59. جامع دعاؤں کا بیان

【1】

آنحضرت ﷺ کی دعاء بخشش

حضرت ابوموسی اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ دعا (اللہم اغفرلی خطیتئتی وجہلی واسرافی فی امری وما انت اعلم بہ منی اللہم اغفرلی جدی وہزلی وخطائی وعمدی وکل ذلک عندی اللہم اغفرلی وماقدمت ومااخرت وما اسررت ومااعلنت وماانت اعلم بہ منی انت المقدم وانت المؤخر وانت علی کل شیء قدیر) ۔ اے اللہ ! معاف فرما میری خطا کو میری نادانی کو (یعنی جن چیزوں کو جاننا یا ان پر عمل کرنا واجب تھا اور میں نے ان کو نہیں جانا اسے معاف فرما) کاموں میں میری زیادتی کو اور اس گناہ سے جس کا علم مجھ سے زیادہ تجھ کو ہے۔ اے اللہ ! معاف فرما میرے اس برے کام کو جسے میں نے قصداً کیا ہے، اس کام کو جسے میں نے ہنسی دل لگی میں کیا ہو اور اس کام کو جسے میں نے دانستہ یا نادانستہ کیا ہو اور یہ سب باتیں مجھ میں ہیں۔ اے اللہ بخشش فرما میرے ان گناہوں کو جو میں نے پہلے کئے ہیں ان گناہوں کی جو (بالفرض والتقدیر) بعد میں ہوں گے۔ ان گناہوں کی جو پوشیدہ سرزد ہوئے ہوں ان گناہوں کی جو کھلم کھلا کئے ہوں اور ان گناہوں کی جن کا علم مجھ سے زیادہ تجھ کو ہے۔ تو ہی (جس کو چاہے اپنی توفیق کے ساتھ اپنی رحمت کی طرف آگے کرنے والا ہے اور تو ہی) جس کو چاہے اپنی رحمت سے پیچھے ڈالنے والا ہے اور تو ہی ہر چیز پر قادر ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح وکل ذالک عندی (اور یہ سب باتیں مجھ میں ہیں) یہ الفاظ آپ ﷺ نے بارگاہ رب العزت میں اپنے عجز و انکساری اور اپنے مقام عبدیت کے اظہار نیز از راہ تواضع کہے، ورنہ تو آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی تمام گناہوں سے پاک اور تمام خطاؤں سے مبرا تھی اور حقیقت میں تعلیم یہ ہے امت کے لئے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ سے بخشش و مغفرت مانگی جائے۔

【2】

اصلاح دنیا وآخرت کی دعا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا کرتے۔ دعا (اللہم اصلح لی دینی الذی ہو عصمۃ امری واصلح لی دنیای التی فیہا معاشی واصلح لی آخرتی التی فیہا معادی وا جعل الحیوۃ زیادۃ لی فی کل خیر واجعل الموت راحۃ لی من کل شر) ۔ اے اللہ ! درست کر میرے دین کو جو میرے امور کا محافظ ہے (یعنی دین کی وجہ سے جان، مال اور آبرو کی حفاظت ہوتی ہے اور آخرت کے عذاب سے نجات ملتی ہے) درست کر میری آخرت کو جہاں مجھے لوٹ کر جانا ہے) میری زندگی کو سبب بنا ہر نیکی میں زیادتی کا (یعنی طویل عمر عطا فرما تاکہ بہت سی نیکیاں کروں) اور میرے لئے موت کو ہر برائی سے راحت اور آرام کا سبب بنا۔ (مسلم) تشریح دنیا کی درستی و اصلاح اس رزق سے ہوتی ہے جو حلال ذرائع سے اور غیر مشتبہ وسائل کے راستے حاصل ہوا ہو، اس رزق سے گزارا اچھی طرح ہوتا ہے، طاعت کی قوت حاصل ہوتی ہے قلب کو سکون و اطمینان کی دولت میسر آتی ہے اور عبادت میں خلل و تشویش کا گزر نہیں ہوتا۔ آخرت کی درستی و اصلاح کا انحصار ان امور (نیک عقائد، اچھے اعمال و کردار کی توفیق پر ہوتا ہے جو عذاب سے نجات کا سبب اور اس جہان کی سعادتوں تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ دعا کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ میری زندگی کا خاتمہ کلمہ شہادت، اچھے اعتقاد اور توبہ کرنے کے بعد ہو تاکہ میری موت دنیا کی مشقتوں اور مصائب سے نجات اور آخرت کی راحت کے حصول کا باعث ہو۔

【3】

دعاء ہدایت

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ یہ دعا مانگتے تھے۔ (اللہم انی اسئلک الہدی والتقی والعفاف والغنی) ۔ اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں، ہدایت، تقویٰ اور حرام و مکروہ سے نفس کی حفاظت نیز قلبی اور ظاہری استغناء۔ (مسلم)

【4】

دعاء ہدایت

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ یہ دعا مانگو۔ (اللہم اہدنی وسددنی) ۔ اے اللہ مجھے سیدھی راہ دکھا کر ہدایت یافتہ بنا اور میرے اعمال اور افعال کو راست درست فرما کر، مجھے سیدھا کر (نیز آپ ﷺ نے فرمایا) جب تم ہدایت کی طلب کرو تو راستہ کے سیدھا چلنے کا اور جب راستی کی طلب کرو تو تیر کی سی راستی کا تصور کرو۔ (مسلم) تشریح حدیث کے آخری ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب تم بارگاہ رب العزت میں طلب ہدایت کی درخواست کرو تو تمہارے ذہن میں بات رہنی چاہئے کہ مجھے وہی راہنمائی اور ہدایت حاصل ہو، جو سیدھی راہ پر چلنے والے شخص کو حاصل ہوتی ہے اور جب تم راستی مانگو تو یہ خیال رکھو کہ مجھے ایسی ہی راستی اور استقامت حاصل ہو جس طرح تیر راست و سیدھا ہوتا ہے مقصد یہ ہے کہ آخری درجہ کی اور مکمل ہدایت اور آخری درجہ کی مکمل راستی طلب کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں مکمل ہدایت اور مکمل راستی ہی کی سعادت سے نوازے۔

