58. پناہ مانگنے کا بیان

【1】

بلاء، بدبختی، بری تقدیر، اور دشمن کی خوشی سے اللہ کی پناہ مانگو

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بلاء کی مشقت سے بدبختی کے پہنچنے سے، بری تقدر سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے اللہ کی پناہ مانگو۔ (بخاری ومسلم) تشریح بلاء اس حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان امتحان و آزمائش کے سخت کوش مرحلہ سے دوچار اور فتنہ دین و دنیا کی گٹھنا ئیوں اور دشواریوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ جہد کے معنی ہیں مشقت وغایت لہٰذا جہد البلاء وبلاء کی مشقت سے مراد دین و دنیا کی وہ مصیبتیں ہیں جن میں انسان مبتلا ہوتا ہے اور وہ نہ صرف ان کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتا بلکہ ان مصیبتوں کے آنے پر بھی صبر نہیں کرسکتا۔ بری تقدیر سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے حق میں بری اور ناپسندیدہ ہو، اسی طرح دشمن کی خوشی سے پناہ مانگنے سے مراد یہ ہے کہ دین و دنیا کی کسی بھی ایسی مصیبت میں مبتلا نہ ہونے پائے جس سے دشمن خوش ہوتا ہو۔ بہرکیف اس حدیث میں جن چیزوں سے پناہ مانگنے کے لئے فرمایا جا رہا ہے اس میں غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث میں ایک ایسی جامع دعا کی طرف راہنمائی کی گئی ہے جو تمام دینی اور دنیوی مقاصد ومطالب پر حاوی ہے۔

【2】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الہم والحزن والعجز والکسل والجبن والبخل وضلع الدین وغلبۃ الرجال) ۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔ فکر سے، غم سے، عاجز ہونے سے، سستی سے، نامردی سے، بخل سے، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں (یعنی ظالموں) کے غلبہ سے۔ (بخاری ومسلم)

【3】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ بارگاہ رب العزت میں یوں عرض کیا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الکسل والہرم والمغرم والمأثم اللہم انی اعوذ بک من عذاب النار وفتنۃ النار وفتنۃ القبر و عذاب القبر ومن شر فتنۃ الغنی ومن شر فتنۃ الفقر ومن شر فتنۃ المسیح الدجال اللہم اغسل خطایای بماء الثلج والبرد ونق قلبی کما ینقی الثوب الابیض من الدنس وباعد بینی وبین خطایای کما باعدت بین المشرق والمغرب۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، طاعت میں سستی سے، بڑھاپے کے سبب سے مخبوط الحو اس اور اعضاء کے ناکارہ ہونے سے تاوان یا قرض سے اور گناہ سے، اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے عذاب سے اور عذاب کے فتنہ سے۔ قبر کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے، دولت کے فتنہ سے اور برائی سے، فقر کے فتنہ کی برائی سے اور کانے دجال کے فتنہ سے اے اللہ۔ برف اور اولے کے پانی سے میرے گناہ دھو دے (یعنی طرح طرح مغفرتوں کے ذریعہ مجھے گناہوں سے پاک کر دے جس طرح برف اور اولے کا پانی میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور میرے دل کو برے اخلاق اور برے خیالات سے پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا پانی سے صاف کیا جاتا ہے اور میرے گناہوں کے درمیان اسی طرح بعد پیدا کر دے جس طرح تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان بعد پیدا کیا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح پناہ مانگتاہوں آگ کے عذاب سے کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میرا شمار ان لوگوں میں ہو جو دوزخی ہیں یا کفار۔ اس موقع پر یہ بات جان لینی چاہئے کہ عذاب الٰہی میں صرف کفار ہی مبتلا ہوں گے چناچہ موحدین جو اپنی بد عملیوں کی سزا آخرت میں پائیں گے اسے عذاب نہیں کہا جاتا بلکہ وہ تادیب ہے یعنی اگر ان کو دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا اور ایسا عذاب کے لئے نہیں بلکہ تادیب یعنی ان کے گناہوں کو دھونے اور ختم کرنے کے لئے ہوگا۔ آگ کے فتنہ سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آگ اور قبر کے عذاب کا باعث بنتی ہیں یعنی گناہ و معصیت۔ قبر کے فتنہ سے مراد ہے منکر و نکیر کے سوالات کا جواب دیتے وقت حو اس باختہ ہونا۔ قبر کے عذاب سے مراد ہے، فرشتوں کا، ان لوگوں کو لوہے کے گرزوں سے مارنا اور ان کا عذاب میں مبتلا ہونا۔ جو منکر نکیر کے سوالات کا جواب نہ دے سکیں گے۔ قبر سے مراد ہے عالم برزخ چاہے وہ قبر ہو یا کچھ اور ہو دولت کے فتنہ سے مراد ہے تکبر و سرکشی کرنا مال و زر حرام ذرائع سے حاصل کرنا اور ان کو گناہ کی جگہ خرچ کرنا اور مال و جاہ پر بےجا فخر کرنا اسی طرح فخر کے فتنے سے مراد ہے۔ دولت مندوں پر حسد کرنا، ان کے مال و زر کی ہوس اور طمع رکھنا، اس چیز پر راضی نہ ہونا جو اللہ نے اس کی قسمت میں لکھ دی ہے یعنی فقر اور اسی قسم کی وہ تمام چیزیں جو صبر و توکل اور قناعت کے منافی ہیں۔ اب آخر میں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کرلیجئے۔ کہ آنحضرت ﷺ کا ان تمام چیزوں سے پناہ مانگنا اس کے معنی میں نہیں تھا کہ نعوذ باللہ آپ ﷺ ان چیزوں میں مبتلا تھے، یا ان میں مبتلا ہونے کا خوف تھا۔ کیونکہ آپ ﷺ معصوم تھے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو دائمی طور پر ان تمام چیزوں سے امن و حفاظت میں رکھا تھا بلکہ ان چیزوں سے پناہ مانگنا تعلیم امت کے طور پر تھا کہ امت کے لوگ ان چیزوں سے پناہ مانگیں اور ان سے بچیں۔

