55. رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کا بیان

【1】

رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کا بیان

مشکوۃ اکثر نسخوں میں اس موقع پر صرف باب لکھا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس باب میں ان احادیث کو ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق گزشتہ ابواب سے ہے اور بعض نسخوں میں یہاں یہ عنوان قائم کیا گیا ہے باب فی سعۃ رحمۃ یعنی رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کا بیان۔

【2】

اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب میثاق کے دن مخلوقات کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا (یا یہ کہ جب مخلوقات کو پیدا کرنا شروع کیا) تو ایک کتاب لکھی (یعنی فرشتوں کو وہ کتاب لکھنے کا حکم دیا یا قلم کو لکھنے کا حکم فرمایا) وہ کتاب حق تعالیٰ کے پاس عرش کے اوپر ہے اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ بلاشبہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح جس کتاب میں حق تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت عظمی لکھی ہوئی ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اس کتاب کی عظمت و بزرگ قدری کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کتاب کی اس عظیم و بزرگ قدری کے پیش نظر حق تعالیٰ نے اس کو اپنے پاس عرش کے اوپر رکھا ہے۔ رحمت الٰہی کی سبقت اور اس کے غالب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کی بخشش و کرم اور اس کی نعمتوں کی نشانیاں اور اس کے مظاہرے غالب ہیں کہ وہ تمام مخلوقات کو گہیرے ہوئے ہیں اور بےانتہا ہیں اس کے مقابلہ میں اس کے غضب کی نشانیاں اور اس کے مظاہر کم ہیں جیسا کہ خود حق تعالیٰ کا ارشد ہے۔ آیت (وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا۔ اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے۔ نیز فرمایا۔ آیت (عذابی اصیب بہ من اشاء ورحمتی وسعت کل شیئ) ۔ عذاب تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی رحمت کا دائرہ اور اس کی نعمتوں کا سلسلہ اتنا وسیع اور ہمہ گیر ہے کہ کائنات کا کوئی فرد اس سے باہر نہیں ہے اور اس دنیاوی زندگی کا ایک ایک لمحہ کسی نہ کسی شکل میں رحمت الٰہی ہی کا مرہون منت ہوتا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں بندوں کی طرف سے خدائے رحیم وکریم کی نعمتوں اور رحمتوں کے شکر کی ادائیگی میں جتنی کوتاہی اور قصور ہوتا ہے اس کی بھی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (ولو یؤ اخذ اللہ الناس بظلمہم ماترک علی ظہرہا من دابۃ) ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے ظلم کے سبب ان سے مواخذہ کرنے لگے تو اس کے نتیجہ میں ایک بھی جاندار روئے زمین پر نہ چھوڑے۔ چناچہ یہ بھی حق تعالیٰ کی رحمت کا ہی ظہور ہے کہ بندوں کی تمام کو تاہیوں اور خطاؤں کے باوجود اس دنیا میں ان کو باقی رکھتا ہے اور ان کو روزی دیتا ہے ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کرتا ہے اور اس دنیا میں ان کو عذاب ومواخذہ میں مبتلا نہیں کرتا یہ تو اس دنیا کا معاملہ ہے کہ یہاں حق تعالیٰ کی رحمت کا ظہور کس کس طرح اور کن کن صورتوں میں سامنے آتا ہے لیکن آخرت میں رحمت کا ظہور تو اس دنیا کے ظہور سے کہیں زیادہ ہوگا جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہوگا۔