【5】

نومسلم کی دعا

حضرت ابومالک اشجعی اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب کوئی شخص مسلمان ہوتا تو نبی کریم ﷺ اسے نماز کی تعلیم دیتے پھر اس کو حکم دیتے کہ وہ ان کلمات کے ذریعہ دعا مانگے۔ (اللہم اغفر لی وارحمنی واہدنی وعافنی وارزقنی) ۔ یعنی اے اللہ میری مغفرت فرما میرے عیوب کو ڈھانک کر، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت یافتہ بنا اور مجھے حلال روزی عطا فرما۔ (مسلم)

【6】

دنیا وآخرت کے تمام مقاصد کی جامع دعا

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ (اللہم اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) ۔ اے اللہ ہمیں دنیا میں نیکی و بھلائی یعنی نعمتیں اور اچھی حالت عطا کر اور آخرت میں یعنی موت کے بعد بھی نیکی و بھلائی یعنی اچھے مراتب عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ (بخاری ومسلم ) تشریح آنحضرت ﷺ کثرت سے یہ دعا اس لئے پڑھا کرتے تھے کہ یہ ایک جامع دعا ہے جس میں دین و دنیا کے تمام مقاصد آجاتے ہیں پھر یہ کہ یہ دعا قرآن کریم میں نازل کی گئی ہے۔ طالب صادق اگر حضور مناجات کے وقت خلوت میں بیٹھ کر باطن کی صفائی کے ساتھ دنیا و آخرت کے حسنات کے ہر ہر گوشے کا تصور کر کے یہ دعا پڑھے تو وہ دیکھے گا کہ کیا کچھ ذوق و جمعیت، سکون و اطمینان اور نورانیت وسعادت حاصل ہوتی ہے۔

【7】

ایک جامع دعا

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا مانگتے تھے۔ (رب اعنی ولا تعن علی وانصرنی ولا تنصر علی وام کرلی ولا تمکر علی واہدنی ویسر الہدا لی وانصرنی علی من بغی علی رب اجعلنی لک شاکرا لک ذاکرا لک راہبا لک مطواعا لک مخبتا الیک اواہا منیبا رب تقبل توبتی واغسل حوبتی واجب دعوتی وثبت حجتی وسدد لسانی وہد قلبی واسلل سخیمۃ صدری) ۔ اے پروردگار ! میری مدد کر (یعنی اپنے ذکر، شکر اور اپنی عبادت کے حسن کی مجھے توفیق دے میرے خلاف کسی کی مدد نہ کر (یعنی جو طاقتیں مجھے تیری طاعت عبادت سے باز رکھیں خواہ شیطان ہو، خواہ نفس اور خواہ کفار ان کو مجھ پر غالب نہ کر مجھے فتح دے مجھ پر کسی کو فتحیاب نہ کر (یعنی مجھے کفار پر غالب کر کفار کو مجھ پر غلبہ نہ دے) اور میری مدد کرنے کے دشمنوں کے حق میں میرے لئے مکر کر، میرے ضرر کے لئے مکر نہ کر مجھے سیدھی راہ دکھا سیدھی راہ پر چلنا میرے لئے آسان کر اور اس کے خلاف میری مدد کر جو مجھ پر زیادتی کرے۔ اے میرے رب ! مجھے ہر وقت، تیرا شکر گزار (ہر حال میں) تیرا ذکر کرنے والا تجھ سے ڈرنے والا، تیری بہت فرمانبرداری کرنے والا بنا، اے اللہ ! میری توبہ قبول کر، میرے گناہ دھو دے، میری دعا قبول کر (دنیا و آخرت میں اپنے دشمنوں کے سامنے) میری دلیل و حجت کو ثابت کر، میری زبان کو سچی اور درست رکھ (یعنی اس سے سچ و حقا بات کے علاوہ کچھ نہ نکلے) میرے دل کو ہدایت بخش اور میرے سینہ کی سیاہی دور کر دے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح مکر کے معنی ہیں فریب۔ لیکن جب اس لفظ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتی ہے تو اس سے مراد ہوتا ہے (دشمنان دین اسلام پر ایسی جگہ سے بلاؤں کا اترنا جہاں سے انہیں گمان بھی نہ ہو) ۔ سینہ کی سیاہی سے مراد ہے کینہ، بغض، حسد اور اسی قسم کی دوسری خصلتیں۔