【4】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من العجز والکسل والجبن والبخل والھرم و عذاب القبر اللہم اٰت نفسی تقواہا وزکہا انت خیر من زکھا انت ولیہا ومولاہا اللہم انی اعوذبک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوۃ لا یستجاب لہا) ۔ اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں عاجزی یعنی طاعت پر قادر نہ ہو کر اچھے کاموں میں سستی سے، نامردی سے، بخل سے، بڑھاپے کے سبب اعضاء کے ناکارہ اور حو اس باختہ ہونے سے اور قبر کے عذاب یعنی قبر کی تنگی، وہاں کی وحشت گرزوں کے مارے جانے سے، بچھوؤں کے ڈنگ مارنے، سانپوں کے ڈسنے اور اسی قسم کی دوسری ہولناکیوں سے اے اللہ میرے نفس کو اس کی پرہیزگاری عطا کر اور اس کو پاک کر، کیونکہ اس کو پاک کرنے والوں میں تیری ہی ذات بہترین ہے تو ہی اس کا کارساز اور مالک ہے۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اس دل سے جو نہ ڈرے (یا اسے ذکر اللہ سے تسکین نہ) اس نفس سے جو سیر نہ ہو (یعنی حریص ہو اللہ نے جو کچھ دیا ہے اس پر قناعت نہ کرے اور اس دعا سے جو مرتبہ قبولیت کو نہ پہنچے۔ (مسلم) تشریح غیر نفع بخش علم سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ میں اس علم سے پناہ مانگتا ہوں جس پر عمل نہ کروں جو دوسروں کو نہ سکھاؤں اور جو اخلاق و افعال کو نہ سدھارے، یا پھر اس سے وہ علم مراد ہے جو دین کے لئے ضروری نہ ہو اس طرح وہ علم بھی مراد ہوسکتا ہے جس کو حاصل کرنے کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے۔ حضرت ابوطالب مکی فرماتے ہیں کہ جس طرح آنحضرت ﷺ نے شرک، نفاق اور برے افعال سے پناہ مانگی ہے اسی طرح آپ ﷺ نے علم کی (اس ایک قسم سے پناہ مانگی جو اسلامی عقائد و اعمال کے نقطہ نظر سے مضر ہے اور جو انسان کو تقویٰ اور خوف آخرت کی راہ پر لگانے کی بجائے دنیا کی حرص و محبت اللہ کے راستہ پر لے جائے چناچہ جس علم کے ساتھ تقویٰ اور خوف آخرت نہ ہو وہ دنیا کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اور دنیاداری کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔

【5】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی ہوتی تھی۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من زوال نعمتک وتحول عافیتک وفجاءۃ نعمتک و جمیع سخطک) ۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری نعمت کے جاتے رہنے سے اور نعمت سے مراد ایمان و اسلام و نیکیاں اور عرفان ہے تیری عافیت کی تبدیلی سے مثلاً صحت کے بدلے بیمار اور غنا کے بدلے محتاجگی ہوجانے سے تیرے ناگہانی عذاب سے اور تمام غصوں سے۔ (مسلم )

【6】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے دعا (اللہم انی اعوذبک من شر ما عملت ومن شر مالم اعمل) ۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس کام کی برائی سے جو میں نے کیا اور اس کام کی برائی سے جو میں نے نہیں کیا۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ میں نے جو برے کام کئے ہیں ان سے بھی پناہ مانگتا ہوں بایں معنی کہ ان کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہ ہوجاؤں اور وہ برے کام معاف فرما دئیے جائیں اور جو کام نہیں کئے ہیں ان سے بھی پناہ مانگتا ہوں بایں معنی کہ آئندہ ایسا کوئی کام نہ کرو جو تیری ناراضگی و خوشی کا باعث ہو یا یہ کہ برے کاموں کے ترک کو اپنا کمال نہ سمجھوں بلکہ اسے صرف تیرا فضل جانوں۔