【3】

رحمت خداوندی کی وسعت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک رحمت تو جنات، انسان چوپایوں اور زہریلے جانوروں میں اتاری ہے چناچہ اسی ایک رحمت کے سبب وہ آپس میں میل ملاپ رکھتے ہیں اور اسی کے سبب وہ آپس میں رحم کرتے ہیں اور اسی کے سبب وحشی جانور اپنے بچوں سے الفت رکھتا ہے اور ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ نے رکھ چھوڑی ہیں جن کے ذریعہ قیامت کے دن اپنے مومن بندوں پر رحم کرے گا۔ (بخاری ومسلم) اور مسلم نے ایک روایت حضرت سلمان (رض) سے اس کے مانند نقل کی ہے اس کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا پس جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ ان ننانوے رحمتوں کو اس رحمت کے ساتھ جو دنیا میں اتاری گئی ہے پورا فرما دے گا۔ تشریح مسلم کی اس دوسری روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قیامت کے دن وہ ایک رحمت بھی بندوں کے شامل حال رہے گی جو دنیا میں اتاری گئی ہے اس طرح ایک رحمت تو یہ دنیا والی اور ننانوے رحمتیں وہ جو قیامت کے دن کے لئے حق تعالیٰ نے مخصوص کر رکھی ہیں یہ سب مل کر پوری سو ہوجائیں گی۔

【4】

بندہ کو بین الخوف والرجا رہنا چاہئے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر مومن یہ جان لے کہ اللہ کے ہاں کس قدر عذاب ہے تو پھر کوئی شخص اس کی جنت کی امید بھی نہ رکھے (یعنی عذاب کی فراوانی اسے جنت سے مایوس کر دے) اور اگر کافر یہ جان لے کہ اللہ کی رحمت کس قدر ہے تو پھر کوئی اس کی جنت سے ناامید نہ ہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث کا منشاء درحقیقت اللہ کی رحمت اور اس کے عذاب کی کثرت کو ظاہر کرنا ہے تاکہ مومن تو اس کی رحمت پہ اعتماد کر کے نہ بیٹھ جائے اور اس کے عذاب سے بالکل بےخوف و نڈر نہ ہوجائے اور کافر اس کی رحمت سے نا امیدی نہ اختیار کرلے اور توبہ کرنا نہ چھوڑے۔ اور حاصل اس حدیث کا یہ ہے کہ بندہ کو چاہئے کہ وہ بین الخوف والرجاء (خوف اور امید کے درمیان) رہے یعنی اللہ کی رحمت پر امید بھی رکھے اور اس کے عذاب سے بھی ڈرتا رہے، چناچہ حضرت عمر (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر قیامت کے دن یہ اعلان کیا جائے گا کہ ایک شخص جنت میں داخل ہوگا تو میں امید رکھوں گا کہ وہ شخص میں ہوں اور اسی طرح اگر یہ اعلان کیا جائے کہ ایک شخص دوزخ میں داخل کیا جائے تو میں گمان رکھوں گا کہ وہ شخص میں ہی ہوں۔

【5】

جنت ودوزخ ہر شخص کے بالکل قریب ہی ہے

حضرت ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت تم میں سے ہر شخص کے جوتے کے تسمے کے برابر اس کے قریب ہے اور دوزخ بھی اسی طرح ہے۔ (بخاری) تشریح حاصل یہ کہ انسان اور جنت و دوزخ کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کو اچھے کام اور نیک اعمال سے آراستہ کرے وہ جنت کا امیدوار رہے نیز برے کاموں سے اجتناب کرے اور دوزخ سے ڈرتا رہے۔