【8】

ایمان کے بعد عافیت سے بہتر کوئی دولت نہیں

حضرت ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے رونے لگے اور پھر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ سے بخشش و عافیت مانگو کیونکہ کسی کو ایقان (ایمان) کے بعد عافیت سے بہتر کوئی عمل نہیں اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے، نیز امام ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث باعتبار سند کے حسن غریب ہے۔ تشریح آنحضرت ﷺ جانتے تھے کہ میری امت کے افراد خواہشات نفس، ہوس و حرص اور غلبہ شہوت کے فتنوں میں مبتلا ہوں گے اس لئے آپ ﷺ اس کے تصور سے بھی رونے لگے کہ جس امت کے لوگوں کو ایمان و ایقان کی دولت اسلام کی ہدایت اور میری تربیت نے ضبط نفس ایثار و استغناء، دیانت و امانت، عزت و خدداری، پاک دامنی و پرہیزگاری کے معیار پر نہ صرف پورا اتارا بلکہ انہیں ان اخلاق حمیدہ اور خصائل شریفہ کا بذات خود معیار بنادیا ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب اسی امت کے لوگ شیطان کے مکر و فریب میں پھنس کر اور اپنے نفس کے تابع ہو کر حرص و ہوس کے مجسمے، بددیانتی و بد کرداری کے پیکر اور خواہشات نفسانیہ کے غلام بن جائیں گے چناچہ آپ ﷺ نے منبر رشد و ہدایت سے یہ حکم فرمایا کہ لوگ اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت و بخشش کی طلب کریں اور عافیت مانگیں تاکہ پروردگار انہیں ان آفات و بلاء سے محفوظ و مامون رکھے۔ عافیت کے معنی ہیں سلامتی حاصل ہونا دین میں فتنہ سے اور جسم و بدن کو بری بیماریوں، شدید مصائب اور سخت رنج و تکلیف سے۔

【9】

سب سے بہتر دعا طلب عافیت

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کون سی دعا سب سے بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اپنے رب سے عافیت (یعنی دین و بدن کی سلامتی اور دنیا آخرت میں معافات مانگو) معافات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں تمہیں لوگوں سے اور لوگوں کو تم سے عافیت و حفاظت میں رکھے۔ وہ شخص پھر دوسرے دن آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! کون سی دعا سب سے بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے اس سے وہی فرمایا جو (پہلے دن کہا تھا، پھر وہ شخص تیسرے دن آیا) اور اس نے وہی پوچھا آپ ﷺ نے اس کو وہی جواب دیا اور فرمایا کہ اگر تمہیں عافیت اور دنیا و آخرت میں معافات عطا کردی جائے تو تم نجات پا گئے اور تم نے اپنے مقصد کو حاصل کرلیا اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث باعتبار سند کے غریب ہے۔

【10】

محبت الٰہی کی طلب کے لئے دعا۔

حضرت عبداللہ بن یزید خطمی (رض) رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنی دعا میں یہ فرمایا کرتے تھے۔ (اللہم ارزقنی حبک وحب من ینفعنی حبہ عندک اللہم ما رزقتنی مما احب فاجعلہ قوۃ لی فیما تحب اللہم ما زویت عنی ممااحب فاجعلہ فراغالی مماتحب) ۔ اے اللہ ! مجھے نصیب کر اپنی محبت اور اس شخص کی محبت جس کی محبت تیرے نزدیک مجھے نفع دے اے اللہ تو نے مجھے اس چیز میں سے جسے میں پسند کرتا ہوں جو کچھ بھی عطا کیا ہے اس کو میرے لئے اس چیز میں قوت کا سبب بنا جسے تو پسند کرتا ہے۔ (یعنی تو نے مال و زر، عافیت و اطمینان اور دوسری دنیاوی نعمتوں میں سے جو کچھ بھی عطا فرمایا ہے اور ان کو شکر گزاری اور اپنی طاعت کا سبب بنا کہ میں اسے تیری راہ میں اور تیری خوشنودی کے لئے خرچ کرو۔ اے اللہ ! تو نے مجھے اس چیز میں سے جسے میں پسند کرتا ہوں جو کچھ نہیں دیا ہے اس کو میرے لئے اس میں فراغت کا سبب بنا جسے تو پسند کرتا ہے۔ (ترمذی) تشریح دعا کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ تو نے مجھے مال و زر میں سے جو کچھ نہیں دیا ہے اس کو میرے لئے اپنی عبادت میں مشغولیت کا سبب بنا کہ مجھے قناعت و توکل کی دولت حاصل رہے اور وہ مال و زر جو مجھے حاصل نہیں ہوا ہے اس سے بےپرواہ ہو کر بغیر مانع کے تیری عبات میں مشغول رہوں اور حاصل دعا کے آخری دونوں جملوں کا یہ ہے کہ اگر تو مجھے دنیا کی نعمتیں عطا کرے تو پھر ان کا شکر ادا کرنے کی توفیق بھی عطا فرما تاکہ میرا شمار شکر کرنے والے اغنیا کے زمرہ میں ہو اور اگر مجھے وہ نعمتیں حاصل نہ ہو تو میرے دل کو فارغ رکھ بایں طور کہ میں ان سے بےپرواہ ہوجاؤں میرا دل ان میں نہ لگا رہے۔ میں پورے اطمینان کے ساتھ تیری عبادت میں مشغول رہوں اور جزع فزع، شکوہ و شکایت نہ کروں تاکہ میرا شمار صبر کرنے والے فقراء میں ہو۔