【7】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا کرتے تھے۔ اللہم لک اسلمت وبک اٰمنت وعلیک توکلت والیک انبت وبک خاصمت اللہم انی اعوذ بعزتک لاالہ الا انت من ان تضلنی انت الحی الذی لا یموت والجن والانس یموتون) ۔ اے اللہ میں نے تیری اطاعت کی، میں تجھی پر ایمان لایا، میں نے تجھی پر توکل کیا، میں نے تیری ہی طرف رجوع کیا (یعنی گناہوں کو چھوڑ کر تیری ہی طرف متوجہ ہوا اور میں تیری مدد سے کافروں سے لڑتا ہوں۔ اے اللہ میں تیری عزت کے واسطے سے تیری پناہ مانگتا ہوں تیرے سوا کوئی معبود نہیں، اس سے کہ گمراہ کرے تو مجھ کو تو زندہ ہے ایسا کہ تو نہیں مرے گا اور تمام جن انسان مریں گے۔ (بخاری)

【8】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ یوں دعا مانگتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الاربع من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعاء لا یسمع) ۔ اے اللہ میں چار چیزوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع نہ دے اس دل سے جو عاجزی نہ کرے اس نفس سے جو سیر نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے۔ (احمد، ابوداؤد، و ابن ماجہ) نیز اس روایت کو ترمذی نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) دونوں سے روایت کیا ہے۔

【9】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔ (١) نامردی سے۔ (٢) بخل سے (٣) عمر کی برائی سے یعنی عمر کی اتنی زیادتی سے کہ آخر میں قویٰ اور حو اس میں فرق آجائے اور عبادت وطاعت کی قوت نہ رہے۔ (٤) سینہ کے فتنہ سے یعنی اس چیز سے کہ سینہ کے اندر برے اخلاق اور برے عقائد جاگزیں ہوں یا حق بات قبول نہ ہو اور بلاؤں کا متحمل نہ ہو (٥) قبر کے عذاب سے۔ (ابوداؤد، نسائی)

【10】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا کرتے۔ (اللہم انی اعوذبک من الفقر والقلۃ والذلۃ واعوذبک من ان اظلم او اظلم) ۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، محتاجگی سے، قلت سے، ذلت سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں کسی پر ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے۔ (ابوداؤد، نسائی) تشریح محتاجگی سے مراد دل کی محتاجگی ہے یعنی دل مال و زر جمع کرنے کا حریص ہو، یا اس سے مراد مال کی محتاجگی (افلاس ہے کہ اس کی وجہ سے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ لہٰذا حقیقت تو یہ ہے کہ آپ ﷺ نے محتاجگی کے فتنہ سے پناہ مانگی خواہ وہ دل کی محتاجگی ہو یا مال کی۔ قلت سے مراد نیکیوں کی قلت (کمی) ہے مال و زر کی قلت مراد نہیں ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ تو خود مال و زر میں قلت و کمی رکھتے تھے۔ اور مال کی کثرت و زیادتی کو ناپسند فرماتے تھے، یا پھر قلت سے مال کی اتنی قلت مراد ہے کہ وہ قوت لایموت (بقدر بقاء زندگی غذا کے لئے بھی کافی نہ ہو جس کی وجہ سے عبادات میں کوتاہی اور نقصان واقع ہو، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہاں صبر کی کمی مراد ہے۔ ذلت سے مراد گناہوں کے نتیجہ میں ملنے والی ذلت ہے گنہگار اللہ تعالیٰ کے ہاں ذلیل ہوتا ہے یا پھر مالداروں کی مفلسی یا غربت کی بناء پر ذلیل ہونا مراد ہے۔

【11】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ دعا کرتے۔ (اللہم انی اعوذبک من الشقاق والنفاق وسوء الاخلاق) اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، اختلاف سے، نفاق سے اور برے اخلاق سے۔ (ابوداؤد، نسائی) تشریح خلاف سے مراد ہے حق کی مخالفت اور بعض حضرات نے کہا کہ آپس میں اختلاف و عداوت مراد ہے۔ نفاق سے نفاق کی تمام قسمیں مراد ہیں خواہ عقیدہ میں نفاق ہو یا عمل میں۔ مثلاً دل میں کفر و شرک کی تاریکی رکھنا اور زبان سے اسلام کا اظہار کرنا، کسی سے زبان سے تو کچھ کہنا اور دل میں کچھ رکھنا، بہت زیادہ جھوٹ بولنا، امانت میں خیانت کرنا اور وعدہ کے خلاف کرنا، وغیرہ وغیرہ۔