【6】

اللہ تعالیٰ کی نکتہ نوازی

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک شخص تھا جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اس نے اپنے نفس پر زیادتی کی تھی یعنی بہت ہی زیادہ گناہ کئے تھے جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب وہ یعنی خود مرجائے تو اس کو یعنی مجھے جلا کر آدھی راکھ تو جنگل میں اڑا دینا اور آدھی راکھ دریا میں بہا دینا کیونکہ قسم اللہ کی اگر اللہ نے اس سے مواخذہ کرلیا اور حساب میں سختی کی تو وہ اس کو ایسا عذاب دے گا کہ آج تک عالم کے لوگوں میں سے کسی کو نہ دیا ہوگا، چناچہ جب وہ شخص مرگیا تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا کہ اس کو جلا کر آدھی راکھ تو جنگل میں اڑا دی اور آدھی کو دریا میں بہا دیا اللہ تعالیٰ نے دریا کو اس کی راکھ جمع کرنے کا حکم دیا اور اس نے وہ راکھ جو اس کے اندر تھی جمع کی اور جنگل کو حکم دیا اور اس نے بھی جو راکھ اس کے اندر تھی جمع کی جب دریا اور جنگل نے اس کے اجزاء جمع کر لئے تو اس شخص کو ان اجزاء سے استوار کر کے حق تعالیٰ کے سامنے پیش کیا گیا۔ حق تعالیٰ نے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا تھا ؟ اس نے جواب دیا کہ پروردگار ! تیرے خوف سے ! تو حقیقت و حال کو خوب جانتا ہے اللہ نے یہ سن کر اسے بخش دیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح وہ شخص یہ سمجھا تھا کہ عذاب صرف اسی کو ہوتا ہے جو دفن کیا جاتا ہے چناچہ اپنی بد عمل زندگی اور گناہوں کی زیادتی کو دیکھتے ہوئے اس نے انتہائی خوف و ڈر کی وجہ سے یہ وصیت کردی کہ مجھے جلا کر میری راکھ کو بکھیر کر اڑا دینا، اللہ تعالیٰ بڑا ہی نکتہ نواز ہے۔ اس کو بس یہی بات پسند آگئی اس لئے اس نے بخش دیا۔ لئن قدر اللہ کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمہ میں بیان کئے گئے یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے اس سے مواخذہ کرلیا اور حساب میں سختی کی۔ اس صورت میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس شخص کی مراد اس کے لفظی معنی ہی تھے یعنی اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہوگیا۔ تو پھر یہ اشکال پیدا ہوگا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک وشبہ کا اظہار کیا جو ظاہر ہے کہ بالکل کفر ہے۔ اس اشکال کے علماء نے کئی جواب دئیے ہیں ان ہی میں سے ایک جواب یہ ہے کہ زمانہ فترت کی بات ہے اس وقت چونکہ کوئی نبی نہیں تھا اور ایسے میں صرف توحید پر ایمان و اعتقاد ہی نجات کے لئے کافی تھا۔ اس لئے اس قسم کے شک وشبہ کے اظہار سے نہ کفر لازم آتا ہے اور نہ اس سے ابدی نجات پر کوئی اثر پڑتا تھا۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اس شخص نے یہ بات دہشت وخوف کے غلبہ کی بنا پر کہہ دی اور ایسی صورت میں انسان مجنون اور مغلوب العقل کے حکم میں ہوتا ہے اور وہ ماخوذ قرار نہیں دیا جاسکتا جیسا کہ گزشتہ باب ہی کی ایک حدیث میں اس شخص کے بارے میں نقل کیا گیا ہے جسے اپنی گمشدہ سواری مل گئی اور خوشی ومسرت کے غلبہ اور زیادتی کی وجہ سے اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے تھے۔ انت عبدی وانا ربک۔ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔

【7】

رحمت الٰہی کی وسعت

حضرت عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے جن میں ایک عورت بھی تھی اور دودھ کی کثرت کی وجہ سے اس کی چھاتیاں بہہ رہی تھیں کیونکہ اس کا بچہ نہیں تھا جو اس کا دودھ پیتا وہ اپنا دودھ پلانے کی خاطر اسی بچہ کی تلاش میں ادھ ادھ دوڑتی تھی چناچہ جب وہ قیدیوں میں سے کسی کے بچہ کو پا لیتی تو اپنے بچہ کی محبت میں اسے لے کر اپنے پیٹ سے لگاتی اسے دودھ پلانے لگتی یہ دیکھ کر نبی کریم ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ کیا تمہارے خیال میں یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈالے گی ؟ (یعنی جب یہ غیر کے بچے کے ساتھ اتنی محبت کرتی ہے تو کیا اس بات کا خیال کیا جاسکتا ہے کہ یہ اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ تو ہم نے کہا ہرگز نہیں ڈالے گی۔ بشرطیکہ وہ ڈالنے پر قدرت رکھتی ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ عورت اپنے بچے پر جنتا رحم و پیار کرتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر اس سے کہیں زیادہ تم سے پیار کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