【11】

ایک عمدہ دعا

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ رسول ﷺ کسی مجلس سے اٹھتے ہوں اور ان کلمات کے ذریعے اپنے صحابہ (رض) کے لئے دعا نہ مانگتے ہوں۔ (کیونکہ مجلس اور دعا میں صحابہ بھی شامل ہوتے تھے۔ یا کہ ان کی تعلیم کے لئے یہ دعا مانگتے تے۔ (اللہم اقسم لنا من خشیتک ماتحول بہ بیننا وبین معاصیک ومن طاعتک ما تبلغنا بہ جنتک ومن الیقین ماتھون بہ علینا مصیبات الدنیا ومتعنا باسماعنا وابصارنا وقوتنا ما احییتنا واجعلہ الوارث منا واجعل ثارنا علی من ظلمنا وانصرنا علی من عادانا ولا تجعل مصیبتنا فی دیننا ولا تجعل الدنیا اکبر ہمنا ولا مبلغ علمنا ولا تسلط علینا من لا یرحمنا) ۔ اے اللہ ! تو ہم میں اپنا اتنا خوف پیدا کر دے کہ تو اس کی وجہ سے ہمارے اور گناہوں کے درمیان حائل ہوجائے (یعنی اس خوف کی وجہ سے ہم گناہوں سے بچیں) اور ہمیں اپنی اتنی اطاعت نصیب کر کہ اس کی وجہ سے، ہمیں بہشت کے (عالی درجات) میں پہنچا دے ہمیں اتنا یقین عطا فرما کہ اس کی وجہ سے تو ہم پر دنیا کی مصیبتیں آسان کر دے، ہمیں ہمارے سماعتوں، ہماری بینائیوں اور ہماری قوتوں سے اس وقت تک بہرہ مند رکھ جب تک کہ تو ہمیں زندہ رکھے اور بہرہ مندی کو ہمارا ورثہ قرار دے یعنی ہمارے تمام اعضاء و حو اس کو آخر تک برقرار و سلامت رکھ ہمارے کینہ و انتقال میں اس شخص کو مبتلا کر جس نے ہم پر ظلم کیا (یعنی ہمیں اتنی طاقت و قوت دے کہ ہم اپنے ظالموں سے بدلہ لے سکیں، یا ہماری طرف سے تو ان سے بدلہ لے) ہمیں فتح عطا فرما اس شخص سے جو ہم سے دشمنی رکھے خواہ وہ ہمارا دینی دشمن ہو یا دنیاوی دشمن ہماری مصیبتوں کو ہمارے دین میں مؤثر نہ کر (یعنی ہمیں ایسی مصیبتوں میں مبتلا نہ کر جو دین کے نقصان کا باعث ہوں۔ دنیا کو ہمارے لئے فکر کا مرکز اور ہمارے مبلغ علم کو ہمارا مطمع نظر بنا۔ اور ہم پر ان لوگوں کو مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کریں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح ہمیں اتنا یقین عطا فرما کا مطلب یہ ہے کہ تو اپنی ذات وصفات پر اور سرکار دو عالم ﷺ کے ارشادات وتعلیم پر ہمیں اس درجہ کا یقین و اعتماد عطا فرما کہ دنیا کی سختیاں اور یہاں کے مصائب و آلام ہمارے لئے آسان ہوں۔ مثلاً جس شخص کو یہ یقین ہوگا کہ اللہ تعالیٰ رازق ہے ہر جاندار کی ضروریات زندگی پورا کرتا ہے تو اسے ہرگز کوئی فکر نہیں ہوگی اور وہ اس کی ذات پر بھروسہ و اعتماد کرے گا اسی طرح جسے اس یقین کی دولت حاصل ہوجائے گی کہ آخرت کی سختیاں اور وہاں کے مصائب زیادہ سخت ہیں۔ دنیا کی سختیاں بالکل ناپائیدار اور ختم ہوجانے والی ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو اس کے لئے دنیا کی مصیبتیں آسان ہوجائیں گی وہ بڑی سے بڑی دنیاوی مصیبت و سختی کا کوئی احساس نہیں کرے گا لہٰذا اے اللہ ! تو ہمیں یقین و اعتماد و توکل و بھروسہ کی اسی عظیم دولت سے بہرہ ور فرما۔ دنیا کو ہمارے لئے فکروں کو مرکز نہ بنا کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کی بہت زیادہ فکر و تدبیر میں نہ لگے رہیں۔ بلکہ آخرت کی فکر، وہیں کے اندیشہ کا زیادہ خیال رکھیں، دنیا کی صرف اتنی ہی فکر اور اپنے معاش کا صرف اتنا ہی خیال رکھیں جو ضروری ہے اور جس کے لئے نہ صرف ہمیں اجازت ہے بلکہ مستحب بھی ہے۔

【12】

علم وعمل کی دعا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ (اللہم انفعنی بما علمتنی وعلمنی ماینفعنی وزدنی علما الحمدللہ علی کل حال واعوذباللہ من حال اہل النار) ۔ اے اللہ ! تو نے مجھے جو کچھ سکھلایا ہے اسے میرے لئے نفع بخش کر (یعنی مجھے ایسا علم دے جس کو حاصل کرنا اور جس چیز پر عمل کرنا دنیا و آخرت میں میرے لئے نفع کا باعث ہو اور میرے علم (یعنی دینی علم) میں زیادتی کر۔ ہر حالت میں اللہ ہی کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں دوزخیوں کی سی حالت سے (کہ دنیا میں فسق و فجور سے اور عقبی میں عذاب سے بچوں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث باعتبار سند کے غریب ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

