الٰہی کی وسعت

حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی قوم میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا پھر لوگوں سے یہ پوچھنے نکلا کہ اگر میں توبہ کرلوں تو وہ توبہ قبول ہوگی یا نہیں ؟ چناچہ اسی سلسلہ میں وہ ایک عابد و زاہد کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ کیا اس اتنے بڑے گناہ سے یا اس اتنے بڑے گناہ کرنے والے ہی کے لئے توبہ ہے ؟ یعنی کیا اس کی توبہ قبول ہوگی یا نہیں ؟ اس عابد و زاہد نے کہا کہ نہیں ! اس شخص نے یہ سنتے ہی اس عابد و زاہد کو بھی قتل کردیا اور پھر دوسرے لوگوں سے پوچھتا پھرنے لگا۔ ایک شخص نے اس سے کہا کہ تم فلاں بستی جاؤ وہ ایسی اور ایسی ہے (یعنی اس نے اس بستی کا نام لیا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھی بستی ہے وہاں ایک عالم رہتا ہے جو تمہیں تمہاری توبہ کے قبول ہونے کا فتویٰ دے گا چناچہ وہ شخص اس بستی کی طرف چل کھڑا ہوا ابھی آدھے ہی راستے پر پہنچ پایا تھا کہ اچانک اسے موت نے آدبوچا (چنانچہ اسے موت کی علامت محسوس ہوئیں) تو اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف جھکا دیا اور پھر اس کی روح قبض کرنے کے وقت رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے (ملک الموت سے جھگڑنے لگے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو جس کی طرف وہ توبہ کرنے جا رہا تھا حکم دیا کہ وہ میت کے قریب آجائے اور اس بستی کو جہاں سے وہ قتل کر کے آ رہا تھا حکم دیا کہ وہ میت سے دور ہوجائے پھر اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے فرمایا تم دونوں بستیوں کے درمیان پیمائش کرو اگر میت اس بستی کے قریب ہوگی جہاں وہ توبہ کے لئے جا رہا تھا تو اسے رحمت کے فرشتوں کے حوالہ کیا جائے گا اور اگر اس بستی کے قریب ہو جہاں سے وہ قتل کر کے آ رہا تھا تو عذاب کے فرشتوں کے حوالہ کیا جائے گا۔ چناچہ جب فرشتوں نے پیمائش کی تو وہ توبہ کے لئے جس بستی کی طرف جا رہا تھا اس سے ایک بالشت قریب پایا گیا پس حق تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح ابن ملک کہتے ہیں کہ جب ملک الموت نے اس شخص کی روح قبض کی تو رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں ملک الموت سے اس کی روح لینے کے لئے جھپٹنے لگے، رحمت کے فرشتے تو یہ کہتے تھے کہ چونکہ یہ شخص توبہ کے لئے اس بستی کی طرف متوجہ ہونے کی بنا پر تائب تھا اس لئے ہم اسے رحمت الٰہی کی طرف لے جائیں گے اور عذاب کے فرشتے یہ کہتے تھے کہ اس شخص نے چونکہ ایک سو آدمیوں کو ناحق قتل کیا ہے اور ابھی تک اس نے توبہ نہیں کی تھی اس لئے ہم اسے عذاب الٰہی کی طرف لے جائیں گے چناچہ حق تعالیٰ نے اس کا فیصلہ جس طرح فرمایا وہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طالب توبہ کے لئے حق تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کسی قید اور حد کی پابند نہیں ہے اس کی بےپایاں رحمت خلوص قلب کے ساتھ اپنی طرف متوجہ ہونے والے بڑے سے بڑے سرکش اور گنہگار کو بھی اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ قلب ونیت کے اخلاص کے ساتھ بارگاہ الوہیت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو بھی اس سے راضی کردیتا ہے۔ یہ حدیث اس بات کی ترغیب دلا رہی ہے کہ توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے دامن کو گناہوں کی آلائش سے پاک وصاف رکھا جائے اور حق تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی اور نا امیدی کو اپنے پاس بھٹکنے بھی نہ دیا جائے۔

【8】

توبہ اور رحمت الٰہی کی وسعت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اٹھا لے اور تمہاری جگہ ایسے لوگ پیدا کر دے جو گناہ کریں اور اللہ سے بخشش و مغفرت چاہیں اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں بخشے۔ (مسلم) تشریح اس ارشاد گرامی کا مقصد مغفرت اور رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کو بیان کرنا اور یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اسم پاک غفور کی شان کو ظاہر کرنے کے لئے اتنا بخشش کرنے والا ہے اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ خدانخواستہ اس حدیث کے ذریعہ گناہ کی ترغیب مقصود ہی نہیں ہے کیونکہ گناہ سے بچنے کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اپنے پیغمبر رسول مقبول ﷺ کو اس دنیا میں اس لئے بھیجا ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کو گناہ و معصیت کی زندگی سے نکال کر طاعت و عبادت کی راہ پر لگائیں۔

【9】

توبہ اور رحمت الٰہی کی وسعت

حضرت ابوموسیٰ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرے یہاں تک کہ سورج مغرب کی سمت سے نکلے۔ (مسلم) تشریح ہاتھ پھیلانا دراصل کنایہ ہے طلب کرنے سے چناچہ جب کوئی شخص کسی سے کچھ مانگتا ہے تو اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ رات میں ہاتھ پھیلاتا ہے الخ کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کو توبہ کی طرف بلاتا ہے ! بعض حضرات کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ پھیلانا اس کی رحمت و مغفرت سے کنایہ ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ یہاں تک کہ سورج مغرب کی سمت سے نکلے، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے طلب توبہ کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ قرب قیامت میں سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکلے کیونکہ جب آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا تو توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ اس کے بعد پھر کسی کی توبہ قبول نہیں ہوگی

【10】

اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتا ہے

ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب بندہ (اپنے گناہ کا ندامت و شرمندگی کے ساتھ) اعتراف کرتا ہے اور پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

【11】

توبہ اور رحمت الٰہی کی وسعت

حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص مغرب کی سمت سے آفتاب طلوع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (مسلم) تشریح علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ توبہ قبول ہونے کی حد ہے کہ مغرب کی سمت سے آفتاب نکلنے سے پہلے تک توبہ کا دروازہ کھلا رہے گا لہٰذا اس وقت تک جو بھی توبہ کرے گا اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی لیکن اس کے بعد کی جانے والی توبہ قبول نہیں ہوگی اسی طرح توبہ قبول ہونے کی ایک حد شخصی ہوتی ہے جس کا تعلق ہر فرد سے ہوتا ہے اور وہ حالت غرغرہ (نزع) سے پہلے پہلے کا وقت ہے یعنی جو شخص حالت غرغر سے توبہ کرلے گا اس کی توبہ قبول ہوگی۔ حالت غرغرہ میں کی جانے والی توبہ قبول نہیں ہوگی۔