【8】

میانہ روی اختیار کرنے کا حکم

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی کا عمل اسے آگ سے نجات نہیں دے گا یعنی صرف عمل ہی نافع نہیں ہوگا بلکہ جب حق تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت بھی شامل حال ہوگی تب ہی عمل بھی فائدہ دے گا صحابہ نے عرض کیا کہ کیا آپ ﷺ کو بھی ! (آپ کا عمل باوجود کامل ہونے کے نجات نہیں دلائے گا) آپ ﷺ نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے۔ لہٰذا تم لوگ اپنے اعمال کو تیر کی طرح راست و درست کرو، عمل میں میانہ روی اختیار کرو (یعنی کسی عمل کو کمی و زیادتی کے ساتھ نہ کرو۔ دن کے ابتدائی حصہ میں عبادت کرو دن کے آخری حصہ میں عبادت کرو اور رات میں بھی کچھ عبادت کرو یعنی نماز تہجد پڑھو اور عبادت میں میانہ روی اختیار کرو میانہ روی اختیار کرو، اپنی منزل کو پالو گے۔ (بخاری ومسلم)

【9】

رحمت الٰہی کے بغیر صرف عمل جنت کی سعادت کا ضامن نہیں

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی کا عمل نہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور نہ اسے دوزخ سے بچائے گا اور نہ مجھے میرا عمل جنت میں داخل کرے گا ہاں وہ جو اللہ کی رحمت کے ساتھ ہو۔ (مسلم) تشریح حدیث کے آخری الفاظ ہیں ہاں جو اللہ کی رحمت کے ساتھ ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے اور دوزخ سے نجات کی سعادت کا باعث وعمل ہوگا جس کے ساتھ باری تعالیٰ کی رحمت بھی شامل ہو لہٰذا جنت میں داخل ہونا تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور اس کی رحمت ہی کی بنا پر ہوگا البتہ جنت میں جو درجات ملیں گے وہ اعمال کے مطابق ملیں گے یعنی جس کا عمل جس درجہ کا ہوگا اسے وہی درجہ ملے گا۔

【10】

جزاء اور سزا میں رحمت الٰہی کا ظہور

حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی بندہ اسلام قبول کرتا ہے اور اس کا اسلام اچھا ہوتا ہے (یعنی نفاق سے پاک صاف ہوتا ہے) کہ اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے وہ تمام گناہ دور کردیتا ہے جو اس نے قبول اسلام سے پہلے کئے تھے اور اس کے بعد اسے بدلہ ملتا ہے جس کا حساب یہ ہے کہ ایک نیکی کے بدلہ میں دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں یعنی اسلام لانے کے بعد وہ بھی جو عمل کرتا ہے بلکہ سات سو سے بھی زیادہ اور برائی کا بدلہ اسی کے مانند ملتا ہے یعنی جتنی برائی کرتا ہے وہ اتنی ہی لکھی جاتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی درگزر کرتا ہے۔ (بخاری) تشریح یہ محض اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ظہور ہے اور اس کے فضل و کرم کا اثر ہے کہ وہ ایک نیکی پر دس گنا سے سات سو گنا تک جزاء سے نوازا جاتا ہے بلکہ جس کو چاہتا ہے اس کی مشقت ریاضت اور صدق و اخلاص کے موافق اس سے بھی زیادہ جزاء سے بہرہ مند فرماتا ہے۔ مگر بدی کی سزا اس بدی کے بقدر دیتا ہے چناچہ جو جتنی برائی کرتا ہے اسے صرف اتنی ہی سزا ملتی ہے بلکہ جس کو چاہتا ہے اس کی اس برائی کو معاف کردیتا ہے۔ اور اسے اتنی سزا سے بھی بچا لیتا ہے۔