【13】

نعمت وعزت کی دعا

حضرت عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ کے مبارک منہ کی قریب شہد کی مکھی کی آواز کی مانند آواز سنی جاتی تھی چناچہ ایک دن (ہمارے سامنے) آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی ہم تھوڑی دیر ٹھہرے رہے (یعنی ہم اس انتظار میں رہے کہ نزول وحی کی جو سختی آپ ﷺ پر طاری ہے وہ ختم ہوجائے) جب سختی کی وہ کیفیت آپ ﷺ سے دور ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنا منہ قبلہ کی طرف کیا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر بارگاہ الٰہی میں یوں عرض رساں ہوئے۔ دعا (اللہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولا تہنا واعطنا ولا تحرمنا واٰثرنا ولا توثر علینا وارضنا وارض عنا) ۔ اے اللہ ! ہماری دنیاوی اور اخروی نعمتوں یا مسلمانوں کی تعداد میں زیادتی کر اور ان نعمتوں یا مسلمانوں میں کمی نہ کر ہمیں دیا میں حاجت روائی کے ساتھ اور عقبی میں بلندی درجات کے ذریعہ معزز بنا اور ہمیں ان چیزوں سے محروم رکھ کر ذلیل نہ کر ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرما اور ہمیں محروم نہ کر ! ہمیں اپنی رحمت و عنایت کے ذریعہ برگزیدہ بنا اور ہم پر غیروں اپنے لطف و کرم کے ذریعہ برگزیدہ نہ بنایا کہ ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب نہ کر ہمیں اپنی قضاء قدر پر صبر و شکر کی توفیق عطا فرما کر راضی رکھ اور تو ہی ہماری تھوڑی سی بھی عبادت وطاعت پر ہم سے راضی ہو پھر آپنے فرمایا ابھی مجھ پر دس آیتیں نازل ہوئی ہیں جو شخص ان پر عمل کرتا رہے وہ جنت میں نیکیوں کے ساتھ داخل ہوگا اس کے بعد آپ ﷺ نے ( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ) 23 ۔ المومنون 10-1) دس آیتوں تک پڑھی۔ (احمد، ترمذی) تشریح آنحضرت ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کلام الٰہی کو آپ ﷺ تک پہنچاتے تھے تو صحابہ حضرت جبرائیل کی آواز کو سنتے تو تھے مگر اسے سمجھ نہیں پاتے تھے جیسا کہ شہد کی مکھی کی آواز سنی تو جاتی ہے مگر سمجھ میں نہیں آتی اسی لئے حضرت جبرائیل کی اس آواز کو حضرت عمر فاروق (رض) نے شہد کی مکھی کی آواز سے مشابہت دی۔ وہ دس آیتیں اس وقت آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی تھیں اور جن پر عمل کرنے والے کے لئے مذکورہ بالا حدیث میں آپ ﷺ نے بشارت عطا فرمائی یہ ہیں۔ آیت (قد افلح المؤمنون۔ الذین ہم فی صلوتہم خاشعون۔ والذین ہم عن الغو معرضون۔ والذین ہم للذکوۃ فاعلون۔ والذین ہم لفروجہم حافظو ن۔ الا علی ازواجہم او ماملکت ایمانہم فانہم غیر ملومین۔ فمن ابتغی وراء ذلک فاولئک ہم العادون۔ والذین ہم لاماناتہم وعہدہم راعون۔ والذین ہم علی صلوتہم یحافظون۔ اولئک ہم الوارثون۔ الذین یرثون الفردوس ہم فیہا خالدون) ۔ بیشک ایمان والے رستگار ہوگئے (یعنی انہوں نے فلاح پائی) جو نماز میں باطنی و ظاہری طور پر عجز و نیاز کرتے ہیں اور جو بےہودہ چیزوں سے خواہ وہ کہنے کی ہوں یا کرنے کی منہ موڑتے رہتے ہیں اور جو ذکوۃ ادا کرتے ہیں اور جو حرام کاری سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا اپنی کنیزوں سے صحبت کرتے ہیں تو ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ہاں جو اس کے علاوہ کے طالب ہوں یعنی جو لوگ اپنی بیویوں سے اور کنیزوں کے علاوہ دوسرے افعال بد میں مبتلا ہوں۔ مثلا اغلام بازی، جلق یا متعہ وغیرہ کریں تو وہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے یعنی دائرہ حلال سے تجاوز کرنے والے اور حرام میں مبتلا ہونے والے ہیں اور جو امانتوں اور عہد و پیمان کی محافظت کرتے ہیں اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں یعنی شرائط و آداب کے ساتھ نمازیں پابندی سے ادا کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو وارث ہیں کہ یہی فردوس کے مالک ہوں گے جو جنت کا اعلیٰ درجہ ہے وہ لوگ (یعنی یہ مومنین جن کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں) اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

【14】

بینائی کے لئے دعا

حضرت عثمان بن حنیف (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے جسے کم نظر آتا تھا یا یہ کہ وہ بینائی سے محروم تھا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ بینائی کے نقصان سے عافیت بخشے آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم چاہو تو تمہارے لئے دعا کروں اور اگر تم صبر و رضا چاہتے ہو تو صبر کرو صبر کرنا ہی تمہارے لئے بہتر ہے اس شخص نے کہا کہ آپ ﷺ میرے لئے دعا ہی کر دیجئے۔ حضرت عثمان (رض) کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر اسے حکم دیا کہ وضو کرے اور اچھا یعنی سنن و آداب کے ساتھ وضو کرے اور ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے اسے دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم بھی دیا اور یہ کہ پھر ان کلمات کے ذریعہ دعا مانگنے۔ دعا (اللہم انی اسئللک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ انی توجہت بک الی ربی لیقضی لی فی حاجتی ہذہ اللہم فشفعہ فی) ۔ میں تجھ سے اپنا مقصود مانگتا ہوں اور متوجہ ہوتا ہوں تیری طرف تیرے نبی کے وسیلہ سے جن کا نام محمد ﷺ ہے جو نبی رحمت ہے اور متوجہ ہوتا ہوں اپنے پروردگار کی طرف اپنے نبی ﷺ کے وسیلہ سے تاکہ وہ میری حاجت کے بارے میں حکم کرے اور یہ کہ اے اللہ ! میرے بارے میں اپنے نبی کی شفاعت قبول فرما امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تشریح صبر کرنے کو بہتر اس لئے فرمایا کہ بینائی سے محرومی پر صبر کا ثواب جنت ہے چناچہ حدیث شریف میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی بندے کو اس کی دونوں آنکھوں کی بینائی کے نقصان میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ بندہ اس پر صبر کرتا ہے تو میں اس کے عوض اسے جنت عطا کرتا ہوں۔