【12】

اللہ تعالیٰ توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص سے جو اس کے سامنے توبہ کرتا ہے اتنا زیادہ خوش ہوتا ہے کہ جتنا تم میں وہ شخص بھی خوش نہیں ہوتا جس کی سواری بیچ جنگل بیابان میں ہو اور پھر وہ جاتی رہی ہو (یعنی گم ہوگئی ہو) اور اس سواری سے نا امیدی کی حالت میں انتہائی مغموم و پریشان لیٹ جائے اور پھر اسی حالت میں اچانک وہ اپنی سواری کو اپنے پاس کھڑے ہوئے دیکھ لے۔ چناچہ وہ اس سواری کی مہار پکڑ کر انتہائی خوشی میں جذبات سے مغلوب ہو کر یہ کہہ بیٹے اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ مارے خوشی کی زیادتی کے اس کی زبان سے یہ غلط الفاظ نکل جائیں۔ (مسلم) تشریح یعنی اس شخص کو اصل کہنا تو یہ تھا کہ اے اللہ ! تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ مگر انتہائی خوشی کی وجہ سے شدت جذبات سے مغلوب اور مدہوش ہو کر یہ کہنے کی بجائے یہ کہہ بیٹھا ہے کہ اے اللہ ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ اس ارشاد کا مقصد اس بات کو بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اور اس کی توبہ کو قبول فرما کر اپنی رحمت سے نواز دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس خوشی کو اس شخص کی خوشی کے ساتھ مشابہت دی جس کی سواری جنگل بیابان میں گم ہوجائے اور پھر اچانک اسے مل جائے۔

【13】

اللہ تعالیٰ باربار توبہ قبول کرتا ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اسی امت میں سے یا گزشتہ امتوں میں سے ایک بندے نے گناہ کیا اور پھر کہنے لگا اے میرے پروردگار میں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کیا میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو جس کو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کے گناہ بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کے گناہ پر مواخذہ کرتا ہے تو جان لو میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا۔ وہ بندہ اس مدت تک کہ اللہ نے چاہا گناہ کرنے سے باز رہا، اس کے بعد اس نے پھر گناہ کیا اور عرض کیا کہ اے میرے پروردگار ! میں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کیا یہ میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو گناہ کو بخشتا ہے اور اس پر مواخذہ کرتا ہے ؟ میں نے اس بندہ کو بخش دیا۔ وہ بندہ اس مدت تک کہ اللہ نے چاہا گناہ سے باز رہا اور اس کے بعد پھر اس نے گناہ کیا اور اس کے بعد پھر اس نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کیا میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر مواخذہ کرتا ہے ؟ میں نے اس بندہ کو بخش دیا پس جب تک وہ استغفار کرتا رہے جو چاہے کرے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری الفاظ پس جو چاہے کرے۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بندہ جب تک گناہ کرتا رہے گا اور استغفار کرتا رہے گا اس کے گناہ بخشتا رہوں گا لہٰذا جملہ سے خدانخواستہ گناہ کی طرف رغبت دلانا مقصود نہیں ہے بلکہ استغفار کی فضیلت اور گناہوں کی بخشش میں استغفار کی تاثیر کو بیان کرنا مقصود ہے۔

【14】

کسی گناہ گار کو دوزخی نہ کہو

حضرت جندب (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے یہ بیان فرمایا اس امت میں سے یا گزشتہ امتوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو نہیں بخشے گا پھر آپ ﷺ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کون شخص ہے جو میری قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں فلاں شخص کو نہیں بخشوں گا اور یہ جان لے کہ میں نے اس شخص کو بخش دیا اور تیرے عمل کو ضائع یعنی تیری قسم کو جھوٹا کیا۔ (مسلم) تشریح کوئی شخص بہت زیادہ گناہ کرتا تھا اس کے بارے میں ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اسے نہیں بخشے گا اس نے یہ بات از راہ تکبر اس کو بہت گنہگار اور اپنے کو اس سے اچھا جان کر کہی۔ جیسا کہ بعض جاہل صوفیاء گنہگاروں کے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتے حالانکہ ایسے لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع اور عام ہے اس کے گنہگار بندوں کو بھی اس کے دامن میں پناہ ملتی ہے اور وہی ان کو بخشتا ہے۔ حاصل یہ کہ اس قسم کے کھانے والے نے اس کے نہ بخشے جانے کا جو یقین کیا تھا اس پر عتاب ہوا بایں طور کہ اس کی قسم کو جھوٹا کیا گیا اور اس شخص کو بخش دیا گیا۔ لہٰذا کسی بھی شخص کے بارے میں قطعی طور پر یہ کہنا کہ وہ جنتی ہے ! یا دوزخی ہے جائز نہیں ہے ہاں قرآن و حدیث نے وضاحت کے ساتھ جن لوگوں کو جنتی و دوزخی کہا ہے ان کو قطعی طور پر جنتی یا دوزخی کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

【15】

دعاء استغفار

حضرت شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا افضل استغفار یہ ہے کہ تم یوں دعا مانگو اے اللہ تو ہی میرا پروردگار ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں میں تیرے عہد پر ہوں۔ (یعنی عہد میثاق پر قائم ہوں اور تیرے وعدے پر ہوں یعنی تو نے حشر وغیرہ کے بارے میں جو وعدہ کیا ہے اس پر یقین کامل رکھتا ہوں میں اپنی طاقت کے بقدر اس برائی یعنی گناہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں جس میں میں مبتلا ہوا۔ میں تیری نعمتوں کو جو تو نے مجھے عنایت فرمائی اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں پس تو مجھے بخش دے۔ کیونکہ گناہوں کو تیرے علاوہ کوئی نہیں بخشتا۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص ان کلمات کو دن میں ان کے معنی پر یقین رکھ کر پڑھے اور پھر اسی دن شام سے پہلے مرجائے تو وہ جنتیوں میں سے ہے اور جو شخص ان کلمات کو رات میں ان کے معنی پر یقین رکھ کر پڑھے اور اسی رات صبح ہونے سے پہلے مرجائے تو وہ جنتیوں میں سے ہے۔ (بخاری)

【16】

اللہ تعالیٰ کی بخشش کی کوئی انتہاء نہیں

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم ! جب تک تو مجھ سے گناہوں کی معافی مانگتا رہے گا اور مجھ سے امید رکھے گا میں تجھے بخشوں گا تو نے جو برا کام بھی کیا ہوگا اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہوگی یعنی تو چاہے کتنا ہی بڑا گنہگار ہو تجھے بخشنا میرے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے اے ابن آدم ! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں اور تو مجھ سے بخشش چاہے تو میں تجھ کو بخش دوں گا۔ اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہوگی، اے ابن آدم ! اگر تو مجھ سے اس حال میں ملے کہ تیرے ساتھ گناہوں سے بھری ہوئی زمین ہو تو میں تیرے پاس بخشش مغفرت سے بھری ہوئی زمین کو لے کر آؤں گا۔ بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔ (یعنی شرک میں مبتلا نہ ہوا ہو) ترمذی اور احمد و دارمی نے اس روایت کو ابوذر (رض) سے نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