【11】

جزاء اور سزا میں رحمت الٰہی کا ظہور

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھی یعنی فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ لوح محفوظ میں نیکیوں اور برائیوں کے بارے میں یہ تفصیل لکھ دیں کہ جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور وہ اس پر عمل نہ کرسکے (یعنی ارادہ کے باوجود وہ کسی عذر کی بناء پر اس نیکی کو کرنے پر قادر نہ ہو سکے) تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے ہاں اس ارادہ ہی کو ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور پھر اس نیکی کو کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے ہاں دس گنا سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھ لیتا ہے یعنی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے اللہ چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے بحسب اخلاص اور ادائیگی شرائط وآداب اس سے بھی زیادہ ثواب لکھتا ہے اور جو شخص کسی برائی کا ارادہ کرے اور پھر اللہ کے خوف کی وجہ سے اس برائی میں بھی مبتلا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے ہاں ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور جس شخص نے کسی برائی کا ارادہ کیا تو پھر اس برائی میں مبتلا بھی ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک ہی برائی لکھتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح نیکیوں سے مراد وہ اعمال ہیں جن کو کرنے سے ثواب ملتا ہے اور برائیوں سے مراد وہ اعمال ہیں جن کو کرنے سے عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔ جو شخص کسی نیکی کا اردہ کرے اور وہ نیکی کسی وجہ سے نہ کرسکے تو اس کے لئے بھی ایک نیکی اس لئے لکھی جاتی ہے کہ کسی بھی عمل کا ثواب نیت پر موقوف ہے اور مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر اور افضل ہوتی ہے بلکہ یوں کہئے کہ اصل تو نیت ہی ہے عمل کا درجہ اس کے بعد ہے کیونکہ عمل کے بغیر صرف نیت پر تو ثواب دیا جاتا ہے مگر نیت کے بغیر صرف عمل پر ثواب نہیں دیا جاتا ہاں اتنا فرق ضرور ہوتا ہے کہ بغیر عمل کے نیت پر جو ثواب ملتا ہے وہ مضاعف نہیں ہوتا۔ نیکی پر ثواب کے مضاعف ہونے کی مقدار کو سات سو تک بیان کیا جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ ثواب میں کتنا اضافہ کرتا ہے اس کی آخر حد اور مقدار کسی کو معلوم نہیں ہے کیونکہ سات سو کے بعد مقدار کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کی طرف رغبت دلانے کے لئے اس کو معین کر کے ذکر کرنے کی بجائے مبہم ذکر کرنا زیادہ موثر ہوتا ہے اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ آیت (فلا تعلم نفس مااخفی لھم من قرۃ اعین ) ۔

【12】

جزاء اور سزا میں رحمت الٰہی کا ظہور

حضرت عقبہ بن عامر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص برائیاں کرتا ہو اور پھر نیکیاں کرنے لگے اس کی حالت اس شخص کی سی ہے جس کے جسم پر تنگ زرہ ہو اور اس زرہ کے حلقوں نے اس کے جسم کو بھینج رکھا ہو پھر وہ نیکی کرے اور اس کی زرہ کا ایک حلقہ کھل جائے پھر وہ دوسری نیکی کرے اور دوسرا حلقہ کھل جائے یہاں تک کہ اسی طرح اس کے حلقے کھلتے رہیں اور وہ ڈھیلی ہو کر زمین پر گرپڑے۔ (شرح السنہ) تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ برائی کرنے سے سینہ تنگ و تاریک ہوجاتا ہے اور برائی کرنے والا نہ صرف یہ کہ اپنے تمام امور میں ضمیر کی صحیح رہنمائی سے محروم ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی تمام فکری اور عملی راہوں پر یقین و اعتماد اور سکون و استقلال کے نور کی بجائے تحیر و گھبراہٹ اور اضطراب عدم استقلال کے تاریک سایہ ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگوں کی نظروں میں بےوقعت اور کمتر ہوجاتا ہے اور تمام ہی نیکی پسند انسان اسے غصہ اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اس کے برعکس نیکی کرنے سے سینہ کشادہ اور فراخ ہوتا ہے اور نیکی کرنے والا اپنے ہر کام میں آسانی و سہولت اور یقین و اعتماد کے سکون آمیز اثرات محسوس کرتا ہے نیز یہ کہ وہ لوگوں کی نظر میں محبوب و پسندیدہ اور باوقعت رہتا ہے۔ حدیث بالا میں اسی بات کو تنگ زرہ سے مشابہت دی گئی ہے کہ تنگ زرہ پہننے سے جسم تنگی اور بےچینی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کا زرہ کا بدن پر سے کھلنا فراخی اور خوش دلی کا باعث ہوتا ہے۔