【15】

داؤد (علیہ السلام) کی دعا

حضرت ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حضرت داؤد (علیہ السلام) کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی۔ دعا (اللہم انی اسئلک حبک وحب من یحبک والعمل الذی یبلغنی حبک اللہم اجعل حبک احب الی من نفسی ومالی واہلی ومن الماء البارد) ۔ اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں تیری محبت اور اس شخص کی محبت جو تجھ سے محبت رکھے اور وہ عمل جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے اے اللہ تو اپنی محبت کو میرے لئے میری جان سے، میرے مال سے، میرے اہل و عیال سے اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ عزیز بنا دے۔ راوی کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) کی باتیں بیان فرماتے تو فرماتے تھے کہ حضرت داؤد اپنے زمانہ کے آدمیوں میں بڑے عابد تھے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【16】

ایک جامع دعا

حضرت عطاء بن سائب اپنے والد حضرت سائب سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا حضرت عمار بن یاسر (رض) نے ہمیں ایک نماز پڑھائی۔ نماز میں انہوں نے اختصار کیا یعنی نہ تو انہوں نے طویل قرأت کی اور نہ تسبیحات وغیرہ بہت زیادہ پڑھیں، چناچہ ان سے بعض لوگوں نے کہا آپ نے ہلکی نماز پر ھی اور نماز کو مختصر کردیا۔ حضرت عمار (رض) نے فرمایا کہ میرے لئے یہ تخفیف مضر نہیں کیونکہ میں نے اس نماز کے قعدہ میں یا سجدہ میں وہ کئی دعائیں پڑھی ہیں جن کو میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے پھر جب حضرت عمار (رض) اٹھ کر چلے تو جماعت میں سے ایک شخص ان کے ساتھ ہو لیا اور حدیث راوی حضرت عطاء (رض) کہتے ہیں کہ وہ میرے باپ حضرت عطاء (رض) ہی تھے، سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنے آپ کو چھپایا یعنی انہوں نے اس طرح بیان نہیں کیا کہ حضرت عمار (رض) کے ساتھ میں گیا بلکہ اپنے کو پوشیدہ رکھنے کے لئے یوں کہا کہ ایک شخص ان کے ساتھ ہو لیا۔ بہرکیف انہوں نے حضرت عمار (رض) سے اس دعا کے بارے میں دریافت کیا۔ حضرت عمار (رض) نے انہیں وہ دعا بتادی جو انہوں نے نماز کے دوران پڑھی تھی پھر وہ آئے اور جماعت کو وہ دعا بتادی جو یہ ہے۔ دعا (اللہم بعلمک الغیب وقدرتک علی الخلق احیینی ماعلمت الحیوۃ خیرالی وتوفنی اذا علمت الوفاۃ خیرا لی اللہم واسئلک خشیتک فی الغیب والشہادۃ واسئلک کلمۃ الحق فی الرضا والغضب واسئلک القصد فی الفقر والغنی واسئلک نعیما لا ینفد واسئلک قرۃ عین لا تنقطع واسئلک الرضا بعد القضاء واسئلک برد العیش بعد الموت واسئلک لذۃ النظر الی وجہل والشوق الی لقائک فی غیر ضراء مضرۃ ولا فتنۃ مضلۃ اللہم زینا بزینۃ الایمان واجعلنا ہداۃ مہدیین) ۔ اے اللہ ! تو بحق اپنے علم غیب کے اور بحق قدرت کے اپنی مخلوق پر مجھ کو زندہ رکھ جب تک کہ تو زندگی کو میرے لئے بہتر جانے اور مجھے موت دے جب تو موت کو میرے لئے بہتر جانے یعنی جب تک نیکیاں برائیوں پر غالب ہیں اس وقت تک زندگی بہتر ہے اور جب برائیاں نیکیوں پر غلبہ پالیں اور ظاہری و باطنی فتنے گھیر لیں تو اس وقت موت بہتر ہے اے اللہ ! اور میں مانگتا ہوں تجھ سے تیرا خوف باطن و ظاہر میں اور مانگتا ہوں کلمہ حق کہنے کی توفیق خوشی میں بھی اور تنگی میں بھی اور مانگتا ہوں تجھ سے میانہ روی فقر و افلاس میں بھی اور خوش حالی کے وقت میں بھی (یعنی نہ تو زیادہ فقر و افلاس اور رنج و تکلیف ہی میں مبتلا ہوں اور نہ اتنا تونگر و خوش حال ہوجاؤں کہ اسراف کرنے لگوں) اور مانگتا ہوں میں تجھ سے ایسی نعمت جو کبھی ختم نہ ہو۔ (یعنی غیب کی نعمتیں) اور مانگتا ہوں تجھ سے آنکھ کی ٹھنڈک جو کبھی ختم نہ ہو۔ اور مانگتا ہوں رضا مندی (یری) قضا (یعنی تقدیر) کے بعد اور مانگتا ہوں تجھ سے ٹھنڈک زندگی کی مرنے کے بعد یعنی ہمیشہ کی راحت برزخ اور قیامت میں۔ اور مانگتا ہوں لذت دیکھنے کی تیرے چہرہ کی طرف آخرت میں اور مانگتا ہوں تیری ملاقات کا شوق ایسی حالت میں جو ضرر نہ پہنچائے اور نہ گمراہی کے فتنہ میں مبتلا کرے اے اللہ ! ہمیں ایمان کی زینت کے ساتھ مزین فرما یعنی ہمیں ایمان پر ثابت قدم رکھ اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں راہ راست دکھانے والے اور راہ راست پر چلنے والے بنا۔ (نسائی) تشریح اور مانگتا ہوں کلمہ حق کا مطلب یہ ہے کہ میرے اندر اتنی استقامت اور بےخوفی پیدا فرما کہ میں ہمیشہ کلمہ حق یعنی حق بات ہی کہوں چاہے مجھ سے لوگ خوش ہوں یا ناراض ہوں۔ یا یہ کہ اپنی خوشی کی حالت میں بھی اور خفگی کی حالت میں بھی کلمہ حق ہی کہوں عوام کی طرح نہ ہوجاؤں کہ جب وہ خفگی کی حالت میں ہوتے ہیں تو برا کہتے ہیں اور جب خوش ہوتے ہیں تو خوش آمد کرتے ہیں۔ آنکھ کی ٹھنڈک سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے جذبہ طاعت و عبادت کامل اور حقیقی لذت و کیف پاتا ہے۔ یا اس سے مراد دعا مانگنے والے کے مرنے کے بعد اس کی اولاد کا باقی رہنا ہے، اسی طرح آنکھ کی ٹھنڈک سے نماز پر پختگی اور اس کی پابندی بھی مراد ہوسکتی ہے اور اس کے مفہوم کو زیادہ وسعت دی جائے تو دونوں جہان کی بھلائیاں بھی مراد لی جاسکتی ہیں۔ فی غیر ضراء مضرۃ، ایسی حالت جو ضرر نہ پہنچائے۔ کا تعلق جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے شوق ملاقات سے ہے یعنی میں تیری ملاقات کا ایسا شوق چاہتا ہوں۔ جو میری راہ سلوک، راہ ادب میں میری استقامت میں اور احکام و اعمال کی بجا آوری اور ادائیگی میں نقصان نہ پہنچائے کیونکہ جن لوگوں کو راہ سلوک و تصوف پر گامزن ہونے کا شرف حاصل ہے وہ جانتے ہیں کہ باری تعالیٰ کی ملاقات کا شوق بسا اوقات ورفتگی و بےخودی کی اس منزل تک پہنچ جاتا ہے جسے غلبہ حال کہا جاتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب قدم راہ ادب کی استقامت سے بےنیاز ہوجاتے ہیں، سلوک میں کوتاہی پیدا ہوجاتی اور احکام و اعمال میں نقصان واقع ہوجاتا ہے چناچہ اگلے جملہ ولا فتنۃ مضلۃ کا بھی یہی مطلب ہے کہ ایسا شوق چاہتا ہوں جو راہ استقامت سے ہٹانے والی اور احکام و اعمال میں بےراہ روی پیدا کرنے والی آزمائش میں مبتلا نہ کرے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ اس جملہ کا تعلق دعا کے ابتدائی لفظ احیینی سے ہے تاکہ اس کا مفہوم دعا میں مذکور تمام چیزوں پر حاوی ہوجائے یعنی مجھ کو اس مذکورہ نعمتوں کے ساتھ اسی طرح زندہ رکھ کہ ایسی بلاء و آزمائش میں گرفتار نہ ہوجاؤں جس میں صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور میں گمراہی میں پڑجاؤں۔ راہ راست پر چلنے والے بنا کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم دوسروں کو اچھی راہ بتائیں اور دوسروں کو نیک زندگی اختیار کرنے کی تلقین کریں اسی طرح ہم خود بھی اس پر عمل کرتے ہوئے اچھی راہ اپنائی۔ اور نیک زندگی اختیار کریں۔ ہماری حالت خود رافضیحت و دیگرے نصیحت والی نہ ہو بلکہ ہمارا عمل ہمارے قول کے مطابق ہو۔