【12】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا فرماتے تھے۔ (اللہم انی اعوزبک من الجوع فانہ بئس الضجیع واعوذبک من الخیانۃ فانہا بئست البطانۃ) ۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کہ وہ بدترین ہم خواب ہے اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کہ وہ باطن کی بدترین خصلت ہے۔ (ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) تشریح بھوک سے اس لئے پناہ مانگی کہ اس کی وجہ سے انسان کے بد، قوی اور حواس میں کمزوری ہوجاتی ہے اور اس کا اثر عبادت میں نقصان اور حضوری میں خلل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے لہٰذا بد ترین بھوک وہی ہے جو نقصان و خلل کا باعث بنے اور اکثر ہو جب کہ وہ بھوک جو ریاضت و مجاہدہ کے مقصد سے بطریق اعتدال اور اپنی حالت کے موافق ہو بدترین نہیں ہے۔ بلکہ وہ باطن کی صفائی دل کی نورانیت اور بیماریوں سے بدن کی صحت و سلامتی کا سبب ہے۔ خیانت سے مراد ہے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا ارتکاب کرنا اور لوگوں کے اموال اور ان کے رازوں میں بےایمانی و خیانت کرنا چناچہ قرآن کریم کی یہ آیت اسی پر دلالت کرتی ہے۔ آیت (يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْ ا اَمٰنٰتِكُمْ ) 8 ۔ الانفال 27) ۔ اے ایمان والو ! نافرمانی کے ذریعہ اللہ اور رسول کے حق میں خیانت نہ کرو اور نہ اپنے اموال میں خیانت کرو۔

【13】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا مانگتے تھے (اللہم انی اعوذبک من البرص والجذام والجنون ومن سییء الاسقام) ۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کوڑھ سے، جذام سے دیوانگی سے اور بری بیماریوں سے، (ابوداؤد، نسائی) تشریح سییء الاسقام (بری بیماریوں) کا ذکر تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ہے یعنی پہلے تو آپ ﷺ نے خاص طور پر چند بری بیماریوں کا نام لیتے ہوئے پناہ مانگی۔ پھر عام طور پر ہر بری بیماری مثلاً استسقاء اور دق وغیرہ سے پناہ مانگی۔ ان بیماریوں سے آپ ﷺ نے پناہ اس لئے مانگی کہ جس شخص کو ان میں سے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے اکثر لوگ اس سے گھبراتے ہیں اور اس کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ نیز برص اور کوڑھ تو ایسے مرض ہیں جن کی وجہ سے مریض کا جسم بد ہیئتی اور بدنمائی کا شکار ہوجاتا ہے اس طرح وہ جسم کے معاملہ میں اپنے ہی جیسے انسانوں کی صف سے باہر ہوجاتا ہے پھر یہ کہ مرض ہمیشہ کے لئے چپک کر رہ جاتے ہیں جو کبھی اچھے نہیں ہوتے برخلاف اور امراض کے مثلاً بخار، سردرد وغیرہ کا یہ حال نہیں ہوتا ان میں تکلیف بھی کم ہوتی ہے اور ثواب بھی بہت ملتا ہے۔ ابن مالک (رح) کہتے ہیں کہ اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو مرض ایسا ہو کہ لوگ مریض سے احتراز کرتے ہوں۔ نہ خود مریض دوسروں سے منقطع ہوسکتا ہو اور نہ دوسرے اس سے کوئی فائدہ حاصل کرسکتے ہوں اور مریض اس مرض کی وجہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے عاجز ہوجاتا ہو تو اس مرض سے پناہ مانگنی مستحب ہے۔ علماء کا خیال یہ ہے کہ اور جذام بالطبع متعدی نہیں ہیں یعنی یہ مرض کسی کو از خود نہیں لگتے مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوڑھی کے بدن سے اپنا بدن لگانے کی وجہ سے جذامی کی پیپ لگ کر یہ بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

【14】

آنحضرت ﷺ کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت قطبہ بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فرماتے۔ (اللھم انی اعوذبک من منکرات الاخلاق والاعمال والاہواء) ۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں برے اخلاق سے برے اعمال سے اور بری خواہشات سے۔ (ترمذی) تشریح منکر اسے کہتے ہیں کہ جسے شریعت نے بھلائی میں شمار نہ کیا ہو یا شریعت نے جس کی برائی بیان کی ہو۔ اخلاق سے مراد باطنی اعمال ہیں لہٰذا منکر الاخلاق سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہوا کہ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دل کے برے اعمال سے مثلا حسد وکینہ وغیرہ سے۔ برے اعمال سے مراد ظاہری برے افعال ہیں اور بری خواہشات سے مراد برے عقائد اور غلط افکار و نظریات ہیں۔