【13】

قیامت کے دن اللہ سے ڈرنے والے کے لئے بشارت

حضرت ابودرداء (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو منبر پر وعظ و نصیحت فرماتے ہوئے سنا چناچہ ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ جب آپ ﷺ نے یہ فرمایا (ولمن خاف مقام ربہ جنتان) یعنی اور جو شخص (قیامت کے دن حساب کے لئے) اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ میں (یہ سن کر از راہ تعجب) پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اس ڈرنے والے نے زنا ہی کیا ہو اور چاہے اس نے چوری ہی کی ہو۔ تب بھی اسے دو جنتیں ملیں گی ؟ آنحضرت ﷺ نے پھر دوسری مرتبہ یہی فرمایا آیت (ولمن خاف مقام ربہ جنتان) میں نے پھر دوسری مرتبہ پوچھا کہ یا رسول اللہ ! چاہے اس نے زنا ہی کیا ہو اور چاہے اس نے چوری ہی کی ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگرچہ ابودرداء (رض) کی ناک خاک آلودہ ہی کیوں نہ ہو۔ (احمد) تشریح اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ دو جنتوں کے بارے میں بعض احادیث میں آیا ہے کہ ایک جنت تو ایسی ہے جس میں مکان، محل، برتن اور زیورات وغیرہ سب کے سب سونے کے ہیں اور ایک جنت ایسی ہے جس میں اسی طرح سب سامان چاندی کا ہے حضرت ابودرداء (رض) نے چونکہ بشارت پر تعجب کیا اور انہیں یہ بات بعید سی معلوم ہوئی اس لئے آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اگرچہ ابودرداء (رض) کی ناک خاک آلود ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی اگرچہ یہ بات ابودرداء کو کتنی ہی عجیب کیوں نہ معلوم ہو اور ابودرداء (رض) اسے کتنا ہی بعید کیوں نہ سمجھیں مگر بات یوں ہی ہے جس طرح میں نے کہی ہے۔

【14】

اللہ تعالیٰ اپنے بندہ پر رحم دل ماں سے زیادہ رحم کرتا ہے

حضرت عامر رامی (رض) (تیر انداز) کہتے ہیں کہ ایک دن جب کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اچانک ایک شخص آیا جس کے جسم پر ایک کملی تھی اور اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس پر اس نے اپنی کملی لپیٹ رکھی تھی اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ﷺ میں درختوں کے ایک جھنڈ کے پاس سے گزر رہا تھا کہ میں نے اس جھنڈ میں سے پرندوں کے بچوں کی آوازیں سنیں، چناچہ میں نے انہیں پکڑ لیا اور اپنی کملی میں رکھ لیا اتنے میں بچوں کی ماں آگئی اور میرے سر پر پھرنے لگی میں نے اس کے سامنے بچوں کے اوپر سے کملی کھول دی تاکہ وہ انہیں دیکھ لے اور وہ اپنے بچوں کو دیکھتے ہی ان پر آ گری میں نے ماں اور بچوں کو اپنی چادر میں لپیٹ لیا اور اب وہ سب میرے پاس ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ان کو یہاں رکھو۔ میں نے ان کو وہاں رکھ دیا اور ان پر سے اپنی کملی ہٹا دی۔ ماں سب چیزوں کو چھوڑ کر بچوں سے چمٹ گئی ہم سب اپنے بچوں کے ساتھ اس ماں کی اس محبت کو نظر تعجب سے دیکھ ہی رہے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم لوگ اس پر تعجب کر رہے ہو کہ ان بچوں کی ماں اپنے بچوں پر کس قدر رحم دل واقع ہوئی ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچوں پر رحم کرتی ہے اور جاؤ ان بچوں کو وہیں لے جا کر رکھ دو جہاں سے تم نے ان کو پکڑا تھا اور ان کی ماں کو ان کے ساتھ ہی چھوڑ دو چناچہ وہ ان سب کو لے گیا اور جہاں سے پکڑا تھا وہیں چھوڑ آیا۔ (ابوداؤد)