【17】

علم نافع وعمل مقبول اور حلال رزق کی دعا

حضرت ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ فجر کی نماز کے بعد یہ دعا مانگتے تھے۔ دعا (اللہم انی اسئلک علما نافعا وعملا متقبلا ورز قا طیبا) ۔ یعنی اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں نفع دینے والا علم، قبول کیا جانے والا عمل اور حلال رزق۔ (احمد، ابن ماجہ، بیہقی)

【18】

شکر گزار ہونے کی دعا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے یہ دعا یاد کی ہے جسے میں ترک نہیں کرتا۔ دعا (اللہم اجعلنی اعظم شکرک و اکثر ذکرک واتبع نصحک واحفظ وصیتک) ۔ یعنی اے اللہ ! مجھے توفیق دے کہ میں تیرا بڑا شکر ادا کروں، تیرا بہت ذکر کروں، تیری نصیحت کو پورا کروں اور تیری وصیت یاد رکھوں۔ (ترمذی) تشریح نصیحت سے مراد بندوں کے حقوق ہیں اور وصیت سے مراد اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدایا ! تو نے لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا مجھے جو حکم دیا ہے اور اپنے حقوق کی ادائیگی کا جو فریضہ مجھ پر عائد کیا ہے اس پر محافظت کروں یعنی دونوں قسم کے حقوق ادا کرتا رہوں۔

【19】

صحت وغیرہ کی دعا

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اسئلک الصحۃ والعفۃ والامانہ وحسن الخلق وارضی بالقدر) ۔ یعنی بری بیماریوں سے بدن کی سلامتی و تندرستی یا افعال و احوال اعمال کی درستی و اصلاح اور حرام سے اجتناب اور امانت (یعنی لوگوں کے اموال میں یا شریعت کے تمام حقوق میں خیانت نہ کروں اور بہتریں اخلاق اور تقدیر پر رضا۔