【15】

پناہ مانگنے کے سلسلے میں ایک جامع دعا کی تعلیم

حضرت شتیر بن شکل بن حمید اپنے والد (حضرت شکل (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی ایسا تعویذ (یعنی ایسی دعا) بتا دیجئے جس کے ذریعہ سے میں پناہ مانگوں آپ ﷺ نے فرمایا یہ دعا پڑھو۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من شر سمعی وشر بصری وشر لسانی وشر قلبی وشرمنیی) ۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنی سماعت کی برائی سے۔ (کہ اپنے کان سے بری باتیں نہ سنوں) اپنی بینائی کی برائی سے (کہ اپنی آنکھوں سے بری چیزیں نہ دیکھوں) اپنی زبان کی برائی سے کہ اپنی زبان سے برے برے اور بےفائدہ کلمات نہ نکالوں اپنے دل کی برائی سے کہ میرے دل میں برے عقیدے اور حسد اور کینہ وغیرہ کا گزر نہ ہو اور برے کام میں عزم مصمم نہ کروں اور اپنی منی کی برائی سے کہ وہ حرام کاری میں صرف نہ ہو اور میں بنظر شہوت کسی کو نہ دیکھوں۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی)

【16】

آنحضرت ﷺ مہلک حادثات سے پناہ مانگتے تھے

حضرت ابوالیسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الہدم واعوذبک من التردی ومن الغرق والحرق واعوذبک من ان یتخبطنی الشیطان عندالموت واعوذبک من ان اموت فی سبیلک مدبرا واعوذبک من ان اموت لدیغا) ۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں مکان گرنے سے یعنی کوئی مکان یا دیوار مجھ پر نہ گرپڑے کہ جس کی وجہ سے میں ہلاک ہوجاؤں۔ اور تیری پناہ مانگتا ہوں کسی بلند جگہ سے گر پڑنے سے، ڈوبنے سے، جلنے سے، زیادہ بڑھاپے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ موت کے وقت شیطان مجھے حو اس باختہ کرے (یعنی وسوے پیدا کر کے میرے دین کو تباہ کر دے) تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ تیری راہ میں پشت پھیر کر (یعنی جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھاگ کر) مروں اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ لدیغ (یعنی سانپ بچھو اور دوسرے زہریلے جانوروں) کے کاٹنے سے مروں۔ (ابوداؤد، نسائی) نسائی نے ایک روایت میں والغم بھی نقل کیا ہے۔ (یعنی تیری پناہ مانگتا ہوں غم سے) تشریح اگرچہ یہ اشکال پیدا ہو کہ حدیث میں مذکورہ بالا چیزیں بعض تو ایسی ہیں جن کے سبب سے موت واقع ہوجانے کی صورت میں شہادت کا درجہ ملتا ہے پھر آنحضرت ﷺ نے ان سے پناہ کیوں مانگی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان چیزوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مصیبت و تکلیف اور پریشانیوں کا گویا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایسے نازک اور سخت موقع پر کوئی صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور شیطان کو موقع مل جائے اور وہ بہکا کر دینی و اخروی سعادتوں کو ملیا میٹ کر دے اس لئے آپ ﷺ نے ان سے بھی پناہ مانگی تاکہ امت کے لوگ ان چیزوں سے پناہ مانگیں۔ زیادہ بڑھاپے سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ بڑھاپے کی برائی سے کہ حو اس و قوی میں فرق آجائے بےہودہ و لایعنی کلام زبان سے نکلنے لگیں اور عبادت میں فتور آجائے ان سے پناہ مانگتا ہوں، منقول ہے کہ جو شخص کلام اللہ یاد کرلیتا ہے وہ ان آفات سے محفوظ رہتا ہے۔

【17】

طمع سے پناہ مانگنے کا حکم

حضرت معاذ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ کی پناہ مانگو طمع سے جو طبع تک پہنچا دے۔ (احمد، بیہقی) تشریح طمع کے معنی ہیں مخلوق اللہ سے مال و زر کی امید رکھنا ! اور طمع کے اصل معنی تو ہیں تلوار کو زنگ لگنا۔ لیکن یہاں اس لفظ سے مراد عیب ہے لہٰذا حدیث بالا کے مطابق طمع سے پناہ مانگنے کا مفہوم یہ ہے کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں طمع سے جو مجھے اس مقام پر پہنچا دے جہاں میری زندگی عیب دار ہوجائے اور وہ عیب ہے، اہل دنیا کے سامنے تواضع و انکساری اختیار کرنا، کم ظرف، پست خیال اور بد کردار دنیاداروں کے آگے اپنے آپ کو ذلیل کرنا، سمعہ وریا (کسی بھی کام کے وقت دکھانے سنانے کے جذبہ) کو ظاہر کرنا، سرمایہ داروں کی بےجا تعریف و مدح اور ان کی چاپلوسی میں مبتلا ہونا اور اسی قسم کی وہ ذلیل حرکتیں جو طمع کی حالت میں صادر ہوتی ہیں۔ حاصل یہ کہ طمع سے اجتناب ضروری ہے کیونکہ یہی وہ حقیر جذبہ ہے جو انسان کی عزت نفس، خود داری اور ضمیر کے شرف و وقار کے لئے بہت بڑا عیب ہے جس کی وجہ سے انسان نہ صرف دنیاوی طور پر ذلیل و حقیر اور بےوقعت ہوجاتا ہے بلکہ دینی طور پر بھی اس کی روح کی بالیدگی اور پاکیزگی کے لئے ایک ناسور سے کم نہیں ہے جو آہستہ آہستہ دین کے تمام گوشوں میں مختلف طریقوں سے زہر کی آمیزش کرتا رہتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ طمع دین کے فساد کی جڑ ہے اور ورع (پرہیز گاری) دین کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ حضرت شیخ علی متقی (رض) فرماتے ہیں کہ طمع اسے کہتے ہیں کہ اس مال کی امید رکھی جائے جس کے حاصل ہونے میں شک ہو اگر اس کے حصول کا یقین ہو جیسے کسی پر کوئی حق ہو یا کسی کا وعدہ صادق ہو اور یا کسی سے اتنی راسخ محبت ہو کہ وہ اس کی ہر خواہش کی تکمیل ضرور کرتا ہو تو اسی صورت میں اس سے توقع رکھنے کو طمع نہیں کہتے۔