【15】

اللہ تعالیٰ اپنے بندہ پر رحم دل ماں سے زیادہ رحم کرتا ہے

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول کریم ﷺ کے ہمراہ کسی غزوہ میں چلے جا رہے تھے کہ آپ ﷺ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم مسلمان ہیں ان میں ایک ایسی عورت بھی تھی جو اپنی ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہی تھی یعنی کچھ پکا رہی تھی اس کے پاس اس کا بچہ بھی تھا چناچہ جب آگ کی لپٹ اٹھتی تو وہ بچے کو ایک طرف ہٹا دیتی تاکہ آگ کی تپش سے اسے تکلیف نہ پہنچے پھر وہ عورت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور آپ ﷺ سے عرض کرنے لگی کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں اس عوت نے کہا کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ رحم کرنے والا نہیں ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے پر رحم کرتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اس عورت نے کہا ماں تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی (تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دوزخ کی آگ میں کیوں ڈالتا ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر) روتے ہوئے اپنا سر نیچے کرلیا پھر (تھوڑی دیر کے بعد) اپنا سر مبارک اس عورت کی طرف اٹھایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ہمیشہ عذاب نہیں کرتا ہاں صرف ان لوگوں کو عذاب دیتا ہے جو سرکش ہیں اور ایسے سرکش جو اللہ تعالیٰ سے سرکشی کرتے ہیں (یعنی اس کے احکام نہیں مانتے) اور لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کرتے ہیں۔ (ابن ماجہ)

【16】

اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہنے والے بندہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت

حضرت ثوبان (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو نیک بندہ طاعات کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو تلاش کرتا ہے اور پھر ہمیشہ اس کی تلاش میں رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے فرماتا ہے کہ میرا فلاں بندہ میری رضا و خوشنودی کی تلاش میں ہے لہٰذ آگاہ رہو اس پر میری رحمت کاملہ ہے، چناچہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ فلاں شخص پر اللہ کی رحمت ہو، یہی بات عرش کو اٹھانے والے فرشتے بھی کہتے ہیں، پھر یہی بات وہ فرشتے کہتے ہیں جو ان سب کے گرد ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس بات کو ساتوں آسمان کے فرشتے کہتے ہیں، چناچہ پھر اس شخص کے لئے زمین پر رحمت نازل فرمائی جاتی ہے۔ (احمد) تشریح اس شخص کے لئے زمین پر رحمت نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندہ کو اپنا دوست اور پسندیدہ بناتا ہے اور روئے زمین پر اس کے لئے قبولیت عام کی فضا پیدا فرما دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا والے اس کو عزیز رکھتے ہیں اور ان کے قلوب میں اس کے لئے محبت و پیار اور عظمت و احترام کے پر خلوص جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ حدیث مفہوم و معنی کے اعتبار سے اس ارشاد گرامی کے مماثل ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) کو آگاہ فرماتا ہے کہ میں اپنے فلاں بندہ کو دوست رکھتا ہوں تم بھی اسے دوست رکھو چناچہ جبرائیل (علیہ السلام) اس بندہ کو دوست رکھتے ہیں اور پھر وہ آسمانوں میں اعلان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فلاں بندہ کو دوست رکھتا ہے لہٰذا تم سب بھی اس کو دوست رکھو پس آسمان والے اس کو دوست رکھتے ہیں پھر اس بندہ کے لئے روئے زمین پر قبولیت عام کی فضا پیدا کردی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے پسند کرتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی یبندہ کو اپنا دشمن رکھتا ہے اور پھر وہ آسمانوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو دشمن رکھتا ہے لہٰذا تم سب بھی اسے دشمن رکھو پس اسمان والے اس کو دشمن رکھتے ہیں پھر اس کے لئے روئے زمین پر عام دشمنی کی فضا پیدا کردی جاتی ہے (جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے دشمن رکھتے ہیں) اس ارشاد گرامی کو سامنے رکھئے تو واضح ہوجائے گا کہ اولیاء اللہ کی عام شہرت و قبولیت اور عوام کے قلوب میں ان کے لئے بےپناہ محبت وعقیدت کا واحد سبب یہ ہوتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ ان کو دوست رکھتا ہے اور پھر روئے زمین پر ان کے لئے عام قبولیت و محبت کی فضا پیدا کردیتا ہے جس کے نتیجے میں تمام لوگ ان کو دوست و عزیز رکھتے ہیں۔ ہاں جو لوگ مکر و فریب کے راستوں سے اپنا مال و زر خرچ کرے عوام کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں وہ اس زمرہ سے خرج ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کا اعتبار نہیں ہے۔