【20】

خصائل بد سے بچنے کی دعا

حضرت ام معبد (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ دعا مانگتے سنا ہے۔ (اللہم طہر قلبی من النفاق وعملی من الریاء ولسانی من الکذب وعینی من الخیانۃ فانک تعلم خائنۃ العین وما تخفی الصدور) ۔ اے اللہ ! پاک کر میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریا سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت (یعنی نظر حرام) سے بیشک تو جانتا ہے آنکھوں کی خیانت کو اور اس چیز کو کہ دل میں پوشیدہ ہے یعنی خواہشات اور گناہ۔ یہ دونوں روایتیں بیہقی نے دعوات کبیر میں نقل کی ہیں۔ تشریح (يَعْلَمُ خَا ى ِنَةَ الْاَعْيُنِ ) 40 ۔ غافر 19) قرآن کریم کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے جس کے معنی ہیں آنکھوں کی خیانت۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے آیت کی تفسیر کے ضمن میں اس جملے کو بطور مثال یوں واضح کیا ہے کہ فرض کیجئے مردوں کی ایک جماعت کہیں بیٹھی ہوئی ہے اچانک ایک عورت ان کے سامنے سے گزرتی ہے اور وہ سب مرد ایک دوسرے کی شرم سے اس عورت کی طرف نظر اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے ہیں، چناچہ جب وہ سب اپنی نظریں نیچی کرلیتے ہیں تو ان میں سے ایک شخص سب کی نگاہوں سے بچ کر اپنی نظر اٹھاتا ہے اور چوری سے اس عورت کو دیکھ لیتا ہے یہی آنکھوں کی خیانت ہے۔

【21】

دنیا وآخرت کی عافیت اور عذاب سے نجات کی دعا مانگو

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے ایک مسلمان کی عیادت کی جو پرندے کے ایک بچے کی مانند ضعیف ہوگیا تھا رسول کریم ﷺ نے اس کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ کیا تم اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کی دعا مانگا کرتے تھے ؟ یا فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کی دعا مانگتے تھے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ! میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتا تھا کہ خدایا اگر تو آخرت میں مجھے عذاب میں مبتلا کرنے والا ہو تو اس کے بدلے دنیا ہی میں وہ عذاب دینے میں جلدی کر۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا تم نے بڑی عجیب دعا مانگی نہ تم دنیا ہی میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہو اور نہ آخرت ہی میں تم اللہ کے عذاب کے متحمل ہوسکتے ہو۔ تم نے اس طرح کیوں نہ دعا مانگی۔ (اللہم اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرہ حسنہ وقنا عذاب النار) ۔ اے اللہ ! ہمیں عطا فرما دنیا میں بھللائی یعنی عافیت اور آخرت میں بھلائی یعنی عفو تقصیرات اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ راوی کا بیان ہے کہ اس شخص نے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگنی شروع کی چناچہ اللہ تعالیٰ نے اسے شفاء عطا فرمائی۔ (مسلم)

【22】

غیر متحمل چیزوں کی دعا نہ مانگو

حضرت حذیفہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مومن کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل و خوار کرے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اپنے آپ کو ذلیل و خوار کس طرح کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ایسی بلائیں اپنے سر لے لے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ ترمذی، ابن ماجہ، بیہقی، امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح یہ بات مومن کی فراست کے منافی ہے کہ وہ ایسی چیز یا کسی ایسے کام کی ذمہ داری قبول کرے جو اس کی طاقت اور اس کی رسائی سے باہر ہو۔ ایسا کرنا اپنے آپ کو خوار کرنا اور اپنی سبکی کرانا ہے۔ مثلا کوئی شخص حساب کتاب کے فن سے ناواقف ہو اور ایسے امور اپنے ذمہ لے لے جن کا تعلق حساب کتاب سے ہو تو ظاہر ہے کہ وہ ذمہ داری کو پورا نہیں کرسکے گا، جس کا نتیجہ اپنی خواری و سبکی کے علاوہ اور کیا نکلے گا۔ چناچہ یہ ارشاد گرامی مسلمانوں کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ وہ صرف ایسے ہی امور اپنے ذمہ لیں جن کی انجام دہی کی وہ طاقت و لیاقت رکھتے ہوں۔ کسی غرض، کسی لالچ یا کسی جذبہ کی تسکین کی خاطر غیر متحمل چیزوں کی ذمہ داری قبول کرنا مآل کار اپنی ذلت و خواری میں مبتلا ہونا ہے۔ بظاہریہ حدیث اس باب سے متعلق معلوم نہیں ہوتی لیکن اگر اس حدیث کے مفہوم کو پچھلی حدیث کے مفہوم کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ اس باب سے اس حدیث کا گہرا تعلق ہے اور وہ یہ کہ آدمی جس چیز کا متحمل نہ ہو اس کی دعا بھی نہ مانگے۔

【23】

باطن کی ظاہر سے بہتری اور ظاہر کی شائستگی کی دعا

حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ دعا مانگو۔ دعا (اللہم اجعل سریرتی خیرا من علانیتی واجعل علانیتی صالحۃ اللہم انی اسئلک من صالح ماتوتی الناس من الاہل والمال والولد غیر الضال ولا المضل) ۔ اے اللہ ! میرے باطن کو میرے ظاہر سے بہتر بنا اور میرے ظاہر کو شائستگی عطا فرما اے اللہ ! میں تجھ سے بھلائی مانگتا ہوں اس چیز کی جو تو لوگوں کو دیتا ہے یعنی اہل، مال، اولاد کہ نہ گمراہ ہوں اور نہ گمراہ کریں۔ (ترمذی)