【18】

چاند کے بے نور ہونے سے پناہ مانگو

ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ عائشہ اللہ کی پناہ مانگو ! اس چاند کی برائی سے کیونکہ یہ غاسق اندھیرا پھیلانے والا ہے جب بےنور ہوجائے۔ (ترمذی) تشریح قرآن مجید کی سورت آیت (قل اعوذ برب الفلق) میں جہاں اور کئی چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں۔ غاسق اذا وقب کا بھی ذکر ہے یعنی پناہ مانگو اندھیرا پھیلانے والے کی برائی سے جب وہ بےنور ہوجائے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی نے غاسق اذا وقب کی وضاحت فرمائی کہ اس سے مراد چاند ہے جب وہ گہن میں آجاتا ہے لہٰذا اس سے پناہ مانگنے کا سبب یہ ہے کہ اس کا گرہن میں آنا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ یہ بلاؤں کے نازل ہونے کا اشارہ دیتا ہے، چناچہ احادیث میں آتا ہے کہ جب چاند کو گرہن لگتا تو اس وقت آنحضرت ﷺ لرزاں و ترساں اٹھ کھڑے ہوتے۔ لیکن اتنی بات ذہن نشین رہے کہ بلاؤں کے نازل ہونے سے وہ بلائیں اور حادثات مراد نہیں ہیں جو منجم یا بد عقیدہ لوگ کسوف و خسوف (چاند سورج کے گرہن لگنے) کے سلسلہ میں بتاتے ہیں کیونکہ اہل اسلام کے نزدیک ان کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ اس سے مراد عبرت کے مواقع ہیں۔ مثلا جب چاند گرہن میں آتا ہے تو وہ ایک بڑی عبرت کا وقت ہوتا ہے جو ہر انسان کو احساس دلاتا ہے کہ جب چاند باوجود اپنی اس نورانیت کے اپنے نور کو کھو چکا ہے اور اس کے اپنے نور کی بقاء پر کوئی قدرت حاصل نہیں ہے تو ایسا نہ ہو کہ میرے ایمان اور میرے عمل کا نور بھی جاتا رہے اسی اعتبار سے اس سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حدیث سے تو معلوم ہوا کہ غاسق اذا وقب سے مراد گرہن میں آیا ہوا چاند ہے لیکن اکثر مفسرین نے آیت (من شر غاسق اذا وقب) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد تاریک رات ہے۔ واللہ اعلم۔

【19】

نفس کی برائی سے پناہ مانگو

حضرت عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے میرے باپ (حضرت حصین) سے جو اس وقت تک ایمان و اسلام کی دولت سے بہرہ مند نہیں تھے فرمایا۔ حصین آج کل تم کتنے معبودوں کی بندگی کرتے ہو۔ میرے باپ نے عرض کیا کہ سات معبودوں کی جن میں سے چھ تو زمین پر ہیں (اور ان کے نام یہ ہیں) یغوث، یعوق، نسر، لات، منات اور عزی اور ایک آسمان میں ہے (جو سب کا خالق ہے) آپ ﷺ نے فرمایا۔ پھر ان میں سے کون سا معبود تمہاری امید اور تمہارے خوف کا مرجع ہے ؟ یعنی ان میں سے کس معبود سے تم ڈرتے ہو اور اس سے بھلائی کی امید رکھتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا جو آسمان میں ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ حصین ! جان لو اگر تم مسلمان ہوجاتے تو میں تمہیں دو کلمے سکھاتا جو تمہیں دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچاتے حضرت عمران کہتے ہیں کہ چناچہ جب میرے باپ حضرت حصین مسلمان ہوگئے تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے اب وہ دو کلمے بتائیے جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا یہ پڑھو۔ اللہم الہمنی رشدی واعذنی من شر نفسی۔ اے اللہ میرے دل میں میری ہدایت ڈال دے اور میرے نفس کی برائی سے مجھے پناہ دے۔ (ترمذی) تشریح اور ایک آسمان میں ہے یہ بات حضرت حصین (رض) نے اپنے گمان کے مطابق کی تھی کیونکہ وہ ایمان و اسلام کی دولت سے اس وقت تک بہرہ ور نہیں تھے انہیں کیا معلوم تھا کہ اللہ کے لئے کوئی جگہ اور کوئی مکان مقرر نہیں ہے۔ وہ تو زمین اور آسمان کے ایک ایک ذرہ پر حاوی ہے اور محیط ہے اس کی ذات کسی مقام اور کسی جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے یا پھر یہ کہا جائے گا کہ ان کی اس بات کا مفہوم یہ تھا کہ وہ اللہ جس کی آسمان میں فرشتے عبادت کرتے ہیں۔