【17】

مغفرت کا یقین رکھو

اور حضرت ابن عباس (رض) رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا کرتے ہوئے کہتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس شخص نے یہ جانا کہ میں گناہوں کو بخشنے پر قادر ہوں تو اسے بخش دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی بشرطیکہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو۔ (شرح السنتہ) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بندہ کو اس بات کا جاننا کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کی مغفرت پر قادر ہے اس کی مغفرت و بخشش کا سبب ہے کیونکہ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کی بخشش پر قدرت رکھتا ہے وہ اس سے امید رکھتا ہے اور جو شخص کریم سے امید رکھتا ہے کریم اسے محروم نہیں رکھتا لہٰذا یہ حدیث قدسی اس حدیث قدسی انا عند ظن عبدی بی میں اپنے بندہ کے گمان کے قریب ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے کے مانند ہے۔ منقول ہے کہ حضرت سفیان ثوری (رض) بیمار ہوئے تو حضرت حماد بن سلمہ (رض) ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے حضرت سفیان ثوری (رض) نے حضرت حماد (رض) سے کہا کہ کیا آپ کو اس بات کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ جیسے کو بخش دے گا ؟ حضرت حماد (رض) نے جواب دیا کہ اگر مجھے اس بات کا اختیار دے دیا جائے کہ حساب کتاب کے لئے چاہے تو میں اپنے باپ کے سامنے پیش ہوجاؤں چاہے اللہ تعالیٰ کے سامنے تو میں اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے پیش ہونے کو ترجیح دوں گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ باپ سے زیادہ مجھ پر رحم کرتا ہے۔ گویا حماد کے اس جواب کا مقصد یہ تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی مغفرت و بخشش کی امید رکھئے اس کی رحمت پر بھروسہ کیجئے کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے۔

【18】

استغفار کی فضیلت اور اس کا اثر

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو استغفار کو اپنے اوپر لازم قرار دے لیتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ نکال دیتا ہے۔ اور اسے ہر رنج وغم سے نجات دیتا ہے نیز اس کو ایسی جگہ سے پاک و حلال روزی بہم پہنچاتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح استغفار کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی گناہ سرزد ہوجائے یا کوئی آفت و مصیبت اور رنج وغم ظاہر ہو تو استغفار کرے ! یا پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ استغفار پر مداومت وہمیشگی اختیار کرے کیونکہ زندگی کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں انسان استغفار کا محتاج نہ ہو اس لئے سرکار دو عالم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے۔ طوبی لمن وجد فی صحیفتہ استغفارا کثیرا۔ خوش بختی ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت پائی۔ حدیث میں مذکورہ بالا فضیلت کی بنیاد یہ ہے کہ جو شخص استغفار کو اپنے اوپر لازم قرار دے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کے قلب کا تعلق اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس کا اعتماد مستحکم وقوی ہوتا ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں اس کا شمار اللہ سے ڈرنے والوں اور اللہ کی ذات پر اعتماد کرنے والوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے جو مذکورہ بالا حدیث کی بنیاد بھی ہے کہ۔ آیت ( ڛ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّه مَخْرَجًا۔ وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُه) 65 ۔ الطلاق 3-2) ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی بہم پہنچاتا ہے جہاں اس کو گمان بھی نہیں ہوتا اور جو شخص اللہ پر اعتماد کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔ استغفار کی فضیلت اور اس کا فائدہ مند ہونا اس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ آیت (فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ اِنَّه كَانَ غَفَّارًا 10 يُّرْسِلِ السَّمَا ءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا 11 وَّيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّيَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا 12) 71 ۔ النوح 12-11-10) ۔ پس میں نے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش مانگو کیونکہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے وہ تم پر بکثرت بارش برسائے گا اور تمہیں مال اور اولاد دے گا اور تمہارے لئے باغ بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا۔ حضرت حسن بصری کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص نے ان سے قحط سالی کی شکایت کی تو انہوں نے اس سے کہا کہ اللہ سے استغفار کرو، پھر ایک اور شخص نے محتاجگی کا شکوہ کیا اور ایک اور نے اولاد نہ ہونے کی اور ایک اور نے زمین کی پیداوار میں کمی کی شکایت کی انہوں نے سب ہی سے کہا کہ استغفار کرو لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس کئی شخص آئے اور سب نے اپنی الگ الگ پریشانی ظاہر کی۔ مگر آپ نے سب ہی کو استغفار کرنے کا حکم دیا اس کی کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے اس کے جواب میں مذکورہ بالا آیت۔ (فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ اِنَّه كَانَ غَفَّارًا) 71 ۔ نوح 10) پڑھی اور اس طرح انہیں بتایا کہ میں نے جن جن باتوں کے لئے استغفار کا حکم دیا ہے اس آیت سے وہ سب ثابت ہیں۔

【19】

استغفار کی فضیلت اور اس کا اثر

حضرت ابوبکر صدیق (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنے گناہ پر استغفار کیا اس نے اپنے گناہ پر اصرار نہیں کیا اگرچہ وہ دن میں ستر بار گناہ کرے۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح گناہ پر اصرار کا مطلب یہ ہے کہ گناہ پر دوام کرنا یعنی باربار اس گناہ کو کرنا، یوں تو خود گناہ کرنا کوئی کم بری بات نہیں ہے چہ جائیکہ اس پر اصرار کرنا تو یہ تو بہت ہی برا ہے کیونکہ صغیر گناہ پر اصرار کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر پہنچا دیتا ہے اور کبیرہ گناہ پر اصرار کفر کی حد تک لے جاتا ہے۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنے کسی گناہ پر شرمندہ ہوتا ہے اور اس سے استغفار کرتا ہے خواہ وہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ تو وہ حد اصرار سے خارج ہوتا ہے چاہے اس سے اس گناہ کا ارتکاب کتنی ہی مرتبہ کیوں نہ ہو کیونکہ گناہ پر ارتکاب کرنے والا تو اسی کو کہیں گے جو باربار گناہ کرے مگر نہ تو وہ اس گناہ سے شرمندہ ونادم ہو اور نہ استغفار کرے۔

【20】

توبہ کرنے والوں کی فضیلت

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر انسان خطا کار ہے (یعنی ہر انسان گناہ کرتا ہے علاوہ انبیاء کرام کے کیونکہ وہ معصوم عن الخطا ہیں) اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