【17】

مومن بہرصورت جنتی ہے خواہ وہ نیکوکار ہو یا گنہگار ہو

حضرت اسامہ بن زید (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ اللہ عزوجل کے اس ارشاد پس ان میں سے بعض اپنے نفس کے حق میں ظالم ہیں۔ ان میں سے بعض میانہ رو ہیں اور ان میں سے بعض نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں کی تفسیر کے ضمن میں فرمایا کہ یہ سب جنتی ہیں۔ ( بیہقی) تشریح اس حدیث میں جس آیت کریمہ کی تفسیر کے ضمن میں مذکورہ بالا بشارت ارشاد فرمائی گئی ہے وہ پوری یہ ہے کہ آیت (ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِه وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَ يْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ) 35 ۔ فاطر 32) (ترجمہ) پھر ہم نے کتاب و شریعت دی ان لوگوں کو کہ جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں ایمان واسلام کے ذریعہ برگزیدہ کیا پس ان برگزیدہ لوگوں یعنی مسلمانوں میں سے بعض اپنے نفس کے حق میں ظالم ہیں (بایں طور کہ وہ ممنوع چیزوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور اپنے آپ کو گناہوں میں مبتلا کرتے ہیں) اور ان میں سے بعض میانہ رو ہیں (بایں طور کہ نیکیاں بھی کرتے ہیں) اور ان میں سے بعض نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں (بایں طور کہ وہ علم حاصل کرنے اور عمل کرنے میں بہت سعی اور جد و جہد کرتے ہیں اور اپنے علم و عمل کے ساتھ دوسروں کو بھی اپنے علم، تذکیر و نصیحت کے ذریعے رشد و ہدایت کے راستے پر لگاتے ہیں) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ سبقت کرنے والے سے وہ شخص مراد ہے جس کی نیکیاں برائیوں پر غالب ہوں۔ یعنی نیکیاں، زیادہ کرتا ہو اور برائیوں میں کم مبتلا ہوتا ہو ! میانہ رو وہ شخص ہے جس کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں اور ظالم سے مراد وہ شخص ہے جس کی زندگی میں برائیاں نیکیوں پر غالب ہوں۔ پس حدیث بالا کا حاصل یہ ہے کہ ان تینوں اقسام کے لوگ برگزیدہ بندوں یعنی مومنین ہی میں سے ہیں اور یہ سب جنتی ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ ان کو جنت میں اپنے اپنے احوال و افعال کے اعتبار ہی سے درجات ملیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی رحمت کتنی وسیع اور عام ہے کہ جس طرح اس کے نیکو کار بندے اس کی رحمتوں سے نوازے جائیں گے اسی طرح کے گنہگار بندے بھی اسے کے سایہ رحمت میں ابدی سعادتوں سے ہمکنار ہوں گے۔