【20】

نیند میں ڈرنے سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم

حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ (حضرت شیعب) سے اور وہ اپنے دادا (یعنی حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی شخص نیند میں ڈرے تو اسے چاہئے کہ یہ کلمات پڑھے۔ دعا (اعوذب کلمات اللہ التامات من غضبہ و عقابہ وشر عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون) ۔ میں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں اس کے غضب سے اس کے عذاب سے اس کے بندوں کی برائی سے شیطان کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ شیطان میرے پاس آئیں۔ لہٰذا ان کلمات کے کہنے والے کو شیطان ہرگز کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا چناچہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) ان کلمات کو اپنی اولاد میں سے ہر اس شخص کو سکھاتے جو بالغ ہوتا اور ان کی اولاد میں جو نابالغ ہوتے ان کلمات کو کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیتے۔ اس روایت کو ابوداؤد ترمذی نے روایت کیا ہے لیکن الفاظ ترمذی کے ہیں) تشریح اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نیند میں ڈرنا شیطان کے تصرف اور اس کی شرارت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ نیز یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ گلے میں تعویذ ڈالنا اور لٹکانا جائز ہے۔ اس مسئلہ میں اگرچہ علماء کے اختلافی اقوال ہیں لیکن زیادہ صحیح اور مختار بات یہی ہے کہ حرزات وغیرہ تو گلے میں لٹکانا حرام اور مکروہ ہیں لیکن ایسے تعویذ لٹکانا جائز ہیں جن میں آیات قرآنی یا اسمائے الٰہی لکھے ہوں۔

【21】

جنت مانگنے اور آگے سے پناہ چاہنے والوں کے لئے جنت وآگ کی سفارش

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ سے تین مرتبہ جنت مانگتا ہے (یعنی تین مرتبہ یہ دعا کرتا ہے۔ (اللہم انی اسئلک الجنۃ) اے اللہ میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں یا یوں کہے۔ دعا (اللہم ادخلنی الجنۃ ) ۔ اے اللہ مجھے جنت میں داخل کر۔ اور یا کسی بھی زبان میں اس مفہوم و مضمون کو تین مرتبہ کہتا ہے) تو جنت کہتی ہے کہ اے اللہ تو اس کو جنت میں داخل کر۔ اور جو شخص تین بار آگ سے پناہ مانگتا ہے۔ یعنی تین مرتبہ یوں کہتا ہے دعا (اللہم اجرنی من النار) ! اے اللہ مجھے آگ سے محفوظ رکھ۔ یا اسی مفہوم و مضمون کو کسی بھی زبان میں تین مرتبہ ادا کرتا ہے تو آگ کہتی ہے کہ اے اللہ ! تو اس شخص کو آگ سے محفوظ رکھ۔ یا اسی مفہوم و مضمون کو کسی بھی زبان میں تین مرتبہ ادا کرتا ہے تو آگ کہتی ہے کہ اے اللہ ! تو اس شخص کو آگ سے محفوظ رکھ۔ (ترمذی، نسائی) تشریح تین مرتبہ چاہے تو ایک ہی مجلس میں یہ دعا مانگی جائے اور چاہئے کئی مجلسوں میں، لیکن ضروری ہے کہ دعا کے وقت حضور اخلاص، تضرع، عجز اور انکساری و لجاجت زبان کے ہم نوا ہوں۔