【21】

گناہ کی زیادتی قلب کو زنگ آلود کردیتی ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ ہوجاتا ہے پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کرلیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل اس نقطہ سیاہ سے صاف کردیا جاتا ہے اور اگر زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے پس یہ ران یعنی زنگ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ۔ آیت (کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون) ۔ یوں ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر یہ اس چیز یعنی گناہ کا زنگ ہے جو وہ کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے دلوں پر خیر و بھلائی بالکل باقی نہیں رہی۔ اس روایت کو احمد، ترمذی، ابن ماجہ نے نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح یہاں تک کہ وہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جوں جوں گناہ میں زیادتی ہوتی جاتی ہے توں توں وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ پورے قلب پر حاوی ہوجاتا ہے اور قلب کے نور کو ڈھانپ لیتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مومن دل کی بینائی سے محروم ہوجاتا ہے چناچہ نہ تو نفع دینے والے علوم اور نفع دینے والے نیک اعمال ہی کی کوئی اہمیت اس کی نظروں میں باقی رہتی ہے اور نہ فائدہ مند عقل و حکمت کی باتوں کا اس پر کوئی اثر ہوتا ہے اس طرح وہ شفقت و رحمت کے حیات آفرین وصف سے خالی ہوجاتا ہے کہ نہ اپنے اوپر رحم کرتا ہے اور نہ دوسروں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرتا ہے اور آخر کار اس کے قلب میں ظلم وجہل اور شر و فتنہ کی تاریکی اپنا تسلط جما لیتی ہے جس کا نتیجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ گناہ پر اس کی جرات بڑھ جاتی ہے اور معصیت آمیز زندگی ہی اس پر چھا جاتی ہے۔

【22】

قبولیت توبہ کا آخری وقت

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ غرغرہ کی کیفیت نہ شروع ہوجائے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح غرغرہ، انسانی زندگی کا وہ آخری درجہ ہے جب جسم و روح کا تعلق اپنے انقطاع کے انتہائی نقطہ کے بالکل قریب ہوتا ہے جان پورے بدن سے کھنچ کر حلق میں آجاتی ہے سانس اکھڑ کر صرف غرغر کی سی آواز میں تبدیل ہوجاتا ہے اور زندگی کی بالکل آخری امید بھی یاس و نا امیدی کے درجہ یقین پر پہنچ جاتی ہے۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی میں جب تک کہ غرغرہ کی کیفیت شروع نہ ہوجائے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک موت کا یقین نہیں ہوتا اس وقت تک تو توبہ قبولیت سے نوازی جاتی ہے مگر جب موت کا بالکل یقین ہوجائے یعنی مذکورہ بالا کیفیت شروع ہوجائے تو اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اس حدیث کے ظاہری اور واضح مفہوم سے تو یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ مرنے کے وقت مطلقاً توبہ صحیح نہیں ہوتی خواہ کفر سے توبہ ہو یا گناہوں سے یعنی اس وقت نہ تو کافر کا ایمان لانا صحیح و درست ہوگا اور نہ مسلمان کی گناہوں سے توبہ صحیح ہوگی چناچہ قرآن کریم کی آیت (وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّ يِّاٰتِ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْ ٰنَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ اُولٰ ى ِكَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِ يْمًا) 4 ۔ النساء 18) سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے لیکن بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ گناہوں سے توبہ تو صحیح ہوگی لیکن کفر سے توبہ صحیح نہیں ہوگی گویا ان حضرات کے نزدیک یاس و ناامید کا ایمان غیر مقبول ہے اور یاس کی توبہ مقبول ہے۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حدیث مذکورہ بالا کے تحت جو حکم بیان کیا گیا ہے۔ اس کا تعلق گناہوں سے توبہ کرنے سے ہے کہ حالت غرغرہ میں توبہ قبول نہیں ہوتی لیکن ایسی حالت میں اگر کسی سے اس کا کوئی حق معاف کرایا جائے اور وہ صاحب حق معاف کر دے یہ صحیح ہوگا۔

【23】

مغفرت خداوندی کی وسعت

حضرت ابوسعد (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ قسم ہے تیری عزت کی اے میرے پروردگار ! میں تیرے بندوں کو ہمیشہ گمراہ کرتا رہوں گا جب تک کہ ان کی روحیں ان کے جسم میں ہیں ! پروردگار عزوجل نے فرمایا قسم ہے اپنی عزت اور بزرگی کی اور اپنے مرتبہ کی بلندی کی، میرے بندے جب تک مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں بھی ہمیشہ ان کو بخشتا رہوں گا۔ (احمد)

【24】

توبہ

حضرت صفوان بن عسال (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مغرب کی جانب ایک دروازہ بنایا ہے جو توبہ کے لئے ہے اور جس کا عرض ستر سال کی مسافت کے بقدر ہے اور یہ دروازہ اس وقت تک بند نہیں کیا جائے گا جب تک کہ آفتاب مغرب کی سمت سے نکلے یعنی مغرب کی سمت سے آفتاب کا نکلنا قبولیت توبہ کا مانع ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کہ اس دن آویں گی بعض نشانیاں تیرے پروردگار کی نہیں نفع دے گا کسی ایسی جان کو ایمان لانا جو پہلے سے ایمان نہیں لائی تھی کا یہی مطلب ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح جو توبہ کے لئے ہے کا مطلب یہ ہے کہ توبہ کرنے والون کے لئے کھلا ہوا ہے یا یہ کہ وہ توبہ کے صحیح ہونے اور توبہ کے قبول ہونے کی علامت ہے ! حاصل یہ کہ جب آفتاب مغرب کی جانب سے نہیں نکلتا لوگوں کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے جس کا جی چاہے اپنے شرک و کفر سے توبہ کرے اور جس کا جی چاہے اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اس دروازہ کے ذریعہ آخرت کی ابدی راحتوں اور سعادتوں کا مستحق ہوجائے۔ جب مغرب کی سمت سے آفتاب نکلے گا تو توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا حدیث میں جس آیت کریمہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ پوری یوں ہے۔۔ آیت (يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْ اِيْمَانِهَا خَيْرًا) 6 ۔ الانعام 158) ۔ اس دن آویں گی بعض نشانیاں تیرے پروردگار کی (یعنی قرب قیامت پروردگار بعض نشانیاں ظاہر کرے گا ان ہی میں سے ایک نشائی یہ ہے کہ ایک دن آفتاب مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا اس دن نہیں نفع دے گا کسی ایسی جان کو ایمان لانا جو پہلے سے (یعنی پروردگار کی نشانی ظاہر ہونے سے پہلے) ایمان لائی تھی اور اس جان کو کہ جس نے حالت ایمان بھلائی (یعنی توبہ) نہیں کی تھی (اس دن اس کی توبہ اس کو کوئی نفع نہیں دے گی) ۔ اس آیت کا حاصل یہی ہے کہ جس دن آفتاب مغرب کی سمت سے طلوع ہوگا تو جو شخص اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا یا ایمان پر تو ہوگا مگر توبہ نہیں کی ہوگی اب نہ اس کا ایمان نفع پہنچائے گا نہ اس کی توبہ کوئی فائدہ پہنچائے گی۔

【25】

انقطاع قبولیت کی توبہ

حضرت معاویہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہجرت (یعنی گناہوں سے توبہ کی طرف رجوع) موقوف نہیں ہوگی تاوقتیکہ توبہ موقوف نہ ہو اور توبہ اس وقت تک موقوف نہیں ہوگی جب تک کہ آفتاب مغرب کی طرف سے نہ نکلے۔ (ابوداؤد، احمد، ترمذی) تشریح جب تک توبہ موقوف نہیں ہوتی یعنی جب تک توبہ قبول ہوتی رہے گی ہر شخص گناہوں سے پاک ہوسکتا ہے اور جب توبہ موقوف ہوجائے گی تو کوئی شخص گناہوں سے پاک نہیں ہو سکے گا اور توبہ موقوف اسی وقت ہوگی جب کہ آفتاب مغرب کی سمت سے طلوع ہوگا۔ حاصل یہ کہ جب تک آفتاب مغرب کی سمت سے طلوع نہیں ہوتا اس وقت تک ہر شخص توبہ کر کے اپنے گناہوں سے پاک ہوسکتا ہے پھر اس کے بعد کسی کی توبہ کار گر ثابت نہیں ہوگی۔

【26】

کسی گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بنی اسرائیل میں دو شخص تھے جو آپس میں دوست تھے ان میں سے ایک تو عبادت میں بہت ریاضت کرتا تھا اور دوسرا گناہ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں گناہگار ہوں یعنی وہ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا تھا۔ چناچہ عبادت کرنے والے نے اس سے کہنا شروع کیا جس چیز میں تم مبتلا ہو یعنی گناہ میں اس سے باز آجاؤ گنہگار اس کے جواب میں کہتا کہ تم میرے پروردگا پر چھوڑ دو ! کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے وہ مجھے معاف کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک دن اس عابد نے اس شخص کو ایسے گناہ میں مبتلا دیکھا جسے وہ بہت بڑا گناہ سمجھتا تھا اس نے اس سے کہا کہ تم اس گناہ سے باز آجاؤ گنہگار نے جواب دیا کہ تم مجھے میری پروردگار پر چھوڑ دو ، کیا تم میرے داروغہ بنا کر بھیجے گئے ہو ؟ (عابد نے یہ سن کر) کہا کہ اللہ کی قسم ! اللہ تمہیں کبھی نہیں بخشے گا اور نہ تمہیں جنت میں داخل کرے گا اس کے بعد حق تعالیٰ نے ان دونوں کے پاس فرشتہ بھیج کر ان کی روحیں قبض کرائیں اور پھر جب وہ دنوں یعنی ان کی روحیں حق تعالیٰ کے حضور برزخ میں یا عرش کے نیچے حاضر ہوئیں تو حق تعالیٰ نے گنہگار سے تو فرمایا کہ تو میری رحمت کے سبب جنت میں داخل ہوجا اور دوسرے سے فرمایا کہ کیا تو اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ میرے بندے کو میری رحمت سے محروم کر دے ؟ اس نے کہا کہ نہیں پروردگار پھر اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کو جو دوزخ پر مامور ہیں فرمایا کہ اس کو دوزخ کی طرف لے جاؤ۔ (احمد) تشریح چونکہ عبادت کرنے والے نے اپنی عبادت اور اپنے نیکی اعمال پر غرور وتکبر کا اعتماد کیا اور اس گنہگار کو اپنے سے حقیر جان کر اس سے یہ کہا کہ حق تعالیٰ تمہیں نہیں بخشے گا اس لئے اسے مستحق عذاب قرار دیا گیا اسی لئے کسی بزرگ کا قول ہے کہ جو گناہ اپنے کو حقیر و ذلیل سمجھنے کا باعث ہو وہ اس طاقت عبادت سے بہتر ہے جو غرور وتکبر اور نخوت میں مبتلا نہ کرے۔

【27】

گنہگار رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہوں

حضرت اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول کریم ﷺ یہ آیت پڑھا کرتے تھے۔ آیت (قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰ ي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّه هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ) 39 ۔ الزمر 53) ۔ اے میرے وہ بندو جنہوں نے گناہ کرنے کے سبب اپنے نفس پر زیادتی کی ہے، رحمت الٰہی سے مایوس مت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہ بخشتا ہے (نیز آپ ﷺ فرماتے کہ) اللہ تعالیٰ کو اس کی پرواہ نہیں کہ بندے کتنے ہی گناہ کرتے ہیں اور وہ سب کو بخش دیتا ہے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے اور شرح السنۃ میں لفظ یقرہأ کی بجائے لفظ یقول ہے۔ تشریح اللہ تعالیٰ سب گناہ بخشتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کو تو توبہ کے ساتھ بخشتا ہے کہ اگر کوئی کافر اپنے کفر و شرک سے توبہ کر کے ایمان کی دولت قبول کرلے تو اسے حق تعالیٰ ابدی نجات و بخشش کا مستحق قرار دیتا ہے اور مومنین کو توبہ کے ساتھ بھی بخشتا ہے اور اپنے بےپایا فضل و کرم کی بنا پر اگر چاہتا ہے تو بغیر توبہ کے بھی بخش دیتا ہے۔

【28】

گنہگار رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہوں

حضرت ابن عباس (رض) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول الا اللمم کی تفسیر کے ضمن میں روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے یہ شعر پڑھا۔ ان تغفر اللہم تغفر جما وای عبدلک لا الما اگر بخشے تو اے الٰہی ! تو بڑے سے گناہ بخش دے۔ اور تیرا کون سا بندہ ہے جس نے چھوٹے گناہ نہ کئے ہوں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تشریح الا اللمم ایک آیت کا ٹکڑا ہے اور پوری آیت یہ ہے۔ آیت (اَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰ ى ِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ) 53 ۔ النجم 32) ۔ اور (جن نیکو کاروں کا پیچھے ذکر ہوا) یہ وہ لوگ ہیں جو پرہیز کرتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بےحیائی کی باتوں سے علاوہ چھوٹے گناہوں (کہ جن سے بچنا ممکن نہیں ہے) اور بیشک تیرا رب مغفرت کا وسیع کرنے والا ہے۔ پس آیت میں چھوٹے گناہوں کا جو استثناء کیا گیا ہے اسی کی دلیل کے طور پر آنحضرت ﷺ نے مذکورہ بالا شعر پڑھا کہ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی مومن صغیرہ گناہوں سے خالی نہیں ہوتا۔ شعر کا حاصل یہ ہے کہ پروردگار تیری شان رحمت ایسی ہے اور تیرے فضل و کرم کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ اگر تو چاہے تو کبیرہ گناہوں کو بھی بخش دے چھوٹے گناہوں کی تو حقیقت ہی کیا ہے اور پھر تیرا کون سا بندہ ایسا ہے جو چھوٹے گناہ نہیں کرتا اور تو اسے نہیں بخشتا بلکہ تو ان چھوٹے گناہوں کو نیکیوں کے ذریعہ جھاڑتا رہتا ہے اور اس طرح ان بندوں کو چھوٹے گناہوں کے بوجھ سے بچاتا ہے۔ یہ شعر جسے آنحضرت ﷺ نے پڑھا امیہ بن صلت کا ہے جو ایام جاہلیت کے مشہور شعراء میں سے ہے امیہ اس وقت بھی بہت زیادہ عبادت کرتا تھا اور قیامت پر اعتقاد کرتا تھا اگرچہ اس نے اسلام کا زمانہ پایا ہے مگر مسلمان ہونے کی سعادت سے محروم رہا۔ امیہ چونکہ حکمت آمیز اشعار کہا کرتا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نہ صرف یہ کہ اس کے اشعار سنتے ہی تھے بلکہ کبھی کبھی خود انہیں پڑھا کرتے تھے۔