【22】

سحر وغیرہ سے بچنے کی دعا

حضرت قعقاع کہتے ہیں کہ حضرت کعب احبار فرماتے تھے کہ اگر میں وہ کلمات نہ کہا کرتا تو یہود مجھے گدھا بنا ڈالتے۔ ان سے پوچھا گیا وہ کلمات کیا ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ہیں۔ دعا (اعوذ بوجہ اللہ العظیم الذی لیس شیء اعظم منہ وب کلمات اللہ التامات التی لایجاوزہن بر ولا فاجر وباسماء اللہ الحسنی ماعلمت منہا ومال اعلم من شر ماخلق وذرأ وبرأ) ۔ میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی ذات کے ذریعہ جو بہت بڑا ہے وہ اللہ کہ کوئی چیز اس سے بڑی نہیں، اس کے کامل کلمات کے ذریعے کہ ان سے نہ کوئی نیک تجاوز کرتا ہے اور نہ کوئی بد، اللہ کے ناموں کے ذریعہ جو پاک و نیک ہیں اور ان میں سے جو کچھ میں جانتا ہوں اور جو کچھ میں نہیں جانتا اس چیز کی برائی سے جو اس پیدا کی اور پراگندہ و برابر کی (یعنی متناسب الاعضاء بنائی) (مالک) تشریح کعب الاحبار قوم یہود کے ایک بڑے دانشمند فرد تھے وہ اگرچہ آنحضرت ﷺ کے مبارک زمانہ میں تھے لیکن آپ ﷺ کے دیدار اور آپ ﷺ کی صحبت کے شرف سے محروم رہے۔ پھر بعد میں حضرت عمر (رض) کی خلافت کے زمانہ میں ایمان و اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے انہیں کعب کا بیان ہے کہ جب میں ایمان لایا اور مسلمان ہوا تو یہود میرے مخالف ہوگئے وہ میرے بارے میں اس قدر بغض و کینہ رکھتے تھے کہ اگر ان کی حرکتیں کامیاب ہوجاتیں اور میں یہ دعا نہ پڑھتا تو وہ سحر کر کے مجھے گدھا بنا دیتے یعنی مجھے ذلیل و بیوقوف اور گدھے کی مانند مسلوب العقل کردیتے۔ اللہ کے کامل کلمات سے مراد قرآن ہے چناچہ ان سے تجاوز نہ کرنے کے معنی ہیں کہ اس کے ثواب و عذاب وغیرہ سے کوئی بھی خارج نہیں ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جس شخص کو اجر وثواب دینے کا وعدہ کیا ہے یا جس شخص کو عذاب میں مبتلا کردینے کا فیصلہ کیا ہے یا اور جن چیزوں کا بیان کیا ہے وہ سب بلاشبہ انجام پذیر ہوتا ہے اور اس میں کوئی تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ یا پھر اللہ کے کلمات سے مراد صفات الٰہی اور علوم الٰہی ہیں کہ ان سے بھی کوئی چیز باہر نہیں یہ سب کو محیط یعنی گھیرے ہوئے ہیں۔

【23】

کفر سے پناہ مانگنی چاہئے

حضرت مسلم بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ مرے والد ہر نماز یا فرض نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الکفر والفقر و عذاب القبر) اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کفر سے، فقر سے (یعنی قلبی فقر کے فتنہ سے کہ جو بےصبری اور کفران نعمت وغیرہ ہے) اور عذاب قبر سے چناچہ میں بھی ان کلمات کو پڑھا کرتا تھا ایک دن میرے والد نے مجھ سے پوچھا کہ میرے بیٹے تم نے یہ کلمات کس سے سیکھے ؟ میں نے کہا آپ سے ! انہوں نے فرمایا کہ رسول ﷺ نماز کے بعد یہ کلمات کہا کرتے تھے۔ اس روایت کو نسائی اور ترمذی نے نقل کیا ہے۔ لیکن ترمذی نے فی دبر الصلوۃ (نماز کے بعد) کے الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔ امام احمد نے صرف حدیث کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ (یعنی ان کی روایت میں مسلم بن ابی بکرہ اور ان کے باپ کا ذکر نہیں ہے) نیز ان کی روایت میں فی دبر کل الصلوۃ (ہر نماز کے بعد) کے الفاظ ہیں یعنی ان کی روایت میں لفظ کل بھی ہے۔

【24】

کفر سے پناہ مانگنی چاہئے

حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ کلمات فرماتے سنا ہے۔ دعا (اعوذ باللہ من الکفر والدین) ۔ یعنی میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کفر اور قرض سے۔ ایک شخص نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ نے کفر کو قرض کے برابر کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ اور ایک روایت میں یہ دعا منقول ہے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الکفر والفقر) ۔ یعنی اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کفر سے اور فقر سے۔ یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ کیا کفر اور فقر دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں !۔ (نسائی) تشریح کفر اور قرض کو برابر اس لئے فرمایا کہ قرض کی وجہ سے انسان جھوٹ بولتا ہے، مکاری کرتا ہے اور وعدہ کے خلاف کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بدترین خصلتیں کفار اور منافقین ہی میں ہوتی ہیں۔ کفر اور فقر کو برابر بایں معنی کیا گیا ہے کہ فقر کی وجہ سے انسان بےصبری کرتا ہے، اپنی قسمت کو کوستا ہے، تقدیر کا گلہ کرتا ہے اپنی زبان سے ایسے الفاظ نکال بیٹھتا ہے جو کفر کا باعث ہوتے ہیں۔