【29】

بندہ کی عبادت اور معصیت سے اللہ کی خدائی میں کوئی اثر نہیں پڑتا

حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو ! تم سب گم کردہ راہ علاوہ اس شخص کے جس کو میں نے ہدایت بخشی پس تم سب مجھ سے ہدایت چاہو میں تمہیں ہدایت بخشوں گا۔ تم سب ظاہر و باطن میں محتاج ہو علاوہ اس شخص کے جس کو میں نے غنی بنادیا پس تم سب مجھ سے روزی مانگو میں تمہیں (پاک و حلال) روزی دوں گا تم سب گنہگار ہو (یعنی سب ہی سے گناہ متصور ہے) علاوہ اس شخص کے جس کو میں نے بچا لیا ہو (یعنی انبیاء کرام) پس تم میں سے جس شخص نے جانا کہ میں بخشنے پر قادر ہوں اور پھر اس نے مجھ سے بخشش مانگی تو میں اس کو (یعنی اس کے سب گناہ) بخش دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی اور اگر تمہارے پچھلے اگلے، تمہارے زندے، تمہارے مردے، تمہارے تر اور تمہارے خشک (یعنی تمہارے جوان و بوڑھے یا تمہارے عالم و جاہل اور یا تمہارے فرمانبردار گنہگار غرضیکہ ساری مخلوقات) میرے بندوں میں سب سے زیادہ متقی دل بندہ محمد ﷺ کی طرح ہوجائیں تو اس سے یعنی تمام مخلوقات کے عابد و متقی ہوجانے سے میری خدائی میں ایک مچھر کے برابر بھی زیادتی نہیں ہوگی اور اگر تمہارے اگلے تمہارے پچھلے، تمہارے زندے تمہارے مردے، تمہارے تر اور تمہارے خشک (غرض کہ ساری مخلوقات) میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ بدبخت (شیطان لعین) کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری خدائی میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہ ہوگی اور اگر تمہارے اگلے تمہارے پچھلے، تمہارے زندے، تمہارے مردے تمہارے تر اور تمہارے خشک ایک جگہ جمع ہوں اور تم میں سے ہر شخص اپنی انتہائی آرزو و خواہش کے مطابق مانگے (یعنی اس کے دل میں جو بھی آرزو اور خواہش ہو مجھ سے مانگے) اور پھر تم میں سے ہر شخص کو (اس کی خواہش کے مطابق دوں) تو اس سے میری خدائی میں کچھ بھی کمی نہیں ہوگی (ہاں اگر بفرض محال کمی ہو بھی تو) وہ اسی قدر ہوگا جتنا کہ ایک سوئی پر پانی لگ جاتا ہے ورنہ حقیقت میں اللہ کی خدائی میں کمی کے کسی بھی درجہ کا کیا سوال۔ وہ کتنا ہی دے اس کے ہاں ہرگز کمی نہیں ہوتی اور اس کا سبب یہ ہے کہ میں بہت سخی ہوں۔ بہت دینے والا ہوں اور جو چاہتا ہوں کرتا ہوں (یعنی یہ تمام سخاوت اور کرم میرے ارادہ و اختیار کے ہی تحت ہے اس میں کسی بندے کے ارادے کو دخل نہیں ہے) میرا دینا صرف حکم کرنا ہے اور میرا عذاب دینا صرف حکم دینا ہے (یعنی یہ سب چیزیں صرف میرے ایک حکم سے ہوجاتی ہیں میں ذرائع اور اسباب کا محتاج نہیں ہوں اور میں کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہوں تو اس کے لئے میرا صرف اتنا ہی حکم ہے کہ میں کہہ دیتا ہوں ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

【30】

شرک سے بچنے والے کو بخشش کی بشارت

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یہ آیت پڑھی (هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَاَهْلُ الْمَغْفِرَةِ ) 74 ۔ المدثر 56) وہی صاحب تقویٰ ہے اور صاحب بخشش ہے پھر آپ ﷺ نے اس کی تفسیر کے سلسلہ میں فرمایا کہ تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ میری شان کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ میرے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے پرہیز کریں لہٰذا جو شخص شرک سے بچتا ہے تو پھر میرے لائق یہی ہوتا ہے کہ میں اسے بخش دوں۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) مذکورہ بالا آیت کا مضمون اس آیت کے مضمون کی مانند ہے۔ آیت (اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِه وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَا ءُ ) 4 ۔ النساء 116) ۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اس شرک کے علاوہ ہر گناہ کو جس کے لئے چاہے معاف کردیتا ہے۔

【31】

آنحضرت ﷺ کا استغفار وتوبہ

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم یہ شمار کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ ایک مجلس میں سو مرتبہ یہ کہا کرتے تھے۔ دعا (رب اغفر لی وتب علی انک انت التواب الغفور) میرے پروردگار ! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بلاشبہ تو ہی بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

【32】

استغفار صدق دل سے کرو

نبی کریم ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید (رض) کے پوتے حضرت بلال بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ میرے والد حضرت یسار (رض) نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی جسے انہوں نے میرے دادا حضرت زید (رض) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے یعنی حضرت زید (رض) رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص یہ کہے دعا ( استغفر اللہ الذی لا الہ الاھوالحی القیوم واتوب الیہ) میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں وہ اللہ کہ نہیں کوئی معبود علاوہ اس کے جو زندہ ہے اور خبر گیری کرنے والا ہے تو اس کی بخشش کی جاتی ہے اگرچہ وہ جہاد سے بھاگا ہوا ہو (جو ایک بہت بڑا گناہ ہے) اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد کے نزدیک بلال بن یسال کی بجائے ہلال بن یسار ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح کوئی بھی دعا ہو، کوئی بھی ذکر اور کوئی بھی عمل ہو جب نیت و مقصد کا اخلاص اور دل کی تڑپ و لگن زبان کی ہمنوا نہ ہو اس دعا کا اثر ہوتا ہے اور نہ اس کا ذکر و عمل، اسی لئے علماء لکھتے ہیں کہ جب بھی استغفار پڑھا جائے تو صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ پڑھا جائے کیونکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ گناہ سے استغفار کرنے والا درآنحالیکہ وہ اس گناہ پر قائم ہو اپنے پروردگار سے ٹھٹھول کرنے والا ہے۔ (نعوذباللہ)

【33】

اپنے مرحومین کے لئے استغفار کرو

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ عزوجل جنت میں اپنے نیک بخت و صالح کا درجہ بلند کرتا ہے تو وہ پوچھتا ہے میرے پروردگار مجھے یہ درجہ کیسے حاصل ہو ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا تیرے لئے تیرے بیٹے کے استغفار کی وجہ سے۔ (احمد)

【34】

مردوں کے لئے بہترین ہدیہ استغفار

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قبر میں مردہ کی حالت ایسی ہے جیسا کہ کوئی شخص ڈوب رہا ہو اور کسی کو پکار رہا ہو کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر پانی سے باہر نکالے چناچہ وہ مردہ ہر وقت اس بات کا منتظر رہتا ہے کہ اس کے باپ کی طرف سے یا اس کی ماں کی طرف سے یا اس کے بھائی کی طرف سے یا اس کے دوست کی طرف سے اس کو دعا پہنچے پس جب اسے کسی کی طرف سے دعا پہنچتی ہے تو یہ دعا کا پہنچنا اس کے لئے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے محبوب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ قبر والوں کی طرف سے دعا کا ثواب پہاڑ کی مانند (یعنی بہت زیادہ ثواب اور رحمت و بخشش) پہنچاتا ہو اور زندوں کی طرف سے مردوں کے لئے بہترین ہدیہ استغفار ہے۔

【35】

استغفار کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن بسر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خوش بختی ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار کی یعنی مقبول استغفار پایا ابن ماجہ اور نسائی نے اس روایت کو اپنی کتاب عمل یوم ولیلۃ میں نقل فرمایا ہے۔ تشریح استغفار کی فضیلت کے سلسلہ میں یہ حدیث بھی بڑی ہی خوش کن ہے جسے بزاز نے حضرت انس (رض) سے بطریق مرفوع روایت کیا ہے کہ اعمال لکھنے والے دونوں فرشتے جب بندے کا اعمال نامہ لے کر اوپر جاتے ہیں تو حق تعالیٰ اس اعمال نامہ کے اول و آخر میں استغفار دیکھ کر فرماتا ہے کہ میں نے اپنے بندے کے وہ تمام گناہ بخش دئیے۔ جو اس نامہ اعمال کے دونوں کناروں کے درمیان ہیں۔ اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص صبح وشام استغفار کرتا ہے اسے یہ فضیلت وسعادت حاصل ہوتی ہے۔

【36】

آنحضرت ﷺ کی ایک دعا

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو نیکی کریں تو خوش ہوں اور برائی کریں تو استغفار کریں۔ (ابن ماجہ، بیہقی)

【37】

اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے

حضرت حارث بن سوید (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے مجھ سے دو حدیثیں بیان کیں ایک تو انہوں نے رسول کریم سے نقل کی اور دوسری اپنی طرف سے بیان کی چناچہ انہوں نے فرمایا مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے وہ ایک پہاڑ کے نیچے بیٹھاہو اور خوفزدہ ہو کہ پہاڑ اس کے اوپر نہ گرپڑے اور فاجر اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے اس مکھی کو جو اس کی ناک پر اڑے اور وہ اس کی طرف اس طرح یعنی اپنے ہاتھ سے اشارہ کرے اور اسے اڑا دے حاصل یہ کہ مومن گناہ سے بہت ڈرتا ہے اور اسے اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں میں اس گناہ کی پاداش میں پکڑا نہ جاؤں اس لئے اس کی نظر میں چھوٹے سے چھوٹے گناہ بھی وہی اہمیت رکھتے لیکن فاجر اپنے گناہوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اس کی نظر میں بڑے سے بڑے گناہ کی بھی اہمیت نہیں ہوتی۔ پھر حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنے سفر کے دوران کسی ایسے ہولناک میدان میں اترے جہاں سبزہ و درخت کا نام و نشان تک نہ ہو اور اس کے ساتھ جو سواری ہو اس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو پھر وہ استراحت کے لئے وہیں زمین پر سر رکھ کر ایک نیند سو گیا ہو اور جب جاگنے کے بعد اسے معلوم ہو کہ سامان سے لدی ہوئی اس کی سواری گم ہوگئی ہے تو وہ اس کی تلاش میں ہوگیا ہو یہاں تک کہ گرمی کی تپش اور پیاس کی شدت اور گرمی اور پیاس کے علاوہ دوسری تکلیف اور پریشانی کی ان چیزوں نے جو اللہ کو منظور تھیں اس پر غلبہ پا لیا ہو تو اس نے کہا ہو کہ میں اپنی جگہ لوٹ چلوں جہاں میں سر رکھ کر سویا تھا وہیں سو جاؤں تاکہ نیند کی حالت میں میرا خاتمہ ہوجائے چناچہ وہ اپنے بازو پر سر رکھ کر موت کے انتظار میں سو رہا ہو کہ اس کی آنکھ کھل جائے اور اچانک وہ دیکھے کہ اس کی سواری اس کے سامنے موجود ہو جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان موجود تھا پس اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندہ کی توبہ کی وجہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنی سواری اور اپنے کھانے پینے کا سامان پا کر خوش ہوتا ہے۔ مسلم نے ان دونوں روایتوں میں سے صرف اس روایت کو نقل کیا ہے جسے ابن مسعود (رض) نے آنحضرت ﷺ سے نقل کیا (یعنی جس میں مومن بندہ کی توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے خوش ہونے کا بیان ہے) اور اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے جسے ابن مسعود (رض) نے اپنی طرف سے بیان کیا ہے اور جس میں گناہ کے بارے میں مومن اور فاجر کے فرق کو بیان کیا گیا ہے۔ اور بخاری نے اس روایت کو بھی نقل کیا ہے جسے ابن مسعود (رض) نے اپنی طرف سے بیان کیا ہے حاصل یہ کہ حدیث مرفوع کو تو بخاری ومسلم دونوں نے نقل کیا ہے لیکن حدیث موقوف کو صرف بخاری نے نقل کیا ہے۔ تشریح پہلی فصل میں بھی اس قسم کی حدیث گزر چکی ہے وہاں بھی بتایا گیا ہے کہ بندہ کی توبہ سے اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ خوش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ سے راضی ہوتا ہے اور اس کی توبہ قبول کرتا ہے گویا اس حدیث سے اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔ آیت ( اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّ وَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ 222) ۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ ایک بہت بڑے عالم با عمل حضرت استاد ابی اسحق اسفرائی (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے مسلسل تیس برس تک یہ دعا کی کہ مجھے توبہ نصوح کی سعادت سے بہرہ مند فرمائے لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی میں نے اپنے دل میں بہت تعجب کیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کتنی پاک اور مستغنی ہے کہ میں نے تیس برس تک اپنی ایک خواہش کی تکمیل کی دعا کی لیکن وہ بارگاہ الوہیت میں قبولیت سے نہیں نوازی گئی کہ جب ہی میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھ سے کہہ رہا ہے تمہیں اس بات پر تعجب ہے کیا تم یہ بھی جانتے ہو کہ تم مانگ کیا رہے ہو ؟ تمہاری دعا کا حقیقی منشاء تو یہی ہے کہ اللہ تمہیں دوست اور محبوب نہ رکھے ؟ تو کیا تم نے اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت نہیں سنی کہ آیت (ان اللہ یحب التوابین ویحت المتطہرین) لہٰذا اس خواہش کی تکمیل نہ صرف یہ کہ بہت ہی آسان ہے بلکہ اس کی بشارت بھی دی جا چکی ہے۔

【38】

اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے

حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بندہ مومن کو بہت دوست رکھتا ہے جو گناہ میں مبتلا ہوتا ہے اور بہت زیادہ توبہ کرتا ہے۔ تشریح یہ منشاء نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اسے دوست رکھتا ہے جی نہیں بلکہ گناہوں پر نادم وشرمندہ ہونے سے اور توبہ کرنے کی وجہ سے دوست رکھتا ہے۔

【39】

آیت لاتقنطوا من رحمۃ اللہ کی فضیلت

حضرت ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول کریم ﷺ فرماتے تھے میں اس آیت (قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰ ي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ) 39 ۔ الزمر 53) کے مقابلہ میں اپنے لئے تمام دنیا کا حصول بھی پسند نہیں کرتا ایک شخص نے پوچھا کہ جس شخص نے شرک کیا کیا وہ بھی اس آیت کی بشارت کا مستحق ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے کچھ دیر خاموشی اختیار فرمائی تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آنے کے بعد یا پھر غور و فکر کر کے جواب دیں پھر وحی آنے کے یا خود اپنے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا جان لو ! جس شخص نے شرک کیا اور اپنی زندگی ہی میں اس سے توبہ کرلی اور پھر اس کی توبہ قبول بھی ہوئی تو وہ بھی اس آیت کی بشارت کا مستحق ہے یہ بات آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمائی۔ تشریح آپ ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اگر اس آیت کریمہ کے مقابلہ میں مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں بھی دے دی جائیں اور میں دنیا کی ان تمام چیزوں کو اللہ کی راہ میں صدقہ کر دوں اور جن چیزوں سے لذت حاصل کی جاسکتی ہے ان سے لذت حاصل کروں تو بھی میں اسے پسند نہیں کروں گا کیونکہ اس آیت کریمہ میں گناہ سے مغفرت و بخشش کی سب سے عظیم سعادت کی بشارت دی گئی ہے جو اسی ایک دنیا نہیں بلکہ اس جیسی سینکڑوں دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ گراں قدر ہے۔ پوری آیت کریمہ یہ ہے۔ (قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰ ي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ) 39 ۔ الزمر 53) ۔ اے میرے وہ بندو جنہوں نے گناہوں کے ذریعہ اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید و مایوس نہ ہو بلاشک اللہ تعالیٰ گناہوں کو بخشتا ہے اور وہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔ اسی مضمون کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان اشعار کے ذریعہ ادا کیا ہے۔ ایا صاحب الذنب لاتقنطن فان الالہ رؤوف رؤوف اے گنہگار شخص ناامید اور مایوس مت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ مہربان ہے بڑا ہی مہربان۔ ولا ترحلن بلا عدۃ فان الطریق مخوف مخوف بغیر زاد راہ کے کوچ نہ کر۔ کیونکہ راستہ بڑا دہشناک ہے بڑا ہی دہشتناک اور پھر ایک شاعر نے اسی بات کو یوں کہا ہے غافل مرد کہ مرکب مردان مردرا درسنگ لاخ بادیہ پیمابرفیدہ اند نومید ہم مباش کہ رنداں بادہ نوش ناگہ بیک خردش بمنزل رسیدہ اند

【40】

شرک، اللہ کی رحمت اور بندہ کے درمیان پردہ ہے

حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے گناہوں میں سے جنہیں چاہتا ہے ان کو بخشتا ہے جب تک بندہ اور رحمت حق کے درمیان پردہ حائل نہ ہو، صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! پردہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کہ آدمی شرک کرتا ہے (یعنی مشرک مرے) مذکورہ بالا تینوں روایتیں امام احمد نے نقل کی ہیں۔ نیز یہ آخری روایت کتاب البعث والنشور میں نقل کی ہے۔

【41】

بارگاہ حق میں شرک کے علاوہ ہر گناہ قبل عفو ہے

حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے (یعنی اس حال میں مرے) کہ وہ دنیا میں اللہ کی مانند کسی کو نہ مانتا ہو (یعنی شرک میں مبتلا نہ ہو) تو اگر مرنے کے بعد اس کے اوپر پہاڑی کی مانند بھی گناہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو اس کے ان سب گناہوں کو بخش دے گا۔ (بیہقی)

【42】

توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے والے کی مانند ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا گناہوں سے صحیح اور پختہ توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے گناہ نہ کیا ہو۔ (بیہقی) بیہقی نے کہا ہے کہ اس روایت کو صرف نہروانی نے نقل کیا ہے سو وہ مجہول ہیں، نیز بغوی نے شرح السنۃ میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت موقوف نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا گناہوں پر شرمندگی اور پشیمانی کا مطلب توبہ ہے اور توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے گناہ نہ کیا ہو۔ تشریح یہ بات جان لینی چاہئے کہ جب کوئی گنہگار شخص صدق دل کے ساتھ اپنے گناہ پر شرمندہ ونادم ہوتا ہے اور شرائط معتبرہ کے ساتھ توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ قبول ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں رہتا کیونکہ خود حق تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ۔ آیت (وھو الذی یقبل التبوۃ عن عبادہ) ۔ اور اللہ ایسا ہے جو اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اور استغفار جو توبہ کے بغیر ہو اور جس کا تعلق اللہ کے سامنے اپنے عجز و انکساری اور کسر نفسی کے اظہار سے ہو کبھی تو گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور کبھی نہیں مٹاتا لیکن اس پر بہر صورت ملتا ہے گویا اس کا انحصار مشیت ایزدی پر ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے استغفار کے ذریعہ گناہ کو دور کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے دور نہیں کرتا لیکن ثواب دونوں صورتوں میں دیتا ہے۔